تقریظ
رہبر معظم حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مد ظلہ العالی
رحمتِ خدا برسے اس صابرہ اور باایمان خاتون پر اور اس مجاہد، مخلص اور جانثار جوان پر بھی خدا کی رحمت ہو کہ جس کی محبوب بیوی کو پیش آنے والی جاں فرسا تکالیف اسے اپنے مشکل جہاد کو جاری رکھنے سے نہ روک سکیں۔ ضروری ہے کہ ان دو عظیم انسانوں کی اولاد کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔
ستمبر 2012
ستارؒ، ستارۂ قایش
ستار ابراہیمی ہژیر شہیدؒ انقلاب اسلامی ایران کا درخشاں چہرہ اور دفاع مقدس (ایران عراق کے مابین آٹھ سال تک جاری رہنے والی جنگ) کے افتخارات میں سے ہیں۔
ستار ابراہیمی ہژیر نے ۱۹۵۶ میں ایران کے صوبہ ہمدان کے شہر رزن کے ایک گاؤں قایش میں مراد علی کے گھر آنکھ کھولی۔ وہ گھر کے پہلے فرزند تھے اور اپنے گاؤں میں سکول نہ ہونے کی وجہ سے مسجد میں جا کر قرآن پڑھتے تھے۔ ان کے والد کہتے ہیں کہ وہ اپنے بچپن ہی سے دوسرے بچوں سے منفرد تھے اور اپنی عمر سے بڑی اور عجیب و غریب باتیں کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے: بابا، ہمیں حلال کا لقمہ کھلائیے کیونکہ یہ لقمے خون بن جاتے ہیں اور اگر خون ناپاک ہو جائے تو اس سے ایک برا انسان تیار ہوتا ہے۔
جمہوری اسلامی ایران میں امام خمینیؒ کی قیادت میں کامیابی سے ہمکنار ہونے والے اسلامی انقلاب کے بعد ستار ابراہیمی ہژیر اسلامی انقلاب کمیٹی میں ملازم ہو گئے۔ اس کے بعد جب امامؒ نے پورے ایران سے رضاکار فوجی (پاسداران) بھرتی کرنے کا حکم دیا تو ستار ابراہیمی بھی اس رضاکار فوج میں بھرتی ہو گئے اور ہائی کورٹ کی حفاظت پر ان کی ڈیوٹی لگا دی گئی۔ ۱۹۸۱ میں اپنی ڈیوٹی کے دوران ایک منافق گروہ کو گرفتار کرنے کے دوران ان کی طرف سے پھینکے گئے دستی بم کے نتیجے میں ستار ابراہیمی کے ایک ساتھی آغا مسگریان شہید ہو گئے جبکہ وہ خود شدید زخمی ہو گئے اور ان کا ایک گردہ ختم ہو گیا۔ اس کے بعد شہادت تک انہوں نے ساری زندگی ایک ہی گردے کے سہارے گزاری۔
اپنی شہادت تک وہ سپاہ پاسداران میں انصار الحسین ڈویژن بٹالین نمبر 155 کے کمانڈر کے عہدے پر اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ ستار ابراہیمی نے جن آپریشنز اور مہمات میں پوری بہادری سے شرکت کی اور ان کی کمانڈ کی وہ درج ذیل ہیں:
۱۱ شہریور آپریشن، ثار اللہ، فتح المبین، بیت المقدس، و الفجر مقدماتی، و الفجر۲، و الفجر۵، والفجر۸، میمک، جزیرہ مجنون، خیبر، کربلا۴ اور کربلا۵۔
ان مہمات کے دوران وہ چھ بار زخمی ہوئے اور تین بار تو ایسے مواقع بھی آئے جب وہ عراقی بعثی فوجیوں کے چنگل میں بری طرح پھنس گئے لیکن پوری بہادری وشجاعت اور اپنی ہوشیاری کو بروئے کار لاتے ہوئے وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ اسی طرح کے ایک گھیراؤ میں ان کے بھائی صمد ابراہیمی بھی شہید ہو گئے جنہیں وہ اپنے ساتھ لانے کی بجائے دوسرے فوجیوں کے ساتھ عراقی سرزمین پر ہی چھوڑ آئے۔ جب گھر والوں نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ میں اپنے بھائی کی میت لا سکتا تھا مگر دوسرے فوجی بھی تو میرے بھائی ہیں، میں ان کی ماؤں اور بہنوں کو کیا جواب دیتا۔ مجھے ہرگز گوارا نہ تھا کہ میں اپنے بھائی کی میت کو تو لے آؤں مگر ان فوجیوں کے جسم تپتی ہوئی دھوپ میں پڑے رہیں۔ وہ اپنے بھائی کی رسم قُل سے اگلے ہی روز محاذ پر پہنچ گئے۔
ایک محاصرے کے دوران وہ ۷۲ گھنٹوں تک بغیر کچھ کھائے پیے پانی کے اندر ایک جلی ہوئی کشتی میں پڑے رہے۔ ان تین دنوں میں ان کے پاس فقط تین کھجوریں تھیں۔ سردار حمید حسام نے اپنی کتاب ’’دہلیز انتظار‘‘ میں اس واقعے کو پوری تفصیل سے لکھا ہے۔
امام حسین علیہ السلام اور کربلا سے انہیں عشق تھا۔ وہ امام خمینیؒ کے بہت بڑے عاشق تھے۔ محاذ سے فقط عزاداری کے لیے دس دن کی چھٹی لیتے ورنہ گھر میں بچوں سے ملنے کے لیے آتے تو بہت کم دنوں کے لیے ۔ بعض اوقات تو فقط ایک یا دو دن کے لیے آتے۔ اس مختصر سی مدت میں بھی وہ جہاں گھر والوں کو وقت دیتے وہاں شہداء کے خاندانوں کی خبرگیری بھی کرتے اور ان کی بہت سی ضروریات اپنی جیب سے پوری کرتے۔
ان کی زندگی میں عجیب و غریب قسم کا نظم و ضبط تھا۔ محاذ کی مصروفیات نے انہیں گھر والوں کی ضروریات زندگی سے غافل نہ کیا اور گھر والوں کی محبت انہیں محاذ سے پیچھے نہ ہٹا سکی۔ جہاں وہ محاذ پر اپنی شجاعت و نظم و ضبط کے باعث اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے وہاں گھر والوں کو بھی زندگی کی آسائشیں دینے کے لیے ہر وقت کوشش کرتے رہتے۔
۳ مارچ ۱۹۸۷ کو آپریشن کربلا۵ کے دوران ان کے سر پر دشمن کی گولی لگی جس سے ان کی شہادت واقع ہو گئی۔ ان کی یونٹ کے جوان ان کے جسد کو اٹھا لائے تاکہ دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائے۔ ان کی شجاعت و بہادری کا عراقی فوج پر جو رعب و دبدبہ تھاا ور عراقی فوج کے نزدیک ان کی جو اہمیت تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی شہادت کے بعد عراق ریڈیو نے بڑے فخر سے انہیں شہید کرنے کا اعلان کیا۔
قدم خیر محمدی کنعان ان کی اہلیہ تھیں۔ ستار ابراہیمی نے ایسی شریکِ سفر کا انتخاب کیا جو شہادت کے راستے پر چلنے میں ان کی پوری طرح سے مددگار ہو۔ یہ میاں بیوی ایک دوسرے کو بہت چاہتے تھے۔ کتاب کی سطریں گواہ ہیں کہ ان کا عشق زمینی عشق سے ماوراء تھا۔ ان کے ہجر و وصال کے لمحات اس چیز کی شہادت دیتے ہیں کہ انہوں نے اس عشق کو ہمیشہ عشق خدا کا پیش خیمہ سمجھا۔ کتاب کے ترجمے کے دوران میں خود جس کیفیت سے گزرا اس سے جہاں اس شہید اور اس کی بیوی کی عظمت کا ادراک ہوتا ہے وہاں اس کتاب کی یادداشت نگار محترمہ بہناز ضرابی زادہ کے روان و سلیس اور اثر انگیز قلم کی بھی داد دینا پڑتی ہے۔ قاری کو انگلی پکڑ کر اپنی داستانوں کا ایسا حصہ بنا دینا کہ قاری اپنے آپ کو اس داستان کا ایک کردار سمجھنے لگے، یہ اسلوب محترمہ بہناز ضرابی زادہ کی خاص پہچان ہے۔ شہید ستار ابراہیمی ہژیر کی زوجہ محترمہ قدم خیر محمدی کنعان کی زبان سے ان کی زندگی کے حالات سن کر جس طرح انہوں نے زیبِ قرطاس کیے ہیں وہ قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔
محترمہ بہناز ضرابی زادہ نے کتاب کے آخر تک انتہائی خوبصورتی سے قاری کے اس تجسس کو برقرار رکھا ہے کہ کتاب تو شہید ستار ابراہیمی ہژیر کے سوانح حیات پر مشتمل ہے مگر یہ صمد کا کردار پوری کتاب پر کیوں چھایا ہوا ہے۔
محترمہ قدم خیر محمدی کنعان اور محترمہ بہناز ضرابی زادہ ’’دخترِ شینا‘‘ کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔
مترجم
مقدمہ
میں نے سوچا کہ اس خاتون کی زندگی کو احاطۂ تحریر میں لاؤں گی اور پھر میں نے پختہ ارادہ کر لیا تھا۔
میں نے فون کیا تو تم نے خود ہی اٹھایا تھا۔ مجھے اس بات کی توقع تھی کہ شاید ایک سن رسیدہ خاتون سے بات ہو گی، لیکن مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا؛ تمہاری آواز کس قدر جوان تھی۔ میں نے سوچا شاید تمہاری بیٹی ہو۔ میں نے کہا: ’’میں حاج ستار کی اہلیہ سے بات کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ تم نے ہنستے ہوئے کہا تھا: ’’میں ہی ہوں!‘‘
میں نے تمہارے حالات سن رکھے تھے۔ حاج ستار کی شہادت کے بعد پانچ چھوٹے بڑے بچوں کو تم نے تن تنہا پال پوس کر بڑا کیا۔ کیسی مشقت کاٹی تھی تم نے، کتنی زحمتوں کا سامنا کیا تھا!
میں نے سوچا کہ یہ وہی ہے۔ میں اس خاتون کی زندگی کو سپردِ قلم کروں گی اور پھر سب انتظامات ہو تے چلے گئے۔
تم نے کہا: ’’مجھ سے انٹرویو اور بات چیت والا کام نہیں ہونے کا۔‘‘ لیکن پھر بھی تم نے پہلی نشست کا وعدہ کر لیا۔اچھا، تو وہ کون سا دن تھا؟ 21 اپریل 2009۔
آلوچوں کا موسم تھا۔ میں تمہارے گھرآتی، تمہارے سامنے بیٹھتی، اپنا ایم پی تھری آن کر دیتی اور تم میرے سامنے اپنے گزرے ہوئے واقعات بیان کرنا شروع کر دیتیں: اپنے والد اور ماں کےبارے میں، اپنے گاؤں میں رہنے والے مخلص دیہاتیوں کے حالات، اپنے بچپن کے دن۔ یہاں تک کہ تم حاج ستار اور جنگ کے حالات تک پہنچ گئیں۔ جنگ اور حاج ستار دونوں ایک دوسرے میں گتھ گئے تھے۔ جنگ کا بوجھ تمہارے چھوٹے سے گھر اور نحیف و کمزور کندھوں پر بھی پڑا، ہاں، تمہارے! یعنی قدم خیر محمدی کنعان۔ لیکن کوئی بھی اسے سمجھ نہ سکا۔
تم کہتی جاتیں اور میں سنتی جاتی۔ تم ہنستیں تو میں بھی ہنس دیتی۔ تم روتیں تو میں بھی رونے لگتی۔ رمضان میں انٹرویوز کا سلسلہ ختم ہوا۔ تم خوش تھیں کہ تم نے پورے روزے رکھ لیے۔ آخر کار تم نے کہا تھا: ’’میں کچھ بھی نہیں بتانا چاہتی تھی؛ لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ سب کچھ کہہ چکی ہوں۔‘‘ تم سے زیادہ خوشی مجھے ہو رہی تھی۔ اب میں ان تمام انٹرویوز کو لکھنے بیٹھ گئی۔
ہم نے طے کیا تھا کہ جب تمام واقعات کاغذ پر منتقل ہو جائیں تو میں پورے مسودے کو تمہارے سامنے پڑھوں گی تا کہ اگر کوئی چیز رہ جاتی ہے تو اس کی اصلاح کر لی جائے؛ لیکن جب وہ وقت پہنچا تو سب کچھ درہم برہم ہو گیا۔
جب میں نے سنا تو فوراً تمہارے پاس دوڑی چلی آئی؛ البتہ فقط کاغذوں کا گٹھا لے کر نہیں بلکہ پھلوں کے کچھ مربے اور جُوس کے ڈبے بھی ساتھ لیتی آئی تھی۔ بھلا یہ کس دن کی بات ہے؟یقیناً 31 دسمبر 2009 کی۔ میں نے دیکھا کہ تم بستر سے لگی ہوئی تھیں؛ تم آنکھیں کھول کر مجھے دیکھے جا رہی تھیں مگر پہچان نہیں پا رہی تھیں۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ میں نے کہا: ’’تمہارے قربان جاؤں، قدم خیر! میں ہوں، ضرابی زادہ۔ تمہیں یاد ہے، آلوچوں کا موسم تھا۔ تم مجھے سارے واقعات سناتی جاتیں اور میں آلوچے کھاتی جاتی تھی۔ آلوچوں کی کھٹاس کا بہانہ کر کے میں اپنی آنکھوں کو بند کر لیتی تا کہ تم میرے آنسو نہ دیکھ سکو، کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ تمہارا غم پھر سے تازہ ہو جائے۔‘‘
تم کہتی تھیں: ’’میں اس حوالے سے بہت خوش ہوں کہ اتنے برسوں بعد میری ہی طرح کا کوئی انسان میرے سامنے بیٹھا ہے تا کہ میں اس کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دوں اور اس عرصے میں گزرنے والی تنہائی کا غم اس کے سامنے بیان کر سکوں۔ وہ غم اور وہ آلام جو ابھی تک میں نے کسی سے نہیں کہے۔‘‘ تم کہتی تھیں: ’’جب میں تم سے حاج ستار کے بارے میں بات کرتی ہوں تو مجھے محسوس ہونے لگتا ہے کہ میرا دل ان کے لیے کتنا تڑپ رہا ہے۔ میں نے ان کے ساتھ زندگی کے آٹھ سال گزارے؛ لیکن کبھی بھی جی بھر کر انہیں نہیں دیکھا۔ ہم ایک دوسرے کے عاشق تھے لیکن ہمیشہ ایک دوسرے سےدور۔ تم یقین کرو کہ ان آٹھ سالوں میں ہم فقط چند ماہ ہی ایک دوسرے کے پاس رہے۔ حاج ستار میرے شوہر ہوتے ہوئے بھی میرے پاس نہ تھے۔ میرے بچے ہمیشہ انہیں یاد کرتے؛ اس وقت جب وہ زندہ تھے اور اس وقت بھی جب وہ شہید ہو گئے۔ بچے کہتے تھے: ’’ماں، سب بچوں کے باپ ان کے ساتھ سکول میں آتے ہیں، ہمارے بابا کیوں نہیں ہیں؟!‘‘ میں ان سے کہتی: ’’تمہارے پاس ماں جو ہے۔‘‘پانچ بچوں کو اپنے ساتھ لیے خدیجہ کو سکول چھوڑنے جاتی۔ معصومہ کی کلاس بعد از ظہر ہوتی۔ ظہر ہو جاتی تو پانچوں کے پانچوں خدیجہ کو لینے جاتے۔ اسے سکول سے لیتے اور پھر سارے مل کر معصومہ کو سکول پہنچانے چلے جاتے۔ سہ پہر کو پھر یہی قصہ دہرایا جاتا اور پھر اگلے دن اور اس سے اگلے دن اور اس سے بھی اگلے دن۔۔۔‘‘
میں اس وقت آنسو بہا رہی تھی، جب تم برفیلے دنوں اور چھت اور صحن سے برف کی صفائی کا ماجرا میرے سامنے بیان کر رہی تھیں۔
اے میری پیاری دوست! تم نے اپنے بچوں کو جوان کر دیا۔ بیٹے کو بہو لادی۔ بیٹیوں کو بیاہ دیا۔ بس یہ آخری کام رہ گیا تھا جس کے بارے میں تم فکرمند تھیں!
اٹھو، تمہاری داستان ابھی پوری نہیں ہوئی۔ میں نے اپنی ایم پی تھری آن کر لی ہے۔ تم بات کیوں نہیں کر رہیں؟! کیوں ایسے خالی خالی نظروں سے مجھے دیکھے جا رہی ہو؟!
تمہاری بیٹیاں تمہارے لیے رو رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’’ہمیں تو اب معلوم ہوا کہ ہماری ماں اس عرصے میں مریض تھیں اور ہماری خاطر انہوں نے ہم سے اس بیماری کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ انہیں ڈر تھا کہ ہم پریشان نہ ہو جائیں۔ ماں ہم سے کہتی تھیں کہ تم ابھی زندہ ہو اور دوسرے لوگوں کی طرح جی رہی ہو۔ میں نہیں چاہتی کہ اپنی پریشانی کی وجہ سے تمہاری خوشیوں کو تہہ و بالا کر دوں۔‘‘ تمہاری بہن کہہ رہی ہے: ’’اس لعنتی بیماری نے تو۔۔۔‘‘
نہیں، نہیں، میں نہیں چاہتی کہ قدم خیر کے علاوہ کوئی اور بات کرے۔ قدم جان! یہ سب نہیں چلے گا۔ تمہیں اپنی زندگی کی داستان پوری کرنی ہے۔ حاج ستار کے بارے میں تو تم نے سب کچھ کہہ ڈالا لیکن اب جب اپنے صبر، شجاعت، حوصلے اور جانثاری کی کہانی سنانے کا وقت آیا تو تم اس طرح بیمار پڑ کر خاموش ہو گئیں۔ مجھے پہچان کیوں نہیں رہیں؟! اٹھو، اس قصے کو پورا ہونا چاہیے۔ اٹھو، میں نے اپنی ایم پی تھری آن کر دی ہے اور تمہارے سامنے بیٹھ چکی ہوں۔ اس طرح خالی خالی نظروں سے مجھے مت دیکھو!
بہناز ضرابی زادہ
موسم گرما / 2011
پہلا باب
بابا مریض تھے۔ گھر والے کہتے تھے کہ وہ کسی بڑی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو گئے تھے۔ جب میں پیدا ہوئی تو ان کی حالت کافی بہتر ہو گئی۔
سب رشتہ دار اور دوست احباب میری ولادت کو میرے بابا کی صحت و سلامتی کا سبب قرار دے رہے تھے۔ میرے چچا تو وجد میں آ گئے تھے۔ وہ کہتے تھے: ’’تم کتنی خوش قسمت بچی ہو! در حقیقت اس کا نام ہونا چاہیے، قدم خیر۔‘‘ میں اپنے ماں باپ کی آخری اولاد تھی۔ مجھ سے پہلے دو بیٹیاں اور چار بیٹے دنیا میں قدم رکھ چکے تھے، جو یا تو مجھ سے بہت زیادہ بڑے تھے یا ان کی شادیاں ہو چکی تھیں اور اپنے اپنے گھر بار میں مصروف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ میں اپنی ماں اور خصوصاً بابا کی محبتوں اور چاہتوں کا محور بن گئی۔ہم رزن([1]) کے ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ قایش جیسے خوبصورت اور خوشگوار آب وہوا والے گاؤں میں رہنا میرے لیے کافی لذت بخش تھا۔ گاؤں کے گھروں کو دور دور تک گندم اور جو کے وسیع کھیتوں اور کشادہ انگوری باغوں نے گھیر رکھا تھا۔
میں صبح سے سہ پہر تک محلے کی چھوٹی بڑی لڑکیوں کے ساتھ گاؤں کی تنگ و تاریک گلیوں میں بھاگتی پھرتی۔ ہم غموں سے دور ہنستی اور کھیلتی رہتیں۔ سہ پہر یا مغرب کے وقت کپڑے اور دھاگے سے بنی ہوئی گڑیائیں اٹھاتیں اور اپنے گھروں کی چھتوں پر چلی جاتیں۔ میں اپنی تمام گڑیاؤں اور کھلونوں کو اپنے دامن میں بھر لیتی۔ ہم سیڑھی کی لمبے زینوں پر چڑھتی ہوئی اوپر چلی جاتیں اور رات تک چھت پر بیٹھ کر خالہ خالہ کھیلتی رہتیں۔
بابا شہر سے میرے لیے جو کھلونے لاتے تھے، بچے انہیں دیکھ کر مچل جاتے۔ جتنا وہ چاہتے، میں انہیں اپنے کھلونوں سے کھیلنے دیتی تھی۔
رات کو جب ستارے سارے آسمان کو بھر دیتے تو بچے ایک ایک کر کے چھتوں پر سے دوڑتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے؛ لیکن میں بیٹھ کر اپنے کھلونوں اورگڑیاؤں کے ساتھ کھیلتی رہتی۔ کبھی تھک جاتی تو لیٹ کر تاریک آسمان پر ٹمٹمانے والے نقرئی ستاروں کو دیکھنے لگتی۔ جب ہر طرف اندھیرا چھا جاتا اور ہوا میں خنکی آ جاتی تو ماں میرے پاس آتیں۔ مجھے گود میں لے لیتیں اور پیار کرتے اور چمکارتے ہوئے چھت سے نیچے لے جاتیں۔ مجھے کھانا دیتیں۔ میرا بستر بچھاتیں۔ اپنا ہاتھ میرے سر کے نیچے رکھ کر مجھے لوریاں سناتیں۔ وہ میرے بالوں میں تب تک ہاتھ پھیرتی رہتیں جب تک کہ مجھے نیند نہ آ جاتی۔ پھر اٹھ جاتیں اور دوسرے کام کاج کرتیں۔ گندھے ہوئے آٹے کے پیڑے بناتیں اور انہیں ایک تھال میں چن دیتیں تا کہ صبح کے وقت ناشتے کے لیے ان کی روٹیاں بنا سکیں۔
علی الصبح جلتے ہوئے ایندھن کی بو اور تازہ روٹی کی خوشبو سے میری آنکھ کھل جاتی۔ شبنم میرے چہرے پر ٹھہری ہوتی۔ میں دوڑتی ہوئی جاتی اور اس ٹھندے پانی سے اپنا چہرہ دھوتی جو ماں نے کنویں سے نکال کر رکھا ہوتا تھا۔ اس کے بعد بابا کے زانو پر جا کر بیٹھ جاتی۔ ناشتے کے وقت ہمیشہ میری جگہ بابا کے زانو ہی ہوتے تھے۔ وہ مہربانی اور محبت سے میرے لیے لقمے توڑتے، میرے منہ میں ڈالتے اور میرے بالوں پر بوسہ دیتے۔
میرے بابا بھیڑوں کے بیوپاری تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ وہ مہینے میں ایک دفعہ آس پاس کے گاؤں سے بھیڑیں خریدتے اور انہیں تہران اور اس کے اطراف کے شہروں میں لے جا کر فروخت کر دیتے۔ اس ذریعے سے وہ اچھا خاصا منافع کما لیتے تھے۔ وہ ہر دفعہ ایک بھرا ہوا ٹرک بھیڑوں کا خریدتے اور اسے بیچ آتے۔ انہیں سفروں میں وہ میرے لیے طرح طرح کے کھلونے اور گڑیائیں خرید کر لاتے تھے۔
جن دنوں بابا اپنے کام کے سلسلے میں سفر پر چلے جاتے، وہ میری عمر کے بدترین ایام ہوتے تھے۔ میں اس قدر روتی اور اتنے آنسو بہاتی کہ میری آنکھیں دو خون بھرے کٹوروں کی طرح ہو جاتیں۔ بابا مجھے گود میں لے لیتے۔ میں انہیں جلدی جلدی بوسے دیتی اور وہ مجھے کہتے: ’’اگر تم اچھی بچی بنو اور نہ رؤو تو تم جو کہو گی میں تمہارے لیے خرید لاؤں گا۔‘‘
انہی وعدوں دلاسوں کے ساتھ میں خاموش ہو کر بابا کے جانے پر راضی ہو جاتی اور پھر میری فرمائشوں کی فہرست شروع ہو جاتی: ’’بابا جان، مجھے گڑیا چاہیے؛ وہ گڑیا جس کے بال لمبے اور آنکھیں نیلی ہوتی ہیں اور کھلتی اور بند ہوتی ہیں۔مجھے چوڑیاں بھی چاہییں۔ انگوٹھے والی جوتی بھی میرے لیےخرید کر لائیے گا اور وہ لکڑی کی ایڑیوں والے سینڈل بھی لائیے گا جو چلتے وقت ٹک ٹک کی آواز دیتے ہیں۔ کھلونا پلیٹیں اور دیگچے بھی ہونے چاہییں۔‘‘
بابا مجھے چومتے ہوئے کہتے: ’’خرید لاؤں گا۔ خرید لاؤں گا۔ فقط تم اچھی بچی بنو اور آنسو نہ بہاؤ۔ اپنے بابا کے لیے ہنس دو۔ بابا تمہارے لیے ہر چیز خرید لائیں گے۔‘‘
میں روتی نہیں تھی؛ لیکن اپنے بابا کے لیے ہنستی بھی نہیں تھی۔ اس بات سے پریشان ہو جاتی کہ انہیں اب دو تین دن تک نہیں دیکھ سکوں گی۔ مجھے تنہائی بہت بری لگتی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ بابا دن رات میرے سامنے رہیں۔ گاؤں کے لوگ بھی بابا سے میری محبت کو جانتے تھے۔ کبھی کبھار ماں چشمے پر پانی لینے یا کپڑےدھونے جاتیں اور میں بھی ساتھ ہوتی تو عورتیں مجھے چھیڑتے ہوئے کہتیں: ’’قدم! تم کس سے شادی کرو گی؟!‘‘
میں کہتی: ’’بابا جان سے۔‘‘
وہ کہتیں: ’’وہ تو تمہارے بابا ہیں!‘‘
میں کہتی: ’’نہیں، بابا میرے شوہر ہیں۔ میں جو کچھ بھی چاہتی ہوں وہ میرے لیے خرید لاتے ہیں۔‘‘
اس وقت میں بچی تھی اور ان باتوں کا مطلب نہیں جانتی تھی۔ عورتیں ہنستیں، ایک دوسرے کے کان میں باتیں کرتیں اور لگن میں پڑے کپڑوں کو ہاتھوں سے رگڑنے لگتیں۔
بابا کے جانے اور آنے کے عرصے میں، ایک دن میرے لیے ایک سال کے برابر ہو جاتا۔ ماں صبح سے شام تک کام میں مصروف رہتیں۔ بے کار رہ رہ کر میرا حوصلہ جواب دے جاتا۔ میں تنگ آ کر ماں سے کہتی: ’’مجھے بھی کوئی کام دیں۔ میں اکتا گئی ہوں۔‘‘ ماں کام کرتے کرتے کہتیں: ’’تم کھاؤ پیو اور سو جاؤ۔ جب وقت ہو گا تو اتنا کام کرنا کہ تھک جانا۔ تمہارے بابا نے منع کیا ہے کہ تمہیں کوئی کام نہ کرنے دوں۔‘‘
میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ کھاؤں پیوں اور سو جاؤں؛ لیکن یہ بھی لگتا تھا کہ میرا کوئی اور کام بھی نہیں ہے۔ میری بہنیں ماں پر اعتراض کرنے لگتیں: ’’ماں، تم نے قدم کو کتنا لاڈلا کر رکھا ہے۔ اس سے کتنی زیادہ محبت کرتی ہو۔ جب ہم چھوٹے تھے تو ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیوں نہیں کرتی تھیں؟!‘‘
ماں اور بابا کی اتنی محبت اور توجہ کے باوجود بھی میں انہیں اس بات پر راضی نہ کر سکی کہ وہ مجھے سکول جانے کی اجازت دے دیں۔ بابا کہتے تھے: ’’لڑکیوں کے سکول جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘‘
سکول کے استاد جوان مرد تھے۔ کلاسیں بھی مخلوط تھیں۔ میری ماں کہتی تھیں: ’’بس اسی چیز کی کمی رہ گئی تھی کہ تم مدرسے جاؤ، لڑکوں کے ساتھ بیٹھو اور نامحرم مرد تمہیں سبق پڑھائے۔‘‘
لیکن میں سکول کی عاشق تھی۔ میں جانتی تھی کہ بابا سے میرا رونا برداشت نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے صبح سے رات تک میں روتی رہتی اور بابا سے التماس کرتی: ’’بابا! آپ کو خدا کا واسطہ، مجھے سکول جانے دیں۔‘‘
بابا سے میرا رونا دیکھا نہ جاتا تھا۔ وہ کہتے: ’’ٹھیک ہے۔ تم رؤو مت۔ میں تمہیں کل ماں کے ساتھ سکول بھیج دوں گا۔‘‘ میں ہمیشہ سوچتی کہ بابا سچ کہہ رہے ہیں۔
وہ رات میں ذوق و شوق سے بستر پر جاتی۔ صبح تک مجھے نیند نہ آتی؛ لیکن جیسے ہی صبح ہوتی اور میں ماں سے کہتی کہ مجھے سکول لے جائیں، تو بابا آ جاتے اور ہزار طرح کے بہانے بنا کر اور وعدے کر کے ٹال دیتے کہ آج ہمیں بہت سے کام کرنے ہیں؛ لیکن کل حتماً ہم سکول جائیں گے۔ آخر کار میری آرزو دل ہی میں رہ گئی اور میں سکول نہ جا سکی۔
میں نو سال کی ہو چکی تھی۔ ماں نے مجھے نماز سکھا دی تھی۔ اس سال ماہ رمضان میں مَیں نے روزے بھی رکھے۔ شروع کے دن میرے لیے بہت سخت تھے، لیکن مجھے روزہ رکھنا اچھا لگتا تھا۔ میں بہت شوق اور جذبے سے سحر کے وقت بیدار ہوتی، سحری کھاتی اور روزہ رکھ لیتی۔
رمضان کے بعد بابا نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنے چچازاد بھائی کی دکان پر لے گئے۔ سلام و احوال پرسی کے بعد ان سے کہا: ’’میں اپنی بیٹی کے لیے انعام خریدنے آیا ہوں۔ آخر کو قدم اس سال نو برس کی ہو چکی ہے اور اس نے سارے روزے رکھے ہیں۔‘‘
بابا کے چچازاد بھائی دکان میں پڑے کپڑوں کے اندر سے ایک سفید چادر نکال لائے جس پر چھوٹے چھوٹے اور خوبصورت گلابی پھول بنے ہوئے تھے۔ انہوں نے وہ چادر بابا کو دی۔ بابا نے چادر کھول کر میرے سر پر اوڑھا دی۔ چادر میری قامت پر پوری آ رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ میرے لیے ہی سی گئی ہو۔ میرا خوشی سے اڑنے کو دل چاہنے لگا۔ بابا نے ہنس کر کہا: ’’قدم جان! آج کے بعد نامحرم کےسامنے چادر اوڑھ کر آؤ گی، ٹھیک ہے بابا کی جان؟‘‘
اس دن جب میں گھر واپس آئی تو ماں سے محرم اور نامحرم کا مطلب پوچھا۔ پھر جب بھی کوئی ہمارے گھر آتا تو میں دوڑ کر ماں کے پاس جاتی اور پوچھتی: ’’یہ ہمارے محرم ہیں یا نامحرم؟!‘‘
بعض اوقات ماں جھنجھلا جاتیں۔ اسی وجہ سے جب بھی ہمارے گھر کوئی مرد آتا تو میں دوڑ کر چادر سر پر اوڑھ لیتی۔ اس کے بعد محرم و نامحرم کے درمیان میرے نزدیک کوئی فرق نہ رہا، حتی کہ بھائیوں کے سامنے بھی میں چادر اوڑھے رکھتی۔
دوسرا باب
میرے چچا کا گھر ہمارے گھر کی دیوار سے ملا ہوا تھا۔ ہر روز چند گھنٹے میں ان کے گھر گزارتی۔ کبھی کبھار ماں بھی آ جاتیں۔
اس دن میں اکیلی ہی ان کے گھر گئی تھی۔ ظہر کا وقت تھا اور میں لمبے لمبے اور بہت زیادہ زینوں سے، جو ڈیوڑھی سے شروع ہوتے اور صحن میں آ کر ختم ہوتے تھے، نیچے آ رہی تھی کہ اچانک ایک جوان لڑکا میرے سامنے آ گیا۔ میں حواس باختہ ہو گئی اور گنگ ہو کر رہ گئی۔ چند لمحات کے لیے ہماری آنکھیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں۔ لڑکے نے سر نیچے جھکالیا اور مجھے سلام کیا۔ میں اپنی دھڑکنوں کی آواز سن سکتی تھی جو میرے سینے سے باہر آنے کو بے تاب ہو رہی تھیں۔ میں اتنی سٹپٹا گئی تھی کہ اس کے سلام کا جواب بھی نہ دے سکی۔ سلام اور خداحافظی کیے بغیر ہی صحن میں دوڑی اور وہاں سے ایک ہی سانس میں اپنے گھر کے صحن کی طرف دوڑتی چلی گئی۔ میری بھابھی، خدیجہ کنویں سے پانی نکال رہی تھی۔ اس نے جیسے ہی مجھے دیکھا تو پانی کا ڈول اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر کنویں میں جا گرا۔ وہ ڈر گئی تھی۔ پوچھنے لگی: ’’قدم! کیا ہوا؟ تمہارا رنگ کیوں اڑا ہوا ہے؟!‘‘
میں اپنی جگہ پر کھڑی ہو گئی تا کہ میری سانسیں بحال ہو جائیں۔ میں اس کے ساتھ کافی بے تکلف تھی۔تمام بھابھیوں میں سے وہ سب سے زیادہ میرے نزدیک تھی۔ میں نے سارا ماجرا اسے سنا دیا۔ وہ ہنستے ہوئے کہنے لگی: ’’میں سمجھی شاید تمہیں کسی بچھو نے کاٹ لیا ہے۔ تم نے پہلے کبھی کوئی لڑکا نہیں دیکھا؟!‘‘
لڑکے تو میں نے دیکھے ہوئے تھے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ ایک گاؤں میں رہیں، لڑکوں کے ساتھ کھیلیں کودیں اور ان سے کوئی بات بھی نہ کریں؟ اگرچہ مجھے اپنے بابا کے علاوہ کوئی لڑکا اور مرد اچھا نہیں لگتا تھا۔
میری نظر میں میرے بابا دنیا کے بہترین مرد تھے۔ میں انہیں اتنا پسند کرتی تھی کہ اس عمر میں بھی میری فقط یہی آرزو تھی کہ میں اپنے بابا سے پہلے مر جاؤں۔ گاؤں میں جب بھی کوئی فوت ہو جاتا اور ہم اس کے ختم اور قل میں شریک ہوتے تو جیسے ہی میرے ذہن میں یہ خیال آتا کہ ممکن ہے ایک دن بابا بھی مجھے چھوڑ کر چلے جائیں تو میں رونے لگتی۔ اتنا روتی کہ رو رو کر بے حال ہو جاتی۔ سب یہی سوچتے کہ میں اس مردے کے لیے رو رہی ہوں۔
بابا بھی مجھ سے اتنی ہی محبت کرتے تھے۔ اگرچہ میں چودہ سال کی ہو چکی تھی اس کے باوجود بھی وہ کبھی کبھی مجھے گود میں اٹھا لیتے اور میرے بالوں پر بوسہ دیتے۔
اس رات میں اپنی ماں کی باتوں سے سمجھ گئی کہ وہ لڑکا بابا کے چچا کا نواسہ ہے اور اس کا نام صمد ہے۔
اگلے دن ہمارے گھر میں کچھ مشکوک قسم کی آمد و رفت شروع ہو گئی۔ پہلے بابا کے چچا آئے اور انہوں نے بابا سے بات کی۔ اس کے بعد بابا کی چچی کی باری آئی۔ صبح اپنے کام کاج نمٹا کر وہ ہمارے گھر آ جاتیں اور ظہر تک صحن میں بیٹھی ماں سے باتیں کرتی رہتیں۔
ان کے بعد صمد کی ماں آ گئیں اور پھر چند دن بعد صمد کے والد بھی آن پہنچے۔ میرے بابا راضی نہ تھے۔ان کا کہنا تھا: ’’قدم ابھی بچی ہے، ابھی اس کی شادی کی عمر نہیں ہے۔‘‘
میری بہنیں بڑبڑاتیں: ’’ہم قدم سے چھوٹی تھیں تو آپ نے ہماری شادی کر دی۔ اب آپ اس کی شادی کیوں نہیں کر رہے؟!‘‘ بابا جواب دیتے: ’’اب وقت بدل چکا ہے۔‘‘
میں جب یہ دیکھتی کہ بابا مجھ سے بے انتہا محبت کرتے ہیں تو خوشی سے نہال ہو جاتی۔ میں جانتی تھی کہ وہ مجھ سے اپنی شدید محبت کی وجہ سے مجھے اپنے آپ سے جدا نہیں کرنا چاہتے مگر رشتہ دار کہاں چپکے بیٹھنے والے تھے۔ پیغام بھیجتے اور دوستوں اور جاننے والوں کو درمیان میں واسطہ بناتے تا کہ بابا کی رضامندی حاصل کر سکیں۔
اس بات کو ایک سال گزر چکا تھا اور میں مطمئن ہو گئی تھی کہ بابا ابھی میری شادی نہیں کریں گے۔ لیکن ایک رات ہمارے کچھ رشتہ دار مرد بغیر اطلاع دیے ہمارے گھر آ گئے۔ بابا کے چچا بھی ان کے ساتھ تھے۔ تھوڑی دیر بعد بابا نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔ وہ مرد کافی دیر تک کمرے میں بیٹھے رہے اور باتیں کرتے رہے۔میں صحن میں سیبوں کے ایک درخت کے نیچے بیٹھی تھی۔ صحن تاریک تھا اور کسی نے مجھے نہیں دیکھا تھا، لیکن میں اس کمرے کو بخوبی دیکھ سکتی تھی جس میں مرد بیٹھے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد بابا کے چچا نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکالا اور اس پر کچھ لکھا۔ میری چھٹی حس بیدار ہو گئی۔ میں نے اپنے آپ سے کہا: ’’قدم! بالآخر انہوں نے تمہیں تمہارے بابا سے جدا کر دیا۔‘‘
تیسرا باب
اس رات جب مہمان چلے گئے تو بابا نے ماں سے کہا تھا: ’’خدا کی قسم، میں قدم کی شادی پر ابھی بھی راضی نہیں ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ نوبت یہاں تک پہنچ کیسے گئی۔ میرے چچازاد بھائی کا قصور تھا۔ اس کے رونے دھونے نے مجھے مجبور کر دیا۔ اس نے انتہائی غم و اندوہ سے کہا کہ اگر اس کا بیٹا زندہ ہوتا تو کیا قدم کو اس کے ساتھ نہ بیاہتے؟! اب یہی سمجھو کہ صمد میرا ہی بیٹا ہے۔‘‘
بابا کے چچازاد بھائی کا بیٹاکئی سال پہلے جوانی ہی میں بیمار پڑا اور دنیا سے رخصت ہو گیاتھا۔ اس کے جانے کے بعد اس کے والد ہر وقت اس کی یاد میں روتے رہتے، جنہیں دیکھ دیکھ کر آس پاس کے لوگ بھی رنجیدہ ہو جاتے۔ اب انہوں نے اسی بات کی آڑ لے کر بابا کی رضامندی حاصل کر لی تھی۔
قایش میں رسم ہے کہ منگنی سے پہلے رشتہ دار مرد اور سفید ریش معمر حضرات ایک جگہ مل بیٹھتے ہیں اور آپس میں کچھ باتیں طے کر لیتے ہیں۔ حق مہر معین کرتے ہیں اور شادی کی خرید و فروخت اور دوسرے اخراجات کا تخمینہ لگاتے اور انہیں ایک کاغذ پر لکھتے ہیں۔یہ کاغذ ایک آدمی جا کر دولہا کے خاندان والوں کو دے دیتا ہے۔ اگر دولہا کے گھر والے ان اخراجات پر راضی ہوں تو کاغذ پر دستخط کر دیتے ہیں اور اس کے ساتھ واپسی پر دلہن کے گھر والوں کے لیے ایک تحفہ بھی بھیج دیتے ہیں۔
اس رات میں صبح تک دعا کرتی رہی کہ بابا حق مہر اور شادی کے اخراجات زیادہ رکھ دیں تا کہ دولہا کے گھر والے قبول ہی نہ کریں۔
اگلے روز گھر آئے مہمانوں میں سے ایک آدمی وہ کاغذ لے کر صمد کے والد کے گھر چلا گیا۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا تھا کہ بابا نے میرا حق مہر پانچ ہزار تومان مقرر کیا تھا۔جو اخراجات بابا اور ماں نے مشخص کیے تھے، صمد کے گھر والوں کو وہ منظور نہ تھے لیکن صمد نے جیسے ہی مہر کی رقم دیکھی تو ناراض ہو کر کہنے لگا:’’اتنا کم کیوں؟! مہر زیادہ کریں۔‘‘اردگرد کے لوگوں نے مخالفت کی تھی۔ صمد اپنی بات پر قائم رہا اور مہر میں پانچ ہزار تومان کا اضافہ کر کے کاغذ کے نیچے اپنے دستخط کردیے۔
اس دن سہ پہر کے وقت ایک آدمی نے وہ دستخط شدہ کاغذ اور زنانہ لباس کا ایک جوڑا ہماری طرف بھیجا۔ اب میری امید ختم ہو چکی تھی۔ بابا نے اتنی سادگی سے پہلی مرتبہ ہی میرا رشتہ لے کر آنے والے کو مثبت جواب دے دیا اور اپنی آخری اولاد کو بیاہ دیا تھا۔
کچھ دن بعد ہمارے گھر میں منگنی اور مہمانوں کو مٹھائی کھلانے کی تقریب منعقد ہوئی۔ مرد ایک کمرے میں جبکہ عورتیں دوسرے کمرے میں تھیں۔میں صحن کے کونے میں موجود گودام کے اندر چھپ گئی اور زارو قطار رونے لگی۔ خدیجہ ہر جگہ مجھے تلاش کر رہی تھی بالآخر اس نے مجھے ڈھونڈ ہی لیا۔جب اس نے مجھے اس روتی ہوئی حالت میں دیکھا تو مجھے نصیحت کرنے لگی: ’’لڑکی! ان حرکتوں کا کیا مطلب ہے؟ تم بچی تو نہیں ہو نا! چودہ سال تمہاری عمر ہو گئی ہے۔ تمہاری عمر کے ساری لڑکیاں یہی آرزو رکھتی ہیں کہ صمد جیسا کوئی لڑکا ان کا ہاتھ مانگنے کے لیے آئے اور ان سے شادی کر لے۔ مگر صمد میں عیب ہی کیا ہے۔ اچھا خاندان ہے۔ ماں باپ بھلے لوگ ہیں۔ اگر اس سال شادی نہیں کرو گی تو اگلے سال تو کرنا ہی پڑے گی نا۔ ہر لڑکی کو بالآخر اپنے شوہر کے گھر کو سدھارنا ہی ہوتا ہے، تو اس صورت میں صمد سے بہتر کون ہے۔ تم سوچتی ہو کہ اس چھوٹے سے گاؤں میں صمد سے بہتر کوئی شوہر تمہیں ملے گا؟! کہیں ایسا تو نہیں کہ تم اس چیز کا انتظار کر رہی ہو کہ کسی اور دنیا سے کوئی شہزادہ اترے گا اور تمہارا ہاتھ پکڑ کر تمہیں خوابوں کے محل میں لے جائے گا۔ دیوانی لڑکی نہ بنو۔ اپنی قسمت کو ٹھوکر مت لگاؤ۔ صمد اچھا لڑکا ہے۔ اس نے تجھے دیکھا اور پسند کیا ہے۔ ضد چھوڑو اور ایسا کام نہ کرو کہ وہ لوگ پشیمان ہو جائیں اور اٹھ کر چلے جائیں۔ پھر کہیں گے کہ حتماً لڑکی میں کوئی نہ کوئی عیب ہو گا۔ اگر ایسا ہو گیا تو ساری عمر گھر کے ایک کونے ہی میں پڑی رہو گی۔‘‘
بھابھی کی باتوں سے میری کچھ ڈھارس بندھی۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور صحن میں لے گئی۔ کنویں سے میرے لیے پانی نکالا،پانی کو ایک طشت میں ڈالا اور بچوں کی طرح میرے ہاتھ منہ دھلانے لگی۔ اس کے بعد مجھے اپنے ساتھ کمرے میں لے گئی۔ میں شرم سے مری جا رہی تھی۔ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو چکے تھے اور دھڑکنیں قابو سے باہر ہوئی جا رہی تھیں۔ میری بہن نے مجھے دیکھا تو کھڑی ہو گئی اور اپنی سرخ شال میرے سر پر ڈال دی۔ سب خواتین تالیاں بجانے اور ترکی زبان میں میرے لیے شعر پڑھنے اور گانے گانے لگیں لیکن مجھے کچھ بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ اب کے اب میں دلہن بنی جا رہی تھی۔ دل میں خدا خدا کر رہی تھی کہ جتنا جلدی ہو سکے مہمان جائیں اور اپنے بابا کو دیکھوں۔ مجھے یقین تھا کہ بابا جیسے ہی میرے سر پر ہاتھ پھیریں گے میرا سارا رنج و غم اور پریشانی کافور ہو جائے گی۔
اس واقعے کو چند روز گزر گئے۔ ایک دن صبح بہار کی سی فضا تھا۔ میں صحن میں کھڑی تھی۔ ہمارا صحن کافی بڑا تھا۔ اس کے اردگرد کمرے ہی کمرےتھے۔ دو دروازے تھے، جن میں سے ایک گلی میں جبکہ دوسرا ایک باغ میں کھلتا تھا جسے ہم باغیچہ کہتے تھے۔
باغیچہ خوبانی کے درختوں سے بھرا ہوا تھا۔ میرے ذہن میں خیال آیا کہ وہاں جاؤں۔ باغیچہ سرسبز اور خوبصورت تھا۔درختوں پر کونپلیں پھوٹ پڑی تھیں اور ان کی چھوٹی چھوٹی پتیاں بہار کی پُر کیف دھوپ میں چمک رہی تھیں۔ شدید جاڑا گزارنے کے بعد اس سرسبز فطری منظر کو دیکھنا اور خوشگوار اور دلنشین ہوا کو محسوس کرنا انتہائی لذت بخش ہوتا تھا۔ اچانک میں نے ایک آواز سنی، گویا درختوں کے پیچھے سے کوئی مجھے آواز دے رہا ہو۔ پہلے تو میں ڈری اور پھر حیران رہ گئی۔جیسے ہی میں نے اپنے کان کھڑے کیے تو آواز زیادہ صاف ہو نے لگی۔ اس کے بعد ایک آدمی درختوں کے پیچھے چھوٹی دیوار سے کود کر باغیچے میں آگیا۔ میں نے جیسے ہی وہاں سے حرکت کرنا چاہی، دیوار پر ایک سایہ بھاگتا ہوا آیا اور میرے سامنے کھڑا ہو گیا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ وہ صمد تھا۔ اس نے خوشی سے مجھے سلام کیا۔ میں حواس باختہ ہو گئی۔ سر پر اپنی چادر سیدھی کی۔ سر نیچے کو جھکا لیا اور کچھ کہے بغیر، حتی کہ سلام کا جواب بھی نہ دیا اور سر پر پاؤں رکھ کر سرپٹ بھاگتی، صحن سے ہوتی، دو دو سیڑھیوں کو ایک ایک قدم میں پھلانگتی ہوئی کمرے میں گھس گئی اور کمرے کو اندر سے تالا لگا لیا۔
صمد نے تھوڑی دیر کھڑے ہو کر انتظار کیا۔ جب میرے آنے سے مایوس ہو گیا تو ناگواری کی حالت میں سیدھا میری بھابھی کے پاس چلا گیا اور اس سے میری شکایت کرتے ہوئے کہنے لگا: ’’ایسا لگتا ہے کہ قدم مجھے اصلاً پسند نہیں کرتی۔ میں نے لاکھ جتن کر کے چھاؤنی سے چھٹی لی، فقط اس واسطے کہ قدم سے مل لوں اور اس سے چار باتیں کر لوں۔ کافی دیر تک ان کے گھر والے باغیچے کی دیوار کے پیچھے تاک لگائے بیٹھا رہا یہاں تک کہ اسے اکیلے دیکھ ہی لیا۔ لیکن وہ ایسی بے انصاف ہے کہ اس نے میرے سلام کا جواب تک نہ دیا اور مجھے دیکھتے ہی بھاگ گئی۔‘‘
ظہر کے نزدیک خدیجہ ہمارے گھر میں آئی اور کہنے لگی: ’’قدم! سہ پہر کو ہمارے گھر آؤ۔ آج گھر میں کچھ مہمان آ رہے ہیں۔ میں اکیلی ہوں۔ تم آ کر میری تھوڑی مدد کر دو۔‘‘
سہ پہر کے وقت میں ان کے گھر چلی گئی۔ وہ رات کا کھانا تیار کر رہی تھی۔ میں اس کی مدد کرنے لگی۔ میں اس چیز سےغافل تھی کہ خدیجہ نے میرے بارے میں کوئی منصوبہ بنا رکھا ہے۔ جیسے ہی مغرب کی اذان ہوئی اور اندھیرا پھیلنا شروع ہوا تو میں نے دیکھا کہ دروازہ کھلا اور صمد اندر داخل ہو گیا۔ مجھے خدیجہ پر بہت غصہ آیا۔ میں نے کہا: ’’اگر ماں اور بابا کو پتا چل گیا تو ہم دونوں کو مار ہی ڈالیں گے۔‘‘
خدیجہ ہنس کر کہنے لگی: ’’اگر تمہارا منہ بند رہا تو کسی کو بھی خبر نہیں ہو گی۔ تمہارا بھائی بھی آج گھر پر نہیں ہے۔وہ اپنے کھیتوں میں پانی لگانے گیا ہے۔‘‘
جب میری پریشانی کچھ کم ہوئی تو میں نے کنکھیوں سے اسے دیکھا۔ اس کی شکل ایسے کیوں تھی؟! وہ گنجا تھا۔ خدیجہ نے اسے اندر آنے کو کہا تو وہ اس کمرے میں آ گیا جہاں میں تھی۔ اس نے سلام کیا۔ میں اس وقت بھی اس کے سلام کا جواب نہ دے سکی۔ میں کچھ کہے بغیر اٹھی اور دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ خدیجہ نے مجھے بلایا، میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ صمد کو لیے دوسرے کمرے میں بھی آ گئی۔ خدیجہ نے آنکھوں کے اشاروں سے مجھے سمجھایا کہ میں اچھا نہیں کر رہی۔ اس کے بعد وہ کمرے سے نکل گئی۔ اب کمرے میں صمد اور میں رہ گئے تھے۔ میں تھوڑی سی ہچکچائی اور پھر اٹھ کھڑی ہوئی تا کہ اس کی بوجھل نظروں سے بھاگ جاؤں۔ وہ دروازے کی چوکھٹ میں کھڑا ہو گیا اور اپنے دونوں بازو کھول کر میرا راستہ روک لیا۔ ہنس کر کہنے لگا: ’’کہاں؟! کیوں مجھ سے بھاگتی ہو؟! بیٹھو، مجھے تم سے کچھ کام ہے۔‘‘
میں اپنا سر جھکا کر بیٹھ گئی اور وہ بھی بیٹھ گیا؛ البتہ مجھ سے کافی فاصلے پر۔ اس کے بعد اس نے آہستہ آہستہ بات کرنا شروع کی: ’’مجھے اچھا لگتا ہے کہ میری بیوی اِسی طرح کی ہو۔ ایسی ویسی نہ ہو۔ پھر کہنے لگا: ’’فی الحال تو میں تربیتی فوج میں ہوں۔ اس کے بعد چاہتا ہوں کہ جیسے ہی میری تربیت ختم ہو، تہران جا کر کوئی اچھا اور بڑا سا کام شروع کروں۔‘‘ میرے چہرے پر پریشانی دیکھی توکہنے لگا: ’’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شاید قایش میں ہی رہ جاؤں۔‘‘
اس کے بعد اس نے اپنا کام کاج بتایا کہ مکان پلستر کرنے کا کام کرتا ہے اور تہران میں بہتر طور سے یہ کام کر سکتا ہے۔
میں اسی طرح اپنے سر کونیچے کیے بیٹھی تھی اور کوئی بات نہیں کر رہی تھی۔ صمد ہی آہستہ آہستہ باتیں کیے جا رہا تھا۔ آخرکار اسے غصہ آ گیا اور کہنے لگا: ’’تم بھی تو کچھ بولو، کوئی بات کرو تا کہ میرا دل خوش ہو جائے۔‘‘
میرے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔ میں نے چادر کو گلے کے نیچے سے سختی سے پکڑ رکھا تھا اور ٹک ٹک سامنے والے کمرے کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔ جب اس نے دیکھا کہ میرے منہ سے کوئی بات نکلوانے میں اس کی ساری کوشش بے فائدہ ہے تو خود ہی سوال پوچھنا شروع ہو گیا: ’’تم کہاں زندگی گزارنا چاہتی ہو؟!‘‘
میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ بھی پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا: ’’اپنی ماں کے پاس رہنا چاہتی ہو؟!‘‘
بالآخر میں نے سکوت توڑا اور فقط ایک ہی لفظ کہا: ’’نہیں!‘‘ اس کے بعد پھر خاموشی۔
جب اس نے دیکھا کہ اتنی آسانی کے ساتھ مجھ سے کوئی بات نہیں اگلوا سکتا تو وہ بھی خاموش ہو گیا۔ میں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور خدیجہ کی مدد کرنے کے بہانے اٹھ کر دسترخوان بچھانے لگی۔ کھانا بھی میں نے لگایا۔ خدیجہ اصرار کر رہی تھی: ’’تم صمد کے پاس جا کر بیٹھو اور باتیں کرو۔ میں خود کام کر لوں گی۔‘‘ لیکن میں نے سنی ان سنی کر دی اور باورچی خانے کے کام کرنے لگی۔ صمد تنہا رہ گیا تھا۔ دسترخوان پر بھی میں خدیجہ کے ساتھ بیٹھی۔
کھانا کھانے کے بعد میں نے برتن جمع کیے اور چائے لانے اور باورچی خانے کی صفائی کے بہانے وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
صمد نے خدیجہ سے کہا: ’’میرا خیال ہے کہ قدم مجھے پسند نہیں کرتی۔ اگر یہی صورتحال رہی تو پھر ہم دونوں اکٹھے زندگی نہیں گزار سکتے۔‘‘
خدیجہ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا: ’’تم پریشان نہ ہو۔ ایسا ہوتا رہتا ہے۔ تھوڑا عرصہ گزر جائے تو وہ تمہیں پسند کرنے لگے گی۔ تم ذرا صبر و تحمل سے کام لو۔‘‘
صمد چائے پی کر چلا گیا۔ میں نے خدیجہ سے کہا: ’’وہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ گنجا ہے۔‘‘ خدیجہ ہنسنے لگی: ’’بس، تمہارا یہی مسئلہ ہے، پاگل؟! ابھی تو وہ تربیتی فوجی ہے۔ کچھ ماہ بعدجب اس کی لازمی فوجی تربیت([1]) کا دورانیہ ختم ہو جائے گا تو اس کے بال نکل آئیں گے۔‘‘
اس کے بعد اس نے پوچھا: ’’اچھا، دوسری خامی؟!‘‘
میں نے کہا: ’’باتیں بہت کرتا ہے۔‘‘
خدیجہ پھر ہنس دی: ’’اس کا بھی حل ہے۔ تم صبر کرو اور اپنی کھال سے باہر آ کر اس شرم و حیا کو کنارے کرو تو اسے ہرا سکتی ہو۔ اس کے بعد اسے بات کرنے کی مہلت ہی نہیں ملےگی۔‘‘
خدیجہ کی باتوں سے مجھے ہنسی آ گئی۔ اس ہنسی نے ہنسی مذاق کا دروازہ کھول دیا اور ہم کافی دیر تک جاگتی، باتیں کرتی اور ہنستی رہیں۔
کچھ دن بعد صمد کی ماں نے اطلاع بھجوائی کہ وہ ہمارے گھر آنا چاہتی ہیں۔
وہ سہ پہر کے وقت اکیلی ہمارے گھر آئیں اور اپنے ساتھ ایک پوٹلی بھی لائیں۔ ماں نے شکریہ ادا کیا،پوٹلی لی اور کمرے کے درمیان میں رکھ کر مجھے اشارہ کیا کہ میں اسے کھولوں۔ میں بادلِ نخواستہ کمرے کے درمیان میں جا کر بیٹھ گئی اور اس پوٹلی کی گرہ کھول دی۔ اس میں کچھ کرتیاں، لہنگے اور کچھ اَن سلے کپڑے تھے جن میں سے ایک بھی مجھے اچھا نہ لگا۔ میں نے بغیر کوئی شکریہ ادا کیے کپڑوں کو تہہ کیا، انہیں پوٹلی میں رکھا اور جیسے پوٹلی کھولی تھی ویسے ہی اسے دوبارہ گرہ لگا دی۔
صمد کی ماں سمجھ گئیں؛ مگر انہوں نے کچھ نہ کہا۔ میری ماں نے اپنے ہونٹ کاٹے اور خفگی سے مجھے اشارہ کیا کہ میں شکریہ ادا کروں، مسکراؤں اور کہوں کہ بہت اچھے کپڑے ہیں اور مجھے بہت پسند آئے ہیں۔ لیکن میں کچھ نہ بولی اور منہ بنا کر ایک طرف کو جا بیٹھی۔
صمد کی ماں چلی گئیں اور انہوں نے جا کر سب کچھ صمد کو بتا دیا تھا۔ کچھ دن بعد صمد آیا۔ اس نے سر پر ٹوپی پہن رکھی تھی تا کہ اس کا گنجا پن ظاہر نہ ہو۔ اس کے ہاتھ میں ایک بیگ بھی تھا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ ہمیشہ کی طرح مسکرا دیا اور بیگ میرے ہاتھ میں دے کہنے لگا: ’’لو، یہ تمہارے لیے ہے۔‘‘
میں نے کچھ کہے بغیر بیگ لیا اور تہہ خانے میں بنے کمروں میں سے ایک کمرے کی طرف بھاگ گئی۔([2]) وہ مجھے آواز دیتے ہوئے میرے پیچھے آ گیا۔ اس نے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر اپنی جیب سے ایک کاغذ نکالا اور کہا: ’’قدم! خدا کا واسطہ، مجھ سے مت بھاگو۔ دیکھو، یہ چھٹی کا اجازت نامہ ہے۔ میں نے فقط تم سے ملنے کے لیے چھاؤنی سے چھٹی لی ہے۔‘‘
میں نے کاغذ کی طرف دیکھا؛ لیکن چونکہ لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا اس لیے مجھے کچھ سمجھ نہ آیا۔ گویا صمد بھانپ گیا تھا۔ کہنے لگا: ’’میری چھٹی کا اجازت نامہ ہے۔ ایک دن کی چھٹی تھی، دیکھو میں نے ایک کو دو کر دیا تا کہ ایک دن مزید ٹھہر جاؤں اور تم سے مل سکوں۔ اللہ کرے کسی کو سمجھ نہ آئے۔ اگر کسی کو پتا چل گیا کہ میں نے اس کاغذ پر اپنی استادی دکھائی ہے تو میرا حشر نشر کر دیں گے۔‘‘
میں ڈر رہی تھی کہ اگر اس دوران کوئی آ گیا اور اس نے ہمیں باتیں کرتے ہوئے دیکھ لیا تو کیا ہو گا۔ میں نے کچھ نہ کہا اور کمرے میں چلی گئی۔ نہیں معلوم وہ کمرے میں کیوں نہ آیا۔ وہی دروازے کے سامنے ہی سے کہنے لگا: ’’پس کم از کم مجھے یہ تو بتاؤ کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ اگر میں تمہیں اچھا نہیں لگتا تو بتا دو تا کہ میں کچھ اور سوچوں۔‘‘
اس بار بھی میرے پاس جواب دینے کے لیے کچھ نہ تھا۔اس کمرے میں ایک دروازہ تھا جو دوسرے کمرے میں کھلتا تھا۔ میں اس کمرے میں چلی گئی۔ صمد خدا حافظ کہے بغیر چلا گیا۔ بیگ میرے ہاتھ میں تھا۔ میں ایک طرف بیٹھ گئی اور اسے کھول کر دیکھنے لگی۔ اس نے کچھ قمیصیں، زنانہ لباس اور کچھ مقنعے میرے لیے خریدے تھے۔ مجھے اس کا انتخاب اچھا لگا۔ نہیں معلوم مجھ میں اتنی جرأت کیسے آ گئی۔ میں نے کپڑوں کو جمع کیا، بیگ میں ڈالا، اس کی زنجیری بند کی اور صحن کی طرف دوڑ پڑی۔ صمد وہاں نہیں تھا۔ وہ جا چکا تھا۔
اگلے دن وہ نہ آیا۔ اس سے اگلے دن اور پھر بعد کے دنوں میں بھی وہ نہیں آیا۔ میں اس کے لیے تھوڑا تھوڑا پریشان ہونا شروع ہو گئی تھی۔ کسی کو اپنے دل کا حال نہیں بتا سکتی تھی۔ ماں سے بھی صمد کے بارے میں پوچھتے ہوئے شرم آتی تھی۔ ایک دن میں چشمے پر گئی تو عورتوں سے سنا کہ چھاؤنی میں ریڈ الرٹ کی کیفیت ہے اور کسی کو بھی چھٹی نہیں دے رہے۔ بابا، شاہ([3]) کے خلاف ہونے والے مظاہروں کا تذکرہ گھر میں کر رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ اکثر شہروں کو فوج نے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے اور لوگ شاہ اور اس کی حکومت کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔ لیکن ہمارا گاؤں پُر امن تھا اور لوگ سکون سے اپنی زندگی کے روزمرہ معمولات میں مشغول تھے۔
آخری بار صمد کو دیکھے ایک ماہ گزر چکا تھا۔ اس دن خدیجہ اور میرا بھائی ہمارے گھر میں تھے۔ ہم لوگ ڈیوڑھی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ دوسرے دیہاتی گھروں کی طرح ہمارے گھرکا دروازہ بھی رات کے علاوہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا۔ میں نے سنا کہ دروازے کے پیچھے کوئی ’’یا اللہ۔۔۔ یا اللہ۔۔۔‘‘ کی آواز دے رہا ہے۔([4]) وہ صمد تھا۔ پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ اس کی آواز سنتے ہی میری حالت اور ہو گئی تھی۔ دل دھڑکنےلگا تھا۔ میرا بھائی ایمان جلدی سے دروازے پر گیا اور سلام و احوال پرسی کے بعد صمد کو اندر آنے کا کہا۔ صمد نے مجھے دیکھا تو ہمیشہ کی طرح مسکرا کر سلام کیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میرے چہرے پر آگ لگ گئی ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ میرے گالوں پر کسی نے دو گرم گرم چمچے رکھ دیے ہوں۔ میں نے سر جھکا لیا اور کمرے میں چلی گئی۔ خدیجہ نے صمد کو اندر آنے کا کہا۔ جب وہ آیا تو میں کمرے سے باہر چلی گئی۔ مجھے شرم آ رہی تھی کہ اپنے بھائی کے سامنے صمد سے بات کروں یا جس کمرے میں وہ بیٹھا ہے میں بھی اسی میں بیٹھوں۔ صمد ایک گھنٹے تک ٹھہرا اور میرے بھائی اور بھابی سے باتیں کرتا رہا۔ جب وہ مجھے دیکھنے سے نا امید ہو گیا تو کھڑا ہوا اور رخصت کے لیے خداحافظ کہا۔ڈیوڑھی میں مجھے دیکھا تو کنایہ آمیز لہجے میں کہنے لگا: ’’معذرت چاہتا ہوں، میں مخل ہوا اور تمہیں تکلیف دی۔ بابا اور شیرین جان کو سلام کہنا۔‘‘
خدیجہ نے مجھے بلایا اور کہا: ’’قدم! تم نے پھر بے وقوفی کر دی۔ اندر کیوں نہ آئیں۔ بے چارہ! دیکھو تو، تمہارے لیے کیا لے کر آیا ہے۔‘‘ خدیجہ نے اس بڑے بیگ کی طرف اشارہ کیا جو اس کے ہاتھ میں تھا، اور کہنے لگی: ’’پاگل! یہ وہ تمہارے لیے لایا ہے۔‘‘
میں صمد کو دیکھ کر اتنی حواس باختہ ہو چکی تھی کہ اس کے ہاتھ میں موجود بیگ کو اصلاً دیکھ ہی نہ پائی تھی۔ خدیجہ نےمیرا ہاتھ پکڑا اور کمرے کے اندر والے کمرے میں مجھے لے گئی۔ ہم نے کمرے کے دروازے کواندر سے کنڈی لگا لی اور بیگ کھول دیا۔ صمد نے بیگ کے اندر والے حصے پر اپنی ایک بڑی تصویر چپکا رکھی تھی اور اس کے اردگرد ٹیپ لگا دی تھی۔ تصویر دیکھ کر میں اور خدیجہ ہنسنے لگیں۔ بیگ کپڑوں اور ملبوسات سے بھرا ہوا تھا۔ کپڑوں کے اندر اس نے دلہنوں والے کچھ خوشبودار صابن رکھ دیے تھے تا کہ سارے کپڑوں میں خوشبو بھر جائے۔
ملبوسات پورے سلیقے سے تہہ کیے گئے تھے۔ خدیجہ نے مذاق شروع کر دیا: ’’مرتی مرو، تم کتنی خوش قسمت ہو۔ وہ تمہیں کتنا پسند کرتا ہے۔‘‘
ایمان جو ہمارے پیچھے پیچھے آ گیا تھا، دروازہ کھٹکھٹائے جا رہا تھا۔ میں ڈر کر اٹھی اور کہا: ’’خدیجہ! آؤ بیگ کو کہیں چھپا دیں۔‘‘
خدیجہ نے تعجب سے پوچھا: ’’چھپا کیوں دیں؟!‘‘
مجھے شرم آ رہی تھی کہ ایمان بیگ کو آ کر دیکھے گا۔ میں نے کہا: ’’اگر ایمان نے صمد کی تصویر دیکھ لی تو وہ یہ سمجھے گا کہ میں نے بھی اسے اپنی تصویر دے رکھی ہے۔‘‘
ایمان نے دوبارہ دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا: ’’دروازہ بند کیوں کیا ہوا ہے؟! کھولو، میں بھی دیکھوں۔‘‘
میں اور خدیجہ نے کوشش کی کہ تصویر کو اکھاڑ لیں مگر وہ نہ اکھڑی۔ ایسا لگتا تھا کہ صمد نے تصویر کے نیچے بھی ایلفی یا گوند وغیرہ لگا دی تھی کہ اتنی آسانی سے اترنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ خدیجہ نے مذاق کرتے ہوئے کہا: ’’دیکھو، مجھے تو لگتا ہے کہ اس نے میجک بونڈ کے ساتھ تصویر چپکائی ہے۔ کس قدر خود پسند ہے۔‘‘
ایمان دروازے کو ایسے کوٹے جا رہا تھا کہ جیسے اسے اکھاڑنے پر تلا بیٹھا ہو۔ ہم نے دیکھا کہ کوئی چارہ نہیں ہےا ور تصویر کو کسی بھی صورت میں اکھاڑا نہیں جا سکتا تو بیگ کو بند کیا اور کمرے کے ایک کونے میں اوپر نیچے رکھے گئے بستروں میں چھپا دیا۔خدیجہ نے دروازہ کھولا۔ ایمان کی چھٹی حس بیدار ہو چکی تھی کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ اندر آتے ہی اس نے نظروں سے پورے کمرے کو ٹٹولا اور پوچھا: ’’وہ بیگ کہاں ہے۔ صمد قدم کے لیے کیا لایا تھا؟!‘‘
میں نے آہستگی سے خدیجہ سےکہا: ’’اگر تم نے اس بات کی ہوا بھی لگنے دی تو تمہاری خیر نہیں۔‘‘
خدیجہ نے ایمان کو ٹال دیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے سے باہر لے گئی۔
([1]) ایران میں اٹھارہ سال سے اوپر ہر مرد کے لیے دو سال تک فوج میں اپنی خدمات پیش کرنا ضروری ہوتا ہے، سوائے ان افراد کے جو قانونی طور پر مستثنیٰ ہیں۔ اس خدمت کو انجام دیے بغیر وہ بہت سے شہری حقوق سے محروم رہ جاتا ہے۔ ایران میں اس تربیت کو ’’سربازی‘‘ اور فوجی کو ’’سرباز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ سروس پاکستان کے تعلیمی اداروں میں دی جانے والی دفاعی فوجی تربیت جسے این سی سی (نیشنل کیڈٹ کورس) کہا جاتا ہے ، کی طرح ہے۔ ۲۰۰۲ تک پاکستان کے تعلیمی اداروں میں یہ تربیت کسی نہ کسی حد تک رائج تھی۔ پھر 2002 میں جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت نے ملک بھر کے اداروں سے اسے ختم کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ اس تربیت کا مقصد اپنے دفاع، ابتدائی طبی امداد، جنگی حالات میں بہتر نطم و نسق اور ہتھیار چلانے کی بنیادی مہارت کا حصول ہوتا ہے۔
([2]) ہر گھر کے اندر تہہ خانہ بنانا ایرانی گھروں کی تعمیر کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ تہہ خانہ اکثر اوقات ایک مکمل گھر ہوتا ہے جس میں ایک خاندان آرام سے زندگی گزارتا ہے۔
([4]) ایران میں جب مرد کسی گھر میں داخل ہوتے ہیں تو یا اللہ یا اللہ پکارتے ہیں تا کہ گھر کی خواتین اور دوسرے افراد سنبھل جائیں۔
چوتھا باب
دن پے در پے آ رہے تھے اور گزر رہے تھے۔ صمد کبھی تو تھوڑے تھوڑے وقفے سے مجھے ملنے آ جاتا اور کبھی مہینہ مہینہ بھر نظر ہی نہ آتا۔ ملک کے حالات خراب ہو چکے تھے اور شاہ کے خلاف ہونے والے مظاہرے شہروں سے نکل کر گاؤں تک پھیل چکے تھے۔ بہار ختم ہو گئی تھی۔ خزاں آئی اور وہ بھی چلی گئی۔ٹھنڈی اور کڑکڑاتی سردی بھی گزر گئی۔
صمد کی غیر موجودگی میں کبھی تو میں اسے مکمل طور پر بھول جاتی؛ لیکن جیسے ہی وہ آتا تو مجھے ایسا لگتا کہ ابھی میرے اور اس کے درمیان کوئی حادثہ پیش آ جائے گا۔ یہ سوچ کر ہی میں پریشان ہو جاتی؛ مگر بابا کی میری طرف غیر معمولی توجہ میرے دل کے سکون اور خوشی کا باعث بنتی اور جلد ہی مجھے سب چیزیں بھول جاتیں۔
عید([1]) میں زیادہ دن نہیں رہتے تھے۔ ماں نے شام کے کھانے پر اچھا خاصا اہتمام کیا تھا اور رشتہ داروں کو دعوت دی تھی۔سارے گاؤں والے میری ماں کو ایک سگھڑ اور بہترین گھرداری والی خاتون کے نام سے یاد کرتے تھے۔ پورے قایش میں ان جیسا کھانا کوئی بھی نہیں بنا سکتا تھا۔ ان کی محبت سے کوئی بھی سیر نہ ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سب انہیں ’’شیرین جان‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔
اس دن میری بھابھیاں اور بہنیں بھی مدد کرنے کے لیے ہمارے گھر آ گئی تھیں۔
ماں نے صمد کے گھر والوں کو بھی دعوت دے رکھی تھی۔ غروب کے وقت ہم نے دیکھا کہ جس کمرے میں ہم بیٹھے ہوئے تھے اس کی چھت پر کچھ لوگ زور زور سے پاؤں مار کر چل رہے ہیں اور شعر پڑھ رہے ہیں۔ چھت کے درمیان میں ایک دریچہ تھا۔ گاؤں کے سب گھروں کی چھتوں میں اس جیسے دریچے ہوا کرتے تھے۔ بچوں نے آ کر بتایا کہ چھت پر صمد اور اس کے دوست ہیں۔ ہم اسی طرح بیٹھے ان کی آوازیں سن رہے تھے۔ اچانک دیکھا کہ رسی سے بندھی ایک پوٹلی دریچے سے نیچے کمرے میں عین کرسی کے اوپر آ کر لٹک گئی۔
اس دعوت میں میری کچھ سہیلیاں بھی مدعو تھیں۔ انہوں نے تالیاں بجا کر کہا: ’’قدم! اٹھو، پوٹلی کو پکڑو۔‘‘ مجھے اب بھی یقین نہیں ہو رہا تھا کہ صمد میرا دولہا ہے اور یہ پوٹلی اس نے ایک رسم کے تحت اندر اتاری ہے، صرف میرے لیے جو کہ دلہن تھی۔ یہی وجہ تھی کہ میں اپنی جگہ سے نہ ہلی اور انہیں کہا: ’’تم جاؤ، لے لو۔‘‘
میری ایک سہیلی نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے آگے کرسی پر دھکیل دیا اور کہا: ’’جلدی کرو۔‘‘ اب کوئی چارہ نہ تھا۔ میں کرسی پر چڑھی تا کہ پوٹلی کو پکڑ سکوں۔ لگتا تھا کہ صمد مذاق کر رہا ہے۔ اس نے رسی اوپر کی طرف کھینچ لی۔ میں مجبور ہو گئی کہ اپنے پنجوں کے بل اوپر کی طرف اٹھوں؛ لیکن صمد نے دوبارہ رسی اوپر کھینچ دی۔ دریچے سے اس کی ہنسی کی آواز آ رہی تھی۔ میں نے اپنے آپ سے کہا: ’’ابھی تمہیں مزہ چکھاتی ہوں۔‘‘ میں اس طرح جھک گئی کہ صمد کو ایسا لگے کہ میں کرسی سے اترنا چاہتی ہوں۔ میں نے اپنا ایک پاؤں زمین پر رکھ دیا۔ صمد سمجھا کہ مجھے اس کی یہ حرکت اچھی نہیں لگی اور میں پوٹلی کو نہیں پکڑنا چاہتی۔ اس نے رسی کو ڈھیلا چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ میرے سر پر پہنچ گئی۔ میں پلک جھپکتے ہی پلٹی اور پوٹلی کو ہوا میں دبوچ لیا۔ صمد جو یہ کھیل ہار چکا تھا، اس نے رسی کو اور ڈھیلا چھوڑ دیا۔ مہمان خواتین نےمیرے لیے تالیاں بجائیں۔ وہ آگے بڑھیں، خوشی خوشی پوٹلی کو رسی سےجدا کیا اور کمرے کے وسط میں لے جاکر اسے کھول دیا۔
صمد نے اس بار بھی کوئی کمی نہ چھوڑی تھی۔ کرتیاں، شلواریں، لہنگے اور مقنعے کہ جو اس وقت کے تازہ ترین ڈیزائن میں تھے اور خوبصورت اور مہنگے کپڑے، جنہیں دیکھ کر سبھی حیران رہ گئے تھے۔
ماں نے بھی صمد کے لیے کچھ چیزیں خرید رکھی تھیں۔ وہ لے آئیں اور اسی پوٹلی میں رکھ دیں۔ جوتے، انڈرویئر، جورابیں، ایک قمیص، پینٹ کا کپڑا، صابن اور نبات([2]) وغیرہ۔ پوٹلی کو گرہ لگائی اور چھت سے لٹکی رسی کے ساتھ اسے باندھ کر کہا: ’’قدم جان! صمد سے کہو کہ رسی کو کھینچ لے۔‘‘
میں کرسی پر چڑھ گئی؛ لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ میں اسے آواز کیسے دوں؟ یہ پہلی بار تھی کہ مجھے اس کا نام لینا پڑ رہا تھا۔ پہلے تو میں نے رسی کو کئی بار نیچے کی طرف کھینچا لیکن یوں لگتا تھا کہ رسی کی طرف کوئی متوجہ ہی نہیں ہے۔ وہ لوگ چھت پر گا رہے تھے اور رقص کر رہے تھے۔
ماں مسلسل کہے جا رہی تھیں: ’’قدم! جلدی کرو۔ اسے آواز دو۔‘‘ ناچار میں نے آواز دی: ’’آغا۔۔۔ آغا۔۔۔ آغا۔۔۔‘‘
میں اپنی آواز کی لرزش کو محسوس کر رہی تھی۔ خجالت اور شرم سےمیرا پورا بدن ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ کوئی جواب نہ آیا۔ مجبوراً دوبارہ رسی کو کھینچا اور آواز دی: ’’آغا۔۔۔ آغا۔۔۔ آغا صمد!‘‘
میرا دل دھک دھک کر رہا تھا اور سانس سینے میں اٹک کر رہ گیا تھا۔
صمد نے میری آواز سن لی تھی۔ وہ دریچے سے کمرے کی طرف جھانکا۔میں نے اس کا چہرہ دیکھا۔ وہ حیرانی سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ اس نظر اور اس مہربان چہرے کی تصویر نے میرے دل کی دھڑکن تیز کر دی۔ میں نے پوٹلی کی طرف اشارہ کیا۔ وہ ہنس دیا اور خوشی خوشی پوٹلی کو اوپر کی طرف کھینچ لیا۔
چھت پر صمد کے دوست تالیاں بجا اور پاؤں مار رہے تھے۔ اس کے بعد وہ لوگ نیچے اتر آئے اور اس کمرے میں چلے گئے جہاں مرد بیٹھے ہوئے تھے۔
رات کے کھانے کے بعد دونوں خاندانوں نے بیٹھ کر نکاح اور رخصتی کے حوالے سے کچھ امور طے کیے۔
اگلے روز صمد کی ماں ہمارے گھر آئیں اور ہمیں دن کے کھانے کی دعوت دی۔ ماں نے مجھے بلا کر کہا: ’’قدم جان! جاؤ اور اپنی بہنوں اور بھابیوں کو بتا دو کہ گلین خانم نے کل سب کی دعوت کی ہے۔‘‘
میں نے چادر سر پر اوڑھی اور اپنی بہنوں کے گھروں کی طرف چل پڑی۔ گلی میں صمد مل گیا۔ اس نے کندھے پر ایک ٹوکری اٹھا رکھی تھی۔ اس نے جیسے ہی مجھے دیکھا تو ایسا لگا جیسے اسے دنیا جہان کی نعمتیں مل گئی ہوں۔ وہ مسکرا دیا اور ٹھہر گیا۔ ٹوکری کو اس نے زمین پر رکھ کر کہنے لگا: ’’سلام۔‘‘ میں نے پہلی بار اس کے سلام کا جواب دیا؛ لیکن ایسا لگتا تھا کہ میں کوئی گناہ کر بیٹھی ہوں، میرا سارا بدن لرز رہا تھا۔ میں ہمیشہ کی طرح یہاں سے بھی بھاگ کھڑی ہوئی۔
میری بہن اپنے صحن میں تھی۔ میں نے اسے پیغام دیا اور کہا: ’’دوسری بہنوں اور بھابھیوں کو بھی بتا دینا۔‘‘ اس کے بعد سر پر پاؤں رکھ کر گھر کی طرف بھاگ پڑی۔ میں جانتی تھی کہ صمد ابھی تک میرے لیے گلی ہی میں کھڑا ہو گا۔ میں چاہتی تھی کہ ایسے گم ہو جاؤں کہ وہ مجھے تلاش نہ کر سکے۔ راستے میں ماموں مل گئے۔ میں نے انہیں ٹھہرنے کا اشارہ کیا۔ وہ بے چارے کھڑے ہو گئےا ور پوچھنے لگے: ’’کیا ہوا قدم؟! تمہارا رنگ کیوں اڑا ہوا ہے؟!‘‘
میں نے کہا: ’’کچھ بھی نہیں۔ مجھے ذرا جلدی ہے۔ میں گھر جانا چاہتی ہوں۔‘‘ ماموں نے جھک کر گاڑی کا دروازہ کھول دیا اور کہا: ’’اچھا، آؤ تمہیں گھر تک پہنچا آؤں۔‘‘ خدا کو یہی منظور تھا۔ میں گاڑی میں سوار ہو گئی۔ گلی کے موڑ سے جیسے ہی مڑے تو میں نے گاڑی کے عقبی آئینے سے دیکھا کہ صمد ابھی تک گلی ہی میں کھڑا تھا اور حیران ہو کر ہماری طرف دیکھ رہا تھا۔
