Book

Zindan se paray rang e Chaman

مقدمۂ مترجمین

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمنِ الرَّحيم

تمام حمد ہے اس ذات کے لیے جو عالمین کا رب ہے اور درود و سلام ہو محمد(ص) اور ان کی آل پر۔

یہ کتاب اس صدی کے عظیم اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی رح کے  جانشین ، انتھک انقلابی، بہترین ناظم، صاحب تدبیروحکمت، سیاسی بصیرت سے مالا مال ، نادر روزگار تزویراتی ماہر، عالمی استکبار کے منصوبوں اور حربوں  کو خاک میں  ملانے والے بے مثال قائد امام آیت اللہ  سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کی آب بیتی کا اردو ترجمہ ہے۔ نوے کی دہائی کے دوران ہفتہ وار نشستوں میں  آپ نے اپنی انقلابی زندگی اور جدوجہد کی روداد بیان فرمائی جسے باقاعدہ طور پر قلم بند کیا گیا۔ مذکورہ نشستوں میں بیان ہونے والی روداد  بعد میں ایک کتاب کی شکل میں ڈھل گئی جسے قائد انقلاب کی ڈائری بھی کہا جا سکتا ہے۔ آپ اپنی زندگی کے آغاز ہی سے ڈائری لکھنے کے عادی تھے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے پاس ہمیشہ ایک چھوٹی سی ڈائری رہتی تھی جس میں آپ مختلف واقعات اور شخصیات کے متعلق اہم نکات  درج کر لیتے تھے۔مذکورہ نشستوں میں آپ نے اسی ڈائری کی مدد سے اپنی گزشتہ زندگی کے چند گوشوں  کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا تھا۔

رہبرِ انقلاب نے اس کتاب میں اپنی ابتدائی زندگی کے احوال بیان فرماتے ہوئے اپنے آباء و اجداد، گھر کے ماحول، دینی تعلیم اور ازدواجی زندگی پر روشنی ڈالی ہے۔ کتاب کا اہم اور بڑا حصہ آپ کی مزاحمتی زندگی، مجاہدانہ جدوجہد، چھ بار گرفتاری،  تفتیش وتشدد اور شہربدری کی یادوں پر مشتمل ہے۔

مذکورہ نشستوں کے انعقاد کی بڑی وجہ رہبر انقلاب کا عربی زبان سے خاص لگاؤ تھا۔ان نشستوں کے آغاز میں رہبرِ انقلاب عربی زبان میں مختلف موضوعات پر گفتگو فرماتے تھے۔  پھر جب حاضرین میں سے بعض نے اصرار کیا تو  آپ نے اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو شروع کی۔ مذکورہ یادوں کو جمع کیا گیا اور عربی زبان میں “اِنَّ مَعَ الصَّبْرِ نَصْراً” کے نام سے  کتاب نشر ہوگئی۔ فارسی زبان میں  اس کا ترجمہ “خون دلی که لعل شد” کے عنوان سے منظر عام پر آچکا ہے۔

کتاب کی اہمیت کے پیش نظر اس کے اردو ترجمے کی اشد ضرورت محسوس ہوئی۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی ہدایت پر چند طلاب کرام نے اس کتاب کے ترجمے کی ذمہ داری اٹھائی۔ ترجمے میں عربی متن کو محور قرار دیا گیا جبکہ فارسی ترجمے سے صرف ضرورت محسوس ہونے پر استفادہ کیا گیا۔اس حوالے سے کوشش رہی کہ ترجمے میں علمی امانت کا مکمل خیال رکھا جائے البتہ اردو زبان قارئین کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے کتاب کے حواشی میں سے صرف اہم حاشیو ں کا انتخاب کیا گیا ہے  اور  جہاں ضرورت محسوس ہوئی وہاں اضافی حاشیہ لگایا گیا ہے۔

تمام تر کاوشوں کے باوجودانسان ہونے کے ناطے غلطیوں اور نقائص کا امکان موجود ہے۔

 راہ خدا میں جدوجہد کرنے والوں کے لیے اس کتاب میں بہترین دروس موجود ہیں۔ اس کتاب میں موجود جہدِ مسلسل کی داستان یہ پیغام دیتی ہے کہ صبر کا نتیجہ ہمیشہ کامیابی ہے۔انسان اگر اپنے بلند اہداف کے لیے خلوص کے ساتھ کوشاں رہے تو راستے کی سختیاں اور رکاوٹیں اس کے پاؤں کی زنجیر نہیں بن سکتیں۔

دیکھ زنداں سے پرے رنگِ چمن جوشِ بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
مجروحؔ سلطانپوری

خدا اپنے بندوں کے نیک اعمال کبھی ضائع نہیں کرتا۔ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ کل کا ایک قیدی ممکن ہے آج مملکت کے اہم ترین عہدے پر فائز ہو۔لہٰذا اس بات پر یقینِ کامل رکھنا ضروری ہے کہ راہِ خدا میں استقامت ، صبر اور خلوصِ نیت کے ساتھ جدوجہدکا نتیجہ دنیا و آخرت میں سعادت اور کامیابی ہے۔

شرفِ قبولیت کی امید کے ساتھ ہم اس مختصر کاوش کو  حضرت امام زمان, کے حضور پیش کرتے ہیں۔دعا ہے خداوند متعال آپ کے ظہورمیں تعجیل فرمائے، ظلم کا خاتمہ ہو، عدل وانصاف کی حکمرانی ہو اورہادیِ برحقؑ کے زیر سایہ بشریت حقیقی کامیابی سے ہم کنار ہو۔

گروہ مترجمین

۲۶ جون ۲۰۱۹ء

مقدّمہ کتاب

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله (ص) وعلى آله الطيبين الطاهرين وصحبه المنتجبين.

انقلابِ اسلامی ایران نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کا ایک بے نظیر واقعہ ہے۔ نصف صدی پہلے مشرق اور مغرب میں دو عالمی طاقتوں کا چرچا تھا جو پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہی تھیں۔ اسلامی ممالک ان طاقتوں کا خصوصی ہدف تھے۔ اکثر مسلم حکمران ان دو میں سے کسی ایک بلاک   کا حصہ بننے کی تگ ودو میں تھے۔ جبکہ عوام غفلت اور سرگردانی کے عالم میں یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ مختلف شکستوں کے بعدمسلمانوں کے  ارادے مغلوب ہو چکے تھے اور اب مسلمان کوئی بڑا فیصلہ لینے سے عاجز تھے۔

اس فتنہ انگیز اور شکست خوردہ ماحول میں دنیا پر حاکم طاقتوں نے اپنے گمان کے مطابق امت اسلامی کے پیکر پر آخری وار کیا اور مزاحمتی کاوشوں کا سر کچلنے کی خاطر صہیونیزم کے ساتھ صلح اور سلامتی کا منصوبہ بنایا۔ اس دوران جن مبلغین اور مفکرین نے امت مسلمہ کی  بیداری   اور اس کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے کوششیں کیں ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے گئے۔

مسلمانوں کی زبوں حالی کے اس عالم میں ان ظالم اور استکباری طاقتوں کے  خلاف  ایک توانا آواز اٹھتی ہے جو ان فرعونوں کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کردیتی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ آوازایران سے اٹھتی ہے جو اس وقت استکباری طاقتوں کی آماجگاہ بن چکا تھا۔  یہ آواز  در حقیقت خداوند متعال کے اس قول کی ترجمان تھی: قَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَ أَتاهُمُ الْعَذابُ مِنْ حَيْثُ لا يَشْعُرُونَ (نحل: 26) (ترجمہ: ان سے پہلے لوگوں نے مکاریاں کی ہیں، لیکن اللہ نے ان کی عمارت کو بنیاد سے اکھاڑ دیا۔ پس اوپر سے چھت ان پر آگری اور انہیں وہاں سے عذاب نے آ لیا جہاں سے انہیں توقع نہ تھی۔)

اپنے راستے، اہداف اور قیادت کے حوالے سے یہ انقلاب ایک منفرد انقلاب تھا۔ اس انقلاب کا اعتماد خدا کے بعد صرف اور صرف عوام پر تھا ۔ یہ کسی پارٹی یا تنظیم کا انقلاب نہ تھااور نہ ہی اسے کسی عالمی طاقت کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس نے شروع دن سے اعلان کیا کہ اگر کوئی حزب ہے تو وہ حزب الٰہی ہے۔ یہ در حقیقت عوام  ہے جو خدا کی خاطر قیام کرتی ہے۔ اس انقلاب نے شروع دن سے اعلان کیا کہ اس کا تعلق نہ مشرقی بلاک(سوشلزم) سے ہے اور نہ مغربی بلاک (کیپٹلزم) سے۔ (لا شرقیہ ولاغربیہ کا نعرہ)اس انقلاب نے  دنیا پر قبضے کے لیے برسرپیکار  دونوں بڑی طاقتوں میں سے کسی ایک کا بھی بغل بچہ بننے سے  انکار کیا۔

اس انقلاب کا ہدف، جو پہلے دن سے واضح تھا، اسلامی اورجمہوری حکومت کا قیام تھا۔ اس کے بلند اہداف میں عدالت، آزادی، خودمختاری، عزت، کرامت، جدت (جمہوری ہونا) اور اصالت (اسلامی ہونا) وغیرہ شامل تھے۔ اس انقلاب کی رہبری ایک عالمِ دین کے ہاتھ میں تھی جسے ملک بدر کیا گیا۔ امام خمینی= نے اس انقلاب کے ذریعے دینی اقدار کو دوبارہ زندہ کیا۔  اسلامی دنیا کی عزت، کرامت اور شناخت کی بحالی آپ کی اولین ترجیح تھی۔

اس کتاب کا تعلق  انقلابِ اسلامی کی ایک اہم شخصیت سید علی حسینی خامنہ ای(حفظہ اللہ)  سے ہے۔ امام خمینی= کی طرح آپ نےبھی اپنی انقلابی جدوجہد کے دوران عوام خصوصا جوانوں پر خاص توجہ دی۔ آپ  ایران کے مختلف علاقوں کے جوانوں سے مسلسل  رابطے میں رہے۔ آپ کا پیغام طاغوتی طاقتوں سے ٹکراؤ  اور  باعزت، آزاد اور عادلانہ  اسلامی معاشرے کے قیام کے حوالے سے جوانوں کی امنگوں کا ترجمان تھا۔

آپ نے اس راہ میں جیل کی سختیاں جھیلیں، لیکن تمام تر مشکلات کے باوجودکبھی اپنے ہدف سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے۔ اپنی ذاتی زندگی اور اس کی ضروریات کو پس پشت ڈال کر آپ ہمیشہ امت  اور انقلاب کی امنگوں کے لیے جیتے رہے۔ اس حوالے سے آپ نے فکری اور ثقافتی کاموں پر اکتفا نہ کیا، بلکہ ظالم شاہی نظام کے مقابلے میں عملی طور پر بھی میدان میں حاضر رہے۔

آپ انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینی= کے فرمان پر مختلف اہم حکومتی اور فوجی مناصب پر فائز رہے۔ آپ امام خمینی= کے مکمل تابع اور فرمان بردار تھے۔ امام خمینی= کی رحلتِ جانسوز کے بعد مجلس خبرگان نے ولی فقیہ کے عنوان سے آپ کا انتخاب کیا۔ ۳۰ سال کی رہبری میں تمام تر مشکلات، سختیوں اور پابندیوں کے باوجودخدا پر توکل، اپنے تجربات اور عوامی تائید کی بدولت آپ انقلاب کو نئے مراحل میں لے جانے میں کامیاب رہے۔ یوں آپ نے ان تمام لوگوں کے خواب چکنا چور کر دیے جو امام خمینی= کے بعد انقلاب کو ختم ہوتادیکھنا چاہتے تھے۔

آپ کی قیادت کی اہم خصوصیات میں انقلابی روح، بصیرت، اعتدال اور تجدد شامل ہیں۔

یہ کتاب کیسے وجود میں آئی؟

رہبر معظم  عربی زبان اور قرآنی علوم سے خاص محبت رکھتے ہیں۔ اس محبت کا آغاز کم سنی میں ہوا جب آپ قرآن کی حلاوت اور بلاغت سے آشنا ہوئے ۔قرآن سے عشق کی وجہ سے آپ اس کی زبان عربی سے بھی محبت کرنے لگے۔  یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ مکتب میں ناظرہ قرآن پڑھتے تھے۔

اس کے بعدآپ  اپنی زندگی کے تمام مراحل میں قرآن، احادیث، نہج البلاغہ، عربی ادب کے بہترین اشعار اور نثر کے ذریعے اس زبان سے وابستہ رہے۔ جب بھی عربی زبان کے کسی اچھے شاعریا ادیب سے ملاقات ہوتی آپ اس کے ساتھ کچھ وقت گزارنے اور مختلف ادبی و غیر ادبی موضوعات پرعربی زبان میں گفتگو کرنے کی کوشش کرتے۔

اگرچہ مختلف حکومتی ذمہ داریوں کی وجہ سے آپ کی مصروفیات میں اضافہ ہوتا چلا گیا لیکن اس زبان سے آپ کی محبت میں کمی نہیں آئی۔ علمی حوالے سے آپ مطالعہ، درس و بحث، تدریس اور ترجمے کے ذریعے ہمیشہ عربی زبان سے جڑے رہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ عربی زبان سے شدید محبت رکھتے ہیں ۔

یہی وجہ تھی کہ تقریباً 25 سال پہلے اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود آپ نے ہفتہ وار نشستوں کا آغاز کیا اور  عربی زبان میں مختلف موضوعات پر اظہار خیال  فرمانے لگے۔ ان نشستوں میں آپ اکثر  معاصر عربی ادب کے متون پڑھ کر سناتے تھے۔ دورانِ گفتگو آپ بعض اوقات  اپنی زندگی کے کچھ واقعات، خصوصا گرفتاریوں، جیلوں اور شہربدری  کی یادوں کا تذکرہ بھی کرتے۔اس کے ساتھ ساتھ  اپنے شخصی اور معاشرتی تجربات سے بھی حاضرین کو  آگاہ کرتے تھے۔

انہی نشستوں میں آپ سے التماس کی گئی کہ  ان یادوں کو  سپردِ قلم کرنا ضروری  ہے تاکہ قارئین ان تجربات سے استفادہ کریں۔ آپ نےشکریہ ادا کرتے ہوئے  یہ درخواست قبول کی اوراپنی زندگی کی یادیں  املاء کروانے لگے۔ یہ حصہ جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے  آپ کی گرفتاریوں اور قیدوں سے متعلق ہے۔آپ یہ واقعات عربی زبان میں بیان کرتے تھے۔

تحریکِ اسلامی کے ایک اہم قائد(رہبر معظم حفظہ اللہ) کی یہ ڈائری اسلامی تحریکوں کے مطالعے کا شغف رکھنے والوں کے لیے اپنے اندر بہت سی قیمتی معلومات اور اہم تجربات رکھتی ہے۔ آپ کی زندگی راہ خدا میں جدوجہد کرنے والوں کو یہ درس دیتی ہے کہ اگر ارادے محکم ہوں تو تمام تر مشکلات اور سختیوں کے باوجود کامیابی کا حصول ممکن ہے۔ یہ ڈائری قارئین کے فردی اور اجتماعی تجربے اور بصیرت میں اضافےکا باعث بنےگی۔

پہلا باب

وہ دن۔۔۔

دوسری منزل کا کمرہ

میں صوبہ خراسان کے شہر مشہد مقدس([1]) میں پیدا ہوا، جہاں آٹھویں امام علی بن موسی رضا, ([2])مدفون ہیں۔ میری ولادت 30 مارچ  1939؁ء  کو ہوئی۔

جس گھر میں میری ولادت ہوئی وہ ایک چھوٹا اور سادہ سا گھر تھا جس کے دو کمرے تھے۔ اک کمرہ دوسری منزل پر تھا جس میں والدین اور چھوٹے بچے رہتے تھے، جبکہ ایک کمرہ نچلی منزل میں تھا جس میں میری سوتیلی بہنیں رہتی تھیں جن کی والدہ میرے والد اور والدہ کی شادی سے پہلےفوت ہو چکی تھیں۔ تقریبا 30 سال بعد گھر میں کچھ ترمیم ہوئی اور پھر اس کے بعد اوپر والا کمرہ دو کمروں میں تقسیم ہو گیا۔

میری ولادت کے دوسرے سال ہم سارے میرے نانا سید ہاشم میردامادی نجف آبادی([3]) کے گھر منتقل ہو گئے۔ آپ اپنے علم، زہد اور تفسیرِ قرآن میں یدِ طولی رکھنے کے حوالے سے مشہور تھے۔ آپ ان دسیوں علماء میں سے تھے جنہیں میری ولادت سے کئی سال پہلے رضا شاہ پہلوی([4]) نے شہر بدر کیا ہوا تھا۔ ان کا گھر نسبتًا وسیع تھا، لیکن جوں ہی نانا کی شہری بدری ختم ہوئی اور وہ واپس آئےتو ہم اپنےاسی چھوٹے سے گھر میں لوٹ آئے۔ اس کے بعد میرے والد کے کچھ چاہنے والوں نے ہمارے گھر کی توسیع کا اہتمام کیا۔ گھر کے ساتھ موجود متروکہ زمین خرید لی۔ دوبارہ سے عمارت بنائی گئی اور اس طرح ہمارا نیا گھر بن گیا۔ دونوں گھروں کا مجموعی رقبہ  200 میٹر کے قریب تھا۔ اب یہ گھر دینی مجالس کے لیے عمومی جگہ بن چکا ہے اور اسے “حسینیہ” (امام بارگاہ) کہا جاتا ہے۔

گھر کا سامان انتہائی کم اور  سادہ تھا۔ جب میرے والد فوت ہوئے (یعنی جس تاریخ کی ہم بات کر رہے ہیں اس کے 45 سال بعد) اس وقت  اس سامان کی قیمت ۴۰ ہزار تومان سے کچھ زیادہ لگی۔ البتہ اس میں کتابوں کی قیمت شامل نہیں تھی۔

میں گھر میں دوسرا بڑا بیٹا تھا۔ سید محمد مجھ سے بڑے تھے، جبکہ باقی بہن بھائی مجھ سے چھوٹے تھے۔

بازار والی مسجد کے امام

میرے والد سید جواد خامنہ ای تبریز کے ایک مشہور ومعروف علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی ولادت 1313؁ھ میں نجف اشرف میں ہوئی۔ ان کے والد (میرے دادا) سید حسین خامنہ ای  تبریز کی جامع مسجد کے امام تھے۔

یہاں میں اپنے دادا کے حوالے سے کچھ کہنا چاہوں گا۔ سید حسین نے نجف میں 20 سال تعلیم حاصل کی تھی۔ آپ فاضل شربیانی اور شیخ عبد اللہ مامقانی کے والد شیخ حسن مامقانی کے شاگرد تھے۔ 1315؁ھ میں، میرزا شیرازی([5]) کی وفات کے تین سال بعد، آپ نجف سے تبریز واپس آئے۔ نہضتِ مشروطہ([6]) کے آغاز سے چند ماہ بعد۱۳۲۵؁ھ میں آپ کی وفات ہوئی۔ تبریز میں آپ کی تشییع جنازہ ہوئی اور پھر آپ کے جسد خاکی کو نجف لے جا کر قبرستان وادی السلام میں دفنایا گیا۔ آپ مشہور انقلابی عالم شیخ خیابانی کے سسر تھے، پس شیخ خیابانی کی زوجہ ہماری پھوپھی ہوئیں۔ والدمحترم، ہمارے  داد سید حسین کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ عشا کے بعد رات کے پہلے پہر سو جایا کرتے تھے، جبکہ بچے ابھی کھیل میں مشغول ہوتے تھے، اور پھر طلوع فجر  سے دو گھنٹے پہلے عبادت اور مطالعے کے لیے اٹھ جایا کرتے تھے۔ ان کے اکثر مطالعات طلوع فجر سے پہلے ہوتے تھے۔ آپ کا شمار مشہور علماء میں ہوتا تھا اور نجف میں تبریز کے بہت سارے علماء نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا۔ جب آپ تبریز واپس لوٹے تو اس شہر کی جامع مسجد کے امام (جو آپ کے شاگرد تھے اور ان کا تعلق مشہور “مجتہد” گھرانے سے تھا) نے مسجد کی امامت آپ کوسونپ دی۔

ہمارے چچا سید محمد خامنہ ای نجف میں سید محمد پیغمبر کے نام سے معروف تھے اور لوگوں کی ضروریات پوری کرنے میں مشہور تھے۔ آپ آخوند خراسانی اور سید ابو الحسن اصفہانی کے قریبی ترین ساتھیوں میں سے تھے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے 1377؁ھ میں نجف کا سفر کیا  تو آخوند خراسانی کے چھوٹے بیٹے حسین آغا سے میری ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مجھے پہچان لیا اور میرے چچا کی بہت زیادہ تعریف کرتے ہوئے کہا:  ’’میں آپ کے چچا کے کاموں کو چلانے والے چار افراد میں سے ایک تھا۔‘‘

والد صاحب کی طرف پلٹتے ہیں۔ آپ اپنے فضل، علم اور اجتہاد میں مشہورتھے۔ میرزا نائینی اور ابو الحسن اصفہانی جیسے بڑے بڑے علماء سے کسبِ فیض کیا۔ آپ انتہائی پاکیزہ، باحیاء اور مال و متاع سے بے رغبت انسان تھے۔

مشہد میں بازار کے درمیان موجود مسجد کے امام تھے جہاں بڑے بڑے تاجر اور مالدار لوگ رہتے تھے  لیکن آپ لوگوں کے مال و متاع کی طرف ہرگز توجہ نہیں دیتےتھے بلکہ آپ کو یہ کام بالکل پسند نہ تھا۔ آپ کی یہ طبیعت اپنے کمال پر تھی جس  وجہ سے آپ تنہائی پسند  تھے جبکہ میں ان کی اس قسم کی طبیعت کا مخالف تھا۔ میں نے ان سے اس کام کے برعکس (لوگوں سے گھل مل کے رہنا) سیکھا۔  آپ سر جھکائے، نظریں زمین کی طرف رکھے ہوئے مسجد میں داخل ہوتے اور نمازیوں میں سے کسی سے بھی کوئی بات کیے بغیر سیدھے محراب کی طرف چلے جاتے تھے۔ وہاں پہنچ کر اپنی عینک اتارتے، سنت پر عمل کرتے ہوئے عمامے کا تحت الحنک باندھتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے۔ اس کے بعد جس طرح سے آتے اسی انداز میں مسجد سے نکل جاتے۔

وہ محافل میں بھی خاموش ہی رہتے مگر یہ کہ ان سے کوئی سوال پوچھا جائے۔  اپنے قریبی ساتھی علماء کے علاوہ کسی سے گفتگو نہ کرتے اور سوائے علمی موضوعات کےکسی بحث کا حصہ نہ بنتے۔

 اس عزلت  کا نتیجہ انتہائی تنگدستی تھی۔

آپ اپنی کتابوں سے بہت زیادہ  لگاؤ کے باوجود بعض دفعہ تنگدستی کی وجہ سے انہیں بیچنے پر مجبور ہوجاتے۔ جب ہمیں ان کتابوں کے صفحے پلٹتے ہوئے دیکھتے تو ان کو اچھا نہیں لگتا تھا۔ جب ہمارے ہاتھوں میں اپنی لائبریری کی کوئی کتاب دیکھتے تو اس کی حفاظت کی خاطر محبت آمیز لہجے میں کہتے: ’’یہ سب کیا ہے؟ مہربانی کر کے اسے اپنی جگہ رکھ دو۔‘‘  اس کے باوجود وہ بعض دفعہ گھر کا خرچہ چلانے کے لیے ان کتابوں کو بیچنے پر مجبور ہوجاتے۔

وہ اپنی لائبریری کی الماریوں کی طرف بڑھتے، بیچنےکے لیے کوئی کتاب اٹھاتے، پھر ان پراس کتاب کا بیچنا بہت گراں گزرتا اور کتاب کو دوبارہ اپنی جگہ رکھ دیتے۔ دوسری کتاب اٹھاتے، تیسری اٹھاتے۔۔۔ آخرکار نہ چاہتے ہوئے بھی بعض  کتابوں کا انتخاب کرتے اور انہیں اٹھا  کر ہم میں سے کسی ایک سے کہتے: ’’یہ کتابیں شیخ ہادی کے پاس لے جاکر  انہیں  بیچ دو۔‘‘ شیخ ہادی ہر قسم کی کتاب خریدنے کے حوالے سے  مشہور تھے۔ وہ کتاب خرید کر اپنی دکان میں رکھ لیتے اوراسے اچھی قیمت پر آگے بیچ دیتے۔ وہ کہتے تھے: ’’میں گراں فروشی میں مشہور ہوں، لہٰذا کتاب خریدنے پر مجبور لوگ ہی مجھ سے خریدتے ہیں اور جو مجبور ہوتا ہے وہ ہر قیمت پر کتاب خریدتا ہے۔‘‘ اس طرح  شیخ ہادی کتابیں خریدتے اور بیچتے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ ہم  سارے بچے اپنے نانا سید میردامادی کے گھر جاتے تھے اور وہ ہمیں ایک یا آدھا ریال دیتے تھے، جیسے باپ  دادا اپنے بچوں کو پیسے دیا کرتے ہیں۔ یہ  بہت مختصر رقم تھی لیکن بعض دفعہ ایسا ہوا کہ والدہ یہ رقم لینے پر مجبور ہو گئیں تاکہ   رات کو ہماری بھوک مٹانے کا سامان فراہم کر سکیں۔

میں نے اپنے والد کے گھر ایسا فقر دیکھا ہے کہ شاید ہی علماء کے گھروں میں دیکھنے کو ملے۔ والد صاحب ہرگز اپنے فقر و فاقہ کا تذکرہ کسی سے نہیں کرتے تھے، بلکہ اس کے برخلاف، ان کی خودداری اور ظاہری حالت کی وجہ سے لوگ انہیں امیر سمجھتے تھے۔  گرمیوں میں صرف ’’خاچی‘‘ عبا پہنتے تھے، جو عبا کی سب سے مہنگی قسم ہے۔ اس کے بعد مخلوط اور پھر مشین سے سلی عبا کی قسمیں آتی ہیں۔ سردیوں میں ’’نائینی‘‘ عبا پہنتے تھے۔ یہ علماء کے درمیان رائج عبا ’’ماہوت‘‘  سے زیادہ نفیس ہے جبکہ  بعض دفعہ قبا کو پیوند لگانے پر مجبور ہو جاتے، کیونکہ  وہ عبا کے نیچے چھپی رہتی تھی۔

والد صاحب کو ہمیشہ مجھ سے خاص محبت تھی۔ جب بھی سفر پر جاتے تو مجھ ساتھ لے جاتے۔ ایک مرتبہ آپ کی بینائی چلی گئی، لیکن پھر لوٹ آئی۔ آپ نے تہران میں اپنا علاج جاری رکھا۔ اس دوران تین مرتبہ آپ نے تہران کا سفر کیا اور ہر دفعہ میرے علاوہ کسی اور کو ساتھ لے جانے پر راضی نہ ہوئے۔ ۱384 ؁ھ(1964؁ء) کے دوران میں قم([7]) میں تھا جب والد صاحب نے مجھے خط لکھ کر مشہد بلایا تاکہ میں ان کے ساتھ تہران جا سکوں۔ کچھ تبلیغی امور کے سلسلے میں مجھے زاہدان جانا تھا جس کی وجہ سے مجھے مشہد پہنچنے میں تاخیر ہو گئی۔ جب میں زاہدان گیا تو مجھے گرفتارکر لیا گیا۔ گرفتاری کے دوران میری سب سے بڑی پریشانی والد صاحب کے حوالے سے تھی کہ جو  میرے بغیر سفر نہیں کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے گرفتاری کے بعد  زاہدن سے تہران منتقل ہوتے ہوئے جہاز میں بیٹھے مجھے والد صاحب کی یاد آئی۔ ایسا لگا کہ یہ پریشانی دل کو کھائے جا رہی ہے اور اندر ہی اندرعجیب انداز میں اضطراب کی موجیں ٹھاٹھیں مار رہی ہیں۔ دل ہی دل میں سوچا کہ جہاز کے اندر میری یہ حالت ہے تو جیل جانے کے بعد میری کیا حالت ہوگی؟! اللہ تعالی سے توسل کیا اور گڑگڑایا کہ میرے دل کو سکون مل جائے۔ کچھ دیر کے لیے توجہ ہٹ گئی مگر پھر پلٹ کر دوبارہ والدصاحب یاد آ گئے۔ اس مرتبہ میں نے محسوس کیا کہ وہ پریشانی اور اضطراب والی کیفیت اب نہیں ہے۔ اب دل محبت، شوق اور رحم بھری حالت سے لبریز تھا، لیکن ساتھ میں اطمینان بھی تھا جس کی چاشنی اب بھی واضح انداز میں یاد ہے۔ اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ اس نے میری دعا سن لی اور اطمینان و سکون کی نعمت سے نوازا۔ یہ ایسی نعمت ہے جس کی قدر صرف پریشانی اور اضطراب کی حالت سے دچار ہونے والا  ہی جان سکتا ہے۔

نجفی لہجہ

میری والدہ نجف میں پیدا ہوئی تھیں اور عربی لہجہ رکھتی تھیں۔ بچپن میں وہ نجفی عربی لہجے میں بات کیا کرتی تھیں۔ وہ قرآن جانتی تھیں اور خوبصورت آواز میں قرآن کی تلاوت کیا کرتی تھیں۔ زندگی کے آخری ایام میں ان کی آواز بیٹھ گئی، تب میں ان کو ان کی خوبصورت آواز یاد دلایا کرتا تھا۔

آپ روزانہ اپنے والد کی طرف سے تحفے میں دیے گئے قرآن کی تلاوت پابندی سے کرتی تھیں۔ بچپن میں آپ کی تلاوت کا انداز ہمیں اپنی طرف کھینچتا تھا۔ ہم ان کے گرد جمع ہوتے اور غور سے تلاوت سنتے۔ وہ موقع غنیمت جانتے ہوئے ہمارے لیے بعض آیات کا فارسی میں ترجمہ کرتیں اور انبیاء.کے قصے سناتیں۔ حضرت موسیٰ ,کی زندگی سے خاص شغف  کی وجہ سے وہ ہمیں اس عظیم پیغمبر کی زندگی کے بارے تفصیل سے بتاتیں۔ حضرت موسیٰ, کے بارے میں وہ شوق سے بولتی تھیں جس  سے ہمارے دلوں میں ان کے قصے سننے کی رغبت پیدا ہوتی۔

وہ حافظ کے دیوان سے مانوس تھیں۔ اس کے بعض اشعار انہیں یاد بھی تھے اور اس سے فال بھی نکال لیتی تھیں۔ اسی طرح وہ حدیث کی بھی ماہر تھیں اور حدیثیں سناتی تھیں۔ بعض دفعہ والد محترم اعتراض کرتے کہ میں نے یہ حدیث آج تک نہیں سنی تو والدہ حدیث کا مصدر بتاتیں۔ والدہ بھی والد کی طرح خوددارتھیں۔ کبھی اپنے فقر کا تذکرہ کسی سے نہیں کیا اور مختلف انداز میں اپنی مشکلات کو چھپایا کرتیں۔

میں نے اپنی والدہ سے ابتدائی طور پر قرآن پڑھنا اور عربی زبان کے قواعد سیکھے۔ اسی طرح انہوں نے بہادری اور مزاحمت کی روح میرے اندر ایجاد کی۔ میری مسلسل گرفتاری اور ساواک([8]) کے چھاپوں کے دوران والدہ نے بہت زیادہ زحمتیں اٹھائیں۔ آپ حملہ کرنے والے کارندوں کے سامنے شجاعت اور صلابت کے ساتھ کھڑی ہوتیں، ان کو جواب دیتیں اور ان سے بحث کرتیں،  بلکہ اکثر  اس کٹھن راستےمیں آگے بڑھنے کے حوالے سے میری حوصلہ افزائی کرتیں۔ اس کی تفصیل  بعد میں بیان کروں گا۔

سنگدل استاد

میری تعلیمی زندگی کا آغاز مکتب سے ہوا۔ پرائمری اسکول میں جانے سے پہلے مجھے دو مکتبوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ پہلی جماعت کی استاد ایک خاتون تھیں۔ اس وقت میری عمر چار سال تھی اور میں تنہائی پسند تھا۔ میں اپنے آپ کو لکھائی پڑھائی کے ساتھ سازگار نہیں پاتا تھا۔ اس کی وجہ شاید میری نظر کی کمزوری  تھی، جس کی تفصیل بعد میں بیان کروں گا۔ اُس دورانیے کی جو چیز اِس وقت سب سے زیادہ میرے ذہن میں  آتی ہے  وہ اس دور کا غلط  تعلیمی و تربیتی طریقہ کار ہے۔ کوئی خاص تعلیمی نصاب نہیں تھا۔ مکتب پر سختی کا قانون نافذ تھا جس کی کسی طور پر بھی توجیہ نہیں کی جا سکتی۔ مجھے یاد ہے کہ ’’مُلّا باجی‘‘ (استاد)بعض دفعہ کسی پروگرام میں چلی جاتیں اور اپنی جگہ اپنی ہمسایہ خاتون رباب کو معین کر جاتیں۔ یہ خاتون فضول کاموں میں ہمارا وقت ضائع کرتیں، مثلاً ہمیں ایک صف میں کھڑا کرتیں، پھر اپنے شوہر کے پاس لے جاتیں جو بیماری کی وجہ سے اٹھ نہیں سکتا تھا۔ ہم باری باری اس کے سامنے سے گزرتے اور وہ ڈنڈے سے ہمارے ہاتھوں پر مارتا جاتا۔ میرے ساتھ میرے بڑے بھائی بھی اس مکتب میں تھے۔

1943؁ء میں جب میری عمر پانچ اور چھ سال کے درمیان تھی، والد محترم ہمیں ایک اور مکتب میں لے گئے جو مسجد کے ایک کمرے میں واقع تھا۔ مجھے آج بھی درس کا وہ کمرہ یاد ہے جو تاریک تھا۔ یہ بھی شاید مجھے اپنی نظر کی کمزوری کی وجہ سے ایسا لگتا تھا۔ استاد نے گرمجوشی کے ساتھ ہمارا استقبال کیا اور اپنی دائیں طرف ہمیں بٹھایا۔  وہ ہمیشہ ہمیں بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ میں نے اور میرے بھائی نے یہاں قرآن کا آخری پارہ ’’عم‘‘ پڑھنا شروع کیا۔ استاد عربی زبان کے حروف تہجی سکھانے سے آغاز کرتے تھے، اور پھر اس کے بعد تیسواں پارہ سورہ والناس سے پڑھانا شروع کرتے تھے۔ ہمارے علاوہ دوسرے طالب علموں کے ساتھ استاد کا رویہ اتنہائی سخت تھا۔ اس مکتب کے حوالے سے جو کچھ میرے ذہن میں ہے وہ استاد کی سختی، کمرے کی ٹھنڈک اور تاریکی ہے۔ گھر سے مکتب  کا راستہ پھٹے ہوئے جوتوں میں طے کرتا تھا اور سردیوں میں کیچڑداخل ہونے کی وجہ سے پاوں آلودہ ہو جاتے تھے۔

استاد کی ایک عجیب عادت یہ تھی کہ وہ جمعرات کے روز گھر جانے سے پہلے طالب علموں کو ایک صف میں کھڑا کرتے اور ان سے کہتے تھے: ’’میں تمہاری زبانوں پر مہر لگا ؤں گا۔  جمعہ کے دن جو بھی نماز کا پابند رہے گا اس کی زبان پر مہر باقی رہے گی ورنہ اس کا نشان مٹ جائے گا۔‘‘ اس کے بعد، مہر اٹھاتے، اسے سیاہی میں ڈبوتے اور  ہر طالب علم کی زبان کے نیچے مہر لگا دیتے۔ ہفتے کی صبح قیامت کا منظر ہوتا۔ تمام طالب

علم صف میں کھڑے ہو جاتے اور پھر ان کی زبانیں دیکھی جاتیں۔ بعض کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑتا۔ میں بھی طالب علموں کے ساتھ صف میں کھڑا ہوجاتا، اور خوف سے رو رہا ہوتا تھا۔ مار کے ڈر سے نہیں کیونکہ وہ ہمارا احترام کرتے تھے اور ہمیں نہیں مارتے تھے بلکہ اس منظر کی ہولناکی کی وجہ سے۔

وہ روشن دن

موجودہ صدی کی دوسری دہائی (ایرانی شمسی سال کے مطابق) کا آغاز رضا خان کو حکومت سے ہٹانے سے ہوا اور مصدق([9]) کے معاملے پر اس کا اختتام ہوا۔ اس دہائی میں، بالخصوص آذربائیجان والے واقعے کے بعد، ایران کے اندر کمیونیزم کا خطرہ بڑھ گیا۔ حکومت نے اس خطرے کا مقابلے کرنے کے لیے بعض دینی سرگرمیوں کو موقع فراہم کیا۔ اسی دہائی کے دوران مشہد میں پہلے دینی سکول کی بنیاد رکھی گئی جس کا نام ’’دار دیانتی برائے تعلیم‘‘ تھا۔  اس کے مدیر ’’میرزا حسین تدین‘‘ تھے۔ ان کا تعلق کرمان سے تھا اور وہ مشہد میں رہائش پذیر تھے۔ جس وقت میں ایران کا صدر تھا تب وہ مجھ سے ملنے آئے تھے۔ اس سکول کی بنیاد بعض مؤمن اور مخیّر حضرات نے رکھی تھی، جن میں شیخ غلام حسین تبریزی بھی شامل تھے،  جو تبریز میں شیخ خیابانی کے ہم درس و ہم مباحثہ تھے اور ان کا شمار تبلیغی میدان میں کامیاب علماء میں ہوتا تھا۔ یہ پہلی سے چھٹی جماعت تک کا مکمل پرائمری سکول تھا ۔

جب  میں اس سکول میں داخل ہوا اس وقت میری عمر چھ سال تھی۔ انہوں نے مجھے پہلی جماعت میں بٹھا دیا۔ میرے بھائی کی عمر دس سال تھی اس لیے انہیں چوتھی جماعت کے طالب علموں کے ساتھ بٹھا دیا۔

مجھے یاد ہے کہ میں  پہلے تین سالوں کے دوران اپنے آپ کو پڑھائی  میں دوسرے طالب علموں سے پیچھے محسوس کرتا تھا، لیکن پھر چوتھی، پانچویں اور چھٹی جماعت میں رتبہ اول پر آگیا۔ اس تبدیلی کی وجہ میری سمجھ میں نہ آتی تھی لیکن کچھ سال پہلے مجھے اس حقیقت کا پتا چل گیا۔ مجھے یاد آیا کہ میں جب چوتھی جماعت میں تھا تو پہلی صف میں جا بیٹھا اور استاد جو کچھ بورڈ پر لکھتےتھے اسے دیکھنا شروع کر دیا، جس کے نتیجے میں جو وہ بولتے تھے وہ سمجھنے لگا جبکہ پہلے تین سالوں میں، میں بورڈ سے دور بیٹھتا تھا اور نظر کی کمزوری کی وجہ سے جو کچھ اس پر لکھا جاتا تھا اسے میں دیکھ نہیں سکتا تھاجس کے نتیجے میں استاد کا درس بھی مجھے سمجھ نہیں آتا تھا۔ اب بھی مجھے وہ روشن دن یاد ہے جب  مجھے درس سمجھ آنا شروع ہوا۔ پہلا درس ریاضی کا تھا اور میں نے استاد سے خوب شاباش لی۔ یہ تعلیم و تربیت کا ایک اہم مسئلہ ہے جس کی طرف میں نے اس وقت بھی اساتذہ کی توجہ دلائی جب میں ایران کا صدر تھا اور نئے تعلیمی سال کے آغازکے حوالے سے مجھ سے انٹرویو لیا گیا۔

اس اسکول میں خوبصورت آواز میں، تجوید کے ساتھ  قرآن مجید پڑھنے کے حوالے سے میں نمایاں تھا۔ سکول کی محافل  میں اور سکول کا دورہ کرنے والی شخصیات کے سامنے قرآن کی تلاوت میں ہی کیا کرتا تھا۔ جب آیت اللہ کاشانی نے (1950؁ء یا 1951؁ء میں) مشہد کا دورہ کیا اور سکول ان کے استقبال کے لیے گیا تب میں نے ہی ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کی تھی اور  اس وقت میری عمر بارہ سال تھی۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ سید چند علماء کے ساتھ بیٹھے تھے لیکن وہ چہرے اب مجھے یاد نہیں ہیں کیونکہ اس وقت میری نظر کمزورتھی۔ اسی طرح سید حسن قمی جب اپنے والد کی وفات کے بعد مشہد آئے تو ان کے سامنے بھی میں نے تلاوت کی تھی۔ سکول کے بانیوں میں سے بعض ا ن کے والد کے مقلد تھے، لہٰذا سید قمی سکول آئے۔ ہم سب صف میں کھڑے تھے۔ میں اور ایک دوسرا طالب علم آگے بڑھے۔  ہم نے قرآن کی تلاوت کی، زبانی یاد کی ہوئی کچھ دینی تعلیمات سنائیں اور ان سے انعام حاصل کیا۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ وہ انعام سید حسام الدین فال اسیری شیرازی کی لکھی کتاب ’’تعلیمات دینی‘‘ تھا۔ میں نے بعد میں اس کتاب کے مصنف کو بھی دیکھا جب وہ شہر بدر ہو کر مشہد آئے۔ ان کا میرے والد کے پاس آنا جانا رہتا تھا۔

قرآن کی تعلیم

میں نے بچپنے میں اپنی والدہ سے قرآن کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد محلے کے ایک دکاندار سے بھی قرآن سیکھا جو قرائتِ قرآن میں مہارت رکھتے تھے اور گھروں میں قرائت کے دوروں کی صدارت کیا کرتے تھے۔ والدِ محترم نے مجھے اور بھائی کو اس مردِ مومن کے حوالے کیا جن کا نام حاج رمضان علی تھا۔ وہ ہمارا  احترام کرتے تھے۔ باہر نکلتے وقت ہمیں خود پر مقدم کرتے تھے جبکہ ان کی عمر پچاس برس تھی۔ ہمیں اپنے دائیں بائیں  بٹھاتے تھے۔ میں ان کے سامنے قرآن پڑھتا تھا اور وہ اصلاح کرتے جاتے تھے۔ ایک دن انہوں نے ہم سے کہا: ’’تم دونوں اس مرحلے تک پہنچ چکے ہو کہ اب میں مزید کچھ نہیں سکھا سکتا۔‘‘

انہوں نے ہمیں اپنے استاد ملا عباسی کے درس میں جانے کا مشورہ دیا۔ ان کی عمر ۷۰ سال تھی اور وہ حرم امام رضا, کے صحن میں پڑھایا کرتے تھے۔ ہم ان کے پاس گئے اور ان سے درس پڑھا۔ ان کی عادت تھی کہ وہ ہندوستان میں چھپے قرآن کے ایک نسخے سے، باوجود اس کے کہ اس کا خط انتہائی مشکل تھا، پڑھا کرتے تھے کیونکہ وہ ہندوستان والے نسخے کو صحیح سمجھتے تھے۔ اسی طرح ان کی یہ عادت بھی تھی کہ   ملاقات اور خدا حافظی کے وقت سنتِ سلام کی پابندی کیا کرتے تھے جبکہ ایران میں صرف ملاقات کے وقت سلام کرنے کا رواج ہے اور خدا حافظی کے  وقت  کچھ فارسی (دعائیہ) عبارتیں ذکر کی جاتی ہیں۔ ہم نے ان کے پاس  فارسی زبان میں لکھی سید محمد عرب زعفرانی کی کتاب ’’التجوید‘‘ پڑھی۔ وہ ایک عرب تھے، مشہد میں رہتے تھے اور ہمارے استاد قاری ملا عباسی ان کے شاگرد تھے۔

عمامے کو درپیش مشکلات

ایران میں عموماً دینی علوم سے مربوط لوگ ہی عمامہ پہنتے ہیں چاہے وہ طالب علم ہوں، اساتذہ ہوں یا مبلغین۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ایک گروہ ایسا ہے جو دین کے معاملات کو سمجھتا  ہے، اس کی طرف دعوت دیتا ہے اور اس کے دشمنوں کے مقابلے میں مزاحمت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمامہ ہمیشہ استعمار کے ایجنٹوں اور سیکولرازم کے داعیوں کے نشانے پر رہا ہے۔ رضا شاہ نے عمامہ اتارنے اور پہلوی ٹوپی پہننے کا حکم جاری کیا لیکن بعد میں اس کے بیٹے محمد رضا شاہ([10]) کو اس ناکام فرمان سے دستبردار ہونا پڑا، اگرچہ حکومتی مشینری نے عمامے کے خلاف توہین و تمسخر سے بھرپور اجتماعی فضا ایجاد کرنے کی منصوبہ بندی کیے رکھی۔

میں نے اپنے بچپن ہی میں اس وقت عمامہ پہن لیا تھا جب میں پرائمری سکول کے دوسرے سال میں تھا ۔ بہت جلد عمامہ پہننے کی وجہ یہ تھی کہ ان دنوں لوگوں کے درمیان سر  ڈھانپنے کا رواج تھا۔ والد صاحب  اس بات پر راضی نہ تھے کہ ہم پہلوی ٹوپی پہن لیں لہٰذا عمامہ پہننا ضروری ہوگیا۔

  والدہ ہمارا عمامہ خود باندھتیں۔ وہ عمامے کا تحت الحنک بائیں کی بجائے دائیں جانب رکھا کرتی تھیں۔ ہم نے بچپن ہی سے عمامے کے خلاف تمسخرآمیز ماحول کا سامنا کیا۔  لوگوں سے اس قدر تمسخر آمیز کلمات سنے کہ یہ ماحول ہماری نظروں میں معمولی بن گیا تھا۔ اس کی علت کے بارے میں نے غور ہی نہیں کیا تھا مگر جب بڑا ہوا تب سوچنا شروع کیا۔ اپنے حافظے پر زور دیا اور تعجب کا اظہار کیا۔ اس ماحول سے کوئی بھی معمم، چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، نہیں بچ سکا تھا۔

آپ کیوں، سید؟!

عمامہ اور دینی علماء کا تمسخر ایران میں مختلف طریقوں سے رائج تھا، جو ایک  سماجی رویے میں تبدیل ہوکر معاشرے کے تمام طبقات کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ میں بھی اس سماجی رویے سے محفوظ نہ رہ سکا۔ ہمارے محلے میں ایک معمم عالم دین تھے جن کا نام شیخ فائقی تھا۔ وہ ایک فاضل انسان تھے اور مجالس میں امام حسین, کے مصائب پڑھا کرتے تھے۔ ان کی ہلکی سی داڑھی تھی اور سر پر ایک بڑا سا عمامہ تھا۔ وہ ایک چھوٹے سے گدھے پر سوار ہوتے تھے جو  تیز دوڑتا تھا۔ ان کا گھر ہماری  ساتھ والی گلی میں تھا۔ وہ روزانہ گدھے پر سوار تیزی کے ساتھ  گلیاں عبور کرتے ہوئے ہمارے گھر کے سامنے سے گزرتے تھے۔

ایک دن میں اپنے دوستوں کے ساتھ والی بال کھیلنے میں مصروف تھا۔ میں نے سب سے زیادہ یہی کھیل کھیلا ہے۔ کھیل کےدوران میں صرف قبا پہن کر عمامہ اتار دیا کرتا تھا۔ قبا بھی علماء اور دینی طالب علموں کا لباس ہے۔ کھیلتے ہوئے ہم نے شیخ فائقی کو  گدھے پرسوار تیزی کیساتھ دور سے آتے ہوئے دیکھا۔ لڑکوں نے شیخ کا مذاق اڑانے کی منصوبہ بندی کی۔ جب وہ قریب پہنچے تو سب نے آواز کسنا شروع کی، میں بھی ان میں سے تھا: ’’آشیخ، آشیخ۔‘‘ یہ خود سے کوئی برا لفظ نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ’’آغا شیخ‘‘ کا مخّفف ہے، یعنی جناب شیخ۔ لیکن جب چند لوگ مل کر یہ لفظ ہنستے ہوئے بولیں تب یہ تمسخر کی علامت ہے۔ جب شیخ ہمارے پاس پہنچے، اپنے گدھے کا رخ ہماری طرف موڑا اور غصے کی حالت میں ہماری طرف بڑھے تو سب لڑکے بھاگ گئے، اور میں وہیں کھڑا رہا۔ وہ گدھے سے اترے اور میرے نزدیک آئے۔ وہ مجھےاور میرے والد صاحب کو جانتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ میں خود بھی معمم ہوں۔ مسکراتے ہوئے لہجے میں، جس میں رعب و ملامت کے ساتھ ساتھ لطافت بھی شامل تھی، انہوں نے کہا: ’’اے پیارے سید! آپ کیوں؟‘‘

افواہوں کی جنگ

یہ فضا ایک خاص منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا جس میں مختلف افواہیں پھیلائی گئیں تاکہ دینی علماء کو معاشرے اور زندگی سے جدا کر دیا جائے۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ ایک افواہ لوگوں کے درمیان پھیلی ہوئی تھی جس کی کہانی چند دینی علماء سے متعلق تھی جو رات گزارنے کے لیے مشہد کے اطراف میں جمع تھے۔ ان کے آگے سماور([11]) رکھا تھا جس پر چائے کی کیتلی رکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے سماور میں عرق اور کیتلی میں شراب ڈالی اور پھر نشہ کرنے اور ناچنے لگے۔ بہت سارے لوگ کہتےتھے: ’’ہم نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔‘‘ اور بعض کہتے تھے: ’’ہم نے اس سے سنا ہے جس نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔‘‘ اس کہانی کا من گھڑت ہونا واضح ہے۔ انہوں نے کیوں شراب اور عرق کو اس انداز میں رکھا؟ کیا وجہ تھی کہ وہ سرِ عام  لوگوں کے سامنےاس انداز میں بیٹھے ہوئے تھے؟ اس کہانی کے مندرجات خود اس کے جھوٹ ہونے کی دلیل ہیں۔ اس کے باوجود میں نے یہ کہانی بہت سارے لوگوں سے سنی ۔ وہ سب کہتے تھے: ’’میں نے دیکھا۔۔ یا میں نے اس سے سنا جس نے خود دیکھا تھا۔‘‘  

 علمائے دین معاشرے کے اندر تمام تر انحرافات کے مقابلے میں دین کے دفاع کی ذمہ داری  اٹھاتے ہیں۔ وہ اسلامی معاشرے میں ہر ظالم اور اجنبی کے تسلط کا مقابلہ کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ اسی ذمہ داری کی وجہ سے ایران کی موجودہ تاریخ میں قابض طاقتوں، ظالموں اور جابروں کے مقابلے میں علماء کےسخت موقف دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس کی ایک مثال روسیوں کے مقابلے میں میرزا قمی کا موقف ہے۔ انہوں نے اپنے معروف ’’رسالہ عباسیہ‘‘ نامی کتابچے میں مشہور فتوی صادر کیا۔ یہ عباس میرزا ابن فتح علی شاہ کا زمانہ تھا جب وہ روس کے خلاف لڑ رہے تھے۔ عباس میرز انسبتاً مخلص انسان تھے اور اپنے وطن کی نسبت خیانت کار نہیں تھے۔ اس کی ایک اور مثال تنباکو والے مسئلے([12]) میں دینی مرجعیت کا موقف ہے۔ اسی طرح آئینی تحریک (مشروطہ) میں علماء کا موقف ایک اور مثال ہے۔

مرحوم مدرس کے موقف کو بطور مثال لیں۔ وہ اصفہان شہر سے پارلیمنٹ کے پہلے انتخابات میں بطور امیدوار کھڑے ہوئے اور بھاری اکثریت سے رکن منتخب ہوئے۔ ان کا شمار ان پانچ فقہاء میں ہونے لگا جن کو یہ حق حاصل تھا کہ اگر پارلیمنٹ میں کوئی قانون اسلامی شریعت کے خلاف آئے تو اسے رد کرسکیں۔ دوسری مرتبہ وہ تہران شہر سے امیدوار بنے اورسب سے زیادہ ووٹ لینے والے امیدوار قرار پائے۔ اسی طرح تیسرے اور چوتھے انتخابات میں بھی وہ منتخب ہوتے رہے۔ لیکن چوتھے دورے میں  حکومت قاجاریوں سے پہلوی خاندان کی طرف منتقل ہوئی۔ مرحوم مدرس نے انتقالِ اقتدار اور رضاشاہ پہلوی کے اقدامات کی مخالفت کی۔ پانچویں انتخابات آتے ہیں، اور وہ ایک بار پھر حصہ لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے حق میں ایک بھی ووٹ نہیں پڑتا۔ مرحوم مدرس بلند آواز میں کہتے ہیں:  ’’میں نے اپنے حق میں ووٹ ڈالا۔ پس میرا ووٹ کہاں ہے؟‘‘

ان مثالوں سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ دینی علماء معاشرے میں اچھا خاص اثر رسوخ رکھتے تھے۔ ان کے موقف ان اصولوں پر استوار ہوتے تھے جن پر قوم ایمان رکھتی تھی اور انہیں مقدس سمجھتی تھی۔ ان اصولوں کی راہ میں جان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور یہ اصول ظلم، لوٹ مار اور بیرونی طاقتوں کے سامنے جھکنے سے انکار کرتے ہیں۔  اسی لیے دینی علماء کو معاشرے سے دور کرنے اور زندگی کے تمام شعبوں بشمول سیاست سے کاٹنے کے لیےظالم حکمرانوں کو منصوبہ بندی کرنا پڑتی تھی۔ اس ہدف کے حصول کے لیے انہوں نے ہر راستہ اپنایا، چاہے اس کے لیے علماء کو قتل کرنا پڑے، جیل میں ڈالنا پڑے یا شہر بدر کرنا پڑے۔

1935؁ء میں سانحہ مسجد گوہر شاد([13]) پیش آیا۔ اس  میں بہت سے لوگ مارے گئے اور بہت سے علماء گرفتار کر لیے گئے۔ جن علماء کو گرفتار کیا گیا ان میں میرے نانا سید ہاشم میردامادی، سید خوئی کے والد سید علی اکبر خوئی (جو میرے والد صاحب سے تقریبا ۲۰ سال بڑے  اور ان کے دوست  تھے)، شیخ حبیب اللہ ملکی (وہ بھی میرے والد کے دوستوں میں سے تھے۔ میرے والد کا نکاح اور میرا نکاح انہوں نے پڑھا تھا۔ آپ آخوند کے شاگردوں میں سے تھے)، سید عبد اللہ شیرازی، شیخ صاحب الزمان ارومی، ڈاکٹر مہدی محقق کے والد حاج محقق، شیخ اسماعیل تائب (الرسائل العرفانیہ کے مصنف) اور حاج آغا حسین قمی (آپ رضا شاہ کو نصیحت کرنے تہران گئے  تو  وہاں آپ کو گرفتار کر کے ایران سے جلا وطن کر دیا گیا) شامل تھے۔

اسی ضمن میں بتاتا چلوں کہ میرے والد گرامی مسجد کے راستے میں تھے کہ ایک دوست سے ان کی ملاقات ہوئی۔ اس دوست نے مسجد گوہر شاد([14]) میں جو کچھ ہوا اس کی خبر انہیں  دی، اور ان کو مسجد میں جانے سے روکا۔ گوہر شاد کے حادثے میں ۲۰ کے قریب علماء گرفتار کیے گئے۔ انقلاب کے بعد میں نے ان کی فائلوں سے تصویریں منگوائیں تو ان کے نیچے لکھا ہوا دیکھا: ’’جرم: سیاست‘‘۔ یعنی سیاسی امور میں مداخلت ان کا جرم تھا۔ پہلوی نظام کا فلسفہ ہی یہی تھا کہ دین اور معاشرے کو جدا کیا جائے۔ فردوست([15]) نے جو یاداشتیں لکھی ہیں ان میں یہ بات واضح طور پر آشکار ہے۔


([1]) مشہد الرضا,: آبادی کے لحاظ سے ایران کا دوسرا بڑا شہر۔ ملک کے شمال مشرق میں واقع ہے اور صوبہ خراسان رضوی کا مرکز ہے۔ اس میں امام علی بن موسی رضا, کا روضہ مبارک ہے۔ اسی وجہ سے یہ شہر ہر سال ایران اور ایران کے باہر سے آنے والے لاکھوں زائرین کی مہمان نوازی کرتا ہے۔

([2]) امام علی بن موسی رضا,: ائمہ اہل بیت. میں سے ہیں۔ آپؑ نبی اکرم3 کی ذریت سے شیعوں کے آٹھویں امام ہیں۔ آپ کی امامت کا دور ہارون الرشید کے زمانے میں آپ کے والد گرامی موسی بن جعفر- کی شہادت کے بعد شروع ہوا۔ ہارون الرشید کی موت کے بعد مامون عباسی نے آپ کو خراسان آنے اور ولی عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا۔ اس ذریعے سے مامون اہل بیت نبوت. کی نیک نامی کو نقصان پہنچانا چاہتا تھا کیونکہ اسے خطرہ تھا کہ مسلمان امامت اور ولایت کے مسئلے میں اسی شجرہ طیبہ کی طرف رجوع کریں گے لیکن امام رضا, کی ولی عہدی کے باوجود مسلمانوں کے درمیان ان کا مقام کم نہیں ہوا اور مامون اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکا۔ آخرکار شہر طوس میں مامون کے دیے ہوئے زہر کی وجہ سے امام کی شہادت واقع ہو گئی۔ آج مشہد شہر کے اندر آپ,کی قبر مبارک ایک عظیم روضے میں تبدیل ہوچکی ہے۔

([3]) سید ہاشم میردامادی نجف آبادی (1886؁ءتا 1960؁ء):آپ آغا خامنہ ای کے نانا ہیں۔ نجف اشرف میں فقہ اور اصول میں اپنے زمانے کے بڑے علماء کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ آپ عرفان کی طرف مائل تھے اور بڑی شخصیات جیسے سید احمد کربلائی اور سید مرتضی کشمیری سے رابطے میں تھے۔ مشہد کی طرف ہجرت کے بعد رضا شاہ پہلوی کے دورِ حکومت میں آپ کا شمار خراسان کے علماء اور مجاہدین میں ہونے لگا۔ آپ جبری حجاب اتارنے اور پہلوی ٹوپی کو لازمی قرار دینے کے خلاف تھے اور گوہر شاد مسجد کے واقعے میں انتہائی فعال علماء میں سے تھے۔ اس واقعے کے بعد آپ کو گرفتار کیا گیا اور آپ نے چھ سال شہربدری میں کاٹے۔

([4]) رضا پہلوی (1878؁ء تا 1944؁ء): قاجاریہ دور میں روس کی طرف سے بنائی گی عسکری قزاق فورس کا ایک رکن تھا۔ اگرچہ وہ قاجاریہ حکومت کا آخری دور تھا لیکن وہ قزاق فورس کے آفیسرز میں سے تھا۔ برطانوی ایجنسیوں کی طرف سے ایران میں قاجاری حکومت کے خلاف فوجی انقلاب کی ذمہ داری رضا شاہ کے سپرد کی گئی۔ اس نے 1920؁ء میں اس ذمہ داری کو انجام دیا اور برطانوی دباؤ کے نتیجے میں ایران کا وزیر اعظم منتخب ہوا۔ 1925؁ء میں برطانیوں کی مدد سے اس نے قاجاری سلسلے کے رسمی خاتمے کا اعلان کر دیا۔ برطانوی حکومت کے لیے اس نے بہت سی خدمات سرانجام دیں۔ اس کا دور حکومت ایرانی شاہی نظام میں بدترین دور شمار ہوتا ہے جو بعد میں ایک اور برطانوی انقلاب کے ذریعے اپنے اختتام کو پہنچا۔

([5]) سید محمد حسن الحسینی (میرزا شیرازی) (1815؁ء تا 1895؁ء): تشیع کے مراجع اور زعماء میں سے تھے۔ اپنے استاد شیخ مرتضی انصاریؒ کی وفات کے بعد تشیع کی مرجعیت عامہ کے منصب پر فائز ہوئے۔ آپ ایک با بصیرت اور زمان شناس عالم تھے۔ معاصر تاریخ میں ’’حرمتِ تمباکو‘‘ کے فتوے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ یہ فتوی ظالم برطانوی کمپنی کے نفوذ کو ختم کرنے کے لیے دیا گیا تھا۔ آپ اسلامی ممالک خصوصا ایران میں استعماری نفوذ کے خلاف آواز بلند کرنے اور جدوجہد کرنے والے قائدین میں سے تھے۔

([6]) نہضتِ مشروطہ یا تحریکِ مشروطہ (دستوری تحریک، 1905؁ء تا 1907؁ء): ایران کی ایک ایسی اجتماعی سیاسی تحریک جو بیسویں صدی کے آغاز میں بعض بابصیرت علماء کی قیادت میں شروع ہوئی جس کے اہداف میں شاہی نظام حکومت کا تختہ الٹنا، عدالت کا قیام اور مفادات عامہ کا تحفظ شامل تھا لیکن یہ تحریک برطانیہ اور اس کے ایجنٹوں کی مداخلت کی وجہ سے شاہی مفادات کی محافظ تحریک بن گئی۔ یہ مداخلت ایران کی بدبختی، مشکلات میں اضافے اور بہت سے بے گناہوں کی اموات کا سبب بنی۔ تمباکو کی حرمت کے فتوے کے بعد برطانیہ جب دینی علماء کی عوامی طاقت سے خوف زدہ ہوا تو اس نے ایران میں بحرانی کیفیت ایجاد کر دی جس کے نتیجے میں مؤثر علماء کو معاشرے سے دور کر دیا، اپنے ایجنٹوں کو سامنے لے آیا اور وطن دوست دینی گروہ کو کمزور اور بے اثر کرنے کی کوشش کرنے لگا۔

([7]) قم مقدسہ: ایران کے بڑے شہروں میں سے ہے۔  تہران کے جنوب میں 125 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس میں امام موسی کاظم, کی بیٹی سیدہ فاطمہ معصومہ/ کا حرم ہے۔ قم کا حوزہ علمیہ، ایران اور پوری دنیا میں دینی علوم کا بڑا مرکز شمار ہوتا ہے۔ یہاں دینی علوم کے اساتذہ اور طالب علموں کی ایک بڑی تعداد قیام پذیر ہے۔ اسی طرح یہاں بہت سے علمی اور تحقیقاتی ادارے موجود ہیں۔

([8]) ساواک: شاہ ایران کے دور میں وزیر اعظم کے زیر نظر چلنے والی ملکی ایجنسی تھی۔ 1953؁ء کے انقلاب کے بعدامریکہ کی رہنمائی اور مدد سے پہلوی حکومت نے 1956؁ء میں اس ایجنسی کی بنیاد رکھی۔ یہ، امریکی ایجنسی سی آئی اے اور اسرائیلی موساد کے ایجنڈوں پر کام کرتی تھی۔ اس ایجنسی نے 60 اور 70 کی دہائی میں مزاحمت کرنے والے مجاہدوں کا راستہ روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بہت سے انقلابی مجاہدین ساواک کی جیلوں میں قتل کر دیے گئے اور بعض کو جیل کے باہر مختلف حربوں سے مار دیا گیا۔ بہت سے انقلابیوں کے ذہنوں میں ساواک کی جیلوں میں ہونے والے تشدد کی تصویر آج تک باقی ہے۔ ساواک کے کام کرنے کا طریقہ خوف کی فضا ایجاد کرنا، دھمکانا، افواہیں پھیلانا، بے گناہوں کے خلاف کیسز بنانا، بغیر وارنٹ گرفتار کرنا اور مختلف طریقوں سے تشدد کرنا تھا۔ 60 اور 70 کی دہائی کے آخر میں ساواک کے لوگوں نے اسرائیل سے تشدد کے طریقوں کی تربیت حاصل کی جس کے نتیجے میں ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا کام انقلابیوں اور پہلوی نظام کے مخالفین کا راستہ روکنا اور ان کے لیے مشکلات کھڑی کرنا تھا۔

([9]) ڈاکٹر محمد مصدق (1879؁ء تا 1966؁ء): محب وطن ایرانی سیاست دان جو نیشنل پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ آیت اللہ ابو القاسم کاشانی کی سربراہی میں موجود دینی گروہ کی حمایت سے ایران کی وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہوئے۔ اہم ترین قدم جو انہوں نے اٹھایا وہ ایرانی تیل کی صنعت کو حکومتی تحویل میں لینا تھا۔ ان کے نزدیک پہلوی حکومت برطانوی سیاست کی پیداوار تھی۔ برطانیہ سے ٹکراؤ کی وجہ سے وہ امریکہ کی طرف مائل ہوئے لیکن بالآخر 1953؁ء میں امریکہ اور برطانیہ کے مشترکہ انقلاب کی وجہ سے ان کی حکومت گر گئی۔ انہیں ایران کے اندر امریکہ پر اعتماد کی علامت سمجھا جاتا تھا۔

([10]) محمد رضا پہلوی (1919؁ء تا 1980؁ء): یہ شاہ ایران کے نام سے بھی معروف ہے۔ پہلوی سلسلے کا دوسرا اور ایران کا آخری بادشاہ تھا۔ یہ اپنے والد کے خلاف انقلاب کے بعد برطانیہ کی مدد سے کرسی اقتدار تک پہنچا۔ اس کا دور حکومت اس کے باپ کے مظالم اور تباہ کاریوں کا تسلسل اور عروج تھا۔ اس نے ایران کو روز بروز عالمی قوتوں کی غلامی میں دھکیلا۔ رضا شاہ 1953؁ء میں ایرانی حکومت کے خلاف ہونے والے انقلاب کے سرگرم ارکان میں سے تھا۔ اس انقلاب کے نتیجے میں بہت سی مغربی کمپنیوں نے ایران کا رخ کیا اور اس کے وسائل کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ شاہ کے زمانے میں ساواک کی بنیاد رکھی گئی جو بدترین مظالم ڈھانے والی خوفناک ایجنسی تھی۔ امریکیوں کو ایران میں عدالتی تحفظ فراہم کیا گیا۔ اس کے دور حکومت میں ایران مشرق وسطی میں امریکہ اور مغربی طاقتوں کا اہم اڈہ تھا۔ اسی طرح شاہ کے اسرائیل کے ساتھ گہرے تعلقات تھے۔ 15 سال عوامی جدوجہد کے نتیجے میں شاہ کو ایران سے فرار ہونا پڑا اور یوں ایران میں شہنشاہی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ محمد رضا شاہ نے دوسری جنگ عظیم میں ایران پر قبضے کے بعد اقتدار سنبھالا۔  دوسری دفعہ 1953؁ء میں مصدّق کا تختہ الٹنے کے بعد حکمران بنا۔ 1979؁ء میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے نتیجے میں اس کی حکومت اختتام کو پہنچی۔

([11]) چائے گرم رکھنے کا برتن جس کا استعمال ایران میں عام ہے۔

([12]) تمباکو کی حرمت کا فتوی: 1890؁ء میں برطانوی تاجروں اور ناصر الدین شاہ قاجار کے درمیان تمباکو کی تجارت کے حوالے سے معاہدہ ہوا جس کا اصل مقصد تجارت کے لبادے میں ایرانی وسائل تک پہنچنا اور ان پر قبضہ کرنا تھا۔ اس وقت شیعوں کے بڑے مجتہد مرحوم میرزا محمد حسن شیرازیؒ نے تمباکو کی حرمت کا فتوی جاری کر دیا۔ اس فتوے کا ایران میں بڑا اثر ہوا اور لوگوں نے تمباکو کا استعمال ترک کر دیا۔ اس مزاحمت کے نتیجے میں شاہ اور برطانوی کو اس معاہدے سے پیچھے ہٹنا پڑا۔

([13]) سانحۂ مسجد گوہر شاد: 1935؁ء میں زبردستی حجاب اتروانے اور مردانہ لباس کو یورپی لباس میں تبدیل کرنے کے خلاف مشہد شہر کے متدین اور غیور عوام مسجد گوہر شاد میں احتجاج کے لیے جمع ہوئے۔ محمد رضا شاہ کے حکم سے سکیورٹی اداروں نے اس اجتماع پر حملہ کر کے بہت سارے لوگوں کو قتل کر دیا۔ اس واقعے نے ایران میں ہونی والی سیاسی تبدیلیوں پر گہرا اثر چھوڑا۔

([14]) مسجد گوہر شاد: امام رضا, کے حرم میں واقع ایک مسجد ہے جس کی بنیاد پندرہویں صدی عیسوی میں شاہ رخ تیموری کی زوجہ گوہر شاد نے رکھی۔

([15]) حسن فردوست: (1917؁ء تا 1987؁ء) شاہ ایران کا بچپن کا قریبی دوست، ساواک کی دوسری اہم شخصیت، محکمہ تفتیش کا سربراہ اور شاہ کا مخلص ترین ساتھی۔ اس کی ’’ڈائری‘‘ ایران کی معاصر تاریخ کے اہم مصادر میں شمار ہوتی ہے جس میں اس نے شاہِ ایران کے بہت سے راز فاش کیے ہیں۔

دوسرا باب

اساتذہ کی خدمت میں

مدارس اور مراحل

پرائمری کے بعد بھی میں نے اور میرے بڑے بھائی نے حوزہ علمیہ میں درس پڑھنا جاری رکھا کیونکہ والد صاحب نے اس ڈر سے کہ کہیں ہم لباس روحانیت سے ہٹ نہ جائیں، گورنمنٹ سکول میں پڑھنے سے منع کر دیا تھا۔ دینی طالب علم شروع میں عربی لغت کے علوم جیسے نحو، صرف، معانی، بیان اور بدیع وغیرہ پڑھتے ہیں۔ جس وقت میں پرائمری میں تھا تب میں نے کتاب ’’جامع المقدمات‘‘  انموذج تک پڑھ لی تھی۔ ’’امثلہ‘‘ کی کتاب والدہ کے پاس پڑھنا شروع کی تھی لیکن وہ درس جاری نہیں رکھ سکیں لہٰذا ایک اور استاد کے پاس درس کو آگے بڑھایا۔ والد صاحب کے پاس ’’صرف میر‘‘ کی کتاب پڑھی۔ پھر ایک اور استاد کے پاس ’’عوامل منظومہ‘‘ پڑھی۔ جس وقت میں پرائمری سے فارغ ہوا تب ’’انموذج‘‘ پڑھنے میں مشغول تھا۔

مدرسہ سلیمان خان (سلیمانیہ)  میں، جو شیخ حسین بجستانی کے زیر نظر چلتا تھا، میں نے مقدمات اور سطوح کے دروس کو جاری رکھا۔ شیخ بجستانی فاضل علماء میں سے تھے اور والد صاحب کے دوست تھے۔ آخوند خراسانی کے بیٹے شیخ احمد کفائی کی طرف سے انہیں اس مدرسے کی مدیریت ملی ہوئی تھی۔ آقای بجستانی نے میرے لیے ایک استاد معین کیا۔ ان کا نام استاد علوی تھا، جن کے پاس میں نے ’’صمدیہ‘‘ پڑھی۔ اس کے بعد یہ استاد میڈیکل پڑھنے چلے گئے اور بعد میں ڈاکٹر بن گئے۔ اس کے بعد میرے لیے ایک اور استاد معین کیا گیا، جن کا نام شیخ مسعودی تھا۔ ان کے پاس میں نے ’’السیوطی‘‘ اور ’’المغنی‘‘ کی کتابیں پڑھیں۔

1953؁ء میں، میں مدرسہ سلیمانیہ سے مدرسہ نواب منتقل ہو گیا۔ اس مرحلے میں میرے اندر موجود صلاحیتیں اور توانائیاں ابھر کر سامنے آئیں اور میں نے تعلیم حاصل کرنے کے حوالے سے اپنے اندرشدید شوق محسوس کیا اور درسوں کو انتہائی اچھے انداز میں سمجھنے لگا۔

کتاب ’’المغنی‘‘ کے بعد میں نے ’’المطول‘‘ پڑھی۔ یہاں میں کتاب ’’المطول‘‘ اور’’المغنی‘‘ کی اہمیت پر تاکید کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی کتاب بلاغت کے علوم میں مفید ہے، لیکن اس کو پڑھنے کے لیے بہت زیادہ وقت درکار ہوتا ہے، جبکہ دوسری کتاب کی علم نحو میں  کوئی نظیر نہیں۔

فقہ اور اصول فقہ میں، والد صاحب کے ساتھ کتاب ’’الشرائع‘‘ شروع کی، اور اسے باب الحج تک جاری رکھا۔ اسی دوران والد گرامی بڑے بھائی کو ’’شرح لمعہ‘‘ پڑھاتے تھے اور وہ لوگ اس کتاب میں باب حج تک پہنچ چکے تھے۔ یہاں سے میں نے بھی شرح لمعہ کے درس میں شرکت کرنا شروع کی اور اپنے بھائی کا ہم درس بن گیا، جبکہ پہلے بعض درسوں میں، میں ان کا شاگرد رہ چکا تھا۔ والد صاحب کے پاس شرح لمعہ کا تین چوتھائی حصہ پڑھ لیا، جبکہ باقی حصہ سید احمد مدرس یزدی کے پاس پڑھا۔

اس سے پہلے میں سید جلیل حسینی کے پاس ’’معالم الاصول‘‘ پڑھ چکا تھا۔ وہ میرے والد کے دوست تھے۔ پھر اس کے بعد والد صاحب اور شیخ ہاشم قزوینی کے پاس ’’رسائل‘‘ اور ’’مکاسب‘‘ کی کتابیں پڑھیں۔ شیخ ہاشم واقعاً قابل استاد تھے۔ سلیقہ تدریس میں ان سے بہتر استاد میں نے نہیں دیکھا۔

جس وقت میری عمر ۱۷ سال تھی میں نے ’’رسائل‘‘، ’’مکاسب‘‘ اور ’’کفایہ‘‘ کی کتابیں ختم کر لی تھیں۔ 1956؁ء میں، میں نے درسِ خارج میں شرکت شروع کی۔ اگلے سال زیارت کے لیے عراق کے سفر پر گیا اورنجف اشرف میں چند ماہ قیام کیا۔ اس دوران وہاں کے بڑے علماء کے درسوں میں شرکت کی تاکہ وہاں کے اساتذہ کے درسوں کو مشہد کے حوزے  کے درسوں سے موازنہ کر سکوں۔ سید خوئیؒ، سید حکیمؒ، سید بجنوردیؒ، سید شاہرودیؒ، میرزا باقر زنجانیؒ اور میرزا حسن یزدیؒ کے بعض درسوں میں شرکت کی۔

جس وقت کفایہ کے آخری حصے میں تھا، والد صاحب کے رغبت دلانے پر سید میلانی کے درس میں بھی شرکت شروع کی۔ سید میلانی 1954؁ء میں مشہد آئے تھے، اور کتاب الاجارہ کی ابتداء سے فقہ کی تدریس شروع کی تھی۔ یہ درس  دو سال تک چلتا رہا، لیکن میں نے اس میں شرکت نہیں کی۔ جس وقت کتاب الصلاۃ کا درس شروع ہوا، میں ان کے درس میں حاضر ہوا اور اڑھائی سال تک ان کے پاس درس پڑھتا رہا، یہاں تک کہ 1958؁ء کے وسط میں قم منتقل ہوا اور اس شہر میں 1964؁ء تک  رہا۔ پھر مشہد واپس آیا، اور 1979؁ء میں انقلاب کی کامیابی تک مشہد ہی میں رہا۔

میں والد محترم کے پاس بھی درسِ خارج پڑھتا تھا۔ چونکہ درسِ خارج کے لیے بہت زیادہ مطالعے اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے، اور مختلف کتابوں سے تیاری کرنا پڑتی ہے، جبکہ  والد گرامی اس قدر محنت  کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے، لہٰذا ان کا درس اتنا مفید نہیں تھا۔ میری عادت تھی کہ میں درسوں کو عربی میں لکھتا تھا  اور مطالب پیش کرنے اور ابواب بندی میں ابتکار (جدّت) لانے کی کوشش کرتا تھا۔

والد محترم استاد گرامی

والد صاحب نے ہمیں یہ عادت ڈال رکھی تھی کہ کبھی کسی فرصت کو ضائع نہ کریں اور ہمارا کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ جب ہم درس اور مباحثہ سے استفادہ نہ کریں۔ والد صاحب ایام محرم اور گرمی کے مہینوں میں حوزے کی تعطیل کے ایام سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ آپ مجھے محرم کے پہلے سات دنوں میں درس پڑھاتے تھے اور اگلے تین دنوں میں عزائے حسینی کی مجالس میں جاتے تھے۔ والد محترم گرمی کی چھٹیوں کا سرے سے انکار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جب ہم نجف اشرف میں سخت موسم اور شدید گرمی کے باوجود گرمی کے مہینوں میں درس جاری رکھتے تھے تو مشہد میں تعطیل کیسے ہوتی ہے؟!

