غیروں کی ایجادات پہ پلنے والو…….. اٹھو

کفایت حسین ایلیا

دل اس وقت خون کے آنسو روتا ہے جب انسان اپنے گھر کے افراد کو غیروں کے ٹکڑوں پہ پلتا ہوا دیکھے اور پوری بے بسی و لاچارگی سے اس دلسوز و دلخراش  منظر کو اپنے اور اپنے گھر والوں کی بے بسی کا تماشا اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہ جائے اور کچھ کر بھی نہ پائے۔

اس سے بھی بڑا، کڑا اور دل کو سراپا خون سے لت پت اور کمال اذیت سے نڈھال کر دینے والا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے غیر کے ہاتھوں میں پل رھا ھو اس کے ہاتھوں کا ایک بے قیمت غلام بن کر رہ جائے اور پھر غیر اسے قصدا دنیا کے سامنے ذلیل کرنے کے لئے اپنی جوتی کی نوک پر رکھ کر  اس کے منہ میں روٹی کا ٹکڑا آئندہ کے لیئے اطاعت وغلامی کو مزید پکی کرنے کی  شرط پر تھما  کر اپنوں اور غیروں  سب کے سامنے ایک فاتحانہ مسکراہٹ اپنے لبوں پہ سجا کر زلتوں کی زنجیر  اس کے ہاتھوں میں باندھ دے اور غلامی کا طوق گلے میں ڈال دے۔

احساس ذلت کا آخری مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ غیروں کے اس زلت آمیز رویے کے باوصف بھی انسان  اپنی آزادی، خود مختاری، خود کفیلی کا خواب دیکھنے کے بجائے انسان غیروں کے روٹیوں پہ پلتے رہنے پہ اکتفا کر بیٹھے اور غیر کی بیساکھیوں پہ چلتے رہنے سے اکتا نہ جائے۔

دور حاضر میں دنیا کا ہر مسلمان مذکورہ کیفیت سے دور چار ہے یعنی غیروں کی ایجاد کردہ بیساکھیوں کے سہارے پر چل رہا ہے، غیروں کی روٹی کے ٹکڑوں پہ پلے رہا ہے۔ اپنے سامان زندگی اور اپنی زندگی کی ضروریات خود سے پیدا کرنے کے بجائے خود اس انتظار میں بیٹھا رہے کہ غیر اس کی  ضروریات زندگی ایجاد کر کے اسے  دے اور  اسلاف کے مدفن پیچ کے غیروں کے بنائے ہوئے سامان زندگی خرید کر جیسے تیسے  بس گزارہ کر لے۔

انتہائی افسوس کے ساتھ ہمارا اور تمام اسلامی ممالک کا نظام تعلیم اس حد دقیانوسی اور فرسودہ ہے کہ نہ تو یہ جدید طرز تعلیم ہے نہ قدیم طرز تعلیم، آدھا تیتر آدھا بٹیر جیسی کیفیت ہے۔

نظام تعلیم علم التعلیم  (Education)کا ایک بڑا اور وسیع موضوع  ہے جو میرے اس مضمون کا موضوع نہیں لیکن اس بات کی طرف محض ایک اشارہ کرنا ناگزیر ہے کہ تقریبا تمام مسلمان ممالک نے اپنے نظام تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ مسلمان ہونے کے ناطے نہ تو ہمارے نظام تعلیم میں صحیح اسلامی رنگ پایا جاتا ہے اور نہ ہی ایک جدید کا انسان اور  جدید دور کا ملک ہونے کے ناطے جدید دور کی سائنسی و ٹکنالوجی کی ترقی کو اپنا  سکے جسکی وجہ سے آج بصد  افسوس  مسلمان عرب ممالک بطور خاص اور تمام اسلامی ممالک عمومی طور پر جدید دور میں ہوتے ہوئے بھی تمام انسانی و سائنسی علوم  میں صفر کے درجے پر کھڑے ہیں .