اب دونوں خاندانوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا اور دعوتیں کرنا شروع ہو گیا۔ کچھ ماہ بعد میرے بابا نے ایک بھیڑ خریدی۔ انہوں نے ایک منت مان رکھی تھی جسے وہ پورا کرنا چاہ رہے تھے۔ ماں نے صمد کے گھر والوں کو بھی دعوت دے رکھی تھی۔ ہم لوگ صبح صبح منی بس پر سوار ہوئے جو بابا کرائے پر لائے تھے۔ بھیڑ کو گاڑی کی ڈگی میں رکھا تا کہ امام زادے کے حرم میں لے جائیں جو وہاں سے تھوڑا سا فاصلے پر تھا۔ گاڑی پہاڑ کے دامن سے گزرتی ہوئی آہستہ آہستہ اوپر کی طرف جا رہی تھی۔
ڈرائیور کہنے لگا: ’’گاڑی اتنا وزن نہیں کھینچ پا رہی۔ بہتر ہےکہ کچھ لوگ اتر جائیں۔‘‘
میں، میری بہنیں اور بھابھیاں اتر گئیں۔ صمد بھی ہمارے پیچھے پیچھے دوڑنے لگا۔ اس کا بہت جی چاہ رہا تھا کہ وہ اس فرصت میں مجھ سے بات کر لے؛ لیکن میں یا تو آگے چلی جاتی یا اپنے بہنوں کے درمیان میں جا کر کھڑی ہو جاتی اور بھابھیوں سے باتیں کرنے لگتی۔ صمد اپنی ساری کوششوں کے رائیگاں جانے پر جھنجلا چکا تھا۔ اس کا کوئی بس نہ چل رہا تھا۔ بالآخر ہم امام زادے کے حرم پہنچ گئے۔ بھیڑ کو ذبح کیا۔ کچھ افراد نے اس کا گوشت جدا کیا اور وہاں پر آس پاس موجود لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ گوشت کا کچھ حصہ دن کے کھانے کے لیے الگ کیا اور آبگوشت([3]) بنانے کے لیے چولہے پر چڑھا دیا۔
حرم کے نزدیک ایک چھوٹا سا باغ تھا جو وقف تھا۔ہم کچھ لوگ باغ میں چلے گئے۔ درختوں پر سرخ سرخ چیریاں دیکھ میں خوشی سے چلائی: ’’آخا، چیریاں!‘‘ صمد گیا اور چیریاں چننے لگا۔ کئی بار اس نے مجھے آواز دی کہ میں جا کر اس کی مدد کروں؛ لیکن ہر بار میں نے خود کو کسی نہ کسی کام میں مصروف کر لیا۔ میری بہن اور بھابھی نے جب یہ صورتحال دیکھی تو وہ اس کی مدد کو پہنچ گئیں۔ صمد نے کچھ چیریاں چن کر میری بہن کو دیں اور کہا: ’’یہ قدم کو دے دینا۔ وہ تو مجھ سے بھاگتی ہی رہتی ہے۔ یہ میں نے اس کے لیے چنی ہیں۔ اس نے خود کہا تھا کہ اسے چیریاں پسند ہیں۔‘‘ عصر تک میں ایک بار بھی صمد کے سامنے نہ ہوئی۔
اس کے بعد صمد کم ہی چھٹی پر آتا تھا۔ماں کہتی تھی: ’’اس کی چھٹیاں ختم ہو گئی ہیں۔‘‘ کبھی کبھار وہ جمعرات یا جمعے کو آتا اور ہماری طرف بھی چکر لگا جاتا۔ ہر بار وہ میرے لیے کوئی نہ کوئی تحفہ لے آتا۔ ایک بار تو وہ سونے کے گوشواروں کی ایک جوڑی لے آیا۔ وہ بہت خوبصورت تھے۔ یہ تو بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اس نے ان کی کافی زیادہ قیمت ادا کی تھی۔ ایک بار کلائی پر باندھنے والی ایک گھڑی لے آیا۔ بابا نے جب وہ گھڑی دیکھی تو کہا: ’’اس کا بہت شکریہ،اسے سنبھال کر رکھنا۔ بہت قیمتی گھڑی ہے۔ اصل جاپانی ہے۔‘‘
آہستہ آہستہ نکاح اور شادی کی باتیں ہونے لگیں۔ رات کے وقت دونوں خاندانوں کے بڑے مل کر بیٹھ جاتے اور رسومات کی ادائیگی کے حوالے سے صلاح مشورہ کرتے رہتے؛ لیکن صمد اور میں نے ابھی تک صحیح سے دو باتیں بھی آپس میں نہیں کی تھیں۔
ایک رات خدیجہ نے اپنے گھر میری دعوت کی۔ دوسری بھابھیاں بھی وہیں تھیں۔ میرے بھائی کھیتوں کو پانی دینے گئے تھے۔ بھابھیوں نے رات کو مل بیٹھنے کے لیے یہ موقع غنیمت جانا تھا۔ جب سونے لگے تو ایک بھابھی نے کہا: ’’قدم! جاؤ بسترے لے آؤ۔‘‘
بسترے ایک تاریک کمرے میں پڑے ہوئے تھے۔ اس کمرے میں بلب نہیں تھا البتہ ساتھ والے کمرے سے آنے والی روشنی نے اسے بھی تھوڑا روشن کر رکھا تھا۔بسترے جس کپڑےمیں لپٹے ہوئے تھے، اسے میں نے ایک طرف کیا تو یوں محسوس ہوا کہ کمرے میں کوئی ہے۔ میں سکتے میں آ گئی اور بہت زیادہ ڈر گئی۔ میں نے سوچا: ’’یقیناً یہ میرا وہم ہے۔‘‘ کپڑا ہٹایا تو ایک حرکت کی آواز سنی۔ میرا دل بند ہونے لگا۔ میں نے کہا: ’’کون ہے؟!‘‘ کمرہ تاریک تھا۔ جتنا بھی آگے پیچھے دیکھتی، کچھ نہ دیکھ پاتی تھی۔
’’میں ہوں، مت ڈرو۔ آؤ بیٹھو۔ میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
وہ صمد تھا۔ میں دوبارہ بھاگنا ہی چاہتی تھی کہ وہ غصے سے بولا: ’’پھر بھاگنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا نا، بیٹھو۔‘‘
میں نے پہلی بار اسے غصے میں دیکھا تھا۔ میں نے کہا: ’’تمہیں خدا کا واسطہ، چلے جاؤ۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ میری عزت خاک میں مل جائے گی۔‘‘
میں رونا چاہتی تھی۔ اس نے کہا: ’’مگر ہم نے کِیا ہی کیا ہے کہ ہماری عزت کا جنازہ نکل جائے گا۔ میں نے کوئی جسارت یا بے ادبی تو نہیں کی۔ تمہاری بھابھیاں جانتی ہیں۔خدیجہ باجی نے مجھے بلایا ہے۔ میں اس لیے آیا ہوں کہ ہم بیٹھ کر بات کر سکیں۔ پاگل لڑکی، ایک ماہ بعد ہماری شادی ہونا طے پا گیا ہے، لیکن ابھی تک ہم نے آپس میں ایک لفظ بھی نہیں کہا سنا گویا میں کوئی جن ہوں اور تم کوئی پاکیزہ ہستی جس کے پاس میں پھٹک بھی نہیں سکتا۔ لیکن یہ محال ہے کہ میں اپنی بات کہے اور تمہارے دل کی بات سنے بغیر شادی کے لیے آمادہ ہو جاؤں۔‘‘
میں بہت ڈر گئی تھی۔ میں نے کہا: ’’میرے بھائی آتے ہی ہوں گے۔‘‘
اس نے بہت ہی مضبوط لہجے میں جواب دیا: ’’اگر تمہارے بھائی آ گئے تو میں خود ان کو جواب دے لوں گا۔ فی الحال تم یہاں بیٹھو اور مجھے بتاؤ کہ تم مجھے پسند کرتی ہو یا نہیں؟!‘‘ میں شرم سے مری جا رہی تھی۔ آخر یہ کیسا سوال تھا۔ میں دل میں خدا کا شکر ادا کر رہی تھی کہ میں اس اندھیرے میں اسے اچھی طرح سے دیکھ نہ سکتی تھی۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔
اس نے دوبارہ پوچھا: ’’قدم! میں نے پوچھا ہے کہ تم مجھے پسند کرتی ہو یا نہیں؟! ایسا تو نہیں ہوگا۔ تم جب بھی مجھے دیکھتی ہو، بھاگ جاتی ہو۔ بتاؤ، میں دیکھوں تو، تم کسی اور کو تو پسند نہیں کرتیں؟!‘‘
’’ہائیں، نہیں، نہیں، خدا کی قسم، یہ کیسی بات کر رہے ہو، میں کسی کو پسند نہیں کرتی۔‘‘
اس کی ہنسی نکل گئی۔ کہنے لگا: ’’دیکھو قدم جان! میں تمہیں بہت پسند کرتا ہوں، لیکن تمہیں بھی چاہیے کہ تم بھی مجھے پسند کرو۔ عشق و تعلق دوطرفہ ہونا چاہیے۔ میں نہیں چاہتا کہ تم زبردستی میری بنا دی جاؤ۔ اگر تم مجھے پسند نہیں کرتیں تو بتا دو۔ یقین کرو کہ بغیر کسی مشکل کے میں سارا معاملہ یہیں ختم کر دوں گا۔‘‘
میں اسی طرح اپنے پاؤں پر کھڑی تھی اور بستروں کے ساتھ ٹیک لگا رکھی تھی۔ صمد میرے سامنے تھا۔ میں اندھیرے ہی میں اسے دیکھے جا رہی تھی۔ میں نے آہستہ سے کہا: ’’میں کسی کو بھی پسند نہیں کرتی۔ فقط، فقط آپ سے شرم آتی ہے۔‘‘
اس نے ایک گہرا سانس لیاا ور کہا: ’’مجھے پسند کرتی ہو یا نہیں؟!‘‘
میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ کہنے لگا: ’’میں جانتا ہوں کہ تم ایک اچھی اور نیک لڑکی ہو۔ مجھے تمہاری یہ پاکیزگی اور شرم و حیا بہت اچھی لگتی ہے۔ لیکن اگر ہم آپس میں بات کر لیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر قسمت میں ہوا تو ہم ایک لمبی زندگی اکٹھی گزاریں گے۔ تم مجھے پسند کرتی ہو یا نہیں؟!‘‘
میں نے اس بار بھی کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے کہا: ’’اپنے ہونے والے شوہر کی جان، جواب تو دو۔ مجھے پسند کرتی ہو یا نہیں؟!‘‘
میں نے آہستہ سے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘
ایسا لگتا تھا کہ وہ اسی ایک لفظ کا منتظر تھا۔ اس نے مجھ سے محبت کا اظہار کرنا شروع کر دیا: ’’جلد ہی میری نوکری ختم ہو جائے گی۔ میں چاہتا ہوں کہ کام کروں، زمین خریدوں اور اس پر اپنا گھر بناؤں۔ قدم! مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ تمہیں میرا سہارا بننا ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ اپنے عقائد پر بات کرنے لگا اور کہا کہ وہ بہت خوشحال ہے کہ میرے جیسی ایک باحجاب اور مومن خاتون اس کی زندگی میں آئی ہے۔
وہ بہت اچھی باتیں کر رہا تھا اور اس کی باتیں میرے لیے خوشی کا باعث بن رہی تھیں۔ اس رات میں نے سوچا کہ اس گاؤں میں صمد جیسا کوئی مرد نہیں ہے۔ میں نے کوئی ایسا مرد نہ دیکھا تھا جو اپنی بیوی سے کہے کہ تم میرا سہارا بنو۔ میں کان لگا کر سنتی رہی اور کبھی کبھار کوئی بات بھی کر دیتی۔ وہ کافی دیر تک میرے ساتھ باتیں کرتا رہا۔ بہت سی چیزوں کے بارے میں، اپنے گذشتہ واقعات، میرے فرار اور اپنی بے چینی، اور یہ کہ وہ کسی آس اور امید سے مجھے دیکھنے کے لیے آتا اور ہمیشہ کی طرح اسے میری بے اعتنائی کا سامنا کرنا پڑتا، لیکن ایک دفعہ تو جیسے اس کچھ یاد آ گیا۔ کہنے لگا: ’’میرا خیال ہے کہ تم بسترے لینے آئی تھیں۔‘‘
وہ صحیح کہہ رہا تھا۔ میں ہنس دی۔ کمبل اٹھائے اور دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ میں نے دیکھا کہ خدیجہ بغیر بستر اور لحاف ہی کے سو گئی تھی۔ دوسری بھابھیاں بھی صحن میں تھیں۔ وہ اس بات کی گھات میں تھیں کہ کہیں میرے بھائی موقع پر نہ پہنچ جائیں۔
صبح کے چار بجے تھے۔ صمد صحن میں آیا اور تمام بھابھیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بولا: ’’آپ سب لوگوں کا بہت بہت شکریہ۔ اب مجھے سکون مل گیااور تسلی ہو گئی۔ اب میں اطمینان سے نکاح اور شادی کے انتظامات کرتا ہوں۔‘‘
جب وہ رخصت ہوا تو میں دروازے تک اس کے ساتھ گئی۔ یہ پہلی بار تھی کہ میں اسے رخصت کر رہی تھی۔
([1]) یہاں عید سے مراد جشن نوروز ہے۔ نوروز ایران اور اس کے گردونواح میں موجود چند ممالک کے نئے سال کا آغاز ہے جو 21 مارچ کو شروع ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں اس روز کو قومی عید کے طور پر منایا جاتا ہے۔
([2]) مصری جیسی چینی کی ڈلیاں جو ایرانی لوگ چائے کی ساتھ کھاتے ہیں۔
پانچواں باب
گاؤں میں جیسےہی عید آتی ہے تو شادیوں کی رونق شروع ہو جاتی ہے۔ لوگ فصلوں کی برداشت سے فارغ ہوتے ہی اپنے جوانوں کی شادیوں میں مصروف ہو جاتےہیں۔
۳ دسمبر 1977 کا دن تھا۔ ہم صبح جلدی ہی تیار ہو گئے تھے تا کہ نکاح کا خطبہ پڑھوانے کے لیے دمق جا سکیں۔ دمق اس وقت شہر کا مرکز تھا۔ صمد اور ان کے والد ہمارے گھر آئے۔ میں نے سر پر چادر اوڑھی اور بابا کے ساتھ چل پڑی۔ ماں نے دروازے تک آ کر ہمیں رخصت کیا۔ مجھے بوسہ دیا اور سرگوشی میں میرے لیے دعا کی۔ میں بابا کی موٹرسائیکل پر ان کے پیچھے بیٹھ گئی جبکہ صمد اپنے بابا کی موٹر سائیکل پر ان کے پیچھے۔ دمق میں فقط ایک ہی دفتر تھا۔ دفتر کا انچارج ایک خوش مزاج سن رسیدہ شخص تھا۔اس نے میرا اور صمد کا شناختی کارڈ لیااور صمد کو تھوڑا سا پریشان کر کے کہنے لگا: ’’جاؤ اور خدا کا شکر کرو کہ تمہاری دلہن کے شناختی کارڈ پر اس کی تصویر نہیں ہے، جس کی وجہ سے میں تمہارا نکاح نہیں پڑھ سکتا۔ لہٰذا اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاؤاور اپنے آپ کو اس خطرے میں نہ ڈالو۔‘‘
ہم اس کے اس مذاق پر ہنس پڑے؛ لیکن جب متوجہ ہوئے کہ انچارج واقعاً سنجیدہ ہے اور بغیر تصویر والے شناختی کارڈ پر ہر گز نکاح کا خطبہ جاری کرنے پر آمادہ نہیں ہے تو پہلے تو ہم کافی پریشان ہوئے مگر پھر خالی ہاتھ لوٹنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا اور اپنی اپنی موٹرسائیکلوں پر بیٹھ کر قایش واپس آ گئے۔ سب حیران تھے کہ ہم اتنی جلدی واپس کیوں آ گئے ہیں۔ ہم نے انہیں سارا ماجرا کہہ سنایا۔ موٹرسائیکلوں کو گھر میں کھڑا کیا اور منی بس پر سوار ہو کر ہمدان چلے گئے۔
سہ پہر کے وقت ہم پہنچے۔ صمد کے والد نے کہا: ’’بہتر ہے کہ پہلے تصویر بنوا لیں۔‘‘
ہمدان میں ایک بہت ہی بڑا، خوبصورت اور قابلِ دید چوراہا تھا۔ چوراہے کے بیچ کی جگہ سبزے اور پھولوں سے بھری ہوئی تھی۔ ان کے درمیان ایک بڑا سا حوض بھی تھا جو پانی سے لبالب بھرا ہوا تھا۔ اس حوض کے درمیان میں ایک پتھریلی سطح پر گھوڑے پر سوار شاہ کا مجسمہ نصب تھا۔ گھوم پھر کر تصویریں بنانے والا ایک فوٹوگرافر وہاں تصویریں بنا رہا تھا۔ صمد کے والد کہنے لگے: ’’بہتر ہے کہ یہیں تصویر بنوا لیتے ہیں۔‘‘ وہ گئے اور فوٹوگرافر سے بات کرنے لگے۔ فوٹوگرافر نے میری طرف اشارہ کر کے کہا کہ میں سترہ لیٹر تیل والے ایک کنستر پر بیٹھ جاؤں جو شمشاد کے درختوں کے پاس پڑا تھا۔ فوٹوگرافر سٹینڈ پر لگے اپنے کیمرے کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ سیاہ کپڑا جو اس نے کیمرے کے ساتھ لگا رکھا تھا، اٹھایا اور اپنے سر پر رکھ لیا۔ پھر اپنا ہاتھ ہوا میں لے جا کر ٹھہرا لیا اور کہا: ’’یہاں دیکھو۔‘‘ میں بیٹھ گئی اور بت بنی فوٹوگرافر کے ہاتھ کی طرف ٹک ٹک دیکھنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد فوٹوگرافر سیاہ کپڑے سے باہر نکلا اور کہنے لگا: ’’آدھے گھنٹے بعد تصویر تیار ہو جائے گی۔‘‘ ہم تھوڑی دیر کے لیے چوراہے پر گھومنے پھرنے لگ گئے یہاں تک کہ تصویر تیار ہو گئی۔ صمد کے والد نے تصویر لی اور مجھے دے دی۔ میں اس میں بہت بری اور بھدی لگ رہی تھی۔ میں نے بابا کی طرف دیکھ کر کہا: ’’بابا! یعنی میری شکل ایسی ہے؟!‘‘
بابا نے بھی ناگواری سے فوٹوگرافر سے کہا: ’’جناب، یہ تصویر آپ نے ایسے کیوں لی؟ میری بیٹی کی شکل ایسی تو نہیں ہے۔‘‘
فوٹوگرافر نے کچھ نہ کہا۔ وہ پیسے گننے میں مشغول تھا؛ لیکن صمد کے والد نے کہا: ’’بہت ہی خوبصورت تصویر ہے میری پیاری بہو، اس میں تو کوئی خرابی نہیں ہے۔‘‘
میں نے تصویر کو اپنے بیگ میں رکھا اور پھر ہم سب صمد کے والد کے دوست کے گھر کی طرف چل دیے۔ رات وہاں بسر کی۔ بابا علی الصبح چلے گئے اور شناختی کارڈ پر میری تصویر لگوا لائے۔ پھر ہمارے پاس آئے تا کہ اب سب مل کر دفتر جائیں۔دفتر کے انچارج نے ہمارے شناختی کارڈ لیے اور بابا سے حق مہر پوچھنے کے بعد کہنے لگا: ’’خانم قدم خیر محمدی کنعان!میں آپ کا وکیل ہوں اور ایک قرآن مجید اور دس ہزار تومان حق مہر کے بدلے آپ کا عقد آغا۔۔۔‘‘ میں نے نکاح خوان کا باقی جملہ نہ سنا۔ میرا دل بے چین ہو رہا تھا۔ میں نے بابا کی طرف دیکھا۔ ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ انہوں نے کئی بار تائید کے انداز میں اپنا سر ہلایا۔ میں نے کہا: ’’اپنے بابا کی اجازت سے، ہاں۔‘‘
نکاح خوان نے ایک بڑا سا رجسٹر میرے اور صمد کے آگے رکھ دیا تا کہ ہم اس پر دستخط کریں۔ میں کبھی سکول نہ گئی تھی اور پڑھنا لکھنا نہیں جانتی تھی لہٰذا جس جگہ نکاح خوان نے نشاندہی کی میں نے وہاں انگوٹھا لگا دیا جبکہ صمد نے دستخط کیے۔
دفتر سے باہر نکلے تو میری کیفیت ہی بدل گئی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی چیز اور کوئی انسان مجھے میرے بابا سے جدا کیے جا رہا ہے۔ اسی وجہ سے میں یہ سارا وقت روہانسی ہو کر اپنے بابا کے پہلو میں کھڑی رہی اور ایک لحظہ کے لیے بھی ان سے جدا نہ ہوئی۔
ظہر ہو چکی تھی اور دن کے کھانے کا وقت بھی ہو چلا تھا۔ ہم ایک ہوٹل میں چلے گئے۔ صمد کے والد نے دیزی([1]) کا آرڈر دے دیا۔ میں اور بابا ایک دوسرے کے پاس بیٹھ گئے۔ صمد نے اس اندازمیں کہ کوئی متوجہ نہ ہو، مجھے اشارہ کیا کہ میں اس کے پاس جا کر بیٹھوں۔ میں نے ایسا ظاہر کیا کہ مجھے اس کی بات سمجھ نہیں آ رہی۔ اس کے پاؤں ایک جگہ نہیں ٹک رہے تھے۔ مسلسل ادھر سے ادھر ہو رہا تھا۔ وہ میری میز کے پاس آکر ٹھہر جاتا اور کہتا: ’’آپ کو کوئی چیز تو نہیں چاہیے؟ کسی چیز کی کمی تو نہیں ہے؟‘‘
بالآخر اس کے والد کو غصہ آ گیا۔ انہوں نے کہا: ’’کیوں نہیں، بس صرف تمہاری کمی ہے۔ تم ادھر آ کر بیٹھ جاؤ۔‘‘
کھانا آ گیا تھا۔ اب میرے لیے یہ مسئلہ پیدا ہو گیا تھا کہ صمد اور اس کے والد کے سامنے کھانا کیسےکھاؤں؟ اوپر سے آنتیں قل ہو اللہ پڑھ رہی تھیں۔ کوئی چارہ نہ تھا۔ جب سب کھانے میں مشغول ہو گئے تو میں نے اپنی چادر منہ پر کھینچی اور سر اوپر کیے بغیر کھانا شروع ہو گئی اور پھر کھاتی ہی چلی گئی۔ سالن بہت مزے دار تھا۔دن کا کھانا کھانے کے بعد ہم منی بس پر سوار ہوئے اور اپنے گاؤں کو چل دیے۔ صمد نے آہستہ سے اشارہ کیا کہ میں اس کے ساتھ بیٹھوں۔ میں نے آہستہ سے بابا سے کہا: ’’بابا، میں آپ کے پاس بیٹھنا چاہتی ہوں۔‘‘
میں کھڑکی کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ بابا میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ میں جانتی تھی کہ صمد کو میرے رویے سے اذیت پہنچی ہے، اسی لیے گاؤں پہنچنے تک میں نے ایک بار بھی اس کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا حالانکہ وہ ہمارے برابر والی سیٹ پر بیٹھا تھا۔
قایش پہنچے تو سب ہمارے منتظر تھے۔ بہنیں، بھابھیاں اور باقی رشتہ دار، سب لوگ ہمارے گھر آئے ہوئے تھے۔ جیسے ہی انہوں نے مجھے دیکھا تو میری طرف دوڑ پڑے۔ وہ مجھے مبارکباد دے رہے تھے اور میری آنکھیں چوم رہے تھے۔ صمد اور اس کے والد گھر کے دروازے تک ہمارے ساتھ آئے اور وہیں سے رخصت لے کر چلے گئے۔
صمد کے جانے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ یہ ایک دن جو ہم نے اکٹھے گزارا ہے میرا دل اس سے کس قدر مانوس ہو چکا ہے۔ مجھے اچھا لگ رہا تھا کہ وہ ہوتا اور میرے پاس ہوتا۔ رات تک میری آنکھیں دروازے پر لگی رہیں۔ میں منتظر رہی کہ جب بھی دروازہ کھلے تو وہ ہمارے گھر میں داخل ہو، مگر وہ نہ آیا۔
اگلے روز جب ہم لوگ ناشتہ کر رہے تھے تو مجھے کچھ اچھا محسوس نہ ہوا۔ میں اپنے بابا سے شرما رہی تھی۔ میں جو کہ بچپن سے ان کی گود میں بیٹھ کر یا ان کے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کرتی تھی، اب ایسا محسوس کر رہی تھی کہ میرے اور ان کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ پیدا ہو گیا ہے۔ بابا کچھ سوچ رہے تھے اور سر نیچے کیے، بغیر کچھ کہے ناشتہ کرنے میں مصروف تھے۔
تھوڑی دیر بعد بابا گھر سے باہر نکل گئے۔ تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ مجھے ماں کی آواز سنائی دی۔ وہ صحن میں کھڑی مجھے پکار رہی تھیں: ’’قدم! آؤ، صمد آیا ہے۔‘‘
مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیسے میں دو دو سیڑھیوں کو ایک ایک کر کے اتری اور پاؤں میں ایک جوتا اور، دوسرے میں اورپہنے، بدحواسی کے عالم میں صحن تک پہنچی۔صمد نے فوجی لباس پہن رکھا تھا۔ اس کا بیگ اس کے ہاتھ میں تھا۔ پہلی بار میں نے اس سے پہلے اسے سلام کیا۔ وہ مسکرا دیا اور پوچھا: ’’کیسی ہو؟!‘‘
میری حالت اچھی نہ تھی۔ میرا دل اتنی جلدی اس کے لیے پریشان ہو گیا تھا۔ وہ کہنے لگا: ’’میں چھاؤنی جا رہا ہوں۔ میری چھٹی ختم ہو گئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ شادی تک ہم ایک دوسرے سے ملاقات نہ کر سکیں۔ اپنا خیال رکھنا۔‘‘
مجھے رونا آ گیا تھا۔ جب وہ چلا گیا تو میں ان موٹے موٹے آنسوؤں کی طرف متوجہ ہوئی جو بے اختیار میرے رخساروں پر پھسلتے چلے جا رہے تھے۔ میرا چہرہ بھیگ چکا تھا۔میں اپنے آنسؤوں کو ضبط کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور نہیں چاہتی تھی کہ کوئی مجھے اس حال میں دیکھ لے۔ میں باغیچے کی طرف چلی گئی اور اسی درخت کے نیچے بیٹھ کر رونے لگی جہاں منگنی کے بعد پہلی دفعہ اسے دیکھا تھا۔
اگلے روز شادی کی خصوصی رسومات یکے بعد دیگرے شروع ہو گئیں؛دلہن کا جوڑا، دلہن کی تیاری، دولہے کے گھر جہیز پہنچانا۔
بابا نے میرا جہیز تیار کر لیا تھا۔ بےچارے میرے بابا نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ چینی سے بنے کھانےکے برتنوں کا ایک پورا سیٹ، دو بیڈ، قالین، ایک چولہا، سلائی مشین اور باورچی خانے کے دوسرے لوازمات وغیرہ۔
پھر ایک روز ہمارے رشتہ دار جمع ہوئے۔ خوشی خوشی میرے جہیز کا سامان پک اپ پر لادا اور میرے سسرال لے گئے۔ وہاں جا کر ایک کمرے میں سارا سامان چن دیا۔ اس کے بعد وہ کمرا میرا اور صمد کا ہو گیا۔
([1]) ایران میں پتھر یا مٹی سے بنی سلنڈر شکل کی مخصوص ہانڈی جس میں عام طور پر فقط گوشت کا سالن ایک خاص طریقے سے پکایا جاتا ہے۔
چھٹا باب
جس دن رخصتی ہونا تھی، اس سے ایک رات پہلے صمد بھی اپنی چھاؤنی سے آ گیا تھا۔ آدھی رات تک وہ مختلف بہانوں سے ہمارے گھر آتا رہا۔
اگلے روز میرا بھائی ایمان میرے پاس آیا۔ اس نے سرخ رنگ کی پک اپ نئی نئی خریدی تھی۔ اس نے مجھے اپنی گاڑی پر بٹھایا۔ بھابھی خدیجہ میرے ساتھ بیٹھ گئی۔ میں نے اپنا سر نیچے کر رکھا تھا، لیکن چادر اور سرخ جالی جو میں نے اپنے چہرے پر ڈال رکھی تھی، سے باہر کا نظارہ کر سکتی تھی۔ گاؤں کے بچے شور شرابا مچاتے اور خوشی سے اچھلتے کودتے گاڑی کی طرف بھاگ رہے تھے۔ کچھ تو گاڑی کے پچھلے حصے پر سوار بھی ہو گئے تھے۔ بچوں کے پاؤں کی آوازوں اور ان کے اوپر تلے اچھلنے کی وجہ سے گاڑی ہچکولے کھا رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ گاؤں کے سارے بچے گاڑی پر چڑھ گئے ہیں۔ میرے بھائی کا دل اپنی نئی گاڑی کی لیے پریشان ہو رہا تھا۔ وہ کہنے لگا: ’’ابھی گاڑی کی چھت نیچے آ جائے گی۔‘‘ صمد کا گھر ہمارے گھر سے چند گلیوں کے فاصلے پر تھا۔
شیرین جان جو اس بات کی طرف متوجہ ہی نہ ہو پائی تھیں کہ میں کب گاڑی پر سوار ہوئی ہوں، گھبرائی ہوئی میری طرف آئیں۔ وہ میرے صدقے واری ہوئی جا رہی تھی۔ اسی حالت میں انہوں نے مجھے گاڑی سے اتارا اور خود درود و سلام پڑھتے ہوئے قرآن کے سائے سے مجھے گزارا ۔ بابا کی کوئی خبر نہ تھی۔ اگرچہ ہمارے گاؤں میں یہ رسم نہیں تھی کہ دلہن کا باپ شادی میں حتماً شرکت کرےمگر پھر بھی میرا دل چاہ رہا تھا کہ اس وقت بابا میرے پاس ہوں۔ میں اپنی بھابھی خدیجہ کی مدد سے گاڑی پر سوار ہو گئی، جبکہ میں اور شیرین جان مسلسل روئے جا رہی تھیں اور ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونا چاہتی تھیں۔ خدیجہ نے جس وقت مجھے اور میری ماں کو روتے دیکھا تو وہ بھی رونے لگی۔ بالآخر گاڑی چل پڑی اور میں اور شیرین جان ایک دوسرے سے جدا ہو گئیں۔ صمد کا گھر آنے تک میں اور خدیجہ روتی ہی رہی تھیں۔
جب ہم پہنچے تو دولہا کے رشتہ دار جو ہمارے آنے کے منتظر تھے، ہماری گاڑی کی طرف جلدی سے بڑھے۔ انہوں نے گاڑی کا دروازہ کھول کر میرا ہاتھ پکڑ لیا تا کہ میں اتر سکوں۔ حرمل کی خوشبو پوری گلی میں پھیلی ہوئی تھی۔ لوگ صلوات پڑھ رہے تھے۔ ایک مرد رشتہ دار، جس کی آواز بہت اچھی تھی، پیغمبر اعظم حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی شان میں لکھے گئے خوبصورت اشعار پڑھ رہا تھا اور باقی سارے لوگ درود و سلام پڑھ رہے تھے۔
صمد چھت پر چلا گیا تھا اور وہ اور اس کے شہہ بالے مل کر گلی میں انار، قند، اور نبات پھینک رہے تھے۔ میں انتظار کرتی رہی کہ کوئی نبات یا انار میرے سر پر بھی گرے مگر صمد کا جی نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ میری طرف کوئی چیز پھینکے۔ شادی کی تقریب کے اگلے مرحلے میں مہمانوں کو کھانا پیش کیا گیا۔ سہ پہر کے وقت مہمان اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے جبکہ قریبی رشتہ دار ٹھہر گئے اوررات کے کھانے کا بندوبست کرنے لگے۔
پہلے دن صمد اور میں شرم کے مارے کمرے سے باہر ہی نہ نکلے۔ ناشتہ، دن اور رات کا کھانا؛ تینوں وقت صمد کی ماں طبق میں کھانا رکھ کر لے آئیں اور ہر بار صمد کو آواز دےکر چلی گئیں: ’’کھانا دروازے کے پاس پڑا ہے۔‘‘
ہم تو اسی چیز کی تاک میں بیٹھے ہوتے تھے۔ جب اطمینان ہو جاتا کہ اب باہر کوئی نہیں ہے تو طبق اٹھا لاتے اور کھانا کھا لیتے۔
ہمارے ہاں یہ رسم تھی کہ دوسری رات دلہا کے گھر والے دلہن کے گھر والوں سے ملنے جاتے تھے۔ اس دن سہ پہر ہی سے میں بے تاب تھی اور کپڑے وپڑے پہن کر ، تیار ہو کر کمرے میں بیٹھ گئی۔ میں چاہتی تھی کہ سب کو معلوم ہو جائے کہ میرا دل اپنے بابا اور ماں کے لیے کتنا پریشان ہے تاکہ وہ لوگ زیادہ دیر نہ لگائیں۔ بالآخر رات کا کھانا کھا کر ہم لوگ جانے کے لیے تیار ہو گئے۔
مجھے پَر لگ گئے تھے۔ دل چاہتا تھا کہ سب سے زیادہ تیز دوڑوں تاکہ جلدی جلدی پہنچ جاؤں۔ یہی وجہ تھی کہ میں آگے آگے چل رہی تھی اور صمد میرے پیچھے پیچھے میری چادر کھینچتے ہوئے آ رہا تھا۔
جب ہم بابا کے گھر پہنچ گئے تو مجھے اپنے آپ پر قابو نہ رہا۔ جیسے ہی بابا پر نظر پڑی، اپنے آپ کو ان کی آغوش میں گرا دیا اور ہمیشہ کی طرح انہیں بوسے دینا شروع ہو گئی۔ پہلی دائیں آنکھ، پھر بائیں آنکھ، پھر دائیں بائیں رخسار، ناک کی نوک حتی کہ ان کے کانوں تک پر بوسے دے دیے۔ شیرین جان ایک طرف کھڑی رو رہی تھیں اور زیر لب کہہ رہی تھیں: ’’خدا تجھے کبھی مایوس نہ کرے، میری پیاری بیٹی۔‘‘
صمد کے گھر والے تعجب سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ وہ اس لیے کہ پورے قایش میں ایسی کوئی بیٹی نہ تھی جو سب کے سامنے اپنے بابا کو اس طرح بوسے دے رہی ہو۔ وہ چند گھنٹے جو میں اپنے بابا کے گھر میں رہی مجھے ایک اور ہی طرح کا احساس ہو رہا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میں ابھی ابھی دنیا میں آئی ہوں۔ تھوڑی دیر بابا کے پاس بیٹھتی، ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیتی اور انہیں اپنی آنکھوں پر لگاتی یا بوسے دیتی۔ کبھی شیرین جان کے پاس جا کر بیٹھ جاتی، انہیں بانہوں میں بھر لیتی اور ان کے صدقے واری جاتی۔
بالآخر واپسی کا وقت آ گیا۔ بابا اور ماں سے جدا ہونا بہت ہی سخت مرحلہ تھا۔ دروازے تک کئی بار گئی اور پلٹ آئی۔ میں بابا کو مسلسل بوسے دیے جا رہی تھی اور ماں کو ان کے بارے میں ہدایات دے رہی تھی: ’’شیرین جان! میرے بابا کا خیال رکھنا۔ بابا کو میں آپ کے حوالے کر کے جا رہی ہوں۔ پہلے خدا اور اس کے بعد آپ اور بابا۔‘‘
جس کیفیت میں مَیں بابا کے گھر آئی تھی، اب واپسی پر اس کے برعکس آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے کی وجہ سے دوسروں سے کافی پیچھے رہ گئی تھی۔ دوسروں کی نظروں سے بچ کر رو رہی تھی۔
صمد کچھ بھی نہیں کہہ رہا تھا۔ اس کا دھیان میری طرف تھا کہ میں کہیں تنگ اور خاک آلود گلیوں میں جگہ جگہ پڑے گڑھوں میں گر نہ جاؤں۔
اگلے روز صمد چلا گیا اور اسے جانا بھی تھا کیونکہ وہ فوجی تھا۔ اس کے جانے سے گھر میرے لیے زندان کا سا ہو گیا۔ صمد کی ماں حمل سے تھیں۔ میں جو بابا کے گھر میں کسی کام کو ہاتھ نہ لگاتی تھی، اب مجبور تھی کہ برتن دھوؤں، جھاڑو لگاؤں اور دس بارہ افراد کے لیے آٹا گوندھوں۔ میرے ہاتھ چھوٹے تھے اور آٹے کو اچھی طرح الٹ پلٹ نہیں سکتی تھی تا کہ وہ اچھی طرح سے گندھ جائے۔
اکتوبر کا مہینہ تھا۔ ہوا ٹھنڈی ہو گئی تھی اور درختوں کے پتے جو زرد اور خشک ہو چکے تھے، صحن میں گرتے رہتے تھے۔ مجھے ہر روز کافی دیر تک اس ٹھنڈی ہوا میں رہ کر ان پتوں کو جھاڑو سے اکٹھا کرنا پڑتا تھا۔
ہماری شادی کو دو ہفتے گزر چکے تھے۔ ایک روز صمد کی ماں اپنی بیٹی کے گھر گئیں اور مجھ سے کہا: ’’میں شہلا کے گھر جا رہی ہوں، تم رات کا کھانا تیار کر دینا۔‘‘
ان دو ہفتوں میں کھانا پکانے کے علاوہ میں ہر کام کر چکی تھی۔ اب کوئی چارہ نہ تھا۔ میں باورچی خانے میں چلی گئی، جو گھر کے صحن میں تھا۔ میں نے مٹی کے تیل والا چولہا جلایا اور ایک دیگچے میں پانی ڈال کر اسے ابلنے کے لیے چولہے پر چڑھا دیا۔ چولہے کی آنچ مسلسل کم اور زیادہ ہو رہی تھی اس لیے مجھے مجبوراً جلدی جلدی پمپ چلانا پڑتا تا کہ چولہا بجھ نہ جائے۔([1])
بالآخر پانی ابل گیا۔ چاول جو میں نے صاف کر کے دھو دیے تھے، وہ اٹھا کر پانی میں ڈال دیے۔ پریشانی سے میرے ہاتھ بے حس ہو چکے تھے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ کس وقت چاولوں کو چولہے سے اتارنا ہے۔ صمد کی بہن کبریٰ میری مدد کرنے لگی۔ میں مسلسل دعا کر رہی تھی کہ پانی سے اچھے چاول باہر نکلیں اور میری آبرو رہ جائے۔ جب چاول تھوڑے سے ابل گئے تو کبریٰ نےکہا: ’’اب ان کا وقت ہو گیاہے۔ چاول اتار لیتے ہیں۔‘‘
ہم دونوں نے ایک دوسرے کی مدد سے چاولوں کو چھلنی میں ڈالا اور ان کا پانی نکال کر انہیں چھان لیا۔ پھر انہیں دم پر لگا کر آلو، گوشت اور پیاز بھوننے لگیں تا کہ پلو([2]) تیار کر سکیں۔
رات ہو گئی تو سب گھر آ گئے۔ میں نے کھانا لگا تو دیا مگر ڈر کے مارے کمرے میں نہ گئی اور باورچی خانے میں ہی بیٹھ کر دعا کرنے لگی۔ کبریٰ نے مجھے آواز دی۔ میں ڈرتی جھجکتی کمرے میں چلی گئی۔
صمد کی ماں دسترخوان پر بیٹھی تھیں۔ پلو کا خالی طبق دسترخوان کے درمیان میں پڑا تھا۔ سب لوگ کھانا کھا رہے تھے اور کہتے جا رہے تھے: ’’واہ واہ، کتنا مزیدار ہے۔‘‘
اگلے روز ایک ہمسائی میری ساس کے پاس آئی۔ میں صحن میں جھاڑو لگا رہی تھی۔ میں نے سنا کہ میری ساس اس ہمسائی کے سامنے میرے کھانے کی تعریفیں کر رہی ہیں: ’’تم نہیں جانتیں، کل رات قدم نے ہمارے لیے کتنا مزیدار کھانا پکایا۔ اس کے پکانے کا کوئی جواب نہیں ہے۔ آخر کیوں نہ ہو، شیرین جان کی بیٹی جو ٹھہری۔‘‘
یہ پہلی دفعہ تھی کہ میں اس گھر میں آرام و سکون کا احساس کر رہی تھی۔
([1]) یہاں وہ چولہا مراد ہے جسے انگریزی میں Primus Stove کہا جاتا ہے۔ اس میں مٹی کا تیل استعمال کیا جاتا تھا اور اس کی آنچ کو زیادہ کرنے یا مسلسل جلائے رکھنے کے لیے اس کے ساتھ منسلک ایک ٹینکی میں پمپ کے ذریعے ہوا بھرنا پڑتی تھی۔
ساتواں باب
ہماری شادی کو دو ماہ ہو چکے تھے۔ صمد کی ماں حمل کے آخری مہینے میں تھیں۔ ہم سب ان کے دردِ زہ کے شروع ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔
سہ پہر کا وقت تھا۔ میں گھر کے کاموں سے ابھی ابھی فارغ ہو ئی تھی اور تھوڑا آرام کرنا چاہتی تھی۔ کبریٰ نے سراسیمہ ہو کر میرے کمرے کا دروازہ کھولا اور کہا: ’’قدم! بھاگو۔۔۔بھاگو۔۔۔ ماں کی حالت بہت خراب ہے۔‘‘
میں گھبرا کر اپنی جگہ سے اٹھی اور اس کمرے کی طرف بھاگی جہاں میری ساس تھیں۔ وہ درد سے دوہری ہوئی جا رہی تھیں۔ میں حواس باختہ ہو گئی۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ میں نے کہا: ’’کسی بندے کو دائی کے پاس بھیجیں۔‘‘
مجھے یاد آ گیا کہ میری بہن اور بھابھی کے وضع حمل کے وقت شیرین جان نے کیا کیا کام کیا تھا۔میں اپنی نند کے ساتھ مل کر ایک بڑا سماور([1]) لے آئی۔ اسے ہم نے کمرے کے ایک کونے میں رکھا اور روشن کر دیا۔ میری ساس کا جب درد کم ہو جاتا تو وہ ہمیں ہدایات دینا شروع ہو جاتیں؛ مثلاً یہ کہ انہوں نے نومولود کے تمام کپڑے الماری میں رکھ دیے تھے یا سارے ناکارہ کپڑےانہوں نے اسی کام کے لیے رکھ چھوڑے تھے۔ صحن کی سیڑھیوں کے نیچے کچھ بڑے طشت اور صاف رومال پڑے ہوئے تھے۔ میں اور میری نند پھرکی کی طرح گھوم رہی تھیں اور جو جو چیزیں ضرورت تھیں انہیں لا لا کر جمع کر رہی تھیں۔
بالآخر دائی آ گئی۔ساس کو اس حالت میں دیکھنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ میں نے ان کی طرف پشت کر لی اور اپنے آپ کو سماور کے ساتھ مشغول کر دیا تا کہ ایسا لگے کہ میں اس کے فتیلے کو کم یا زیادہ کر رہی ہوں۔ یا انہیں ایسا محسوس ہو کہ میں پانی کو دیکھ رہی ہوں کہ گرم ہوا ہے یا نہیں۔ میں اپنی ساس کے نالہ و فریاد سے رونے لگی۔ میں ان کے لیے دعا کر رہی تھی۔ ان کی چیخیں اونچی ہونے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد ایک نومولود کے معصوم اور دلنواز گریے کی آواز پورے کمرے میں پھیل گئی۔
میری ساس کے اردگرد بیٹھی ساری عورتیں خوشی سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ دائی نے بچے کو ایک خوبصورت سفید کپڑے میں لپیٹا اور عورتوں کے حوالے کر دیا۔ سب خوش تھیں اور تھوڑی دیر پہلے اپنے سینوں میں روکی گئی اندیشوں بھری سانسوں کو خوشی سے باہر نکال رہی تھیں۔ لیکن میں ابھی تک کمرے کے کونے میں بیٹھی ہوئی تھی۔ میری نند نے کہا: ’’قدم! گرم پانی سے اس طشت کو بھر دو۔‘‘
میری چھوٹی نند بھی میری مدد کو آ گئی۔ ہم نے جو طشت سماور کی ٹونٹی کے نیچے رکھا ہوا تھا اس کے بھرنے کا انتظار کرنے لگیں۔ اس نے کہا: ’’قدم! آؤ اپنے دیور کو دیکھو۔ بہت ہی پیارا ہے۔‘‘
طشت آدھا بھر چکا تھا۔ ہم نے اسے اٹھایا اور جا کر دائی کے سامنے رکھ دیا۔ میری ساس ابھی تک درد کی وجہ سے کراہ رہی تھیں۔ عورتیں اونچی اونچی آواز میں باتیں کر رہی تھیں۔ دائی نے ایک دفعہ غصے سے کہا: ’’کیا ہو گیا ہے آپ لوگوں کو؟! خاموش رہیں۔زچہ کے سرہانے اتنی باتیں نہیں کرتے۔ مجھے اپنا کام کرنے دیں۔ ایک بچے کی پیدائش میں مشکل ہو رہی ہے۔ یہ جڑواں ہیں۔‘‘
دوبارہ سانسیں تھم گئیں اور کمرے میں پھر ایک گہری خاموشی چھا گئی۔ دائی نے تھوڑی کوشش کی اور مجھے، جو ایک طرف ہو کر کھڑی تھی، آواز دی: ’’بھاگو۔۔۔ بھاگو۔۔۔ کسی گاڑی کا بندوبست کرو۔ اسے ہسپتال لے کر جانا پڑے گا۔ یہ میرے بس کا کام نہیں ہے۔‘‘
میں بھاگ کر صحن میں گئی۔ میرے سسر سیڑھیوں پر بیٹھے تھےا ور ان کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ انہوں نے تعجب سےمجھے دیکھا۔ میں نے جلدی جلدی کہا: ’’بچے جڑواں ہیں۔ ایک تو پیدا ہو گیا ہے جبکہ دوسرے کی پیدائش میں مشکل ہو رہی ہے۔ انہیں شہر لے کر جانا پڑے گا۔ گاڑی! گاڑی کا انتظام کریں۔‘‘
میرے سسر کھڑے ہوئے اور دونوں ہاتھ سر پر مار کر کہنے لگے: ’’یا امام حسینؑ۔‘‘ اور جلدی سے گلی میں نکل گئے۔
تھوڑی دیر بعد میرے بھائی کی گاڑی دروازے پر تھی۔ کچھ خواتین نے مدد کی اور مل کر میری ساس کو آغوش میں لے کر مشکل سے گاڑی میں سوار کیا۔ میری ساس کا درد سے بہت برا حال تھا۔میرے بھائی نے کہا: ’’انہیں رزن([2]) لے جاتے ہیں۔‘‘
کچھ خواتین میری ساس کے ساتھ چلی گئیں۔ پیچھے میں، میری نند کبریٰ اور وہ نومولود رہ گئے تھے جو ابھی ابھی دنیا میں آیا تھا۔ ہمیں کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا کہ اس بچے کو کیسے سنبھالیں۔ اس کے بدن پر ایک لباس تھا اور وہ ایک کمبل میں لپٹا ہوا تھا۔ کبریٰ نے اسی حالت میں اسےمیرے سپرد کرتے ہوئے کہا: ’’تم بچے کو پکڑو، میں پانی میں تھوڑی چینی گھول لوں۔‘‘ میں بچے کو آغوش میں لینے سے ڈر رہی تھی۔ میں نے کہا: ’’بچے کو تمہی پکڑو۔ چینی میں گھولتی ہوں۔‘‘
میں نے اپنی نند کے جواب کا انتظار نہ کیا۔ سماور کی طرف گئی اور ایک کٹورا اٹھا کر سماور کی ٹونٹی کے نیچے رکھ دیا۔ کچھ ٹکڑے قند کے بھی اس میں ڈال دیے اور چمچ سے انہیں حل کر دیا۔ بچہ مسلسل روئے جا رہا تھا۔ سماور قل قل کر رہا تھا اور اس کی بھاپ ہوا میں اڑ رہی تھی۔ میں نے سوچا کہ بہتر ہے کہ اتنے بڑے سماور کو اب بند کر دینا چاہیے، لیکن اس کام کی فرصت نہ تھی۔ فی الحال سب سے زیادہ ضروری، بچہ تھا جو ہلکان ہوئے جا رہا تھا۔
میں نے کٹورا کبریٰ کو دیا۔ اس نے کوشش کی کہ چمچ کے ذریعے پانی بچے کے حلق میں ڈالے لیکن بچہ اسے پی نہیں پا رہا تھا۔ وہ منہ کھول رہا تھا تا کہ اپنی ماں کے سینے سے اپنی غذا حاصل کرے، مگر دھاتی چمچ اس کے ہونٹوں سے لگ کر اسے اذیت پہنچا رہی تھی۔ اسی وجہ سے وہ اور زیادہ رو رہا تھا۔ میری اور کبریٰ کی حالت اس نومولود سے زیادہ اچھی نہ تھی لہٰذا جب ہم نے دیکھا کہ ہم اس بچے کے لیے کچھ بھی نہیں کر پا رہیں تو دونوں رونے لگیں۔
میری ساس نے اسی رات رزن ہسپتال میں دوسرے بچے کو بھی جنم دے دیا۔ دوسرا نومولود بیٹی تھی۔ اگلے دن صبح انہیں گھر میں لے آئے۔ ابھی وہ ٹھیک سے اپنے بستر پر لیٹی بھی نہ تھیں کہ ان کے بیٹے کو ہم نے ان کی بغل میں رکھ دیا تا کہ وہ اسے دودھ پلائیں۔ بچہ پوری اشتہاء اور رغبت سے اور گھونٹ بھر بھر کے دودھ پی رہا تھا۔ خوشی سے ہمارے آنسو نکل آئے تھے۔
جڑواں بچوں کی ولادت کے بعد ہم سب کی زندگی میں ایک تازہ رنگ آ گیا تھا۔ میں اس صورتحال سے بہت زیادہ خوش تھی۔ صمد اپنی ڈیوٹی میں مشغول تھا اور ہفتے میں ایک دن گھر آتا تھا۔ اسی وجہ سے میرا زیادہ تر وقت احساس تنہائی اور بے چینی میں گزرتا تھا۔ لیکن جڑواں بچوں کی پیدائش کے بعد جب گھر میں مہمانوں کا آنا جانا زیادہ ہو گیا تو میرے کام اتنے زیادہ بڑھ گئے کہ مجھے صمد کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہ ملتی۔ میں ہر وقت مہمانوں کی آؤ بھگت کرنے، گھر کی جھاڑ پونچھ کرنے، برتن دھونے، صحن میں جھاڑو لگانے اور کھانا پکانے میں مشغول رہتی۔ رات کو خستہ اور بے حال ہو کر کسی چیز کے بارے میں سوچے بغیر ہی گہری نیند سو جاتی۔
چند ہفتے بعد صمد گھر آیا تو مجھے دیکھتے ہی حیران ہو گیا: ’’قدم! مجھے اپنی جان کی قسم، تم تو بہت کمزور ہو گئی ہو۔ مریض تو نہیں ہو؟‘‘
میں ہنس دی: ’’تمہارے نئے بھائی اور بہن نے تھکا دیا ہے۔‘‘
یہ باتیں تو میں مذاق میں کر رہی تھی لیکن سچی بات تو یہ تھی کہ میں اس سے زیادہ بھی کرنے کے لیے تیار تھی بشرطیکہ میرا شوہر میرے پاس ہی رہے۔ بعض اوقات جب صمد کسی کام کے سلسلے میں باہر چلا جاتا میں ماہی بے آب کی طرح بے تاب ہو جاتی اور اس کے آنے تک ادھر ادھر ہوتی رہتی۔ آنکھیں دروازے پر لگی رہتیں۔ میں اس سے کہتی: ’’کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم یہ دو دن گھر ہی میں رہو اور کہیں اور نہ جاؤ۔‘‘
وہ کہتا کہ مجھے کچھ کام ہوتے ہیں، جنہیں انجام دینا ضروری ہوتا ہے۔
میرا دل اس کےلیے بے چین ہو جاتا۔ وہ پوچھتا: ’’قدم! یہ بتاؤ کہ تم ایسا کیوں چاہتی ہو کہ میں تمہارے پاس ہی رہوں۔‘‘
اسے میرے منہ سے سننا اچھا لگتا تھا کہ میں اس سے محبت کرتی ہوں اور اس کے لیے اداس ہو جاتی ہوں۔
میں سر نیچے کر کے اسے ٹال دیتی۔
وہ کوشش کرتا کہ زیادہ تر میرے پاس ہی رہے۔ وہ میرے کسی کام میں میرا ہاتھ نہیں بٹا سکتا تھا۔ کہتا تھا: ’’یہ بری بات ہے۔ تمہارے لیے اچھا نہیں ہے کہ میں اپنے باپ اور ماں کے سامنے اپنی بیوی کی مدد کروں۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ جب ہم اپنے گھر میں جائیں گے تو میں تمہارے لیے سارے کام کروں گا۔‘‘
وہ میرے پاس بیٹھ جاتا اور کہتا: ’’تم کام کرو اور باتیں کرو، میں تمہیں دیکھتا رہوں گا۔‘‘
میں کہتی: ’’تم باتیں کرو۔‘‘
وہ کہتا: ’’نہیں، تم باتیں کرو۔ مجھے اچھا لگتا ہے کہ تم باتیں کرتی رہو تا کہ جب میں چھاؤنی واپس جاؤں تو تمہاری اور تمہاری باتوں کو یاد کروں اور میرے دل کا اضطراب کچھ کم ہو جائے۔‘‘
صمد آتا اور چلا جاتا اور میں اس کی لازمی فوجی تربیت ختم ہونے اور اس کے بعد اپنی زندگی کو منظم کرنے کی امید لیے سب کچھ برداشت کرنے کی کوشش کرتی رہتی۔
جڑواں بچے آہستہ آہستہ بڑے ہو رہے تھے۔ہم لوگ جب بھی گھر سے باہر جاتے تو ان میں سے ایک میرے حوالے ہوتا تھا۔ میں زیادہ تر حمید کو اپنی آغوش میں لے لیتی۔ جس رات اس نے ہمیں بہت زیادہ تنگ کیا تھا اور روتا رہا تھا، اس رات میں نے اپنے اندر اس کے لیے مادرانہ جذبات محسوس کیے تھے۔ جو لوگ ہمیں دیکھتے تھے وہ مسکراتے ہوئے ہم سے مذاق کرتے: ’’مبارک ہو۔ ہمیں تو پتا ہی نہیں چلا کہ کب تم بھی صاحب اولاد ہو گئی ہو؟!‘‘
ایک ماہ بعد میری ساس کی طبیعت کافی سنبھل گئی اور وہ پہلے والی حالت میں واپس آ گئیں۔ وہ صبح روٹیاں پکانے کے لیے جلدی اٹھ جایا کرتیں۔ میری ذمہ داری یہ تھی کہ ان سے پہلے بیدار ہو کر تنور روشن کروں اور روٹیاں پکنے تک ان کی مدد کروں۔ اسی وجہ سے میں سحر خیز ہو گئی تھی؛ البتہ بعض اوقات میں سوئی رہتی اور میری ساس مجھ سے پہلے بیدار ہو جاتیں اور خود ہی تنور روشن کر کے روٹیاں پکانے لگتیں۔ ایسے موقع پر مجھے صحن میں جانے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ ہر صبح جب میں بیدار ہوتی تو سب سے پہلے کمرے کے پردے کو ایک طرف کر کے باہر کی طرف دیکھتی تھی۔ اگر وہ پائپ جسے ہم تنور روشن ہونے کے بعد اس کی چمنی پر رکھتے تھے، دیوار کے ساتھ پڑا ہوتا تو میں خوش ہو جاتی اور سمجھ جاتی کہ میری ساس ابھی تک بیدار نہیں ہوئیں۔ لیکن اگر وہ چمنی تنور پر ہوتی تو میں بہت زیادہ سوگوار ہو جاتی۔ وہ گھڑی میرے لیے مصیبت اور رنج سے کم نہ ہوتی تھی۔
([1]) پانی گرم کرنے کا دوہرا برتن جو تانبے یا پیتل کا ہوتا ہے۔ جس کے اندر آگ جلتی ہے اور باہر پانی گرم ہوتا ہے۔پاکستان میں تو اس کا استعمال شاید کچھ علاقوں میں ہو مگر ایران میں یہ تقریباً ہر گھر کی ضرورت ہے ۔
آٹھواں باب
سردیاں بھی ختم ہو رہی تھیں۔ مارچ کے دن تھے مگر برف ابھی تک پگھلی نہ تھی۔ گاؤں کی گلیاں مٹی، کیچڑ اور برف سے بھری ہوئی تھیں۔ برف غبار اور گول انگیٹھیوں سے نکالی گئی راکھ کی وجہ سے کالی ہو چکی تھی۔ عورتیں اپنے گھروں کی جھاڑ پونچھ اور گدوں، بستروں اور کپڑوں کی دھلائی ستھرائی میں مصروف ہو گئی تھیں۔ دن کو ہم شیشے صاف کرتے۔ سہ پہر کے وقت آسمان ابر آلود ہو جاتا، آدھی رات کو آسمانی بجلی کڑکتی، بارش آتی اور ہماری پورے دن کی محنت پر پانی پھیر جاتی۔
عید [نوروز] کے آنے میں کچھ زیادہ دن نہ رہتے تھے کہ صمد کی لازمی فوجی تربیت کا دورانیہ ختم ہو گیا۔ میں سوچتی کہ میں قایش کی خوش قسمت ترین لڑکی ہوں۔ پوری رغبت اور عشق کے ساتھ صبح سے لے کر سہ پہر تک گھر میں جھاڑو لگاتی اور سر سے پاؤں تک سارے گھر کو دھو ڈالتی۔ میں اپنے آپ سے کہتی: ’’کوئی بات نہیں۔ اس کے بدلے میں میرے پاس بہترین عیدی ہے۔ میرا شوہر میرے پاس ہے اور ہم اکٹھے اس صفائی ستھرائی اور عید کے انتظامات سے لطف اندوز ہوں گے۔‘‘
صمد آ گیا تھا اور کام کاج کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ وہ گھر میں کم ہی ملتا۔ وہ کوئی اچھا اور مناسب کام ڈھونڈنے کے لیے رزن جاتا رہتا۔
ایک روز صبح جب ہم بیدار ہوئے اور ناشتہ کر چکے تو میری ساس نے ہمارے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سلام و احوال پرسی کے بعد دونوں بچوں کو ایک ایک کر کے لائیں اور کمرے میں رکھ کر صمد سے کہنے لگیں: ’’میں آج تمہاری بہن کے گھر جانا چاہتی ہوں۔ شہلا کو کوئی کام ہے۔ میں چاہتی ہوں اس کا تھوڑا ہاتھ بٹا دوں۔ یہ بچے تو باندھ کر رکھ دیتےہیں۔ ان کا دھیان رکھنا۔‘‘
جاتے ہوئے مجھ سے کہنے لگیں: ’’قدم! ساتھ والا کمرا کافی گندا ہو گیا ہے۔ وہاں جھاڑو لگا دینا اور گردوغبار بھی صاف کر دینا۔‘‘
صمد لباس پہن کر جانے کےلیے آمادہ ہو چکا تھا۔تھوڑی دیر سوچ کر کہنے لگا: ’’کیا تم میں اتنی ہمت ہے کہ بچوں کی دیکھ بھال بھی کرو اور گھر کی صفائی ستھرائی بھی؟!‘‘
میں نے اپنے کندھے اوپر کی طرف اٹھا دیے اور ہونٹ بے ارادہ لٹک گئے۔ میرے جواب دینے سے پہلے وہ خود ہی کہنے لگا: ’’تم ایسا نہیں کر سکتیں کہ گھر کی صفائی بھی کرو اور بچوں کی دیکھ بھال بھی۔‘‘
اس نے اپنا کوٹ اتار دیا اور کہا: ’’میں بچوں کو سنبھالتا ہوں تم کمروں کی صفائی کر لو۔ جب تمہارا کام ختم ہو جائے گا تو میں چلا جاؤں گا۔‘‘
میں نے سوچا کہ ابھی صبح صبح کا وقت ہے اور بچے سوئے ہوئے ہیں۔ بہتر ہے کہ میں جا کر کمروں کی صفائی کر لوں۔ صمد بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کمرے ہی میں ٹھہر گیا۔
میں نے ساتھ والے کمرے کی کھڑکیاں کھلی رکھیں۔ لحاف کرسی([1]) کو چاروں کونوں سے اٹھا کر کرسی پر سمیٹا اور گدوں کو اٹھا کر تہہ کیے گئے لحاف پر رکھ دیا۔ جیسے ہی کمرے میں جھاڑو لگانے کے لیے جھاڑو اٹھایا تو دونوں بچوں کے رونے کی آواز آنے لگی۔ پہلے تو میں نے کوئی اہمیت نہ دی اور سوچا کہ صمد انہیں چپ کرا لے گا لیکن تھوڑی دیر صمد کی بھی آواز بلند ہوئی: ’’قدم! قدم! آؤ دیکھو تو یہ بچے کیا چاہتے ہیں؟!‘‘
میں نے جھاڑو وہی کمرے میں پھینکا اور اپنے کمرے کی طرف دوڑی جو صحن کی دوسری طرف تھا۔ دونوں بچے بیدار ہو گئے تھے اور دودھ چاہتے تھے۔ میں نے ایک کو صمد کے حوالے کیا اور دوسرے کو خود اٹھا لیا اور اپنی بغل میں اٹھائے ان کے لیے دودھ تیار کرنے لگی۔ صمد نے اپنی گود میں اٹھائے بچے کو دودھ پلایا اور میں نے اپنی گود والے کو۔ بچے اپنا اپنا دودھ پی کر خاموش ہو گئے۔ میں نے اس فرصت سے استفادہ کیا اور دوبارہ کمرے میں جھاڑو لگانے چلی گئی۔ ابھی آدھا کمرا ہی صاف کیا ہو گا کہ بچوں کے رونے کی آواز دوبارہ آنے لگی۔ میں نے سوچا کہ یقیناً انہوں نے اپنے کپڑے گیلے کر دیے ہوں گے۔ مجھے صمد کی آواز بلند ہونے سے پہلے بچوں کے پاس پہنچنا پڑا۔ میرا اندازہ درست نکلا۔ دونوں بچوں نے اپنا اپنا دودھ پی لیا تھا اس وجہ سے انہوں نے پاجامے گیلے کر دیے تھے۔ میں بچوں کے کپڑے تبدیل کرنے لگی۔ صمد میرے سر پر کھڑا ہو گیا اور دیکھنے لگا۔ اس نے کہا: ’’میں بھی سیکھ لوں تا کہ اپنے بچوں کے لیے استاد بن جاؤں۔‘‘
میں نے بچوں کو دھویا اور خشک کیا۔ وہ دودھ پی چکے تھے لہٰذا مجھے تھوڑی تسلی ہو گئی کہ اب کچھ دیر تک وہ آرام کریں گے اور سو جائیں گے۔ میں دوبارہ جھاڑو ہاتھ میں لے کر کام میں جت گئی۔ کمرے میں گرد و غبار اڑ رہا تھا۔ میں نے سکارف سے اپنے منہ کو ڈھانک لیا۔ کمرے میں تھوڑی تھوڑی دھوپ بھی آ رہی تھی اور گرد و غبار کے ذرے سورج کی روشنی میں ہوا کے اندر کھیل رہے تھے۔ میں سوچ ہی رہی تھی کہ کمرے تو صاف ہو گئے، اب گدے اٹھا کر صحن میں پھیلا دوں تا کہ انہیں اچھی طرح دھوپ لگ جائے کہ اتنے میں بچوں کے رونے کی آواز دوبارہ آئی اور اس کے بعد صمد کی آواز بھی بلند ہوئی: ’’قدم! قدم! آؤ دیکھو تو یہ بچے کیا چاہتے ہیں؟!‘‘
میں نے جھاڑو زمین پر رکھا اور دوبارہ اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ بچے دودھ پی چکے تھے، انہیں خشک بھی کر دیا تو اب وہ کیوں رو رہے تھے؟! ناچار ان میں سے ایک کو میں نے اٹھایا اور دوسرے کو صمد نے اور ہم کمرے میں ٹہلنے لگے۔ مجھے باقی رہ جانے والے کام کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ صمد کو بھی دیر ہو رہی تھی، لیکن وہ اس حالت میں بھی میری دلجوئی کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا: ’’بچے سو جائیں تو میں خود تمہاری مدد کے لیے آتا ہوں۔‘‘
بچے ہماری آغوش میں آہستہ آہستہ سونے لگے تھے، لیکن جیسے ہی ہم انہیں خاموشی سے زمین پر لٹاتے تو وہ دوبارہ جاگ جاتے اور رونے لگتے۔ ہم کمرے میں اتنا چلے اور اتنا ٹہلے کہ تھک گئے۔ بچوں کو اپنے پاؤں پر رکھ کر بیٹھ گئے اور پاؤں ہلانے لگے تا کہ وہ سو جائیں لیکن وہ تو سونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ صمد میرے ساتھ باتیں کر رہا تھا؛ اپنے گزرے ہوئے زمانے کی، اس دن کی جب اس نے پہلی دفعہ مجھے میرے بابا کے چچا کے گھر والی سیڑھیوں پر دیکھا تھا۔ وہ کہنے لگا: ’’تم نے اسی روز میرے دل کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔‘‘ وہ ان دنوں کی باتیں کر رہا تھا جب میں اس کی کسی بات کا جواب نہ دیتی تھی اور وہ ناامیدی کی حالت میں ہر روز کسی نہ کسی کو واسطہ بناتا تا کہ میرا ہاتھ مانگنے کے لیے آ سکے۔ وہ کہہ رہا تھا: ’’اب جب کہ میں نے اتنی مشکلوں سے تمہیں حاصل کیا ہے تو تمہیں قایش کی خوش قسمت ترین لڑکی ہونا چاہیے۔‘‘
صمد کی آواز بچوں کے لیے لوری کا کام دے رہی تھی۔ جیسے ہی وہ چپ ہوتا تو بچے دوبارہ رونے لگتے۔ ہم نے سو جتن کر لیے مگر بچوں نے نہ سونا تھا نہ سوئے۔ ہم بے بس ہو کر بیٹھ گئے کہ کیا کریں۔ جیسے ہی انہیں زمین پر لٹاتے تو وہ پھر رونے لگتے۔ ناچار میں نے دوبارہ ان کے لیے دودھ تیار کیا۔ لیکن جیسے ہی انہوں نے دودھ ختم کیا تو پھر کپڑے گیلے کر دیے۔ میں نے انہیں خشک کیا تو وہ تازہ دم ہو گئے۔ ان کی نیند اڑ گئی اور وہ کھیلنے لگے۔ اب وہ چاہتے تھے کہ ایک بندہ انہیں اٹھا کر کمرے میں گھومتا رہے۔
ظہر ہو گئی تھی اور میں ابھی تک کمرے میں جھاڑو نہ لگا سکی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے بچوں کو جیسے تیسے صمد کے پاس چھوڑا اور خود کھانا بنانے چلی گئی۔ مگر اکیلے صمد سے بچے نہیں سنبھالے جا رہے تھے۔ دوسری طرف باہر موسم بھی سرد تھا اور بچوں کو کمرے سے باہر بھی نہیں نکالا جا سکتا تھا۔ لاکھ مشکل سے میں فقط دن کا کھانا ہی تیار کر سکی۔ ظہر کے وقت سوائے صمد کی ماں اور بہن کے سب گھر واپس آ گئے۔ میں نے صمد کے والد اور بھائیوں کو دن کا کھانا دیا، لیکن جیسے ہی دسترخوان سمیٹنے لگی تو بچوں کے رونے کی آواز ایک بار پھر بلند ہوئی۔ اب میری مصروفیت نکل آئی تھی۔ میں یا تو ان کے لیے دودھ تیار کر رہی تھی، یا ان کے کپڑے بدل رہی تھی اور یا انہیں سلانے کے جتن کر رہی تھی۔
پلک جھپکتے ہی سہ پہر ہو گئی اور میری ساس واپس آ گئیں، لیکن میں ابھی تک نہ تو گھر میں جھاڑو لگا پائی تھی، نہ صحن کو دھو سکی تھی، نہ رات کا کھانا آمادہ کیا تھا اور نہ ہی برتن دھونے کی فرصت ملی تھی۔ دوسری طرف صمد بھی اپنے کام پر نہ جا سکا تھا۔ میری ساس نے جب یہ حالت دیکھی تو انہیں اچھا نہ لگا اور وہ تھوڑا ناراض ہو گئیں۔ صمد نے میری طرفداری کرتے ہوئے ماں کو بتایا کہ بچوں نے صبح سے کیسی مصیبت ہمارے سر پر ڈال رکھی تھی۔ ساس نے کچھ بھی نہ کہا۔ ہم نے بچے ان کے حوالے کیے اور سکون کا سانس لیا۔
اگلے روز صمد دوبارہ کام کاج کی تلاش میں نکل گیا۔ قایش میں اسے کوئی کام نہ ملا۔ مجبوراً اسے رزن جانا پڑا۔ جب اس نے دیکھا کہ رزن میں بھی کام نہیں مل رہا تو اس نے اپنا بیگ باندھا اور تہران چلا گیا۔
چند دن بعد وہ واپس آ گیا اور اس نے بتایا: ’’تہران میں بہت اچھا کام مل گیا ہے۔ انہی دنوں کام شروع کرنا پڑے گا۔ میں تمہیں بتانے کے لیے آیا ہوں۔ بری خبر یہ ہے کہ اس عید پر میں تمہارے پاس نہیں رہ سکوں گا۔ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔‘‘
میں بہت ناراض ہو گئی اور اعتراض کیا: ’’میں نے اس سال عید کے لیے پروگرام بنا رکھے تھے۔ میرا دل نہیں چاہتا کہ تم جاؤ۔‘‘
صمد مجھ سے زیادہ پریشان تھا: ’’کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔ کب تک ماں باپ میرا خرچہ اٹھائیں گے۔ اب مجھے شرم آتی ہے۔ میں اب ان پر مزید بوجھ نہیں بن سکتا۔ مجھے اپنا کام کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنی روزی روٹی کھانی چاہیے۔‘‘
صمد چلا گیا اور وہ عید جو ہماری شادی کے بعد پہلی عید تھی، میں نے تنہا ہی گزاری۔ بہت مشکل دن تھے۔ میں ہر روز دل گرفتہ سی ہو کر روتے ہوئے اپنا سر سرہانے پر رکھ دیتی۔ ہر رات خواب میں صمد کو دیکھتی۔ جب میں دوسری دلہنوں کو دیکھتی کہ وہ اپنے شوہروں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کبھی اس گھر اور کبھی اس گھر جا رہی ہیں اور عیدی لے رہی ہیں تو میں اپنے آنسوؤں کو بہت مشکل سے ضبط کر پاتی تھی۔
اپریل کا وسط آ چکا تھا۔ ہوا میں شگوفوں اور پھولوں کی خوشبو رچی بسی ہوئی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ خدا کے پاس جتنا سبز رنگ تھا وہ سارا اس نے اوپر سے قایش کی زمین پر پھینک دیا تھا۔
ایک دن میں گھر کے کام کاج میں مشغول تھی کہ صمد کے چھوٹے بھائی موسیٰ نے گلی سے آواز لگائی: ’’صمد بھائی آ گئے۔‘‘
مجھے سمجھ نہ آ رہی تھی کیا کروں۔ ننگے پاؤں ہی صحن کی سیڑھیوں کو دو دو کر کے پھلانگتی ہوئی نیچے آ گئی۔ صحن کے وسط میں پڑے کپڑے ٹانگنے والے سٹینڈ سے ایک کپڑا اٹھایا، اسے اپنے سر پر رکھا اور گلی میں نکل گئی۔ صمد آ گیا تھااور مسکراتے ہوئے میری طرف جلدی جلدی بڑھ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں دو بڑے بیگ تھے۔ ہم گلی کے درمیان ایک دوسرے کے پاس پہنچ گئے۔ کھڑے ہو کر ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ صمد کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔ میں بھی رونے لگی تھی۔ اچانک ہم ہنسنے لگے۔ مسکراہٹیں اور آنسو خلط ملط ہو چکے تھے۔
ہم ایک دوسرے کو سلام کہنا بھول گئے تھے۔ کندھے سے کندھا ملا کر چلتے ہوئے صحن میں آگئے۔ جیسے ہی اپنے کمرے کے سامنے پہنچے تو صمد نے ایک بیگ میرے حوالے کرتے ہوئے کہا: ’’یہ تمہارے لیے لایا ہوں۔ اسے اپنے کمرے میں لے جاؤ۔‘‘
گھر والوں کو صمد کی آمد کا پتا چل چکا تھا۔ سب اس کے استقبال کے لیے آئے اور صحن میں جمع ہو گئے۔ سلام و احوال پرسی کے بعد ہم سب میری ساس کے کمرے میں چلے گئے۔ صمد نے بیگ زمین پر رکھ دیا۔ سب لوگ اکٹھے بیٹھ گئے اور اس کا حال احوال پوچھنے لگے۔ اسے پلستر کا کام ملا تھا اور ایک زیر تعمیر عمارت پر کام میں مشغول ہو گیا تھا۔
تھوڑی دیر گزری تو اس نے بیگ کھولا اور والد، ماں، بہنوں اور بھائیوں کے لیے جو کچھ تحفے تحائف لایا تھا وہ ان میں تقسیم کر دیے۔
وہ مقنعہ اور شال سے لے کر کُرتی، شلوار،جوتے اور چھتری تک ہر چیز لے آیا تھا۔ کبریٰ نے کھڑکی سے میرا بیگ دیکھ لیا تھا۔ وہ اصرار کرنے لگی: ’’قدم! تم بھی اپنے تحفے لے آؤ تا کہ ہم بھی دیکھ لیں۔‘‘
مجھے شرم آ رہی تھی۔ ڈرتی تھی کہ صمد کہیں کوئی ایسی چیز میرے لیے نہ لے آیا ہو جو اس کے بھائیوں کو دکھانا مناسب نہ لگے۔ میں نے کہا: ’’بعد میں۔‘‘ میری نند بھی سمجھ گئی اور اس کے بعد اس نے اصرار نہ کیا۔
جب ہم اپنے کمرے میں گئے تو صمد نے اصرار کیا کہ میں جلدی سے بیگ کھولوں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ اس نے میرے لیے کچھ مقنعے، آنچل اور قمیصیں خریدیں تھیں۔ اس کے علاوہ وہ چادر، شلواروں کے لیے کپڑا حتی کہ قینچی، کپڑے سینے کا سامان، صابن اور ہیئر پن تک خرید لایا تھا۔ اتنا سامان تھا کہ بیگ کا ڈھکن مشکل ہی سے بند ہوا تھا۔ میں نے کہا: ’’یہ سب کیا ہے؟ کیا تم مکہ گئے تھے؟!‘‘
اس نے کہا: ’’یہ تمہارے شانِ شایان تو نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تم ہمارے گھر میں کتنی زحمت کرتی ہو۔ دس بارہ بندوں کے لیے گھر کے کام کاج کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ چیزیں تو تمہاری زحمتوں کی مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’کیوں نہیں، بہت زیادہ ہیں۔‘‘
وہ ہنس کر کہنے لگا: ’’پہلا دن جب میں تہران گیا تو میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ ہر روز تمہارے لیے ایک چیز خریدوں گا۔ ان سب چیزوں کے پیچھے ایک حکایت ہے۔ اب تم بتاؤ کہ تمہیں ان میں سے کون سی چیز زیادہ اچھی لگ رہی ہے۔‘‘
اس نے میرے لیے جتنی بھی چیزیں خریدیں تھیں، ساری ہی اچھی تھیں۔ میں اسے یہ نہیں بتا سکتی تھی کہ ان میں سے سب سے بہتر کون سی ہے۔ میں نے کہا: ’’سب ہی بہت اچھی ہیں۔ تمہارا بہت شکریہ۔‘‘
اس نے اصرار کیا: ’’نہیں، قدم جان، بتاؤ۔ ان میں سے تمہیں کون سی زیادہ اچھی لگتی ہے۔‘‘
میں نے سب چیزوں پر دوبارہ نظر ڈالی۔ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ گھر میں پہننے والی شلواروں کے لیے اس نے جو اَن سِلے کپڑے خریدے تھے وہ واقعاً بہت ہی اعلیٰ تھے۔ میں نے کہا: ’’یہ ان سب سے زیادہ اچھے ہیں۔‘‘
صمد خوش ہو کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا: ’’تمہیں پتا ہے؟ جب میں نے ان کپڑوں کو خریدا تھا تو کیا حالت تھی میری! اس دن میرا دل تمہارے لیے بہت بے چین ہو گیا تھا۔ ان کپڑوں کو میں نے ایک خاص عشق و محبت سےخریدا ہے۔ اس دن میں تمہارے لیے اتنا اداس تھا کہ ایک دفعہ تو جی چاہا کہ سب کام کاج چھوڑ چھاڑ کر ہر چیز کو ذہن سے نکال دوں اور تمہارے پاس آجاؤں۔‘‘
اس کے بعد اس نے اپنا سر نیچے کر لیا تا کہ میں اس کی سرخ آنکھیں اور ان میں آنے والے آنسو نہ دیکھ سکوں۔
اسی رات سے صمد کے واپس آنے کی خوشی میں رشتہ داروں کی طرف سے دعوتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جن رشتہ داروں کو معلوم ہو گیا تھا کہ صمد واپس آ گیا ہے وہ ہماری دعوت کر رہے تھے۔ میری نند شہلا، شیرین جان، میری بہنیں اور بھابھیاں، سبھی۔
صمد کھلے دل سے سب کی دعوت قبول کر رہا تھا۔ ہم ان رشتہ داروں اور جاننے والوں کے گھروں میں رات دیر تک بیٹھتے اور باتیں کرتے رہتے۔ گپیں لگاتے اور ہنستے رہتے۔ جب گھر واپس آتے تو صمد میرے سامنے بیٹھ جاتا اور مجھ سے باتیں کرتے ہوئے کہتا: ’’ان دعوتوں کی وجہ سے میں تمہیں زیادہ دیکھ نہیں پاتا۔ تم عورتوں میں چلی جاتی ہو اور میں تمہیں دیکھ نہیں سکتا۔ میرا دل تمہارے لیے بے چین ہو جاتا ہے۔ یہ چند روز جو میں تمہارے سامنے ہوں، مجھے تمہاری زیادہ قدر کرنی چاہیے۔ بعد میں جبکہ میں چلا جاؤں گا تو میرا دل بہت اداس ہو جائے گا۔ اس چیز کا غم رہے گا کہ میں تمہارے پاس زیادہ کیوں نہ رہا اور کیوں تم سے زیادہ باتیں نہ کیں۔‘‘
یہ خوشی ایک ہفتے سے زیادہ نہ رہی۔ ہفتے کے آخر میں صمد چلا گیا۔ وہ سہ پہر کے وقت گیا تھا۔ میں رات تک اپنے کمرے میں پڑی رہی اور سب کی نظروں سے بچ کر روتی رہی۔
گھر کے کونے کونے کو دیکھتی تو اس کی یاد ستانے لگتی۔ ہر چیز سے اس کی خوشبو آتی تھی۔ کسی سے ملنے اور کچھ کام کرنے کا حوصلہ باقی نہ رہا تھا۔ اس چیز کا انتظار کرتی رہتی کہ کوئی مجھے بہلانے آ جائے تاکہ میں جی بھر کر رو لوں۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ صمد کے جاتے ہی میں بالکل تنہا ہو چکی ہوں۔ میرا دل بابا کی طرف جانے کو چاہ رہا تھا۔ شیرین جان کی یاد آ رہی تھی۔ میں نے لحاف کو سر پر اوڑھ لیا کہ اس میں سے صمد کی خوشبو آ رہی تھی۔ دل اپنے گھر جانے کے لیے تڑپ رہا تھا۔ ہائے۔۔۔ ہائے۔۔۔ بابا جان، کیسے آپ کے دل نے برداشت کیا کہ اپنی بیٹی کو اس طرح تنہا چھوڑ دیا؟! کیوں میری خبر نہیں لیتے۔ ہائے۔۔۔ ہائے۔۔۔ شیرین جان، کیوں میرا حال نہیں پوچھتیں؟!