میں نے کتاب ’’المطول‘‘گرمی کی چھٹیوں میں  پڑھی۔ شیخ فشارکی گرمیوں میں قم سے مشہد آتے تھے اور وہاں دو ماہ گزارتے تھے۔ میں انہیں دور سے جانتا تھا کیونکہ قم منتقل ہونے سے پہلے وہ مشہد میں عربی لغت کے علوم پڑھا چکے تھے اور پھر قم میں بھی انہی علوم کو پڑھایا تھا۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے مشہد میں ’’المطول‘‘پڑھائیں، جسے انہوں نے قبول کیا۔ میں دن میں کئی گھنٹے ان سے پڑھتا تھا۔ ’’المطول‘‘کا علم بیان کا حصہ اور معانی اور بدیع  کا کچھ حصہ میں نے دو سال کی گرمی کی چھٹیوں میں ختم کر لیا، یعنی چار ماہ کی مدت میں۔ بعد میں شیخ فشارکی کو پتا چلا کہ میں مکاسب بھی پڑھتا ہوں تو وہ فقہ میں میری تیزی کے ساتھ پیشرفت سے حیران ہوئے۔ وہ خود بھی قم میں یہ کتاب (مکاسب) پڑھاتے تھے۔

والد صاحب پڑھائی کے اس سارے سلسلے کی نگرانی کرتے تھے اور کبھی حوصلہ افزائی اور کبھی سختی سے ہمیں پڑھائی کا شوق دلاتے رہتے تھے۔ میں والد صاحب کے طریقہ کار سے متفق اور ان کی خواہشات کو پورا کرتا تھا۔ میں جو درس پڑھتا تھا جب اس میں اپنی شخصی رائے کا اظہار کرتا تو وہ بہت خوش ہوتے تھے۔ جب میری عمر  چودہ اور پندرہ برس کے درمیان تھی تو وہ کہا کرتے تھے تم مجتہد ہو اور شرعی حکم کے استنباط   کی صلاحیت رکھتے ہو۔ میں اپنے بھائی کے ساتھ مباحثہ کرتا تھا، مباحثے کے بعد والد صاحب ہمیں اپنے کمرے میں بلا کر سوال کرتے اور جس مطلب  کا سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہوتا اس کی وضاحت کرتے۔

مجھے یاد ہے، ہمارا گھر تین کمروں پر مشتمل تھا۔ دو کمرے والد صاحب کے تھے، نسبتاً بڑا کمرہ مہمانوں کے لیے تھا ۔ دوسرا والد صاحب  کے مطالعے اور کھانا کھانے کے لیے (طالب علموں کے حجروں کی طرح) اور ایک کمرہ ہم، ۴ بھائیوں، 4 بہنوں اور والدہ کے لیے تھا۔ جب کبھی اچانک والدہ کے مہمان آجاتے یا کوئی ذکر کی محفل ہوتی تو ہمیں مجبوراً گھر کے باہر ہی ٹھہرنا پڑتا تھا۔ والد صاحب کے خصوصی کمرے میں ایک میزرکھی تھی جس کا طول 80 اور عرض 40 سینٹی میٹر تھا (سردیوں میں اس کے نیچے انگیٹھی رکھ کر اسے گرمائش کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور یہ کرسی کہلاتی ہے) والد صاحب میز کے عرض میں چار زانو ہو کے بیٹھتے اور ہم طول میں ایک ہی جہت میں بیٹھ جاتے تھے۔ دورانِ گفتگو والد صاحب کی سنجیدگی اور ہیبت کی وجہ سے میں اور میرا بھائی والد صاحب سے دور بیٹھنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیتے تھے۔ اس میں کوئی  شک نہیں کہ والد صاحب  کی تندروی اور سختی کے منفی اثرات تھے لیکن میں اس کے مثبت اثرات کا انکار بھی نہیں کرتا۔ اس سختی نے ہمیں منظم بنایا اور ہمیں ان انحرافات سے دور رکھا جن میں علماء کے بچے آزادی  کی وجہ سے مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس سختی کا اثر تھا کہ میں نے عربی لغت کے علوم اور فقہ و اصول میں سطوح کا مرحلہ ساڑھے پانچ سال میں مکمل کر لیا۔

میرے مشاغل

حوزۂ مشہد میں پڑھائی کے چھ سالوں کے دوران میری بہت سی یادیں ہیں۔ ان میں سے ایک ذکر کرتا ہوں۔ یہ عالمی اور ایرانی مشہور قصوں اور ناول کے مطالعے سے میرا شغف ہے۔ شاید میں نے میشل زیواکو (Michel Zevaco) کے تمام ناولز پڑھے ہوں گے جنکی تعدا د دس تک ہے اور الیگزینڈر ڈوماس (Alexander Dumas) باپ اور بیٹے کے ناول بھی پڑھے۔ اسی طرح تمام یا اکثر ایرانی ناولوں کا مطالعہ کیا۔ انسان کے ذہن اور اسلوب نگارش پر ان ناولوں کے پڑھنے کا گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔

1957؁ء میں جب میں نے چند ماہ کے لیے عراق کا سفر کیا تو کچھ کتابوں سے شدید لگاؤ کی وجہ سے انہیں اپنے ہمراہ لے گیا۔ پھر نجف اشرف میں شوشتریہ لائبریری بھی گیا۔ اس لائبریری میں میرے چچا سید محمد کی وقف کردہ کتابیں بڑی تعداد میں موجود تھیں۔ وہاں سے کچھ کتابوں کی کاپی کروائی۔ پھر اپنے اہل وعیال کے ساتھ بصرہ کے راستے ایران (بارڈر) پہنچا۔  وہاں سے ہم لوگ خرم شہر آئے اور پھر وہاں سے تہران کے لیے ٹرین پر سوار ہو گئے۔ تہران میں وہ کتابیں اور چند شناختی دستاویزات کھو گئیں۔ زمین و آسمان ایک کرتے ہوئے ہر جگہ چھان مارا، ریلوے سٹیشن کے گمشدہ اشیاء کے دفاتر بھی گیا،  کافی دیر تک ڈھونڈتا رہا، لیکن بے فائدہ۔ افسردہ و غمزدہ حالت میں مشہد لوٹا۔ تقریباً دو سال بعد ایک ٹیکسی والے کا پیغام موصول ہوا۔ اس نے کہا تھا: ’’مجھے ٹیکسی میں ایک بیگ  ملا ہے، جسے کوئی بھولے سے چھوڑ گیا تھا، میں نے اسے کھولا تاکہ کسی نشانی سے اس کے مالک کو شناخت کر لوں لیکن کتابوں اور شناختی دستاویزات کے سوا کچھ نہ پایا۔  پھر میں نے دیکھا کہ صاحبِ دستاویزات کے سر پر عمامہ ہے، میں نے تہران میں بعض علماء سے پوچھا تو ان میں سے کسی نے مشہد میں ایک مسجد کا پتا بتایا اور یوں کتابیں لوٹ آئیں۔

تیسرا باب

دجلہ کے کنارے

عربی زبان سے محبت

میری والدہ عربی ماحول میں پلی بڑھی تھیں۔ ان کے دادا اصفہان سے نجف کی طرف ہجرت کر کے آئے تھے۔ وہ اصفہان کے نواحی علاقے نجف آباد میں ساکن میردامادی خاندان سے تھے۔ نجف اشرف میں بھی اس خاندان کی  شاخیں موجود ہیں۔ میرے  نانا فاضل علماء میں سے تھے اور ان کی زبان عربی تھی۔ والدہ کی پرورش ایسے گھر میں ہوئی جہاں  عربی زبان بولی جاتی تھی۔ بالغ ہونے سے پہلے وہ اپنے خاندان کے ساتھ ایران آگئیں، یہی وجہ ہے کہ آپ نجف میں رائج عربی پر مہارت رکھتی تھیں۔ والدہ محترمہ قرآن میں مہارت کے ساتھ ساتھ حدیث شریف اور عربی کتابوں کا بھی علم رکھتی تھیں۔

یہ تھا آغاز۔۔۔

پرائمری سکول میں، میں نے بعض معمم([1]) اساتذہ سے کتاب ’’جامع المقدمات‘‘ میں سے عربی لغت کے قواعد پڑھے۔ گیارہ یا بارہ سال کی عمر میں عربی زبان کے علوم سنجیدگی اور تسلسل کے ساتھ پڑھنا شروع کیے۔ میرے سب بھائی اس ماحول میں میرے ساتھ شریک تھے، لیکن میں ایک خاص انداز میں عربی زبان کا شیفتہ تھا۔

عراقی ہمیشہ قافلوں کی شکل میں مشہد کی زیارت کے لیے آتے تھے۔ وہ لوگ صحن امام رضا,میں جمع ہوتے، اشعار کہتے اور قصیدے پڑھتے تھے۔ میں گھنٹوں ان کے اشتیاق میں وہیں ٹھہرا رہتا، ان کے الفاظ پر  انتہائی توجہ دیتا اور ان کی باتوں کو بہت غور سے سنتا۔

جب میں عربی زبان سنتا ہوں تو ایک خاص قسم کا احساس مجھ پر طاری ہو جاتا ہے اور اس زبان کے سننے سے دلی سکون محسوس کرتا ہوں۔ عربی سیکھنے سے والہانہ محبت کی وجہ سے میری ہمیشہ خواہش تھی کہ اپنے بچپن  کا کچھ حصہ کسی عرب علاقے میں گزاروں، چاہے وہ ایران میں ہو یا کہیں اور۔  حقیقت یہ ہے کہ عام طور پر ایرانی  لوگ، خاص طور پر ان میں سے دیندار طبقہ کم وبیش عربی زبان سے محبت رکھتے ہیں۔

طول تاریخ اسلام میں ایرانی عوام اور ان کے عرب ہمسایوں کے درمیان جو بھائی چارے کا وسیع، عمیق اور ہمہ جہت تعلق رہا ہے، اقوام عالم میں کہیں بھی دو قوموں  کے درمیان ایسے تعلق کی مثال نہیں ملتی۔ یہیں سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی جمہوری ایران پر ہونے والے ظالمانہ حملے کی حمایت میں بعض عربوں نے عرب قومیت کے نام پر جو موقف اپنایا وہ ایک بڑا نقصان اور عظیم جرم تھا، حالانکہ وہ جانتے تھے کہ حملہ آور کس دشمنانہ اور جارحانہ روح کا حامل ہے۔ ان کا یہ موقف انسانی نفیس جذبات کا گلہ گھونٹنے والا ہے۔

فصیح اور عوامی عربی کے درمیان

میں اپنے عراق کے سفر کے دوران پوری کوشش کرتا تھا  کہ صرف عربی بولوں، لیکن بعض اوقات فصیح اور عوامی عربی میں فرق کرنا میرےلیے مشکل ہو جاتا تھا۔ انہی مشکلات میں سے ایک مشکل وہ تھی جو مجھے 1957؁ء  میں نجف اشرف   میں پیش آئی جب مجھے والدہ نے محلے کی دکان سے چاول خریدنے بھیجا۔ دکان دار ایک خاتون تھی۔ میں نے اس سے پوچھا: ’’آپ کے پاس ’’رُزّ([2])‘‘ہیں؟‘‘  تو وہ حیرت سے بولی: ’’رُز‘‘ کیا چیز ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’رز‘‘، پھر میں نے اسے اشاروں سے سمجھانا شروع کیا۔  لیکن اسے سمجھ نہ آئی اور مجھ سے جان چھڑانے کے لیے کہنے لگی: ’’ہمارے پاس ’’رز‘‘ نہیں ہیں۔‘‘  میں والدہ کے پاس لوٹ آیا اور انہیں ماجرا سنایا تو  وہ  ہنسنے لگیں اور کہا: ’’تمن‘‘ کہو، ’’رُز‘‘ مت کہو۔‘‘([3]) پھر وہ خود گئیں اور چاول خرید کر لے آئیں۔

عربی سے لگاؤ کی وجہ سے میں عراق کے سفر کے دوران کسی ایسے علاقے کی تلاش میں تھا جہاں فارسی نہ بولی جاتی ہو اور چونکہ مقدس مقامات کے باشندے غالبا ً اچھی فارسی بول لیتے تھے لہذا میں کاظمیہ سے بغداد چلا جاتا تھا تاکہ صرف عربی بولوں۔ ایک دن میں دجلہ کے کنارے چہل قدمی کر رہا تھا۔ ایک قہوہ خانے تک پہنچا تو اس میں بیٹھ گیا۔ اخبار اٹھایا، سگریٹ سلگایا ([4]) اور بیرے سے چائے لانے کا کہا۔ قہوہ خانے میں زیادہ رش نہیں تھا، صرف چند گاہک موجود تھے۔ میں نے چائے والے کو دیکھا کہ وہ چائے ڈالتے ہوئے میری طرف تعجب آمیز نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور اپنے ساتھی سے بات کر رہا تھا۔ میں نے دوسری بار بھی چائے منگوائی۔  جب میں نے بل ادا کر کے نکلنے کا ارادہ کیا تو میری توجہ قہوہ خانے میں لٹکی ہوئی ایک تصویر نے اپنی طرف کھینچ لی جس سے واضح ہو رہا تھا کہ قہوہ خانے کا مالک عیسائی ہے۔ مجھے اس کی حیرت کا سبب بھی سمجھ آگیا کہ ایک صاحبِ عمامہ کیسے اس کے قہوہ خانے میں بیٹھا ہوا ہے۔ ایک دفعہ میں بغداد کی سڑکوں پرچل رہا تھا کہ رستہ  بھول گیا۔ ایک پیدل چلتے شخص سے شارع رشید کا پوچھا  کیونکہ شارع رشید پہنچ جاتا تو وہاں سے کاظمیہ کا رستہ معلوم تھا۔  وہ میرے لہجے سے پہچان گیا کہ میں ایرانی ہوں تو  فارسی میں کہنے لگا : ’’شارع رشید را می خواهی؟‘‘ یعنی شارع رشید  کا پتا چھ رہے ہو؟

عربی سے ترجمہ

سال 1959؁ء  یا 1960؁ء میں جب میں قم میں مقیم تھا تو معاصر عربی کتابوں کے مطالعے کے لیے شیخ کریمی (جو خوزستان کے علماء میں سے تھے) کے گھر آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ہم نے جبران خلیل جبران کی بعض کتابیں پڑھیں اور میں نے ان دنوں جبران کی ’’دمعۃ وابتسامۃ‘‘ نامی کتاب کا ترجمہ بھی کیا جو ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے۔ یہ عربی سے فارسی ترجمے کے حوالے سے میرا پہلا کام تھا۔ پھر اس کے بعد میں نے محمد قطب اور سید قطب([5]) کی کتابوں کے ترجمے کیے اور ان میں سے اکثر کام جیل کی کوٹھڑیوں میں انجام پایا۔ محمد قطب کی کتاب ’’شبہات حول الاسلام‘‘ (اسلام کے بارے میں کچھ شبہات) کے اکثر حصے کا ترجمہ کیا لیکن جب پتا چلا کہ مجھ سے پہلے دو دفعہ اس کتاب کا ترجمہ ہو چکا ہے تو چھوڑ دیا۔ سید قطب کی کتاب ’’المستقبل لھذا الدین‘‘ (اس دین کا مستقبل) کا ترجمہ کیا۔ اس کتاب نے میرے ذہن میں فکر و تحقیق کے لیے بہت سارے موضوعات کو جنم دیا جنہیں میں نے کتاب کے ساتھ اضافہ کیا۔ یہ اضافہ ساواک کے مزید غضبناک ہونے کا سبب بنا۔ میں نے ایک اہم  مقدمہ کے اضافے کے ساتھ سید قطب کی کتاب ’’الاسلام و مشکلات الحضارۃ‘‘ کا ترجمہ کیا۔ جن کتابوں کو میں نے عربی سے فارسی میں ترجمہ کیا ان میں تفسیر ’’فی ظلال القرآن‘‘ کی چھٹی طباعت کی پہلی جلد بھی شامل ہے۔ احمد آرام پہلی طباعت کا مکمل ترجمہ کر چکے تھے لیکن سید قطب نے چھٹی طباعت میں اپنی کتاب پر بہت سے اضافات بھی کیے۔  مجھے کسی نے 2500 تومان کے عوض اس کتاب کے ترجمے کی تجویز دی۔ میرے مالی حالات اچھے نہیں تھے لہٰذا میں نے تجویز قبول کر لی۔ میں اس کتاب سے شدید متاثر تھا لہٰذا پورے جذبات و احساسات کے ساتھ اسکا ترجمہ کیا۔ بعض عبارتوں سے اس قدر متاثر ہوتا کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے، خصوصا مقدمے میں۔ صحیح اور خالص اسلامی معاشرے تک امامت کی فکر اور نظریے کو پہنچانا میرے اہم اہداف میں سے ایک تھا۔ اسی ضمن میں شیخ راضی آل یاسین کی کتاب ’’صلح الامام الحسن,‘‘ کا ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ دیگر کتابوں کے بھی ترجمے کیے۔

علم نحو سے علم بلاغت تک

میں پہلے بتا چکا ہوں کہ میں نے عربی زبان کے علوم کو اعلی معیار کے ساتھ حاصل کیا۔ میں ان علوم کا ذوق بھی رکھتا تھا اور ان کے ساتھ لگاؤ بھی۔ مجھے نحو میں کتاب ’’المغنی‘‘ اور بلاغت میں ’’المطول‘‘ کے ساتھ ایک خاص لگاؤ تھا۔ ’’المطول‘‘ میں سے بدیع کا حصہ میرے سب سے پسندیدہ دروس میں سے تھا۔ میرا رہن سہن اس حصے کے موضوعات کے ساتھ تھا اور میری روح ان سے سرشار تھی۔ بہت سے عربی اشعار حفظ کیے جنہیں علم بدیع میں شاہد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ’’علم بیان‘‘ کے حصے میں پیش کیے جانے والے اشعار بھی۔ اور میں بعض اوقات خود کو ان میں سے بعض اشعار گنگناتے ہوئے پاتا ہوں۔ جیسے یہ شعر:

و کأن محمر الشقیـ
أعلام ياقوت نشر
قِ إذا تصوب أو تصعد
ن على رماح من زبرجد

محمر الشقیق ایک سرخ رنگ کا پھول ہے جس کا تنا سبز ہے۔  شاعر اسے تشبیہ دیتا ہے کہ جب یہ پھول ہلتا ہے تو ایسے لگتا ہے کہ زبرجد کے نیزے پر یاقوت  کا علم لہرا رہا ہے۔

اور یہ شعر:

وکأن النجوم بين دجاها سنن لاح بينهنّ ابتداع

اندھیری رات میں تارے ایسے ہیں  گویا بدعتوں میں سنتیں ہوں۔

یہ شعر تشبیہ کی خوبصورتیوں میں سے ایک ہے۔

 اور بلاغت میں تشبیہ کی دلکش مثالوں میں سے ایک بشاربن برد کا یہ شعر ہے:

كأنّ مثار النقع فوق رؤوسنا وأسيافنا ليل تهاوي كواكبه

ہمارے سروں پر جنگ کا غبار اور تلواریں گویا رات کا اندھیرا ہے اور تارے ٹوٹ رہے ہیں۔

اور تعجب خیز بات یہ ہے کہ ایک نابینا انسان اس طرح کی دلنشین اور دقیق  تشبیہ دے رہا ہے جس نے نہ جنگ دیکھی ہے، نہ اس کا غبار اور نہ ہی اس کی تلواریں۔

علم بدیع کی خوبصورت مثالوں  میں سے ابو تمام کا یہ شعر ہے:

يقول في قومس قومي وقد أخذت
أمطلع الشمس تبغي أن تؤمّ بنا
منا السَّرى وخطى المهرية القُودِ
فقلت كلّا ولكن مطلعَ الجودِ

ابو تمام کے  مرتبے تک کوئی شاعر یہاں تک کہ متنبی بھی نہیں پہنچا۔ متنبی نے بہت کچھ ابو تما م سے لیا ہے۔ میں نے اول سے آخر تک کتاب ’’الاغانی‘‘ کا مطالعہ کیا، میرا شاعرانہ ذوق مجھے اس کتاب کا مطالعہ جاری رکھنے کی رغبت دلاتا رہتا تھا۔ میرے پاس اس کتاب کے بعض اقتباسات موجود ہیں۔ دراصل اس کتاب کے پڑھنے میں ایک اور ہدف مدنظر تھا۔ اسی طرح تاریخ اور تاریخِ ادب میں بڑے بڑے عربی مجموعوں (دائرۃ المعارف) کا مطالعہ کیا اور ہر کتاب کی جلد کے پیچھے اپنا حاشیہ لگایا اور ملاحظات لکھے۔

ابوذیہ

1963؁ء قزل قلعہ کی جیل میں میری ملاقات خوزستان کے کچھ عرب قیدیوں سے ہوئی۔ میں آگے جب اپنی گرفتاریوں کے بارے میں بات کروں گا تو جیل میں ان عرب برادران کے ساتھ اپنے تعلق کی تفصیل ذکر کروں گا۔ یہاں صرف اتنا بیان کرنے پر اکتفا کروں گا کہ میری شدید خواہش تھی ان عرب قیدیوں سے ملاقات کے دوران اپنی عربی بہتر کروں۔ وہ سب چونکہ ایرانی تھے فارسی زبان سے آشنا تھے، لیکن میں ان کے ساتھ عربی میں بات چیت کرتا تھا۔ ان کے درمیان ایک ادیب تھا جسے اشعار حفظ تھے۔ میں نے اس سے بہت سارے اشعار حفظ کیے۔ اسے سید حبوبی کے اشعار سے لگاؤ تھا اور ہمیشہ اسی کے شعر دہراتا رہتا تھا۔ اس کا نام سید باقر النزاری تھا اور وہ یہ شعر بہت زیادہ دہراتا تھا۔

أتت وحياض الموت بيني وبينها وجادت بوصل حين لا ينفع الوصل

وہ آئی جبکہ موت کی ہچکی اس کے اور میرے درمیان تھی۔ اس نے وصل کی سخاوت کی لیکن اس وقت جب وصل بے سود ہو چکا تھا۔

اور یہ شعر بھی:

سأصبر حتى يعلم الصبر أنني صبرتُ على شيء أمرّ ٍ

میں صبر کروں گا یہاں تک کہ صبر بھی جان لے کہ میں نے صبر سے بھی کھٹن چیز پر صبر کیا ہے۔

اسی طرح عرب برادران جیل میں عوامی عربی کے اشعار دہراتے تھے جنہیں “ابوذیۃ” کہا جاتا ہے۔ ان میں سے جو اشعار میرے حافظے میں باقی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے:

البدر شعّ بجبينك والله لِيلِه
مضت ليله بوصالك والله ليله
والبَرَد بشفاك يا أدعج والله لِيلِه
عثر بيها الدهر وهداك ليَّ

 چاند تمہاری جبین پر چمکتا ہے۔ اور سیاہ آنکھوں والی سفیدی تیرے لبوں سے ایسے نکلتی ہے جیسے لؤلؤ۔ کیا شب تھی جو تیرے وصل میں گزار دی۔ زمانے نے اس شب کو پایا اور تمہیں میرے لیے ہدیہ کر دیا۔

ان میں ایک تعلیم یافتہ جوان بھی تھا جس کا لقب آل ناصر الکعبی تھا۔ میں اکثر اس کے ساتھ عربی میں بات چیت کرتا  تھا۔ میں اسے عربی زبان کے کچھ قواعد بھی سکھاتا تھا کیونکہ وہ عرب ہونے کے باوجود عربی زبان کے قواعد سے نابلد تھا۔ اسی طرح اس نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اسے ترکی زبان سکھاؤں اور میں نے اس سے کچھ انگریزی زبان سیکھی۔

عراقی شاعر ’’جواہری‘‘

پورے معاصر عربی ادب نے مجھے متاثر نہیں کیا، بلکہ اس ادب میں، میں نے بعض ایسی چیزوں کو پایا جو عربی زبان اور ذوق کے لیے نقصان دہ ہیں۔ بطور مثال خاص طور پر اس ادب کا ذکر کروں گا جو انداز اور معانی میں یورپی ادب سے متاثر ہے۔  یہ نہ تو عربی ادب ہے اور نہ ہی غربی۔ یہ ادب کی ایک مسخ شدہ صورت ہے جسے کوئی با ذوق اور طبع سلیم رکھنے والا شخص پسند نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ میں ایسے ادب کی تلاش میں رہتا تھا جو میرے اس عربی ذوق کے ساتھ، جس کے ساتھ میں پروان چڑھا، مناسبت رکھتا ہو اور یہ ادب  زبان اور انداز میں قدیم اور مستند عربی پر اعتماد کرتا ہو۔ میں نے معاصر مصری، شامی اور عراقی بڑے شعراء اور لکھاریوں کو پڑھا لیکن اپنے گمشدہ مقصود کو عراقی شاعر محمد مہدی جواہری([6]) کے اشعار میں پایا۔ جواہری اپنے عربی اندازِ بیان میں قدیم اور مستند زبان سے بہرہ مند ہے، چونکہ اس نے اصلی ادبی اور دینی گھرانے قبیلہ جواہری اور نجف کے دینی اور ادبی ماحول میں پرورش پائی ہے۔ اس کی شاعری عوام کے دکھوں اور ان کی امیدوں کو موضوع ِبحث بنانے میں منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ اس طرح جرات مندانہ موقف کو ضبط تحریر میں لانا اور ظالم حکمرانوں کو للکارنا اس کا طرہ امتیاز ہے۔ اسی وجہ سے اسے گرفتاریوں اور جیلوں کا سامنا رہا۔

جب میں نے اپنے لبنانی ادیب دوست مرحوم سید محمد جواد فضل اللہ سے جواہری کے انقلابی ہونے اور اس کے مضبوط موقف کے بارے میں سنا تو اسے زیادہ پسند کرنے لگا۔ اسی طرح انہوں نے مجھے بتایا کہ جواہری نے شیخ محمد حسین کاشف الغطاء کے سامنے قصیدہ کہا جس نے انہیں دل کی گہرائیوں تک متاثر کیا۔ شیخ فرط جذبات میں خود پر قابو نہ رکھ پائے اور بلند آواز سے کہا: ’’خدا کی قسم تم اس دور کے متنبی ہو۔‘‘ جواہری نے فوراً جواب دیا: ’’اے بزرگوار متنبی سیف الدولہ کا شاعر تھا اور میں سیف الاسلام کا شاعر ہوں۔‘‘ سیف الاسلام سے جواہری کی مراد خود شیخ کاشف الغطاء تھے۔

میں آپ سے نہیں چھپاؤں گا کہ جب میں نے جواہری کے کچھ قصائد پڑھے تو میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ ان میں سے ایک یہ شعر تھا:

نامي جياع الشعب نامي
نامي فإن لم تشبعي
حرستك آلهة الطعام
من يقظة فمن المنام

سو جاؤ اے قوم کے بھوکو سو جاؤ۔ کھانے کے ناخدا تمہاری حفاظت کر رہے ہیں۔ سو جاؤ اگر تم بیداری میں سیر نہیں ہوئے تو نیند میں ہو جاؤ گے۔

لیکن مجھے اس وقت دکھ ہوا جب میں نے اس قصیدے میں کچھ اشعار پڑھے جو اس بات کی علامت تھی کہ دین کواور دینی علماء کی ذمہ داری کو غلط سمجھا گیا تھا۔ ان اشعار میں وہ کہتا ہے:

نامي على تلك العظات
يوصيك أن تدعي المباهج
و تعوضي عن كل ذالك
الغر من ذاك الإمام
و اللذائذ للئام
بالسجود و بالقيام

اے قوم! ائمہ مساجد کے خوبصورت خطبے سن کر سو جاؤ، جو تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ لذتیں اور آسائشیں گھٹیا لوگوں کے لیے چھوڑ دیں اور  ان سب کے بدلے صرف قیام و سجود پر اکتفا کریں۔

میں نے اس وقت کتاب کے صفحے پر ان اشعار کے متعلق حاشیہ لگایا اور اپنی حیرت کا اظہار کیا کہ شاعر کیسے اسلام کے حقیقی اور انقلابی پیغام سے ناواقف ہے؟ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ شاعر ان درباری ملاؤں کا ذکر کر رہا ہو جن کا کام لوگوں کو دین کے نام پر غفلت کی نیند سلانا ہے۔ اگر شاعر کی مراد وہی واعظ ہیں تو اسےچاہیے تھا کہ انہیں اپنے کلام میں مشخص کرتا۔

’’یوم الشهيد ‘‘  جواہری کے ان قصیدوں میں سے ایک تھا جنہوں نے مجھے اندر سے ہلا کر رکھ دیا۔  اس قصیدے میں وہ کہتا ہے :

تبّاً لدولة عاجزين توهموا
وإذا تفجّرت الصدور بغيظها
وإذا بهم عصفاً أكيلاً يرتمي
أن الحكومة بالسياط تُدام
حَنَقا، كما تنفجر الألغام
إذا بما ركنوا إليه ركام

وائے ہو ان بیچاروں کی حکومت پر جو گمان کرتے ہیں کہ حکومت کوڑوں سے دوام پاتی ہے اورجب سینوں میں موجود غم و غصہ پھٹتا ہے تو گویا بارود پھٹتا ہے۔ اور جب خوفناک طوفان انہیں اٹھا کر پٹخ دیتا ہے اور جب ہجوم ان کی طرف بڑھتا ہے۔

اور اس وقت تو میرے اندر ایک طوفان برپا ہو گیا جب میں نے قصیدہ ’’ اطبق دجی‘‘ کے اشعار پڑھے:

أطبق دجى، أطبق ضباب
أطبق على متبلد
أطبق على المِعزى يُرا
أطبق على هذي الكرو
أطبق: فأنت لهذه السو
كنت سترها لا ينبلج
أطبق جهاماً يا سحاب
ين شكا خمولهمُ الذباب
دُ بها الجوع احتلاب
شِ يمطّها شحم مذاب
ءاتِ عاريةً حجاب
صُبح ولا يَخفق شهاب

اے بادل! تاریکی، دھند اور ظلمتِ شب کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ اس ازدحام کو بھی جس کی سستی کی شکایت مکھیوں کو بھی ہے، ڈھانپ لے۔ ان بکریوں کو بھی ڈھانپ لے جنہوں نے بھوک کی حالت میں بھی دودھ دینا ہے۔ ان شکموں کو بھی ڈھانپ لے جن پر چربی پگھل کر پھیلی ہے۔ ڈھانپ لے۔ تو ہی ان کھلی برائیوں کے لیے حجاب ہے۔ ان کے لیے پردہ بن جا۔ نہ صبح طلوع ہو، اور نہ ستارے غائب ہوں۔

جب بھی معاصر عربی ادب پڑھنے کا دل کرتا تو میں جواہری کا دیوان کھول لیتا۔ اسے اکیلے بیٹھ کر یا کسی ایسے شخص کے ساتھ بیٹھ کر پڑھتا جس میں عربی ادب کا شوق محسوس کرتا۔ شاعر کو اور اس کی غریب الوطنی کو یاد کرتا اور تمنا کرتا کہ وہ اپنے وطن لوٹ جائے، اسے جیسا وہ چاہتا ہے ویسا پائے، اور اس کی زندگی سے طولانی و تاریک شب چھٹ جائے۔ دوسال پہلے (1992؁ء) ’’ذکریاتی‘‘ (میری یادیں) کے عنوان سے جواہری کی کتاب مجھ تک پہنچی۔ میں نے اسے بڑے شوق سے پڑھا اور بہت زیادہ مصروفیات کے باوجود بہت کم دنوں میں کتاب کے آخر تک پہنچ گیا اور بہت سے صفحات پر حاشیہ بھی لگایا۔ جب میں اسے کسی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پاتا تو ان کے دیوان کی طرف مراجعہ کرتا تاکہ دیکھوں کہ انہوں نے اپنے اشعار میں اس واقعے کو کیسے بیان کیا ہے۔ پھر بعد میں سنا کہ جواہری اور ان کی زوجہ امام علی بن موسی رضا, کی زیارت  کے لیے مشہد آنے کا شوق رکھتے ہیں تو میں نے برادران سے مطالبہ کیا کہ ان کے لیے اس زیارت کے امور کو آسان کیا جائے، لیکن اس سے پہلے کہ ان کی ثامن الائمہ, کی زیارت کی تمنا پوری ہوتی ان کی زوجہ اس دار فانی سے کوچ کر گئیں۔ میں نے مطالبہ کیا کہ آل جواہری اور ان کے شاعر کے احترام میں ان کی زوجہ کے ایصال ثواب کی مجلس  امام رضا, کے مقدس  حرم میں رکھوائی جائے۔ پھر میرے دفتر سے ایک وفد انہیں تعزیت پیش کرنے اور اسلامی جمہوری ایران کے دورے کی دعوت دینے گیا۔ انہوں نے فوراً دعوت قبول کی اور ایران کی طرف رخت سفر باندھ لیا۔ ہماری خواہش تھی کہ وہ چند دن اسلام، انقلاب اسلامی اور حکومت  اسلامی کے سائے تلے بسر کرے اور جس باعزت، کریم، اور ظلم و ظالمین کے خلاف انقلاب برپا کرنے والی اور مختلف شعبہ ہای زندگی میں کامیابی حاصل کرنے والی امت کے وہ پوری زندگی خواہش مند رہے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ ہم چاہ رہے تھے کہ جیسے ان کی خواہش تھی ویسا ہی زندہ جیتا جاگتا متحرک اور انقلابی اسلام دیکھیں تاکہ ان کے دل کو قرار آئے اور اپنی زندگی کے طویل سفر کو خیر و بھلائی  پر اختتام بخشیں۔ لیکن اس شاعر کے پریشان، مضطرب اور رنجیدہ دل کو کہاں قرار آنا تھا  جو 80 سال سے جھگڑوں، دشمنوں اور بحرانوں سے بھرپور زندگی گزارنے کا عادی ہو چکا تھا۔

وہ کچھ عرصہ یہاں رکے جس میں میرے ساتھ ملاقات کی اور میرے اور جمہوری اسلامی کے متعلق اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے مجھے اپنی کتاب ’’ذکریاتی‘‘ (میری یادیں) بھی پیش کی اور کچھ اشعار بھی۔([7])

جواہری کے بارے میں یہ باتیں ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ میں معاصر عربی کے اچھے اشعار سے لگاؤ رکھتا ہوں اور میں امید رکھتا ہوں کہ یہ  اشعار بہترین زندگی کے حصول کے لیے امت اسلامی کے قلوب  میں پائے جانے والے جذبات کی ترجمانی کی ذمہ داری ادا کریں گے۔


([1]) جو سر پر عمامہ رکھتے ہوں۔

([2]) فصیح عربی میں چاول کو کہتے ہیں۔

([3]) تمن عوامی عربی میں چاول کا نام ہے۔

([4]) آغا، انقلاب اسلامی سے پہلے سگریٹ پیتے تھے، انقلاب کے بعد چھوڑ دیا۔

([5]) سید قطب (1906؁ء تا 1966؁ء): مصری مصنف اور مفکر جن کا تعلق اخوان المسلمین سے تھا۔ 60 اور 70 کی دہائی میں مختلف ممالک میں مزاحمت کرنے والے مجاہدین کے نزدیک ان کے افکار کو بہت زیادہ پذیرائی ملی۔ 1966؁ء میں جمال عبد الناصر کے حکم سے حکومت کے خلاف سازش کے الزام میں انہی پھانسی دے دی گئی۔ رہبر معظم نے پہلوی حکومت کے خلافت مزاحمت کے دوران ان کی چند کتابوں کا ترجمہ کیا جن میں ’’فی ظلال القرآن‘‘، ’’المستقبل لھذا الدین‘‘ اور ’’الاسلام و مشکلات الحضارۃ‘‘ شامل ہے۔

([6]) محمد مہدی جواہری (1899؁ء تا 1997؁ء): یہ عراق کے بڑے کلاسیکی شعراء میں سے تھے۔ ان کا سلسلہ نسب صاحب ’’جواہر‘‘ آیت اللہ شیخ محمد حسن نجفی سے ملتا ہے۔ جواہری عربی ادب میں سیاسی شاعری خصوصا عراق کے مسائل کو اجاگر کرنے کے حوالے سے مشہور تھے۔ 1992؁ء میں انہوں نے ایران کا دورہ کیا اور 6 ماہ قیام کیا۔ اس دوران رہبر معظم انقلاب آیت اللہ خامنہ ای سے بھی ملاقات کی۔ 1997؁ء کی گرمیوں میں دمشق میں وفات پائی اور زینبیہ میں دفن ہوئے۔

([7])قصیدے کا پہلا مصرعہ یہ تھا:

سیدي أيها الأعزّ الأجل أنت ذو منّة وأنت المدلّ
اے میرے سردار اے عزیز اے جلیل تو محسن بھی ہے اور ہمارا افتخار بھی

شاعر نے رہبر معظم کے لیے ایک اور قصیدہ بھی بھیجا جسکا پہلا مصرع یہ تھا:

أبا الحسین تحیاتٌ معطر
كان الوليّ (أمير المومنين) به
في يوم عيد (غدير) رُحت ترعاه
واليوم أنت (ولي الأمر) مولاه
 

ایک تیسرا قصیدہ بھی بھیجا جسکا مطلع یہ تھا:

إيران عاد الصبح من أفراح حذر الفوات فآذني بصباح
 

اور اس قصیدے میں بعض برادران کو جواب دیتا ہے جنہوں نے اسکی خاموشی پر اسکی ملامت کی:

قالوا سكتّ وأنت أفظع ملهب
لكن وجدتُ سلاحهم في عطلة
وعيّ الجموع لزندها القدّاح
فرميت في قعر الجحيم سلاحي!
 

چوتھا باب

پہلی چنگاری

جہاد

میں نے بچپن سے ایران میں اسلامی بیداری کے اہم دور میں زندگی بسر کی ہے جو نواب صفوی کی تحریک سے شروع ہوئی اور تحریکِ امام خمینی@ کے ساتھ انقلاب اسلامی اور بابرکت اسلامی حکومت کے قیام تک جاری رہی۔ شہید نواب صفوی  وہ پہلی چنگاری  تھے جنہوں نے میرے لیے مکمل انقلابی اسلام کا راستہ روشن کیا۔ وہ مردِ مجاہد ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ایرانی معاشرے میں ایسا تحرک ایجاد کیا جس نے مسلمانوں کے ضمیر کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا ، ہمتوں کو متحرک کیا اور دلوں میں اسلام اور اسلامی مقدسات سے متعلق غیرت جگائی۔ نواب صفوی کی تاثیر صرف ایران تک محدود نہ تھی، بلکہ انہوں نے عرب دنیا کے بعض علاقوں کا بھی سفر کیا اور  مجاہدین کے دلوں میں حماسہ اور جذبے کی آگ کو شعلہ ور کیا اور بعض عرب  حکمرانوں کو نصیحت کی کہ استعمار کے دھوکے کا شکار نہ ہوں۔

نواب  کے دیدار کی تڑپ

نواب صفوی نے 1953؁ء میں مشہد مقدس کا سفر کیا اور ’’المہدیہ‘‘ نامی مقام پر ٹھہرے جو ایک مدرسے کی مانند تھا جس میں امام مہدی منتظر(عج)کی یاد کا بہت اہتمام کیا جاتا تھا۔ اس مدرسے کے مؤسس ’’عابد زادہ‘‘تھے، جو پندرہ شعبان کو جشن میلادِ مہدی منتظر(عج) بہت زیادہ اہتمام سے مناتے تھے۔

نواب صفوی نے کسی کے گھر میں قیام نہیں کیا، بلکہ اپنے لیے اس عمومی دینی جگہ کا انتخاب کیا۔ میں ان دنوں مدرسہ سلیمان خان میں طالب علم تھا اور اس وقت میری عمر 14 سال تھی۔ نواب صفوی کے دیدار کے شدید شوق کے باوجود میں مہدیہ نہ جا سکا کیونکہ میرے والد صاحب نے مجھے جانے کی اجازت نہ دی۔

نواب صفوی نے اس سفر کے دوران ایک دن مدرسہ سلیمان خان کا دورہ کرنے کا عزم کیا تاکہ اس مدرسے کے جن طلاب نے آپ سے ملاقات کی تھی ان کا دیدار کر سکیں۔ جیسے ہی میں نے یہ خبر سنی، تو میں بہت  خوش ہوا۔ یہ حقیقت تھی کہ نواب صفوی ہماری نظروں میں شجاعت اور اسلامی مزاحمت کی علامت شمار ہوتے تھے۔ ہم جب حکومتی مشینری کے خلاف ان کی مجاہدانہ جدوجہد کی تفصیلات سنا کرتے تو عزت اور فخر محسوس کرتے تھے۔ ان  کی جدجہد میں سے ایک  ایران میں استعمار کے کارندے کا قتل اور فدائیان اسلام([1]) کے ایک رکن خلیل طہماسبی کے ہاتھوں وزیر اعظم  جنرل رزم آرا کا قتل تھا جو کئی مظالم اور جبر وحبس کی کاروائیوں کی پشت پناہی کرنے والا  تھا۔ ہم نے سنا کہ سید کاشانی نے طہماسبی کو اس دلیرانہ اقدام پر مبارکباد پیش کی۔ ہم جانتے تھے کہ نواب صفوی کے کچھ ساتھی ہیں اور ان کی ایک تنظیم بھی ہے جس نے حکومتی کارندوں اور طاغوتوں کو خوفزدہ کر رکھا ہے۔

اس مدرسے میں ایک بڑا کمرہ تھا جسے ’’مدرس‘‘ کہا جاتا تھا۔ ہم نے جھاڑو لگا کر اس کی صفائی کی اور اسے مہمان اور ان کے ساتھیوں کے لیے تیار کیا۔ مقررہ وقت کا انتظار کرنا شروع کیا، مدرسے کا دروازہ کھلا، مہمانوں کا ایک گروہ اندر داخل ہوا اور میں ان کے درمیان نواب صفوی کو تلاش کرنے لگا جن کے متعلق میں نے اپنے ذہن میں ایک بھاری اور طویل وعریض آدمی کی تصویر  بنا رکھی تھی۔ میں نے ویسا آدمی نہیں دیکھا جیسا سوچا ہوا تھا۔ اس کے برعکس ایک نحیف اور چھوٹا سا آدمی مجھے نظر آیا  جس کے سر پر کالا عمامہ اور چہرہ ہشاش بشاش تھا۔ وہ ہر دیکھنے والے کے لیے مسکراتے اور اسے سلام  کرتے جا رہے تھے۔ جب کسی ہاشمی سید کو دیکھتے تو اسے کہتے: ’’سلام علیک یا ابن العم (میرے چچا زاد آپ پر سلام ہو)۔‘‘ عجب! یہ وہی نواب  صفوی ہیں جنہوں نے شاہ کی حکومت کو ذلیل و خوار کر رکھا ہے؟!

حقیقت میں جب سے میری نظر  ان پر پڑی تھی مجھے لگا جیسے میں اپنے تمام عواطف و جذبات کے ساتھ ان کی طرف کھنچا چلا جا رہا ہوں اور ان کو دل کی گہرائیوں سے  چاہنے لگا ہوں۔

اس سفر میں نواب صفوی کے ساتھ فدائیان اسلام کا ایک گروہ بھی تھا۔ ان میں سے اکثر جوان تھے جنہوں نے سروں پر چمڑے کی خاص قسم کی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں اور ان میں سے تین نے عمامے پہن رکھے تھے۔  وہ کمرہ لوگوں سے کھچا کھچ بھر گیا۔ نواب صفوی کھڑے ہوئے، تقریر کی اور اپنے سیاسی اہداف و مقاصد  کو بیان فرمایا۔ لوگوں کو اسلام کی نصرت اور سربلندی کے لیے جانفشانی اور شہادت کی ترغیب دی۔ ان کی باتیں میری روح پر اثر انداز ہوئیں، میرے عواطف اور جذبات کو شعلہ ور کرنے لگیں اور مجھے اسلام کی عزت و قوت  کی طرف کھینچنے لگیں۔

مشتعل شعلہ

دو دن بعد میں نے سنا کہ نواب صفوی ’’مدرسہ نواب‘‘ کا دورہ کرنا چاہتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ میری آمد و رفت محدود تھی، میں اس مدرسے میں چلا گیا۔وہاں لوگوں کو ان کا انتظار کرتے ہوئے پایا۔ اس مدرسے کے ہال اور ایوانوں میں ان کے استقبال کے لیے قالین بچھائے گئے تھے۔ میں نے کچھ دیر انتظار کرنے والوں کے ساتھ  انتظار کیا لیکن  شدتِ شوق کی وجہ سے میں وہاں نہ رک سکا لہٰذا ان کے استقبال کا عزم کر لیا اور مہدیہ کی طرف جانے والے راستے پر نکل پڑا۔میں نے انہیں آتے ہوئے دیکھا۔  لوگ ان کے پیچھے تھے۔ وہ دائیں بائیں دیکھتے ہوئے چل رہے تھے۔ لوگوں کو سلام کر رہے تھے اور ان سے گرمجوشی کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے۔ چلنے والوں کو مخاطب کر کے کبھی ان کے عزم کو  پختہ کرتے اور کبھی ان کو نصیحت  کرتے۔ ان کا پورا جسم تقریر اور بات چیت کرتے وقت مسلسل ہلتا رہتا تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جب نواب صفوی نے مغربیوں سے شباہت کی مذمت میں تقریر کی تو اس سے متاثر ہو کرایک شخص نے اپنی ٹوپی اتار دی، پھر اس نے اسے  لپیٹ کر جلدی سے اپنے جیب میں ڈال  لیا۔

میں نے جلدی کی تاکہ مدرسے میں نواب صفوی کے سامنے صفِ اول میں بیٹھ سکوں۔ ابھی بھی وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے اپنی تما م تفصیلات کے ساتھ مجسم ہے۔  آپ مدرسے کے صحن میں ایک اونچی جگہ پر کھڑے ہوئے۔ میں ان کے سامنے ان کے پاؤں کے پاس بیٹھا تھا اور ان کی ہر بات اور حرکت  کی طرف  کھنچا جا رہا تھا۔  مجھے یاد ہے وہ طالب علموں کو وعظ و نصیحت کر رہے تھے اور ان کو ورع اور تقوی کی طرف بلا رہے تھے اور اس بارے میں روایات اور آیات کی تلاوت کر رہے تھے۔ ابھی بھی ان کی آواز میرے کانوں میں گونج رہی ہے جب وہ پڑھ رہے تھے: ’’اے ابن آدم توشہ راہ مہیا کرو، بے شک راہ بہت طولانی  ہے۔۔۔ اپنی کشتی کو از سرنو بناؤ،   بے شک  سمندر بہت گہرا ہے۔‘‘([2])

نواب صفوی واقعا ایک مشتعل شعلے میں تبدیل ہو چکے تھے جو میرے تمام وجود میں اسلام، معاشرے اور اسلام کے مستقبل کی فکر کو ہمیشہ اور مسلسل ابھارتا تھا۔

قابل ذکر بات ہے کہ سید کاشانی کے دور میں نواب صفوی  کی آمد سے قبل سن 1952؁ء میں بعض باشعور خطیب ہمارے پاس مشہد تشریف لائے۔ میں ان کی  محفل میں جانے اور ان کی الہامی حماسی روح سے مطلع ہونے کا بہت مشتاق تھا۔

اولادِ رسول خداﷺ کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جاتا ہے؟

اس سفر کے دو سال بعد (1955؁ء) نواب صفوی کو شہید کر دیا گیا۔  میں ان دونوں مدرسہ نواب میں شیخ ہاشم قزوینی کے پاس درس پڑھتا تھا۔ نواب صفوی کی پھانسی کے ساتھ شہروں میں عام طور پر اور حوزات علمیہ میں خاص طور پر رعب و وحشت اور خوف کے بادل منڈلانے لگے۔ مشہد میں ان دنوں ہمارے استاد  شیخ ہاشم ہی وہ تنہا عالم تھے جنہوں نے خوف کی فضا کو توڑا۔ انہوں نے اپنے درس کے شروع میں نواب صفوی کی شہادت پر تعزیت پیش کی، ان کی پھانسی کے خلاف سخت الفاظ میں احتجاج کیا اور اپنی مشتعل آواز کے ساتھ فرمایا: ’’کیا اولادِ رسولؐ کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے؟‘‘ ہم جوان طالب علموں نے نشستیں منعقد کرنا شروع کر دیں، جن میں نواب صفوی اور ان کے ساتھیوں کے فضائل، ان کی روش اور اہداف و مقاصد کو بیان کرنے اور ان مجاہدین کی پھانسی کے خلاف اپنے اعتراضات کا اظہار کرنے لگے۔

نواب صفوی کی شہادت کے اگلے سال ہم اتفاقاً ایک استاد سے ملے جو گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لیے مشہد آئے ہوئے تھے۔ ان کا لقب ’’قلہ زاری‘‘ تھا اور وہ فدائیان اسلام کے ارکان میں سے تھے، لیکن حکومت ان کا پیچھا نہیں کر رہی تھی کیونکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت مہیا نہیں تھا۔ ہماری ان سے آشنائی ہوئی اور ہم ان سے مانوس ہوگئے۔ انہوں نے ہمیں نواب صفوی کے حالات زندگی اور ان کی فکری وسیاسی نظر کے بارے میں  بتایا تو مجھے ان سے اور زیادہ لگاؤ ہوگیا اور ان کے خلوص، جدوجہد اور اہداف کے بارے میں میرے یقین  میں اضافہ  ہو گیا۔ ہمارا گروہ ایسے جوانوں پرمشتمل تھا جو ذہنی اور قلبی طور پر  آپس میں مربوط تھے۔ قلہ زاری ہم سے تقریبا 10 سال بڑے تھے لیکن ایک گہرے تعلق نے ہمیں ان کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔ اگلے سالوں میں گرمیوں کی چھٹیوں میں ان کا مشہد آنا جانا لگا رہا۔

پہلا سیاسی اقدام

ہمارے گروہ کا پر جوش جذبہ موقع کا منتظر تھا تاکہ عملی طور پر اپنے وجود کا اظہار کرے۔ یہ موقع محرم 1955؁ء میں  ہمیں مل گیا جب مشہد کے گورنر نے  شہر میں سینما کی چھٹیاں کم کر کے صرف 12 محرم  تک محدود کر دیں، جبکہ معمول  یہ تھا کہ عاشورا، واقعہ کربلا اور چہلم شہدا کے احترام میں سینما بند رہیں گے خصوصاً اکثر سینموں میں فاسد فلمیں چلتی تھیں۔ گورنر کا یہ حکم ہمارے ردّعمل کے لیے کافی  تھا، پس ہم اکٹھے ہوئے اور اس فیصلے کے خلاف ایک بیان جاری کیا۔ اس بیان میں   ہم نے علماء اور عوام کو امر بالمعروف اور نہی از منکر کی ذمہ داری انجام دینے کے لیے ابھارا اور برائیوں کے مقابلے میں خاموشی کے انجام سے ڈرایا۔ ہمارے پاس پرنٹنگ کے آلات نہیں تھے۔ ہم نے بیانیہ کے تمام اوراق اپنے ہاتھوں سے لکھے۔ میرے پاس  ان میں سے ایک نسخہ ابھی بھی موجود  ہے۔ یہ بیانیہ چار صفحات پر مشتمل  تھا۔ ہر نسخے کو لکھنے کے لیے تقریبا دو گھنٹے درکار تھے۔ سیاسی میدان میں یہ پہلا عملی قدم تھا۔

تبدیلی کی سوچ

جب میں1958؁ء میں شہر قم گیا تو معاشرے کو تبدیل کرنے کی سوچ  میرے ذہن کو مشغول کیے ہوئے تھی۔ چونکہ میرا تعلق حوزہ علمیہ سے تھا لہٰذا میں حوزہ کی تجدید میں زیادہ دلچسپی لیتا تھا۔ آخری دفعہ میں نے (1991؁ء) قم میں حوزے کی تجدید کے پروگرام کے بارے میں بات کی۔ اس فکر کی ابتداء انہی دنوں کی طرف پلٹتی ہے۔

اس مناسبت سے یہ بھی بتاتا چلوں کہ کل مجھ سے ایک عالم دین ملنے آئے جو ان دنوں سید بروجردی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے، تو مجھے وہ گفتگو یاد آگئی جو میرے اور ان کے درمیان، قم کی طرف میری ہجرت کے ابتدائی ایام میں ہوئی تھی، جب میں ان سے ایک دوست  کے گھر ملا تھا۔ صاحب خانہ اور میرے بھائی سید محمد بھی وہاں پر تشریف فرما تھے۔ میں نے ان کے سامنے حوزے کے نظام پر شدید تنقید کی۔ ان دنوں حوزے کے سربراہ سید بروجردی تھے۔ بحث شدت اختیار کر گئی۔ وہ دفاع کر رہے تھے اور میں نقد کر رہا تھا۔ بالآخر وہ اٹھ کر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد صاحب خانہ نے اس گفتگو میں جرات پر میری ملامت کی، جو ممکن تھا سید بروجردی تک پہنچ جاتی۔

مزاحمت اور بیداری کے راستے

یہاں پر میں ایران کے اندر اسلامی تحریک کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں، اور وہ یہ کہ اس تحریک میں دو طرز تفکر موجود تھے۔ ان دونوں کا ملاپ اس  ملک میں اسلام کی طرف تکاملی سفر کو تشکیل دیتا ہے:

پہلا: حکومتی نظام کے مقابلے میں خالص دینی مزاحمت کا طرز تفکر ۔

دوسرا: فکری بیداری اور زندگی کے اسلامی نظام کو نئے اسلوب کے ساتھ پیش کرنے کا طرز تفکر، یا دوسرے الفاظ میں دینی فکر میں تجدیدِ نظر کی سوچ۔

بعض ایسے تھے جو مزاحمتی راستے کو اپنائے ہوئے تھے لیکن جدید اسلامی فکر کے حامل نہیں تھے بلکہ قدامت پسند سوچ کے حامل تھے۔ ان کی اسلامی غیرت مسلمانوں کی مقدسات کی توہین کرنے والی حکومت کے خلاف انہیں قیام پر ابھارتی تھی۔

بعض بیداری کی سوچ کے حامل تھے اور وہ اسلام کے بارے میں روشن فکر رکھتے تھے۔ انہوں نے معاشرے کے اندر دین کو زمانے کے تقاضوں کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی اور فکری انحرافات کا مقابلہ کیا، لیکن مزاحمت کے راستے کو نہیں اپنایا۔

اس کے باوجود کہ امام خمینی= فکری بیداری کے علمبردار تھے، ان کی تحریک کے آغاز  میں (1963؁ء) مزاحمت کا پہلو نمایاں تھا۔ ابتدائی ایام میں حکومتی  نظام کے خلاف مزاحمت پر توجہ تھی کیونکہ وہ دین کا دشمن تھا۔ دینی مزاحمت کی روح معاشرے میں راسخ ہو جانے کے بعد تحریک کو یہ موقع ملا کہ اسلامی فکر کو مطلوبہ شکل میں پیش  کرے۔ قدامت پسند پیچھے رہ گئے جبکہ دینی بصیرت اور وسعت فکری رکھنے والے افراد اس راستے پر باقی رہے۔ پھر اسلامی تحریک  کی بہت ساری شخصیات نے دوسرے طرز تفکر (بیداری کا طرز تفکر)کو ترجیح دی، خصوصاً 1966؁ء اور 197۷؁ء کے درمیان، جو انقلابیوں کے لیے سخت سال تھے۔ شاہ نے ان سالوں میں سیاسی مزاحمت کرنے والے سارے گروہوں کا صفایا کر تے ہوئے میدان کو ان سے خالی  کر دیا۔

ان میں سے بعض جو اپنی جہادی زندگی کے ابتدائی اور آخری مراحل میں مزاحمت کے میدان میں تھے، لیکن ان مذکورہ سالوں میں فکری بیداری میں مشغول ہو گئے۔ شہید مطہریؒ، شہید بہشتیؒ اور شہید باہنر  جیسے خوش قسمت شہداء انہیں افراد میں سے تھے۔

یہاں پر میں تاریخ اور حقیقت کی خاطر یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں ان چند گنے چنے انقلابیوں میں سے تھا جنہوں نے تحریک کے تمام  مراحل میں ان دونوں طرز عمل کو آپس میں جمع کیے رکھا اور میں ان دو طرزوں کو جمع کرنے کے حوالے سے مشہور تھا ۔ میں اپنی جہادی زندگی میں ہمیشہ مزاحمت اور بیداری کو ساتھ ساتھ لے کر چلا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میں نے ان دونوں کو اچھے انداز میں جمع کیا ہے۔

میری شدید خواہش تھی کہ میں دین کوایسے سمجھوں اور پیش کروں جیسے خدا نے چاہا ہے۔ وہ دین جو عملی زندگی کے لیے راستہ اور قانون دیتا ہے اور مطلوبہ کمال تک پہنچنے کے لیے مسلسل تحرک کا نام ہے۔ میں اپنے تمام فکری اور علمی کاموں میں، لیکچرز اور دروس میں اس طرز عمل پر زور دیتا تھا۔ اسلام کے روشن اور عمیق فہم  کی طرف میری توجہ اس چیز کا سبب بنی کہ میں عرب اور غیر عرب  اسلامی مفکرین  کی کتابوں کی طرف مائل ہوں۔

اس کے ساتھ ساتھ میں ہر وہ سرگرمی انجام دیتا تھا جو عوام کو حکومتِ  وقت کے خلاف آمادہ کرے اور اسلامی حکومت کے قیام میں عوامی قیادت کی بنیادیں فراہم کرے۔ 

ہمارے انقلابی دوستوں میں سے بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے ان دو طرز عمل کو جمع کیا تھا۔ ان میں سے نمایاں شیخ ہاشمی رفسنجانی تھے۔ میں نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایک دفعہ ان سے کہا: ’’ہماری زندگی کے گزشتہ 15 سالوں میں کوئی دن  ایسا نہیں تھا جس میں حکومت کے خلاف مزاحمت نہ کی ہو۔‘‘ اور میں نے ان سے یہ بھی کہا: ’’میں ان سالوں میں ایک رات بھی بغیر پریشانی کے نہیں سویا۔ ہماری راتیں یا تو جیل اور جلاوطنی میں کٹتی تھیں یا جیل اور جلاوطنی کے انتظار میں۔‘‘ شیخ ہاشمی نے جواب میں کہا: ’’میں بھی آپ ہی کی طرح ہوں۔‘‘

بیداری کا طرز عمل رکھنے والے برادران ہماری تائید و مدد کرتے تھے۔ شہید مطہریؒ مجھ سے 18 سال بڑے تھے یعنی میرے ان کے درمیان ایک نسل کی عمر کا فاصلہ تھا، اس کے باوجود ہماری گہری دوستی تھی۔ وہ میرے اجتماعی مقام و منزلت میں اضافے کے لیے کوشش کرتے تھے اور اپنی محافل و مجالس میں میرا ذکر کرتے تھے۔

ڈاکٹر شریعتی نے بھی اپنی اسلامی زندگی کا آغاز مزاحمت سے کیا، پھر فکری بیداری کے راستے کو اختیار کیا۔ مجھے ان کے افکار پربعض اعتراضات اور اشکالات بھی ہیں۔

ہمارے بھائیوں میں سے بعض سیاسی مزاحمت کرتے تھے اور بعض ایسے نہیں تھے، لیکن ہم ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کیا کرتے تھے جیسا کہ میں نے اس کا ذکر کیا ہے۔ دینی کام کے لیے اپنی مختلف صلاحیتوں اور ذوق کے مطابق تمام توانائیاں صرف کرنا پڑتی ہیں۔ اس حوالے سے لوگ مختلف ہوتے ہیں۔ حدیث میں ہے:

لو علم الناس كيف خلق الله تبارك تعالى هذا الخلق لم يلم أحد أحدا.

اگر لوگ یہ جان لیں کہ اللہ تعالی نے مخلوقات کو کیسے خلق کیا ہے تو کوئی کسی دوسرے کی سرزنش نہیں کرے گا۔

یہ بات اختیار کے منافی و مخالف نہیں ہے بلکہ انسانوں کی طبیعت میں اختلاف کو بیان کرتی ہے۔

میرا ایمان ہے کہ جب ایک دینی اور فکری بیداری کا کام تحرک اور مزاحمت سے خالی ہو تو خشک اور بے روح ہوجاتا ہے اور دینی مزاحمت کی روح اگر فکری شعور سے خالی ہو تو قدامت پسندی اور جمود کا شکار ہو جاتی ہے۔ مزاحمت اور فکری بیداری کا امتزاج اسلامی انقلاب کی راہ ہموار کرتا ہے۔


([1]) فدائیان اسلام: اس جماعت کا قیام 1945؁ء میں ایک دینی طالب علم سید مجتبیٰ نواب صفوی کے ہاتھوں انجام پایا۔ ان کا ہدف ایرانی مسلمان قوم میں دینی تشخص کا احیاء اور ملکی حالات کو بہتر بنانا تھا۔ اس جماعت کے نڈر جوانوں نے ملک سے خیانت کرنے والوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی اور شاہ کی حکومت میں موجود بہت سے خیانت کاروں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ ایران کے اندر محب وطن حکومت کے خلاف امریکی حمایت یافتہ انقلاب کے بعد اس جماعت کے بہت سے ارکان کو قید کر لیا گیا اور سزائے موت سنائی گئی۔ 1955؁ء میں حسین علاء پر ناکام قاتلانہ حملے کے بعد نواب صفوی اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا اور بالآخر پھانسی دے دی گئی۔

([2])  حدیث قدسی: يابن آدم! وفّر الزّاد فإن الطريق بعيد بعيد… وجدّد السفينة فإن البحر عميقٌ عميقٌ

پانچواں باب

انقلاب کا آتش فشاں

حاج آغا روح اللہ

جب میں مشہد میں تھا تو میں نے سید خمینی کا نام سنا۔ وہ ان دنوں حاج آقا روح اللہ کہلاتے تھے اور طالب علموں کے ہاں تعلیم و تدریس میں سنجیدگی کے حوالے سے مشہور تھے۔ پڑھائی کا شوق رکھنے والا ہر جوان طالب علم سید کے حوزہ علمیہ قم کے دروس میں شرکت کا شوقین تھا۔ سن 1958؁ء میں میرے قم جانے کے بعد میں نے سید خمینی کے اصول فقہ کے درسوں میں شرکت کی۔ ان چھ سالوں میں جو میں نے قم میں گزارے ان درسوں کو جاری رکھا۔ میں نے سید خمینی کے فقہ کے درسوں میں بھی شرکت کی، لیکن شیخ مرتضی حائری کے درس میں جانے کی وجہ سے ان کو جاری نہیں رکھ سکا۔ میرا درس چھوڑنا شیخ حائری کے درس کو ترجیح دینے کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ ان کے درس میں تعداد کم ہونے کہ وجہ سے تھا۔ شیخ حائری کے درس میں طالب علم کم تھے کیونکہ ان کی تدریس کا اسلوب طالب علموں کو جذب نہیں کرتا تھا، اگرچہ وہ علم و فضل میں مشہور تھے لیکن میرے ان چند ساتھیوں نے بھی شیخ حائری کے درس کو خیر آباد کہہ دیا اور میں اکیلا ان کے پاس درس پڑھتا رہا۔ اس درس کے علاوہ کوئی ایسا درسِ خارج نہیں تھا کہ جس میں صرف ایک طالب علم شرکت کرتا ہو۔

امام خمینی کی  1962؁ء کی تحریک سے پہلے ان پر کوئی انقلابی آثار نمایاں نہیں تھے۔ وہ ایک محنتی استاد تھے، جن کا لباس بہت صاف ستھرا اور مرتب ہوتا تھا۔ سر جھکائے کمرۂ درس میں داخل ہوتے تھے۔ کسی طالب علم کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے۔ اپنا درس سنجیدگی سے پڑھاتے تھے۔ طالب علموں کے سوالات اور اعتراضات کا پورے اہتمام سے جواب دیتے تھے۔ پھر کسی طالب علم سے بات چیت کیے بغیر اسی انداز میں باہر چلے جاتے تھے۔ اس کے باجود آپ اپنے شاگردوں اور دوسرے طالب علموں کے درمیان بہت زیادہ محبوب تھے۔

ابھی جب میں ان ایام کے متعلق سوچتا ہوں تو اعلانِ تحریک سے قبل امام کی خاموشی پر بہت حیران ہوتا ہوں۔ اعلانِ تحریک کے بعد سامنے آنے والے بیانات بتاتے ہیں کہ وہ حکومتی اقدامات پر بہت غضب ناک ہوتے تھے لیکن اس کے باوجود خاموش رہتے تھے۔ میں ہمیشہ کہتا رہا ہوں کہ سید کی خاموشی کی ریاضت بڑی ریاضتوں میں سے ایک تھی۔ وہ انسان ِمومن کے کامل مصداق ہیں۔

سید خمینی میرے والد محترم کے دوست تھے۔ جب بھی میں قم سے مشہد کے لیے عازم سفر ہوتا اور انہیں الوداع کرنے جاتا تھا تو وہ مجھے والد کو سلام پہنچانے کا کہتے تھے۔ اسی طرح سے سفر سے واپسی پر بھی میں ان سے ملنے جاتا تھا تو وہ مجھ سے والد صاحب کا حال احوال پوچھتے تھے۔ بعض امور کے بارے میں سوال کرنے کے لیے بھی میرا ان کے پاس آنا جانا رہتا تھا۔

جب امام خمینی= کی تحریک کا آغاز ہوا تو میں اس تحریک کے پرچم تلے آنے کے لیے مکمل طور پر آمادہ تھا۔ میں نے اس تحریک میں وہ سب کچھ پایا جو چاہتا تھا۔  مجھے یاد ہے میں تحریک کےآغاز کے پہلے سال قم کی ایک گلی میں جا رہا تھا تو مدرسہ حجتیہ کے دروازے پر امام خمینی= کا دوسرا بیان آویزاں دیکھا جس میں اسد اللہ علم کوایک ایسی زبان کے ساتھ مخاطب کیا گیا تھا جو اسلام کی قوت اورعلمائے اسلام کی عزت کی عکاس تھی۔ میں نے اس بیان کے کلمات کو آخر تک شوق کے ساتھ پڑھا اور سجدہ ریز ہونے کا ارادہ کیا کیونکہ یہ بیان میرے تمام جذبات اور امیدوں کی عکاسی کرتا تھا۔ میں نے جان لیا کہ وہ حق پر ثابت قدم رہیں گے چاہے اس کے لیے جو بھی قربانی دینی پڑے۔ سید بروجردی کی وفات کے بعد حوزہ علمیہ قم یتیمی کا احساس کر رہا تھا۔ ایسے حالات میں امام خمینی بلند و بالا پہاڑ کی مانند سامنے آئے،  جو ظالم حکومت سے انتہائی دلیری، قوت اور عظمت کے ساتھ بات کرتے تھے۔ یہ واضح تھا کہ اس طرح کا موقف اسلام اور مسلمانوں کی عزت کے خواہاں انسان کو اپنا گرویدہ بنا لیتا تھا۔ تحریک کے آغاز اور اس میں میری فعال شرکت کے بعد سیدؒ کے گھر میری آمدورفت بڑھ گئی۔

انقلاب کا آغاز کیسے ہوا؟

امام خمینی کی تحریک میں اپنا کردار واضح کرنے کے لیے اختصار کے ساتھ تحریک کے آغاز کے متعلق کچھ بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ امام خمینی کی تحریک، خزاں 1962؁ء میں اس وقت شروع ہوئی جب حکومت کے شریعت مخالف فیصلوں کے خلاف آپ نے شدید احتجاج  کیا۔ ان فیصلوں میں سے ایک، حکومت کی طرف سے (پارلیمنٹ اور عدالتوں میں)  قرآن کی قسم کو دوسری آسمانی کتابوں کی قسم سے تبدیل کرنا تھا۔ اس طرح کے فیصلوں کا ہدف ایران میں اسلام کی عظمت کو کم کرنا اور علمائے دین کے جذبات کو ابھارنا تھا۔ تمام شہروں میں شدید احتجاجات کے نتیجے میں دو ماہ بعد حکومت اپنے فیصلے سے دست بردار تو ہو گئی مگر اس نے راتوں رات ایک اور منصوبہ بنا لیا۔ اس فیصلے کے واپس لینے کے ایک ماہ بعد شاہ نے پارلیمنٹ میں کچھ قانونی بل پیش کیے جن کو ’’ اصلاحات‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ در حقیقت امریکی بل تھے۔ امام خمینی= نے ان بلوں کو بھی شدت سے ردّ کر دیا۔  شاہ نے ان بلوں پر ریفرنڈم کروانے کا اعلان کیا تو امام نے اس ریفرنڈم کی بھی شدید مخالفت کی۔ جب مزاحمت شدت اختیار کر گئی تو شاہ نے امام خمینی اور تمام علمائے  دین کو دھمکانے کا قصد کیا اور قم آیا جو علماء کا مرکز تھا۔ حرم حضرت فاطمہ معصومہ/ بنت امام موسی کاظم, ([1])کے سامنے والے میدان میں کھڑا ہو گیا اور توہین آمیز تقریر کی، جس میں علماء دین پر حملہ کیا۔ وہ گھبرایا ہوا اور مضطرب تھا۔ اس طرح اس نے ایک خطرناک قدم اٹھایا۔

امام خمینی اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہے۔ آپ روزانہ یا ایک دن چھوڑ کر اپنے بیانات جاری کرتے رہے۔ ان  بیانات کی زبان بہت زیادہ سخت تھی۔ اس جیسے ماحول میں ریفرنڈم انجام پایا۔ حکومت نے کہاکہ ۶۰ لاکھ  لوگوں نے اس ریفرنڈم میں شرکت کی ہے۔

یہ ریفرنڈم  1963؁ء میں انجام پایا۔ ریفرنڈم کے  دن میں، میرے بھائی سید محمد اور ایک تیسرا شخص مشہد سے تہران پہنچے۔ ہمیں سید میلانی نے امام خمینی کی خدمت میں بھیجا تھا۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ پولنگ اسٹیشنز لوگوں سے خالی پڑے تھے، یہاں تک کہ  شہر کے زیادہ آبادی والے مراکز میں بھی چند ہی لوگ نظر آئے۔

ریفرنڈم کے بعد امام خمینی نے اپنے موقف میں مزید شدت اختیار کر لی اور  ریفرنڈم اور اس کے نتیجے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ امام خمینی کے اس سخت موقف کے بعد  آپ اور سارے مراجع کے درمیان اختلاف ِنظر کی شروعات ظاہر ہوئیں۔

اس سال ہماری کوئی عید نہیں

نیا شمسی ہجری سال قریب آگیا کہ جس کا آغاز ایرانی عام طور پر خوشی و مسرت، نیا لباس پہننے اور ایک دوسرے کی زیارت سے کرتے ہیں لیکن امام خمینی نے اس سے پہلے ہی یہ اعلان کر دیا تھا کہ ہم سوگ کی حالت میں ہیں اور اس سال ہماری کوئی عید نہیں ہے۔

اس اعلان کا سبب تہران میں ہونے والے کچھ مؤمنین کے پر امن مظاہرے پر حملہ تھا۔ ان مظاہرین میں سے ایک سید احمد خوانساری بھی تھے جو اس وقت ایران کے مراجع میں سے تھے۔ عوامی مظاہرے میں کسی مرجع کا ہونا ایک انہونی سی بات تھی اور اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات شاہ کے کارندوں کا ایک ایسے مظاہرے پر دھاوا بولنا اور مظاہرہ کرنے والوں پر لاٹھی چارج کرنا تھا، جس میں ایک بڑے مرجع شریک تھے، یہاں تک کہ خود سید خوانساری اس لا ٹھی چارج کی وجہ سے زخمی ہو گئے۔

سوگ کے اعلان  کے بعد تمام جوان طالب علموں نے کالے لباس زیب تن کر لیے جیسا کہ سوگ کے ایام میں ہوتا ہے۔ بعض نے تو فقط کالی قمیض پہنی جبکہ بعض نے مکمل  لباس، اور مجھے یاد ہے کہ میں خود درزی کے پاس گیا کہ وہ میرے لیے ایک کالی  قمیض سی دے۔

نئے سال کا پہلا دن ۲۴ شوال کو بنا یعنی ۲۵  شوال کی رات جو کہ امام صا دق, کی شہادت کی شب ہے اور قم میں عموما مراجع عظام اس دن مجالس او رعزاداری برپا کرتے ہیں۔ امام خمینی کی مجلس ان کے اپنے گھر جبکہ سید شریعت مداری کی مجلس حجتیہ مدرسے میں ہوتی تھی اور یہ دونوں مجلسیں نماز ظہر سے پہلے تھیں جبکہ سید گلپایگانی کی مجلس عصر کے وقت مدرسہ فیضیہ میں تھی۔

راتوں رات شاہی حکومت نے قم کے علماء سے انتقام لینے کے لیے اس مخصوص دن کے متعلق لائحہ عمل تیار کر لیا، جس کے لیے شاہ کے کچھ خصوصی محافظ قم آئے۔ ان کا مقصد مجالس عزا میں فتنہ برپا کرنا تھا تاکہ اس کے بعد وہ اپنی قوت اور تندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حوزہ علمیہ کے طالب علموں کے ساتھ سخت رویہ اپنائیں۔ انہوں نے چاہا کہ امام خمینی کے ہاں ہونے والی مجلس کو خراب کیا جائے لیکن چونکہ یہ مجلس ان کے گھر میں منعقد ہو رہی تھی اور گھر ایک تنگ گلی کے کونے میں واقع تھا لہٰذا ان کا یہ منصوبہ اس جیسی جگہ پر کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔  اس کے علاوہ کچھ عمامہ پوش علماء نے کھڑے ہو کر دھمکی دیتے اور ڈراتے ہوئے بلند آواز سے اس منصوبے کو آشکار کر دیا اور سازش کرنے والوں کی سازش  کو ناکام بنا دیا۔ انہوں نے اسی طرح کا فتنہ شریعت مداری کی مجلس میں برپا کرنے کی  کوشش کی لیکن وہاں بھی ایک  نوجوان  لڑکے نے اس بات کو بھانپ لیا جو کہ شریعت مداری سے عقیدت اور لگاؤ رکھنے میں  مشہور تھا،  لہٰذا وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور حاضرین کو مخاطب

کرکے کہنے لگا: ’’جو بھی اس مجلس کو خراب کرنے کی کوشش کرے گا میں اس کی کمر توڑ دوں گا۔‘‘ لیکن وہ لوگ پھر بھی مدرسہ فیضیہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے۔

مجلس عزاء ایک بہت بڑے سانحے میں تبدیل ہو گئی اور شاہی نظام پر ذلت و عار کا ایک ایسا دھبہ لگ گیا جو کبھی اس سے جدا نہیں ہو سکا۔ شاہی کارندوں نے طالب علموں پر حملہ کر کے انہیں بہت مارا۔ بعض کو تو قتل کر ڈالا جبکہ بعض کو مدرسے کی اوپر والی منزل سے نیچے صحن میں دھکے دے کر گرا دیا اور طالب علموں کے کمروں سے ان کا سادہ و متواضع سامان نکال کر اسے آگ لگا دی اور ایسے جرائم کے مرتکب ہوئے جن کی ایک لمبی داستان ہے۔

ماہ محرم کے لیے امام خمینی کا منصوبہ

مدرسہ فیضیہ کے حادثے کے بعد اما م خمینی نے اس مسئلے کو بہت زیادہ اٹھایا اور ایک لحظے کے لیے بھی سکون سے نہ بیٹھے۔ مدرسہ فیضیہ میں ہونے والے سانحے سے پردہ اٹھانے اور علماء کو سرنگوں کرنے کے حکومتی منصوبے کو آشکار کرنے کے لیے امام خمینی کے پیروکاروں نے اپنی کوششوں کو وسیع پیمانے پر پھیلا دیا۔

پھر امام خمینی نے ماہِ محرم کے لیے منصوبہ بندی کی۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں حوزہ علمیہ تمام شہروں اور دیہاتوں میں وسیع پیمانے پر قائم کردہ مجالس عزاء اور وعظ و نصیحت کے منبروں کے ذریعے لوگوں سے مربوط اور سرگرم ہوتا ہے۔ امام خمینی= کے منصوبے کے مطابق ۷ محرم سے خطباء  نے حکومت کی کارستانیوں سے پردہ اٹھانا شروع کرنا تھا، جبکہ عزاداری کے دستوں نے اسی  کام کا آغاز ۹ محرم سے  کرنا تھا۔  یہ منصوبہ علماء و مراجع  تک پہنچا دیا گیا اور میں اس منصوبے کوپہنچانے والوں میں سے ایک تھا۔ امام خمینی= نے مجھے مشہد بھیجا تاکہ سید میلانی اور سید قمی کو اس فیصلے سے باخبر کروں۔ محرم کے آغاز میں، میں نے بیرجند شہر کی طرف رخ کیا تاکہ امام خمینی کے منصوبے کے مطابق اپنی ذمہ داری انجام دیتے ہوئے حکومت کے مظالم کو آشکار کروں۔ وہاں (بیرجند میں) جو کچھ ہوا اس کو میں اپنی پہلی قید کے واقعات میں بیان کروں گا ۔

لوگوں کے جذبات ابھارنے میں امام خمینی کا منصوبہ کامیاب ہو گیا اور مجالس عزاء  شاہ اور اس کے معاونوں سمیت تمام ظالموں کے خلاف  شعلہ ور آتش فشاں کی شکل اختیار کر گئیں۔ حکومتِ وقت پر غیض و غضب کی فضا اور اسلامی انقلاب کے جذبات سے سرشار ماحول میں اعلان کر دیا گیا کہ امام خمینی= دس محرم کو عوام سے خطاب کریں گے۔ یہ جاننے کے لیے کہ امام خمینی کیا کہیں گے دلوں کا رخ قم کی طرف ہو گیا اور اس مقررہ دن میں آپ نے ایک عجیب تاریخی خطاب کیا۔ کسی کے وہم و خیال میں بھی نہیں ہوگا کہ آپ اس قدر شدید لہجے اور صراحت کے ساتھ گفتگو کریں گے جس میں تمام پردوں  کو چاک اور رازوں کو فاش کر دیں گے۔ امام خمینی نے جو گفتگو کی اس کا کچھ حصہ یہ ہے:

یقیناً اسرائیل نے اپنے ذلیل و خوار ایجنٹوں کے ذریعے سے مدرسہ  فیضیہ کو نشانہ بنایا ہے اور اسرائیل ہی ہمیں اور ہماری  ملت کو نابود کر رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہمارے اقتصاد پر قبضہ کرلے اور ہماری زراعت اور تجارت کو تباہ وبرباد کر دے۔ اے شاہ! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ان کاموں سے باز آجاؤ۔ میں چاہتا ہوں کہ ایسا دن نہ آئے کہ تم ایران سے جانے پر مجبور ہو اور لوگ تمہارے جانے پر خدا کا شکر بجا لائیں۔ ملت کی تقدیر اور سرنوشت کے ساتھ مت کھیلو۔ علمائے دین کے مقابلے میں نہ آؤ۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں۔۔۔ تمہاری عمر کے  ۴۵ سال تو گزر گئے لہٰذا نصیحت پر کان دھرو، اپنے اعمال کے انجام کے بارے میں سوچواور جو تم سے پہلے گزر گئے ہیں ان سے عبرت حاصل کرو۔ اپنے باپ سے عبرت حاصل کرو اور علمائے دین کی نصیحتوں  کو توجہ  سے سنو۔ کیا علماء قدامت پسند ہیں؟ کیا اسلام دقیانوسی ہے؟ اور کیا تم نے ’’انقلابِ سفید‘‘ کا اعلان کیا ہے؟ کونسا ’’انقلاب سفید؟‘‘ تم کیوں جھوٹ بولتے ہو؟ کیوں لوگوں کو دھوکہ دیتے ہو؟ خدا کی قسم، اسرائیل تمہیں فائدہ نہیں پہنچائے گا بلکہ قرآن ہے جو تمہیں فائدہ پہنچائے گا۔ مجھے آج پتا چلا ہے کہ ساواک نے کچھ خطیبوں کو حراست میں لے کر ان سے تعہد لیا ہے کہ وہ  شاہ اور اسرائیل کے خلاف لب کشائی نہیں کریں گے اور نہ ہی یہ کہیں  گے  کہ دین خطرے میں ہے۔۔۔ شاہ اور اسرائیل کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ کیا شاہ اسرائیلی ہے؟ کیا ساواک کی نظر میں شاہ یہودی ہے؟!‘‘

۲ جون ۱۹۶۳؁ء کی شام5 بجے امام خمینی کو خفیہ  طور پر گرفتار کر کے تہران منتقل کر دیا گیا۔ یہ خبر پھیلنے کی دیر تھی کہ  ۱۵ خرداد([2]) کا خوفناک اور مشہور سانحہ پیش آ گیا۔ شروع میں آپ کو تہران میں افسران کی مخصوص عمارت میں  حراست میں رکھا گیا جہاں آپ نے کچھ دن گزارے۔ پھر ایک  انتہائی چھوٹی کوٹھڑی میں منتقل کر دیا گیا جہاں آپ کھڑے ہو کر نمازبھی نہیں پڑھ سکتے تھے۔ وہاں آپ نے دو راتیں گزاریں۔ اس کے بعد ایک اور جیل میں منتقل کر دیا گیا جہاں آپ نے دو ماہ گزارے۔ پھر آپ کو اچانک رہا کر دیا گیا اور آپ تقریبا ڈیڑھ دن آ زاد رہے۔ اس دوران  آپ تہران کے کسی گھر میں مقیم رہے اور جب لوگوں نے آپ کی رہائی کی خبر سنی اور آپ کی رہائش گاہ سے آگاہ ہوئے تو انفرادی اور گروہی شکل میں تیزی سے آپ کے گھر کی طرف بڑھنے لگے۔ پورا علاقہ یہاں تک کہ اس کی سڑکیں اور گلیاں لوگوں سے کھچا کھچ بھر گئیں۔ حکومت کو خطرہ محسوس ہوا تو انہوں  نے امام خمینی کو تہران  کے شمالی علاقہ قیطریہ میں منتقل کر کے نظر بند کر دیا۔ وہاں آپ تقریبا آٹھ ماہ رہے۔ پھر آپ کو  ۱۹۶۴؁ء کے شروع  میں رہا کر دیا گیا اور آپ قم شہر کی طرف واپس  لوٹ آئے۔ اسی سال ۲۱ اکتوبر تک آپ آزاد  رہے، یہاں تک کہ آپ کو ترکی کی طرف جلا وطن کر دیا گیا۔

میری پہلی گرفتاری امام خمینی کی گرفتاری اور ۱۵ خرداد (۵جون) کے قیام کے دنوں میں ہوئی تھی اور دوسری مرتبہ تب گرفتار ہوا جب  امام خمینی قیطریہ میں نظر بند تھے۔ اس قید سے رہائی کے بعد میں نے امام خمینی سے ملاقات کی، جس کی تفصیل اپنی جگہ پر بیان کروں گا۔ جب ہمیں امام خمینی= کی ڈیڑھ دن کی رہائی کی خبر ملی تب ہم کچھ شاعر دوستوں کے ساتھ مشہد کے ایک سیاحتی مقام پر تھے جو ’’اخلمد‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔


([1]) سیدہ فاطمہ معصومہ/: آپ امام موسی کاظم, کی دختر ہیں۔ جب مامون عباسی امام رضا, کو زبردستی ایران لے آیا تو آپ اپنے بھائی سے ملنے ایران تشریف لائیں لیکن راستے میں مریض ہوگئیں اور قم شہر پہنچ کر وفات پاگئیں اور پھر وہیں دفن ہوئیں۔ آپ کے حرم سے مومنین، علماء اور اولیاء صدیوں سے کسبِ فیض کر رہے ہیں۔

([2]) 15 خرداد کا قیام (5 جون 1963؁ء): امام خمینی= کی گرفتاری کے خلاف ایران کے مختلف شہروں میں ہونے والے عوامی مظاہرے اور احتجاجات، جن کے نتیجے میں لوگوں کی بڑی تعداد اور متعدد دینی علماء کو گرفتار کر لیا گیا۔ تہران میں مقیم شیعوں کے ایک بڑے مرجع آیت اللہ حسین قمی کو ایران بدر کیا گیا۔ شاہ کی حکومت نے قم، تہران اور رامین میں احتجاجی مظاہروں پر دھاوا بول دیا اور شاہی فورسز کے تشدد کے نتیجے میں متعدد افراد شہید اور بہت سارے لوگ زخمی ہوئے۔ انقلابی تحریک کے آغاز میں پیش آنے والے اس حادثے نے ثابت کیا کہ عوام اس طاغوتی نظام کے مقابلے میں بیدار اور ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔

چھٹا باب 

سایہ آفتاب

انقلاب کے ابتدائی ایام

امام خمینی کے قیام کے بعد قم مسلسل تحرک اور فعالیت کا مرکز بن گیا لیکن ان سرگرمیوں کا محور کوئی تنظیم نہیں تھی۔ ہر کوئی اسلامی اقدار سے سرشار اپنے اپنے ذوق کے مطابق عمل کر رہا تھا اور ان میں سے کوئی ایک بھی یہاں تک کہ خود امام خمینی بھی ان سرگرمیوں کو تنظیمی شکل میں انجام دینے کا  نہیں سوچتے تھے۔

مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ دینی طالب علم مختلف سرگرمیوں کو اپنے ناموں سے انجام دیتے تھے۔ ایک گروہ امام خمینی کے بیانات کو تقسیم کرتا تھا تو دوسرا ان بیانات کو ٹائپ رائٹر پر ٹائپ کرتا تھا اور تیسرا امام خمینی سے مربوط گروہ تھا جو مختلف کاموں میں انہیں مشورہ دیتا تھا اور اپنی آراء اور تجاویز کو ان کے حضور پیش کرتا تھا۔ ان میں سے بعض سیاسی و اجتماعی صورتحال سے امام خمینی کو آگاہ رکھتے تھے اور بعض ان کے اور دوسرے علماء کے درمیان واسطے کا کام انجام دیتے تھے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو فراغت کے اوقات میں امام کے گھر آرام اور سکون کے ساتھ  رہتے تھے، لہٰذا ان کے گھر کے تمام کمرے ان کی غیر موجودگی میں بھی طلاب سے بھرے رہتے تھے۔ طالب علم آپس میں مختلف سیاسی اور علمی موضوعات پر گفتگو کرتے تھے جن میں بعض اوقات امام خمینی کے بڑے بیٹے مصطفیٰ خمینی([1]) بھی شرکت کرتے تھے۔ طالب علموں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی نماز جماعت اور مجالس عزاء حسینی میں شرکت کے لیے امام خمینی= کے گھر کا رخ کرتے تھے۔

اس تحریک میں شامل تمام مراجع جیسے آغا گلپایگانی، آغا مرعشی نجفی اور آغا شریعتمداری کے گھروں میں بھی یہی معمول تھا لیکن اس میدان میں مرکزی، نمایاں اور مؤثر شخصیت خود امام خمینی کی تھی جبکہ دوسرے علماء اس تحریک میں ان کے زیر سایہ اور ان کے قافلے میں ساتھ چلنے والے تھے۔ امام خمینی اس تحریک میں کسی کے سہارے پر نہیں چل رہے تھے جبکہ دوسرے علماء آپ پر ہی اعتماد کیے ہوئے تھے۔

میں نے متعدد کام اپنے ذمے لے رکھے تھے:

  • سید جعفر شبیری کے گھر برادران کے ساتھ امام خمینی کے بیانات کو ٹائپ رائیٹر پر ٹائپ کرنا پھر انہیں ایک دوسرے گروہ تک پہنچانا تھا تاکہ وہ انہیں آگے تقسیم کریں۔
  • بیانات اور اعلانات لکھنا جن پر کسی خاص فرد کا نام نہیں ہوتا تھا، بلکہ ’’علماء کا ایک گروہ‘‘ یا ’’طالب علموں کا ایک گروہ‘‘ جیسے عناوین استعمال کیے جاتے تھے۔ چونکہ بیانات لکھنے والوں کی شناخت مبہم ہوتی تھی لہٰذا ان بیانات اور اعلانات کا لہجہ تند و تیز ہوتا تھا۔
  • امام خمینی= کو مختلف مسائل میں مشورہ دینا۔ اس حوالے سے مجھے اب بھی یاد کہ میں اپنے بھائی سید محمد، شیخ علی حیدری (اسلامی جمہوری پارٹی کے ایک رکن جو بعد میں شہید ہو گئے) اور شیخ حسین ابراہیمی دینانی (ڈاکٹر اور فلسفہ ڈیپارٹمنٹ کے استاد ہیں) کے ساتھ امام خمینی کے گھر گیا۔ ہم نے ان کو تجویز دی کہ وہ حج کی مناسبت سے بیان جاری کریں۔ اور مجھے یاد ہے کہ ہمارے اس مشورے پر امام خمینی= کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا اور آپ نے کہا: ’’میں اسے آمادہ کر چکا ہوں۔‘‘

میں کبھی کبھار امام خمینی= اور دوسرے علماء کے درمیان رابطے کا  کام بھی کرتا تھا، اسی وجہ سے ایک دفعہ انہوں نے مجھے مشہد میں سید میلانی اور سید قمی کی طرف بھیجا  تاکہ انہیں ایک زبانی پیغام پہنچاؤں۔ یہ پیغام تین اہم نکات پر مشتمل تھا، جن میں سے ایک ان کے اور دوسرے علماء کے  درمیا ن مشترک اور دوسرے دو ان کے ساتھ خاص تھے۔ مشترک پیغام یہ تھا کہ اسرائیل ایران میں تمام حکومتی امور اور ملکی فیصلوں  پر اثر انداز ہے اور ایران سے دین اور دینی علماء  کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے۔ اور ان دونوں سے مخصوص پیغام یہ تھا کہ ۷ محرم سے شاہ کی حکومت کی جانب سے مدرسہ فیضیہ میں کیے گئے مظالم کو آشکار کرنا شروع کریں اور ۹ محرم سے عزاداری کے دستے حکومت کو رسوا کرنا شروع کریں۔

میری امام خمینی کے بڑے بیٹے مصطفیٰ خمینی کے ساتھ بڑی گہری دوستی  تھی اور وہ امام خمینی= کے نزدیک ہماری منزلت اور تحریک اسلامی میں ہمارے کردار کو جانتے تھے۔ ہمارا یہ تعلق مزاحمتی سرگرمیوں کو آسان بنانے میں مؤثر تھا۔

مجھے یاد ہے کہ شیخ ہاشمی رفسجانی کی ذمہ داری خبریں جمع کرنا تھی۔ امام خمینی نے انہیں دو سو تومان دیے۔ انہوں نے ان پیسوں سے ایک بڑا ریڈیو خریدا تاکہ وہ خبریں سن کر امام خمینی کو حالات سے آگاہ کر سکیں۔  یہ ریڈیو ممکن ہے اب بھی موجود ہو۔

تنظیمی ذمہ داریاں

میں اور میرے کچھ دوست تنظیم سازی میں مہارت رکھتے تھے۔ قم میں یہ کام نیا بلکہ اوّلین تھا۔ ہم نے قم میں علماء کی پہلی تنظیم تشکیل دی اور اس کے داخلی نظام کو مرتب کیا۔ میرے بھائی سید محمد([2])  کو ان امور میں ایک خاص ذوق حاصل تھا لہٰذا میں نے ان کے ساتھ  مل کر اس تنظیم کے داخلی نظام کو ترتیب دیا۔ ہم نے مزاحمت کے آغاز سے لے کر میرے قم سے جانے تک ( جو کہ تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ ہے) بہت سی تنظیموں کی بنیاد رکھی۔ ان میں سے کچھ تو ایک ساتھ چل رہی تھیں اور کچھ یکے بعد دیگرے وجود میں آئیں۔ ان تنظیموں میں سے چند یہ ہیں:

  • ’’گروہ علمائے قم‘‘ ( قم کے علماء کا گروہ)۔ یہ گروہ علماء کی ایک بڑی تعداد پر مشتمل تھا جو بعد میں حوزہ علمیہ قم کے اساتید کے گروہ سے جانا گیا اور اس وقت فارسی میں ’’جامعہ مدرسین‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس کے بہت سے موجودہ ارکان اس تنظیم کی تاسیس میں میرے کردار سے ناواقف ہیں۔
  • گیارہ افراد پر مشتمل ایک گروہ جس کے ارکان میں ہاشمی رفسنجانی، میرے بھائی سید محمد، مصباح یزدی (جوکہ اس گروہ کے کاتب تھے) ابراہیم امینی، مشکینی، منتظری، قدوسی، آذری قمی، ربانی شیرازی اور مہدی حائری تہرانی شامل تھے۔ان میں سے شیخ قدوسی انقلاب کی کامیابی کے تیسرے سال 1982؁ء میں

منافقین کے ایک گروہ’’مجاہدین خلق‘‘([3]) کے ہاتھوں شہید ہو گئے جبکہ شیخ ربانی کی اسی سال وفات ہوئی۔

مصباح یزدی ہماری نشستوں کی تفصیلات ایک کاپی میں رمزی زبان میں لکھتے تھے جسے انہوں نے خود ایجاد کیا تھا اور وہ مکمل طور پر علوم غریبہ کے ساتھ شباہت رکھتی تھی۔ ان نشستوں کی تفصیلات کو زیادہ مخفی بنانے کے لیے انہوں نے اس کاپی کے شروع  میں فارسی زبان میں لکھ دیا تھا کہ میں نے علوم غریبہ پر مشتمل ایک کتاب پائی اور اس کی کاپی تیار کر لی ہے۔ یہ تحریریں شاید ابھی تک موجود ہوں۔

  • ایک تیسرا گروہ بھی تھا جس کے ارکان میں سابقہ گروہ کے کچھ افراد کے علاوہ شیخ ربانی املشی اور شیخ علی اصغر مروارید بھی شامل تھے۔ اس گروہ کا مقصد تبلیغی امور میں عملی فیصلے کرنا اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت افراد کو شہروں پر تقسیم کرنا تھا تاکہ وہ افراد قیامِ خرداد کے بعد آنے والے ماہ مبارک رمضان کی تقاریر میں حکومت کو ان مظالم پر رسوا کریں جو اس نے قم کی عوام پر ڈھائے۔ اس تقسیم کے نتیجے میں، میں نے زاہدان جانے کا فیصلہ کیا جہاں مجھے قید کر لیا  گیا۔یہ میری دوسری گرفتاری تھی۔

طاغوت کے زندان

جب میں نے اسلامی بیداری کے آغاز ہی سے ظالم حکومت کے خلاف مزاحمت کا راستہ اپنایا تو میں جانتا تھا کہ یہ اشک و خوں سے پُر راستہ ہے اسی لیے میں نفسیاتی طور پر ہر قسم کی اذیت، تکلیف    اور سختی برداشت کرنے کے لیے آمادہ تھا۔ یہ بات مجھ پر اس وقت مکمل طور پر عیاں ہوئی جب مجھے بیرجند شہر میں گرفتار کر لیا گیا اور میں نے قید ہونے کے پہلے تجربے کا سامنا کیا۔ اسی آمادگی کا نتیجہ تھا کہ پے در پے جیلوں، گرفتاریوں، دھمکیوں، نفسیاتی حربوں اور جسمانی اذیتوں کے باوجود خدا کے فضل، اس کے احسان اور توفیق کی بنا پر میں مزاحمتی راستے کو جاری رکھ سکا۔

اسلامی تحریک کے آغاز سے (جو 1962؁ء میں شروع ہوئی ) ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی تک مجھے 6 مرتبہ گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا جبکہ ایک مرتبہ گرفتار کر کے شہر بدر کیا گیا اور نجانے کتنی ہی بار مجھے تفتیش کے لیے ساواک کے مرکز بلایا گیا۔  یہاں پر ضمناً یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مختلف نظام اور قوانین جو عقلی اور انسانی مصلحتوں کی بنیاد پر تشکیل پاتے ہیں، جیل کے موضوع سے غافل نہیں رہے۔ اسلامی شریعت میں بھی جیل کے خصوصی احکام ہیں اور اسلامی جمہوری ایران میں بھی جیل موجود ہے، لیکن عموماً جیل کا مقصد (اور میں بعض انفرادی غلطیوں کا انکار نہیں کرتا) قیدیوں کی اصلاح اور انہیں کسی ہنر کے قابل بنانا ہے تاکہ وہ آزاد  ہونے کے بعد ایک باعزت زندگی گزار سکیں۔

جبکہ شاہ کی جیلوں میں ایسا کچھ نہیں تھا، کیونکہ یہ جیلیں یا تو قیدی سے انتقام لینے کے لیے تھیں یا پھر اسے ہر قسم کی سرگرمی سے ناکارہ کرنے کے لیے۔ طاغوت کی جیل میں ہر قسم کی مشقت اور اذیت کے دوران اس حقیقت کو میں نے نزدیک سے درک کیا ہے۔

جیلوں اور گرفتاریوں کی یادیں بیان کرنے سے پہلے چند امور کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔

ان میں سے پہلا امر یہ ہے کہ شروع شروع میں علماء کی جیلوں میں سختی نہیں ہوتی تھی۔ علماء کی قید نہ زیادہ طولانی ہوتی تھی اور نہ ہی اس میں کوئی جسمانی تشدد ہوتا تھا، لیکن اس کے باوجود ان جیلوں میں وہ سب خصوصیات تھیں جو میں نے شاہ کی جیلوں کی حوالے سے بیان کی ہیں۔ پھر تحریکِ اسلامی کے پروان چڑھنے کے ساتھ ساتھ سختی بھی شروع ہو گئی لہٰذا جسمانی اذیت، مختلف قسم کے دباؤ، لمبی سزا اور اسی طرح کی سختیوں کا اضافہ کر دیا گیا۔

ان میں سے دوسرا امر یہ ہے کہ ان 16 سالوں کے دوران (جو میری پہلی گرفتاری سے شروع ہوئے اوراسلامی انقلاب کے ساتھ میری شہر بدری ختم ہونے پر تمام ہوئے) میں نے دیکھا کہ دینی علماء کو بڑے پیمانے پر گرفتار کیا گیا۔ گرفتار دینی علماء کی تعداد نسبتا کسی بھی دوسرے سیاسی گروہ سے زیادہ تھی، چاہے وہ یونیورسٹی کے طالب علم ہوں یا کمائی کرنے والے لوگ۔ بلکہ بعض اوقات تو گرفتار علماء کی تعداد تمام سیاسی قیدیوں سے زیادہ ہوتی تھی۔

ان میں سے آخری امر یہ ہے کہ ان مذکورہ سالوں میں مجموعی طور پر میں نے دو سال سے کچھ زیادہ وقت جیلوں میں گزارا۔ لیکن درحقیقت میری قید اس مدت سے کئی گنا زیادہ بنتی ہے کیونکہ مجھے تمام گرفتاریوں کے دوران انفرادی کوٹھڑیوں میں ڈالا جاتا تھا اور میں نے ایک دن بھی عمومی جیل میں نہیں گزارا۔ انفرادی کوٹھڑی کی عمومی جیل سے وہی نسبت ہے جو عمومی جیل کو آزاد زندگی سے۔ انفرادی کوٹھڑی میں انسان دن گنتا  ہے تاکہ وہ عمومی جیل میں منتقل ہو جائے اور عمومی جیل میں منتقل ہونا اس کے  لیے آزاد ہونے کے مترادف ہوتا ہے لیکن میں نے کبھی بھی عمومی جیل کو نہیں دیکھا۔ جب میں اپنے دوستوں سے اس جیل کے متعلق  سنتا تھا کہ انہیں کس طرح اس میں سیکھنے، سکھانے، آپس میں میل جول اور بعض کھیل کھیلنے کا موقع ملتا ہے تو میری شدید خواہش ہوتی تھی کہ میں بھی اسے دیکھ سکوں۔ ان مقدمات کو  بیان کرنے کے بعد ہم پہلی جیل  کی یادوں کو شروع کرتے ہیں۔


([1])  سید مصطفی خمینی (1930؁ء تا 1977؁ء): امام خمینی کے بڑے بیٹے ہیں۔ حوزہ علمیہ کے بزرگ علماء خصوصا اپنے والد محترم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا یہاں تک کہ حوزہ علمیہ کے فضلاء میں شمار ہونے لگے۔ امام خمینی= آپ سے بہت زیادہ محبت اور آپ پر اعتماد کرتے تھے۔ امام خمینی کی پہلوی حکومت کے خلاف تحریک کے آغاز ہی میں آپ سیاست میں وارد ہوئے۔ امام خمینی= کی گرفتاری اور جلاوطنی کے کچھ عرصے بعد آپ کو گرفتار کر کے ترکی کی طرف جلا وطن کر دیا گیا۔ پھر آپ اپنے والد محترم کے ساتھ عراق کی طرف جلا وطن ہوئے۔ نجف میں آپ تدریس، والد کے گھریلو معاملات کی نگرانی اور مزاحمت کرنے والے مجاہدین سے رابطے میں مشغول رہے۔ 1977؁ء میں مشکوک طریقے سے آپ کی وفات ہوئی۔ اس وقت آپ کی عمر 47 برس تھی۔ آپ نے بہت سے علمی آثار چھوڑے ہیں۔ آپ کی وفات اور اس مناسبت سے منعقد ہونے والی مجالس، شاہی حکومت کے خلاف علی الاعلان مظاہروں اور اجتماعات کے لیے پہلی چنگاری ثابت ہوئیں جن کا سلسلہ تقریباً ایک سال بعد شاہی نظام کے خاتمے تک جاری رہا۔

([2]) سید محمد خامنہ ای (ولادت: 1935؁ء): رہبر معظم کے بڑے بھائی ہیں۔ دینی علوم مشہد میں اپنے والد گرامی اور بعض دوسرے علماء سے حاصل کیے۔ پھر آپ قم منتقل ہو گئے اور آیت للہ بروجردی اور امام خمینی سے کسبِ فیض کیا۔ دینی علوم کے علاوہ یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم بھی حاصل کی۔ قانون ساز کونسل کے رکن رہے اور دو مرتبہ ایرانی پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔ آپ اس وقت فلسفہ اسلامی کے حوالے سے کام کرنے والے ’’صدرا انسٹیٹیوٹ‘‘ کے سربراہ ہیں۔

([3]) مجاہدین خلق (منافقین کا گروہ): اس گروہ کو 1965؁ء میں چار محب وطن دیندار جوانوں نے تشکیل دیا۔ اس کا مقصد پہلوی حکومت کے خلاف مزاحمت تھا۔ یہ گروہ دینی علماء سے دوری کی وجہ سے فکری انحراف کا شکار ہوا اور مارکسزم کی طرف مائل ہوگیا۔ 1971؁ء میں ساواک نے اس گروہ کے اکثر افراد کو گرفتار کر لیا اور چار سال بعد اس گروہ نے مارکسزم کو رسمی طور پر اپنا نظریہ قرار دے دیا۔ انقلاب کے بعد مجاہدین نے بظاہر انقلاب کی حمایت اور ساتھ چلنے کا اعلان کیا لیکن انہوں نے آہستہ آہستہ ایک ایسے راستے کا انتخاب کر لیا جو ملکی مفادات اور اسلامی اصولوں کے خلاف تھا۔ 1981؁ء سے اس گروہ نے ایرانی عوام کے خلاف مسلح دہشت گردی کا آغاز کر دیا۔ اس گروہ کا سربراہ مسعود رجوی بیرونی ملکوں کے ایجنڈے پر ایرانی مفادات کے خلاف کام کرتا رہا۔

ساتواں باب

اشکوں بھرا حماسہ

حکومت کی رسوائی

جون 1963؁ء کی بات ہے (یہ موسم بہار کا تیسرا مہینہ ہے۔ اس سال (1383؁ھ) کا محرم بھی جون کے مہینے میں ہی آیا۔ اسی سال تہران میں ایک بڑا سانحہ پیش آیا اور کچھ دوسرے شہروں میں بھی اس طرح کے سانحات رونما ہوئے، جن میں ہزاروں لوگ قتل کر دیے گئے۔) میں بیرجند میں تھا۔ اس وقت میرا اس شہر میں جانا ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت تھا جس کا ہدف حکومت کو اس کے جرائم کی بنا پر رسوا کرنا، قم میں اور بالخصوص مدرسہ فیضیہ میں علماء کی بے حرمتی سے پردہ اٹھانا اور ایرانی قوم کی اسلامی شناخت کو مسخ کرنے کے سرکاری منصوبوں کو آشکار کرنا تھا۔

قم میں رونما ہونے والے سانحے کا ذکر آیا ہے تو چلیں اسی حوالے سے اختصار کے ساتھ ان دو سالوں میں رونما ہونے والے  دیگر سانحات کی طرف اشارہ کرتا چلوں۔

امام خمینی= کی تحریک کی ابتداء خزاں 1962؁ء میں ہوئی  جب آپ نے ایسے حکومتی فیصلوں کا سختی سے اور ببانگ دہل انکار کیا جن کا ہدف اسلام کی عظمت کم کرنا اور صنف علماء کو سرکوب کرنا تھا۔

مدرسہ فیضیہ میں ہونے والے حادثے کے بعد امام خمینی نے بھرپور طریقے سے صدائے احتجاج بلند کی۔ بعد ازاں  ماہ محرم کے لیے ایک مکمل منصوبہ تشکیل دیا جو کچھ یوں تھا کہ تمام اہل منبر اور خطباء 7 محرم الحرام سے حکومتی ظالمانہ اقدامات کا برملا اظہار کریں اور پھر اگلے مرحلے میں 9 محرم الحرام سے عزاداری کے بڑے بڑے اجتماعات، ماتمی دستے اور انجمنیں اس کام کو انجام دیں۔ میں اس پیغام کو پہنچانے والوں میں سے ایک تھا۔

امام خمینی نے مجھے اپنی اس منصوبہ بندی کی خبر مشہد میں موجود آیت اللہ سید میلانی اور آیت اللہ سید قمی تک پہچانے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ محرم الحرام کے ابتدائی ایام میں ہی میں بیرجند کی طرف چلا گیا جہاں مجھے امام  کے منصوبے کے مطابق اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کو بے نقاب کرنا تھا۔

اسد اللہ علَم کا شہر

میں نے بیرجند کو اس لیے انتخاب کیا کیونکہ یہ امیر اسد اللہ علَم کا شہر تھا۔ وہ اس وقت شاہی دربار کا وزیر تھا جبکہ حقیقت میں وہ اس منصب سے کہیں بڑا تھا۔ اس کا شمار ملک کے مقتدر ترین افراد میں ہوتا تھا۔ حسین فردوست نے اپنی ڈائری کی دوسری جلد میں ایران کے اندر اسد اللہ علم کے مقام اور اثر رسوخ  کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔

علَم خاندان نے یہ مقام انگریزوں کی مخلصانہ خدمت کے بدلے میں پایا تھا۔ خراسان کے علاقے میں افیون پھیلانے میں ان کا بہت بڑا کردار تھا۔ یہ خاندان اغیار کی خدمت اور نوکری میں پہلے دن سے معروف تھا۔

حالیہ سفر سے پہلے میں دو دفعہ بیرجند کا سفر کر چکا تھا اور اس علاقے میں اس شخص ( اسد اللہ علم) کی ہیبت اور دبدبے سے اچھی طرح واقف تھا۔

کسی بھی دینی مناسبت کے حوالے سے خطبے کا آغاز اسد اللہ علم کے نام سے ہوتا تھا۔ ان مجالس میں تمام علماء کی شرکت ضروری ہوتی تھی اور جو شرکت نہ کر سکتا وہ زیر عتاب آتا۔ ایک دفعہ جب میں ماہ محرم الحرام کے دوران بیرجند میں موجود تھا میں نے ایک خطیب کو اسد اللہ علم کی شان میں عربی زبان میں مدحت سرائی کرتے ہوئے سنا۔ ابھی تک مجھے اس کی وہ عبارت یاد ہے جو وہ  سُر کے ساتھ تکرار کر رہا تھا۔ (صاحب السیف والقلم _امیر اسد اللہ علم)

بیرجند کی اکثر بڑی شخصیات، بالواسطہ یا بلاواسطہ اسد اللہ علم کے خدمت گزاروں اور اس کے غلاموں میں سے تھیں۔ یہاں تک کہ بعض نامور لوگوں جیسے جزیرہ کیش کے سابق سربراہ کا شمار بھی اسد اللہ علم کے خدمت گزاروں میں ہوتا تھا۔ شاہ ایران جب بھی استراحت اور آرام کا ارادہ کرتا تو وہ بیرجند کا رخ کرتا اور اسد اللہ علم کے باغات میں سے کسی ایک باغ کو اپنی سکونت کے لیے اختیار کرتا۔ یہ باغات پرانی اور اعلی قسم کی شراب اور ماہر باورچیوں کی وجہ سے معروف تھے۔

سیاسی گریہ

بیر جند میں میرے کچھ دوست تھے جن سے میری آشنائی گذشتہ دو سفروں کے دوران ہوئی تھی۔ میں وہاں 3 محرم الحرام کو پہنچا۔ کسی بھی علاقے میں محرم کی مجالس پڑھنے والے افراد کے لیے 3 محرم الحرام کو پہنچنا تاخیر شمار ہوتی ہے لہٰذا ضروری ہوتا ہے کہ خطیب محرم سے ایک دو دن پہلے پہنچ جائے تاکہ اس کی مجالس کو ترتیب دیا جا سکے۔ اس کے باوجود دوستوں نے میرے لیے متعدد مساجد میں مجلس کا اہتمام کر دیا تھا۔

۷ محرم کا دن آن پہنچا۔ یہ وہی مقررہ دن تھا جس کے متعلق امام خمینی نے خطباء کو ہدایت دے رکھی تھی کہ وہ حکومت کے مجرمانہ اقدامات کو بے نقاب کرنا شروع کریں۔ اتفاق سے اس روز جمعہ بھی تھا اور مجھے جامع مسجد میں ایک بڑی مجلس عزا سے خطاب کرنا تھا لہٰذا میں نے اپنے امور کو مرتب کیا۔ لیکن مجھے مغرب سے چند لمحے پہلے ہی خطاب کا موقع ملا کیونکہ مجلس کے طے شدہ پروگرام کے مطابق ایک دوسرے خطیب نے مجھ سے پہلے خطاب کرنا تھا۔ اس خطیب نے اپنی مجلس کو خلاف معمول اس قدر طولانی کیا کہ مجھے اس سنہری موقع کے ضائع ہونے کی فکر لاحق ہوگئی۔ اس خطیب نے نماز مغرب سے صرف 20 منٹ پہلے اپنا خطاب ختم کیا۔ میں منبر پر گیا اور  اس بڑے اجتماع میں مختصر وقت کے باوجود وہ سب کچھ بیان کر دیا جو میرے مافی الضمیر میں موجود تھا۔ میں نے اپنے خطاب کا آغاز اغیار کی طرف سے مسلط کیے گئے غلط افکار کے بیان سے یوں کیا: ’’دین کی اجتماعی زندگی سے جدائی‘‘ ان غلط افکار کی ایک مثال ہے۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے شہنشائی نظام کی طرف سے اسلام، مسلمانوں اور دینی علماء کے خلاف کی گئی سازشوں کو بے نقاب کیا اور آخر میں فیضیہ میں رونما ہونے والے خونی واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے 12 فروردین([1])  کے واقعات کو کھل کر بیان کر دیا۔ لوگوں زار و قطار رونے لگے اور ولولے سے بھرپور ایک عجیب سی فضا بن ہو گئی۔ اس کے بعد میں نے مروجہ انداز میں امام حسین, کے مصائب کا تذکرہ کیا۔ لوگوں نے سانحہ فیضیہ پر ویسے ہی گریہ کیا جیسے امام حسین, کے مصائب پر کرتے ہیں۔

زندان کا پہلا تجربہ

میں نے اس طرح کے فکری، حماسی اور انقلابی خطابات 9 محرم تک جاری رکھے، یہاں تک کہ مجھے گرفتار کر لیا گیا اور پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔ یہ گرفتاری پولیس سمیت تمام تفتیشی اداروں کے ساتھ میرا پہلا تجربہ تھا۔ اس سے پہلے میں نے پولیس اسٹیشن نہیں دیکھا تھا۔ وہ مجھے ایک جوان پولیس افسر کے کمرے میں لے گئے جس نے مجھے دیکھتے ہی غصے میں سخت اور دھمکی آمیر لہجے کے ساتھ  ڈانٹنا شروع کر دیا۔ لیکن میں نے بڑے اعتماد اور انتہائی پر سکون انداز میں اسے جواب دیتے ہوئے کہا: ’’تم مجھے پھانسی دینے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے، البتہ تم میں اس کی صلاحیت نہیں ہے۔ جو چاہو کر لو، میں ہر سزا بھگتنے کے لیے مکمل آمادہ ہوں کیونکہ میں گھر ہی سے خود کو موت کے لیے تیار کر کے نکلا ہوں۔ خود کو خواہ مخواہ زحمت میں مت ڈالو۔‘‘

اس افسر کو مجھ سے ہرگز ایسے جواب کی توقع نہ تھی۔ وہ میرا جواب سن کر ششدر رہ گیا، اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا، غصہ ٹھنڈا پڑ گیا اور لہجے میں واضح تبدیلی آگئی۔ وہ کہنے لگا: ’’میں تم سے کیا کہوں؟‘‘ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا: ’’تمہارے ماں باپ بیوی بچے نہیں ہیں؟‘‘ میں نے کہا: ’’ماں باپ تو ہیں لیکن بیوی بچے نہیں ہیں، کیونکہ میں فی الحال غیر شادی شدہ ہوں۔‘‘ اس نے دوبارہ تعجب سے کہا: ’’میں تمہارے ساتھ کیا کروں؟!‘‘

میں نے کہا: ’’تمہاری اپنی ذمہ داری ہے اور میری اپنی۔ تم اپنی ذمہ داری نبھاؤ اور میں اپنی۔‘‘

میں اس پولیس اسٹیشن میں عاشورا کی ظہر تک رہا، اس دوران مجھے کچھ علم نہ تھا کہ باہر کیا  ہو رہا ہے؟ بعد ازاں مجھے پتا چلا کہ اس دن پورے ایران میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے اور بیر جند میں بھی میری گرفتاری کے ساتھ ہی حالات کشیدہ ہو گئے تھے جیسا کہ مجھے بعد میں آیت اللہ التہامی نے بتایا۔ آیت اللہ التہامی فقیہ، ادیب، خطیب اور شجاع ہونے کے ساتھ ساتھ بیرجند کی ممتاز شخصیت تھے۔

مجھے آیت اللہ التہامی نے بتایا کہ اس روز لوگ آپ کی رہائی کے لیے تھانے کا محاصرہ کرنے اور پولیس کے ساتھ باقاعدہ ٹکراؤ کے لیے آمادہ تھے اور ماتمی دستے اور  انجمنیں اس حوالے سے میرے ساتھ رابطے میں تھیں۔

یوں لگتا ہے کہ حکومتی مشینری اس بات سے آگاہ ہوگئی تھی اور اس خوف میں مبتلا تھی کہ کہیں بیرجند میں بھی تہران سمیت باقی شہروں کی طرح شدید عوامی رد عمل کا سامنا نہ کرنا پڑے لہٰذا حالات کے تناظر میں بیرجند شہر کی امن کمیٹی کا ایمرجنسی اجلاس بلایا گیا۔ یہ کمیٹی کسی کو بھی شہر بدر کرنے کے اختیارات رکھتی تھی لہٰذا اس کمیٹی نے فوراً میری بیرجند سے مشہد شہر بدری کا حکم صادر کر دیا۔حکومتی عہدیداروں نے عوامی جذبات پر قابو پانے کے لیے مجھے شہر بدری سے پہلے ہی رہا کر دیا، اس شرط کے ساتھ کہ اب آپ منبر پر جا کے خطاب نہیں کر سکتے۔ لوگ میری طرف ہمدردری سے دیکھ رہے تھے اور میں اس عظیم اجتماع کے احساسات اور جذبات کو دیکھ کر خوش تھا۔ لوگ ایک طرف اسد اللہ علم کی ہیبت سے خوفزدہ اور دوسری طرف مبلغان اسلام سے ہمدردری کا اظہار کر رہے تھے۔

جب میں (10 سے 15 محرم الحرام کے دوران ) بیرجند میں تھا تو میری گرفتاری سے شہر بدری تک کے دوران پورے ایران میں حکومت مخالف عوامی تحریک زوروں پر تھی۔ تہران کی مجالس عزا، انقلابی مجالس میں تبدیل ہوگئی تھیں جنہوں نے طاغوت کو خوف زدہ کر دیا تھا۔ عاشور کے دن قم میں امام خمینی کا تاریخی خطاب ( ڈھائی ہزار سالہ) شہنشائی نظام کے خاتمے کا نقطہ آغاز ثابت ہوا اور 12 محرم کو انہیں قید کر لیا گیا۔ (ایرانی کیلنڈر کے مطابق یہ 15خرداد کا دن تھا، جو ایران کی معاصر تاریخ کا مشہور دن ہے۔)

ان ایام میں ایک اہم کرنل جو کہ تفتیشی افسر بھی تھا مشہد سے بیرجند آیا اور مجھ سے ملنے کا مطالبہ کیا۔ مجھے اس کی حالیہ آمد کے مقاصد کا علم نہیں تھا۔

’’ہم تمہیں مشہد بھیجیں گے لیکن وہاں بھی حالات بہت زیادہ کشیدہ ہیں۔ گرفتاریاں اس قدر زیادہ ہوئی ہیں کہ مشہد کی جیلوں میں جگہ کم پڑ گئی ہے۔‘‘ وہ مشہد کے کشیدہ حالات کی تصویر کشی سے مجھے مرعوب کرنا چاہتا تھا۔ پھر اس نے کہا: ’’بہتر ہے جب تک وہاں حالات معمول پر نہیں آتے، تم بیرجند ہی میں  رہو۔‘‘

یوں لگتا تھا اس کرنل کی ذمہ داری فقط مذکورہ پیغام مجھ تک پہچانا تھی لیکن انہوں نے یہ پیغام پہنچانے کے لیے مشہد سے کیوں ایک شخص کو بھیجا؟ حالانکہ وہ یہ پیغام بیرجند کے مقامی فوجیوں کے ذریعے بھی مجھ تک پہنچا سکتے تھے۔ پھر اس قدر اہم عہدے پر فائز افسر؟! گویا حکومتی مشینری میں بے قراری حد سے زیادہ بڑھ چکی تھی اور وہ ہر چیز کو بڑی باریک بینی سے مشاہدہ کر رہی تھی۔

فوجی جیل

۱۵ محرم الحرام کی تاریخ تھی جب تین پولیس اہلکاروں کی نگرانی میں مجھے بیرجند سے مشہد روانہ کیا گیا۔ایک آدھ مقام پر سڑک کے کنارے ہوٹل پر کھانے کے لیے مختصر قیام کے سوا، فوجی جیپ نے بیرجند سے مشہد کا فاصلہ (جو 540 کلو میٹر بنتا ہے) بغیر کسی وقفے کے انتہائی تیزی کے ساتھ طے کیا حالانکہ راستے میں قائن، گناآباد، ترتبت حیدریہ جیسے کئی شہروں سے گزر تھا۔

میری نگرانی کرنے والے پولیس اہلکار خوف اور پریشانی میں مبتلا تھے۔ مشہد پہنچ کر انہوں نے مجھے ایک پولیس اسٹیشن کے حوالے کیا جہاں مجھے ایک سخت رات گزارنا پڑی۔ پولیس اہلکار گھوڑوں پر سوار سڑکوں اور گلیوں میں گشت کر رہے تھے۔ اس رات پولیس اسٹیشن کا صحن گشت کرنے والے اہلکاروں سے بھر چکا تھا جو استراحت کے وقت کو غنیمت سمجھ کر صحن میں سو رہے تھے۔ میرے سونے کے لیے کوئی جگہ نہ بچی تھی لہٰذا وہ لوگ مجھے ایک تنگ سے کمرے میں لے گئے۔ اگلی صبح انہوں نے وہاں سے مجھے ساواک کے مرکز منتقل کر دیا جہاں سے مشہد کی فوجی جیل منتقل کر دیا گیا۔ اس جیل میں قیدیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جن کی اکثریت دینی مدارس‌ اور یونیورسٹیوں کے طلاب اور خطباء پر مشتمل تھی۔ یہ لوگ مختلف مظاہروں میں شریک ہونے اور امام خمینی= کے پیغام کو عام کرنے کے جرم میں قید تھے۔ ان میں سے بعض شخصیات اب تک مجھے یاد ہیں جو بعد میں انقلابی اور سیاسی میدان میں وارد ہوئیں۔ جیسے پرویز پویان جو ساٹھ کی دہائی میں بائیں بازو کی مسلح تحریک کے سربراہوں میں سے تھا اور بعد میں ایک مسلح کاروائی میں قتل ہو گیا۔ انہی قیدیوں میں سے شیخ فاکر بھی تھے جو اس وقت پارلیمنٹ کے اراکین میں سے ہیں۔

 میں جس جیل میں داخل ہوا اس کا کمرہ ان کوٹھڑیوں کی مانند نہیں تھا جن سے بعد میں مَیں مانوس ہوا۔ اس کے باوجود شروع کے چند لمحے مجھے اس میں عجیب تنہائی اور غربت کا احساس ہوا۔ مجھے اپنے ساتھ والے کمروں میں موجود قیدیوں کے متعلق اور ان کی تعداد کے بارے میں بالکل علم نہ تھا۔ باوجود اس کے کہ وہ میرے نزدیک تھے میں خود کو ان سے کوسوں دور محسوس کر رہا تھا۔

ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میرے ساتھ والے کمرے سے ایک آدمی کے شعر گنگنانے کی آواز آئی۔ آواز متاثر کن اور شعر بہت بامعنی تھا جس کی وجہ سے اطمینان کا احساس ہوا اور اپنے موقف کے حوالے سے عزم مزید پختہ ہو گیا۔ وہ شعر جلال الدین رومی کی مثنوی  سے تھا، جس میں وہ کہتے ہیں:

عار نبود شیر را از سلسله ما نداریم از قضای حق گله

زنجیر میں جکڑنا شیر کے لیے عیب نہیں ہے۔ ہمیں خدا کے فیصلے سے کوئی شکوہ نہیں ہے۔

میں شعر پڑھنے والے کو آواز  ہی سے پہچان گیا۔ وہ مشہد کے معروف خطباء میں سے تھا اور میں جان گیا کہ وہ بھی قید ہے۔

جیل کے ہمسائے سے آشنائی اور اس کے اشعار سن کر مجھے ایسا سکون ملا کہ جس نے تنہائی کی وحشت کو ختم کر دیا۔ وہ عمارت جس میں ہم قید تھے کوئی فوجی جیل نہیں تھی جس میں فوجیوں کو قید کیا جاتا ہے بلکہ حقیقت میں  وہ ایک فوجی ڈپو تھا جسے انہوں نے ملک کے کشیدہ حالات کے پیش نظر جیل میں تبدیل کر رکھا تھا۔ ان کشیدہ حالات نے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر عارضی جیلیں بنانے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے کمرے ہرگز رہنے کے قابل نہیں تھے۔ شروع میں مجھے جس کمرے میں لایا گیا اس میں اس قدر رطوبت تھی کہ فرش پر پانی جمع تھا، لہذا کچھ گھنٹوں بعد انہوں نے مجھے وہاں سے دوسرے کمرے میں منتقل کر دیا۔

ہمیں روزانہ صبح مختلف کاموں کے لیے نکلنا ہوتا تھا جن میں سے ایک کام چھاؤنی کے احاطے میں موجود گھاس اور جڑی بوٹیوں کو اکھاڑنا تھا۔ چھاؤنی کا صحن جڑی بوٹیوں سے بھرا ہوا تھا اور میں ان کی بیخ کنی کے وقت یہ اشعار گنگناتا تھا: مرا به کار گُل گماشتند نه همچو استاد فارس به کار گِل۔

مجھے پھولوں کے کام میں لگا دیا۔ اس طرح نہیں جیسے استاد فارس (معروف شاعر سعدی شیرازی) کو مٹی کے کام پر لگا دیا۔

وہ لوگ ہمیں اس فوجی چھاؤنی کے راستوں کو ہموار کرنے پر مجبور کرتے تھے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد میں نے اس چھاؤنی کا دورہ کیا اور وہاں اپنے خطاب میں ان فوجیوں کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ اس چھاؤنی کے اکثر راستوں کو ہموار کرنے میں میری شرکت رہی ہے۔

مولانا! تمہاری داڑھی مونڈ ڈالی؟

میں اس فوجی چھاؤنی میں ایک ہفتے سے زیادہ رہا جس دوران انہوں نے میری داڑھی مونڈ ڈالی۔ یہ پہلی بار تھا کہ میری داڑھی مونڈی گئی۔ دوسری بار ایک دوسری جیل میں مونڈی گئی  جس کا تذکرہ بعد میں کروں گا۔ داڑھی مونڈنے کے متعلق میں پہلے سے سن چکا تھا کہ فوجی چھاؤنیوں میں صابن اور پانی کے بغیر خشک استرے سے داڑھی تراشتے ہیں۔ یہ انتہائی گھٹیا اور تکلیف دہ عمل ہے۔ یہی وجہ تھی کہ  بیرجند سے مشہد کے سفر کے دوران میں نے خود کو ان تلخ لمحات کے لیے آمادہ کر لیا تھا۔ آخر کار داڑھی مونڈنے کا وقت آن پہنچا اور حجام آگیا۔ میں اس کی طرف پریشانی کے عالم میں دیکھ رہا تھا۔ اس نے اپنا بیگ کھولا اور اس میں سے داڑھی تراشنے والی مشین نکالی۔ میں نے سکھ کا سانس لیا اور یہ جان لیا کہ جیسا میں سوچ رہا تھا ویسا نہیں تھا۔ داڑھی منڈوانے کے بعد میں نے تجدید وضو کے لیے وضو خانہ جانے کی اجازت طلب کی۔ انہوں نے مجھے فوجیوں کے ہمراہ جا کر وضو کرنے کی اجازت دے دی۔ راستے میں مجھے ایک جوان افسر نے دیکھا جو اپنے پست رویے کے حوالے سے کافی مشہور تھا۔ اس نے دور سے تمسخر اڑاتے ہوئے کہا: ’’مولانا! تمہاری داڑھی مونڈ دی گئی؟!‘‘ میں نے فوراً جواب دیا: ’’برسوں سے اپنی ٹھوڑی نہیں دیکھی تھی، الحمد للہ آج دیکھ لی۔‘‘ یوں میں نے اسے موقع نہ دیا کہ وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال سکے۔

اے میرے فرزند! مجھے تم پر فخر ہے

ابھی مجھے گرفتار ہوئے تین دن ہی گزرے تھے کہ جیل کی نگرانی پر مامور افسران میں سے ایک میرے پاس آیا اور کہنے لگا: ’’کل آپ کو آزاد کر دیا جائے گا۔‘‘ میں یہ خبر سن کر حیران ہوا اور اپنے آپ سے کہا: شاید میرے کسی دوست نے، حکومت سے مربوط کسی شخص سے میری رہائی کے لیے سفارش کی ہو۔ میں نے اس موضوع کے متعلق سوچتے ہوئے  قرآن سے استخارہ کیا، تو یہ آیت نکلی:

فَلا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً وَ لا إِلى أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ۔([2])

پس وہ لوگ نہ وصیت کر پائیں گے اور نہ ہی اپنے اہل وعیال کی طرف لوٹ پائیں گے۔) اگلا دن آیا، مزید چند دن بھی گزر گئے لیکن مجھے رہائی نہ ملی۔

فوجی جیل میں گزرے وہ ایام کم ہونے کے باوجود انتہائی وحشتناک اور سخت تھے کیونکہ یہ اسیری کا پہلا تجربہ تھا۔ پھر یہ وہی ایام تھے جب ملک بھر میں کشیدگی اور خونی فسادات کا سلسلہ اپنے عروج پر تھا۔ اسلامی تحریک اور شخصیات کو ہر طرف سے خطرات نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اور شاہی نظام اس تحریک کو بے دردی سے کچلنے میں مصروف تھا۔ پھر خدا نے چاہا کہ مشکلات کے بعد آسانیاں پیدا کرے۔ جیل میں ۸ یا 9 دن گزارنے کےبعد مجھ سمیت تمام قیدیوں کی اسیری اپنے اختتام کو پہنچی۔

میں اپنی رہائی کے دن کو بھول نہیں سکتا۔ جون کے آخری ایام تھے (جو سال کے طولانی ترین دن ہوتے ہیں)۔ ایک دن عصر کے وقت جیل کا ایک افسر آیا اور ہمیں رہائی کی خبر دی۔ ہم میں سے ہر ایک نے اپنا مختصر سامان (کپڑے وغیرہ) سمیٹا اور اپنے کمروں میں انتظار کرنے لگے۔ پھر انہوں نے ہمیں کمروں کے درمیان موجود برآمدے میں جمع کیا، جیل کا دروازہ کھولا اور کہا: ’’تم لوگ جا سکتے ہو۔‘‘ خلاف معمول بغیر کسی کاغذائی کاروائی کے ہمیں جیل سے جانے دیا۔ ہم نے ایک دوسرے سے خدا حافظی کی۔ میں نے سڑک کا رخ کیا اور تیز قدموں کے ساتھ گھر کی طرف چل پڑا۔ ہمارا گھر اس فوجی جیل سے زیادہ دور نہیں تھا۔

جب میں گھر کی طرف جا رہا تھا اس وقت مجھ پر ایک خاص کیفیت طاری تھی: شرمساری، شوق اور خوف سے آمیختہ کیفیت۔ شرمساری داڑھی کے نہ ہونے پر اور خوف والدین کی ملامت سے تھا کیونکہ ممکن تھا وہ یہ کہہ دیں کہ تم نے ایسے معاملات میں مداخلت کیوں کی جن کی وجہ سے جیل جانا پڑا؟

جب میں گھر پہنچا تو گھر والوں نے بڑی گرمجوشی سے میرا استقبال کیا۔ سب نے پرجوش انداز میں خوش آمدید کہا اور رہائی پر مبارکباد دی۔ چائے پینے کے لیے بیٹھتے ہی میری والدہ نے جو پہلی بات کی وہ یہ تھی: ’’میں تم جیسے بیٹے پر فخر کرتی ہوں۔ خدا کی راہ میں وہی کرنا چاہیے جو تم نے کیا۔‘‘ میں نے سکھ کا سانس لیا اور خدا کا شکر بجا لایا۔ والدہ کے اس جملے نے مزاحمت کے راستے میں میری سرگرمیوں پر انتہائی مثبت اثر چھوڑا۔


([1]) ایرانی سال کا پہلا مہینہ، یکم اپریل۔

([2]) یس: 50

آٹھواں باب

سرخ قلعہ

تنظیمی سرگرمیاں

بہار 1383؁ھ کے آخری ایام میں میری پہلی گرفتاری ہوئی اور اسی سال موسم سرما میں دوسری بار گرفتار ہو گیا۔

یہاں پر امام خمینی کی تحریک کے ساتھ شروع ہونے والی تنظیمی سرگرمیوں کا تذکرہ کرتا چلوں کیونکہ ان سرگرمیوں کا اس گرفتاری سے تعلق ہے۔

قم میں سال سے ڈیڑھ سال تک کے قیام کے دوران ہم نے انقلابی تحریک کے ابتدائی ایام ہی میں  بعض تنظیموں کی بنیاد رکھی جن میں سے بعض ایک ہی وقت میں اور بعض مختلف اوقات میں سرگرم رہیں۔

  • قم کے علماء کا ایک گروہ جس میں علماء کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ یہ وہی گروہ ہے جو اس وقت قم میں ’’جامعہ مدرسین‘‘ کے نام سے معروف ہے۔
  • گیارہ افراد پر مشتمل ایک اور گروہ جس میں بندہ حقیر، ہاشمی رفسنجانی، میرے بھائی سید محمد، مصباح یزدی (جو اس گروہ کے کاتب تھے) امینی، مشکینی، منتظری، قدوسی، آذری قمی، ربانی شیرازی اور حائری تہرانی شامل تھے۔ یہ اس وقت قم کا سب سے اہم انقلابی گروہ تھا جس نے بلند اہداف کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کر رکھی تھی اور یہ گروہ کئی سال تک متحرک رہا۔
  • ایک تیسرا گروہ بھی تھا جس کے ارکان میں سابقہ گروہ کے کچھ افراد کے علاوہ شیخ ربانی املشی اور شیخ علی اصغر مروارید بھی شامل تھے۔ اس گروہ کا مقصد تبلیغی امور میں عملی فیصلے کرنا اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت افراد کو شہروں پر تقسیم کرنا تھا، تاکہ  قیامِ خرداد کے بعد آنے والے ماہ مبارک رمضان کی تقاریر میں حکومت کو ان مظالم پر رسوا کرسکیں جو اس نے قم کی عوام پر ڈھائے تھے۔ اس تقسیم کے نتیجے میں، میں نے زاہدان جانے کا فیصلہ کیا جہاں مجھے قید کر لیا  گیا اور یہ میری دوسری گرفتاری تھی۔

زاہدن کے راستے کے اسٹیشنز

زاہدان جانے کے فیصلے کے بعد میں نے قرآن مجید سے استخارہ کیا تو یہ آیت نکلی:

لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ وَ قَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ حَتَّى جاءَ الْحَقُّ وَ ظَهَرَ أَمْرُ اللَّهِ وَ هُمْ كارِهُونَ۔([1])

بے شک انہوں نے اس سے پہلے بھی فتنہ کی کوشش کی تھی اور تمہارے امور کو الٹ پلٹ دینا چاہا تھا یہاں تک کہ حق آگیا اور امرِ خدا واضح ہو گیا اگرچہ یہ لوگ اسے ناپسند کررہے تھے۔

صفحے کے آغاز میں جب دیکھا تو اس میں جملہ ’’قَلَّبُوا لَكَ‘‘ تھا۔ آیت سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ زاہدان والی ذمہ داری کافی مشکل ہو گی اگرچہ خدا کی مشیت سے انجام کامیابی ہی ہو گا۔ آخر میں وہی ہوا جس کی مجھے توقع تھی۔

میں زاہدان میں کسی کو نہیں جانتا تھا۔ صرف اتنا معلوم تھا کہ اس علاقے میں شیخ کفعمی نامی ایک معروف عالم دین ہیں۔ میں نے مشہد میں موجود آیت اللہ سید میلانی کو خط لکھا جس میں ان سے درخواست کی کہ وہ میرے بارے میں شیخ کفعمی کو ایک خط لکھ دیں جس میں میرا تعارف کرواتے ہوئے وہاں کے حالات کے پیش نظر تعاون کی سفارش کریں۔

سید میلانی کا شمار ان دنوں ایران کے صف اول کے بزرگ علماء اور مراجع تقلید میں ہوتا تھا۔ وہ مشہد مقدس میں رہائش پذیر تھے، مجھ پر بہت مہربان اور میرے ساتھ خاص محبت رکھتے تھے اور اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ زاہدان میں میری ذمہ داری ایک جہادی کام کی ادائیگی ہے۔

میں نے ایک کٹھن دن میں قم چھوڑا۔ مجھے کچھ ساتھیوں سمیت کسی واقعے کی بنا پر قم سے نکالا گیا تھا جو مجھے ابھی صحیح طرح سے یاد نہیں۔

ہم لوگ مدرسہ خان کے تہہ خانے کے عقبی دروازے سے باہر نکلے۔ میں ایسی بس میں سوار ہوا جس کی تمام سواریاں تبلیغ پر جانے والے دینی طلاب اور علماء پر مشتمل تھیں۔

بس قم سے کرمان کی طرف روانہ ہوئی جو اس کا آخری سٹاپ تھا۔ قم سے کرمان کا فاصلہ 1000 کلو میٹر ہے۔ بس کے اندر تیس سے زیادہ مبلغین تھے جو راستے میں مختلف دیہاتوں اور شہروں میں یکے بعد دیگرے اترتے چلے گئے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے بس میں سوار افراد میں شیخ جعفر سبحانی بھی تھے۔ بس جب اصفہان پہنچی تو رات ہو چکی تھی۔ چونکہ ڈرائیور اور سواریوں کے لیے استراحت ضروری تھی لہٰذا ہم نے تمام افراد کے لیے ایک چھوٹا سا گھر کرایے پر لیا، جہاں ایک خوبصورت رات گزاری۔ اس رات ہمارے درمیان  تبلیغی امور، مشکلات اور اہداف جیسے موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ اس طرح کی نشستیں ہماری پسندیدہ ترین گھڑیوں میں سے تھیں۔

جب ہم یزد پہنچے تو وہاں اچانک ہماری ملاقات شیخ صدوقی سے  ہو گئی جو اس وقت یزد کے معروف علماء میں سے تھے اور بعد میں انقلاب اسلامی کی ایک اہم شخصیت قرار پائے۔ امام خمینی کو ان سے شدید محبت تھی۔ آپ مسجد کے محراب میں منافقین کے ایک گروہ کے ہاتھوں اس وقت شہید ہوئے جب آپ کی عمر تقریبا 80 سال تھی۔ یہ 1983؁ء کا واقعہ ہے۔ پھر ہم کرمان پہنچے جہاں بس سواریوں سے خالی ہو گئی۔ مجھے اپنا سفرجاری رکھتے ہوئے دوسری بس کے ذریعے کرمان سے زاہدان جانا تھا جو 500 کلو میٹر سے زائد کی مسافت تھی۔ کرمان میں میرے کچھ صمیمی دوست تھے جنہوں نے مجھے وہاں چند دن رکنے پر مجبور کیا۔ ان میں سے ایک شیخ جواد حجتی کرمانی تھے جو ہمارے ساتھ علامہ طباطبائی کے پاس ابن سینا کی کتاب الشفا پڑھتے تھے اور دوسرے سید کمال شیرازی۔ دونوں نے قم کے پر آشوب حالات کے بعد اس شہر کو چھوڑا تھا۔ شیخ جواد کا آبائی وطن کرمان ہی تھا جبکہ سید کمال نے میرے پہنچنے سے دو ماہ قبل وہاں سکونت اختیار کی اور وہیں شادی کی۔ کرمان میں علمی اور جہادی دوستوں کے ہاں تین دن مقیم رہا جو میری زندگی کے خوبصورت ترین ایام میں سے تھے۔ مجھے تیسرے دن اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے کرمان سے زاہدان کے لیے نکلنا تھا اور وقت کافی گزر چکا تھا۔

انسان کے لیے ایسی صحبت کو چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے جس سے وہ کئی دنوں تک مانوس رہ چکا ہو اور جسمانی سکون اور روحانی لذت پائی ہو۔ خاص طور پر (میرے لیے بہت مشکل تھا) میں کرمان سے اکیلے ایک ایسی جگہ جا رہا تھا جہاں پہلے سے میری کوئی آشنائی نہیں تھی۔ ایک ایسی نامعلوم منزل  جس کے انجام سےمیں ناواقف تھا۔ دوستوں سے جدائی کے وقت میرا دل غم سے نڈھال تھا۔ آج بھی جب ان غمگین لمحات کو یاد کرتا ہوں تو پھر سے افسردگی چھا جاتی ہے۔

رات کے وقت بس زاہدان کی طرف روانہ ہوئی اور فجر کے وقت ہم زاہدان پہنچ گئے۔ میں نے ایک راہگیر سے شہر کی جامع مسجد کا پتا پوچھا۔ اس نے مجھے شیخ کفعمی کی مسجد کا پتا بتایا تو میں اس طرف چل پڑا۔

اس مسجد کے صحن میں کچھ کمرے تھے جنہیں شیخ نے باہر سے آنے والے مبلغین کی رہائش کے لئے بنا رکھا تھا۔ میں نے ایک کمرے میں اپنا بیگ رکھا اور شیخ کفعمی کے گھر کا پوچھ کر ان کی طرف چل پڑا۔ دروازہ کھٹکھٹایا اور جب دروازہ کھلا تو پہلی دفعہ ایک پچاس سالہ بارعب، بلند قد، بھرے جسم، لمبی داڑھی، سفید عمامے اور چوڑی پیشانی والے شخص کو اپنے سامنے پایا۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور خوش ہوئے اور خوبصورت جملوں کے ساتھ مجھے خوش آمدید کہا۔ بعد ازاں علم ہوا کہ وہ زاہدان کی باہیبت اور اہم شخصیت ہیں۔

مجھے کہنے لگے: ’’سید میلانی نے مجھے خط لکھا ہے، جس میں انہوں آپ کے بارے میں سفارش کی ہے اور اس خط کے ساتھ  ایک مخصوص خط آپ کے نام بھی ہے۔‘‘ سید میلانی کا میرے نام مخصوص خط ایک خاص معنی رکھتا تھا۔ یہ اس بات کی نشانی تھی کہ سید مجھے اور میری ذمہ داریوں کو ایک خاص اہمیت دیتے ہیں اور اس خط کے ذریعے وہ شیخ کفعمی پر اس امر کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔

سید میلانی ایک عالم، عارف اور شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی سماجی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک عظیم انسان تھے۔ شیخ کفعمی بھی معاشرتی اخلاقیات کے حامل تھے۔ آپ زاہدان کے دینی امور چلانے کا اچھا خاصہ تجربہ رکھتے تھے۔

میں نے شیخ کفعمی سے سید میلانی کا خط وصول کیا جس میں انہوں نے اپنی خوش خطی میں یہ جملہ لکھا تھا: ’’میں آپ کے لیے زاہدان میں نیک تمناؤں کا خواہش مند ہوں۔‘‘

درباری مولوی

شیخ کفعمی نے دیر سے پہنچنے کا شکوہ کیا کیونکہ معمول کے مطابق مبلغ کوماہِ رمضان سے پہلے پہنچنا ہوتا ہے تاکہ پہلے ہی اس کا پروگرام ترتیب دیا جا سکے جبکہ میں ماہِ رمضان کی پہلی تاریخ کو پہنچا تھا۔ انہوں نے کہا: ’’مسجد دن رات آپ کے اختیار میں ہے لیکن مشہد سے ایک مولانا بھی آئے ہیں، وہ بھی تقریر کیا کریں گے۔‘‘

میں اس مولانا کو جانتا تھا۔ وہ درباری ملا تھا۔ اس نے شاہ کے طرف سے پیش کردہ ۶ نکات کی حمایت کی تھی اور ان نکات کے مخالفین پر شدید اعتراض کرتا تھا۔

یہ بات سن کر میں چونک گیا اور شیخ کفعمی سے کہا: ’’آپ کو چاہیے کہ اسے اہمیت نہ دیں اور اسے تقریر کرنے سے روکیں۔‘‘ ہم انہی باتوں میں مصروف تھے کہ وہ مولانا داخل ہوا۔ شیخ کفعمی کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوئے اور اس پر پریشانی کے آثار نظر آنے لگے۔ لیکن میں نے اس کی پروا نہیں کی اور میرے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ شیخ کفعمی بعد میں میری اس بے اعتنائی کو یاد کرتے اور اس کی تعریف کرتے تھے۔

یہ مولانا ایک چاپلوس شخص تھا۔ جونہی داخل ہوا تو ظاہری نرم خوئی اور مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے سلام کیا۔ اس کی حرکتیں اس کی چاپلوسی کا پتا دے رہی تھیں۔ میں نے سرد مہری کے ساتھ اس کو جواب دیا۔ میں اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور نہ ہی اس کی طرف دیکھا۔ میں نے فوراً موضوعِ گفتگو کو اپنی مرضی کے مطابق موڑ دیا اور محفل پر غالب آگیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ میں اس وقت نوجوان تھا اور یہ مولانا پرائمری سکول میں ہمیں ترانے سکھاتا تھا۔

شیخ کفعمی نے بعد میں مجھے بتایا کہ وہ اس شخص کو بلانے پر مجبور تھے کیونکہ زاہدان میں حکومت سے مربوط کچھ لوگ اس کے چاہنے والوں میں سے ہیں۔ ان لوگوں نے شیخ کفعمی پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس مولانا کو اپنی مسجد میں دعوت دیں۔ شیخ کفعمی کی مسجد اس شہر میں واحد شیعہ مسجد تھی اور شیعہ وہاں اقلیت میں تھے۔

ام ہاشم اور ام قاسم

شیخ کفعمی کا اصرار تھا کہ میں ان کے گھر قیام کروں۔ مجھے بعد میں علم ہوا کہ ان کی دو بیویاں ہیں جن میں سے ہر ایک الگ گھر میں رہتی ہے۔ دونوں گھر ایک جیسے اور ساتھ ساتھ تھے۔ وہ ان دونوں کے ساتھ مکمل طور پر عدالت سے پیش آتے تھے۔ ان کا دونوں گھروں میں منظم انداز سے آنا جانا تھا۔ وہ پہلے گھر میں ایک مقررہ وقت پر داخل ہوتے، اور اگلے دن اسی وقت دوسرے گھر میں جاتے تھے۔ دونوں گھروں پر مکمل برابری کے ساتھ خرچ کرتے تھے۔ خدا نے بھی چاہا کہ ان کے ساتھ ایسا معاملہ کرے جیسا وہ دونوں گھروں کے ساتھ کرتے ہیں۔ خدا نے انہیں پہلی زوجہ سے ۴ بیٹے اور ۳ بیٹیاں عطا کیں اور دوسری زوجہ سے بھی ۴ بیٹے اور ۳ بیٹیاں۔ نہ کم نہ زیادہ۔ شیخ کفعمی نے ہر گھر کا نام اس زوجہ کے بڑے بیٹے کے نام سے رکھا تھا۔ ایک گھر کا نام ام ہاشم کا گھر اور دوسرے کا نام ام قاسم کا گھر تھا۔  ہم پہلے گھر والوں کو ہاشم کا خاندان اور دوسرے گھر والوں کو قاسم کا خاندان کہتے تھے۔ ان کے داماد بھی ان دو گھروں کی نسبت سے پہچانے جاتے تھے۔ مثلا سید عبادی جو اس وقت مشہد کے کامیاب اور ممتاز امام جمعہ ہیں، وہ ام قاسم کے داماد ہیں اور شہید مزاری ام ہاشم کے داماد تھے جو بلوچستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔

حکومتی مبلغین

  میں نے شیخ کفعمی کے گھر میں قیام کیا اور یہ طے پایا کہ ایک دن میرا خطاب ہوگا اور دوسرے دن اس مولانا کا۔ مجھے یہ تقسیم بالکل اچھی نہیں لگی تھی لیکن اسے قبول کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ پھر اس مولانا نے اپنی تقریر کا وقت بڑھانے کا مطالبہ کیا کیونکہ وہ خود کو ایک ماہر خطیب سمجھتا تھا۔ اس نے کہا: ’’سید کی تقریر کے بعد بھی مجھے مختصر خطاب کا موقع دیا جائے۔‘‘ اس کی درخواست قبول کر لی گئی۔ یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا یہاں تک کہ ۱۵ رمضان کی ظہر کا وقت آن پہنچا۔ جمعے کا دن تھا، اور مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔ نماز کے بعد میں منبر پر گیا اور اپنی تقریر میں دینی علماء کو موضوع گفتگو قرار دیا۔ میں نے کہا: ’’عالم دین کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ عالم جو اپنی ذمہ داری ادا کرتا ہے اور دوسرا وہ جو اپنی ذمہ داری سے بھاگتا ہے۔‘‘ اس مجلس میں، میں اس اصلی موضوع کے لیے تمہید باندھ رہا تھا جس کی خاطر میں یہاں آیا تھا اور جسے ۲۱ رمضان کو بیان کرنا تھا۔ ۲۱ رمضان کو مساجد میں لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے کیونکہ یہ امیر المؤمنین, کی شہادت اور عام تعطیل کا دن ہے۔ تمام لوگ اس دن مساجد کا رخ کرتے ہیں۔

میں نے اپنی تقریر میں اپنی ذمہ داری نبھانے والے علماء کی تعریف کی اور ظالم و جابر حکومت کی خوشامد کرنے اور ان کے لیے کام کرنے والے علماء کے خلاف کھل کر بات کی۔

میں ایسے بات کر رہا تھا گویا حکومتی مبلغین میں سے کوئی فرضی شخص میرے سامنے بیٹھا ہے اور میں اس سے مخاطب ہوں۔ میں اس فرضی شخص کے ساتھ سخت لب و لہجے میں مخاطب ہوا اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خیانت اور ظالموں کی غلامی پر اس کی ملامت کی۔

وہ مولانا وہیں بیٹھا تھا اور شیخ کفعمی محراب میں اپنے مصلے پر تھے۔ میں نے انتہائی جرات سے خطاب کیا۔ وہ تقریر میری بہترین تقریروں میں سے ایک تھی۔ پھر میں نے سید الشہداء, کے مصائب پڑھے اور منبر سے اتر آیا۔

اس سے پہلے لوگوں کا معمول تھا کہ وہ میری مجلس کے بعد اس مولانا کی تقریر سنتے تھے لیکن اس دفعہ وہ اپنی جگہوں سے کھڑے ہوگئے اور مجھے داد دیتے ہوئے اور تائید کرتے ہوئے میری طرف بڑھے۔  میں وہاں سے نکلا اور لوگ بھی میرے ساتھ نکل آئے۔ میں معمول کے مطابق آرام کرنے کے لیے مسجد کے ایک کمرے کی طرف چلا گیا۔

مسجد سے نکلنے سے پہلے میں نے اس مولانا کو دیکھا۔ وہ منبر کی پہلی سیڑھی پر کھڑا لوگوں سے صرف دس منٹ کے لیے رکنے کی درخواست کر رہا تھا۔ وہ مسلسل درخواست کرتا رہا لیکن لوگوں نے اسے اہمیت نہ دی اور مسجد سے باہر نکل آئے۔ مسجد میں تقریبا پچاس لوگ ہی بچے تھے۔

تقریبا پندرہ منٹ بعد جب میں اپنے کمرے میں بیٹھا تھا میں نے ایک شخص کو چیختے چلاتے اور لعن طعن کرتے سنا۔ میں اپنی جگہ سے اٹھا اور کھڑکی سےباہر دیکھا۔ شیخ کفعمی شیر کی طرح دھاڑ رہے تھے اور لوگ ان کے پیچھے تھے۔ میں یہ منظر دیکھ کر حیران ہوا۔ میں اسی طرف دیکھتا رہا یہاں تک کہ چند لمحوں بعد وہ مولانا بھاری قدموں کے ساتھ مسجد سے نکلا۔ اس کے چہرے پر شکست اور مایوسی عیاں تھی۔

کچھ دیر بعد میرے پاس ایک ترکھان آیا جو اس مولانا کے دوستوں میں سے تھا۔ اس نے بتایا کہ مولانا نے کوئی ایسی بات کی جس نے شیخ کفعمی کو غضبناک کر دیا۔ شیخ کفعمی اپنی جگہ سے اٹھے اور لوگوں سے کہا: ’’اس شخص کی بات سننا حرام ہے۔‘‘ شیخ کفعمی یہ کہہ کر مسجد سے نکلے اور لوگ بھی ان کے ساتھ نکل پڑے۔

بعد میں مجھے پتا چلا کہ اس بد اخلاق انسان نے میرے بعد تقریر کی اور جن علماء کی میں نے تعریف کی تھی انہیں برا بھلا کہا اور لعن طعن کی۔ شیخ کفعمی نے اپنی شرعی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اس کے موقف کی شدید مخالفت کی اور جو کرنا چاہیے تھا وہی کیا۔ مجھے یقین ہے کہ اس واقعے کے بعد زاہدان میں اس مولانا کا رہا سہا مقام بھی ختم ہوگیا۔

مجھے کس چیز سے ڈرا رہے ہو؟

میں اس دن مغرب کے وقت ایک مومن کے گھر افطاری پر مدعو تھا۔ افطار کے بعد میں رات کی مجلس کی تیاری کی خاطر اپنے کمرے میں آیا۔ میں نے دروازے کے پیچھے سے کسی کو مجھے پکارتے سنا۔ میں نے دروازہ کھولا تو صاف ستھرے لباس میں ملبوس ایک جوان کو پایا۔

اس نے مجھے سلام کیا اور کہا: ’’تم فلاں ہو؟‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

’’پولیس کے سربراہ نے تمہیں طلب کیا ہے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’کوئی خاص بات نہیں۔ بس  تم سے کچھ امور سے متعلق بات کرنا چاہتا ہے۔‘‘

’’مجھے اس طلب کیے جانے کا مطلب معلوم ہے۔ یہ کام تم لوگوں کی مصلحت میں نہیں۔ میں آج مجلس پڑھنے کے لیے مدعو ہوں۔ جب لوگوں کو پتا چلے گا کہ مجھے گرفتار کر لیا گیا ہے تو اس کا نتیجہ برا ہوگا، خصوصاًآج مسجد میں رونما ہونے والے واقعے کے بعد۔‘‘

لیکن اس جوان نے کہا کہ پولیس کے سربراہ سے ملاقات ضروری ہے اور مجھے اختیار نہیں (کہ آپ کو نہ لے جاؤں۔) میں مسجد سے نکلا تو دیکھا کہ پولیس اور فوج نے مسجد کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ میں جان گیا کہ ارباب اختیار سخت موقف اختیار کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ مجھے مجبوراً اس جوان کے ساتھ پولیس کے سربراہ سے ملنے جانا پڑا۔ میں نے ایک قوی جسامت والے پولیس افسر کو دیکھا جو ایک وسیع اور شاندار ہال کے آخر میں بیٹھا تھا۔ یہ افسر ویسا نہیں تھا جیسا میں نے بیرجند میں دیکھا تھا۔ وہ ایک بڑی میز کے پیچھے براجمان تھا۔

جب میں اس کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ کچھ لکھنے میں مشغول تھا۔ یہ ایک بناوٹی مشغولیت تھی جو عموماً آنے والے سے بے اعتنائی کا اظہار ہوتی ہے۔ وہ میرے اندر کمزوری کا احساس ایجاد کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اسے سلام کیا۔ اس نے سلام کا جواب دیا اور نہ ہی اپنا سر اٹھایا۔ میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دوں لہٰذا میں اس کی اجازت کے بغیر کمرے میں موجود سب سے شاندار صوفے پر بیٹھ گیا۔ پھر  مکمل بے اعتنائی کو ظاہر کرنے کے لیے اپنے آپ کو کچھ امور میں مصروف کر لیا۔ افسر جان گیا کہ وہ مجھے نفسیاتی شکست دینے میں ناکام ہوگیا ہے۔

اس نے اپنا سر اٹھایا اور کہا: ’’تم فلاں ہو؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’تم لوگوں کو کیوں بھڑکاتے ہو؟‘‘

’’میں نہیں، بلکہ  تم لوگوں کو بھڑکاتے ہو۔‘‘

وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا، گویا اسے اس جواب کی توقع نہ تھی۔پوچھنے لگا: ’’کیسے؟‘‘

میں نےجواب دیا: ’’میں لوگوں کے لیے دینی مسائل اور شرعی احکام بیان کرتا ہوں۔ اس میں کیا بھڑکانا ہے؟ لیکن تم لوگ اپنے اس طرح کے کاموں سے لوگوں کو بھڑکاتے ہو۔ ‘‘

اس کے چہرے پر اطمینان کے آثار نمودار ہوئے کہنے لگا: ’’ہم لوگوں کو بھڑکانا نہیں چاہتے۔ تم نے اپنی تقریر میں شاہ کی اصلاحات پر تنقید کی ہے!‘‘

میں نے کہا: ’’آپ لوگوں کو جھوٹی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ‘‘

اس شخص کا لہجہ بدل گیا۔

اس نے اپنی گفتگو کے دوران کہا: ’’ہم بھی تمہاری طرح مسلمان ہیں اور سید خمینی سے محبت کرتے ہیں!!‘‘

اس میں شک نہیں کہ وہ اپنی بات میں جھوٹا تھا اور مجھے دھوکہ دینا چاہتا تھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا: خدایا تیرا شکر!  تو نے اس مغرور فوجی کو مجبور کر دیا کہ ایک جوان اور فقیر طالب علم کے سامنے چاپلوسی کرے جو اس کی قید میں ہے۔

اس کی گفتگو میں نرمی آگئی اور وہ مجھے نصیحت کرتے ہوئے کہنے لگا: ’’ابھی تمہاری بہت عمر پڑی ہے۔ تم اپنی جوانی کے ابتدا میں ہو۔ کیوں اپنے آپ کو مشکلات میں ڈال رہے ہو اور اپنے لیے پریشانیاں پیدا کر رہے ہو۔‘‘ اس طرح کی نصیحتیں عام طور پر مخاطب کو نرم کر دیتی ہیں اور جب وہ نرم پڑ جاتا ہے تو اس سے سختی سے برتاؤ کرتے ہیں اور پھر جو چاہتے ہیں اس سے لکھوا لیتے ہیں۔ اسی لیے ایسی نصیحتوں کا جواب  پر اعتماد انداز میں دینا چاہیے جو نصیحت کرنے والے کی امیدوں پر پانی پھیر دے۔

میں نے اس سے کہا: ’’مجھے پہلے بھی بیرجند میں گرفتار کیا گیا تھا اور پولیس افسر کے پاس لے گئے تھے۔ میں نے وہاں جو بات کہی تھی وہی تمہارے لیے دہرا رہا ہوں۔ میں نے اس سے کہا تھا: تم اپنے کام پر مامور ہو اور میں اپنے کام پر۔ مجھے اپنا دینی پیغام پہنچانا ہے اور تم وہ نافذ کر سکتے ہو جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ تم زیادہ سے زیادہ مجھے قتل کر سکتے ہو اور میں نے خود کو شہادت کے لیے آمادہ کر رکھا ہے۔ پھر تم مجھے کس چیز سے ڈراتے ہو؟‘‘

اس طرح کی بات کا اثر دنیا پرستوں پر بجلی گرنے کی مانند ہوتا ہے۔ یہ لوگ موت کے نام سے ڈرتے ہیں۔ یہ افسر جو اپنی جوانی کا عرصہ گزار چکا تھا، موت کے نام سے بھی ڈرتا تھا اور اپنے سامنے ایک ایسے جوان کو، جو اپنی عمر کے آغاز میں تھا، یہ کہتے ہوئے دیکھ رہا تھا کہ میں نے خود کو موت کے لیے آمادہ کر رکھا ہے اور میں موت سے نہیں ڈرتا۔

اس نے اپنا سر پھیر لیا۔ وہ مبہوت اور شکست خوردہ دکھائی دیا۔ پھر اس نے اپنے اطمینان کو بحال کیا اور دوبارہ مجھ سے نرمی سے کہنے لگا: ’’ان شا اللہ تمہارے لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ تمہیں صرف یہ لکھ کر دینا ہوگا کہ اس طرح کے کام دوبارہ انجام نہیں دو گے۔ تم ابھی ساتھ والے کمرے میں بعض سوالوں کے جواب دینے کے لیے چلے جاؤ۔‘‘

ساواک کے ساتھ میرا پہلا تجربہ

ساتھ والے کمرے میں تفتیشی افسر نے مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ تم نے منبر پر کیا کہا؟ تم نےایسا کیوں کہا؟ اس سے تمہاری کیا مراد تھی؟ تمام سوالات اس بات پر دلیل تھے کہ میں نے جو کچھ منبر پر بیان کیا تھا وہ ان تک پہنچ چکا تھا۔ جب تفتیش ختم ہوگئی تو وہ لوگ مجھے ایک اور جگہ پر لے گئے۔

اس جگہ میں نے صرف کرخت چہرے والوں کو پایا۔ مجھے علم ہوگیا کہ یہ جگہ ساواک کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ زاہدان میں ساواک کا ہیڈ اس وقت ایک مشہور بدمعاش تھا۔ وہ پہلے مشہد میں اس منصب پر فائز تھا پھر زاہدان منتقل ہو گیا اور پھر وہاں سے کرمان، جہاں وہ سنگین جرائم کا مرتکب ہوا اور انقلاب اسلامی کے بعد وہاں سے فرار ہوگیا۔

مجھے ایک کمرے میں لے جایا گیا۔ وہاں مجھے کچھ جوانوں نے گھیر لیا۔ انہوں نے اچھی طرح میری تلاشی لی۔ میرا بٹوہ کھولا، اس میں سے کچھ تصویریں نکالیں اور جن کی تصویریں تھیں ان کے متعلق پوچھ گچھ کی۔ انہوں نے توہین اور تمسخر کو نفسیاتی حربے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی۔ الحمد للہ، میں نہ جھکا، نہ ان کے سامنے کمزور پڑا اور نہ شکست تسلیم کی۔ البتہ بہت زیادہ درد اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔

ایک گھنٹے بعد مجھے باہر نکالا، گاڑی میں سوار کیا اور شہر سے باہر لے گئے۔ موسم بہت سرد تھا اور فضا تاریک۔ یہ برس ان برسوں میں سے ایک تھا جب اس علاقے میں شدید سردی پڑی تھی، یہاں تک کہ زاہدان میں برفباری ہوئی تھی، جہاں عام طور برفباری نہیں ہوتی۔

میں جان گیا کہ جس جگہ مجھے لائے ہیں وہ فوجی چھاؤنی ہے۔ مجھے حوالات میں ڈالا گیا۔ میرے وہاں لائے جانے پر فوجی حیران ہوگئے۔ وہ ایک دبلے سے جوان کو دیکھ رہے تھے، جو کالے عمامے کے ساتھ عینک پہنے دینی علماء کے لباس میں ملبوس تھا۔ یہ تمام تر خصوصیات عام طور پر ہمدردی کے جذبات کو ابھارتی ہیں۔ سپاہی میرے گرد جمع ہوگئے اور مجھے احترام سے سلام کیا۔  جیل کے انچارج نے جب یہ سب کچھ ہوتے دیکھا تو پریشان ہو گیا اور جلدی سے مجھے الگ جگہ لے گیا لیکن وہ خود بھی میرے ساتھ مہربانی سے پیش آیا جو اس کے متاثر ہونے کی دلیل تھی۔ وہ مجھے ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گیا جس میں ایک بند ہیٹر پڑا ہوا تھا۔ وہ ایک دفعہ گیا پھر واپس آیا اور  ہیٹر چلا کر مجھ سے نرمی سے پوچھا: ’’کون ہو تم؟‘‘ اور مجھ سے گپ شپ کرنے لگا پھر کھانا لایا اور چلا گیا۔ پھر ایک مرتبہ دوبارہ آیا اور کمرے میں بیٹھ گیا۔ اس کے ساتھ ایک اور شخص بھی تھا۔ ہمارے درمیان دلچسپ باتیں شروع ہوگئیں۔ اس نے مجھے بتایا: ’’جس نے تمہیں یہاں تک پہنچایا ہے وہ تمہی میں سے ہے!‘‘ میں اس کا مطلب سمجھ گیا۔ جیسے ہی صبح ہوئی، اس نے خدا حافظی کی اور چلا گیا۔

یہاں گفتگو کے درمیان میں ایک بات کہتا چلوں۔ میرا حلیہ تمام تر گرفتاریوں میں توجہ کا باعث بنتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ پہلی گرفتاری کے موقع پر جب میں چھاؤنی میں داخل ہوا اور ضروری کاغذی کاروائی کے لیے حوالات کے دروازے کے سامنے کھڑا تھا، اسی اثناء میں سامنے کی سیڑھیوں سے جنرل مین باشیان اترا جو اس وقت کے مشہور ترین جنرلوں میں سے تھا۔ دور سے اس کی نگاہ مجھ پر پڑی تو مجھے دیکھتے ہوئے قریب آنے لگا۔ جب نزدیک پہنچا تو مجھ سے پوچھا: ’’کون ہو تم؟ تمہیں یہاں کیوں لائے ہیں؟‘‘ میں نے جواب دیا: ’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ میں نے ملک کی مصلحت کے خلاف کوئی بات کی ہے۔‘‘ اس نے میری فائل منگوائی، ورق گردانی شروع کی اور ساتھ ساتھ حیرت اور افسوس کے ساتھ سر ہلانے لگا۔ وہ بار بار کہہ رہا تھا: ’’تم نے ایسا کیوں کیا؟ تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ پھر وہ چلا گیا۔

پہلا ہوائی سفر

 بہرحال، مجھے صبح سویرے ساواک کے ہیڈکوارٹر منتقل کر دیا گیا، جہاں میں عصر کے وقت تک رہا۔ اس اثناء میں مجھ سے گھنٹوں تفتیش کی گئی۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ تفتیشی افسر میرے بچپن کا دوست تھا۔ میں اس کے اور اس کے بھائیوں کے ساتھ بچپن میں کھیلا کرتا تھا۔ اس کے والد اور اس کے خاندان کے بعض افراد، علماء اور باعظمت سادات میں سے تھے۔  پھر وہ مجھے عصر کے وقت ہوائی اڈے پر لے آئے۔ مجھے دو لوگوں کی ہمراہی میں ہوائی جہاز میں بٹھا دیا۔ ہوائی جہاز نے ایک ایسی منزل کی طرف پرواز شروع کی، جس کا مجھے علم نہیں تھا۔ بعد میں، میں سمجھ گیا کہ ہم تہران جا رہے ہیں۔

یہ میرا پہلا ہوائی سفر تھا۔ اسی مناسبت سے یہ بھی بتاتا چلوں کہ انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے بعد کسی کام کے سلسلے میں میرا پہلا ہوائی سفر زاہدان کی طرف تھا۔ امام خمینی= نے مجھے ایک حکم نامے کے ساتھ بلوچستان بھیجا تھا۔([2])  شیخ راشد بھی میرے ساتھ تھے، جو 1978؁ء میں میرے ساتھ بلوچستان کے ایک شہر ’’ایرانشہر‘‘ میں شہر بدر تھے۔ پس میں ہوائی جہاز کے ذریعے تہران سے کرمان گیا۔ نظام جمہوری اسلامی ایران پر ریفرنڈم کے دن (31 مارچ 1979؁ء) میں کرمان پہنچا اور پھر وہاں سے زاہدان چلا گیا۔ ہوائی اڈے پر علاقے کے چند علماء اور مشائخ میرے استقبال کے لیے جمع تھے۔ میں نے وہاں پر انہیں بتایا: ’’یہ وہی ہوائی اڈہ ہے جہاں سے میں اپنی زندگی کے پہلے ہوائی سفر پر روانہ ہوا تھا اور اب انقلاب کی کامیابی کے بعد اسی ہوائی اڈے پر اپنے پہلے ہوائی  سفر میں پہنچا ہوں۔‘‘

غزل کی کشتی

جب میں اس ہوائی جہاز پر سوار تھا جس میں مجھے گرفتار کر کے تہران لے جایا جا رہا تھا، تو میں مختلف امور کے بارے سوچ رہا تھا۔ اس تحریک کے مستقبل کے بارے میں، اس کے بانی امام خمینی کے بارے میں، اپنے والد کے بارے میں (ان کی بینائی سیاہ موتیا کے باعث ختم ہونے کو تھی اور انہیں تہران میں علاج جاری رکھنے کے لیے میری ضرورت تھی۔) اور اپنے مستقبل کے بارے میں جو میرا انتظار کر رہا تھا۔ پھر میں نے ان امور کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا جن کا انجام صرف خدا جانتا تھا۔  میں نے میگزین اٹھایا اور اس کی ورق گردانی شروع کر دی۔ میری نظر ایک غزل پر پڑی جو مجھے پسند آئی۔ میری عادت یہ تھی کہ اچھے اشعار کو ایک خاص ڈائری میں لکھ لیتا تھا۔ اس ڈائری کا نام میں نے ’’غزل کی کشتی‘‘ رکھا ہوا تھا۔ میں نے دیکھا کہ میرے ساتھ بیٹھے سپاہی جھانک کر مجھے دیکھ رہے ہیں کہ میں کیا لکھ رہا ہوں؟ وہ دیکھتے رہے اور میں ان کے فضول کام کی طرف توجہ کیے بغیر لکھتا رہا۔ شعر لکھنے کے بعد میں نے نیچے یہ جملہ لکھا: ’’میں نے یہ اشعار زاہدان سے نامعلوم منزل کی طرف جاتے ہوئے جہاز میں لکھے اور دو لوگ میرے ہمراہ تھے جو بڑے خوش اخلاق تھے۔‘‘ اس جملے نے ان دونوں پر بہت اچھا اثر چھوڑا۔

جہاز رات کے وقت تہران کی فضا میں پہنچا۔ شہر کی روشنیاں منظر کو دلکش بنا رہی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ دونوں سپاہی شہر تہران کا منظر دیکھ کر لطف اندوز ہو رہے ہیں اور دار الحکومت پہنچنے پر مسرور ہیں، خاص طور پر ان میں سے ایک کچھ زیادہ خوش دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے اس سے کہا: ’’میں اپنی قدر وقیمت جانتا ہوں۔ تم میری وجہ سے جہاز سے تہران آئے ہو۔ اگر میری جگہ کوئی دوسرا قیدی ہوتا تو تمہیں گاڑی کے ساتھ خاش (صوبہ سیستان و بلوچستان کا ایک شہر جو تفتان کی پہاڑیوں کے ساتھ واقع ہے) بھیجا جاتا اور تم اپنی رات صحرا اور بیابانوں میں گزارتے۔ جبکہ اس وقت تم تہران میں خوبصورت رات گزار رہے ہو۔‘‘ وہ کھل کر ہنسا جو اس کی گہری خوشی اور مسرت کو عیاں کر رہا تھا۔

’’سلطنت آباد‘‘ کی چھاؤنی

ہم جہاز کی سیڑھیوں سے اترے۔ ساواک کی گاڑی سیڑھیوں کے پاس انتظار میں کھڑی تھی۔ گاڑی ہمیں لے کر تہران کی سڑکوں پر دوڑنے لگی۔ میں گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا جہاں سے باہر دیکھنا دشوار تھا۔ لیکن جن سڑکوں سے ہم گزر رہے تھے ان میں سے بعض کو میں پہچان گیا۔ رات بہت سرد تھی اور برفباری ہو رہی تھی۔ ہم ایسی جگہ پہنچے جو عمارتوں سے خالی تھی۔ میں کچھ پریشان ہوا کیونکہ مجھے لگا وہ لوگ اس بیابان میں مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ دیر بعد گاڑی رکی۔ میں نے ’’رک جاؤ‘‘ کی آواز سنی۔ میں سمجھ گیا کہ ہم فوجی چھاؤنی پہنچ چکے ہیں۔ گاڑی میں سے ایک شخص نیچے اترا۔ اس نے نگہبان کو ایک کاغذ پکڑایا۔ نگہبان نے دروازہ کھولا اور ہم اندر داخل ہو گئے۔ مجھے بعد میں پتا چلا کہ یہ سلطنت آباد کی چھاؤنی ہے۔

ہم چیک پوسٹ کے پاس گاڑی سے اترے۔ انہوں نے میری تفتیش کی اور مجھے چیک پوسٹ کے افسر کے حوالے کر دیا۔ وہ دونوں سپاہی چلے گئے۔ وہ لوگ مجھے ایک بڑے اور صاف ستھرے کمرے میں لے آئے جہاں دو چارپائیاں لگی تھیں اور ایک صاف ستھرا ہیٹر پڑا تھا۔

افسر نے مجھ سے پوچھا: ’’کیا تم نے رات کا کھانا کھایا ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’نہیں۔‘‘ وہ میرے لیے رات کا کھانا لے آئے۔ میں نے کھانا کھایا، نماز پڑھی اور اس کے بعد سکون سے گہری نیند سوگیا۔ کمرے کے باہر اندھیرا چھا چکا تھا لہٰذا کمرے سے باہر کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں صبح بیدار ہوا اور نماز پڑھی۔ پھر ایک سپاہی آیا اور اس نے کہا: ’’ناشتہ چاہیے؟‘‘ میں سفر کی وجہ سے روزے سے نہیں تھا۔ میں نے کہا: ’’ہاں۔‘‘ وہ میرے لیے چائے کی ایک بڑی پیالی اور فوجیوں کی مخصوص روٹی([3]) لے آیا۔ روٹی کے ساتھ تھوڑا سا مکھن بھی تھا۔ مجھے شدید بھوک لگ رہی تھی۔ میں نے سارا کھانا کھا لیا۔ مجھے اس کھانے میں اک خاص لذت محسوس ہوئی۔

وہ برفباری والا دن

میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا، برف ہر چیز کو ڈھانپ چکی تھی۔ جب ہم تہران پہنچے تو ہلکی پھلکی بارف باری ہو رہی تھی۔ لیکن  رات بھر میں زمین سفید اور صاف چادر اوڑھ چکی تھی۔ پھر میں نے دیکھا

کہ ایک سپاہی آجا رہا تھا۔ میں جان گیا کہ میرا کمرہ جیل کے ساتھ ہے اور وہ سپاہی نگہبان تھا۔ کچھ دیر بعد مجھے بلایا گیا تو میں نے دیکھا وہ دونوں سپاہی پہنچے ہوئے ہیں جو سفر میں میرے ساتھ تھے۔ میں ان دونوں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا۔ ہم ’’شارع شمیران([4])‘‘ پر واقع ایک عمارت کی طرف گئے۔ وہ جگہ ساواک کی مخفی عمارتوں میں سے ایک تھی۔ ان دونوں سپاہیوں نے مجھے خدا حافظ کہا۔ ان کے چہروں پر رقت اور ہمدردی ظاہر تھی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا: ’’آپ کی کوئی وصیت ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’شیخ کفعمی کو میرا سلام پہنچا دینا۔‘‘ میں اس طرح شیخ کو سمجھانا چاہتا تھا کہ میں تہران میں ہوں۔

وہ مجھے ایک بڑے کمرے میں لے گئے جہاں میں کافی دیر تک بیٹھا رہا۔ اس دوران ایک شخص آیا اور اس نے دروازہ کھولا۔ ترچھی نگاہوں کے ساتھ غصے سے میری طرف دیکھا اور پھر چلا گیا۔ پھر دوسرا آیا اور اس نے بھی یہی حرکت کی۔ چند بار ایسا ہوا یہاں تک کہ ایک سپاہی آیا اور اس نے کہا: ’’آجاؤ۔‘‘

مجھے حیرت ہوئی جب انہوں نے ایک بار پھر مجھے دو سپاہیوں کے ساتھ گاڑی میں بٹھا دیا۔ گاڑی ہمیں لے کر راستہ طے کرنے لگی جبکہ مجھے منزل کا کچھ پتا نہیں تھا۔ میں نے دیکھا کہ گاڑی ’’شارع کرج([5])‘‘ سے ہوتی ہوئی مغربی تہران کی طرف جا رہی ہے۔ میں اس سڑک کو اچھی طرح سے جانتا تھا کیونکہ عراقی قونصل خانہ یہیں پر واقع تھا۔ میں 1957؁ء میں عراقی ویزا لینے وہاں گیا تھا۔ اس سڑک کو عبور کرنے کے بعد گاڑی شمال مغرب کی طرف مڑی، یہاں تک کہ ہم ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں کوئی عمارت نہ تھی۔ میری حیرت میں اضافہ ہوا اور میں اپنے انجام کے بارے میں فکرمند ہو گیا۔ کچھ مسافت کے بعد گاڑی دائیں مڑی۔ ایک چیک پوسٹ کو عبور کیا جس کے پاس نگہبان کھڑا تھا۔ میں نے چیک پوسٹ کی دوسری طرف برف سے ڈھکا میدان دیکھا۔ گاڑی میدان میں ایک جگہ رکی۔ دونوں سپاہی نیچے اترے۔ میں بھی ان کے ساتھ اترا۔ میں نے میدان کی ایک طرف ایک بڑا سا قلعہ دیکھا جس کے گرد تقریبا دس میٹر بلند دیوار تھی۔ دوسری طرف  زرد رنگ کی چھوٹی فوجی عمارتیں تھیں اور تیسری طرف ایک نئی عمارت تھی۔ ایک سپاہی نئی عمارت میں داخل ہوا اور دوسرا گاڑی کے انجن اور ٹائروں کا معاینہ کرنے لگا۔ راستے میں وہ دونوں ترکی زبان میں گفتگو کر رہے تھے جسے میں بھی جانتا تھا۔ میں نے چاہا کہ جس جگہ پر ہم رکے ہیں اسے جان سکوں۔ میں نے اپنے ساتھ والے سپاہی سے ترکی زبان میں پوچھا: ’’یہ کون سی جگہ ہے؟‘‘ ترکی زبان میں سوال پوچھنے سے وہ متاثر ہوا۔ اس نے احتیاط کرتے ہوئے دائیں بائیں دیکھا اور ترکی لہجے میں کہا: ’’قزل قلعہ۔([6])‘‘

قزل کا معنی ترکی زبان میں سرخ یا سنہری بنتا ہے۔ پس ہم مشہور ’’قزل قلعہ‘‘ جیل میں تھے۔([7]) میں نے اس جیل کے بارے سن رکھا تھا یہ جیل قیدیوں کے ساتھ سختی اور ان پر تشدد کے حوالے سے مشہور تھی۔

دوسرا سپاہی واپس لوٹا۔ وہ دونوں قلعے کی طرف چلے اور میں ان کے پیچھے چل پڑا۔ بیرونی دیوار کا دروازہ کھلا اور ایک سپاہی برف پر دوڑتا ہوا ہماری طرف آیا۔ اس نے پوچھا: ’’یہ ہے وہ؟‘‘ اور میری طرف اشارہ کیا۔ دونوں سپاہیوں نے جواب دیا: ’’ہاں، یہ وہی ہے۔‘‘ پھر سپاہی نے میری طرف رخ کیا اور کہا: ’’میرے ساتھ آؤ۔‘‘ میں اس کے پیچھے چل پڑا۔ بعد میں میری اس کے ساتھ آشنائی بھی ہوگئی۔ وہ شیراز سے تعلق رکھنے والا ایک شریف جوان تھا جو جبری فوجی ٹریننگ کا عرصہ گزار رہا تھا۔ میں دروازے سے داخل ہوا تو چند میٹر دور ایک بلند دیوار کو دیکھا۔ اس میں بھی ایک دروازہ تھا۔ وہ دوسرا دروازہ کھلا، میں نے ایک بڑا میدان دیکھا جس کے وسط میں جیل کی عمارتیں تھیں۔ ہم جیل کے قلعے کی طرف چلے۔ اس کا دروازہ بھی کھولا گیا۔ یہ ایک بڑا اور خوفناک فولادی دروازہ تھا جو لوہے کی زنجیروں سے بندھا ہوا تھا۔ دروازے کے بعد ایک تنگ رستہ تھا جس کے دونوں طرف قطار میں کوٹھڑیاں تھیں۔

سکیورٹی انچارج ’’زمانی‘‘

قرآن، تسبیح، ڈائری اور کتاب ’’تذکرۃ المتقین‘‘ میرے ہمراہ تھیں۔ یہ کتاب بزرگ علماء اور فقہاء کے نصائح اور اذکار پر مشتمل ہے، جن کا موضوع عرفانِ شرعی ہے۔ یہ کتاب سید کمال موسوی نے مجھے کرمان میں دی تھی۔ وہ زاہدان میں میرے رفیق تھے۔ اسی طرح میری جیب میں چار تومان اور دو رِیال تھے۔ جب میں زاہدان میں ساواک کے پاس تھا تو مجموعی طور پر میرے پاس پانچ تومان تھے، جن میں سے آٹھ رِیال روٹی اور دو انڈے خریدنے میں خرچ ہوئے۔

یہ کوٹھڑی مربع شکل میں تھی جس کی لمبائی اور چوڑائی دو میٹر سے زیادہ نہ تھی۔ اس کا آدھا حصہ کچھ بلند تھا جسے بیٹھنے اور سونے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس پر بھوسے سے بھرا ایک گدا پڑا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے دو کمبل دیے۔ یہ پہلی بار تھا کہ میں اس قدر چھوٹے کمرے میں قید ہوا تھا۔ میں کچھ دیر حیران و پریشان بیٹھا رہا۔ میں نے دائیں بائیں نگاہ کی، چھت میں ایک چھوٹا سا روشندان تھا اور چھت کے اوپر قیدی کی نگرانی کے لیے ایک نگہبان ٹہل رہا تھا۔ اسی طرح دورازے کے بالائی حصے میں بھی ایک چھوٹا روشندان تھا جسے کپڑے سے ڈھانپا گیا تھا۔ دوسری جانب ایک مدہم روشنی والا پندرہ واٹ کا بلب جل رہا تھا۔

میرے کوٹھڑی میں آنے کے چند منٹ بعد دروازہ کھلا اور ایک سپاہی داخل ہوا۔ مجھے بعد میں پتا چلا کہ یہ سکیورٹی انچارج زمانی تھا۔ اسی مناسبت سے ذکر کرتا چلوں کہ جیل کی سکیورٹی کی ذمہ داری اسی رینک کے پانچ اہلکار باری باری انجام دیتے تھے۔ ان میں سے دو اہلکار اس جیل کے قیدیوں کے درمیان بہت مشہور تھے۔  ایک یہی زمانی اور دوسرا سکیورٹی انچارج ساقی، جس کے بارے میں بعد میں بیان کروں گا۔

زمانی داخل ہوا اور کہنے لگا: ’’تمہارے پاس کیا کچھ ہے؟‘‘

میں نے کہا: ’’آپ تلاشی لے سکتے ہیں۔‘‘

وہ تلاشی لینے لگا۔ اس نے قرآن نکالا، اس کی طرف دیکھا اور کہا: ’’یہ قرآن ہے؟ کوئی بات نہیں، یہ تمہارے پاس رہے۔‘‘ ایسا لگتا تھا کہ میری جیب میں اتنی کم رقم دیکھ کر  اس کا دل نرم پڑ گیا۔ پھر اس نے کتاب ’’تذکرۃ المتقین‘‘ کے بارے میں پوچھا : ’’شاید یہ دعاؤں کی کتاب ہے؟‘‘ وہ چاہ رہا تھا کہ میں ’’ہاں‘‘ میں جواب دوں تاکہ وہ یہ کتاب میرے پاس رہنے دے۔ لیکن میں نے اسے کہا: ’’یہ عرفانی کتاب ہے اور۔۔۔‘‘ اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا: ’’ہاں دعا کی کتاب ہے۔۔۔ ہاں دعا کی کتاب ہے۔ کوئی بات نہیں تمہارے پاس رہے۔‘‘ اس کا رویہ اس بات پر واضح دلیل تھا کہ وہ میری مدد کرنا چاہتا تھا۔ اس نے مجھ سے ٹیلیفون نمبروں کی ڈائری کے علاوہ اور کچھ نہیں لیا۔ وہ نکل گیا اور میں اکیلا رہ گیا۔

عرب قیدی

میں نے قرآن کھولا اور اونچی آواز میں تلاوت کرنے لگا۔ تلاوت کرتے وقت میرا لہجہ بالکل بھی فارسی نہیں لگتا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ کوئی عرب تلاوت کر رہا ہے۔ میں تلاوت میں مشغول تھا،  میں نے دیکھا کہ کوئی کوٹھڑی کے دروازے میں موجود چھوٹی کھڑکی کھول کر مجھے دیکھ رہا ہے۔ پھر وہ چلا گیا اور دوسرا آگیا پھر تیسرا۔ یہ چھوٹی کھڑکی قیدی اور نگہبان کے درمیان بات چیت کے لیے مخصوص تھی۔ میں سمجھا کھڑکی سے جھانکنے والے نگہبان ہیں۔ لیکن جب کسی نے مجھے خاص خوزستانی عربی لہجے میں پکارا تو میں جان گیا کہ یہ لوگ نگہبان نہیں ہیں۔ مجھے اس کی بات سمجھ نہیں آئی اور نہ ہی میں نے جواب دیا۔ ایک اور قیدی آیا اور اس نے عربی میں پوچھا: ’’تم اہواز شہر سے ہو؟‘‘ میں نے کہا: ’’میں مشہد سے ہوں۔‘‘ یہ سنتے ہی وہ لوگ چلے گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔

مجھے بعد میں پتا چلا وہ ’’جبہۃ التحریر العربیة‘‘ نامی تنظیم سے تھے۔  شروع میں انہیں جمال عبد الناصر([8]) کی پشت پناہی حاصل تھی۔ بعد میں عراقی بعثیوں نے انہیں اسلامی انقلاب کے خلاف استعمال کیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ لوگ اس انقلاب کے خلاف ہوگئے جس نے اسلام اور عربوں کے دشمن شاہی نظام کا خاتمہ کیا تھا۔

یہاں یہ بات مجھے حتماً ذکر کرنی چاہیے کہ خوزستانی عرب دین دار ہیں  اور اہل بیت رسول. سے عقیدت رکھتے ہیں۔ انقلاب سے پہلے میں جن خوزستانیوں سے ملا ان میں اس دین داری کا بخوبی مشاہدہ کیا اور انقلاب کے بعد خاص طور پر ایران عراق جنگ میں اس دین داری کو مزید قریب سے دیکھا۔ خوزستانی مرد و زن صدام حکومت کے خلاف اور اسلامی حکومت کے دفاع میں بہادری کے ساتھ مزاحمت کرتے رہے۔ انہوں نے صدام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا جو ان خوزستانیوں سے تعاون کی توقع رکھے ہوئے تھا۔ ایران عراق جنگ([9]) کے دوران خوزستانیوں نے دین اور اسلامی حکومت کے ساتھ اپنی نظریاتی وابستگی کو ثابت کیا۔ وہ جوان مردوں کی طرح ڈٹے رہے۔ بڑی تعداد میں شہید دیے اور صبر کے ساتھ خدا کی خوشنودی کی خاطر اپنے تباہ شدہ شہروں سے ہجرت کی۔ یہی وجہ ہے کہ قوم پرست بے دین گروہ جو بعثیوں کے ساتھ مربوط تھا انقلاب اسلامی کے آغاز میں ہی خوزستان کی عوام سے جدا ہوگیا اور اس کے بعد ان کا کوئی قابل ذکر وجود نہیں رہا۔

میرے قید ہونے کے چند دن بعد مجھے کوٹھڑی سے نکل کر برآمدے میں آنے کی اجازت دی گئی۔ میں ان عربوں سے آشنا ہوا۔ وہ مجھ سے مانوس ہو گئے اور میں ان سے۔ وہ سب فارسی جانتے تھے کیونکہ ایرانی تھے۔ لیکن میں عربی زبان کے ساتھ اپنے خاص لگاؤ کی وجہ سے ان کے ساتھ عربی میں بات چیت کرتا تھا۔

ان کے درمیان ادب سے لگاؤ رکھنے والا ایک شخص تھا جسے شعروشاعری کی سمجھ بوجھ ہونے کے علاوہ بہت سارے اشعار بھی حفظ تھے۔ اس کا نام سید باقر نزاری تھا۔ میں نے اس سے بہت سے اشعار یاد کیے۔ عرب برادران جیل میں ’’ابوذیہ([10])‘‘ پڑھتے تھے۔ میں ان میں سے ایک (آل ناصر کعبی) کے ساتھ بہت زیادہ عربی بولتا تھا۔ میں اسے عربی لغت کے قواعد سکھاتا تھا کیونکہ وہ لغت کے قواعد سے نا آشنا تھا۔

سید نزاری ایک متدین شخص تھا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ بلند آواز میں زیارت عاشوراء پڑھتا، اہل بیت اطہار. پر سلام بھیجتا اور ان کے دشمنوں پر لعنت کرتا تھا۔ پھر وہ اذکار پڑھتے ہوئے برآمدے میں ٹہلتا رہتا تھا۔ ان میں سے ایک  شخص میرے ساتھ والی کوٹھڑی میں قید تھا جس کا نام شیخ حنش تھا۔([11]) اسی طرح میری دوسری جانب اسی گروہ کا ایک جوان تھا جس کی عمر بیس سے تیس سال کے درمیان تھی۔ اس کا نام شیخ عیسی تھا اور وہ وجیہ اور باوقار جوان تھا۔ مجھے پتا چلا کہ وہ اپنی والدہ کا اکلوتا بیٹا تھا اور اپنے قبیلے میں خاص مقام رکھتا تھا۔ ان میں سے ایک شیخ دہراب کعبی تھے۔ وہ قبیلے کے سربراہ اور تمام افراد کے لیے قابل احترام شخصیت تھے۔ مجھے یاد ہے خوزستانی برادران کھلی ہوا میں ٹہلتے وقت از راہ مذاق ایک دوسرے کو مارتے تھے۔ ان میں سے بعض شیخ دہراب کی پناہ لے لیتے تھے۔ اگر کوئی شیخ دہراب کے پاس پناہ لے لیتا تو کوئی ان کے نزدیک جانے کی جرات نہیں کرتا تھا۔

ان میں سے ایک عبد الزہراء بہشتی بھی تھے جو میرے سامنے والی کوٹھڑی میں قید تھے۔ اس جیل میں میری خوزستانی برادران کے ساتھ  کئی یادیں ہیں، جن میں سے بعض کا تذکرہ کرتا ہوں۔

  • آل ناصر کعبی کے ساتھ میری خاص نشستیں ہوتی تھیں۔ میں نے اسے دوسروں سے ممتاز پایا۔ سب اس کا احترام کرتے تھے۔ جب وہ تنظیمی افراد کے سامنے سے گزرتا تھا تو وہ اس کے احترام میں کھڑے ہو جاتے تھے۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ہنسی مذاق اور فضول کاموں میں شریک نہیں ہوتا تھا۔ وہ اطمینان اور وقار میں اپنے ساتھیوں سے منفرد تھا لیکن اس کا یہ وقار، تکبر اور دوسروں کی تحقیر کی بنا پر نہیں تھا۔ یہ نشستیں عربی، انگریزی اور ترکی زبان میں باہمی گفتگو سے شروع ہوئیں۔ اسی دوران عربی قواعد سیکھنے سکھانے کا سلسلہ بھی جاری رہا، جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے۔ پھر یہ نشستیں اسلام کی موجودہ مشکلات اور طاغوتی حکومتوں کے مفاسد جیسے موضوعات پر بحث و گفتگو کی طرف بڑھیں۔ مزید بات آگے بڑھی تو میں نے اسے تنظیمی روابط کی پیشکش کی۔ اس نے میری یہ پیشکش خوشی سے قبول کر لی۔ یقینا ہمارا باہمی تعلق اس قدر بے تکلفی تک نہیں پہنچا تھا اور دونوں طرف سے یہ سب کچھ احتیاط کے خلاف تھا۔

جیل سے آزاد ہونے کے بعد میں نے اخبار میں آل ناصر کعبی، دہراب کعبی اور شیخ عیسیٰ کی پھانسی کی خبر پڑھی۔ یہ میرے لیے انتہائی دردناک خبر تھی۔ آل ناصر کعبی اعلی شخصیت اور مروت کے مالک تھے۔ مجھے یاد ہے انہوں نے ایک دفعہ مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا: ’’جناب سید! عورت کو مکمل عورت ہونا چاہیے۔‘‘ اس جملے نے اپنے خاص معنی اور ایک سمجھ دار شخص کی زبان سے نکلنے کی وجہ سے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا۔

  • میرا ساٹھ سالہ ہمسایہ حنش بھی باوقار، متوسط قد اور اپنی قوم میں قابل احترام تھا۔ مجھے ابھی تک اس کی بات یاد ہے: ’’میری تین بیویاں ہیں۔ کچھ ہی عرصہ پہلے میں نے چوتھی شادی کی ہے لیکن ابھی تک اسے وقت نہیں دے سکا۔ میں نے فیصلہ کیا ہے اگر عید الفطر سے پہلے آزاد نہ ہوا تو اسے طلاق دے دوں گا تاکہ وہ میرے انتظار میں نہ رہے۔‘‘ لیکن عید سے پہلے اسے رہا کر دیا گیا۔

اسی مناسبت سے بتاتا چلوں کہ میں نے اس سے ایک دن ’’حنش‘‘ کا معنی پوچھا تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ سید باقر نے مجھے کہا کہ میں دوبارہ یہ سوال نہ پوچھوں۔ میں نے تعجب سے پوچھا: کیوں؟ انہوں نے کہا: ’’حنش‘‘ کا کچھ اچھا معنی نہیں ہے۔‘‘ میرے تعجب میں اضافہ ہوا اور میں نے اس کی وجہ تسمیہ پوچھی تو انہوں نے کہا: ’’ان کے  علاقے میں یہ کہا  جاتا ہے کہ اگر بچے کا برے سے برا نام رکھا جائے تو وہ زندہ اور زمانے کی آفات سے محفوظ رہتا ہے۔‘‘ عجیب عقیدہ تھا! اور اس سے بھی عجیب یہ کہ حنش کے سارے بھائی وفات پا گئے اور وہ زندہ رہا۔

زندان میں رمضان المبارک کی مجالس

وہ راتیں، ماہ رمضان کی راتیں تھیں۔ خوزستانی بھائی افطار کے بعد جیل کے برآمدے میں جمع ہو جاتے تھے۔ وہ لوگ کمبل بچھاتے، چائے بناتے، اور ’’شیشہ‘‘ سلگاتے تھے جبکہ میں انہیں کوٹھڑی سے دیکھ رہا ہوتا تھا۔ جب (جیل کے حکام کی طرف سے) مجھے برآمدے میں آنے کی اجازت دی گئی تو میں بھی ان کی محافل میں شریک ہونے لگا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ میں ہر رات  مجلس پڑھوں گا۔ اس کے بعد سید کاظم (خوزستان سے ان کا تعلق تھا اور ان کی آواز بہت اچھی تھی) شعر، منقبت اور مرثیے پڑھیں گے اور پھر آخر میں معمول کے مطابق امام حسین, کے مصائب پڑھیں گے۔ میری تقریر کے دوران اشاروں کنایوں میں حکومت پر تنقید ہوتی تھی۔ میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب,، ان کی عدالت، اور اسلامی حاکم کی صفات کے بارے گفتگو کرتا تھا۔ وہ لوگ یہ بیانات سن کر بہت خوش ہوتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ باتیں ان کے ارمانوں، دردوں اور امیدوں کے مطابق تھیں۔

ان مجالس کا خرچہ ہر رات حاضرین میں سے ایک نفر اٹھاتا تھا، لیکن چونکہ اس وقت میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا لہٰذا میں یہ خرچہ اٹھانے سے قاصر تھا۔ اکثر خرچہ چائے اور چینی کی خریداری پر ہوتا تھا۔

اس جیل میں ہمارے ساتھ ایک ارمنی باشندہ بھی تھا۔ اس کا نام آوانسیان تھا۔ بعد میں ہمیں پتا چلا کہ وہ تودہ پارٹی([12]) کے رہنماؤں میں سے تھا۔ قیدیوں کے درمیان اسے خاص امکانات اورسہولیات حاصل تھیں جو دوسروں کو حاصل نہ تھیں۔ یہ ارمنی قیدی ماہِ رمضان میں ایک دن ہماری مجلس کے نزدیک آیا۔ اس نے میری باتیں غور سے سنیں اور بہت خوش ہوا۔ وہ کچھ راتوں بعد ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا: ’’کیا آپ لوگ اجازت دیں گے کہ اگلی مجلس کا خرچہ میں اٹھاؤں؟‘‘ میں نے کہا: ’’ہمیں خوشی ہوگی۔‘‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ طہارت و نجاست کے حوالے سے ہمارے نظریات جانتا تھا اور اسے معلوم تھا کہ ہماری نظر میں اگر وہ کسی چیز کو چھو لے گا تو وہ نجس ہو جائے گی۔ (اہل کتاب کے حوالے سے مشہور علماء کی رائے یہی ہے۔ یہاں ضمنی طور پر بیان کرتا چلوں کہ میں بذات خود اہل کتاب کی طہارت کا قائل ہوں۔) یہی وجہ ہےکہ اس نے چائے اور چینی لا کر وہاں رکھ دی تاکہ مسلمان بھائی خود چائے بنالیں۔

ہم کوٹھڑیوں میں جا کر ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ عرب بھائیوں کا میرے پاس آنا جانا لگا رہتا تھا۔ میں بھی ان کے پاس جایا کرتا تھا۔ ایک رات میں آوانسیان سے ملنے اس کی کوٹھڑی میں گیا۔ اس نے وہاں ان چیزوں سے میری خاطر تواضع کی جنہیں اس نے نہیں چھوا تھا۔

میں کوٹھڑی کی صفائی کا بہت زیادہ خیال رکھتا تھا جبکہ میرے دوست اس بات کی رعایت نہیں کرتے تھے۔ ان کی عادت تھی کہ سگریٹوں کی راکھ اور بچے ہوئے ٹکڑے زمین پر پھینک دیتے تھے۔ سگریٹ کی ڈبیوں سے میں نے ایک ایش ٹرے ان کے لیے بنائی اور جب بھی دیکھتا کہ کوئی سگریٹ پی رہا ہے تووہ ایش ٹرے اس کے سامنے رکھ دیتا تھا۔ وہ تعجب کے ساتھ اس کی طرف دیکھتا اور اس ڈر سے کہ  خاکستر ایش ٹرے میں نہ گرے اپنا ہاتھ دوسری طرف لے جاتا!

ایک سادہ لوح قیدی

میں نے اس جیل میں ڈیڑھ ماہ گزارا، جس دوران کبھی ہنسانے والے اور کبھی رلانے والے واقعات پیش آتے تھے۔ جیل کی ابتدائی راتوں میں سے ایک رات میں نے تہرانی لہجے میں کچھ آوازیں سنیں۔ اس وقت میں کوٹھڑی میں رہنے پر مجبور تھا اور مجھے وہاں سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ میں جان گیا کہ یہ جدید قیدی ہیں۔ میں نے ان کی باتیں غور سے سنیں اور اس نتیجے تک پہنچا کہ وہ لوگ کچھ گھنٹے پہلے گرفتار ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک نے میری کوٹھڑی کی کھڑکی کھولی اور میری طرف دیکھا۔ مجھ سے میرا نام پوچھا۔ میں نے اپنا نام بتایا اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ میں مشہد کا ایک  دینی طالب علم ہوں۔ ان لوگوں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے اپنی گرفتاری کی وجہ بھی بتا ئی۔ مجھے پتا چلا کہ وہ لوگ کچھ جوان تاجر تھے جو بازار میں کام کرتے تھے۔ بازار کے اندر مشہور و معروف جامع مسجد تھی جس میں متعدد بڑے ہال تھے۔ ایک ہال میں ایک باشعور انقلابی عالم لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ جیسا کہ ماہِ رمضان میں عام طور پر نماز کے بعد علماء منبر پر جاکر لوگوں کو نصحیت کرتے ہیں۔ یہ امام جماعت بھی مختلف انقلابی خطیبوں کو اپنی مسجد بلاتے تھے۔ ایک دن خطابت کے دوران یہ جوان جوش میں آگئے اور انہوں نے بلند آواز میں نعرہ بازی کی۔ پولیس نے ان پر حملہ کر دیا اور انہیں گرفتار کر کے جیل لے آئے۔ میں انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوا چونکہ اس وقت تک میں خوزستانیوں کے ساتھ گھل مل نہیں سکا تھا۔  چند گھنٹوں بعد میں نے کچھ اور آوازیں سنیں اور پھر پتا چلا کہ ان کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ مجھے ایسا لگا جیسے ان کے جانے سے میں نے کچھ کھو دیا ہے۔

میں نے مغرب کی نماز پڑھی اور تعقیبات میں مشغول ہوگیا۔ اتنے میں ایک شخص نے کھڑکی کھولی اور کہا: ’’سید! میں واپس آگیا ہوں۔‘‘ میں نے دوسروں کے بارے پوچھا تو اس نے کہاکہ انہیں آزاد کر دیا گیا ہے۔ مجھے پتا چلا کہ دوسروں کو آزاد کر کے صرف اسے جیل میں رکھا گیا ہے۔ وہ ایک لمبی مدت تک جیل میں رہا۔ بعد میں جب میری کوٹھڑی کا دروازہ کھولا گیا اور مجھے باہر نکلنے کی اجازت دی گئی تب یہ شخص میرے پاس آتا تھا اور میرے ساتھ افطار کرتا تھا۔ اس کےساتھ اٹھنے بیٹھنے سے پتا چلا کہ وہ انتہائی سادہ انسان ہے۔ لیکن اس کے برخلاف اس کے دوسرے تاجر ساتھی (جو ایران کی انقلابی تحریک میں بھی فعال تھے) اکثر ذہین اور چالاک تھے۔

یہ شخص اپنی سادہ لوحی کی بنا پر جیل کے محافظوں سے اکثر مطالبہ کرتا تھا کہ اسے آزاد کیا جائے جبکہ یہ بات بالکل واضح تھی کہ یہ کام ان محافظوں کے اختیار میں نہیں تھا۔ وہ اپنی بات پر اصرار کرتا اور مطالبے پر اڑ جاتا تھا یہاں تک کہ بے چارے محافظ کو اس کے علاوہ کوئی بہانہ نہ ملتا تھا کہ وہ اس سے کسی خاص دن آزاد کرنے کا وعدہ کرے۔ اس وقت وہ شخص بہت زیادہ خوش ہو جاتا تھا۔ وہ بعض اوقات میرے پاس آتا اور مجھے اس وعدے کے بارے بتاتا تھا۔ وہ میرے سامنے یہ پیشکش بھی رکھتا تھا کہ جیل کے باہر ہر قسم کی خدمت کے لیے حاضر ہے۔ آخرکار مجھے چھوڑ دیا گیا اور وہ جیل میں ہی تھا۔ بعد میں سنا کہ اسے عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں اسے ایک سال یا اس سے کچھ کم کی سزا سنائی گئی۔

اس شخص کا جرم بھی بہت عجیب تھا جس پر واقعاً ہنسی آتی ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ اس کی ڈائری میں عامی زبان میں ایک شعر لکھا ہواہے جو پست مطلب، ناقص لغت و ناقص وزن اور لغوی غلطیوں سے پُر تھا۔ لیکن اس میں اس وقت کے حکمران محمد رضا شاہ کے والد رضا پہلوی کے خلاف بات کی گئی تھی۔

جمله بگوید از برنا و پیر لعنه الله بر رضا شاه کبیر

سب جوان اور بوڑھے مل کر کہیں: بڑے رضا شاہ پر خدا کی لعنت ہو۔

اس خیالی جرم کی پاداش میں اس بے چارے اور سادہ انسان کو جیل کی سزا سنائی گئی۔ اس بات سےیہ بھی پتا چلتا ہے کہ قاضی اور عدالت دونوں کس قدر پست تھے۔

سکیورٹی انچارج ’’ساقی‘‘

میں نے بتایا کہ پانچ فوجی، جیل کی سکیورٹی پر باری باری مامور تھے، جن میں سے ہر ایک کا عہدہ سکیورٹی انچارج بنتا تھا۔ ان کا سربراہ ساقی نامی فوجی تھا۔ باقی چار میں سے دو بہت سخت اور بداخلاق جبکہ دوسرے دو اچھے اور خوش اخلاق تھے۔ ساقی لمبے قد، قوی اور بڑے ہیکل، چوڑے سینے، عزم و ارادے اور مضبوط شخصیت کا مالک تھا۔ اس کا فارسی لہجہ ترکی لہجے کی طرف مائل تھا۔ وہ ایک معمولی رینک سے تھا لیکن اپنے افسران پر بھی حکم چلاتا تھا۔ یہ چیز میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ ایک مرتبہ مجھے تفتیش کے لیے کمرے میں بلایا گیا۔ تفتیشی افسر، جو کرنل تھا، مجھ سے سوالات پوچھ رہا تھا اور میں ان کے جوابات دے رہا تھا۔ اتنے میں ساقی بغیر اجازت کے کمرے کے اندر آیا اور سخت لہجے میں کرنل پر اپنا حکم چلانے لگا۔

میں نے ایک اور موقع پر بھی افسروں کے درمیان اس کا مقام دیکھا، جب ساواک کا سربراہ ’’پاکروان‘‘ جیل کے دورے پر آیا۔ پاکروان کے ساتھ دس افسران تھے جو کرنل سے کم رتبے کے نہیں تھے لیکن ان سب میں سے صرف ساقی بول رہا تھا۔ جب پاکروان میری کوٹھڑی تک پہنچا تو اس نے مجھ سے چند سوالات پوچھے، جن کا میں نے جواب دیا۔ ساقی  مداخلت کرتے ہوئے شفقت بھرے لہجے، دھیمی آواز اور اعتمادِ نفس کے ساتھ میری طرف اشارہ کر کے بولا: ’’جناب جنرل! یہ پر امن قیدی ہے۔‘‘

وہ ایک بہادر اور با مروت انسان تھا۔ جو قیدی بھی مزاحمت دکھاتا وہ اس سے محبت اور اس کی عزت کرتا تھا۔ لیکن اس کے برعکس جو  کمزور پڑتا وہ اس پر سختی کرتا تھا۔ اگر کوئی قیدی رحم کی اپیل کر دیتا یا رونا شروع کرتا تو وہ اسے گالیاں دیتا اور جس کام کی وجہ سے اسے قید کیا گیا تھا اس پر اس کی ملامت کرتا۔

ایک قیدی نے اس فوجی کی مروت اور مردانگی کے بارے مجھے بہت کچھ سنایا۔ اس نے بتایا کہ ساقی نے اسے جیل سے رہا ہونے کے بعد اپنے گھر دعوت دی، جو اس  نے قبول کر لی اور گھر میں ساقی نے اس کے ساتھ مختلف موضوعات پر گفتگو کی۔

اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد جب سیاسی جیلوں میں کام کرنے والے لوگ  پکڑے گئے تو ان میں سکیورٹی انچارج ساقی بھی تھا۔ اس وقت میں انقلاب کونسل میں تھا۔ کونسل میں بہت سارے ارکان جمع تھے۔ جب ساقی کی گرفتاری کی خبر ہم تک پہنچی تو شوریٰ کے تمام ارکان متاثر ہوئے۔ ان میں سے اکثر ’’قزل قلعہ‘‘ کی جیل میں رہ چکے تھے اور ساقی کو جانتے تھے۔ ہم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایک تحریر لکھ کر اس بات کی گواہی دی جائے کہ ہم سب اس فوجی سے راضی ہیں اور سب اس پر دستخط کریں۔ پھر ہم نے ایسا ہی کیا۔

سکیورٹی انچارج زمانی کا صرف ایک واقعہ بیان کرتا چلوں۔ میں 1972؁ء یا 1973؁ء میں شیخ ہاشمی رفسنجانی سے ملنے تہران کی عشرت آباد چھاؤنی گیا، جسے اب ولی عصر چھاؤنی کہا جاتا ہے۔ میں نے اور میری بیگم نے شیخ رفسنجانی سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ سیاسی قیدیوں سے ملاقات کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن جیلوں میں رہ کر جو تجربات میں نے حاصل کیے ان کی وجہ سے ملاقات ممکن ہوئی۔ ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت پہلے میری بیگم چھاونی میں گئیں اور اس کے بعد میں چلا گیا۔ جب ہم شیخ سے ملے تو  وہ ہماری منصوبہ بندی پر جس کی وجہ سے ملاقات ممکن ہوئی تھی خوش ہو کر ہنسنے لگے۔ شیخ سے باتیں کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک فوجی ہمارے قریب ہی کھڑا ہے اور میری طرف دیکھ کر مسکرا رہا ہے۔ میں نے بھی ظاہری مسکراہٹ کا تبادلہ کیا۔ لیکن میں نے دیکھا کہ ملاقات کے دوران وہ مسلسل مسکراتا رہا اور اپنی تیز نگاہوں سے ہماری نگرانی بھی کرتا رہا۔ شیخ ہاشمی نے جیل سے نکلنے کے بعد مجھ سے پوچھا: ’’کیا آپ اس شخص کو جانتے تھے جو آپ کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا؟‘‘ میں نے کہا: ’’نہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا: ’’وہ سکیورٹی انچارج زمانی تھا۔ میرا گمانِ غالب ہے کہ اس نے آپ کو پہچان لیا تھا۔‘‘ ’’ہاں، میرا بھی یہی خیال ہے کہ اس نے مجھے پہچان لیا تھا۔ قزل قلعہ کی جیل میں اس کے ساتھ ڈیڑھ ماہ گزارے تھے لیکن چونکہ اس مدت (دس سال) میں وہ کافی موٹا ہو چکا تھا اور اس کا چہرہ بدل چکا تھا اس لیے میں اسے نہیں پہچان سکا، البتہ اس نے مجھے پہچان لیا تھا، اس کے باوجود اس نے اِس بات کا اظہار نہیں کیا۔‘‘

مشہور قیدی

قید کے دنوں میں مجھ تک خبر پہنچی کہ ملک کے حالات حکومتِ وقت کی مرضی کے خلاف جا رہے ہیں۔ بعض مساجد میں ماہ مبارک رمضان کے دوران اسلامی اور انقلابی سرگرمیوں میں اضافے کے بعد گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ گرفتار ہونے والوں میں ہمارے چند دوست بھی تھے جن میں سے ایک شہید باہنر تھے جو انقلاب کی کامیابی کے بعد 1981؁ء میں منافق گروہ کے دھماکے میں اس وقت شہید ہوئے جب آپ ملک کے وزیر اعظم تھے۔ آپ کے علاوہ صدر مملکت رجائی بھی اس حملے میں شہید ہوئے تھے۔ گرفتار ہونے والوں میں تہران کے کچھ خطیب علماء بھی تھے۔ اگرچہ یہ سارے قیدی بھی قزل قلعہ میں ہی تھے لیکن جیل کے اندر میری ان سے ملاقات نہیں ہو سکی کیونکہ انہیں جیل کے دوسرے حصے میں رکھا گیا تھا۔

جیل کے منتظمین ہفتے میں چند مرتبہ، تقریباً پندرہ منٹ کے لیے ہمیں تازہ ہوا اور سورج کی روشنی سے استفادے کے لیے میدان میں جانے کی اجازت دیتے تھے۔ یقیناً یہ اجازت تفتیش کے مراحل طے ہونے کے بعد ہی ملتی تھی، جو جرم کی نوعیت کے حساب سے کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتے تھے اور بعض مرتبہ دو مہینے یا اس سے بھی زیادہ کا وقت تفتیش میں گزر جاتا تھا۔

ایک دن جب میں باہر ہوا خوری کے لیے نکلا ہوا تھا تو میدان کے ایک طرف ایک بلند قامت شخص کو دیکھا جو پچاس ساٹھ سال کا لگ رہا تھا۔ وہ انتہائی وقار کے ساتھ آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ اس کا صاف ستھرا اور مرتب لباس اس بات کی نشاندہی کر رہا تھا کہ وہ کوئی اہم شخصیت ہے جسے گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں جب پوچھا تو بتایا گیا کہ جنرل قرنی ہے۔ وہ شاہ کی فوج کے بڑے جنرلوں میں سے تھا اور اس کی کچھ انقلابی یا شاید دینی سرگرمیاں تھیں۔ اس نے بالواسطہ آیت اللہ سید میلانی سے رابطہ کیا تھا، جو بڑے انقلابی مراجع میں سے تھے اور ان کے سامنے یہ پیشکش کی تھی کہ دونوں مل کر انقلابی تحریک کی قیادت کرتے ہیں۔ یہ بات میں پہلے سن چکا تھا لیکن اس حوالے سے سید میلانی کے موقف کے بارے نہیں جانتا تھا۔ منصوبہ فاش ہوا اور سب کچھ ختم ہوگیا۔ جنرل صاحب اور وہ شخص (سید میلانی کا رشتہ دار) جو ان کے اور سید میلانی کے درمیان واسطے کا کام انجام دے رہا تھا دونوں پکڑے گئے۔ جنرل کو تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسی قرنی کو امام خمینی نے انقلاب کی کامیابی سے پہلے انقلاب کونسل کا رکن معین کیا۔  وہ انقلاب کی کامیابی کے بعد وزیرِ دفاع بھی بنے اور پھر بعد میں منحرف منافق گروہ (فرقان) کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔

جناب سید! آپ کے داد ہمارے ساتھ ہیں

ایک دن نماز ظہر کے بعد میں جیل کے برآمدے میں بیٹھ کر اکیلے کھانا کھا رہا تھا۔ مجھے یاد ہے اس دن کھانے میں آبگوشت تھا۔ اتنے میں ایک سپاہی نے مجھے آواز دی: ’’آپ کو دفتر بلایا گیا ہے۔‘‘ میں نے اپنی عبا پہنی اور افسر کے دفتر چلا گیا۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا: ’’تم آزاد ہو۔ اپنا سامان جمع کرو اور چلے جاؤ۔‘‘ میں کوٹھڑی واپس آیا۔ میرا دل خوشی سے لبریز تھا اور ساتھ کچھ افسوس بھی تھا کہ ان ساتھیوں سے جدا ہو رہا ہوں جن کے ساتھ جیل کے بہترین ایام گزار کر بہت زیادہ مانوس ہوچکا تھا۔ میں سامان جمع کر رہا تھا، اتنے میں سپاہی نے جیل میں آواز بلند کی: ’’فلان کو آزاد کر دیا گیا ہے۔‘‘ تمام قیدی اپنی کوٹھڑیوں سے باہر نکلے اور انہوں نے سامان (کمبل اور دوسری چیزں) اکٹھا کرنے میں میری مدد کی جو بعض رشتہ دار تہران سے لے آئے تھے اگرچہ سامان کچھ زیادہ نہیں تھا۔ اس سپاہی نے سامان اٹھا لیا۔ پھر عرب برادران سارے اکٹھے ہوئے اور اپنے خاص انداز میں ’’ہوسہ‘‘([13]) کرنے لگے جس میں وہ بول رہے تھے: ’’یا سیّد جدّک ویّانه‘‘ (اے سید! آپ کے دادا ہمارے ساتھ ہیں۔)

کچھ دنوں بعد جیل میں ہفتہ وارملاقات کا دن تھا۔ اگرچہ جس وقت میں جیل میں تھا اس وقت میرے ساتھ کسی کو ملنے نہیں دیا جاتا تھا۔ (اب جب میں آزاد تھا تو) میں نے کچھ مٹھائی خریدی اور لے کر جیل چلا گیا۔ جیل میں موجود برادران سے ملاقات کی اور ان کے درمیان مٹھائی تقسیم کی۔

رہائی کے بعد امام خمینی سے ملاقات

جب میں جیل سے نکلا تب میں نے سنا کہ قید میں موجود بعض جوان علماء کو مجھ سے چند دن پہلے چھوڑ دیا گیا تھا۔ ساواک والے ان علماء کو  امام خمینی سے ملانے تہران کے علاقے ’’قیطریہ‘‘ لے

گئے، جہاں امام خمینی کو نظر بند کیا گیا تھا۔ اس کام سے ان کا ہدف یہ تھا کہ علماء کے دلوں میں موجود غصہ کچھ ٹھنڈا پڑ جائے۔

میرے دل میں بھی یہ شوق پروان چڑھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ اللہ پر توکل کرتا ہوں اور میں بھی امام خمینی= کی رہائشگاہ پر ان سے ملنے جاتا ہوں شاید مجھے بھی ملاقات کی اجازت مل جائے۔ میں نے پتا لیا اور قیطریہ کی طرف چل پڑا۔ اس وقت یہ علاقہ بالکل خالی تھا، صرف چند ہی گھر تھے۔ (اب گنجان آباد ہوچکا ہے۔) میں امام خمینی کے گھرکے نزدیک پہنچا۔ سپاہیوں نے گھر کو گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ میں نے ان سے کہا: میں ابھی جیل سے آزاد ہوا ہوں۔ جس طرح سے دوسرے قیدی امام خمینی= سے ملے ہیں، میں بھی ملنا چاہتا ہوں۔ سپاہیوں کا آپس میں اختلاف ہو گیا۔ کچھ کہہ رہے تھے: ’’یہ سادہ سا بندہ ہے، جو راستے کی زحمتیں اٹھا کر آیا ہے اور یہاں پہنچا ہے، اسے اجازت دے دیں۔‘‘ جبکہ بعض دوسرے انکار کررہے تھے۔ آخرکار انہوں نے اتفاق کیا کہ کچھ دیر کے لیے مجھے ملاقات کی اجازت دے دی جائے۔

میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو امام خمینی کے بڑے بیٹے سید مصطفیٰ نے دروازہ کھولا۔ مجھے دیکھ کر حیران ہوئے، اور مجھ سے پوچھا: ’’آپ کب آزاد ہوئے؟!‘‘ میں نے کہا: ’’دو دن پہلے۔‘‘ جب میں ایک کمرے میں داخل ہوا تو امام خمینی= کو سامنے پایا۔ میرے اندر چھپے احساسات ابھر کر سامنے آئے اور ان کے سامنے میں اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکا۔ میں نے انہیں بتایا کہ ان کی غیر موجودگی میں امت اور دوست کن حالات سے دوچار ہیں اور یہ بھی بتایا کہ اس دفعہ رمضان کا موسم ضائع چلا گیا اور محرم کے حوالے سے ابھی سے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ دیر بعد میں وہاں سے نکل آیا۔


([1]) توبہ: 48

([2]) یہ حکم نامہ صحیفۂ نور میں چھپ چکا ہے۔ صحیفۂ نور  امام خمینی= کے بیانات، تقاریر، انٹرویوز، شرعی احکام، اجازہ نامے اور خطوط پر مشتمل 22 جلدوں پر مشتمل کتاب ہے۔اس حکم نامے کا متن ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

جناب مستطاب حجۃ الاسلام سید علی آقا خامنہ ای دامت افاضاتہ!

سفاک شاہ پہلوی کے دور حکومت میں بلوچستان و سیستان کے خطے کے لوگ ہمیشہ سے ظلم و ستم کا شکار رہے ہیں لہٰذا جناب عالی وہاں جائیں  اور وہاں کے  بہادر عوام کے مطالبات کا جائزہ لیں اور ان کی توقعات کی رپورٹ مجھ اور متعلقہ حکام تک پہنچائیں۔خداوند کریم آپ کو اور اس علاقے کے دلیر لوگوں کو توفیق عنایت فرمائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے سامنے ایران کے اسلامی انقلاب کی وضاحت کی جائے جس نے ان کی امیدوں کو پورا کیا اور انہیں ریفرنڈم میں بھرپور شرکت کی دعوت دی جائے۔ والسلام علیکم۔

روح الله الموسوی الخمینیرح۔ 29 مارچ 1979؁ء

([3]) یہ روٹی قدرے موٹی اور تندور میں پکائی جاتی ہے۔ عموما یہ مکھن، چینی اور کچھ کافور سے مخلوط ہوتی ہے۔ اس کا ذائقہ انتہائی لذیذ ہوتا ہے۔

([4]) اس شارع کو آج کل خیابانِ شریعتی کہا جاتا ہے۔

([5]) اس شارع کو بعد میں شارع الزبتھ اور انقلاب کی کامیابی کے بعد شارع کشاورز کا نام دیا گیا۔

([6]) قزل قلعہ: قاجاری دورِ حکومت میں بننے والا فوجی قلعہ۔ یہ تہران سے باہر شمال مغرب میں واقع ہے۔ 60 کی دہائی میں اس کے کمروں کو کوٹھڑیوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ امام خمینی= کی تحریک کے دوران یہ مشہور جیلوں میں سے تھا۔ اسلامی حکومت کے آغاز میں اس قلعے کو گرا دیا گیا۔

([7]) یہ جیل انقلاب کے بعد پھلوں اور سبزیوں کے بازار میں تبدیل ہوگئی۔

([8]) جمال عبد الناصر (1918؁ء تا 1970؁ء): مصر میں بادشاہی حکومت کے خاتمے کے بعد دوسرا جمہوری صدر بنا۔ عرب قومیت اور عرب ممالک کے درمیان اتحاد کے نعرے کی وجہ سے شہرت پائی۔ اس کی سیاست کا محور مغربی دنیا سے دوری اور مشرقی بلاک خصوصا سویت یونین سے اچھے تعلقات تھا۔ اس کے اہم کارناموں میں 1956؁ء میں نہرِ سویز کو حکومتی تحویل میں لینا، مصر شام اور یمن پر مشتمل عرب اتحاد کی بنیاد اور 1967؁ء میں اسرائیل کے خلاف جنگ شامل ہیں۔ اپنے دور حکومت میں اسے عرب اور اسلامی دنیا میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ امریکہ اور مغربی دنیا کے بڑے مخالفین میں شمار ہوتا تھا۔ 1970؁ء میں 52 سال کی عمر میں وفات پائی۔

([9]) ایران عراق جنگ (1980؁ء تا 1988؁ء): ایران میں یہ جنگ دفاع مقدس کے نام سے مشہور ہے۔ یہ بیسویں صدی کی طویل ترین روایتی جنگ تھی جو تقریبا 8 سال تک جاری رہی۔ سرحد پر معمولی جھڑپوں سے شروع ہونی والی یہ جنگ ایک وسیع اور خوفناک جنگ میں تبدیل ہوگئی جس میں عراق کی بعثی حکومت کی فضائیہ اور زمینی فوج نے بیک وقت دسیوں ایرانی ہوائی اڈوں  اور تمام سرحدی علاقوں کو نشانہ بنایا۔ ایرانی عوام نے شروع ہی سے اسے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا حملہ قرار دیا۔ بڑی عالمی طاقتوں کی مکمل پشت پناہی کے باوجود صدام حکومت ایران کی ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہ کر سکی۔ اقوام متحدہ کی طرف سے رسمی طور پر صدام کو اس جنگ کا ذمہ قرار دیا گیا۔

([10]) سُر کے ساتھ پڑھے جانے والے مقامی عربی زبان کے اشعار۔

([11]) لفظ شیخ قبیلے میں اس کے مقام کو بیان کرتا ہے۔

([12]) حزبِ تودہ: ایران کی معروف سیاسی پارٹی جو 40ء  سے 80ء کی دہائی سرگرم رہی۔ یہ ایران میں مارکسزم کی نمائندہ جماعت تھی۔ 80ء کی دہائی کے آغاز میں خیانت کے جرم میں اس پارٹی کے قائدین کو گرفتارکر لیا گیا اور پارٹی تحلیل کر دی گئی۔

([13]) عرب اپنے مخصوص انداز میں خوشی وغیرہ کے اظہار کے لیے مل کر کوئی شعر وغیرہ بلند آواز سے پڑھتے ہیں، جسے ’’ہوسہ‘‘ کہا جاتا ہے۔

نواں باب

سفید محل

دوہری شکست

1967؁ء کے شروع میں مجھے گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا۔ یہ میری تیسری گرفتاری تھی۔ یہ برس ان برسوں میں سے تھا جو ایران میں اسلام پسندوں پر انتہائی سخت اور دشوار گزرے۔ اس دوران شاہ کی حکومت نے علمائے دین پر انتہائی سختی کی۔ میری گرفتاری سے چند دن پہلے سید حسن قمی (آپ مشہد کے بڑے علماء میں سے تھے اور الحمد للہ اب بھی زندہ ہیں) کو بھی گرفتار کر کے ’’زابل‘‘ کی طرف شہر بدر کر دیا گیا تھا۔ اسی سال  عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ([1]) ہوئی اور عربوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، جس سے مسلمانوں کو دلی تکلیف پہنچی۔ جو بات ہمارے دلوں کو زیادہ رلاتی تھی وہ ایرانی شاہی میڈیا کا کینے سے بھرپور شرمناک  کردار اور رویہ تھا۔ جو کچھ  عربوں، خاص طور پر جمال عبد الناصر کے ساتھ پیش آیا، اس پر یہ میڈیا خوشی کا اظہار کر رہا تھا۔ جو کچھ امیرانی نے ’’خواندنی ها‘‘ نامی میگزین میں لکھا تھا وہ مجھے اب بھی یاد ہے۔ جب میں جیل میں تھا تب میں نے اس کینہ پرور شخص کے کچھ مقالے پڑھے۔ جو کچھ اس حادثے میں پیش آیا، اس پر وہ برملا خوشی کا اظہار کرتا تھا اور ایسی گھٹیا زبان استعمال کرتا تھا جس سے تمام اسلام پسند اور عام ایرانی مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے تھے۔

ایک باہدف کتاب

مقدمے کے طور پر میں بیان کرتا چلوں کہ 1964؁ء کے دوران میں قم سے مشہد منتقل ہوا اور1965؁ء میں، میں نے شادی کی۔ مشہد واپس آنے کے بعد فکری اور سیاسی سرگرمیوں کے ایک نئے سلسلے کا آغاز کیا۔ مشہد میں بہت سارے متحرک لوگوں اور حزب اختلاف کی شخصیات کے ساتھ میرے مسلسل اور گہرے روابط تھے۔ اسی طرح دینی مدارس اور یونیورسٹی کے  طلاب کے ساتھ بھی میرے اچھے  تعلقات تھے۔ فکری، تدریسی، تبلیغی اور منصوبہ بندی کے حوالے سے میری نشستیں ہوتی تھیں۔ جوانوں کو اسلامی بیداری سے متعلق اسلامی معارف پڑھانے کے لیے کلاسز کا انعقاد کرتا تھا۔ انہی تحریکی سرگرمیوں میں سے ایک مرحوم شاعر قدسی، شہید تدین اور خراسان کے ایک اور شخص کے ساتھ مل کر نشر و اشاعت کے ادارے کی تاسیس تھی۔ ہم نے اس ادارے کا نام سپیدہ (فجر) رکھا۔ اس ادارے سے شروع میں ہم نے انقلابی مضامین پر مشتمل بعض اسلامی کتابیں نشر کیں۔ پھر میں نے سید قطب کی کتاب ’’المستقبل لهذا  الدین‘‘ (اس دین کا مستقبل) کا ترجمہ کیااور ہم نے اس کتاب کو مشہور “مطبعہ خراسان” سے چھپوانا شروع کیا۔ جب کتاب کی طباعت اپنے آخری مراحل میں تھی ہم مشہد سے اپنے اہل و عیال اور رشتہ داروں کے ساتھ سیاحتی سفر پر نکلے۔ یہ سن 1966؁ء کے آخری ایام تھے اور اس وقت میرا بیٹا مصطفیٰ چالیس دن کا تھا۔ ہم تہران گئے، وہاں سے قم اور پھر اصفہان۔ پھر وہاں سے تہران واپس آئے تاکہ مشہد واپس جا سکیں۔ جب ہم تہران کے کسی ہوٹل میں تھے تب ہمیں خبر ملی کہ ساواک نے مطبعہ خراسان پر چھاپہ مارا کر کتاب ’’اس دین کا مستقبل‘‘ کے تمام نسخے ضبط کر لیے ہیں اور ہمارے ادارے ’’سپیدہ‘‘ کے سربراہ کو گرفتار کر لیا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ ساواک والے آپ کو تلاش کر رہے ہیں تاکہ آپ کو گرفتار کریں۔ کچھ مدت بعد ادارے کے ایک اور رکن کی گرفتاری کی خبر مجھ تک پہنچی۔ مجھے یقین ہوگیا کہ ساواک والے کتاب اور اس کے مترجم کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کے حوالے سے سنجیدہ ہیں۔ میں نے معاملہ اپنی زوجہ اور ساس کے سامنے رکھا جو میرے ساتھ تھیں۔ میں نے مشورہ دیا کہ آپ لوگ مشہد چلے جائیں اور مجھے وہاں کے حالات سے آگاہ کریں اور خبر دیں کہ تہران رہنے میں مصلحت ہے یا مشہد لوٹ جانے میں؟ میں نے انہیں بھیج دیا اور خود اکیلا ہوٹل کے کمرے میں رہا۔

کچھ دنوں کے بعد ایک دوست مذکورہ کتاب کےترجمے کے پچاس نسخے میرے پاس لے آئے۔ مجھے پتا چلا کہ  دوستوں نے خطرہ محسوس کیا تھا لہٰذا ساواک کے حملے سے پہلے ہی انہوں نے کتاب کے سو نسخے چھپا لیے تھے۔ کتاب دیکھ کر میں بہت خوش ہوا کیونکہ یہ میری پہلی کتاب تھی جو چھپ رہی تھی۔ اس کی چھاپ اچھی اور جلد خوبصورت تھی۔ میں نے بعض نسخے دوستوں میں تقسیم کیے اور باقی اپنے ایک عزیز کے ہاں امانت رکھے اور اسے بتایا کہ یہ کتاب ممنوع اور خطرناک ہے۔

کچھ دنوں بعد ایک دوست نے مجھے ایک مسجد میں دعوت دی جس کی بنیاد رکھی گئی تھی لیکن عمارت ابھی نہیں بنی تھی۔ مسجد کی انتظامیہ نے سوچا تھا کہ محرم کے ایام میں اس زمین سے استفادہ کیا جائے لہٰذا انہوں نے لوہے کی عارضی دیواریں کھڑی کیں، اوپر سے اسے ترپال سے ڈھانپااور اس جگہ کو نماز اور محرم کی مجالس کے لیے تیار کر دیا۔ میں نے دعوت قبول کر لی۔ میں محرم کے پہلے عشرے کے دوران لوگوں کو نماز پڑھاتا اور پھر مجلس پڑھتا تھا۔ پھر میں نے دوسرے عشرے کے لیے ایک خطیب کو اور آخری عشرے کے لیے ایک اور خطیب کو دعوت دی۔ یہ وہی مسجد ہے جسے عمارت کی تکمیل کے بعد مسجد ’’امیر المومنین,‘‘ کا نام دیا گیا اور یہ تہران یونیورسٹی کے قریب خیابانِ نصرت پر واقع ہے۔

آپ حکومت کو مطلوب ہیں

ایک دن میں تہران یونیورسٹی کے قریب سڑک سے گزر رہا تھا کہ اچانک شیخ ہاشمی رفسنجانی ملے۔ شیخ خوف اور حیرت کی نگاہ سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ مجھ سے کہنے لگے: ’’آپ کیسے سرِعام سڑکوں پر گھوم رہے ہیں اور روپوش نہیں ہوئے؟‘‘ میں نے پوچھا: ’’کس سے روپوش ہوں؟ جبکہ میں مسجد میں نماز بھی پڑھاتا ہوں اور مجلس پڑھتا ہوں۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’آپ کا پیچھا کیا جا رہا ہے۔ گیارہ رکنی گروہ کا پتا چل چکا ہے۔ شیخ آذری قمی کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اب تہران میں ہمارا پیچھا کیا جا رہا ہے۔‘‘ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ بس میں سوار تھے۔ جب مجھے دیکھا تو بس سے اتر آئے تاکہ مجھے اس معاملے سے آگاہ کریں۔

میں نے پوچھا: ’’اچھا، اب ہم کیا کریں گے؟‘‘

انہوں نے کہا: ’’آج گروہ کے چند ارکان کے ساتھ ہماری نشست ہے تاکہ آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں مشورہ کریں۔‘‘ چونکہ گروہ کے ارکان میں سے کسی کا بھی گھر تہران میں نہیں تھا لہٰذا اس کام کے لیے دار الحکومت کی ایک سڑک ’’شارع ایران‘‘ کی جگہ معین کی گئی تھی۔ ہم کسی دوسرے دوست کو زحمت نہیں دینا چاہتے تھے۔ ہم چاروں نے سڑک پر ملاقات کی: میں، شیخ ہاشمی، شیخ ابراہیم امینی اور شیخ قدوسی۔

پہلے بتا چکا ہوں کہ ساواک والوں نے شیخ قدوسی کو چند دن پہلے بلایا تھااور ان سے گیاہ رکنی گروہ سے متعلق پوچھ گچھ کی تھی۔ اب ہمارے لیے یہ جاننا ضروری تھا کہ پوچھ گچھ میں کیا باتیں ہوئیں تاکہ پتا چل جائے کہ ساواک والے گروہ کو کس حد تک جان چکے ہیں؟ ہماری میٹنگ کا اصل موضوع یہی تھا۔

اس خطرناک کام کے لیے کہاں بیٹھ کر مشاورت کی جائے اس حوالے سے ہم سب پریشان تھے۔ سب نے اتفاق کیا کہ ڈاکٹر واعظی کے کلینک میں جاتے ہیں۔ وہ ایک متدین ڈاکٹر تھے اور ان کا تعلق نجف آباد (شیخ ابراہیم امینی کے شہر) سے تھا۔ جو جگہ ہم نے معین کی تھی وہاں سے کلینک قریب پڑتا تھا۔ (ہم نے سوچا) مشاورت کے لیے ہم ویٹنگ روم میں بیٹھ جائیں گے۔ کسی ڈاکٹر کے ویٹنگ روم میں بیٹھنا ایک عام سے بات ہے، جس کی طرف کوئی متوجہ نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے کلینک مریضوں سے خالی تھا اور ہمارے لیے ویٹنگ روم میں بیٹھنا ممکن نہ تھا۔ جب وہاں کوئی مریض نہیں تھا تو انتظار کس بات کا؟! لہذا ہم کلینک سے نکل آئے۔

اسی حوالے سے ایک واقعہ بیان کرتا چلوں۔ ڈاکٹر کے کلینک والے واقعے کے بارہ سال بعد، انقلاب اسلامی کی کامیابی کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے، ایک رات ہم ڈاکٹر واعظی کے گھر تھے۔ شیخ محمد منتظری بھی وہاں موجود تھے۔ ڈاکٹر کا گھر ان کے کلینک کے ساتھ ایک ہی عمارت میں تھا۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا: ’’میں پہلے بھی اس بلڈنگ میں آچکا ہوں لیکن اس وقت عمارت اس قدر نئی نہیں تھی۔ لگ رہا ہے آپ نے اس میں ترمیم کی ہے اور اس کے کچھ حصوں کو دوبارہ بنایا ہے۔‘‘ میں ان کے ساتھ 1979؁ء میں بات کر رہا تھا۔ میں نے ان سے کہا: ’’میں 1966؁ء میں بھی، یعنی بارہ سال پہلے، اس بلڈنگ میں آچکا ہوں۔‘‘ میں نے وہ سارا واقعہ بیان کیا کہ کیسے ہم نے ان کے کلینک میں پناہ لی لیکن پھر حیرت زدہ اور مایوس ہو کر وہاں سے نکلے۔ ڈاکٹر صاحب نے غیر متوقع رد عمل کا اظہار کیا۔ اس بات نے انہیں پریشان کر دیا اور وہ رونے لگے۔ اپنے آپ کو کوستے ہوئے ملامت کرنے لگے کہ کیوں ان کا کلینک ہمیں پناہ نہیں دے سکا تھا۔ میں نے فورا انہیں تسلی دی۔ میں اپنے کہے پر نادم ہوا۔ میرا مقصد صرف اتنا تھا کہ جس بلڈنگ میں ہم بیٹھے ہوئے تھے اس کے حوالے سے اپنا واقعہ بیان کروں۔

اپنی بات کی طرف واپس آتا ہوں۔ ہم کلینک سے نکلے۔ ایک دوست نے مشورہ دیا کہ ڈاکٹر باہنر کے گھر چلتے ہیں۔ ان کا گھر شارع ایران سے قریب تھا۔ ہم ان کے گھر گئے۔ وہ گھر میں اکیلے تھے اور ان کی زوجہ گھر میں نہیں تھیں۔ ہم نے ان سے کہا کہ وہ گھر سے نکل جائیں اور ہمیں اکیلے چھوڑ دیں۔ یہ بات انہوں نے خوشی کے ساتھ قبول کر لی۔ چائے کی جگہ کی  طرف ہماری رہنمائی کی اور خود نکل گئے۔ آغا قدوسی نے بات شروع کی۔ جو کچھ ان کے اور ساواک والوں کے درمیان ہوا اور جو سوالات ان سے پوچھے گئے تھے، اس حوالے سے تفصیلات بتائیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس مختصر گرفتاری کے دوران ساواک والوں نے ایک فہرست دکھائی جس میں گروہ کے تمام گیارہ افراد کے نام درج تھے۔ میری طرف دیکھ کے انہوں نے کہا: ’’آپ کا نام سرفہرست تھا۔‘‘ یہ خبر خوفناک تھی کیونکہ بہت زیادہ احتمال تھا کہ ساواک والوں نے شیخ قدوسی کو اس لیے چھوڑا ہے تاکہ ان کا پیچھا کیا جائے اور ان کے روابط معلوم کیے جائیں۔ بہرحال اس میٹنگ میں یہ فیصلہ ہوا کہ جس کے لیے چھپنا ممکن ہو اسے اب چھپ جانا چاہیے۔

تہران میں میرے لیے چھپنا ممکن نہ تھا کیونکہ وہاں کوئی قابلِ اطمینان جگہ نہیں تھی۔ مسئلہ بہت گھمبیر تھا، سب کے نام پتا چل چکے تھے۔ گروہ کے دو ارکان شیخ منتظری اور شیخ ربانی شیرازی پکڑے جا چکے تھے۔ البتہ انہیں کسی اور معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا نہ اس وجہ سے کہ ان کا تعلق اس گروہ سے تھا۔ دوستوں کا فیصلہ یہ تھا کہ سب کو چھپ جانا چاہیے۔

گرفتاری تک تعاقب

میں نے فیصلہ کیا کہ مشہد جا کر وہاں روپوش ہو جاؤں گا۔ اپنے فیصلے کے بارے میں کسی کو نہیں بتایا۔ اپنا بیگ تیار کیا، بس میں سوار ہوا اور مشہد کی طرف چل نکلا۔ میرا گمان تھا کہ مشہد پہنچتے ہی ساواک والے مجھے گرفتار کر لیں گےکیونکہ کتاب والے معاملے میں میرا تعاقب کیا جا رہا تھا۔ لہٰذا میں شہر پہنچنے سے پہلے ایک چھوٹی سڑک پر اتر گیا جو ایک گاوں ’’اخلمد‘‘ تک جاتی تھی۔ یہ گرمیوں میں رہنے کے لیے ایک مناسب جگہ ہے اور مشہد سے تقریباً دس فرسخ کے فاصلے پر واقع ہے۔ میں گرمیاں گزارنے کے لیے پہلے بھی کئی مرتبہ یہاں کا سفر کر چکا تھا۔ بہار ابھی باقی تھی اور موسم بھی ابھی گرم نہیں ہوا تھا۔ گاؤں تک پہنچنے کے لیے سنسان پہاڑی دروں سے گزرتے ہوئے تقریباً دو فرسخ کا فاصلہ پیدل طے کیا۔ معمول سے زیادہ  اندھیرا چھا چکا تھا، جیسے دروں اور نشیبی علاقوں میں عام طور پر ہوتا ہے۔ اب بھی جب ان لمحات کو یاد کرتا ہوں تو اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس وقت مجھے اس طرح کی جرات عنایت کی۔ گاؤں کے راستے میں ہر چیز خوفناک تھی۔

میں گرمیوں میں اس گاؤں آتا رہتا تھا اور یہاں کے بعض باشندوں کو جانتا تھا۔ عام طور پر یہاں لوگوں کا ہجوم ہوتا تھا لیکن اس دفعہ جب میں داخل ہوا تو گاؤں بالکل سنسان تھا کیونکہ وہاں کا موسم ابھی تک سرد تھا اور لوگوں نے گرمیاں گزارنے کے لیے ابھی تک یہاں کا رخ نہیں کیا تھا۔

میری کوشش تھی کہ گاؤں میں میری کسی سے ملاقات نہ ہو۔ لہٰذا ایک شخص کی دکان پر گیا جسے میں نہیں جانتا تھا۔ اس سے کرائے کے کمرے کے بارے استفسار کیا۔ اس نے خوش آمدید کہا اور مجھے ساتھ اپنے گھر لے گیا۔ میں نے ایک یا دو راتیں اس کے پاس گزاریں پھر فیصلہ کیا کہ اب گاؤں سے چلا جاؤں کیونکہ گاؤں میں اجنبی شخص فوراً پہچانا جاتا ہے۔ خاص طور جب گاؤں سیاحوں سے خالی ہو۔ میں مشہد شہر کی طرف نکل پڑا۔

مشہد میں میرا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں تھا۔ میں ایک دن والد صاحب کے پاس اور ایک دن سسر کے گھر گزارتا تھا۔ میرا آنا جانا بھی سحر کے وقت یا رات کے پچھلے پہر میں ہوتا تھا۔ میں نے اسی طرح تین مہینے گزارے۔ میرے بھائی سید محمد، والد صاحب کے گھر روپوش تھے۔ وہ بھی اس گیارہ رکنی گروہ کا حصہ تھے۔

اسی سال 1966؁ء کی گرمیوں میں شیخ ہاشمی رفسنجانی اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہمارے پاس مشہد آئے۔ جیسا کہ پہلے بتایا، ان کا بھی تعاقب کیا جا رہا تھا۔ ہم ایک ٹھنڈے علاقے کی طرف گئے۔ اس حوالے سے میری کچھ یادیں ہیں جو ہمارے اس موضوع سے مربوط نہیں ہیں۔

میں مشہد میں چھپ کر زندگی گزاتے ہوئے تنگ آچکا تھا لہٰذا فیصلہ کیا کہ اس حالت سے نکلوں۔ میں تہران آگیا جہاں شہر کی وسعت، لوگوں کی بھیڑ اور اجنبی ہونے کی وجہ سے عادی زندگی گزارنا ممکن تھا۔ شیخ ہاشمی کے ساتھ مل کر ہم نے ایک گھر کرائے پر لیا اور ایرانی سال کے اختتام تک تہران میں ہی مقیم رہے۔

1967؁ء کا سال تھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا: اب میرا تعاقب کچھ کم ہوا ہے لہٰذا اب مجھے مشہد جانا چاہیے۔ ہاں البتہ عمومی جگہوں پر نکلنے سے گریز کرنا ہوگا۔

میں مشہد واپس آگیا۔ لیکن مجھ جیسا شخص معاشرے میں گوشہ نشین ہو کے نہیں رہ سکتا۔ میں اکثر سید میلانی اور سید قمی کے پاس چلا جاتا، معاشرے میں نظر آنے والے انحرافات کے حوالے سے ان سے بات چیت کرتا، ان سے علماء کی خاموشی کے بارے استفسار کرتا اور انہیں فاسد نظام کے خلاف بھرپور فیصلہ لینے کی ترغیب دلاتا تھا۔ لگتا ایسے ہے کہ میری یہ باتیں من وعن ساواک تک پہنچائی گئیں۔ یہ بات گرفتاری کے بعد مجھے پتا چلی۔ یقیناً ان دو شخصیات کے اطراف میں ایسے لوگ تھے جنہوں نے یہ باتیں پہنچائیں۔

3 اپریل 1967؁ء کو شیخ مجتبیٰ قزوینی کی وفات ہوئی۔ آپ کم نظیر اور عظیم لوگوں میں سے تھے۔ آپ ایک شریف، عالم، مومن، عابد، زاہد، عارف، قابلِ احترام اور با ہیبت انسان تھے۔ سید میلانی جیسے لوگ بھی ان کا احترام کرتے تھے۔ یہ بہت بڑا حادثہ تھا اور گھر پر رہنا میرے لیے ممکن نہیں تھا۔ میں بھی تشییع جنازہ کے انتظامات کرنے والوں میں سے تھا۔ شیخ کی تدفین اور لوگوں کے چلے جانے کے بعد (یہ ظہر کے کچھ دیر بعد کا وقت تھا) میں بھائی سید ہادی([2]) کے ساتھ والد صاحب کے گھر کی طرف چل پڑا۔ ہماری والدہ اس وقت حج پر تھیں اور والد صاحب اکیلے رہ رہے تھے۔ راستے میں ساواک والوں نے ہمارا محاصرہ کر لیا۔

 انہوں نے مجھ سے کہا: ’’ہمارے ساتھ ساواک کے دفتر چلو۔‘‘

 میں نے کہا: ’’نہیں چلوں گا۔ ‘‘

انہوں نے پولیس کی مدد لی اور پولیس والوں نے مجھے اور میرے بھائی کو پکڑ کر گاڑی میں ڈال لیا۔ ساواک کے دفتر سے میرے بھائی کو چھوڑ دیا گیا اور مجھے وہیں رکھا گیاکیونکہ ہدف میں ہی تھا۔

فوجی قیدی

مجھے ساواک کی عمارت سے چھاؤنی میں واقع فوجی جیل میں منتقل کر دیا گیا کیونکہ اس وقت مشہد میں سیاسی قیدیوں کے لیے کوئی خاص جیل نہیں تھی۔ یہ جیل محافظوں کے مرکز کے ساتھ واقع تھی۔ میری چوتھی قید بھی اسی جیل میں تھی۔ بعد میں انہوں نے سیاسی قیدیوں کے لیے خاص جیل بنائی جہاں میری پانچویں قید کٹی۔ جیل کی عمارت سفید اور صاف ستھری تھی۔ ہم اسے سفید محل یا سفید ہوٹل کہتے تھے۔ اس میں بعض انفرادی کوٹھڑیاں اور دو عمومی ہال تھے: ایک معمولی فوجیوں کے لیے اور دوسرا عہدے داروں کے لیے۔ لیکن اگر قیدی کوئی افسر ہوتا تو اس کے لیے ایک خاص کمرہ ہوتا تھا جو یقیناً سیاسی قیدیوں کی کوٹھڑیوں کی مانند نہیں تھا بلکہ اس میں کچھ سہولیات بھی ہوتی تھیں اور اس کا دروازہ بھی کھلا ہوتا تھا۔

جیل کے اندر سب فوجی قیدی تھے اور ان میں مشہد کے ایک تاجر کے علاوہ اور کوئی عام شہری نہیں تھا۔ اس کا نام قاسمی تھا۔ اس نے جب مجھے دیکھا تو بہت خوش ہوا۔ بظاہر وہ عراق کے سفر پر گیا تھا اور ایران لوٹتے ہوئے اسے گرفتار کر لیا گیا  تھا کیونکہ اس کے پاس امام خمینی= سے متعلق کچھ کاغذات تھے۔

اس وقت جیل میں ایک جوان افسر قید تھا جس پر اپنے بیوی کے قتل کا الزام تھا۔ اسے افسروں کے خاص کمرے میں رکھا گیا تھا۔ جب چاہتا کمرے سے نکلتا اور بعض اوقات غرور و تکبر کے ساتھ اور دوسرے قیدیوں سے بے اعتنائی برتتے ہوئے جیل کے ہالوں میں ٹہلتا۔

میں اور قاسمی دو الگ کمروں میں تھے لیکن وہ کمرے افسروں کے کمروں کی طرح نہیں تھے بلکہ سہولیات سے خالی اور پنجرے کی مانند تنگ تھے جبکہ باقی قیدی عمومی ہالوں میں تھے۔ دونوں کوٹھڑیوں کے دروازے پر تالا نہ تھا لہٰذا میں اور قاسمی سپاہیوں کے منع کرنے کے باوجود بھی آپس میں ملا کرتے تھے۔

یہاں اس مطلب کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ ستر کی دہائی سے پہلے قیدیوں کی حالت ستر کی دہائی کے بعد کے سیاسی قیدیوں سے مکمل طور پر مختلف تھی۔ اس وقت قیدیوں کے مابین ملاقاتیں، پڑھنا لکھنا، اپنے ساتھ کتابیں، کاغذ قلم اور ریڈیو رکھنا آسان کام تھا، اگرچہ بعض منتظمین کی تندروی کی وجہ سے کبھی کبھار ان کاموں میں بھی دشواری کا سامنا بھی ہوتا تھا، لیکن ستر کی دہائی میں یہ کام تقریباً ناممکن ہو چکے تھے۔

جیل میں عزاداری

جیل کے ابتدائی ایام میں ماہ محرم 1387؁ھ آن پہنچا۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہر طرف دینی فضا چھا جاتی ہے اور وعظ و نصیحت اور ذکر مصائب سید الشہداء, کی خاطر مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ قاسمی نے جیل کے اندر اسلامی شعائر کی ادائیگی میں میرے ساتھ تعاون کیا اور قیدیوں کو نماز جماعت کی ترغیب دلائی۔ میں ان فوجی قیدیوں کو نماز پڑھاتا، نماز کے بعد خطاب کرتا اور انہیں وعظ کرتا تھا۔ قاسمی میرے خطاب کے بعد واقعہ کربلا کو بیان کرتا اور امام حسین, کا مرثیہ پڑھتا تھا۔ چند راتوں تک یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا لیکن ایک رات جب جیل افسر داخل ہوا تو اس نے فوجی قیدیوں کو ایک سیاسی قیدی کے پیچھے نماز پڑھتے دیکھا۔ جیل میں داخل ہوتے ہوئے اسے توقع تھی کہ سپاہی فورا کھڑے ہوں گے اور اسے سیلیوٹ کریں گے لیکن ان کے چہرے رو بہ قبلہ تھے لہٰذا کسی نے بھی اسے اہمیت نہ دی۔ یہ منظر اس پر گراں گزرا اور وہ غصے کی حالت میں واپس چلا گیا۔

نماز ختم ہونے کے بعد جیل کے منتظمین میں سے ایک میرے پاس آیا اور کہنے لگا: ’’تمہیں نماز پڑھانے اور فوجی قیدیوں سے گفتگو کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘ یہ پابندی میرے فائدے میں تھی کیونکہ اس طرح سپاہیوں کی میرے ساتھ ہمدردیاں اور بڑھ گئیں۔ میں نے انہیں کہا ہر شب اپنی مجالس جاری رکھو اور ان میں کتاب ’’آنجا که حق پیروز است‘‘ (جہاں حق کامیاب ہے) کے کچھ صفحے پڑھو۔ اس کتاب میں امام حسین, کے انقلاب کی تحلیل کی گئی ہے اور شہداء کربلا کی سوانح حیات درج ہیں۔

میرا بیٹا مجھے نہ پہچان سکا

ایک دن میرے بڑے بیٹے مصطفیٰ کو جیل لایا گیا جب اس کی عمر دو سال تھی۔ ایک سپاہی بھاگتے ہوئے آیا اور کہا: ’’تمہارے بیٹے کو لائے ہیں۔‘‘ میں نے جیل کے دروازے کی طرف دیکھا تو ایک افسر مصطفیٰ کو اٹھائے میری طرف آرہا تھا۔ میں نے مصطفیٰ کو لیا اور اسے چوما۔ چونکہ میں کافی عرصے سے اس کی نظروں سے اوجھل جیل میں تھا لہٰذا وہ مجھے نہیں پہچان سکا۔ اس نے مجھے غمگین اور وحشت زدہ نظروں سے دیکھا اور پھر زار وقطار رونے لگا۔ میں اسے چپ نہ کرا سکا۔ اسے واپس افسر کے حوالے کر دیا تاکہ وہ اسے گھر والوں تک پہنچا دے۔ گھر والوں کو میری ملاقات سے روک دیا گیا تھا۔ مصطفیٰ میرے اندر ایک درد چھوڑ گیا جو اس دن کے بعد بھی مجھے تڑپاتا رہا۔

نامکمل ڈائری

میں نے اس جیل میں روزانہ کی یادوں کو قلم بند کرنا شروع کیا، لیکن آخر تک جاری نہ رکھ سکا کیونکہ جب مجھے بوریت محسوس ہوئی تو لکھنا چھوڑ دیا۔ آخری عبارت جو میں نے اس جیل میں لکھی وہ یہ تھی: ’’یہاں لکھنا چھوڑ رہا ہوں۔ اس لکھنے سے کیا فائدہ حاصل ہوگا؟‘‘ آج جب اس ڈائری کو دیکھتا ہوں تو اسے جاری نہ رکھنے پر افسوس ہوتا ہے کیونکہ وہ اتنی بھی بے فائدہ نہیں تھی جتنی  میں سمجھ رہا تھا۔

اسی جیل میں سید قطب کی کتاب ’’الإسلام و مشكلات الحضارة‘‘ (اسلام اور تمدنی مسائل) کا ترجمہ شروع کیا۔ کتاب کے اکثر حصے کا ترجمہ کر لیا لیکن تنگ و تاریک کوٹھڑی میں لمبا عرصہ رہنے کی وجہ سے افسردگی اور حزن وملال کی کیفیت ترجمہ مکمل کرنے اور مقدمہ لکھنے کی راہ میں حائل ہوگئی۔ یہ کام چوتھی دفعہ جیل جانے تک نامکمل رہا اور چوتھی قید میں پایۂ تکمیل تک پہنچا۔ پس اس کتاب کا ترجمہ ایک جیل میں شروع ہوا اور دوسری میں اختتام کو پہنچا۔

میں نے اس ڈائری میں فوجیوں کے برے اخلاق، بعض کے گھٹیا طرز عمل اور افسروں کے سپاہیوں کے ساتھ برے رویے کی تصویر کشی کی۔

میری ڈائری میں کچھ سطریں اس فوجی افسر کے بارے بھی ہیں جو جیل میں قید تھا۔ خوش قسمتی سے وہ مذہبی روح اور واجبات و فرائض کی ادائیگی میں رغبت رکھتا تھا۔ عموما جیل کی سختیاں انسان کو دین کی طرف مائل اور دعا و عبادت کی طرف متوجہ کر دیتی ہیں۔ جیل اس کشتی کی طرح ہے جس کے بارے میں خداوند متعال نے فرمایا ہے:

فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصينَ لَهُ الدِّينَ.([3])

اور جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو ایمان اور عقیدے کے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں۔


([1]) عرب اسرائیل جنگ (1967؁ء): یہ جنگ ۶ دن تک جاری رہی۔ اسرائیل نے غزہ کی پٹی، مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس، مصر کے جزیرہ سینا اور شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا اور فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور علاقوں سے نکال دیا۔

([2]) سید ہادی خامنہ ای (ولادت 1947؁ء): رہبر معظم کے بھائی، جنہوں نے مشہد کے حوزہ علمیہ میں تعلیم حاصل کی اور پہلوی دور حکومت میں سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے گرفتار کیے گئے۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد تین دفعہ مشہد کی عوام کی طرف سے پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ اسی طرح ایک دفعہ تہران سے بھی منتخب ہوئے۔ 1986؁ء میں انقلاب کی سالگرہ کی ریلی کے دوران نے ان کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی، جس میں آپ محفوظ رہے، لیکن آپ کا پاؤں زخمی ہوگیا۔

([3]) عنکبوت: 65

دسواں باب

پرانا قالین

فلسطین کی آواز

سن 1970؁ء میں مجھے گرفتار کیا گیا جس کی وجہ ساواک کو میرے بارے میں ملنے والی متعدد خبریں تھیں۔ میں اسی سال گرمیوں کی ایک رات بیٹھا ریڈیو کا پروگرام ’’صوت فلسطین‘‘ (فلسطین کی آواز) سن رہا تھا۔ یہ اس سیاہ ستمبر کے دن تھے جب اردن میں فلسطینیوں کو ہولناک قتل عام کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ایک بڑا حادثہ اور عظیم سانحہ تھا۔ ہمارے پاس اس حادثے کے مقابلے میں سوائے اس کے کہ اپنے غمزدہ دلوں کے ساتھ فلسطینی ریڈیو اٹھائیں اور آخر تک اس قتل عام کی خبریں سنیں، کچھ نہیں تھا۔

مجھے یاد ہے ریڈیو اس رات قاہرہ میں منعقدہ عرب لیگ کے اجلاس کے لیے اردن سے یاسر عرفات کا پیغام نشر کر رہا تھا۔ میں خبر نگار کے کے ساتھ ساتھ ریڈیو سے اس پیغام کی عبارت لکھ رہا تھا۔

اس پیغام نے مجھ پر اتنا اثر کیا کہ آج بھی اس کی بعض عبارتیں مجھے یاد ہیں۔ 1980؁ء میں جب یاسر عرفات تہران تشریف لائے تو میں نے انہیں اس پیغام کی بعض جملے یاد دلائے۔ ان کا ایک جملہ یہ تھا: ’’خون کا دریا۔۔۔ بیس ہزار مقتول اور زخمی۔۔‘‘ تو یاسر عرفات نے کہا: ’’نہیں، بلکہ پچیس ہزار مقتول اور زخمی!‘‘

میں سننے اور لکھنے میں مشغول تھا کہ میرے بھائی سید ہادی حیرت اور پریشانی کی حالت میں داخل ہوئے۔ انہوں نے کہا: ’’تم یہاں بیٹھے ہو؟‘‘ میں نے کہا: ’’مجھے کہاں ہونا چاہیے؟‘‘ بولے: ’’انہوں نے تمہیں گرفتار نہیں کیا؟‘‘ میں نے کہا: ’’آپ مجھے اپنے سامنے بیٹھا ہوا دیکھ رہے ہیں۔‘‘ وہ

زمین پربیٹھے، سانس لیا اور کہا: ’’میں مسجدِ گوہر شاد میں تھا کہ ایک شخص کو کہتے ہوئے سنا (اس شخص کا نام لیا۔ وہ شخص اسلامی تحریک سے متنفر اور ظالم حکومت کے ساتھ ہمدردری رکھتا تھا) کہ سید علی خامنہ ای کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ میں فورا اٹھا اور جلدی سے آپ کے گھر کی طرف آ گیا۔‘‘ بھائی میری گھر میں موجودگی سے مطمئن ہونے کے بعد چلے گئے لیکن میرے ذہن کو کچھ تشویش میں ڈال گئے۔ میں نے مسئلے کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ اگلے دن ظہر سے پہلے حسبِ عادت والد گرامی کے گھر گیا۔ ان دنوں میں روزانہ ان کی زیارت کرتا اور ان کے ساتھ کچھ وقت گزارتا تھا جس میں ان کے ساتھ فقہی اور علمی مسائل کے متعلق بحث و گفتگو کیا کرتا تھا۔ میں والدِ گرامی کے پاس بیٹھا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ والدہ دروازہ کھولنے گئیں۔ تھوڑی دیر بعد حیرت زدہ حالت میں واپس آئیں اور کہا ساواک کے دو لوگ آئے تھے۔ تمہارے بارے میں پوچھ رہے تھے۔