چونکہ عالم اسلام اور مشرق  معاشرتی علوم social sciences سائنسی علوم natural sciences   و فنون، صنعت و حرفت، جدید سائنس و ٹیکنالوجی، جدید زراعت، خلا بازی، جدید زرائع و ابلاغ کے شعبے غرضیکہ تمام شعبہ جائے زندگی میں صدیوں کی رفتار سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ اگر آج سے مسلمان ممالک مغرب کی تمام بنی ہوئی چیزوں کا استعمال چھوڑ دیں تو  کیا آج عالم اسلام  کا ہر فرد پتھر کے  دور کا انسان نہیں کہلائے گا؟ جو نہ تو کوئی جدید اسلحہ بنا سکتے ہیں، نہ کوئی موبائل بنا سکتے ہیں، نہ کوئی بلب بنا سکتے ہیں نہ اپنے لئیے کوئی جدید سٹلائٹ بنا سکتے ہیں،  نہ ہی اسلامی تقاضوں کو پورا کرنے والا بنککنک سسٹم بنا سکتے ہیں۔ اور تو اور آج کا مسلمان کیوں اس قابل نہیں کہ واٹس ایپ اور فیس بک کے مالک ول کیتھارت  کی طرح  کوئی app  تیار کر کے مسلمانوں کو غیروں کی سائنسی اور ٹیکنالوجکل غلامی سے نکل کر خود مختاری کی خوبصورت وادی میں قدم رکھ سکیں جس کی وجہ سے آج اربوں مسلمان ول کیتھارت کے کٹہرے پہ کھڑا ہے کہ  یا تو اپنی پرائیویسی ان کے حوالے کرے یا پھر بقول شخصے:”مجھے کیوں نکالا”  کی دھائی دیتے ہوئے  کسی اور  app کی تلاش میں  در بدر خاک بسر سرگرداں پھرتا رہے، کل کلاں پھر دوسری app  کے  کسی سر پھرے مالک کو کوئی سر پھرا خیال آنے پر پھر اسی صورت حال کا ہی سامنا ہو سکتا ہے تو ایسے میں کم از کم ہر عقل مند اور سمجھ دار ملک کو ہوش میں آ کر سائنس و ٹیکنالوجی میں پیش رفت کا خیال ضرور آنا چاہیے اور ہر مسلم حکومت کو چاہیے پھر ہمارے ملک کی حکومت کو بطور خاص چاہیئے کہ وہ اب تعلیم پر دو یا تین فیصد بجٹ کے بجائے کم از کم چالیس پچاس فیصد خرچنے کی کوئی نئی پالیسی تیار کرے۔ نئی پالیسی کے تحت ہمارے زیادہ نمبر لانے والے طلبہ سے زیادہ نئی علمی دریافتیں ایجادات اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں کوئی نئی چیز سامنے لانے والوں کی زیادہ سے زیادہ عزت افزائی کرے۔

اور پھر ہمارے نوجواں مسلم کو بھی بات اپنے ذہن میں بٹھا لینی چاہیئے کہ آج کے اس سائنسی اور ٹیکنالوجی کے دور میں پیشرفت اور ترقی کی ذمہ داری ہمیں محض یورپ اور انگریز کے سر نہیں تھونپنا چاہیئے۔ اب تک غیروں کے ہاتھوں دربدر کی ٹھوکریں کھا لینے کے بعد ہمارے نوجوان کو بھی غیروں کے ایجاد کردہ سائنس اور ٹکنالوجی کا محض   user اور customer ہونے کے بجائے حصہ دار contributor ہونے کا خواب دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے نوجوان نے اگر اپنی تاریخ  کا مطالعہ کیا ہے تو اسے یہ اچھی طرح معلوم ہو گا کہ دنیا کو تہذیب، علوم و فنون، علم دوستی اور تحقیق و تدقیق کے دروازے ہمارے آبا و اجداد نے وائس کر دیئے تھے لیکن پھر ہماری ہی بعد کی نسلوں کے  تساہل، کوتاہی، آرام طلبی اور سست روی نے  ہم سے ہماری پہچان چھین کر غیروں کے حوالے کر دی اور پھر غیروں نے محنت و کام کو اپنا وطیرہ بنا کر آج دنیا میں اپنی پہچان علم دوست، سائنس دوست، انسان دوست، ٹکنالوجی دوست، ایجاد دوست، دریافت دوست اور تحقیق دوست کے طور پر حاصل کر لی۔

لیکن قانون قدرت ہے جو بھی بلا تمیز رنگ و نسل کسی کام میں اپنی کوششیں بروئے کار لائے گا قدرت اپنے کھلے ہاتھوں سے اسے انعامات سے نوازے گی۔

لہذا اے نوجواں مسلم! کیا تو  نے سوچا بھی ہے کہ تیرے وجود کی کھیتی میں بھی تیرے رب نے  لہلہاتی سبز فصلیں تیار کرنے کا نم اور عظیم زرخیزی تیار کر رکھی ہے لیکن تو ابھی تک اپنے کھلیان کی زرخیزی کی قدر نہیں کی جس دن تو نے اپنے وجود کے اجڑے  ہوئے کشت ویراں کی آبادکاری  شروع کر دی سمجھو کہ تو خود بھی دنیا کا غنی ترین فرد بن جاؤ گے اور پھر اک جہاں تیرے صدقے آباد ہو جائے گی۔

اے نوجواں مسلم !