اس رات میں بہت زیادہ روئی اور نیند آنے تک لحاف کے اندر اپنے آپ سے باتیں کرتی رہی۔
اگلی صبح میری حالت پچھلے دن کی نسبت کافی بری تھی۔ میں کافی زودرنج ہو گئی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ سارے لوگ ہی میرے لیے اجنبی ہو گئے ہیں۔ دل چاہتا تھا کہ بابا کے گھر چلی جاؤں لیکن جڑواں بچوں کے پاس چلی گئی۔ ان کے لباس تبدیل کیےاور صاف کپڑے انہیں پہنائے۔ میری ساس باہر چلی گئی تھیں۔ میں نے ان بچوں کو دودھ دے کر سلایا اور دن کا کھانا پکانے لگی۔ گزشتہ رات کے برتن دھوئے اور گھر میں جھاڑو لگایا۔ بچوں کو اٹھا کر اپنے کمرے میں لے گئی۔ دن کے کھانے کے بعد دوبارہ میرے کام شروع ہو گئے؛ برتن دھونا، رات کا کھانا پکانا، صحن میں جھاڑو لگانا اور دونوں جڑواں بچوں کی دیکھ بھال کرنا۔ میں اس قدر تھک گئی تھی کہ رات ہوتے ہی نیند نے دبوچ لیا۔
مجھے ایسا محسوس ہوا کہ صبح ہو گئی ہے۔ ہڑبڑا کر اٹھی اور عادت کے مطابق پردے کا کونہ اٹھا کر دیکھا۔ باہر روشنی ہو چکی تھی۔ اب مجھے کیا کرنا چاہیے تھا۔ روٹی پک چکی تھی اور تنور بند کیا چکا تھا۔ میں کیوں سوئی رہی۔ وقت پر اٹھ کیوں نہ سکی۔ اب ساس کو کیا جواب دوں۔ لاکھ سوچا مگر اپنے آپ میں ان سے الجھنے اور ان کی باتیں سننے کا حوصلہ نہ پایا۔ اسی لیے سر پر چادر اوڑھی اور چپ چاپ جلدی جلدی بابا کے گھر کی طرف چل دی۔
صحن میں شیرین جان کو دیکھتے ہی میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ بابا گھر میں تھے۔ مجھے دیکھا تو پوچھنے لگے: ’’کیا ہوا۔ کس نے اذیت دی ہے۔ کسی نے کچھ کہا ہے؟ ایسی کیا بات ہو گئی؟ کیوں رو رہی ہو؟!‘‘
میں کچھ بتا نہ سکتی تھی، بس مسلسل روئے جا رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ گھر مجھے پرانی باتیں یاد دلا رہا تھا۔ گزرے ہوئے دنوں کو یاد کر کے میرا دل پریشان ہو رہا تھا۔ کوئی میرے درد کو نہیں جان سکتا تھا۔ اب ایسا بھی نہیں کہہ سکتی تھی کہ میرا دل اپنے شوہر کے لیے بے چین ہو رہا ہے، مجھ میں تنہائی کی طاقت نہیں ہے اور دل چاہتا ہےکہ جب تک صمد نہ آئے میں آپ کے پاس ہی رہوں گی۔
بابا کے گھر میں آئے ہوئے مجھے ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔ اگرچہ صمد کے لیے کافی اداس ہو جاتی تھی مگر بابا، ماں اور بہن بھائیوں کو دیکھ کر کچھ نہ کچھ سکون محسوس ہوتا رہتا تھا۔ ایک دن دروازہ کھلا اور صمد آ گیا۔ میں مبہوت ہو کر اسے دیکھنے لگی۔ یقین نہ آتا تھا کہ وہ آ گیا ہے۔ پہلے تو مجھے کچھ برا محسوس ہوا اور میں نے سوچا کہ شاید وہ مجھ سے لڑائی کرے گا یا خفا ہو گا کہ میں کیوں بابا کے گھر آ گئی ہوں۔ لیکن وہ ہمیشہ کی طرح تھا۔ ہنس رہا تھا اور مسلسل میرا حال پوچھے جا رہا تھا۔ اپنی اداسی کا بتا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اس عرصے میں اس کا دل میرے لیے کیسے تڑپتا رہا تھا۔وہ کہہ رہا تھا: ’’میں محسوس کر رہا تھا کہ خدانخواستہ کوئی برا حادثہ نہ ہو گیا ہو کہ جس کی وجہ سے میرا دل اتنا پریشان ہے اور ہر رات کو برے برے خواب آ رہے ہیں۔‘‘
تھوڑی دیر بعد بابا اور ماں آ گئے۔ صمد نے ان کے ساتھ بھی ہنس ہنس کر باتیں کیں ۔ اس کے بعد میری طرف منہ کر کے کہا: ’’قدم! اٹھو، چلیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’آج رات یہیں رہ جاتے ہیں۔‘‘
اس نے اپنے ہونٹ کاٹتےہوئے کہا: ’’نہیں، چلتے ہیں۔‘‘
میں نے اپنی چادر اوڑھی اور دونوں بابا اور ماں کو خدا حافظ کہہ کر گھر سےنکل آئے۔وہ راستے میں مجھ سے باتیں کرتا، اپنی بیتیاں سناتا اور ہنستا جا رہا تھا۔گاؤں چھوٹا ہوتا ہے اور خبر جلدی پھیل جاتی ہے۔ سب جانتے تھے کہ میں ایک ہفتے سے سسرال والوں کو خدا حافظ کیے بغیر اپنے باپ کے گھر آ گئی ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ جب وہ مجھے اور صمد کو ہنسی خوشی باتیں کرتے ہوئے دیکھتے تو حیران رہ جاتے۔ کسی کو بھی اس بات کی توقع نہیں تھی کہ میرے ساتھ صمد کا یہ رویہ ہے۔ میں سوچ رہی تھی کہ شاید صمد کو اس واقعے کی خبر نہیں ہے۔ جیسے ہی گھر کے دروازے پر پہنچے تو وہ ٹھہر گیا اور مجھے کہنے لگا: ’’قدم جان! تم نے کچھ نہیں دیکھا۔ ایسا لگے کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔ بالکل معمول کے مطابق رویہ رکھو، ہمیشہ کی طرح سلام و احوال پرسی کرو۔ میں سب سے بات کر چکا ہوں اور انہیں کہہ چکا ہوں کہ تمہیں لے آؤں گا لیکن کوئی بھی اس معاملے پر کوئی بات نہ کرے۔ ٹھیک ہے؟!‘‘
میں نے سکھ کا سانس لیا اور گھر میں داخل ہو گئی۔ جیسا صمد نےکہا تھا ویسا ہی میں نے کیا۔ ساس اور سسر نے بھی مجھے کچھ نہ جتلایا۔ تھوڑی دیر بعد ہم اپنے کمرے میں چلے گئے۔ صمد کمرے کے کونے میں پڑا بیگ اٹھا لایا۔خوشی خوشی کھول کر کہنے لگا: ’’آؤ دیکھو، میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں۔‘‘
میں نے کہا: ’’تم نے دوبارہ تکلیف کی۔‘‘
ہنس کر کہنے لگا: ’’تم دوبارہ تکلف کر رہی ہو۔ بیگم، کیوں شرمندہ کرتی ہو۔‘‘
صمد دو تین دن گھر پر رہا۔ وہ میری زندگی کے بہترین دن تھے۔ وہ مجھے ہلنے کی اجازت ہی نہ دیتا تھا۔ کہتا تھا: ’’تم فقط بیٹھو اور مجھے سے باتیں کرو۔ میرا دل تمہارے لیے بہت اداس ہے۔‘‘
ہر دن اور ہر رات ہم کہیں نہ کہیں مہمان ہوتے۔ اکثر فقط سونے کے لیے گھر آتے تھے۔ آہستہ آہستہ دوست احباب، ہمسائے اور جاننے والے لوگ باتیں کرنے لگے: ’’خوشا نصیب، قدم! صمد تمہیں کتنا چاہتا ہے۔‘‘
یہ باتیں سن کر میرا دل خوشی سے بھر جاتا؛ لیکن یہ دو تین دن بھی بجلی کی سی تیزی سے گزر گئے۔
جس روز اس نے جانا تھا، سہ پہر کے وقت مجھے ایک کونے میں لے گیا اور کہا: ’’قدم جان! میں جا رہا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ میرا دل تمہاری طرف سے مطمئن رہے۔ اگر یہاں تمہیں کوئی پریشانی نہیں ہے تو یہیں رہو لیکن اگر سمجھتی ہو کہ یہاں تمہارا رہنا مشکل ہے تو اپنے بابا کی گھر چلی جاؤ۔ میرے حالات ابھی واضح نہیں ہیں۔ شاید ایک دو سال تہران رہوں۔ وہاں بھی کوئی مناسب جگہ نہیں ہے کہ تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں، لیکن یقین کرو کہ میں اپنی پوری کوشش کر رہا ہوں کہ جتنا جلدی ہو سکے پیسے جمع کر کے ایک گھر بنا لوں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اگر تم اپنے بابا کے گھر جانا چاہتی ہو تو چلی جاؤ۔ میں نے اپنے بابا اور ماں سے بات کر لی ہے۔ انہیں بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ سب کچھ تمہاری مرضی پر ہے۔‘‘
میں نے تھوڑا سوچ کر کہا: ’’میں چاہتی ہوں کہ بابا کے گھر چلی جاؤں۔ یہاں مجھے کافی گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ بہت مشکل میں رہتی ہوں۔‘‘
بغیر اس کے کہ اس کے ماتھے پر کوئی بل پڑے، اس نے کہا: ’’پس جب تک میں ہوں، تم اپنا سامان اور کپڑے وغیرہ جمع کرو۔ میرے ساتھ ہی چلی جاؤ تو بہتر ہے۔‘‘
میں نے اپنا بیگ اٹھایا اور بغیر کسی ناراضگی کے سب کو خدا حافظ کہا اور دونوں بابا کے گھر کی طرف چل پڑے۔ صمد نے مجھے ان کے حوالے کیا، خدا حافظ کہا اور چلا گیا۔
اس کے جانے سے میرے وجود میں کچھ ٹوٹ سا گیا۔ میں مزید اس کی دوری کو برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ اس نے میرے ساتھ مہربانی اور نرمی کی انتہا کر دی تھی۔ میں اس کی خوبیوں کو یاد کرتی تو میرا دل اور زیادہ پریشان ہو جاتا۔ پورے گاؤں میں آج تک کوئی مرد ایسا نہیں تھا جس نے اپنی عورت کے ساتھ اس طرح کا رویہ رکھا ہو۔ میں جہاں بھی بیٹھتی اس کی اچھائیوں اور خوبیوں ہی کا تذکرہ سنتی۔ روز بہ روز اس کے ساتھ میرا عشق بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کی بھی یہی حالت تھی کیونکہ ہفتے کے آخر پر وہ دوبارہ آ گیا۔ وہ کہہ رہا تھا: ’’قدم! تم نے میرے ساتھ کیا کر دیا ہے! جمعرات کی صبح ہوتی ہے تو میرا دل سینے میں نہیں ٹھہرتا۔ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ اگر تمہیں نہیں دیکھوں گا تو مر جاؤں گا۔‘‘
وہ اسی روز میرے بھائی کے ساتھ اپنی ماں کے گھر گیا اور میرا سارا ساز و سامان اٹھا لایا اور بابا کے گھر میں ایک کمرے میں رکھ دیا۔ وہ پہلی رات تھی کہ صمد میرے بابا کے گھر سویا تھا۔ ہمارے گاؤں میں یہ رسم نہ تھی کہ داماد اپنے سسر کے گھر سوئے۔ صبح جب ہم بیدار ہوئے تو صمد شرم کے مارے کمرے سے باہر نہ نکلا۔
میں ناشتہ اور دن کا کھانا کمرے ہی میں لے گئی۔ رات ہوئی تو اس نے کپڑے بدلے اور کہنے لگا: ’’میں جا رہا ہوں۔ تم بھی اپنا سامان جمع کرو اور میرے چچا کے گھر چلی جاؤ۔ میں یہاں نہیں رہ سکتا۔ تمہارے بابا سے شرم آتی ہے۔‘‘
اسی روز مجھے معلوم ہوا کہ میں حمل سے ہوں۔ صمد کو میں نے کچھ نہ بتایا۔ اگلے دن صمد کے چچا کے گھر چلی گئی۔ وہ بے چارے اکیلے ہی رہتے تھے۔ ان کی بیوی کا چند سال پہلے انتقال ہو چکا تھا۔ میں نے کہا: ’’چچا جان، میرے اور صمد کے لیے اپنا پدرانہ فریضہ نبھائیے۔ ہم کچھ دن تک آپ کے مزاحم ہونا چاہتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد میں نے سارا ماجرا انہیں سنا دیا۔
چچا بہت ہی خوش ہو گئے تھے۔ انہوں نے کھلے دل سے ہمیں قبول کیا۔میں نے ماں اور بابا کو بھی ساری صورت حال سے آگاہ کر دیا تھا۔ انہی کی مدد سے اپنا سارا سامان جمع کیا اور یہاں لے آئی۔ چچا نے اسی رات گھر ہمارے حوالے کر دیا۔ چابی ہمارے سپرد کی اور خود میری ساس کے گھر چلے گئے اور جب تک ہم ان کے گھر سے نہ گئے وہ وہیں رہے۔
کچھ دن بعد میں نے اپنے حاملہ ہونے کی خبر اپنے بھابھی کی دی۔ خدیجہ نے ماں کو بتایا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک لحظے کے لیے بھی مجھے تنہا نہ چھوڑا۔
صمد کو آنے میں ایک مہینہ لگ گیا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میں امید سے ہو گئی ہوں تو وہ خوشی سے پھولا نہ سمایا۔ جتنے دن وہ گھر رہا مجھے اس نے ہلنے نہ دیا۔ انہی دنوں اس نے میری بہن سے ساڑھے چار سو تومان میں زمین کا ایک ٹکڑا خرید لیا۔ ہم دونوں بہت ہی خوش تھے۔ صمد کہتا تھا: ’’کچھ دنوں بعد تہران کی عمارت والا کا م ختم ہو جائے گا اس کے بعد میں کوئی اور کام نہیں لوں گا۔ یہاں آ جاؤں گا اور پھر ہم مل کر اپنا گھر بنائیں گے۔‘‘
گرمیاں شروع ہوتے ہی صمد آ گیا۔ ہم دونوں نے کمر کسی اور گھر کی تعمیر شروع کر دی۔ وہ مستری بن گیا اور میں اس کی مزدور۔ تھوڑے دنوں بعد اس کا بھائی تیمور بھی ہماری کی مدد کو آ گیا۔
گرمی سخت تھی۔ اتفاق سے رمضان المبارک کا مہینہ بھی تھا۔ اس حالت میں میں گھر بنانے میں صمد کی مدد بھی کر رہی تھی اور روزے بھی رکھ رہی تھی۔
ایک روز میں خدیجہ کے ساتھ حمام([2]) میں گئی۔ حمام سے لوٹے تو میری حالت بہت بری ہو گئی۔ مجھے شدید گرمی لگ گئی اور میں پیاس سے ہلاک ہوئی جا رہی تھی۔ خدیجہ میرے سر اور چہرے پر ٹھنڈا پانی ڈال رہی تھی مگر مجھے کوئی افاقہ نہیں ہو رہا تھا۔ میں بے حال ہو کر ایک کونے میں پڑ رہی۔ خدیجہ میرے پیچھے لگ گئی کہ روزہ توڑ دوں۔ میری حالت بہت بری تھی لیکن میں ٹال رہی تھی۔
اس نے کہا: ’’میں ابھی جا کر صمد کو بتاتی ہوں کہ تمہیں ہسپتال لے جائے۔‘‘
صمد گھر کا کام کر رہا تھا۔ میں نے کہا: ’’وہ بے چارہ بھی روزے سے ہے۔ رہنے دو۔ میں ابھی ٹھیک ہو جاؤں گی۔‘‘
تھوڑی دیر گزری تومیری حالت بجائے ٹھیک ہونے کے اور زیادہ بگڑ گئی۔ خدیجہ نے اصرار کیا: ’’روزہ توڑ دو تا کہ اپنے اور بچے کے گلے کوئی مصیبت نہ ڈال بیٹھو۔ ‘‘
میں نہ مانی: ’’سوؤں گی تو کچھ بہتر ہو جاؤں گی۔‘‘ خدیجہ جو پریشان اور ناراض ہو گئی تھی، کہنے لگی: ’’تمہاری اپنی مرضی، مجھے کیا۔کل کو اگر کوئی ناقص بچہ پیدا کر بیٹھیں تو پھر کہتی پھرو گی کہ کاش خدیجہ کی بات مان لی ہوتی۔‘‘
اس نے یہ کہا تو میں شدید گھبرا گئی لیکن میں نے پھر بھی قبول نہ کیا۔ دل میں کہا کہ اگر میں نے روزہ توڑ دیا تو میرا بچہ بے دین و ایمان پیدا ہو گا۔
جب میری حالت بہت بری ہو گئی اور میرے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے تو خدیجہ نے چادر سر پر اوڑھی تا کہ صمد کو جا کر بتائے۔ میں نے کہا: ’’صمد کو نہ بتانا وہ پریشان ہو جائے گا۔ ٹھیک ہے میں روزہ توڑتی ہوں، مگر ایک شرط ہے۔‘‘
خدیجہ جسے تھوڑی تسلی ہو گئی تھی، پوچھنے لگی: ’’کیا شرط ہے؟!‘‘
میں نے کہا: ’’تم بھی میرے ساتھ اپنا روزہ توڑ دو۔‘‘
حیرت سے خدیجہ کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور آنکھیں حلقوں سے باہر نکل آئیں: ’’تمہاری تو طبیعت خراب ہے، میں کیوں اپنا روزہ توڑوں؟!‘‘
میں نے کہا: ’’مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ یا تو ہم اکٹھے روزہ توڑیں گی یا میں بھی کچھ نہیں کھاؤں گی۔‘‘
خدیجہ کچھ مضطرب ہو گئی۔ میں بے ہوش ہوئی جا رہی تھی۔ گھر میرے سر کے گرد گھوم رہا تھا۔ سارا بدن ٹھنڈا پڑ چکا تھا اور کانپ رہا تھا۔ وہ بھاگ کر گئی اور دو انڈے توڑ کر دیسی گھی میں نیم تلے کر لائی اور ساتھ روٹی اور سلاد بھی لے آئی۔ انڈوں کی خوشبو میری ناک میں گئی تو میرے ہاتھ پاؤں بےحس ہو گئے اور دل کمزور پڑ گیا۔ اس نے ایک لقمہ میرے منہ کے سامنے کیا۔
میں نے اپنا منہ پیچھے کو کھینچ لیا: ’’نہیں، پہلے تم کھاؤ۔‘‘
خدیجہ غصے میں آگئی۔ چلّا کر کہنے لگی: ’’یہ کیا بےوقوفی ہے۔حاملہ تم ہو، مری تم جا رہی ہو اورروزہ میں اپنا توڑ دوں؟! ‘‘
میں رونے لگی: ’’خدیجہ! میری جان، تمہیں خدا کی قسم، میری خاطر کھا لو۔‘‘
خدیجہ نے اچانک لقمہ اپنے منہ میں رکھا اور کہا: ’’اب آرام آ گیا تمہیں، اب کھا لوگی؟!‘‘
میرے ہاتھ پاؤں لرز رہے تھے۔ خدیجہ کو کھاتے دیکھا تو میں بھی شیر ہو گئی۔ روٹی کا ایک ٹکڑا اٹھایا اور انڈا اس پر رکھ کر پہلا لقمہ کھا لیا۔ اس کے بعد لقمہ لقمہ کر کے کھانے لگی۔
جب خوب سیر ہو گئی اور میرے ہاتھ پاؤں میں جان آ گئی تو میں نے خدیجہ کی طرف دیکھا۔ اس نے بھی میری طرف دیکھا۔ ہمارے ہونٹ انڈے کی چربی سے چمک رہے تھے۔
میں نے کہا: ’’اب اگر کسی نے ہمیں دیکھ لیا تو یہی سمجھے گا کہ ہم نے روزہ توڑ دیا ہے۔‘‘
پہلے خدیجہ نے اور اس کے بعد میں نے اپنے ہونٹ چادر کے کونے سے صاف کیے، لیکن جتنا ہونٹوں کو رگڑتے تھے ان کی سرخی اور چمک اور زیادہ ہو جاتی۔کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔ دیوار سے تھوڑی سے گاچی اتاری اور اسے اپنے ہونٹوں پر رگڑا۔ اس کے بعد چادر سے صاف کر دیا۔ یہ اچھا خیال تھا۔ کسی کو پتا بھی نہ چلا کہ ہم روزہ توڑ چکی ہیں۔
([1]) ایران اور افغانستان میں استعمال ہونے والی ایک ایک میٹر لمبی چوڑی مربع یا مستطیل شکل کی میز جس کے اوپر چار چار میٹر یا سات سات میٹر کا لحاف سِلا ہوتا ہے۔ میز کو لحاف کے درمیان میں رکھ کر لحاف کو میز کے ساتھ سی دیا جاتا ہے اور لحاف کے چاروں کونے چاروں طرف پھیلا دیے جاتے ہیں۔ سردیوں میں گھر کے افراد چاروں طرف اس لحاف کے اندر ٹانگیں ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں اور درمیان میں رکھی میز پر کھانے پینے کی چیزیں رکھ کر کھاتے اور باتیں کرتے جاتے ہیں۔
([2]) پہلے پہل ایران میں عموماً گھروں میں نہانے کا اتنا زیادہ رواج نہیں تھا۔ عام طور پر لوگ عمومی حماموں میں ہی جا کر نہاتے تھے۔ مردانہ حمام الگ ہوتے اور زنانہ الگ۔ آج کل یہ رواج تقریبا ختم ہو چکا ہےاور گھروں میں ہی نہایا جاتا ہے۔
نواں باب
گرمیوں کے آخر میں گھر کی تعمیر مکمل ہو گئی۔ گھر چھوٹا سا تھا۔ فقط ایک کمرہ اور ایک باورچی خانہ؛ بس یہی۔ صحن کے ایک کونے میں بیت الخلاء تھا جس کے ساتھ صمد نے ایندھن، کوئلے اور کاٹھ کباڑ رکھنے کے لیے ایک گودام بھی بنا دیا۔
بہنوں اور بھائیوں نے ہمارا مختصر سا سامان ہمارے اپنے گھر لانے میں ہماری مدد کی۔ سب سے زیادہ شیرین جان کام کر رہی تھیں اور ہمارے گھر کی خوشی محسوس کر رہی تھیں۔ ہم نے اس گھر کی کتنی خوشی منائی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ ہم نے کوئی محل کھڑا کر دیا ہے۔ میری نظر میں وہ گھر ان تمام گھروں سے زیادہ خوبصورت، وسیع اور پاکیزہ تھا جو میں نے ابھی تک دیکھ رکھے تھے۔ جب ہم نے سامان چن دیا تو گھر چاند کی طرح چمک اٹھا۔
اگلے دن صمد دوبارہ کام پر چلا گیا۔ وہ ایک روز رزن میں جاتا اور ایک دن ہمدان چلا جاتا۔ بالآخر وہ دوبارہ تہران جانے پر مجبور ہو گیا۔ ایک ہفتے بعد واپس لوٹ آیا۔ وہ بہت خوش تھا۔ اس نے کوئی کام ڈھونڈ لیا تھا۔ میری تنہائی دوبارہ شروع ہو گئی تھی۔ وہ جلد یا بدیر آتا جاتا رہتا۔ جب وہ گھر آتا تو ایک کونے میں بیٹھ کر ہمارے گھر میں موجود چھوٹے سے ریڈیو کو کانوں سے چپکا کر بیٹھ جاتا اور اس کے چینل تبدیل کرتا رہتا۔ میں پوچھتی: ’’کیا ہوا؟! کیا کر رہے ہو؟! آواز تھوڑی اونچی کرو، میں بھی سنوں۔‘‘
شروع شروع میں تو اس نے مجھے کچھ نہ بتایا، مگر ایک رات اس نے اپنی قمیص کی جیب سے ایک چھوٹی سے تصویر نکالی اور مجھے دکھاتے ہوئے کہا: ’’یہ آغا خمینی کی تصویر ہے۔ شاہ نے انہیں جلاوطن کر دیا ہے۔ لوگ مظاہرے اور احتجاج کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ آغا خمینی واپس آئیں اور وطن میں اسلامی حکومت قائم کریں۔ بہت سے شہروں میں احتجاجات ہو رہے ہیں۔‘‘
اس کے بعد وہ کمرے کے درمیان کھڑا ہو کر کہنے لگا: ’’لوگ تہران میں اس طرح نعرے لگاتے ہیں۔‘‘
اس نے اپنے ہاتھ کی مٹھی بنائی اور چلا کر کہا: ’’شاہ مردہ باد۔۔۔ شاہ مردہ باد۔‘‘
اس کے بعد وہ میرے پاس بیٹھ گیا اور امام کی تصویر میرے ہاتھ میں دے کر کہنے لگا:’’یہ میں تمہارے لیے لایا ہوں۔ جہاں تک ہو سکتا ہے اسے دیکھتی رہا کرو تا کہ ہمارا بچہ بھی امام خمینی کی طرح نورانی اور مومن ہو۔‘‘
میں نے تصویر لے کر دیکھی۔ بچے نے میرے پیٹ میں کروٹ بدلی۔
دن یکے بعد دیگرے گزرتے رہے۔ ہمدان، تہران اور دیگر شہروں میں ہونے والے مظاہروں اور احتجاجات کی خبریں قایش میں بھی پہنچ چکی تھیں۔ صمد کے چھوٹے بھائی جو تہران میں کام کرنے کے لیے گئے تھے، جب وہ واپس آتے تو خبر لاتے کہ صمد ہر روز مظاہروں میں جاتا ہے بلکہ وہ تو ہر قسم کے لانگ مارچ اور مظاہروں کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔
ایک بار ہمارے گاؤں کا ایک شخص یہ خبر لایا کہ صمد اور اس کے ساتھ چند اور لوگ تہران کی ایک بیرک میں گئے اور وہاں سے انہوں نے اسلحہ لیا۔ رات کو وہ اسلحہ لے کر رزن آئے اور اسے شیخ محمد شریفی کے حوالے کر دیا۔([1])
جب میں ان خبروں کو سنتی تھی تو میرا دل ڈولنے لگتا۔ اس بات کی فکر ہونے لگتی کہ صمد کیوں ان خطرناک کاموں میں پڑ گیا ہے۔
اب وہ دیر سے گاؤں آتا تھا اور بہانہ یہ کرتا تھا کہ سردیاں ہیں جن کی وجہ سے راستے پھسلواں اور خطرناک ہیں اور دوسری طرف جس عمارت میں کام کر رہے ہیں وہ کام جلدی ختم کر کے صاحب عمارت کے حوالے بھی کرنا ہے۔ میں جانتی تھی کہ وہ سچ نہیں بتا رہا اور بجائے اس کے کہ کام کاج اور زندگی کے پیچھے دوڑے، مظاہروں میں چلا جاتا ہے اور اعلامیے تقسیم کرتا پھرتا ہے یا اسی طرح کے دوسرے کاموں میں مصروف ہے۔
ہمارے ایک رشتہ دار کی شادی تھی۔ صمد اور اس کے بھائیوں کو پہلے ہی سے کہہ رکھا تھا کہ وہ لوگ حتماً آئیں۔ شادی کے روز صمد آگیا۔ سہ پہر کے وقت اطلاع ملی کہ ہمارے گاؤں کے ایک شخص حجت قنبری، جو چند روز پہلے ہمدان کے ایک مظاہرے میں شہید ہو گئے تھے، کے جسد کو گاؤں میں لے آئے ہیں۔
لوگوں نے شادی کی تقریب چھوڑی اور گلیوں میں نکل کھڑے ہوئے۔ صمد اس ہجوم کے آگے آگے تھا اور مُکا بنا کر نعرے لگا رہا تھا: ’’شاہ مردہ باد۔۔۔ شاہ مردہ باد۔‘‘ مرد آگے آگے اور عورتیں ان کے پیچھے پیچھے تھیں۔ پہلے مرد ’’شاہ مردہ باد‘‘ کہتے، ان کے پیچھے عورتیں کہتیں۔ گھر میں کوئی بھی نہ ٹھہرا تھا۔
حجت قنبری کے گھر والے بھی اس ہجوم میں شامل تھے۔ وہ روتے جاتے اور نعرے لگاتے جاتے تھے۔
نماز جنازہ کے لیے آنے والا ہجوم کافی باشکوہ تھا۔ ہم نے حجت کو دفنا دیا۔ صمد کافی بے چین تھا۔ اس نے مجھے ہجوم میں دیکھا تو آ کر مجھے خود گھر تک چھوڑ گیا اور کہہ گیا کہ وہ شہید قنبری کے گھر جا رہا ہے۔
رات ہو چکی تھی مگر صمد ابھی تک واپس نہ آ یا تھا۔ میرا دل گھبرا رہا تھا۔ میں بابا کے گھر چلی گئی۔ شیرین جان کافی پریشان تھیں۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ تمہارے بابا بھی ابھی تک گھر نہیں آئے۔ میں نے بہتیرا پوچھا کہ وہ کہاں ہیں مگر کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے چادر سر پر اوڑھی اور کہا: ’’اگر یہ بات ہے تو میں اپنے گھر چلی جاتی ہوں۔‘‘ میری بہن نے مجھے روک لیا اور جانے نہ دیا۔
میری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ بابا اور صمد کو کوئی حادثہ پیش آ گیا ہے۔ میں نے کہا: ’’مجھے جانا چاہیے۔ صمد ابھی گھر آ جائے گا اور میرے لیے پریشان ہو جائے گا۔‘‘
خدیجہ نے دیکھ لیا کہ میں پیچھے نہیں ہٹنے والی تو اس نے اس انداز میں بتایا کہ میں اچانک پریشان نہ ہو جاؤں: ’’سلطان حسین کو گرفتار کر کے لے گئے ہیں۔‘‘ سلطان حسین ہمارے گاؤں کا تھا۔
میں نے پوچھا: ’’کیوں؟!‘‘
خدیجہ نے ویسے ہی آرام سے جواب دیا: ’’سلطان حسین ہی تو خبر لایا تھا کہ حجت کو لے آئے ہیں۔ وہ اس چیز کی وجہ بنا تھا کہ لوگ مظاہرے کریں اور نعرے لگائیں۔ اسی وجہ سے اسے گرفتار کر کے دمق کے تھانے میں لے گئے ہیں۔ صمد بھی تھانے جانا بلکہ سلطان حسین کو آزاد کروانا چاہتا تھا، لیکن تمہارے بابا اور کچھ دوسرے لوگوں نے اسے اکیلا نہ جانے دیا اور خود بھی اس کے ساتھ چلے گئے ہیں۔‘‘
بابا کا نام سنتے ہی میں رونے لگی اور اپنی بہنوں اور ماں پر برس پڑی: ’’آپ لوگوں کی غلطی ہے۔ آپ نے بابا کو جانے کیوں دیا۔ وہ بوڑھے اور بیمار ہیں۔ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو آپ لوگ قصوروار ہیں۔‘‘
میں نے وہ پوری رات جاگ کر گزاری۔ اگلی صبح بابا اور صمد آ گئے۔ وہ خوش تھے اور کہہ رہے تھے: ’’چونکہ ہم لوگوں نے ایکا کر لیا تھا اس لیے انہوں نے سلطان حسین کو آزاد کر دیا، ورنہ نہیں معلوم اس کے سر کیا مصیبت آجاتی۔‘‘
دوپہر کے نزدیک صمد نے کپڑے بدلے۔ وہ تہران جانا چاہتا تھا۔ میں پریشان ہو گئی: ’’میرا دل نہیں چاہتا کہ تم جاؤ۔ آج یا کل بچہ پیدا ہو جائے گا تو پھر ہم تمہیں کہاں ڈھونڈیں گے۔‘‘
اس نےہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے جواب دیا: ’’پریشان مت ہو۔ میں خود پہنچ جاؤں گا۔‘‘
میں نے منہ بنا لیا۔ وہ اپنا کوٹ اتار کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا: ’’اگر تم ناراض ہوتی ہو تو میں نہیں جاتا۔ لیکن تمہاری جان کی قسم، میرے پاس ایک ریال تک نہیں ہے۔ پھر کیا یہ طے نہیں پایا تھا کہ اس دفعہ میں جاؤں گا تو بچے کے لیے کپڑے اور دوسری چیزیں خرید کر لاؤں گا؟!‘‘
میں اٹھ کھڑی اور اس کے لیے تھوڑا کھانا تیار کیا۔ اس نے کھانا کھا لیا تو میں نے فرمائشیں شروع کر دیں۔ دروازے تک میں اس کے ساتھ گئی۔ خداحافظ کہتے وقت میں نے اسے کہا: ’’کمبل مت بھول جانا؛ وہ سوتی کمبل، وہی جو آج کل کافی چل رہا ہے۔ بہت ہی خوبصورت ہے۔ گلابی رنگ کا خرید لینا۔‘‘
جب وہ گلی کے موڑ سے مڑا سے تو میں نے چلا کر کہا: ’’اب مظاہروں میں نہ جانا۔ وہاں خطرہ ہوتا ہے۔ ہم تمہارے منتظر رہیں گے۔‘‘
میں گھر واپس آ گئی۔ ایسا لگتا تھا کہ گھر اچانک مٹی مٹی ہو کر میرے سر پر آن گرا ہے۔ اداسی اور تاریکی نے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ مجھ میں رہنے کی طاقت نہیں تھی۔ چادر اوڑھی اور بابا کے گھر چلی گئی۔
صمد کو گئے ہوئے دو روز ہو چکے تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ میری حالت روزانہ کی طرح نہیں ہے۔ کمر اور پیٹ میں درد ہو رہا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا: ’’مجھے برداشت کرنا چاہیے۔ اتنی جلدی تو بچہ دنیا میں نہیں آتا۔‘‘
بہرحال میں نے اپنے کام معمول کے مطابق انجام دیے۔کھانا لگایا۔ دو تین جوڑے کپڑوں کے میلے پڑے تھے، انہیں اٹھا کر صحن میں چلی گئی اور قایش کی اس برف اور سردی میں بیٹھ کر انہیں دھویا۔
ظہر ہو گئی تھی۔ میں نے دیکھا کہ اب مجھ سے اور برداشت نہیں ہو رہا۔ میں گرتی پڑتی خدیجہ کے پاس پہنچی۔ اس نے اپنے ایک بچے کو دائی کی طرف دوڑا دیا اور میرے ساتھ ہمارے گھر میں آ گئی۔
میں درد کے مارے چیخ رہی تھی۔ خدیجہ جلدی جلدی میرے لیے گرم پانی اور نبات کا انتظام کر رہی تھی اور دم لگا زعفران مجھے کھانے کے لیے دے رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد سہ پہر کے وقت شیرین جان اور میری بہنیں بھی آ گئیں۔ جیسے ہی اذان مغرب کا وقت نزدیک ہوا تو بچہ دنیا میں آ گیا۔ اس رات کو میں کسی صورت بھی بھول نہیں سکتی۔ ہلکی سی آواز پر میں بستر پر اٹھ کر بیٹھ جاتی۔ دل چاہتا تھا کہ دروازہ کھلے اور صمد آ جائے۔ اگرچہ صبح تک بچے کی رونے کی وجہ سے میری آنکھ نہ لگی مگر جب بھی تھوڑی جھپکی آتی تو خواب میں صمد کو دیکھتی اور گھبرا کر نیند سے اٹھ جاتی۔
بچے کی پیدائش کو ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔ اسے پنگھوڑے میں سلایا ہی تھا کہ کوئی آواز آئی۔ شیرین جان کمرےمیں تھیں اور میری اور بچے کی دیکھ بھال کر رہی تھیں۔ صمد کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے ماں باہر چلی گئیں۔
صمد آیا اور میرے بستر کے پاس سر جھکا کر بیٹھ گیا۔ اس نے آہستہ سے سلام کیا۔ میں نے زیرِ لب جواب دیا۔ میرا ہاتھ تھام کر میرا حال احوال پوچھنے لگا۔ میں نے بوجھل سر کے ساتھ اس کا جواب دیا۔ کہنے لگا: ’’ناراض ہو؟!‘‘ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔
اس نے میرا ہاتھ دبایا: ’’تم حق رکھتی ہو۔‘‘
میں نے کہا: ’’ایک ہفتہ ہو گیا ہے تمہارے بچے کو پیدا ہوئے۔ اب بھی نہ آتے۔ میں نے کہا نہیں تھا کہ نہ جاؤ۔ تم نے کہا تھا کہ تم آ جاؤ گے۔ یہ ہمارا پہلا بچہ ہے۔ کیا تمہیں میرے پاس نہیں رہنا چاہیے تھا؟!‘‘
اس نے کچھ نہ کہا اور اٹھ کر اپنے بیگ کی طرف چلا گیا۔ اس کی زنجیری کھول کر کہنے لگا: ’’تم جو بھی کہو میں مانتا ہوں، لیکن دیکھو کہ میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں۔ تم نہیں جانتیں میں نے کتنی مشکلوں سے اسے ڈھونڈا ہے۔ دیکھو یہی ہے نا؟‘‘
اس نے ایک اونی کمبل پکڑا اور میرے سامنے ہوا میں لہرانے لگا۔ وہ گلابی نہ تھا بلکہ نیلا تھا، جس میں سفید ریشے تھے۔ میں یہی کمبل چاہتی تھی۔ وہ ایک مربع شکل کا کمبل تھا جس کے ایک کونے پر سرمئی، نیلے اور سفید اُونی دھاگے سے کڑھائی کی گئی تھی۔
میں نے کمبل لیا اور گہوارے کے ساتھ رکھ دیا۔ اس نے پوری دلچسپی سے کہا: ’’تم نہیں جانتیں میں نے کتنی مشکل سے اسے خریدا ہے۔ اپنے دو دوستوں کو لیا اور انہیں موٹرسائیکل کے پیچھے بٹھا کر سڑکوں پر مارا مارا پھرا۔ ایک سڑک کے اس طرف دیکھتا جاتا اور دوسرا دوسری طرف۔ بالآخر میں نے خود ہی اسے ڈھونڈ لیا۔ ایک دکان کے کاؤنٹر کے پیچھے لٹکا ہوا تھا۔‘‘
میں نے آہستہ سے کہا: ’’بہت شکریہ۔‘‘
اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور دبا کر کہنے لگا: ’’تمہارا شکریہ۔ میں جانتا ہوں تم نے کافی تکلیف جھیلی ہے۔ کاش میں تمہارے پاس ہوتا۔ مجھے معاف کر دو۔ قدم! میں جانتا ہوں میرا ہی قصور ہے۔ اگر تم معاف نہیں کرو گی تو میں کیا کروں گا!‘‘
اس کے بعد اس نے جھک کر میرے ہاتھ پر بوسہ دے کر اسے اپنی آنکھوں پر رکھ لیا۔ میرا ہاتھ گیلا ہو گیا۔
اس نے کہا: ’’لاؤ میری بیٹی کو، میں بھی دیکھوں۔‘‘
میں نےکہا: ’’میری حالت ٹھیک نہیں ہے، خود ہی اٹھا لو۔‘‘
اس نے کہا: ’’نہیں۔۔۔ اگر تمہیں زحمت نہ ہو تو خود اسے اٹھا کر میری گود میں رکھو۔ بچی کو تمہارے ہاتھ سے لوں گا۔ اس کا اپنا ہی لطف ہے۔‘‘
میرا پیٹ اور کمر ابھی تک درد کر رہی تھی، لیکن پھر بھی میں مشکل سے نیچے جھکی اور بچی کو پنگھوڑے سے اٹھا کر اس کی گود میں رکھ دیا۔
اس نے بچی کو چوم کر کہا: ’’خدایا، تیرا لاکھ لاکھ شکر۔ تو نے کتنی خوبصورت اور پیاری بچی عطا کی ہے۔‘‘
اسی رات صمد نے سب کی دعوت رکھ دی اور میرے بابا نے ہماری پہلی بچی کا نام تجویز کیا، خدیجہ۔
جب مہمان بھگت چکے تو میں نے پوچھا: ’’کتنے روز رہو گے؟!‘‘
اس نے کہا: ’’جب تک تمہارا دل چاہے، دس پندرہ روز۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’وہاں تمہارا کام کیا ہے؟‘‘
اس نےبتایا: ’’ایک عمارت تیار کر کے مالکوں کے حوالے کر دی ہے۔ اس کا کام ختم ہو گیا ہے۔ دو تین ہفتے بعد نئے کام کی تلاش میں نکل جاؤں گا۔‘‘
اس کا آنا برائے نام ہی تھا۔ اگر وہ ہمارے پاس نہ ہوتا تو یا تو ہمدان میں ہوتا یا رزن اور یا پھر دمق ([2])میں۔ میں بچی کی دیکھ بھال یا پھر گھرداری میں مشغول رہتی تھی۔ ایک رات دسترخوان بچھایا اور اس پر پلیٹیں چننے لگی۔ صمد ہمیشہ کی طرح ریڈیو آن کیے اسے کانوں سے چپکائے بیٹھا تھا۔ میں سالن والا دیگچہ اٹھا کر لائی اور اسے آواز دی: ’’اسے چھوڑ بھی دو۔ کھانا کھالو، مجھے سخت بھوک لگی ہے۔‘‘
وہ نہ آیا۔ میں بیٹھی اسے دیکھتی رہی۔ میں نے دیکھا کہ اچانک اس نے ریڈیو کو زمین پر رکھا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ہوا میں ایک چٹکی بجائی اور کمرے میں ادھر ادھر چلنے لگا۔ اس کے بعد خدیجہ کے پاس گیا اور اسے پنگھوڑے سے نکال لیا۔ پھر اسے گود میں اٹھا کر بوسہ دیا اور ایک ہاتھ پر رکھ کر بلند کر دیا۔
میں گھبرا کر اپنی جگہ سے اٹھی اور بچی کو اس کے ہاتھ سے لے لیا: ’’صمد، کیا ہو گیا ہے۔ بچی کے ساتھ کیا کر رہے ہو۔ یہ ابھی ایک ماہ کی بھی نہیں ہوئی۔ ابھی چالیسویں میں ہے۔ اسے پاگل کر دو گے!‘‘
وہ ہنستے ہوئے گھوم رہا تھا اور کہے جا رہا تھا: ’’خدایا، تیرا شکر ہے۔ خدایا، تیرا شکر ہے۔‘‘
میں نے خدیجہ کو پنگھوڑے میں لٹایا۔ اس نے میرے شانے پکڑ کر ہلائے اور میرے سر پر بوسہ دے کر کہنے لگا: ’’قدم! امام آ رہے ہیں۔ امام آ رہے ہیں۔ تیرے اور تیری بچی کے قربان جاؤں کہ یہ اتنی نیک قدم واقع ہوئی ہے۔‘‘ اس کے بعد اس نے اپنا کوٹ کھونٹی سے اتارا۔
میں نے تعجب سے پوچھا: ’’کہاں؟!‘‘
میں دوسرے ساتھیوں کو اطلاع دینے جا رہا ہوں۔ امام آ رہے ہیں۔
اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ خوشی سے اس کے قدم زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ خدیجہ اس کی آواز سے سو گئی تھی۔ میں نے پوچھا: ’’تو کھانا؟! مجھے بھوک لگ رہی ہے۔‘‘
اس نے پلٹ کر تیز نگاہوں سے مجھے دیکھا: ’’امام آ رہے ہیں، اور اس وقت بھی تمہیں بھوک لگی ہے۔ اپنی جان کی قسم، میری تو بھوک ہی ختم ہو گئی ہے۔ میں بالکل سیر ہو چکا ہوں۔‘‘
میں مبہوت ہو کر اسے دیکھتی رہ گئی: ’’جب تک تم نہیں آؤ گے میں کھانا نہیں کھاؤں گی۔‘‘
کافی دیر گزر گئی مگر وہ نہ آیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ بھوک سے آنتیں قل ہو اللہ پڑھ رہی ہیں۔ میں نے کھانا ڈالا اور کھا لیا۔ دسترخوان کو لپیٹا تو خدیجہ جا گ گئی۔ وہ بھوکی تھی۔ اسے دودھ دیا۔ اس کی کپڑے بدلے اور پنگھوڑے میں دوبارہ سلا دیا۔ اس کے بعد میں کھڑکی سے باہر پھیلی تاریکی پر نظریں گاڑے بیٹھ گئی۔ اسی حالت میں مجھے نیند نے آ لیا۔
رات کافی گزر چکی تھی کہ دروازے کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ صمد آ گیا تھا۔ آہستہ سے اس نے کہا: ’’یہاں کیوں سوئی ہوئی ہو؟!‘‘
اس نے میرا بستر بچھایا اور مجھے اس پر لٹا دیا۔ میری نیند اڑ چکی تھی۔ میں نے پوچھا: ’’کھانا کھایا ہے؟!‘‘ دستر خوان کے پاس بیٹھ کر کہنے لگا: ’’اب کھاؤں گا۔‘‘
خدیجہ جاگ گئی تھی۔ میں نے اٹھنے کے لیے لحاف کو ایک طرف کیا تو اس نے کہا: ’’تم سوئی رہو، تھکی ہوئی ہو۔‘‘
میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔ وہ کھانا بھی کھا رہا تھا اور پنگھوڑے کو ہلا بھی رہا تھا۔
خدیجہ آہستہ آہستہ سو گئی۔
اس نے اٹھ کر بتی بجھا دی۔ میں نے کہا: ’’کھانا؟!‘‘ اس نے کہا: ’’کھا لیا۔‘‘
علی الصبح جب میں نماز کے لیے اٹھی تو دیکھا کہ وہ اپنا بیگ باندھ رہا ہے۔ میں نے روہانسی ہو کر پوچھا: ’’کہاں؟!‘‘
اس نےجواب دیا: ’’مسجد کے ساتھیوں کے ساتھ طے پایا ہے کہ اذان کے بعد ہم نکل کھڑے ہوں گے۔ میں نے تمہیں بتایا تھا نا کہ امام آ رہے ہیں۔‘‘
اچانک میرے آنسو ڈھلکنے لگے۔ میں نے کہا: ’’جب سے تم میری زندگی میں آئے ہو،یا تو ٹریننگ میں مصروف رہے یا کام کے پیچھے بھاگتے رہے ہو۔ اور اب یہ! آخر میرا گناہ کیا ہے؟! جب سے شادی ہوئی ہے تم ایک ہفتے تک میرے پاس نہیں ٹھہرے ہو۔ تہران چلے گئے تو کہا کہ گھر بنا لوں تو قایش ہی میں کوئی کام دھندا ڈھونڈوں گا، مگر تم نہ آئے۔ میں جانتی ہوں کہ تہران تو صرف ایک بہانہ ہے۔ حقیقت میں تم مظاہروں اور اعلانات تقسیم کرنے اور اسی طرح کے کاموں میں مشغول رہتے ہو۔ اگر تم نے یہی سب کچھ کرنا تھا تو شادی ہی کیوں کی؟! مجھے اپنے بابا سے جدا کیوں کیا؟ شادی کر لی تا کہ اس طرح مجھے عذاب میں مبتلا رکھو۔ میرا قصور ہی کیا ہے۔ میں نے شادی کی کہ خوش قسمتی میری قدم چومے۔ میں نہیں جانتی تھی کہ میرے روز و شب غم و اندوہ میں گزریں گے اور اسی فکر میں غلطاں رہوں گی کہ میرا شوہر آج رات آتا ہے، کل رات آ تاہے۔۔۔‘‘
خدیجہ میرے رونے کی آواز سے جاگ گئی تھی اور رونے لگی تھی۔ صمد پنگھوڑے کو ہلاتے ہوئے کہنے لگا: ’’تم سچ کہتی ہو۔ جو کچھ بھی کہو میں قبول کرتا ہوں، لیکن قدم کی جان کی قسم، یہ میری آخری دفعہ ہے۔ اس دفعہ مجھے جانے دو اور امام سے ملنے دو۔ اس کے بعد اگر میں تمہارے پاس سے ہٹ کر کہیں اور گیا تو جو کہو گی مجھے منظور ہے۔‘‘
خدیجہ نے رو رو کر کمرا سر پر اٹھا رکھا تھا۔ میں نے پنگھوڑے کے بند کھولے اور اسے گود میں اٹھا لیا۔ وہ بھوکی تھی۔ صمد آ کر میرے پاس بیٹھ گیا۔ خدیجہ غٹر غٹر دودھ پی رہی تھی۔ اس نے جھک کر خدیجہ کو بوسہ دیا اور اپنی آواز کو بچوں جیسی آواز میں بدل کر اسے کہنے لگا: ’’میں تم سے اور تمہاری ماں سے بہت شرمندہ ہوں۔ وعدہ کرتا ہوں کہ اس کے بعد تمہارے پاس ہی رہوں گا۔ آغا خمینی آ رہے ہیں۔ تم اور تمہاری ماں دعا کرو کہ وہ صحیح و سالم اور خیریت سے پہنچ جائیں۔‘‘
اس کے بعد وہ کھڑا ہو گیا اور ایک خاص انداز میں مجھ سے کہنے لگا: ’’قدم! تمہاری سانسیں نیک ہیں، تم ابھی ابھی گناہوں سے دُھلی ہو۔([3]) امام کے لیے دعا کرو کہ ان کا جہاز سلامتی اور خیریت کے ساتھ اترے۔‘‘
میں نے رو کر کہا: ’’میرا دل تمہاری خاطر بہت بے چین ہو جاتا ہے۔ میں کب جی بھر کر تمہیں دیکھوں گی۔‘‘
اس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں: ’’تم سوچتی ہو کہ میرا دل تمہارے لیے اداس نہیں ہوتا؟! بے انصاف! اگر تمہارا دل فقط میرے لیے مضطرب ہوتا ہے تو میرا دل تم دونوں کے لیے بے قرار ہو جاتا ہے۔‘‘
اس نے جھک کر میرے چہرے پر بوسہ دیا۔ میرا چہرہ بھیگا ہوا تھا۔
کچھ دن بعد ایسا لگا کہ گاؤں میں زلزلہ آگیا ہو۔ سب لوگ گلیوں، گھروں کی چھتوں پر اور گاؤں کے مرکزی میدان میں نکل آئےتھے۔وہ ایک دوسرے کو مٹھائیاں پیش کر رہے تھے۔ عورتوں نے تنور روشن کر دیے تھے اور ان میں روٹیاں اور کماج([4]) پکا رہی تھیں۔ سب کہہ رہے تھے: ’’امام آ گئے۔‘‘
مجھے اس وقت صمد کی فکر لگی ہوئی تھی۔ میں جانتی تھی کہ وہ ہم سب سے زیادہ امام سے لگاؤ رکھتا ہے۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ کاش میں پرندہ بن کر اڑتی ہوئی اس کے پاس جاتی اور پھر ہم اکٹھے جا کر امام کو دیکھتے۔
قایش میں ایک دو گھروں کے علاوہ کسی کے پاس ٹیلی ویژن نہیں تھا۔ سب لوگ ان کے گھروں میں جمع ہو گئے۔ ان کے گھروں کے صحن اور سامنے والی گلیاں لوگوں سے بھر گئی تھیں۔کہہ رہے تھے: ’’طے پایا ہے کہ امام کی آمد اور ان کی تقریر کو ٹیلی ویژن پر نشر کی جائے گا۔‘‘ بہت سے لوگ اور جوان لڑکے اسی وقت گاڑیوں پر سوار ہوئے اور تہران چلے گئے۔
کچھ دن بعد صمد آ گیا۔ وہ بہت زیادہ خوش تھا۔ جیسے ہی گھر میں داخل ہوا تو بتانا شروع ہو گیا: ’’تمہاری نیک دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ میں نے اتنے زیادہ ہجوم میں اپنے آپ کو امام تک پہنچایا۔ امام تو نور کا ایک ٹکڑا ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ وہ کتنے مہربان ہیں۔ قدم! تم یقین کرو گی کہ امام نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ اسی وقت میں نے اپنے آپ اور اپنے خدا سے عہد و پیمان کر لیا کہ امام اور اسلام کا سپاہی بنوں گا۔ میں نے قسم اٹھائی ہے کہ امام کی باتوں پر عمل کروں گا۔ اپنی آخری سانس اور خون کے آخری قطرے تک ان کا جانباز سپاہی رہوں گا۔ تمہیں نہیں پتا ، بہشت زہرا([5]) میں کتنے لوگ آئے تھے۔ قدم! ایسا لگتا تھا کہ سارے ایران کے لوگ ہی تہران میں امڈ آئے ہیں۔ بہت سی جگہوں سے لوگ پیدل بہشت زہرا آئے تھے۔ایک رات پہلے سڑکوں پر جھاڑو لگا دیا گیا تھا، انہیں دھو دیا گیاتھا اور سڑکوں کے درمیان گلدان اور پھولوں کی شاخیں سجا دی گئی تھیں۔ تم نہیں جانتیں کہ امام کی تشریف آوری کتنی باعظمت و باشکوہ تھی۔ مرد، عورتیں، بوڑھے اور جوان سبھی سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ میں نے اپنی موٹر سائیکل بغیر تالے اور زنجیر کے اسی طرح سڑک کنارے ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی کر دی تھی۔ میں وہاں تک چلا گیا تھا جہاں امام نے تقریر کرنا تھی۔ واپسی پر اچانک مجھے اپنی موٹر سائیکل کی یاد آئی۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک شخص اس پر سوار ہونا چاہتا ہے۔ میں موقع پر پہنچ گیا تھا۔ اسی وقت میرے دل میں خیال آیا کہ اگر میں ایسے شخص کے لیے کوئی کام کروں تو اس کا اجر ضرور ملے گا۔ اگر مجھے تھوڑی دیر اور ہو جاتی تو میری موٹر سائیکل اڑا کر لے جاتے۔‘‘
اس کے بعد اس نے اپنے بیگ کی زنجیری کھولی اور ایک بڑی تصویر نکالی جسے اس نے گول کر رکھا تھا۔وہ امام کی تصویر تھی۔ اس نے تصویر کمرے کی دیوار پر لگا دی اور کہا: ’’یہ تصویر ہماری زندگی میں برکت لے کر آئے گی۔‘‘
اگلے روز صمد کا کام شروع ہو گیا۔ وہ رزن جاتا، فلم لاتا اور مسجدمیں سب لوگوں کو دکھاتا۔ ایک بار وہ امام کے آنے اور شاہ کے فرار ہونے کی فلم لے آیا۔ وہ ہنس رہا تھا اور ساتھ ساتھ بتا بھی رہا تھا۔ جب لوگوں نے شاہ کی تصویر دیکھی تو وہ ٹیلی ویژن کو توڑنے کے لیے بے قرار ہونے لگے۔
([1]) شیخ محمد شریفی بعد میں رزن کے امام جمعہ مقرر ہو گئے تھے۔
([3]) کتاب ’’مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل، ج15، ص: 214‘‘ میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ایک طویل روایت میں ہے کہ حضرت آدم و حوا علیہما السلام کے قصے میں خداوند کریم نے حضرت حواؑ سے فرمایا: ’’اے حوا! جو خاتون بھی صحیح و سالم زچگی کے مراحل سے گزر کر بچے کو جنم دے تو میں اس کے تمام گناہ معاف کر دوں گا چاہے وہ دریا کی جھاگ، ریگستان کی ریت کے ذروں اور درختوں کے پتوں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔۔۔‘‘ / صمد نے قدم سے جو کہا کہ تم ابھی ابھی گناہوں سے دھلی ہو تو اس کا اشارہ اسی حدیث کی طرف ہے، کیونکہ انہی دنوں ان کے ہاں خدیجہ کی ولادت ہوئی ہوتی ہے۔
([5]) تہران کا مشہور قبرستان۔جب امام خمینیؒ جلاوطنی ختم کر کے واپس آئے تو وہاں اترے اور اپنی مشہور زمانہ تقریر کی۔
دسواں باب
عید [نوروز] کے بعد صمد ہمدان چلا گیا۔ ایک روز آیا اور کہنے لگا: ’’انعام دو، قدم! میں پاسدار([1]) ہو گیا ہوں۔ میں نے کہا تھا نا کہ امام کا سپاہی بنوں گا۔‘‘
جیسا کہ وہ بتا رہا تھا، اس کی ڈیوٹی انقلاب کورٹ میں لگ گئی تھی۔ وہ ہفتے کو علی الصبح ہمدان چلا جاتا اور جمعرات کی سہ پہر کو واپس آتا۔ اس سے پہلے کہ میں اعتراض کروں اور کوئی بداخلاقی کر بیٹھوں، وہ خود ہی کہہ دیتا: ’’کاش تم جان سکتیں کہ عدالت میں کتنا کام ہوتا ہے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اگر تمہارا اور خدیجہ کا خیال نہ ہوتا تو یہ دو روز بھی میرے لیے آنا مشکل تھا۔‘‘
انہی دنوں مجھے یہ محسوس ہو گیا کہ میں دوبارہ امید سے ہوں۔ مجھ میں ہمت نہیں تھی۔ نہیں جانتی تھی کہ دوسروں کو کیسے اس بارے میں بتاؤں۔ میں نے بے چینی سے کہا: ’’میرا دل نہیں چاہتا کہ تم ہمدان جاؤ۔ میری طبیعت بہت خراب ہے۔ کچھ تو میری حالت کا خیال کرو۔ ایسا لگتا ہے کہ میں دوبارہ امید سے ہو گئی ہوں۔‘‘
اس نے ماتھے پر بل ڈالے بغیر اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر دیے: ’’خدا کا شکر، لاکھ بار شکر۔ خدایا تو اس قدم کو بخش دے جو اتنی ناشکری کر رہی ہے۔ خدایا! ہمیں ایک نیک اور صالح فرزند عطا فرما۔‘‘
مجھے غصہ آ گیا: ’’کیا کہا؟! خدا کا شکر۔تم تو ہوتے نہیں ہو کہ دیکھو، میں کتنی مشکل میں پڑی رہتی ہوں۔ اس سردی میں اکیلی میلے کپڑے دھوؤں، گھر کے کام کروں، بچی کو سنبھالوں، گھر کے سارے کام میرے ہی سر پر رہتے ہیں۔ تھکن سے ٹوٹ جاتی ہوں۔‘‘
ہنس کر کہنے لگا: ’’پہلی بات تو یہ ہےکہ موسم تھوڑا تھوڑا گرم ہو رہا ہے اور دوسری بات یہ کہ تم ماؤں کو جنت ایسے تھوڑی ہی مل جائے گی۔ زحمت کرو، تکلیف جھیلو۔‘‘
میں نے کہا: ’’مجھے نہیں معلوم۔ تمہیں کچھ کرنا ہو گا۔ بہت جلد میں دوبارہ ایک بچے کی ماں بننے والی ہوں۔‘‘
اس نے کہا: ’’ایسی باتیں نہ کرو۔ خدا کو اچھی نہیں لگتیں۔ خدیجہ کو ایک بھائی یا بہن چاہیے۔ دیر یا جلد تمہیں ایک بچہ اور پیدا تو کرنا ہی تھا۔ اس سال نہ ہوتا تو اگلے سال۔ اب ہو گیا ہے تو بہت اچھی بات ہے۔ دونوں اکٹھے ہی بڑے ہوں گے۔‘‘
وہ اس انداز میں بات کرتا تھا کہ انسان مطمئن ہو جاتا تھا۔ پھر اس نے تھوڑی دیر باتیں کیں، اپنے کام کے بارے میں بتایا اور پھر خدیجہ کے ساتھ شرارتیں کرنے لگا۔ اس کے بعد اس نے دوسرے بچے کے لیے اتنی خوشی کا اظہار کیا کہ میں بالکل ہی بھول گئی تھی کہ تھوڑی دیر پہلے تو میں اس سے کافی ناراض تھی۔
اس کے بعد صمد پھر ہمارے پاس سے چلا گیا تھا۔ میرے دل کے لیے یہی خوشی کافی تھی کہ تہران کی نسبت ہمدان قایش سے زیادہ نزدیک ہے۔
میں روز بہ روز بوجھل ہوتی جا رہی تھی۔ خدیجہ ایک سال کے لگ بھگ ہو گئی تھی اور ہاتھوں کے بل چلتی تھی۔ جو چیز بھی دیکھتی، اٹھا کر منہ میں ڈال لیتی۔ میرے لیے بہت مشکل تھا کہ اس حالت میں اس کے پیچھے پیچھے بھاگتی رہوں اور اس کی دیکھ بھال کروں۔ دوسری پریشانی یہ کہ جب سے ہم اپنے گھر میں آئے تھے میں اپنی ماں سے دور ہو گئی تھی۔ بابا کی یاد بھی آتی تھا۔ خوش قسمتی یہ تھی کہ میری بہن حوری کا گھر نزدیک ہی تھا۔ دو تین گھروں سے زیادہ کا فاصلہ نہ تھا۔ وہ میری خبر لیتی رہتی۔ خصوصاً میرے حمل کے زمانے میں تو اپنے گھر کے کام شروع کرنے سے پہلے ایک چکر میری طرف لگا جاتی اور حال احوال پوچھ جاتی۔ جب میری طرف سے مطمئن ہو جاتی تو پھر اپنے کام کاج کے لیے گھر چلی جاتی۔ بعض اوقات میں خدیجہ کو لے کر بابا کے گھر چلی جاتی اور تین چار روزہ وہیں رہتی۔ لیکن جہاں بھی ہوتی، جمعرات کی صبح واپس آ جاتی۔ گھر کی جھاڑ پونچھ کرتی۔ صمد کو آبگوشت بہت زیادہ پسند تھا۔ اگرچہ رات کو کوئی بھی آبگوشت نہیں کھاتا لیکن میں اس کے لیے بنا دیتی۔
کبھی تو وہ آدھی رات کو گھر پہنچتا اور دروازہ کھٹکھٹاتا۔ میں کہتی: ’’تمہارے پاس چابی تو ہوتی ہے تو پھر دروازہ کیوں کھٹکھٹاتے ہو؟!‘‘
وہ کہتا: ’’میں یہ سارا راستہ اس لیے طے کر کے آتا ہوں تا کہ تم میرے لیے دروازہ کھولو۔‘‘
میں کہتی: ’’تم میری حالت نہیں دیکھتے؟!‘‘
اس وقت اسے یاد آتا کہ میں آخری مہینے میں ہوں اور اسے میرا زیادہ خیال رکھنا چاہیے، لیکن اگلے ہفتے اسے دوبارہ سب کچھ بھول جاتا۔ میرے حمل کے آخری ہفتے تھے۔ ہفتے کے دن جب اس نے جانا ہوتا تو پوچھتا: ’’قدم جان! کوئی خبر نہیں ہے؟!‘‘
میں کہتی: ’’فی الحال نہیں۔‘‘
وہ مطمئن ہو جاتا اور اگلے ہفتے تک کےلیے چلا جاتا۔
لیکن اس ہفتے وہ جمعے کے دن سہ پہر ہی کو کپڑے پہن کر جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ فروری کے ایام تھے اور برف کافی زیادہ پڑی تھی۔ کہنے لگا: ’’ہفتے کی صبح کو جلدی ڈیوٹی پر پہنچنا ہے۔ بہتر ہے کہ میں ابھی چلا جاؤں تا کہ ڈیوٹی پر جانے سے رہ نہ جاؤں۔ مجھے ڈر ہے کہ آج رات کو کہیں برف اور نہ پڑ جائے اور راستے بند نہ ہوجائیں۔‘‘
جاتے ہوئے اس نے پوچھا: ’’قدم جان! کوئی خبر نہیں ہے؟!‘‘
میری کمر میں درد ہو رہا تھا اور ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ میں نے سوچا کہ معمولی درد ہو گا۔ میرے خیال میں ابھی پیدائش میں دو ہفتے رہتے تھے۔ میں نے کہا: ’’نہیں، تم خیریت سےجاؤ۔ ابھی [تمہارا رکنا] جلدی ہے۔‘‘
لیکن صبح جب میں بیدار ہوئی تو دیکھا کہ کمر برے طریقے سے درد کر رہی ہے۔ تھوڑی دیر بعد پیٹ میں بھی درد شروع ہو گیا۔میں نے پرواہ نہ کی اور روزمرہ کے کاموں میں مشغول ہو گئی، لیکن بالکل کوئی فرق نہ پڑا اور درد شدید ہو گیا۔ خدیجہ ابھی تک سوئی ہوئی تھی۔ اسی درد کی حالت میں اسی برف اور سردی میں اپنی بہن کے گھر چلی گئی۔ میں سردی سے کانپ رہی تھی۔ حوری نے اپنے ایک بچے کو دائی کی طرف دوڑایا اور دوسرے کو میری بھابھی خدیجہ کی طرف۔پھر مجھے دونوں بازؤوں کے نیچے سے سہارا دے کر میرے گھر واپس لے آئی۔ اس سال بلا کی سردی تھا۔ ہم نے کرسی رکھی۔ خدیجہ نے مجھے اس پر لٹایا اور خود طشت اور گرم پانی تیار کرنے میں لگ گئی۔ میرا دل چاہتا تھا کہ کوئی صمد کو جا کر اطلاع دے دے۔ اتنا جلدی میرا دل اس کے لیے بےقرار ہو گیا تھا۔ میری خواہش تھی کہ وہ ان لمحات میں میرے پاس ہوتا اور میری دستگیری کرتا۔ جب بھی دروازے کی آواز آتی تو میں کہتی: ’’حتماً صمدہو گا۔ صمد آ گیا ہے۔‘‘
درد نے مجھے جکڑ رکھا تھا۔ میرا دل کتنا چاہ رہا تھا کہ صمد کو آواز دوں، لیکن شرم آ رہی تھی۔ جب تک بچہ دنیا میں نہیں آ گیا اس وقت تک صمد کا چہرہ ایک لحظے کے لیے بھی میری آنکھوں سے اوجھل نہ ہوا۔ بچے کے رونے کی آواز سنی تو میں بھی رونے لگی۔ صمد! کیا ہو جاتا اگر تم تھوڑی دیر بعد چلے جاتے؟ کیا ہو جاتا اگر میرے پاس ٹھہر جاتے؟!
جمعرات تھی اور میں خوشی سے اڑی جا رہی تھی۔ہمیشہ کی عادت کے مطابق اس کی منتظر تھی۔ سہ پہر کے وقت کسی نے دروازے پر دستک دی۔ میں جانتی تھی کہ صمد ہے۔ میری بھابھی خدیجہ صحن میں تھی۔اسی نے دروازہ کھولا۔ صمد نے جب خدیجہ کو دیکھا تو وہ بھانپ گیا۔ پوچھنے لگا: ’’کیا خبر ہے! ولادت ہو گئی؟‘‘
خدیجہ نے اسے بتایا کہ بچے کی ولادت ہو گئی ہے، لیکن بیٹا یا بیٹی ہونے کا اس نے اسے نہیں بتایا۔ حوری کمرے میں تھی۔اس نے کھڑکی سے صمد کو دیکھا۔ میری طرف منہ کر کے مسکراتے ہوئے کہنے لگی: ’’قدم! مبارک ہو۔ تمہارا شوہر آ گیا ہے۔‘‘ اور اس سے پہلے کہ صمد کمرے میں داخل ہو وہ باہر چلی گئی۔
میں کرسی کے اوپر ہی لیٹی ہوئی تھی۔صمدجب کمرے میں داخل ہوا تو ہنس کر کہنے لگا: ’’واہ واہ، سلام قدم خانم۔ نئے بچے کی آمد مبارک ہو۔ کہاں ہے میری پیاری بچی!‘‘
میں اس سے ناراض تھی۔ وہ خود بھی جانتا تھا۔ پھر بھی میں نے پوچھا: ’’تمہیں کس نے بتایا؟! خدیجہ نے؟!‘‘
وہ میرے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے بچی کو اپنے پاس ہی سلایا ہوا تھا۔ وہ جھکا اور اس کی پیشانی چوم کر کہنے لگا: ’’میں خود ہی سمجھ گیا تھا۔ کتنی پیاری بیٹی ہے۔ قدم، مجھے اپنی جان کی قسم خوبصورتی تو اس نے تمہی سے لی ہے۔ دیکھو تو کالی آنکھیں اور کالے ابرو۔ ایسا تو نہیں ہے کہ ماہ محرم میں پیدا ہونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں اور ابرو اس طرح کالے ہیں۔‘‘
اس کے بعد میری طرف دیکھا اور کہا: ’’میں چاہتا تھا کہ تمہاری بھابھی کو اچھا انعام دوں۔([2]) مگر افسوس کہ اس نے نہ بتایا کہ میرے بیٹی ہوئی ہے۔ اس نے سوچا شاید میں پریشان ہو جاؤں گا۔‘‘
اس کے بعد وہ اٹھ کر خدیجہ کے سرہانے چلا گیا جو کرسی کے ساتھ ہی نیچے سوئی ہوئی تھی، کہا: ’’میری پیاری خدیجہ، کیسی ہے؟!‘‘
میں نے کہا: ’’اسے تھوڑی سردی لگ گئی تھی۔میں نے دوا دےد ی ہے۔ ابھی ابھی سوئی ہے۔‘‘
صمد اس کے سرہانے بیٹھ گیا اور کچھ دیر اس کے بالوں پر ہاتھ پھیر کر پیار کرتا اور اس کے لیے لوری گاتا رہا۔
اگلے روز صمد منہ اندھیرے ہی جاگ گیا اور کہنے لگا: ’’میں چاہتا ہوں کہ آج اپنی بیٹی کی ولادت کی خوشی میں دعوت کا انتظام کروں۔‘‘
وہ خود گیا اور باپ، ماں، بہنوں، بھائیوں اور کچھ نزدیکی رشتہ داروں کو دعوت دے کر آیا۔ اس کے بعد آستینیں چڑھا کر صحن میں چولہا درست کیا۔ میری ماں، بہنیں اور بھابھیاں اس کی مدد کرنے لگیں۔
تھوڑی تھوڑی دیر بعد کمرے میں میری خبر لینے آ جاتا اور کہتا: ’’قدم! کاش تمہاری حالت اچھی ہوتی اور میرے پاس کھڑی ہوتیں۔ تمہارے بغیر پکانے میں وہ لذت نہیں رہتی۔ ‘‘ موسم سرد تھا۔ ہمارا چھوٹا سا صحن برف سے اٹا ہوا تھا۔ اس نے پھاؤڑا اٹھایا اور برف کو اکٹھا کر کے صحن کے ایک کونے میں جمع کر دیا۔ صحن کے کونے میں بیت الخلاء کے ساتھ برف کا ڈھیر سا بن گیا تھا۔
وہ اس بہانے سے کہ اسے سردی لگ رہی ہے، کمرے میں آ گیا۔ کرسی([3]) کے نیچے بیٹھا اور اپنے ہاتھ لحاف میں ڈال دیے تا کہ گرم ہو جائیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ باتیں کرنا شروع ہو گیا۔ اپنے کام کے بارے میں، اپنے دوستوں کے حوالے سے، اپنے ان واقعات کی بابت جو اسے گذشتہ ہفتے پیش آئے تھے۔ میں نے خدیجہ کو اپنے دائیں طرف سلا دیا تھا اور دوسری بچی دوسری طرف تھی۔ کبھی اسے دودھ پلاتی اور کبھی خدیجہ کی پیشانی پر بھیگا رومال رکھتی۔ اچانک وہ خاموش ہو گیا اور کچھ سوچنے لگا۔ پھر کہا: ’’میں نے تمہیں بہت تکلیف دی ہے۔ مجھے معاف کر دینا۔ جب سے تم نے مجھ سے شادی کی ہے، ایک لحظے کے لیے بھی تمہیں سکھ کا سانس لینا نصیب نہیں ہوا۔ اگر تم نے مجھے معاف نہ کیا تو میں اُس جہان میں خدا کو کیا جواب دوں گا۔‘‘
میری آنکھیں بھر آئی تھیں۔ میں نے کہا؛ ’’یہ کیا باتیں کر رہے ہو!‘‘
اس نے کہا: ’’اگر تم نے مجھے معاف نہ کیا تو کل قیامت کے دن میں بدبخت رہوں گا۔‘‘
میں نے کہا: ’’کیوں نہیں بخشوں گی؟!‘‘
اس نے لحاف کے اندر ہی سے ہاتھ بڑھا کر میرا ہاتھ تھام لیا۔ اس کے ہاتھ ابھی تک ٹھنڈے تھے۔ کہنے لگا: ’’اس وقت تمہیں میری مدد کی ضرورت ہے، لیکن تم دیکھ رہی ہو کہ میں تمہارے پاس نہیں رہ سکتا۔ انقلاب نیا نیا کامیاب ہوا ہے۔ ملک کی حالت ابھی تک صحیح طریقے سے سنبھلنے میں نہیں آ رہی۔ ہمیں سارے کام مکمل طریقے سے انجام دینا ہیں۔ اگر میں تمہارے پاس رہ جاؤں تو کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو تمام کاموں کو مکمل کرے۔ اور اگر چلا جاؤں تو میرا دل تمہارے پاس ہی رہتا ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’میری فکر نہ کرو۔ یہاں میرے سارے دوست احباب، بھائی اور بہنیں میری مدد کے لیے موجود ہیں۔ خدا شیرین جان کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ اگر وہ نہ ہوتیں تو میں تو کب کا حوصلہ ہار چکی ہوتی۔ تمہیں جیسا اچھا اور مناسب لگتا ہے اپنا کام کرو اور خدمت انجام دو۔‘‘
اس نے میرا ہاتھ دبایا۔ جب اس نے سر اٹھایا تو میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں سرخ ہو چکی ہیں۔ جب وہ بہت زیادہ اداس ہوتا تو اس کی آنکھیں ایسے ہی ہو جایا کرتی تھیں۔ اگرچہ مجھے اس کی یہ حالت اچھی لگتی تھی مگر میرا دل کبھی نہیں چاہتا تھا کہ اسے بے چین دیکھوں۔ میں نے بھی اس کے ہاتھ کو دبا کر کہا: ’’اب اس سے زیادہ بھی اچھا نہیں ہے۔اٹھو اور جاؤ۔ سب یہی سوچیں گے کہ ہمارا جھگڑا ہو گیا ہے۔‘‘
میری بہن کھڑکی کے پاس کھڑی تھی۔ اس نے کھڑکی کے شیشے پر ٹھوکر لگائی۔ صمد گھبرا گیا۔ جلدی سے اس نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور شرم کے مارے سرخ ہو گیا۔ میری بہن بھی شرمندہ ہو گئی اور سر نیچے کر کے کہنے لگی: ’’آغا صمد، شیرین جان چاولوں کو دم دینا چاہتی ہیں۔ آپ ذرا دیگ پکڑنے کے لیے آئیں گے؟‘‘
وہ جانے کے لیے اٹھا۔ دروازے پر پہنچا تو میری طرف پلٹ کر پوچھا: ’’تم نے اپنی بات دل سے کہی تھی نا؟‘‘
میں نے ہنس کر کہا: ’’ہاں، خاطر جمع رکھو۔‘‘
ظہر ہو گئی تھی۔ ہمارا چھوٹا سا کمرہ مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ کوئی دسترخوان بچھا رہا تھا، اور کوئی روٹی اور کوئی دہی اور اچار دسترخوان پر لگا رہا تھا۔ صمد مہمانوں کے سامنے پیالیاں رکھ رہا تھا۔ دو پیالیاں آپس میں ایک دوسرے کے اندر پیوست ہو گئی تھیں اور جدا نہیں ہو رہی تھیں۔ وہ انہیں نکالنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ان میں سے ایک ٹوٹ گئی اور اس کا ہاتھ کٹ گیا۔ شیرین جان جلدی سے آگے بڑھیں اور ایک رومال لے کر اس کے ہاتھ کو باندھ دیا۔ اس افراتفری میں میرا بہنوئی گھبرایا ہوا کمرے میں داخل ہوا اور کہا: ’’گرجی کے بری طرح نکسیر پھوٹ پڑی ہے۔ آدھا گھنٹہ ہو گیا ہے اس کا خون بند ہونے کا نام ہیں نہیں لے رہا۔‘‘
کچھ ہی دن پہلے صمد نے ژیان([4]) خریدی تھی۔ اس نے طاقچے سے چابی اٹھائی اور کہا: ’’جلدی سے اسے تیار کرو۔ اسے ڈاکٹر کے پاس لے چلتے ہیں۔‘‘
اس کے بعد میری طرف دیکھ کر کہا: ’’تم اپنا کھانا کھا لینا۔‘‘
دسترخوان بچھا کر کھانا چن دیا گیا تھا۔ اچانک میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ میں نے اپنا سر لحاف کے اندر کر لیا اور سب سے نظریں بچا کر رونے لگی۔ میرا دل چاہتا تھا کہ اس وقت صمد مہمانوں کے پاس ہوتا اور مہانوں کی خاطرمدارات کرتا۔ میں نے سوچا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ صمد کے اپنی بیٹی کی دعوت میں شریک نہ ہو سکنے کے سارے اسباب یکدم جمع ہو گئے ہیں۔
جب کھانا لگ گیا اور سب لوگ کھانے میں مصروف ہو گئے اور چینی کی پلیٹوں میں بجتی چمچوں کی آواز بلند ہونے لگی تو میری بھانجی کمرے میں داخل ہوئی اور میرے پاس آ کر سرگوشی کی: ’’خالہ! آغا صمد، ماں اور بابا کے ساتھ رزن چلے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ آپ سے کہہ دوں کہ آپ پریشان نہ ہوں۔‘‘
مہمانوں نے کھانا کھا لیا تھا۔ کھانے کے بعد چائے لائی گئی۔ میری بہنیں اور بھابھیاں برتن بھی دھو چکی تھیں، مگر صمد نہ آیا۔
سہ پہر ہو گئی۔ مہمانوں نے پھل اور مٹھائی بھی کھا لی، تب بھی صمد نہ آیا۔ بابا نے بچی کو گود میں لے لیا، اس کے کانوں میں اذان و اقامت کہی اور نام بھی رکھ دیا: معصومہ، اور اس کے دونوں کانوں میں اس نام پکارا۔
باہر تھوڑا تھوڑا اندھیرا پھیل رہا تھا۔ مہمان اٹھے اور خدا حافظ کہہ کر چلے گئے۔
رات ہو گئی تھی۔ سارے چلے گئے تھے۔ شیرین جان اور خدیجہ میرے پاس ہی رہ گئیں۔ شیرین جان نے میرے لیے رات کا کھانا تیار کیا۔ خدیجہ نے دسترخوان بچھایا ہی تھا کہ دروازہ کھلا اور میری بہن اور بہنوئی کمرے میں داخل ہوئے ۔ لیکن صمد اب بھی ان کے ساتھ نہیں تھا۔ میں نے پریشانی سے پوچھا: ’’صمد کہاں ہے؟!‘‘
میری بہن میرے پاس بیٹھ گئی۔ اس کی حالت بہتر ہو گئی تھی۔ میرے بہنوئی نے کہا: ’’ظہر کے وقت ہم یہاں سے رزن گئے، ڈاکٹر نہیں ملا۔ آغا صمد نے کافی زحمت کی۔ ہمیں ہمدان ہسپتال میں لے گیا۔ ڈاکٹر نے کچھ ٹیکوں اور گولیوں کے ذریعے گرجی کی نکسیر روک دی۔ سہ پہر ہو گئی تھی۔ جب ہم واپس ہونے لگے تو صمد نے کہا کہ تم لوگ گاڑی لو اور چلے جاؤ۔ مجھے ویسے بھی کل صبح دوبارہ پلٹ کر آنا ہے۔ اب اتنا سارا راستہ طے کر کے قایش جانے کا فائدہ نہیں ہے۔ قدم سے کہہ دینا کہ میں اگلی جمعرات کو آ جاؤں گا۔‘‘
میں نے اپنی بہن اور بہنوئی کے سامنے کوئی بات نہ کی، مگر غم سےمیرا برا حال ہو گیا۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد سارے چلے گئے۔ شیرین جان میرے پاس رہنا چاہتی تھیں مگر میں نے انہیں زبردستی بھیج دیا۔ میں نےکہا: ’’بابا اکیلے ہیں۔ انہوں نے رات کا کھانا بھی نہیں کھایا۔ میں اس بات پر راضی نہیں ہوں کہ آپ میری خاطر انہیں اکیلا چھوڑ دیں۔‘‘
جب سب چلے گئے تو میں نے اٹھ کر بتیاں بجھا دیں اور اندھیرے میں زار و قطار رونے لگی۔
([1]) سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی جسے مختصراً پاسدارانِ انقلاب یا پاسداران بھی کہا جاتا ہے، ایران کی افواج کا ایک حصہ ہے جو نظریاتی بنیادوں پر وجود میں آئی تھی۔ یہ کسی حد تک عام افواج سے الگ اپنا آزاد وجود رکھتی ہے۔ انگریزی خبروں میں اسے Army of the Guardians of the Islamic Revolution کہا جاتا ہے۔
([2]) ایران میں رسم ہے کہ جو بھی والد کو بچے کی ولادت کی سب سے پہلے خوشخبری سناتا ہے اسے کوئی نہ کوئی چیز بطور انعام دی جاتی ہے۔
([3]) اس کرسی کے بارے میں گذشتہ صفحات کے حواشی میں وضاحت کی جا چکی ہے۔
گیارہواں باب
اب میری دو بیٹیاں تھیں اور ڈھیر سارا کام۔ صبح نیند سے اٹھتے ہی یا گھر کے کام تھے، یا دھلائی ستھرائی تھی، یا جھاڑ پونچھ تھی، یا باورچی خانے میں مصروفیت یا بچوں کے کام۔ میری بھابھی میرے لیے ایک بڑی نعمت تھی۔ وہ کبھی بھی مجھے اکیلا نہ چھوڑتی تھی۔ یا وہ میرے گھر میں ہوتی یا میں اس کے گھر میں۔میں اکثر بابا کے گھر چلی جاتی اور کافی دن ان کے پاس ہی رہتی، مگر جمعرات کا دن دوسرے دنوں سے کافی مختلف ہوتا۔ اس دن میں صبح جلدی بیدار ہو جاتی اور خوشی سے پاؤں زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ دراصل بدھ کی رات کو میں جلدی سو جاتی تا کہ جمعرات کی صبح جلدی اٹھ سکوں۔ علی الصبح ہی گھر کی صفائی ستھرائی میں جُت جاتی اور پورے گھر کو چمکا کر رکھ دیتی۔ بچوں کو نہلاتی دھلاتی ۔ ہر چیز پر کپڑا لگاتی۔ جو بھی دیکھتا یہی سمجھتا کہ کوئی خاص مہمان آنے والا ہے۔ صمد میرا عزیز ترین مہمان تھا۔ اس کا پسندیدہ کھانا پکانے کے لیے رکھ چولہے پر چڑھا دیتی۔ اس کھانے کو تیار کرنے میں اتنا وقت لگ جاتا کہ میرا حوصلہ جواب دے جاتا۔ سہ پہر کے وقت میری بھابھی بھی آ جاتی۔ وہ بچوں کو لے جاتی اور مجھے کہتی: ’’اپنا حلیہ بھی تھوڑا سا ٹھیک کر لو۔‘‘
اسی طرح دن اور ہفتے گزر رہے تھے کہ عید [نوروز] آن پہنچی۔ عید کا پانچواں دن تھا اور مہمان نوازیوں اور ایک دوسرے کے گھروں میں آنے جانے کا سلسلہ ختم ہو چکا تھا۔ صبح جاگے تو صمد نے کہا: ’’میں آج جانا چاہتا ہوں۔‘‘
میں نے اعتراض کیا: ’’اتنی جلدی کیوں؟ تمہیں رکنا چاہیےا ور سیزدہ بہ در([1]) کے بعد جانا چاہیے۔‘‘
اس نے کہا: ’’نہیں قدم، مجھے مجبور نہ کرو۔ مجھے جانا ہے۔ بہت کام پڑے ہیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’میں بالکل اکیلی ہوں۔ ایسے میں اگر اچانک گھر میں مہمان آ گئے تو ان دو چھوٹے چھوٹے اور ہر وقت چپکے رہنے والے بچوں کے ساتھ کیسے کام کروں گی؟‘‘
اس نے کہا: ’’تم بھی آؤ، اکٹھے چلتے ہیں۔‘‘
میں اپنی جگہ سے ہل کر رہ گئی۔ پوچھا: ’’رات کو کس کے گھر جائیں گے۔ کوئی جگہ ہے تمہارے پاس؟‘‘
اس نے کہا: ’’میں نے ایک چھوٹا سا گھر کرائے پر لے لیا ہے، بُرا نہیں ہے۔ تم آ کر دیکھو تو تمہیں اچھا لگے گا۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’ہمیشہ کے لیے؟‘‘
وہ نرمی سے ہنس دیا: ’’ہاں،اس طرح میرے لیے بھی بہتر ہے۔ روز بہ روز میرا کام مشکل ہوتا جا رہا ہے اور آنا جانا اس سے بھی زیادہ مشکل۔ چلو، سامان اکٹھا کریں اور ہمدان چلیں۔‘‘
مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اتنی آسانی سے اپنے بابا، بھابھی، شیرین جان، گھر اور اس زندگی سے دور ہو پاؤں گی۔ میں نے کہا: ’’مجھ سے یہ نہیں ہونے والا۔ میرا دل پریشان ہو جائے گا۔‘‘
اس کے چہرے پر شکنیں گہری ہو گئیں: ’’بہت چالاک ہو۔ تم میں دوری کا حوصلہ نہیں ہے تو پھر میرا دل تمہارے اور بچوں کے لیے بے چین نہ ہو؟ میں ڈرتا ہوں کہ اتنی جلدی تم لوگ تعداد میں چار پانچ ہو گئے تو میں کیا کروں گا؟!‘‘
میں نے کہا: ’’توبہ کرو، صمد۔ اللہ نہ کرے۔‘‘
اس نے اتنی باتیں کیں یہاں تک میں راضی ہو گئی۔ اچانک ہی مجھے ایسا لگا کہ مذاق مذاق میں ہم ہمدان جانے کا مصمم ارادہ کر چکے ہیں۔
میں نے کہا: ’’فقط عید کے آخر تک۔ اگر مجھے لگا کہ میں نہیں رہ سکتی تو میں لوٹ آؤں گی، ہاں!‘‘
جیسے ہی اس نے میرے منہ سے بات سنی تو دوڑ کر گیا، مختصر سا سامان جمع کیا اور ژیان پر لاد کر کہنے لگا: ’’اچھا، ایک ہفتہ اسی طرح گزرے گا۔ اس کے بعد انشاء اللہ تم میں طاقت آجائے گی۔‘‘
میں نے قبول کر لیا اور ہم بابا کے گھر چلے گئے۔ شیرین جان کو تو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا۔ ان کے منہ سے بات ہی نہیں نکل رہی تھی۔ ہم نے بچوں کو ان کے پاس چھوڑا اور ظہر تک سب رشتہ داروں کو مل کر رخصت ہوتے رہے۔ بچے میری ماں سے جدا نہیں ہو رہے تھے۔ خدیجہ شیرین سے ایسی لپٹی کے نیچے اترنے کانام ہی نہیں لے رہی تھی۔ وہ رو رہی تھی اور اپنی میٹھی زبان سے مسلسل کہے جا رہی تھی: ’’شینا، شینا۔‘‘
جیسے تیسے میں نے اسے شینا سے جدا کیا۔ ہم گاڑی پر بیٹھے اور ہمدان کے راستے پر نکل کھڑے ہوئے۔ صمد نے گاڑی میں اتنا سامان رکھ دیا تھا کہ ہمارے بیٹھے کی جگہ ہی نہ رہی تھی۔ ژیان فراٹے بھرتی آگے بڑھ رہی تھی۔
ہمدان قایش سے کافی مختلف تھا۔ میرے لیے ہر چیز اور ہر جگہ اجنبی تھی۔ شروع کے دنوں میں تو بابا سے دوری نے مجھے بہت ہی بے تاب کیے رکھا۔ اتنی بے قرار تھی کہ بعض اوقات صمد کی نظروں سے بچ کر بیٹھ جاتی اور زاروزار رونے لگتی۔ اس سفر میں ایک ہی خوبی تھی۔ وہ یہ کہ صمد کو ہر روز دیکھتی تھی۔ پہلے ہفتے میں تو وہ دن کے کھانے کے وقت گھر پر آ جاتا۔ دن کا کھانا ہم اکٹھے ہی کھاتے۔ اس کے بعد وہ بچوں کے ساتھ تھوڑا کھیلتا، چائے پی کر چلا جاتا اور پھر رات کو واپس آتا۔ اس کا کام کافی سخت تھا۔ انقلاب کی کامیابی کے شروع کے ایام تھے۔منافقوں اور دہشت گردوں کی تخریب کاریاں عروج پر تھیں۔ صمد چھوٹے گروپوں کے ساتھ جا کر مقابلہ کرتا تھا۔ یہ خطرناک کام تھا۔
ہمدان میں ہمارے آنے کا ایک فائدہ اور بھی ہوا۔ اب دوست احباب اور رشتہ دار جانتے تھے کہ ہمدان میں ان کے رہنے کی جگہ موجود ہے، اس لیے انہیں اگر کوئی خریداری کرنا ہوتی یا ڈاکٹر کے پاس جانا ہوتا تو وہ ہماری امید پر ہمدان آ جاتے تھے۔اس حساب سےہمارے گھر اکثر مہمان ہی رہتے۔ ایک مہینہ گزرا تو صمد کا بھائی تیمور ہمارے پاس آ گیا۔ وہ پڑھتا تھا۔ قایش میں مڈل سکول نہیں تھا۔ اکثر طلاب پڑھنے کے لیے رزن جانتے تھے، جو کہ بذات خود ایک مشکل کام تھا۔ یہی وجہ تھی کہ صمد تیمور کو اپنے پاس ہی لے آیا تھا۔ اب تو واقعاً میرا کام بہت بڑھ چکا تھا۔ بچوں کی زحمت، مہمان نوازی اور روزمرہ کے کام مجھے تھکا کر رکھ دیتے تھے۔
اس دن صمد دن کے کھانے کے لیے گھر نہ آیا۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ تیمور بیٹھا اپنا سکول کا کام لکھ رہا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ تیمور نے جا کر دروازہ کھولا۔ میں کھڑکی سے صحن میں دیکھ رہی تھی۔ میرا دیور ستار آیا تھا۔ وہ صحن میں کھڑا ہو کر تیمور سے باتیں کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد تیمور آیا اور کپڑے بدل کر کہنے لگا: ’’میں ستار بھائی کے ساتھ جا رہا ہوں۔ کتاب اور کاپی خریدنی ہے۔‘‘
میں نے تعجب سے کہا: ’’کل ہی تو صمد تمہارے لیے ساری کتابیں اور کاپیاں خرید لایا تھا۔ ‘‘
تیمور کو جانے کی جلدی تھی۔ اس نے کہا: ’’میں ابھی واپس آتا ہوں۔‘‘
مجھے شک پڑ گیا، میں نے کہا: ’’ستار اندر کیوں نہیں آ رہا؟‘‘
اس نے دروازے سے نکلتے نکلتے کہا: ’’رات کے کھانے پر آ جائیں گے۔‘‘
مجھے کھٹکا لگ گیا۔ میں نے سوچا کہ کہیں صمد کو برا حادثہ پیش نہ آ گیا ہو۔ لیکن پھر جلد ہی اپنے آپ کو تسلی دی: ’’نہیں، ایسا نہیں ہے۔ دراصل صمد کے گھر نہ ہونے کی وجہ سے ستارکو اندر آتے ہوئے شرم محسوس ہوئی۔ وہ دونوں چاہتے ہوں گے کہ پہلے عدالت میں جا کر صمد سے مل لیں پھر رات کو اکٹھے گھر آ جائیں۔‘‘ کچھ گھنٹے گزرے تو مغرب کے نزدیک دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی۔ اس بار میرے سسر تھے اور زار و زار رو رہے تھے۔ میں نے دروازہ کھولتے ہی پوچھا: ’’کیا ہوا؟! کوئی حادثہ ہو گیا کیا؟!‘‘ میرے سسر انتہائی پریشانی کے عالم میں کمرے میں ایک جگہ بیٹھ گئے۔ میں نے لاکھ پوچھا مگر انہوں نے سچی بات نہ بتائی۔ کہنے لگے: ’’کیا کوئی حادثہ پیش آنا ضروری ہے؟! بس ایسے ہی بچوں کی یاد ستا رہی تھی تو تیمور اور صمد سے ملنے کے لیے آ گیا ہوں۔‘‘
کیا مجھے یقین کر لینا چاہیے تھا؟! نہیں، میں نے بالکل یقین نہیں کیا لیکن رات کے کھانے کا کچھ انتظام کرنا ضروری تھا۔ میرے دل کی بے قراری اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ پریشان سوچوں میں گھری ہوئی تھی کہ دوبارہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں گھبرا کی دروازے کی طرف لپکی۔ جیسے ہی دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک منی بس ہمارے گھر کے سامنے آ کر رکی اور اس میں سے بابا، شیرین جان، ہمارے کچھ رشتہ دار اور میرے دیور گاڑی سے اتر رہے ہیں۔ میں دروازے پر ہی نڈھال ہو گئی۔ اب مجھے یقین ہو گیا تھا کہ کوئی نہ کوئی حادثہ ضرور پیش آ گیا ہے۔ میں نے انہیں ہزار قسمیں دیں مگر کسی نے صحیح بات نہ بتائی۔ سب ایک ہی بات کہہ رہے تھے کہ صمد نے پیغام بھجوایا ہے کہ ہم سارے تمہارے پاس پہنچیں۔
مجھے ان کی بات کا یقین کر لینا چاہیے تھا مگر میں نے نہ کیا۔ میں جانتی تھی کہ وہ جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ اگر وہ سچ کہہ رہے تھے تو صمد اتنی رات گئے تک کیوں نہ آیا تھا۔ تیمور اپنے بھائی کے ساتھ کہاں چلا گیا تھا؟! وہ ابھی تک واپس کیوں نہ آئے تھے۔ یہ اتنے سارے مہمانوں کو اچانک ہماری اتنی یاد کیوں ستانے لگی؟!
مجھے ہر حال میں مہمانوں کے لیے رات کے کھانے کا بندوبست کرنا تھا۔ میں باورچی خانے میں چلی گئی۔ کھانا پکا رہی تھی اور آنسو بہا رہی تھی۔ بالآخر رات کا کھانا تیار ہو گیا لیکن ابھی تک صمد اور اس کے بھائیوں کی کوئی خبر نہ تھی۔ مجبوراً میں نے کھانا لگا دیا۔ کھانے کے بعد جو دو تین بسترے اور لحاف ہمارے پاس تھے وہی مہمانوں کے لیے بچھا دیے۔ تھوڑی دیر بعد سب سو گئے لیکن مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔ مجھے صمد کا انتظار تھا۔ پریشانی اور بے چینی نے میری نیند اڑا دی تھی۔ ذرا سی آہٹ کی آواز آتی، آنکھیں صحن میں پھیلی تاریکی میں جم جاتیں، لیکن نہ صمد کا کوئی نام و نشان تھا، نہ تیمور اور ستار کا۔
میں نہیں جانتی کہ مجھے کیسے نیند آ گئی مگر اتنا یاد ہے کہ صبح تک برے برے خواب آتے رہے۔ میرے سسر علی الصبح نماز کے بعد ناشتہ کیے بغیر ہی جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ میری ساس بھی چادر اوڑھے ان کے پیچھے پیچھے ہو لیں۔ میرا حوصلہ جواب دے چکا تھا۔ میں نے بھی چادر اوڑھی اور کہا: ’’میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں گی۔‘‘
میرے سسر نے غصے سے کہا: ’’نہیں، تم نہیں آ سکتیں۔ تم کہاں جاؤ گی؟! ہمیں کام ہے۔ تم گھر میں ہی اپنے بچوں کے پاس رہو۔‘‘
میں رونے لگی: ’’آپ کو خدا کی قسم، سچ بتائیں، صمد پر کون سی مصیبت ٹوٹ پڑی ہے؟! مجھے معلوم ہے کہ صمد کو کچھ ہو گیا ہے۔ آپ سچ سچ بتائیں۔‘‘
سسر نے دوبارہ کہا: ’’تم مہمانوں کی دیکھ بھال کرو۔ ابھی جاگ جائیں گے تو انہیں ناشتہ بھی دینا ہو گا۔‘‘
میں زارو قطار رو رہی تھی اور آنسو میرے چہرے پر پھیلتے چلے جا رہے تھے۔ میں نے کہا: ’’شیرین جان ہیں۔ اگر آپ مجھے ساتھ نہیں لے کر جاتے تو میں خود ہی انقلاب کورٹ چلی جاتی ہوں۔‘‘
میں نے یہ کہا تو میرے سسر بھی کچھ ڈھیلے پڑ گئے۔ میری ساس کا دل بھی میرے لیے کڑھ رہا تھا۔ انہوں نے کہا: ’’ہمیں بھی صحیح معلوم نہیں ہے۔ کہتے ہیں صمد زخمی ہو گیا ہے اور اب ہسپتال میں ہے۔‘‘
میں نے یہ سنا تو میرے قدموں تلے سے زمین نکل گئی۔اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں کہ کیسے ہم گاڑی میں بیٹھے اور ہسپتال پہنچے۔ میں ہسپتال میں صمد کا جسد ڈھونڈ رہی تھی کہ تیمور کو دوڑتےہوئے اپنی طرف آتے دیکھا۔ اس نے اپنے والد کے کان میں کچھ کہا تو وہ دونوں وارڈ کی طرف چل دیے۔ میں اور میری ساس بھی ان کے پیچھے پیچھے دوڑ رہی تھیں۔ تیمور آہستہ آہستہ سارے واقعات اپنے والد کو سنا رہا تھا۔ ہم بھی یہ ساری باتیں سن رہی تھیں کہ کل کا واقعہ ہے کہ صمد اور اس کا ایک ساتھی کچھ منافقوں کو گرفتار کرتے ہیں۔ ان منافقوں میں سے ایک عورت تھی۔ صمد اور اس کا دوست اسلامی آداب کا خیال رکھتے ہوئے عورت کی جسمانی تلاشی نہیں لیتے اور کہتے ہیں: ’’سچ بتاؤ کہ تمہارے پاس اسلحہ تو نہیں ہے؟‘‘ عورت قسم کھا کر کہتی ہے کہ اس کے پاس اسلحہ نہیں ہے۔ صمد اور اس کا ساتھی عدالت میں لے جانے کے لیے اس عورت کو گاڑی میں بٹھاتے ہیں۔ راستے میں وہ عورت اچانک اپنے دستی بم کی پن کھینچ کر گاڑی کے درمیان میں پھینک دیتی ہے۔ جس کے نتیجے میں صمد کے دوست آغا مسگریان شہید ہو جاتے ہیں جب کہ صمد زخمی ہو جاتا ہے۔
وارڈ کے دروازے کے سامنے پہنچ کر تیمور نے دروازے پر بیٹھے نگہبان سے کہا: ’’ہم آغا ابرہیمی سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘
نگہبان نے منع کر دیا: ’’ان سے ملاقات کی اجازت نہیں ہے۔‘‘
مجھے اپنے آپ پر قابو نہ رہا۔ میں رونے اور التماس کرنے لگی۔ اسی وقت ایک نرس پہنچ گئی۔ جب اسے معلوم ہوا کہ میں صمد کی بیوی ہوں تو اس کے دل میں رحم آ گیا اور مجھ سے کہنے لگی: ’’فقط تم اندر جا سکتی ہو۔ دو تین منٹ سے زیادہ مت ٹھہرنا۔ جلدی واپس آ جانا۔‘‘
میرے قدموں میں چلنے کی طاقت نہ رہی تھی۔ میں نے دروازے میں کھڑے ہو کر اس کی چوکھٹ پکڑ لی تا کہ گر نہ جاؤں۔ وارڈ میں موجود تمام بستر دیکھ ڈالے۔ صمد اس کمرے میں نہیں تھا۔ میرے دل کی دھڑکن رُک رہی تھی۔ سانس سینے میں اٹک کر رہ گیا تھا۔ میرا صمد کہاں ہے؟! اسے کیا مصیبت پیش آ گئی ہے؟!
اچانک میری نظر صمد کے دوست آغا یادگاری پر پڑی۔ وہ کھڑکی کے پاس لگے بستر پر سو رہے تھے۔ انہوں نے بھی مجھے دیکھ لیا اور کہا: ’’سلام، خانم ابراہیمی، آغا ابراہیمی یہاں سوئے ہوئے ہیں۔‘‘ انہوں نے ساتھ والے بستر کی طرف اشارہ کیا۔
مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ وہ مرد جو بستر پر سویا ہوا تھا، وہ صمد تھا۔ وہ کتنا لاغر، زرد اور کمزور ہو گیا تھا۔ اس کے رخسار اندر کو دھنس گئے تھے اور آنکھوں کے نیچے کی ہڈیاں باہر کو نکل آئی تھیں۔ میں آگے بڑھی تو ایک لمحے کے لیے لرز کر رہ گئی۔ اس کے زرد پاؤں جو لحاف سے باہر نکلے ہوئے تھے لاغر اور خشک ہو چکے تھے۔ میں نے سوچا، خدا نہ کرے۔۔۔
میں اس کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔اسے معلوم ہو گیا کہ میں آئی ہوں۔ اس نے آرام سے آنکھیں کھولیں اور مشکل سے پوچھا: ’’بچے کہاں ہیں؟!‘‘
میں روہانسی ہو گئی۔ میرے منہ سے بات نہیں نکل رہی تھی۔ میں نے ہزار کوشش کر کے ضبط کیا اور کہا: ’’میری بہن کے پاس ہیں۔ وہ ٹھیک ہیں۔ تم کیسے ہو؟!‘‘
وہ جواب نہیں دے سکتا تھا۔ تائید کے انداز میں سر ہلاتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ بس یہی تھیں وہ ساری باتیں جو میرے اور اس کے درمیان ہوئی تھیں۔ میری آنکھیں ڈرپ اور خون کی اس تھیلی پر لگی تھیں جو اسے لگائی گئی تھیں۔ وہی نرس آ گئی اور مجھے باہر جانے کا اشارہ کرنے لگی۔
راہدار ی میں پہنچی تو میری جسم میں جان نہ رہی۔ دیوار سے لگ کر بیٹھ گئی۔ نرس نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اٹھایا اور کہا: ’’آؤ، اس کے ڈاکٹر سے بات کر لو۔‘‘
وہ مجھے ایک ڈاکٹر کے پاس لے گئی جو راہداری میں نرسنگ سٹاف کے پاس کھڑا تھا۔ اس نے ڈاکٹر کو بتایا: ’’یہ آغا ابراہیمی کی بیگم ہیں۔‘‘
ڈاکٹر فائل دیکھ رہا تھا۔ اس نے فائل بند کی اور میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے نرمی سے سلام اور احوال پرسی کے بعد کہنے لگا: ’’خانم ابراہیمی! خدا نے آپ پر بھی رحم کیا اور آغا ابراہیمی پر بھی۔ آپ کے شوہر کے دونوں گردے شدت سے متاثر ہوئے ہیں، لیکن ایک گردے کی حالت کافی خطرناک ہے۔ احتمال یہی ہے کہ اس نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔‘‘
تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد دوبارہ اس نے کہا: ’’گذشتہ رات انہیں تہران ہسپتال میں بھیج رہے تھے کہ میں اچانک پہنچ گیا اور ان کا آپریشن کیا۔ اگر مجھے پہنچنے میں تھوڑی دیر ہو جاتی اور انہیں تہران لے جاتے تو راستے میں ضرور کوئی بڑی مشکل پیش آ سکتی تھی۔ جو آپریشن میں نے کیا ہے وہ تسلی بخش ہے۔ فی الحال خطرہ ختم ہو گیا ہے۔ البتہ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ان کے ایک گردے کو سنبھالنا ہمارے بس میں نہ تھا۔‘‘
شروع کے چند دن میرے لیے ہر چیز کو برداشت کرنا سخت مشکل تھا لیکن آہستہ آہستہ مجھے ان حالات کی عادت ہو گئی۔
صمد دس روز ہسپتال میں رہا۔ میں ہر روز خدیجہ اور معصومہ کو اپنے ساتھ والے ہمسایوں کے گھر چھوڑتی اور ہسپتال چلی جاتی اور ظہر تک صمد کے پاس ہی رہتی۔ ظہر کے وقت گھر آتی۔ بچوں کو دیکھتی بھالتی، دن کا کھانا کھاتی اور ظہر کے بعد دوبارہ بچوں کو دوسرے ہمسایوں کے حوالے کر کے ہسپتال چلی جاتی اور مغرب تک وہیں رہتی۔
ایک دن بچوں نے شدید تنگ گیا۔ ہزار جتن کیے مگر کسی طرح چپ ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ دن کے گیارہ بج چکے تھےا ور میں ابھی تک ہسپتال نہیں گئی تھی۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو صمد کا ایک دوست دروازے پر کھڑا تھا۔ اس نے مسکرا کر سلام کیا اور کہا: ’’خانم ابراہیمی! آغا صمد کا بستر بچھا دیں اور ان کے لیے ملائی کا انتظام کر دیں۔ ہم انہیں لے آئے ہیں۔‘‘
میں نے خوشی سے گلی میں جھانکا۔ صمد گاڑی میں لیٹا ہوا تھا۔ اس کے دو دوست اس کے دونوں اطراف میں موجود تھے۔ اس کا سر ایک دوست کے زانو پر اور پاؤں دوسرے دوست کے زانو پر تھے۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے میرے لیے ہاتھ ہلایا اور مسکراتے ہوئے سر ہلا کر سلام اور احوال پرسی کرنے لگا۔ میں نے جلدی جلدی اس کے لیے بستر بچھا دیا۔
اس کے دوست ظہر تک اس کے پاس رہے اور اس کے ساتھ گپ شپ لگاتے رہے۔ باتیں کرتے، ہنستے، لطیفے سناتے ظہر کی اذان ہو گئی۔ اس وقت انہیں جانے کا خیال آیا۔ انہوں نے پلاسٹک کے دو تھیلے میرے ہاتھ میں تھمائے اور دواؤں کے طریق استعمال اور اوقات کی تفصیل بتا کر رخصت ہو گئے۔
وہ چلے گئے تو صمد نے کہا: ’’بچوں کو لے آؤ، میرا دل ان کے لیے بہت پریشان ہو رہا ہے۔‘‘
میں نے بچوں کو لا کر اس کے پاس بٹھا دیا۔ خدیجہ اور معصومہ نے پہلے تو تھوڑی اجنبیت برتی لیکن صمد نے ان کے ساتھ اتنا لاڈ پیار کیا، ان کے ساتھ اٹھکیلیاں کی اور ان کے لیے منہ سے عجیب و غریب شکلیں بنائیں کہ انہیں دوبارہ یاد آ گیا کہ یہ لاغر، کمزور اور زرد مرد ان کا باپ ہے۔
اگلے روز دوست، احباب اور رشتہ دار صمد کی عیادت کے لیے ہمارے گھر آنے لگے۔ صمد کو یہ سب اچھا نہ لگتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اسے پسند نہیں ہے کہ یہ بے چارے دیہات سے فقط میری احوال پرسی کے لیے یہاں آئیں۔ اسی لیے چند روز گزرے تو اس نے کہا: ’’سامان اکٹھا کرو۔ قایش چلتے ہیں۔ میں ڈرتا ہوں کہ راستے میں اگر کسی کو کچھ ہو گیا تو میں خود کو معاف نہیں کر سکوں گا۔‘‘ میں نے بچوں کے بیگ باندھے اور جانے کے لیے تیار ہو گئی۔ صمد نہ بچوں کو بغل میں لے سکتا تھا اور نہ ہی بیگ اٹھانے کے قابل تھا، حتی کہ گاڑی بھی نہیں چلا سکتا تھا۔ میں نے معصومہ کو اٹھایا اور خدیجہ سے کہا کہ آہستہ آہستہ ساتھ چلتی رہو۔ بیگ میں نے اپنے کندھوں پر رکھ لیے۔ ہم نے کتنی مشکل سے خود کو گاڑیوں کے اڈے تک پہنچایا اور منی بس پر سوار ہو گئے۔ رزن پہنچے تو ہمیں اتر کر دوسری گاڑی پر بیٹھنا پڑا۔ جب تک ہم قایش جانے والی گاڑی تک پہنچے، مجھے کئی بار بیگ اپنے کندھوں پر جابہ جا کرنا پڑے۔ معصومہ کو نیچے اتارا اور دوبارہ اٹھا لیا۔ خدیجہ کا ہاتھ پکڑا اور اس کی منت کی کہ وہ خود چلے۔ اس وقت میری ساری کی ساری آرزو یہی تھی کہ کوئی گاڑی مل جائے جو ہمیں قایش پہنچا دے۔ منی بس میں بیٹھ چکے تو میں نے سکھ کا سانس لیا۔ معصومہ میری گودمیں سو گئی تھی لیکن خدیجہ بے چین تھی۔ اس کی ہمت جواب دے چکی تھی۔ ہم نے لاکھ کوشش کی مگر اسے چپ نہ کرا سکے۔ گاڑی میں ہمارے کچھ جاننے والے بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے خدیجہ کو اٹھا لیا اور اس کے ساتھ کھیلنے لگے۔ اسی وقت معصومہ جاگ گئی اور دودھ مانگنے لگی۔ میں معصومہ کو دودھ پلاتے پلاتے تھکاوٹ سے بے حال ہو کر سو گئی۔
دوستوں اور رشتہ داروں کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ ہم قایش واپس آ گئے ہیں تو وہ عیادت اور احوال پرسی کے لیے میرے بابا کے گھر آنے لگے۔ یہ پہلی بار تھی کہ میں قایش میں تھی اور پریشان نہ تھی کہ صمد نے چلے جانا ہے۔ صمد ایک ہی جگہ پڑا رہتا تھا اور اِدھر اُدھر نہ جاتا تھا۔ میں ہر روز اس کی پٹی تبدیل کرتی اور وقت پر اسے دوائیں دیتی۔ اب صورت حال برعکس ہو چکی تھی۔ اب میرا دل چاہتا تھا کہ ادھر ادھر جاؤں اور دوستوں اور جاننے والوں کے پاس بیٹھوں لیکن وہ میرے قدم روک لیتا: ’’قدم! کہاں ہو، ادھر آؤ، میرے پاس بیٹھو۔ مجھ سے باتیں کرو۔ میری ہمت کم ہو رہی ہے۔‘‘
ہماری شادی کو کئی سال ہو چکے تھے، لیکن یہ پہلی دفعہ ایسا ہو رہا تھا کہ ہم دوری اور جدائی کے خوف و ہراس کے بغیرایک دوسرے کے پاس بیٹھے باتیں کر رہے ہوتے تھے۔ خدیجہ نے اپنی شیرین زبانی سے سب کے دلوں میں جگہ بنا لی تھی۔ میرے بابا تو بچوں کے عاشق تھے۔ اکثر انہیں اٹھا کر ادھر اُدھر لے جاتے۔
خدیجہ شیرین جان کی گود سے ہلنے کا نام نہ لیتی تھی۔ اس کی زبان پر ہر وقت ’’شینا، شینا‘‘ ہوتا تھا۔ شینا بھی خدیجہ پر جان چھڑکتی تھیں۔
خدیجہ نے شیرین جان کوشینا کہنا شروع کیا تو سارے رشتہ دار شیرین جان کو شینا کہہ پکارنے لگے۔ بابا بچوں کو بہت خیال رکھتے تھے۔ میں بھی زیادہ تر صمد کے پاس ہی رہتی تھی۔ ایک بار صمد نے کہا: ’’بہت عرصہ ہو گیاہے۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میں اسی طرح تمہارے پاس بیٹھوں اور تم سے ڈھیر ساری باتیں کروں۔ قدم! کاش یہ دن ختم نہ ہوں۔‘‘
اس نے میرے منہ کی بات چھین لی تھی۔ میں نے جلدی سے کہا: ’’صمد! اپنے شہر ہی میں کوئی کام تلاش کر لو۔ ہم دوبارہ قایش واپس آ جاتے ہیں۔‘‘
اس نے فوراً کہا: ’’نہیں، نہیں، تم ہر گز یہ بات نہ کرو۔ میں امام کا سپاہی ہوں اور عہد کیا ہے کہ امام کا سپاہی ہی رہوں گا۔ آج میرے ملک کو میری ضرورت ہے۔ ان باتوں کی بجائے دعا کرو کہ میں جلدی سے ٹھیک ہو جاؤں اور اپنے کام پر جانا شروع کر دوں۔ تم نہیں جانتیں، میں یہ دن کتنی مشکل سے کاٹ رہا ہوں۔ مجھے بستر پر نہیں سونا بلکہ جا کر اس ملک کی خدمت کرنی ہے۔‘‘
ڈاکٹر نے صمد کو دو ماہ تک استراحت کرنے کو کہا تھا لیکن ہم دس روز بعد ہی ہمدان واپس آ گئے۔ گھر پہنچتے ہیں صمد نے کہا: ’’میں اب کام پر جاتا ہوں۔‘‘
میں نے اصرار کیا: ’’نہ جاؤ، ابھی تک تمہاری حالت ٹھیک نہیں ہوئی۔ ٹانکے ابھی پکے نہیں ہیں۔ اگر زیادہ حرکت کرو گے تو ٹانکے کھل جائیں گے۔‘‘
وہ نہ مانا: ’’میں اپنے دوستوں کے لیے کافی پریشان ہوں۔ جاؤں گا اور کام کو تھوڑا دیکھ بھال کر واپس آ جاؤں گا۔‘‘
صمد اصرار اور ضد کے آگے ہتھیار ڈال کر گھر بیٹھنے والوں میں سے نہیں تھا۔ جب وہ کہتا کہ اسے جانا ہے تو وہ حتماً چلا جاتا تھا۔ اس دن بھی وہ چلا گیا اور رات کو واپس آ گیا۔ وہ تھوڑا گوشت، پھل اور کچھ دوسری کھانے پینے کی چیزیں خرید لایا تھا۔ مجھے دیتے ہوئے کہنے لگا: ’’قدم! مجھے جانا ہے۔ شاید دو تین دن تک لوٹ کر نہ آؤں۔ ان دنوں میں وہاں نہیں تھا تو سارے کام الٹ پلٹ ہوئے پڑے ہیں۔ اب ضروری ہے کہ جا کر ان ادھورے کاموں کو مکمل کروں۔‘‘
ان دنوں ہمدان میں ہمارا نہ کوئی رشتہ دار تھا اور نہ ہی کوئی دوست کہ جس کے گھر ہم آنا جانا رکھتے۔ میری واحد سیر و تفریح یہی تھی کہ خدیجہ کا ہاتھ پکڑوں اور معصومہ کوگود میں اٹھا کر گلی کی نکڑ پر کوئی چیز خریدنے چلی جاؤں۔ جب گلی میں یا سڑک پر اپنے کسی ہمسائے کو دیکھتی تو خوش ہو جاتی اور کھڑے ہو کر اس کے ساتھ باتیں کرنے لگتی۔
ایک روز سہ پہر کے وقت میں روٹی خرید کر واپس آ رہی تھی کہ دیکھا کہ ہمسائی عورتیں ایک گھر کے دروازے پر کھڑی تھیں اور آپس میں باتیں کر رہی تھیں۔ میرا دل بہت گھبرا رہا تھا۔ میں نے سلام و احوال پرسی کے بعد انہیں اپنے گھر آنے کے لیے کہا: ’’آئیے، میں صحن میں قالین بچھاتی ہوں۔ آپ کے لیے چائے کا انتظام کرتی ہوں۔ اکٹھے پیتے ہیں۔‘‘ انہوں نے قبول کر لیا۔
اسی وقت ایک شخص گلی میں دوڑتا دوڑتا داخل ہوا اور ہماری طرف آ گیا۔ اس نے اپنی بغل میں ایک جھاڑو اور ہاتھ میں کچھ کتابیں پکڑ رکھی تھیں۔ ہم سے پوچھنے لگا: ’’تم لوگ حاجی آباد گاؤں سےہو؟!‘‘
ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا: ’’نہیں۔‘‘
مرد نے پوچھا: ’’تو پھر کہاں کی ہو؟!‘‘
صمد نے مجھے بہت زیادہ محتاط رہنے کی ہدایت کر رکھی تھی کہ ہر کسی کے ساتھ آمد و رفت نہ رکھوں اور اپنی ذاتی اور خاندانی معلومات کسی بھی شخص کو نہ دوں۔ میرے ذہن میں اس وقت یہی بات تھی۔ میں نے اسے کوئی جواب نہ دیا۔
مرد مسلسل بولے چلا جا رہا تھا: ’’تمہارا گھر کہاں ہے؟! تمہارا شوہر کیا کام کرتا ہے؟! تم لوگ کس گاؤں کے رہنے والے ہو؟!‘‘
میں نے جب یہ صورت حال دیکھی تو چابی تالے میں ڈال کر گھر کا دروازہ کھولا۔ ایک عورت کہنے لگی: ’’بھائی، تم جو اتنے سوال پوچھنا چاہتے ہو تو ہم سے کیوں پوچھ رہے ہو۔ ذرا ٹھہرو میں اپنے میاں کو آواز دیتی ہوں۔ وہ تمہاری بہتر طریقے سے رہنمائی کر سکتے ہیں۔‘‘
مرد نے جیسے ہی یہ سنا تو خدا حافظ کہے اور کوئی اور سوال کیے بغیر ہی ہمارے پاس سے رفوچکر ہو گیا۔ جب وہ چلا گیا تو ہمسائی عورت مجھ سے کہنے لگی: ’’خانم ابراہیمی! تم نے دیکھا، میں نے کیسے اس کی خبر لی۔ میں نے تو ویسے ہی اسے کہہ دیا تھا کہ میرے میاں گھر پر ہیں، حالانکہ ہمارے گھر میں کوئی بھی نہیں ہے۔‘‘
ایک اور عورت نے کہا: ’’میرا خیال ہے کہ یہ مرد تمہارے میاں کی سُن گُن لینے آیا تھا۔ جن منافقوں کو تمہارے میاں نے پکڑا تھا، انہوں نے ہی اسے بھیجا ہو گا تا کہ وہ تمہیں یہاں پہچان کر چلا جائے اور ان منافقوں کا انتقام لیا جا سکے۔‘‘ اس عورت کی یہ باتیں سن کر میں ڈر گئی۔ میری زیادہ پریشانی صمد کے لیے تھی۔ میں ڈرتی تھی کہ اسے کہیں کوئی اور حادثہ پیش نہ آ جائے۔
اس مرد نے سب کو بری طرح ڈرا دیا تھا۔ اسی لیے ہمسایہ عورتیں میرے گھر نہ آئیں اور اپنے اپنے گھروں کو واپس چلی گئیں۔ میں نے بھی دروازے کو تہرا قفل لگا دیا، حتی کے اندر والے کمرے کو بھی تالا لگا دیا اور ایک سٹول دروازے کے پیچھے رکھ دیا۔
اس رات صمد جلدی گھر آ گیا۔ اس نے جب یہ صورت حال دیکھی تو پوچھا: ’’یہ سب کیا ہے؟!‘‘
میں نے اسے ساری بات بتائی تو وہ ہنس کر کہنے لگا: ’’تم عورتیں بھی کتنی ڈرپوک ہوتی ہو۔ کچھ بھی نہیں ہے۔ تم خواہ مخواہ ڈر رہی ہو۔‘‘
رات کا کھانا کھانے کے بعد صمد نے اپنی وردی پہنی۔
میں نے پوچھا: ’’کہاں؟!‘‘
اس نے کہا: ’’کمیٹی جانا ہے۔ وہاں کچھ کام ہے۔ شاید چند روز تک نہ آ سکوں۔‘‘
مجھے رونا آ گیا۔ میں نے التماس کی: ’’کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ تم نہ جاؤ؟‘‘
اس نے نرمی سے کہا: ’’نہیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’میں ڈرتی ہوں۔ اگر آدھی رات کو وہ مرد اور اس کے غنڈے آ گئے تو میں کیا کروں گی؟!‘‘
صمد پہلے تو یہ بات سن کر ہنس دیا لیکن جب اس نے دیکھا کہ میں واقعی ڈری ہوئی ہوں تو اس نے اپنی کمر سے لٹکا پستول مجھے دے دیا اور کہنے لگا: ’’اگر کوئی مشکل پیش آئی تو اسے استعمال کر لینا۔‘‘ پھر اس نے آرام سے مجھے اسلحہ استعمال کرنے کا طریقہ سکھایا اور چلا گیا۔ میں نے پستول کو اپنے تکیے کے نیچے رکھا اور ڈری سہمی سو گئی۔ آدھی رات کا وقت تھا کہ کسی آواز سے میں بستر سے اچھل کر بیٹھ گئی۔ کوئی بندہ دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔ میں نے پستول اٹھایا اور صحن میں چلی گئی۔ دروازے پر جا کر پوچھا: ’’کون ہے؟‘‘ کسی نے جواب نہ دیا۔ میں خوف سےلرزتی ہوئی کمرے میں آ گئی کہ دوبارہ دستک ہوئی۔ میں شش و پنج میں تھی کہ کیا کروں؟ پہلے کی طرح جا کر دروازے کے پیچھے کھڑی ہو گئی اور کئی بار پوچھا: ’’کون ہے؟!‘‘ اس بار بھی کسی نے جواب نہ دیا۔ کئی بار ایسا ہوا۔ میں جیسے ہی کمرے میں جاتی تو گھنٹی کی آواز بڑھنا شروع ہو جاتی اور جب دروازے پر جاتی تو کوئی جواب نہ دیتا۔ میں نے اپنے آپ کو تسلی دے لی تھی کہ کوئی ہمیں تنگ کرنا چاہتا ہے۔ میں نے ڈر کے مارے تمام بتیاں جلا دیں۔ آخری بار جب دروازے کی گھنٹی بجی تو میں چھت پر چلی گئی اور جیسا کہ صمد نے سکھایا تھا، اسلحہ تیار کر لیا۔ دو مرد گلی میں کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ حتماً وہی ہوں گے۔ میں نے اسلحہ ان کی طرف کیا تو اچانک دیکھا کہ ان میں سے ایک مرد ہمارے ساتھ والے ہمسائے آغا عسکری ہیں کہ جن کی بیوی کے بچہ ہونے والا تھا۔ میں اتنی خوش ہوئی کہ وہیں چھت سے انہیں آواز دی: ’’آغا عسکری، آپ ہیں؟!‘‘ اس کے بعد میں دوڑ کر گئی اور دروازہ کھول دیا۔
آغا عسکری بہت شرمیلے اور جھجکنے والے مرد تھے۔ ان کی عادت تھی کہ وہ دروازے کی گھنٹی بجا کر چند قدم دروازے سے دور جا کر کھڑے ہو جاتے۔ یہی وجہ تھی کہ ہر بار جب میں دروازے پر جا کر پوچھتی تو ان تک میری آواز نہ پہنچتی۔ وہ مجھ سے مدد لینے آئے تھے۔ ان کی بیوی کے ہاں ولادت کا وقت قریب تھا۔
([1]) نو روز ایران کا سالانہ قومی تہوار ہے۔ عیسوی تقویم کے مطابق 21 مارچ کو ایرانیوں کا نیا سال شروع ہوتا ہے ۔ اس دن یہاں عید نوروز منائی جاتی ہے ۔ تیرہ کے عدد کو فارسی میں سیزدہ کہا جاتا ہے۔ ایرانی سال کے پہلے مہینے کی 13 تاریخ (2 اپریل) کو یہ لوگ روز طبیعت ( قدرتی ماحول کا دن ) کے عنوان سے مناتے ہیں۔ اس دن تمام ایرانی لوگ صبح سویرے اپنا سیرو تفریح اور کھانے پینے کا سامان لیے گھروں سے نکل جاتے ہیں اور پورا دن پارکوں اور مختلف سیر گاہوں میں گزارتے ہیں اور شام ڈھلے گھروں کو لوٹ آتے ہیں۔ (البتہ قدیم خرافاتی عقائد کے مطابق اس دن گھر میں ٹھہرنا نحوست سمجھا جاتا تھا لہٰذا لوگ صبح نکلتے اور شام ڈھلے واپس لوٹتے۔) عرف عام میں اسے سیزدہ بہ در کہا جاتا ہے ۔
بارہواں باب
کچھ دنوں بعد ہم نے وہ گھر چھوڑ دیا اور ٹیکنیکل کالج روڈ پر ایک اور گھر کرائے پر لے لیا۔ سامان منتقل کرنے کے دوران معصومہ بیمار ہو گئی۔ نئے گھر میں ہمیں دوسرا دن تھا، معصومہ کی حالت اتنی بگڑ گئی کہ ہم اسی حالت میں اسے ہسپتال لے جانے پر مجبور ہو گئے۔ صمد نے انہی دنوں اپنی گاڑی بیچی تھی۔ گاڑی کے بغیر ان دو بچوں کے ساتھ ادھر ادھر مارا مارا پھرنا ہمارے لیے عذاب تھا۔ ظہر کے نزدیک ہم ہسپتال سے واپس لوٹے۔ صمد نے سڑک پر ہمیں پہنچایا۔ اسے چونکہ کام تھا اس لیے اس نے وہیں سے ٹیکسی پکڑی اور واپس چلا گیا۔ معصومہ میری بغل میں تھی۔ خدیجہ نے میری چادر پکڑ رکھی تھی اور منہ بسورے میرے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ میں اسے بھی اٹھا لوں۔ میں نے ایک ہاتھ سے معصومہ اور اس کی دواؤں کا لفافہ پکڑ رکھا تھا، دوسرے ہاتھ سے خدیجہ کو کھینچ رہی تھی اور دانتوں میں چادر کو مضبوطی سے دبا رکھا تھا۔ اب اس بات کو رہنے ہی دیجیے کہ میں کن عذابوں سے گھر پہنچی۔ پرس سے بڑی مشکل سے چابی نکالی اور تالے میں ڈالی۔ دروازہ نہیں کھل رہا تھا۔ دوبارہ چابی گھمائی تو تالا تو کھل گیا مگر دروازہ نہیں کھل رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اندر کوئی ہے، جس نے اندر سے دروازہ بند کر رکھا ہے۔ میں نے کئی بار دروازہ کھٹکھٹایا۔ مجھے ڈر لگنے لگا۔ ایک ہمسائے کے دروازے پر دستک دی اور اپنی ہمسائی کو بتایا تو وہ بھی آگے بڑھنے سے ڈرنے لگی۔ میں نے اسے کہا کہ وہ میرے بچوں کو سنبھالے تا کہ میں جا کر صمد کو خبر دوں۔ ہمسائی عورت نے بچوں کو لے لیا اور میں بھاگم بھاگ سڑک پر آ گئی۔ٹیکسی کا کافی انتظار کیا مگر سڑک پر ایک گاڑی بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ ان دنوں ٹیکنیکل کالج روڈ شہر کی ان سڑکوں میں سے تھا جہاں گاڑیوں کی آمد و رفت کم ہی ہوتی تھی۔ وہاں سے آرامگاہ بو علی تک کافی فاصلہ تھا۔ میں نے وہ سارا راستہ بھاگتے ہوئے طے کیا۔ آرامگاہ سے خواجہ رشید روڈ اور کمیٹی تک اتنا زیادہ فاصلہ نہ تھا مگر مجھ میں ایک قدم اٹھانے کی بھی ہمت باقی نہ رہی تھی۔ گذشتہ چند دنوں کی تھکاوٹ، سامان کی اُتھل پتھل، نیند کی کمی، معصومہ کی بیماری اور ہسپتال کی خجل خواری نے میرا حوصلہ ختم کر دیا تھا۔ لیکن مجھے وہ راستہ بہر حال طے کرنا تھا۔ ناچار دوڑتے ہوئے وہ راستہ بھی کاٹا۔ جب کمیٹی عمارت کے سامنے پہنچی تو میری سانسیں پھول گئیں۔ دروازے پر کھڑے نگہبان سپاہی سے کہا: ’’مجھے آغا ابراہیمی سے کام ہے، انہیں کہیں کہ ان کی بیگم دروازے پر ہیں۔‘‘
وہ سپاہی نگہبانی والے چھوٹے سے کمرے میں چلا گیا۔ اس نے ٹیلی فون اٹھا کر ایک نمبر ڈائل کیا اور بات کرنے لگا: ’’آغا ابراہیمی! آپ کی بیگم دروازے پر کھڑی ہیں۔ انہیں آپ سے کچھ کام ہے۔‘‘
صمد اتنی اونچی آواز میں بات کر رہا تھا کہ میں وہاں کھڑی اس کی بات سن سکتی تھی: ’’میری بیگم؟! تمہیں غلط فہمی تو نہیں ہو رہی؟! میں تو ابھی ابھی اپنی بیوی اور بچوں کو گھر چھوڑ کر آ رہا ہوں۔‘‘
میں اس چھوٹے کمرے کے اندر چلی گئی اور اونچی آواز سے کہا: ’’آغا ابراہیمی! دروازے پر آئیں۔ بہت ضروری کام پڑ گیا ہے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد صمد آ گیا۔ میرا چہرہ دیکھتے ہی بغیر سلام و احوال پرسی کے پوچھنے لگا: ’’کیا ہوا؟! بچے ٹھیک ہیں نا؟! تم خود بھی تو ٹھیک ہو نا؟!‘‘
میں نے کہا: ’’سارے ٹھیک ہیں۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔ میرا خیال ہے کہ گھر میں چور گھس آئے ہیں۔ آؤ چلیں۔ گھر کا دروازہ اندر سے بند ہے اور کھل نہیں رہا۔‘‘
اسے تھوڑی سی تسلی ہوئی۔ کہنے لگا: ’’میں ابھی آتا ہوں۔ تھوڑی دیر صبر کرو۔‘‘
وہ گیا اور تھوڑی دیر بعد ایک اور سپاہی کے ساتھ واپس آ گیا۔ اس سپاہی نے سڑک کنارے کھڑی ایک پیکان([1]) گاڑی کو سٹارٹ کیا۔ صمد آگے بیٹھ گیا اور میں پیچھے۔ گاڑی چل پڑی تو اس نے پیچھے پلٹ کر پوچھا: ’’بچوں کا کیا کیا؟!‘‘
میں نےبتایا: ’’وہ ہمسایوں کے گھر میں ہیں۔‘‘
گاڑی جلدی سے ٹیکنیکل کالج روڈ پر پہنچ گئی اور گلی میں داخل ہو کر ہمارے گھر کے سامنے ٹھہر گئی۔ صمد گاڑی سے اترا اور چابی نکال کر دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔ جب اسے اطمینان ہو گیا کہ دروازہ نہیں کھلے گا تو دیوار سے اوپر چڑھ گیا۔ میں نے سپاہی سے کہا: ’’بھائی! آپ بھی دیکھیں، خدا کا واسطہ آپ بھی اندر چلے جائیں۔ شاید اندر کوئی ہو۔‘‘
سپاہی نے تالے کے دستے پر اپنا پاؤں رکھا اور دیوار کی منڈیر پر پہنچا۔ وہاں سے چھلانک لگا کر اندر صحن میں کُود گیا۔ تھوڑی دیر بعد سپاہی نے دروازہ کھولا اور کہا: ’’اندر تو کوئی نہیں ہے۔ چور چھت کے راستے سے آئے تھے اور چلے گئے۔‘‘
گھر اُلٹ پلٹ ہوا پڑا تھا۔ اگرچہ ہم نے ابھی تک اسباب اور سامان مرتب نہیں کیا تھا، لیکن اتنا بکھرا ہوا بھی نہیں تھا۔ ہمارے کپڑے صحن میں بکھرے پڑے تھے۔ سارے بستر ایک طرف پھینک دیے گئے تھے۔ تھوڑے بہت برتن جو تھے وہ باورچی خانے کے درمیان میں ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے۔ کچھ ٹوٹی ہوئی پلیٹیں اور پیالیاں باورچی خانے کے فرش پر پڑی ہوئی تھیں۔
صمد پریشانی کے عالم میں کسی چیز کو تلاش کر رہا تھا۔ اس نے مجھے آواز دے کر کہا: ’’قدم! اسلحہ، میرا اسلحہ نہیں ہے۔ ہم تو لُٹ گئے۔‘‘
میں نے خود ہی اسلحے کو ایک جگہ چھپا دیا تھا۔ میں جانتی تھی کہ اگر کوئی چیز بھی سلامت نہ رہی تب بھی اسلحہ اپنی جگہ پر حتماً محفوظ رہے گا۔ میں اسی جگہ گئی۔ میرا اندازہ درست تھا۔ اسلحہ اپنی جگہ پر موجود تھا۔ میں نے اسے صمد کے ہاتھ میں دے دیا تو اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی بڑی مصیبت سے باہر نکل آیا ہے۔متانت سے کہنے لگا: ’’فقط پیسے لے کر گئے ہیں۔ چلو کوئی بات نہیں، تمہارا اور بچوں کا صدقہ ہی سہی۔‘‘
یہ سننا تھا کہ میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی اور میں زمین پر بیٹھ گئی۔ کچھ ہفتے پہلے ہم نے جو اپنی ژیان گاڑی بیچی تھی اس کے پیسے میں نے معصومہ کے خشک دودھ والے خالی ڈبے میں رکھ کر ڈبہ الماری میں رکھ دیا تھا۔ چور وہ ڈبہ لے گئے تھے۔ میرے پاس سونے کی کچھ چیزیں بھی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد ان کی جگہ دیکھا تو سونا بھی غائب تھا۔ صمد مسلسل کہہ رہا تھا: ’’کوئی بات نہیں۔ پریشان مت ہو۔ میں ان سے بہتر تمہارے لیے خرید لاؤں گا۔ تھوڑے سے پیسے اور کچھ سونا، ان کا اتنا غم نہیں ہے۔ اصل مسئلہ اسلحے کا تھا۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ وہ اپنی جگہ پر سلامت رہا۔‘‘
تھوڑی دیر بعد صمد اور اس کے ساتھ آیا سپاہی چلے گئے۔ بچوں کو میں ہمسایوں کے گھر سے لے آئی تھی۔ ہزار جتن کیے مگر کسی کام کی ہمت نہ ہوئی۔ کمرے اور باورچی خانے میں جانے سے ڈر رہی تھی۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ابھی تک کوئی الماری یا فریج کے پیچھے یا سیڑھیوں کے نیچے اور ممٹی کے اندر چھپا ہوا ہے۔ میں نے صحن میں قالین بچھایا اور بچوں کو لے کر اس پر بیٹھ گئی۔ معصومہ کی طبیعت کافی خراب تھی مگر مجھے کمرے میں جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔
رات کو جب صمد لوٹا تو ہم اس وقت تک صحن ہی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ صمد نے تعجب کیا تو میں نے کہا: ’’مجھے ڈر لگ رہا تھا اور ڈر پر میرا اختیار نہیں ہے۔‘‘
اس گھر نے مجھے بری طرح وحشت میں مبتلا کر دیا تھا۔ صمد نے بچوں کو گود میں اٹھایا اور کمرے میں لے گیا۔ میں بھی اس کے سہارے اندر چلی گئی اور رات کے کھانے کا انتظام کرنے لگی۔ صمد آدھی رات تک جاگتا رہا اور گھر کی چیزوں کو ترتیب دیتا رہا۔
میں نے کہا: ’’خواہ مخواہ سامان نہ لگاؤ۔ میں یہاں رہنے والی نہیں۔ یا تو کوئی دوسرا گھر لو یا میں قایش ہی لوٹ جاتی ہوں۔‘‘
وہ ہنسنے لگا: ’’قدم! بچی ہو؟ ڈر گئی ہو؟!‘‘
میں نے کہا: ’’تم تو صبح سے رات تک ہوتے نہیں ہو۔ کل پرسوں اگر کسی لمبی ڈیوٹی پر چلے گئے تو میں راتوں کو کیا کروں گی؟!‘‘
کہنے لگا: ’’مجھ سے تو اب یہ نہیں ہو گا کہ مالک مکان کے پاس جاؤں اور مکان اسے واپس کروں۔‘‘
میں نے کہا: ’’میں خود چلی جاتی ہوں۔ تم فقط مان جاؤ۔‘‘
اس نے کچھ نہ کہا اور خاموش ہو گیا۔ میں جانتی تھی کہ وہ کچھ سوچ رہا ہے۔
اگلے دن ظہر کے وقت آیا تو کافی خوش نظر آ رہا تھا۔ کہنے لگا: ’’میں نے مالک مکان سے بات کر لی ہے۔ ایک اور مکان دیکھا ہے تمہارے لیے، لیکن وہ زیادہ اچھا نہیں ہے۔ اگر تھوڑا صبر کرو تو میں کوئی بہتر جگہ تلاش کر لوں گا۔‘‘
میں نے کہا: ’’جیسا بھی ہو قبول ہے۔ مگر جتنا جلدی ہو سکے اس گھر سے چلیں۔‘‘
اگلے دن دوبارہ ہم نے سامان سمیٹا۔ نیا گھر ایک ہی بڑے کمرے پر مشتمل تھا جسے تازہ رنگ کیا گیا تھا۔ یہ گھر ایک چاپارخانے([2]) کے ہمسائے میں تھا۔ سامان اتنا زیادہ نہیں تھا۔ سارے سامان کو پورے کمرے میں چن دیا۔ اس رات جو سکون کی نیند آئی، میں اسے ساری زندگی نہیں بھول سکتی، مگر صبح جب آنکھ کھلی تو اور ہی صورتحال تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ ابھی ابھی کھلی آنکھوں سے سب چیزوں کو دیکھ رہی ہوں۔ صحن کی دوسری طرف کچھ کمرے تھے جہاں مالک مکان نے گائیں اور بھیڑیں باندھ رکھی تھیں۔ ان کی کھالوں اور گوبر کی بو پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی اور مکھیوں کی بہتات کی وجہ سے وہ جگہ رہنے کے قابل نہ تھی۔ بہرحال مجھے اس صورتحال کو برداشت کرنا تھا اور اب اعتراض بھی نہیں کر سکتی تھی۔
رات کو جب صمد آیا تو خود اس سے بھی یہ چیزیں برداشت نہ ہوئیں۔ کہنے لگا: ’’قدم! یہ جگہ اصلاً رہنے کے قابل نہیں ہے۔ کوئی اور بہتر جگہ تلاش کرنی چاہیے۔ بچے بیمار ہو جائیں گے۔ مجھے بھی شاید کچھ دنوں بعد ڈیوٹی پر جانا پڑے۔ ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ میرے لیے سب سے پہلے تمہاری طرف سے بے فکر ہونا ضروری ہے۔‘‘
([1]) ایران میں چلنے والی ایک کار۔
([2]) چاپارخانہ قدیم ایران میں ہخامنشیان کے عہد حکومت سے تعلق رکھنے والی عمارت کا نام ہے۔ یہ اہم عمارتیں راستوں میں بنائی گئی تھیں، جہاں ہر وقت تازہ دم گھوڑے بندھے رہتے تھے۔ ان عمارتوں کا مقصد سفر کے دوران استراحت اور وہاں سے تازہ دم گھوڑوں کا حصول تھا۔ یہ عمارتیں زیادہ تر سرکاری کاموں کے لیے استعمال ہوتی تھیں اور سرکاری گھوڑے ہی عموماً یہاں استراحت کرتے اور تبدیل کیے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم کام جو ان استراحت گاہوں سے لیا جاتا تھا وہ ڈاک کا مضبوط نظام تھا۔ ہخامنشیان عہد حکومت کے بادشاہوں نے دوسرے ترقیاتی اور فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ چاپارخانوں کی تعمیر میں خصوصی دلچسپی اور مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔ آج کل کے زمانے میں ہم ان عمارتوں کو ڈاکخانہ کہہ سکتے ہیں۔ برصغیر میں ایسے ڈاکخانوں کا وجود اور انتہائی محکم نظام ہمیں شیرشاہ سوری کے زمانے میں بھی نظر آتا ہے جس کا انتظام اس نے پشاور سے لے کر کلکتہ تک کی معروف جرنیلی سڑک (جی ٹی روڈ) پر کر رکھا تھا۔
تیرہواں باب
صمد نے اپنے کچھ دوستوں کے ذمے لگا رکھا کہ ہمارے لیے کوئی مناسب گھر دیکھ رکھیں۔ وہ خود بھی تلاش کر رہا تھا۔ وہ کہتا تھا: ’’تمہارے لیے ایک اچھا اور آرام دہ گھر کرایہ پر لینا چاہتا ہوں جو نانبائی([1]) سے نزدیک ہو، بازار بھی دور نہ ہو اور مالک مکان بھی اچھا انسان ہو تاکہ اگر میں نہ ہوں تو وہ تمہاری خبرگیری کرتا رہے۔‘‘
میں نے بھی دوبارہ سارا سازو سامان اکٹھا کر کے ایک کونے میں رکھ دیا۔
کچھ دنوں بعد وہ خوشی خوشی آیا اور کہنے لگا: ’’بالآخر مل ہی گیا۔ ایک اچھا اور آرام دہ گھر۔ مالک مکان بھی مومن اور مہربان انسان ہے۔ تمہیں مبارک ہو۔‘‘
میں نے تعجب سے پوچھا: ’’ہمیں مبارک ہو؟!‘‘
وہ کسی سوچ میں ڈوب گیا، جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ہو۔ کہنے لگا: ’’میں آج نہیں تو کل سرحد پر چلا جاؤں گا۔ جنگ چھڑ گئی ہے۔ عراق نے ایران پر حملہ کر دیا ہے۔‘‘
میں نے اس کی ان باتوں کو زیادہ سنجیدگی سے نہ لیا۔ ہم خوشی خوشی اٹھے اور گھر کو دیکھنے چلے گئے۔ گھر شہر کے مضافات میں واقع پٹرول کے ایک ذخیرے کے عقب میں واقع تھا۔ محلہ تو کوئی اتنا خاص نہیں تھا، مگر گھر بہت اچھا تھا۔ دیواروں پر ہلکا سبز رنگ تازہ ہی کیا گیا تھا۔ کھڑکیاں بھی کافی زیادہ تھیں۔ مجموعی طور پر یہ گھر پہلے گھر کی نسبت کافی بہتر تھا۔ صمد سچ کہہ رہا تھا۔ مالک مکان بہت اچھا اور مہربان انسان تھا جو گھر کی نچلی منزل میں رہتا تھا۔ اسی روز ہم نے قرآن اور آئینہ طاقچے میں رکھ دیے([2]) اور اگلے دن سامان ترتیب دے دیا۔
پہلے میں نے شیشوں کو صاف کیا۔ اکیلے ہی کارپٹس بچھائے۔ ہمارے پاس چھ میٹر کے ایک قالین کے علاوہ اور کوئی قالین نہ تھا۔ یہ قالین بھی بابا نے مجھے تحفے میں دیا تھا۔ اسے کمرے کے درمیان میں بچھا دیا۔ پشتیوں کو دیواروں کے ساتھ لگا دیا۔ گھر لش پش کرنے لگا۔ سامان کی جھاڑ پونچھ، جھاڑو لگانا اور چیزوں کو اپنی اپنی جگہ پر رکھنا، ابتدائی چند روز تک یہی میرا معمول رہا۔ کارپٹ پر ایک بال بھی گرتا تو میں جھک کر اٹھا لیتی۔ گھر کافی خوبصورت تھا۔ دو کمرے تھے جن میں سے ایک کودرست کرتے ہی تالا لگا دیا اور اسے مہمان خانہ بنا دیا۔ اس کے علاوہ ایک باورچی خانہ، بیت الخلاء اور حمام تھا، بس۔ لیکن یہ سب سے زیادہ خوبصورت گھر تھا جو ہم نے ہمدان میں کرائے پر لیا تھا۔
سہ پہر کے وقت صمد آیا تو اس کے ہاتھ میں دو کالی سلوشن ٹیپ تھیں۔ اس نے آتے ہی ایک تپائی رکھی اور میرے کچھ سمجھنے سے پہلے ہی سارے شیشوں پر ٹیپ سے ضرب کے کالے کالے نشان بنا دیے۔ شیشوں پر اس کی انگلیوں کی نشان بھی لگ گئے تھے۔ میں نے اعتراض کرتے ہوئے کہا: ’’تم نے شیشوں کو ایسا کیوں کر دیا؟! بھاڑ میں گئی میری ساری زحمت۔ پورا ایک دن تو ان شیشوں کو صاف کرنے میں لگ گیا تھا میرا۔‘‘
اس نے کہا: ’’جنگ چھڑ گئی ہے۔ عراق نے سرحدی شہروں پر بمباری کر دی ہے۔ اس ٹیپ کا فائدہ یہ ہے کہ جب بمباری ہو اور شیشے ٹوٹ جائیں تو ان کے ذرے تمہارے چہرے پر جا کر نہ لگیں ۔‘‘
کوئی چارہ نہ تھا۔ میں نے شیشوں کو اسی حالت میں قبول کر لیا۔ اگرچہ صمد کے اس کام سے ایسا لگا گویا میرے دل پر سیاہ پردہ کھینچ دیا گیا ہو۔
صمد جاتا اور آتا اور بری خبریں لاتا رہتا تھا۔ ایک دن ہمسایوں کے گھر گیا اور انہیں ہمارے بارے میں کچھ ہدایات دینے لگا۔ اگلے دن کافی مقدار میں چنے، لوبیہ، گوشت اور چاول وغیرہ خرید لایا۔
میں نے پوچھا: ’’آخر ماجرا کیا ہے؟!‘‘
کہنے لگا: ’’کل میں خرمشہر چلا جاؤں گا۔ شاید کچھ دن تک نہ آ سکوں اور یہ بھی ہو سکتا ہےکہ بالکل ہی لوٹ نہ سکوں۔‘‘
میں روہانسی ہو گئی۔ اس نے کچھ پیسے بھی مجھے دیے۔ اس نے دن کا کھانا کھایا، بچوں کو بوسہ دیا، اپنا بیگ اٹھایا، خداحافظ کہا اور چلا گیا۔
وہ گھر جو میری نظر میں اتنا خوبصورت اور وسیع تھا، اچانک ہی بے رونق اور وحشتناک ہو گیا۔ میں نہیں جانتی تھی کہ کیا کروں۔ بچے دن کے کھانے کے بعد سو گئے تھے۔ کچھ کپڑے میلے پڑے تھے۔ میں انہیں دھونے کے بہانے حمام میں چلی گئی۔ کپڑے دھوتی جاتی اور روتی جاتی تھی۔
تھوڑی دیر دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے اپنے ہاتھ دھوئے اور جا کر دروازہ کھولا۔ مالک مکان کی بیوی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ میں بے چین ہوں اس لیے میری دلجوئی کے لیے آ گئی تھی۔ کہنے لگی: ’’محلے کی سیل کی دکان والے کوپن کے ساتھ پیالیاں دے رہے ہیں۔ آؤ جا کر لے آتے ہیں۔‘‘
مجھ میں ہمت نہ تھی۔ میں نے بہانہ کیا کہ بچے سو رہے ہیں۔ میں جو کہ کچھ دن پہلے تک گھر کی چیزیں اور برتن وغیرہ خریدنے کی عاشق تھی، اچانک ہی مجھے ہر چیز بری لگنے لگی تھی۔ میں نے سوچا: ’’جنگ ہو رہی ہے۔ میرا شوہر محاذ پر گیا ہوا ہے۔ کچھ معلوم نہیں ہے کہ میرا کیا ہو گا۔ ایسے حالات میں یہ لوگ کتنے بے فکر اور مطمئن ہیں۔‘‘ اس عورت نے کہا: ’’اگر تم چاہو تو جب تمہارے بچے جاگ جائیں، اس وقت میں آ جاؤں؟‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں، آپ جائیں۔ میں آپ کو تکلیف نہیں دینا چاہتی۔‘‘ میں اس دن نہ گئی۔ اگرچہ ایک ہفتے بعد اکیلی ہی بازار گئی اور پورے ذوق و شوق سے پیالیاں خرید لائی اور آ کر الماری میں سجا دیں۔ اس سارے کام میں مجھے لطف بھی آیا۔
شہر کے حالات تبدیل ہو چکے تھے۔ راتوں کو خاموشی ہوتی۔ ریڈیو سے خطرے اور امن کے الارم اور سائرن بجتے رہے اور لوگوں کو سکھاتے کہ کس سائرن کا کیا معنی ہے اور جب وہ سائرن بجے تو انہیں کیا کرنا چاہیے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ خطرے کا سائرن بجتا اور بجلی بند ہو جاتی لیکن کوئی حادثہ پیش آئے بغیر خطرہ ٹل جاتا اور بجلی آ جاتی۔
شروع شروع میں تو لوگ ڈر جاتے تھے لیکن آہستہ آہستہ دوسری چیزوں کی طرح خطرے کی صورت حال بھی ان کے لیے ایک معمول کی چیز بن کر رہ گئی۔
صمد کو گئے پینتالیس روز گزر چکے تھے۔ اس کے بغیر زندگی کافی مشکل گزر رہی تھی۔ کئی بار ارادہ کیا کہ بچوں کو لوں اور قایش چلی جاؤں، لیکن پھر سوچتی کہ اگر صمد آ گیا اور اس نے ہمیں یہاں نہ دیکھا تو ناراض ہو جائے گا۔ اسی وجہ سے میں اپنا ارادہ تبدیل کر دیتی۔ ہر روز کان دروازے کی گھنٹی پر لگائے رکھتی کہ دروازہ کھلے اور صمد اندر داخل ہو جائے۔ یہ انتظار اس قدر طول پکڑ گیا اور مشکل ہو گیا تھا کہ ایک دن میں نے بچوں کو اٹھایا اور خود پوچھ پاچھ کرتی فوجی چھاؤنی پہنچ گئی۔ وہاں کافی جتن کرنے کے بعد صمد کے بارے میں کوئی خبر ملی۔ انہوں نے بتایا: ’’ہم ان سے بے خبر نہیں ہیں۔ الحمد للہ وہ بالکل خیریت سے ہیں۔‘‘
ان چند جملوں نے میری جان میں جان ڈال دی۔ ظہر ہو چکی تھی جب ہم تھکے ماندے اور بھوکے گھر پہنچے۔ خدیجہ کے چھوٹے چھوٹے اور خوبصورت پاؤں میں درد ہو رہا تھا۔ معصومہ بھوکی تھی اور اُوں اُوں کر رہی تھی۔ میں نے پہلے معصومہ کو دیکھابهالا، اسے نہلا کر خشک کیا، دودھ پلایا اور سلا دیا۔ اس کے بعد خدیجہ کی باری تھی۔ اس کے پاؤں کو گرم پانی میں دھویا، کھانا کھلایا اور اسے بھی سُلا دیا۔ بچے اس قدر تھک چکے تھے کہ سہ پہر تک سوتے رہے۔
اس رات بجائے اس کے کہ سکون اور بے فکری سے سوتی، الٹا برے برے اور الٹے سیدھے خواب آتے رہے۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ صمد نے خدیجہ اور معصومہ کو گود میں اٹھایا ہوا ہے اور ایک گرم اور بے آب و گیاہ بیابان میں بھاگ رہا ہے۔ کچھ لوگ اسلحہ لیے اس کے پیچھے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور بچوں کو اس سے زبردستی چھیننا چاہتے ہیں۔ اچانک میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے دیکھا کہ میرا دل زور زور سے دھک دھک کر رہا ہے اور پیشانی پر ٹھندے پسینے آ رہے ہیں۔ میں اٹھی اور پانی کا ایک گلاس پی کر دوبارہ سو گئی۔ عجیب بات یہ تھی کہ دوبارہ وہی خواب دکھائی دیا۔ میں ڈر کے مارے اٹھ کر بیٹھ گئی؛ مگر جب سہ بارہ آنکھ لگی تو پھر وہی خواب۔ آخری بار جب میں ڈر کے مارے جاگ گئی تو پختہ ارادہ کر لیا کہ اب نہیں سوؤں گی۔ میں نے اپنے آپ سے کہا: ’’سونے اور پھر وحشتناک خواب دیکھنے سے زیادہ بہتر یہی ہے کہ سویا ہی نہ جائے۔‘‘
اس بار کمرے کے باہر سے آنے والی شور کی آواز نے مجھے ڈرا دیا۔ آواز سیڑھیوں کے اوپر سے آ رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ کوئی سیڑھیوں پر ہے اور نچلی منزل سے اوپر کی طرف آ رہا ہے۔ لیکن وہ کبھی بھی دوسری منزل پر نہ پہنچ سکتاتھا کیونکہ میں نے دروازے کو تالا لگا رکھا تھا۔ میں کھڑکی کے پیچھے سے دھندلے دھندلے سائے دیکھ رہی تھی۔بڑے بڑے چہروں اور سیاہ ہاتھوں والے کچھ آدمی تھے۔ معصومہ اور خدیجہ آرام و سکون سے میری دونوں طرف سوئی ہوئی تھیں۔ میں نے اپنی انگلیاں کانوں کے اندر ٹھونسیں اور کمبل کے اندر گھس گئی۔ ہزار جتن کیے مگر نیند نہ آئی۔ نہیں معلوم کتنی دیر گزری تھی کہ اچانک ایک شخص نے کمبل کو آرام آرام سے میرے چہرے سے ہٹایا۔ سیاہ داڑھی اور مونچھوں والا ایک سایہ میرے سر پر کھڑا تھا۔ بتی روشن ہوئی تو دیکھا کہ صمد ہے۔ میں نے اپنا ہاتھ دل پر رکھتے ہوئے کہا: ’’میں تو ڈر گئی تھی۔ تم نے دروازہ کیوں نہیں کھٹکھٹایا؟!‘‘
ہنس کر کہنے لگا: ’’کیا بات ہے! اب تو تم ہم سے بھی ڈرتی ہو؟!‘‘
میں نے کہا: ’’بندہ آتے ہوئے کوئی دستک دے دیتا ہے، کھنکار لیتا ہے، کچھ تو ہو۔ ڈر کے مارے میری تو جان ہی نکل گئی تھی۔‘‘
اس نے کہا: ’’بیگم! دروازہ کھٹکھٹایا ، تم نے نہیں سنا۔ تالاکھولا، وہ بھی تمہیں سنائی نہ دیا۔ اندر آ کر تمہیں آواز دی، تب بھی تم نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں کیا کرتا۔ تم تو گھوڑے بیچ کر سو رہی تھیں۔‘‘
وہ بچوں کے پاس چلا گیا اور انہیں بوسہ دینے کے لیے نیچے کو جھک گیا۔
میں نے اسے نہ بتایا کہ رات سے برے برے خواب آ رہے ہیں۔ یہ بھی نہیں بتایا کہ میں بہت ڈر گئی تھی اور ڈر کے مارے انگلیاں کانوں میں ٹھونس رکھی تھیں، جس کی وجہ سے اس کی آواز نہ سن سکی۔
اس نے پوچھا: ’’گیزر جل رہا ہے؟!‘‘ میں اٹھ بیٹھی اور پوچھا: ’’رات کے اس وقت؟!‘‘
کہنے لگا: ’’مٹی سے بہت اٹ گیا ہوں۔ ایک مہینہ ہو گیا ہے نہائے ہوئے۔‘‘
میں باورچی خانے میں گئی اور گیزر کو آن کر دیا۔ وہ میرے پیچھے پیچھے آ گیا اور بتانے لگا کہ عراقی خرمشہر([3]) میں داخل ہو گئے ہیں۔ خرمشہر پر قبضہ ہو گیا ہے۔ ہمارے بہت سے لوگ شہید ہو گئے ہیں۔ آبادان عراقیوں کے محاصرے میں ہے اور ہر روز اس پر توپوں اور بموں سے حملے ہو رہے ہیں۔ وہ بنی صدر([4]) کی نالائقی اور اسلحہ اور مشنز کی کمی کا شکوہ بھی کر رہا تھا۔
میں نے پوچھا: ’’کھانا کھایا ہے؟!‘‘
جواب دیا: ’’نہیں، لیکن بھوک نہیں ہے۔‘‘
دن کا کھانا تھوڑا سا بچا ہوا تھا۔ وہ میں نے گرم کیا۔ دسترخوان بچھایا۔ ایک پیالہ دہی کا، اچار اور ایک پلیٹ میں سبزی رکھ دی جو سہ پہر کو مالک مکان دے گیا۔ یہ سب چیزیں دسترخوان پر رکھ دیں۔ تھوڑی سی اشکنہ([5]) بھی پڑی تھی، وہ بھی رکھ دی۔ اس نے ایک دو چمچیں لیں تو اس کی آنکھیں سرخ ہو گئی۔ میں نے پوچھا: ’’بہت گرم ہے؟!‘‘
اس نے سر سے اشارہ کیا کہ نہیں اور کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ چمچ پیالے میں رکھی اور رونے لگا۔ میں نے پریشان ہو کر پوچھا: ’’کیا ہوا؟! کوئی برا حادثہ ہو گیاکیا؟!‘‘
مجھے یقین نہ آتا تھا کہ صمد اس طرح رو بھی سکتا ہے۔ اس نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لے لیا اور زارو قطار رو رہا تھا۔
میں نے کہا: ’’میری جان نکلی جا رہی ہے۔ بتاؤ تو سہی، ہوا کیا ہے؟!‘‘
اس نے کہا: ’’یہ کھانا کیسے میری گلے سے نیچے اترے۔ سپاہی سرحد پر بھوکے بیٹھے ہیں اور ان خدا سے بے خبر بعثیوں([6]) کی توپوں اور ٹینکوں سے برسائی جانے والے آگ میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان بےچاروں کے پاس لڑنے کے لیے اسلحہ بھی نہیں ہے۔ نہ کھانے پینے کی کوئی چیز، نہ سونے کی جگہ۔ بہت برے حالات میں ہیں بے چارے۔‘‘
میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر آگے کیا اور کہا: ’’تم خود ہی تو کہتے ہو کہ جنگ ہے اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ کیا تمہارے رونے اور کھانا نہ کھانے سے وہ سیر ہو جائیں گے؟ یا مسئلہ حل ہو جائے گا؟ چلو آگے ہو اوراپنا کھانا کھا لو۔‘‘ جب میں نے بہت زیادہ اصرار کیا تو اس نے دوبارہ کھانا کھانا شروع کیا۔ میں کوشش کر رہی تھی کہ اسے کچھ اور باتوں میں لگا لوں تا کہ اس کا دھیان جنگ اور محاذ سے ذرا ہٹ جائے۔ میں اسے خدیجہ کی شرارتوں اور معصومہ کے دانت نکالنے کے بارے میں بتانے لگی۔ اس کے علاوہ وہ واقعات اسے سنانے لگی جو اس کی عدم موجودگی میں مجھے پیش آئے تھے۔ آہستہ آہستہ اس کی بھوک اپنی جگہ پر آ گئی اور اس نے سارا کھانا کھا لیا حتی کہ دسترخوان پر ایک لقمہ باقی نہ بچا۔
میں نے ہنس کر کہا: ’’واقعاً لگتا ہے کہ جنگ سے لوٹ کر آئے ہو۔‘‘
وہ پیٹ پکڑ کر ہنسنے لگا: ’’اگر میں تمہیں کہوں کہ ایک ماہ ہو گیا ہے اچھی غذا کھانے کو نہیں ملی تو کیا تم یقین کرو گی؟! تمہاری جان کی قسم، یہ آخری چند دن تو فقط روٹی کے ایک ٹکڑے اور تھوڑے سے بسکٹوں پر گزارا کرتا رہا ہوں۔‘‘ میں دسترخوان سمیٹنےکے لیے جھکی تو اس نے میرا ماتھا چوم لیا۔ میں نے سر نیچے کر لیا۔
کہنے لگا: ’’کھانا بہت مزیدار تھا۔ تمہارا بہت بہت شکریہ۔‘‘
میں نے ہنس کر کہا: ’’نوش جان۔ اتنا زیادہ اچھا بھی نہیں تھا۔ دراصل تمہیں بھوک بہت لگی ہوئی تھی۔‘‘
جب وہ حمام جانے کے لیے اٹھا تو میں نے ٹھیک سے دیکھا۔ وہ بہت کمزور ہو چکا تھا۔ کمر تھوڑی جھکی ہوئی، بکھرے ہوئے اور گرد آلود بال اور ڈھلکے ہوئے اور تھکے تھکے کندھے۔ میں نے زیر لب کہا: ’’خدایا! کیا یہ میرا شوہر ہے؟ یہ صمد ہے؟ جنگ نے اس کا کیا حال کر دیا ہے۔۔۔‘‘
میں نے دل میں دعا کی: ’’خدایا! جنگ کو کسی کے گھر کا راستہ نہ دکھا۔‘‘
تھوڑی دیر بعد کھلنے والے پانی کی شُرشُر اور نالی میں جاتے ہوئے پانی کی خُر خُر کی آواز حمام سے آنے لگی۔ یہ واحد آواز تھی جو میرے کانوں میں پہنچ رہی تھی۔ میں نے باورچی خانے کی بتی بجھا دی۔ اگرچہ آدھی رات گزر چکی تھی مگر مجھے یوں لگ رہا تھا کہ گھر پہلے جیسا ہو گیا ہے۔ روشن، گرم اور وسیع۔ ایسا لگتا تھا کہ گھر کے درو دیوار دوبارہ میری طرف دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔
([1]) ایران کے اکثر شہروں میں گھروں کے اندر روٹی پکانے کا رواج نہیں ہے۔ روٹی ہمیشہ گھر سے باہر جگہ جگہ پر موجود نانبائیوں سے ہی خریدی جاتی ہے۔
([2]) ایران میں رسم ہے کہ جب نیا گھر خریدتے یا تبدیل کرتے ہیں تو خیر و برکت کے لیے سب سے پہلے قرآن اور آئینہ اپنی جگہ پر رکھتے ہیں اور اس کے بعد گھر کا باقی سامان ترتیب دیتے ہیں۔
([3]) خرمشہر ایران کا شہر ہےجس پر عراقی افواج نے قبضہ کر لیا تھا اور بعد میں ایرانی افواج نے چھڑا لیا تھا۔
([4]) ایران عراق جنگ کے دوران ایران کا صدر۔
([5]) شوربے والا ایک ایرانی سالن جو پانی، پیاز، آٹا، انڈا، انگور کا شیرہ اور کچھ دوسری چیزیں ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔
چودہواں باب
اگلی صبح، صمد کچھ چیزیں خریدنے چلا گیا۔ جب وہ واپس آیا تو اس نے دو تین کلو گوشت، دو مرغے، سبزی اور کافی سارے پھل اٹھا رکھے تھے۔
میں نے پوچھا: ’’اتنا گوشت! مہمان آ رہے ہیں کیا؟! کیا بات ہے؟!‘‘
اس نے کہا: ’’اب میں جاؤں گا تو اگر زندہ رہ بھی گیا تودو تین ماہ تک واپس نہیں آ سکوں گا۔ شاید عید [نوروز] پر بھی نہ آؤں۔ شاید جنگ کے آخر تک بھی نہ آ سکوں۔‘‘
میں نے کہا: ’’ہونہہ۔۔۔ ایسے ہی باتیں کرتے چلے جاتے ہو! شاید جنگ دو تین سال تک جاری رہے۔‘‘
اس نے کہا: ’’نہیں، خدا نہ کرے۔ بہر حال وہاں میری بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اگر تمہارا اور بچوں کا خیال نہ ہوتا تو یہ چند روز بھی میں نہ آتا۔‘‘
میں نے گوشت سنک میں رکھا اور ٹونٹی کھول دی۔ میں نے دوبارہ کہا: ’’خدا کی قسم، تم بہت زیادہ گوشت خرید لائے ہو۔ بچے اتنا کھانا کھاتے نہیں ہیں۔ باقی میں ہی رہ جاتی ہوں۔ بہت زیادہ ہے۔‘‘
وہ ہال میں چلا گیا اور بچوں کو اپنے پاؤں پر بٹھا کر ان کے ساتھ کھیلنے لگا۔
میں نے کہا: ’’صمد!‘‘
اس نے وہیں ہال سے جواب دیا: ’’جانِ صمد!‘‘
مجھے ہنسی آ گئی۔ میں نے کہا: ’’کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آج سہ پہر کہیں باہر چلے جائیں۔ بہت بے چین ہو رہی ہوں۔ اس گھر میں میرا دل کافی گھٹن محسوس کر رہا ہے۔‘‘
اس نے جلدی سے کہا: ’’تم چاہتی ہو کہ ابھی سارا کچھ جمع کر کے قایش چلے جائیں۔‘‘
میں نے ٹونٹی بند کی اور گوشت کو جالی میں رکھ کر کہا: ’’نہیں، قایش نہیں۔ وہاں پہنچنے تک تو میرے پاؤں ہی غائب ہو جائیں گے۔ میں چاہتی ہوں کہ کسی ایسی جگہ جائیں جہاں فقط میں، تم اور بچے ہوں۔‘‘
وہ بچوں کو بغل میں لیے باورچی خانے میں آ گیا: ’’جو تم کہو۔ کہاں جائیں؟!‘‘
میں نے کہا: ’’پارک۔‘‘
اس نے باورچی خانے کا پردہ ایک طرف کیا اور باہر دیکھ کر کہنے لگا: ’’موسم ٹھنڈا ہے۔ نومبر کا مہینہ ہے۔ بیگم! بچوں کو سردی لگ جائے گی۔‘‘
میں نے کہا: ’’وہ تو ٹھیک ہے کہ نومبر ہے مگر موسم خوشگوار ہے۔ اس سال اتنی سردی نہیں پڑی۔‘‘
کہنے لگا: ’’ٹھیک ہے۔ آج ظہر کے بعد چلے جاتے ہیں۔ فقط اگر اجازت دو تو میں ایک چکر چھاؤنی کا لگا آؤں۔ ابھی واپس آ جاؤں گا۔ بہت ضروری کام ہے۔‘‘
میں نے ہنس کر کہا: ’’آج تک تم نے چھاؤنی جانے کے لیے مجھ سے اجازت لی ہے؟!‘‘
وہ ہنس دیا: ’’آخر کار یہ چند روز میں تمہارے لیے چھٹی لے کر آیا ہوں۔ تمہارا حق ہے۔ اگر تم اجازت نہیں دیتیں تو میں نہیں جاؤں گا۔‘‘
میں نے کہا: ’’جاؤ، لیکن جلدی لوٹ کر آنا، ورنہ میں معاف نہیں کروں گی۔‘‘
اس نے جلدی سے خدیجہ اور معصومہ کو نیچے رکھا اور اپنی وردی پہن لی۔ بچے اس کے پیچھے جاتے ہوئے رو رہے تھے۔ میں نے انہیں پکڑا۔ وہ سیڑھیوں پر جھک کر اپنے بوٹوں کے تسمے باندھ رہا تھا۔
میں نے پوچھا: ’’دن کے کھانے میں کیا بناؤں؟!‘‘
وہ تسمے باندھ کر سیڑھیوں نیچے جا رہا تھا۔ کہنے لگا: ’’آبگوشت۔‘‘
میں نے پہلے بچوں کو سنبھالا۔ انہیں کھانے کو کچھ دیا اور کچھ کھلونے ان کے سامنے رکھ دیے۔ اس کے بعد اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔ گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کیے۔ سالن چولہے پر رکھا اور سبزی صاف کرنے بیٹھ گئی۔
ساڑھے بارہ بچ گئےتھے۔ میں نے سارے کام نمٹا لیے تھے۔ کھانا بھی تیار ہوچکا تھا۔ آبگوشت لیمو عمانی([1]) کی خوشبو پورے گھر میں پھیل گئی تھی۔ میں نے دستر خوان بچھایا۔ دہی، اچار اور سبزی اس پر رکھی۔ بچوں کو بھوک لگ رہی تھی۔ تھوڑی روٹی توڑ کر سالن میں ڈالی اور انہیں دی۔ وہ سیر ہو گئے اور کمرے میں ایک جگہ جا کر اپنے کھلونوں کے ساتھ کھیلنے لگے۔
میں دسترخوان کے پاس ہی لیٹ گئی اور نظریں دروازے پر گاڑ دیں۔ دو بج چکے تھے مگر صمد ابھی تک نہ آیا تھا۔ ایک بار معصومہ کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ تین ہو گئے تھے۔ میں دسترخوان کے کنارے سو گئی تھی۔ بچے آپس میں لڑ پڑے اور رو رہے تھے۔ اچار، دہی اور سبزی کے پیالے دسترخوان کے درمیان الٹے پڑے تھے۔ مجھے غصہ آ گیامگر وہ بچے تھے، انہیں اتنی سمجھ نہ تھی۔ میں نے دسترخوان سمیٹا اورباورچی خانے میں لے گئی۔ اس کے بعد بچوں کا منہ ہاتھ دھویا۔ ان کے کپڑوں کو بدلا جن سے دہی اور اچار کی بو آ رہی تھی۔ معصومہ کو دودھ پلا کر سلا دیا۔ خدیجہ نے بھی تھوڑا سا کھانا کھایا اور ایک کونے میں جا کر سو گئی۔ میں نے ان کے بستر بچھائے اور ان پر کمبل ڈال کر اپنا کام کرنے لگی۔ دستر خوان کو دھویا۔ رات کے کھانے کے لیے آلو کے کباب بنائے۔ آہستہ آہستہ اندھیرا چھانے لگا۔ میں خود ہی مشق کر رہی تھی کہ صمد آئے گا تو اسے کیا کہوں گی۔ مجھے اس پر بہت غصہ تھا۔ آج اس سے اپنے دل کی بات کر ہی لینی چاہیے۔ اتنے میں وہ آ گیا۔
دروازے کی آواز آئی تو بچے بھی جاگ گئے اور صمد کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس نے دونوں کو گود میں اٹھایا اور باورچی خانے میں چلا آیا۔ اس کے ہاتھ میں پلاسٹک کا ایک چھوٹا تھیلا تھا۔ اس نے سلام کیا۔ میں نے روکھے منہ سلام کا جواب دیا۔ اس نے تھیلا میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا: ’’اسے پکڑ لو۔ میرا ہاتھ تھک گیا ہے۔‘‘
وہ جلدی جلدی بچوں کو بوسے دے رہا تھا اور ان کے صدقے واری ہوئے جا رہا تھا۔ میں اس سے ناراض تھی: ’’خود ہی کیبنٹ پر رکھ دو۔‘‘
کہنے لگا: ’’نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔ تمہیں میرے ہاتھ سے لینا ہو گا۔‘‘
میں نے بادلِ نخواستہ تھیلا پکڑ لیا۔ اس میں ایک بنفشی رنگ کا بڑا اونی سکارف تھا جس کا ان دنوں نیا نیا رواج چلا تھا۔ اس سکارف پر بڑے بڑے پھول بنے ہوئے تھے۔ پہلے تو میں نے بے اعتنائی برتی لیکن پھر اچانک شینا کی بات یاد آ گئی۔ وہ ہمیشہ کہتی تھیں: ’’تمہارا شوہر تمہارے لیے جو چیز بھی خریدے تو اسے یہ ضرور کہنا کہ تمہارا بہت شکریہ اور تم نے بہت زحمت کی اگرچہ تمہیں وہ چیز بہت بری ہی کیوں نہ لگی ہو۔‘‘ بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا: ’’تم نے زحمت کیوں کی۔ یہ تو بہت مہنگا ہے۔‘‘
میں نے سکارف سر پر اوڑھ لیا۔ وہ مسکرانے لگا: ’’تمہیں کتنا اچھا لگ رہا ہے۔ کتنی پیاری ہو گئی ہو۔‘‘
مجھے بالکل ہی بھول گیا کہ میں تو اس سے ناراض تھی اور اس سے لڑنے مرنے پر تلی بیٹھی تھی۔ اس نے کہا: ’’تیار ہو، چلیں؟!‘‘
میں نے کہا: ’’کہاں؟!‘‘
اس نے کہا: ’’پارک، اور کہاں۔‘‘
میں نے کہا: ’’اب! تمہارا بہت شکریہ۔ اب تو رات ہو رہی ہے۔‘‘
کہنے لگا: ’’قدم! میری جان، تنگ نہ کرو۔ موڈ خراب ہو جائے گا۔ کل جب میں چلا جاؤں گا تو تمہارا دل کڑھتا رہے گا۔‘‘
میں نے اور کچھ نہ کہا۔ آلو کے کباب میں نے ایک ڈھکن والے ڈبے میں رکھے۔ سبزی، اچار، دسترخوان، روٹی اور تھرماس اٹھایا اور سب کو ایک بڑی زنبیل میں رکھ دیا۔ کپڑے پہنے، سکارف سر پر اوڑھا اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی حالت ذرا درست کرنے لگی۔ صمد ٹھیک کہہ رہا تھا۔ سکارف مجھے بہت ہی اچھا لگ رہا تھا۔
میں نے کہا: ’’تمہارا بہت بہت شکریہ۔ تم نے اچھی چیز خریدی ہے۔ سکارف گرم اور بڑا ہے۔‘‘
وہ بچوں کے کپڑے بدل رہا تھا۔ کہنے لگا: ’’میں نے جان بوجھ کر اتنا بڑا لیا ہے۔ تھوڑے دنوں بعد جب موسم زیادہ ٹھنڈا ہو جائے گا تو یہ سر اور گوشت کو اچھے طریقے سے ڈھانپ لے گا۔‘‘
طے پایا تھا کہ اس کا ایک دوست جو دواساز ڈاکٹر تھا وہ بھی ہمارے ساتھ آئے گا۔ ان لوگوں کے پاس گاڑی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ لوگ آ گئے۔ ہم ان کی گاڑی پر بیٹھے اور شہر سے باہر نکل گئے۔ گاڑی کافی سفر طے کرنے کے بعد قہرمان بیرک کے سامنے جا کر رکی۔ صمد اتر کر ملٹری پولیس کے دفتر میں چلا گیا۔ ڈاکٹر کی بیوی نے معصومہ کو گود میں اٹھا رکھا تھا۔ مجھے اپنے دل میں اس جوڑے کے لیے کافی ہمدردی محسوس ہو رہی تھی۔ چند سال ہو چکے تھے ان کی شادی کو مگر ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ جب ہمیں بیرک کے اندر جانے کی اجازت ملی تو کافی اندھیرا چھا چکا تھا۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد کچھ پرانے تبریزی درختوں کے نیچے بیٹھنے کے لیے ایک جگہ مل گئی۔ چٹائیاں جو ساتھ لائے تھے وہ بچھا کر ان پر بیٹھ گئے۔ وہاں پر بجلی کی کچھ کھمبے بھی تھے جنہوں نے اس جگہ کو کافی روشن کر دیا تھا۔
خزاں کے دن تھے اور درختوں کے زرد اور خشک پتے زمین پر گرے ہوئے تھے۔ ہوا چل رہی تھی اور درختوں کی شاخوں کو ہلا رہی تھی۔ موسم ٹھنڈا تھا۔ ڈاکٹر کی بیوی نے بچوں کو اپنی چادر کے اندر کر لیا۔ میں تھرماس لے آئی اور چائے ڈالی۔ اچانک بجلی چلی گئی اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔
صمد نے کہا: ’’بسم اللہ۔ میرا خیال ہے کہ ریڈ الرٹ ہو گیا ہے۔‘‘
اس اندھیرے میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ ہم نے تھوڑا انتظار کیا مگر نہ تو میزائلوں کی آواز آ رہی تھی اور نہ ہی ریڈ الرٹ کے سائرن کی۔ صمد اپنی ٹارچ لے آیا اور اسے آن کر کے چٹائی کے درمیان میں رکھ دیا۔ ہم نے پینے کے لیے چائے اٹھا لی۔ وہ اتنی جلدی ٹھنڈی ہو چکی تھی۔
ہوا درختوں کے درمیان سے سائیں سائیں کرتی ہوئی گزر رہی تھی اور باقی بچ جانے والے پتوں کو اِدھر اُدھر بکھیر رہی تھی۔ ہمارے آس پاس پڑے پتوں کی سرسراہٹ انسان کو وحشت میں مبتلا کیے جا رہی تھی۔میں نے آہستہ سے صمد سے کہا: ’’اٹھو، چلیں۔ اس اندھیرے میں کوئی جانور ہی ہماری طرف نہ نکل آئے۔‘‘
صمد نے کہا: ’’ڈاکٹر صاحب کے سامنے ایسی باتیں نہ کرو۔ مجھے شرم محسوس ہوتی ہے۔ دیکھو تو، ڈاکٹر صاحب کی بیوی کیسے آرام سے بیٹھی بچوں کے ساتھ کھیل رہی ہیں۔ تم تو اس قسم کے ماحول میں زندگی گزار چکی ہو۔‘‘
ہمارے اردگرد کا ماحول کافی سنسان تھا۔ ایک پرندہ بھی پر نہیں مار رہا تھا۔ بعض اوقات دور سے کتوں یا گیدڑوں کے لڑنے کی آواز آتی۔ ہوا چل رہی تھی اور بجلی جا چکی تھی۔ ہم ایک دوسرے کو بھی صحیح طریقے سے دیکھ نہیں پا رہے تھے۔ جگہ ٹٹول ٹٹول کر ہم رات کا کھانا لائے۔ ایک دوسرے کے مدد سے دسترخوان بچھایا۔ خدیجہ میرے پاس بیٹھی تھی اور معصومہ ڈاکٹر کی بیوی کی گود میں تھی۔ خدیجہ سردی سے کانپ رہی تھی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم نے رات کا کھانا کس طرح کھایا۔ میں دل ہی دل میں دعا مانگ رہی تھی کہ جلدی جلدی اٹھیں اور گھر کو چلیں، لیکن مردوں کی گپ شپ ابھی ابھی عروج پر پہنچی تھی۔ڈاکٹر کی بیوی بھی بے فکر نظر آرہی تھیں۔ وہ آرام آرام سے میرے ساتھ باتیں کر رہی تھیں۔ میں نے ہزار جتن کیے مگر اپنے حواس مجتمع نہ کر سکی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی درختوں کے پیچھے سے کوئی کتا یا بھیڑیا آ کر ہم پر حملہ کر دے گا۔ دوسری بات یہ تھی کہ وہ علاقہ فوجی تھا۔ اگر ریڈ الرٹ ہو جاتا تو باقی جگہوں کی نسبت یہاں زیادہ خطرہ تھا۔ سردی سے میرے دانت بج رہے تھے۔ بالآخر مرد اٹھنے پر راضی ہوئے۔ ہم نے اپنا سامان جمع کیا اور گاڑی پر سوار ہو گئے۔ اس لمحہ میں نے سکھ کا سانس لیا اور ڈاکٹر کی بیوی سے باتیں کرنے لگ گئی۔
گھر پہنچے تو بچے سو چکے تھے۔ ان کے بستر بچھائے اور کپڑے تبدیل کیے۔ صمد نے باورچی خانے میں جا کر برتن دھو دیے۔ میں اس کے پیچھے پیچھے باورچی خانے میں چلی گئی۔ اس نے پلٹ کر مجھ سے پوچھا: ’’ڈاکٹر کی بیوی کیسی تھیں؟! تمہارا وقت اچھا گزرا؟!‘‘
میں کہنا چاہتی تھی کہ بہت اچھا گزرا لیکن میں نے اپنے لب سی لیے اور آبگوشت کی طرف بڑھ گئی جو دن کا بچا ہوا تھا۔ اس دن میں نے نہ دن کا کھانا کھایا تھا اور نہ رات کا کھانا صحیح طریقے سے کھا سکی تھی۔ بھوک اور کمزوری سے میرے ہاتھ پاؤں لرز رہے تھے۔
اگلے دن صمد نے ہمیں قایش لے جا کر چھوڑا اور خود محاذ پر چلا گیا۔ میں اور بچے ایک ماہ تک قایش میں رہے۔ سردی تھی اور کافی برفباری ہوئی تھی۔ ہمدان واپس آنے کے بعد موسم زیادہ سرد ہو چکا تھا اور دوبارہ برفباری بھی ہوئی تھی۔ مجھے زیادہ خوشی اس بات کی ہو رہی تھی کہ صمد نے مکان کی قرارداد([2]) لکھتے وقت یہ شرط رکھی تھی کہ مکان کی چھت کی صفائی مالک مکان کے ذمے ہو گی۔
اس سردی اور برفباری میں قایش سے ڈھیروں مہمان بھی پہنچ گئے جو کرمانشاہ جانا چاہتے تھے۔ رات کے کھانے کے بعد میں اس بات کی طرف متوجہ ہوئی کہ ناشتے کے لیے روٹی نہیں ہے۔ میں صبح جلدی اٹھی اور نانبائی پر چلی گئی۔ وہاں تو ماحول ہی اور تھا۔ نانبائی پر لگی قطار گلی کے دوسرے سرے تک چلی گئی تھی۔ موسم بھی بہت سرد تھا۔ کوئی چارہ نہ تھا۔ میں ایک صف میں کھڑی ہو گئی جس میں ہجوم تھوڑا کم تھا۔ اس کے باوجود بھی باری آتے آتے دس منٹ لگ گئے۔ میں نے روٹی لی اور جو عورت صف کے آخر میں کھڑی تھی اسے میں نے کہا: ’’بہن، میری باری کا خیال رکھنا میں ابھی واپس آتی ہوں۔‘‘ گھر پہنچنے تک کئی بار برف سے پھسلی اور گری۔ روٹیاں دسترخوان میں رکھیں۔ مہمان جاگ گئے تھے۔ چولہے پر چائے چڑھائی اور پنیر فریج سے نکال کر باہر رکھ دیا۔ پھر دوبارہ نانبائی کی طرف دوڑ پڑی۔ جب پہنچی تو دیکھا کہ وہ عورت نہیں تھی۔ میں پریشان ہو گئی۔ صف میں کھڑی چند دوسری عورتوں سے کہا: ’’میں ابھی دس منٹ پہلے آ کر یہاں اپنی باری رکھ کر گئی تھی اور دو روٹیاں لے کر چلی گئی تھی۔‘‘ عورتوں نے سمجھا کہ میں بغیر باری کے روٹی لینا چاہتی ہوں۔ کچھ عورتوں نے مجھے برا بھلا کہا اور مجھ سے لڑائی شروع کر دی۔ ایک عورت نے زور سے مجھے دھکا دیا۔ اگر میں دیوار پر ہاتھ نہ رکھتی تو گر جاتی۔ اچانک وہی عورت مجھے نظر آ گئی۔ اس کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی زنبیل تھی۔ میں نے خوش ہو کر کہا: ’’بہن، بہن، کیا میری باری تمہارے بعد نہیں تھی؟!‘‘ عورت نے مسکرا کر مجھے اشارہ کیا کہ میں آگے آ جاؤں۔ ایسا لگا کہ مجھے دنیا جہان کی نعمتیں مل گئی ہو۔ دوسری عورتوں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو مجبوراً مجھے آگے جانے کے لیے راستہ دے دیا۔ اب بھی جب کبھی میں سرخ زنبیل دیکھتی ہوں تو مجھے وہی عورت اور اس دن کا واقعہ یاد آ جاتا ہے۔
موسم روز بہ روز سرد ہوتا جا رہا تھا۔ برف زمین پر جم چکی تھی۔ گاؤں کے راستوں پر آمد و رفت کم ہو چکی تھی یہی وجہ تھی کہ اب قایش سے کوئی ہمدان نہیں آ رہا تھا۔ ان دنوں مالک مکان نے بھی ہمارا بہت خیال رکھا۔ کبھی کبھی جب وہ اپنے لیے کوئی چیز خریدتا تو ہمارے لیے بھی کچھ نہ کچھ لے آتا لیکن میں یا تو قبول ہی نہ کرتی یا جیسے تیسے کر کے اسے اس چیز کے پیسے ضرور دے دیتی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ اپنے گردن پر کسی کا احسان لوں یا لوگ یہ سمجھیں کہ میرا شوہر گھر پر نہیں ہے تو میں دوسروں کی محتاج ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ میں اپنی طاقت سےزیادہ کام کرتی۔ سردی منفی 42-43 تک پہنچ چکی تھی۔ گھر کو گرم رکھنے کے لیے تیل کی مقدار ناکافی تھی۔ بچوں کو سردی سے بچانے کے لیے گھر میں بھی انہیں کوٹ اور ٹوپیاں پہنائے رکھتی تھی۔ ایک دن تیل ڈالنے لگی تو دیکھا کہ کُپّا تقریباً خالی ہو چکا تھا۔ بچے سو گئے تھے۔ بیس لیٹر تیل والا کپا اٹھایا اور تیل والی ایجنسی پر چلی گئی جو سڑک کنارے تھی اور ہمارے گھر سے کافی دور تھی۔ لوگ دکان پر قطار بنائے کھڑے تھے۔ انہوں نے تیل کے کپے رسیوں کی مدد سے ایک دوسرے سے باندھ رکھے تھے تا کہ ان کی باری آگے پیچھے نہ ہو جائے۔ میں نے بھی اپنا کپا قطار کے آخر میں رکھ دیا اور کھڑی ہو گئی۔ تیل ابھی تک دکان پر نہ پہنچا تھا۔ کھڑے کھڑے آدھا گھنٹہ گزر گیا۔ سردی پاؤں کی انگلیوں سے اوپر آنا شروع ہو گئی یہاں تک کہ میرے دانت بجنے لگے۔ میں نے دیکھا کہ اس طرح تو مجھ سے نہیں کھڑا ہوا جائے گا۔ میں گھر واپس آ گئی اور جتنا ہو سکتا تھا جرابیں اور کوٹ پہن لیے اور پھر واپس دکان پر آ گئی۔ بچوں کو گھر ہی چھوڑ آ ئی تھی اور گھر میں ان کی دیکھ بھال کے لیے کوئی نہ تھا۔ ظہر تک چار پانچ دفعہ گھر آئی اور واپس گئی۔ ظہر کے بعد تیل ایجنسی میں آیا۔ ایک گھنٹے بعد میری باری آئی۔ ان دنوں تیل کی ایجنسیوں پر ریڑھیاں پھر رہی ہوتی تھیں جو لوگوں کے تیل کے کپے ان کے گھروں تک پہنچا دیتی تھیں۔ میری بدقسمتی کہ اس وقت ایک ریڑھی بھی وہاں موجود نہ تھی۔ ایک کپے کو وہیں دکان میں رکھا اور دوسرے کو ہزار مشکلوں سے دونوں ہاتھوں سے اٹھایا اور ہانپتی کانپتی گھر کی طرف چل پڑی۔ پہلے تو ہر دس بیس قدم پر کپے کو نیچے رکھتی اور تھوڑا دم لیتی لیکن آخر میں آ کر ہر پانچ قدم کے بعد ٹھہر جاتی۔ انگلیاں جو سُن ہو چکی ہوتیں انہیں رگڑتی اور ہاتھوں کا پیالہ بنا کر منہ پر رکھ لیتی اور منہ سے بھاپ دیتی تا کہ گرم ہو جائیں۔ کس عذاب سے پہلے کپے کو گھر تک پہنچایا اور پہلی منزل میں سیڑھیوں کے نیچے اسے رکھا۔ جب دوسرے کپے کو اٹھانے کے لیے جانے لگی تو میری حالت رونے والی ہو گئی۔ وہاں پہنچ کر جیسے ہی دکان سے دوسرا کپا اٹھا کر باہر لائی تو میری سانسیں جواب دے گئیں۔ میں سردی سے برف بن چکی تھی لیکن مجھے ہر حال میں وہ کپا گھر تک پہنچانا تھا۔ ایک تو بچوں کی طرف دھیان لگا ہوا تھا دوسرا چلنے کی طاقت ختم ہو چکی تھی۔ بالآخر ہزار مشکلوں سے گرتی پڑتی گھر تک پہنچی۔ اگلا سخت مرحلہ ان کپوں کو اٹھا کر اوپر والی منزل تک لے جانے کا تھا۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ مالک مکان متوجہ ہو جائے اور میری مدد کو آ جائے۔ اسی لیے آہستہ آہستہ اور بغیر کوئی آواز پیدا کیے پہلے کپے کو اٹھایا اور سیڑھیوں سے سے اوپر لے گئی۔ آدھے گھنٹے بعد آ کر دوسرے کپے کو بھی اٹھا لائی۔ میں بے ہوش ہوئی جا رہی تھی۔ تھکاوٹ سے چور ہو کر کمرے کے وسط میں جا کر گر پڑی۔ خدیجہ اور معصومہ خوش ہو ہو کر مجھ سے لپٹ رہی تھیں لیکن میں اس قدر تھک چکی تھی اور میرے پاؤں اور کمر میں اتنا درد ہو رہا تھا کہ ان کی طرف منہ کر کے ہنس بھی نہ سکتی تھی۔ انتظار کر رہی تھی کہ بچے سو جائیں تو میں بھی تھوڑا آرام کر لوں۔ لیکن بچے بھوکے تھے لہٰذا مجھے اٹھ کر رات کے کھانے کا بندوبست کرنا تھا۔
تقریباً ہر روز ریڈ الرٹ ہو جاتا۔ دو تین بار تو ایسا بھی ہوا کہ عراقی جہازوں نے شہر کی صوتی دیوار([3]) کو توڑ دیا جس کے سبب لوگ ڈر گئے اور گھروں اور دکانوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ جیسے ہی ریڈ الرٹ ہوتا اور سائرن کی آواز آتی تو خدیجہ اور معصومہ ڈر کے مارے میری طرف دوڑتیں اور میری گود میں آ کر چھپ جاتیں۔ مصلی ٹیلہ ہمارے گھر کے سامنے ہی تھا اور طیارہ شکن توپ خانہ وہیں نصب تھا۔ توپیں جب اپنا کام شروع کرتیں تو ہمارا گھر لرز جاتا۔ جب گولے داغے جاتے تو آگ سے ہمارا گھر روشن ہو جاتا۔ مالک مکان کی بیوی اصرار کرتی تھی کہ جب ریڈ الرٹ ہو جائے تو بچوں کو اٹھا کر نیچے چلی جایا کروں لیکن یہ ایک یا دو دن کا کام تو تھا نہیں۔ ایک رات جیسے ہی میں لیٹی تو ریڈ الرٹ ہو گیا اور پھر بلا فاصلہ توپوں نے گولے داغنا شروع کر دیے۔ اس دفعہ گولوں کی آواز اتنی زیادہ تھا کہ معصومہ اور خدیجہ ڈر کے مارے چیخنے اور رونے لگیں۔ میں کیا کرتی۔ ہزار جتن کیے مگر وہ چپ ہونے کا نام ہی نہ لیتی تھیں۔ بچوں کے شور اور رونے کی آواز سن کر مالک مکان کی بیوی اوپر آ گئی۔ وہ بے چاری میرے لیے پریشان ہو رہی تھی۔ اس نے خدیجہ کو زبردستی مجھ سے لیا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ معصومہ کومیں نے اٹھا لیا۔ خاتون نے جب توپوں کی آگ اور گھر کی لرزش دیکھی تو کہنے لگی: ’’قدم بیگم! تمہیں ڈر نہیں لگتا؟!‘‘
میں نے کہا: ’’پھر کیا کروں؟‘‘
وہ خود بھی ڈری ہوئی لگ رہی تھی۔ کہنے لگی: ’’خدا کی قسم، بڑا حوصلہ ہے تمہارا۔ بغیر شوہر کے اور ان دو بچوں کے ساتھ، اللہ کی قسم، شیر جیسا حوصلہ رکھتی ہو۔ چلو نیچے۔ ان بچوں کا کیا قصور ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’آپ کو زحمت ہو گی۔‘‘
وہ بے چاری اصرار کرنے لگی اور زبردستی ہمیں نیچے لے گئی۔ وہاں شور کم تھا جس کی وجہ سے بچے پُرسکون ہو گئے۔
ہر ہفتے پیر اور بدھ کے دن شہداء کو لایا جاتا تھا۔ میری ساری کی ساری خوشی اسی بات میں تھی کہ ہفتے میں ایک بار شہداء کے جنازوں کے ساتھ جاؤں۔ خدیجہ اس وقت اڑھائی سال کی تھی۔ وہ میری چادر کا کونہ پکڑ لیتی اور آہستہ آہستہ میرے ساتھ چلتی جاتی۔ معصومہ کو میں اٹھا لیتی تھی۔ میں جیسے ہی ہجوم میں داخل ہوتی، بے اختیار رونے لگتی۔ ایسا لگتا تھا کہ میں اپنے پورے ہفتے کا غم اٹھائے شہداء کے تابوتوں کے پیچھے آ رہی ہوں تا کہ ان کے ساتھ اپنا غم بانٹ سکوں۔ خیابان شہداء سے لے کر باغِ بہشت([4]) تک روتی ہی رہتی۔ جب گھر لوٹتی تو کافی ہلکی پھلکی ہو چکی ہوتی اور تازہ توانائی اپنے اندر محسوس کرتی۔
مارچ کے دن تھے لیکن برف ابھی تک پگھلی نہ تھی اور موسم نے اپنی سردی والی کیفیت کو ابھی تک چھوڑا نہ تھا۔ عورتیں گھروں کی جھاڑ پونچھ، صفائی ستھرائی اور دھلائی میں مصروف تھیں۔ میں نے لاکھ کوشش کی مگر کام میں دل نہیں لگتا تھا۔ اس روز بھی چند شہداء کی تشییع جنازہ سے واپس لوٹی تھی۔ بچوں کو گھر چھوڑ کر نانبائی پر جا کر قطار میں کھڑی ہو گئی اور ہمیشہ کی طرح تھوڑی تھوڑی دیر بعد ان کی خبر گیری لینے کے لیے پھر گھر چلی جاتی۔ آخری بار جب گھر آئی تو جیسے ہی سیڑھیوں پر پہنچی، خوف سے میرا حلق خشک ہو گیا۔ بچوں کے ہنسے کی آواز آ رہی تھی۔ کوئی آدمی ہمارے گھر میں تھا جو ان کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ میں دوڑ کر سیڑھیاں چڑھی۔ پرانے اور گندے بوٹ دروازے کے باہر پڑے تھے۔ میں نے اپنےا ٓپ سے کہا: ’’حتماً شمس یا تیمور میں سے کوئی ایک ہو گا جو ہماری خیر خیریت دریافت کرنے آیا ہو گا۔ یا شاید ستار ہو۔‘‘ جیسے ہی میں نے دروازہ کھولا تو اپنی جگہ پر جم کر رہ گئی۔ وہ صمد تھا جو بچوں کو گود میں اٹھائے کمرے میں گھوم رہا تھا اور ان کے لیے اشعار پڑھ رہا تھا۔ بچے بھی مزا لے رہے تھے اور ہنس رہے تھے۔
اچانک ہمارے آنکھیں ٹکرائیں اور تھوڑی دیر تک کچھ کہے بغیر ایک دوسرے کو دیکھتے ہی چلے گئے۔ ہم چار ماہ بعد ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔ میری آنکھوں میں آنسو جمع ہو گئے۔ پھر بھی اس نے پہلے سلام کیا اور اسی بچوں والی آواز میں جس میں وہ خدیجہ اور معصومہ کے لیے شعر پڑھ رہا تھا، پوچھنے لگا: ’’کہاں تھیں میری بیگم، کہاں تھیں میری پیاری، کہاں تھیں قدم بیگم؟!‘‘
میں دیوانہ وار موٹے موٹے آنسو بہا رہی تھی اور چادر کے کونے سے انہیں پونچھ رہی تھی۔ بچوں کو اٹھائے اٹھائے اس نے میری طرف دیکھ کر پوچھا: ’’رو رہی ہو؟!‘‘
میں اور رونا آ گیا۔ وہ ہنس دیا اور اسی بچوں والے لہجے میں کہنے لگا: ’’آہا، سمجھ گیا۔ تمہارا دل میرے لیے اداس ہو رہا تھا۔ بہت زیادہ۔ یعنی تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔ بہت ہی زیادہ!‘‘
وہ جتنا باتیں کرتا جاتا میرا رونا بڑھتا جاتا۔ بچوں کو میرے چہرے کے سامنے لا کر کہنے لگا: ’’ماں کو بوسہ دو۔ ماں کے ساتھ لاڈ پیار کرو۔‘‘
بچے اپنے چھوٹے چھوٹے اور نرم ہاتھ میرے چہرے پر مارنے لگے۔
اس نے پوچھا: ’’کہاں گئی تھیں؟!‘‘
میں نے روتے ہوئے کہا: ’’روٹی خریدنے۔‘‘
پوچھا: ’’خرید لائیں؟!‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں، بچوں کی پریشانی تھی۔ انہیں دیکھنے آئی تھی۔‘‘
کہنے لگا: ’’اچھا، تم بچوں کے پاس رہو۔ میں لے آتا ہوں۔‘‘
میں نے دوبارہ چادر سے اپنے آنسو پونچھے اور کہا: ’’نہیں، تم زحمت نہ کرو۔دو بندوں کے بعد میری باری آنے ہی والی ہے۔ میں خود ہی جاتی ہوں۔‘‘
اس نے بچوں کو زمین پر رکھا اور میری چادر میرے سر سے اتار کر کھونٹی پر لٹکا دی: ’’جب تک میں گھر پر ہوں، گھر کی خریداری میرے ذمے ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’لیکن تمہیں اب قطار میں کھڑا ہونا پڑے گا۔‘‘
اس نے کہا: ’’میں جاتا ہوں۔ یہ میری ذمہ داری بنتی ہے۔ اگر روٹی کھانی ہے تو مجھےقطار میں کھڑے ہونا چاہیے۔‘‘
اس کے بعد وہ ہنس دیا۔
وہ اپنے بوٹ پہن رہا تھا تو میں نے کہا: ’’کم سے کم لباس تو تبدیل کر لو۔ ٹھہرو تمہارے جوتوں کو پالش بھی کر دوں اور ذرا نہا بھی لو۔‘‘
ہنس کر کہنے لگا: ’’تم بیس تک گنتی گنو، میں ابھی آیا۔‘‘
میں مسکرا کر کمرے میں آ گئی۔ بچوں کا منہ دھلایا اور ان کے کپڑے بدلے۔ کھانا رکھا۔ گھر کو مرتب کیا۔ اپنا منہ سر درست کیا۔ جب صمد روٹی لے کر پہنچا تو ہر چیز منظم ہو چکی تھی۔ کھانے کی خوشبو پورے گھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ دھوپ کمرے کے درمیان تک آ گئی تھی۔ گھر کے در و دیوار سے خوشی ٹپک رہی تھی۔
اگلے دن صمد باہر چلا گیا۔ جب لوٹا تو اس کے ہاتھ میں پلاسٹک کے بڑے بڑے تھیلے تھے۔ وہ دوبارہ خریداری کرنے گیا تھا۔ چنوں اور لوبیا سے لے کر قند، چائے، چینی اور چاولوں تک ہر چیز لے آیا تھا۔
میں نےپوچھا: ’’یعنی تم اتنا جلدی واپس جانا چاہتے ہو؟!‘‘
اس نے کہا: ’’اتنا جلدی تو نہیں، مگر بالآخر جانا تو ہے۔ میں ٹھہرنے والا تو ہوں نہیں۔ بہتر ہے کہ جلد از جلد اپنے کام نمٹا لوں۔ اب مجھے اچھا نہیں لگتا کہ ایک کلو دال کے لیے دکان پر جاؤں۔‘‘
ہمیشہ جب وہ تھیلے لاتا تو جا کر باورچی خانے رکھ دیتا۔ اس بار بھی اس نے ایسا ہی کیا اور وہیں سے کہنے لگا: ’’کل جب میں آیا اور دیکھا کہ تم نانبائی کی قطار میں جا کر کھڑی ہوتو مجھے بہت ہی برا لگا۔‘‘
میں نے تھیلے اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا: ’’یعنی تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں ہے!‘‘
وہ گھبرا کر کھڑا ہو گیا اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگا: ’’نہیں، نہیں، میرا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا۔ میری مراد یہ تھی کہ میں تمہارے لیے عذاب اور پریشانی کا باعث بنا ہوا ہوں۔ اگر تمہاری مجھ سے شادی نہ ہوئی ہوتی تو اب تم اپنی ماں کے گھر میں راحت و سکون سے زندگی گزار رہی ہوتیں۔ کھاتیں، پیتیں اور سوتیں۔‘‘
میں ہنس دی: ’’کتنا کھاتی اور کتنا سوتی!‘‘
اس نے ایک بڑے تھال میں چاول ڈالتے ہوئے کہا: ’’میں یہ سارے چاول صاف کر دیتا ہوں۔ تم اپنے کام کر لو۔‘‘
میں نے کہا: ’’سب سے بہترین کام یہی ہے کہ میں یہاں بیٹھ جاؤں۔‘‘
وہ ہنس کر کہنے لگا؛ ’’نہیں، تو تم کہیں جا تھوڑا ہی رہی ہو۔ شاباش، شاباش۔ آؤ، یہاں میرے پاس بیٹھ جاؤ۔ دونوں مل کر چاول صاف کرتے ہیں۔‘‘
ہم دونوں باورچی خانے ہی میں تھال کے کنارے بیٹھ گئے اور ظہر تک چنے، لوبیا اور چاول سب صاف کر ڈالے۔ ہم باتیں کرتے اور ہنستے جاتے تھے۔
دن کا کھانا کھانے کے بعد صمد نے وردی پہنی اور کہنے لگا: ’’میں ذرا چھاؤنی تک جانا چاہتا ہوں۔ جلدی لوٹ آؤں گا۔‘‘
میں پوچھا: ’’سہ پہر کو کہیں باہر چلے جائیں؟!‘‘
اس نے تعجب سے پوچھا: ’’کہاں؟!‘‘
میں نے کہا: ’’عید [نوروز] نزدیک ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ بچوں کے لیے نئے کپڑے خرید لوں۔‘‘
میں نے دیکھا کہ اچانک اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ ہو نٹ سفید ہو گئے۔ کہنے لگا: ’’کیا! عید کے کپڑے؟!‘‘
میں اس سے زیادہ حیران ہو گئی: ’’میں نے کوئی بری بات کہہ دی!‘‘
اس نے کہا: ’’یعنی میں بچوں کا ہاتھ پکڑ کر نئے کپڑے خریدنے جاؤں! اس وقت میں شہداء کے بچوں کو کیا جواب دوں گا۔ یعنی مجھے شہداء کے بچوں سے شرم نہیں آئے گی؟!‘‘
میں نے کہا: ’’تو شہداء کے بچے سڑک پر کھڑے ہو کر ہمیں دیکھ تھوڑا ہی رہے ہیں! اگر دیکھ بھی لیں تو انہیں کیا معلوم کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔‘‘
وہ کمرے کے درمیان میں بیٹھ گیا: ’’ہائے ظلم، ہائے ظلم۔ تم وہاں نہیں ہوتیں کہ دیکھ سکو کہ ہر روز کتنے گلدستے ہمارے آنکھوں کے سامنے بکھر جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ بیوی بچوں والے ہوتے ہیں۔ اس شبِ عید پر کون ان کے لیے نئے کپڑے خریدے گا؟‘‘
میں اس کے سامنے بیٹھ گئی اور ناراض ہو کر کہنے لگی: ’’میں نے غلط کیا۔ میرے بچوں کو عید کے کپڑے نہیں چاہییں۔‘‘
اس نے پوچھا: ’’ناراض ہو گئی ہو؟!‘‘
میں نے کہا: ’’بہت زیادہ! تم تو ہوتے نہیں ہو کہ میری حالت دیکھ سکو۔ تم کب میرے اور بچوں کے پاس رہے ہو؟! خدا کی قسم، ہماری حالت بھی شہداء کے بچوں سے کم نہیں ہے۔‘‘
وہ غصے میں ہو گیا۔ کہنے لگا: ’’ایسی باتیں نہ کرو۔ ہم جو کام بھی کرتے ہیں وہ ہمارا وظیفہ ہے۔ ذمہ داری ہے، جسے ہمیں بغیر کسی پر احسان دھرے انجام دینا ہے۔ ہم آج سے لے کر جب تک جنگ ہے کوئی عید نہیں کریں گے۔ ہم شہداء کے خاندانوں کے درد و غم میں شریک ہیں۔‘‘
میں دوسرے کمرے میں چلی گئی اور غصے سے کہا: ’’میں نے کہا نا ٹھیک ہے۔ میں معذرت چاہتی ہوں۔ میں نے غلط کیا۔‘‘
وہ اٹھا اور کمرے میں تھوڑا چلنے کے بعد دروازہ بند کر کے چلا گیا۔
سہ پہر تک میں پریشان رہی اور ایک کونے میں منہ بنائے بیٹھی رہی۔ نہ بچوں کو اٹھانے کا دل کر رہا تھا اور نہ ہی اتنی ہمت ہو رہی تھی کہ اٹھ کر کوئی کام کر لوں۔ میرا دل بھر آیا تھا۔ نہ میں رونا چاہ رہی تھی اور نہ ہی ضبط ہو رہا تھا۔
اندھیرا چھا چکا تھا۔ صمد ابھی تک واپس نہ آیا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا: ’’دیکھا نا، صمد بغیر خدا حافظ کہے چھوڑ کر چلا گیا۔‘‘ ایک طرف تو مجھے اس پر غصہ تھا اور دوسری طرف دل اس کے لیے اداس ہو رہا تھا۔ میں نے خود ہی پاگل پنا کیا تھا۔ ڈر رہی تھی کہ کہیں وہ ناراض ہو کر چلا ہی نہ گیا ہو۔
اب اس کےآنے کی امید چھوڑ بیٹھی تھی۔ اٹھی اور بتیاں روشن کر دیں۔نماز کے لیے وضو کیا۔ اسی وقت میرا دل ٹوٹ گیا اور میں نے کہا: ’’خدایا، میں نے غلط کیا۔ مجھے معاف کر دے! یہ میں نے کیا کر دیا۔ میرے صمد کو واپس لے آ۔‘‘
میرے دل میں طوفان بپا تھا۔ اچانک ایک آواز آئی۔ بچوں کے چیخنے اور ہنسنے کی آواز بلند ہوئی تھی۔ میں سمجھ گئی کہ میرا صمد آ گیا ہے۔ میں جانماز پر بیٹھی ہوئی تھی۔ صمد مجھے آواز دے رہا تھا: ’’قدم! قدم جان! قدم بیگم، کہاں ہو؟!‘‘
میرا دل پریشان ہو گیا۔ میں کمرے میں آ گئی۔ دیکھا تو اس نے پشتی کے پاس دو بڑے بیگ رکھے ہوئے تھے اور بچوں کو اٹھا رکھا تھا۔ میں نے آہستہ سے سلام کیا۔
ہنس کر کہنے لگا: ’’سلام میری بیگم۔ قدم بیگم، کیسی ہو؟!‘‘
میں ضبط کر کے کھڑی رہی اور بے اعتنائی سے سلام کا جواب دیا۔
لیکن اندر ہی اندر میں گُھلی جا رہی تھی۔ اس نے کہا: ’’دیکھو، تمہارے لیے کیا خرید کر لایا ہوں۔ اللہ کرے تمہیں پسند آ جائے۔‘‘ اس نے پشتی کے پاس پڑے دو بیگوں کے طرف اشارہ کیا۔
میں باورچی خانے میں چلی گئی اور اپنے آپ کو کھانا پکانے میں مصروف کر دیا لیکن میرے سارے حواس اسی کی طرف لگے ہوئے تھے۔ اس نے بچوں کے لیے کپڑے خریدے تھے اور انہیں پہنا رہا تھا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ بچے نئے کپڑے پہنے باورچی خانے میں آ گئے ہیں۔ میں ڈر گئی کہ کہیں ان کے کپڑے گندے نہ ہو جائیں۔ انہیں اٹھایا اور کمرے میں لے آئی۔
وہ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا: ’’ایک چائے کی پیالی نہیں دو گی؟ اچھا کم سے کم یہ تو دیکھ لو کہ تمہارے لیے جو کپڑے خرید کر لایا ہوں وہ تمہیں پسند بھی ہیں یا نہیں؟!‘‘
اس نے دیکھا کہ میں ابھی تک ناراض ہوں تو ہنس کر کہنے لگا: ’’صمد کی جان، ہنسو۔‘‘
میری ہنسی نکل گئی۔ وہ کہنے لگا: ’’اب تم ہنس پڑی ہو تو وہ بیگ تمہارا ہوا۔ قدم کی جان کی قسم، اگر تم اسی طرح ناراض رہو گی تو میں ابھی اٹھ کر چلا جاتا ہوں۔ کچھ سپاہی آج محاذ پر جا رہے ہیں۔‘‘
میں نے دیکھا کہ معاملہ سنجیدہ ہو چکا ہے اور اتنا جلدی حل ہونے والا نہیں ہے تو بیگ اٹھایا اور دوسرے کمرے میں لے جا کر اس میں سے کپڑے نکال کر پہن لیے۔ اس کا انتخاب ہمیشہ کی طرح اعلیٰ تھا۔ اس نے میرے لیے کُرتی اور کڑھائی والی قمیض خریدی تھی جس کا ان دنوں تازہ تازہ رواج چلا تھا۔ میں آئینے میں اپنے آپ کو دیکھ رہی تھی کہ اچانک وہ بھی کمرے میں آ گیا: ’’واہ، واہ، قدم! اپنی جان کی قسم، تم تو چاند لگ رہی ہو۔ یہ کپڑے تم پر بہت جچ رہے ہیں۔‘‘
میں شرما گئی: ’’بہت شکریہ۔ اب باہر جاؤ گے، میں کپڑے بدل لوں؟!‘‘
اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا: ’’کیا! تمہیں کپڑے بدلنا ہیں! ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہی کپڑے گھر میں پہنے رکھو۔ کیا میں نے نہیں کہا کہ ہم لوگ عید نہیں کریں گے لیکن جب بھی ہم ایک دوسرے کے پاس ہوں اور تم ہنس رہی ہو تو یہی عید ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’لیکن یہ لباس تو باہر کسی دعوت پر پہن کر جانے والا ہے۔‘‘
وہ ہنس کر کہنے لگا: ’’میں بھی تمہارا مہمان ہوں۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم یہ لباس میرے لیے پہنو؟!‘‘
میں ہار مان گئی۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا: ’’بیٹھو۔‘‘
بچے کمرے میں آ گئے تھے اور مجھے اور میرے نئے کپڑوں کو دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔ صمد نے اسی طرح میرا ہاتھ تھامے ہوئے کہا: ’’ظہر کے وقت جو کچھ ہوا اس کے لیے معذرت چاہتا ہوں۔ میرا قصور تھا۔ مجھے معاف کر دو۔ اگر مجھے غصہ آ گیا تو یہ میرے اختیار میں نہ تھا۔ میں جانتا ہوں کہ میں بہت غصے میں آ گیا تھا، لیکن مجھے معاف کر دو۔ تم خود جانتی ہو کہ تم ساری دنیا سے زیادہ مجھے عزیز ہو۔ آج تک اس دنیا میں تم سے زیادہ میں نے کسی سے محبت نہیں کی۔ بعض اوقات تو میں سوچتا ہوں کہ خدا نہ کرے میری یہ محبتیں مجھے خدا سے دور کر دیں۔ لیکن جب میں اچھی طرح غور کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ تم سے محبت کر کے میں خدا سے زیادہ نزدیک ہو جاتا ہوں۔ روزانہ لاکھ مرتبہ خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ تم میری قسمت میں آئی ہو۔ کیا کروں کہ جنگ چھڑ گئی ورنہ میں نے بھی زندگی کے لیے بہت کچھ سوچ رکھا تھا۔ اگر تم جان لو کہ محاذ پر کیا قیامت بپا ہے، اگر تمہیں معلوم ہو جائے کہ صدام ہماری عورتوں اور بچوں پر کیا مصیبت لایا ہے، اگر تم ہوتیں اور یہ سارے رنج و غم اور قتل و غارت دیکھتیں تو مجھے صحیح سمجھتیں۔ قدم جان! مجھ سے ناراض نہ ہو۔ مجھے سمجھنے کی کوشش کرو۔ خدا کی قسم، بہت مشکل ہے۔ اس بات کو قبول کر لو کہ اب ہماری کوئی عید نہیں ہے۔ ذرا اٹھو اور کاشانی روڈ([5]) پر جا کر دیکھو کہ جنگ کے مارے یہ لوگ کتنی مشکلات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیا ان کے گھر اور زندگی نہیں تھی؟! ان کا بھی تو دل چاہتا ہے کہ وہ اپنے شہروں میں اپنے گھروں کو واپس جائیں اور اچھی زندگی گزاریں۔‘‘
میری آنکھیں کھل گئیں۔ میں نے کہا: ’’تم سچ کہتے ہو۔ حق تمہارے ساتھ ہے۔ میں معافی چاہتی ہوں۔‘‘
اس نے سکھ کا سانس لیا اور کہا: ’’خدایا تیرا شکر کہ یہ مسئلہ ہم دونوں کے لیے واضح ہو گیا۔ لیکن ایک اور بات جو کافی دنوں سے میں تمہیں کہنا چاہ رہا تھا، وہ میرے بارے میں ہے۔ حقیقت یہ ہےکہ اب جنگ ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ میں ہر بار آتا ہوں اور تمہیں کہتا ہوں کہ یہ آخری بار ہےکہ میں تم سے اور بچوں سے مل رہا ہوں۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ شاید دوبارہ نہ آ سکوں۔ میں نے اپنے دوستوں سے کہہ دیا ہے کہ میری تنخواہ تمہیں دے دیا کریں۔ شمس اللہ، تیمور اور ستار کو بھی دوسری ہدایات کر دی ہیں تا کہ تمہیں زیادہ پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘‘
میں رونے لگی: ’’صمد، بس کرو۔ یہ تم کیسی باتیں کر رہے ہو۔ میں نہیں سننا چاہتی۔ اب بس بھی کرو۔‘‘
اس نے شہادت کی انگلی سے میری آنسو پونچھے اور کہا: ’’روؤ مت۔ بچے پریشان ہو جائیں گے۔ یہ باتیں حقیقت ہیں۔ تمہیں ابھی سے مشق کرنی چاہیے تا کہ جب موقع آئے تو تم برداشت کر سکو۔‘‘ تھوڑی دیر ٹھہر کروہ دوبارہ گویا ہوا: ’’اس بار جب میں جاؤں تو تم زیادہ خوش نہ ہونا کہ اتنی جلدی واپس آ جاؤں گا۔ شاید تین چار ماہ لگ جائیں۔ بچوں کا خیال رکھنا اور صبر کرنا۔‘‘
اور میں نے صبر کر لیا۔ صمد چند دن بعد چلا گیا اور پھر تین چار ماہ بعد واپس آیا۔ ایک ہفتہ ٹھہرا اور پھر چلا گیا۔ کبھی وہ ٹیلی فون کرتا اور کبھی چھٹی پر آنے والے اپنے کسی دوست سے کہہ دیتا کہ ہماری خیر خیریت دریافت کرتا آئے۔ اس کے بھائی، شمس اللہ، تیمور اور ستار بھی کبھی کبھی آ جاتے اور ہماری خبرگیری کرتے رہتے۔
میرے بابا میرے لیے ہمیشہ بے چین رہتے۔ کبھی اکیلے میرے پاس آ جاتے اور کبھی شینا کے ساتھ۔ کچھ دن رہتے اور پھر چلے جاتے۔ بعض اوقات ہم بھی قایش چلے جاتے۔ لیکن میں جب وہاں ہوتی تو دل گھر کے لیے اداس ہو جاتا۔ سوچتی رہتی کہ ابھی صمد ہمدان آ گیا ہو گا۔ میں بے چین رہتی اور پر کٹے مرغ کی طرح ادھر ادھر پھرتی رہتی، یہاں تک کہ ہمدان واپس آ جاتی۔ گھر سے ہمیشہ صمد کی خوشبو آتی۔ اس کے کپڑے، جوتے اور جانماز ہمیشہ میرے دل کو سکون بخشتے۔
میں اس زندگی کی عادی ہو گئی تھی۔ میری ساری کی ساری خوشی یہی تھی کہ وہ ہے اور سالم ہے۔ یہی میرے لیے کافی تھا۔
جنگ نے شہروں کا رُخ کر لیا تھا۔ بعض اوقات تو ایک ہی دن میں کئی کئی بار ریڈ الرٹ ہو جاتا۔ عراقی جہاز شہر کے آسمان پر ابھرتے اور رہائشی علاقوں پر بمباری کرتے۔ ان حالات میں بھی ہماری زندگی گزر رہی تھی اور اسی طرح جنگ کے دو سال گزر گئے۔
1983 میں، میں تیسری بار امید سے ہو گئی۔ میں پریشان تھی۔ سوچتی تھی کہ ان حالات میں کیسے بچے کو جنم دوں گی اور اسے پالوں پوسوں گی۔میں پریشان تھی جبکہ صمد خوش۔ وہ ہر چھوٹی سے چھوٹی فرصت سے استفادہ کرتا کہ ہمدان آئے اور ہماری خبرگیری کرتا رہے۔ اسے میری فکر کھائے جا رہی تھی۔ سب رشتہ داروں کو اس نے میرے بارے میں ہدایت کر چھوڑی تھی: ’’جب میں نہ ہوں تو قدم کا بہت زیادہ خیال رکھنا۔‘‘
جب وہ واپس جاتا تو کہتا: ’’قدم! تم نے میرے ساتھ کیا کر دیا ہے۔ ایک لمحے کے لیے بھی تمہاری یادمیرے دل سے نہیں نکلتی۔ تم ہر وقت میرے ساتھ ہوتی ہو۔‘‘
لیکن ان سب باتوں کے باوجود وہ بھی جانتا تھا اور میں بھی کہ وہ جنگ ہی کو ترجیح دیتا ہے۔ جب ہمدان پر بمباری ہو رہی تھی تو سب لوگ ہمارے لیے پریشان تھے۔ اس کے بھائی آتے اور ہر ماہ مجھے قایش لے جاتے۔ کبھی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آتے اور چند روز ہمارے پاس ٹھہرتے اور جب حالات تھوڑے معمول پر آ جاتے تو چلے جاتے۔
تیسرے بچے کے وجود نے صمد کے اندر زندگی کی امید کو جلا بخش دی تھی۔ اب اسے اپنا گھر خریدنے کی فکر ہونے لگی۔ اس نے مختلف جگہوں سے قرض لے کر گھر کے لیے رجسٹریشن کروا دی۔ ایک روز میں نے دیکھا کہ وہ خوشی خوشی آیا اور آتے ہی کہنے لگا: ’’اب تمہاری اور بچوں کی طرف سے میری پریشانی ختم ہوئی۔ میں نےتمہارے لیے گھر خریدلیا ہے۔ اب کرائے پر رہنے کے جھنجھٹ سے بھی جان چھوٹی۔ گرمیوں میں ہم اپنے گھر میں چلے جائیں گے۔‘‘
میرا نواں مہینہ تھا۔ صمد دس دنوں کے لیے آیا اور گھر میں رہا لیکن ایسا لگتا تھا کہ بچہ ابھی دنیا میں نہیں آنا چاہتا۔ ہم ڈاکٹر کے پاس گئے تو ڈاکٹر نے کہا کہ اگلے ایک ہفتے تک بچے کی پیدائش نہیں ہو گی۔ صمد ہمیں قایش لے گیا اور کہا: ’’میں محاذ پر جا رہا ہوں۔ تین چار روز میں واپس آ جاؤں گا۔‘‘
جیسے ہی صمد ہمیں خدا حافظ کہہ کر گاڑی پر سوار ہوا اور چلا گیا تو مجھے درد نے جکڑ لیا۔
میں یقین نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔ صمد نے وعدہ کیا تھا کہ اس بار وہ بچے کی پیدائش کے وقت میرے پاس ہی رہے گا۔ مجھے اس کے واپس آنے تک صبر کرنا چاہیے تھا، لیکن بچہ ان باتوں کو بھلا کہاں سمجھ سکتا تھا۔ اسے دنیا میں آنے کی جلدی تھی۔ میں درد سے دوہری ہوئی جا رہی تھی لیکن کسی سے کچھ کہہ نہ کہا۔ شینا جلدی سمجھ گئیں، کہنے لگیں: ’’ابھی کسی کو دائی کی طرف بھیجتی ہوں۔‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں، ابھی جلدی ہے۔‘‘ وہ ناراض ہو کر کہنے لگیں: ’’اگر مجھے معلوم نہ ہو سکے کہ اس کا وقت کب ہونا ہے تو میرا کیا فائدہ؟!‘‘
وہ گئیں اور میرے لیے بستر بچھا دیا۔ دیگچے میں پانی بھرا اور اسے صحن کے ایک کونے میں رکھے چولہے پر چڑھا دیا۔ اس کے بعد کمرے میں آئیں اور سفید کپڑے کے ٹکڑے کاٹنے لگیں۔ وہ باتیں بھی کر رہی تھیں اور ساتھ ساتھ مجھے کنکھیوں سے دیکھ بھی رہی تھیں۔ خدیجہ اور معصومہ ایک کمرے میں کھیل رہی تھیں۔ شینا میرے اور بچوں کے صدقے واری ہوئی جا رہی تھیں۔ گھڑی گھڑی اٹھتیں اور میرے پاس آ کر اپنا ہاتھ میری پیشانی پر رکھ دیتیں۔ میرے سر پر بوسہ دیتیں اور مختلف قسم کے قہوے مجھے پینے کے لیے دیتی جاتی تھیں۔
اچانک میری حالت بگڑ گئی۔ اب اور برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ درد سے میری چیخ نکل گئی۔ شینا نے کپڑے کے کٹے ہوئے ٹکڑے زمین پر رکھے اور میری بہنوں اور بھابھیوں کی طرف بھاگیں۔ تھوڑی دیر بعد گھر میری مدد کے لیے آنے والوں سے بھر گیا۔ دائی دیر سے آئی۔ شینا میرے اردگرد گھوم رہی تھیں۔ قہوہ میرے حلق میں ڈال کر کہتی تھیں: ’’ڈرو مت، اگر دائی نہ آئی تو میں ہوں نا۔‘‘ دائی ظہر کے بعد آئی اور آدھے گھنٹے بعد بچے کی ولادت ہو گئی۔
شینا نے خوشی خوشی بچے کو گود میں اٹھایا اور کہنے لگیں: ’’قدم جان! بیٹا ہے۔ مبارک ہو۔ دیکھو کیسا موٹا تازہ اور سفید بچہ ہے۔ کتنا پیارا ہے۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے کسی کو میری ساس کی طرف بھیج دیا تا کہ ان سے انعام لے سکیں۔ بچے کے رونے کی آواز بلند ہوئی تو میں نے سکھ کا سانس لیا۔ گھر بھرا ہوا تھا مگر جسم کی کمزوری اور خوشی کا خمار ایسا مجھ پر طاری ہو گیا تھا کہ مجھےکوئی شور سنائی نہیں دے رہا تھا۔
اگلے روز صبح بابا چلے گئے تا کہ کسی طرح صمد کو ڈھونڈ کر لا سکیں۔ سہ پہر کو وہ واپس آئے مگر صمد ان کے ساتھ نہ تھا۔ انہیں صمد کا ایک ساتھی مل گیا تھا جسے انہوں نے پیغام دے دیا تھا کہ جیسے بھی ہو صمد کو ڈھونڈ کر اسے بچے کی ولادت کی اطلاع دے دیں۔ اسی لمحے سے میں اس کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔ میں سوچ رہی تھی کہ جو بھی ہو وہ کل حتماً پہنچ جائے گا۔
جب اگلے چند روز تک بھی صمد نہ آیا تو اب طعنوں مِعنوں کا سلسلہ شروع ہو گیا: ’’قدم کا بچہ! بیٹا ہوا ہے!‘‘
’’عجب لا پرواہ شوہر ہے۔‘‘
’’بے چاری قدم، اب ان تین بچوں کے ساتھ کیسے اپنے گھر کو واپس جائے گی اور کیسے زندگی گزارے گی۔‘‘
’’ایسے بھی شوہر ہوتے ہیں بھلا!‘‘
شینا بھی یہ باتیں سن رہی تھیں اور میرے ساتھ پہلے سے زیادہ محبت کا اظہار کر رہی تھیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ کہہ رہی تھیں: ’’اگر آغا صمد خود آ جاتے ہیں تو ٹھیک ورنہ میں خود ہی اپنے نواسے کے لیے ہفتم([6]) کی تقریب کروں گی اور مہمانوں کی دعوت کا اہتمام کروں گی۔‘‘
میں نے دروازے پر اپنی نظریں گاڑ کر اتنا انتظار کیا تھا کہ حوصلہ جواب دینے لگا تھا۔ جب بھی کوئی بات کرتا تو میں غمگین ہو جاتی اور رونے لگتی۔ ہفتم بھی گزر گیا مگر صمدنہ آیا۔نواں دن تھا کہ ماں نے کہا: ’’میں اب صبر نہیں کر سکتی۔ میں جاتی ہوں اور مہمانوں کو دعوت دیتی ہوں۔ اگر تمہارا شوہر آ گیا تو بہت اچھا!‘‘
دسویں دن صبح کے وقت شینا اٹھیں اور میری بہنوں اور بھابھیوں کو ساتھ لے کر کچھ چیزیں پکانے اور دن کے کھانے کا اہتمام کرنے لگیں۔ ظہر کے نزدیک کا وقت تھا کہ گلی سے کوئی بچہ پکارا: ’’آغا صمد آ گئے۔‘‘ میں بچے کو دودھ پلا رہی تھی۔ اسے زمین پر رکھا اور کمر میں چادر باندھ کر سر پر کچھ اوڑھا۔ اونچی اونچی سیڑھیوں سے بمشکل نیچے اتری۔ صحن بھرا ہوا تھا۔ میری بہن آگے بڑھی اور کہا: ’’لڑکی، اس طرح باہر کیوں نکل آئی ہو؟ تم زچہ ہو۔‘‘
اس کے بعد اس نے اپنی چادر اتاری اور میرے سر پر اوڑھا دی۔ میں ٹھیک سے چل نہیں سکتی تھی۔ آہستہ آہستہ اپنے آپ کو گھسیٹ کر گلی میں لائی۔ گلی کی نکڑ سے ایک مرد آ رہا تھا، جس نے فوجی لباس پہن رکھا تھا اور اس کے کندھے پر ایک بیگ تھا۔ اس کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور وہ گرد سے اٹا ہوا۔ لیکن وہ صمد نہ تھا۔ پھر بھی میں گلی کے درمیان تک چلی گئی۔وہ صمد کا ایک دوست تھا۔ میں نے شرمندگی سے سلام و احوال پرسی کی اورصمد کا حال پوچھا۔ اس نے کہا: ’’وہ خیریت سے ہے۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ وہ اتنا جلدی واپس آئے۔ آپریشنز ہو رہے ہیں۔ میں بھی اپنی پھوپھی کی خیریت دریافت کرنے آیا ہوں۔ مجھے اطلاع دی گئی تھی کہ ان کی حالت بہت خراب ہے۔ کل واپس چلا جاؤں گا۔‘‘
ایسا لگتا تھا کہ کسی نے میرے سر پر ٹھندا یخ پانی ڈال دیا ہے۔ میرا بدن لرزنا شروع ہو گیا۔ ہاتھ پاؤں بے جان ہو گئے۔ میں نے دیوار کا سہارا لیا اور کھڑی ہو گئی یہاں تک کہ وہ مرد چلا گیا۔ شینا اور میری بہنیں بھی گلی میں آ گئی تھیں تا کہ صمد سے انعام لے سکیں۔ انہوں نے جب مجھے ایسی حالت میں دیکھا تو مجھے بازؤوں کے نیچے سے سہارا دے کر کمرے میں لے گئیں۔
میں بستر پر لیٹ گئی۔ میرا تمام بدن لرز رہا تھا۔ شینا نے میرے لیے شربت بنایا اور مجھے لحاف اوڑھا دیا۔ میں نے اپنا سر لحاف کے اندر کر لیا اور روہانسی ہو گئی۔ میں سونے کی کوشش کرنے لگی۔ مجھے معلوم تھا کہ شینا ابھی تک میرے سرہانے بیٹھی ہوئی ہیں اور میرے لیے رو رہی ہیں۔ میں رونا نہیں چاہتی تھی۔ اس دن میرے بیٹے کی دعوت کی تقریب تھی۔ مجھے یہ تقریب خراب نہیں کرنا تھی۔
ظہر کے وقت مہمان ایک ایک کر کے آنا شروع ہو گئے۔ عورتیں مہمان خانے میں بیٹھ گئیں اور مرد دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ دن کے کھانے کے بعد میری بہن آئی اور میرے بچے کو میری گود سے اٹھا کر لے گئی تاکہ اس کا نام رکھا جائے۔ اس کا نام صمد کے دادا حاج آغا ابراہیم نے مہدی رکھا۔ انہوں نے خود ہی مہدی کے کانوں میں اذان و اقامت کہی۔ ظہر کے بعد مرد خداحافظ کہہ کر چلے گئے۔ اگرچہ جولائی اگست کے دن تھے اور فصلوں کی کٹائی اور کام کاج کا موسم تھا لیکن عورتیں پھر بھی سہ پہر تک بیٹھی رہیں۔میری بہنیں اور بھابھیاں صحن میں چلی گئیں اور برتن دھونے اور پھلوں کو بڑی بڑی ڈشوں میں سجانے لگیں۔ مہدی میرے پاس سویا ہوا تھا۔ عورتوں کی باتیں شروع ہو چکی تھیں۔ میری آنکھیں ابھی تک دروازے پر لگی ہوئی تھیں اور توقع تھی کہ ابھی دروازہ کھل جائے گا اور صمد اپنے بیٹے کی تقریب کے آخری لمحات میں پہنچ جائے گا۔
([2]) ایران میں مکان کرائے پر لینے کے لیے کرایہ دار اور مالک مکان کے درمیان ایک معاہدہ لکھا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ قرارداد ایک سال تک کے لیے ہوتی ہے۔ ایک سال کے بعد اگر کرایہ دار وہاں رہنا چاہے تو باہمی رضامندی سے قرارداد میں توسیع کر لی جاتی ہے ورنہ کرایہ دار کو وہ مکان چھوڑ کر کسی اور مکان میں جانا پڑتا ہے۔
([3]) صوتی دیوار ایک سائنسی اصطلاح ہے۔ انگریزی میں اسے Sound Barrier کہا جاتا ہے۔ صوتی دیوار وہ نقطہ ہے جسے عبور کرنے کے لیے ایک متحرک جسم کو آواز کی رفتار سے زیادہ حرکت کرنا پڑتی ہے۔ جب کوئی متحرک جسم اس نقطے کو عبور کرتا ہے تو ایک زوردار دھماکے کی آواز پیدا ہوتی ہے، جس سے آس پاس کئی کلومیٹر تک کے علاقے میں زلزلے جیسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور مکانوں کی کھڑکیاں اور دروازے لرزنے لگتے ہیں بلکہ بعض اوقات ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔ جنگی جہازوں میں یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے مگر عمومی حالات میں انہیں یہ صوتی دیوار عبور کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ فقط جنگ کے دوران ہنگامی صورتحال میں بعض اوقات اس کی اجازت ہوتی ہے۔
([4]) ایران میں شہداء کے قبرستان کو باغِ بہشت کہا جاتا ہے۔
([5]) ہمدان میں شہید کاشانی روڈ کے نام سے ایک سڑک ہے جس کے دونوں طرف ایرانی بینک ’’مسکن‘‘ کی طرف سے بہت سے فلیٹس بنائے گئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر فلیٹس جنوبی شہروں کے جنگ زدہ لوگوں کو رہنے کے لیے دے دیے گئے تھے۔ ابھی بھی بہت سے لوگ ان فلیٹس میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
([6]) ایران کے بعض علاقوں میں بچے کی ولادت کے ساتویں دن ایک تقریب رکھی جاتی ہے جس میں قریبی رشتہ داروں اور جاننے والوں کو دعوت دی جاتی ہے اور انہیں کھانا کھلایا جاتا ہے۔
پندرہواں باب
مہدی اب چالیس دن کا ایک موٹا تازہ بچہ بن چکا تھا۔ اس نے نیانیا ہنسنا سیکھ لیا تھا۔ خدیجہ اور معصومہ گھنٹوں اس کے پاس بیٹھی رہتیں۔ اس کے ساتھ کھیلتیں اور اس کے ہاتھ پاؤں ہلانے اور ہنسنے سے خوش ہوتی رہتیں۔ لیکن ہم سب کو صمد کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ جس جس سے بھی اس کا رابطہ ہونے کا امکان تھا، ان سب کو پیغام دے دیا تھا تا کہ اس کی خیر خیریت معلوم ہو جائے۔ سب فقط اتنا ہی بتاتے کہ صمد آپریشنز میں مشغول ہے۔
شینا جب میری حالت دیکھتیں تو رنجیدہ ہو کر کہتیں: ’’اس غم و رنج کی حالت میں بچے کو دودھ نہ پلاؤ۔ اس بے چارے معصوم کو بیمار کر دو گی۔‘‘
میرے بس میں نہ تھا۔ میرا دل غم سے بوجھل تھا۔ ہر لمحہ سوچتی رہتی کہ ابھی کوئی بری خبر لے کر نہ آ جائے۔
اس دن بھی میں کمرے میں بیٹھی مہدی کو دودھ دے رہی تھی اور عجیب و غریب سوچوں میں غلطاں تھی کہ اچانک دروازہ کھلا اور صمد کمرے میں داخل ہو گیا۔ میں چند لمحوں کے لیے مبہوت ہو کر اسے دیکھنے لگی۔ سوچ رہی تھی کہ شاید خواب دیکھ رہی ہوں لیکن واقعاً وہ صمد ہی تھا۔بچے خوشی سے دوڑے دوڑے اس کی طرف گئے اور اپنے آپ کو اس کی آغوش میں گرا دیا۔
صمد نے خدیجہ اور معصومہ کے چہروں اور سروں پر بوسے دیے اور انہیں گود میں اٹھا لیا۔ بچوں کو چومتے چومتے مجھے دیکھ رہا تھا اور جلدی جلدی احوال پرسی بھی کر رہا تھا۔ میں نہیں جانتی تھی کہ کیا کروں اور اس وقت اس کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کروں۔ اس سارے عرصے میں میں نے سوچ رکھا تھا کہ اگر وہ آ گیا تو اس کے ساتھ یہ بات کروں گی اور ایسا سلوک کروں گی۔ لیکن اس وقت میں اتنی خوش ہو گئی کہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کون سا رویہ سب سے بہتر ہے۔ تھوڑی دیر بعد میں سنبھل گئی اور رُکھائی سے اسے جواب دیا۔
وہ ہنس کر کہنے لگا: ’’تم پھر ناراض ہو!‘‘
میں خود بھی ہنسنے لگ گئی تھی۔ ہمیشہ اسی طرح ہوتا تھا۔ وہ مجھے بہلا لیتا تھا۔ میں نے کہا: ’’نہیں، کیوں ناراض ہوں گی، تمہارا بیٹا پیدا ہوا ہے۔ تمہاری بیوی نے خیریت سے بچہ جنم دے دیا ہے اور اپنے گھر میں آرام سے بیٹھی ہوئی ہے۔ اس کا شوہر ہفتم کے دن اچھے طریقے سے آ گیا تھا۔ بچے ہمارے گھر میں اپنے دسترخوان پر کھا پی کر بڑے ہو رہے ہیں۔ میں کیوں ناراض ہوں گی۔ کیا میں کوئی پاگل ہوں جو اس خوشبختی والی زندگی کا گلہ کروں۔‘‘
بچوں کو زمین پر رکھ کر کہنے لگا: ’’طعنے دے رہی ہو؟!‘‘
میں غصے میں تھی: ’’جب سے تم گئے ہو میں یہی سوچ رہی ہوں کہ یہ جنگ فقط تمہارے، میرے اور ان معصوم بچوں ہی کے لیے ہے۔ اس گاؤں میں اتنے مرد ہیں تو جنگ فقط میری زندگی ہی کو لے کر کیوں بیٹھ گئی ہے۔‘‘
وہ پریشان ہو گیا۔ اس کے چہرے پر شکنیں گہری ہو گئیں: ’’اس سارے عرصے میں تم غلط سوچتی رہی ہو۔ جنگ فقط تمہارے لیے نہیں ہے، جنگ دوسری عورتوں کے لیے بھی ہے۔ ان عورتوں کے لیے جن کے شوہر، گھر اور زندگی کو جنگ نے ایک ہی رات میں ان سے چھین لیا۔ اس ماں کے لیے بھی ہے کہ جس کا اکلوتا بیٹا جنگ میں شہید ہو چکا ہےا ور اب وہ محاذ پر جا کر دوسرے لوگوں کے بیٹوں کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔ ان مردوں کے لیے بھی جنگ ہے کہ جو اپنے سات سات آٹھ آٹھ بچوں کو بغیر کچھ خرچ اخراجات دیے چھوڑ کر محاذ پر آ گئے ہیں۔ ستر اسی سال کے بوڑھے کے لیے، ایک رات کے دولہے کے لیے اور چودہ سال کے جوان کےلیے بھی جنگ ہے۔ جب میں انہیں دیکھتا ہوں تو اپنے آپ کو کوستا ہوں کہ میں نے اس انقلاب میں اپنے ان لوگوں کے لیے کیا کیا ہے۔ کچھ بھی تو نہیں! وہ جنگ کرتے ہیں اور مارے جاتے ہیں تا کہ تم یہاں اپنے بچوں کے ساتھ آرام و سکون سے رہو اور اپنے بچوں کے پاس آسودہ ہو کر سو سکو۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو عراق بہت پہلے اس ملک کا ستیاناس کر چکا ہوتا۔ اگر یہ جوان نہ ہوتے تو تم اس قدر آرام و سکون سے اپنے بچے کو گود میں لے کر نہ بیٹھی ہوتیں اور اسے دودھ نہ دے رہی ہوتیں؟!‘‘
مہدی سو رہا تھا لیکن صمد کی آواز سے جاگ گیا اور رونے لگا۔ صمد نے اسے گود میں اٹھایا اور چوم کر کہنے لگا: ’’اگر میں دیر سے آیا ہوں تو بابا کی جان، مجھے معاف کر دو۔ مجھے کچھ آپریشنز پر جانا تھا۔‘‘
میری بہن کمرے میں آ کر کہنے لگی: ’’آغا صمد! لائیے انعام۔ اس دفعہ آپ کے بیٹا ہوا ہے۔‘‘
صمد نے ہنس کر کہا: ’’میں انعام دوں گا مگر اس لیے نہیں کہ میرے بیٹا ہوا ہے بلکہ اس لیے کہ الحمد للہ قدم اور بچہ دونوں صحیح و سلامت ہیں۔‘‘
اس کے بعد اس نے مہدی کو میرے حوالے کیا اور خدیجہ اور معصومہ کی طرف گیا۔ انہیں گود میں اٹھا کر کہنے لگا: ’’خدا کی قسم، میں سو بیٹوں کے بدلے میں بھی اپنی ان بیٹیوں کا ایک بال دینے کو تیار نہیں ہوں۔ فقط اس وجہ سے خوش ہوں کہ میرے بعد قدم اور میری بیٹیوں پر کسی مرد کا سایہ ہو گا۔‘‘
میں اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔ میری بہن نے ناراض ہو کر کہا: ’’آغا صمد! جگ جگ جئیں، خیر خیریت کی باتیں کیوں نہیں کرتے۔‘‘
صمد ہنس دیا: ’’اچھا یہ تو بتاؤ کہ میرے بیٹے کا نام کیا رکھا ہے؟!‘‘
معصومہ اور خدیجہ آ کر مہدی کے پاس بیٹھ گئیں اور اسے چوم کر توتلی زبان میں کہنے لگیں: ’’مہدی بھیا۔‘‘
ہم چار پانچ دن قایش میں رہے۔ وہ دن اچھے گزرے۔ ہمیشہ کی طرح اکٹھے دعوتوں پر جاتے تھے۔ دن کا کھانا اس بہن کے گھر اور رات کا کھانا اس بھائی کے ہاں۔ اگرچہ صمد کے آنے سے پہلے مہدی کی دعوت کی تقریب میں سب رشتہ داروں سے ملاقات ہو چکی تھی مگر صمد کے ساتھ جانے کی اور ہی بات تھی۔ سب پہلے سے زیادہ میرے اور بچوں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتے۔ دعوتوں میں بہت زیادہ رسمی اہتمام ہوتا جس کا اندازہ چینی کے برتنوں اور سٹیل کی چمچوں سے لگایا جا سکتا تھا۔
پانچویں دن صمد کہنے لگا: ’’اپنا سامان جمع کرو۔ اپنے گھر چلیں۔‘‘ ہم ہمدان آ گئے۔ گھر سے گئے مجھے کچھ مہینے ہو چکے تھے۔ ہر جگہ گرد ہی گرد تھی۔ سہ پہر تک میں گرد صاف اور جھاڑ پونچھ کرتی رہی۔ رات کو صمد خوشی خوشی مسکراتا ہوا آیا۔ ایک چابی میرے ہاتھ میں دی اور کہنے لگا: ’’یہ ہمارے گھر کی چابی ہے۔‘‘
میں نے خوشی سے چابی کو بوسہ دیا۔ صمد مجھے دیکھ کر ہنس رہا تھا۔ کہنے لگا: ’’گھر آمادہ ہے۔ کل ہم سامان وہاں منتقل کر سکتے ہیں۔‘‘
اگلے دن ہم اپنے گھر گئے۔ تھوڑا سا سامان بھی ساتھ لے گئے۔ گھر خوبصورت تھا۔ دو سونے کے کمرےتھے، ایک ہال اور ایک باورچی خانہ۔ بیت الخلاء باہر بڑے دروازے کے پاس سیڑھیوں کے نزدیک تھا، لیکن حمام ہال میں تھا۔ خوشی سے میرے پاؤں ٹک نہیں رہے تھے۔ چھوٹا سا کارپٹ صحن میں بچھایا اور بچوں کو اس پر بٹھا دیا۔ جھاڑو اٹھایااور صفائی کرنے لگ گئی۔ گھر ابھی ابھی مستریوں اور مزدوروں کی ہاتھ سے تیار ہوا تھا اور کافی گندا تھا۔ ہم نے مل کر ظہر تک شیشے صاف کیے اور ہال، کمروں اور باورچی خانے کے فرش پر جھاڑو لگایا۔
سہ پہر کے وقت شمس اللہ اور اس کی بیگم آ گئے۔ صمد گیا اور اپنے چند دوستوں کی مدد سے جو تھوڑا بہت سامان ہمارے پاس تھا وہ لے آیا اور ہال میں لا کر رکھ دیا۔ آدھی رات تک ہم نے تمام سامان لگا دیا۔یہ گھر پچھلے گھروں کی نسبت کافی بڑا تھا۔ اب میں سوچ رہی تھی کہ اکلوتے قالین کو کہاں بچھائیں۔ صمد نے کہا: ’’پریشان نہ ہو۔ کل میں سارے گھر میں کارپٹ بچھا دوں گا۔‘‘
اگلے دن میں جلدی اٹھ گئی اور گھر کو صاف اور مرتب کرنے لگی۔ شمس اللہ کی بیوی بھی میری مدد کر رہی تھی۔ سہ پہر تک تمام کام ختم ہو چکا تھا اور ہر چیز اپنے جگہ پر رکھی جا چکی تھی۔
سہ پہر کے وقت میں نے سماور میں آگ جلا کر چائے کو دم دیا اور ایک ٹرے میں چائے رکھ کر صحن میں لے گئی۔ صمد صحن میں پانی اور جھاڑو لگا رہا تھا۔ ہم نے کیاری کے ساتھ ایک کارپٹ بچھا دیا تھا۔ بچے صحن میں کھیل رہے تھے۔ ہم بیٹھ کر باتیں کرنے اور چائے پینے لگے۔ تھوڑی دیر گزری تو صمد اٹھ کر گیا اور کمرے میں اپنے وردی پہن کر باہر آ گیا۔ کہنے لگا: ’’مجھے اب جانا ہے۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’کہاں؟!‘‘
کہا: ’’محاذ پر۔‘‘
میں نے پریشان ہو کر کہا: ’’اتنا جلدی؟‘‘ وہ ہنس کرکہنے لگا: ’’بیگم! اتنا اچھا وقت تو گزرا ہے ہمارا! ایک ہفتہ ہو گیا ہے مجھے آئے ہوئے۔ میں آیا تھا کہ ایک دو روز میں واپس چلا جاؤں گا۔ فقط اس گھر کے لیے رک گیا تھا۔ الحمد للہ اب گھر کی طرف سے میری پریشانی ختم ہوئی۔ اگر میں لوٹ کر نہ بھی آیا تو یہ چھت تو تمہارے سر پر ہے ہی۔‘‘
میں بات کو بدلنا چاہتی تھی۔ میں نے کہا: ’’کب واپس آؤ گے؟!‘‘
سر آسمان کی طرف کر کے کہنے لگا: ’’کب کا تو خدا ہی جانتا ہے۔ اگر خدا نے چاہا تو واپس آ جاؤں گا۔ اگر نہ بھی لوٹا تو تمہاری اور بچوں کی جان سلامت رہے۔‘‘
وہ بوٹوں کے تسمے باندھ رہا تھا۔ میں ہمیشہ کی طرح اس کے سرہانے کھڑی تھی۔ اس نے اپنی بھابھی کو آواز دیتے ہوئے کہا: ’’بھابھی! آپ بھی مجھے معاف کرنا۔ ان چند دنوں میں آپ نے ہمارے لیے کافی زحمت اٹھائی۔‘‘
میں گلی کے آخر تک اس کے ساتھ گئی۔ رات ہو گئی تھی۔ گلی تاریک اور سنسان تھی۔ جب وہ تھوڑا آ گے جا چکا تو پھر اندھیرے میں دکھائی نہ دیا۔
اسے گئے ہوئے ایک مہینہ ہو چکا تھا۔ میں نئے گھر اور مہدی کے ساتھ مشغول ہو گئی تھی۔ گلی میں مستری اور مزدور نئے گھروں کی تعمیر میں مصروف تھے اور نئے نئے ہمسائے آ رہے تھے۔ میں اس دن اپنے نئے ہمسایوں کے گھر مبارک باد دینے گئی ہوئی تھی جنہوں نے ابھی ابھی مکان لیا تھا۔ خدیجہ میرے پیچھے پیچھے آئی اور کہنے لگی: ’’ماں، چچا کا فون ہے۔ انہیں آپ سے کام ہے۔‘‘ میں نے مہدی کو اٹھایا اور نہیں معلوم کیسے انہیں خدا حافظ کہا اور اپنے ساتھ والے ہمسایوں کے گھر چلی گئی۔ اس گلی میں فقط ان کے گھر ٹیلی فون تھا۔ میرا دیور فون پر تھا: ’’میں اور صمد سہ پہر کو ہمدان آ رہے ہیں۔ میں چاہتا تھا کہ آپ کو خبر دے دوں۔‘‘ بہت عجیب بات تھی۔ صمد کبھی بھی اپنے آنے سے پہلے اطلاع نہیں دیتا تھا۔ میرے دل میں وسوسے اٹھنے لگے۔ گھر آئی تو کسی کام کو ہاتھ لگانے کا دل نہیں کر رہا تھا۔ اپنے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہتی: ’’اگر صمد کو کچھ ہوتا تو ستار حتماً مجھے بتاتا۔‘‘ پھر کہتی: ’’نہیں، حتماً کچھ ہوا ہے۔ ستار مجھے ذہنی طور پر تیار کرنا چاہتا ہے۔‘‘ سہ پہر تک میں بے چینی سے مرتی اور زندہ ہوتی رہی۔ زبردستی اٹھی اور چولہے پر کھانا چڑھا کر گھر کو مرتب کرنے لگی۔ آہستہ آہستہ اندھیرا پھیل رہا تھا۔ گھڑی گھڑی بچوں کو گلی میں بھیجتی کہ جا کر دیکھیں، بابا آئے ہیں یا نہیں۔ میں خود بھی دروازے کے پیچھے ہی بیٹھی تھی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد گلی میں جھانک لیتی تھی۔
جب میں نے دیکھا کہ ایسے نہیں ہو گا تو بچوں کو اٹھا کر دروازے کے سامنے بیٹھ گئی۔ اذانِ مغرب کی شیریں آواز شہر میں گونج رہی تھی۔ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔ خدا سے دعا کرنے لگی: ’’خدایا، تجھے اس مبارک وقت کا واسطہ میرے بچوں کو یتیم نہ کرنا۔ مہدی ابھی اپنے بابا کو صحیح طریقے سے پہچانتا بھی نہیں ہے۔ خدیجہ اور معصومہ تو بابا پر جان چھڑکتی ہیں۔ دیکھ توسہی، کتنی بے قراری سے اپنے بابا کے آنے کا انتظار کر رہی ہیں۔ خدایا! میں تجھ سے اپنے شوہر کو صحیح و سالم چاہتی ہوں۔‘‘
میں یہ کہتی جا رہی تھی اور آنسو بہاتی جا رہی تھی۔ اچانک میں نے دیکھا کہ تاریکی میں دو آدمی گلی کے اس سرے سے آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک نے دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھا ہوا تھا اور لنگڑا لنگڑا کر آ رہا تھا۔ جب وہ تھوڑا آگے پہنچے تو میں نے انہیں پہچان لیا۔ وہ ستار اور صمد تھے۔ میں نے کہا: ’’بچو، بابا آگئے۔‘‘ اور میں خوشی سے اپنے آنسو پونچھنے لگی۔
خدیجہ اور معصومہ شور مچاتی صمد کی طرف دوڑیں اور جا کر اس کے ساتھ لپٹ گئیں۔ بچوں کے ہنسنے اور ان کے بابا بابا کہنے کی آوازوں نے مجھے رُلا دیا۔ میں ان کی طرف بڑھی۔ صمد زخمی ہو گیا تھا۔ ستار نے ایسے ہی بتایا تھا۔ اس کے پاؤں پر گولی لگی تھی۔ چند روز قم کے ہسپتال میں داخل رہنے کے بعد آج ہی رخصت ملی تھی۔ میں گھر کے اندر دوڑی دوڑی گئی۔ مہدی کو پنگھوڑے میں رکھا اور صمد کے لیے بستر بچھا دیا۔ پھر واپس آ کر صمد کو اندر لانے میں مدد کی اور لا کر اسے بستر پر لٹا دیا۔ بچے ایک لمحے کے لیے بھی اسے نہیں چھوڑ رہے تھے۔ معصومہ ا س کے چہرے اور ہاتھوں پر بوسے دے رہی تھی اور خدیجہ اس کے زخمی پاؤں کو سہلا رہی تھی۔ ستار نے صمد کی دوائیں میرے حوالے کیں اور بتایا کہ کون سی دوا کس وقت دینی ہے۔ کچھ ٹیکے بھی تھے جو ایک ایک کر کے روزانہ لگوانا تھے۔ اس رات ستار ہمارے گھر ہی رہا اور صبح تک خود صمد کی دیکھ بھال کرتا رہا لیکن اگلی صبح وہ چلا گیا۔ لگ بھگ ظہر کا وقت تھا۔ میں کھانا پکا رہی تھی کہ صمد نے مجھے آواز دی۔ لگتا تھا اس کی حالت اچھی نہیں ہے۔ کہنے لگا: ’’قدم! میرے کندھے میں بری طرح درد ہو رہا ہے۔ ذرا دیکھو تو کیا ہوا ہے۔‘‘
میں نے اس کی قمیص اوپر کر کے دیکھا تو میرا دل جل کر کباب ہو گیا۔اس کی پشت ایک سکے کے برابر سیاہ اور نیلی ہو چکی تھی۔ مجھے یاد آیا کہ ممکن ہے یہ اسی دستی بم کے چھرے رہ گئے ہوں جو منافقوں کو پکڑتے وقت اسے لگے تھے۔
میں نے کہا: ’’دستی بم کے چھرے ہیں۔‘‘
اس نے کہا: ’’ایک بکسُوا گرم کر کے لے آؤ۔‘‘
میں نے کہا: ’’کیا کرنا چاہتے ہو۔ اسے ہاتھ مت لگاؤ۔ رہنے دو، ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔‘‘
اس نے کہا: ’’اس چھوٹے سے چھرے کے لیے ڈاکٹر کے پاس جاؤں؟! ابھی تک میں خود دس بیس چھرے تو اسی طرح نکال چکا ہوں۔ کچھ نہیں ہوتا۔ تم جاؤ بکسوا گرم کر کے لے آؤ۔‘‘
میں نے کہا: ’’تمہاری پیٹھ پر تو عفونت ہو گئی ہے۔‘‘
اس نے کہا: ’’قدم! خدا کا واسطہ جاؤ۔ مجھے بہت درد ہو رہا ہے۔‘‘
میں اٹھ کھڑی ہوئی اور جا کر ایک بکسوے کو گیس کے چولہے پر رکھ دیا تا کہ اچھی طرح سرخ ہو جائے۔
اس نے کہا: ’’اب اسے اس سیاہ نشان کے نیچے ایسے داخل کروکہ چھرے کو چھُو لے۔ جب تمہیں چھرا محسوس ہو تو بکسوے کو اس کے نیچے کر کے اسے باہر کی طرف کھینچ دو۔‘‘
میں نے بکسوے کو اس کی جلد کے نزدیک کیا مگر میرا دل نہ مانا۔ میں نے کہا: ’’لو، میں نہیں کر سکتی۔ تم خود ہی اسے باہر نکالو۔‘‘
اس نے غصے سے کہا: ’’میں درد سے تڑپ رہا ہوں اور تم سے برداشت نہیں ہو رہا؟! میری جان قدم! جلدی کرو۔ میں درد سے مرا جا رہا ہوں۔‘‘
میں نے دوبارہ بکسوے کو اس کی پشت پر نیلی جگہ کی نزدیک کیا۔ لیکن پھر مجھے ہمت نہ ہوئی۔ میں نے کہا: ’’میں نہیں کر سکتی۔ میرا دل نہیں مان رہا۔ صمد خدا کا واسطہ، خود ہی پکڑو اور ان دس بیس چھروں کی طرح اسے بھی نکال دو۔‘‘
میں صحن میں چلی گئی۔ بچے کھیل رہے تھے۔ کیاری کے کنارے بیٹھ کر خوبانی کے پودے کو دیکھنے لگی جو آہستہ آہستہ مضبوط ہوتا جا رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد کمرے میں آئی تو دیکھا کہ صمد ہال میں ایک ہاتھ میں آئینہ لیے دوسرے آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر بکسوے سے پشت کے اس زخم کو چھیل رہا ہے۔ اس کی ابروئیں سکڑی ہوئی تھیں اور ہونٹوں کو کاٹ رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اسے شدید درد ہو رہا ہے۔ اچانک اس نے چیخ ماری اور کہا: ’’شاید نکل آیا ہے۔ قدم! ذرا دیکھو۔‘‘
خون زخم سے بہہ رہا تھا۔ پیپ اور گندا خون زخم کے اردگرد پھیل گیا تھا۔ ایک چھوٹی سی سیاہ رنگ کی چیز باہر آ گئی تھی۔ میں نے صمد کے ہاتھ سے رومال لیا اور اسے اٹھا لیا: ’’یہ ہے۔‘‘
اس نے کہا: ’’یہی ہے۔ لعنتی!‘‘
میرا دل پارہ پارہ ہو گیا۔ میں نے پانی گرم کیا اور اس سے زخم کے اردگرد کا حصہ اچھی طرح دھونے لگی لیکن زخم کی دیکھنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور کبھی کبھار ایک آنکھ تھوڑی سی کھول کر دیکھ لیتی تاکہ زخم کے اطراف صاف کر سکوں۔ چھرے کی جگہ ایک سکے جتنا گڑھا پڑ چکا تھا جس سے خون آ رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ یہ ایسے نہیں ہونے والا۔ میں جا کر پائیوڈین لے آئی اور زخم کو دھو دیا۔ فقط اس وقت صمد کی چیخ نکلی اور اسے شدید درد اٹھا۔ میں نے زخم کو باندھ دیا۔ میرے ہاتھ لرز رہے تھے۔ اس نے میری طرف دیکھ کر کہا: ’’تمہارا رنگ کیوں اڑ گیا ہے؟!‘‘
میں نے اس کی قمیص نیچے کی۔ وہ ہنس کر کہنے لگا: ’’ہماری بیگم کو دیکھو۔ درد سے میں بلبلا رہا ہوں اور کمزوری اسے ہو رہی ہے۔‘‘
میں نے سونے میں اس کی مدد کی۔ وہ دائیں پہلو کے بل سو گیا۔ بچے کمرے میں آ گئے تھے اور شوروغل کرتے ہوئے کھیل رہے تھے۔ مہدی جاگ کر رونے لگ گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اسے بھوک لگی ہے۔ میں نے صمد کی طرف دیکھا۔ اسے اتنی جلدی نیند آ گئی تھی۔ وہ آرام و سکون اور آسودگی سے سو رہا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ پچھلے سو سال سے وہ سویا ہی نہیں ہے۔
صمد کا زخم ایسا تھا کہ اگلے دس روز تک وہ گھر سے باہر جانے کے قابل ہی نہ رہا تھا۔ اس کے بعد بھی کافی عرصے تک عصا کے سہارے اِدھر اُدھر جاتا تھا۔ سہ پہر کے وقت اس کے دوست اس کے پاس آ جاتے تھےاور پھر سارے مل کر شہداء کے خاندانوں کی احوال پرسی کے لیے چلے جاتے۔ بعض اوقات صمد مساجد اور سکولوں میں چلا جاتا اور لوگوں اور طلاب کے سامنے تقریر کرتا۔ محاذوں کے حالات انہیں بتاتا اور انہیں محاذ پر جانے کے لیے ابھارتا۔ سب سے پہلے اس نے اپنے خاندان سے شروع کیا تھا۔ چند ماہ ہو گئے تھے وہ اپنے بھائی ستار کو بھی اپنے ساتھ محاذ پر لے گیا تھا۔ وہ دونوں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ کافی عرصہ پہلے ستار کی شادی ہو چکی تھی مگر وہ محاذ سے پلٹنے پر کسی صورت تیار نہیں تھا۔
صمد کو زخمی ہوئے بیس روز گزر چکے تھے۔ ایک روز صبح میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی وردی پہنی اور بیگ اٹھا لیا۔ میں نے پوچھا: ’’کہاں؟!‘‘
اس نے کہا: ’’محاذ پر۔‘‘
تعجب سے میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر نے اس کے لیے کم سے کم تین ماہ کی استراحت لکھی تھی۔
میں نے کہا: ’’اس حالت میں؟!‘‘
ہنس کر کہنے لگا: ’’مگر مجھے ہوا کیا ہے؟! شل ہو گیا ہوں یا معذور؟ آج تو میری حالت پہلے سے کہیں بہتر ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’تمہاری حالت کہاں اچھی ہوئی ہے!‘‘
وہ لنگڑاتا لنگڑاتا بچوں کے پاس گیا۔ تینوں سوئے ہوئے تھے۔ اس نے جھک کر ان تینوں کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ اٹھ کر دیوار سے لگا اپنا عصا اٹھایا اور کہا: ’’قدم جان! کوئی کام تو نہیں ہے نا؟!‘‘
میں اس سے پہلے دوڑ کر دروازے کی طرف گئی اور چوکھٹ میں اپنے بازو پھیلا کر کھڑی ہو گئی: ’’میں تمہیں نہیں جانے دوں گی۔‘‘
وہ آگے بڑھا اور بالکل میرے سامنے کھڑا ہو کر کہنے لگا: ’’یہ کیا حرکت ہے۔ شرم کرو۔‘‘
میں نے کہا: ’’میں شرم نہیں کروں گی۔ محال ہے کہ میں تمہیں جانے دوں۔‘‘
اس کی ابروئیں سکڑ گئیں: ’’کیوں ایسا کر رہی ہو۔ میرا خیال ہے کہ شیطان تمہارے وجود میں گھس چکا ہے۔ تم ایسی تو نہ تھیں۔‘‘
میں رونے لگی: ’’آج تک میں نے جو کچھ برداشت کیا فقط تمہاری وجہ سے تھا۔ یہ ساری مشکلات، اس شہر میں کسی اپنے عزیز رشتہ دار اور اس کی مدد کے بغیر ان تین چھوٹے بڑے بچوں کےساتھ زندگی گزارنا۔ سب کچھ فقط تمہاری وجہ سے سہتی رہی کیونکہ تم ایسا ہی چاہتے تھے۔ کیونکہ تمہیں ایسے ہی سکون ملتا تھا۔ جب بھی گئے، جب بھی آئے، میں نے کچھ نہیں کہا۔ لیکن آج تمہارے سامنے کھڑی ہوں۔ تمہیں نہیں جانے دوں گی۔ میں نے ہمیشہ اپنا اور بچوں کا حق معاف کیا مگر اس بار فقط تمہاری سلامتی کے لیے نہیں جانے دوں گی۔ تمہارا حق نہیں چھوڑوں گی۔ بچوں کا حق بھی نہیں چھوڑوں گی۔ میرے بچوں کو بابا چاہیے۔ میں تمہیں اجازت نہیں دوں گی کہ تم اپنی سلامتی اس طرح داؤ پر لگا دو۔ اگر تمہارے پاؤں میں عفونت پھیل گئی تو پھر ہم کیا کریں گے۔‘‘
اس نے نرمی سے کہا: ’’کچھ بھی نہیں، ہم کیا کریں گے؟! اسے کاٹ دیں گے اور دور پھینک دیں گے۔ امام کے سر پر قربان۔‘‘
اس کی بے اعتنائی سے مجھے غصہ آ گیا: ’’ْصمد!‘‘
’’میری جان۔‘‘
’’جاؤ، اپنی جگہ پر بیٹھو۔ جب بھی ڈاکٹر نے اجازت دی تو میں بھی اجازت دے دوں گی۔‘‘
اس نے اپنے عصا کا سہارا لیتے ہوئے کہا: ’’قدم جان! تم نے اتنے سال میری زوجیت میں گزارے۔ تم نے بہت بڑا کام کیا۔ میرے اور بچوں کے لیے بہت تکلیفیں کاٹیں۔ تمہارا بہت شکریہ۔ لیکن میرے آدھے راستے کی ہمسفر نہ بنو۔ اپنے اجر کو ضائع نہ کرو۔ دیکھو، میں نے پہلے دن جب امام کو دیکھا تھا تو قسم اٹھا لی تھی کہ خون کے آخری قطرے تک ان کا سپاہی بن کر رہوں گا اور جو کچھ وہ کہیں گے اس پر سرِ تسلیم خم کروں گا۔ تمہیں یاد ہےنا؟ اب امام نے جہاد کا فرمان دیا ہے اور کہا ہے کہ جہاد کرو اور اپنے دین و ملک کا دفاع کرو تو میں نے بھی کہہ دیا ہے کہ بسر و چشم۔ اب تم مجھے روسیاہ نہ ہونے دو۔‘‘
میں نے کہا: ’’ٹھیک ہے تم امام کی آواز پر لبیک کہو؛ لیکن جب تمہاری حالت ٹھیک ہو جائے تو۔‘‘
اس نے کہا: ’’قدم! خدا کی قسم، میری حالت بہتر ہے۔ تم نے نہیں دیکھا کہ جوان کس طرح کٹے ہوئے ہاتھوں اور کٹے ہوئے پاؤں کے ساتھ محاذ پر آتے ہیں۔ وہ اف بھی نہیں کرتے۔ مجھے تو کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’تم اپنے گھر والوں سے اصلاً محبت نہیں کرتے۔‘‘
اس نے اپنا سر موڑا۔ کچھ نہ کہا اور لنگڑاتا ہوا کمرے میں ایک جگہ جا کر بیٹھ گیا: ’’تم یہ کہنے کا حق رکھتی ہو کہ جو کچھ مجھے تمہارے لیے کرنا چاہیے تھا وہ میں نے نہیں کیا، مگر خدا کی قسم میں ہمیشہ تم سے محبت کرتا رہا ہوں اور کرتا ہوں۔‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں، تم مجھ سے زیادہ محاذ اور امام سے محبت کرتے ہو۔‘‘
وہ میری باتوں سے جھنجھلا گیا: ’’قدم! آج تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ کیوں میرے ساتھ الجھ رہی ہو؟!‘‘
اچانک میرے منہ سے نکل گیا: ’’کیونکہ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔‘‘
میرے منہ سے پہلی دفعہ یہ جملہ نکلا تھا۔
میں نے دیکھا کہ اس نے اپنا سر زانو پر رکھ لیا اور زار و قطار رونے لگا۔ خود میری حالت بھی خراب ہو چکی تھی۔ میں باورچی خانے میں چلی گئی اور ایک کونے میں بیٹھ کر زار زار رونے لگی۔ تھوڑی دیر بعد وہ لنگڑاتا ہوا میرے پاس آیا اور میرے کندھوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ کہنے لگا: ’’ایک عمر سے میں یہ جملہ سننے کو ترس رہا تھا قدم جان۔ لیکن اب کیوں؟! کاش آخری وقت تک بھی تم یہ جملہ نہ کہتیں۔ تم میرا دل لرزاتی اور مجھے تڑپاتی رہی ہو۔ میں بھی تم سےمحبت کرتا ہوں لیکن کیا کروں؟! ذمہ داری الگ چیز ہے۔‘‘
وہ تھوڑی دیر کے لیے رک گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ جانے اور نہ جانے میں متردد تھا۔ لیکن اچانک اس نے کہا: ’’میں نے تمہارے لیے دو تین ماہ کے پیسے طاقچے میں رکھ چھوڑے ہیں۔ غم نہ کھاؤ۔ بچوں کی دیکھ بھال کرو۔ مہدی کا خیال رکھو۔ وہ اس گھر کا مرد ہے۔‘‘
پھر کہا: ’’اگر تم واقعاً مجھ سے محبت کرتی ہو تو مجھے اتنا مجبور نہ کرو کہ میں جو وعدہ امام سے کر چکا ہوں، اسے توڑ دوں۔ میری مدد کرو تا کہ آخری لحظے تک میں اپنے وعدے کی پاسداری کر سکوں۔ اگر تم مجھ سے ذرا سی بھی محبت کرتی ہو تو وعدہ کرو کہ میری مدد کرو گی۔‘‘
میں نے وعدہ کر لیا اور کہا: ’’ٹھیک ہے۔‘‘
میں اس کے راستے سے ہٹ گئی اور وہ لنگڑاتے ہوئے پاؤں کے ساتھ چلا گیا۔میں نے اس سے وعدہ تو کر لیا تھا مگر اندر سے بری طرح ٹوٹ چکی تھی۔ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ ہمارے پاس ایک چھوٹا جیبی قرآن تھا۔ وہ میں نے اٹھایا اور گلی میں دوڑتی ہوئی گئی۔ قرآن اس کی قمیص کی جیب میں رکھا اور اسے بازو کے نیچے سے سہارا دے کر سڑک تک لے گئی۔ اس کے لیے گاڑی کی۔ جب وہ گاڑی پر سوار ہو گیا تو ایسا لگا کہ سڑک اور گلی میرے سر پر ٹوٹ پڑی ہوں۔ واپسی کا تمام راستہ میں روتی رہی۔
یہ پہلی بار تھی کہ صمد کے جانے کے ایک ہفتہ بعد تک بھی میری زندگی معمول پر نہ آئی تھی۔ ہاتھ اور دل کسی کام کو کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ میں ہمیشہ اپنے آپ سے کہتی: ’’قدم! تم نے اس کے ساتھ وعدہ تو کر لیا ہے ۔ اب اس سے زیادہ برے حالات کے لیے منتظر رہو۔‘‘
کمرے کے اس کونے سے اٹھتی اور دوسرے میں جا کر بیٹھ جاتی۔ سوچتی کہ ہفتہ پہلے صمد یہاں پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس وقت ہم اکٹھے دن کا کھانا کھا رہے تھے۔ اس وقت اس نے فلاں بات کی تھی۔ اس کے ساتھ گزرے ہوئے خوبصورت لمحات ایک پل کے لیے بھی مجھے تنہا نہیں ہونے دیتے تھے۔
گھر پر عجیب غم کی کیفیت طاری تھی۔ ایک لحظے کے لیے بھی رنج و غم میرا پیچھا چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔ انہی دنوں مجھے محسوس ہو گیا کہ میں پھر امید سے ہو گئی ہوں۔ اب ایک اور بڑا غم مجھ پر آن پڑا تھا۔ میں کیا کرتی۔ چار بچے اور میں فقط بائیس سال کی لڑکی۔ میں اس چھوٹی سی عمر میں چار بچوں کی ماں بن کر زندگی کا پہیہ کیسے گھما سکتی تھی۔ خدایا میں اپنا دکھ کسے سناؤں۔ اے خدا! کاش یہ کوئی ڈراؤنا خواب ہو اور میں جاگ جاؤں۔ کاش ڈاکٹر کے پاس جاؤں اور وہ ٹیسٹ لے کر کہے کہ میں حاملہ نہیں ہوں۔ لیکن یہ متلی، یہ خواب آلودگی، یہ تھکاوٹ کس لیے ہے۔ میں نے وہ دو تین مہینے برزخ میں گزارے۔ حاملہ ہونے اور نہ ہونے کا شک رہا۔ جب میرا پیٹ آگے کو نکل آیا تو اطمینان ہو گیا کہ اب معاملہ میرے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔
ان حالات میں شہروں میں ہونے والی جنگ بھی عروج پر پہنچ گئی۔ میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد مہدی کو گود میں اٹھاتی، خدیجہ اور معصومہ کو آواز دیتی اور ہم دروازے کے پاس سیڑھیوں کے نیچے جا چھپتے۔ میں سوچتی کہ اس اضطراب اور بے چینی والے ماحول میں کیا بچہ زندہ بچ جائے گا۔
اس دن بھی ریڈ الرٹ ہو گیا تھا۔ میں بچوں کو ساتھ لیے سیڑھیوں کے نیچے جا گھسی تھی۔ توپوں کی آواز اس قدر زیادہ تھی کہ مجھے لگ رہا تھا کہ جہاز ہمارے گھر کے اوپر پرواز کر رہے ہیں۔ مہدی ڈر گیا تھا اور آہستہ آہستہ رو رہا تھا۔ خدیجہ اور معصومہ نے جب دیکھا کہ مہدی رو رہا ہے تو وہ بھی رونے لگیں۔ میں نہیں جانتی تھی کہ بچوں کو کیسے خاموش کراؤں۔ تھوڑی دیر بعد میں خود بھی رونے لگی۔ بچوں سے باتیں کر رہی تھی، انہیں کہانیاں سنا رہی تھی تا کہ ان کا دھیان بٹ جائے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اسی وقت دروازہ کھلا اور صمد گھر میں داخل ہوا۔ بچے پہلے تو ڈر گئے۔ مہدی صمد سے اجنبیت برتتا تھا۔ وہ میرے ساتھ چپک گیا اور چیخنے لگا۔
صمد نے خدیجہ اور معصومہ کو گود میں اٹھایا اور انہیں بوسہ دیا، لیکن اس کے ہزار جتن کرنے کے باوجود بھی مہدی اس کے پاس نہ گیا۔ توپوں کی آواز ایک لمحے کے لیے بھی بند نہیں ہو رہی تھی۔ صمد نے کہا: ’’تم لوگ یہاں کیوں بیٹھے ہو؟!‘‘
میں نے کہا: ’’تم دیکھ نہیں رہے ہو، ریڈ الرٹ ہو گیا ہے۔‘‘
وہ ہنس کر کہنے لگا: ’’یعنی تم لوگوں نے یہاں پناہ لی ہوئی ہے۔ اتفاق سے یہ جگہ گھر کی خطرناک ترین جگہ ہے۔ تم لوگ صحن میں بیٹھو، وہ زیادہ پُر امن جگہ ہے۔‘‘
اس نے خدیجہ اور معصومہ کا ہاتھ پکڑا اور انہیں کمرے میں لےگیا۔ میں بھی مہدی کو اٹھائے ہوئے اس کے پیچھے چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد ریڈ الرٹ ختم ہو گیا۔ صمد نے نہا دھو کر کپڑے بدلے، چائے پی کر باہر نکل گیا اور ایک دو گھنٹے بعد اپنے ایک دوست کے ساتھ سیمنٹ کے کچھ تھیلے اور کچھ ٹی آئرنز لے کر واپس آ گیا۔
اسی روز اس نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر صحن میں ہمارے لیے ایک بنکر بنا دیا۔ جتنے دن وہ گھر میں رہا سارا وقت بنکر میں رہتا اور اسے مکمل کرتا رہتا۔
میں اس کے لیے چائے کی ایک پیالی لے جاتی اور بنکر کے دروازے پر رکھ دیتی۔ وہ کام کرتا رہتا اور میں اسے دیکھتی رہتی۔ ایک بار کہنے لگا: ’’قدم! وہ سال کتنا اچھا تھا جن گرمیوں میں ہم نے اپنا گھر بنایا تھا۔ کیا ہو جاتا اگر وہ وقت دوبارہ لوٹ آتا اور ہم قیامت تک اسی طرح ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے رہتے۔‘‘
میں نے کہا: ’’اور تم یہ بھول گئے کہ اسی سال گرمیوں کے بعد تم ہمیں اکیلا چھوڑ کر چلے گئے تھے۔‘‘
اس نے کہا: ’’مجھے یاد ہے۔ لیکن وہ گرمیاں کہ جن میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ تھے، بہت اچھی گزری تھیں۔ میرا خیال ہے کہ فقط وہی دن تھے جن میں ہم اکٹھے تھے۔‘‘
اس نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا: ’’جنگ ختم ہو جائے تو میں ایک گاڑی خریدوں گا اور تمہیں پوری دنیا کی سیر کراؤں گا۔ اکٹھے شہروں شہروں گھومیں گے۔‘‘
میں نے ہنس کر کہا: ’’ان سب بچوں کے ساتھ؟‘‘
اس نے کہا: ’’نہیں، فقط تم اور میں، دونوں۔‘‘
میں نے کہا: ’’بچوں کا کیا کریں گے۔‘‘
اس نے کہا: ’’اس وقت تک بچے بڑے ہو چکے ہوں گے۔ انہیں گھر پر شینا کے پاس چھوڑ جائیں گے۔‘‘ میں نے سر نیچے کر کے کہا: ’’بےچاری شینا۔ ایسا مت سوچو۔ ہم ان حالات میں اکٹھے کہیں نہیں جا سکتے اور پھر ایک اور مہمان راستے میں ہے۔‘‘
اس نے چائے کی پیالی ٹرے میں رکھی اور کہا: ’’کیا کہہ رہی ہو؟!‘‘
پھر میرے پیٹ کی طرف دیکھ کر پوچھا: ’’کب سے؟!‘‘
میں نے کہا: ’’تین ماہ ہو گئے ہیں۔‘‘
اس نے پوچھا: ’’تمہیں پورا یقین ہے؟!‘‘
میں نے کہا: ’’ستار کی بیوی کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس گئی تھی۔ وہ بھی امید سے ہے۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ تم دونوں کے ہاں ایک ہی دن ولادت ہو گی۔‘‘
میں جانتی تھی کہ اس بار وہ خود بھی خوش نہیں ہے مگر کہنے لگا: ’’میں خوش ہوں۔ خدا بہت بڑا ہے۔ خدا کے کاموں میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔ حتماً اس کی طرف سے کوئی مصلحت ہو گی۔‘‘
بالآخر بنکر تیار ہو گیا۔ ڈیڑھ میٹر لمبی اور ایک میٹر چوڑی ایک چھوٹی سی پناہ گاہ۔ خوش ہو کر کہنے لگا: ’’اپنی جان کی قسم، اب اگر اس کے اوپر بم بھی آ کر گرے تو اسے کچھ نہیں ہو گا۔‘‘
دو تین دن بعد وہ چلا گیا، لیکن جب میری حالت اس نے دیکھی تو وعدہ کر گیا کہ جلدی واپس آ جائے گا۔
اس بار اس نے اپنا وعدہ وفا کیا تھا کیونکہ بیس دن بعد ہی آ گیا تھا۔ وہ پہلے سے زیادہ محبت کرنے لگا تھا۔ جہاں بھی جاتا مہدی کو ساتھ لے جاتا۔ کہتا تھا: ’’میں جانتا ہوں کہ مہدی بہت شرارتی بچہ ہے اور تمہیں تنگ کرتا ہے۔‘‘ ایک روز حسب معمول اس نے مہدی کو گود میں اٹھایا اور اپنے ساتھ لے گیا لیکن ابھی نکلے ہی تھے کہ مہدی کے رونے کی آواز گلی سے آنے لگی۔ میں گھبرا کر گلی کی طرف دوڑی۔ مہدی صمد کی گود میں تھا اور رو رہا تھا۔ میں نے پوچھا: ’’کیا ہوا؟!‘‘
کہنے لگا: ’’دیکھو تو، تمہارا بیٹا کتنا شرارتی ہے۔ ڈیش بورڈ کھول کر کنسرو([1]) کھانا چاہتا ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’تو دے دو اسے، بچہ ہے۔‘‘
مہدی کو میرے حوالے کر کے کہنے لگا: ’’میں اس کا دشمن تو نہیں ہوں نا۔ تم اسے چپ کراؤ۔‘‘
میں نے کہا: ’’تم کنسرو اسے دے دو، یہ چپ ہو جائے گا۔‘‘
اس نے کہا: ’’یہ کنسرو محاذ پر مجھے دیا گیا ہے تا کہ میں کھاؤں اور جنگ کروں۔ اب جبکہ میں چھٹی پر ہوں تو اس کا کھانا جائز نہیں ہے۔‘‘
میں نے مہدی کو بوسہ دیا اور اسے چپ کرانے کی کوشش کرنے لگی۔ میں نے کہا: ’’یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ تم نے زندگی کو کتنا مشکل بنا رکھا ہے۔ جس طرح تم کہہ رہے ہو ایسا بھی نہیں ہے۔ کنسرو تمہارا حصہ ہے، چاہے وہاں کھاؤ چاہیے یہاں۔‘‘
اس نے کنسرو کو مہدی کی نظروں سے بچا کر ڈیش بورڈ سے نکالا اور گاڑی کی ڈگی میں رکھ گیا۔ کہنے لگا: ’’ہم شک والی نماز کیوں پڑھیں؟‘‘
میرے حمل کا آخری مہینہ تھا۔ صمد نے وعدہ کیا تھا کہ اس دفعہ ولادت کے وقت وہ میرے پاس ہی رہے گا؛ لیکن ابھی تک اس کی کوئی خبر نہ تھی۔دسمبر کا مہینہ تھا۔ برف باری بھی اچھی خاصی ہوئی تھی۔ میں صبح جلدی نیند سے اٹھ گئی اور بغیر کسی آواز سے کہ بچے جاگ نہ جائیں، ایک بڑی اور اونی شال اپنے پیٹ پر لپیٹی۔ صمد میرےلیے ایک بہت گرم سکارف خرید کر لایا تھا، وہ سر پر اوڑھاا ور اسے سر کے پیچھے گرہ لگا دی۔ صمد کا اوورکوٹ پہنا اور سر پر ایک ٹوپی پہن لی تا کہ دور سے میں ایک مرد دکھائی دوں اور کسی کو پتا نہ چلے کہ کوئی عورت برف ہٹا رہی ہے۔ میں صحن میں چلی گئی۔ برف میری توقع سے کہیں زیادہ بھاری اور سخت تھی۔ صحن کے کونے میں پڑی سیڑھی اٹھائی اور اسے چھت سے ٹکا دیا۔ سیڑھی کے پاؤں کے نیچے دو اینٹیں رکھ دیں۔ ایک ہاتھ سے پھاوڑے کو اٹھا کر دوسرے ہاتھ سے سیڑھی کو پکڑ لیا اور ایک ایک کر کے زینے چڑھنے لگی۔ دل ہی دل میں دعا کر رہی تھی کہ سیرھی پھسل نہ جائے ورنہ میرا اور بچوں کا کچھ نہیں رہے گا۔ بالآخر چھت پر پہنچ گئی۔ ابھی تک کوئی بھی برف صاف کرنے چھت پر نہ آیا تھا۔ میں خوش ہو گئی۔ مجھے کسی ہمسائے نے بھی اس حالت میں نہ دیکھا۔
برف ہٹانا میرے لیے کافی مشکل تھا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ کام بہت سخت ہے لیکن مجھے ہر حال میں وہ برف ہٹانا تھی۔ پھاوڑے کو چھت کی اس طرف سے دھکا لگاتی اور چھت کے دوسرے کنارے تک پہنچ جاتی اور اس طرح سے برف کو گلی میں پھینک دیتی۔
تھوڑی دیر گزری تو میرے پیٹ میں درد شروع ہو گیا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ آدھی چھت تو صاف کر دی اب اسے پورا ہی کر لوں۔ اگر برف چھت پر رہ جاتی تو چھت ٹپکنے لگ جاتی جو خود میرے لیے عذاب کا باعث بنتا۔ جب بھی پھاوڑے کو آگے کی طرف دھکیلتی تو چھت تھوڑی صاف ہو جاتی۔ کچھ دیر بعد ٹھہر جاتی اور یخ ہوئے ہاتھوں کو منہ کے آگے رکھ دیتی تاکہ گرم ہو جائیں۔منہ سے بھاپ اڑ کر اوپر کو اٹھ رہی تھی۔ اگرچہ میرا جسم گرم ہو چکا تھا مگر ناک کی نوک اور چہرے میں سردی سے درد ہونے لگا تھا۔ چھت صاف کر رہی تھی کہ اچانک میری کمر سے درد کی ٹیس اٹھی۔ کمر شدید گرم ہو گئی اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کوئی چیز میرے پیٹ میں بند کی طرح ٹوٹ کر رہ گئی ہے۔ اس کے بعد مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میں کیسے پھاوڑے کو برف کے اوپر ہی پھینک کر سیڑھیوں کے ذریعے نیچے اتری۔ میں بہت ڈر گئی تھی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ بچے کی ناف کا بند ٹوٹ گیا ہے اور ابھی کوئی برا حادثہ ہونے والا ہے۔ بچے ابھی تک سوئے ہوئے تھے۔ میری کمر میں شدید درد ہو رہا تھا۔ میں نے زیر لب کہا: ’’یا حضرت عباسؑ! آپ خود ہی میری مدد کیجیے۔‘‘ میں بستر پر چلی گئی اور انہی کپڑوں میں لیٹ کر لحاف کو گردن تک کھینچ لیا۔
ان لمحات میں میں نہیں جانتی تھی کہ کیا کروں۔ اٹھ کر ہسپتال چلی جاؤں یا ہمسایوں کے گھر چلی جاؤں۔ اتنی صبح صبح کس کا دروازہ کھٹکھٹاؤں۔ کمر کا درد زیادہ ہو گیا تھا اور میرے سارے پیٹ کر جکڑے ہوئے تھا۔ کاش خدیجہ بڑی ہوتی۔ کاش معصومہ میری مدد کر سکتی۔ میرے پاؤں بے جان ہونے لگے۔ انگوٹھے، پنڈلیاں، ٹانگیں ، ہاتھ اور پورا بدن۔پھر مجھے کچھ سمجھ نہ آیا۔ آخری لمحے میں نے زیر لب کہا تھا: ’’یا حضرت عباسؑ۔۔۔‘‘ مجھے یاد نہیں کہ میں جملہ مکمل کر سکی تھی یا نہیں۔
صمد غبار آلود سر و صورت اور بکھرے ہوئے بال لیے میرے سامنے کھڑا تھا۔اس نے مجھے سلام کیا۔ میں اس کا جواب نہیں دے سکتی تھی۔ ایسا نہیں کہ دینا نہیں چاہتی تھی بلکہ دینے کی ہمت نہیں تھی۔
اس نے کہا: ’’بچہ پیدا ہو گیا؟!‘‘
میں نے پھر بھی ہزار جتن کیے مگر اس کا جواب نہ دے سکی۔
وہ میرے پاس بیٹھ گیا اور کہنے لگا: ’’میں پھر دیر سے پہنچا؟! کچھ ہوا ہے؟! کیوں جواب نہیں دے رہیں؟! بیمار ہو، تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے؟!‘‘
میں اسے دیکھ رہی تھی لیکن منہ سے ایک کلمہ بھی ادا نہیں ہو پا رہا تھا۔ وہ مجھے ٹک ٹک دیکھنے لگا اور چند بار میرے چہرے پر آرام سے ہاتھ مارا پھر فریاد کرتے ہوئے کہا: ’’یا حضرت زہرا! قدم، قدم! میں ہوں، صمد!‘‘
اچانک ایسا لگا جیسے میں نیند سے بیدار ہو گئی ہوں۔ کئی بار اپنی آنکھیں کھولیں اور بندکیں اور کہا: ’تم ہو صمد؟! تم آ گئے؟!’‘‘
صمد مبہوت ہو کر مجھے دیکھ رہا تھا۔ میرا ہاتھ پکڑ کے کہنے لگا: ’’کیا ہوا؟! تمہاری یہ حالت کیوں ہو گئی؟! کیوں اتنی ٹھنڈی ہو گئی ہو؟!‘‘
میں نے کہا: ’’میں برف صاف کر رہی تھی، نہیں معلوم کیا بلا میرے سر پر آئی۔ شاید میں بے ہوش ہو گئی تھی۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’وقت کیا ہوا ہے؟!‘‘
اس نے کہا: ’’صبح کے دس بجے ہیں۔‘‘
میں نے دیکھا تو بچے ابھی تک سوئے ہوئے تھے۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا یعنی میں صبح چھ بجے یا اس سے بھی پہلے کی سوئی ہوئی تھی۔
صمد نے اپنے سر پر ہاتھ مار کر کہا: ’’اے عورت! تم نے اپنے ساتھ کیا کر دیا؟! خودکشی کرنا چاہتی ہو؟!‘‘
میں ہل بھی نہیں سکتی تھی۔ ابھی تک ہاتھ اور پاؤں بےجان تھے۔
اس نے پوچھا: ’’کچھ کھایا ہے؟!‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں، گھر میں روٹی نہیں ہے۔‘‘
اس نے کہا: ’’میں ابھی لاتا ہوں۔‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں، ضرورت نہیں ہے۔ تم یہاں میرے پاس بیٹھو۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ میری حالت بہت خراب ہو رہی ہے۔ ایک کام کرو۔ ساتھ والے ہمسایوں کے گھر جاؤ اور گل گز خانم کو اطلاع دو۔ شاید ہمیں ڈاکٹر کے پاس جانا پڑے۔‘‘
وہ گھبرا گیا۔ کمرے میں گھوم گھوم کر اپنے آپ سے باتیں اور دعا کیے جا رہا تھا: ’’یا حضرت زہراؑ! آپ ہی ہماری مدد کیجیے۔ یا حضرت زہراؑ! میں اپنی بیوی کو آپ سے لوں گا۔ یا امام حسینؑ! آپ خود ہماری مددکریں۔‘‘
میں نے کہا: ’’ڈرو نہیں، کچھ نہیں ہوا۔ میرے سر پر جو مصیبت آنی تھی وہ آ چکی۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔ ابھی کون سا بچے کی ولادت کا وقت ہوا ہے۔‘‘
اس نے کہا: ’’قدم! خدا مجھ پر رحم کرے۔ خدا میری کوتاہیاں معاف کرے۔ میری غلطی ہے کہ تمہیں یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے۔‘‘
میری پھر وہی حالت ہو گئی۔ ہاتھ پاؤں میں جان نہ رہی اور خواب آلودگی طاری ہو گئی۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر ہلایا: ’’قدم! قدم! قدم جان! آنکھیں کھولو۔ بات کرو۔ تم مجھے ہلاک کیے جا رہی ہو۔ تم نے اپنے ساتھ کیا کر لیا۔ میں تیرے قربان، قدم! قدم! قدم جان!‘‘
اسی روز آدھی رات کے وقت ہمارے تیسری بیٹی پیدا ہوئی۔ اس سے اگلے دن مجھے ہسپتال سے رخصت مل گئی۔ صمد نے سمیہ کو گود میں اٹھا رکھا تھا۔ اس کے قدم زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ وہ ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا: ’’یہ میری ایک اور شبیہ ہے۔ خوبصورت اور پیاری۔‘‘
میری ماں، بہنیں اور دیورانیاں میری مدد کے لیے آ گئی تھیں۔ شینا کو انہیں دنوں ہارٹ اٹیک ہوا تھا اور وہ چل نہیں سکتی تھیں۔ وہ میرے پاس بیٹھی سارا وقت میرے ہاتھ چومتی رہیں۔ بہنیں باورچی خانے میں کھانا پکانے میں مشغول تھیں۔ میری آنکھیں صمد کو ڈھونڈ رہی تھیں مگر وہ کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں نے اپنی بہن کو آواز دی اور اس سے کہا: ’’میرے لیے ایک پیالی چائے کی لے آؤ۔‘‘
وہ چائے لائی تو میں نے سرگوشی میں اس سے پوچھا: ’’صمد نہیں ہے؟!‘‘
وہ ہنس کر کہنے لگی: ’’نہیں۔ تم سوئی ہوئی تھیں تو معلوم ہوا کہ ستار کی بیوی کو درد شروع ہو گیا ہے۔ صمد اسے ہسپتال لے گیا ہے۔‘‘
رات کو وہ مٹھائی کا ایک ٹوکرا لیے ہوئے آیا اور کہا: ’’خدا نے ستار کو بھی ایک سمیہ سے نوازا ہے۔‘‘
اس نے چند کلو انار بھی خرید لیے تھے۔ کچھ اناروں کو اس نے کھول کر ان کے دانے نکالے۔ انہیں ایک کٹورے میں ڈال کر لے آیا اور میرے پاس بیٹھ گیا: ’’الحمد للہ، اس بار میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ البتہ ہماری بیٹی بھی اچھی بیٹی رہی۔ اگر وہ کل اس دنیا میں آتی تو اس بار بھی مجھ سے وعدہ خلافی ہو جاتی۔‘‘
اس نے انار کا کٹورا میرے ہاتھ میں دے کر کہا: ’’لو، کھاؤ۔ تمہارے لیے اچھا ہے۔‘‘
میں نے اس کے ہاتھ سے کٹورا نہ لیا۔ اس نے کہا: ’’کیا ہوا، ناراض ہو؟! تمہارے لیے دانے نکال کر لایا ہوں۔‘‘
میں نے اس کے ہاتھ سے کٹورا لے لیا اور کہا: ’’اتنی جلدی جانا چاہتے ہو؟!‘‘
اس نے کہا: ’’مجبور ہوں۔ انہوں نے فون کیا ہے۔ مجھے جانا پڑے گا۔‘‘
میں نے کہا: ’’ایسا نہیں ہو سکتا کہ نہ جاؤ؟! رک جاؤ۔ میرا دل چاہتا ہے کہ اس بار کم از کم ایک ماہ میرے پاس رہو۔‘‘
اس نے ہنستے ہوئے سیٹی بجائی اور کہا: ’’او۔۔اوہ۔۔ ایک ماہ!‘‘
میں نے کہا: ’’صمد! میری جان، رُک جاؤ۔‘‘
اس نےکہا: ’’اپنا وعدہ بھول گئیں۔ پچھلی بار تم نے کیا کہا تھا؟!‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں، نہیں بھولی۔ تم جاؤ۔ مجھے کچھ نہیں کہنا۔ لیکن اس بار کم از کم ایک ہفتہ تو ٹھہر جاؤ۔‘‘
وہ سوچنے لگا۔ اس نے اپنی انگلیاں لحاف کے ٹانکوں میں ڈال دیں اور دھاگہ کھینچنے لگا: ’’نہیں ہو سکتا۔ میں خود چاہتا ہوں کہ ٹھہر جاؤں مگر ان جوانوں کا کیا کروں جن کی ماؤں نے میری امید پر اپنے بچوں کو محاذ پر بھیجا ہے۔ یہ انصاف نہیں ہے کہ میں انہیں ایسے ہی چھوڑ کر یہاں بے کار پڑا رہوں۔‘‘
میں نے سماجت کی: ’’صمد جان! بے کار نہیں ہو۔ میرے اور بچوں کے پاس رہنا ہے۔ رُک جاؤ۔‘‘
اس نے اپنا سر نیچے جھکا لیا اور پھر لحاف کے دھاگے کھینچنے لگا۔ ٹی وی چل رہا تھا اور جنگ کے مناظر دکھائے جا رہے تھے۔ اجڑے ہوئے گھر، بے گھر بچے اور عورتیں۔ سمیہ جاگ گئی اور رونا شروع ہو گئی۔ صمد نے اسے اٹھا کر مجھے دے دیا تاکہ اسے دودھ پلاؤں۔ سمیہ نے دودھ پینا شروع کر دیا۔ صمد ٹک ٹک سمیہ کو دیکھنے لگا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ میں نے کہا: ’’کیا ہوا؟!‘‘
اس نے اپنا منہ دیوار کی طرف موڑ کر کہا: ’’جنگ کے شروع میں ایک دفعہ میں نے سُنا کہ کہیں سے ایک بچے کے رونے کی آواز آ رہی تھی۔ ہم چند لوگوں نے ہر جگہ چھان مارا یہاں تک کہ ایک گرے ہوئے گھر میں پہنچے۔ بم نے اسے تباہ کر دیا تھا۔ بچے کی آواز اس گھر سے آ رہی تھی۔ ہم اندر گئے۔ ہم نے دیکھا کہ ایک ماں اپنے بچے کو سینے سے لگائے دودھ پلا رہی تھی کہ شہید ہو گئی۔ بچہ ابھی تک اپنی ماں کے سینے کو چوس رہا تھا لیکن چونکہ دودھ نہیں آ رہا تھا اس وجہ سے رو رہا تھا۔‘‘
مجھے اس کی ان باتوں سے بہت زیادہ دکھ ہوا۔ اس نے کہا: ’’اب تم کتنے آرام و سکون سے اپنی بچی کو دودھ پلا رہی ہو۔ تمہیں خدا کا ہزار مرتبہ شکر ادا کرنا چاہیے۔‘‘
میں نے کہا: ’’خدا کا شکر کہ تم میرے پاس ہو۔ تمہارا سایہ میرے اور بچوں کے سر پر موجود ہے۔‘‘
اس نے انار والا کٹورا اپنے ہاتھ میں لیا اور چمچ چمچ کر کے میرے منہ میں ڈالنے لگا: ’’قدم! تمہارا اجر حضرت زہراؑ کے ذمے۔ تمہارا صلہ امام حسینؑ دیں گے۔ جو کام تم کر رہی ہو وہ میری جنگ سے زیادہ کٹھن ہے۔ میں جانتا ہوں۔ مجھے معاف کر دینا۔‘‘
ابھی انار کے دانے میرے منہ ہی میں تھے کہ گلی سے گاڑی کے ہارن کی آواز آئی۔ اس کے بعد دوازے کی گھنٹی بجی۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ وردی پہنی اور کہا: ’’وہ میرے لیے آئے ہیں۔ مجھے جانا ہے۔‘‘
انار میرے حلق میں اٹک کر رہ گئے تھے۔ ہزار جتن کیے نیچے نہ اترے۔ اس نے میری پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا: ’’جلدی واپس آ جاؤں گا۔ پریشان مت ہونا۔‘‘
صبح سمیہ کی آواز سے جلدی آنکھ کھل گئی۔ وہ بھوکی تھی۔ اسے دودھ پلانا تھا۔میرے اٹھنے اور بستر پر بیٹھنے تک وہ دوبارہ سو گئی۔ میں کھڑکی سے آسمان کو دیکھ رہی تھی جو ابھی تک تاریک تھا۔ گھڑی پر نظر ڈالی تو ساڑھے پانچ بج چکے تھے۔ میں اٹھی، وضو کیا کہ سمیہ دوبارہ رونے لگی۔ میں اسے گود میں لے کر دودھ پلانے لگی۔مہدی میرے پاس سویا ہوا تھا اور خدیجہ اور معصومہ بھی تھوڑے فاصلے پر اکٹھی سوئی ہوئی تھیں۔ میرا دل ان کے لیے کڑھنے لگا۔ کیسی معصومیت اور مظلومیت سے سو رہی تھیں۔ بے چاری اچھی اور پُر سکون بچیاں تھیں۔ صبح سے رات تک گھر ہی میں رہتیں۔ ان کا کھیل فقط یہی تھا کہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتیں، کھیلتیں اور ٹی وی دیکھتی رہتیں۔ ان کے روز و شب اسی طرح گزر رہے تھے۔ اچانک میرا دل چاہا کہ جلدی جلدی اجالا پھیلے اور بچوں کو لے کر سڑک کی طرف نکل جاؤں اور ان کے لیے کچھ خرید لاؤں تاکہ ان کا دل بھی تھوڑا بہل جائے لیکن سمیہ کاکیا کرتی۔ چالیس روزہ بچے کو اس سردی میں باہر نہیں لے جایا جا سکتا تھا۔سمیہ پوری دلجمعی سے دودھ پی رہی تھی۔ میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا: ’’میری معصوم بچی، تم کس قدر بھوکی ہو۔‘‘
ایک آواز آئی۔ ایسا لگتا تھا کوئی کمرے کے دروازے پر ہے۔ میں نے زبردستی سمیہ کو اپنے سینے سے دور کیا۔ وہ رونے لگی۔ میں ڈرتی لرزتی خاموشی سے سیڑھیوں کی طرف گئی۔ میں نے پوچھا: ’’کون ہے۔۔۔ کون ہے؟!‘‘
کوئی آواز نہ آئی۔ میں نے سوچا بلی ہو گی۔ سمیہ نے رو رو کر گھر سر پر اٹھا لیا تھا۔
میں نے دروازے کے پیچھے میز رکھ چھوڑا تھا۔ دروازے پر گئی اور پوچھا: ’’کون ہے؟!‘‘ کوئی آدمی چابی تالے میں ڈال کر گھما رہا تھا۔ وہ صمد تھا۔ کہنے لگا: ’’میں ہوں۔ دروازہ کھولو۔‘‘
میں نے خوشی خوشی میز کو ایک طرف کیا اور دروازہ کھول دیا۔
وہ ہنس کر کہنے لگا: ’’تم نے کیا کیا ہوا تھا؟! دروازہ کیوں نہیں کھل رہا تھا؟‘‘
اس کی نظر میز پر پڑی تو اس نے کہا: ’’ ڈرپوک کہیں کی!‘‘
پھر اپنا ہاتھ میری طرف بڑھا دیا: ’’سلام۔ کیسی ہو؟!‘‘
وہ اپنا چہرہ میرے نزدیک لایا ہی تھا کہ اچانک سمیہ کے شور سے مہدی، خدیجہ اور معصومہ کی آنکھ کھل گئی اور وہ دروازے کی طرف دوڑے۔ ہم دونوں پیچھے ہٹ گئے۔ بچے خوشی سے صمد کے ساتھ لپٹ گئے۔ صمد بچوں کو چومتے ہوئے میری طرف دیکھ رہا تھا اور پوچھ رہا تھا: ’’تم کیسی ہو؟! اچھی ہو؟! طبیعت بہتر ہوئی یا نہیں؟!‘‘
میں نے ہنس کر کہا: ’’بہت ہی اچھی ہوں۔ تم کیسےہو؟!‘‘
مہدی اس کی گود میں تھا اور معصومہ بھی اس کی وردی کھینچ رہی تھی۔ اس نے کہا: ’’جلدی کرو۔ ہمیں جانا ہے۔ میں گاڑی لایا ہوں۔‘‘
میں نے تعجب سے پوچھا: ’’کہاں؟!‘‘
اس نے مہدی کو زمین پر رکھ کو معصومہ کو اٹھا لیا: ’’میں تمہیں محاذ پر لے جانا چاہتا ہوں۔ کل اعلان کیا گیا تھا کہ کمانڈرز اپنے گھر والوں کو کچھ دنوں کے لیے بیرک میں لا سکتے ہیں۔ میں رات ہی کو چل پڑا تھا۔ تم لوگوں کو لینے آیا ہوں۔‘‘
بچے خوشی سے دوڑے دوڑے گئے اور منہ ہاتھ دھو کر لباس پہننے لگے۔ صمد نے بھی کمرے سے ٹی وی اٹھا لیا اور کہا: ’’یہی کافی ہے۔ باقی ہر چیز وہاں پر موجود ہے۔ فقط یوں کرو کہ بچوں کے جتنے کپڑے اٹھا سکتی ہواٹھا لو۔‘‘
میں نے کہا: ’’کم سے کم بستر تو اٹھانے دو۔ بچوں کو ناشتہ بھی دینا ہے۔‘‘
اس نے کہا: ’’ناشتہ راستے ہی میں کریں گے۔ تم جلدی کرو، ہمیں سہ پہر تک سر پل ذہاب([2]) پہنچنا ہے۔‘‘
میں نے سمیہ کوصاف کیا۔ جتنا ہو سکتا تھا اپنے اور بچوں کے کپڑے اٹھا لیے۔ مہدی کو تیار کر کے اس کا ہاتھ خدیجہ اور معصومہ کو تھما دیا اور ان سے کہا: ’’تم جا کر سوار ہو جاؤ۔‘‘ سمیہ کو کمبل میں لپیٹ لیا۔
جنوری کے دن تھے۔ موسم کافی سرد اور کاٹ دار تھا۔ سمیہ کو صمد کے حوالے کیا ۔ دروازے کو تالا لگایا ۔ اس کے بعد خانم گل گز اور دوسرے ساتھ والے ہمسایوں کے گھر خداحافظی کے لیے چلی گئی اور ان سے گھر کا خیال رکھنے کی درخواست بھی کی۔ جب میں گاڑی میں بیٹھ گئی تو دیکھا کہ خانم گل گز پردے کا کنارہ ہٹا کر ہمیں دیکھ رہی ہیں اور خوش ہو کر ہمارے لیے ہاتھ ہلا رہی ہیں۔
گاڑی چلی تو بچوں نے اچھل کود اور کھیلنا شروع کر دیا۔ بے چارے بہت خوش ہو رہے تھے۔ کافی دن ہو گئے تھے وہ گھر سے باہر نہ نکلے تھے۔ صمد گاڑی چلا رہا تھا تو کبھی مہدی کو اپنی ٹانگ پر بٹھا لیتا اور اسٹیئرنگ اس کے ہاتھ میں دے دیتا۔ کبھی معصومہ کو میرے اور اپنے درمیان بٹھا لیتا اور کہتا: ’’بابا کو شعر تو سناؤ۔‘‘
کبھی جھک کر خدیجہ کو چھیڑتے ہوئے اس کے بالوں کو اس کے چہرے پر پھیلا دیتا اور آوازیں نکالتا۔
جب ہم صحنہ([3]) پہنچے تو اس نے گاڑی ایک جگہ کھڑی کی اور سڑک کنارے واقع ایک ریستوران میں چلے گئے۔ ریستوران کی ظاہری حالت تو اتنی اچھی نہ تھی مگر اس کا ناشتہ بہت صاف ستھرا اور لذید تھا۔ ابھی میں نے اپنا ناشتہ نہ کھایا تھا کہ سمیہ جاگ گئی۔میں نے گاڑی میں آ کر اسے دودھ پلایا اور اس کے کپڑے بدلے۔ اسی وقت میں نے دیکھا کہ بڑی بڑی فوجی گاڑیاں سڑک سے گزر رہی ہیں۔ بڑے بڑے کینٹینرز بھی دکھائی دیے جن پر ایران کے پرچم لگے ہوئے تھے اور جو لوگوں کی طرف سے امدادی سامان لے کر جا رہے تھے۔ پرچم ہوا میں کافی تیزی سے پھڑپھڑا رہے تھے۔
صمد لوٹا اور روٹی پر مکھن اور مربا رکھ کے ایک بڑا سا نوالہ بنا کر میرے ہاتھ میں دے دیا: ’’تم نے ناشتہ نہیں کھایا۔ لو کھاؤ۔‘‘
بچے دوبارہ بابا بابا کر رہے تھے اور صمد انہیں شعر سنا رہا تھا، قصے بیان کر رہا تھا اور ان کے ساتھ باتیں کر رہا تھا۔ سمیہ میری گود میں تھی اور ابھی تک دودھ پی رہی تھی۔ میں راستے کی طرف دیکھ رہی تھی۔ برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ، فوجی گاڑیاں، ریستوران، جھڑے ہوئے درخت اور راستہ تھا کہ جتنا چلتے جاتے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔
گاڑی ایک غیر ہموار راستے پر پہنچ چکی تھی کہ میری آنکھ کھل گئی۔ فوجی گاڑیاں سڑک کے ساتھ ساتھ کچے راستے پر بھی چل رہی تھیں۔ سڑک سے ہٹ کر کچھ ٹینک بھی ہمیں چلتے دکھائی دیے۔ میں نے گاڑی میں مڑ کر پیچھے دیکھا تو معصومہ منہ کھولے سو رہی تھی اور مہدی اپنا سر معصومہ کے پاؤں پر رکھ کر سویا ہوا تھا۔ خدیجہ نے سمیہ کو گلے لگا رکھا تھا۔ صمد نے دونوں ہاتھوں سے اسٹیئرنگ کو پکڑ رکھا تھا اور ایکسیلیٹر پر پاؤں دھرے گاڑی کو آگے آگے ہی بڑھائے جا رہا تھا۔ میں نے پوچھا: ’’سمیہ کو تم نے خدیجہ کی گود میں رکھا ہے؟‘‘
اس نے کہا: ’’ہاں۔ مجھے لگ رہا تھا کہ تم بہت زیادہ تھک گئی ہو۔ کل رات سمیہ نے تمہیں سونے نہیں دیا ہو گا۔ مجھے دکھ ہوا تو میں نے سوچا کہ تم آرام سے سو جاؤ۔‘‘
میں نے جھک کر سمیہ کو خدیجہ کی گود سے آرام سے اٹھا لیا اور کہا: ’’بچی کو مجھے دے دو۔ تم تھک جاؤ گی ماں کی جان۔‘‘
صمد نے پلٹ کر میری طرف دیکھا اور کہا: ’’اے ماں! کس قدر مہربان ہے تو۔‘‘
میں نے ہنس کر کہا: ’’کیا ہوا۔ شعر پڑھ رہے ہو؟!‘‘
کہنے لگا: ’’سچ کہتا ہوں۔ انہی چند گھنٹوں میں سمجھ گیا کہ بچے پالنا کتنا مشکل کام ہے۔ کتنی ہمت ہے تمہاری۔ بہت تھک جاتی ہو۔ ہے نا؟! مہدی کی الٹی سیدھی فرمائشیں اور شرارتیں اور خدیجہ اور معصومہ کے جھگڑے تو رہے ایک طرف، یہی سمیہ کافی ہے بندے کو توبہ توبہ کروا دینے کے لیے۔‘‘
میں سڑک کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔ اس نے گاڑی کے گیئر پر ہاتھ رکھا اور اسے تبدیل کر کے کہنے لگا: ’’بس تھوڑا سا فاصلہ رہ گیا ہے۔ کاش تم دوبارہ سو جاتیں۔ میں جانتا ہوں بہت تھک جاتی ہو۔ تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔ اب یہاں جتنا وقت ملتا ہے تو اپنے لیے کھاؤ، پیو، سوؤ اور اپنی تھکان اتارو۔ مجھے اپنی جان کی قسم، قدم! اگر یہ جنگ ختم ہو جائے اور میں زندہ رہوں تو میں جانتا ہوں کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ میں کسی تکلیف کو تمہارے نزدیک بھی نہیں آنے دوں گا۔‘‘
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو خدیجہ اسی طرح سڑک کی طرف دیکھتے دیکھتے سو گئی تھی۔ سمیہ میری گود میں سوئی ہوئی تھی۔ صمد نے کہا: ’’اب جبکہ بچے سو گئے ہیں تو ہماری باری ہے۔ اب بتاؤ، تمہاری حالت کیسی ہے۔ کیسی ہو؟! اچھی ہو؟!‘‘
([1]) تیار شدہ غذا کے چھوٹے ٹِن۔
([2]) سر پل ذہاب ایران کے صوبہ کرمانشاہ کا ایک شہر ہے، جہاں کُرد قبیلے کی اکثریت ہے اور عمومی زبان بھی کُردی ہے۔یہ شہر ایران عراق کی سرحد پر واقع ہے۔ دفاع مقدس (ایران عراق کے مابین لڑی جانے والی آٹھ سالہ جنگ) کے دوران اس علاقے کو شدید نقصان پہنچا۔
سولہواں باب
سر پل ذہاب ایسا نہ تھا جیسا میں نے سوچ رکھا تھا۔ بالکل کسی اجڑے ہوئے گاؤں کی طرح لگ رہا تھا؛ ویران ویران گھروں والا۔ کوئی دکان نہ تھی۔ اگر تھی بھی تو زیادہ تر دکانوں کے سائبان نیچے گرے ہوئے تھے۔ سائبانوں کے یہ پردے بمباری کے نتیجے میں یا تو بالکل پھٹ چکے تھے یا ان میں سوراخ ہو گئے تھے۔ سڑکیں مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی تھیں۔ تارکول اکھڑ چکا تھا۔ سڑک کی اونچی نیچی جگہوں سے بجری کے کنکر اُڑ اُڑ کر گاڑی کی چھت کے ساتھ زور سے ٹکرا رہے تھے۔
ہم خالی خولی اور سنسان سڑکوں سے گزرتے رہے۔ پورے راستے میں اِکّا دُکّا دکانیں کھلیں تھیں جن میں پھل، گوشت، سبزیاں اور لوگوں کی روزمرہ ضرورت کی چیزیں فروخت کے لیے رکھی ہوئی تھیں۔
میں نے کہا: ’’یہ تو روحوں کا شہر ہے۔‘‘
اس نے سر ہلاتے ہوئے کہا: ’’جنگی علاقہ ہے نا۔‘‘
تھوڑی دیر بعد ہم ابوذر بیرک میں پہنچ گئے۔ بیرک کے دروازے کے سامنےا ترے۔ صمد نے دروازے پر کھڑے نگہبان کو اپنا کارڈ دکھایا۔ اس کے ساتھ کچھ بات چیت کی اور آ کر اسٹئیرنگ پر بیٹھ گیا۔ نگہبان نے گاڑی میں جھانک کر مجھے اور بچوں کو دیکھا اور اندر جانے کی اجازت دے دی۔ تھوڑا آگے ایک اور نگہبان کھڑا تھا۔ صمد پھر رک گیا مگر گاڑی سے نہ اترا۔ شیشے ہی سے اپنا کارڈ اس نگہبان کو دکھایا اور گاڑی چلا دی۔
میں اور بچے تعجب سے بیرک میں کھڑے ٹینکوں اور ایک ہی جیسے نظر آنے والے سپاہیوں کو دیکھ رہے تھے۔
اس نے پوچھا: ’’ڈر رہی ہو؟!‘‘
میں نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا: ’’نہیں۔‘‘
اس نے کہا: ’’یہ جگہ میرے لیے قایش کی طرح ہے۔ جب میں یہاں ہوتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہےکہ اپنے ہی دیہات میں ہوں۔‘‘
اس نے ایک چندمنزلہ عمارت کے سامنے گاڑی پارک کی۔ اتر کر مہدی کو گود میں اٹھا لیا اور کہا: ’’پہنچ گئے۔‘‘
ہم عمارت کی سیڑھیوں سے اوپر جانے لگے۔ سیڑھیوں کا راستہ اور دیواریں رنگا رنگ تحریروں سے بھری ہوئی تھیں۔
اس نے کہا: ’’یہ وہ یادگاریں ہیں جو جوانوں نے لکھ رکھی ہیں‘‘
پہلی منزل کی غلام گردش کے دونوں طرف کمرے ہی کمرے تھے۔ یہ کمرے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے اور ان کے لوہے کی ایک ہی جیسے دروازے تھے۔ دوسری منزل پر پہنچے تو صمد بائیں طرف مڑ گیا اور ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے چل دیے۔ ایک کمرے کے سامنے کھڑے ہو کر کہنے لگا: ’’یہ ہمارا کمرہ ہے۔‘‘
اس نے کمرے کا دروازہ کھولا۔ کمرے کے فرش پر سلیٹی رنگ کا کارپٹ بچھا ہوا تھا۔ صمد نے مہدی کو کارپٹ پر چھوڑ دیا اور باہر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ٹی وی لے آیا۔ کمرے کے کونے میں کچھ فوجی کمبل اور چند سرہانے ایک دوسرے کے اوپر رکھے ہوئے تھے۔
کمرے میں ایک بڑی سی کھڑکی بھی تھی جو بیرک کے صحن میں کھلتی تھی۔ صمد نے آگے بڑھ کر ایک کمبل اٹھایا اور کہا: ’’فی الحال یہ کمبل کھڑکی پر ڈال لیتے ہیں جب تک کہ قدم بیگم اپنے سلیقے سے اس کا پردہ نہیں سی دیتیں۔‘‘
بچے حیران ہو کر در و دیوار کو دیکھ رہے تھے۔ کپڑوں والا بیگ میں نے کمرے کے وسط میں رکھ دیا۔ صمد بچوں کو بیت الخلاء، حمام اور باورچی خانہ دکھانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس آ گئے۔ اس نے بچوں کے ہاتھ منہ دھلا دیے تھے۔ پانی کا ایک جگ اور ایک گلاس بھی اس کے ہاتھ میں تھا، انہیں کمرے کے درمیان میں رکھ کر کہنے لگا: ’’میں رات کے کھانے کا بندوبست کرنے جا رہا ہوں۔ جلدی واپس آ جاؤں گا۔‘‘
شروع کے دنوں میں صمد دن کا کھانا کھانے گھر آجاتا تھا۔ کچھ دنوں بعد دوسرے کمانڈروں کے خانوادے بھی آ گئے اور سارے ایک ایک کمرے میں ٹھہر گئے۔ ہمارے ساتھ والے کمرے میں بھی ایک کمانڈر اپنی بیوی کے ساتھ رہتے تھے۔ اتفاق سے ان کی بیوی کو امید سے ہوئے دوسرا مہینہ تھا۔ ہم اس کی قے کی آوازوں سے صبح جلدی ہی بیدار ہو جاتے تھے۔ اس کا شوہر دن کے کھانے کے وقت گھر میں نہ آتا تھا۔ ایک روز صمد کہنے لگا: ’’میں بھی آج سے دن کے کھانے پر نہیں آؤں گا۔ تم بھی اس خاتون کے پاس چلی جایا کرو اور دن کاکھانا اکٹھے ہی کھا لیا کرو تا کہ اس بے چاری کو تنہائی کا احساس نہ ہو۔‘‘
ابوذر بیرک میں زندگی اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود کافی لذت بخش تھی۔ کوئی دن ایسا نہ گزرتا تھا کہ دور یا نزدیک سے کسی بم کے پھٹنے کی آواز نہ آتی ہو، یا جہاز اس طرف بمباری نہ کرتے ہوں۔ ہمدان میں جب ریڈ الرٹ ہو جاتا تھا تو ہم ڈرے سہمے کسی پناہ گاہ کی طرف بھاگتے تھے مگر یہاں ہم ان آوازوں کے عادی ہو گئے تھے۔
ایک روز آدھی رات کے وقت بیرک کی توپوں کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ آواز اتنی زیادہ اور وحشتناک تھی کہ سمیہ جاگ گئی اور رونے لگی۔ اس کے رونے کی آواز سے خدیجہ، معصومہ اور مہدی بھی جاگ گئے۔ رات کو ہم کھڑکی سے کمبل اتار دیتے تھے۔ اچانک میں نے آسمان پر ایک جہاز دیکھا جو بہت نچلی پرواز کر رہا تھا۔ ڈر نے میرے وجود کو گھیر لیا۔ سمیہ کو گلے لگایا اور کمرے کے کونے کی طرف دوڑتے ہوئے کہا: ’’صمد! بچوں کو پکڑو۔ یہاں آؤ، جہاز! ابھی بمباری کرے گا۔‘‘
صمد کھڑکی کے پاس گیا اور ہنس کر کہنے لگا: ’’کہاں ہے جہاز، کیوں شور مچا رہی ہو۔ یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
جہاز ابھی تک آسمان پر تھا حتی کہ اس کے انجن کی آواز بھی آسانی سے سنائی دے رہی تھی۔ صمد کو مذاق سوجھ رہا تھا۔ وہ مجھے چھیڑنے لگا۔ میں اس کے مذاق سے تنگ آگئی اور ڈر کے مارے لرزنے لگی۔
اگلے دن صمد واپس آیا تو بہت خوش تھا۔ اس نے بتایا: ’’وہ جہاز جو تم نے رات کو دیکھا تھانا؟! ہمارے جوانوں نے اسے گرا دیا ہے اور اس کے پائلٹ کو گرفتار لیا ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’لیکن تم تو کہہ رہے تھے کہ جہاز نہیں ہے۔ میں غلط کہہ رہی ہوں۔‘‘
اس نے کہا: ’’تم رات کو بہت زیادہ ڈر گئی تھیں۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ بچے بھی ڈر جائیں۔‘‘
آہستہ آہستہ ہمارے ہمسائے زیادہ ہونے لگے۔ ادارتی اور رہائشی اپارٹمنٹس بیرک کے فوجی حصے سے ہٹ کر کچھ فاصلے پر واقع تھے۔ ہمارے ہمسایوں میں آغا ہمدانی، آغا بشیری اور آغا سمواتی کے بیگمات ہمارے علاقے سے تھیں۔ ہم نے بیرک میں ایک نئی زندگی کا آغاز کیا تھا جو میرے لیے اتنی مشکلوں بھری زندگی گزارنے کے بعد کافی دلچسپ اور لذت بخش تھا۔ نماز فجر کے بعد ہم سو جاتے اور نو یا دس بجے بیدار ہوتے۔ ناشتہ ہمارے مرد ہمارے پاس رکھ جاتے تھے۔ ہم وہ کھا لیتیں۔ تھوڑی دیر بچوں کو دیکھتیں بھالتیں اور انہیں غلام گردش میں یا نچلی منزل پر کھیلنے کے لیے بھیج دیتیں۔ ناشتے کے برتن دھوتیں اور پھر ساری عورتیں ایک کمرے میں اکٹھی ہو کر ایک دوسرے کو واقعات سناتیں اور گپیں اڑاتیں۔ ہمارے مرد اب دن کے کھانے پر نہ آتے تھے۔
دن کا کھانا دن کو ایک فوجی، گاڑی پر لے آتا۔ جب گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دیتی تو بچوں کو پتیلے دے کر بھیج دیتیں۔ وہ کھانا لے آتے۔ گھر کے افراد کے حساب سے ہر کسی کا مخصوص پتیلہ تھا۔ دو نفر والا، چار نفر والا، اس سے کم یا زیادہ والا۔
ایک دن ہم لوگ باتوں میں اتنے مصروف تھے کہ فوجی بے چارہ گاڑی کا ہارن بجاتا رہا مگر ہمیں سنائی نہ دیا۔ وہ یہ سمجھا کہ ہم عمارت میں موجود ہی نہیں ہے، اس نے کھانا اٹھایا اور بغیر کسی سے کچھ پوچھے چلا گیا۔ مختصر یہ کہ اس دن انتظار کر کر کے ہمارا کھانا نہ پہنچا۔ بھوک سے برا حال ہو گیا۔ پھر رات کو کہیں جا کر رات کا کھانا آیا۔
ایک رات بیرک میں فوجیوں کی پریڈ سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے کھڑکی سے کمبل کا کونہ ہٹا کر صحن میں دیکھا۔ فوجی صحن کے درمیان پریڈ کر رہے تھے۔ میں نے غور سے دیکھا تو ہمارے گاؤں کا ایک جوان بھی اس پریڈ میں نظر آیا۔ وہ آغا سید تھا۔ اس اجنبی ماحول میں اپنے ایک جاننے والے کو دیکھنا میرے لیے خوشی کا باعث تھا۔ جب تک پریڈ ختم نہ ہو گئی اور وہ چلے نہ گئے میں کھڑی ہو کر اسے دیکھتی رہی۔ رات کو جب میں نے صمد کو بتایا تو اسے اچھا نہ لگا۔ اس نے ناراض ہوتے ہوئے کہا: ’’کیا بات ہے! اب تم کھڑکی میں کھڑی ہو کر اجنبی مردوں کو دیکھتی ہو؟!‘‘
اس کے بعد میں کبھی بھی کھڑکی میں کھڑی نہ ہوئی۔
بیرک میں آئے ہوئے ہمیں دو ہفتے ہو چکے تھے۔ ایک روز صمد کہنے لگا: ’’آج ہم سیر پر جانا چاہتے ہیں۔‘‘
بچے بہت خوش ہو گئے اور انہوں نے جلدی جلدی اپنے کپڑے بدل لیے۔ صمد نے کیتلی، پیالیاں، قند اور چائے اٹھا لی اور کہا: ’’تم دسترخوان، روٹی، چمچے اور پلیٹیں لے آؤ۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’ہم جا کہاں رہے ہیں؟!‘‘
اس نے کہا: ’’سرحد پر۔‘‘
میں نے کہا: ’’خطرناک نہیں ہے؟!‘‘
اس نے کہا: ’’خطرناک تو ہے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ بچے دیکھ لیں کہ میں کہاں جنگ لڑتا ہوں۔ مہدی کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے بابا کہاں اور کیسے شہید ہوئے۔‘‘
صمد جب بھی شہادت کی بات کرتا میں ناراض ہو جاتی اور اسے ایسا نہ کہنے پر اصرار کرتی۔ لیکن اس بار میں اس کی دسترس میں تھی اور نہیں چاہتی تھی کہ ہم پھر سے ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں اس لیے میں نے کچھ نہ کہا۔ میں نے سمیہ کو تیار کیا اور ہم سامان اٹھا کر چل پڑے۔ جس گاڑی سے ہم ہمدان سے سرپل ذہاب آئے تھے، وہ عمارت کے سامنے کھڑی تھی۔ ہم اس پر سوار ہو گئے۔ جب ہم لوگ بیرک سے باہر آ گئے تو صمد ایک جگہ ٹھہر گیا۔ اس نے اپنا اوورکوٹ مجھے دیا اور کہا: ’’اسے پہن لو اور اپنی چادر اتار دو۔ اگر دشمنوں نے دیکھ لیا کہ اس علاقے میں ایک عورت بھی ہے تو وہ اس جگہ پر حملہ کر دیں گے۔‘‘
بچوں نے جب مجھے اس حلیے میں دیکھا تو ہنس ہنس کر کہنے لگے: ’’آہا! ماں، بابا بن گئیں۔‘‘
صمد نے بچوں کو گاڑی کے فرش پر لٹا دیا اور ان کے اوپر کمبل ڈال کر کہا؛ ’’بچو، خاموش رہنا۔ اگر تم نے شور کیا اور دشمنوں نے تمہیں دیکھ لیا تو وہ ہمیں آگے نہیں جانے دیں گے۔‘‘
ہم جیسے جیسے آگے بڑھتے جار ہے تھے، ٹینکوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔ فوجی گاڑیاں اور ایک دوسرے کے ساتھ بنے ہوئے مورچے ہمارے لیے کافی دلچسپ تھے۔ صمد گاڑی سے اترتا، مورچوں میں جاتا اور مورچوں میں موجود جنگجوؤں سے بات چیت کر کے واپس آ جاتا۔ بمباری کی آوازیں دور و نزدیک سے آ رہی تھیں۔ ایک جگہ ہم کھڑے ہو گئے۔ صمد ہمیں ایک دوربین کے پیچھے لے گیا اور ٹیلے اور خندقیں ہمیں دکھانے لگا: ’’وہ دشمن کی سرحد ہے۔ وہ ٹینک دیکھ رہی ہونا، وہ ٹینک اور مورچے عراقیوں کے ہیں۔‘‘
ظہر کےنزدیک کا وقت تھا کہ ہم ایک ذیلی سڑک پر مڑ گئے۔ صمد نے ایک خندق کے پیچھے گاڑی کھڑی کی اور ہم نیچے اترے۔ اس نے خود ہی چولہا بنایا۔ کیتلی کو گاڑی سے لے آیا۔ گاڑی کی ڈگی میں پڑے ایک ڈبے سے کیتلی میں پانی ڈالا۔ چولہے میں آگ لگائی اور مچھلی کے کچھ کنسرو کیتلی میں گرم ہونے کے لیے ڈال دیے۔ میں اور بچے چولہے کے اردگرد بیٹھ گئے۔ صمد نےمہدی کو اٹھایا اور اسے دوسری طرف موجود مورچے میں لے گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ ہمیں دیکھ کر وہاں موجود کم سن اور عمر رسیدہ جنگجوؤں کو اپنے خاندانوں، ماؤں، بہنوں اور بھائیوں کی یاد آ گئی تھی۔ وہ بہت شفقت اور گرمجوشی سے ہمارے ساتھ باتیں کر رہے تھے۔ سمیہ کو گود میں اٹھا لیتے اور مہدی کو بوسے دے رہے تھے۔ محاذ کے پیچھے کے حالات پوچھ رہے تھے۔دن کے کھانے کا وقت ہو گیا تو ہم نے کمبل بچھایا اور اپنا چھوٹا سا دسترخوان اس پر لگا کر بیٹھ گئے۔ صمد نے کنسرو کھول کر پلیٹوں میں ڈالے اور ہر ایک کا حصہ اس کے آگے رکھنے لگا۔ بچوں کو بھوک لگ رہی تھی وہ مزے لے لے کر روٹی اور مچھلی کھانے لگے۔
دن کے کھانے کے بعد صمد ہمیں عراقیوں کے وہ مورچوں دکھانے کے لیے لے گیا جو ایرانیوں نے قبضے میں کر لیے تھے۔ وہ ان جگہوں، مورچوں، سرحدوں اور آپریشنز کے بارے میں بچوں کو ایسے بتا رہا تھا جیسے وہ بڑی عمر کے انسان ہوں یا کوئی کمانڈر ہوں جو محاذ کے علاقے کا معائنہ کرنے آئے ہوں۔
غروب کے وقت کہ جب علاقے میں تاریکی پھیلنے لگی تو مجھے بہت عجیب سا محسوس ہوا۔ میں نے صمد سے کہا: ’’صمد! چلو واپس چلیں۔‘‘
اس نے کہا: ’’ڈر رہی ہو؟!‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں، لیکن کافی پریشان ہو گئی ہوں۔ اچانک بابا کی یاد آنے لگ گئی ہے۔‘‘
ایک چودہ پندرہ سالہ لڑکا اندھیرے میں کھڑا مجھے دیکھ رہا تھا۔ میرا دل اس کے لیے کڑھنے لگا۔ میں نے کہا: ’’اس کی ماں بے چاری حتماً اس کے لیے پریشان اور بے قرار ہو گی۔ یہ بے چارے اس تاریکی میں کیا کر رہے ہیں؟!‘‘
صمد نے زور سے جواب دیا: ’’جنگ لڑ رہے ہیں۔‘‘
پھر وہ گاڑی میں گیا اور کیمرہ لے آیا۔ کہنے لگا: ’’ٹھہرو، میں اسی حالت میں تمہاری ایک تصویر لے لوں۔‘‘
مجھ میں ہمت نہ تھی۔ میں نے کہا: ’’رہنے دو۔‘‘
اس نے سنی ان سنی کر دی اور میرے اور بچوں کی چند تصویریں اتار لیں۔ اس نے پوچھا: ’’اتنی پریشان کیوں ہو؟!‘‘
میں نے کہا: ’’میرا دل ان بچوں، ان جوانوں اور ان جنگجوؤں کے لیے کڑھ رہا ہے۔‘‘
اس نے کہا: ’’جنگ سخت ہوتی ہے۔ ہمارا وظیفہ یہی ہے، دفاع۔ تم عورتیں ایک اور ذمہ داری کی حامل ہو اور وہ ہے ان جوانوں کی درست اور اچھی تربیت کرنا۔ اگر تم عورتیں اچھی نہ ہوتیں تو یہ بہادر جوان اتنی اچھی تربیت سے آراستہ نہ ہوتے۔‘‘
میں نے کہا: ’’مجھے جنگ سے نفرت ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ سب لوگ صلح و صفائی سے زندگی گزاریں۔‘‘
اس نے کہا: ’’اللہ کرے امام زمانہ (عج) کا جلد از جلد ظہور ہو جائے تا کہ ہم سب اس آرزو تک پہنچ جائیں۔‘‘
جیسے ہی تاریکی پھیلی تو بموں اور گولوں کے پھٹنے کی آواز بھی زیادہ ہو گئی۔ ہم چلنے کے لیے گاڑی پر سوار ہو گئے۔ صمد نے پلٹ کر ایک دفعہ مورچوں کی طرف دیکھا اور کہا: ’’یہ سارےمیرے جوان ہیں۔ میں ہمیشہ انہی کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔ میراہم و غم یہی ہیں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ جو کچھ بھی میرے بس میں ہو میں ان کے لیے انجام دوں۔‘‘
ہم سارے رستے گھپ اندھیرے میں بغیر بتیاں روشن کیے سفر کرتے رہے اور میں مسلسل اس جنگجو نوجوان کے بارے میں سوچتی رہی اور اپنے آپ سے کہتی رہی: ’’وہ بےچارہ اس تاریکی اور سردی میں کس طرح اپنی ڈیوٹی دے گا اور کس طرح پوری رات گزارے گا۔‘‘
اگلے روز صبح جب صمد نماز کے لیے جاگا تو میں بھی جاگ گئی۔ میری ہمیشہ سے عادت تھی کہ نیند کے مکمل طور پر غائب ہونے تک بستر پر کروٹیں بدلتی رہتی۔ اکثر اوقات اتنی دیر تک بستر پر لیٹی رہتی کہ صمد نماز پڑھ کر فارغ ہو جاتا اور چلا جاتا؛ مگر اس روز میں جلدی اٹھ گئی، وضو کیا اور صمد کے ساتھ ہی نماز پڑھی۔ نماز کے بعد صمد نے ہمیشہ کی طرح جانے کے لیے وردی پہنی۔ میں نے کہا: ’’کاش ایسا ہوتا کہ تم پہلے دنوں کی طرح پھر دن کے کھانے پر گھر آتے۔‘‘
وہ ہنس پڑا اور مجھے ایسے دیکھنےلگا کہ میری بھی ہنسی نکل گئی۔ اس نے کہا: ’’تمہیں اپنے بابا کی یاد تو نہیں آ رہی؟‘‘
میں نے کہا: ’’بابا کے لیے دل پریشان تو ہو رہا ہے لیکن اگر تم ظہر کے وقت آ جایا کرو تو یہ پریشانی کچھ کم ہو جایا کرے۔‘‘
اس نے جانے کے لیے دروازہ کھولاتو مجھے آنکھ مار کر کہنے لگا: ’’قدم بیگم! تم دوبارہ بچوں والی باتیں کر رہی ہو۔‘‘
میں نے اپنی چادر اتار کر جائے نماز پر رکھ دی۔ صمد چلا گیا تو میں اٹھ کر باورچی خانے میں چلی گئی۔ دوسری خواتین بھی آ گئی تھیں۔میں نے ناشتہ بنایا اور آ کر بچوں کو بیدار کیا۔ ناشتہ کیا اور پیالیاں دھو کر بچوں کو نچلی منزل پر کھیلنے کے لیے بھیج دیا۔
پہلی منزل پر ایک بڑا ہال تھا جو ان کمبلوں سے بھرا ہوا تھا جو لوگوں نے امداد کی غرض سے محاذ پر بھیجے تھے۔ کمبل اس ہال میں محفوظ کیے جاتے تھے تا کہ جب ضرورت پڑے تو متعلقہ علاقوں میں بھیج دیے جائیں۔ یہ کمبل تہہ کر کے ایک دوسرے کے اوپر رکھ دیے گئے تھے۔ بعض جگہوں پر ان کمبلوں کی اونچائی چھت تک پہنچ گئی تھی۔ بچے ان کے اوپر چڑھ کر پھسلتے اور کھیلتے تھے۔ یہی بچوں کا واحد کھیل تھا۔ بچوں کے جانے کے بعد میں نے سمیہ کو دودھ پلا کر سلا دیا اور خود میلے کپڑے ایک تھال میں رکھے تا کہ حمام میں جا کر انہیں دھو دوں۔ اچانک ایک وحشتناک آواز نے پوری عمارت کو لرزا کر رکھ دیا۔ سارے لوگ ڈر کے مارے کمروں سے باہر آ گئے۔بچے خوف سے چیخنے لگے۔ میں نے تھال زمین پر رکھا اور کھڑکی کی طرف بھاگی۔ آدھی بیرک گرد اور مٹی میں گم ہو کر رہ گئی تھی۔ عورتیں چیختی چلاتی اِدھر اُدھر بھاگ رہی تھیں۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کروں۔ بیرک پر پہلی بار بمباری ہوئی تھی۔ میں بچوں کی طرف جانا چاہتی تھی کہ ایک اور دھماکے کی آواز آئی اور یوں لگا جیسے کسی نے مجھے دھکا دے دیا ہو۔ میں اچھل کر کمرے کے نچلے حصے کی طرف گر گئی۔ میرا سر گھومنے لگا لیکن مجھے بچوں کی فکر ہو رہی تھی۔لڑکھڑاتے ہوئے سمیہ کو اٹھایا اور بھاگ کی پہلی منزل کی طرف گئی۔ سمیہ ڈر گئی تھی۔ وہ رو رہی تھی اور چپ ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ بچے ابھی تک اسی کمرے میں کھیل رہے تھے۔ وہ کھیل میں اتنا مگن تھے کہ بمباری کی آواز کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوئے تھے۔ دوسری عورتیں بھی ڈر کر نیچے آ گئی تھیں۔ ہم بچوں کو آوازیں دے رہی تھیں کہ ایک اور بم پھٹنے کی آواز سے عمارت کانپ اٹھی۔ اس بار بچے بھی متوجہ ہو گئے اور ڈر کر ہمارے ساتھ لپٹ گئے۔ ایک عورت ہر کمرے میں گئی اور سب کو پہلی منزل کے ہال میں آنے کا کہنے لگی۔ ہم دس پندرہ بڑی عورتیں تھیں اور سات آٹھ بچے۔ بارود اور مٹی کی تیز بو ہال میں پھیل گئی تھی۔ بچے رو رہے تھے۔ ہمیں مردوں کی فکر ہو رہی تھی۔ ایک عورت نے کہا: ’’ہم لوگ سرحد سے زیادہ دور نہیں ہیں۔ اگر بیرک پر قبضہ ہو جاتا ہے تو ہم سب اسیر ہو جائیں گی۔‘‘
یہ باتیں سن کر میرا دل لرز کر رہ گیا۔ اپنے اور بچوں کے قید ہو جانے کی فکر نے مجھے بری طرح ڈرا دیا تھا۔ جب تھوڑا سکون ہو گیا تو ہم دوبارہ اوپر والی منزل پر چلی گئیں اور کھڑکیوں میں کھڑی ہو کر دھوئیں کے پار دیکھنے کی کوشش کرنے لگیں تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ بیرک میں کہاں بمباری ہوئی ہے۔ اتنے میں ایک عورت نے بلند آواز سے کہا: ’’وہاں دیکھو، یاامامِ ہشتمؑ!([1])‘‘
کچھ جہاز انتہائی نچلی پرواز کر رہے تھے حتی کہ ہم ان سے گرنے والے بموں کو دیکھ رہی تھیں۔ ایک ہی کام جو اس وقت ہمارے بس میں تھا وہ یہ کہ زمین پر لیٹ جائیں۔ ہم نے اپنے ہاتھ سروں پر رکھ کر منہ کھول لیے اور چیخنے لگیں: ’’بچو! اپنے ہاتھ سروں پر رکھ لو اور منہ نہ کھولنا۔‘‘ خدیجہ، معصومہ اور مہدی ڈر کے مارے میرے ساتھ لپٹے ہوئے تھے اور ان کی آواز تک نہیں نکل رہی تھی، لیکن سمیہ رو رہی تھی۔ اسی وقت یکے بعد دیگرے دھماکوں کی آوازسے زمین لرز کر رہ گئی۔ میں سوچ رہی تھی کہ اب سب کچھ ختم ہوگیا۔ اب ہم سب مر جائیں گے۔ ہم تقربیاً پندرہ منٹ تک اسی حالت میں لیٹی رہیں۔ اس کے بعد ایک ایک کر کے سب نے سر زمین سے اٹھائے۔ دھواں کمرے میں پھیل گیا تھا۔ شیشے چکنا چور ہو گئے تھے لیکن شیشوں پر لگی سلوشن ٹیپ نے شیشوں کی کرچیوں کو نیچے زمین پر یا ہمارے اوپر نہیں گرنے دیا تھا۔ شیشے وہیں کھڑکھیوں میں لگے لگے سلوشن ٹیپ کے اندر چور ہو گئے تھے۔ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ کسی کو کچھ نہیں ہوا۔ باہر سے مختلف قسم کی نہ سمجھ آنے والی آوازیں آ رہی تھیں۔ ایک عورت نے کہا: ’’باہر چلتے ہیں۔ یہاں خطرہ ہے۔‘‘
ہم اٹھ کر عمارت سے باہر آ گئیں۔ دھواں اور گرد و غبار اتنا زیادہ تھا کہ مشکل سے چند قدم تک دکھائی دے رہا تھا۔ اب ہم سوچ رہی تھیں کہ کہاں جائیں۔ ایک عورت نے کہا: ’’کچھ دن پہلے جب بیرک پر بمباری ہوئی تھی تو میرے بابا گھر پر تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر ایسی صورت حال ہو جائے تو گھروں میں نہ ٹھہرو بلکہ آس پاس کے دروں میں جا کر چھپ جاؤ۔‘‘
ہمارے گھروں کے بعد بیرک کی کانٹے دار تاریں تھیں لیکن ایک جگہ سے ایک تار کچھ ٹوٹی ہوئی تھی اور جب بھی میں صمد یا دوسری عورتوں کے ساتھ چہل قدمی کے لیے کہیں جاتی تو ہم وہی سے گزر کر جاتے۔ لیکن اب اس اضطراب و پریشانی کی حالت میں بچوں کو ساتھ لیے ان تاروں اور گڑھوں میں سے گزرنا بہت مشکل تھا۔ بچے چل نہیں رہے تھے اور منہ بسورے آگے جانے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ آخری بمباری کو آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا۔ ہم مکمل طور پر بیرک سے دور ہو چکی تھیں اور ایک خشک دریا کے کنارے پہنچ گئی تھیں جس پر ایک قدیم پل بنا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر پل پر ٹھہریں اور وہاں سے بیرک اور اپنے اپارٹمنٹس کو دیکھنے لگیں کہ اچانک آسمان پر پھر کچھ جہاز نظر آئے۔ جہاز اتنے نیچے تھے کہ ہم آسانی سے ان میں بیٹھے پائلٹس کو دیکھ سکتی تھیں اور وہ بھی ہمیں دیکھ رہے تھے۔ ڈر کے مارے ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ کیسے ہم پل پر سے دوڑتی ہوئی اتریں اور اس کے نیچے چلی گئیں۔ تھوڑی دیر بعد ہم نے دوبارہ کچھ دھماکے سنے۔ ایک عورت بہت ڈر گئی تھی۔ وہ کہنے لگی: ’’اگر پائلٹس نے ہمیں دیکھ لیا تو یہیں اتر کر ہمیں اسیر کر لیں گے۔‘‘
ہم نے اسے بہتیرا سمجھایا کہ اس طرح کی زمین پر جہاز نہیں اتر سکتے لیکن وہ نہ مانی اور بار بار یہی بات دہرائے چلی جا رہی تھی اور دوسروں کو بھی ڈرا رہی تھی۔ ہمیں زیادہ فکر اس عورت کی تھی جو حاملہ تھی۔ ہم نے کوشش کی کہ ایک دوسرے کو واقعات سنائیں اور باتیں کریں تا کہ اس کا ڈر کچھ کم ہو لیکن جہاز پیچھا چھوڑنے والے نہیں تھے۔ تقریباً ہر آدھے گھنٹے بعد سات آٹھ جہاز آتے اور بیرک پر بمباری کر کے چلے جاتے۔ ظہر کا وقت ہو چکا تھا۔ ہم اپنے ساتھ نہ پانی لائی تھیں اور نہ ہی کچھ اور کھانے کی چیز ہمارے پاس تھی۔ بچے بھوک سے کسمسا رہے تھے۔ دوسری طرف ہمیں مردوں کی فکر کھائے جارہی تھی کہ اگر وہ لوگ ہماری طرف آئے تو انہیں معلوم نہیں ہو سکے گا کہ ہم کہاں ہیں۔ ایک عورت جسے بہت سی دعائیں زبانی یاد تھیں، اس نے دعائے توسل پڑھنا شروع کر دی۔ ہم بھی اس کے ساتھ تکرار کرنے لگیں۔ بچے رو رہے تھے۔ ہم کافی گھبرا چکی تھی۔ایک عورت نے جب یہ صورت حال دیکھی تو اٹھ کر کہنے لگی: ’’ایسا تو نہیں چلے گا۔ بچے بھی بھوکے ہیں اور ہم بھی۔ میں جا کر کچھ لاتی ہوں تا کہ سب کھا لیں۔‘‘ دو تین عورتیں اور بھی کھڑی ہو گئیں اور کہنے لگیں: ’’ہم بھی تمہارے ساتھ جاتی ہیں۔‘‘ ہم جانتی تھیں کہ کافی خطرناک کام ہے۔ پہلے تو ہم نے انہیں جانے سے منع کیا لیکن جب دیکھا کہ اب خطرہ کچھ کم ہو گیا ہے تو انہیں جانے دیا اور تاکید کی کہ جلدی واپس آئیں۔
ان عورتوں کے جانے کے بعد ہم کافی مضطرب ہو گئیں اور ہمارا اضطراب کوئی بے محل بھی نہیں تھا کیونکہ ان کے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد پھر جہاز نظر آنے لگے۔ ہمارے دل اچھل کر حلق میں آ گئے۔ اس بار بھی جہازوں نے بیرک پر بمباری کی تھی۔ ہر لمحہ ہمارے لیے ایک سال کے برابر گزر رہا تھا یہاں تک ہمیں دور سے وہ دونوں عورتیں نظر آ ہی گئیں۔ وہ زگ زیگ کے انداز میں دوڑتی ہوئی آ رہی تھیں۔ بالآخر وہ پہنچ گئیں۔ وہ اپنے ساتھ بہت سی کھانے پینے کی چیزیں، پانی، روٹی اور پھل وغیرہ لے آئی تھیں۔ بچے تو بھوکے تھے ہی، انہوں نے سیر ہو کر کھایا اور تھوڑی دیر بعد ہماری ٹانگوں پر سو گئے۔
جتنا جتنا سہ پہر کا وقت نزدیک ہوتا جا رہا تھا ہماری پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ ہم نہیں جانتی تھیں کہ کیسا انجام ہمارے انتظار میں ہے۔ عورتیں جو پانی لائی تھیں، اس سے ہم نے وضو کیا اور نماز پڑھی۔ لمحات آہستہ آہستہ گزر رہے تھے اور بیرک پر بمباری ابھی تک جاری تھی۔
اب سورج غروب ہو چکا تھا اور ہماری پریشانی اور اضطراب بھی بڑھ گیا تھا۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کریں۔ گھروں کو واپس چلی جائیں یا اسی جگہ ٹھہری رہیں۔ کوئی چارہ نہ تھا۔ بالآخر اسی نتیجے پر پہنچیں کہ گھروں کو واپس چلتے ہیں۔ ان لمحات میں واحد چیز جو ہمارے لیے سکون کا باعث تھی وہ اس عورت کی نرم اور سوز انگیز آواز تھی جو دعا پڑھ رہی تھی۔ اس بار وہ ’’أَمَّنْ یُجِیْبُ‘‘([2]) کا ورد کر رہی تھی۔
جب ہم اپنے اپارٹمنٹس کے نزدیک پہنچیں تو دیکھا کہ کچھ مرد وہاں پریشانی اور اضطراب میں گھوم رہے ہیں۔ انہوں نے جیسے ہی ہمیں دیکھا تو ہماری طرف دوڑے ہوئے آئے۔ ان میں سے ایک صمد بھی تھا۔ تھکا تھکا اور خاک آلودہ چہرہ۔ ہم نے کوئی بات کیے بغیر بیرک کے حالات پوچھے۔ جو کچھ معلوم ہوا وہ یہ تھا کہ بیرک تقریباً ملیا میٹ ہو گئی ہے اور کافی لوگ شہید اور زخمی ہو گئے ہیں۔ کچھ گاڑیاں دروازے پر کھڑی تھیں۔ صمد نے اشارہ کیا کہ ہم گاڑیوں میں سوار ہو جائیں۔ میں نے پوچھا: ’’کہاں؟!‘‘
اس نےبتایا: ’’ہمدان۔‘‘
اس نے بچوں کو گاڑی میں سوار ہونے میں مدد کی۔
میں نے کہا: ’’ہمارا سامان! تھوڑی دیرٹھہر جاؤ میں جا کر بچوں کے کپڑے لے آؤں۔‘‘
وہ اسٹیئرنگ پر بیٹھ کر بولا: ’’اصلاً وقت نہیں ہے۔ حالات اضطراری ہیں۔ جلدی کرو۔ تمہیں پہنچا کر مجھے واپس بھی آنا ہے۔‘‘
میں نے گاڑی پر سوار ہوتے ہوتے کہا: ’’کم سے کم سمیہ کے کپڑے اور اپنی چادر تو لے آؤں۔۔۔‘‘
لگتا تھا وہ غصے میں ہو گیا: ’’سوار ہو۔ کہہ تو رہا ہوں کہ حالات ایمرجنسی ہیں۔ شاید دوبارہ بیرک پر بمباری ہو جائے۔‘‘
میں نے گاڑی کا دروازہ بند کر کے پوچھا: ’’تم ہماری خبر لینے کیوں نہ آئے۔ صبح سے اب تک کہاں تھے؟!‘‘
وہ جلدی جلدی گاڑی کے گیئر تبدیل کر رہا تھا، ایکسیلیٹر پر پاؤں رکھا ہوا تھا اور آگے کی طرف بڑھتا چلا جا رہا تھا: ’’کاش تم دیکھتیں کہ ہماری کیا حالت تھی۔ تقریباً دوسری بار جب بیرک پر بمباری ہوئی تو میں سمجھ گیا کہ عراقی بیرک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اپنی یونٹ کو بیرک سے نکال لوں۔ ایک ایک جوان کو خاردار تاروں کے نیچے سے گزار کر نکالا اور انہیں نزدیک ہی ایک درے میں بھیج دیا۔ خدا کا شکر کہ کسی کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ تین سو جوان سارے سلامت ہیں؛ لیکن دوسری یونٹوں کے بہت سے جوان شہید اور زخمی ہو گئے ہیں۔ کاش میں دوسری یونٹوں کے جوانوں کو بھی بچا سکتا۔‘‘
رات ہو گئی تھی اور ہم سنسان سڑک پر آگے ہی آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ مجھے اچانک اس نوجوان لڑکے کی یاد آ گئی جسے میں نے اس رات سرحد پر دیکھا تھا۔ مجھے دکھ ہونے لگا، میں نے پوچھا: ’’صمد، اس وقت تمہارے جوان کہاں ہیں؟ ان کے پاس کچھ کھانے کے لیے ہے؟ رات کو کہاں سوئیں گے؟‘‘
اس کی نظریں سامنے تاریک سڑک پر تھیں۔ سر ہلا کر کہنے لگا: ’’وہ وہیں درے میں ہیں۔ جگہ تو پُر امن ہے مگر کھانے کو کچھ نہیں ہے ان کے پاس۔ صبح تک انہیں صبر کرنا پڑے گا۔‘‘
مجھے ان کا بہت زیادہ افسوس ہونے لگا: ’’کاش تم وہیں رہ جاتے۔‘‘
اس نے تعجب سے پلٹ کر مجھے دیکھا اور کہا: ’’تو تمہیں کون لے کر جاتا؟!‘‘
میں نے کہا: ’’تمہارا کوئی ساتھی نہیں ہے؟! یا کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم دوسرے خانوادوں کے ساتھ چلے جائیں۔‘‘
میں نے تاریکی میں دیکھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ اس نے کہا: ’’نہیں ہو سکتا، بالکل نہیں۔ گاڑیاں چھوٹی ہیں۔ جگہ نہیں ہے ان میں۔ جہاں تک ممکن تھا سب اپنے ساتھ دوسرے خاندانوں کو بھی لے گئے ہیں، ورنہ میں تو خدا کی قسم حتماً رُک جاتا۔ کوئی چارہ نہیں ہے۔ مجھے خود ہی تمہیں لے کر جانا پڑے گا۔‘‘
میرا دل بھر آیا تھا: ’’زخمیوں اور شہداء کا کیا ہو گا؟!‘‘
اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
میں نے کہا: ’’کاش مجھے ڈرائیونگ آتی ہوتی!‘‘
اس نے دوبارہ گیئر تبدیل کیا اور ایکسیلیٹر پر زیادہ دباؤ ڈالتے ہوئے کہا: ’’خدا کے بھروسے جائیں گے۔ انشاء اللہ صبح تک میں واپس آ جاؤں گا۔‘‘
اس اندھیرے میں بھی میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا۔ اس نوجوان کاچہرہ ایک لحظے کے لیے بھی میرے ذہن سے نہیں اتر رہا تھا۔ میں سوچ رہی تھی کہ اب وہ کہاں ہو گا؟! کیا کر رہا ہو گا، بلکہ وہ سارے کے سارے تین سو جوان اس ٹھنڈے درے میں کھائے پیے بغیر کسی طرح رات گزاریں گے۔ دوسری یونٹس کا کیا حال ہو گا؟! زخمیوں اور شہداء کا کیا بنے گا؟!
اگلے دن ہم ہمدان پہنچ گئے۔ صمد ابوذر بیرک واپس چلا گیا اور پھر عید تک واپس نہ آگیا۔
جون ۱۹۸۵ کے ایام تھے۔ کچھ ہفتوں سے میری حالت کچھ اچھی نہیں تھی۔ سر چکرا جاتا اور خواب آلودگی کی کیفیت طاری ہو جاتی۔ ایک دن سوچا کہ ڈاکٹر کے پاس چلی جاؤں۔ بچوں کو اپنی ہمسائی خانم دارابی کے پاس چھوڑا اور خود کلینک چلی گئی۔ وہاں پر موجود خاتون ڈاکٹر نے میرا معائنہ کرنے کے بعد ایک ٹیسٹ لکھ دیا اور کہا: ’’بہتر یہ ہے کہ پہلے آپ یہ ٹیسٹ کروا لیں۔‘‘
میں نے اسی دن ٹیسٹ کروا لیا اور کچھ دن بعد اس کی رپورٹ لے کر دوبارہ کلینک چلی گئی۔ خاتون ڈاکٹر نے رپورٹ دیکھتے ہی کہا: ’’آپ تو امید سے ہیں۔‘‘
اچانک زمین میرے سر کے گرد گھومنے لگی۔ ڈاکٹر کی میز کا کونہ پکڑ لیا کہ کہیں گر نہ جاؤں۔ ہاتھ پاؤں بے جان ہو گئے اور زیر لب کہا: ’’یا امام زمان (عج)!‘‘
ڈاکٹر نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بیٹھنے میں میری مدد کرنے لگی۔ اس نے نرمی سے پوچھا: ’’بہن، کیا ہوا؟! پہلے تمہارے کتنے بچے ہیں؟‘‘
میں نے بے چین ہو کر کہا: ’’میرا چوتھا بچہ ابھی چھ ماہ کا ہے۔‘‘
ڈاکٹر نے میرا ہاتھ تھام کر کہا: ’’تو پھر تمہیں اتنا جلدی حاملہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن اب ہو گئی ہو تو پریشان ہونے کی بجائے بہتر ہے کہ اپنی اور اس بچے کی فکر کرو۔ اس کے بعد ہر ماہ میرے پاس باقاعدگی سے آتی رہو تاکہ میری نگرانی میں رہو۔‘‘
میں نے کہا: ’’ڈاکٹر! یعنی واقعاً یہ رپورٹ صحیح ہے؟! شاید میں حاملہ نہ ہوں۔‘‘
ڈاکٹر ہنس کر کہنے لگی: ’’خوش قسمتی سے یا بدقسمتی سے۔ مجھے پورے یقین سے یہی کہنا پڑے گا کہ اس لیبارٹری کی رپورٹس مکمل طور پر صحیح اور دقیق ہوتی ہیں۔‘‘
میں نہیں جانتی تھی کہ کیا کروں، کہاں جاؤں۔ اپنا درد کسے بیان کروں۔ کیسے ان چھوٹے بڑے بچوں کے ساتھ پھر حمل کا دورانیہ طے کروں۔ خدایا اب پھر کیسے میں ایک بچے کو جنم دوں۔ ہائے دوبارہ پھر کیسی سختیاں مجھے برداشت کرنا پڑیں گی۔ نہ اب مجھ میں میلے کپڑے دھونے اور کام کرنے کی ہمت ہے اور نہ ہی بچوں کو پالنے کا حوصلہ۔
خاتون ڈاکٹر نے کچھ دوائیں مجھے لکھ دیں اور مجھے پوری تسلی دی۔ وہ میرے ساتھ باتیں کر رہی تھی اور میرا دھیان کہیں اور پہنچا ہوا تھا۔ میں اٹھ کر کلینک سے باہر آ گئی۔ کلینک کے احاطے میں لوگوں کے نظروں سے دور ایک درخت کے نیچے ایک خالی جگہ نظر آ گئی۔ میں وہاں بیٹھ گئی اور چہرے پر چادر اوڑھ کر زاروزار رونے لگی۔ کاش میری بہن اس وقت میرے پاس ہوتی۔ کاش شینا میرے پاس ہوتیں۔ کاش صمد یہاں ہوتا۔ اے خدا! آخر کیوں؟! تُو تو میری زندگی کو دیکھ رہا ہے۔ تو جانتا ہے کہ میں اس شہر میں اکیلی اور اجنبی ہوں۔ اس بے کسی کے عالم میں کیسے یہ سب کام انجام دوں اور بچہ بھی جنم دوں۔ خدایا کم از کم کوئی حل تو کر۔
میں اپنے آپ سے اسی طرح باتیں کرتی اور روتی جا رہی تھی۔ جب تھوڑا ہلکی ہو گئی تو گھر آ گئی۔ بچے خانم دارابی کے گھر میں تھے۔ جب انہیں لینے گئی تو خانم دارابی میری پریشانی بھانپ گئی۔ اس نے ماجرا پوچھا۔ پہلے تو میں نے چھپانے کی کوشش کی لیکن بالآخر اسے سارا قضیہ بتا دیا۔ اس نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا: ’’قدم خانم! ناشکری نہ کرو۔ دعا کرو کہ خدا تمہیں سالم بچہ دے۔‘‘
میں پریشانی کے عالم میں بچوں کو لے کر گھر آ گئی۔ سیدھی کپڑوں والی الماری کی طرف گئی اور اپنی حاملگی والی قمیص([3]) اٹھائی جو میں سب بچوں کی دفعہ پہنتی رہی تھی۔ غصے سے اسے درمیان سے چاک کیا اور ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ میں روتے روتے اپنے آپ سے کہہ رہی تھی: ’’جب تک یہ قمیص گھر میں ہے، میں حاملہ ہی ہوتی رہوں گی۔ اسے پھاڑ ہی دیتی ہوں تا کہ جان چھوٹ جائے۔‘‘ بچے نہیں جانتے تھے کہ میں کیا کر رہی ہوں۔ وہ مبہوت ہو کر مجھے دیکھ رہے تھے۔ ٹکڑے ٹکڑے قمیص کو اٹھا کر میں نے کوڑے دان میں پھینک دیا اور مضبوطی سے اس کا ڈھکن بند کر دیا۔
خانم دارابی، جس کا دل مجھے دیکھ کر بھر آیا تھا، ایک پتیلے میں کھانا لا کر باورچی خانے میں آ گئی۔ میں اتنی پریشان تھی کہ دروازے کی آواز ہی نہ سن پائی۔ بچوں نے اس کے لیے دروازہ کھول دیا تھا۔ جب اس نے مجھے اس حالت میں دیکھا تو وہ میرے پاس بیٹھ گئی اور کافی دیر تک مجھ سے باتیں کرتی رہی۔ وہ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے بارے میں بتانے لگی جن کے سات سات آٹھ آٹھ بچے تھے۔ اور ان خانوادوں کا بھی بتانے لگی کہ جن کے دلوں میں ایک بچے کی حسرت باقی رہ گئی تھی۔ ان خاندانوں کا بھی اس نے بتایا جن کی ناشکری کی وجہ سے ان کے گھر میں سالم بچہ پیدا نہ ہوا۔ خانم دارابی کی باتوں سے مجھے کچھ سکون ملا۔ وہ اٹھی اور دسترخوان بچھا کر کھانا لگا دیا اور اصرار کر کے مجھے کھانے کا کہنے لگی۔ وہ کہہ رہی تھی: ’’گناہ ہے۔ ان بچوں کو تو پریشان نہ کرو۔ان کا باپ یہاں نہیں تو کم سے کم تم تو انہیں پریشان نہ کرو۔‘‘
کچھ ہفتے گزر گئے ۔ بالآخر میں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا اور اس حالت کی عادت کر لی۔
ایک ماہ بعد صمد آ گیا۔ اس دفعہ اس کا ہمدان میں دو ہفتے تک ٹھہرنے کا ارادہ تھا۔ ہمیشہ کے برعکس اس بار وہ خود ہی سمجھ گیا کہ میں امید سے ہوں۔ اس نے میری پریشانی دیکھی تو کہا: ’’ایسی باتوں پر پریشان نہیں ہوا کرتے بلکہ بہت خوش ہونا چاہیے۔ خدا نے کوئی لاعلاج مرض تو نہیں دے دیا نا، نعمت دی ہے تو ہمیں اس کا شکر بجا لانا چاہیے۔ جلدی کرو، تیار ہو جاؤ۔ آج ہم جشن منائیں گے۔‘‘
اس نے خود ہی بچوں کے کپڑے بدلے حتی کہ سمیہ کو اسی نے تیار کیا۔ کہنے لگا: ’’تم بھی تیار ہو جاؤ۔ آج ہم بازار جائیں گے۔‘‘
مجھے اصلاً یقین نہیں آ رہا تھا۔ صمد کبھی بھی بچوں کو گلی تک لے کر نہیں گیا تھا، جبکہ آج وہ خود اصرار کر رہا تھا کہ سارے بازار چلیں۔ اگرچہ میرے اندر ہمت نہیں تھی لیکن چونکہ بچے خوش تھے اس لیے میں بھی راضی ہو گئی۔ ہم ہمدان کے مظفریہ بازار چلے گئے۔ اس نے بچوں کے لیے ان کی پسند کے مطابق کپڑے اور کھلونے خریدے۔ میں بہتیرا کہتی کہ یہ اچھا نہیں ہے یا زیادہ دیر تک نہیں چلے گا لیکن وہ کہہ دیتا: ’’تم کچھ نہ کہو۔ بچوں کو خوش ہونے دو۔ ہم جشن منانا چاہتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد ہم سارے ایک اور دکان پر گئے اور اس نے میرے لیے چادر اور سکارف خریدے۔ ایک لمبی اور کھلی قمیص بھی میرے لیے خرید لی جس پر چھوٹے چھوٹے گلابی پھول بنے ہوئے تھے اور اس کی زمین بادامی اور سفید رنگ کی تھی۔ اس نے کہا: ’’یہ تمہاری آخری حاملگی والی قمیص ہے جو ہم خرید رہے ہیں۔ اس کے بعد بس۔‘‘
میں نے آہستہ سے ہونٹ کاٹ لیے۔ دکاندار اگرچہ عورت تھی جو دکان کے نچلے حصے سے کرتیاں اور قمیصیں لا رہی تھی اور ہماری آواز بھی نہیں سن رہی تھی، اس کے باوجود بھی مجھے شرم آ گئی۔
جب ہم گھر پہنچے تو ظہر ہو چکی تھی۔ صمد باہر نکل گیا اور دن کا کھانا خرید لایا۔ بچے خوش ہو ہو کر اپنے کپڑے ہمیں دکھا رہے تھے اور اپنے کھلونوں سے کھیل رہے تھے۔ دن کا کھانا کھا کر وہ اس قدر تھک گئے تھے کہ نئے کپڑے پہنے اور کھلونے ہاتھوں میں لیے ہوئے اسی حالت میں سو گئے۔
اگلی صبح صمد چھاؤنی میں چلا گیا۔ مجھے بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا۔ میں سوچ رہی تھی کہ میں کس قدر خوش بخت ہوں۔ زندگی کتنی خوبصورت ہے۔ اب مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ایک دو ماہ کی خستگی، بے ہمتی اور بے چینی کے بعد میں اٹھی اور گھر کو اوپر سے نیچے تک جھاڑو لگایا اور جھاڑ پونچھ کر دی۔ چولہے پر آبگوشت چڑھا دیا۔ بچوں کو نہلا دیا۔ صحن میں پانی لگا کر جھاڑو لگا دیا۔ باورچی خانے کو دھویا اور کیبنٹس پر جھاڑن مار دی۔ گھر پھول جیسی خوشبو دینے لگا تھا۔ دن کے کھانے کے وقت صمد آ گیا۔ وہ دروازے ہی سے ہنستا ہوا آ رہا تھا۔ بچے اس کے اردگرد ہو گئے اور اس سے لپٹ گئے۔ وہ ہال میں آ کر بیٹھ گیااور بچوں کو گود میں لے کر بوسے دیتے ہوئے کہنے لگا: ’’واہ واہ، قدم بیگم! کیسی اچھی خوشبو آ رہی ہے۔‘‘
میں نے ہنس کر کہا: ’’آبگوشت لیمو ہے، جو تمہیں بہت پسند ہے۔‘‘
وہ اٹھ کر کہنے لگا: ’’تم اتنی اچھی ہو کہ امام رضا علیہ السلام تمہیں بلا رہے ہیں۔‘‘
میں نے تعجب سے اسے دیکھا اور بے یقینی کی حالت میں پوچھا: ’’ہم مشہد جا رہے ہیں؟!‘‘
وہ بچوں کو پیار کرتے ہوئے بولا: ’’تم مشہد جانا چاہتی ہو؟!‘‘
میں ہال میں آ گئی اور کہا: ’’تمہیں خدا کا واسطہ! تنگ نہ کرو۔ صحیح بتاؤ۔‘‘
وہ سمیہ کو گود میں لےکر کھڑا ہو گیا: ’’آج اتفاق سے اپنے ایک ساتھی سے سنا کہ خواتین کو مشہد کی زیارت پر لے کر جا رہے ہیں۔ میں نے چھان بین کی تو معلوم ہوا کہ ایسا ہی ہے۔ میں نے دیکھا کہ اچھا موقع ہے تو تمہارا نام لکھوا آیا ہوں۔‘‘
میں نے کہا: ’’اور تم؟!‘‘
اس نے سمیہ کو بالوں پر پیار کرتے ہوئے کہا: ’’نہیں، تم ماں ہو۔ یہ سفر فقط خواتین کے ساتھ مخصوص ہے۔ باپ گھروں میں ہی رہیں گے۔‘‘
میں نے کہا: ’’میں نہیں جاؤں گی۔ یا ہم اکٹھے جائیں گے یا اصلاً رہنے ہی دو۔ میں کیسے ان بچوں کے ساتھ جاؤں گی۔‘‘
اس نے سمیہ کو زمین پر رکھتے ہوئے کہا: ’’پہلے تو ہمارا آبگوشت لے آؤ۔ مجھے بہت سخت بھوک لگی ہے۔ میں نے تمہارا نام لکھوا دیا ہے۔ تمہیں جانا ہو گا۔ تمہاری طبیعت اور مزاج کے لیے رہے گا۔ خدیجہ اور معصومہ کو میں رکھ لوں گا۔ مہدی اور سمیہ کو تم لے جاؤ۔ میں نے شینا کا نام بھی لکھوا دیا ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’شینا تو نہیں جا سکتیں۔ تمہیں معلوم تو ہےکہ انہیں دل کا دورہ پڑ چکا ہے۔ سفر کرنا ان کے لیے مشکل ہو گیا ہے۔ وہ ہمدان تک بہت مشکل سے آتی ہیں تو یہ اتنا سارا راستہ کیسے طے کریں گی۔ نہیں، شینا نہیں جائیں گی۔ ‘‘
میں نے کہا: ’’میرا خیال ہے کہ تمہاری ماں تمہارے ساتھ جائیں گی تو اس طرح تم اکیلی بھی نہیں ہو گی۔‘‘
میں نے کہا: ’’لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ تم بھی ساتھ ہوتے۔‘‘
اس نے کہا: ’’زیارت کے لیے لیاقت اور اہلیت کی ضرورت ہوتی ہے جو میرے پاس نہیں ہے۔ تم خوش قسمت ہو۔ جاؤ اور امام رضا علیہ السلام سے ہماری بھی سفارش کر دینا۔ کہنا کہ یا امام رضاؑ میرے شوہر کو انسان بنا دے۔‘‘
میں نے کہا: ’’ہماری قسمت دیکھ رہے ہو۔ اب تم ہمدان میں رہو گے اور مجھے وہاں جانا ہو گا۔‘‘
اس دفعہ وہ ہنسی سے بے حال ہو گیا: ’’تم سچ کہتی ہو، ہاں! حقیقت بھی یہی ہے کہ یا تم اس گھر میں رہو گی یا میں۔‘‘
اسی رات میں نے اپنا بیگ باندھ لیا اور اگلی صبح ہم چھاؤنی چلے گئے۔ طے یہ پایا تھا کہ بسیں وہاں سے چلیں گی۔ ہم بڑے ہال میں بیٹھے تھے۔ سمیہ میری گود میں اور مہدی کو میری ساس نے پکڑ رکھا تھا۔ خدیجہ اور معصومہ بھی ہمارے ساتھ ہی تھیں۔ گاڑیوں کے تیار ہونے تک ہمارے لیے فلم لگا دی گئی تھی۔ ایک عورت ہال میں آئی اور اونچی آواز میں کہنے لگی: ’’خانم محمدی کو باہر بلا رہے ہیں۔‘‘
میں نے سمیہ کو اپنی ساس کے حوالے کیا اور دروازے کی طرف چلی گئی۔
صمد سیڑھیوں پر کھڑا تھا۔ میں نے پریشان ہو کر پوچھا: ’’کیا ہوا؟!‘‘
کہنے لگا: ’’پہلے مژدگانی دو۔‘‘
میں نے ہنس کر کہا: ’’ٹھیک ہے، تمہارے لیے سوغات لے آؤں گی۔‘‘
اس نے آگے بڑھ کر آہستہ سے کہا: ’’یہ بچہ جو ابھی راستے میں ہے، کا فی خوش بخت ہے۔ اس کا خیال رکھنا۔‘‘
پھر میرے پیٹ کی طرف دیکھ کر کہنے لگا: ’’کیسا رہے گا، اگر یہ بیٹی ہو تو ہم اس کا نام بھی قدم خیر رکھ دیں۔‘‘
وہ جانتا تھا کہ میرا یہ نام مجھے اچھا نہیں لگتا، اسی لیے وہ بعض اوقات مجھے چھیڑتا تھا۔
میں نے کہا: ’’تنگ نہ کرو، میری جان۔ جلدی بتاؤ، کیا ہوا ہے؟!‘‘
اس نے کہا: ’’گاڑی کے لیے ہمارا نام نکل آیا ہے۔‘‘
میں خوش ہو گئی: ’’مبارک ہو۔ ان شاء اللہ اگلی دفعہ اپنی گاڑی پر مشہد جائیں گے۔‘‘
اس نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے اور کہا: ’’الٰہی آمین، خدا جانتا ہے کہ زیارت پر جانے کا میرا کتنا دل چاہتا ہے۔‘‘
جب میں دوبارہ ہال میں واپس آئی تو اپنے آپ سے کہا: ’’کتنی اچھی بات ہے۔ صمد ٹھیک کہتا ہے کہ یہ بچہ بہت خوش طالع ہے۔ پہلے ہمارے لیے مشہد کی زیارت کا بندوبست ہو گیا اور اب گاڑی بھی۔ اللہ کرے اس کے بعد تیسری خبر بھی خیر کی ہو۔‘‘
ہم ابھی تک فلم ہی دیکھ رہےتھے کہ دوبارہ اسی عورت نے مجھے آواز دی: ’’خانم محمدی کو دروازے پر بلا رہے ہیں۔‘‘
صمد دروازے پر کھڑا تھا۔ میں نے پوچھا: ’’ہاں، کیا ہوا؟! کیا کوئی تیسری خوشخبری ہے؟!‘‘
ہنس کر کہنے لگا: ’’نہیں، بس دل تمہارے لیے بے چین ہو گیا۔ آؤ، جب تک گاڑیاں تیار نہیں ہوتیں ہم سڑک پر تھوڑی چہل قدمی کر لیں۔‘‘
میں نے ہنس کر کہا: ’’مرد! شرم کرو۔ تمہارا اور کوئی کام نہیں ہے؟!‘‘
اس نے کہا: ’’ایک گھنٹے کی چھٹی لے لیتا ہوں۔‘‘
میں نے کہا: ’’بچے کدھر جائیں گے؟! تمہاری ماں کو تنگ کریں گے۔ وہ بے چاری پہلے ہی سے کافی پریشان ہیں۔‘‘
اس نے کہا: ’’یہیں نزدیک تک جائیں گے، آرام گاہ بابا طاہر تک، پھر واپس آ جاتےہیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’اچھا، تم چھٹی لے کر آؤ، اتنی دیر میں مَیں تمہاری ماں سے کہتی ہوں۔‘‘
میں واپس آکر ہال میں بیٹھ گئی۔ لگتا تھا فلم ختم ہونے والی نہیں۔ تھوڑی دیر بعد وہی عورت آئی اور کہنے لگی: ’’خواتین، بس تیار ہے۔ آپ لوگ سوار ہو جائیں۔‘‘
میں نے سمیہ کو اٹھایا اور مہدی نے میری ساس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ خدیجہ اور معصومہ نے بھی میری چادر کا کونہ پکڑ لیا۔ بے چاری بچیاں سمجھ رہی تھیں کہ وہ بھی ہمارے ساتھ مشہد جائیں گی۔ وہ خوش ہو رہی تھیں اور چاہتی تھیں کہ جلدی سے گاڑی پر سوار ہو جائیں۔
ہم احاطے میں پہنچے تو میں نے دیکھا کہ صمد کھڑا ہے۔ وہ آگے بڑھا اور خدیجہ اور معصومہ کو پکڑ لیا۔ کہنے لگا: ’’قدم! میں نے چھٹی تو لے لی، مگر افسوس کہ ہم نہیں جا سکے۔‘‘
مجھے افسوس ہونے لگا۔ میں نے کہا: ’’کوئی بات نہیں، واپس آ کر ایک دن کھانا پکا کے ساتھ لے کر آرامگاہ بابا طاہر آ جائیں گے۔‘‘
صمد نے اپنا سر میرے نزدیک کر کے مجھ سے کہا: ’’قدم! کاش ایسا ہو سکتا کہ تم مجھے اپنے بیگ میں ڈال کر لے جاتیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’اب تمہیں میری قدر ہو رہی ہے؟! دیکھانا، کتنا مشکل ہے۔‘‘
عورتیں آہستہ آہستہ بس پر سوار ہو گئیں۔ ہم بھی کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ صمد نے خدیجہ اور معصومہ کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ وہ رو رہی تھیں اور ہمارے ساتھ آنا چاہ رہی تھیں۔ میں پہلی بار انہیں اکیلا چھوڑ کر جا رہی تھی۔ میرا دل بھر آیا تھا۔ لاکھ کوشش کی کہ نہ روؤں مگر ضبط نہ کر سکی۔
میں نے اپنا سر دوسری طرف کر لیا تاکہ بچیاں میرے آنسو نہ دیکھ سکیں۔ تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ صمد اور دونوں بچیاں سیڑھیوں پر کھڑے میرے لیے ہاتھ ہلا رہے تھے۔ میں نے جلدی سے آنسو پونچھے اور ان کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگی۔ بس چلی تو میں نے دیکھا کہ صمد بچیوں کا ہاتھ پکڑ کر بس کے پیچھے پیچھے دوڑ رہا ہے۔
وہی ہوا جیسا صمد نے کہا تھا۔ زیارت نے میری طبیعت کو بالکل بدل کر رکھ دیا۔ ہم لوگ صبح جا کر حرم میں بیٹھ جاتے۔ نماز قضا پڑھتے اور دعا و زیارت میں مشغول رہتے۔ بعض اوقات ہوٹل میں جانے کے لیے حرم سے باہر آتے تو آدھے راستے پر پشیمان ہو جاتے۔ دل حرم سے ہٹنے کا نام نہ لے رہا ہوتا تو دوبارہ حرم واپس چلے جاتے۔
ایک دن اسی طرح بیٹھی ضریح کی طرف مسلسل دیکھے جا رہی تھی کہ اچانک متوجہ ہوئی کہ کچھ لوگ لا الہ الا اللہ کہتے حرم میں داخل ہوئے۔ لوگوں کے ہاتھوں پر کچھ تابوت آہستہ آہستہ آگے کو بڑھ رہے تھے۔ لوگ پھول اور عرق گلاب تابوتوں کی طرف پھینک رہے تھے۔ جب میں نے کسی سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ مشہد کے شہداء ہیں اور آج ان کی تدفین ہے۔ نہیں معلوم مجھے اس وقت صمد کی یاد کیوں آنے لگی اور میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ بچوں کو ساس کے حوالے کیا اور تابوتوں کی پیچھے چلنے لگی۔ صمد کا پورا سراپا میری نظروں کے سامنے آ جاتا لیکن کوشش کے باوجود بھی اس کے لیے دعا نہ کر سکتی تھی۔ مجھے اس کی بات یاد آ گئی۔ اس نے کہا تھا: ’’خدایا، مجھے انسان بنا دے۔‘‘ میرا دل نہ چاہا کہ خدا سے اس کے انسان بننے کی دعا کروں۔ میری نظر میں صمد میں کوئی عیب تھا ہی نہیں۔ میں ایک طرف کھڑی ہو گئی اور لوگوں کے ہاتھوں پر پڑے تابوتوں کو دیکھنے لگی۔ عجیب غمناک منظر تھا۔ اس منظر نے میری حالت بدل کر رکھ دی۔ میں وہیں ٹھہر گئی یہاں تک کہ شہداء کا طواف مکمل ہوا اور وہ چلے گئے۔ اچانک دیکھا کہ ضریح کے اطراف میں بھیڑ کم ہو گئی ہے۔ اس دن تک ضریح تک میرا ہاتھ نہ پہنچ سکا تھا۔ اب خود کو ضریح سے ایک قدم کے فاصلے پر دیکھ رہی تھی۔ میں نے اپنے ہاتھ سے ضریح کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور آنسو بہاتے ہوئے کہنے لگی: ’’اے امام رضاؑ! آپ خود جانتے ہیں کہ میرے دل پر کیا گزر ہی ہے۔ میں اپنی زندگی کو آپ کے حوالے کرتی ہوں۔ جیسا آپ مناسب سمجھتے ہیں مجھے بتا دیں۔‘‘ میں نے لاکھ کوشش کی مگر میرے منہ سے صمد کے لیے دعا نہ نکل سکی۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ میں پُرسکون ہو گئی ہوں اور مجھے کوئی غم نہیں ہے۔ میرے اردگرد بھیڑ بڑھ چکی تھی اور عورتیں بری طرح فشار ڈال رہی تھیں۔میں نے بہت مشکل سے اپنے آپ کو اس ہجوم سے باہر نکالا۔عود اور عرق گلاب کی خوشبو نے پورے حرم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ میں نے اپنی ساس سے بچوں کو لیا اور ہم لوگ باہر آ گئے۔
پھر ہم بازار رضا چلے گئے۔ ہم نے پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ ساری خریداری کر کے اور سوغات وغیرہ خرید کر ہی آئیں گی۔ اگرچہ سمیہ کو میں نے اٹھا رکھا اور وہ تنگ بھی کر رہی تھی مگر جو کچھ ہم نے لینا تھا وہ خریدا اور ہوٹل واپس آ گئے۔
تیسرے روز ہم جیسے ہی حرم سے واپس ہوئے اور دن کا کھانا کھا رہے تھے تو ہمارے کاروان کی سالار خاتون ہماری میز کے پاس آ کر کہنے لگی: ’’خانم محمدی! آپ کو ہم سب سے زیادہ جلدی ہمدان واپس پہنچنا ہے۔‘‘
میں بری طرح گھبرا گئی۔ سر چکرانے لگا۔ اپنے آپ پر قابو نہ رہا۔ صمد اور بچوں کی فکر ہونے لگی۔ میں نے پوچھا: ’’کیا ہوا؟! کوئی حادثہ تو نہیں پیش آ گیا؟!‘‘
اس عورت کو احساس ہو گیا کہ اس نے اچھے طریقے سے بات نہیں کی اور مجھے بری طرح ڈرا دیا ہے تو اس نے معذرت کرنا شروع کر دی۔ میں واقعاً بہت ڈر گئی تھی۔ میری زبان میرا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ میں نے پوچھا: ’’میری ماں کو کچھ ہو گیا؟! بچوں پر کوئی مصیبت تو نہیں آن پڑی؟! خدانخواستہ میرے شوہر۔۔۔‘‘
اس عورت نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا: ’’نہیں،خانم محمدی، ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ آپ کے شوہر کا فون تھا۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس ہفتے وہ مکہ مکرمہ کی زیارت سے مشرف ہو رہے ہیں۔ وہ چاہ رہے ہیں کہ آپ جلدی واپس آ جائیں تاکہ وہ اپنے انتظامات کر سکیں۔‘‘
عورت نے میز پر پڑے جگ سے میرے لیے پانی ڈالا۔ پانی پی کر میری حالت کچھ سنبھل گئی۔
اگلے روز ہم جہاز کے ذریعے تہران واپس آ گئے۔ ایئر پورٹ پر بالکل نئی پیکان([4]) ہماری منتظر تھی۔ ان دنوں پیکان بہترین کاروں میں شمار ہوتی تھی۔([5]) ہم پورے عزت و احترام سے کار میں بیٹھے اور ہمدان آ گئے۔ گلی کی نکڑ پر پہنچے تو دیکھا کہ دروازے کے آگے پانی اور جھاڑو لگا کر صفائی کر دی گئی ہے۔ صمد دروازے پر کھڑا تھا۔ خدیجہ اور معصومہ بھی اس کے ساتھ تھیں۔وہ ہمارے استقبال کے لیے آگے بڑھا۔ کار سے بیگ اتارے اور بچوں کو اٹھا لیا۔ بالکونی پر اس نے قالین بچھا دیا تھا اور صحن کو دھو دیا تھا۔ کیاری میں پانی چھڑک دیا تھا اور پھول کافی خوشبو دے رہے تھے۔ سماور کو بالکونی کے کونے میں رکھ دیاتھا۔ اس نے ہمارے لیے چائے ڈالی اور مٹھائی اور پھل لے آیا۔ بچیاں جو ہمیں دیکھ کر بہت ہی خوش ہو گئی تھیں، میری گود میں آ کر بیٹھ گئی تھیں۔ صمد میرے اور ماں کے درمیان بیٹھ گیا اور میرے کان میں کہنے لگا: ’’کہتے ہیں، عورت ایک مصیبت ہے۔ خدایا کوئی گھر بھی اس مصیبت سے محفوظ نہ ہو۔‘‘
توقع کے برخلاف اس کے سارے انتظامات جلدی جلدی مکمل ہو گئے اور وہ مکہ کی زیارت سے مشرف ہوا۔ رخصتی کے وقت میں شدت سے روتے ہوئے اسے کہہ رہی تھی: ’’بے انصاف! کم سے کم اس جگہ تو مجھے اپنے ساتھ لے کر جاؤ۔‘‘
ا س نے کہا: ’’پریشان مت ہو۔ تم بھی جاؤ گی۔ ایسا لگتا ہے کہ اکٹھے رہنا ہماری قسمت میں نہیں ہے۔‘‘
اس کے آنے جانے کا عرصہ چالیس دن پر محیط تھا۔ پھر واپس آ کر دعوتیں دینے اور لینے کا سلسلہ مکمل ہونے تک دس دن مزید گزر گئے۔ جیسے جیسے دن گزر رہے تھے اس کی بے قراری بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ کہتا تھا: ’’میں پاگل ہو رہا ہوں۔ پچاس دنوں سے اپنے جوانوں کی کوئی خبر نہیں ہے۔ نہیں معلوم کیا حالات ہیں۔ مجھے جلدی جانا پڑے گا۔‘‘
بالآخر وہ چلا گیا۔ میں جانتی تھی کہ مجھے اتنا جلدی اس کے آنے کا انتظار نہیں کرتے رہنا چاہیے۔ وہ ہر پینتالیس دن کے بعد آتا اور ایک دو دن ہمارے پاس رہ کر واپس چلا جاتا۔ گرمیاں گزر گئیں۔ خزاں آئی اور وہ بھی گزر گئی۔ ۱۹۸۵ کی سردیوں کے دن تھے۔ جب وہ آخری بار چھٹی پر آیا تو میں نے کہا: ’’اس بار تمہیں ٹھہرنا ہو گا، کیونکہ تم نے خود ہی کہا تھا کہ اب یہ ہمارا آخری بچہ ہے۔‘‘
اس نے وعدہ کر لیا۔ لیکن میرے حمل کے آخری دنوں تک وہ نہ آیا۔ بچوں کو رات کا کھانا کھلایا تو وہ بےچارے سو گئے۔ لیکن نہیں معلوم مجھے نیند کیوں نہیں آ رہی تھی۔ میں اپنی پڑوسن خانم دارابی کے ہاں چلی گئی۔ ہماری آپس میں کافی دوستی ہو گئی تھی کیونکہ اس کا شوہر بھی محاذ پر ہی ہوتا تھا۔ ہم آسانی سے ایک دوسرے کے گھروں میں آتی جاتی رہتی تھیں۔ اکثر رات کے وقت یا وہ ہمارے گھر آ جاتی یا میں اس کے گھر چلی جاتی۔ اتفاق سے اس رات اس کے ہاں مہمان آئے ہوئے تھے اور اس کی نند اس کے پاس تھی۔ اچانک خانم دارابی نے مجھ سے کہا: ’’میرا خیال ہے کہ آج رات کو تمہارے ہاں بچے کی ولادت ہو جائے گی۔ تمہاری حالت تو ٹھیک ہے نا؟!‘‘
میں نے کہا: ’’اچھی ہے۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔‘‘
اس نے کہا: ’’اگر چاہو تو اکٹھے ہسپتال چلے جائیں؟!‘‘
میں نے ہنس کر کہا: ’’نہیں، اس دفعہ جب تک صمد نہیں آ جاتا، بچہ دنیا میں نہیں آئے گا۔‘‘
رات کے بارہ بچ چکے تھے جب میں گھر واپس آ گئی۔ میں نے اپنے آپ سے کہا: ’’کہیں ایسا تو نہیں کہ خانم دارابی سچ ہی کہہ رہی ہو اور آج ہی بچے کی ولادت ہو جائے۔‘‘
یہی وجہ تھی کہ میں نے اسی آدھی رات کے وقت گھر کو صاف کر دیا۔ بچے کے کپڑے اور سامان تیار کر کے رکھ دیا۔ اس کے بعد سونے کے لیے لیٹ گئی، لیکن نیند نہیں آ رہی تھی۔ تھوڑی سی کروٹیں بدلیں تو دروازے کی آواز آئی۔ میں خوش ہو گئی۔ اپنے آپ سے کہا کہ حتماً صمد ہو گا لیکن صمد کے پاس تو چابی ہوتی تھی۔ میں گئی اور دروازہ کھولا۔ خانم دارابی تھی۔ اس نے کہا: ’’میں نے ایمبولینس کے سائرن کی آواز سنی تو سوچا شاید تمہیں درد شروع ہو گیا ہے اور ایمبولینس تمہارے لیے آئی ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں، ابھی تک کچھ بھی نہیں ہوا۔‘‘
خانم دارابی نے کہا: ’’میرے دل کو دھڑکا لگا ہوا ہے۔ میں آج رات تمہارے پاس ہی ٹھہر جاتی ہوں۔‘‘
ابھی آدھا گھنٹہ نہ گزرا تھا کہ مجھے درد محسوس ہونا شروع ہو گیا۔ ایک گھنٹے بعد میری حالت اتنی خراب ہو گئی کہ خانم دارابی جلدی سے گئی، اپنی نند کو جگا کر ساتھ لے آئی اور اسے بچوں کے پاس چھوڑ دیا۔ گاڑی منگوائی اور مجھے ہسپتال لے گئی۔ میرا معائنہ کرتے ہی مجھے ڈیلیوری روم میں بھیج دیا گیا۔ ایک دو گھنٹے بعد بچے کی ولادت ہو گئی۔
اگلی صبح میری ہمسائی عورتیں ہسپتال آئیں اور مجھے گھر لے گئیں۔ ایک کمرے کو صاف کر رہی تھی،ایک بچے کے ساتھ مصروف تھی، ایک کھانا پکا رہی تھی اور کچھ میری دیکھ بھال کر رہی تھیں۔ خانم دارابی نے کسی کو میرے بابا اور شینا کی طرف بھیج دیا تھا۔ سہ پہر کے وقت بابا اکیلے ہی آئے۔ جب مجھے بستر پر دیکھا تو بے چین ہو گئے۔ ترکی میں کہنے لگے: ’’بابا کی پیاری بیٹی! کیوں اس طرح پردیس میں پڑی ہو۔ بابا کی جان!تم تو اتنی بے کس اور تنہا نہ تھیں۔‘‘
اس کے بعد میرے پاس بیٹھ گئے اور میری ٹھنڈی پیشانی چوم کر بولے: ’’تم نے بچے کی ولادت کا بتایا کیوں نہیں۔ ہمیں تو اطلاع ملی ہے کہ تم مریض ہو! شینا کی حالت بھی اچھی نہ تھی۔ وہ نہیں آ سکی۔‘‘
اسی رات بابا صمد کے بھائیوں کی طرف چلے گئے۔ شمس اللہ اپنی بیوی کے ساتھ ہمدان ہی میں رہتا تھا۔ بابا اس کی بیوی کو میرے پاس لے آئے۔ اس کے بعد کسی کو شینا کی طرف بھیج دیا اور خود باہر سے چیزیں خرید کر لانے اور دوسرے کام نمٹانے لگے۔
ایک ہفتہ گزر گیا تھا۔ شینا کی حالت ٹھیک نہ تھی۔وہ میری مدد نہیں کر سکتی تھیں۔ وہ میرے سرہانے بیٹھی رہتیں اور اپنے آپ کو کوستی رہتیں کہ وہ کیوں نہ آسکیں اور مدد نہ کر سکیں۔ بابا نے یہ صورت حال دیکھی تو شینا کو قایش بھیج دیا۔ میری بہنیں بھی پہلے دو تین دن رہیں پھر اپنے گھروں کو چلی گئیں۔ فقط شمس اللہ کی بیوی میرے پاس ٹھہری رہی۔ ایک ہمسائی نے آ کر کہا: ’’آپ کے شوہر فون پر ہیں، انہیں آپ سے کچھ کام ہے۔‘‘
شمس اللہ کی بیوی معصومہ نے میری مدد کی، مجھے گرم کپڑے پہنائے اور چادر اوڑھائی۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر ہمسایوں کے گھر لے گئی۔ فون کا ریسیور اٹھایا تو میری سانسیں بے ترتیب ہو گئیں۔ صمد دوسری طرف سے کہہ رہا تھا: ’’قدم جان، یہ تم ہو؟!‘‘
میں نے کہا: ’’سلام۔‘‘
پہلے تو عموماً وہ میری آواز سنتے ہی احوال پرسی شروع کر دیتا تھا اور جاننا چاہتا تھا کہ ولادت ہو گئی یا نہیں۔ لیکن اب کے ایسا لگتا تھا کہ اس کے پاس کوئی ہے جس کی وجہ سے اسے پوچھتے ہوئے شرم آ رہی ہے۔ اسی وجہ سے وہ بار بار پوچھے جا رہا تھا: ’’تم اچھی ہو؟ تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟!‘‘
میں اس سے زیادہ شرما رہی تھی کیونکہ ہمسائی عورت اور معصومہ میرے پاس ہی بیٹھی تھیں۔ مجھے بتاتے ہوئے شرم آ رہی تھی کہ: ’’ہاں، بچے کی ولادت ہو گئی ہے۔‘‘ میں کہہ رہی تھی: ’’میری طبیعت ٹھیک ہے، تم کیسے ہو؟! اچھے ہو؟! سلامت ہو؟! ‘‘
معصومہ مجھے اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہی تھی: ’’اسے بتاؤ نا کہ بچہ دنیا میں آ گیا ہے۔‘‘
میں ہمسائی سے شرما رہی تھی۔ معصومہ نے، جو میرے رویے سے تنگ آ چکی تھی، ریسیور مجھ سے لے لیا اور سلام و احوال پرسی کے بعد خود ہی صمد سے کہنے لگی: ’’آغا صمد، مژدگانی دیجیے۔ آپ کے ہاں بچے کی ولادت ہو چکی ہے۔ قدم اب پرسکون ہے۔‘‘
صمد اتنا خوش ہو گیا تھا کہ اسے پوچھنا ہی بھول ہی گیا کہ بیٹا ہوا ہے یا بیٹی۔ اس نے کہا: ’’میں کل ہی پہنچتا ہوں۔‘‘
اگلی صبح میری آنکھیں دروازے پر لگ گئیں۔ ہلکی سی ٹک کی آواز بھی آتی تو میں گھبرا کر اپنی جگہ سے اٹھ جاتی اور کہتی کہ حتماً صمد ہو گا۔ وہ نہ صرف اس دن نہ آیا بلکہ اگلا پورا ہفتہ بھی نہ آیا۔ دو ہفتے گزر گئے مگر صمد کی کوئی خبر نہ تھی۔ سارے چلے گئے تھے اور میں تنہا رہ گئی تھی۔ پانچ بچوں کے ساتھ سارے کام، خریداری، کھانا پکانا، گھر کی صفائی ستھرائی۔ فقط خانم دارابی ہی تھی جو وقت بے وقت آ کر میری مدد کر جاتی لیکن وہ بے چاری بھی اپنے شوہر کی دیکھ بھال میں مصروف تھی جو انہی دنوں زخمی ہو گیا تھا۔ وہ خدا کی بندی صبح صبح آ جاتی اور میری تھوڑی سی مدد کر کے واپس جا کر اپنے کام نمٹاتی۔ کبھی گھر میں بچوں کے پاس ٹھہر جاتی تا کہ میں بازار سے جا کر کچھ لے آؤں۔
اس دن صبح، خانم دارابی ہمیشہ کی طرح میری مدد کو آئی ہوئی تھی۔ میں بچوں کے ساتھ مصروف تھی۔ وہ آئی اور میرے پاس بیٹھ کر کچھ دکھ سکھ بانٹنے لگی۔ اس کا شوہر شدید زخمی ہو گیا تھا۔ اوپر سے اس کے ہاں مہمانوں کا آنا جانا بھی بہت تھا۔ وہ بالکل اکیلی تھی اور تھکاوٹ سے چور ہو جاتی تھی۔
ہم باتوں میں مصروف تھیں کہ اچانک دروازہ کھلا اور میرا بھائی کمرے میں داخل ہوا۔ میں اور خانم دارابی ڈر کے مارے اچھل پڑیں۔ میرے بھائی نے دیکھا کہ گھر میں ایک اجنبی عورت بھی ہے تو وہ دروازہ بند کر کے باہر چلا گیا۔ میں اٹھی اور دروازے پر گئی۔ صمد اور میرا بھائی سیڑھیوں کے نیچے کھڑے تھے۔ خانم دارابی نے ہمارے سلام اور احوال پرسی کی آواز سنی تو کمرے سے باہر نکل کر اپنے گھر چلی گئی۔
میرا بھائی ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا: ’’یار! ہمیں دیکھو! ہم تو سوچ رہے تھے کہ یہ بہت پریشان ہو رہی ہوں گی۔ یار! یہ تو بہت خوش ہیں۔ آدھے گھنٹے سے ہم دروازے پر ہیں۔ یہ لوگ باتوں میں اتنی مصروف ہیں کہ انہوں نے دستک کی آواز بھی نہیں سنی۔‘‘
صمد نے کہا: ’’یہ سچ کہہ رہا ہے۔ نہیں معلوم چابی درازے میں لگ کیوں نہیں رہی تھی۔ ہم نے کافی دروازہ کھٹکھٹایا لیکن بالآخر دروازہ کھول ہی لیا۔‘‘
جیسے ہی وہ لوگ کمرے میں داخل ہوئے تو صمد بچے کے پنگھوڑے کی طرف چلا گیا اور اسے اٹھا کر کہنے لگا: ’’سلام! بیٹا ہو یا بیٹی؟! میں تمہارا بابا ہوں۔ مجھے پہچانتے ہو؟! تمہارا بابا جسے بد تہذیب کہتے ہیں، میں ہی ہوں۔‘‘
پھر میری طرف دیکھا اور آنکھ مار کر کہنے لگا: ’’قدم جان! معاف کرنا۔ ہمیشہ کی طرف وعدہ خلاف، بد تہذیب اور جو کچھ تم کہو۔‘‘
میں فقط ہنس دی۔ اب اپنے بھائی کے سامنے اسے کچھ بھی نہیں کہہ سکتی تھی۔
اس نے میرے بھائی کی طرف دیکھ کر کہا: ’’اپنی بہن کے پاس ہماری سفارش کرو۔‘‘
میرے بھائی ہنس کر کہنے لگا: ’’اس کے ساتھ لڑائی مت کرنا۔ گناہ ہے۔‘‘
بچوں نے جیسے ہی صمد کو دیکھا تو ہمیشہ کی طرح اس کے اردگرد ہو گئے۔ وہ بچوں کو پیار کر رہا تھا اور ان کے سروں پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ پوچھنے لگا: ’’اس کا نام کیا رکھا ہے؟!‘‘
میں نے کہا: ’’زہرا۔‘‘
اس وقت اسے معلوم ہوا کہ ہمارا پانچواں بچہ بیٹی ہے۔ کہنے لگا: ’’کیا خوبصورت نام ہے۔ یا زہرا!‘‘
([1]) ایران میں مصیبت کے وقت امام ہشتم یعنی امام علی بن موسیٰ الرضا علیہما الصلوٰۃ و السلام کو پکارا جاتا ہے۔
([2]) سورہ نمل کی آیت 62 جو پریشانی اور مصیبت کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ مشکلات میں اس آیت کی بار بار تلاوت بہت تاثیر کی حامل ہے۔ پوری آیت اور اس کا ترجمہ یہ ہے: أَمَّنْ يجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيكْشِفُ السُّوءَ۔ (یا وہ بہتر ہے جو مضطرب کی فریاد سنتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف دور کرتا ہے۔)
([3]) ایران میں عورتیں حمل کے دوران ایک خاص قسم کی کھلی قمیص پہنے رکھتی ہیں۔
([5]) جبکہ آج کل ایران میں پیکان کار سب سے کم درجے کی کار تصور کی جاتی ہے۔
سترہواں باب
۱۹۸۶ کا سال کافی مشکل سال تھا۔ چوبیس سال کی عمر تک میں پانچ چھوٹے بڑے بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ میں اکیلی سب کام نہیں کر سکتی تھی۔ جنگ کافی شدت اختیار کر چکی تھی۔ صمد آئے دن آپریشنز اور مختلف مہموں پر مصروف رہتا۔ خدیجہ دوسری جبکہ معصومہ پہلی کلاس میں جانے لگی تھیں۔ بچوں کے سکول اور کلاسوں کی وجہ سے میں بہت کم ہی قایش جا سکتی تھی۔ بابا، شینا کی بیماری کی وجہ سے ہمارے پاس نہیں آ سکتے تھے۔ میری بہنیں اپنی زندگی، گھر اور بچوں کے مسائل میں کافی مصروف تھیں۔میرے بھائی بھی صمد کے بھائیوں کی طرح جنگ میں شریک ہو چکے تھے۔ اکثر اوقات جب صبح میں بیدار ہوتی تو رات دس گیارہ بجے تک سر کھجانے تک کی فرصت نہ ملتی۔ یہی وجہ تھی کہ تھکی تھکی، کمزور اور گری گری رہنے لگی۔
اسی سال کے دسمبر میں آپریشن کربلا ۴ کا آغاز ہو گیا تھا۔ میں نے اپنے بھائیوں سے سنا تھا کہ صمد اس آپریشن میں شریک ہے اور کمانڈ کر رہا ہے۔ اس سے پہلے کسی بھی آپریشن اور مہم میں میرا دل اتنا بے تاب اور بےچین نہ ہوا تھا۔ صبح جاگتی جاتی تو بے مقصد اِس کمرے سے اُس کمرے تک گھومتی رہتی۔ کبھی گھنٹوں تسبیح پکڑے جائے نماز پر دعا میں مشغول رہتی۔ صبح سے رات گئے تک ریڈیو بھی کمرے کے طاقچے پر بولتا رہتا اور آپریشن کی خبریں دیتا رہتا۔
کچھ دن سے میری ساس بھی ہمارے پاس آئی ہوئی تھیں۔ میری طرح وہ بے چاری بھی بے تاب اور پریشان تھیں۔ صبح سے رات گئے تک یاصمد یا ستار ان کا ورد زبان رہتا۔
ایک روز دونوں اسی پریشانی اور اضطراب کی حالت میں بیٹھی ہوئی تھیں تو سنا کہ کوئی دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔ بچوں نے دوڑ کر دروازہ کھول دیا۔ شمس اللہ تھا اور محاذ سے آیا تھا لیکن انتہائی پریشان اور غمگین حالت میں۔ میں نے سوچا حتماً صمد کو کچھ ہو گیا ہو گا۔ میری ساس روتے ہوئے کہہ رہی تھیں: ’’اگر کچھ ہوا ہے تو ہمیں بتا دو۔‘‘ شمس اللہ نے ماں سے نظریں بچاتے ہوئے مجھے اشارہ کیا کہ میں باورچی خانے میں جاؤں۔ میں چائے بنانے کے بہانے باورچی خانے میں چلی گئی تو وہ بھی میرے پیچھے آ گیا۔ وہ آہستہ آہستہ مجھے بتانے لگاتا کہ اس کی ماں کو سمجھ نہ آئے: ’’قدم خانم! غور سے سنیں جو میں کہہ رہا ہوں۔نہ واویلا کریں، نہ چیخ و پکار۔ دھیان رہے کہ ماں کو معلوم نہ ہو۔‘‘
میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو چکے تھے۔ سارا بدن لرز رہا تھا۔ میں نے فریج کا سہارا لے لیا اور روتے ہوئے زیر لب کہا: ’’یا حضرت عباسؑ! صمد کو تو کچھ نہیں ہو گیا؟!‘‘
شمس اللہ کا دل بھر آیا تھا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔ آہستہ سے اور ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہنے لگا: ’’ستار شہید ہو گیا ہے۔‘‘
باورچی خانہ میرے سر کے گرد گھومنے لگا۔ میں نے اپنا ہاتھ سر پر رکھ لیا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کہوں۔ میں اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔ فقط اتنا ہی پوچھ سکی: ’’کب؟!‘‘
شمس اللہ نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا: ’’آپ کو خدا کا واسطہ، ماں کو معلوم نہ ہونے پائے۔‘‘
اس کے بعد کہا: ’’کچھ دن ہوئے ہیں۔ جیسا بھی ہو، ہمیں ماں کو قایش لے جانا پڑے گا۔‘‘
اس کے بعد وہ باورچی خانے سے باہر چلا گیا۔ مجھے کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا۔ چائے بنانے کے بہانے جب تک ہو سکتا تھا باورچی خانے ہی میں ٹھہری اور روتی رہی۔ لاکھ جتن کے باوجود اپنے آنسو نہ روک سکتی تھی۔ شمس اللہ نے ہال سے مجھے آواز دی۔ برتن دھونے والی ٹونٹی کے نیچے میں نے اپنا منہ دھویا اور چادر سے اسے خشک کیا۔ پیالیوں میں چائے ڈال کر ہال میں آ گئی۔ شمس اللہ میری ساس کے پاس بیٹھا ٹی وی پر نظریں گاڑے ہوئے تھا۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا: ’’میں قایش جانا چاہتا ہوں۔ اپنے کچھ دوستوں سے ملنا تھا۔ آپ لوگ ساتھ چلیں گے؟!‘‘
میں جانتی تھی یہ ایک بہانہ ہے لہٰذا میں نے بھی فوراً کہا: ’’کتنی اچھی بات ہے۔ میں بھی کافی دنوں سے بابا کے پاس جانا چاہ رہی تھی۔ دل شینا کے لیے کافی بے تاب ہو رہا ہے، خصوصاً جب سے انہیں دل کا دورہ پڑا ہے اس وقت سے وہ کافی کمزور ہو گئی ہیں۔ کہتے ہیں وہ مجھے بہت زیادہ یاد کرتی ہیں۔ میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گی اور ایک دو دن رہ کر واپس ا ٓ جاؤں گی۔‘‘
اس کے بعد میں جلدی جلدی بچوں کے کپڑے جمع کرنے میں لگ گئی۔ بیگ باندھا اور ایک جوڑا کالے کپڑوں کا بھی رکھ کر کہا: ’’میں تیار ہوں۔‘‘
گاڑی میں اور سارے راستے مجھے صدیقہ کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ کیسے اس کی آنکھوں میں دیکھ سکوں گی۔ میرا دل اس کے بچوں کے لیے کڑھ رہا تھا۔ دوسری پریشانی یہ تھی کہ اپنی ساس کو بھی کچھ نہیں بتا پا رہی تھی۔ یہ تمام رنج و غم جو اپنے اوپر اٹھا رکھا تھا، اس کا بوجھ بھی اپنے اوپر سے اتارنا چاہ رہی تھی۔
جب ہم قایش پہنچے تو دیکھا کہ حالات معمول پر نہیں ہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ ہمارے سوا سب کو خبر ہو چکی ہے۔ در و دیوار پر کالے کپڑے لگا دیے گئے تھے۔ میری ساس بے چاری یہ سارا ماحول دیکھ کر شدید گھبرا گئیں اور پوچھنے لگیں: ’’کیا ہوا۔ کیا میرے بچوں کو کچھ ہو گیا ہے؟!‘‘
اپنی ساس کے گھر پہنچے تو میرا دل اچھل کر باہر آ گیا۔ گھر کا دروازہ کھلا تھا اور سیاہ پوش مرد آ جا رہے تھے۔ بے چاری ساس کو اب یقین ہو چکا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہو گیا ہے۔ میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا: ’’کچھ نہیں ہوا۔ شاید ہمارا کوئی رشتہ دار فوت ہو گیا ہو۔‘‘
ہم جیسے ہی صحن میں پہنچے تو ایسا لگا کہ صدیقہ ہمارا ہی انتظار کر رہی تھی۔ ہمیں دیکھتے ہی دوڑ کر ہماری طرف آئی اور اپنے آپ کو میری آغوش میں گرا دیا۔ وہ بین کرتے ہوئے کہہ رہی تھی: ’’قدم جان! اب میں سمیہ اور لیلیٰ کو کیسے پالوں گی؟‘‘
سمیہ دو سال کی تھی، میری سمیہ کی ہم عمر۔ وہ ہمارے پاس ہی کھڑی مبہوت ہو کر اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی۔ لیلیٰ ابھی ابھی چھ ماہ کی ہوئی تھی۔ میری ساس جو اب سارا ماجرا سمجھ چکی تھیں۔ وہ وہی دروازے کے سامنے گر گئیں۔ تھوڑی دیر بعد جیسے سارے گاؤں کو خبر ہو چکی تھی، ہمارے صحن میں تل دھرنے کی جگہ نہ رہی۔ عورتیں آ کر میری ساس کو تعزیت پیش کرتیں، ان کے گلے لگ کر روتیں اور انہیں تسلی دینے کی کوشش کرتیں۔
اگلے دن لگ بھگ ظہر کا وقت تھا کہ بچوں نے صحن میں شور مچایا: ’’آغا صمد آ گئے، آغا صمد آ گئے۔‘‘
گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہم جلدی سے صحن میں گئے۔ صمد آ گیا تھا۔ کیا حالت بنی ہوئی تھی اس کی! کمزور اور ضعیف اور بکھرے ہوئے بال، چہرہ سیاہ اور غم سے بھرا ہو۔ مجھے اچھا نہ لگا کہ صدیقہ کے سامنے صمد کو سلام کروں اور اس کی احوال پرسی کروں یا آگے بڑھ کر اسے کچھ کہوں۔ میں دوسروں کے پیچھے چھپ گئی اور اپنی چادر چہرے پر ڈال کر رونے لگی۔
صدیقہ صمد کی طرف دوڑتی ہوئی گئی۔ وہ رو رہی تھی اور سماجت کر رہی تھی: ’’ صمد! ستار کہاں ہے؟! تمہارا بھائی کہاں گیا؟!‘‘
صمد کیاری کے پاس بیٹھ گیا اور اپنا ہاتھ منہ پر پھیرنے لگا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کی ہمت جواب دے چکی ہے۔ وہ زاروزار رو رہا تھا۔ میرا دل اس کے لیے کڑھنے لگا۔
صدیقہ دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی اور صمد سے کہہ رہی تھی: ’’صمد! کیا تم ستار کے کمانڈر نہیں تھے۔ اب میں بچوں کو کیا جواب دوں؟! کہتے ہیں کہ چچا نے ہمارے بابا کی حفاظت کیوں نہ کی۔‘‘
صحن میں کھڑے لوگ صدیقہ کی باتوں سے رونےلگے۔ صدیقہ نے اپنے بچوں کو بلا کر کہا: ’’سمیہ! لیلیٰ! ادھر آؤ، چچا صمد آئے ہیں۔ تمہارے بابا کو لے آئے ہیں۔‘‘
مجھے صمد کا بہت دکھ ہو رہا تھا۔ میں جانتی تھی کہ صمد اس غم کو سہنے اور ان باتوں کو سننے کی تاب نہیں رکھتا۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں کمرے میں جا کر اونچی آواز میں رونے لگی۔ میں صمد کے لیے بے چین تھی۔ میرا دل اس کے لیے جل رہا تھا۔ صدیقہ کے بچوں کا غم کھائے جا رہا تھا۔ صدیقہ کا افسوس ہو رہا تھا۔ صمد بہت تنہا رہ گیا تھا۔ لوگوں کے رونے کی آواز صحن سے آ رہی تھی۔ میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ صمد ابھی تک کیاری کے کنارے بیٹھا ہوا تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ جا کر اس کے پاس بیٹھ جاؤں اور اسے تسلی دوں۔ میں جانتی تھی کہ اس وقت صمد پہلے کی نسبت زیادہ تنہا ہے۔ کسی کو صمد کی فکر کیوں نہیں ہو رہی تھی۔ میں ایک جگہ کھڑی نہیں رہ سکتی تھی۔ دوبارہ صحن میں چلی گئی۔ میری ساس صمد کے سامنے بیٹھ گئی تھیں اور اپنا سر اس کی ٹانگوں پر رکھ دیا تھا۔ وہ روتے ہوئے پوچھ رہی تھیں: ’’صمد جان! کیا میں نے تمہارے بھائی کو تمہارے حوالے نہیں کیا تھا؟!‘‘
صمد اسی طرح سر نیچے کیے روئے جا رہا تھا۔ مرد آگے بڑھے، انہوں نے صمد کو بازو سے سہارا دے کر اٹھایا اور مردوں والے کمرے میں لے گئے۔ میں آگے بڑھ کر اپنی نند، ساس اور صدیقہ کو کمرے میں لے جانے کے لیے مدد کرنے لگی۔
وہاں ہونے والی باتوں سے مجھے معلوم ہوا کہ ستار کی لاش دشمن کے علاقے میں رہ گئی ہے۔ صمد وہاں سے لاش لا سکتا تھا مگر نہ لایا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ میری ساس کافی پریشان تھیں اور مسلسل روتے ہوئے کہہ رہی تھیں: ’’صمد! تم میرے بچے کو لے کر کیوں نہ آئے؟!‘‘
رات کے آخری پہر جب گھر میں تھوڑی خلوت ہو گئی تو صمد ہمارے پاس زنانہ کمرے میں آ گیا اور اپنی ماں کے پاس بیٹھ کر ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چومنے لگا: ’’ماں! مجھے معاف کرنا۔میں ستار کا جسد لا سکتا تھا مگر نہیں لے کر آیا کیونکہ ستار کے علاوہ میرے دوسرے بھائیوں کے جسد بھی دشمن کی سرزمین پر پڑے رہ گئے تھے۔ وہ بھی اپنی ماؤں کے بیٹے تھے۔ ان کے بھی بہن بھائی تھے۔ اگر میں ستار کو لے آتا تو کل روزِ قیامت میں ان شہداء کی ماؤں کو کیا جواب دیتا۔ اگر ستار کو لے آتا تو کل قیامت کے دن ان شہداء کی بہنوں اور بھائیوں کو کیا منہ دکھاتا۔‘‘ وہ کہے جا رہا تھا اور روئے جا رہا تھا۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ اس کے لباس کی پشت پر خون لگا ہوا ہے۔ میں نے اپنی نند سے اشارے میں کہا: ’’لگتا ہے صمد زخمی ہے۔‘‘
صمد زخمی ہو گیا تھا، لیکن اس نے کسی کو معلوم نہ ہونے دیا تھا۔ اس نے جا کر کپڑے بدلے۔ اس کی بہن کہہ رہی تھی: ’’اس کے کندھے پر پٹی بندھی ہوئی ہے اور لگتا ہے زخم کافی گہرا ہے اور خون بھی بہہ رہا ہے۔‘‘اس حالت میں بھی وہ بھاگ دوڑ کر رہا تھا۔ اس سے جتنا ہو سکتا تھا وہ چاہتا تھا کہ ستار کے سوگ کی رسمیں پوری عزت و آبرو سے انجام پا جائیں۔
تیسرا روز تھا۔ ان دنوں میں مَیں ایک بار بھی صمد سے بات نہ کر پائی تھی۔ ایک دوسرے کے سامنے آتے جاتے رہتے تھے مگر صدیقہ کے سامنے اس سے بات کرتے ہوئے مجھے شرم آتی تھی۔ کوشش کرتی رہتی تھی کہ صدیقہ کے سامنے صمد کے آگے پیچھے نہ ہوں تا کہ صدیقہ اور اس کے بچوں کی دل شکنی نہ ہو۔ میں نے اپنے بچوں کو بھی اپنی بہنوں کے حوالے کر دیا تھا اور وہ انہیں اپنے گھروں میں لے گئی تھیں۔ میں ڈرتی تھی کہ ایک بار بھی صمد نے بچوں کو گلے لگایا اور ان سے پیار کیا تو صدیقہ کے بچے دیکھ کر غمگین ہو جائیں گے۔
تیسرے روز سہ پہر کا وقت تھا۔ میری نند کی بیٹی نے آ کر کہا: ’’ماموں صمد کو آپ سے کچھ کام ہے۔‘‘
ایسا لگ رہا تھا جیسےمیں اسے پہلی بار دیکھنے جا رہی ہوں۔ میری سانسیں بے ترتیب ہو چکی تھیں۔ دل دھک دھک کر رہا تھا۔ محسوس ہوتا تھا کہ ابھی دل اچھل کر سینے سے باہر آ جائےگا۔ وہ صحن میں کھڑا تھا۔ اس نے سلام کیا تو میں نے اپنا سر نیچے جھکا لیا۔ اس نے میرا حال پوچھا: ’’کیسی ہو؟! بچے کہاں ہیں؟!‘‘
میں نے کہا: ’’ٹھیک ہوں۔ بچے میری بہن کے گھر میں ہیں۔ تم کیسے ہو؟!‘‘
اس نے سر کو اوپر کی طرف اٹھا کر کہا: ’’خدا کا شکر ہے۔‘‘
میں نے اور کچھ نہ کہا۔ نہیں معلوم مجھے کیوں شرم آ رہی تھی اور ایک طرح کا گناہ کا احساس ہو رہا تھا۔ میں اپنے آپ سے کہہ رہی تھی: ’’ستار شہید ہو چکا ہے اور صدیقہ سوگوار ہے، ایسی حالت میں کیسے مرا دل چاہے گا کہ میں اپنے شوہر کے پاس کھڑی رہوں اور ان سب لوگوں کے سامنے اس سے باتیں کروں۔‘‘ صمد نے بھی کچھ نہ کہا۔ وہ مردانہ کمرے کی طرف جا ہی رہا تھا کہ پلٹ کر کہنے لگا: ’’رات کے کھانے کے بعد اکٹھے چلیں گے بچوں سےملنے۔ میرا دل ان کے لیے بہت بے چین ہو رہا ہے۔‘‘
رات کے کھانے کے بعد اس نے مجھے اس انداز میں آواز دی کہ صدیقہ متوجہ نہ ہونے پائے۔ میں تیار ہو کر صحن میں آ گئی اور سب کی نظروں سے بچ کر باہر کی طرف دوڑ گئی۔
وہ گلی میں میرے پیچھے آیا اور کہا: ’’دوڑ کیوں رہی ہو؟!‘‘
میں نے کہا: ’’میں نہیں چاہتی کہ صدیقہ مجھے تمہارے ساتھ دیکھ لے۔ بے چاری غمگین ہو جائے گی۔‘‘
اس نے آہ بھری اور زیرِ لب کہا: ’’ہائے ستار، ستار۔ خدا کی قسم، تو نے ہماری کمر توڑ دی۔‘‘
میرا دل بھر آیا تھا پھر بھی میں نے کہا: ’’مگر تم خود ہی تو کہتے تھے کہ شہادت لیاقت مانگتی ہے۔ ستار کو تو اپنے نیک اعمال کا صلہ مل گیا۔ بہت خوش قسمت نکلا وہ۔‘‘صمد نے سر ہلاتے ہوئے کہا: ’’تم سچ کہتی ہو۔ میں ظاہراً رو رہا ہوں مگر میرا دل مطمئن ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ ستار ایک اچھی اور آرام دہ جگہ پر ہے۔ مجھے اپنا غم منانا چاہیے۔‘‘
میں اندر سے سلگ رہی تھی۔ صدیقہ کے بچوں کے لیے دل تڑپ رہا تھا لیکن میں چاہتی تھی کہ صمد کے غم کو تھوڑا کم کروں۔ میں نے کہا: ’’وہ بہت خوش قسمت ہے۔ کاش وہ ہماری شفاعت بھی کرے۔‘‘
جیسے ہی ہم میری بہن کے گھر پہنچے تو بچے صمد کو دیکھتے ہی اس کے اردگرد ہو گئے۔ مہدی اس کی گود میں گھس گیا اور نیچے آنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ سمیہ بھی صمد سے لپٹ رہی تھی۔ خدیجہ اور معصومہ بھی صمد کے سر اور ہاتھوں کو چوم رہی تھیں۔ میں بچوں اور صمد کو دیکھ رہی تھی اور آنسو بہا رہی تھی۔ صمد نے مجھے دیکھا تو جیسے اس نے میری سوچ پڑھ لی ہو۔ کہنے لگا: ’’کاش ستار کی بیٹی سمیہ کو بھی لے آتے۔ بے چاری بہت اداس ہو رہی تھی۔‘‘
میں نے کہا: ’’ہاں، ماشاء اللہ، ہر چیز کو اچھی طرح سمجھتی ہے۔ میرا دل لیلیٰ کی نسبت اس کے لیے زیادہ پریشان ہو رہا ہے۔ لیلیٰ ابھی بچی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ وہ ابھی اپنے بابا کو اچھی پہچانتی بھی ہو گی۔‘‘
صمد نے بچوں کو چھوڑا اور کھڑا ہو کر کہنے لگا: ’’سمیہ کو تھوڑے دنوں کے لیے ہمدان لے جاؤ۔ شاید اس طرح اس کا غم کچھ ہلکا ہو جائے۔‘‘
اگلے روز ہم ہمدان چلے گئے۔ صمد کہہ رہا تھا کہ کچھ دن تک اسے چھاؤنی میں کام ہے۔ میں نے بھی اپنی تنہائی سے بچنے کے لیے بچوں کو تیار کیا۔ ستار کی بیٹی سمیہ کو بھی ہم اپنے ساتھ لے گئے۔
راستے میں بچوں نے شور کر کر کے گاڑی سر پر اٹھا رکھی تھی۔ وہ کھیل رہے تھے اور ہنس رہے تھے۔ ستار کی بیٹی سمیہ بھی بچوں کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہو چکی تھی۔
میں نے کہا: ’’ہم نے کتنا اچھا کیا کہ اس بچی کو اپنے ساتھ لے آئے۔‘‘
اس نے ہمدردی سے سمیہ کی طرف دیکھا اور کچھ نہ کہا۔
میں نے پوچھا: ’’تم نے دیکھا تھا کہ وہ کیسے شہید ہوا؟!‘‘
اس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں۔ اسٹیئرنگ کو پکڑے اور راستے کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے کہا: ’’میرے سامنے ہی شہید ہوا ہے۔ بالکل میری آنکھوں کے سامنے۔ میں اسے پیچھے لا سکتا تھا۔‘‘
میں اس کے بے قراری دور کرنا چاہتی تھی۔ اس کے کاندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا: ’’تمہارا زخم اب بہتر ہو گیا ہے۔‘‘
اس نے بے پرواہی سے کہا: ’’یہ تو پہلے بھی کچھ خاص نہیں تھا۔‘‘
میں نے زور سے اس کی پٹی پر دبایا۔
درد سے اس کی چیخ نکل گئی۔ میں نے ہنس کر کہا: ’’واقعاً یہ تو کچھ خاص ہے ہی نہیں۔‘‘
اس کی بھی ہنسی نکل گئی۔ کہنے لگا: ’’یہ بھی ایک یادگار ہے۔ ہائے کربلا چار!([1])‘‘
میں نے کہا: ’’تمہاری بہن بتا رہی تھی کہ تم ایک ہفتہ تک جلی ہوئی کشتی میں پڑے رہے۔‘‘
اس نے تعجب سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’ایک ہفتہ! نہیں یار، بہت کم: دو دن رات۔‘‘
میں نے کہا: ’’مجھے سناؤ۔‘‘
اس نے آہ بھر کر کہا: ’’کیا سناؤں؟!‘‘
میں نے کہا: ’’یہی کہ کیسے ہوا۔ تم کیسے اس کشتی میں گر گئے تھے؟!‘‘
اس نے بتانا شروع کیا: ’’ستار شہید ہو گیا تھا۔ مہم ہمارے ہاتھ سے نکل چکی تھی اور ہم شکست کھا رہے تھے۔ ہمیں پیچھے ہٹنا تھا۔ کافی جوان عراقی سرزمین پر رہ گئے تھے: وہ یا تو شہید ہو چکے تھے یازخمی۔ دشمن کی آگ اتنی زیادہ تھی کہ ہمارے بس میں کچھ بھی نہیں رہا تھا۔ جو سالم رہ گئے تھے میں نے انہیں کہا کہ ہمیں پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔ تم نہیں جانتیں وہ لمحات کتنے سخت تھے۔ عراقی زمین پر رہ جانے والے جوانوں کو الوداع کرنا، ستار کو خدا حافظ کہنا۔‘‘
اچانک اس نے اپنا سر اسٹیئرنگ پر ٹکا دیا۔ میں نے چیخ کر کہا: ’’کیا کر رہے ہو؟! دھیان رکھو!‘‘
اس نے جلدی سے اپنا سر اسٹیئرنگ سے اٹھایا اور کہا: ’’وہ عجیب رات تھی۔ دریائے دجلہ میں مکمل طور پر جزر تھا۔ مجھے اور حمید حسین زادہ دونوں کو واپس آنا تھا۔ ہم گھٹنوں تک مٹی میں دھنسے ہوئے تھے کہ اچانک ایک جلی ہوئی کشتی پر میری نظر پڑی جو مٹی پر پڑی ہوئی۔ ادھر عراقیوں نے مکمل طور پر ہمیں گھیر رکھا تھا اور جتنا ان سے ہو سکتا تھا ہماری طرف گولے پھینک رہے تھے۔ توپ کے گولوں نے کشتی کو سوراخ سوراخ کر دیا تھا۔ ہم نے اپنے آپ کو ان سوراخوں میں سے گھسیٹ کر کشتی کے اندر کر لیا۔ صبح کا وقت نزدیک تھا۔ رات ہم نے بڑی مشکل سے کاٹی تھی۔ صبح تک ایک لمحے کے لیے آنکھ نہیں لگائی تھی۔ اب ہمیں ایک جگہ مل گئی تھی جہاں دشمن کی نظروں سے بچ کر کچھ دیر تک سو سکتے تھے۔ ہماری طاقت جواب دے چکی تھی۔ ہم مکمل طور پر بے حال ہو چکے تھے۔‘‘
میں نے کہا: ’’پس میری اور تمہاری ماں کی بےقراری بے جا نہ تھی۔ بالکل اسی وقت جب ہمار ا دل بہت بے چین تھا، ستار بھی شہید ہو گیا اور تم بھی زخمی۔‘‘
لگتا تھا وہ اس دنیا میں ہے ہی نہیں۔ وہ میری باتیں نہیں سن رہا تھا حتی کہ بچوں کا شور اور ان کی شرارتیں بھی اس کے توجہ ہٹانے میں ناکام ہو رہی تھیں۔ وہ اسی طرح مسلسل اپنے واقعات یاد کر کر کے سنائے جا رہا تھا۔
’’۲۵ دسمبر سے ہم کشتی پر تھے؛ بغیر کچھ کھائے پیے۔ ہم رات کا انتظار کر رہے تھے تاکہ کسی طرح جوانوں کو اطلاع دے سکیں۔ رات ہوئی تو میں نے اپنی بنیان اتاری اور جوانوں کی طرف کر کے اسے ہلانے لگا۔ اتفاق سے میرا یہ طریقہ کامیاب رہا۔ جوانوں نے خود مجھے دیکھ لیا۔ ہمارے جوانوں کے ایک ٹولی ہمیں بچانے کے لیے آ گئی لیکن دشمن کی طرف سے برسائی جانے والی آگ اور پھر پانی کی حالت نے انہیں ہماری کشتی سے نزدیک نہ ہونے دیا۔‘‘
میری طرف منہ کر کے کہنے لگا: ’’حسین آغا بادامی کو تو جانتی ہو نا؟!‘‘
میں نے کہا: ’’ہاں، انہیں کیا ہوا؟!‘‘
اس نے کہا: ’’اس بے چارے نے دریا پر لاؤڈ سپیکر رکھا ہوا تھا اور دعائے صباح پڑھ رہا تھا۔ دعا کی آواز ہم تک پہنچ رہی تھی۔ جب وہ ’’یَا سَتَّارَ الْعُیُوْبِ‘‘ پر پہنچتا تو ستار کو تین چار دفعہ تکرار کرتا تاکہ ہمیں بتا سکے کہ ستار! ہمیں تمہارا مکمل خیال ہے۔ ایک بار اس نے ترکی زبان([2]) میں بہت واضح کہا کہ ہمارے منتظر رہو، رات کو ہم تمہیں بچانے کے لیے پانی میں اتریں گے۔‘‘
پھر ہنس کر کہنے لگا: ’’عراقی لاؤڈ سپیکر کی آواز سے طیش میں آ گئے۔ تمہاری جان کی قسم،قدم! انہوں نے سینکڑوں میزائل داغے تب کہیں جا کر لاؤڈ سپیکر کو تباہ کر پائے۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’بالآخر تم کیسے بچ پائے؟!‘‘
اس نے کہا: ’’۲۷ دسمبر کی رات تھی۔ بریگیڈ المہدی ۳۳ شیراز کے جوان پانی میں اترے۔ وہ کافی تیزطرار اور ماہر تھے۔ ہماری کشتی کے پاس آئے اور بہت ہوشیاری سے ہمیں بچا کر لے گئے۔‘‘
دوبارہ ہنس کر کہنے لگا: ’’جب ہمارے جوان ہمیں پانی سے نکال کر اپنی طرف لے آئے تو عراقیوں نے ہم پر گولہ باری شروع کر دی۔ ہم خشکی پر آ چکے تھے اور وہ لوگ کشتی کا نشانہ لے رہے تھے۔‘‘
تھوڑی دیر گزری تو اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر وہ چھوٹا قرآن نکال لیا جو جاتے وقت میں نے اس کی قمیص کی جیب میں رکھ چھوڑا تھا۔ قرآن کو چوم کر کہنے لگا: ’’اسے یادگار کے طور پر رکھ لو۔‘‘
قرآن میں سوراخ ہو چکے تھے اور اس پر خون لگا ہوا تھا۔ میں نے تعجب سے پوچھا: ’’یہ ایسے کیوں ہو گیا؟!‘‘
اس نے مشکل سے گیئر تبدیل کیا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کا ہاتھ اس کا ساتھ نہیں دے رہا۔ کہنے لگا: ’’اگر یہ قرآن نہ ہوتا تو میں بھی اس وقت ستار کے پاس ہوتا۔ میں جانتا ہوں کہ جو کچھ تھا وہ اس قرآن کی عظمت کی وجہ سے تھا۔ گولی میرے دل کے پاس سے گزر کر میرے کندھے سے نکل گئی۔ تم یقین کرو گی؟!‘‘
میں نے قرآن کو بوسہ دیتے ہوئے کہا: ’’خدایا، تیرا شکر۔ لاکھ بار تیرا شکر۔‘‘
وہ کنکھیوں سے مجھے دیکھتے ہوئے مسکرانے لگا۔ اس کے بعد وہ خاموش ہو گیا اور کچھ بھی نہ کہا، لیکن میں مسلسل قرآن کو بوسے دیے اور خدا کا شکر ادا کیے جا رہی تھی۔
ہمدان پہنچتے ہی وہ ہمیں دروازے پر اتار کر خود چلا گیا اور پھر رات تک واپس نہ آیا۔ بچوں نے رات کا کھانا کھا لیا تھا اور سونا ہی چاہتے تھے کہ وہ آگیا۔ اس کے ہاتھ میں کچھ بسکٹوں اور پاپڑوں کے پیکٹ تھے۔ وہ آ کر بچوں کے درمیان بیٹھ گیا اور انہیں اپنے گرد جمع کر لیا۔ وہ ان کے ساتھ کھیل رہا تھا اور ایک ایک کر کے پاپڑ ان کے منہ میں ڈال رہا تھا۔میں اس کی اس روش پر حیران ہو رہی تھی۔ گویا یہ وہ صمد نہ تھا جو صبح کے وقت میرے ساتھ تھا یا جسے کل میں دیکھ رہی تھی۔ اس کا رویہ مکمل طور پر بدل چکا تھا۔ وہ ستار کی بیٹی سمیہ کو گدگدیاں کر رہا تھا، اسے چوم رہا تھا، ہنس رہا تھا اور اس کے ساتھ کھیل رہا تھا۔
اگلے دن ہم قایش چلے گئے۔ سہ پہر کے وقت کہنے لگا: ’’قدم! میں آج محاذ پر جانا چاہتا ہوں۔ تم آؤ گی تا کہ اکٹھے ہمدان واپس چلے جائیں؟‘‘
میں نے کہا: ’’تم نے تو محاذ پر جانا ہے۔ مجھے کیوں ساتھ لے جانا چاہتے ہو؟! میں کچھ دن صدیقہ کے پاس ٹھہروں گی پھر واپس چلی جاؤں گی۔‘‘
کہنے لگا: ’’نہیں، اگر تم بھی ساتھ آؤ گی تو میری ماں شک نہیں کریں گی، لیکن اگر اکیلا گیا تو وہ سمجھ جائیں گی کہ میں محاذ پر جا رہا ہوں۔ ان کا دل ٹوٹ جائے گا اور یہ گناہ ہے۔‘‘
ہم اسی دن سہ پہر کو واپس ہمدان آ گئے۔ اس بار بھی ہم ستار کی بیٹی سمیہ کو ساتھ لے آئے تھے۔ اگلے روز وہ علی الصبح ہی بیدار ہو گیا اور نماز پڑھ کر کہنے لگا: ’’قدم! میں جا رہا ہوں۔ بچوں کا خیال رکھنا، خصوصاً ستار کی بیٹی سمیہ کا۔ اسے پریشان نہ ہونے دینا۔ جب تک وہ چاہے اس کے پاس ہی رہنا۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’کب واپس آؤ گے؟!‘‘
اس نے کہا: ’’اس بار بہت جلد۔‘‘
ہفتے کے آخر میں صمد واپس آ گیا اورمجھ سے کہا: ’’اب میں ایک دوہفتے تک تمہارے اور بچوں کے پاس رہنے کے لیے آیا ہوں۔‘‘
پہلی رات، کوئی آدھی رات کا وقت ہو گا کہ ایک آواز سےمیری آنکھ کھل گئی۔ میں نے دیکھا کہ صمد اپنی جگہ پر نہیں ہے۔ میں پریشان ہو گئی۔ ہال میں آ کر دیکھا وہاں بھی نہیں تھا۔ بنکر کا بلب روشن تھا۔ دیکھا تو صمد وہاں جائے نماز پر بیٹھا کچھ لکھ رہا ہے۔
میں نے پوچھا: ’’صمد! تم یہاں ہو؟‘‘
وہ چونک گیا۔ کاغذ تہہ کر کے قرآن میں رکھ دیا۔
میں نے کہا: ’’رات کے اس وقت تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘
اس نے کہا: ’’آؤ بیٹھو، مجھے تم سے کام ہے۔‘‘
میں اس کے سامنے بیٹھ گئی۔ بنکر کافی ٹھنڈا تھا۔ میں نے کہا: ’’یہاں کافی ٹھنڈ ہے۔‘‘
اس نےکہا: ’’کوئی بات نہیں۔ تم سے ایک ضروری کام ہے۔‘‘
اس کے بعد قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا: ’’میں نے اپنا وصیت نامہ لکھ دیا ہے۔ قرآن کے اندر پڑا ہے۔‘‘
میں بے قرار ہو گئی۔ ناراض ہوتے ہوئے کہا: ’’آدھی رات کو شور کر کے اس لیے مجھے جگایا ہے کہ ایسی باتیں کرو؟ بڑی ہمت ہے تمہاری۔‘‘
اس نے کہا: ’’غور سے سنو، تنگ نہ کرو، قدم!‘‘
میں نے کہا: ’’کوئی خیر کا کلمہ کہو۔‘‘
ہنس کر کہنے لگا: ’’خدا کی قسم، خیرہی ہے۔ اس سے زیادہ تو کوئی خیر ہو ہی نہیں سکتی۔‘‘
اس نے قرآن کو اٹھا کر بوسہ دیا اور کہا: ’’یہ دین کا حکم ہے کہ ایک زندہ مسلمان کو اپنی وصیت لکھ کر رکھنی چاہیے۔میں نے اس میں تمہارے لیے پوری تفصیل سے ساری چیزیں لکھ دی ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے بعد تمہارے حقوق میں سے کوئی حق ضائع ہو جائے۔ مال و متاع تو میرے پاس ہے نہیں؛ لیکن یہی جو کچھ مختصر سا ہے، اس میں سے آدھا تمہارا اور آدھا بچوں کے لیے ہے۔ میں نے وصیت کی ہے کہ مجھے یہی دفنایا جائے۔ میرے بعد تم ہمدان ہی میں رہنا۔ یہ بچوں لیے بہتر رہے گا۔ اگر میرے بعد ستار کا جسد مل گیا تو اسے بھی میرے ساتھ دفنا دینا۔‘‘
میں نے روتے ہوئے کہا: ’’خدا وہ دن نہ لائے۔ خدا کرے میں تجھ سےپہلے چلی جاؤں۔‘‘
وہ ہنس کر کہنے لگا: ’’تمہیں مشق بھی کرتے رہنا چاہیے۔ آج کے بعد مجھے ستار کہنا، حاج ستار۔ میری شہادت کے بعد کوئی بھی مجھے صمد کے نام سے نہیں پہچانے گا۔ مشق کرو! ورنہ تمہیں خود اذیت ہو گی۔‘‘
برتھ سرٹیفکیٹ پر صمد کا نام ستار جبکہ اس کے بھائی ستار کا نام صمد لکھا ہوا تھا لیکن سب اس کے برعکس انہیں پکارتے تھے۔ صمد کہتا تھا: ’’کام کی جگہ پر یا محاذ پر اگر کوئی صمد پکارے تو میں سمجھتا ہوں کہ یا تو اسے غلط فہمی ہو گئی ہے یا اسے میرے بھائی سے کچھ کام ہے۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے مذاق سے کہنے لگا: ’’یہ ہمارے باپ بھی کیا کرتے ہیں۔‘‘
میں ضد کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی: ’’مجھے تو نیند آ رہی ہے۔ شب بخیر حاج صمد آغا۔‘‘
مجھے سردی لگ رہی تھی۔ میں لحاف میں گھس گئی۔ سردی میرے جسم میں گھس چکی تھی۔ دانت آپس میں بج رہے تھے۔ اوپر سے صمد کی باتوں نے مجھے پریشان کر دیا تھا۔
اگلی صبح صمد ہم سب سے پہلے بیدار ہو گیا۔ وہ تازہ روٹی اور دیسی پنیر لے آیا اور ناشتہ بنا دیا۔ معصومہ اور خدیجہ کو جگا کر انہیں ناشتہ دیا اور مدرسے چھوڑنے چلا گیا۔ جب وہ واپس آیا تو میں رات کے برتن دھو رہی تھی۔ سمیہ، زہرا اور مہدی ابھی تک سوئے ہوئے تھے۔ وہ میری مدد کرنے لگا۔ اس کے بعد بنکر میں چلا گیا اور وہاں سے سیمنٹ کی کچھ بوریاں اٹھا کر سیڑھیوں کے نیچے رکھ دیں۔ پھر چھت پر جا کر ایک جائزہ لیا۔ اس کے بعد حمام چلا گیا اور ایک خوبصورت قمیص جو وہ مکہ سے لے کر آیا تھا، وہ پہن لی۔ وہ اسے بہت پیاری لگ رہی تھی۔
ظہر کے وقت خدیجہ اور معصومہ کو مدرسے سے لے آیا۔ میرے کھانا پکانے تک خدیجہ اور معصومہ سے ان کے سکول اور سبق کے بارے میں پوچھتا رہا۔ پھر اس نے کہا: ’’بچو! کھانا کھا لو۔ پھر تھوڑا آرام کرو۔ سہ پہر کو بابا کے ساتھ بازار جائیں گے۔‘‘
بچے خوش ہو گئے۔ ہم کھانا کھا رہے تھے کہ باہر کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ بچوں نے دروازہ کھولا تو میرے سسر تھے۔ نہیں معلوم انہیں کہاں سے معلوم ہو گیا تھا کہ صمد گھر آیا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا: ’’میں اس لیے آیا ہوں تا کہ محاذ پر جائیں۔ میں ذرا ستار کی کوئی خبر لینا چاہتا ہوں۔‘‘
صمد نے کہا: ’’بابا جان! میں کتنی بار آپ کو بتاؤں کہ فقط آپ کے بیٹے اور میرے بھائی ہی کا جسد اس طرف نہیں رہا۔ بہت سے جوانوں کے جسد وہاں پڑے ہیں۔ ہم انتظار کر رہے ہیں کہ انشاء اللہ کوئی آپریشن کریں گے اور دجلہ کے اس طرف جا کر سارے جوانوں کے جسد لے آئیں گے۔‘‘
اس کے والد اصرار کر رہے تھے: ’’مجھے ان باتوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ میں ہر حال میں جا کر دیکھنا چاہتا ہوں کہ میرا بچہ کہاں ہے؟ اگر تم نہیں آتے تو بتا دو، میں اکیلا ہی چلا جاؤں گا۔‘‘
صمد نے ایک بار مجھے دیکھا پھر اپنے والد کو۔ وہ کہنے لگا: ’’بابا جان! آپ کے آنے سے ستار اس طرف تو نہیں آ جائے گا نا۔ اگر آپ سوچتے ہیں کہ آپ کے آنے سے کچھ تبدیلی ہو جائے گی تو یا علی، اٹھیں، ابھی چلتے ہیں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ آپ کے آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ آپ کو تھکاوٹ کے علاوہ کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔‘‘
اس کے والد ناراض ہو کر کہنے لگے: ’’ایسے ہی بہانے نہ بناؤ۔ میں حتماً جانا چاہتا ہوں۔ اگر تم نہیں جاتے تو بتا دو میں شمس اللہ کے ساتھ چلا جاتا ہوں۔‘‘
صمد بیٹھ کر پورے حوصلے اور تحمل سے اپنے والد کو سمجھانے لگا کہ ستار کا جسد کس علاقے میں پڑا ہے، لیکن اس کے والد نے نہ ماننا تھانہ مانے۔ صمد نے بہانہ بنایا کہ شمس اللہ تو محاذ پر ہے۔
اس کے والد کہنے لگے: ’’میں اکیلا ہی چلا جاتا ہوں۔‘‘
صمد نے کہا: ’’میں جانتا ہوں کہ آپ بے قرار ہیں۔ ٹھیک ہے، اگر آپ اسی طرح راضی اور خوش ہوتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ کل محاذ پر چلے جاتے ہیں۔‘‘
میرے سسر نے اور کوئی بات نہ کی، لیکن رات کو وہ شمس اللہ کے گھر چلے گئے۔انہوں نے کہا تھا: ’’میں ذرا اس کے بچوں کی خیریت دریافت کر لوں۔‘‘
بچوں نے جب دیکھا کہ صمد انہیں بازار نہیں لے کر گیا تو وہ ناراض ہو گئے۔ صمد ان کے ساتھ مل کر کھیلنے لگا۔ اس کے بعد ان کے سبق کے بارے میں ان سے باتیں شروع ہو گیا۔ خدیجہ کو املاء بولی اور معصومہ کو ایک مشق دے دی۔ میں ایک کونے میں کھڑی اسے مسلسل دیکھے جا رہی تھی۔ اچانک وہ میری طرف متوجہ ہو گیا اور ہنس کر کہنے لگا: ’’قدم! آج تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ مجھے نظر نہ لگا دینا! جاؤ میرے لیے حرمل جلا لاؤ۔([3])‘‘
میں نے کہا: ’’کیا تم سچ مچ جانا چاہتے ہو؟‘‘
اس نے کہا: ’’جلدی واپس آ جاؤں گا۔ دو تین دن بعد۔ بابا پریشان ہیں، ان کا حق بھی بنتا ہے۔ ان کے دل پر زخم لگا ہے۔ انہیں دجلہ کے کنارے تک لے جاؤں گا۔ جہاں ستار شہید ہوا ہے وہ جگہ انہیں دکھاؤں گا اور جلدی واپس آ جاؤں گا۔‘‘
میں نے ہنس کر کہا: ’’ہاں، جلدی لوٹ آؤ گے!‘‘
وہ بھی ہنس پڑا: ’’قدم کی جان کی قسم، جلدی آ جاؤں گا۔ میں نے چھٹی لی ہوئی ہے۔ شاید دو تین دن بھی نہ لگیں۔ اب جلدی سے اپنے سرتاج کے لیے دو چائے لے آؤ۔ ان لمحات کی قدر کرو۔‘‘
([1]) آپریشن کربلا ۴ مراد ہے۔
([2]) یہ ترکی زبان وہ نہیں ہے جو ترکی کے ملک میں بولی جاتی ہے، بلکہ ایران میں بعض مقامات پر کچھ ترک قبائل ہیں جو یہ زبان بولتے ہیں۔
([3]) عموماً نظر بد سے بچنے کے لیے حرمل کی بوٹی کو سلگا کر اس کا دھواں پھیلایا جاتا ہے۔
اٹھارہواں باب
اگلے دن صبح صمد کے والد جلدی آ گئے۔ میں ناشتہ بنا رہی تھی۔ وہ کہنے لگے: ’’رات میں نے ستار کو خواب میں دیکھا ہے۔ وہ بہت پریشان نظر آ رہا تھا۔ میں نے کہا کہ ستار جان! تم کیسے ہو؟ تو اس نے پلٹ کر کہا کہ میں صمد ہوں۔ میں اسے بوسہ دینے کےلیے آگے بڑھا تو وہ میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔‘‘
اس کے بعد وہ رونے لگے: ’’میرا دل اپنے بچے کے لیے تڑپ رہا ہے۔ وہ یقیناً دشمن کی سرزمین پر ان کافر بعثیوں کے پاس سخت عذاب سے گزر رہا ہے۔ نہیں معلوم وہ مجھ سے ناراض کیوں تھا۔ حتماً وہ جگہ اس کےلائق نہیں ہو گی۔‘‘
صمد جو اپنے والد کو اس اضطراب سے نکالنا چاہتا تھا ہنس کر ان سے مذاق کرنے لگا: ’’نہیں ، بابا! مزے کی بات یہ ہے کہ اس کی جگہ بالکل ٹھیک ہے۔ ستار اب پرواز کر رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ آپ سے اس لیے ناراض ہے کہ آپ نے ہم بھائیوں کے نام الٹ پلٹ کر دیے ہیں۔‘‘
میں نے غصے سے صمد کی طرف دیکھا اور ہونٹ کاٹنے لگی۔ صمد نے اپنی بات کو بدلتے ہوئے کہا: ’’دراصل وہ مجھ سے ناراض ہے کہ میں نے اس کا نام اڑا لیا۔‘‘
اس کے بعد میری طرف منہ کر کے کہنے لگا: ’’حتی کہ میری بیوی بھی مجھ سے ناراض ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے قدم خانم!‘‘
میں نے کندھے اوپر اچکا لیے۔
اس نے کہا: ’’میں بہتیرا اسے کہتا ہوں کہ اس بات کی مشق کرے اور مجھے ستار کہا کرے مگر یہ مانتی ہی نہیں۔ اب کل کلاں اگر اطلاع آئے اور تمہیں بتائیں کہ ستار شہید ہو گیا ہے تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میرا شوہر شہید ہوا ہے۔ یہ نہ کہنا کہ ستار میرا دیور ہے جو کچھ دن پہلے شہید ہو گیا تھا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگا۔ وہ چاہتا تھا کہ ہم بھی ہنسنے لگیں۔ لیکن ہم غصے ہو گئے۔ اس کے والد اسے تیز نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
صمد نے جب یہ صورتحال دیکھی تو کہا: ’’دراصل ساری غلطی بابا کی ہے۔ یہ کیا مصیبت تھی جو آپ ہمارے ناموں پر لے آئے؟!‘‘
میرے سسر نے انہی تیز اور غصے والی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا: ’’میں نے کوئی مصیبت تمہارے گلے نہیں ڈالی۔ تمہارا نام شروع ہی سے صمد تھا۔ جب شمس اللہ اور ستار پیدا ہوئے تو میں شہر گیا تا کہ تم لوگوں کا برتھ سرٹیفکیٹ لے آؤں۔ اس وقت ایسا ہی رواج تھا۔ سارے یونہی کرتے تھے۔ بعض لوگ جو بچوں کو سکول نہیں بھیجتے تھے، وہ تو ان کی شادی کے وقت ہی ان کا برتھ سرٹیفکیٹ لیتے تھے۔رجسٹرار کی غلطی تھی۔ تم جو سب سے بڑے تھے، تمہارا نام اس نے ستار لکھ دیا۔ شمس اللہ اور ستار جو جڑواں تھے، نہیں معلوم اس کا دھیان کہاں تھا، شمس اللہ کی تاریخ ولادت 1965 لکھ دی اور ستار کی 1958۔ جب سکول جانے کے قابل ہوئے اور سکول میں انہیں داخل کروانے گئے تو انہوں نے کہا کہ ان میں سب سے بڑا کون ہے؟ ہم نے تمہارا بتایا تو انہوں نے کہا کہ یہ ستار ہے، اسے کلاس اول میں بھیج دیں۔ باقی ان دونوں کا ابھی سکول میں آنے کا وقت نہیں ہے۔ میں نے بہت بھاگ دوڑ کی کہ تمہارے برتھ سرٹیفکیٹ تبدیل ہو جائیں مگر بے سود۔‘‘
صمد نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’شروع شروع میں مجھے بھی بہت مشکل پیش آئی تھی۔ استاد جب مجھے بلاتے ستار ابراہیمی تو میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگتا۔ اوپر سے میرے دوست اور ہم جماعت مجھے صمد کہہ کر پکارتے تھے لہٰذا میں بری طرح الجھ جاتا۔ مجھے اپنے آپ کو اس صورتحال کا عادی بنانے میں کافی وقت لگا۔‘‘
صمد دوبارہ میری طرف دیکھ کر کہنے لگا: ’’بالآخر بیگم، اب تم بھی مشق کرو اور اپنے شوہر کو ستار کہہ کر ہی بلایا کرو۔‘‘
میں نے کہا: ’’تھوڑی چاپلوسی کرو۔ کیا حاجی آغا نہیں کہہ رہے کہ تم شروع ہی سے صمد تھے۔‘‘
اس کے بعد صمد نے بات کو آگے نہ بڑھایا اور اپنے والد سے کہا: ’’بابا جان! بہتر ہے کہ آپ نہا لیں تا کہ تھوڑی طبیعت تازہ اور ہلکی پھلکی ہو جائے۔ مجھے تھوڑا سا کام ہے۔ آپ کے نہا کر آنے تک میں بھی تیار ہو جاتا ہوں۔‘‘
میرے سسر نے بات مان لی۔ میں نے بھی ناشتے کے لیے دسترخوان بچھا دیا۔ خدیجہ اور معصومہ کو جگایا۔ میں انہیں ناشتہ دے رہی تھی کہ صمد آ گیا اور دسترخوان پر بیٹھ گیا۔
اس نے کہا: ’’قدم!‘‘
میں نے اس کی طرف دیکھا۔ مجھ میں دیکھنے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ وہ خود جانتا تھا کہ جب اس نے محاذ پر جانا ہوتا تھا تو میں اسی طرح پریشان اور ناراض ہو جاتی تھی۔ اس نے کہا: ’’میرے دل میں ایک راز ہے جو میں جانے سے پہلے تمہیں بتانا چاہتا ہوں۔‘‘
میں نے تعجب سے اسے دیکھا۔
وہ روٹی کے ایک ٹکڑے سے کھیلتے ہوئے کہنے لگا: ’’جس رات آپریشن ہونا تھا۔ میں نے ستار سے کہا تھا کہ تم بٹالین ۳ میں چلے جاؤ۔ دریا کی دوسری طرف جانے کے لیےپہلی کشتی آمادہ تھی۔ میں نے جب نفری کو گنا تو ایک بندہ فالتو تھا۔ میں نے بہت پوچھا کہ کون اضافی ہے۔ کسی نےجواب نہیں دیا۔ میں مجبور ہو گیا کہ ٹارچ کے ذریعے سب جوانوں کو ایک ایک کر کے دیکھوں۔اچانک میری نظر ستار پر پڑی۔ مجھے اس پر غصہ آ گیا۔ میں نے اسے کہا کہ میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ بٹالین ۳ میں چلے جاؤ؟ اس نے منت اور خواہش کرنا شروع کر دی۔ کاش میں اس کے جانے پر راضی نہ ہوتا۔ لیکن نہیں معلوم میں نے کیسے اس کی بات مان لی اور وہ آ گیا۔‘‘
اس رات ہم نے کتنی مشکلوں سے دجلہ کو عبور کیا۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں دشمن کی طرف سے برستی ہوئی آگ کے نیچے ہم دشمن کی خاردار تاروں تک پہنچ گئے۔ تم یقین نہیں کرو گی، ہم نے اتنی کم تعداد کے باوجود دشمن کی سرحد کو عبور کر لیا اور غوطہ خور جوانوں کا انتظار کرنے لگے لیکن غوطہ خوروں کی یونٹ سرحد عبور کر کے آگے نہ آ سکی۔ ہم اکیلے رہ گئےتھے۔ اب صورت حال یہ بن گئی تھی کہ ہم اپنے اسی اسلحے کے ساتھ بہت کم فاصلے پر عراقی فوجیوں کے سامنے کھڑے ہو گئے اور ان سے جنگ کرنے لگے۔ اچانک ستار نے مجھے آواز دی۔ میں اس کی طرف گیا، دیکھا تو اسے پاؤں میں گولی لگ گئی تھی۔ میں نے رومال سے اس کا پاؤں باندھا اور کہا کہ بھائی کی جان! ہمارے جوانوں کے پہنچنے تک دفاع کرو۔ ہم نے اپنے بندوقوں سے اتنی گولیاں برسائی تھیں کہ وہ آگ کی طرح گرم ہو گئی تھیں۔ ہمارے ہاتھ جل رہے تھے۔‘‘
اس نے اپنے ہاتھ کھول کر مجھے دکھائے۔ ابھی تک اس کے ہاتھوں پر جلنے کے نشان موجود تھے۔ پہلے بھی میں نے ان نشانات کو دیکھا تھا مگر نہ اس نے بتایا تھا اور نہ ہی میں نے پوچھا تھا۔
اس نے کہا: ’’میرے لیے چائے ڈالو۔‘‘ حمام سے پانی کی شرشر کی آواز آ رہی تھی۔ سمیہ، زہرا اور مہدی سوئے ہوئے تھے اور خدیجہ اور معصومہ ناشتہ کرتے ہوئے مبہوت ہو کر اپنے بابا کو دیکھ رہی تھیں۔ میں نے اس کے سامنے چائے رکھتے ہوئے کہا: ’’اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘
اس نے کہا: ’’عراقی ایک ایک ٹولی کو ہماری طرف بھیجتے اور ہم اپنے اسی اسلحے کے ساتھ اپنا دفاع کرنے پر مجبور تھے۔ اس برستی ہوئی آگ اور اس صورتحال میں مجھے دوبارہ ستار کی آواز آئی۔ میں اس کی طرف بھاگ کر گیا۔ دیکھا تو اب اس کے بازو پر گولی لگی تھی۔ وہ بری طرح زخمی ہو گیا تھا۔ میں نے اس کا بازو باندھا اور اس کے چہرے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا کہ بھائی کی جان، بہت سے جوان زخمی ہو گئے ہیں، اپنے اندر ہمت پیدا کرو۔ میں دوبارہ واپس آ گیا۔ صورتحال بہت بری طرح بگڑ چکی تھی۔ میرے جوان ایک ایک کر کے یا تو شہید ہو رہے تھے، یا زخمی ہو رہے تھے یا دشمن کی قید میں جا رہے تھے۔ تیسری بار جب میں نے ستار کی آواز سنی تو دیکھا کہ وہ خون میں لت پت ہے۔ دستی بم اس کے پاؤں میں گرا تھا اور گلے تک اس کا سارا بدن سوراخ سوراخ ہو گیا تھا۔ میں نے اسے کندھوں پر اٹھایا اور وہاں موجود ایک مورچے میں لے گیا۔ میں نے کہا: ہمت پیدا کرو، میں تمہیں اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا۔ درویشی نام کا ایک جوان بھی زخمی ہو چکا تھا۔ اسے بھی میں کندھوں پر اٹھا کر عراقیوں کے کنکریٹ سے بنے اسی مورچے میں لے گیا۔ جب ستار کو اٹھا کر واپس آنے لگا تو درویشی نے مجھے کہا: ’’حاجی! مجھے اکیلا چھوڑ کر چلے جاؤ گے؟! تمہیں خدا کا واسطہ، مجھے بھی لے جاؤ۔ کیا میں تمہارا سپاہی نہیں ہوں۔‘‘ میں نے ستار کو زمین پر رکھا اور خیر اللہ درویشی کے پاس چلا گیا۔ اسے اٹھایا تو ستار نے کہا، بے وفا، میں تمہارا بھائی ہوں! پہلے مجھےلے کر جاؤ۔ میری حالت زیادہ خراب ہے۔ وہ بہت سخت مرحلہ تھا۔ بہت ہی مشکل۔ مجھے کچھ سجھائی نہ دیتا تھا کہ کیا کروں۔‘‘
صمد نے چائے اٹھائی اور اسے میٹھا کیے بغیر ہی گھونٹ لینے لگا: ’’قدم! میں دو راستوں میں گھِر گیا تھا۔ نہیں جانتا تھا کہ کیا کروں۔ آخر میں نے ارادہ کر لیا اور ان سے کہا کہ میں تم میں سے فقط ایک کو لے کر جا سکتا ہوں۔ اب خود ہی بتاؤ کسے لے کر جاؤں۔اس بار بھی دونوں نے اصرار کرنا شروع کر دیا۔ میں نے جا کر ستار کے چہرے پر بوسہ دیا اور کہا: خدا حافظ بھائی، مجھے معاف کرنا۔ میں نے تمہیں کہا تھا کہ نہ آؤ۔
اس نے اسی حالت میں کہا کہ میری بیٹی کا خیال رکھنا۔
میں نے پوچھا: ’’کچھ اور نہیں چاہیے تمہیں؟‘‘
اس نے کہا: ’’مجھے پیاس لگی ہے۔‘‘
میں نے اسے پانی پلانے کے لیے اپنی بوتل نکالی۔ بوتل خالی تھی؛ بالکل خالی۔‘‘
اتنا کہہ کر صمد نے چائے کی پیالی دسترخوان پر رکھی اور کہا: ’’قدم جان! میرے بعد یہ بات میرے بابا کو بتانا۔ میں جانتا ہوں کہ ابھی ان میں یہ سب سننے کی طاقت نہیں ہے، لیکن انہیں حقیقت معلوم ہونی چاہیے۔‘‘
میں نے کہا: ’’پس اس طرح ستار شہید ہو گیا؟‘‘
اس نے کہا: ’’نہیں۔۔۔ میں اسے خدا حافظ کہہ رہا تھا، اس کے چہرے پر بوسے دے رہا تھا کہ عراقی مورچے پر پہنچ گئے اور ہم پر کلاشنکوف سے فائر کرنا شروع کر دیے۔ میرا کندھا اسی وقت زخمی ہوا تھا۔ مورچے میں ایک سوراخ تھا۔ میں نے اپنے آپ کو اس سے باہر نکالا اور پانی میں کود گیا۔ جوان بتا رہے تھے کہ خیر اللہ درویشی اسی وقت اسیر ہو گیا تھا اور ستار پر عراقیوں نے اسی وقت کلاشنکوف سے فائر کر کے اسے پیاسا شہید کر دیا۔‘‘
اس کے بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ میں نے کہا: ’’ناشتہ تو کر لو۔‘‘
اس نے کہا: ’’میرا دل نہیں کر رہا۔ میری شہادت کے بعد یہ واقعہ حرف بہ حرف میری ماں اور بابا کو سنا دینا۔ ان سے کہنا کہ اگر میں نے ان کے بیٹے کے حق میں کوتاہی کی ہو تو مجھے معاف کر دیں۔‘‘
اس کے بعد خدیجہ اور معصومہ کی طرف دیکھ کر کہنے لگا: ’’بابا کی جان! اٹھو، سکول چلیں۔‘‘
صمد جیسے ہی بچوں کو لے کر گیا، میرے سسر حمام سے نہا کر نکل آئے تا کہ ناشتہ کر کے تیار ہو جائیں۔ صمد واپس آ گیا۔ میں نے کہا: ’’اگر جانا چاہتے ہو تو بچے ابھی سوئے ہوئے ہیں، چلے جاؤ۔ ابھی وہ جاگ جائیں گے تو تمہیں جانے نہیں دیں گے۔‘‘
صمد اپنا بیگ باندھ رہا تھا کہ مہدی جاگ اٹھا اور اس کے بعد سمیہ اور زہرا بھی جاگ گئی۔صمد بچوں کے ساتھ تھوڑا کھیلا اس کے بعد انہیں خدا حافظ کہا لیکن مہدی اس کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگا۔ اس نے اتنا دروازہ کوٹا اور اتنا رویا کہ صمد دوبارہ واپس ا ٓگیا۔ مہدی کو بوسہ دے کر ایک کمرے میں لے گیا اور اس کے کھلونے اس کے سامنے رکھ دیے۔ وہ جیسے ہی اپنے کھلونوں میں مصروف ہوا تو وہ اٹھ کر جانےلگا۔ اب سمیہ نے ضد پکڑ لی اور اس کے پیچھے جانے لگی۔ میری سسر گلی میں تھے۔ صمد نے کہا: ’’جاؤ، بابا سے کہو، اندر آ جائیں۔‘‘
میرے سسر اندر آ کر سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔ ان کی ہمت جواب دے چکی تھی۔ وہ کافی اکتا گئے تھے اور بڑبڑاتے ہوئے صمد کو آواز دے رہے تھے۔
صمد تپائی لے آیا اور کہا: ’’میں بس بھولنے ہی والا تھا۔ قدم! کچھ کمبل لے آؤ تا کہ یہاں کھڑکیوں پر لگا دوں۔ رات کافی سردی تھی۔ خاموشی کے لیے اور ریڈ الرٹ کے وقت بھی یہ فائدہ دیں گے۔‘‘
سمیہ، زہرا اور مہدی کھیلنے میں مصروف ہو گئے تھے۔ لگتا تھا اب وہ مطمئن ہو گئے تھے کہ ان کے بابا کہیں نہیں جائیں گے۔ صمد بچوں سے بچتے ہوئے آہستہ سے تپائی رکھنے کے بہانے سیڑھیوں کی طرف گیا اور وہیں سے خداحافظ کہہ کر باہرنکل گیا۔
تھوڑی دیر بعد ایک آواز آئی۔ میں نے سوچا کہ یہ صمد کو آج کیا ہو گیا ہے۔
دروازہ کھولا تو دیکھاکہ سامنے وہ کھڑا ہے۔ میں نے پوچھا: ’’کیا ہوا؟‘‘
کہنے لگا: ’’میرا چابیوں کا چھلا رہ گیا ہے۔‘‘
میں نے اسے لا دیا۔ سیڑھیوں پر ہم ایک لحظے کے لیے بالکل تنہا رہ گئے۔ وہ اپنا چہرہ آگے لایا اور میری پیشانی پر بوسہ دے کر کہنے لگا: ’’قدم! مجھے معاف کرنا۔ ان چند سالوں میں مَیں نے زحمت کے علاوہ تمہیں کچھ نہیں دیا۔‘‘
میرے کچھ کہنے تک وہ جا چکا تھا۔ میں سیڑھیوں پر بیٹھی سوچتی رہ گئی۔
میرا دل بھر آیا تھا۔ تیل لینے کے بہانے صحن میں گئی اور تیل کے کُپے کو صحن کے کونے سے اٹھایا۔ وہ کافی بھاری تھی۔ میں ہانپتی کانپتی مشکل سے اسے بالکونی کی طرف لے کر جانے لگی۔ موسم سرد تھا۔ برف صحن میں جمی ہوئی تھی۔ میرے پاؤں میں ہوائی چپل تھی۔ میں لرز رہی تھی۔ بچے کھڑکی پر کھڑے کمبل کو ایک طرف کیے مجھے دیکھے جا رہے تھے۔ اس ہٹے ہوئے کمبل سے میری نظر طاقچے میں لگی صمد کی تصویر پر جا پڑی۔ اس کے پاس وہی قرآن پڑا تھا جس میں اس نے اپنی وصیت لکھ کر رکھ چھوڑی تھی۔
اس نے کہا تھا: ’’جب بھی بچے میرے لیے ضد کرنے لگیں تو انہیں یہ تصویر دکھا دیا کرنا۔‘‘
نہیں معلوم جب بھی میں اس تصویر کو دیکھتی تو میری حالت بدل سی کیوں جاتی۔ دل بے قابو ہونے لگتا، سانسیں بے ترتیب ہونے لگتیں اور دنیا جہان کے غم میرے دل میں بسیرا کرنے لگتے۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ تصویر دیکھتے ہی ہزاروں برے برے خیالات میرے ذہن پر حملہ آور ہو جاتے۔ میں نے کُپے کو دوبارہ اٹھایا تا کہ کمرے میں لے جاؤں کہ اچانک میرا پاؤں پھسلا اور میں زمین پر گر گئی۔
میں درد سے دوہری ہوئی جا رہی تھی۔ میرا پاؤں کپے کے نیچے آ گیا تھا۔ جیسے تیسے پاؤں کو کپے کے نیچے سے نکالا۔ درد سوئی کی طرح ہڈیوں کے گودے میں اتر رہا تھا۔بچے شیشے کھٹکھٹا رہے تھے۔ میں کھڑی نہیں ہو پا رہی تھی۔ وہیں صحن میں برف پر بیٹھ گئی اور درد سے بے اختیار ہو کر آنسو بہانے لگی۔
میرے پاؤں کے انگوٹھےکا ناخن سیاہ ہو چکا تھا۔ دل کمزور پڑ رہا تھا۔ بچوں نے جب مجھے اس حال میں دیکھا تو ڈر کر رونے لگے۔ اسی وقت میری نظر تصویر پر پڑ گئی۔ میں بچوں کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی۔ دانت زور سے ہونٹوں میں گاڑ لیے تا کہ آنسؤوں پر ضبط کر سکوں لیکن دل میں فریاد کر رہی تھی: ’’صمد! صمد جان! پس تم کب اپنی بیوی اور بچوں کی خبر لینے آؤ گے؟ کب تم ہمارے اور صرف ہمارے ہو کر رہو گے؟‘‘
پیشانی ابھی تک اس کے بوسے کی گرمائی محسوس کر رہی تھی۔ ہزار جتن کر کے میں اٹھی اور کمرے میں آ گئی۔
بچے رو رہے تھے اور کسی طور چپ ہونے میں نہیں آ رہے تھے۔ اوپر سے مجھے ان کا دکھ بھی بہت ہو رہا تھا۔ میں مشکل سے اٹھی ا ور تصویر کو طاقچے سے اٹھا کر نیچے لے آئی۔ میں نے کہا: ’’آؤ، بچو! بابا! دیکھو تو تمہارے بابا ہنس رہے ہیں۔‘‘
بچے خاموش ہو گئے اور آ کر تصویر کے پاس بیٹھ گئے۔ مہدی صمد کی تصویر کو چوم رہا تھا۔ سمیہ بھی آگے بڑھی اور مہدی کو دیکھ کر اس کی طرح تصویر پر بوسے دینے لگی۔ زہرا تصویر کے چوکھٹے پر پیار سے ہاتھ پھیر رہی تھی اور اپنی میٹھی زبان سے بابا بابا کہہ رہی تھی۔ میری طرف دیکھتی اور کھلکھلا کر ہنس دیتی۔ تصویر کے چوکھٹے پر جہاں بچے اپنے ہاتھ اور منہ مار رہے تھے، داغ پڑ گیا تھا۔
میں اپنےہاتھوں میں انگوٹھا پکڑے بیٹھی تھی اور زور سے اسے دبا رہی تھی۔ میں نے سمیہ سے کہا: ’’ماں کو ایک گلاس پانی کا تو لا دو۔‘‘
میں پانی پی کر وہیں بچوں کے پاس لیٹ گئی۔ لیکن مجھے اٹھنا تھا کیونکہ بچے کھانا مانگ رہے تھے۔ زہرا کے میلے کپڑے دھونا تھے۔ ناشتے والا دسترخوان ابھی تک پڑا تھا، اسے سمیٹنا تھا۔
ظہر کا وقت ہونے والا تھا۔ سکول جا کر خدیجہ اور معصومہ کو بھی لانا تھا۔ میں نے کچھ نارنگیاں ایک برتن میں ڈال دیں۔ بچے جیسے ہی انہیں چھیلنا شروع ہوئے تو ان سے آنکھ بچاتے ہوئے اٹھی، چادر اوڑھی اور لنگڑاتی لنگڑاتی خدیجہ اور معصومہ کو لینے چلی گئی۔
انیسواں باب
مارچ کا مہینہ تھا۔ صمد چلا گیا تھا اور اس نے دو تین دن بعدآ جانا تھا لیکن بیس روز گزرنے کے بعد بھی ابھی تک وہ واپس نہ لوٹا تھا۔ اوپر سے میرے سسر بھی نہ آئے تھے۔ وہ کافی بےقرار سی سہ پہر تھی۔ بچے ٹی وی پر بچوں کا ایک پروگرام دیکھ رہے تھے۔ باہر موسم تھوڑا گرم ہو چکا تھا۔ برف آہستہ آہستہ پگھل رہی تھی۔ اکثر لوگ عید [نوروز] کی تیاری کی وجہ سے گھروں کی صفائی ستھرائی میں مصروف تھے۔ میں نے بہت کوشش کی مگر کسی طور کام کرنے کا جی نہیں چاہ رہا تھا۔ میں اپنے آپ سے کہہ رہی تھی: ’’آج کل میں صمد آ ہی جائے گا۔ جب وہ آئے گا تو میری طبیعت بھی بحال ہو جائے گی۔ اس وقت دونوں مل کر گھر کی صفائی بھی کر لیں گے اور بازار جا کر بچوں کے لیے عید کے کپڑے بھی خرید لائیں گے۔‘‘ مجھے وہ لہنگا یاد آ گیا جو میں نے کل اپنے بھائی کے ساتھ جا کر خریدا تھا۔ میرا دل پھر بے چین ہو گیا۔ میں نے ایسا کیوں کیا۔ سال کے شروع ہی میں مَیں نے کالا لہنگا کیوں خرید لیا۔ میرا بھائی بےچارہ کل صبح آیا تا کہ مجھے اور بچوں کو عید کے کپڑے خریدنے کے لیے بازار لے جائے، مگر میں نے انکار کر دیا۔ میں نے اسے کہا تھا: ’’صمد خود آئے گا تو بچوں کے لیے خود ہی خریداری کرے گا۔‘‘ اس نے بہت اصرار کیا، بالآخر کہا: ’’اچھا کم از کم خود آ کر کوئی ایک چیز تو خرید لو۔ آخر کو میں تمہارا بڑا بھائی ہوں۔‘‘ اب بھی گاؤں میں رسم ہے کہ عید کے نزدیک بھائی اپنی بہنوں کے لیے عید کی خریداری کرتے ہیں۔ میں اس کا دل نہیں توڑنا چاہتی تھی۔ لیکن نہیں معلوم اتنے خوبصورت اور رنگارنگ کپڑوں میں سے میں نے ایک کالا لہنگا ہی کیوں پسند کیا تھا۔ لگتا تھا کہ میرے بھائی کو بھی یہ پسند نہ آیا۔ کہنے لگا: ’’بہن! جو تمہاری پسند لیکن کوئی قمیص، کُرتی یا کوئی اور اچھی خوش رنگ چیز اٹھاؤ۔‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں، یہی ٹھیک ہے۔‘‘
جیسے ہی گھر میں آئی تو پشیمان ہو گئی اور سوچا کہ کاش اس کی بات مان لی ہوتی اور سال کے شروع ہی میں کالا لہنگا نہ خریدتی۔ پھر اپنے آپ کو تسلی دی اور کہا کہ چلو کوئی حرج نہیں۔ صمد آئے گا تو اس کے ساتھ جا کر تبدیل کروا لاؤں گی اور اس کی جگہ ایک خوش رنگ اور خوبصورت قمیص خرید لاؤں گی۔
بچے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ خدیجہ اپنا سبق پڑھ رہی تھی۔ کہنے لگی: ’’ماں!ظہر کے وقت جب آپ روٹی لینے گئی تھیں تو چچا شمس اللہ آئے تھے۔ انہوں نے الماری سے ہماری البم اٹھائی اور اس میں سے بابا کی ایک تصویر نکال کر لے گئے۔‘‘
مجھے بہت برا لگا۔ میں نے پوچھا: ’’تم نے مجھے پہلے کیوں نہ بتایا؟‘‘
خدیجہ نے سر نیچے کرتے ہوئے کہا: میں بھول گئی تھی۔‘‘
مجھے بہت ہی برا لگا۔ یعنی شمس اللہ ہمارے گھر میں آیا اور مجھے بتائے بغیر جا کر الماری سے صمد کی تصویر اٹھا لی۔ میں یہی سوچ رہی تھی کہ دروازے کی آواز آئی۔
بچے خوشی سے اٹھے اور دروازے کی طرف دوڑ پڑے۔ مہدی خوشی سے چلایا: ’’بابا!۔۔۔ بابا آ گئے۔۔۔‘‘
مجھے نہیں معلوم کہ میں نے کس طرح اپنے آپ کو سیڑھیوں تک پہنچایا۔ جو کچھ میں نے دیکھا تھا اس نے مجھے حیران کر دیا تھا۔ میرے سسر نے دروازہ کھولا تھا اور اندر آئے تھے۔ میرا بھائی امین بھی ان کے ساتھ تھا۔ میں مبہوت ہو گئی تھی: ’’آپ لوگ صمد کے ساتھ آئے ہیں؟ صمد بھی آیا ہے؟‘‘
میرے سسر خاک آلودہ تھے اور پہلے سے زیادہ بوڑھے ہو گئے تھے۔ بے قراری کی حالت میں کہنے لگے: ’’نہیں، ہم خود ہی آئے ہیں۔ صمد محاذ پر رہ گیا ہے۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’آپ نے دروازہ کیسے کھولا؟ چابی تو آپ کے پاس تھی نہیں!‘‘
میرے سسر حواس باختہ ہو گئے۔ کہنے لگے: ’’۔۔۔چابی۔۔۔! ہاں چابی تو ہمارے پاس نہیں ہے، لیکن دروازہ کھلا ہوا تھا۔‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں، دروازہ کھلا ہوا نہیں تھا۔ مجھے پورا یقین ہے۔ سہ پہر کو میں باہر کچھ چیزیں خریدنے گئی تھی تو واپسی پر دروازہ بند کر دیا تھا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ دروازہ میں نے بند کر دیا تھا۔‘‘
انہوں نے جھنجھلاکر کہا: ’’حتماً تمہارا دھیان نہیں رہا ہو گا۔ بچے باہر گئے ہوں گے اور انہوں نے دروازہ کھلا چھوڑ دیا ہو گا۔‘‘
اگرچہ مجھے پورا یقین تھا مگر ان کے سامنے اصرار نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میں نے پوچھا: ’’تو صمد کہاں ہے؟‘‘
انہوں نے تھکے تھکے لہجے میں جواب دیا: ’’محاذ پر۔‘‘
میں نے کہا: ’’مگر کیا اسے آپ کے ساتھ نہیں آنا تھا، اور وہ بھی دو تین دن کے اندر اندر؟‘‘
انہوں نے کہا: ’’جب ہم لوگ محاذ پر پہنچے تو ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ صمد اپنے کام پہ چلا گیا۔ مجھے اس کی کوئی خبر نہیں ہے۔ میں تو ستار کو ڈھونڈنے گیا تھا۔ وہ نہیں ملا۔‘‘
میں نے سوچا کہ شاید میرے سسر ستار کے نہ ملنے کی وجہ سے اتنے غمگین ہیں ۔ میں نے انہیں اندر آنے کو کہا لیکن میرے دل میں طوفان بپا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ اگر یہ سچ کہہ رہے ہیں تو میرے بھائی کے ساتھ کیوں آئے ہیں؟ امین تو قایش میں تھا۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ قایش میں تھا۔ خدانخواستہ کچھ برا تو نہیں ہو گیا!
میں نے دوبارہ پوچھا: ’’آپ سچ کہہ رہے کہ آپ کو صمد کی کوئی خبر نہیں ہے؟ وہ ٹھیک ہے؟‘‘
میرے سسر نے اکتا کر کہا: ’’کہہ تو رہا ہوں کہ مجھے نہیں معلوم۔ میں بہت تھکا ہوا ہوں۔ میرا بستر بچھا دو میں سونا چاہتا ہوں۔‘‘
میں نے حیران ہو کر پوچھا: ’’آپ سونا چاہتے ہیں؟ ابھی تو شام ہے۔ میں کھانا بناتی ہوں۔‘‘
انہوں نے کہا: ’’مجھے بھوک نہیں ہے۔ بہت نیند آ رہی ہے۔ میرا اور اپنے بھائی کا بستر بچھا دو۔ ہم سونا چاہتے ہیں۔‘‘
بچے ماموں کے گرد ہو گئے تھے اور اس سے شینا کا حال احوال پوچھ رہے تھے مگر وہ ٹھیک سے جواب نہیں دے رہا تھا۔ میں نے سوچا: ’’خدانخواستہ شینا کو تو نہیں کچھ ہو گیا؟‘‘ میں نے اپنے بھائی کو قسم دے کر کہا: ’’بابا کی جان، سچ بتاؤ، شینا کو تو کچھ نہیں ہوا؟‘‘ امین بھی میرے سسر کی طرح جھنجھلاتے ہوئے بولا: ’’خدا کی قسم، کچھ بھی نہیں ہوا۔ وہ خیریت سے ہیں۔ اگر چاہتی ہو تو کل جا کر انہیں لے آؤں تا کہ تمہیں تسلی ہو جائے؟‘‘
میں نے کچھ نہیں کہا اور جا کر اپنے سسر کے لیے بستر بچھانے لگی۔ وہ سونے چلے گئے۔ میں بھی بچوں کو بھائی کے حوالے کر کے خانم دارابی کے گھر چلی گئی۔ اسے سارا ماجرا سنایا: ’’میں چھاؤنی فون کر کے صمد کے بارے میں پوچھنا چاہتی ہوں۔‘‘
خانم دارابی ہمیشہ پوری کشادہ دلی سے ٹیلی فون میرے سامنے رکھ کر خود کمرے سے باہر چلی جاتی تھی تا کہ میں کسی جھجک اور دخالت کے بغیر آسانی سے بات کر سکوں۔ اس بار وہ ٹیلی کے پاس بیٹھ کر کہنے لگی: ’’میں نمبر ملاتی ہوں۔‘‘
میں اس کے سامنے بیٹھ گئی۔ وہ نمبر ملاتی اور کاٹ دیتی، ملاتی اور کاٹ دیتی۔ اس نے کہا: ’’نمبر مشغول ہے۔مل نہیں رہا۔ لگتا ہے لائنیں خراب ہیں۔‘‘
میں آدھا گھنٹہ بیٹھ کر اس کو نمبر ملاتےہوئے دیکھتی رہی۔ لگتا تھا کہ اس کے حواس کہیں اور ہیں۔ زیر لب اپنے آپ سے کچھ کہہ رہی تھی۔ ایک دو نمبر ملانے کے بعد کاٹ دیتی۔ میں نے کہا: ’’اگر نہیں مل رہا تو میں چلی جاتی ہوں۔ دوبارہ آ جاؤں گی۔ بچے میرے بھائی کے پاس ہیں۔ انہیں کھانا دے کر آتی ہوں۔‘‘
میں گھر واپس چلی گئی۔ میرا بھائی بچوں کے پاس نہیں تھا۔ وہ میرے سسر کے پاس چلا گیا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ آواز میں باتیں کر رہے تھے۔ جیسے ہی مجھے دیکھا تو خاموش ہو گئے۔
میری پریشانی بڑھ گئی۔ میں نے کہا: ’’آپ سوئے کیوں نہیں؟ کچھ ہوا ہے کیا؟ آپ کو ستار کی روح کا واسطہ اگر کچھ ہو گیا ہے تو مجھے بتا دیں۔ میرا دل گھبرا رہا ہے۔‘‘
میرے سسر جا کر اپنی جگہ پر لیٹ گئے اور کہا: ’’نہیں بہو، کچھ بھی نہیں ہوا۔بس ایسے ہی ہم دو تین مردانہ باتیں کر رہے تھے۔ گھر کی کچھ باتیں تھیں۔ ہونا کیا ہے۔ اگر کچھ ہوا ہوتا تو ہم حتماً تمہیں بتاتے۔‘‘
میں ہال میں واپس آ گئی۔ مجھے رات کے کھانے کے لیے کچھ تیار کرنا تھا۔ زہرا، سمیہ اور مہدی آپس میں کھیل رہے تھے۔ خدیجہ اور معصومہ اپنا سکول کا کام لکھ رہی تھیں۔
میں گھبراہٹ سی مری جا رہی تھی۔ دل سینے میں ٹک نہیں رہا تھا۔ بہر حال رات کا کھانا پکایا۔دوبارہ خانم دارابی کے گھر چلی گئی۔ میں نے کہا: ’’تمہیں خدا کا واسطہ، اپنے شوہر کو ایک فون کر کے ان سے صمد کی خیریت دریافت کر لو۔‘‘
خانم دارابی نے فوراً جواب دیا: ’’اتفاق سے ابھی چند منٹ پہلے ہی میں نے انہیں فون کیا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ تمہارے شوہر بالکل خیریت سے ہیں۔ وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ صمد ابھی ہمارے پاس ہے۔‘‘
میں خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔ میں نے کہا: ’’ تیرے قربان!خدایا ہمیشہ خیر کی خبر دینا۔ پس اب دوبارہ اگر زحمت نہ ہو تو اپنے شوہر کو فون کرو کہ اگر صمد چلا نہیں گیا تو اس سے بھی بات کر لوں۔‘‘
خانم دارابی نے پہلے تو ٹال مٹول کی پھر خود ہی ٹیلی فون اٹھا کر نمبرملایا اور کاٹ دیا۔ کہنے لگی: ’’ان کا فون مشغول ہے۔‘‘
آخر کار کہنے لگی: ’’او خدایا! لگتا ہے ساری لائنیں منقطع ہیں۔‘‘
مجھےخانم دارابی کے اس رویے سے جھنجھلاہٹ ہونے لگی۔ اسے خدا حافظ کہا اور اپنے گھر آ گئی۔ میں اب بری طرح شک میں پڑ گئی تھی۔ خانم دارابی کا رویہ ہمیشہ کی طرح نہیں تھا۔ لگتا تھا کہ کوئی حادثہ ہو گیا ہے جس کی اسے خبر ہے۔ جیسےہی میں گھر میں پہنچی تو دیکھا کہ میرے سسر اور بھائی ہال میں بیٹھے طاقچے پر پڑے ہوئے قرآن کو ہاتھ میں لے کر بیٹھے ہیں اور صمد کا وصیت نامہ پڑھ رہے ہیں۔ میرے سسر نے جیسے ہی مجھے دیکھا تو وصیت نامے کو تہہ کر کے قرآن کے اندر کھنے لگے: ’’ہمیں نیند نہیں آ رہی تھی۔ تو ہم نے سوچا کہ قرآن کی تلاوت کر لیتے ہیں۔‘‘
میں نے ہونٹ کاٹ لیے اور ان کے رویے سے تنگ آ کر کہا: ’’آپ لوگ مجھ سے کیا چھپا رہے ہیں۔ یہی نا کہ صمد شہید ہو گیا ہے۔‘‘ میں نے اپنے سسر سے قرآن کو لے کر اپنے سینے سے لگا لیا اور کہا: ’’صمد شہید ہو گیا ہے۔ میں جانتی ہوں۔‘‘
میرے سسر نے حیران ہو کر میری طرف دیکھا اور کہا: ’’کس نے کہا؟‘‘
اچانک میرا بھائی رونے لگا۔
میں بھی رونے لگی اور قرآن کو کھولا، اس کا وصیت نامہ اٹھایا اور بوسہ دے کر کہا: ’’صمد جان! تمہارے بچے ابھی بہت چھوٹے ہیں۔ جانے کا یہ کون سا وقت ہے۔ بے وفا کہیں کے، بغیر خدا حافظ کہے چلے گئے۔ یعنی میں ایک خداحافظی کی حقدار بھی نہیں ہوں۔‘‘
میں نے اپنا ہاتھ قرآن پر رکھ کر کہا: ’’خدایا! تجھے اس قرآن کا واسطہ، سب جھوٹ ہو۔ صمد دوبارہ لوٹ آئے۔ اے خدا! میرے صمد کو واپس لے آ۔‘‘
میرے سسر نے اپنا سر دیوار کے ساتھ ٹکا دیا۔ وہ رو رہے تھے اور ان کے کندھے ہل رہے تھے۔ شاید خدیجہ اور معصومہ بھی سمجھ گئی تھیں کہ کیا ہوا ہے۔ وہ میرے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔ میرے ساتھ ساتھ وہ بے چاری بھی رونے لگیں۔ سمیہ میرے پاؤں پر بیٹھ گئی تھی اور میرے آنسو صاف کر رہی تھی۔ مہدی ٹک ٹک مجھے دیکھ رہا تھا۔ زہرا روہانسی ہو گئی تھی۔
میرے سسر زار و زار روتے ہوئے ہچکیاں لیتے ہوئے صمد اور ستار کو پکارے جا رہے تھے۔ انہوں نے مہدی کو اپنی گود میں لےلیا، اسے چوما اور اس کے لیے ترکی کے دردناک اشعار پڑھنے لگے۔ لیکن پھر اچانک خاموش ہو کر کہنے لگے: ’’صمد نے اپنے وصیت نامے میں لکھا ہے کہ میری بیوی سے کہہ دیجیے گا کہ وہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی طرح زندگی گزارے۔ یہ بھی لکھا ہے کہ میرے بعد میرے گھر کا مرد مہدی ہے۔‘‘
اور وہ دوبارہ رونے لگے۔
میرا بھائی گیا اور صمد کی تصویر والا چوکھٹا طاقچے سے اتار لایا۔ بچے ہمیشہ کی طرف تصویر کی طرف دوڑ پڑے۔ ایک بوسہ دے رہا تھا،ایک اسے سہلا رہا تھا۔ زہرا اپنی میٹھی میٹھی زبان میں بابا بابا کہہ رہی تھی۔
میرے بھائی نے اپنے ہاتھ آسمان طرف کی بلند کر کے کہا: ’’خدایا! ہمیں صبر دے۔ خدایا! ہم اتنی طاقت کہاں سےلائیں؟خدایا! میری بہن کیسے ان یتیم بچوں کی پرورش کرے گی؟‘‘
تھوڑی دیر بعد ہمسائے بھی ایک ایک کر کے آنے لگے۔ وہ روتے ہوئے میرے گلے لگ جاتے اور میرے بچوں کو چومتے۔ جیسے ہی خانم دارابی آئی تو میں اور زیادہ رونے لگی۔ وہ اپنے ہاتھوں کو ہوا میں لہراتے ہوئے سوگ کی حالت میں بولی: ’’میرے جگر کو تم نے جلا دیا ہے قدم بیگم؟ تم اور تمہارے بچوں نے ہمیں غمگین کر دیا ہے۔ تمہارے غم نے مجھے جلا کر رکھ دیا ہے قدم بیگم۔‘‘
میں نے بین کرتے ہوئےکہا: ’’تمہیں تو سب سے پہلے پتا چل گیا تھا کہ میرے بچے یتیم ہو گئے ہیں۔‘‘
خانم دارابی رو رہی تھی اور اپنے سر و بازو کو ہلائے جا رہی تھی۔ بے چاری کا سانس پھول گیا تھا اور وہ بے ہوش ہونے کے قریب تھی۔
اس رات صبح تک میں تڑپتی رہی۔ جیسےہی بچے سو جاتے تو ان کے سرہانے جا کر ایک ایک کو بوسہ دیتی اور روتی۔ وہ بے چارے میرے رونے کی آواز سن کر جاگ جاتے۔
اس رات میرا کلیجہ پھٹ کر رہ گیا۔ صبح تک زارو قطار روتی رہی، بین کرتی رہی اور بچوں کی تنہائی پر آنسو بہاتی رہی۔
باہر سے میرا بدن برف بن چکا تھا مگر اندر ایک الاؤ روشن تھا۔ ہمسائی عورتیں صبح تک پروانے کی طرح میرے آگے پیچھے ہوتی رہیں اور میرے ساتھ لگ کر روتی رہیں۔
میں زہرا کو دودھ نہیں پلا سکتی تھی۔ بے چاری بھوکی تھی اور چیخ رہی تھی۔ ہمسائی عورتیں زہرا اور سمیہ کو اپنے ساتھ لے گئیں۔
اگلے روز صبح قایش سے کچھ دوست احباب اور رشتہ دار منی بسوں پر آ گئے۔ ان کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں۔ صمد کے دوستوں نے آ کر بتایا: ’’صمد کو چھاؤنی میں لے آئے ہیں۔‘‘ ہم اسے دیکھنے کو جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ صمد کو انہوں نے ایک بڑی فریزر گاڑی میں رکھا ہوا تھا۔ کچھ دوسرے شہداء بھی اس کے ساتھ تھے۔ گاڑی کا دروازہ کھولا گیا۔ تابوت اوپر تلے ایک دوسرے پر رکھے ہوئے تھے۔ میرا دیور تیمور میرے پاس کھڑا تھا۔ میں نے کہا: ’’صمد! میرے صمدکو لے آؤ۔ بہت دن ہو گئے ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا نہیں ہے۔‘‘ تیمور گاڑی کے اوپر چڑھا۔ دوسرے لوگوں کی مدد سے کچھ تابوت نیچے اتارے۔ صمد ان میں نہیں تھا۔ پھر تیمور نے ایک تابوت میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا: ’’بھائی ہیں۔‘‘
اس کے بھائیوں، بہنوں، باپ، ماں اور میرے بابا نے تابوت کے گرد حلقہ باندھ لیا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ شینا میرے پاس ہوتیں اور میں ان کے گلے لگ کر روتی۔ ان آخری دنوں میں ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور وہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتی تھیں۔ صمد کے پاس میرے اور بچوں کے لیے جگہ نہیں تھی۔ میں اس کے تابوت کی پائینتی میں بیٹھ گئی اور آہستہ آہستہ روتے ہوئے کہنے لگی: ’’تمہارے پاس میرے لیے ہمیشہ اتنا حصہ ہوتا تھا۔ آخری شخص، آخری نظر۔‘‘
میری ساس اور سسر غم سے بے حال تھے۔ ستار کی شہادت کو فقط دو ماہ گزرے تھے۔ یہ ان کے گھر کا دوسرا شہید تھا۔ صمد کے بھائیوں نے تابوت کو اٹھایا اور ایمبولینس میں رکھ دیا۔ میں نے اصرار کیا کہ باغِ بہشت تک مجھے اس کے ساتھ بیٹھنے دیں۔ میں تنہائی میں اس سے کچھ باتیں کرنا چاہتی تھی، مگر انہوں نے اجازت نہ دی۔ زبردستی مجھے دھکیل کر دوسری گاڑی میں بٹھا دیا۔ ایمبولینس چل رہی تھی اور ہم اس کے پیچھے پیچھے تھے۔ صمد آگے آگے جا رہا تھا؛تیز تیز۔ ہم اس کے پیچھے تھے؛ آہستہ آہستہ۔ کبھی اس سے دور ہو جاتے اور وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتا۔ مجھے یاد نہیں کہ ڈرائیور کون تھا۔ میں نے اسے کہا: ’’تمہیں خدا کا واسطہ، جلدی جلدی گاڑی چلاؤ۔ ان آخری لمحات میں مجھے اسے جی بھر کر دیکھنے دو۔‘‘
ایمبولینس ہمارے ڈرائیور کی نظروں سےا وجھل ہو چکی تھی۔ آخری وقت تک ہم ایک دوسرے سے دور تھے۔ میرا دل بے چین ہو رہا تھا۔ بہت سی ان کہی باتیں میرے اندر رہ گئی تھیں۔ میں چاہتی تھی کہ نو سال بعد اپنے دل کی باتیں اس سے کروں۔ میں چاہتی تھی کہ اس کے لیے اپنے بے قراریاں اور بے تابیاں اسے بتاؤں۔ اسے بتاؤں کہ کیسے راتوں اور دنوں میں میں نے اس کے فراق میں آنسو بہائے ہیں۔ میں اسے بتانا چاہتی تھی کہ آخر کار میں اس کی کس قدر شدت سے عاشق ہو گئی تھی۔
باغِ بہشت پہنچے تو میں دوڑ پڑی۔ میں نے کہا؛ ’’میں چاہتی ہوں کہ اس سے اپنی آخری باتیں کر لوں۔‘‘ کتنے لوگ وہاں جمع ہو گئے تھے۔ میرے پہنچنے تک تابوت لوگوں کے ہاتھوں پر حرکت کر رہا تھا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے دوڑ پڑی۔ پھر دیکھا کہ تابوت سامنے پڑا نماز کا انتظار کر رہا تھا۔ میں صف میں کھڑی ہو گئی۔ نماز کے بعد صمد دوبارہ لوگوں کے ہاتھوں پر آگے بڑھنے لگا۔ وہ ہمیشہ سے لوگوں کے لیے زندہ رہا تھا۔ اب وہ اسے لیے جا رہے تھے؛ بغیر غسل و کفن کے، اسی خوبصورت سبز لباس میں۔ میں نے کہا: ’’میرے بچوں کو لاؤ۔ کل کو یہ ضد کریں گے اور مجھ سے اپنے بابا کو مانگیں گے۔ انہیں دیکھنے دو کہ ان کے بابا چلے گئے ہیں اور اب لوٹ کر نہیں آئیں گے۔‘‘
نالہ و شیون کی آواز سے باغِ بہشت معمور ہو چکا تھا۔ صمد کو زمین پر رکھ دیا گیا۔ میرا صمد آرام سے تابوت میں سویا ہوا تھا۔
میں آگے بڑھی۔ خدیجہ اور معصومہ کو اپنے ساتھ لے گئی۔ میں جو اتنی بے قرار تھی، اچانک پُرسکون ہو گئی۔ مجھے اپنے سسر کی بات یاد آ گئی جنہوں نےکہا تھا: ’’صمد نے اپنے وصیت نامے میں لکھا ہے کہ میری بیوی سے کہہ دینا کہ میرے بعد حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی طرح زندگی گزارے۔‘‘
میں اس کے پاس بیٹھ گئی۔ اس کے بائیں رخسار پر ایک گولی لگی تھی۔ اس کی داڑھی خون سے بھر چکی تھی جبکہ باقی بدن سالم تھا۔ وہ اپنے اسی سبز فوجی لباس میں آرام سے سویا ہوا تھا۔ اس کا چہرہ اسی روز کی طرح خوبصورت اور نورانی لگ رہا تھا جس دن اس نے نہا کر چارخانوں والی سفید اور نیلی قمیص پہنی تھی۔
وہ مسکرا رہا تھا اور اس کے سفید دانت چمک رہے تھے۔ کاش وہاں کوئی نہ ہوتا۔ کاش وہ روتا ہوا سیاہ پوش ہجوم ہمارے اردگرد نہ ہوتا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ جھک کر اپنی آخری ملاقات کی یادگار کے طور پر اس کی پیشانی پر بوسہ دوں۔ میں نے زیرِ لب کہا: ’’خدا حافظ۔‘‘ بس اتنا ہی کہہ پائی۔ میرے پاس زیادہ باتوں کی فرصت نہیں تھی۔ کچھ لوگ آگے بڑھے اور صمد کو اٹھا کر لے گئے۔ وہ صمد جس کی میں عاشق تھی، وہ اسے مجھ سے جدا کر کے لے گئے تھے۔ جب انہوں نے اس کی قبر پر پتھر رکھ دیا اور اس کے چہرے پر مٹی ڈال دی تو اچانک میں ٹھنڈی ہو گئی۔ وہ آگ کا الاؤ جو گذشتہ رات سے میرے دل میں بھڑک رہا تھا، یکدم بجھ گیا۔ پاؤں میں جان نہیں رہی تھی۔ دل سرد ہو چکا تھا۔ امید مایوسی میں بدل چکی تھی۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ میں ان اتنے لوگوں میں اکیلی رہ گئی ہوں۔ بے یار و مددگار، بے ہمدم و ہم نفس۔ ایسا لگا کہ اچانک ایک اور ہی دنیا میں پھینک دی گئی ہوں۔ ایک اجنبی جگہ جہاں نہ کوئی سہارا ہے اور نہ کوئی آسرا۔ میری پشت خالی ہو چکی تھی۔ میں ایک بلندی سے ایک گہری کھائی میں گر رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد میں اپنے پانچ چھوٹے بڑے بچوں کو لیے اس کی قبر کے سرہانے بیٹھی تھی۔ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ صمد یہاں نیچے ہے، اس مٹی کے ڈھیر کے نیچے۔ میں نے لاکھ جتن کیے کہ مجھے تھوڑی دیر وہاں بیٹھنے دیں مگر انہوں نے نہ بیٹھنے دیا۔ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے گاڑی پر بٹھا دیا۔ جب واپس ہوئے تو گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے دوست آ رہے تھے۔ وہ صمد کے ساتھ گزرے ہوئے اپنے واقعات سنا رہے تھے۔ میں کسی کو نہیں دیکھ رہی تھی۔ کوئی آواز نہیں سن رہی تھی۔ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ میرا صمد وہی ہے جس کے بارے میں وہ سب باتیں کر رہے ہیں۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ جلدی جلدی سارے لوگ چلے جائیں اور گھر خالی ہو جائے۔ فقط میں اور میرے بچے رہ جائیں۔ مہدی کو گلے لگا لوں، زہرا کو بوسے دوں، خدیجہ کے بال بناؤں، معصومہ کو سیڑھیوں پر بٹھاؤں، سمیہ کے کانوں میں لوری سناؤں اور اپنے بچوں کو سونگھوں۔ ان سے صمد کی خوشبو آتی تھی۔ ہر ایک کے چہرے پر صمد کی ایک نہ ایک نشانی موجود تھی۔ سب چلے گئے۔ میں تنہا رہ گئی، بالکل تنہا۔ ہم تنہا رہ گئے۔ مہدی ہمارے گھر کا تین سالہ مرد بن گیا تھا۔
لیکن نہیں، صمد بھی تھا؛ ہر لمحہ، ہر لحظہ، میں اس دیکھتی تھی، اس کی خوشبو کو محسوس کرتی تھی۔
وہ خوبصورت قمیص جو وہ مکہ سے لایا تھا، اسے استری کیا اور الماری میں اپنے کپڑوں کے ساتھ لٹکا دی۔ بچے باہر سے آتے تو اپنے بابا کی قمیص پر ہاتھ پھیرتے اور اس کی خوشبو سونگھتے۔ صمد کی خوشبو ہمیشہ ہمارے لباسوں میں رچی بسی رہتی۔ صمد ہمیشہ ہمارے ساتھ تھا۔
بچے اس کی آواز سنتے تھے: ’’سبق پڑھو۔ آپس میں مہربان رہو۔ ماں کا خیال رکھو۔ خدا کو کبھی نہ بھولو۔‘‘
بعض اوقات تو وہ بالکل نزدیک آ جاتا اور میرے کان میں کہتا: ’’قدم! جلدی کرو۔ بچوں کو جلدی بڑا کرو۔ اپنے کام نمٹاؤ۔ جلدی کرو۔ کتنی دیر کر رہی ہو۔ ہمیں یہاں سے جلدی جانا چاہیے۔ جلدی کرو۔ میں فقط تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ تمہاری جان کی قسم، اس بارمیں اکیلا جنت میں بھی نہیں جاؤں گا۔ جلدی کرو۔ میں کافی دیر سے یہاں بیٹھا تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ اب دیکھو تو، بچے بھی بڑے ہو گئے ہیں۔ اپنا ہاتھ مجھے تھماؤ۔ بچے اپنا راستہ جانتے ہیں۔ تم آگے آؤ۔ اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دو۔ اب اور تنہائی نہیں جھیلی جاتی۔ باقی راستہ ہمیں اکٹھے ہی طے کرنا ہے۔۔۔‘‘
تَمَّتْ بِالْخَیْرِ