’’اور آپ نے کیا جواب دیا؟‘‘

’’میں نے کہا کہ موجود نہیں ہے۔‘‘

’’امی جان! آپ نے انہیں حقیقت سے آگاہ کیوں نہیں کیا؟‘‘

’’یہ لوگ بھیڑیے ہیں۔ ان کے شر کو روکنا ضروری ہے۔‘‘

وہ ساواک اور ساواکیوں کو لعن طعن کرنے اور اپنے غصے کا اظہار کرنے لگیں۔ والد محترم اس واقعے سے کافی متاثر ہوئے۔ ان کے چہرے پر حزن و ملال ظاہر ہوا۔ مجھے شکایت آمیز لہجے میں کہنے لگے: ’’کیا ہوا؟ کیوں دوبارہ اپنے آپ کو قید اور عدالتوں کے لیے پیش کر رہے ہو؟!‘‘

میں نے کوشش کی کہ والدین کو تسلی دوں اور ان کی پریشانی ختم کروں۔ میں نے کہا: ’’کوئی مسئلہ نہیں ہے، یقیناً وہ غلطی سے ہمارے گھر آئے ہیں۔ ‘‘

پھر میرے ذہن میں آیا کہ ساواک والے ابھی میرے گھر جائیں گے پس مجھے ان سے پہلے وہاں پہنچ کر زوجہ کو بتانا چاہیے تاکہ وہ اچانک انہیں دیکھ کر پریشان نہ ہو جائیں۔ میں نے والدین کو الوداع کیا اور جلدی سے نکلا۔ جب گھر پہنچا تو دیکھا کہ تمام معاملات معمول کے مطابق تھے اور کوئی بھی گھر کی طرف نہیں آیا تھا۔ میں نے زوجہ کو ساری روداد سے آگاہ کیا۔

ثابت قدم زوجہ کی وفاداری

وفا کا تقاضا یہ ہے کہ میں اپنی زندگی میں اپنی ہمسر کے کردار کے حوالے سے چاہے تھوڑا ہی سہی، کچھ ضرور کہوں۔ پہلی خصوصیت یہ کہ وہ اطمینان، سکون اور بلند حوصلے کی حامل تھیں۔ باوجود اس کے کہ ہمارا گھر کئی مرتبہ حکومتی کارندوں کے حملوں کا شکار رہا، میں ان کے سامنے متعدد مرتبہ گرفتار ہوا، آدھی رات کے وقت مجھے گرفتار کرنے کے لیے میرے گھر پر حملہ کیا گیا اور مجھے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا، جس کی تفصیل بعد میں آئے گی، لیکن میں نے کبھی اپنی زوجہ پر خوف، کمزوری اور بے چارگی کے آثار نہیں دیکھے۔

وہ مجھ سے جیل میں بلند اور مضبوط حوصلے کے ساتھ ملاقات کرتی تھیں۔ وہ اپنی ملاقات کے دوران میرے اندر اعتماد اور اطمینان پیدا کر جاتی تھیں۔ زوجہ نے مجھے جیل میں کبھی کوئی ایسی خبر نہیں سنائی جس نے مجھے پریشان کیا ہو۔ اور مجھے یاد نہیں کہ کبھی بچوں میں سے کسی کے بیماری کی خبر دی ہو یا والدین اور رشتہ داروں سے متعلق کوئی پریشان کن بات بتائی ہو۔

دوسری صفت انقلاب سے پہلے غربت اور تنگدستی پر صبر وتحمل کرنا اور انقلاب کے بعد سادہ زندگی پر اصرار کرنا تھی۔

خدا کا شکر ہمارا گھر ہمیشہ سے فضول خرچیوں اور ان تکلفات و آرائشوں سے مکمل دور رہا جو عام گھروں میں پائی جاتی ہیں۔ اس میں میری زوجہ کا بڑا کردار اور حصہ ہے۔ درست ہے کہ میں نے اپنی زندگی کا آغاز اسی طرح کیا اور زوجہ کی بھی اسی راہ کی طرف رہنمائی کی اور ان کے اندر اس روح کو بیدار کیا لیکن ایمانداری کے ساتھ کہوں گا کہ وہ اس میدان میں مجھ پر سبقت لے گئیں۔

میرے ذہن میں اس نیک و صالح خاتون کے زہد کی بہت ساری یادیں موجود ہیں جن میں سے بعض کا ذکر مناسب نہیں ہے۔ جن چیزوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے کبھی مجھ سے اپنے لیے لباس خریدنے کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ وہ مجھے بتاتیں کہ بچوں کے لیے کپڑوں کی شدید ضرورت ہے اور خود جا کے خرید لاتیں۔ انہوں نے کبھی اپنے لیے زیور نہیں خریدا۔ ان کے پاس اپنے والد کے گھر سے اور بعض عزیزوں کی طرف سے تحفے میں ملنے والا زیور تھا جسے انہوں نے بیچ دیا اور اس کی رقم راہِ خدا میں خرچ کر دی۔ ان کے پاس اس وقت کسی قسم کا زیور یہاں تک کہ ایک معمولی انگوٹھی بھی نہیں ہے۔ مجھے ان کا زیور بیچنے کا واقعہ یاد ہے۔ ایک سال سردی کے ایام تھے اور مشہد میں عموماً سخت سردی پڑتی ہے۔ لوگ اس زمانے میں گھروں کو گرم کرنے کے لیے کوئلہ خریدتے تھے۔ سردی کے دنوں میں بعض مؤمنین مجھ سے رابطہ کرتے اور مجھے کچھ رقم دیتے تاکہ اس سے کوئلہ خریدوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کر دوں۔ میں معمولاً کوئلے کی دکان سے کوئلہ خریدتا اور ضرورت مندوں کو اس دکان کی پرچی دے دیتا کہ وہ خود دکان سے کوئلہ اٹھا لیں۔

اُس سال مخیر حضرات نے رابطہ نہیں کیا لیکن ضرورت مندوں نے رابطہ کیا جو عام طور پر ان ایام میں کوئلے کے حصول کے لیے علماء کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ وہ لوگ میرے گھر سے نا امید واپس لوٹ رہے تھے۔ اس چیز نے مجھے بہت غمگین کیا۔ زوجہ نے یہ حالت دیکھی تو مجھے تجویز دی کہ میں ان کا وہ دستبند بیچ دوں جو ایک بچے کی ولادت کے موقع پر ان کے بھائی نے انہیں دیا تھا۔ میں نے انکار کیا لیکن ان کا اصرار جاری رہا۔ میں نے وہ دستبند لے لیا اور ارادہ کیا کہ جتنی زیادہ قیمت میں ممکن ہو اسے بیچ دوں۔ جیولری والے عموما سونا وزن کے ساتھ خریدتے ہیں اور اس پر ہونے والی تزئین و آرائش کی اجرت کا حساب نہیں کرتے۔ اتفاقاً ہمارا ایک دوست اور ہمسایہ ہمارے گھر آیا۔ میں نے اسے پوری کہانی سے آگاہ کیا تاکہ اسے رغبت دلاؤں اور وہ زیادہ قیمت  کے ساتھ دست بند کو بیچ دے۔ وہ گیا اور اس نے ایک ہزار اور چند سو تومان میں اسے بیچ دیا اور آ کر کہا: ’’میں اس رقم پر اتنی ہی رقم اور اضافہ کرتا ہوں۔‘‘ پس میرے پاس اچھی خاصی رقم جمع ہوگئی جس سے میں نے کوئلہ خریدا، اور اس طرح میری زوجہ کی پریشانی ختم ہوئی۔

جیسا کہ حطیئہ شاعر نے کہا ہے:

و بات أبوهم من بشاشته أبًا                  لضيفهم والأمّ من بشرها أما

ان کے ماں باپ اتنے خوش اخلاق اور مہربان تھے کہ ان کے مہمانوں کے ساتھ بھی ماں باپ کی طرح پیش آتے تھے۔

میں سمجھا، تمہارے گھر میں سامان ہوگا

فضول خرچی سے دور رہنے کا میری زندگی پر بہت بڑا اثر تھا کیونکہ ضرورت سے بڑھ کر خرچ انسان کو غلام بنا دیتا ہے۔ جیسا کہ شاعر نے کہا

لقد دقّت و رقّت و استرقّت فضول العيش أعناق الرّجال

فضول خرچی لوگوں کی گردنیں کاٹ ڈالتی ہے، انہیں ذلیل کرتی ہے اور انہیں غلام بنا دیتی ہے۔

شیخ ربانی املشی میرے گہرے دوست تھے۔ وہ دو سال تک حوزہ علمیہ قم کے درسوں میں میرے ہم جماعت رہے۔ وہ ایک سال گرمیوں میں مشہد آئے۔ میں اس وقت اسی شہر میں رہتا تھا اور وہاں میرا گھر تھا لیکن ان گرمیوں میں چند ہفتوں کے لیے اپنا گھر چھوڑ کر شہر کے قریب ایک گاؤں منتقل ہو چکا تھا۔ مشہد کے دیہاتوں میں (جہاں لوگ گرمیاں گزارتے ہیں) رہن سہن سادہ اور کم خرچ ہے۔ دینی طالب علم گرمی کی چھٹیوں میں ان دیہاتوں میں گھر یا کمرے لے کر رہ سکتے ہیں۔ بعض اوقات تو وہاں کے اخراجات شہر سے بھی کم ہوتے ہیں۔ میں نے شیخ ربانی سے کہا: ’’آپ میرے گھر میں ٹھہر سکتے ہیں۔ گھردو دنوں علاوہ باقی پورے  دو ہفتوں کے لیے خالی ہے۔‘‘ میں نے وہ دو دن ایران کے مختلف علاقوں سے آنے والے جوانوں کے ساتھ نشستوں کے لیے مختص کیے ہوئے تھے اور گھر صبح سے ظہر تک جوانوں سے بھرا رہتا تھا۔ میں نے شیخ ربانی کو گھر کی چابی دی۔ چند دنوں بعد ان سے ملاقات ہوئی۔ وہ شکریہ ادا کرنے کے بعد کہنے لگے: ’’میں نے سمجھا تمہارے گھر میں سامان ہوگا۔ مجھے معلوم نہیں تھا تم سامان اپنے ساتھ لے گئے اور گھر خالی چھوڑ گئے ہو۔ اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں ہوٹل میں رہ لیتا۔‘‘ وہ ایک خاص لہجے کے ساتھ جس میں ان کا میرے ساتھ صمیمانہ تعلق بھی جھلک رہا تھا، شکایت کیے جا رہے تھے۔ مجھے اصل بات سمجھ آگئی۔ میں نے ان سے کہا: ’’میں نے گھر سے چند کمبلوں، چند پلیٹوں، چمچوں اور ایک گلاس کے علاوہ کچھ نہیں اٹھایا۔‘‘ وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے اور بولے: ’’کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ میں نے کہا: ’’جی ہاں۔ میرے پاس یہی کچھ ہے اور میرا سارا سامان وہی ہے جو آپ نے گھر میں دیکھا ہے۔ اس سے زیادہ سامان میرے پاس نہیں ہے۔‘‘ شیخ پر خاموشی چھا گئی۔ حیرت سے اپنا سر ہلایا جس میں اپنی شکایت پر افسوس بھی شامل تھا اور ایک شفقت بھرا جملہ کہا جو مجھے ابھی تک یاد ہے۔

چٹائی سے سستا قالین

ہمارے رہن سہن کے بارے میں ایک اور مثال، جس کا تذکرہ کرتا چلوں، ہمارے گھر کا قالین ہے۔ ہمارے گھر میں ایک قالین بچھا ہوا تھا، جیسا کہ ایرانی گھروں میں معمول ہے۔ لیکن میں نے دیکھا کہ یہ قالین اضافی ہے تو اسے بیچ دیا اور اپنی زوجہ کے مہمانوں کے کمرے میں دو قالین باقی رہنے دیے اور خود سے کہا: میں ان دو قالینوں کو زوجہ کے جہیز کے قالین کا بدل فرض کرتا ہوں۔ جب میں نے قالین بیچنے کا ارادہ کیا تو زوجہ کے گھر والوں کو نہیں بتایا۔ میری زوجہ کے بھائی اور ماموں قالین کی تجارت کرتے تھے اور میں جانتا تھا کہ وہ مجھے قالین بیچنے سے روک دیتے۔ میں نے ایک برادر حاج صفاریان کو بلایا،  وہ آج بھی مشہد میں رہتے ہیں، اور ان سے کہا: ’’اتنے عدد قالین لے جائیں اور بیچ دیں اور اس کے بدلے ہمارے لیے چٹائیاں خرید لیں۔ چٹائی ایران میں سستی اور چھوٹی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’جی حاضر خدمت!‘‘ وہ گئےاور چٹائیاں خرید لائے۔ تین کمروں میں چٹائیاں بچھیں اور کافی ساری چٹائیاں بچ گئیں۔ شاید تین کمروں میں ۹ چٹائیاں بچھیں اور ۱۴ یا ۱۵ چٹائیاں باقی بچ گئیں۔ میں نے اپنے ایک شاگرد شہید کامیاب سے کہا: ’’حاج صفاریان کی گاڑی میں بیٹھو اور ان چٹائیوں کو طالب علموں میں تقسیم کر دو۔ ہر طالب علم کو ایک یا دو چٹائیاں اس کی ضرورت کے مطابق دے دو۔‘‘ اس نے ایسا ہی کیااور شاید ابھی تک بعض برادران کے گھروں میں وہ چٹائیاں موجود ہوں۔

جب زوجہ نے یہ سب دیکھا تو صرف یہی کہا: ’’آپ نے یہ دو قالین میرے کمرے میں کیوں باقی رکھے؟‘‘ میں نے کہا: ’’یہ اس قالین کے بدلے ہیں جو آپ اپنے جہیز میں لائی تھیں۔‘‘ کہنے لگیں: ’’نہیں انہیں بھی بیچ دیں۔‘‘ میں نے اسی برادر حاجی صفاریان کو بلایا اور انہوں نے وہ دو قالین بھی بھیچ دیے۔ پھر ہم نے زوجہ کے مہمانوں کے کمرے میں کارپٹ کے دو ٹکڑے بچھائے۔ وہ اس وقت ہماری نظروں میں چٹائیوں سے بہتر تھے۔ پھر زوجہ نے وہ کارپٹ کے دو ٹکڑے بھی تحفے میں دے دیے اور آج بھی ہمارے گھر میں صرف وہی ۹ چٹائیاں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ گھر میں کسی قسم کا قالین موجود نہیں ہے سوائے قالین کے ایک ٹکڑے کے جس کی دلچسپ کہانی میں بعد میں ذکر کروں گا۔

ہمارے قالین بیچنے کے بعد زوجہ کے بھائی اور ماموں ہمارے گھر آئے۔ گھر دیکھا تو حیران ہوئے اور مجھ سے گلہ کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’قالین باقی رہتا ہے اور چٹائی بوسیدہ ہوجاتی ہے۔ یہ زہد نہیں بلکہ اسراف ہے۔‘‘ میں نے ان سے کہا: ’’پہلی بات یہ ہے کہ میرے خیال میں کفایت شعاری صرف قالین خریدنے اور چٹائی نہ خریدنے میں نہیں ہے اور پھر میں نےیہ اس لیے کیا کیونکہ لوگ مجھے اپنے لیے نمونۂ عمل سمجھتے ہیں لہٰذا میں چٹائی اور کارپٹ پر زندگی گزارنے کو ترجیح دیتا ہوں۔‘‘

پھر ان میں سے ایک نے کہا: ’’چٹائی سے سستا قالین بھی موجود ہے۔ آپ نے وہ قالین کیوں نہیں خریدا؟‘‘ میں نے پوچھا: ’’کیا ایسا قالین بھی ہے؟‘‘ کہنے لگے: ’’جی ہاں ایک قالین ہے جسے قالین بیچنے والے ’’اقرع‘‘ کہتے ہیں جس کے بعض اطراف سے اون اتر جاتی ہے اور دھاگے باقی رہ جاتے ہیں۔ اگر آپ قناعت کرنا چاہتے ہیں تو اس طرح کا قالین خرید لیں۔‘‘ میں گیا اور دو قالین خرید لایا جو ابھی تک موجود ہیں۔ یہ وہ استثنائی قالین ہے جس کا میں ذکر کر رہا تھا۔ وہ دونوں قالین میرے کتابخانے میں بچھے ہوئے ہیں۔ جس گھر میں، میں ابھی رہتا ہوں وہ دو منزلہ گھر ہے: ایک منزل اہل وعیال کے لیے اور اوپر والی منزل میں ایک کمرہ میرے کام کے لیے اور دوسرا استراحت کے لیے۔ اس منزل میں لائبریری کے لیے ایک ہال بھی ہے۔ وہ دونوں قالین اسی ہال میں بچھے ہوئے ہیں اور دونوں تاریخی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب میں ایران کا صدر تھا اور پارلیمنٹ کی پشت پر ایک سادہ سے گھر میں رہتا تھا تو اس گھر میں بھی یہی دو قالین بچھے ہوئے تھے۔ ایک دوست آئے اور قالین دیکھ کر میرے بچوں سے پوچھا: ’’آپ لوگوں نے دونوں قالین الٹے کیوں بچھائے ہوئے ہیں؟‘‘ بچے ہنستے ہوئے کہنے لگے: ’’قالین الٹے نہیں بلکہ سیدھے ہی بچھے ہوئے ہیں۔‘‘ اون اتر جانے اور صرف دھاگے رہ جانے کی وجہ سے اس دوست نے سمجھا کہ قالین الٹے پڑے ہوئے ہیں۔

زہد کے حوالے سے ہمارے گھر کی بعض ایسی باتیں بھی ہیں جن کا بیان کرنا میں مناسب نہیں سمجھتا۔ میں پھر کہوں گا یہ سب اللہ تعالیٰ کے ہم سب پر اور اس نیک زوجہ پر فضل و احسان کا نتیجہ ہے۔ دنیاوی زرق برق اور فضول خرچیوں کے حوالے سے اس خاتون کا رویہ واقعا ایک عالی مرتبہ روح کا نتیجہ ہے جو خداوند متعال نے انہیں عطا کی تھی اور ہم بھی اس احسان سے بہرمند تھے۔ جیل، تشدد، شہر بدری اور قاتلانہ حملوں سمیت جتنی مشکلات پیش آئیں میں نے کبھی ان کے چہرے پر کمزوری کے آثار نہیں دیکھے بلکہ میں اپنے مزاحمتی راستے کو جاری رکھنے میں ان کے عزم و ارادے سے مدد لیتا تھا یہاں تک کہ میری مرحوم والدہ  اگرچہ صبر، بصیرت اور استقامت جیسی صفات کی حامل تھیں لیکن اس درجے کا تحمل اور استقامت نہیں رکھتی تھیں۔ میری والدہ بہادر اور جرات مند خاتون تھیں۔ آپ ہمیشہ مجھے جہاد کے راستے پر گامزن رہنے کی ترغیب دلاتیں۔ یہاں تک کہ پہلی مرتبہ جیل سے آزاد ہونے پر آپ نے کہاتھا: ’’اے میرے بیٹے! مجھے تم پر فخر ہے اور خدا سے دعاگو ہوں کہ وہ اس راستے میں اپنی توفیق تمہارے شامل حال رکھے۔‘‘ لیکن بار بار کی گرفتاریوں اور جیلوں نے انہیں تھکا دیا تھا اور ایسی باتیں کرنے لگی تھیں کہ گویا میری جوانی جیلوں میں گزر جانے پر شاکی ہیں لیکن زوجہ پر کبھی کمزوری، پریشانی یا تھکاوٹ کے آثار دکھائی نہیں دیے۔

کتاب صلحِ امام حسن

دوبارہ اسی بات کی طرف آتا ہوں جب میں والد کے گھر سے اپنے گھر لوٹا۔ زوجہ نے جیل جانے کی تیاری میں فورا میری مدد شروع کر دی۔ مجھے جب بھی لگتا کہ میں گرفتار ہونے والا ہوں تو اپنے ضروری لوازمات مہیا کرتا اور جیل جانے کے لیے آمادہ ہو جاتا۔ اپنا لباس تبدیل کرتا، ناخن کاٹتا اور مونچھیں اور داڑھی بناتا۔ میں نے یہ سارے کام انجام دیے۔ اس وقت جس چیز کی فکر مجھے لاحق تھی وہ کتاب ’’صلح امام حسن,‘‘ کے ترجمے کا نامکمل ہونا تھا۔ میں اس کتاب کے ترجمے میں مشغول تھا اور ناشر اسے جلدی چھپوانے کا خواہش مند تھا۔ میں نے کتاب کے جس حصے کا ترجمہ کیا ناشر نے وہ مجھ سے لے کر پرنٹنگ پریس بھجوا دیا اور بعض نمونے میرے پاس تصحیح کے لیے بھیجے۔ پس کتاب کا کچھ حصہ چھپ چکا تھا اور کچھ حصے کا ترجمہ ہو چکا تھا لیکن اس کا جائزہ لینا ابھی باقی تھا اور کچھ حصے کا ابھی تک ترجمہ ہی نہیں ہوا تھا۔

میں ان کاپیوں اور صفحات کو الگ کرنے، ترتیب دینے اور منظم کرنے میں مشغول ہو گیا تاکہ اگر جیل میں ان کی ضرورت پڑے تو انہیں منگوا سکوں۔ شاید وہ مجھے میرا کام مکمل کرنے کی اجازت دیں۔ ہم نے دن کا کھانا کھایا، نمازِ ظہرین ادا کی اور ساواک والوں کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔ زوجہ پر نیند غالب ہوئی اور وہ گہری نیند سو گئیں۔ میں کتابخانے میں داخل ہوا تاکہ بعض کتابیں نکال لوں۔ ممکن ہے جیل میں ان کے مطالعے کی اجازت مل جائے۔ وہاں میرے ذہن میں ایک بات آئی کہ کیوں نا میں نظروں سے اوجھل ہو کر کسی محفوظ جگہ پر روپوش ہو جاؤں تاکہ کتاب کا ترجمہ مکمل کرلوں۔ بعد میں جو ہونا ہوا دیکھ لیں گے۔ چند مرتبہ قرآن کریم سے استخارہ کیا، تمام آیات مخفی ہونے کی ترغیب دلا رہی تھیں۔ ان میں سے ایک آیت یہ تھی:

فَقالَ إِنِّي أَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَيْرِ عَنْ ذِكْرِ رَبِّي حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ۔([1])

تو انہوں نے کہا کہ میں ذکر خدا کی بنا پر خیر کو دوست رکھتا ہوں یہاں تک کہ وہ گھوڑے دوڑتے دوڑتے نگاہوں سے اوجھل ہو گئے۔

میں نے جلدی سے صفحات جمع کیے، زوجہ کو جگایا اور انہیں اپنے ارادے سے آگاہ کیا۔ وہ خوش ہوئیں اور کہنے لگیں: ’’کہاں؟‘‘ میں نے کہا: ’’نہیں معلوم لیکن میں کتاب کا ترجمہ ختم کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ انہوں نے میری سلامتی کے لیے دعا کی اور مجھے الوداع کیا۔ میں گھر سے اس خیال کے ساتھ نکلا کہ شاید گھر کی نگرانی ہو رہی ہے لیکن کوئی دکھائی نہ دیا۔

اپنے دوست مرحوم شاعر غلام رضا قدسی کے گھر پہنچا۔ انہوں نے مجھے ظہر کی گرمی کے وقت اپنے دروازے پر پایا تو کافی حیران ہوئے۔ میں نے سارا ماجرا بیان کیا۔ انہوں نے میرا استقبال کیا اور بہت خوش ہوئے کیونکہ وہ بھی میری طرح اسلام کا درد رکھنے والے تھے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ میں ان کے گھر رہوں اور وہیں اپنا ترجمہ مکمل کروں لیکن میں نے قبول نہیں کیا اور ان سے کہا کہ میں چار دیواری کے اندر نہیں رہ سکتا بلکہ کسی ایسی جگہ جانے کا ارادہ رکھتا ہوں جہاں نقل و حرکت بھی ممکن ہو۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ میرے دوست سید جعفر قمی کو بلائیں تاکہ ہم مل کر مشاورت کریں اور میرے رہنے کے لیے مخفی جگہ کا انتخاب کریں۔ یہ دوست بھی اسلام کا درد رکھنے والوں میں سے تھے اور انہوں نے کئی سال شہر بدری کی زندگی گزار رکھی تھی۔ سید جعفر، مرحوم قدسی کے گھر آئے۔ مشاورت کے بعد طے پایا کہ میں مشہد کے اطراف میں واقع ’’اخلمد‘‘ گاؤں میں رکوں، جہاں لوگ گرمیاں گزارنے آتے تھے۔ میں نے مشہد سے نکلنے اور پھر اس گاؤں جانے کے بارے میں استخارہ کیا۔ دونوں استخاروں کا نتیجہ اچھا نکلا۔ میں نے ایک رشتے دار کو بلایا جن کے پاس گاڑی تھی۔ سید جعفر قمی نے اصرار کیا کہ وہ میرے ساتھ رہیں گے تاکہ میں تنہائی محسوس نہ کروں۔ میں وہاں ایک ماہ یا اس سے زیادہ قیام پذیر رہا۔ کتاب کا ترجمہ مکمل کیا اور تہران بھجوا دیا جہاں برادر حسن تہرانی نیری نے اسے چھپوانا تھا۔

میں مشہد واپس آیا اور معمول کے مطابق زندگی شروع کر دی۔ نقل و حرکت بھی کرتا اور مجالس میں بھی شرکت کرتا۔ میں نے کسی کو نگرانی یا پیچھا کرتے ہوئے نہیں پایا۔ میں نے سوچا شاید وہ لوگ میری گرفتاری کے فیصلے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ شاید جس بات نے انہیں میری گرفتاری پر اکسایا تھا وہ اتنی اہم نہیں تھی۔ میں مطمئن ہو چکا تھا لہٰذا جو چیزیں چھپائی تھیں ان کو واپس اپنی جگہ پر رکھ دیا۔ لیکن میرا گمان درست نہیں تھا کیونکہ ساواک والے دوبارہ مہر کے مہینے([2]) میں آئے اور مجھے گرفتار کر لیا۔ مجھے تین مرتبہ مہر کے مہینے میں گرفتار کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ میں نے اس کا نام ’’ماہ کین‘‘ رکھا ہوا تھا یعنی نفرت کا مہینہ جبکہ ماہِ مہر کا مطلب محبت والا مہینہ ہے۔


([1]) ص: 32

([2]) ایرانی کیلنڈر کے مطابق ساتواں مہینہ جو ستمبر کے آخری عشرے میں شروع اور اکتوبر کے آخری عشرے میں ختم ہوتا ہے۔

گیارہواں باب

فوجی عدالت

شیر دل ماں

مذکورہ ماہ کے ایک دن، میں اپنے والد کی طرف دوپہر کے کھانے پر مدعو تھا۔ وہاں چند علماء کی دعوت تھی۔ میں مصطفیٰ (بیٹا) کے ساتھ گیا جو اس وقت چار یا پانچ سال کا تھا۔ مصطفیٰ کو میں نے اپنی والدہ کے پاس چھوڑا اور خود گھر کے بیرونی حصے میں والد کے پاس چلا گیا۔ عموماً علماء کے گھر، چاہے وہ چھوٹے ہی کیوں نا ہوں، دو حصوں پر مشتمل ہوتے ہیں:ایک بیرونی حصہ جو مہمانوں کے لیے ہوتا ہے اور دوسرا اندرونی حصہ جو گھر والوں کے لیے ہوتا ہے اور ہر حصے کا الگ دروازہ ہوتا ہے۔

جب ہم مہمانوں کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے تو میرا بھائی آیا اور مجھ سے کہا: ’’ساواکی گھر میں داخل ہو گئے ہیں۔ میں جلدی سے ان کی طرف بڑھا تاکہ وہ مہمانوں والے حصے میں داخل نا ہوں۔‘‘ میں نے اپنی والدہ کو گھر کے صحن میں ساواک کے دو آدمیوں کے ساتھ شدید بحث کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ برقع پہن کر، منہ چھپائے ہوئے، دونوں آدمیوں کے سامنے شیر کی طرح کھڑی تھیں۔ وہ شخص جو میری والدہ کے ساتھ بحث کر رہا تھا، ساواک کے مشہور تفتیش کاروں میں سے تھا۔ وہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد قتل ہوگیا۔

والدہ اور اس ساواکی کے درمیان ہونے والی بحث سے میں یہ سمجھ گیا کہ پہلے یہ لوگ گھر کے اندرونی حصے کی طرف آئے تھے لیکن والدہ نے انہیں روکا اور کہا: ’’سید علی یہاں نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے گھر میں گھسنے کی جتنی بھی کوشش کی والدہ نے انہیں روک دیا اور دروازہ ان کے لیے بند کر دیا۔ پھر وہ لوگ دوسرے دروازے کی طرف مڑے اور اسے کھٹکھٹایا تو میرا بھائی آیا جو نہیں جانتا تھا کہ دروازے کے پیچھے کون ہےلہٰذا اس نے دروازہ کھول دیا تو وہ لوگ گھر میں داخل ہوئے اور غیض وغضب کی حالت میں والدہ کے ساتھ بحث کرنے لگے۔ جب انہوں نے مجھے صحن کی طرف نیچے آتے دیکھا تو ان میں سے ایک نے والدہ سے کہا: ’’یہ رہا سید علی۔ تم کیوں کہہ رہی تھیں کہ وہ یہاں نہیں ہے؟‘‘ والدہ پیچھے نہ ہٹیں اور ان کو بڑی تندی کے ساتھ جواب دیتی رہیں۔

میں نے بحث میں مداخلت کی اور ساواکی تفتیش کار کو متوجہ کرتے ہوئے کہا: ’’کیا تم جانتے ہو یہ محترمہ کون ہیں؟‘‘ میں نے والدہ کا نام بڑے احترام کے ساتھ لیا پھر والدہ کی طرف متوجہ ہوا اور ان سے کہا: ’’اماں جان! آپ ان کے ساتھ مخاطب نہ ہوں۔ مجھے ان سے بات کرنے دیں۔‘‘ پھر میں نے ساواک والوں سے کہا: ’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’تم ہمارے ساتھ آؤ۔‘‘ میں نے کہا: ’’میں تیار ہوں۔ ‘‘

میرا بیٹا مصطفیٰ اس سارے منظر کو حیرت بلکہ وحشت سے دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس سے خدا حافظی کی اور اسے والدہ کے پاس چھوڑ دیا۔ والدہ کو بھی خدا حافظ کہا۔ دروازے کی طرف جاتے ہوئے ایک کارندے نے والدہ کے متعلق میری گفتگو کے جواب میں نازیبا بات کی تو میں نے بھی شدت کے ساتھ جواب دیا۔ وہ لوگ مجھے ساواک کی عمارت میں لے گئے۔

کمرۂ تفتیش میں

وہ لوگ مجھے سربراہ کے کمرے میں لے گئے۔ یہ ایک نفیس سامان سے مزین ایک بڑا کمرہ تھا۔ کمرے میں ایک بڑی میز رکھی ہوئی تھی، جس کی دوسری طرف سربراہ بیٹھا ہوا تھا۔ وہ سر جھکائے اپنے سامنے رکھے کاغذات میں مصروف ہونے کا ڈرامہ رچا رہا تھا۔ عموماً ساواکی افسران اس طرح کے نفسیاتی حربے استعمال کرتے ہیں۔ میں بھی جواب میں اپنے خاص طریقے کے مطابق کمرے میں پڑی ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھ گیا اور اپنے آپ کو ایسے کاموں میں مصروف کر دیا جو میری سربراہ سے بے اعتنائی کو ظاہر کر رہے تھے۔ اس نے جب یہ دیکھا تو سر اٹھا کر مجھ سے پوچھا: ’’کون ہو تم؟‘‘ وہ یقیناً مجھے اچھی طرح جانتا تھا اور کیا میں اس جیسے عہدیدار کے لیے نا معلوم ہو سکتا تھا؟ میں نے اسے جواب دیا۔ اس نے کہا: ’’عجیب! سید خامنہ ای! تم کہاں تھے؟‘‘ میں ان کے سوالات کے لہجے سے سمجھ گیا کہ ساواک کی معلومات انتہائی ناقص ہیں۔ میں ان کی معلومات کے مطابق روپوش تھا اور انہیں میرے مشہد واپس آنے کا علم نہیں تھا نہ ہی وہ یہ جانتے تھے کہ میرا الگ سے گھر ہے بلکہ ان کے خیال کے مطابق میں اپنے والد کے گھر میں رہتا تھا۔ یہ ظالم اور سفاک نظام اپنی معلومات اور اطلاعات میں اس حد تک کمزور تھا۔

اس نے سختی اور ملامت کے ساتھ اپنی بات شروع کی۔ کبھی میں اسی سختی کے ساتھ اسے جواب دیتا اور کبھی میں اس کی بات سے بے اعتنائی برتتے ہوئے خاموش رہتا۔ اسی دوران ایک تفتیش کار داخل ہوا جس کے ہاتھ میں ایک ضخیم فائل تھی۔ وہ سربراہ کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اس نے فائل کھولی اور اپنی انگلی سے ان کاغذات میں مخصوص جگہوں کی طرف اشارے کرنے لگا۔ سربراہ اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سر ہلا رہا تھا اور یہ ظاہر کر رہا تھا کہ فائل میں موجود معلومات انتہائی حیرت انگیز ہیں۔ صاف واضح تھا کہ تفتیش کار اور سربراہ کی یہ حرکت مکمل بناوٹی ہے جس کا مقصد صرف اور صرف رعب اور خوف ایجاد کرنا تھا۔ پھر سربراہ نے اپنا سر اٹھایا اور غصے سے کہا: ’’لے جاؤ اسے۔ ‘‘

وہ لوگ مجھے ایک ایسے کمرے میں لے گئے جہاں ساواک والے دائرے کی شکل میں کھڑے تھے۔ مجھے دائرے کے درمیان کھڑا کر دیا اور مجھ پر نازیبا اور توہین آمیز کلمات سے حملہ آور ہوگئے۔ میں اس جیسے تجربے سے پہلے گزر چکا تھا لہٰذا اس مرتبہ ان کا سامنا کرنے اور قوت و شدت کے ساتھ جواب دینے کے لیے تیار تھا۔ ظاہراً اس وقت تک جیلوں میں جسمانی تشدد نہیں کیا جاتا تھا۔

مجھے اب بھی یاد ہے ایک ساواکی کرنل جس کا نام نشاط تھا (یہ اس کا لقب تھا) اور وہ سول لباس پہنتا تھا، نے مجھ سے کہا: ’’تم لوگ کیا چاہتے ہو؟ تمہارے خیال میں تم کیا کر لو گے؟ دیکھو، اردن میں ملک حسین نے کیا کیا ہے؟ اس نے کمزور حکومت کےباوجود ایک دن میں پانچ لاکھ فلسطینیوں کو مار ڈالا ہے جبکہ ہم اپنی قوت اور اقتدار کے ساتھ پچاس لاکھ انسانوں کو بڑی آسانی سے مار سکتے ہیں۔‘‘

مجھے اس کی بات سے بڑا تعجب ہوا کیونکہ اس نے جو تعداد ذکر کی اس میں بہت زیادہ مبالغہ تھا۔ وہ یا تو جاہل اور فریب خوردہ تھا یا پھر مجھے دھوکہ دینا چاہتا تھا۔ دونوں صورتوں میں یہ بات اس شخص کی پستی اور بے وقوفی کی عکاس تھی۔

یہ تو پہلی بات ہوئی۔ دوسری بات یہ کہ اس طرح کی گفتگو  کسی طالب علم سے نہیں کی جاتی جس کے پاس قلم اور ممبر کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ہاں اگر میں لاکھوں افراد پر مشتمل کسی عوامی تحریک کا سربراہ ہوتا تو پھر اتنی بڑی تعداد کو مارنے کی دھمکی کچھ معنی رکھتی لیکن میں، اور وہ بھی اس حال میں! اس آدمی کی بات سے یہی پتا چلتا ہے کہ وہ مجھ سے کئی گنا کمزور تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی شخصیت اور موقف میں بہت زیادہ کمزور تھے۔ یقیناً کمزور بھی تھے اور پاگل بھی۔ پاگل بعض اوقات اچانک حملہ آور ہوجاتا ہے اور سامنے والے کی جان لے لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میری نظر میں ساواکی کمزور، حقیر اور بے وقوف لوگ تھے۔ مجھے ان سے کچھ خوف محسوس ہوتا تھا اور اس کی وجہ وہی ہے جو پہلے بیان ہوئی۔

انہوں نے میری جیبوں کی تلاشی لی، لیکن اپنے کام کی کسی چیز کو نہ پاسکے۔ وہ لوگ باہر نکل گئے اور میں تنہا ایک گھنٹے سے زیادہ وہیں رہا۔ پھر ان میں سے ایک آیا اور مجھے کہا: ’’آجاؤ۔‘‘

وہ مجھے گاڑی میں بٹھا کر دوسری عمارت کی طرف لے گئے۔ جب میں وہاں پہنچا تو مجھے علم ہوا کہ یہ وہی جیل ہے جس میں تین سال پہلے رہ چکا ہوں۔ مجھے اس کی سفید دیواروں سے پتا چلا کہ یہ وہی جیل ہے جسے ہم سفید ہوٹل کہتے تھے۔ گویا یہ میرا اپنا ہی گھر تھا۔

انہوں نے مجھے ایک کوٹھڑی میں ڈال دیا۔ جیل میں کچھ تربیت یافتہ فوجی تھے جو کوٹھڑی کے دروازے پر جمع ہوگئے اور نئے قیدی کے لیے اپنی عقیدت و احترام کا اظہار کرنے لگے۔ واضح سی بات ہے کوٹھڑی کا دروازہ بند تھا  اور مجھے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔

کچھ دن گزرنے کے بعد میں نے سوچا سید قطب کی کتاب ’’الاسلام و مشکلات الحضارۃ‘‘ کا ترجمہ مکمل کر لوں۔ اس کتاب کے تین چوتھائی حصے کا ترجمہ میں اپنی تیسری قید کے دوران کر چکا تھا اور چوتھے اور آخری حصے کا ترجمہ اپنے بھائی سید ہادی کے ذمے لگایا تھا۔ میں نے بھائی سے وہ ترجمہ منگوایا اور پھر اس کی اصلاح کی تاکہ وہ گزشتہ ترجمے کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے۔ پھر میں نے آخری فصل کا ترجمہ کیا۔ اس فصل میں مضبوط عبارت کے ساتھ مغربی تہذیب پر بھرپور تنقید کی گئی تھی۔ میں نے ایک بہترین مقدمہ لکھا جس میں نئی اصطلاحات اور عبارتوں کا استعمال کیا اور انہیں اصل عبارت سے علیحدہ کرنے کی خاطر بریکٹ میں رکھا۔ یہ کام تقریباً ایک ماہ تک جاری رہا۔ پھر میں نے کتاب مکمل کر کے اپنے بھائی سید ہادی کو دے دی اور اس آدمی کا نام بھی بتا یا جس نے اسے چھپوانا تھا۔

انہی ایام میں مجھے بتایا گیا کہ شیخ رضی آل یاسین کی کتاب ’’صلح امام حسن,‘‘ کا ترجمہ چھپ چکا ہے۔ یہ کتاب صلح امام حسن, کی تاریخی تحلیل پر مشتمل تھی اور اس کا ترجمہ میں نے کیا تھا۔ وہ میرے لیے اس کا ایک نسخہ لے آئے جسے دیکھ کر میں بہت خوش ہوا۔

دو متضاد شخصیات سے لگاؤ

قید ہونے کے دو ہفتے بعد میں نے ایک فوجی قیدی کو پکارتے سنا: ’’خوش خبری۔۔۔ خوش خبری۔۔۔ عبد الناصر مر گیا۔‘‘ میرے لیے یہ انتہائی دردناک خبر تھی۔ یہاں میں اپنے اور اسلام پسند مزاحمت کاروں کے ایک متضاد موقف کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ وہ یہ کہ ہماری ہمدردیاں سید قطب اور اس کی فکری تحریک کے ساتھ بھی تھیں اور اس کے قاتل جمال عبد الناصر کے ساتھ بھی۔ میں سید قطب کی پھانسی کی خبر سننے پر بھی رویا تھا اور جمال عبد الناصر کی وفات کی خبر سننے پر بھی۔

سید قطب کی طرف ہمارا جھکاؤ واضح ہے جس کی وجہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے اپنے ادبی قلم، عملی جدوجہد اور قرآنی فکر کی بنیاد پر اسلام کو ایک آفاقی اور متحرک دین کی شکل میں پیش کیا جو ایک مسلمان میں اپنے دین کے متعلق عزت کا احساس پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اسے پستیوں سے نکالتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے اپنی تفسیر میں ایسی اسلامی اور انقلابی زبان استعمال کی ہے جس میں کوئی بھی مسلمان، چاہے جس مذہب سے بھی تعلق رکھتا ہو، اپنے اعتقادات سے تعارض محسوس نہیں کرتا۔ ہاں ایک جگہ وہ شراب کی حرمت کے متعلق نازل ہونے والی آیت کے شان نزول میں ایک من گھڑت روایت ذکر کرتا ہے جو امیرالمؤمنین, کی عصمت کو ماننے والوں کے عقیدے کے خلاف ہے۔ میں اس حوالے سے اسے قصور وار نہیں سمجھتا کیونکہ وہ امام کی عصمت کا قائل نہیں ہے، خصوصاً اس کے نزدیک یہ شراب کی حرمت کے حکم سے پہلے کا واقعہ ہے۔ سید قطب کا اس من گھڑت روایت کو نقل کرنا اس بات پر دلیل ہے کہ اسے امیرالمؤمنین, کی شخصیت کی مکمل معرفت نہیں تھی۔

جہاں  تک بات ہے جمال عبد الناصر پر فخر کرنے کی تو اس کی وجہ عقیدتی نہیں بلکہ نفسیاتی تھی۔ ہم ایران میں بڑے پیمانے پر استکباری وحشتناک مظالم کا سامنا کر رہے تھے، جن کا مقصد دین اور علماء کی تحقیر تھا۔ ان مظالم کا بڑا اثر جوانوں اور پڑھے لکھے طبقات کا نفسیاتی شکست سے دوچار ہونا تھا جو دنیا کی فرعونی طاقتوں سے مرعوب ہو چکے تھے۔ اس شکست خوردہ ماحول میں ہم ہر اس آواز کی طرف کھنچے چلے جاتے تھے جو مغرب اور امریکہ جیسی طاقتوں کو قدرت اور جرات کے ساتھ للکارتی تھی۔ عبد الناصر ان طاقتوں کو ایسے ہی للکارتا تھا۔  عبد الناصر جب دنیا کے تمام طاغوتوں کو للکارتا تھا تو اسے سن کر ہم فخر محسوس کرتے تھے۔ صوت العرب چینل سے ہم اس کی تقریریں سننے کے لیے بے تاب رہتے تھے۔ ہم ہر اس عملی اقدام کی حمایت کرتے تھے جس کا مقصد اسلامی دنیا بلکہ پوری تیسری دنیا کو مکروہ استعماری قبضے سے نجات دلانا ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں آنے والے تمام انقلابات کے ساتھ ہمدردی رکھتے تھے۔

مجھے یاد ہے جونہی لیبیا میں انقلاب کی خبر آئی تو میں نے فوراً منبر سے اس کی تائید کی۔ میں نے انقلابیوں کو ایک ایسے حاکم سے لیبیا کو آزاد کرانے پر مبارکباد دی جسے میں نے ادریس کی بجائے ابلیس کہا تھا۔ بعد میں جب میری ملاقات شیخ ہاشمی رفسنجانی سے ہوئی تو مجھے پتا چلا کہ خود شیخ نے بھی فوراً اپنی نشستوں میں لیبیا کے انقلاب کی تائید کی تھی۔

ان اقدامات کا سبب طاغوتی حکمرانوں کی طرف سے پامال کی گئی عزت اور کرامت کو دوبارہ بحال کرنے کا جذبہ اور شوق تھا۔

یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ جمال عبد الناصر کا نام ہمارے ذہنوں میں علاقے میں موجود اسرائیلی اور دقیانوسی قوتوں کے مقابلے میں مسلمان عرب بھائیوں کی مقاومت، استقامت اور عزت کے ساتھ جڑا ہوا تھا اگرچہ ہم اس کے اسلام پسندوں کے ساتھ ٹکراؤ کی روش سے نالاں رہتے تھے۔

ضمناً یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ایران میں شاہی میڈیا کو عبد الناصر کے خلاف فضا بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ عبد الناصر کی وفات کی خبر سننے پر مجھے جس چیز نے زیادہ تکلیف پہنچائی وہ اس فوجی کا خبر دینے کا انداز تھا۔ وہ اس خبر پر بہت خوش تھا۔ البتہ وہ اپنی خوشی کا سبب نہیں جانتا تھا اور نہ ہی یہ جانتا تھا کہ عبد الناصر کون ہے؟ وہ تو صرف شاہی میڈیا سے متاثر تھا۔

میرے پاس ایک چھوٹا ریڈیو تھا جو مجھ تک بعض نرم دل نگہبانوں کے ذریعے پہنچا تھا۔  میں اسے سخت گیر نگہبانوں سے چھپا کر رکھتا تھا۔ جیل میں عموماً ریڈیو کے استعمال پر پابندی تھی۔ عبد الناصر کی موت کی خبر سننے کے بعد میں صوت العرب چینل کو توجہ سے سننے لگا۔ ان دنوں میرے لیے سب سے تسلی بخش چیز اسی ریڈیو سے قرآن کی تلاوتیں سننا تھا جو مجھے ابھی بھی تفصیل کے ساتھ یاد ہیں۔ مثلا مجھے یاد ہے کہ مصر کے بڑے قراء جیسے عبد الباسط، مصطفیٰ اسماعیل اور محمود علی بناء نے اس آیت مجیدہ کی تلاوت کی:

وَ كَأَيِّنْ مِنْ نَبِيٍّ قاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثيرٌ فَما وَهَنُوا لِما أَصابَهُمْ في‏ سَبيلِ اللَّهِ وَ ما ضَعُفُوا وَ مَا اسْتَكانُوا وَ اللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرينَ۔([1])

اور کتنے ہی ایسے نبی گزرے ہیں جن کی ہمراہی میں بہت سے اللہ والوں نے جنگ لڑی لیکن اللہ کی راہ میں آنے والی مصیبتوں کی وجہ سے نہ وہ بد دل ہوئے نہ انہوں نے کمزری دکھائی اور نہ ہی وہ خوار ہوئے اور اللہ تو صابروں کو دوست رکھتا ہے۔

 ان میں سے ایک قاری اس حصے (قاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ) کو بار بار پڑھ رہا تھا۔ میں نے اس وقت جن قاریوں کو سنا ان کے نام قرآن کے پیچھے لکھ لیے۔ میں رات کے آغاز سے تلاوت سننا شروع کرتا یہاں تک کہ جب صوت العرب کی نشریات ختم ہوتیں تو میں دوسرے چینلز پر تلاوت ڈھونڈنے لگتا۔

تیرے جد کی قسم! تجھے قتل کر دوں گا

جیسا کہ میں نے عبد الناصر کی موت کی خبر سننے پر اس فوجی کی خوشی کو بیان کیا جس کا سبب فوج پر میڈیا کا خاص نفوذ تھا، اسی طرح کا ایک اور واقعہ بیان کرتا چلوں جو اس وقت فوج میں رائج ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔

جیل کے قیدیوں میں ایران کے صوبہ آذربائیجان سے تعلق رکھنے والا ایک نگہبان بھی تھا جو ترکی زبان بولتا تھا۔ اسے ایک معمولی جرم کی بنا پر ۶ ماہ قید ہوئی تھی۔ لگتا ہے وہ ایک غریب آدمی تھا اور اسے پیسوں کی ضرورت تھی۔ اسے جیل کے اندر بیت الخلاء کے نزدیک ایک چھوٹی سی جگہ دی گئی تاکہ وہ چائے بنا کر قیدیوں کو بیچ سکے۔ میں اس کے ساتھ ترکی زبان میں بات چیت کرتا تھا جس کی وجہ سے ہمارے درمیان ایک خاص انس اور محبت پیدا ہوگئی تھی۔ فوجی اس جگہ کے اردگرد جمع ہو جاتے اور چائے پیتے تھے۔ میں اس نشست میں شرکت نہیں کر سکتا تھا کیونکہ میرا کوٹھڑی سے نکلنا ممنوع تھا اور ویسے بھی میں اس غیر مناسب جگہ پر جانا نہیں چاہتا تھا البتہ میں اس نگہبان کے گاہکوں میں سے تھا۔ وہ میرے لیے کوٹھڑی میں چائے لاتا تھا اور میں اسے نقد قیمت ادا کرتا تھا۔ اسی طرح جن چیزوں نے ہمیں نزدیک کیا وہ جیل اور مشترک زبان کے علاوہ میرا اس کا اچھا گاہک ہونا تھا۔

ایک صبح میں دوسرے قیدیوں کے ساتھ دھوپ میں بیٹھا ہوا تھا۔ بعض اوقات ہمیں اس کی اجازت دی جاتی تھی۔ میں عام طور پر صحن کے ایک کونے میں بیٹھتا تھا اور فوجی میرے گرد حلقہ بنا لیتے تھے۔ میں انہیں مختلف قصوں، خبروں اور لطیفوں سے لطف اندوز کرتا تھا۔ ایک دن گفتگو کمیونسٹوں کے بارے میں چل پڑی۔ اگرچہ ان سالوں میں ان کا کوئی واضح نام و نشان نہیں تھا بلکہ اسی سال ان کی سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ جب میں جیل میں تھا تو بعض جوان لائے گئے جنہیں کمیونسٹ ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پہلوی حکومت ان کی سرگرمیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی تھی۔

یہ نگہبان (چائے والا) کمیونسٹوں کے متعلق اپنی شدید نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ہماری گفتگو میں شرکت کرتا تھا۔ وہ یہ دعویٰ کرتا تھا کہ جب 1946؁ء میں کمیونسٹوں نے آذربائیجان میں اپنی علیحدہ حکومت کا اعلان کیا تب اس نے کئی کمیونسٹوں کو قتل کیا تھا۔ وہ کمیونسٹوں کے ساتھ سخت رویہ نہ اپنانے پر ساواک والوں کی بھی ملامت کرتا تھا۔ وہ بڑے یقین کے ساتھ کہتا تھا: ’’اگر ساواک مجھے اجازت دے تو میں کمیونسٹوں کو چن چن کر مار سکتا ہوں اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوگی۔ لیکن ساواک والے ان کے ساتھ نرمی برتتے ہیں اور انہیں جیل میں چھوڑ جاتے ہیں تاکہ وہ آرام سے کھائیں اور سوئیں۔‘‘ وہ بار بار ساواک والوں کی ملامت کرتا تھاکہ وہ اسے کمیونسٹ قیدیوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔

مجھے اس کے ساتھ مذاق کی سوجھی۔ میں نے اس سے کہا: ’’اگر ساواک تمہیں مجھے قتل کرنے کا کہے تو؟‘‘ اس نے فوراً مضبوط لہجے میں کہا: ’’تمہارے جد کی قسم! تمہیں قتل کر دوں گا۔‘‘ (تمہارے جد کی قسم!) اس نے میرے جد کی قسم کھائی کیونکہ وہ میرے کالے عمامے کی وجہ سے جانتا تھا کہ میرا نسب رسول خدا3 سے ملتا ہے۔ اگرچہ ہمارے درمیان بہت ساری مشترکات تھیں، اس کے باوجود وہ پوری سنجیدگی سے کہ رہا تھا: ’’میں تمہیں قتل کر دوں گا۔‘‘

یہ اس زمانے میں فوجیوں کی برین واشنگ کا نتیجہ تھا۔

اس مدت کے دوران یونیورسٹی کے جوانوں کا ایک گروہ جیل لایا گیا۔ یہ پہلی بار تھا کہ مشہد میں حکومت نے یونیورسٹی کے جوانوں کو حراست میں لیا۔ میں اس واقعے سے سمجھ گیا کہ معاشرے میں کوئی نیا تحرک وجود میں آیا ہے اور اس چیز نے مجھے بہت خوش کیا۔ مجھے جیل سے باہر کے حالات جاننے کا بہت اشتیاق ہوا لیکن اس کا کوئی راستہ نہیں تھا۔

جب ان جوانوں کو جیل میں لایا گیا تو جیل انتظامیہ کو میری کوٹھڑی کی ضرورت پڑی کیونکہ اس جیل میں کوٹھڑیاں کم تھیں لہٰذا انہوں نے مجھے کوٹھڑی سے نکال کر جیل کے دروازے کے پاس ایک بڑے کمرے میں ڈال دیا جو قیدیوں سے ملاقات کے لیے بنایا گیا تھا۔ پھر چونکہ میں دو مہینے یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ کوٹھڑی میں گزار چکا تھا لہٰذا اب ان کے نزدیک ضروری نہیں تھا کہ میں اس سے زیادہ کوٹھڑی میں رہوں۔

ماقوت([2])

جب میں (بڑے کمرے میں جانے سے پہلے) کوٹھڑی میں تھا تو رمضان کا مہینہ آن پہنچا۔ اس مہینے کی آمد سے میرا دل خوشی سے سرشار ہوگیا۔ میں اس مہینے کو بچپن سے بہت پسند کرتا ہوں کیونکہ اس میں روزمرہ زندگی تبدیل ہوجاتی ہے اور روزہ دار ایک خاص معنوی لذت کا احساس کرتا ہے۔

رمضان کا پہلا دن گزرا۔ جب افطاری کا وقت ہوا تو وہ میرے لئے کچھ بھی نہیں لائے کیونکہ ماہ رمضان کو چھاؤنی میں کوئی اہمیت دی جاتی تھی نہ جیل میں۔ میں نے نماز ادا کی اور اس مہینے کی یادوں میں کھو گیا، خاص طور پر افطار کی گھڑیوں اور افطار کے وقت روزہ دار کو ملنے والی خوشی کی یاد میں سیر کرنے لگا۔ مجھے اہل و عیال کے ساتھ افطار کے دسترخوان پر گزری وہ پر مسرت گھڑیاں یاد آئیں جب ہمارے سامنے سماور([3])میں چائے ابل رہی ہوتی اور افطاری سے مخصوص ہلکی پھلکی غذائیں ہماے سامنے ہوتی تھیں، خاص طور پر ماقوت کی بہت یاد آئی (یہ مشہد کا مشہور کھانا ہے اور ظاہرا مشہد والوں کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔) جو افطاری میں میرا پسندیدہ کھانا ہے۔ یہ غذا پانی، نشاستہ، اور چینی سے تیار ہوتی ہے اور ایک خاص طریقے سے اسے پکایا جاتا ہے۔ میری زوجہ اسے بھی دوسرے کھانوں کی طرح اچھے طریقے سے بنانا جانتی ہیں۔ اچانک میں متوجہ ہوا تو خدا سے مغفرت طلب کی۔ شاید بھوک نے میرے اندر ان یادوں کو ابھارا تھا یا پھر تنہائی نے۔ بہرحال صبر کے سوا چارہ نہ تھا۔

مغرب کے آدھے گھنٹے بعد مجھے چائے کا ایک کپ ملا۔ اس کے بعد کافی دیر بعد وہ رات کا کھانا لائے جس کی بری حالت دیکھ کر کھانے کو دل نہیں کر رہا تھا پھر بھی میں نے اس میں سے کچھ کھایا اور باقی حصہ سحری کے لیے رکھ دیا۔ سحری میں اس بچے ہوئے کھانے کو نہ چاہتے ہوئے کھایا کیونکہ وہ پہلے ہی سے بری حالت میں تھا اور  اب رات گذرنے کے بعد تو اس کی حالت بدتر ہوچکی تھی۔ اس طرح پہلا دن گزر گیا۔

دوسرے دن ظہر کے بعد نگہبان نے مجھے خبر دی کہ میرے لیے کچھ بھیجا گیا ہے۔ میں نے اسے لیا اور جب کھولا تو اس میں مختلف قسم کے کھانے تھے جنہیں میں افطاری میں پسند کرتا تھا۔ یہ کھانے متعدد پلیٹوں میں بھیجے گئے تھے۔ کھانا بہت سے افراد کے لیے کافی تھا جسے میری زوجہ نے تیار کیا تھا اور وہ اسے مجھ تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔ اسی دن میرے لیے گھر سے چائے کا سامان بھی لایا گیا۔ حسب معمول افطاری انتہائی لذیذ تھی۔ میں نے ضرورت کے مطابق اس میں سے تناول کیا اور باقی دوسرے قیدیوں کے لیے بھیج دیا۔ پھر یہ سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر جاری رہا۔

زندان کا خراب ماحول

رمضان المبارک کی راتوں میں مجھے تلاوت، دعا اور ذکر کی فرصت میسر ہوئی۔ مجھے یاد ہے کہ عید الفطر کی رات میں نے وہ مستحب نماز ادا کی جس میں سورہ حمد کے بعد ہزار مرتبہ سورہ توحید پڑھی جاتی ہے۔

جیل میں رمضان المبارک گزارنے کا یہ دوسرا تجربہ تھا۔ پہلی جیل میں، میں نے ماہ رمضان کے پندرہ دن گزرے تھے جبکہ اس جیل اور پانچویں جیل میں پورا ماہ رمضان گزارا۔ یہ ایسی فرصتیں تھیں جن سے میں نے تہذیب نفس، خدا کی طرف توجہ، قرآنی آیات اور ان کے عالی مفاہیم میں تدبرکے حوالے سے استفادہ کیا۔ اگرچہ ان جیلوں میں، خصوصا پانچویں جیل میں، کچھ خاص مشکلات بھی تھیں جنہیں میں بعد میں بیان کروں گا۔

اس جیل میں لکھی گئی اکثر یادوں کا تعلق ماہ مبارک سے تھا۔ اس جیل اور اس سے پہلے والی جیلوں میں فوجی قیدیوں کے درمیان جس اخلاقی آفت کا میں نے خود مشاہدہ کیا وہ لاپرواہی سے زیادہ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی پر دلالت کرتی تھی۔ میں نے فوجی قیدیوں کے درمیان بڑے پیمانے پر منشیات کا استعمال دیکھا حالانکہ جیل میں جانے والی ہر چیز کی مکمل تلاشی لی جاتی تھی۔

مجھے بتایا گیا کہ جس جیل میں افسران قید ہیں اس میں شراب بھی پی جاتی ہے۔ میں نے اس اور اس سے پہلے والی جیل میں دیکھا کہ بعض لوگ بھنگ کا نشہ کرتے ہیں۔ وہ ایک دائرے کی شکل میں بیٹھ کر بھنگ پیتے ہیں اور نیم بے ہوشی کے عالم میں ہزیان کہتے ہیں۔

جب ایک پاکیزہ جوان ان جیلوں میں داخل ہوتا تو وہ حتماً خراب ہو جاتا تھا۔ یہ جیلیں مکمل طور پر گندے پانی کے جوہڑ کی مانند تھیں جو ہر آنے والے کو اپنی عفونت اور گندگی سے متاثر کرتی تھیں مگر وہ کہ جسے خدا بچا لے۔ جب ایک فوجی جیل کا یہ حال تھا جس کے باقاعدہ قوانین و ضوابط مقرر تھے، تو پھر عام جیلوں کا کیا حال ہوگا؟

یہی وجہ ہے کہ میری پوری کوشش ہوتی تھی کہ جیلوں کے اس گندے ماحول سے جس کو جتنا ممکن ہو بچاؤں۔ رمضان المبارک کے قریب میں نے قیدیوں کو جمع کیا، انہیں وعظ و نصیحت کی، اور موت، آخرت اور حساب و کتاب کی یاد دلائی تو سب نے مجھ سے وعدہ کیا اور قسم اٹھائی کہ روزہ رکھیں گے۔ انہوں نے واقعاً پہلے دن روزہ رکھا بھی۔ دوسرے دن دوپہر تک تو انہوں نے روزے کو برداشت کیا لیکن جیل کے فاسد ماحول کی وجہ سے ان کے ارادے سست پڑ گئے۔ اس وجہ سے ان کے درمیان میری نصیحت کا اثر بھی ختم ہو گیا اور انہوں نے روزہ توڑ ڈالا۔ میں نے اپنی ڈائری میں ان کے نام لکھے جنہوں نے صرف پہلے دن روزہ رکھا۔ اسی طرح ان لوگوں کے نام بھی جنہوں نے دوسرے دن روزہ رکھا اور توڑ ڈالا۔

عدالت میں دفاع

اس جیل میں میری فائل فوجی عدالت کے سامنے پیش گئی۔ یہ عدالت فوجی چھاؤنی کے وسط میں واقع تھی۔ قید کے دوران میرا عدالت سے مسلسل واسطہ رہا۔ وہاں مجھے سوالوں کے جواب دینے کے لیے یا میرے اعتراضات کو رد کرنے کے لیے بلایا جاتا تھا۔ یہ اعتراضات میں مختلف امور کے حوالے سے عدالت کے نام لکھتا تھا۔ میں نے اعتراض کیا کہ ضمانت کے باوجود مجھے آزاد نہیں کیا گیا حالانکہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ میں نے اہل و عیال اور دوستوں سے ملاقات کی اجازت نہ ملنے پر اعتراض کیا اور اسی طرح اعتراض کیا کہ تفتیشی مراحل مکمل ہونے کے باوجود مجھے انفرادی کوٹھڑی میں رکھا گیا ہے۔ میں جانتا تھا کہ میں نے عدالت سے جتنے مطالبات کیے ہیں وہ ان میں سے کسی کو پورا نہیں کر سکتی لیکن میں ان کی قانونی خلاف ورزیوں کے سامنے اپنا موقف پیش کرنا چاہتا تھا۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ عدالت کے جج نے میری کسی درخواست کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا: ’’مجھے ساواک سے پوچھنا پڑے گا۔‘‘ اس کی زبان کا پھسلنا تھا کہ میں نے فوراً ہی اسے اس بات پر پکڑ لیا اور اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’عدالت کیسے ساواک کے زیر اثر ہو سکتی ہے؟‘‘ اس نے فورا اپنی بات بدلی اور مشہد میں موجود ساواک کے سربراہ کی تعریفیں کرتے ہوئے اس کی خوبیوں کا تذکرہ کرنے لگا۔

فیصلے کا دن مقرر ہوا۔ میں نے نظر ثانی اور دفاع کی خاطر اپنی فائل طلب کی۔ عدالت نے میرے لیے ایک سرکاری وکیل مقرر کر دیا لیکن میں جانتا تھا کہ اس کا دفاع برائے نام  اور بے سود ہوگا۔ میں نے خود اپنے دفاع میں ۳۰ صفحات لکھے۔

فیصلے والے دن میں ہال میں داخل ہوا تو سامنے تین جج، ایک مدعی اور وکیل بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ سب کے سب فوجی تھے اور متکبرانہ انداز میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ اپنے عہدوں کے مطابق مخصوص فوجی وردیوں میں ملبوس تھے۔ میں نے اپنے دفاع کے مسودے کو بلند آواز اور مضبوط انداز میں پڑھا۔ یہ مسودہ بھی پچھلی جیل میں پیش کیے جانے والے مسودے کی مانند انتہائی دقّت کے ساتھ قانونی شقوں سے اخذ شدہ اور منظم تھا۔

انہیں ایک دینی طالب علم سے اس طرح کی گفتگو سننے کی توقع ہرگز نہ تھی اور نہ ہی اس طرح کا موقف دیکھنے کی امید تھی۔ وہ اپنے اذہان میں دین اور علماء سے متعلق ایک غلط تصور لیے ہوئے تھے۔ میں عدالت کے اراکین کے چہروں پر حیرت کی علامات اور پر معنی نظروں کا تبادلہ دیکھ رہا تھا۔ وقفے کے دوران انہوں نے کھل کر اپنے تعجب کا اظہار کیا اور میرے الفاظ و معانی کے انتخاب اور بولنے کے انداز کی تعریف کی۔

عدالت ختم ہونے کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں ہال سے باہر چلا جاؤں اور دروازے کے پاس انتظار کروں۔ میں عدالت کا فیصلہ جاننے کے شوق میں لمحات گننے لگا۔ اتفاق سے فیصلے کا دن وہی قیدیوں سے ملاقات والا دن تھا۔ میرے اہل و عیال بھی مجھ سے ملنے آئے ہوئے تھے اور دروازے کے پاس انتظار کر رہے تھے۔ عدالت دروازے سے دور چھاؤنی کے وسط میں واقع تھی۔ اہل و عیال ظہر تک انتظار کرتے رہے، بعض تو چلے گئے اور بعض وہیں رہے۔ عدالت کا فیصلہ یقیناً سنایا جا چکا تھا لیکن اس کا ٹائپ رائٹر سے رسمی کاغذات پر لکھا جانا باقی تھا۔ پھر اس کا عدالت کے اراکین اور ملزم کی موجودگی میں اعلان ہونا تھا اور میں اسی اعلان کا انتظار کر رہا تھا۔

دفتری وقت ختم ہو چکا تھا۔ عدالت کا ایک رکن باہر نکلا۔ جب وہ فوجی چھاؤنی کے دروازے پر پہنچا تو اس نے ایک فیملی کو پایا جو اپنے قیدی کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے پہچان لیا کہ یہ میرے ہی اہل و عیال ہیں لہٰذا اس نے انہیں میرے آزاد ہونے کی خبر دے دی۔ یوں میرے اہل و عیال کو مجھ سے پہلے ہی عدالت کے فیصلے کا پتا چل گیا۔

جب انتظار طویل ہوا تو انہیں چھاؤنی کے ایک نگہبان نے کہا: ’’آپ لوگ چلے جائیں، وہ آزاد ہونے کے بعد آجائے گا لہٰذا وہ گھر واپس لوٹ گئے۔

ظہر کے دو گھنٹے بعد انہوں نے مجھے طلب کیا۔ عدالت نے مجھے اتنی مدت کی قید سنائی جس سے زیادہ میں پہلے ہی جیل میں گزار چکا تھا۔ اگلی عدالت تک مجھے آزاد کر دیا گیا۔ نظر ثانی کی عدالت عام طور پر پہلی عدالت کے چند ماہ بعد لگتی ہے۔ عدالت کے جج نے محافظوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے اسلحے کاندھوں پر رکھ لیں۔ یہ اس چیز کی علامت تھی کہ ان کے ساتھ والا قیدی رہا کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح عدالت نے حکم دیا کہ جیل سے نکلنے کے لیے ضروری کاغذی کاروائی میں میری مدد کی جائے۔ اس کے بعد میں اپنے کمرے میں چلا گیا۔ میرا کمرہ جیل کے دروازے کے پاس تھا جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں۔ میں نے اپنا سامان جمع کیا اور قیدیوں کو الوداع کہا۔ اس وقت رات کا ایک پہر گزر چکا تھا۔

سردی کا موسم تھا اور رات  کچھ زیادہ سرد تھی۔ چھاؤنی کے دروازے پر میں نے اپنے کچھ رشتہ دار جوانوں کو دیکھا جو ایک گاڑی لیے میرا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے میرا سامان لے لیا۔ میں گاڑی میں بیٹھنے لگا تو اتنے میں ایک سپاہی آیا اور کہنے لگا: ’’تم نہیں جا سکتے۔ میرے ساتھ آؤ۔‘‘ اس نے مجھے ایک گاڑی میں بٹھایا جس میں کچھ فوجی سوار تھے۔ میں نے رستے سے پہچان لیا کہ گاڑی کا رُخ ساواک کی عمارت کی طرف ہے۔ کیا چھاؤنی سے میری آزادی بس نام کی تھی؟ کیا یہ مجھے ساواک اور وہاں سے تہران لے جانا چاہتے ہیں؟ اس طرح کے سوالات میرے ذہن میں گھومنے لگے۔ گاڑی تاریکی اور سردی میں مجھے ایک نامعلوم منزل کی طرف لے کر جا رہی تھی۔

انہوں نے مجھے ساواک کی عمارت کے پاس اتار دیا۔ جس تفتیشی افسر سے میرا سامنا ہوا اسے میں تیسری اور چوتھی جیل سے پہچانتا تھا۔ اس کا نام غضنفری تھا، اس نے مجھے مکر اور تکبر بھرے لہجے میں کہا: تم کیوں آئے ہو؟

میں نے کہا: ’’میں خود نہیں آیا بلکہ یہ لوگ مجھے یہاں لائے ہیں۔‘‘ اس نے کہا: ’’ہم نے نہیں بلایا۔ چلے جاؤ۔ ہم نے تمہیں آزاد کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘ میں باہر نکل آیا جبکہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ انہوں نے میرے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا؟ میں تاریک اور سرد سڑک کی طرف گاڑی کی تلاش میں نکلا جو مجھے گھر تک پہنچا دے۔ اگر میرے ہاتھ میں سامان ہوتا تو رات کے اس وقت نکلنا بہت مشقت طلب کام تھا لیکن میں نے اپنا سامان چھاؤنی کے دروازے پر ان جوانوں کے حوالے کر دیا تھا جو مجھے لینے آئے تھے۔

اچانک ایک گاڑی میرے سامنے آکر رکی۔ میں نے غور سے دیکھا تو وہی جوان تھے جو چھاؤنی کے باہر میرا انتظار کر رہے تھے۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ فوجی کیمپ سے ساواک کی عمارت تک یہ جاننے کے لیے ہمارا پیچھا کرتے رہے کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟

میں گھر پہنچا تو زوجہ کو دروازے پر آنکھ لگائے اپنے انتظار میں پایا جبکہ بچے انتظار میں تھک ہار کر سو چکے تھے۔

ایک قریبی دوست کا عجیب رویہ

مجھے یاد ہے جیل سے گھر واپس آنے کے بعد اسی رات امام رضا, کی زیارت اور مسجد گوہر شاد میں نماز ادا کرنے کے لیے حرم گیا۔ کافی دیر ہو  چکی تھی اور حرم کا صحن تقریبا خالی ہو چکا تھا، میں  نے دور سے دو دوستوں کو دیکھا جو حوزوی دروس میں میرے ہم جماعت تھے۔ ان میں سے ایک کے ساتھ میرا خاص تعلق تھا۔ ہمارا قیافہ آپس میں اس حد تک ملتا تھا کہ اگر کوئی ناشناس ہمیں دیکھتا تو وہ ہمیں سگے بھائی سمجھتا تھا۔ میں اس اچانک ملاقات سے بہت خوش ہوا کیونکہ رات کے اس پہر مجھے وہاں کسی سے ملاقات کی توقع نہیں تھی۔ میں انتہائی شوق سے ان چہروں کی زیارت کے لیے آگے بڑھا جن کے اور میرے درمیان جیل اب تک حائل تھی۔ مجھے توقع تھی کہ جونہی وہ دونوں مجھے دیکھیں گے میری طرف بڑھیں گے اور اس جدائی کے بعد مجھ سے مل کر بہت خوش ہوں گے۔

میں جلدی سے ان کی طرف بڑھا اور ان کے نزدیک پہنچا۔ میں انہیں سلام کرنے لگا تو انہوں نے منہ موڑ لیا۔ شاید ایک نے دوسرے سے کہا: ’’یہ ابھی جیل سے رہا ہوا ہے اور شاید اس کی نگرانی کی جا رہی ہے، ہمیں اس سے دور رہنا چاہیے۔‘‘ یہ رویہ میرے لیے انتہائی تکلیف دہ تھا۔ مجھ جیسا قیدی جسے چند گھڑیاں قبل رہائی ملی ہو، وہ اپنے دوستوں خصوصاً ان  لوگوں سے جن کی ذمہ داری اسلام کے درد کو محسوس کرنا ہے،  اس کے برعکس رویے کی توقع رکھتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ میں نے بعض علماء سے ایسے بہت سے رویے دیکھے جبکہ جوانوں سے، چاہے وہ دینی مدارس کے طالب علم ہوں یا یونیورسٹیوں کے، اس کے برعکس رویہ دیکھنے کو ملا۔ جب بھی مجھے جیل بھیجا جاتا یا میں حکومت کے ظلم کا شکار ہوتا تو جوان میرے زیادہ قریب اور میرے ساتھ پہلے سے زیادہ مربوط ہو جاتے تھے۔

علماء کے مزاحمتی موقف

یہاں ضروری ہے کہ میں ایران میں اسلامی مزاحمت کاروں کے ساتھ دینی علماء کے تعلق کے حوالے سے کچھ بیان کروں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دینی علماء ہر دور میں ظالم حکومت کے مقابل صف اول میں نظر آتے ہیں۔

عصر حاضر میں اس کی چند مثالیں روس کے خلاف میرزا قمی کا فتوی، ’’تمباکو والے واقعے میں‘‘ مراجع عظام کا موقف، ’’دستوری تحریک‘‘ میں دینی علماء کا کردار اور رضا شاہ کے مقابلے میں مرحوم سید حسن مدرس کی جدوجہد ہیں۔  اسی طرح شاہ کے فیصلوں پر علماء کا احتجاج ایک اور مثال ہے۔ اس احتجاج کے نتیجے میں کئی بڑے سانحات رونما ہوئے، جیسے مسجد گوہر شاد کا واقعہ جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ اسی طرح عراق پر برطانوی قبضے کے خلاف ’’ثورۃ العشرین‘‘([4]) میں مراجع عظام کا کردار ایک اور روشن مثال ہے۔

امام خمینی= نے معاصر تاریخ کے سب سے بڑے انقلاب کی قیادت کرتے ہوئے اپنے اسلاف کے جہادی سلسلے کو بطریق احسن آگے بڑھایا۔ آپ نے ایران میں اسلامی حکومت کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے اس خطے کے سب سے بڑے جابر کا تختہ الٹا جسے دنیا کی نام نہاد سپر پاور کی پشت پناہی حاصل تھی۔

اس میں کوئی تعجب نہیں کہ دینی علماء ایسی سرگرمیوں کا حصہ بنیں کیونکہ وہ طول تاریخ میں انبیاء اور صالحین کے وارث ہیں۔ لیکن ایران میں دینی علوم میں مشغول تمام افراد احساس ذمہ داری کے اس درجہ پر فائز نہیں تھے۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں جن کا تذکرہ یہاں مناسب نہیں۔

بعض علماء خود میدان میں اترنے کی بجائے اسلام پسندوں کی حمایت پر اکتفا کرتے تھے۔ بعض مکمل طور پر غیر جانبدار تھے جو اسلامی تحریک کی حمایت کرتے تھے اور نہ ہی مخالفت لیکن بعض ایسے علماء بھی تھے جو اسلامی مزاحمت کاروں کی مخالفت کرتے تھے۔ یہ مخالفت کہیں کم تھی تو کہیں زیادہ۔ جب بھی اس موضوع پر بات ہوتی تو بعض علماء اسلامی تحریک کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے اور بعض کا تو کام ہی بلا وجہ اعتراض کرنا تھا۔

ایک واقعہ بیان کرتا چلوں جو چند روز قبل مجھے یادآیا۔ ۱۹۷۶؁ءمیں شہر کو ایک بڑے سیلاب کا سامنا تھا اور میں امدادی کاموں میں مصروف تھا۔ ایک قصہ جسے اختصار کے ساتھ بیان کروں گا۔ حکومت نے مجھے فوراً شہر چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ جب پولیس افسر نے مجھے اس فیصلے کی خبر دی تو میں شہر کی جامع  مسجد  کے بڑے ہال میں موجود تھا جسے ہم نے سیلاب زدگان کے امدادی سامان کا گودام بنایا ہوا تھا۔ وہ سامان انتہائی مرتب انداز میں رکھا گیا تھا۔ امدادی کاموں میں ہم جیسے غیر تجربہ کار لوگ بہت کم ایسا کر پاتے ہیں۔ میں ہال کے ساتھ واقع اس کمرے کی طرف بڑھا جس میں شیخ ذبیح  اللہ اور ان کچھ ساتھی بیٹھے تھے۔ میں نے درد بھرے تلخ لہجے میں انہیں بتایا: ’’انہوں نے مجھے شہر چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔‘‘ سب کے چہروں پر پریشانی نمودار ہو گئی۔ جونہی ان میں سے ایک (ان دو علماء سے ایک جن سے میں رہائی کے فوراً بعد حرم امام رضا,  میں ملا تھا) وہاں بیٹھے لوگوں کی میرے ساتھ ہمدردی دیکھی تو فوراً کہنے لگا: ’’یہ  لوگ امدادی کاموں کے لیے نہیں آئے، بلکہ یہ فسادی اور تخریب کار ہیں۔‘‘

بعض لوگ اسلام کے لیے کام کرنے والوں سے اس حد تک بغض رکھتے تھے۔

عدالت میں دوبارہ پیشی

اپیل دائر کرنے والی عدالت میں پیشی سے قبل کچھ اداری امور کو انجام دینا لازمی تھا۔ اس حوالے سے فوجی عدالت کی طرف رجوع  کرنا ضروری تھا۔ جب میں فوجی عدالت میں اداری امور انجام دے رہا تھا میں نے ایک جوان افسر کو دیکھا جو مسلسل میری طرف دیکھ رہا تھا۔ گویا وہ مجھ سے کوئی بات کہنا چاہتا تھا۔ میں  اس کے قریب ہوا تو وہ بولا: ’’میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘

میں نے کہا:’’ بولیں۔‘‘

اس نے کہا: ’’آپ نے پہلی پیشی میں جس طرح کی لمبی تقریریں جھاڑی تھیں اس دفعہ ان سے گریز کریں۔ اگر انہیں آپ کی ذہانت اور مضبوط شخصیت کا احساس ہوا تو وہ آپ کے ساتھ سختی سے پیش آئیں گے۔آپ کی  بھلائی اسی میں ہے کہ اپنےآپ کو ایک سادہ لوح اور پسماندہ شخص کے روپ میں ظاہر کریں۔‘‘

میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور چل پڑا۔ میں جانتا تھا کہ دینی علماء کی توہین کرنے والی متکبر عدالت کے سامنے اس طرح کا روپ دھارنا میرے بس میں نہیں ہے۔ میں جب کمرۂ عدالت میں داخل ہوا تو دیکھا وہ جوان عدالت کا محرر تھا۔

اس مرتبہ عدالت کا جج ایک مشہور شخص تھا۔ اس سے پہلے وہ اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز تھا، بعد میں وہ عدالت کا جج بن گیا۔ جج کی طرف سے مختلف امور کے حوالے سے مجھ پر سوالوں کی بوچھاڑ شروع ہوئی اور میں جواب دیتا رہا۔ پھر وہ اپنی دونوں جانب بیٹھے مشیروں کی طرف متوجہ ہوا اور کہا: ’’اس شخص کو دس سال جیل کی ضرورت ہے تاکہ اس عرصے میں تحقیق اور تالیف و تصنیف کو مکمل وقت دے سکے۔‘‘

میں نے کہا: ’’ إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ۔‘‘

یقیناً جج نے یہ بات از راہ مزاح کہی تھی لیکن اس کا مزاح اس جوان افسر کی نصیحت والی بات کی تائید  کر رہا تھا۔ یہ عدالت، سابقہ عدالت  کے فیصلے کی تائید کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔

مجھے جیل سے رہا  ہوئے زیادہ  عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ایک مرتبہ پھر مجھے مہر کے مہینے میں گرفتار کر لیا گیا۔ یہ میری پانچویں جیل تھی۔ میری چوتھی گرفتاری  23 ستمبر 1970؁ء کو اور پانچویں 27 ستمبر 1971؁ء کو ہوئی۔


([1]) آل عمران : 146

([2]) ایک قسم کا کھانا۔

([3]) چائے گرم رکھنے کا برتن جس کا استعمال ایران میں عام ہے۔

([4]) 1920؁ء کا عراقی انقلاب (ثورۃ العشرین): 1920؁ء میں برطانیہ نے عراق پر قبضہ کیا۔ اسی سال کی گرمیوں میں عراقی عوام نے آیت اللہ سید کاظم یزدی (عروۃ الوثقی کتاب کے مصنف) کی قیادت میں اور پھر آیت اللہ میرزا محمد تقی شیرازی کی قیادت میں برطانیہ کے خلاف قیام کیا۔ اس تحریک میں بہت سے لوگ اور دینی طالب علم شہید ہوئے جن میں سید کاظم یزدی کے بڑے بیٹے بھی شامل تھے۔ اسی طرح ایک بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا اور فوجی طاقت کے ساتھ اس تحریک کو کچل دیا گیا۔

بارہواں باب

کوٹھری نمبر 14

خفیہ لفظ (Code Word)

1971؁ء کی شدید گرمیوں کی ایک رات تھی۔ مجھے اکتاہٹ محسوس ہوئی جس کی وجہ معلوم نہیں تھی۔ میں نے خدا کی پناہ مانگی اور خود کو مطالعے میں مشغول کر لیا۔ اچانک بجلی چلی گئی جو ان دنوں معمول بن چکا تھا۔ میری بے چینی بڑھی اور سینہ بوجھل ہونے لگا۔ میں نے گھر سے نکلنے کا ارادہ کیا لیکن اپنے اندر اس کی بھی رغبت محسوس نہیں کی۔ گھر میں کوئی چراغ نہ تھا جو بجلی کی کمی کو پورا کرتا۔ میں اندھیرے میں کیا کروں؟ میں اسی حالت میں تھا کہ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔ میں دستک دینے والے کا نام پوچھے بغیر معمول کے مطابق خود دروازہ کھولنے گیا۔ اچانک ایک تہرانی دوست کو دروازے پر پایا۔ اس مناسب وقت میں اسے دیکھ کر دلی طور پر خوش ہوا۔ میں نے اس کا پوری کشادہ دلی سے استقبال کیا لیکن دوسری طرف وہ زیادہ خوش نظر نہیں آیا۔ میں نے اس چیز کی پروا کیے بغیر اسے اندرآنے کو کہا۔ میں نے دیکھا اچانک اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک چیز باہر نکالی۔ یہ میرے اور ایک خفیہ مسلح جہادی تنظیم کے درمیان خفیہ لفظ تھا اور میں اس تنظیم  کے صدر اور ایک رکن کے ساتھ رابطے میں تھا۔ اس تنظیم کی نشریات اور بیانات تقسیم سے پہلے اصلاح کی غرض سے مجھ تک پہنچتے تھے تاکہ ان کے صحیح  ہونے کا اطمینان ہو سکے۔

تنظیم پکڑی گئی

اس کی اس رمزیہ حرکت سے میری خوشی دوبالا ہو گئی۔ میں نے اسے خوشی سے کہا:’’آپ کے آنے سے قبل میں اکتایا ہوا اور پریشان تھا۔آپ مناسب وقت پرآئے ہیں اور میری اس تاریک رات کو روشن کر دیا ہے۔

میری توقع کے برخلاف  اس نے کہا: ’’عنقریب آپ کی پریشانی بڑھ جائے گی۔‘‘ میں نے اس کی بات کی زیادہ پروا نہیں کی۔ اسے بٹھایا اور چائے پیش کی۔ پھر اس سے تعجب سے پوچھا:’’آپ اس تنظیم کے رکن ہیں؟‘‘

اس نے فوراً جواب دیا: ’’خاموش! شاید گھر میں جاسوسی کا سسٹم لگا ہو۔‘‘

مجھے اس کی بات پر تعجب ہوا۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا: ’’میں ایک طالب علم ہوں۔ میرے گھر میں کون جاسوسی کا سسٹم لگائے گا؟!‘‘

اس نے کہا: ’’نہیں، معاملہ آپ کی سوچ سے بڑھ کر ہے۔ میں آپ کو وضاحت سے بتاتا ہوں۔ اس نے مجھ سے تھوڑا سا خمیر طلب کیا تاکہ کمرے میں موجود سراخ بند کرے۔

میں حیرت اور کچھ پریشانی کے عالم میں اس کے لیےآٹا لے کرآیا۔ وہ سوراخ بند کرنے کے بعد بیٹھا۔ میں نے جلدی سےکہا: ’’بتائیے کیا ہوا ہے؟‘‘

وہ تھوڑی دیر سر جھکائے بیٹھا رہا۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولا: ’’سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔‘‘

میں نے کہا: ’’کیا مطلب؟‘‘

اس نے کہا: ’’تنظیم پکڑی گئی ہے۔ سب دوستوں کا پتا چل گیا  ہے اور بعض کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘‘ پھر اس کی باتوں سے مجھے پتا چلا کہ جن دو افراد کے ساتھ میرا رابطہ تھا ان کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ اس نے مجھ سے کہا: ’’میں آپ کے لیے پیغام لایا ہوں۔ تنظیم سے مربوط چیزیں اپنے گھر سے نکال دیں۔‘‘ پھر اس نے ان نشریات کے بارے میں تفصیل سے بات شروع کی جو مجھے اصلاح کے لیے بھیجی گئیں تھیں۔ اس نے کہا: ’’فلاں نشریات کو تلف کردیں اور فلاں کو  باقی رکھیں اور انہیں تہران میں فلاں شخص کو  بھیج دیں۔‘‘ میں نے پوچھا:’’آپ ان نشریات کو تہران لے جائیں گے؟‘‘ اس نے کہا: ’’نہیں۔آپ اپنے مخصوص طریقے سے بھیجیں۔‘‘

میں چپ چاپ بیٹھا دیکھتا رہا اور وہ مجھے بتاتا رہا کہ مجھے کون سے انجام دینا ہیں۔ یہ ساری باتیں سن کر میں بہت پریشان ہو گیا اور وہ مجھے اس حال میں چھوڑ کر چلا گیا۔

ڈائریوں اور کاغذات کی ضبطی

یہ گرمیوں کا وسط تھا۔ دن گزرتے گئے اور خزاں کا موسم آن پہنچا۔ شہنشاہیت کی 25 صدیاں گزرنے کے حوالے سے طاغوت جشن منانے کی تیاری کرنے لگا۔ امن و امان کی صورتحال بگڑ گئی اور اسلام پسندوں کے گرد گھیرا تنگ ہو گیا۔

مہر کا مہینہ آیا۔ میرے پاس قم کے ایک عالم اپنے اہل و عیال سمیت مہمان تھے۔ ہم دونوں لائبریری کے ساتھ مہمان خانے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ لائبریری کا ایک دروازہ مہمان خانے میں کھلتا تھا۔ ہمارے سامنے دوپہر کے کھانے کا دسترخوان بچھا ہوا تھا۔ اچانک دروازے کی گھنٹی بجی اور کچھ دیر بعد کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں اٹھا اور دروازہ کھولا تو اچانک میری زوجہ کہنے لگیں: ’’ساواکی دروازے کے پیچھے ہیں۔‘‘ مجھے ان کی بات سے تعجب ہوا اور میں نے کہا: ’’آپ کو کیسے پتا چلا وہ ساواکی ہیں؟‘‘ انہوں نے قسمیں کھانا شروع کیں کہ وہی لوگ ہیں۔ شاید انہوں نے دروازے کے شیشے پر ان کے سائے دیکھے ہوں لیکن سائے یہ نہیں بتاتے کہ کون لوگ ہیں! وہ مکمل اعتماد اور وثوق سے بات کر رہی تھیں اور بار بار یہ کہہ رہی تھیں کہ مجھے یقین ہے وہ ساواکی ہیں۔ شاید یہ بات انہیں الہام ہوئی ہو۔

میں گیا اور دروازہ کھولا۔ وہ ساواک کے کچھ لوگ تھے۔ ان کے خیال کے مطابق میں روپوش تھا لہٰذا وہ خوش ہوگئے کہ میں ان کے چنگل میں پھنس گیا ہوں۔ وہ گھر میں گھسے، برآمدے سے ہوتے ہوئے لائبریری میں گئے اور کتابوں کو الٹنا اور کھنگالنا شروع کر دیا۔ ایک اہلکار کمرے میں پڑے اوراق اور کاپیاں جمع کرنے لگا۔ اس چھاپے کے دوران میری بہت سی ڈائریاں اور اہم کاغذات ضائع ہو گئے جن میں سے ایک کاغذ بھی واپس میرے ہاتھ نہیں لگا۔

میں کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا کہ شاید وہ لائبریری کی تلاشی پر اکتفا کریں اور مہمان خانے کا دروازہ نہ کھولیں تاکہ مہمان خوفزدہ اور تنگ نہ ہو۔ میں یہی بات سوچ رہا تھا کہ اتنے میں ایک اہلکار نے دروازہ کھولا اور مہمان کی طرف بڑھا۔ ان کے پاس بیٹھا اور ان سے سوال پر سوال کرنے لگا۔

انہوں نے تمام کتابیں چھان ماریں پھر گھر میں ہر جگہ کی تلاشی لی۔ مجھے یاد ہے ایک اہلکار میرے بیٹے مجتبیٰ کے جھولے کے پاس گیا جو اس وقت ۹  یا ۱۰ ماہ  کا خوبصورت اور معصوم بچہ تھا اور اسے دیکھ کر ترس کھانے لگا۔ ان لوگوں نے میرے بہت سارے کاغذات ضبط کر لیے اور مجھے ساتھ لے گئے۔ وہ مجھے ایک گاڑی میں بٹھا کر ساواک کے دفتر لے گئے۔ دفتر ایک نئی جگہ منتقل ہو چکا تھا۔ میں دفتر کے ایک کمرے میں گھنٹے تک بیٹھا رہا اور اس دوران مجھ سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی۔ پھر انہوں نے میری آنکھوں پرپٹی باندھی اور مجھے ایک بکتر بند گاڑی میں بٹھا دیا جو نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوگئی۔

مشہد کی سیاسی جیل

گاڑی رکی، انہوں نے مجھے اتارا اور میری آنکھوں سے پٹی کھول دی۔ میرے سامنے ایک وسیع و عریض ہال تھا جس کے اوپر بلندو بالا چھت اور چاروں طرف چھوٹے چھوٹے  کمرے تھے۔ یہ جگہ ایک بڑے گودام کی مانند تھی۔ مجھے بعد میں معلوم  ہوا کہ وہ ایک بڑے اسطبل کا حصہ ہے جو مشہد کی فوجی چھاؤنی کے پچھلے حصے میں واقع تھا۔ میں پہلے بھی اس جیل میں رہ چکا تھا۔ ہم گودام سے گزرے۔ اس کے آخر میں ایک بڑا دروازہ تھا جو ایک اور بڑے گودام میں کھلتا تھا۔ اس کے وسط میں ایک طویل عمارت تھی جس کی اونچائی کم، لمبائی  تقریباً 20 میٹر اور چوڑائی تقریباً ساڑھے 5 میٹر تھی۔ اس کی لمبائی میں دونوں طرف دس چھوٹے دروازے موجود تھے۔ نئی کوٹھڑیاں اسی پرانی عمارت میں تھیں۔

میں پہلے بتا چکا ہوں کہ مشہد میں سیاسی قیدیوں کے لیے مخصوص جیل نہیں تھی۔  مجھے تیسری اور چوتھی بار پولیس چوکی کے نزدیک ایک فوجی جیل میں قید رکھا گیا۔ اس سال انہوں نے سیاسی قیدیوں کے لیے چھاؤنی کے آخر میں جیل بنائی اور اس کے لیے ایک مستقل دروازہ کھولا گیا جس کا افتتاح میں کر رہا تھا۔

کل بیس کوٹھڑیاں تھیں۔ عمارتوں کے دونوں طرف پانی کے نلکے لگے ہوئے تھے اور وہاں چھوٹے اور سادہ بیت الخلا بنائے گئے تھے۔  وہ لوگ مجھے چوتھی کوٹھڑی میں لے گئے۔ میں نے اس سے پہلے اتنی چھوٹی کوٹھڑی نہیں دیکھی تھی جس کی مساحت ڈیڑھ مربع میٹر تھی۔ اس میں نہ روشن دان تھا اور نہ ہی روشنی کا کوئی اور انتظام۔ کوٹھڑی مکمل تاریک تھی۔ اس میں رہنے والا قیدی صرف اس وقت روشنی دیکھ پاتا جب نگہبان یا جیل کا کوئی عہدیدار قیدی سے بات کرنے کے لیے کوٹھڑی کا دروازہ یا دروازے میں لگی کھڑکی کھولتا۔

قیدیوں کا حوصلے بڑھانا

انہوں نے مجھے دو کمبل دیے۔ موسم سرد ہو رہا تھا اور سورج غروب ہونے کے قریب تھا۔ میں نے ابھی تک نماز نہیں پڑھی تھی۔ میں نے ان سے وضو کرنے کی اجازت چاہی۔ انہوں نے مجھے اجازت دی اور میں وضو خانے کی طرف گیا۔ جب میں کوٹھڑیوں کے پاس سے گزر رہا تھا تو مجھے محسوس ہوا کہ ان میں قیدی ہیں۔ مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ وہ قیدی دروازے پر لگی کھڑکی سے مجھے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں ایک کوٹھڑی کے سامنے سے گزر رہا تھا تو میں نے ایک کانپتی ہوئی آواز میں سرگوشی سنی: ’’میں فلاں ہوں۔‘‘ وہ ہمارے جہادی ساتھیوں میں سے تھا۔ وہ اسی دن یا اس سے ایک دن پہلے قید ہوا تھا۔ میں اس کی قید کے بارے نہیں جانتا تھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ قیدیوں کے حوصلے پست ہیں تو میں نے نگہبانوں کے ساتھ اونچی آواز میں بات کرنا شروع کی تاکہ میں اپنی اونچی آواز سے قیدیوں کے حوصلے بڑھاؤں۔ میں کبھی وضو خانے کے بارے پوچھتا اور کبھی قبلہ کی سمت کے بارے سوال کرتا۔ مجھے یاد ہے جب میں نے قبلہ کے بارے پوچھا تو ایک اہلکار نے جواب دیا: ’’کونے کی طرف۔۔۔‘‘ اس کی مراد کوٹھڑی کا کونہ تھا۔ میں نے اونچی آواز میں کہا: ’’جی ہاں، کوٹھڑی کا کونہ ہمیشہ قبلہ ہی ہوتا ہے۔‘‘ یہ اس بات سے کنایہ تھا کہ مومن کا دل ہمیشہ خانہ کعبہ کی طرف مائل ہوتا ہے۔

ایک اہلکار نے مجھ سے عمامہ اتارنے کا مطالبہ کیا تو میں نے انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ یہ جیل کے قوانین میں سے ہے۔ میں نے کہا میں ایسے قوانین کو نہیں مانتا۔ میں نے پچھلی جیلوں میں آج تک کسی کے کہنے پر عمامہ نہیں اتارا۔ جاؤ اور اپنے سربراہ سے اس بارے میں پوچھ لو۔

میں اپنی بات کے دوران آواز اونچی کرتا تھا تاکہ کوٹھڑیوں میں پڑے قیدی میری آواز سنیں اور ان کے حوصلے بلند ہوں۔ اس طرح کی باتیں عموما ڈرے ہوئے لوگوں کو حوصلہ دیتی ہیں۔ میں نے اذان اقامت اور رکوع و سجود کے اذکار بھی اونچی آواز میں پڑھے۔ نماز پڑھنے کے بعد میں سوچنے لگا کہ مجھے کیوں گرفتار کیا گیا ہے؟

مجھے گرفتار کرنے کے بہت سے عوامل ہو سکتے تھے لیکن کس وجہ سے مجھے گرفتار کیا گیا؟ اور میری کس سرگرمی کا انکشاف ہوا؟

میری بہت سی مخفی نشستیں تھیں جن میں سے بعض دینی طالب علموں کے ساتھ تھیں۔ میں ان نشستوں میں ایک درس لکھتا پھر اس کی تشریح کرتا اور اسے طالب علموں کے حوالے کرتا تاکہ وہ اس کے متعدد نسخے تیار کریں۔ ان دروس کا محور اسلام کا مزاحمتی پیغام ہوتا تھا۔ ان میں سے ایک نشست میں چھ طالب علم، دوسری میں تین اور تیسری میں صرف ایک طالب علم شریک ہوتا تھا۔ یہ طالب علم افغانستان سے تعلق رکھتا تھا جو بعد میں افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کے ہاتھوں شہید ہو گیا۔ اس حکومت نے افغانستان کے علماء کی ایک بڑی تعداد کو شہید کیا۔

میری سکول اور یونیورسٹیوں کے جوانوں کے ساتھ بھی خفیہ نشستیں تھیں۔ اسی طرح ایک نشست تاجروں کے ساتھ اور کچھ عملی نشستیں دینی طالب علموں کے ساتھ بھی تھیں جن میں ہم سیاسی حالات کا تجزیہ کرتے اور ضروری فیصلے لیتے تھے۔ مثلاً بیانات نشر کرنا اور انہیں قم بھیجنا یا وہاں سے بیانات وصول کرنا۔ اسی طرح میرے ایک خفیہ گروہ کے ساتھ بھی تعلقات تھے جو حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد میں مصروف تھا۔

کیا ان نشستوں میں سے کسی کا انکشاف ہوگیا ہے یا میری گرفتاری کا سبب میرے تفسیر اور اسلامی مفاہیم کے عمومی دروس ہیں؟

جو چیز میری پریشانی میں مزید اضافہ کر رہی تھی وہ خفیہ نشستیں تھیں کیونکہ خفیہ اداروں کے سامنے ان کا دفاع کرنا ممکن نہیں تھا۔ میں نے استغفار کیا اور خدا پر توکل کرتے ہوئے اس کی پناہ مانگی۔ میں نے کوٹھڑی میں ارد گرد دیکھا تو مجھے پچھلی جیلیں یاد آگئیں۔ مجھے لگا کہ میں جیل کی فضا کا عادی اور اس سے مانوس ہو چکا ہوں۔ مجھے اس وقت تک اس جیل اور سابقہ جیلوں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہو رہا تھا۔

عینک پہننا ممنوع ہے

کچھ دیر بعد ایک اہلکار آیا اور مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اپنا سامان جمع کروں۔ وہ مجھے دوسری طرف واقع ۱۴ نمبر کوٹھڑی میں لے گیا۔ یہ پچھلی کوٹھڑی سے کچھ بڑی تھی لیکن اس سے زیادہ تاریک تھی یہاں تک کہ میں اپنے ہاتھ میں موجود تسبیح کو بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اگلے دن میں جیل کی روز مرہ کے امور سے آگاہ ہوا۔ کوٹھڑی کا دروازہ دن میں تین مرتبہ کھانے اور ایک دفعہ صفائی کے لیےکھلتا تھا۔ وہ لوگ صفائی کے لیے قیدی کو جھاڑو پکڑاتے تھے۔

اگلے دن دوپہر کے وقت میں نے کھانا کھایا اور کچھ دیر کے لیے سو گیا۔ پھر جاگا اور نگہبان کو آواز دی۔ وہ میرے پاس آیا تو میں نے اس سے کہا: میرے پاس کچھ رقم ہے۔ اس سے ایک تربوز خرید لاؤ۔ اس نے کہا: ’’ٹھیک ہے۔ پھر وہ کچھ دیر بعد تربوز لے آیا۔‘‘ میں نے اس سے پوچھا: ’’تمہارے پاس چھری ہے؟‘‘ اس نے کہا: ’’جی ہاں۔‘‘ وہ کوٹھڑی میں داخل ہوا ۔  اس کے پاس چھری تھی۔ جیل کی قوانین کے تحت یہ کام ممنوع تھا کیونکہ قیدی موقع پا کر چھری سے نگہبان پر حملہ کر سکتا ہے۔ لیکن یہ نگہبان بہت سارے دوسرے نگہبانوں کی طرح جن کا پچھلی جیلوں میں مجھ سے واسطہ پڑا تھا، سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مجھ جیسا شخص ایسا کر سکتا ہے۔ نگہبان تربوز کاٹنے میں مشغول تھا اور کوٹھڑی کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اتنے میں ساواک کا ایک اہلکار وہاں سے گزرا تو اس نے یہ منظر دیکھا۔ وہ سخت غصہ ہوا اور اور اس نے نگہبان کو ڈانٹنا شروع کیا۔ وہ اسے سمجھانے لگا کہ یہ کام کس قدر خطرناک ہے۔ پھر اس نے نگہبان سے کہا: ’’اس کی عینک لےلو۔ جیل میں عینک پہننا ممنوع ہے۔‘‘ نگہبان نے میری عینک لی اور دروازہ بند کر دیا۔

جب کوٹھڑی کا دروازہ کھلا تھا تو میں نے دیکھا کہ برآمدے میں حالات پہلے سے مختلف ہیں۔ غیرمعمولی نقل و حرکت دیکھنے میں آرہی تھی جبکہ پہلے ایسا کچھ نہ تھا۔ دروازہ بند ہونے کے بعد بھی یہ نقل و حرکت جاری رہی۔ کوٹھڑیوں کے دروازے کھلنے اور بند ہونے کی آوازیں آرہی تھیں۔ میں غور سے یہ آوازیں سن رہا تھا کہ اچانک دور سے کسی چیخ کی آواز آئی گویا کسی قیدی کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد ایک قیدی کی آواز سنی جسے اس کی کوٹھڑی کی طرف لے جایا جا رہا تھا اور وہ دردناک انداز میں سسکیاں لے رہا تھا۔ میں نے دروازے کے سوراخوں سے دیکھنے کی کوشش کی۔ میری نظر ایک عالمِ دین پر پڑی جنہیں میں جانتا تھا۔ اہلکار انہیں لے جارہے تھے اور ان کی داڑھی مونڈی جا چکی تھی۔ شدید تشدد کی وجہ سے وہ اپنے پاؤں پر چل نہیں پا رہے تھے۔

تشدد کی چارپائی پر

کچھ دیر بعد ایک اہلکار نے میری کوٹھڑی کا دروازہ کھولا اور پوچھا: ’’تم فلاں ہو؟ میرے ساتھ آجاؤ۔‘‘ میں اس کے ساتھ مذکورہ گودام کے کونے میں واقع ایک کمرے میں گیا۔ میں کمرے میں داخل ہوا۔  وہاں چھ سے سات افراد موجود تھے۔ میں عینک نہ ہونے کی وجہ سے انہیں نہیں پہچان سکا۔ میں نے خطرہ محسوس کیا اور اپنی عادت یا فطرت کی وجہ سے ان لوگوں پر زبانی حملہ شروع کر دیا۔ میں نے عینک لیے جانے پر اعتراض کیا۔ تم لوگوں نے میری عینک کیوں لی؟ میں عینک کے بغیر نہیں دیکھ سکتا۔

جب میں نے احتجاج کرتے ہوئے آواز بلند کی تو ایک اہلکار آگے بڑھا۔ جب وہ میرے قریب پہنچا تو میں پہچان گیا کہ یہ وہی شخص ہے جس نے سابقہ جیل میں مجھ سے تفتیش کی تھی اور عدالت کو میرے متعلق رپورٹ لکھی تھی۔ (وہ انقلابِ اسلامی کی کامیابی سے پہلے مظاہرین کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔) میں نے عدالت میں اس کی رپورٹ کو غلط ثابت کیا  تھا اور اس کا نام لیے بغیر کہا تھا: ’’رپورٹ لکھنے والا جاہل ہے۔‘‘

 وہ میرے قریب آیا اور اس نے غصے کے ساتھ تمسخر آمیز لہجے میں کہا: ’’تم کیا سمجھتے ہو، یہ عدالت ہے، جہاں تمہیں ہر بات کہنے کی اجازت ہوگی؟‘‘ پھر وہ تمسخر آمیز انداز میں میری نقل اتارنے لگا اور اس نے میرے چہرے پر طمانچہ مارا۔ میں نے اپنے آپ کو قابو میں رکھا لیکن اس نے ایک دفعہ پھر ہاتھ اٹھایا اور میں نیچے گر گیا۔ میں کمرے کے کونے میں موجود چارپائی پر جا گرا۔ اٹھنے کا ارادہ کیا تو ایک اہلکار نے کہا: ’’اسی جگہ رہو۔ تم مناسب جگہ پر گرے ہو۔‘‘ میں جان گیا کہ وہ تشدد کی چارپائی ہے۔ انہوں نے میرے پاؤں چارپائی کے ساتھ باندھے اور ایک اہلکار نے دیوار پر لٹکے تازیانوں میں سے ایک تازیانہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ وہاں مختلف حجم کے تازیانے موجود تھے۔ اس نے وحشیانہ طریقے سے میرے پاؤں پر مارنا شروع کیا۔ وہ مارتا رہا یہاں تک کہ تھک گیا۔ پھر دوسرے اہلکار نے تازیانہ پکڑا اور مارنا شروع کیا۔ وہ بھی تھک گیا تو تیسرے اہلکار نے تازیانہ اٹھا لیا اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔

سوائے میرے ان سب کو باری باری آرام کا موقع مل رہا تھا۔ انہوں نے مجھے ایک لمحے کے لیے بھی آرام کا موقع نہیں دیا۔ اس حالت میں جسے بیان کرنا ممکن نہیں، میں بعض اہلکاروں کی خباثت سے حیران تھا۔ تازیانہ اٹھانا اور مجھے مارنا ان کی ذمہ داری تھی۔ ان کی یہ بھی ذمہ داری تھی کہ مجھے اتنا ماریں کہ میں ان کے سامنے ہار مان جاؤں۔ پس ان کا مجھے مسلسل مارنا طبیعی سی بات تھی لیکن بعض اہلکار اپنی مخصوص خباثت کا اظہار کرتے تھے۔ وہ ایک ہاتھ سے تازیانہ پکڑتے، دوسرے ہاتھ سے اس کا سرا کھینچ کر کمر کے پیچھے لے جاتے اور زور سے مارتے تاکہ اپنی بھڑاس نکال سکیں۔

تشدد کے دوران ایک اہلکار میرے سر کے قریب آتا اور مجھ سے مطالبہ کرتا کہ میں اسلامی تحریک یا فلاں شخص سے بیزاری کا اظہار کروں لیکن میں انکار کر دیتا۔ ان لوگوں نے مجھے اتنا مارا کہ میں بے ہوش ہو گیا۔ اس ناخوشگوار تجربے کے دوران مجھے اندازہ ہوا کہ پاؤں کے تلووں پر مارنا سخت ترین تشدد ہے کیونکہ اس طرح قیدی کے بے ہوش ہوئے بغیر اس تشدد کو گھنٹوں جاری رکھا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ یہ تشدد اعصاب پر برا اثر چھوڑتا ہے۔ میں نے سنا کہ تشدد کرنے والے اہلکار، اسرائیلی ماہرین کی زیر نگرانی مختلف کورسز کر چکے تھے۔  یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کام میں اور قیدی سے اعتراف لینے میں ماہر تھے۔

قابل ذکر بات ہے کہ میں جسمانی تشدد کے اس تجربے سے پہلے اپنے دوستوں کے ساتھ مخصوص نشستوں میں تشدد کے ذرائع، ان سے مقابلے کے طریقوں اور جیل میں بھوک ہڑتال  پر گفتگو کرتا تھا۔ میں نے ایک مرتبہ کہا کہ میری بھوک ہڑتال طولانی نہیں ہوگی اور میرے اوپر زیادہ دیر تشدد بھی نہیں ہو سکے گا کیونکہ اگر میں بھوک ہڑتال کروں گا تو معدے کی کمزوری کی وجہ سے فوراً بیمار ہو جاؤں گا اور جیل سے ہسپتال منتقل ہو جاؤں گا۔ اسی طرح میرے اوپرتشدد بھی زیادہ دیر نہیں ہو سکے گا چونکہ میں کمزور جسم کی وجہ سے فورا بے ہوش جاؤں گا۔

نشست میں بیٹھے ایک دوست نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ پانی کا ایک گلاس آپ کے چہرے پر پھینکا جائے گا اور آپ ہوش میں آجائیں گے۔

جسمانی تشدد کے اس پہلے تجربے میں دوست کی وہ بات سچ ثابت ہوئی۔ میں نے احساس کیا کہ میں بے ہوش ہو گیا ہوں۔ گویا میں اس عالم سے کسی دوسرے عالم کی طرف منتقل ہو رہا ہوں۔ اسی اثناء میں تشدد کرنے والے ایک اہلکار نے پانی سے بھرا گلاس میرے چہرے پر پھینکا۔ جونہی میں ہوش میں آیا تو اس نے باقی پانی میرے پاؤں پر پھینک دیا تاکہ تازیانے کا وار زیادہ تکلیف دہ ہو۔

میری پسندیدہ کوٹھڑی

جس طرح سے ہر چیز ختم اور زائل ہوتی ہے، اس طرح تشدد، سختی اور لذت بھی آخرکار ختم ہوجاتی ہے۔ لہذا یہ تشدد بھی ختم ہو گیا اور انہوں نے میرے پاؤں کی زنجیریں کھول دیں۔ میں لڑکھڑاتے ہوئے اٹھا لیکن مجھ میں چلنے کی طاقت نہیں تھی۔ میرے دونوں پاؤں میں ورم آچکا تھا اور میں پورے وجود میں درد  محسوس کر رہا تھا۔ ایک تفتیش کار نے مجھ سے کہا: ’’اپنی کوٹھڑی میں جاؤ اور جب تک اعتراف نہیں کرتے ہم تمہیں یہاں لاتے رہیں گے۔‘‘

جب میں کوٹھڑی کی طرف واپس آیا اور اس میں داخل ہوا تب عجیب سا سکون محسوس ہوا اور ایک خاص قسم کے امن و اطمینان کا احساس ہوا۔ اس وحشیانہ اور خوفناک تشدد کے بعد کوٹھڑی کی دیواریں اور بند دروازہ میرے اندر ایک سکون اور اطمینان پیدا کر رہے تھے۔

میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے اس کوٹھڑی کو جو عام طور پر وحشت اور تنہائی کا موجب ہوتی ہے، میرے لیے آرام اور سکون کا سبب قرار دیا۔ مجھے زمین پر بیٹھ کر راحت محسوس ہوئی۔ میں اپنی ٹانگیں پھیلا رہا تھا اور کوئی ان پر تشدد کرنے والا نہ تھا۔ اسی طرح میں اپنا سر دیوار پر رکھ رہا تھا اور وہاں مجھے برے الفاظ سے پکارنے والا کوئی نہ تھا۔

وہ لوگ قیدی سے معلومات لینے کے لیے مختلف قسم کا دباؤ ڈالتےتھے۔ مثال کے طور پر وہ قیدی کو چند سفید کاغذ دیتے اور اس سے مطالبہ کرتے کہ وہ اپنے اعترافات کو سوال و جواب کی شکل میں لکھے۔ وہ اس حوالے سے قیدی پر شدید دباؤ ڈالتے تھے۔ خدا نخواستہ اگر قیدی پوچھ لیتا کہ کیا لکھوں تو وہ اسے مارنا پیٹنا اور گالیاں دینا شروع کرتے اور اسے کہتے: ’’لکھو۔۔ لکھو۔۔ ‘‘ بعض اوقات قیدی دو تین صفحات لکھتا تو تفتیش کار ان صفحات کو لے کر تحقیر آمیز انداز میں دیکھتا اور قیدی کے سامنے پھاڑ دیتا اور اس پر دباؤ ڈالتا کہ وہ اور زیادہ لکھے۔

میں تشدد کی تمام تفصیلات بیان نہیں کر سکتا چونکہ الفاظ ان کے بیان سے قاصر ہیں اور نہ ہی انہیں بیان کرنے کی ضرورت ہے چونکہ وہ بہت دردناک اور تکلیف دہ ہیں۔ لہذا میں ان تکلیف دہ مناظر سے ایک دوسرے منظر کی طرف منتقل ہوتا  ہوں تاکہ آپ لوگ راحت اور سکون محسوس کریں۔ البتہ ان باتوں میں عبرت لینے والوں کے لیے عبرت بھی ہے۔

کل کا داروغہ آج کا قیدی

انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے پانچ چھے ماہ بعد ایک کام کے سلسلے میں تہران سے اپنے شہر مشہد گیا۔ اس وقت میں انقلاب کونسل کا رکن، وزارت دفاع میں اس کونسل کا اور مختلف حکومتی اداروں میں امام خمینی@کا نمائندہ تھا۔ اللہ تعالی کی مشیت یہی تھی کہ برسوں کے ظلم و ستم، پریشانی اور بے چینی کے بعد، میں اسلام اور مسلمانوں کی اور راہ خد ا میں لڑنے والے مجاہدین کی عزت کو محسوس کرتے ہوئے اس شہر میں داخل ہوں۔

مشہد شہر کی انتظامیہ نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں ’’مرکزی انقلابی کمیٹی‘‘ کے دفتر کا دورہ کروں۔ اس دوران ایران میں شہروں کے اکثر امور انقلابی کمیٹیاں چلاتی تھیں۔  ’’رستاخیر‘‘ پارٹی کے مشہد میں موجود  دفتر کو اس غرض کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ یہ کئی منزلوں پر مشتمل بہت بڑی اور اونچی عمارت تھی جسے شاہ کی پارٹی نے اپنے دفتر کے لیے بنایا تھا۔ تعمیر مکمل ہو چکی تھی لیکن اللہ تعالی نے شاہ کو سرنگوں کیا۔ یہ عمارت انقلابیوں کے ہاتھ آگئی اور انہوں نے اسے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا۔ یہ عمارت انقلاب کی کامیابی کے بعد مشہد شہر میں  انقلابی کمیٹی کے مرکزی دفتر میں تبدیل ہوگئی۔

انہوں نے مجھے بتایا آخری منزل خطرناک قیدیوں کے لیے مختص ہے۔ ان قیدیوں کے نام مجھے بتائے گئے جن میں سے اکثر کو میں جانتا تھا۔ ان میں  سے ایک برومند بھی تھا۔ اس کا ایک اور نام بابائی تھا۔ نہیں معلوم کون سا اس کا اصلی نام تھا۔ میری پانچویں گرفتاری کے دوران وہ مجھے ٹارچر کرنے والوں میں سے تھا۔

میں نے کہا: سبحان اللہ، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ۔

ہم عمارت کی طرف بڑھے۔ انقلابی کمیٹی کے سربراہ اور آستان قدس رضوی میں امام خمینیؒ کے نمائندے شیخ طبسی کے علاوہ مشہد شہر کے گورنر بھی میرے ہمراہ تھے۔ یہ گورنر میرے ساتھ جیل میں رہ چکے تھے اور انہیں بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ہم اوپر والی منزل پر گئے۔ بڑے بڑے کمرے تھے جن میں قیدی رکھے گئے تھے۔ کمروں میں بڑی بڑی کھڑکیاں تھیں جو سڑک کی طرف کھلتی تھیں اور ان پر لوہے کی سلاخیں بھی نہیں تھیں۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ کمرے قیدیوں کے لیے مناسب نہیں کیونکہ ممکن ہے کوئی خطرناک قیدی کھڑکی سے نیچے چھلانگ لگا دے۔ لیکن لگ ایسا رہا تھا کہ انقلابی کمیٹی کے منتظمین یہ بات جانتے ہیں کہ ان لوگوں کو اپنی زندگی بہت عزیز ہے اور کبھی بھی اس طرح جان کی بازی نہیں لگائیں گے لہٰذا انہیں ان بڑی کھڑکیوں والے کمروں میں چھوڑ دیا گیا ہے۔

وہ مجھے ایک خاص کمرے میں لے گئے جہاں کچھ لوگ بیٹھے تھے۔ ان میں سے بعض کو میں نے پہچان لیا۔ میں نے انہیں سلام کیا اور نصیحت کی کہ ان کے پاس جو معلومات ہیں وہ بتا دیں۔ انقلابیوں کے ساتھ تعاون کریں۔ ایسی کوئی امید نہ رکھیں کہ شاہ کا سرنگوں نظام دوبارہ واپس آئے گا۔ یہ انقلاب کامیاب ہو چکا ہے اور اپنی کامیابیاں خدا کے اذن سے جاری رکھے گا۔ پس تمہارے پاس سوائے اعتراف اور تعاون کے کوئی راستہ نہیں ہے۔

کمرے کے کونے میں ایک شخص نماز پڑھ رہا تھا۔ میں پہچان گیا کہ بابائی ہے۔ میں نے قیدیوں سے پوچھا: کیا یہ بابائی ہے؟ انہوں نے کہا: ’’جی۔‘‘ میں نے کہا: ’’عجب! اس کے ساتھ میری بڑی یادیں ہیں۔‘‘ سب کی نظریں اس کی طرف متوجہ ہو گئیں۔  وہ سلام کیے بغیر مسلسل نماز پڑھے جا رہا تھا۔ وہ مجھ سے خوف زدہ نظر آ رہا تھا اور خطرہ محسوس کر رہا تھا لہٰذا اس نے دکھاوے کے طور پر خود کو نماز میں مشغول کر لیا تھا تاکہ میرا سامنا نہ کر سکے۔ میں ایک اور کمرے میں گیا۔  وہاں موجود قیدیوں کے احوال پوچھےاور پھر پہلے والے کمرے میں واپس آگیا۔ اچانک دروازہ کھولا۔ بابائی نے جب مجھے دیکھا تو حیران ہوگیا۔ اسے کچھ سمجھ نہ آیا اور وہ فورا نرم پڑ گیا۔ مجھے واسطے دینے لگا اور بڑی بڑی قسمیں کھانے لگا کہ وہ ایک غصے والا جوان تھا جسے دھوکہ دیا گیا۔ میں جواب دیے بغیر اس کی باتیں سنتا رہا۔ پھر اس سے کہا: ’’تمہیں یاد ہے تم جیل میں میرے ساتھ کیسا سلوک روا رکھتے تھے؟ میں تمہیں صرف ایک واقعہ یاد دلاتا ہوں۔ مجھے یاد ہے تم ٹارچر سیل میں میری داڑھی پکڑ کر مجھے زمین پر گراتے تھے، پھر داڑھی پکڑ کر اٹھاتے تھے اور مجھے گالیاں دیتے تھے۔ پھر مجھے زمین پر گراتے تھے، اور اسی طرح۔۔۔‘‘ اس نے کہا: ’’ہاں، مجھے یاد ہے۔‘‘

یہ باتیں سن کر میرے ساتھی آپے سے باہر ہوگئے اور اگر میں انہیں نہ روکتا تو انہوں نے اسی وقت اس کا کام تمام کرنے کی ٹھان لی تھی۔ پھر میں نے بات جاری رکھی اور اس سے کہا: ’’میں تمہیں چھڑانے کے لیے تیار ہوں اور تم جانتے ہو کہ میں یہ کام کر سکتا ہوں لیکن ایک شرط کے ساتھ اور وہ یہ کہ تم ہمیں اپنے سربراہ کے چھپنے کی جگہ بتا دو۔‘‘

یہ سربراہ جس کے بارے میں، میں نے بابائی سے پوچھا ساواک کا ایک خطرناک افسر تھا۔ اسی نے مشہد شہر میں ساواک کی بنیاد رکھی تھی اور تاسیس سے لے کر اس کے زوال تک اپنے عہدے پر باقی رہا جبکہ دوسرے سربراہ مسلسل تبدیل ہوتے رہتے تھے۔ اس شخص کے پاس نہ صرف مشہد شہربلکہ صوبہ خراسان سے متعلق تمام معلومات تھیں۔ میں جانتا تھا کہ بابائی اس کے چھپنے کی جگہ کا علم رکھتا ہے کیونکہ انقلاب اسلامی کے دنوں یہ گروہ آپس میں مربوط اور اس کے افراد ایک دوسرے سے رابطے میں تھےلیکن اس کا اصرار تھا کہ اسے سربراہ کی جگہ کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا: ’’میرا خیال میں وہ ایران سے بھاگ گیا ہے۔‘‘

بہرحال بابائی پر عدالت میں کیس چلایا گیا اور اسے سزائے موت ہو گئی۔ اس نے ایسے ایسے جرائم انجام دیے تھے جن میں سے ہر ایک پر پھانسی کی سزا بنتی تھی۔ آخر کار، کئی سال چھپنے کے بعد، ساواک کے مذکورہ سربراہ کو پکڑ لیا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا۔

میری پانچویں جیل کے دوران بابائی کی گستاخی اور بے شرمی کے بارے میں مجھے بہت کچھ یاد ہے۔ جس تشدد کا میں نے تذکرہ کیا، اس کے اگلے دن یہ شخص میری کوٹھڑی میں آیا۔ مکمل تاریکی کے باوجود میں نے اسے پہچان لیا۔ وہ زمین پر بیٹھ گیا حالانکہ کوٹھڑی میں قیدیوں کے علاوہ کسی اور کا بیٹھنا ممنوع ہوتا ہے۔ اپنی بات کا آغازمحترمانہ لہجے میں میری احوال پرسی سے کیا۔ کہنے لگا: ’’جناب سید آپ کا کیا حال ہے؟ امید ہے جیل میں آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔‘‘ اس نے اپنی بات جاری رکھی: ’’آپ کے لیے میرے پاس ایک نصیحت ہے۔ وہ یہ کہ آپ کے پاس جو کچھ معلومات ہیں وہ بتا دیں۔ تمام سوالوں کا شفاف انداز میں جواب دیں۔ اور اگر ایسا نہیں ہواتو خدا نخواستہ۔۔ خدا نخواستہ۔۔ یہ لوگ آپ کے ساتھ وہ کچھ کریں گے جو آپ کے مقام ومنزلت اور آپ کی شخصیت کے لیے مناسب نہیں ہوگا۔‘‘ اس بے شرمی کے لہجے میں وہ شخص مجھ سے بات کر رہا تھا جس نے ابھی کل ہی مجھ پر مختلف قسم کا جسمانی اور نفسیاتی تشدد کیا تھا۔

میں اس کی بات سن کر ہنسا اور کوئی جواب نہیں دیا لہٰذا وہ وہاں سے چلا گیا۔

اس طرح مجھے قرآن مل گیا!

میری گرفتاری رجب کے مہینے کے آخر یا ماہ شعبان کے شروع میں ہوئی تھی۔ دن گزرتے گئے اور رمضان المبارک قریب آگیا۔ میں نے برآمدے میں تفتیش کاروں کے سربراہ کے چلنے کی آواز سنی۔ جب وہ قریب آیا اور میری کوٹھڑی کے نزدیک ہوا تو میں نے اسے آواز دی۔ اس نے دروازہ کھولا اور مجھ سے حال احوال پوچھا۔ وہ مجھے ’’شیخ‘‘ کہ کر پکارتے تھےاور اپنی باطنی خباثت کی وجہ سے شیخ کی شین کو زیر کے ساتھ پڑھتے تھے جبکہ عام طور پر مجھ جیسوں کو ’’سید‘‘ کہہ کے پکارا جاتا ہے۔

میں نے اس سے کہا: ’’رمضان کا مہینہ نزدیک ہےاور میرے لیے کوٹھڑی میں نماز، روزہ اور دعا جیسی عبادات انجام دینا ممکن نہیں لہٰذا اس مہینے میں مجھے یہاں سے نکالیں۔‘‘ اس نے کہا: ’’حیرت ہے، رمضان آرہا ہے؟! روزے کے لیے یہ بہترین جگہ ہے۔ یہ مسجد ہے (اس نے کوٹھڑی کی طرف اشارہ کیا) اور یہ حمام ہے (اس نے جیل کے حمام کی طرف اشارہ کیا)۔ یہیں رہو، نماز پڑھو اور روزے رکھو۔

مجھے پتا تھا وہ مجھے یہاں سے آزاد نہیں کریں گے لیکن میں نے اس سے ایک بڑا مطالبہ کیا تاکہ وہ میرا چھوٹا مطالبہ پورا کر دے۔ میں نے فورا کہا: ’’ٹھیک ہے، پھر مجھے قرآن ساتھ رکھنے کی اجازت دیں۔‘‘

اس نے کہا: ’’ٹھیک ہے۔‘‘

اس نے قرآن ساتھ رکھنے کی اجازت دے دی۔ میرے گھر سے ایک قرآن لایا گیا۔

مکمل تاریکی میں قرآن پڑھنا ممکن نہ تھا۔ میں نے نگہبان سے کہا: ’’میں قرآن پڑھنا چاہتا ہوں، لہذا تھوڑا سا دروازہ کھول دو۔‘‘

وہ گیا اور اس نے اجازت مانگی۔ انہوں نے دس سینٹی میٹر تک دروازہ کھولنے کی اجازت دے دی۔ قرآن پڑھنے کے لیے اتنا فاصلہ کافی تھا۔ میں نے اس مہینے میں بہت زیادہ قرآن پڑھا اور جتنا ممکن تھا قرآن حفظ کیا۔ جیل میں تشدد کے علاوہ تلاوت اور روزوں کی وجہ سے میری نظر اور زیادہ کمزور ہوگئی۔

حسد میں مبتلا عالم

اس جیل کی یادوں میں سے ایک ان کا میری داڑھی مونڈنا ہے۔ داڑھی مروجہ سنت ہونے کے علاوہ علماء کے علمی اور دینی حلیے کا لازمی جزو ہے۔ پہلی جیل میں داڑھی مونڈنا میرے لیے انتہائی تکلیف دہ تھا۔ اگلی جیلوں میں ایسا نہیں ہوا کیونکہ مشہد کی جیلوں میں داڑھی مونڈنے کا قانون نہیں تھا۔ اس جیل میں ایک عالمِ دین کو دیکھا جن کی داڑھی مونڈی گئی تھی۔ انہیں دیکھ کر مجھے اپنی داڑھی کے انجام کا اندازہ ہوگیا۔ داڑھی مونڈنے کے لیے ہفتے میں ایک دن معین تھا۔ وہ دن آگیا۔ میں قیدیوں کی آوازیں سن رہا تھا جو یکے بعد دیگرے حجام کے کمرے کی طرف جا رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد میری باری تھی۔ میں کیا کروں؟ میں ان کی بات مان لوں یا مزاحمت کروں؟ اللہ کے سامنے گڑگڑایا کہ وہ میرے لیے آسانی پیدا کرے۔ میری باری آگئی۔ کوٹھڑی کا دروازہ کھلا۔ جیل کے سربراہ کی نظر جونہی مجھ پر پڑی فورا کہا: ’’نہیں، تم یہیں رہو، اور دروازہ بند کر دیا۔‘‘

مجھے اس بات کی توقع نہیں تھی۔ میں نے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا۔ ہر ہفتے یہی واقعہ تکرار ہوتا رہا۔ وہ داڑھی مونڈتے ہوئے مجھے چھوڑ دیتے تھے اور میں واحد قیدی تھا جسے اس سزا سے معاف رکھا گیا تھا۔

یہاں میں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں جو باعثِ عبرت ہے۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ صرف جیل جانا انسان کی شخصیت سازی کے لیے کافی نہیں ہےبلکہ جیل کا  تجربہ بھی، زندگی کے دوسرے تجربوں کی طرح، بعض لوگوں کو سکھاتا ہے، ان کے عزم اور ارادے کو پختہ کرتا ہے اور ان کی شخصیت کو نکھارتا ہےجبکہ بعض دوسرے لوگوں میں بالکل اثر نہیں کرتا۔ کچھ لوگوں کو یہ تجربہ ذلت اور پستی تک بھی لے جاتا ہے۔ مسئلے کا تعلق اس بات سے ہے کہ زندگی کے تجربوں کے مقابلے میں اس شخص کا نظریہ اور ہدف کس قدر بلند ہے؟!

اس جیل کی ایک کوٹھڑی میں ایک عالمِ دین تھے جو عمر میں مجھ سے بڑے اورحسد کے مرض میں شدید مبتلا تھے۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس مرض سے محفوظ رکھے۔ ان کی داڑھی منڈوانے کی باری آئی۔ انہیں پتا چلا کہ مجھے داڑھی منڈوانے سے معاف رکھا گیا ہے۔ نگہبانوں نے کوٹھڑی کا دروازہ کھولا تاکہ انہیں داڑھی مونڈنے لے جائیں۔ میں نے ان کی آواز سنی تو  وہ کہہ رہے تھے: ’’میں اپنی داڑھی نہیں منڈواؤں گا۔ تم لوگ کوٹھڑی نمبر ۱۴ میں موجود قیدی کی داڑھی کیوں نہیں مونڈتے؟‘‘ (یقینا وہ میرے بارے میں کہہ رہا تھا) اسی طرح وہ داڑھی مونڈنے پر اعتراض کرتے رہے۔ ان کے اس اعتراض کی وجہ میری داڑھی نہ مونڈنا تھا۔ مجھے بہت افسوس ہوا اور اس حرکت پر تعجب بھی جس کے ذریعے وہ مجھے خطرے میں ڈال رہے تھے۔ اعتراض کرنا ان کا حق تھااور یہ بھی ان کا حق تھا کہ وہ اپنے اعتراض کی مختلف وجوہات بیان کریں لیکن وہ مجھے کیوں خطرے میں ڈال رہے تھے۔

انہوں نے پلٹ کر پھر سے محافظ سے کہا: ’’تم جاؤ اور افسران سے کہو: ۱۴ نمبر کوٹھڑی والا قیدی داڑھی منڈوانے نہیں آتا لہٰذا میں بھی نہیں آؤں گا۔‘‘

میں پریشان ہوا اور اللہ تعالی سے دعا کی وہ مجھے داڑھی منڈوانے سے بچا لے۔ کچھ ہی دیر بعد جیل کا سربراہ آیا۔ اس نے اس عالم کی کوٹھڑی کا دروازہ کھولا، انہیں گالیاں دیں، ان کی توہین کی اور داڑھی منڈوانے لے گیا۔ وہ لوگ یکے بعد دیگرے قیدیوں کو کوٹھڑیوں سے نکال رہے تھے اور میں اندازہ لگا رہا تھا کہ اس دفعہ اس عالم کی اعتراض کے بعد وہ لوگ مجھے نہیں چھوڑیں گے لیکن جونہی وہ لوگ میری کوٹھڑی تک پہنچے تو مجھے چھوڑ کر اگلی کوٹھڑی کی طرف چلے گئے۔ میں نے سکون کا سانس لیا اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیا۔

میرے شاگردوں پر تشدد

اس جیل کی تلخ یادوں میں سے ایک یہ ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے اپنے بعض شاگردوں پر تشدد ہوتے دیکھا۔ اس جیل میں دس سے زیادہ دینی طالب علم تھے جن میں سے اکثر میرے شاگرد تھے۔ اسی طرح یہاں کچھ میرے یونیورسٹی کے شاگرد بھی تھے۔ اس جیل میں بعض خاص شاگردوں پر تشدد ہوتے بھی دیکھا جن کے ساتھ میری خفیہ نشستیں ہوتی تھیں۔

ان میں سے ایک سید عباس موسوی قوچانی تھے۔ وہ ایران عراق جنگ میں شہید ہوئے۔ وہ میرے ساتھ والی کوٹھڑی (کوٹھڑی نمبر 15) میں تھے۔ میری دوسری طرف ۱۳ نمبر کوٹھڑی میں ایک دوسرے طالب علم تھے۔ دونوں کو ایک بیان تقسیم کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا جبکہ مجھے ایک اور مسئلے میں گرفتار کیا گیا تھا جس کا ان دونوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

۱۳ نمبر کوٹھڑی والے طالب علم نے تشدد کی سختی برداشت نہ کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ اس نے یہ بیان سید موسوی سے لیا تھا۔ ان وحشیوں کے تشدد کے نتیجے میں اعتراف ایک طبیعی امر تھا جس پر کسی کی ملامت نہیں کی جا سکتی لیکن سید موسوی کے لیے اعتراف کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ ان کا اعتراف ایک بڑی مصیبت کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا تھا۔ یہ اعتراف تحریک کے بلند پایہ افراد کو خطرے میں ڈال سکتا تھا۔ معاملہ بہت خطرناک تھا اور ان کے پاس سوائے مزاحمت کے کوئی راستہ نہ تھا۔

اس طالب علم کے پاؤں کے تلووں پر اتنی ضربیں لگائی گئیں کہ ان میں شگاف پڑ گیا جس کا اثر ممکن ہے اب بھی موجود ہو۔ جب کہ سید موسوی پر ان سے زیادہ تشدد کیا گیا۔ وہ تشدد سہنے کے بعد کراہتے ہوئے کوٹھڑی کی طرف لوٹتے تھے جس سے میرا دل چھلنی ہو جاتا تھا۔ وہ لوگ بہت وحشیانہ طریقے سے ان پر تشدد کرتے تھے، شاید ہی اس کی کوئی مثال ملے۔ ایک دن ان کو لے گئے، تشدد کا نشانہ بنایا اور واپس لے آئے۔ ایک گھنٹے بعد دوبارہ لے گئے، پھر تشدد کیا اور واپس لے آئے۔ رات کو جونہی استراحت اور سونے کا وقت ہوا ایک بار پھر بلایا، تشدد کیا اور واپس لے آئے۔ اور پھر آدھی رات  کو ان کو ایک دفعہ پھر ٹارچر سیل لے گئے۔ میں ان کی چیخیں اور فریادیں دن رات سنتا تھااور میرا دل ان کی ہر چیخ پر چھلنی ہو جاتا تھا۔ اس درندگی اور وحشیانہ سلوک کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

اس جیل میں سید موسوی کو تسلی دینے کا واحد ذریعہ یہ تھا کہ جب وہ ٹارچر سیل سے واپس آتے میں قرآن کی تلاوت شروع کر دیتا۔ میں اس مقصد کے لیے مخصوص آیات کا انتخاب کرتا تاکہ ان کے زخموں کے لیے مرحم، دل کے لیے سکون اور ارادے کی پختگی کا سبب بن سکیں۔ بعض اوقات میں ان کے ساتھ قرآن والے لہجے کے ساتھ عربی زبان میں بات کرتا اور ان کو حق پر ڈٹے رہنے اور صبر کی تلقین کرتا۔

جیل کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ سید موسوی کو اس طالب علم سے دور کیا جائےلہٰذا سید کو سامنے والی کوٹھڑی میں لے گئے۔ اس طرح وہ اکیلے ہوگئے جہاں انہیں تسلی دینے والا کوئی نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی وہ انواع و اقسام کے بہانے بنا کر میرے نزدیک آتے تھے اور میری آواز سنتے تھے۔

ان کی ٹانگ تشدد کی وجہ سے زخمی تھی، اور وہ چل نہیں سکتے تھے لہٰذا رینگتے ہوئے بیت الخلاء جاتے تھے۔ جیل میں دو بیت الخلاء تھے: ایک ان کی کوٹھڑی کے قریب اور دوسرا میری کوٹھڑی کے نزدیک۔ مجھ سے نزدیک ہونے کا بہانہ بناتے ہوئے سید حفاظت پر مامور شخص سے کہتا تھا: ’’جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو میری ٹانگ زخمی ہے، میں اس والے بیت الخلاء تک نہیں جا سکتا (اپنے قریب والے بیت الخلاء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) لہٰذا میں اس بیت الخلاء میں جاؤں گا۔ (میرے نزدیک والے بیت الخلاء کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے۔)

نگہبان عام طور پر سادہ سے سپاہی ہوتے تھے جو اکثر قیدیوں، خصوصاً زخمیوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آتے تھے۔ یہاں تک کہ میں نے ایک نگہبان کو دیکھا جو سید موسوی کو اپنی پیٹھ پر بٹھا کر بیت الخلاء لے جا رہا تھا۔ نگہبان نے سید کو میری کوٹھڑی کے ساتھ والے بیت الخلاء جانے کی اجازت دی۔ سید نے بیت الخلاء سے نکل کر کہا: ’’میں وہاں(میری کوٹھڑی کے سامنے والی جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) تیمم کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ نگہبان نے اس کی بھی اجازت دے دی۔ وہ نزدیک آئے اور تیمم کرنے لگے۔ ساتھ ساتھ عربی زبان میں ایسے لہجے میں بات کرنے لگے گویا وہ دعا پڑھ رہے ہوں۔ جو بھی عربی نہیں جانتا وہ اسے سن کر یہی سوچتا کہ سید دعا میں مشغول ہیں۔

ان کی جو باتیں مجھے یاد ہیں، بطور مثال:

’’جناب سید! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ نہیں جانتے مجھے کس قدر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ کیا اس حالت میں مرجاؤں تو شہید شمار ہوں گا؟!‘‘

جب تیمم مکمل ہوا تو انہوں نے اپنی ٹانگ پھیلا دی، اور ایسے ظاہر کیا جیسے وہ ہل نہیں سکتے۔ سکیورٹی والے نے کہا: جلدی کرو۔ جلدی۔‘‘ سید نے جواب دیا: ’’میں چل نہیں پا رہا۔ مجھے تھوڑی دیر آرام کرنے دو۔‘‘ نگہبان کے پاس اجازت دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ جونہی بات مکمل ہوئی میں نے اسی دعا والے لہجے کے ساتھ عربی زبان میں جواب دینا شروع کیا: ’’اے عظیم سید! صبر کریں۔ صبر۔ یہاں تک کہ یہ مجرم آپ سے مایوس ہو جائیں۔ کچھ بھی زبان پر مت لانا۔ یقیناً اللہ تعالی آپ کو نجات دلائے گا۔‘‘ میں نے ان کے ساتھ اسی انداز میں بہت ساری باتیں کیں۔ ان کا حوصلہ بڑھا اور واپس اپنی کوٹھڑی چلے گئے۔ سید نے کئی مرتبہ اس طرح کا بہانہ کیا۔ میرے شاگردوں کو جیل میں جس تشدد کا نشانہ بنایا گیا یہ اس کی صرف ایک مثال ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری مثالیں ہیں۔

بادشاہت کے 2500 سال

اس جیل کے اندر میری یادوں میں سے ایک، بادشاہت کے ۲۵۰۰ سال([1])  مکمل ہونے پر منعقد ہونے والے جشن ہیں۔ جشن کا یہ سارا سلسلہ اسلام پسندوں اور اسلامی نہضت کے لیے ایک چیلنج تھا۔ شاہِ ایران کی طرف سے اس جشن پر خطیر رقم خرچ کی گئی اور اس میں بڑے پیمانے پر اسراف اور فضول خرچیاں دیکھنے میں آئیں۔ یہ سارا سلسلہ ان لوگوں کے دل زخمی کرنے کے لیے کافی تھا جو دو وقت کی روٹی کے لیے دربدر اور صاف پانی، بجلی ، سڑک، صحت اور تعلیم کی سہولیات  سے محروم لاکھوں ایرانیوں کا درد رکھتے تھے۔

شاہ نے اس جشن کے ذریعے ایران کے اسلام کے ساتھ تاریخی تعلق کو توڑنے کی کوشش کی۔ ما قبلِ اسلام کے ایران کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے لگا تاکہ غیر محسوس طریقے سے یہ پیغام دیا جائے کہ اسلام نے ایران کی عظمت کو نقصان پہنچایا ہے۔ شاہی دربار سے منسلک لکھاریوں کی طرف سے سکول کی کتابوں میں یہ باتیں کھل کراور صراحت کے ساتھ کی جانے لگیں۔ شاہ نے چاہا کہ ایران کی ایسی تہذیب کے بارے بات کی جائے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہ ہو اور اس کی جڑیں اسلام سے پہلے والی تہذیبوں سے ملتی ہوں۔

اور واقعا ایسا ہی ہوا۔ کچھ ہی عرصے بعد شاہ نے شمسی ہجری تاریخ کو ختم کرتے ہوئے اسے شہنشاہی تاریخ([2]) میں تبدیل کر دیا۔ لہذا 1350 شمسی ہجری کا سال ایک لحظے میں 2550 شہنشاہی میں بدل گیا۔ یہ تبدیلی اپنے اندر ایک بڑا پیغام رکھتی تھی۔

جس بات پر ایک طرف ہنسی اور دوسری طرف رونا آتا ہے وہ یہ کہ  بہت سارے عرب ممالک کے وفود نے بھی اس جشن میں شرکت کی اور شاہ کو اسلام، اسلامی فتوحات اور ایران عرب تعلقات کی توہین پر مبارکباد دی۔

ہاں، اسلام پسندوں نے اس جشن کے منصوبے کو ناکام بنانے اور اس میں ہونے والی فضول خرچیاں عوام کے سامنے آشکار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ انہوں نے ہجری تاریخ  تبدیل کرنے پر مزاحمت کی یہاں تک کہ شاہ کی حکومت کچھ سالوں بعد اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئی اور انقلابِ اسلامی کی کامیابی سے چند مہینے پہلے شہنشاہی کیلنڈر کو رسمی طور پر ختم کر دیا۔

ایران کی مسلم عوام نے ایران  کو اسلامی تاریخ اور اسلامی دنیا سے الگ کرنے والے قوم پرستی پر مبنی تمام نعروں کے خلاف مزاحمت جاری رکھی۔ یہاں تک کہ خدا کے اذن سے بڑی کامیابی حاصل ہوئی اور ایران امتِ اسلامی کے آغوش میں واپس آگیا۔ انقلاب کی شروع سے ہی کوشش رہی ہے کہ ایران اور عرب بھائیوں کے درمیان فاصلوں کو مٹایا جائے۔ لیکن اس کے مقابلے میں بعض حکمرانوں کا رویہ کیسا رہا؟ اللہ تعالی ہمیں اور ان کو ہدایت دے! قصہ بہت دردناک ہے۔

بہرحال جب ہم اس جیل میں تھے تو اپنی کوٹھڑیوں میں جشن کی کچھ آوازیں سنتے تھے۔ جیل پر حاکم خوفناک فضا کے باوجود قیدی اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے تھے۔ اپنے دکھ کے اظہار کے لیے وہ کسی شاعر کے اشعار کا سہارا لیتے تھے، جن کا مطلع کچھ یوں تھا:

شبِ دَد، شبِ بد، شبِ اهرمن وقاحت به شادی گشوده دهن

وحشی رات، بری رات، شیطانی رات۔ برائی اپنا منہ کھول کر خوشی کا اظہار کر رہی ہے۔


([1]) بادشاہت کی 2500ویں سالگرہ کا جشن: ایرانی بادشاہت کے 2500 سال مکمل ہونے پر شیراز میں موجود تاریخی تختِ جمشید میں کئی روز تک جاری رہنے والا جشن۔ اس جشن میں ملکی خزانے کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ ان تقریبات میں 70 ممالک کے سربراہان کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ اس پورے جشن کا مقصد پہلوی نظام حکومت کو مضبوط اور مستحکم کرنا تھالیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا اور یہ تقریبات حکومت کے خلاف وسیع پیمانے پر مزاحمتی تحریک میں شدت کا سبب بن گئیں۔

([2]) شہنشاہی تاریخ: 1976؁ء میں پہلوی حکومت نے ایرانی تاریخ کے آغاز کو ہجری شمسی سے شہنشاہی میں تبدیل کر دیا اعلان کیا کہ 1355 ہجری شمسی، 2535 شہنشاہی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ تاریخ ہجری شمسی رسول اللہ3 کی ہجرت سے شروع ہوتی ہے لیکن شمسی تاریخ کے مطابق۔  یہی وجہ ہے کہ قمری سال کی نسبت اس میں گیارہ دن زیادہ ہوتے ہیں۔

تیرہواں باب

خفیہ کوڈ

مسجد کی امامت

میری چھٹی گرفتاری 1975؁ء میں ہوئی۔ اس وقت میرا معاشرتی مقام پانچویں جیل سے پہلے والے مقام سے بالکل مختلف تھا۔ مسجد کی امامت کی وجہ سے معاشرے میں میرے وسیع تعلقات بن چکے تھے۔ میں نے مسجد امام حسن, سے نماز پڑھانا شروع کیا۔ یہ ایک چھوٹی سی مسجد تھی اور گلی کے اندر واقع تھی۔ پھر میں مسجد کرامت میں نماز پڑھانے لگا۔ یہ ایک بڑی مسجد تھی۔ اس کی اہمیت صرف اس کے بڑے ہونے کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اس وجہ سے بھی تھی کہ یہ ایک اہم جگہ پر واقع تھی اور شہر کے مرکز سے بالکل نزدیک تھی جہاں امام رضا, کے حرم کے علاوہ بہت سارے دینی مدرسے بھی تھے۔ اور پھر یہ شہر کی نئی آبادی کے بھی نزدیک تھی جہاں یونیورسٹی اور کئی سینما گھر واقع تھے۔ اسی طرح یہ بازار سے بھی دور نہ تھی۔ لہذا یہ مسجد مختلف گروہوں کے اجتماع کی جگہ تھی جو ہمیشہ ایک دوسرے سے دور رہے تھے اور لڑتے رہے تھے: تاجر حضرات، دینی علوم کے طالب علم اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے۔

اس مسجد میں میری سرگرمیاں بڑھنا تھیں کہ حکومت کی حساسیت میں اضافہ ہوا اور اس نے مداخلت کرتے ہوئے میرے نماز پڑھانے پر پابندی لگا دی۔

اس پابندی کے تین ماہ بعد میں مسجد امام حسن, واپس آ گیا۔ چونکہ یہ مسجد چھوٹی تھی اور شہر کے مرکز سے دور بھی لہٰذا خفیہ ایجنسی والے اسے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ جونہی میں نے اس چھوٹی سی مسجد میں نماز پڑھانا شروع کیا، طالب علموں اور تاجروں نے اس مسجد کا رخ کر لیا۔ مسجد میں جگہ کم پڑگئی، لہذا انتظامیہ اس کی توسیع پر مجبور ہوئی۔ اب یہ، مسجد کرامت سے بڑی مسجد بن چکی تھی۔ حساسیت ختم کرنے یا اسے کم کرنے کے لیے میں صرف ہفتے کی رات نماز پڑھاتا اور اس کے بعد نہج البلاغہ کا درس دیتا تھا جس میں ایک بڑی تعداد شریک ہوتی تھی۔

مسجد کی امامت کے علاوہ، میرا اپنا گھر بھی ملاقاتیوں سے بھرا رہتا۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ یہاں آتے، اپنے سولات پوچھتے، مشورے دیتے اور مختلف امور کے حوالے سے تبادلہ خیال کرتے۔ میں تمام لوگوں سے کشاہ دلی کے ساتھ ملتا تھا، یہاں تک کہ بعض دفعہ ملاقاتیوں کا سلسلہ آدھی رات تک جاری رہتا۔ ملاقات کے لیے آنے والے صرف مشہد سے نہیں بلکہ ایران کے دوسرے مختلف شہروں سے بھی ہوتے تھے۔

دروس اور مجالس

مجھے دار الحکومت تہران سمیت  ملک کے مختلف شہروں سے لیکچرز کی دعوت ملتی تھی۔ بعض دعوتوں کو قبول کرتا تھا اور اکثر موقعوں پر وقت کی کمی کی وجہ سے معذرت کر لیتا تھا۔ ایک مرتبہ امام صادق, کی شہادت کی مناسبت سے شیخ مفتح کی دعوت قبول کی۔ جب میں تہران سے واپس آیا تو شیخ مفتح  گرفتار کر لیے گئے۔ مجھے ان کی گرفتاری کی توقع پہلے سے تھی۔ اسی طرح سے ہمدان اور کرمان سے موصول ہونے والی دعوتوں کو بھی قبول کیا۔ جب میں لیکچر کے لیے اراک کے سفر کی تیاری کر رہا تھا تب مجھے چھٹی بار گرفتار کیا گیا۔ ملاقاتوں اور دعوتوں کی کثرت کے باوجود میں روزانہ حوزہ علمیہ میں دو درس پڑھاتا تھا۔ ایک درس فقہ کا اور دوسرا اصول فقہ کا۔ ان درسوں کا آغاز تب ہوا تھا جب میں 1964؁ء میں قم سے واپس مشہد آیا۔

مازندران کا سفر

اسی سال آذر کے مہینے([1]) میں جب موسم سرد ہونے لگا تو میں نے بہت زیادہ سستی اور تھکاوٹ محسوس کی۔ کچھ استراحت کا دل کرنے لگا۔ میں نے زوجہ کو چند دنوں کے لیے سیر وتفریح کی غرض سے سفر پر چلنے کا مشورہ دیا لیکن وہ نہ مانیں۔ کچھ دنوں بعد میں نے دوبارہ اس حوالے سے بات کی۔ اس مرتبہ ہم نے ایران کے شمالی صوبے مازندران جانے پر اتفاق کر لیا۔

اس وقت ہمارے تین بچے تھے۔ بڑا بیٹا مصطفیٰ سکول پڑھ رہا تھاجبکہ باقی دو ابھی سکول جانے کے قابل نہ تھے۔ ہم نے مصطفیٰ کو اس کی نانی کے پاس چھوڑا۔ میں نے زوجہ کے ماموں سے بھی ساتھ چلنے کو کہا۔ وہ تاجر تھے اور ہم آپس میں گہرے دوست تھے۔ مصیبت اور مشکلات کے وقت وہ ہمیشہ میری مدد کرتے تھے۔ ان کی گاڑی بھی تھی اور وہ میری زوجہ کے محرم بھی تھے۔ وہ اپنی بیوی بچوں سمیت  ہمارے ساتھ چلنے پر راضی ہو گئے۔ ہم مازندران کے لیے نکلے، جہاں ہم نے تین دن گزارے۔ اس کے بعد میں نے فوراً مشہد لوٹنے پر اصرار کیا تاکہ  ہفتے کی رات مسجد والی نشست میں پہنچ سکوں۔ لیکن ساواکیوں نے نشست سے پہلے ہی گھر پر چھاپہ مارا، مجھے گرفتار کیا اور جیل لے گئے۔

یہاں اس سفر کی کچھ یادیں ہیں جنہیں بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں چونکہ یہ چھٹی گرفتاری سے قبل معاشرے میں میرے مقام اور منزلت کو بیان کرتی ہیں۔

میں صوبہ مازندران کے صدر مقام ساری میں تھا۔ بیٹے مجتبیٰ کو لے کر مغرب سے کچھ دیر قبل شہر کی جامع مسجد گیا اور نماز کے انتظار میں مسجد کے ایک ہال میں بیٹھ گیا۔ ایک جوان میرے نزدیک آیا، میری طرف غور سے دیکھا، سلام کیا اور بات کیے بغیر میرے قریب بیٹھ گیا۔ پھر ایک اور جوان آیا اور پہلے والے کے ساتھ بیٹھ گیا۔ پھر تیسرا آیا اور پھر چوتھا۔ یہاں تک کہ مغرب تک ان جوانوں کی تعداد 20 تک پہنچ گئی۔ مجھے ان سے ڈر لگنے لگا لیکن ان سے کوئی بات نہ کی کیونکہ ممکن تھا یہ خفیہ ایجنسی کے لوگ ہوں۔

ان میں سے ایک نے مجھ سے پوچھا: ’’آپ فلاں ہیں؟‘‘ میں نے کہا: ’’ہاں۔‘‘ پھر انہوں نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں انہیں نماز پڑھاؤں۔ میں نے کہا: ’’مسجد کے ہالوں میں مختلف جگہوں پر نماز جماعت ہو رہی ہے (مسجد میں متعدد جماعتوں کا ہونا افسوسناک بات تھی۔) آپ ان میں کیوں شرکت نہیں کرتے؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’ہم ان میں سے کسی امام جماعت کو نہیں مانتے۔‘‘ تمام  ایرانی مومن جوانوں کی یہی حالت تھی۔ وہ حکومت کے خلاف ڈٹ جانے والے اور قربانی دینے والے انقلابی علماء کو پسند کرتے تھے جبکہ وہ علماء انہیں پسند نہ تھے جو ان کی اس فکر کے مخالف ہوں اور ان کی امیدوں کے مطابق اس طرح متحرک نہ ہوں چاہے ان کے دلوں میں اسلامی تحریک کے لیے مثبت احساسات ہی کیوں نہ ہوں۔ جوان صرف اس بات پر قانع نہیں ہوتے تھے کہ علماء اچھے احساسات کا اظہار کریں بلکہ وہ ان سے عملی اقدام، قربانی اور ڈٹ جانے کا مطالبہ کرتے تھے۔

میں نے ان سے کہا: ’’ہر رات آپ لوگوں کا معمول کیا ہے؟‘‘

انہوں نے کہا: ’’فلاں کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں (میرے ایک دوست کا نام لیا)۔ اب وہ تہران گئے ہوئے ہیں اور ان کا ہال خالی ہے۔ وہ اصرار کر کے مجھے اس ہال میں لے گئے۔ میں نے نماز جماعت پڑھائی۔ کچھ اور جوان بھی نماز میں شریک ہوئے۔ نماز کے بعد میں نمازیوں کی طرف متوجہ ہوا اور ان کے سامنے سورہ حمد کی تفسیر کے حوالے سے چند نکات بیان کیے۔ اس سورے کے مفاہیم کو چند حصو ں میں تقسیم کیااور ہر قسم کی الگ تفسیر بیان کی۔ پھر اپنی بات ختم کی اور جانے کے لیے کھڑا ہوا۔ ان کا اصرار تھا کہ میں ان کے درمیان چند دن رہوں۔ انہوں نے کہا: ’’ہمارے مولانا تہران گئے ہوئے ہیں۔ ہمیں درس دینے اور نماز پڑھانے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا: ’’ہفتے کی رات مشہد میں میرا درس ہے، جس کے لیے وہاں پہنچنا ضروری ہے۔‘‘ یہ سن کر انہیں افسوس ہوا اور کہا: ’’کاش ہمارے مولانا بھی ہمیں اتنی اہمیت دیتے جتنی آپ اپنی مسجد والوں کو دے رہے ہیں۔‘‘ وہ اکثر ہمیں چھوڑ کر اپنے کاموں کے لیے تہران چلے جاتے ہیں۔

میں اسی سفر کے دوران ’’شاہی‘‘ شہر (جسے اب قائم شہر کہا جاتا ہے) میں اپنے بیٹے مصطفیٰ کے ساتھ  کتابوں کی ایک دکان پر گیا۔ میں ایک کتاب کی ورق گردانی میں مشغول تھا کہ اتنے میں ایک جوان آیا اور مجھ سے پوچھا: ’’آپ فلاں ہیں؟‘‘ میں نے گمان کیا کہ وہ ساواک کا اہلکار ہے۔ لیکن جب بات چیت چل نکلی تو مجھے اطمینان ہوا۔ اس دکان والے نے بھی مجھے پہچان لیا۔

بحرِ خزر کی کچھ مچھلیاں لے کر ہم مشہد واپس آگئے۔ جب ہم ساحل پر مچھیروں کے پاس سے گزر رہے تھے تو انہوں نے یہ مچھلیاں ہمیں تحفے میں دیں۔ جونہی انہوں نے ہمیں دیکھا ان میں سے ایک تیزی سے ہماری طرف بڑھا اور اپنے شکار میں سے کچھ مچھلیاں ہمیں دیں۔ ہم نے ان کی قیمت ادا کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے انکار کیا۔ اس نے برکت کے حصول کے لیے ہمیں یہ مچھلیاں دی تھیں۔ جب کوئی سید ان کے پاس سے گزرے اور وہ ان کے شکار میں شریک ہو تو وہ اسے نیک شگون سمجھتے ہیں۔

کاش میں ان جوانوں کی بات مان لیتا!

ہم جمعے کی رات دیر سے مشہد پہنچے۔ اگلی صبح میری زوجہ اپنی والدہ کے ہاں چلی گئیں جہاں ہم بڑے بیٹے مصطفیٰ کو چھوڑ گئے تھے۔ ظہر کے وقت میں بھی وہاں چلا گیا۔ انہوں نے ہمیں دوپہر کے کھانے کی دعوت دی ہوئی تھی۔ میں گھر واپس آیا تاکہ ہفتے والے درس کی تیاری کروں۔

میں نماز جماعت کے دوران ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد آخری پارے سے ایک سورت پڑھتا تھا۔ فقہ اہل بیت. کے مطابق نماز گزار کے لیے حمد کے بعد ایک مکمل سورہ پڑھنا ضروری ہے۔ عام طور پر لوگ سورۂ حمد کے بعد سورۂ اخلاص، قدر یا کسی دوسری چھوٹی سورت کو پڑھتے ہیں۔ میں حمد کے بعد نسبتا بڑی سورتیں پڑھتا تھا جن میں تحرک کا پیغام ہو تاکہ اس طرح لوگ اندورنی طور پر تبدیل ہوں اور اسلامی شخصیت کی صفات ان میں پروان چڑھیں۔ اس دن عصر کے وقت میں سورہ مطففین دہرا رہا تھا تاکہ بعد میں نماز میں اسی سورت کی تلاوت کروں کہ اچانک گھر کی گھنٹی بجی۔ میں نے دروازہ کھولا۔ یہ وہی چہرے تھے جن کو ہر چھاپے کو وقت میں خوب پہچان لیتا تھا۔ وہ لوگ بغیر اجازت گھر میں داخل ہوئے اور سیدھا میری لائبریری کی طرف چلے گئے جہاں کتابیں، کچھ اوراق اور میری کاپیاں تھیں۔ ہر وہ چیز جو انہیں مشکوک لگتی اسے اپنے قبضے میں لے لیتے۔ اتنے میں مغرب کی اذان ہوئی۔ میری عادت تھی کہ اذان سے پہلے مسجد پہنچ جاتا، نمازیوں کو سلام کرتا اور ان کے حال احوال پوچھتا تھا۔ میں نے ساواکیوں سے کہا: ’’نماز کا وقت ہوگیا ہے، مجھے مسجد جانا ہے اور نماز پڑھانی ہے۔ اگر مجھے نماز میں دیر ہوئی تو اس کے برے نتائج ہوں گے جو تمہارے حق میں بہتر نہیں۔‘‘

انہوں نے سرد لہجے میں جواب دیا: ’’ہمارے حوالے سے آپ فکرمند نہ ہوں۔‘‘ اتنے میں میری زوجہ کے بھائی آگئے۔ وہ مسجد میں میری تاخیر کی وجہ سے پریشان ہوگئے اور مجھے دیکھنے آئے تھے۔ میں نے ان سے کہا: ’’آج میں مسجد نہیں آسکتا۔‘‘ وہ بات کی تہہ تک پہنچ گئے۔

ساواکیوں نے مجھے ایک گاڑی میں بٹھایا۔ میری آنکھوں پر پٹی تھی یا نہیں مجھے یاد نہیں۔ وہ مجھے اسی پرانی جیل میں لے گئے جہاں 1971؁ء میں رہ چکا تھا۔ اس کی کوٹھڑیاں انتہائی تاریک تھیں اور سوائے چند سوراخوں کے روشنی کے لیے کوئی راستہ نہ تھا۔ معمول کے مطابق مجھے عمامے اور علماء والے لباس میں ہی ایک کوٹھڑی میں قید کر دیا گیا۔ کوٹھڑی میں بیٹھ کر پرانی یادیں تازہ کرنے لگا۔ اس وقت مجھے یاد آیا کہ میں اصرار کر کے مازندران سے مشہد آیا تھا۔ کاش مازندران میں ان جوانوں کی بات مان لیتا اور چند روز ان کے ہاں ٹھہر جاتا!

ریل میں قیدی بن کر

اگلے دن ظہر سے کچھ دیر پہلے ایک نگہبان آیا اور اس نے کہا: ’’اپنا سامان جمع کرو۔‘‘ میں نے سوچا وہ لوگ مجھے آزاد کرنا چاہتے ہیں ورنہ دن کے اس وقت سامان جمع کرنے کا اور کیا مطلب ہو سکتا ہے؟!

انہوں نے مجھے ایک گاڑی میں بٹھایا اور ریلوے اسٹیشن لے گئے۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ لوگ مجھے مشہد سے باہر لے کر جا رہے ہیں۔ لیکن ریل کیوں؟ یہ کنجوس لوگ کیا جہاز کا ٹکٹ نہیں خرید سکتے تھے؟ ریلوے اسٹیشن پر سادہ لباس میں ملبوس دو پولیس اہلکاروں نے مجھے اپنی تحویل میں لیا۔ میں ان میں سے ایک کو جانتا تھا چونکہ وہ ہمارے محلے میں رہتا تھا اور میں اسے ہر روز دیکھتا تھا۔ مجھے پہلے سے اندازہ تھا کہ وہ ایجنسی سے تعلق رکھتا ہے۔

ہم تہران کی ریل میں بیٹھ گئے۔ یہ دوسرے درجے کی ریل تھی اور ایک بوگی میں چھے لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ اس بوگی میں میرے ساتھ دو اہلکاروں کے علاوہ تین عام لوگ بھی تھے۔ اہلکاروں نے ان کے سامنے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ ہم تینوں بھی ان کی طرح عام مسافر ہیں۔ انہوں نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی جس سے ظاہر ہو کہ میں ایک قیدی ہوں۔ مجھے خوف محسوس ہوا کہ کہیں مسافر میرے ساتھ کوئی ایسی گفتگو نہ کریں جو ان کے لیے سیاسی طور پر مشکل کا سبب بنے۔ اور یہ بعید نہیں تھا کیونکہ لوگ، خصوصا جوان طبقہ، عام طور پر علماء کے سامنے اپنی مشکلات اور شکایات بیان کرتے رہتے تھے۔ لہذا میں نے پہل کرتے ہوئے، آرام سے، مسکراہٹ کے ساتھ ان لوگوں کو مخاطب کیا اور کہا: ’’یہ دو اہلکار ہیں اور میں ان کی قید میں ہوں۔ یہ لوگ تہران میں مجھے ساواک کے حوالہ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

مسافروں کے چہروں پر ہمدردی کے آثار ظاہر ہوئے جو پورے سفر میں ان کے چہروں پر عیاں رہے۔ وہ مسلسل میری طرف دیکھتے جا رہے تھے اور ان کی آنکھیں درد اور غصے سے بھری ہوئی تھیں۔

ہم صبح سویرے تہران ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ وہ دو اہلکار مجھے اسٹیشن پر موجود پولیس چوکی لے گئے اور وہاں کی پولیس کو اپنے کام سے متعلق خفیہ معلومات فراہم کیں۔ انہوں نے فون پر رابطہ کیا اور تھوڑی دیر بعد کچھ افراد آئے اور مجھ سے ساتھ چلنے کا مطالبہ کیا۔ مجھے ایک گاڑی میں بٹھایا، میری آنکھوں پر پٹی باندھی اور میرے ساتھ سختی سے پیش آئے۔ گاڑی تہران کی سڑکوں پر چلنے لگی۔ جب بھی گاڑی رش کی وجہ سے رکتی وہ مجھے حکم دیتے کہ اپنا سر سامنے والی سیٹ پر رکھوں۔

مشترکہ کمیٹی کی جیل میں

گاڑی ایک جگہ آکر رکی۔ وہ لوگ مجھے وہاں سے چند میٹر آگے لے گئے۔ پھر جب میری آنکھوں سے پٹی کھولی میں نے اپنے آپ کو ایک کمرے میں پایا جس میں کچھ اہلکار بھی تھے۔ وہ دو اہلکار بھی وہاں نظر آئے جو میرے ساتھ مشہد سے ریل میں آئے تھے۔ وہ دونوں آپس میں سرگوشی کر رہے تھے۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا: ’’اپنا مذہبی لباس عمامہ، عبا، قبا وغیرہ اتار دو۔‘‘ اب میں صرف شلوار قیمص میں ملبوس تھا۔ مجھے قیدیوں والا لباس دیا گیا اور میں نے وہ پہن لیا۔ میری نظر ان دو اہلکاروں پر پڑی جو میرے ساتھ آئے تھے۔ وہ دونوں افسوس، دکھ اور ہمدردی کے ساتھ میری طرف دیکھ رہے تھے۔ شاید انہیں اندازہ نہ تھا کہ وہ لوگ مجھے اس حالت میں دیکھیں گے۔ میں انہیں دیکھ کر مسکرایا۔

جیل کے اہلکاروں نے مجھے حکم دیا کہ قمیض اتار لوں اور اسے سر پر ڈال کر اپنا چہرہ چھپا لوں۔ مجھے کمرے سے نکال کر نامعلوم مقام کی طرف لے جانے لگے۔ ایک دروازے کی طرف لے گئے جس کی زنجیروں کی آواز کانوں تک پہنچ رہی تھی۔ پھر ایک اور جگہ لے گئے جس کے بارے اندازہ ہوا کہ کوئی بڑا ہال ہے۔ ایک دروازے کے قریب مجھے روکا، دروازہ کھولا، مجھے اندر دھکیل دیا اور پھر دروازہ بند کر دیا۔ میں نے منہ سے قمیص ہٹائی تو اپنے آپ کو ایک نیم تاریک کوٹھڑی میں پایا جس میں کم روشنی والا ایک بلب جل رہا تھا۔

کوٹھڑی میں ایک جوان پہلے سے موجود تھا۔ وہ میرے آنے سے بہت خوش ہوا۔ اس نے میرا نام پوچھا۔ جب میں نے اپنا نام بتایا تو وہ ششدر رہ گیا۔ بار بار پوچھتا جا رہا تھا: ’’آپ واقعا وہی ہیں؟‘‘ وہ انتہائی محبت کا اظہار کرتے ہوئے مجھے چومنے لگا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ بیس دنوں سے اس کوٹھڑی میں تنہا ہے۔ میں نے بھی محبت اور ہمدردی کا اظہار کیا لیکن اس سے کھل کر بات نہیں کی۔

سیاسی جیلوں میں ایسا ہی رویہ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہےکیونکہ وہاں ہر چیز ممکن ہے۔ممکن ہے کوئی قیدی آپ سے ہمدردی اور خلوص کا اظہار کرے اور وہ در حقیقت آپ سے معلومات لے رہا ہو۔ میں اس جوان کے ساتھ بیٹھتا، گپ شپ کرتا اور اسے تسلی دیتا تھا۔ وہ میرے ساتھ دو ماہ اس کوٹھڑی میں رہا۔ پھر اسے ایک اور کوٹھڑی یا عمومی جیل منتقل کیا گیا۔ اگرچہ اس کا تعلق اسلام پسندوں سے نہیں تھالیکن وہ ایک سیاسی قیدی تھا۔

وہ جیل ’’کمیٹی جیل‘‘ کے نام سے مشہور تھی۔ اسی سال یا ایک سال قبل اس جیل کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ جیل کا یہ نام اس لیے رکھا گیا تھا کیونکہ اس جیل کو ساواک، پولیس اور سپیشل فورس کی ایک مشترکہ کمیٹی([2]) چلاتی تھی۔ بہت سے مسائل میں تعاون کی کمی کو دیکھتے ہوئے ان تین اداروں میں باہمی تعاون بڑھانے کی خاطر یہ جیل بنائی گئی تھی کیونکہ اس سے پہلے اداروں خصوصاً پولیس اور ساواک کے درمیان، شاہ کو خوش کرنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے ایک دوڑ لگی ہوئی تھی۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ایک مشترکہ امن کمیٹی بنائی گئی اور ان دو اداروں کے ساتھ سپیشل فورس کا بھی اس کمیٹی میں اضافہ کیا گیا۔ بعض انقلابی تحریکیں شہروں سے دور جنگلات کو اپنا مرکز بناتی تھیں اور سپیشل فورس اس طرح کی تنظیموں کو کنٹرول کرنے کی ذمہ دار تھی۔

کوٹھڑی میں دن گزرتے گئے۔ یہ انتہائی سخت دن تھے جن کی سختی کا اندازہ صرف وہی کر سکتا ہے جو اس مرحلے سے گزر چکا ہو۔ کوٹھڑی کا ایک دن عمومی جیل کے ایک مہینے کے برابر ہے۔ گویا کہہ سکتے ہیں کہ اس جیل میں گزرے میرے آٹھ ماہ، عمومی جیل کے آٹھ سال کے برابر تھے۔ اسی مناسبت سے بتاتا چلوں کہ شہید رجائی نے اسی خوفناک جیل کی ایک کوٹھڑی میں 28 ماہ گزارے۔

کوٹھڑی کی لمبائی دو میٹر اور چالیس سینٹی میٹر تھی جبکہ چوڑائی ایک میٹر اور ساٹھ سینٹی میٹر تھی۔ اس تنگ کوٹھڑی میں بعض دفعہ میں تنہا ہوتا تھا اور بض اوقات ایک، دو یا تین اور قیدیوں کے ساتھ۔ چار مربع میٹر سے کم جگہ میں چار لوگ! کاش مشکل صرف جگہ کی تنگی ہوتی۔ لیکن یہاں اس کے ساتھ نفسیاتی دباؤ اور جسمانی تشدد بھی تھا۔

قیدیوں کی چیخیں

دن بھر قیدیوں کے چیخنے کی آوازیں کانوں تک پہنچتی تھیں۔ بعض اوقات یہ چیخیں رات بھر جاری رہتی تھیں۔ وہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ تشدد کے مختلف طریقے آزماتے۔ اس جیل میں ان کا مکمل ہدف یہ تھا کہ طرف مقابل کو نفسیاتی طور پر توڑ دیں۔ یہاں تک کہ بیت الخلاء لے جاتے وقت بھی وہ تحقیر جاری رکھتے تھے۔ جیل کے بیت الخلاء ہال کے اندر ہی تھے۔ قیدی کے بیت الخلاء جاتے ہی نگہبان آوازیں لگانا شروع کرتا: ’’جلدی کرو۔ جلدی کرو۔ جلدی نکلو۔‘‘ بعض دفعہ وہ بیت الخلاء کے دروازے کو دھکا دیتے تاکہ قیدی جلدی نکلنے پر مجبور ہو۔

جیل کے نگہبان زبان اور ہاتھ کے ذریعے قیدیوں کی ہر قسم کی توہین کرتے تھے۔ ایک ہی کوٹھڑی میں موجود قیدیوں کے لیے آپس میں بات کرنا ممنوع تھا۔ لہذا یا تو سرگوشی میں بات ہوتی تھی یا اشاروں میں۔ جونہی نگہبان محسوس کرتا کہ ہم سرگوشی کر رہے ہیں تو فوراً غصیلے لہجے میں ڈانٹنا شروع کر دیتا۔ کھانا اکثر انتہائی پست معیار کا ہوتا تھا۔ اگر باورچی نے کھانے میں گوشت کا ایک ٹکڑا ڈال بھی دیا ہوتا تو نگہبان اسے اپنے لیے اٹھا لیتے۔ کھانا انتہائی توہین آمیز طریقے سے پیش کیا جاتا تھا۔ وہ ایسا رویہ اپناتے جیسے ایک جانور کو کھانا پیش کر رہے ہوں جبکہ اکثر قیدی علماء، مفکرین اور یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے افراد تھے۔

قیدیوں کو کوٹھڑیوں سے نکلنے کی اجازت نہ تھی۔ صرف بیت الخلاء جاتے وقت یا تفتیش کے لیے جاتے وقت کوٹھڑی سے نکلنا نصیب ہوتا۔ جیسے میں نے بتایا بیت الخلاء جانا بھی ایک مصیبت تھی اور تفتیش کی مصیبت تو ناقابل بیان ہے جیسا کہ میں پہلےبھی کہہ چکا ہوں کہ کوٹھڑی میں ایک ماہ رہنا عمومی جیل کے ایک سال کے برابر ہے۔ ایسے ہی یہاں بھی کہتا ہوں کہ تفتیش کا ایک دن کوٹھڑی میں قیدِ تنہائی کے ایک ماہ کے برابر ہے۔

ایک مرتبہ انہوں نے مجھے تفتیش کے لیے بلایا۔ میرے ساتھ کوٹھڑی میں تین افراد تھے۔ وہ مجھے صبح لے گئے اور شام تک تفتیش والے کمرے میں رکھا۔ کوٹھڑی والے ساتھی سمجھے کہ میں تشدد کے نتیجے میں وفات پا گیا ہوں لہٰذا وہ بہت پریشان ہوئے۔ دلچسپ بات یہ کہ جب میں کوٹھڑی میں لوٹا تو وہ مجھے پہچان نہ سکے۔ میں لمبی داڑھی کے ساتھ انہیں چھوڑ کر گیا تھا اور بغیر داڑھی کے ان کے پاس لوٹا۔ جب میں نے ان سے بات کی تو انہوں نے مجھے پہچان لیا۔ ان میں سے بعض گریہ کرنے لگے۔ کوٹھڑی میں میرا ایک ساتھی تھا (اس کا نام احمد احمدی تھا اور وہ امام خمینی= کے فلسفہ اور عرفان میں استاد شیخ محمد علی شاہ آبادی کا نواسہ تھا)۔ وہ لوگ جب اسے تفتیش کے لیے لے جاتے تو اس میں چلنے کی سکت باقی نہ رہتی اور وہ رینگتے ہوئے واپس آتا۔ وہ اسی طرح تشدد برداشت کرتا رہا یہاں تک کہ اسی جیل میں شہید ہو گیا۔ وہ جب کوٹھڑی میں لوٹتا تو ہمارے اوپر گہرا غم طاری ہو جاتا جس سے ہمارے دل چھلنی ہو جاتے۔ وہ فوراً ہمارا غم کم کرنے کی کوشش کرتا اور ہمیں تسلی دیتا۔

مجھے ساواک کے وحشیانہ تشدد کے مختلف مناظر یاد ہیں لیکن میں ان مصائب کی مکمل تصویر کشی نہیں کر سکتا۔ اس جیل کے منتظمین انتہائی خبیث اور پست تھے۔ قیدیوں پر تشدد کی آوازیں صبح تک سنائی دیتی تھیں۔ جونہی میری آنکھ لگتی تو کسی قیدی کی چیخیں سن کر بیدار ہو جاتا۔ نہیں معلوم وہ اصلی آوازیں تھیں یا ریکارڈ شدہ؟

والدہ کی فکر

اس جیل میں مجھے سب سے زیادہ والدہ کی پریشانی تھی۔ جیسا کہ میں نے ذکر کیا وہ شجاعت اور استقامت کے بلند مرتبے پر فائز تھیں لیکن میری اس گرفتاری سے پہلے انہوں نے کچھ ایسی باتیں کیں جن سے مجھے لگا کہ اپنے بیٹے کی مصیبتیں برداشت کرتے کرتے ان کا صبر ختم ہو چکا ہے۔ میں ایک دن ان کے گھر میں تھا تب انہوں نے مجھ سے کہا: ’’اگر تمہیں پھر گرفتار کیا گیا تو میں مر جاؤں گی۔‘‘ میں نے انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی اور کہا: ’’اماں جان! مجھے کیوں گرفتار کریں گے؟ میں نے کونسا جرم کیا ہے؟ پھر اگر مجھے گرفتار کیا بھی جائے تو اس طرح کی سوچ کیوں؟ ایسی باتیں کیوں جو آپ سے کبھی نہیں سنیں؟‘‘ لیکن میں نے انہیں اپنی بات میں سنجیدہ پایا۔ جب سے میں قید ہوا تھا والدہ کے یہ کلمات میرے کانوں میں گونج رہے تھے اور مجھے پریشان کیے جا رہے تھے۔ میں ۶ ماہ تک اسی کیفیت میں مبتلا رہا۔ اس دوران مجھے والدہ کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی۔ ۶ ماہ بعد انہوں نے مجھے صرف ایک فون کرنے کی اجازت دی۔ میں نے والد کے گھر فون کرنے کو ترجیح دی۔ والد نے فون اٹھایا۔ میں نے سب سے پہلا سوال کیا: ’’والدہ کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’وہ ٹھیک ہیں۔‘‘ میں نے  کہا: ’’وہ ابھی کہاں ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’وہ گھر سے باہر ہیں۔‘‘ میں مطمئن نہ ہوا۔ میں نے پوچھا:ٖ ’’وہ کہاں گئی ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’وہ فلاں کے گھر مجلس میں گئی ہیں۔‘‘ مجھے یاد آیا کہ والدہ اس مجلس میں ہمیشہ جایا کرتی تھیں۔ میں مطمئن ہو گیا اور سکھ کا سانس لیا۔ پھر میں نے بیوی بچوں کے بارے میں پوچھا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں قوت بیان رکھنے کے باوجود اس جیل میں قیدیوں پر جو کچھ گذرتا تھا وہ بیان نہیں کر سکتا۔ میں نے اس جیل میں جو درندگی دیکھی، آج تک اس جیسی نہ کبھی دیکھی اور نہ سنی۔

قیدیوں کی خفیہ زبان

انسان کی طبیعت ایسی ہے کہ جن حالات کو پسند نہیں کرتا ان کے مقابلے میں سرکشی کرتا ہے۔ اور جب سرکشی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے سامنے نوآواری اور خلاقیت کے رستے کھل جاتے ہیں۔ اس جیل میں قیدیوں کی سوچ دو رکاوٹیں عبور کرنے پر مرکوز تھی۔ پہلی نگہبانوں کی رکاوٹ جن میں سے اکثر ان پڑھ اور سادہ تھے اور پیسوں پر بکتے تھے۔ اور دوسری ایجنسی اہلکاروں کی رکاوٹ۔ قیدی معمولاً پہلی رکاوٹ پر قابو پانے کے لیے منصوبہ بندی کرتے تھے اور اکثر اس میں کامیاب بھی ہو جاتے تھے۔ اس حوالے سے مجھے بہت سے دلچسپ واقعات یاد ہیں۔

جیسا کہ میں نے بتایا کہ  ایک ہی کوٹھڑی میں قیدیوں کے لیے آپس میں بات کرنا ممنوع تھا چہ جائیکہ دوسری کوٹھڑی کے قیدیوں کے ساتھ!یہ ایک خطرناک کام تھا کیونکہ اہلکاروں کی نظر میں اس کی وجہ سے تفتیش اور معلومات کے حصول کا عمل متاثر ہوتا تھا۔ خاص طور پر ان قیدیوں کے ساتھ زیادہ سختی کی جاتی تھی جو ایک ہی الزام میں پکڑے گئے ہوں۔ ان تمام خطرات کے باوجود قیدیوں نے بات چیت کے لیے مورس کوڈ([3]) کا سہارا لیا۔ میرے اور آقای رجائی کی کوٹھڑی کے درمیان ایک کوٹھڑی کا فاصلہ تھا۔ میں ساتھ والی کوٹھڑی کو مورس کوڈ کے ذریعے مخاطب کرتااور پیغام رجائی کی کوٹھڑی تک جاتا، پھر وہاں سے جواب آتا۔

میں نے مورس کوڈ کی زبان اسی جیل میں سیکھی۔ کہانی کچھ اس طرح سے شروع ہوئی کہ میں ساتھ والی کوٹھڑی سے دیوار پر ہاتھ مارنے کی آواز سنتا لیکن مجھے اس سے کچھ سمجھ نہ آتا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ وہ دیوار پر ہاتھ مار کر کچھ کہنا چاہ رہا ہے۔ ایک دن میں کوٹھڑی کی دیوار کو غور سے دیکھ رہا تھا، عام طور پر قیدی یہ کام اس لیے کرتا ہے تاکہ خود کو ایک نئی چیز میں مشغول کرے، میں نے دیوار پر قیدیوں کی یادیں، مزاحیہ تحریریں اور لطیفے پڑھے۔ اور جب میں نے غور سے دروازے کے ساتھ والی دیوار کو دیکھا کہ جس تک بہ مشکل روشنی پہنچ رہی تھی تو وہاں حروف اور رموز کا ایک جدول نظر آیا۔ چونکہ میں حروف اور اعداد والے بعض علوم سے کچھ آشنائی رکھتا تھا لہٰذا اس جدول کی زبان سمجھنے لگا۔ یہ مورس کوڈ کی زبان کے رموز تھے۔ میں نے انہیں سیکھنا شروع کر دیا اور اپنے ہمسایے کے دیوار پر ہاتھ مارنے کا مطلب سمجھنے لگا۔ پھر ایک مرتبہ میں نے آہستہ آہستہ اسے جواب دینے کی کوشش کی۔  ہمسایہ میرا جواب سمجھ گیا اور بہت خوش ہوا۔ میرے اور اس کے درمیان گفتگو شروع ہوئی۔ وہ جلدی اور مہارت کے ساتھ مجھے مخاطب کرتا اور میں آہستہ آہستہ اسے جواب دیتا۔ وہ میری مدد کرنے کی کوشش کرتا۔ جونہی وہ کسی کلمے کے ایک یا دو حرف سنتا تو اشارہ کرتا کہ میں کلمہ سمجھ گیا ہوں، باقی حروف کی ضرورت نہیں ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں مورس کوڈ کی زبان میں ماہر ہوگیا، یہاں تک کہ میں اس طرح مورس کوڈ کے ذریعے بات کرتا کہ میری کوٹھڑی والے کو بھی پتا نہ چلتا۔ میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کے بیٹھتا اور اپنا ہاتھ کمر کے پیچھے رکھتا۔ پھر اپنے ناخن کے ساتھ دیوار پر مارتا۔ اسی دوران میں بالکل عام انداز میں اپنی کوٹھڑی کے ساتھی سے بات چیت کرتا اور اسے بالکل اندازہ نہ ہوتا کہ میں مورس کوڈ کے ذریعے ساتھ والی کوٹھڑی میں موجود شخص سے بھی بات کر رہا ہوں۔ وہ مجھ سے کوئی غیر معمولی حرکت نہیں دیکھتا تھا مگر یہ کہ وہ متوجہ ہو جاتا میں ذہنی طور پر مشوش ہوں اور اس طرح کی تشویش کا ہر قیدی میں پایا جانا ایک عام سی بات ہے۔ بعض اوقات میں دوسرے قیدیوں کے ساتھ لیٹے ہوئے پاؤں کی انگلیاں دیوار پر مارتا۔ لیکن اس حالت میں چونکہ کان دیوار سے دور ہوتے تھےلہذا جواب سننا مشکل ہوتا تھا۔

ذہین قیدی

ہمسائے کے ساتھ تمام موضوعات پر گفتگو ہوتی تھی۔ مختلف امور کے بارے میں سوالات کا تبادلہ ہوتا تھا: کیا آج تمہیں تفتیش کے لیے لے کر گئے؟ تم نے آج کیا کیا؟ تم نے خواب میں کیا دیکھا؟ مجھے پتا چلا کہ وہ یونیورسٹی کا طالب علم ہے۔ اس سے زیادہ میں اس کے بارے کچھ  نہیں جانتا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے اپنا اصلی نام بھی مجھ سے چھپایا اور یہ عام سی بات تھی۔ سیاسی قیدیوں کے لیے اپنی معلومات چھپانا ضروری ہوتا ہے۔ یہ جوان بہت ہی زندہ دل اور چالاک تھا۔ مختلف طریقوں سے کوشش کرتا کہ رضا کارانہ طور پر جیل کے بیت الخلاء دھوئے۔ قیدی عام طور پر اس کام کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لیتے تھے تاکہ چند منٹوں کے لیے ہی سہی کوٹھڑی سے باہر نکلیں۔ وہ جوان کوٹھڑی سے نکلنے کی فرصت سے استفادہ کرتا اور ایسے کام کرتا جو اس کی تیزی اور مہارت کو واضح کرتے۔

ایک مرتبہ اس نے اپنی ذہانت سے نگہبان کو کوٹھڑیوں سے دور بھیجا اور تیزی کے ساتھ میری کوٹھڑی کی طرف بڑھا۔ کوٹھڑی کے دروازے میں موجود چھوٹی کھڑی کا پردہ اٹھایا۔ مجھے بلایا اور میری پیشانی پر بوسہ دیا اور کسی کو پتا چلے بغیر بیت الخلاء کی طرف اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔

ایک دفعہ اس نے صفائی کرتے ہوئے دیکھا کہ برآمدے میں پڑے فریج کے اندر کچھ مکھن اور جام پڑا ہے۔ اسے اندازہ ہو گیا کہ یہ مکھن اور جام قیدیوں کے ناشتے سے نگہبانوں نے چرایا ہے۔ اس رات کا کھانا انتہائی بد مزہ تھا جو نگہبان کو پسند نہیں تھا۔ اسی لیے اس نے یہ چیزیں چرا کر فریج میں رکھی تھیں تاکہ رات کے کھانے میں کھائے۔ یہ چیزیں دیکھ کر میرے ساتھی کا دل للچایا، خاص طور پر وہ اس دن روزے سے بھی تھا۔ اس نے تیزی سے وہ چیزیں اٹھائیں اور اپنی کوٹھڑی میں چلا گیا اور مورس کوڈ کے ذریعے مجھے اس سارے معاملے سے آگاہ کیا۔ میں نے اس سے کہا: مزے سے افطار میں یہ چیزیں کھاؤ۔ شام کا وقت ہوا تو نگہبان بڑے شوق سے فریج کی طرف بڑھا تاکہ وہ چیزیں اٹھا لے لیکن جب اس نے دیکھا کہ وہ چیزیں وہاں سے چوری ہوگئی ہیں تو وہ غصے سے پاگل ہو گیا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ کوئی قیدی اس طرح کر سکتا ہے۔ اس نے دوسرے نگہبانوں سے پوچھا۔ جب اسے یقین ہوگیا کہ یہ کسی قیدی کا کام ہے تو اس نے باقی نگہبانوں کے ساتھ مل کر کوٹھڑیوں کی تلاشی شروع کر دی۔ میرے ساتھی نے ان چیزوں میں سے کچھ حصہ کھا لیا تھا اور کچھ ابھی باقی تھا۔ اس نے خوف کے عالم میں مجھ سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ بچے ہوئے حصہ کا کیا کریں؟ میں نے اسے کہا: جتنا کھا سکتے ہو کھا لو اور باقی حصہ چٹائی کے نیچے چھپا لو اور جرم کے آثار مٹا دو۔ کوٹھڑیوں کی تلاشی مکمل ہوئی۔ میرے ساتھی کی کوٹھڑی کی بھی تلاشی لی گئی لیکن انہیں کوئی چیز نہیں ملی۔ قصہ خیریت سے اپنے انجام کو پہنچا اور اس جیل کی یادوں میں ثبت ہوگیا۔ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ جب انسان تنگ آجائے تو وہ سرکشی پر اتر آتا ہے۔

پست قیدی

میں اس کوٹھڑی میں مختلف قسم کے افراد کے ساتھ رہا جن میں مومن اور انقلابی جوان بھی تھے۔ ان میں سے ایک نہاوند سے تعلق رکھنے والا جوان تھا جو ’’ابوذر پارٹی‘‘ کا کارکن تھا۔ اس پارٹی کا ایک مرتبہ مکمل خاتمہ کیا گیا پھر نہاوند شہر کے جوانوں نے اس کی از سر نو بنیاد رکھی۔ میں نے خصوصی طور پر اس جوان کا تذکرہ کیا کیونکہ کچھ عرصہ پہلے میں نے اسے دیکھا تھا۔ ایک گروہ مجھ سے ملنے آیا تو میں نے ان کا نام پوچھے۔ ان میں سے ایک نے اس جوان کا نام لیا۔ میں یہ نام سن کر تھوڑی دیر رکا پھر فوراً مجھے یاد آیا کہ وہ میرا کوٹھڑی کا ساتھی ہے۔

اس کوٹھڑی میں میرے ساتھ رہنے والوں میں کچھ کمیونسٹ بھی تھے۔ ان میں ایک جوان تھا جس نے نہیں بتایا کہ وہ کمیونسٹ ہے۔ وہ جس وقت ہماری کوٹھڑی میں آیا تو ہم پہلے سے تین افراد موجود تھے۔ اسے ملا کر چار ہوگئے۔ وہ اس طرح کوٹھڑی میں آیا جیسے اسے یہاں نہیں رہنا بلکہ فوراً چلے جانا ہے۔ جب میں نے اس کا تعارف پوچھا تو اس نے کوئی واضح جواب نہیں دیا اور غیر ضروری باتیں کرنے لگا۔ میں نے محسوس کیا وہ ذاتی طور پر ایک اچھا انسان ہے۔ ایک دن اس سے کہا: ’’میں آپ میں دین کی طرف رغبت دیکھتا ہوں۔‘‘ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اسے کوٹھڑی سے نکال کر کہیں لے گئے جس کا ہمیں علم نہیں تھا۔ انقلاب سے کچھ عرصہ پہلے اس نے فون پر مجھ سے رابطہ کیا اور کہا: ’’میں فلاں اخبار میں کام کرتا ہوں اور اس جملے کو بار بار دہرایا جو میں نے اسے جیل میں کہا تھا۔‘‘ پھر مجھے پتا چلا کہ وہ کمیونسٹ پارٹی کا رکن ہے۔ہمیں بعد میں ایسے کاغذات ملے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ وہ ساواک سے تعلق رکھتا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی کے خلاف کاروائی کے دوران یہ جوان گرفتار ہوا۔ اس کی بیوی مجھے خط لکھ کر اس کی رہائی کا مطالبہ کرتی تھی اور مجھے وہ جملہ یاد دلاتی تھیں جو میں نے اس کے شوہر سے جیل میں کہا تھا۔ وہ کچھ عرصہ قید رہا اور پھر رہا کر دیا گیا۔

کمیونسٹ اپنے خبث باطن اور دین دشمنی میں ایک جیسے نہیں تھے۔ یہ جوان دین کے خلاف زیادہ تعصب نہیں رکھتا تھا۔ لیکن اسی کوٹھڑی میں میرا واسطہ ایک ایسے کمیونسٹ سے پڑا جو انتہائی پست، دین دشمن اور بد اخلاق تھا۔

جب اس شخص کو کوٹھڑی میں لایا گیا تو میں دوسرے قیدیوں کے ساتھ بیٹھ کر مغرب کی تعقیات پڑھ رہا تھا۔ جیل میں میری عادت تھی کہ نماز پڑھتے وقت اپنے کسی سفید کپڑے کے ساتھ عمامہ باندھتا اور اور عبا کے بدلے کمبل اوڑھتا تھا۔ کوٹھڑی کی تاریکی میں مجھے دیکھنے والا یہ سمجھتا کہ میں علماء کے لباس میں ملبوس ہوں۔

جیسا کہ میں نے بتایا، میں نماز مغرب کے بعد اپنے دوست کے ساتھ بیٹھا تھا جب کوٹھڑی کا دروازہ کھلا اور ایک لمبے قد کا شخص داخل ہوا۔ شروع میں اسے کچھ دکھائی نہ دیاکیونکہ وہ روشنی سے تاریکی میں آیا تھا۔ کچھ دیر بعد اس کی نظر مجھ پر اور میرے ساتھی پر پڑی تو اس کا چہرہ اتر گیا اور حزن و ملال کی کیفیت میں کوٹھڑی کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ میں اس کے قریب ہوا اور اس کی دلجوئی کرنے لگا جیسے ہر نئے قیدی کے ساتھ کرتا تھا۔ میں نے اس سے کہا: ’’تمہیں بھوک لگی ہے؟ پیاس لگی ہے؟‘‘ مگر اس کا چہرہ اسی طرح اترا رہا۔ میں سمجھا کہ وہ نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے پریشان ہے۔ میں کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دینے لگا۔ اس کی کوشش تھی کسی سوال کا جواب نہ دے۔ پھر مجھے پتا چلا کہ اسے آج صبح گرفتار کیا گیا ہے اور اس نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا۔ اور شاید اس پر تشدد بھی ہوا تھا۔

میری عادت تھی ناشتے سے کچھ حصہ بچا کر رکھ لیتا، کیونکہ اس جیل میں معدے کے زخم کی وجہ سے میں ہر کچھ دیر بعد تھوڑا کھانا کھاتا تھا۔ میں نے اسے ایک روٹی اور کچھ جام پیش کیا۔ اس نے کھانے سے انکار کر دیا۔ میں نے اسے زبردستی کھانا کھلایا اور پانی پلایا۔ وہ کچھ نرم پڑ گیا۔ میں نے اس کی شدید پریشانی کا لحاظ کرتے ہوئے اور اس کی دیکھ بال کی خاطر نماز عشاء کچھ دیر سے ادا کی۔ میں اسے مسلسل تسلی دیتا اور ہمدردی کا اظہار کرتا رہا۔ جب اس نے دیکھا میں اس کا بہت زیادہ خیال رکھ رہا ہوں تو وہ سمجھا کہ میں اسے اسلامی تحریک کا قیدی سمجھ رہا ہوں یا اسے اسلامی تحریک کی طرف جذب کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے اپنا سر اٹھایا اور سرد لہجے میں کہا: ’’مجھے اعتراف کرنے دیں کہ میں کسی دین کو نہیں مانتا۔‘‘

میں سمجھ گیا کہ اس کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔ میں اس کی ذہنیت، فکر اور حالت کے مطابق جملہ تلاش کرنے لگا۔ میں نے اس سے کہا: ’’انڈونیشیا کے صدر احمد سکارنو(Ahmad Sukarno)نے بنڈنگ کانفرنس(Bandung Conference) میں کہا تھا: ’’مختلف قوموں کے درمیان اتحاد کا معیار دین، تاریخ یا ثقافت کا ایک ہونا نہیں بلکہ ضرورتوں کا ایک ہونا ہے۔‘‘ اور اس وقت ہماری ضرورتیں ایک جیسی ہیں۔ مشکلات ایک جیسی اور انجام نا معلوم ہے لہٰذا دین کا فرق اس موقع پر زیادہ اہم نہیں ہے۔

اسے مجھ سے اس جواب کی توقع نہ تھی۔ میں نے اس کے چہرے پر واضح تبدیلی دیکھی۔ اس کے رویے میں تبدیلی آئی اور وہ ہمارے ساتھ گھل مل گیا۔ پھر میں نے اس سے کہا: ’’آپ آرام کریں، ہم نماز پڑھتے ہیں۔‘‘

اس کی بیوی اسی جیل کی ایک اور کوٹھڑی میں قید تھی۔ میں نے اس جیل میں اپنے طویل تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان رابطہ کروایا اور اس سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے ہر قسم کی مدد کی پیشکش کی۔

وہ ہمارے ساتھ دو ماہ رہا۔ ایک دن اس نے مجھ سے کہا: ’’جب میں نے پہلی دفعہ آپ کو دیکھا تھا تو خیال آیا کہ مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ میں نے دل میں کہا: مولوی سے پالا پڑ گیا۔ ابھی آپ سے کہتا ہوں: میں نے زندگی بھر آپ جیسا وسیع القلب اور غیر متعصب شخص نہیں دیکھا۔‘‘

لیکن میری ان تمام کاوشوں کے باوجود اس کے خبث باطن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جس کا اندازہ مجھے بعد میں ہوا۔ وہ دین اور علماء کے تمسخر کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔ وہ مختلف طریقوں سے کوشش کرتا کہ دینی عادات و اقدار کی اہانت کرے تاکہ لوگ ان سے متنفر ہو جائیں۔ 

میں نےبھی تم جیسا کوئی نہیں دیکھا

مجھے یاد ہے کہ ایک دن میرے پیٹ میں شدید درد تھا اور مجھے مسلسل بیت الخلاء جانے کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ جیل کے قوانین کے مطابق ایک دن میں صرف تین مرتبہ بیت الخلاء جانے کی اجازت ہوتی تھی اور بعض اوقات صرف ایک یا دو مرتبہ۔

جس دن میں پیٹ درد میں مبتلا تھا، خوش قسمتی سے نگہبان کچھ نرم مزاج تھا۔ اس نے کئی مرتبہ میرے لیے کوٹھڑی کا دروازہ کھولا اور بیت الخلاء جاتے وقت میرا پیچھا بھی نہیں کیا بلکہ کوٹھڑی کے دروازے پر ہی میرا انتظار کرتا رہا۔ میں ایک مرتبہ بیت الخلاء سے واپس آرہا تھا تو میں نے دیکھا کہ میرا ساتھی قیدی اس کمیونسٹ کو مار رہا تھا اور اسے زمین پر گرایا ہوا تھا۔ مجھے پتا چلا کہ اس بد اخلاق شخص نے نگہبان کے سامنے میرا تمسخر اڑایا تھا۔ نگہبان کے سامنے ایک قیدی کی طرف سے دوسرے قیدی کا مذاق اڑانا قیدیوں کے نزدیک ناقابل معافی جرم تھا۔

ایک دفعہ میں نے اس سے کہا: ’’تمہیں یاد ہے تم نے مجھ سے کہا تھا: میں نے پوری زندگی میں تمہارے جیسا غیر متعصب اور وسیع القلب شخص نہیں دیکھا؟‘‘

اس نے کہا: ’’ہاں۔‘‘

میں نے کہا: ’’میں بھی تم سے کہتا ہوں: میں نے تم جیسا متعصب اور کینہ پرور شخص نہیں دیکھا۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ اس کے ساتھ میرا یہ رویہ میرے عقیدے کا تقاضا تھا اور وہ اپنے عقیدے کے مطابق عمل کر رہا تھا۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو اپنے احکام کی مکمل پیروی کی ترغیب دلاتا ہے۔ ایک مسلمان خدا کے قوانین کی رعایت کرتا ہے۔ اسلام غیر مسلموں کے ساتھ خوش اخلاقی اور نرمی کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیتا ہے اور ان کے ساتھ بات کرتے ہوئے سخت لہجہ اپنانے سے منع کرتا ہے۔

قرآن کی یہ آیات اسلام کے اس موقف کو واضح انداز میں بیان کرتی ہیں۔ ارشاد رب العزت ہے:

فَبَشِّرْ عِبادِ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ۔([4])

پس آپ میرے ان بندوں کو بشار ت دیجیے جو بات سنا کرتے ہیں اور اس میں سے بہتر کی پیروی کرتے ہیں۔

اور فرماتا ہے:

اُدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ۔([5])

اے رسول3 حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے پروردگار کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں۔ یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔

اسی طرح  فرمایا:

إِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلى هُدىً أَوْ فِي ضَلالٍ مُبِينٍ۔([6])

تو ہم اور تم میں سے کوئی ایک ہدایت پر یا صریح گمراہی میں ہے۔

اور فرماتا ہے:

لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَ لَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَ تُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ۔([7])

جن لوگوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اللہ تمہیں ان کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا، اللہ یقینا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

اسی طرح احادیث پیامبر3 بھی اسی بات کی طرف دعوت دیتی ہیں۔ ’’علم حاصل کرو چاہے چین ہی جانا پڑے۔‘‘ یہ کلام اس وسعت فکری پر واضح دلیل ہے۔ ایک مسلمان غیر مسلم سے تمام علوم حاصل کر سکتا ہے اور پھر اسلامی تعلیمات کے مطابق ان میں تصرف کر سکتا ہے۔ جبکہ کمیونسٹ ہر قسم کی لچک سے عاری خشک قسم کے لوگ ہیں جن کا نظریہ، روح اور احساسات سے عاری ہے۔ ان کے نزدیک اخلاق اور اقدار بے معنی ہیں۔ یہی نظریہ تمام مادی فکر رکھنے والوں کے رویوں پر حاکم ہے۔

افسوس کا مقام ہے کہ آج بعض مسلمان اصول پسند ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور ان کی مراد تعصب اور شدت پسندی ہوتی ہے۔ یہ اسلام پر سب سے بڑا ظلم ہے۔

روشنی کی کرن

میرے ذہن میں اس وقت بہت سے ایسے واقعات ہیں جو تنگ و تاریک کوٹھڑی میں دنیا سے کٹی ہوئی زندگی کے تجربے سے ناواقف لوگوں کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتےلیکن اس طرح کی کوٹھڑی میں رہنے والے قیدی کے لیے یہ بہت اہم واقعات ہیں جو اپنی اہمیت کی وجہ سے اس کی یادوں میں باقی رہ جاتے ہیں۔ ان واقعات میں سے ایک سورج کی ایک کرن کا کوٹھڑی میں داخل ہونا تھا۔  ایک دن میں متوجہ ہوا کہ ایک مدہم سی روشنی کوٹھڑی کی کھڑکی پر موجود گرد وغبار اور تمام تر رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے کوٹھڑی کے اندر داخل ہوئی۔ میں خوشی سے خود پر قابو نہ پا سکا اور اونچی آواز سے پکارا: ’’سب دیکھو! خوش خبری! سورج! سورج!‘‘ ہماری آنکھیں اسی روشنی پر ٹھہر گئیں جو ہمیں باہر کی آزاد فضا سے ملا رہی تھی۔ ہم خوشی کے ساتھ اسی روشنی کو دیکھتے رہے یہاں تک کہ وہ آدھے گھنٹے یا اس سے کم مدت میں غائب ہوگئی۔ اگلے دن روشنی کچھ زیادہ تھی اور زیادہ دیر تک کوٹھڑی کو روشن کرتی رہی۔ یہ سلسلہ چند ہفتوں تک جاری رہا یہاں تک کہ سورج ایک ایسے زاویے میں چلا گیا جہاں سے اس کی یہ مختصر عطا ہم سے چھن گئی۔

ایک دن میں چڑیوں کی آواز پر بیدار ہوا جو کوٹھڑی کے باہر چہچہا رہی تھیں۔ یہ خوبصورت آوازیں بہار کی آمد کی خوشخبری سنا رہی تھیں اور ہمیں کوٹھڑی سے باہر کی آزاد اور خالص فضا سے ملا رہی تھیں۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ کوٹھڑی کی پشت پر کچھ درخت ہیں اور شاید ان پر تازہ پتے نکلے ہیں جو فضا کو خوشگوار بنا رہے ہیں اور یہ چڑیاں ان کے گیت گا رہی ہیں۔ چڑیوں کی آوازوں کی وجہ سے ہمارے ذہن میں یہ سارے خوبصورت مناظر ایجاد ہو رہے تھے۔ ان آوازوں نے ہمیں ان مشکل اوقات میں خوشی فراہم کی اور لذت کا احساس دلایا۔

ابھی تک اس جیل کی ایک بات جو اکثر مجھے یاد آتی ہے وہ صبح کی اذان کی آواز ہے۔ وہ انتہائی دھیمی آواز تھی جو یقیناً کہیں دور سے آتی تھی۔ اذان کی یہ آواز فجر کے وقت شہر کے سکون اور صاف ہوا کی وجہ سے کوٹھڑی تک پہنچ پاتی تھی۔ میرے کان پورے شوق کے ساتھ اس آواز کو سنتے اور یہ آواز میرے اندر ایک ایسی لذت ایجاد کرتی جس کی چاشنی آج بھی باقی ہے۔ آواز کے دور سے آنے کی وجہ سے میں بعض کلمات کو واضح طور پر نہ سن پاتا۔ لیکن ہر صبح میں اس آواز کا انتظار کرتا اور اسے غور سے سنتا۔

خوفناک خواب

 اس جیل میں ہر چیز کی اپنی اہمیت تھی اور ہر بات کی اپنی دلالت۔ وہاں کی ہر بات تنگ و تاریک کوٹھڑی کی زندگی کی ایک اہم یاد بن جاتی تھی۔ ان میں سے ایک چیز خواب تھے۔ہم اپنے وقت کا ایک حصہ ایک دوسرے کو اپنے خواب سنانے میں صرف کرتے تھے۔ میں نے اس جیل میں بہت سے حیرت انگیز خواب دیکھے۔ جن میں سے چند یہ ہیں:

ایک دن میں صبح کی نماز کے بعد سویا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک بے آب و گیاہ صحراء میں کھڑا ہوں۔ میرے سامنے ایک خشک نہر ہے  جس کے کنارے پر کچھ درخت ہیں جن کے پتے جھڑ چکے ہیں۔ پھر اچانک دور سے ایک بڑا اور خوفناک کتا بھونکتے ہوئے میری طرف آتا ہے۔ میرے اور اس کتے کے درمیان نہر کا فاصلہ تھا۔ مجھ پر شدید خوف طاری تھا اور میں حیرت میں کھڑا سوچ رہا تھا کہ کیا کروں؟ میں دائیں بائیں کوئی پناہ ڈھونڈنے لگا لیکن وہاں کوئی پناہ گاہ نہ تھی۔ جونہی کتا مجھ سے دس میٹر کے فاصلے پر پہنچا اس کی سرعت کم ہوگئی۔ پھر آہستہ آہستہ اس کی آواز کم  ہوئی یہاں تک کہ وہ آرام سے زبان نکال کر میرے سامنے بیٹھ گیا۔ پھر وہ مجھے چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔ میں حیران ہوا اور میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔

جب میں بیدار ہوا تو مجھے کچھ یاد نہیں تھا۔ کچھ دیر بعد نگہبان نے کوٹھڑی کا درواز کھولا۔ اس کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا۔ اس نے پوچھا: ’’علی کون ہے؟‘‘ وہ قیدیوں کو پکارتے وقت پورا نام نہیں لیتے تھے تاکہ ان کا پورا نام صیغہ راز میں رہے کیونکہ ممکن تھا نگہبان بھول کر کسی دوسری کوٹھڑی میں چلا جائے اور وہاں مطلوبہ شخص کا پورا نام لے بیٹھے۔ اس صورت میں دوسری کوٹھڑی میں موجود قیدیوں کو پتا چل جاتا کہ فلاں شخص بھی اسی جیل میں ہے۔ چونکہ نگہبانوں کی تعداد زیادہ تھی اور وہ باری باری ڈیوٹی دیتے تھے لہذا وہ ہر شخص کو اس کے نام کے ساتھ نہیں پہچانتے تھے۔ میں نے کہا: ’’میں ہوں۔‘‘ اس نے کہا: ’’تم کون سے علی ہو؟‘‘ میں نے کہا: ’’علی خامنہ ای۔‘‘ اس نے کہا: ’’اپنا چہرہ ڈھانپو اور میرے ساتھ آجاؤ۔‘‘ کسی شخص کو بلاتے وقت وہ اس کی قمیص اترواتے، اس سے اس کا منہ ڈھانپتے اور پھر اسے مطلوبہ مقام تک لے جاتے تھے۔ راستے کے پیچ و خم سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ لوگ مجھے کمرۂ تفتیش میں لے جا رہے ہیں۔ ضمناً بتاتا چلوں کہ میں اندازوں سے جیل کے تمام حصوں کو جان چکا تھا۔ جب میں جیل سے نکلا تب میں نے اپنے ذہن میں موجود تصویر کے مطابق کاغذ پر جیل کی عمارت کا نقشہ بنایا۔ پھر جب انقلاب کے بعد میں نے اس جیل کا دورہ کیا تو وہ تقریبا ویسے ہی تھی جیسے میں نے ذہن میں اس کا خاکہ بنایا ہوا تھا۔

مشہد کا خمینی

وہ اہلکار مجھے کمرے میں لے گیا، کرسی پر بٹھایا اور کہا: ’’سر اٹھاؤ۔‘‘ اس جملے کا مطلب تھا کہ سر سے کپڑ ا اتارو۔ میں نے کپڑا ہٹایا تو تفتیشی افسر کو اپنے سامنے پایا جس کے پاس میرا کیس تھا۔ (ہم اسے انورسادات کہتے تھے چونکہ اس کا چہرہ انور سادات سے ملتا تھا۔) اس نے وہی عام سوالات پوچھنے شروع کیے اور میں جواب دیتا رہا۔ اسی دوران ایک شخص نے دروازہ کھولا اور سر اندر کر کے بولا: ’’ڈاکٹر صاحب آپ کے پاس چائے ہے؟‘‘ تفتیشی افسران ایک دوسرے کو ڈاکٹر اور انجینئر کہہ کر پکارتے تھے۔ یہ چیز ان جاہلوں اور ان پڑھ لوگوں کی شخصیات کی پستی اور حقارت کی نشانی تھی۔ اور پھر سوال بھی چائے کے بارے میں؟! ان کی یہ عادت میں پہلے سے جانتا تھا۔ پوچھنے والا ایسے اظہار کرتا گویا وہ بغیر کسی ارادے کے معمول کے مطابق کمرے میں داخل ہوا ہے۔

وہ داخل ہوا اور گویا مجھے دیکھ کر چونک گیا۔ کہنے لگا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ جیل میں یہ مشہور سوال تھا کیونکہ میں نے کسی تفتیشی افسر کو قیدی کے بارے میں یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ یہ کون ہے؟ تفتیشی افسر نے جواب دیا: یہ خامنہ ای ہے، مشہد سے۔ اندر آنے والا شخص میرا نام سن کر حیران ہوگیا۔ بولا: ’’عجب! یہ ہے وہ؟ یہ ہے جو مشہد کا خمینی بننا چاہتا ہے؟‘‘ یہ جملہ میری فائل میں کئی بار تحریر تھا: ’’یہ چاہتا ہے کہ مشہد کا خمینی بنے۔‘‘ اس نے مزید کہا: ’’ڈاکٹر، یہ خطرناک شخص ہے۔‘‘ پھر اس نے اپنا سر ہلایا اور مجھے مخاطب کر کے کہا: ’’خامنہ ای! تم یہاں سے بچ کر نہیں جاؤ گے۔‘‘ پھر کہا: ’’میں تم سے تقیہ اور توریہ کا معنی پوچھتا ہوں۔‘‘ وہ میرے جواب کا انتظار کیے بغیر تفتیشی افسر کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا: ’’یہ لوگ اپنے حقیقی کاموں کو چھپا کر جھوٹے کاموں کا اظہار کرتے ہیں اور اسے تقیہ کا نام دیتے ہیں۔ اسی طرح یہ لوگ حقیقت کے برخلاف بات کرتے ہیں اور اسے توریہ کہتے ہیں۔‘‘

ایسا لگتا ہے کہ اسے ہمارے تقیہ سے سخت چِڑ تھی۔ اسے چڑنا بھی چاہیے تھا کیونکہ ہم حکومت کے سامنے تقیہ کرتے تھے اور تقیہ ہماری مزاحمتی تحریک کے لیے خندق کا کام کرتا تھا۔ حکومت اس خندق میں ہمارا مقابلہ کرنے سے عاجز تھی۔ میں اس ساری مدت میں سر نیچے کیے بیٹھا رہا۔ جب دیکھا کہ وہ ان اصطلاحات (تقیہ اور توریہ) کی وضاحت کے لیے اصرار کر رہا ہے تو اسی طرح سر نیچے کیے ہوئے اسے ایک مناسب جواب دیا۔

اس نے کہا کہ نہیں۔ حقیقت ایسے نہیں ہے اور مجھے دھمکانا شروع کر دیا۔ اس شخص کے کمرے میں داخل ہوتے ہی مجھے اس سے خوف محسوس ہوا تھا کیونکہ میں نے جان لیا تھا کہ یہ شخص مجھے تکلیف پہنچانے کی ذمہ داری نبھانے آیا ہے۔ جب اس کی دھمکیاں بڑھیں تو میں میرا خوف بھی بڑھنے لگا۔ اسی اثناء میں، میں نے اپنا سر اٹھایا اور عجیب منظر دیکھا۔ یہ وہی کتا تھا جسے میں نے رات خواب میں دیکھا تھا۔

تمام تر تفصیلات کے ساتھ اس خواب کے مناظر میرے ذہن میں آنے لگے۔ کتے کا میری طرف دوڑنا، اس کا مسلسل زور زور سے بھونکنا، پھر اس کا مجھے کوئی نقصان پہنچائے بغیر رک جانا۔ میں اچانک ایک عجیب اطمینان اور مکمل سکون محسوس کرنے لگا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ یہ شخص مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اور اسی طرح ہوا۔ یہ تفتیش کئی گھنٹے جاری رہی جس دوران ان دونوں کے اور ساتھی بھی ان کے ساتھ ملحق ہوئے اور ان کی تعداد ۹ تک پہنچ گئی۔ ان سب نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا لیکن مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔

میں نے بعد میں اسے پہچانا۔ اس کا نام کمالی تھا۔ انقلاب کے بعد اس کا دلچسپ قصہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو تکلیف دینے میں اس کا بڑا حصہ تھا۔ وہ بھاگ کر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ پھر چند ماہ بعد وہ خود ’’اوین‘‘ کی جیل کے منتظمین کے پاس آیا اور اپنی تنخواہ کا مطالبہ کیا جو چند ماہ سے اسے نہیں ملی تھی۔ اس نے اپنا تعارف کروایا۔ انہوں نے خوش آمدید کہا، اسے اندر لے گئے اور اس سے تفتیش کی۔ اس کے خلاف علی الاعلان مقدمہ چلایا گیا جسے ٹیلی وژن سے بھی نشر کیا گیا۔ عدالت نے مجھ سے اس کے متعلق گواہی دینے کا مطالبہ کیا لیکن میں نے انکار کیا کیونکہ اس نے مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچائی تھی۔ کچھ دوسرے لوگ عدالت گئے اور اس کے خلاف گواہی دی اور بالآخر اسے سزائے موت ہوئی۔

اس تفتیش کے بعد اور بھی کئی مرتبہ مجھے تفتیش کے لیے بلایا گیا جن میں بعض اوقات نفسیاتی ٹارچر، داڑھی مونڈنے اور جسمانی ٹارچر جیسی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تفتیش کرنے والوں کی عادت تھی کہ اگر زیادہ دیر تفتیش کے باوجود قیدی استقامت دکھاتا رہے تو قیدی کو نفسیاتی طور پر ٹارچر کرتے تھے۔ وہ پانچ، چھ یا اس سے زیادہ لوگ تفتیش والے کمرے میں اکٹھے ہوجاتے، قیدی کو چاروں طرف سے گھیر لیتے، اسے برا بھلا کہتے اور اس کی اہانت کرتے۔ یقیناً اصل تفتیش کرنے والا ایک ہوتا تھا جبکہ باقی لوگ ایک ایک کر کے کمرے میں داخل ہوتے تھے۔ وہ لوگ ایسے ظاہر کرتے تھے جیسے ان کا کمرے میں داخل ہونا بغیر کسی قصد کے ہو اور سب کا مشترکہ طریقہ ڈاکٹر صاحب سے چائے مانگنا ہوتا تھا۔

انہوں نے کئی مرتبہ مجھے اس طرح گھیرا۔ میں ان کے سوالات کا بغیر کسی تردید کے جواب دیتا تھا۔ کوشش کرتا تھا کہ ایسے جوابات نہ دوں جو میرے لیے مشکلات کھڑی کریں۔ ایک مرتبہ تفتیش کے دوران کوچصفہانی نامی تفتیشی افسر نے متکبرانہ اور توہین آمیز لہجے میں مجھ سے پوچھا: ’’سید! سید سعیدی کو جانتے ہو؟‘‘

میں نے کہا: ’’جی ہاں، وہ میرے دوست ہیں۔‘‘

یہ بات ساواک والوں سے پوشیدہ نہیں تھی کیونکہ ہم دونوں خراسان سے تھے۔

پھر اس نے کہا: ’’تمہیں معلوم ہے کہ وہ جیل میں فوت ہوا ہے؟‘‘

میں نے کہا: ’’جی ہاں۔‘‘

اس نے کہا: ’’کیا جانتے ہو کہ اس کی تفتیش بھی اسی کمرے میں ہوئی تھی؟‘‘

البتہ اس کا یہ سوال جھوٹ پر مبنی تھا۔ میں خاموش ہوگیا۔ اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’میں نے سعیدی سے کہا تھا تمہارے پاس جو معلومات ہیں اگل دو۔ اس نے جواب دیا کہ میں قرآن سے استخارہ کروں گا۔ اگر جواب دینے میں مصلحت ہوئی تو جواب دوں گا ورنہ نہیں۔ میں نے سعیدی سے کہا: یہ استخارہ نہیں، بدشگونی ہے۔ اس نے میری بات نہیں مانی اور پھر اس کے ساتھ وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔

یہاں کوچصفہانی تھوڑی دیر خاموش ہوا، پھر اپنی جگہ سے اٹھا اور میرے قریب آیا۔ اس نے قلم کا ایک سرا پکڑا اور دوسرا سرا میرے سر پر مارنے لگا، جیسے متکبر استاد اپنے شاگردوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ پھر اس نے کہا: ’’سید! یہ بدشگونی ہے، بد شگونی۔۔۔‘‘

میں اس کی حماقت، جھوٹ اور مجھے ڈرانے کے لیے مصنوعی منظر کشی پر دل ہی دل میں ہنسا۔ اس کی باتوں کا مجھ پر ذرہ برابر بھی اثر نہیں ہوا۔

میرا اور میرے ساتھی کا خواب

قید کے دوران سچے خوابوں والی بات کی طرف آتے ہیں۔ ابھی مجھے ان خوابوں میں سے صرف دو خواب یاد ہیں جن میں سے ایک میں نے جبکہ دوسرا میرے جیل کے ایک ساتھی نے دیکھا تھا۔

میں نے خواب میں دیکھا کہ مشہد کی ایک مسجد میں ہوں۔ میں اس مسجد کو جانتا ہوں اور وہ ابھی تک موجود ہے۔ مسجد بازار کے وسط میں واقع ہے اور سید میلانی کے قریبی اور خاص شاگر سید علم الہدی اس مسجد میں نماز پڑھاتے ہیں۔ سید میلانی نے ہی انہیں اس مسجد کا امام معین کیا ہے۔ میں نے دیکھا مسجد کے دروازے کے دونوں طرف دو فرشتہ نما مرد کھڑے ہیں۔ ان کا قد اتنا بلند تھا کہ میں ان کی ٹانگیں دیکھ رہا تھا لیکن ان کے سر دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ پھر میں نے دیکھا کہ مسجد کی تعمیرات کی خاطر مسجد کا قالین اٹھایا گیا ہے۔ دیوار کے بعض پتھر گر گئے ہیں اور مسجد کے فرش پر مٹی اور پتھر بکھرے پڑے ہیں۔

جب میں جاگا تو مجھے خواب یاد تھا۔ میں نے اپنے ساتھی سے کہا سید علم الہدی یا سید میلانی میں سے کوئی ایک وفات پا گیا ہے۔

اسی دن یا اس سے اگلے دن مجھے تفتیش کے لیے بلایا گیا۔ وہ مجھے تفتیش والے کمرے کے علاوہ ایک اور کمرے میں لے گئے۔ تفتیش کاروں کا سربراہ ’’کاوہ‘‘ میرے انتظار میں تھا۔ اس نے دورانِ تفتیش مجھ سے کہا: ’’تمہیں تو معلوم ہوگا کہ سید میلانی وفات پا گئے ہیں۔‘‘

میں نے کہا: ’’مجھے کیسے معلوم ہو سکتا ہے؟‘‘

اس نے کہا: ’’ہاں۔ وہ فوت ہوگئے ہیں۔‘‘

یہ 1975؁ء کے اوائل کی بات ہے۔

دوسرا خواب جیل کے ساتھی نے دیکھا جسے میں اس کی زبانی نقل کر رہا ہوں۔ (وہ عالمِ دین تھا اور جیل میں میرے ساتھ قید تھا۔ ایک حد تک ظالم حکومت کا طرفدار بھی تھا۔ لیکن اس کے باوجود اسے گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ شاید اسے میری کوٹھڑی میں میرے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ لیکن مجھے رہا کر دیا گیا اور وہ جیل میں ہی باقی رہا۔) وہ کہتا ہے:

میں نے خواب میں دیکھا کہ آپ اور میں شہر ’’رَے‘‘ میں واقع حضرت عبد العظیم حسنی([8])کے حرم مبارک گئے۔ آپ نے حرم کے بلند مینار کی طرف دیکھتے ہوئے مجھ سے کہا: ’’میں اس مینار کی چوٹی تک جانا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا: ’’یہ ممکن نہیں۔‘‘ آپ نے جواب دیا: ’’ممکن ہے۔‘‘ پھر میں نے اچانک دیکھا کہ آپ زمین سے بلند ہوئے اور مینار کی چوٹی تک پہنچ گئے۔ جب آپ مینار کی چوٹی تک پہنچے تو مجھے دور سے آواز دی اور ہاتھ کے اشارے سے خدا حافظی کرتے ہوئے کہا: ’’دیکھا میں یہ کر سکتا ہوں۔‘‘ میں حیرت اور پریشانی سے آپ کو دیکھتا رہا۔ آپ مینار کی چوٹی سے اوپر گئے گویا پرواز کر رہے ہوں۔ آپ نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے خدا حافظ کیا اور آسمان کی طرف چلے گئے۔‘‘

جب اس نے مجھے اپنا خواب سنایا تو میں نے کہا: ’’یہ ضرور شہادت کی طرف اشارہ ہے۔‘‘ لیکن ایسا نہ تھا بلکہ یہ رہائی کی طرف اشارہ تھا کیونکہ کچھ دن بعد ہی مجھے رہا کر دیا گیا۔

تم یوسف بنو گے

سچے خوابوں کی بات چل رہی ہے تو میں اسی مناسبت سے اپنے ذہن میں موجود حیرت انگیز خوابوں میں سے ایک کا ذکر کرتا ہوں۔ یہ خواب 1967؁ء یا 1968؁ء میں دیکھا۔

ان دنوں مشہد کے سیاسی حالات انتہائی کشیدہ تھے اور اسلام پسندوں کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ میرے ساتھیوں میں سے چند افراد ہی میدان میں رہ گئے تھے اور باقی جہاد کے راستے سے کنارہ کش ہوچکے تھے۔

ان حالات میں، میں نے خواب دیکھا کہ امام خمینی= وفات پاگئے ہیں اور ان کا جنازہ مشہد میں میرے والد کے گھر کے پاس ایک گھر میں رکھا گیا ہے۔ لوگوں کی کثیر تعداد تشییع جنازہ کے لیے اکٹھی ہوئی۔ میں بھی غم و اندوہ سے نڈھال اور حزن وملال کی کیفیت میں وہاں موجود تھا۔ ہم نے تابوت گھر سے نکالا اور اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔ جنازے کے پیچھے لوگوں کا ایک جمع غفیر آرہا تھا جس میں دینی علماء کی کثیر تعداد موجود تھی۔ میں علماء کے ساتھ چلتے ہوئے بلند آواز کے ساتھ گریہ کر رہا تھا اور شدتِ غم میں اپنا زانو پیٹ رہا تھا۔ جس چیز نے میرے حزن و ملال میں اضافہ کیا وہ یہ تھی کہ بعض علماء (جن کے چہرے ابھی مجھے یاد نہیں) عبرت لینے کی بجائے باتیں کر رہے تھے اور ہنس رہے تھے۔ ان کے چہروں پر غم اور پریشانی کے آثار بھی نہیں تھے۔ میرے لیے اس مصیبت پر سوائے صبر وتحمل کے کوئی اور چارہ نہیں تھا۔

جنازہ شہر کے آخر تک پہنچا تو اکثر لوگ واپس لوٹ گئے۔ جنازے نے شہر سے باہر اپنا سفر جاری رکھا اور اس کے ساتھ مجھ سمیت ۲۰ سے ۳۰ افراد موجود تھے۔ جنازہ ایک  ٹیلے تک پہنچا اور ساتھ چلنے والوں میں سے اکثر ٹیلے کے نیچے ہی رک گئے۔ جنازے نے ٹیلے کی چوٹی کی طرف اپنا سفر جاری رکھا جبکہ جنازے کے ساتھ مجھ سمیت ۴ یا ۵ افراد ہی بچ گئے۔ بالآخر ہم جنازے کے ساتھ چوٹی تک پہنچ گئے۔

عموماً نیچے سے ٹیلوں کی چوٹیاں چھوٹی دکھائی دیتی ہیں لیکن انسان جب انہیں سر کرتا ہے تو انہیں وسیع و عریض پاتا ہے لیکن یہ چوٹی جیسے نیچے سے دکھائی دے رہی تھی اسی طرح حقیقت میں بھی چھوٹی اور ایک چارپائی کی مانند تھی۔ ہم نے وہاں تابوت رکھا۔

میں امام خمینی= کے پاؤں کی طرف گیا تاکہ وداع کروں۔ میں ان کے پاؤں کے ساتھ کھڑا ان کا چہرہ دیکھ رہا تھا کہ اچانک انہوں نے انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے اپنا دایاں ہاتھ اٹھایا۔ میں شدید حیران ہوا۔ پھر میں نے دیکھا کہ امام خمینی= بیٹھ رہے ہیں اور ان کی آنکھیں بند ہیں۔ ان کے ہاتھ کی انگلی میری پیشانی تک پہنچ گئی اور میں حیرت سے دیکھتا رہا۔ انہوں نے میری پیشانی پر ہاتھ رکھ کر دو مرتبہ کہا: ’’تم یوسف بنو گے۔ تم یوسف بنو گے۔‘‘

میں بیدار ہوا تو خواب کی تمام تفصیلات میرے ذہن میں موجود تھیں جیسے آج تک ہیں۔ میں نے اپنا یہ خواب بہت سے دوستوں اور رشتہ داروں کو سنایا۔ والدہ مرحومہ نے خواب کی تعبیر کچھ یوں فرمائی:

’’ہاں، تم یوسف بنو گے یعنی ہمیشہ جیلوں میں رہو گے۔‘‘

میں نے شیخ جواد حافظی کو بھی اپنا خواب اور والدہ کی تعبیر سنائی۔ یہ 1970؁ء کی بات ہے جب میں اور شیخ حافظی مشہد میں ایک جیل کی کوٹھڑی میں اکٹھے قید تھے۔

جب میں ایران کا صدر منتخب ہوا تو ایک دن شیخ حافظی میرے پاس آئے اور کہنے لگے: ’’صدارتی انتخابات والے دن میں حج کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ میں تھا۔ جب میں ووٹ ڈالنے کے لیے وہاں رکھے بیلٹ بکس کی طرف بڑھ رہا تھا تو مجھے آپ کا خواب اور آپ کی والدہ کی تعبیر یاد آگئی۔ میں زار و قطار رونے لگا۔ میں سمجھ گیا کہ خواب کی تعبیر صرف جیل نہیں تھی۔‘‘

اسلام کا غلبہ

جیل کے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ وہاں کا ماحول مختلف قسم کے جسمانی اور نفسیاتی تشدد سے آلودہ تھا۔ جیل کے منتظمین انتہائی ظالم، سنگدل اور بے رحم تھے اور اسلام پسند قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک روا رکھتے تھے۔ اسلام پسند اس وقت انتہائی ضعیف اور اسلام دشمن طاقتور تھے۔ ان سب چیزوں کے باجود جو چیز تعجب خیز تھی وہ جیل میں اسلام کی عزت اور غلبے کا احساس تھا۔ میری آخری گرفتاری کے برسوں میں مشکلات اپنے عروج کو پہنچ چکی تھیں یہاں تک کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اسلام دوبارہ معاشرے میں طاقتور ہوگا۔ ہم بشارت دینے والی قرآنی آیات کی تلاوت سے صبر و حوصلہ لیتے، نماز میں سورہ کوثر کی تکرار کرتے اور اپنے آپ کو یقین دلاتے تھے کہ کوثر کی تفسیر ضرور حکومتِ اسلامی کی شکل میں ظاہر ہوگی اگرچہ مادی حساب و کتاب کے مطابق اسلام کا واپس لوٹنا نا ممکن ہو چکا تھا۔

اسی مشکل دور میں ایک دن مجھے جیل کے ٹارچر سیل لے جایا گیا۔ وہ لوگ مجھے اس مرتبہ ایک نئے کمرے میں لے کر گئے۔ میں کمرے میں بیٹھا تفتیشی افسر کا انتظار کر رہا تھا۔ اتنے میں تفتیش کاروں کا سربراہ کاوہ (یہ انقلاب کے بعد بھاگ گیا) مسکراتا ہوا داخل ہوا اور کشادہ روی کے ساتھ مجھ سے بات چیت کرنے لگا۔ اس نے میرا حال احوال پوچھا اور اپنی ہمدردی کا اظہار کیا۔ میں کافی حیران ہوا کہ اس شخص نے مجھ پر تشدد کیا تھا اور اب یہی شخص اتنی نرمی سے پیش آرہا ہے۔ اس نے کہا: ’’آپ کے اوپر کوئی بڑا الزام نہیں۔ آپ کا مقدمہ آسان ہے۔‘‘ اسی اثناء میں میرا تفتیش کار مشیری کمرے میں داخل ہوا اور میرے اور کاوہ کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ (وہ جوان تھا مگر اس کے باوجود تفتیش کاروں کی ایک ٹیم کا سربراہ تھا۔) واضح طور پر دکھائی دے رہا تھا کہ وہ ان باتوں سے مجھے رہائی کی خبر دینا چاہ رہا ہے۔ وہ مجھ پر ہونے والے مظالم سے بری الذمہ ہو کر ان کا ذمہ دار اس چھوٹے تفتیشی افسرکو ٹھہرانا چاہ رہا تھا۔

مشیری نے موقع ضائع کیے بغیر ظریفانہ لہجے میں کہا:

’’ہاں، ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ تمہارا مقدمہ آسان ہولیکن یاد رکھو کہ تمہارا مقدمہ ہمارے سربراہ کے پاس ہے (اس نے کاوہ کی طرف اشارہ کیا۔) اور وہ اگرچہ عمر میں ہم سے چھوٹے اور جوان ہیں لیکن ایک بڑا اور روشن مستقبل رکھتے ہیں۔‘‘

میں جان گیا کہ وہ مجھے آزاد کرنا چاہ رہے ہیں، لیکن یہ خوشامد کیوں؟ میرے سامنے سربراہ اور تفتیشی افسر کے درمیان یہ بحث کیوں؟ کیوں ان میں سے ہر ایک خود کو بری الذمہ ثابت کرنا چاہ رہا تھا؟ یہ دونوں اسی وقت مجھے آسانی سے قتل کر سکتے تھے جبکہ میں تنہا تھا، نہ طاقت رکھتا تھا اور نہ ہی کوئی مددگار۔ ان دونوں سے پہلے کوچصفہانی نامی تفتیش کار بھی میرے پاس آیا تھا۔ وہ مجھے اپنی دینداری کے متعلق بتاتے ہوئے کہنے لگا: ’’میں بچپن سے شیخ حسام کی مجالس ضرور سنتا ہوں۔‘‘ (شیخ حسام صوبہ گیلان کے شہر رشت کے معروف واعظ اور خطیب تھے۔)

خدایا! وہ دینداری کا اظہار کر رہا تھا۔ مگر کیوں؟

ان سب چیزوں کا واحد سبب اسلام کی عزت اور کرامت تھی۔ وہ سب با اختیار اور قدرت مند ہونے کے باوجود ایک مسلمان کے سامنے پستی اور کمزوری کا احساس کرتے تھے جبکہ مسلمان ان کی نظر میں باعظمت اور بلند مرتبہ تھا۔

تم آزاد ہو

ایک دن میں اپنی کوٹھڑی میں اپنے دونوں ساتھیوں کے ہمراہ بیٹھا تھا۔ ان میں سے ایک عالمِ دین تھے جن کا ذکر کر چکا ہوں۔ اور دوسرے ایک مخلص مجاہد تھے جو شیخ محمد علی شاہ آبادی کے نواسے تھے۔ پولیس اہلکار معمول کے مطابق آیا اور کہا: ’’علی کون ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’میں ہوں۔‘‘ اس نےپھر پوچھا: ’’کونسا علی؟‘‘ میں نے جواب دیا: ’’علی خامنہ ای۔‘‘ اس نے کہا: ’’اپنا سر اور چہرہ ڈھانپو اور میرے پیچھے آؤ۔‘‘

وہ مجھے کاوہ کے کمرے میں لے گیا۔ کاوہ نے مجھے دیکھتے ہی کہا: ’’تم آزاد ہو۔‘‘ مجھے بہت تعجب ہوا۔ میں تفتیشی افسران کے سربراہ کے کمرے سے نکلا جبکہ مجھے اس کی بات پر یقین نہیں آرہا تھا۔ انہوں نے مجھے پہلی مرتبہ چہرہ ڈھانپے بغیر سربراہ کے کمرے سے نکلنے کی اجازت دی۔ میں نے پہلی مرتبہ جیل کا برآمدہ دیکھا۔ جو بھی میری رہائی کی خبر سنتا حیرت کے ساتھ پوچھتا: ’’تمہیں کیوں رہا کیا گیا ہے؟‘‘ میں فوراً جواب دیتا: ’’جیل کے عہدیداروں سے پوچھو۔‘‘

میں پہلے اپنی کوٹھڑی کی طرف گیا۔ میرا ایک ساتھی وہاں موجود تھا جبکہ دوسرا ساتھی کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا۔ وہاں موجود ساتھی میری رہائی کی خبر سن کر بہت خوش ہوا۔ میں نے اسے الوداع کیا۔ پھر وہ لوگ مجھے کپڑوں والے کمرے میں لے گئے۔ یہ وہی کمرہ ہے جہاں ہم جیل میں آتے وقت اپنے کپڑے اتار کر جیل والا لباس پہنتے تھے۔ مغرب کا وقت قریب تھا لیکن باہر ابھی تک گرمی تھی۔ میری گرفتاری سردی کے موسم میں ہوئی تھی اور رہائی گرمی کے آخری ایام میں ملی۔ لہذا گرمی کے ایام میں میرے پاس سردی والا لباس ہی تھا۔

میں نے جبہ، عبا، قبا اور عمامہ پہنا اور جیل کے دروازے سے باہر نکلا۔ ہر چیز نئی، خوبصورت اور متاثر کن دکھائی دے رہی تھی۔ لوگ، نگہبانوں کے بغیر چلنا اور روشنیاں جو ایک عرصہ تاریک کوٹھڑی میں رہنے کے بعد میری آنکھوں کے لیے تکلیف کا باعث بن رہی تھیں۔

میں بھی دوسرے قیدیوں کی طرح اکثر خواب میں اپنی رہائی کے مناظر دیکھتا تھا۔ کیا یہ بھی ایک خواب تھا؟ میں جیل کے نزدیک واقع ’’توپخانہ‘‘ نامی علاقے کی طرف چلا گیا۔ میرے پاس تھوڑی سی رقم تھی۔ مجھے بھوک محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے کچھ کھانا خریدا اور یہ سوچے بغیر کہ مجھ جیسے ایک عالم کو سڑک پر نہیں کھانا چاہیے، وہ کھانا کھا لیا۔

میں نے ڈاکٹر بہشتی کے گھر فون ملایا۔ انہیں یقین نہیں آرہا تھا: ’’یہ آپ ہیں؟ جیل سے کب نکلے؟ انہوں نے کیسے رہا کر دیا؟‘‘ پھر کہا: ’’میں شدت سے آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘

میں سید بہشتی کے گھر گیا۔ وہاں برادر شفیق بھی تھے جو وہاں سے نکلنے لگے تھے لیکن میرے آنے کا سن کر مجھ سے ملاقات کے لیے وہیں رک گئے۔

ان دونوں کی نظر سب سے پہلے میرے چہرے پر پڑی۔ جب انہیں داڑھی دکھائی نہ دی تو وہ حیران ہوگئے۔ میں نے کہا: ’’انہوں نے داڑھی مونڈ ڈالی۔ دوبارہ آجائے گی۔‘‘ کچھ دیر وہاں رکا، کچھ رقم لی اور اپنے بڑے بھائی کے گھر چلا گیا جو تہران میں مقیم تھے۔ وہاں سے مشہد فون کیا اور مشہد کے لیے رخت سفر باندھ لیا ۔

اہل وعیال نے میری قید کے دوران انہیں درپیش مشکلات، پریشانیوں اور ناامیدیوں کے بارے عجیب قصے سنائے۔ میری زوجہ نے بتایا کہ ان کی والدہ میرے بیٹے مجتبیٰ کو امام رضا, کے حرم لے جاتی تھیں۔ مجتبیٰ اس وقت ایک معصوم اور پاکیزہ بچہ تھا اور بعض عبادات کا پابند بھی تھا۔ وہ مجتبیٰ سے کہتیں: ’’امام رضا,کے وسیلے سے خدا سے دعا مانگو کہ آپ کے والد رہا ہو جائیں۔‘‘ بچہ معصومانہ انداز میں امام رضا, کی طرف متوجہ ہوتا اور توسل کرتا تھا۔ ایک رات مجتبیٰ اپنی نانی کے ساتھ گیا اور اسی طرح دعا کی۔ اس مرتبہ بچے کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوگیا اور وہ زار و قطار رونے لگا۔ اس نے امام, کو مخاطب کیا۔ اس کے لہجے سے اس کا دلی دکھ اور اس کے پیمانہ صبر کا لبریز ہونا واضح تھا۔ یہاں تک کہ بچے کی نانی اپنے کیے پر نادم ہوئیں اور فیصلہ کیا کہ آئندہ بچے سے ایسا مطالبہ نہیں کریں گی۔ اسی واقعہ کے دو دن بعد گھر میں فون کی گھنٹی بجی اور گھر والوں نے میری آواز سنی۔ میں تہران میں بھائی کے گھر سے انہیں بتا رہا تھا کہ میں آزاد ہو گیا ہوں۔


([1]) ایرانی سال کا نواں مہینہ جو ۲۲ نومبر کو شروع ہوتا ہے۔

([2]) فسادات سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کمیٹی: شاہی فرامین پر عمل درآمد کے لیے ساواک، سپیشل فورس اور پولیس پر مشتمل ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی کی تشکیل کے بعد مزاحمت کاروں اور سیاسی مخالفین پر تشدد اپنے عروج کو پہنچ گیا۔ تشدد کے اکثر وسائل اور طریقے سی آئی اے اور موساد کی طرف سے مہیا کیے جاتے تھے۔ اسی کمیٹی کی جیل کے اندر انقلابیوں پر انواع و اقسام کے تشدد کے ذریعے ان سے جبری طور معلومات اگلوائی جاتی تھیں۔ 1971؁ء سے 1979؁ء کے دوران اس کمیٹی نے ہزاروں انقلابیوں کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا۔

([3]) مورس کوڈ (Morse code): متن اور معلومات کی ترسیل کا ایک طریقہ ہے جو آن-آف ٹونز، روشنی یا کلکس کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

([4]) زمر: 17، 18

([5]) نحل: 125

([6]) سبا: 24

([7]) ممتحنہ: 8

([8]) عبد العظیم الحسنیؒ (173؁ھ تا 252؁ھ): حسنی سادات میں سے تھے۔ آپ احادیث کے راوی اور شیعہ فقیہ تھے۔ آپ کا نسب 4 واسطوں سے امام حسن مجتبیٰ, سے ملتا ہے۔ آپ امام رضا,، امام تقی, اور امام نقی, کے ہم عصر تھے۔ اہل بیت. کی احادیث میں آپ کی بہت زیادہ شان اور منزلت بیان کی گئی ہے۔ آپ کا مزار تہران کے جنوب میں شہر ’’رَے‘‘ میں واقع ہے۔

چودہواں باب

شہربدری میں سیلاب

سید مصطفیٰ خمینی کی وفات

1977؁ء میں ملک میں ہر طرف کشیدگی پھیل گئی۔ اسی سال نجف اشرف میں امام خمینیؒ کے بڑے بیٹے سید مصطفیٰ خمینی کی پر اسرار موت واقع ہو گئی۔ ان کی وفات سے لوگوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور مجالس ترحیم میں حکومت پر اعتراضات شروع ہوگئے۔

سید مصطفیٰ کی وفات کی خبر پہنچنے کے بعد ہم نے مشہد میں کچھ ضروری اقدامات کے لیے منصوبہ بندی کی۔ میں ڈاکخانے گیا اورامام خمینیؒ کے نام  چار تعزیتی خط لکھے۔ پہلا اپنے نام سے، دوسرا شیخ طبسی، تیسرا شیخ محامی اور چوتھا سید ہاشمی نژاد کے نام سے لکھا۔

جب میں نے یہ خط ڈاکخانہ کے ایک ملازم کو دیے تو وہ حیران ہوگیا۔ اس نے اپنے دوسرے ساتھیوں کو دکھائے تو وہ بھی حیرت میں مبتلا ہوگئے۔ اس کا خیال تھا کہ جب وہ مجھے اس کا خرچہ بتائے گا تو میں اس کام سے پیچھے ہٹ جاؤں گا۔ لیکن جب میں نے اسے ہزار تومان کا نوٹ تھمایا جو اس وقت مجھ جیسوں کے لیے اچھی خاصی رقم تھی تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔

پھر ہم نے ایک مسجد میں مجلس ترحیم کے انعقاد کی کوشش کی تو حکومت نے اجازت نہ دی اور مسجد بند کر دی۔ قم میں مومنین نےمجلسِ ترحیم کا اہتمام کیا جو بہت سے مومنین کی شہادت پر منتہی ہوئی۔ وہ ایام پورے ایران میں  تحریکِ اسلامی کی سرگرمیوں کے حوالے سے بے مثال ایام تھے۔ میں اور مجھ جیسے دوسرے برادران مدارس اور یونیورسٹی کے طالب علموں کے درمیان سیاسی اور تنظیمی سرگرمیوں، سیاسی افکار سے متعلق مکتوبات کی نشر و اشاعت اور خفیہ روابط میں مصروف تھے۔ہم تفسیر قرآن اور انقلابی اور متحرک اسلام پیش کرنے کے لیے جلسوں کا انعقاد بھی کرتے تھے۔

انہی ایام میں قم سے شیخ خلخالی کا فون آیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ مومنین کی ایک بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ضرور اب ہماری باری ہے۔ میں نے کہا: ’’کیوں؟ کیا وجہ بنی؟ میں نے ایسا کیا کیا ہے کہ مجھے گرفتار کیا جائے۔‘‘

شاہین، شاہین! ہم نے اسے پکڑ لیا

اسی سال سردیوں کی ایک رات کے آخری پہر دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نیند سے بیدار ہوا اور معمول کے مطابق خود دروازہ کھولنے گیا۔ فجر میں ایک گھنٹہ باقی تھا اور گھر کے افراد گھر کے داخلی حصے میں سو رہے تھے۔ میں نے دروزہ کھولا تو  دیکھا کہ چند جوان بندوقیں اور پستول لیے کھڑے ہیں۔ اچانک میرے ذہن میں آیا کہ یہ اسلام مخالف گروہ کے لوگ ہیں اور میرا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ سید بہشتی مجھے بتا چکے تھے کہ یہ گروہ اسلامی رہنماؤں پر قاتلانہ حملے کرتا ہے لہٰذا آپ محتاط رہیں۔ اسی گروہ کے لوگوں نے کرمانشاہ میں سید موسوی قہدریجانی کے گھر رات کی تاریکی میں حملہ کیا اور ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے۔ وہ ان کے قتل کا ارادہ رکھتے تھے لیکن اچانک کسی حادثے کی وجہ سے سید موسوی بھاگ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگئے۔ جونہی میرے ذہن میں یہ خیال آیا میں نے فوراً دروازہ بند کر دیا۔ انہوں نے کوشش کی کہ مجھے دروازے بند نہ کرنے دیں لیکن موت کے خوف نے مجھے قوت دی اور میں ان سب پر غالب آگیا۔ میں نے دروازہ بند کر دیا۔ پھر میرے ذہن میں خیال آیا کہ ممکن ہے یہ لوگ دیوار پھلانگیں یا کسی اور طرف سے داخل ہونے کی کوشش کریں۔ اچانک انہوں نے اپنے اسلحوں کے ساتھ دروازے پر زور زور سے مارنا شروع کیا۔ دروازے میں لگا بڑا شیشہ ٹوٹ گیا۔ میں جان خلاصی کا کوئی طریقہ تلاش کر رہا تھا کہ اتنے میں ان میں سے ایک چلاّیا: ’’قانون تم سے کہہ رہا ہے دروازہ کھولو۔‘‘ میں ان کی بات سے جان گیا کہ وہ ساواک والے ہیں۔ خدا کا شکر بجا لایا کہ وہ اسلام مخالف گروہ کے لوگ نہیں تھے جیسا کہ میں سمجھ رہا تھا۔ میں دروازے کی طرف بڑھا اور جوں ہی میں نے دروازہ کھولا چھ اہلکاروں نے مجھ پر حملہ کر دیا اور نہایت بے رحمی اور سنگدلی سے مجھے مارنے لگے۔ اسی ہنگامے میں مصطفیٰ جاگ گیا۔ اس کی عمر اس وقت ۱۲ سال تھی۔ وہ شیشے کے پیچھے سے اپنے باپ پر ہونے والے تشدد کو دیکھ رہا اور چلاّ رہا تھا۔ ساواکی مجھے مسلسل مکّوں اور لاتوں سے مارتے رہے۔ وہ خاص طور پر اپنے بوٹوں کی نوک میری ٹانگ پر مار رہے تھے۔ پھر انہوں نے میرے ہاتھ باندھے اور مجھے حکم دیا کہ میں ان کے آگے چلوں اور انہیں گھر کے اندر لے جاؤں۔ میں نے ان سے کہا: ’’میرے بیوی بچوں کے سامنے مجھے ہتھکڑی نہ لگاؤ، یہ مناسب نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے ہتھکڑی کھول دی۔ میں گھر کے اندر داخل ہوا تو زوجہ کو پریشان اور چاروں بچوں کو ان کے گرد پایا جن میں سے کچھ سو رہے تھے اور کچھ جاگ گئے تھے۔سب سے چھوٹا میثم تھا جس کی عمر اس وقت دو ماہ تھی۔ میں نے بیوی بچوں سے کہا: ’’پریشانی کی کوئی بات نہیں، مہمان ہیں۔‘‘

ساواکیوں نے پورے گھر، یہاں تک کہ باورچی خانہ اور بیت الخلا کی بھی تلاشی لی۔ میری زوجہ نے ایک بہت زبردست کام کیا۔ وہ میرے مہمانوں والے کمرے میں داخل ہوئیں جس کے دو دروازے تھے۔ ایک دروازہ لائبریری میں کھلتا تھا اور دوسرا داخلی صحن میں۔ انہوں نے اس کمرے میں موجود خفیہ دستاویزات جمع کیں اور قالین کے نیچے چھپا دیں۔ یہ دستاویزات ساواک والوں سے محفوظ رہیں۔ مجھے نہیں معلوم میری زوجہ کو ان خفیہ دستاویزات کی کمرے میں موجودگی کا کیسے علم ہوا؟ اسی طرح میں نہیں جانتا کہ وہ ساواک والوں سے چھپ کر کیسے کمرے میں داخل ہوئیں؟ یہاں تک کہ مجھے بھی ان کے اس کام کی خبر نہیں ہوئی۔ انہوں نے بعد میں مجھے ساری روداد سنائی۔ ساواک والے لائبریری میں داخل ہوئے اور مکمل تلاشی لی۔ وہ میری بہت سی کتابیں، ڈائریاں اور کاغذات لے گئے جو آج تک نہیں ملے۔

انہوں نے ایک گھنٹہ یا اس سے کچھ زیادہ وقت گھر کے تمام حصوں کی تلاشی لی، یہاں تک کہ نمازِ فجر کا وقت آن پہنچا۔ میں نے کہا کہ میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں۔ ایک اہکار میرے ساتھ وضو خانے تک آیا۔ میں نے وضو کیا اور لائبریری میں جا کر نماز پڑھی۔ ان میں سے ایک اہلکار نے نماز پڑھی جبکہ باقی نماز پڑھے بغیر تلاشی لیتے رہے۔ انہوں نے گھر کا کوئی کونہ نہیں چھوڑا جس کی تلاشی نہ لی ہو۔ میں نے شاید زوجہ سے کچھ کھانا مانگا۔ پھر میں نے ان سے کہا کہ مجتبیٰ اور مسعود کو جگا دیں تاکہ ان سے الوداع کر لوں۔ وہ دونوں ایک مرتبہ جاگنے کے بعد دوبارہ سو چکے تھے۔ جب میں الوداع کر رہا تھا تو بچوں سے کہا گیا کہ آپ کے والد سفر پر جا رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ جھوٹ بولنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں نے بچوں کو حقیقت سے آگاہ کیا۔

جب میں گھر سے نکلا تو دیکھا کہ ساواکیوں کی ایک بڑی تعداد گھر کا محاصرے کیے ہوئے ہے۔ وہ ’’جیپ‘‘ کو ہمارے گھر والی تنگ گلی میں لے آئے۔ انہوں نے میری آنکھوں پر پٹی باندھے بغیر مجھے گاڑی میں بٹھایا۔ ایک اہلکار وائرلیس پر کہہ رہا تھا: ’’شاہین۔ شاہین۔ شاہین۔ پکڑ لیا۔ پکڑ لیا۔‘‘

یہ انقلاب کی کامیابی سے صرف ایک سال پہلے کی بات ہے۔

زندان کی بجائے شہر بدری

وہ مجھے مشہد میں واقع ساواک کے دفتر لے گئے اور ایک تہہ خانے میں بند کر دیا۔ اس تہہ خانے میں تنگ رستے تھے اور دونوں جانب کوٹھڑیاں تھیں۔ میں وہاں چند گھنٹے رہا۔ اس دوران میں نے قرآن سے استخارہ کیا تو خوشخبری والی آیت نکلی۔ میں نے جلدی سے اسے قرآن کی جلد پر لکھ لیا۔ وہ میرے لیے کھانا لائے اور جب میں کھانا کھا چکا تو مجھے گاڑی میں بٹھا کر شہر کے باہر کی طرف رخ کر لیا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ لوگ کیا کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس مرتبہ ساری چیزیں پہلے سے مختلف تھیں۔ گاڑی عام طور پر استعمال ہونے والی، آنکھوں پر پٹی باندھے بغیر اور شہر سے باہر کی طرف رخ۔

گاڑی شہر کی حدود پر موجود چھوٹی سی چھاؤنی کے پاس رکی تو مجھے پتا چلا کہ یہ لوگ مجھے قید رکھنے کی بجائے شہر بدر کرنا چاہتے ہیں۔ میں وہاں پانچ دن رہا جس دوران اہل وعیال اور دوست کئی مرتبہ مجھ سے ملنے آئے۔ اس چھاؤنی میں فوجی جیل بھی تھی لیکن مجھے اس میں نہیں لے جایا گیا بلکہ مجھے نگہبانوں کے سربراہ کے کمرے میں رکھا گیا۔ یہ سربراہ عہدے کے لحاظ سے کرنل تھا۔ وہ شریف اور اعلی شخصیت کا مالک تھا۔ اس کا میرے ساتھ جیل افسر اور قیدی والا تعلق نہیں تھا۔ وہاں مجھے کچھ آزادی حاصل تھی۔ میں صبح سویرے اپنے کمرے سے نکل کر کھلی فضا میں ورزش کرتا تھا۔

جناب سید میرے لیے استخارہ کریں

خبر دی گئی کہ مجھے ایرانشہر کی طرف شہر بدر کیا گیا ہے۔ مجھے اس خبر سے بڑی خوشی ہوئی کیونکہ میں جانتا تھا کہ میرے دوست شیخ محمد جواد حجتی کرمانی بھی وہیں شہر بدر ہیں۔ روانگی کے دن اہل و عیال اور دوست احباب مجھے الوداع کرنےآئے۔ یہ لمحات پریشان کن نہیں تھے چونکہ شہر بدری، جیل کی سختیوں کی نسبت بہت آسان تھی۔ ہم بس اڈے سے زاہدان جانے والی بس پر بیٹھے تاکہ وہاں سے ایرانشہر جائیں۔ اس سفر میں میرے ہمراہ تین لوگ تھے: ایک افسر اور دو اہلکار۔ گاڑی گنا آباد میں نماز اور کھانے کے لیے رکی۔ یہاں بتاتا چلوں کہ گنا باد کے لوگ کئی دفعہ میرے یہاں آنے کی وجہ سے مجھے پہچانتے تھے کیونکہ میرے کئی شاگرد جیسے شیخ فرزانہ، شہید کامیاب اور صادقی گنا آبادی وغیرہ یہاں کے رہنے والے تھے۔ میرا شاگردوں سے تعلق عام طور پر دوسرے اساتید کی نسبت زیادہ ہوتا ہے لہٰذا مذکورہ طالب علموں کے ساتھ میرا گہرا جذباتی تعلق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ان شاگردوں کی شادیوں کی تقریبات میں بھی شرکت کی تھی جس کی وجہ سے میں اس شہر والوں کو جانتا تھا اور وہ بھی مجھے جانتے تھے۔ جب ہم گاڑی سے اترے تو ایک جوان میرے پاس آیا اور اس نے کہا: ’’جناب سید! میرے لیے استخارہ کریں۔‘‘ (یہاں لوگ عموما اپنے کاموں کے لیے علماء سے استخارہ کرواتے ہیں۔) پولیس اہلکار نزدیک سے میری نگرانی کر رہے تھے۔ جب میں استخارہ کرنے لگا تو اس جوان نے سرگوشی کی: ’’میں استخارہ کے لیے نہیں آیا بلکہ اس طرح پولیس کی نگرانی میں آپ کے یہاں آنے کا سبب جاننا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے اس سے کہا: ’’کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟‘‘ اس نے کہا: ’’جی ہاں۔‘‘ پھر میں نے اسے اپنی منزل کا بتایا اور اس سے کہا کہ وہ دوسرے برادران کو میری ایرانشہر کی طرف شہر بدری کی خبر دے دے۔

ہم اگلے دن فجر کے وقت زاہدان پہنچے۔ مسجد گئے، نماز پڑھی، ناشتہ کیا اور تقریباً ایک گھنٹہ وہاں قیام کیا۔ اس کے بعد ہم دوسری بس پر سوار ہوئے اور ایرانشہر کی طرف نکل پڑے۔ پہلے وہ مجھے گورنر کے دفتر لے گئے پھر وہاں سے پولیس اسٹیشن بھیج دیا گیا۔ پولیس اسٹیشن میں انہوں نے میری فائل بنائی۔ انہوں نے مجھے سے عہد لیا کہ میں شہر نہیں چھوڑوں گا اور روزانہ پولیس اسٹیشن میں حاضری دوں گا۔

خدا کے ساتھ خلوت

میں اکیلا مسجد کی تلاش میں نکلا۔ کسی نے میری آل الرسول. مسجد کی طرف رہنمائی کی۔ مجھے پتا چلا کہ یہ اس شہر میں شیعوں کی واحد مسجد ہے جبکہ اہل سنت برادران کی یہاں متعدد مساجد ہیں۔ مسجد آل الرسول. بہت ہی خوبصورت اور دلکش تھی جس میں قیمتی اور نفیس قالین بچھے ہوئے تھے۔ صحن میں  بلند و بالا  درختوں کے ساتھ میٹھا پانی جاری تھا۔ یہ پانی مٹھاس میں تہران کے پانی سے کم نہیں تھا جو ایران میں اپنی مٹھاس کی وجہ سے مشہور ہے۔ میں نے مسرت اور خوشی محسوس کی۔ شہر میں موسم گرم، خوشگوار اور میری طبیعت کے ساتھ سازگار تھا جو موسم سرما کی سخت سردی برداشت نہیں کر سکتی۔ منظر دلکش تھا۔ میں نے اپنی عبا قبا اتاری، انہیں ایک کونے میں رکھا، وضو کیا اور نماز کے لیے تیار ہو گیا۔ میں نے خدا کے ساتھ خلوت میں راز و نیاز کیا جس کی لذت اب بھی محسوس کرتا ہوں۔ میں اس وقت اپنے اہل و عیال، بچوں اور دوستوں سے دور اپنے پورے وجود کے ساتھ  خدا کی طرف متوجہ تھا۔ اس احساس کی لذت سے بڑھ کر کوئی لذت قابل تصور نہیں۔

میں اپنا بیگ اٹھائے مسجد سے باہر نکلا تو میں نے دیکھا لوگ میری طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہ جان چکے تھے کہ میں ان کے شہر کی طرف شہر بدر کیا گیا ہوں۔ یہ شہر اس حوالے سے مشہور تھا کہ سیاسی لوگوں کو اس کی طرف شہر بدر کیا جاتا ہے۔ میں شہر کی مرکزی شاہراہ کی طرف  چلا گیا۔ میرے پاس رؤوفی نامی ایک مومن کا پتا تھا۔ مجھے اس کی دکان کی طرف رہنمائی کی گئی جسے میں نے بند پایا۔ میں کچھ گھوم پھر کر واپس لوٹا تب بھی اس کی دکان بند تھی۔ کچھ دیر وہیں رک کر دکان کے شیشے سے اندر دیکھنے لگا۔ پھر جب میں دکان کے سامنے سے ہٹا تو دیکھا کہ ایک گاڑی میرے سامنے آکر رکی جس میں دو لوگ سوار تھے۔ ایک نے مجھ سے پوچھا:’’آپ کس سے ملنا  چاہتے ہیں؟‘‘ میں نے کہا: ’’رؤوفی صاحب سے۔‘‘ اس نے کہا: ’’آپ رؤوفی کو جانتے ہیں؟‘‘ میں نے کہا: ’’نہیں، لیکن مجھے فلاں شخص نے ان کی طرف بھیجا ہے۔‘‘ وہ گاڑی سے اترا اور کہا: ’’میں رؤوفی ہوں اور یہ میرے بھائی ہیں۔‘‘ ہم آپس میں گلے ملے اور میں گاڑی میں سوار ہوا۔ مغرب کی نماز کا وقت قریب تھا۔ہم نے فاطمیہ کا رخ کیا جو ذکر و نماز کی جگہ تھی اور اس کا نام جناب زہراء/ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ میں نے وہاں مغرب کی نماز پڑھی۔ چونکہ میں بہت تھکن محسوس کر رہا تھا لہٰذا میں نے ان سے کہا: ’’میں آرام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ انہوں نے مجھ سے کہا: ’’آپ چاہیں تو یہیں آرام کریں اور چاہیں تو ہمارے ساتھ گھر چلیں۔‘‘ میں نے اسی جگہ آرام کرنے کو ترجیح دی۔ کچھ دیر بعد بیدار ہوا تو ابھی تک نیند کا غلبہ تھا۔ میں نے کچھ اجنبی چہرے دیکھے۔ وہ لوگ فاطمیہ میں محرم کی مناسبت سے جمع ہوئے تھے، پھر شیخ حجتی کرمانی کو دیکھا اور ہم اکٹھے روؤفی کے گھر چلے گئے۔

دوستوں سے ملاقات

ہم تین یا چار دن رؤوفی کے گھر رہے، پھر میں نے اور شیخ حجتی کرمانی نے رؤوفی کے اصرار کے باوجود ایک اور گھر منتقل ہونے کا ارادہ کر لیا۔ ہم نے ایک گھر ڈھونڈا، ہم اس میں منتقل ہونے کی تیاری کر رہے تھے کہ اتنے میں زاہدان سے ایک ۲۰ رکنی وفد ہمیں ملنے آ گیا۔ زاہدن کے مشہور عالم دین شیخ معین الغرباء وفد کی سربراہی کر رہے تھے۔ جب ہم نے انہیں بتایا کہ ہم دوسرے گھر منتقل ہو رہے ہیں تو انہوں نے ہمارے ساتھ اس گھر کی صفائی میں حصہ لیا۔ ہم نے اس گھر میں چند ماہ قیام کیا اور اس کے بعد ایک بہتر گھر میں منتقل ہو گئے۔

معین الغرباء دوسری شخصیت تھی جنہوں نے شہر بدری میں ہم سے ملاقات کی۔ ان سے پہلے کریم پور ہماری ملاقات کو آچکے تھے۔ جب ہم رؤوفی کے گھر تھے، کریم پور آدھی رات کے وقت ہم سے ملنے آئے۔ جوں ہی انہوں نے دروازے پر دستک دی، مجھے ایک خاص کیفیت کا احساس ہوا۔ مشہد میں رات کے وقت ساواک کے حملے کے بعد جب کبھی رات کے وقت دروازے پر دستک ہوتی مجھے خوف کی مانند ایک کیفیت کا احساس ہوتا۔ رؤوفی گھر پر نہیں تھے لہذا شیخ حجتی گئے اور دروازہ کھولا۔ انہوں نے ایک مطمئن اور پرکشش جوان کو دیکھا۔ ہم پہچان گئے کہ یہ رؤوفی کے رشتہ دار ہیں۔ وہ قیدیوں اور شہر بدر ہونے والے افراد کے ساتھ بہت مہربانی کے ساتھ پیش آتے تھے اور راہِ خدا میں بلند ہمتی سے کام کرتے تھے۔ انہوں نے تحریکِ اسلامی کے کاموں کو آگے بڑھانے کے حوالے سے ہمارے سامنے ایک پورا منصوبہ پیش کیا۔ وہ ایران عراق جنگ کے دوران شہید ہو گئے۔

حاج علی شَمَقْدری وہ پہلے شخص تھے جو مشہد سے مجھ سے ملنے آئے۔ وہ میرے خاص شاگردوں میں سے تھے۔ میرے ان شاگردوں کا امتیاز یہ تھا کہ اگرچہ وہ رائج معنی کے مطابق عام  لوگوں میں سے تھے لیکن در حقیقت وہ بلند اسلامی ثقافت کے حامل تھے۔ یہ جوان اسلام کے متعلق ایسی معلومات رکھتے تھے کہ شاید بہت سے اہلِ علم بھی ان سے نابلد ہوں۔ ان کے نفوس انقلاب اسلامی کے مفاہیم سے سرشار تھے لہذا پورے وجود کے ساتھ اسلام کے مطابق زندگی گزارتے تھے۔

حاجی علی مشہد میں میری تمام مجالس کو پورے اہتمام اور دقت سے سنتے تھے اور گہرے اسلامی مفاہیم سے متعلق اہم نکات لکھ لیتے تھے۔ میں جب اپنے پہلے گھر میں منتقل ہوا تو وہ دوسرے دن ہی اپنے بچوں اور بھائیوں کے ساتھ مجھ سے ملنے آئے۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ان کا بھائی اور بیٹا دین کا دفاع کرتے ہوئے راہِ خدا میں شہید ہو گئے۔

شہر بدری کے دوران جب ہم دوسرے گھر میں تھے تو شیخ صدوقی، شیخ راشد اور کچھ دوسرے علماء نے ہم سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات نوروز سے کچھ دن پہلے انجام پائی۔ پھر یہ لوگ چابہار چلے گئے جہاں شیخ ناصر مکارم شیرازی شہر بدر تھے۔ واپسی پر بھی وہ لوگ میرے اور شیخ حجتی کے ساتھ شدید لگاؤ کی وجہ سے ایک رات ہمارے پاس ٹھہرے۔ شیخ راشد یزدی خوشگوار تعلقات بنانے، حاضر دماغی اور شوخ مزاجی میں مشہور تھے۔ علم و ادب کے باوجود ان کے لبوں پر ہمیشہ مسکراہٹ ہوتی تھی اور زبان پر ہمیشہ مزاح۔ میں ان سےآشنا  ہوتے ہی مانوس ہو گیا، وہ بھی  مجھ سے مانوس ہوئے اور مجھے پسند کرنے لگے۔ وہ یزد کی طرف جاتے ہوئے بار بار کہہ رہے تھے: ’’میری شدید خواہش ہے کہ میں ایرانشہر کی طرف شہر بدر ہو جاؤں تاکہ سید خامنہ ای کے ساتھ رہ سکوں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ برادران کے واپس جانے کے تقریبا ً دو ہفتے بعد ایک پولیس اہلکار میرے پاس آیا۔ اس نے مجھے ایک ورق تھمایا جس میں شیخ راشد نے اپنے دستخط کے ساتھ یہ لکھا تھا کہ وہ اس وقت پولیس اسٹیشن میں ہیں۔ میں فورا پولیس اسٹیشن کی طرف گیا تو دیکھا کہ شیخ راشد آٹھ پولیس اہلکاروں کے حصار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ شیخ انہیں لطیفے سنا رہے تھے اور وہ لوگ ہنسی سے بے حال تھے۔ میں نے شیخ سے ان کے آنے کا سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا: ’’یزد میں 30 مارچ 1978؁ء کو شہداء تبریز کے ایصال ثواب کی مجلس منعقد ہوئی۔ میں نے اس مجلس میں تقریر کی جس کی وجہ سے مجھے گرفتار کر کے ایک ایمبولینس کے ذریعے سیدھا ایرانشہر لے آئے ہیں۔‘‘ میں انہیں اپنے گھر لے گیا۔ بعد میں ہم اکٹھے اس شہر میں اسلامی تحریک کی سرگرمیاں انجام دیتے رہے۔

مجھے یاد ہے کہ نوروز کے ابتدائی ایام میں (شیخ راشد کےآنے سے پہلے) شیخ حجتی کو ایرانشہر سے سنندج کی طرف شہر بدر کیا گیا جہاں کا موسم ٹھنڈا اور خوشگوار تھا۔ وہ سنندج سے مجھے خط بھیجتے اور کہتے: مجھ پر یہاں کا خوشگوار موسم حرام ہے جبکہ آپ لوگ ایرانشہر کی گرمی میں رہ رہے ہیں۔

بہار کا آغاز ہوتے ہی اس شہر کی گرمی میں اضافہ ہوا۔ میرے اہل و عیال ان ہی دنوں مجھ سے ملنےآئے۔ میرا چھوٹا بیٹا میثم اس وقت چھ ماہ کا تھا۔ گرمی کی وجہ سے اہل و عیال کے لیے میرے ساتھ ایرانشہر میں رہنا ممکن نہیں تھا۔ موسم گرما کےآغاز سے ہی درجہ حرارت 53 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا تھا۔ نہ ہی گھر کو ٹھنڈا رکھنے کے وسائل میسر تھے اور نہ ہی گھر میں آرام کرنے کے۔ اہل وعیال میں چھوٹے بچے بھی تھے لہٰذا وہ یہاں دو ہفتے گزارنے کے بعد مشہد واپس چلے گئے۔

اہل سنت کے ساتھ تعارف اور باہمی تعامل

شروع میں شہر والوں کے ساتھ ہمارا کسی قسم کا کوئی تعلق اور تعامل نہیں تھا۔ ہم رؤوفی، ان کے بھائی اور چند دوسرے افراد کے ساتھ بیٹھتے اور ایک مختصر سی نشست کا انعقاد کرتے جس میں مختلف علمی موضوعات پر گفتگو ہوتی اور کبھی کبھار زاہدان، مشہد اور قم سے بھی کچھ لوگ ہمیں ملنے آجاتے۔ پھر میں نے لوگوں کے ساتھ اور خصوصاً جوانوں کے ساتھ رابطہ شروع کر دیا۔

سب سے پہلے ایرانشہر کے جس جوان سے میری آشنائی ہوئی اس کا نام آتش دست تھا۔ اس کا والد شہر کے چھوٹے تاجروں میں سے تھا۔ یہ جوان اس وقت مڈل سکول کا طالب علم تھا اور اس کی عمر 16 سال کے لگ بھگ تھی۔ میں اس کے ذریعے دوسرے جوانوں سے آشنا ہوا۔ ہم نے ان کے ساتھ نشستوں کا اہتمام کیا جن کا سلسلہ میرے ایرانشہر سے نکلنے تک جاری رہا۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ آتش دست نے اپنی پڑھائی جاری رکھی اور بعد میں یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ وہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایک دفعہ اپنے گھر والوں اور اپنی منگیتر کے ساتھ میرے پاس آیا اور میں نے اس کا نکاح پڑھا۔ بعد میں اس نے ایران عراق جنگ میں شرکت کی اور شہید ہو گیا۔ (خدا اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔) اس کے والد کا ابھی تک میرے پاس آنا جانا رہتا ہے۔

چونکہ شہر کے اندر مجھے کسی بھی کام کی اجازت نہیں تھی لہٰذا میں نے کوشش کی کہ اپنے کام کا دائرہ کار شہر سے باہر پھیلاؤں۔ بزمان شہر (جو ایرانشہر سے 100 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے) کے لوگوں میں اس حوالے سے میں نے آمادگی پائی۔ ہم شیخ حجتی کے ساتھ ایک دوست کی گاڑی میں بزمان گئے۔ پھر ہر ہفتے یا ہر دوسرے ہفتے ہم وہاں جانے لگے۔ میں وہاں نماز جماعت کی امامت اور مختصر تقریر کرتا تھا۔ پھر مقامی ادارے حساس ہو گئے اور انہوں نے گاڑی کے ڈرائیور پر دباؤ ڈالا۔ ہمیں ڈرائیور نے اس بات کی خبر نہ دی لیکن ہم جان گئے کہ وہ مشکل میں گرفتار ہے لہذا ہم نے بزمان جانا چھوڑ دیا۔ ایرانشہر میں میری ترجیحات میں سر فہرست مسجد آل الرسول. کو آباد کرنا تھا۔ یہ مسجد ویران تھی اور مشکل یہ تھی کہ اس کا بانی خود ایرانشہر میں نہیں رہتا تھا بلکہ وہ ہر سال محرم کے پہلے عشرے میں آتا، مجلس امام حسین, کا انعقاد کرتا اور چلا جاتا تھا جبکہ مسجد کسی قابلِ ذکر استفادے کے بغیر ایسے ہی پڑی رہتی تھی۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایرانشہر میں فرقہ بندی کی وجہ سے سنیوں کی مساجد، شیعوں کی مساجد سے الگ تھیں۔ اہل سنت کی کچھ چھوٹی مساجد تھیں جن میں سے ہر ایک میں چند نمازی ہوتے تھے اور شیعوں کی ایک ہی مسجد تھی (مسجد آل الرسول.) جو پورا سال بند رہتی تھی۔ میں نے مسجد کو آباد کرنے کی تجویز دی تو بہت سارے لوگوں نے میری تائید کی۔ شیخ راشد کی مدد سے میں نے اس مسجد میں نماز پڑھانا شروع کی۔ میں نماز کے بعد 10 سے 15 منٹ تک لوگوں سے خطاب کرتا تھا۔ نماز اور مختصر گفتگو لاوڈ سپیکر پر نشر کی جاتی تھی جو وہاں کے مقامی لوگوں خاص کر شیعوں میں، دینی روح زندہ کرنے میں بہت موثر تھی۔ اسی طرح اہل سنت کے دین دار لوگوں پر بھی اس کا مثبت اثر تھا چونکہ وہ لوگ دیکھ رہے تھے کہ ہم نماز میں پابند ہیں اور فصیح قرائت کے ساتھ نماز میں مختلف قرآنی سورتوں کی تلاوت کرتے ہیں۔ پھر میں نے مؤمنین کو نماز جمعہ شروع کرنے کی تجویز دی اور اس طرح مسجد میں نماز جمعہ بھی شروع ہو گئی۔ اس میں لوگوں کی شرکت بہت اچھی تھی اور یہ ایرانشہر کا سب سے بڑا جمعہ شمار ہوتا تھا۔ شیخ راشد اس نماز کو خصوصی اہمیت دینے کی خاطر خود اذان کہتے تھے۔

آہستہ آہستہ ہمارے علمائے اہل سنت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہو گئے اور میں کسی ایسے مشترکہ عملی قدم کے بارے میں سوچنے لگا جس کے ذریعے شیعہ اور اہل سنت عوام کے درمیان موجود دوریاں کم کی جا سکیں۔ میں نے اپنی گفتگو کاآغاز ایرانشہر کے ایک اہل سنت عالم مولوی قمر الدین کے ساتھ کیا جو مسجد النور کے امام تھے۔ میں نے ان سے کہا: ’’ہماری دینی ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام کے مستقبل، اسے درپیش خطرات اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے بارے مل کر سوچیں۔ تمام تر مسلکی اختلافات کے باوجود مسلمانوں پر اسلام کے مستقبل کے حوالے سے بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں لیکن اگر ہم ماضی کی بحثوں میں پڑے رہے اور پرانی کتابوں سے اختلافی باتیں ڈھونڈتے رہے تو یہ صرف نفرتوں میں اضافے اور جذبات کو ابھارنے کا باعث بنے گا۔ یہ کام اسلام کی مصلحت میں ہے اور نہ ہی مسلمانوں کی۔‘‘ میں نے ان سے مزید کہا: ’’اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ماضی سے اپنا تعلق ختم کر لیں کیونکہ ہمارا فکری اور عقائدی وجود اسی ماضی سے جڑا ہوا ہے۔ ہاں، ہمارا باہمی تعاون اسلام کے روشن مستقبل کی خاطر ہونا چاہیے۔‘‘ میں برادرانِ اہل سنت کے جتنے علماء سے ملا، سب کے ساتھ میری گفتگو کا محور حقیقت میں یہی نکتہ تھا اور مخلص علماء کی طرف سے اس حوالے سے ہمیشہ مثبت رد عمل پایا۔

عید میلاد النبیﷺ نقطہ اتحاد

میں نے اسی فکر کو آگے بڑھتے ہوئے ایک مختصر سا عملی منصوبہ تیار کیا جس کے مطابق ہم نے 12 سے 17 ربیع الاول کے درمیان ایک مشترکہ جشن کا انعقاد کرنا تھا (کیونکہ اہل سنت کی روایات کے مطابق آپ3 کی ولادت 12 جبکہ اہل تشیع کے مطابق 17 ربیع الاول ہے۔) ہم نے اس محفل کے انعقاد پر اتفاق کر لیا۔

جشن کے لیے مسجد آل الرسولﷺ کو سجایا گیا۔ یہ شدید گرمی کے دن تھے۔ ایران شہر میں گرمیوں کی دھوپ میں درجہ حرارت 63 ڈگری تک جبکہ سائے میں درجہ حرارت 54 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ اس گرمی میں ظہر کے وقت بیت الخلا جانا مشکل ترین کاموں میں سے ایک تھا کیونکہ یہ گھر کے صحن میں 20 میٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ سورج کی حرارت گویا چہرے اور جلد کو جلا رہی ہوتی تھی۔ دن بھر موسم ایسے ہی رہتا تھا۔ رات کے 10 بجے موسم قدرے بہتر ہونا شروع ہوتا تھا جو رات گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید بہتر ہو جاتا تھا۔ اس کے باوجود زمین ویسے ہی گرم رہتی اور اس پر چٹائی بچھانے کے باوجودآرام سے بیٹھنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔

لیکن جشن والے دن عصر کے وقت موسم بالکل مختلف تھا۔ آسمان پر بادل نمودار ہوئے جن کی وجہ سے درجہ حرارت میں کمی آئی۔ پھر غیر معمولی ہوا چلنے لگی جس کے بعد ہلکی پھلکی بوندا باندی شروع ہوگئی۔ ہمیں امید تھی کہ جشن کی رات بہت ہی خوشگوار ہوگی۔

عید میلاد النبی3 اور جشن کا دن اپنے ساتھ خوشگوار موسم اور باران رحمت لے کر آیا۔ لوگ گروہ در گروہ گھروں سے نکلے تاکہ وہ موسم سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مسجدآل الرسول. کا رخ کریں جو نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔ مسجد کے علاوہ اس کے اطراف میں موجود کمرے بھی لوگوں سے بھر گئے۔ میں نے مغرب کی نماز پڑھانا شروع کی تو دوسری رکعت میں ایک عجیب سی آواز سنی گویا ایک ریڑھی ہو جو کھجور کی شاخوں کو گھسیٹ رہی ہو اور ان شاخوں کے سرے زمین پر لگ رہے ہوں لیکن یہ آواز بند نہ ہوئی۔ اگر کسی ریڑھی کی آواز ہوتی تو اس کے گزرنے کے بعد ختم ہو جاتی۔ کچھ دیر بعد میں نے پانی کی موجوں کی آواز سنی تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہ سیلاب ہے۔

سیلاب اور خاکِ شفا

نماز کے بعد ہم نے دیکھا کہ سیلاب نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ پانی اتنا اوپر آیا کہ مسجد کے ہال میں داخل ہو گیا جو زمین سے آدھا میٹر بلند تھا۔ میں نے بلند آواز میں لوگوں سے کہا کہ سیلاب کے مقابلے میں حفاظتی اقدمات اپنائیں۔ میں نے کہا کہ سب سے پہلے مسجد کے قالین لپیٹ کر ایک اونچی جگہ رکھ دیے جائیں تاکہ وہ خراب نا ہوں۔ پھر میں نے خواتین اور بچوں کو بچانے کے لیے ضروری تدابیر اپنانے کا کہا۔ سیلاب دو سے تین گھنٹے تک جاری رہا جس دوران ہم یکے بعد دیگرے گھروں کے گرنے کی آوازیں سنتے رہے یہاں تک کہ مجھے خوف لاحق ہوا کہ مسجد بھی گر جائے گی۔ ہر چیز خوفناک تھی، بجلی نہ ہونے کی وجہ سے تاریکی، ہر چیز بہا کر لے جانے والا سیلاب، گھروں کا گرنا اور لوگوں کی فریادیں۔ اس خوفناک اور مشکل گھڑی میں انسان کا ذہن   اس حالت سے نکلنے کے لیے کسی بھی وسیلے کی تلاش میں ہوتا ہے۔ میں نے ایک بات سن رکھی تھی کہ ایسی بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے امام حسین, کی تربت سے توسل کیا جائے۔ میں نے اپنی جیب سے خاک شفا کا ایک ٹکڑا نکالا (جسے خداوند عالم نے امام حسین, کی وجہ سے شرف بخشا ہوا ہے۔) اور خدا پر توکل کرتے ہوئے اسے موجیں مارتے ہوئے پانی میں پھینک دیا۔ کچھ ہی لمحات میں خدا کے فضل و کرم سے سیلاب رک گیا۔

سیلاب رکنے کے فوراً بعد میں نے متاثرین کی مدد کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ رات کے وقت امدادی کاروائیاں ممکن نہ تھیں لہٰذا صبح کا انتظار کیا گیا۔ میں گھر کی طرف گیا جو دو حصوں پر مشتمل تھا اور ان کے درمیان ایک مشترکہ دروازہ تھا۔ میں اور شیخ راشد ایک گھر میں جبکہ سید رحیمی اور سید موسوی دوسرے گھر میں رہتے تھے۔ (یہ دونوں بھی شیخ راشد کے بعد ایرانشہر کی طرف شہر بدر کیے گئے تھے۔ سید رحیمی انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اس وقت شہید کر دیے گئے جب آپ پارلیمنٹ کے رکن تھے۔) میں نے گھر کو محفوظ پایا۔ پانی اگرچہ گھر کے نزدیک پہنچ گیا تھا لیکن گھر میں داخل نہیں ہوا تھا۔

یہ خبر پھیل گئی کہ شہر بدر افراد کے گھر میں پانی داخل نہیں ہوا اور لوگ اسے ہماری کرامت سمجھنے لگے۔ لیکن میں نے وضاحت کرتے ہوئے لوگوں سے کہا کہ ہمارے گھر میں پانی اس لیے نہیں آیا چونکہ یہ اونچی جگہ پر واقع ہے۔ اس میں کرامت والی کوئی بات نہیں ہے۔

امدادی کاروائیوں کا مرکز

اگلی صبح میں سید رحیمی اور شیخ راشد کے ساتھ شہر کے نشیبی علاقوں کا جائزہ لینے گیا جہاں سیلاب کی وجہ سے گھروں کو نقصان پہنچا تھا۔ یہ وہی گھر تھے جو حادثے کی بڑی وجہ بنے۔ اس سے پہلے بھی ہر سال اس شہر میں بارشیں ہوتی تھیں اور بارشوں کا پانی اس نشیبی علاقے سے ہوتے ہوئے گزر جاتا تھا۔ اس طرح شہر صدیوں سے سیلاب سے محفوظ تھا۔ نشیبی علاقے میں کسی قسم کی عمارت بنانے پر پابندی تھی تاکہ اس وجہ سے پانی کا راستہ بند نہ ہو اور پانی شہر کی طرف نہ جائے۔ لیکن کچھ لوگ جو مفت زمین کی تلاش میں تھے انہوں نے اس نشیبی علاقے میں گھر بنا لیے۔ یہ کام ابھی تک کچھ لوگ بعض علاقوں میں انجام دیتے ہیں اگرچہ وہ نہیں جانتے کہ اس کام کی وجہ سے وہ نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ پورے شہر کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔

جب ہم اس نشیبی علاقے میں گئے تو ہم نے دیکھا کہ وہاں موجود گھر ملبے کا ڈھیر بن چکے تھے۔ ابھی ہم وہاں پہنچے ہی تھے کہ دور سے ایک بلوچی خاندان کو اپنی طرف آتے دیکھا جس میں بچے، خواتین اور مرد حضرات تھے۔ مرد کے ہاتھوں پر ایک بچہ سویا ہوا تھا جبکہ خواتین گریہ و زاری کر رہی تھیں۔ جب وہ ہمارے نزدیک پہنچے تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ بچہ فوت ہو چکا ہے۔ مجھے اس منظر نے گہرا صدمہ پہنچایا اور میں اونچی آواز میں رونے لگا۔

میں بچوں اور خواتین کی نسبت بہت حساس ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں کسی بچے یا خاتون کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔ میں نے کئی بار اپنے دوستوں سے کہا ہے کہ میں مرد اور عورت کے درمیان فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا کیونکہ  فیصلے کے وقت میری ہمدردی یقیناً خاتون کی طرف ہوگی۔ اسی طرح میں بچوں کو تکلیف میں دیکھنا برداشت نہیں کر سکتا چاہے وہ فلم کا کوئی منظر ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ تھی کہ میں سیلاب میں مرنے والے بچے کو دیکھ کر بہت غمگین ہوا اور بلند آواز سے رونے لگا۔ بچے کے اہل و عیال میرے گریے اور درد کو سمجھ گئے۔ شیخ راشد نے مجھ سے کہا: ’’بچے کے گھر والوں نے آپ کو ان سے بھی زیادہ تکلیف میں دیکھا تو وہ بہت حیران ہوئے۔‘‘ میرے رونے کی خبر بلوچوں کے درمیان پھیل گئی۔

جب ہم شہر کی طرف لوٹے تو امدادی کمیٹی نے ہمیں بتایا کہ شہر کے 80 فیصد گھر تباہ ہو چکے ہیں اور جو گھر سالم ہیں وہ پانی سے بھر چکے ہیں۔ ایران شہر کے اکثر گھر ایک منزلہ تھے۔

مجھے اچانک یاد آیا کہ شہر کے لوگوں نے کل دوپہر سے کھانا نہیں کھایا اور وہ یقینا بھوکے ہوں گے۔ تندور والوں نے سیلاب کی وجہ سے تندور بند کر دیئے تھے۔ پانی دکانوں اور گوداموں میں داخل ہو چکا تھا اور چند دنوں تک دکانوں کے کھلنے کا امکان نہ تھا لہٰذا شہر میں قحط کا خطرہ تھا۔ میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ ہمیں اس پیغام کو نشر کرنا ہوگا: ’’بھوکے شہر کو بچائیں‘‘ اور ہر ممکن طریقے سے کھانا مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں نے لوگوں کو سڑکوں پر سرگردان اور مبہوت حالت میں دیکھا جو سیلاب کی وجہ سے اپنی بھوک سے غافل تھے۔ میں نے راستے میں ایک چھوٹی سی دکان دیکھی جو زمین سے بلند ہونے کی وجہ سے سیلاب سے محفوظ تھی۔ دکاندار دروازے کے پاس کھڑا دائیں بائیں دیکھ رہا تھا اور اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ میں اس کے پاس گیا اور اس سے کہا: کیا تمہاری دکان میں کوئی ایسی چیز ہے جو لوگوں کی بھوک مٹا سکے؟ اس نے کہا صرف بسکٹ ہیں۔ میں نے کہا: جو کچھ ہے دے دو۔ میں نے اس کے پاس موجود بسکٹ کے تمام ڈبے خرید لیے جو بہت زیادہ نہ تھے، اور اسی جگہ متاثرہ لوگوں میں تقسیم کر دئیے۔ یہ وقتی طور پر تسکین کا باعث ضرور تھا لیکن مستقل حل نہیں تھا۔

میں ڈاک خانے گیا، شیخ کفعمی کو ٹیلی فون کیا اور انہیں حادثے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ (شیخ کفعمی صوبہ بلوچستان کے مشہور اور بڑے عالم دین ہیں۔) میں نے ان سے کہا کہ ہمیں روٹی اور کھجور کی ضرورت ہے، اسی طرح اگر ممکن ہو تو پنیر بھی۔ جتنا جلدی ہو سکے اور جتنی مقدار میں ممکن ہو یہ چیزیں بھیج دیں۔ میں نے مزید کہا کہ وہ یزد میں شیخ صدوقی سے رابطہ کریں اور اسی طرح مشہد اور تہران میں بھی رابطے کر کے سب کو بتائیں کہ ہمیں اشیائے خورد ونوش کی ضرورت ہے۔ میں نے کئی دفعہ بلند آواز سے کہا: ’’سب سے کہیں میں بڑی شدت سے روٹی اور کھجور کا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘

جب میں نے ٹیلی فون رکھا تو دیکھا بہت سارے لوگ میرے پیچھے کھڑے ہیں۔ وہ بڑی حیرت کے ساتھ دیکھ رہے تھے کہ میں کس قدر ان کو اہمیت دیتے ہوئے امداد اکٹھی کر رہا ہوں۔ اس دوران وہ ایک دوسرے کی طرف بھی حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ عام سی بات تھی کہ ایک گھنٹے سے بھی کم مدت میں میرے اس کام کی خبر پورے شہر میں پھیل جائے۔ لوگوں کی امیدیں میری کوششوں سے وابستہ ہو گئیں کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے علماء اور وہاں کے سرکاری افسران انہیں کسی قسم کی فوری مدد فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔علماء کے پاس تو کوئی اختیار نہیں تھا اور سرکاری افسران نہ انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے اور نہ کچھ کرنے کی سکت رکھتے تھے۔

میں مسجد آل الرسول. گیا اور اسے امدادی کاروائیوں کا مرکز قرار دیا۔ سب کی امیدیں مسجد سے وابستہ ہو گئیں۔ ابھی دو تین گھنٹے ہی گزرے ہوں گے کہ روٹی، کھجور، تربوز اور پنیر سے بھرا ایک بڑا ٹرک پہنچ گیا۔ ہم نے مسجد کے لاوڈ اسپیکر سے قرآن مجید کی تلاوت لگائی۔ پھر ہم نے اعلان کیا کہ امدادی کاروائیوں اور کھانے کی تقسیم کے لیے مسجد آل الرسول. کو مرکز قرار دیا گیا ہے۔ میں نے برادران سے کہا کہ جو بھی آپ کے پاس آئے اسے کھانا دیں اور اگر وہ کہے کہ یہ کھانا کم ہے تو اسے مزید دیں۔ اگر وہ دوبارہ کھانا لینے آئے تو بھی منع نہ کریں اور اسے یہ نہ کہیں کہ تم پہلے لے چکے ہو۔ اس طرح ہم لوگ زیادہ کھانے کی لالچ نہیں کریں گے۔ مجھے یقین تھا کہ دوسرے شہروں میں موجود برادران بھی ہماری مدد کریں گے۔ یوں ہم نے امدادی کاروائیوں کا آغاز کر دیا۔

میں نے بڑی دقت کے ساتھ برادران میں ذمہ داریاں تقسیم کیں جس کی وجہ سے ہمارا کام باقاعدہ ایک تنظیمی شکل میں ڈھل گیا۔ میں نے ان کاموں میں اپنے گزشتہ تجربات سے بھی استفادہ کیا۔ امدادی کاروائیاں 50 دن تک جاری رہیں۔ ہم اس دوران لوگوں سے ان کے گھروں، جھونپڑیوں اور خیموں میں جا کر ملے اور متاثرہ خاندانوں کے افراد کی تعداد معلوم کی۔ کبھی کبھار ہمیں بتائے جانے والی تعداد درست نہیں ہوتی تھی لیکن ہم ان پر اعتماد کرتے ہوئے اسے درست سمجھ لیتے تھے۔ اسی وجہ سے ہم لوگوں کے دلوں میں اتر چکے تھے۔

ہم نے اعدادو شمار کے مطابق کھانے کے کارڈ بنائے اور کھانے کی تقسیم شروع کی۔ ہر خاندان کارڈ کے مطابق اپنا حصہ لیتا تھا۔ ہم نے اس دوران ایک سادہ زندگی کے لیے ضروری چیزیں جیسے بلب، کمبل، برتن اور چٹائیاں فراہم کیں۔اس کے علاوہ کبھی کبھار اشیائے خورد ونوش بھی تقسیم کی جاتی تھیں۔ بعض نے جعلی کارڈ بنا کر ان پر میرے جعلی دستخط کیے ہوئے تھے۔ (میرے دستخط دیکھنے میں سادہ سے ہیں لیکن ان کی ایک علامت ہے جو صرف میں جانتا ہوں۔)میں اپنے جعلی دستخط پہچان گیا تھا لیکن اس چیز کا اظہار نہیں کیا۔

امدادی کاروائیوں کے دنوں میں شیخ حجتی سنندج سے ایرانشہر آئے۔ وہ اپنی دوسری شہر بدری کے دوران (سنندج میں) بیمار ہو گئے تھے۔ انہوں نے کرمان آنے کی اجازت مانگی اور انہیں اجازت مل گئی۔ وہاں سے وہ ہم سے ملنے ایرانشہر آئے۔ ان کا آنا بہترین موقع تھا لہٰذا ہم رات بھر بات چیت میں مصروف رہے۔ صبح میں نے انہیں اپنے ساتھ گاڑی میں شہر جانے اور وہاں امدادی کاروائیوں کا جائزہ لینے کی دعوت دی۔ میں نے انہیں اپنے ساتھ بٹھایا اور خود گاڑی چلائی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ عام لوگ مرد، خواتین اور بچے ہماری گاڑی دیکھ کر اپنے ہاتھ ہلاتے ہوئے ہمیں سلام  کر رہے ہیں تو وہ بہت حیران ہوئے۔ انہوں نے حیرت سے کہا کیا آپ کو یاد ہے شروع میں لوگ ہمیں سلام بھی نہیں کرتے تھے؟میں نے کہا: ’’جی ہاں یاد ہے۔ لوگوں کے دلوں میں انسان کا مقام اس وقت بنتا ہے جب وہ ان کی خوشی اور غم میں شریک ہوتا ہے۔‘‘

امداد کے 50 دن ختم ہونے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا حتی الامکان ازالہ کرنے کے بعد ہم نے ایک بڑی محفل منعقد کی جس میں، میں نے خطاب کیا۔ اس خطاب کی ریکارڈنگ اور محفل کی تصاویر ابھی تک موجود ہیں۔

شہر بدر افراد کی مقبولیت

رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی لوگوں کے ساتھ رابطے کا بہترین موقع فراہم ہوا۔ پولیس کا سربراہ ہماری اس مقبولیت سے بہت نالاں تھا اور اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ ہمارے ساتھ کیسا رویہ اپنائے۔ اس نے کئی مرتبہ ہماری نسبت اپنی باطنی خباثت ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ جب رمضان کا مہینہ آیا تو خوش قسمتی سے پولیس کا یہ سربراہ دو ہفتے کی چھٹی پر تھا۔ اس کی جگہ جو افسر آیا وہ ایک جوان، باشعور اور سمجھ دار انسان تھا جس کی گفتگو سے ہمدردی اور محبت جھلکتی تھی۔ ہماری پہلی ملاقات مسجد میں ہوئی۔ ظاہر سی بات ہے پولیس کے سربراہ کا مسجد میں آکر ہم سے ملنا ایک غیر معمولی امر تھا۔

میں دوسرے دو شہر بدر افراد کے ساتھ ایک رات سڑک پر پیدل چل رہا تھا۔ ایک گاڑی ہمارے پاس آکر رکی اور وہ جوان افسر نیچے اترا۔ اس نے مجھ سے اکیلے میں بات کرنا چاہی۔ وہ مجھے کوئی خفیہ بات بتانا چاہ رہا تھا۔ میں اپنے دونوں برادران سے الگ ہو کر اس کے ساتھ پیدل چلنے لگا۔ اس نے مجھے بتایا: ’’(ایرانشہر میں موجود) شہر بدر افراد کو تین شہروں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ ایک فرد کو جیرفت، دوسرے کو ایذہ اور تیسرے کو اقلید کی طرف بھیجا جائے گا۔ (ہمارے چوتھے ساتھی کو پہلے ہی رہا کیا جا چکا تھا۔) اس نے کہا کہ یہ خبر صرف شہر بدر افراد کے درمیان ہی رہنی چاہیے۔ میں نے برادران کو اس بات سے آگاہ کیا۔ یہ جوان افسر اس وقت ایرانشہر سے جانے والا تھا کیونکہ اصل افسر چھٹی سے واپس آچکا تھا۔ ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ ہمیں ایک دوسری جگہ شہر بدر ہونے کا حکم دے دیا گیا۔

رات کے وقت پولیس والے آئے اور سید رحیمی سے کہا کہ وہ شہر چھوڑ دیں۔ پھر انہوں نے مجھے کہا کہ تمہیں بھی دو گھنٹے بعد شہر چھوڑنا ہوگا۔ ہم نے صبح سفر کرنے کے لیے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ رات کے وقت ہی نکلنے پر اصرار کر رہے تھے۔ ہم نے اس راز کو بھانپ لیا کیونکہ جب ہم اس شہر میں آئے تھے تو بالکل اجنبی تھے اورآج جب ہم رات کے وقت یہاں سے نکل رہے ہیں تو حکومت ہمارے حامی مقامی لوگوں کے رد عمل سے خوفزدہ ہے۔

رحیمی اپنا بیگ باندھنے میں مصروف تھا جبکہ پولیس اہلکار اسے جلدی کرنے کا کہہ رہے تھے۔ جب رحیمی پر ان کا دباؤ بڑھا تو وہ پولیس اور ان کے سربراہ کے ساتھ غصے ہوا اور پرجوش انداز میں مختصر سا خطاب کیا جس کے کلمات ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ اس نے کہا: ’’اس عارضی اقتدار سے دھوکہ مت کھاؤ، یہ یقینا ً ختم ہو جائے گا اور اسلامی حکومت کا سورج طلوع  ہو گا۔‘‘ وہ جذباتی جملے بولتے گئے جنہیں ہم اس وقت نعروں سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ میں نے اس انقلابی جذبے کی وجہ سے، جسے میں بے جا سمجھ رہا تھا، شرمندگی محسوس کی۔

بہرحال وہ رحیمی کو لے گئے اور میری باری آگئی۔ میں نے ان سے کہا کہ میرے پاس اپنی گاڑی ہے اور میں اسی میں جاؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ پھر میں نہیں جاؤں گا، جو کر سکتے ہیں کر لو۔ پولیس کے سربراہ کے پاس میری بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ گاڑی میری ملکیت میں کیسے آئی تو یہ ایک دلچسپ کہانی ہے جسے میں اختصار کے ساتھ بیان کرنا چاہتا ہوں۔

پندرہواں باب

سختی کے بعد کامیابی

میری گاڑی

شہر بدری سے پہلے اسلامی تحریک سے مربوط کچھ کاموں کے سلسلے میں میرا تہران آنا جانا رہتا تھا۔ وہاں مجھے مسلسل سفر کرنا پڑتا تھا جس کے لیے گاڑی کا ہونا ضروری تھا۔ ہمارے ایک مخلص انقلابی دوست صادق اسلامی نے مجھے پیشکش کی کہ میں ان کے ایک عزیز حاج احمد قدیریان کی گاڑی تہران جاتے ہوئے اپنے استعمال میں رکھوں۔ میں نے یہ پیشکش قبول کر لی۔ صادق اسلامی، جمہوری اسلامی پارٹی کے دفتر میں منافقین کی طرف سے کیے جانے والے بم دھماکے([1]) میں شہید ہوئے۔ اس دھماکے میں تحریکِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے اہم ارکان اور انقلاب کی اہم شخصیات شہید ہوئیں جن میں سر فہرست سید محمد حسینی بہشتی تھے۔ حاج احمد قدیریان انقلاب سے پہلے تجارت کرتے تھے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد وہ اپنی تجارت اور دولت پس پشت ڈال کر انقلاب اور حکومت اسلامی کی خدمت میں مشغول ہوگئے۔

جب بھی میں تہران پہنچتا تو حاج قدیریان سے رابطہ کرتا۔ وہ خود یا ان کا بیٹا گاڑی لے کر آجاتے۔ گاڑی ایک یا دو ہفتے میرے استعمال میں رہتی۔ پھر جب میں تہران چھوڑنے لگتا تو گاڑی کو ریلوے اسٹیشن یا ائیرپورٹ کی پارکینگ میں چھوڑ جاتا۔ گاڑی کی چابی ٹائر کے پاس چھپا دیتا اور قدیریان کو فون کرتا تو  وہ آکر گاڑی لے جاتے۔ اس گاڑی کا ماڈل پژو ۴۰۴ تھا۔ قدیریان ایک بڑے تاجر تھے۔ ان کے پاس اس کے علاوہ بھی کئی گاڑیاں تھیں۔ اسی مناسبت سے بتاتا چلوں کہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے انقلاب کی کامیابی کے بعد خدا کے ساتھ تجارت اور انقلاب کی خدمت کی خاطر دنیا کو چھوڑ دیا تھاجبکہ مقابلے میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے انقلاب کو ذریعہ معاش بنا لیا۔

مجھے ایرانشہر میں ایک گاڑی کی ضرورت تھی تاکہ میں شہر کے اطراف میں آجا سکوں اور زاہدان ائیرپورٹ پہنچ سکوں۔ یہ اس علاقے کا واحد ائیرپورٹ تھا۔ عزیز واقارب میں سے جو بھی مجھ سے ملنے آتا میں اس کا استقبال کرنے بلوچی لباس میں ائیرپورٹ جاتا تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ بلوچی لباس میرے چہرے اور داڑھی کے ساتھ خوب جچتا تھا۔ چونکہ میرے ایرانشہر سے نکلنے پر پابندی تھی لہذا دینی علماء کے لباس کی بجائے یہ لباس پہننا زیادہ بہتر تھا۔ یہ لباس اب بھی میرے پاس محفوظ ہے اور بعض اوقات اسے پہنتا ہوں۔

چونکہ مجھے گاڑی کی ضرورت تھی لہٰذا میں نے قدیریان سے رابطہ کیا اور ان سے کہا: ’’اگر آپ ایرانشہر کو بھی تہران جیسی اہمیت دیتے ہیں تو میرے لیے ایک گاڑی بھیج دیں۔‘‘ چند دنوں بعد ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا: ’’آپ فلاں ہیں؟‘‘ میں نے کہا: ’’جی ہاں۔‘‘ اس نے کہا: ’’میں آپ کے لیے گاڑی لایا ہوں۔‘‘ یہ پژو کمپنی کا ایک اور ماڈل تھا۔ میں نے پوچھا: ’’کیا یہ گاڑی قدیریان نے بھیجی ہے؟‘‘ اس نے کہا: ’’جی ہاں۔‘‘ میں نے اس سے کہا: ’’طے یہ تھا کہ قدیریان وہی پہلے والی گاڑی بھیجیں گے۔‘‘ اس نے کہا: ’’مجھے نہیں معلوم۔ میرے ذمے آپ تک یہ گاڑی پہنچانا ہے۔‘‘ وہ نئی اور صاف ستھری گاڑی تھی۔ میں نے ایرانشہر اور جیرفت میں شہر بدری کے دوران اس گاڑی سے استفادہ کیا۔ شہر بدری کے خاتمے کے بعد میں نے گاڑی وہاں ایک شخص کے حوالے کی اور اس سے کہا: ’’اسے قدیریان تک پہنچا دیں۔‘‘ گرم اور ناہموار علاقوں میں چلنے کی وجہ سے گاڑی کو اچھا خاصا نقصان پہنچ چکا تھالیکن میرے تہران پہنچنے کے کچھ عرصے بعد (جب میں شہربدری والی جگہ سے مشہد واپس لوٹ رہا تھا) ایک شخص آیا اور اس نے گاڑی دوبارہ میرے حوالے کر دی۔ ورکشاپ میں مرمت اور صفائی کے بعد گاڑی بالکل نئی لگ رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا: ’’آپ کی گاڑی۔ قدیریان نے یہ آپ ہی کے لیے خریدی تھی۔‘‘ میں یہ بات سن کر حیران ہوا اور اس سے کہا: ’’تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟ اگر مجھے معلوم ہوتا تو ورکشاپ کا خرچہ میں خود اٹھاتا۔‘‘

یہ گاڑی میرے استعمال میں رہی۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد امن و امان کی صورت حال کے مدنظر میں سپاہ پاسداران کی ایک خاص گاڑی استعمال کرتا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ مجھے اس ذاتی گاڑی کی ضرورت نہیں۔ میں نے اسے سستے داموں بیچ دیا کیونکہ ان دنوں گاڑیوں کی قیمتیں نیچے آئی ہوئی تھیں۔ پھر وہ گاڑی پانچ یا اس سے زیادہ ہاتھوں سے ہوتے ہوئے دوبارہ مجھ تک پہنچی۔ میرے ایک جاننے والے نے جب اس گاڑی کو کسی کے استعمال میں دیکھا تو اس سے خرید کر اور مرمت کر کے دو یا تین سال پہلے مجھ تک پہنچا دیا۔ یہ گاڑی اس وقت میرے استعمال میں ہے۔

دوبارہ شہر بدری

نئی شہر بدری کا تذکرہ کرتے ہیں۔ جب پولیس نے مجھے گاڑی استعمال کرنے کی اجازت دی تو میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ میرے ساتھ والی سیٹ پر میرے برادر نسبتی حسن خجستہ بیٹھے۔ ہم ان کو ’’حسن آغا‘‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ وہ میرے ساتھ چند دن گزارنے ایرانشہر آئے ہوئے تھے۔ وہ مختلف علاقوں جیسے یزد اور شیراز میں شہر بدر کیے گئے برادران تک میرے پیغامات پہنچانے کے لیے ایرانشہر آتے رہتے تھے۔ اسی طرح وہ ان برادران کا پیغام مجھ تک پہنچاتے تھے۔ وہ اصغر پور محمدی کے ساتھ مل کر یہ ذمہ داری انجام دیتے تھے۔ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر دو اہلکار بڑی اور پرانی بندوقیں لیے بیٹھے تھے۔ ہمارے پیچھے پولیس کی ایک پرانی اور خستہ حال گاڑی تھی جو بڑی مشکل سے چلتی تھی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ میں پولیس کی گاڑی سے آگے نکل جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے مجھ سے پیچھے چلنے کا مطالبہ کیا۔ کچھ دیر بعد ان کی رائے تبدیل ہوگئی اور انہوں نے مصلحت اس میں جانی کہ میری گاڑی آگے رہے۔ اس طرح وہ حیرت کے عالم میں کبھی مجھ سے آگے نکل جاتے اور کبھی مجھے آگے نکلنے کا کہتے۔ پھر میری گاڑی خراب ہو گئی اور اس کے ریڈیئیٹر کا پانی ابلنے لگا۔ مجھے ہر کچھ دیر بعد رکنا پڑتا جبکہ وہ لوگ مصر تھے کہ میں سفر جاری رکھوں لیکن وہ گاڑی کی خرابی سے بھی آگاہ تھے۔ ’’بم‘‘ شہر (یہ ایرانشہر اور جیرفت کے درمیان واقع ہے) پہنچنے سے پہلے میں نے ریڈیئیٹر میں پانی بھرا۔ میں تیزی سے شہر کی طرف گیا تاکہ کم وقت میں شہر پہنچ جاؤں اور اس گاڑی کی ڈرائیونگ سے جان چھڑاؤں جس کا پانی اس گرم موسم میں فوراً ختم ہو جاتا تھا۔ پیچھے آنے والی پولیس کی گاڑی مجھے بار بار رکنے کا اشارہ دے رہی تھی جبکہ میں ان کی پرواہ نہیں کر رہا تھا۔ پھر گاڑی میں موجود دو پولیس اہلکار متوجہ ہوئے کہ میں پولیس کی گاڑی سے دور ہو رہا ہوں۔ ان دونوں نے رکنے کا مطالبہ کیا لیکن میں نے کوئی پرواہ نہیں کی اور صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا: ’’ہم پولیس اسٹیشن جا رہے ہیں اور پولیس کی گاڑی وہیں پہنچ جائے گی۔‘‘ میں پولیس اسٹیشن پہنچا اور ہمارے بعد پولیس کی گاڑی بھی پہنچ گئی۔ وہ لوگ ہم تک پہنچنے کی کوشش میں سخت تھکاوٹ کی وجہ سے ہانپ رہے تھے۔ 

موسم گرم تھااور میں بہت تھک چکا تھا۔ پولیس اسٹیشن کے دروازے کے قریب واقع کمرے میں، میں نے دو منزلہ پلنگ دیکھے۔ میں نے حسن سے کہا: ’’حاج صدیقی (وہ یزد سے تعلق رکھنے والا ایک جوان تھا جو بم شہر میں ساکن تھا اور ٹرک چلاتا تھا۔ شہر بدر لوگوں کی مدد کرنے میں بلند ہمتی سے کام لیتا تھا اور ایرانشہر میں ایک گروہ کے ساتھ ہم سے ملنے آتا تھا۔) کے پاس جائیں اور انہیں پولیس اسٹیشن میں میری موجودگی کی اطلاع دیں۔‘‘ میں اجازت لیے بغیر ان میں سے ایک پلنگ پر لیٹ گیا اور خود کو گہری نیند کے سپرد کر دیا جو برادر یزدی کے پہنچنے کی وجہ سے زیادہ دیر باقی نہ رہ سکی۔ انہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ میں نے ان سے کہا: ’’میری گاڑی خراب ہے اور ہمارے سامنے جیرفت تک 118 کیلو میٹر کا سفر باقی ہے، اور راستہ پہاڑی، دشوار گزار اور اس قدر تنگ ہے کہ بعض جگہوں پر صرف ایک گاڑی گزر سکتی ہے۔ (جمہوری اسلامی کے دور میں یہ راستہ بہترین شاہراہوں میں سے ایک بن گیا ہے۔) اگر ہو سکے تو آپ ہمیں اپنی گاڑی میں جیرفت پہنچا دیں اور میری گاڑی ورکشاپ میں دے دیں۔ انہوں نے کہا: ’’سر آنکھوں پر۔‘‘ وہ گئے اور اپنی گاڑی لے آئے۔ ان کے پاس ایک چھوٹی گاڑی تھی۔

قہوہ خانے میں نماز

آغا صدیقی ڈرائیونگ سیٹ پر اور میں ان کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا جبکہ حسن آغا اور پولیس کے وہ دو اہلکار پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ تین دیگر اہلکار اپنی گاڑی میں ہمارے پیچھے آنے لگے۔ ظہر کے قریب ہم قہوہ خانے پہنچے۔ یہ قہوہ خانہ گھنے درختوں اور خوبصورت باغات سے مزین ایک ٹھنڈے علاقے میں واقع تھا۔ وہاں کا موسم سہانا اور پانی میٹھا تھا۔ اس راستے پر آنے جانے والوں کے لیے یہ معروف جگہ ہے۔ مسافر عمومًا یہاں استراحت کرتے اور کھانا کھاتے ہیں۔ میں گاڑی سے اترا اور قہوہ خانے کی طرف چل پڑا۔ میرے ساتھی میرے پیچھے تھے، دو سول اور باقی پولیس اہلکار۔ میں نے سب سے پہلے وضوخانے کا پوچھا۔ انہوں نے قہوہ خانے کے پیچھے ایک جگہ کی طرف میری رہنمائی کی۔ میں اس طرف گیا۔ وہ ایک خوبصورت باغیچہ تھا۔ ہم نے وضو کیا، میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: چلیں یہاں نماز جماعت ادا کرتے ہیں۔ عام طور پر پولیس اہلکار اس طرح کے کاموں کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ یہ ایک عوامی جگہ تھی جسے ہر آنے جانے والا دیکھ رہا تھا۔ لیکن وہ اس بات کی طرف متوجہ نہیں تھےبلکہ بعد میں اس طرف متوجہ ہوئے۔

جونہی ہم نماز جماعت کے لیے کھڑے ہوئے، گاؤں والوں کی نظریں ہماری طرف متوجہ ہو گئیں۔ عام طور پر لوگ خصوصاً گاؤں والے سادات، علماء، مظلوموں اور حکومت وقت کے خلاف مزاحمت کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔ یہ ساری خصوصیات میرے سیاہ عمامے، علماء والے لباس اور میرے ساتھ پولیس اہلکاروں کی موجودگی سے عیاں تھیں۔

میری نماز ختم ہونے تک گاؤں کے بہت سے لوگ سڑک کے کنارے جمع ہو چکے تھے۔وہ میری طرف حیرت آمیز نظروں سے محبت بھرے انداز میں دیکھ رہے تھے۔ ہم نے دن کا کھانا کھایا۔ میں نے پولیس اہلکاروں سے کہا: ’’کچھ دیر استراحت کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ انہوں نے مجھے سفر جاری رکھنے پر قانع کرنے کی کوشش کی۔ میں نے انکار کیا۔ وہ لوگ میرے مطالبات ماننے کے عادی ہو چکے تھے چونکہ ایک تو وہ مجھ سے مانوس ہو گئے تھے اور دوسرا وہ جان گئے تھے کہ میں ان کے مطالبات نہیں مانتا۔ وہ میرا مطالبہ مان گئے اور میں لیٹ گیا۔ پولیس اہلکار میرے فرار ہونے کے ڈر سے میری چاروں طرف کھڑے ہو گئے۔ کچھ دیر بعد میں اٹھ کھڑا ہوا  اور ہم آگے چلنے کے لیے تیار ہوگئے۔ جب ہم گاڑی کی طرف گئے تومیں نے دیکھا کہ دسیوں افراد گاڑی کے گرد جمع تھے اور بلند سے آواز سے درود پڑھ رہے تھے۔ وہ اس طریقے سے میرے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کر رہے تھے۔ میں نے انہیں سلام کیا، حال احوال پوچھا اور ان کے متعلق اپنے احساسات کا اظہار کیا۔ پولیس اہلکار حیرت اور پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔ ان کو پریشانی دیکھ کر مجھے ان پر ترس آیا۔ ہم گاڑی میں بیٹھے اور جیرفت کی طرف چل پڑے۔ عوامی امنگوں کے ترجمان اس واقعے نے ہمارے اوپر خوبصورت اور گہرا اثر چھوڑا۔

جیرفت

ہم جیرفت پہنچ گئے۔ یہ شہر در حقیقت ایک بڑا باغ ہے۔ جب آپ اس شہر کو دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ اصل میں باغ تھا، پھر اس میں گھر، دکانیں اور سڑکیں بنا دی گئیں۔ ایرانشہر کی طرح اس کا موسم بھی گرم ہے لیکن یہاں کی آب و ہوا مرطوب ہے اور یہاں انواع و اقسام کے حشرات پائے جاتے ہیں جبکہ ایرانشہر کی آب و ہوا خشک اور صاف ہےاور وہاں حشرات بھی نہیں پائے جاتے۔

وہ مجھے پولیس اسٹیشن لے گئے۔ یہ ایک چھوٹی سی تنگ عمارت تھی اور یہاں کا سٹاف اسٹیشن کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں آرام کرنے گیا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا: ’’جب تک پولیس اہلکار اپنے کام پر واپس نہیں لوٹتے یہیں بیٹھے رہو۔‘‘

میں نے کہا: ’’میں یہاں نہیں بیٹھ سکتا بلکہ عمارت سے باہر بیٹھنے کو ترجیح دوں گا۔‘‘ میں نے پولیس اسٹیشن کے سامنے سڑک کنارے اپنی عبا بچھا لی۔ وہاں سے صرف چند ہی لوگ گزر رہے تھے جو مجھے پولیس اسٹیشن کے سامنے دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔ میں نے حسن آغا کو شیخ ربانی املشی کا گھر ڈھونڈنے کے لیے بھیجا۔ میرے یہاں پہنچنے سے دو ماہ قبل شیخ کو اسی شہر کی طرف شہر بدر کیا گیا تھا اور میں جانتا تھا کہ انہوں نے ایک گھر کرائے پر لے کر اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ رکھا ہوا ہے۔

شیخ املشی سے میرے پرانے تعلقات تھے جن کی ابتدا 1957؁ء میں اس وقت ہوئی جب میں پہلی دفعہ کربلا میں ان سے ملا جہاں وہ اور شیخ ہاشمی رفسنجانی اکٹھے تھے۔ پھر ہمارے درمیان تعلق گہرا ہوگیا اور باہمی محبت بڑھتی چلی گئی۔ ہم دو سال تک اکٹھے ایک درس کی علمی مباحث میں شریک رہے۔

پولیس اسٹیشن میں کاغذائی کاروائی کے بعد ہم شیخ ربانی کے گھر کی طرف چل پڑے۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے پوچھا: ’’کیا چیز آپ کو یہاں لے آئی؟‘‘ میں نے کہا: ’’تقدیر۔‘‘

شیخ ربانی کے بعد میں دوسرا فرد تھا جسے اس شہر کی طرف شہر بدر کیا گیا تھا۔ پھر شیخ ربانی شیرازی اور دوسرے کچھ افراد، جن میں کچھ تاجر بھی تھے، ہم سے آکر ملحق ہو گئے۔ یوں ہماری تعداد ۹ تک جا پہنچی۔ شاہی حکومت کی پالیسی تھی کہ شہر بدر افراد کو چند شہروں تک محدود رکھا جائے تاکہ ان کی سرگرمیاں زیادہ علاقوں تک نہ پھیلیں۔ شہر بدر ہونے والے افراد جہاں کہیں بھی جاتے وہاں عوامی سطح پر اسلامی سرگرمیاں انجام دیتے۔

شہر بدر افراد کی بزرگ شخصیت

مجھے یاد ہے کہ میرے جیرفت پہنچنے کے چند دن بعد قم کا ایک تاجر بھی وہاں پہنچا اور شیخ ربانی کے گھر اس نے بھی قیام کیا۔ یہ گھر شہر بدر ہونے والے تمام افراد کا ٹھکانہ تھا۔ ہم اس گھر میں اکٹھے ہوئے  پھر مختلف گھر کرائے پر لے کر وہاں سے چلے گئے۔ مجھے ابھی تک وہ وقت یاد ہے جب اس تاجر کو خراسان کے نواحی علاقے (جہاں اسے پہلی دفعہ شہر بدر کیا گیا تھا۔) سے جیرفت لایا گیا۔ میں شیخ ربانی کے گھر سویا ہوا تھا جب میں نے دروازے کے پاس کچھ آوازیں سنیں۔ میں اٹھا اور دروازہ کھولا تو دیکھا کہ یہ تاجر دو پولیس اہلکاروں کے ساتھ سامان سے بھری گاڑی میں وہاں پہنچا ہے۔ وہ یہ سارا سامان اپنے ساتھ اس شہر لائے تھے۔

شروع سے ہی اس تاجر کی چستی، ہمت، بہادری اور تیزی نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ (قم والے عام طور پر اس کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔) اس نے دونوں اہلکاروں سے کہا کہ وہ ایک دوسرے کے قریب کھڑے ہو جائیں۔ پھر اپنا سامان ایک ایک کر کے پہلے والے اہلکار کو دینا شروع کیا۔ یہ اہلکار سامان اپنے دوسرے ساتھی کو پکڑاتا تاکہ وہ اسے دروازے کے قریب رکھے۔ وہ بڑی تیزی کے ساتھ یہ کام کر رہا تھا۔ وہ جب بھی پولیس اہکار کو کوئی سامان پکڑاتا تو ساتھ کہتا: ’’بولو ’’شاہ مردہ باد۔‘‘ پولیس اہلکار اس کی بات کی پرواہ کیے بغیر ہنس رہے تھے۔ یہ اس بات کی دلیل تھی کہ وہ ان دو اہلکاروں کو اپنی طرف جذب کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ بعد میں مجھے پتا چلا اس نے اہلکاروں سے مطالبہ کیا تھا کہ خراسان سے جیرفت جاتے ہوئے قم سے ہو کر جائیں۔ انہوں نے آپس میں اتفاق کیا کہ وہ چند دن اپنے اہل و عیال کے ساتھ گزارے گا اور پھر ان کے ساتھ جیرفت کے لیے روانہ ہوگا اور اس نے یہ کام کیا۔ یہاں میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ قم کے لوگوں نے اپنی زندہ دلی، ذہانت اور تیزی کی وجہ سے انقلاب کی بہت خدمت کی ہے۔ یہاں تک کہ وہ علماء جو اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اس شہر میں گزارتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی حد تک ان صفات کو کسب کر لیتے ہیں۔

جب ہماری تعداد ایک خاص حد تک پہنچی تو ہم نے جامع مسجد میں مجالس کا انعقاد شروع کر دیا۔ شیخ ربانی شیرازی عمر کے لحاظ سے شہر بدر افراد میں سے سب سے بزرگ تھے۔ ہم ان کو مقدم رکھتے اور ان کے پیچھے پیچھے چلتے۔ یہ سات علماء اور دو تاجروں کا مجموعہ تھا۔ ہمارے اس طرح اکٹھے مسجد جانے سے مقامی لوگ بہت زیادہ متاثر ہوتے تھے۔ ہم میں سے ایک فرد مجلس سے خطاب کرتا اور اس دوران نعروں کی صدائیں بلند ہوتیں۔ مسجد میں سب سے پہلا نعرہ پردے کے پیچھے بیٹھی خواتین کی طرف سے بلند ہوا تھا۔

انقلاب کی ابتدائی خبریں

جب ہم ایرانشہر میں تھے تب انقلاب کی ابتدائی خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں۔ 1978؁ء میں قم کا حادثہ ([2])پیش آیا۔ پھر مختلف واقعات پیش آتے رہے۔ تبریز میں شہداء قم کے چہلم کی مناسبت سے منعقد اجتماع میں حادثہ پیش آیا۔ پھر شہداء تبریز کے چہلم کے موقع پر یزد سمیت مختلف شہروں میں میں بڑے حادثات پیش آئے۔

جب ہمیں قم کے حادثے کی خبر ملی تو ہم بہت حیران ہوئے۔ ہمارے لیے اس خبر کی تصدیق کرنا بہت مشکل تھا چونکہ اس وقت سیاسی ماحول انتہائی گھٹن کا شکار تھا اور ایسی عوامی بیداری کی کوئی توقع نہ تھی۔ پھر کسی کو بھی اندازہ نہ تھا کہ معاملات ٹکراؤ اور شہادتوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ واقعہ اچانک پیش آیا۔ اس سے پہلے کے حالات کچھ ایسے تھے جن میں ہم اس طرح کے واقعے کی امید نہیں کر سکتے تھے۔ یہ در حقیقت بہت بڑا سانحہ تھا جو اچانک پیش آیا تھا۔

چند مسلسل واقعات کے بعد ہمیں اندازہ ہو چکا تھا کہ کوئی بڑا سانحہ پیش آنے والا ہے۔ میں دقت کے ساتھ حالات کو دیکھ رہا تھا۔ کچھ جوان تھے جو مجھے تمام تر صورت حال سے آگاہ رکھتے تھے۔ ان میں سے ایک شیخ صالح تھے جن کا تعلق قم سے تھا۔ وہ ایک فعال اور متحرک نوجوان تھے۔

ان حادثات کے دوران شیخ صدوقی نے یزد سے مجھے ایک خط لکھا اور مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں انہیں خط کے ذریعے ملکی حالات سے آگاہ کروں۔ میں نے موقع کو غنیمت جان کر شیخ صدوقی کے ذریعے ملک کے تمام علماء کو مخاطب کیا اور ان کے سامنے ملکی حالات کا مفصل تجزیہ پیش کرتے ہوئے انہیں چند فیصلے کرنے کا مشورہ دیا۔ علماء اس وقت عوام کی رہنمائی کے لیے میدان میں آچکے تھے۔ اس رہنمائی کے لیے پختگی، گہری نظر، حالات کے درست تجزیے، مستقبل کی منصوبہ بندی اور سازشوں سے ہشیار رہنے کی ضرورت تھی۔ یہ صفات اکثر قم، مشہد اور اس وقت تہران میں ساکن علماء میں ہی پائی جاتی تھیں۔ ان کے علاوہ دوسرے علماء اتنی بڑی سیاسی تحریک کی قیادت کا تجربہ نہیں رکھتے تھے۔

میں نے شیخ صدوقی کو دو بڑے صفحوں پر مشتمل خط لکھا جس میں اسلام اور سیاست کی نظر سے اس وقت کے حالات کا تجزیہ پیش کیا۔ شیخ صدوقی نے مجھے دوبارہ خط لکھا جس میں میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے حالات پر مزید روشنی ڈالنے کا مطالبہ کیا۔ میں نے انہیں ’’انقلاب اسلامی کے حوالے سے علماء کی ذمہ داریاں اور دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ‘‘ کے موضوع پر ۸ صفحوں پر مشتمل خط لکھا۔ یہ خط ایک پمفلٹ کی شکل میں شائع ہوا اور لکھاری کا نام ظاہر کیے بغیر مشہد، یزد اور دوسرے علاقوں میں تقسیم کیا گیا۔

جب میں نے دیکھا کہ یہ تحریریں انتہائی مثبت اثرات کی حامل اور قائدین کی سیاسی بصیرت میں پختگی کا باعث ہیں تو میں نے لکھنے کا یہ سلسلہ جاری رکھا۔  جب شیراز میں چند بڑے واقعات پیش آئے تو میں نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے شہید سید عبد الحسین دستغیب اور علماء شیراز کے نام چار پانچ صفحات پر مشتمل خط لکھا۔ جب  سید شریعتمداری نے اپنے ایک اخباری بیان میں مزاحتمی گروہ کو شدت پسند کہا تو میں نے جیرفت سے ان کے نام ایک خط لکھا۔

سید شریعت مداری کی عادت تھی کہ وہ اپنے بیانات میں حکومت اور عوام دونوں کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے تھے البتہ حکومت کی خوشنودی زیادہ مد نظر ہوتی تھی کیونکہ حکومت ان بیانات پر نظر رکھتی اور سخت رد عمل دکھاتی تھی۔ جبکہ عوام کو ایک کمزور موقف کے ذریعے دھوکہ دینا ممکن تھا۔ مزاحمت کاروں کے لیے ’’شدت پسند‘‘ کا لفظ استعمال کرنا انتہائی خطرناک تھا کیونکہ اگر یہ لفظ زبان زد عام ہوجاتا تو امام خمینی= کی فکر پر چلنے والے سارے انقلابی شدت پسند اور مجرم کہلائے جاتے۔ میں نے ان کو خط لکھا اور انہیں اس طرح کے بیانات کے نتائج سے ڈرایا۔ میں نے لکھا:’’اس طرح کی باتوں سے حکومت کو جواز ملے گا کہ شدت پسندی کے خاتمے کے نام پر عوام کا قتل عام کرے اور اس کا گناہ آپ پر ہوگا۔‘‘ خط لکھنے کے بعد میں نے اس پر دستخط کیے۔ میں خط بھیجنے ہی والا تھا کہ مجھ تک تہران میں میدان جالہ(جسے اب میدان شہدا کہا جاتا ہے) میں پیش آنے والے سیاہ جمعہ (۸ ستمبر ۱۹۷۸؁ء) کے قتل عام کی خبر پہنچی۔ خبر سن کر  میں نے خط کے ایک کونے پر لکھا: ’’یہ  ’’شدت پسندوں‘‘ کے خاتمے کا آغاز ہے۔‘‘

جس وقت میں جیرفت پہنچا اسی وقت جمشید آموزگار کو وزارت عظمی کی کرسی سے ہٹا دیا گیا اور اس کی جگہ شریف امامی کو یہ عہدہ سونپ دیا گیا۔ یہ واقعہ بتارہا تھا کہ حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ پورے ملک میں بے چینی پھیل چکی تھی اور معاملات حکومت کے ہاتھ سے نکلتے جا رہے تھے۔ عوام پر موجود حکومتی گرفت اور دباؤ میں کمی آچکی تھی۔ شہر بدر افراد نے بھی ان حالات سے فائدہ اٹھانا شروع کیا۔ کچھ افراد حکومت کی اجازت کے بغیر جیرفت چھوڑ کر چلے گئے، جن میں سے بعض اپنے مطلوبہ مقامات تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جبکہ بعض کو تہران میں گرفتار کر لیا گیا۔ کچھ افراد ایسے تھے جنہوں نے شہر بدر ہو کر جیرفت آنے سے انکار کر دیا۔ ان میں سے ایک شیخ جواد حجتی کرمانی تھے جو سنندج میں شہر بدر تھے اور  پھر انہیں جیرفت کی طرف شہر بدر کیا گیا تھا۔ جب وہ تہران سے گزرے تو انہوں نے سفر جاری رکھنے سے انکار کیا اور تہران میں ہی ٹھہر گئے۔ کچھ دن بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ جہاں تک میری بات ہے تو میں جیرفت میں ہی رہا تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ میں فرار ہوا ہوں یا شہربدری سے تھک گیا ہوں۔ میں نہیں چاہتا تھا  فرار ہوتے ہوئے پکڑا جاؤں جیسے بعض برادران پکڑے جا چکے تھے۔ یہ بات میری شان کے مطابق نہ تھی۔ میں جیرفت میں مقیم رہا یہاں تک کہ  رسمی طور پر  میری شہر بدری ختم ہونے کا حکم نامہ جاری ہوا۔ میں جانتا تھا اس کام میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔

میری رہائی

ایک رات پولیس کا سربراہ آیا اور اس نے مجھ سے کہا: ’’تم آزاد ہو۔‘‘ میں نے کسی قسم کے تعجب یا خوشی کا اظہار کیے بغیر بے اعتنائی سے خبر سنی۔ وہ میرا رویہ دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ پھر میں نے اس سے کہا: ’’میں جیرفت میں ٹھہرنا چاہتا ہوں۔‘‘ وہ مزید حیران ہوا اور اصرار کرنے لگا کہ میں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شہر سے چلا جاؤں۔ میں نے کہا: ’’نہیں،میں یہیں رکوں گا۔‘‘ میں یہ بات ایک خاص مقصد کے تحت کر رہا تھا۔ احتمال تھا کہ مجھے ایک سازش کے تحت رہا کیا جا رہا ہے اور راستے میں مجھے قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے۔ میں نے سنا ہوا تھا کہ بعض شہر بدر افراد کو واپسی پر جھوٹے ایکسیڈنٹ میں مار دیا گیا۔ میں نے یہ خبر ریڈیو تہران سے سنی تھی جو ان دنوں پارلیمنٹ کے اجلاس کی کاروائی نشر کرتا تھا اور پارلیمنٹ کے ایک رکن نے یہ بات ذکر کی تھی۔ ان دنوں پارلیمنٹ میں عجیب افراتفری کا عالم تھا اور بعض ارکان خوشامد کرتے ہوئے انقلابیوں کا دفاع کرتے تھے۔ پھر پولیس کے سربراہ کا اصرار بھی اس احتمال کو تقویت دے رہا تھا۔

میں نے فیصلہ کیا کہ میں حکومت کو بتائے بغیر جیرفت سے نکل جاؤں۔ میں نے ایک شخص کے ذریعے اپنے دوست صدیقی (جو بم شہر میں ٹرک چلاتے تھے)اور حاج یزدان پناہ (جو بم میں ساکن تھے)کو جیرفت بلایا۔ جب وہ دونوں آ گئے تو میں نے ان سے کہا: ’’میں جیرفت سے نکلنا چاہتا ہوں۔‘‘ اور انہیں سارے معاملے سے آگاہ کیا۔ ان دونوں نے کہا: ’’ہم رات میں آپ کو لے جائیں گے۔ آپ اپنی گاڑی اور سامان جیرفت میں ہی رہنے دیں تاکہ حکومت کو آپ کے شہر چھوڑنے کا احساس نہ ہو۔ میرے  پاس گھر میں کافی سامان تھا جس میں سے زیادہ تر وہ برادران لائے تھے جو مجھ سے ملاقات کے لیے آئے تھے۔ میں نے کچھ ضروری سامان اٹھایا اور باقی چھوڑ دیا۔ پھر برادران سے کہا: ’’یہ سامان جیرفت کی طرف شہر بدر کیے گئے افراد کے لیے وقف ہے۔‘‘ خوش قسمتی سے کسی کو اس سامان سے استفادے کی ضرورت پیش نہیں آئی کیونکہ خدا کے اذن سے انقلاب کا آغاز ہوا اور اسی کے فضل وکرم سے یہ انقلاب کامیاب ہوا۔

ہم سحر کے وقت جیرفت سے نکلے اور بم شہر کی طرف چل پڑے۔ پھر ان میں سے ایک میری گاڑی بم شہر لے آیا۔ میں نے اس شہر میں دو دن قیام کیا جس دوران یہاں کے لوگوں سے ملاقاتیں کی۔ پھر میں کرمان شہر کی طرف نکلا۔ یہ خوبصورت یادوں سے بھرپور ایک خوشگوار سفر تھا۔ ہم رات بھر سفر میں رہے۔ اس وقت میری خوشی کے کئی اسباب جمع تھے: آزادی، تحریکِ اسلامی کا عروج اور روشن مستقبل کا تصور۔ ان کے علاوہ خوبصورت راستے پر رات کا سفربھی خوشی کے اسباب میں سے ایک تھا۔

ہم نے کرمان کے ایک دینی مدرسے کو اپنا ٹھکانہ بنایا۔ پھر میں جوتے اور جوراب لینے بازار گیا۔ ایران شہر اور جیرفت میں چونکہ گرمی زیادہ تھی لہذا میں وہاں جراب کے بغیر عام چپل پہنتا تھا، جبکہ کرمان میں جراب نہ پہننا غیر مناسب تھا۔ جوتے کی قیمت میرے پاس موجود رقم سے زیادہ تھی لہٰذا میں نے جوتا خریدنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے صرف جراب خریدنے پر اکتفا کیا۔

کرمان شہر بدر ہونے والے افرادمیں شیخ عباس پور محمدی بھی تھے۔ وہ صوبہ کرمان کے شہر رفسنجان سے تھے۔ وہ پہلے بندر لنگہ کی طرف شہر بدر کیے گئے پھر بیماری کا علاج کرانے کے لیے انہیں کرمان منتقل کر دیا گیا۔ وہ کسی کرمانی تاجر کے ایک بڑے گھر میں رہتے تھے جس کے صحن میں بڑے بڑے درخت تھے۔ جب انہیں پتا چلا کہ میں کرمان میں ہوں تو مجھے اس گھر میں بلا لیا اور اصرار کیا کہ میں وہیں قیام کروں۔ میں نے ان کی بات مان لی اور دو دن اس شہر میں رہا۔ اس دوران ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ کرمان کے لوگ مجھے پہلے سے جانتے تھے لہٰذا وہ مختلف وفود کی شکل میں ملنے آتے۔ میں صبح سے شام تک ملاقات کے لیے آنے والے وفود کا استقبال کرتا تھا۔ کرمان میں میرے مختصر قیام کے دوران ہمیں خبر ملی کہ عراقی حکومت نے نجف میں امام خمینیؒ پر دباؤ بڑھا دیا ہے اور ان کا گھر اس وقت محاصرے میں ہے۔

میں کرمان کے بعد یزد چلا گیا۔ میں نے دیکھا کہ شیخ صدوقی صحیح معنوں میں اس شہر کی قیادت کر رہے ہیں۔ آپ لوگوں کی فکری تربیت کے ساتھ ساتھ مزاحمتی، سیاسی اور اقتصادی امور میں بھی ان کی ذمہ داریاں معین کرتے اور ان کی بصیرت اور آگاہی میں اضافہ کرتے تھے۔ آپ پوری جرات کے ساتھ انقلاب کی حمایت کرتے اور شاہی حکومت کے خلاف بغیر کسی خوف کے شیر کی طرح میدان عمل میں حاضر رہتے تھے۔ آپ رات گئے تک بغیر کسی محافظ کے سڑکوں اور گلیوں سے گزرتے تھے۔ میں نے یزد میں سنا کہ امام خمینیؒ پیرس روانہ ہو گئے ہیں۔ میں یزد سے جہاز کے ذریعے تہران اور وہاں سے مشہد گیا۔ مشہد میں انقلاب کے حوالے سے مختلف سرگرمیاں انجام دیتا رہا یہاں تک کہ امام خمینی= کے حکم پر انقلاب کونسل میں شرکت کے لیے مجھے تہران بلا لیا گیا۔ ۱۱ فروری ۱۹۷۹؁ء کو انقلاب اسلامی کا سورج طلوع ہوا۔ میں ۱۹۸۱؁ء کے شروع میں ایران کا صدر منتخب ہوا۔ میری شہر بدری کے اختتام اور انقلاب کونسل کے رکن منتخب ہونے میں صرف دو ماہ کا فاصلہ تھا۔ اسی طرح میری شہر بدری کے اختتام اور صدر منتخب ہونے کے درمیان تین سال سے کم کا فاصلہ تھا۔

لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ بَعْدُ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ۔([3])

پہلے بھی اور اب بھی اختیارِ کل اللہ کو حاصل ہے۔  اہل ایمان اس دن  اللہ کی مدد پر خوشیاں منائیں گے، اللہ جسے چاہتا ہے نصرت عطا فرماتا ہے اور وہ غالب آنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

سُبْحانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ وَسَلامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ۔([4])

آپ کا رب جو عزت کا مالک ہے ان باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں اور پیغمبروں پر سلام ہو اور ثنائے کامل اس اللہ کے لیے ہے جو عالمین کا پروردگا رہے۔


([1]) اسلامی جمہوری پارٹی کے دفتر میں دھماکہ: 28 جون 1981؁ء کو تہران میں واقع اسلامی جمہوری پارٹی کے دفتر میں منافق گروہ کی طرف سے دھماکہ کیا گیا جس میں امام خمینیؒ کے قریبی ساتھی آیت اللہ بہشتی سمیت ستر سے زیادہ اہم ملکی و سیاسی شخصیات شہید ہوئیں۔ ان شہداء میں چار وزیر اور پارلیمنٹ کے ۲۷ اراکین شامل تھے۔

([2]) قم میں 19 ’’دی‘‘ (9 جنوری 1978؁ء) کا قیام: ایران میں یہ حادثہ ۱۹ دَی (ایرانی کیلنڈر کا دسواں مہینہ) کے نام سے مشہور ہے۔’’اطلاعات‘‘ نامی اخبار میں ’’ایران اور سرخ و سیاہ استعمار‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے مضمون میں مراجع عظام بالخصوص امام خمینی= کی توہین کی گئی۔ قم کے عوام 9 جنوری 1978؁ء کو اس توہین کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ اس احتجاج کو حکومت کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ احتجاج ان مسلسل مظاہروں اور احتجاجات کا آغاز سمجھا جاتا ہے جو انقلابِ اسلامی کی کامیابی تک جاری رہے۔

([3]) روم: 4 ، 5

([4]) صافات: 180، 181، 182