تو ذرا تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر تو دیکھ تاکہ تری شان و شوکت کی ایک دھندلی سی تصویر تجھے نظر آ جائے۔ شاید  تجھے تاریخ کی محفوظ کی ہوئی اپنی تصویر دیکھ کر کچھ حوصلہ آئے کہ تو بھی علم طب کے آبرو شیخ الرئیس بوعلی سینا، بابائے کیمیا جابر بن حیان، عباس ابن فرناس، ابن الہیشم، محمد ابن علی خراسانی، زکریا الرازی، البیرونی، ابن خلدون، ابوبکر ابن رازی، ابن رشد، ملا صدرا اور ابن بیطار جیسے تاریخ کے  درخشاں  قابل فخر آبا و اجداد کا فرزند ہے۔

آئیے کچھ مسلم سائنس دانوں کے قابل ذکر کار ناموں سے سبق  لیں اور حوصلہ  پیدا کر کے ہم بھی آج کی جدید دنیا میں حصہ ڈال کر اپنی قوم کو خود مختار بنا کر دنیا کی امامت کے قابل ہوں کہ جن کی وجہ سے وہ سائنس دان آج تک تاریخ کے صفحوں میں زندہ و تابندہ ہیں۔

آج کے جدید ہوائی جہاز کہ جس کا سہرا امریکہ رائٹ برادران کے سر جاتا ہے اس ایجاد نے بھی دنیا کو عالمی گاؤں بننے میں اپنا ایک بڑا حصہ ڈالا ہے لیکن ایک مسلمان جوان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ آج سے ہزار سال قبل اسلامی اندلس کے ایک Astronomer اور انجینئر عباس ابن فرناس نے 855  میں  فضا میں پرواز کے لیے ایک جامع مسجد کے عالی مینار سے اپنے اپنے فضائی لباس کیساتھ چھلانگ کر ہوا میں اڑان بھرنے کی بنیاد ڈالی۔ بعد ازاں 875 میں انہوں نے ریشم اور عقاب کے پروں سے ایک فضائی مشین تیار کی اور قرطبہ کی پہاڑی سے اس فضائی مشین پہ دس منٹ تک پرواز کی لیکن اترتے ہوئے اسکو کچھ چوٹیں بھی آئیں کیونکہ اس نے پرندوں کی طرح اس مشین کی دم نہیں بنائی تھی۔

علم بصریات پہ ابن الہیشم نے اپنی پہلی شاہکار کتاب لکھی۔ انہوں نے concave mirror پر نقظہ معلوم کرنے کا طریقہ ایجاد کیا۔

محمد ابن علی الخراسانی لقب (الساعتی) دیوار گھڑی بنانے کے ماہر تھے۔

یورپ میں گھڑی کی ایجاد سے سات سو سال پہلے عرب میں گھڑیاں عام تھیں جبھی تو ہارون الرشید نے اس وقت کے فرانس کے شہنشاہ شارلیمان کو (واٹر کلاک) تحفے میں بھیجی تھی۔

الجبرا پر دنیا میں سب سے پہلی کتاب معروف مسلمان سائنس دان الخوارزمی نے لکھی  تھی۔ اس کتاب کے نام سے الجبرا کا نام اخذ ہے۔ اس کے تین سو سال بعد ایک اطالوی ریاضی دان نے  فیبوناچی نے الجبرائی یورپ میں متعارف کروایا۔

مصر کے سائنس دان ابن یونس نے دسویں صدی میں پنڈولیم ایجاد کیا۔ اس ایجاد سے وقت کی پیمائش  پنڈولیم کی جھولنے سے کی جانے لگی۔

ایران کا محقق کیمیا دان زکریا الرازی  دنیا کا پہلا کیمیا دان تھا جس نے  سلفیورک ایسڈ تیار کیا جسے  ماڈرن کیمسٹری کی بنیادی اینٹ تسلیم کیا جاتا ہے۔

انہوں نے چیچک پر دنیا کی پہلی کتاب ‘الجرری و الحبسہ’ لکھی۔ الرازی نے ہی فرسٹ ایڈ کا طریقہ جاری کیا تھا۔ انہوں نے عمل جراحی کے لیے ایک نشتر بنایا تھا۔

البیرونی نے اپنی کتاب، تحلید الامان و کتاب الھند، میں مدللل انداز میں زمین کی جیئت پہ مدلل انداز میں یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین قطعی طور پر کروی الشکل یعنی گول ہے۔

مضمون کی مزید طوالت کے پیش نظر مسلم سائنس دانوں کے مزید کارناموں کا ذکر نہیں کر سکتا۔

مذکورہ سائنس دان اور بہت سارے سائنس دان  جنہوں نے سائنس کی مختلف شاخوں میں اس دور کے  میسر وسائل کے مطابق دنیا کو نئی نئی ایجادات و انکشافات کیں جن سے آنے والے سائنس دانوں کے لیے نئی راہیں ہموار ہوئیں۔

یقین جانیے ہم آج کی دنیا سے کئی صدیوں پیچھے ہیں۔

مسلم دنیا کے حکمرانوں کو اب بھی ہوش کے ناخن لے کر خواب غفلت سے بیدار ہو کر جدید دنیا کے علوم و فنون، ایجادات، جدید دریافتوں پہ بھاری بھر کم فنڈز کا اجراء کرنا ہو گا۔ اپنے فرسودہ اور دقیانوسی نظام تعلیم  پہ نظر ثانی کر کے مغرب کے جدید علوم فنون سے استفادہ کر کے اپنے ممالک کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں خود مختار بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیئے تو پھر بقول اقبال :

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں