مقدمہ مترجم
’’سلام ہو ابراہیم پر!‘‘ ایک ایسے شہید کی داستانِ شجاعت و شہادت ہے جس نے نہ صرف اپنی پہلوانی کے جوہر دکھا کر کئی بڑے انعامات اور خطابات حاصل کیے بلکہ شجاعت، عبادت، خلوص، نیک نیتی، مروّت، مردانگی، حیا، ایثار، جانثاری اور سرفروشی کے کئی تمغے بھی اپنے نام کیے۔
موجودہ زمانے میں جب کہ نوجوان نسل عجیب و غریب قسم کے آئیڈیلز کا شکار ہے ایسے میں ابراہیم ہادی جیسے جوانوں کی زندگیوں کا مطالعہ ان کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتا ہے جس کی روشنی میں وہ اپنے فکری اور احساساتی رجحانات معین کر کے اپنی زندگی گزار سکتے ہیں۔
ابراہیم ہادی مکتبِ ولایت کا پروردہ تھا جس نے خلوص، عشق اور ایثار کی جرعہ نوشی ساقی کوثر کے جام سےکی تھی۔ جس نے نفس کے بے لگام گھوڑے کو عبادت و دعا کے ذریعے مہار کیا تھا۔ اس کا نفس اس کا نہیں رہا تھا بلکہ اس نے اسے اپنے آقا و مولا کی دسترس میں دے رکھا تھا۔
زمانہ قبل از اسلام ہی سے ایران کی سرزمین پر ایسے ایسے پہلوانوں نے جنم لیا جن کی شجاعت و بہادری کی گونج چاردانگ عالم میں گونجتی تھی۔ جب اس سرزمین پر اسلام کی آمد ہوئی اور یہاں کے لوگ ولایت و محبت اہل بیتؑ کے نشے میں چور ہوئے تو پہلوانی اور زور آزمائی جیسے غصیلے کھیلوں میں بھی ایسے ایسے جوانمرد، نفس پر قابو رکھنے والے، عبادت گزار اور ایثار کرنے والے پہلوان پیدا ہوئے کہ جن کے نام آج بھی ایرانی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔
ایران کا مشہور عارف پہلوان پوریائی ولی ہویا غلام رضا تختی، انہوں نے کھیل کو کبھی بھی اپنا مقصدِ حیات اور نفس کی تسکین کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ اکھاڑے میں اترنے کے بعد بھی انہوں نے انسانی اقدار کا خیال رکھا اور مدمقابل کے حق میں جان نثاری اور قربانی کے ایسے ایسے نمونے چھوڑے کہ آج بھی ان سے حقیقی پہلوانی کا درس لیا جاتا ہے۔
ابراہیم ہادی بھی ایسا ہی پہلوان تھا جس نے پہلوانی کے کھیل کو مقصد نہیں بلکہ ذریعہ بنایا، اپنے جسم و اعصاب کو مضبوط کرنے کا تا کہ اس کے ذریعے وہ خلقِ خدا کی مدد اور دشمنانِ دین کا مقابلہ کر سکے۔ یہی وجہ تھی کہ کشتی کے مقابلوں کے دوران کئی دفعہ یہ دیکھنے میں آیا کہ ابراہیم کو حریف پہلوان کی انعام کے لیے احتیاج و ضرورت کا علم ہوا تو وہ جان بوجھ کر مقابلہ ہار گیا۔ اسے مقابلے کے دوران حریف کو تکلیف سے دوچار کرنا سخت برا لگتا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ اکھاڑے میں اترنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ کر خدا سے دعا کرتا تھا کہ اس کے ہاتھ سے حریف پہلوان کو اذیت نہ پہنچے۔
لوگوں کی خدمت اس کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ وہ اکثر اپنی تنخواہ ضرورتمندوں کی ضرورتیں پوری کرنے میں صرف کر دیا کرتا تھا۔
وہ نہ صرف ایک منجھا ہوا پہلوان تھا بلکہ اچھا استاد، رہنما اور کوچ بھی تھا جس نے مختلف سرکاری سکولوں میں بچوں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ بھی انجام دیا اور ایسا انجام دیا کہ اس کا حق ادا کر دیا۔
اسے امام خمینیؒ سے عشق تھا۔ ایران کے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعدجب عراق نے ایران پر جنگ مسلط کر دی تو اس نے رضاکار فوج میں شمولیت اختیار کر لی اور پھر محاذ جنگ پر اپنی شجاعت و مردانگی اور ایثار و قربانی کے وہ شاہکار نمونے اور یادیں چھوڑیں کہ جن کے نقش آج تک تازہ ہیں۔
جنگ کے دوران جب ہر مجاہد کی یہی خواہش ہوتی تھی کہ وہ شہادت سے ہمکنار ہو جائے تو ابراہیم نے یہاں بھی اپنی انفرادیت برقرار رکھی اور اپنی ماں سے یہ دعا کرنے کا کہہ رکھا تھا کہ وہ گمنام شہید ہو کیونکہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے والہانہ عقیدت کی بنا پر اس کا کہنا تھا کہ جب ان کی قبر کا نشان آج تک نہیں معلوم ہو سکا تو میں یہ کیسے برداشت کر سکتا ہوں کہ میری قبر کا نشان سب کو معلوم ہو۔ یہی وجہ تھی کہ ایرانی سرحدی علاقے فکہ کے محاذ پر عراقی فوج سے سخت مڈبھیڑ میں اس نے اپنے ساتھیوں کو ایک ایک کر کے پیچھے بھیج دیا اور خود گمنامی کے ایسے تاریک راستے پر چلا گیا کہ آج تک اس کی کوئی خبر نہیں۔
یہ کتاب اس کے دوستوں کے تاثرات کا مجموعہ ہے جنہوں نے ابراہیم ہادی کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات اور اپنی یادوں کے گل ہائے رنگارنگ کو اس خوبصورت گلدستے میں سمو کر رکھ دیا ہے۔
ابراہیم ہادی ہی کیوں؟!
۲۰۰۷ کی گرمیوں کا موسم تھا۔ میں تہران کی مسجد امین الدولہ میں مغرب و عشاء کی نماز باجماعت پڑھ رہا تھا۔ مجھ پر عجیب سی حالت طاری تھی۔ مسجد میں نماز پڑھنے والے تمام لوگ؛ علماء اور ممتاز علمی شخصیات تھیں۔ میں جماعت کی دوسری صف کی دائیں طرف ایک کونے میں کھڑا تھا۔ نماز مغرب کے بعد جب میں نے اپنے اطراف پر نگاہ دوڑائی تو حیران رہ گیا۔ نماز جماعت کے جگہ چاروں طرف سے پانی میں گھر چکی تھی۔ بالکل ایسے ہی جیسے سمندر کے بیچوں بیچ کوئی جزیرہ کھڑا ہو۔
امام جماعت ایک معمر اور نورانی شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے سفید عمامہ پہن رکھا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور لوگوں کی طرف منہ کر کے اپنی بات کا آغاز کیا۔ میں نے اپنے ساتھ بیٹھے ایک معمر شخص سے پوچھا: ’’کیا آپ امام جماعت کو جانتے ہیں؟‘‘
اس نے جواب دیا: ’’یہ حاج شیخ محمد حسین زاہد ہیں، آغا حق شناس اور حاج آغا مجتہدی کے استاد۔‘‘
میں نے شیخ حسین زاہد کی روحانی عظمت اور مرتبے کے بارے میں پہلے ہی سے کافی کچھ سن رکھا تھا اسی لیے پوری توجہ سے ان کی باتیں سننے لگا۔
پوری محفل پر ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سب کی نظریں انہی پر مرکوز تھیں۔ انہوں نے عرفان و اخلاق کے حوالے سے کچھ مطالب سامعین کے گوش گزار کرتے ہوئے فرمایا: ’’دوستو! عزیزو! لوگ ہمیں عرفان و اخلاق کے نمونے اور نہ جانے کیا کیا سمجھتےہیں لیکن میرے عزیز دوستو! عملی اخلاق وعرفان کی نمونہ ہستیاں تو دراصل یہ لوگ ہیں۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے ایک بڑی سے تصویر ہاتھ میں اٹھائی۔ میں اپنی جگہ سے تھوڑا سا بلند ہو گیا تا اچھی طرح دیکھ سکوں۔ تصویر میں ایک لمبی داڑھی والے مرد کا چہرہ نظر آ رہا تھا جس نے بھورے رنگ کی جرسی پہن رکھی تھی۔
میری نگاہیں تصویر پر گڑی کی گڑی رہ گئیں۔ میں نے اسے مکمل طور پر پہچان لیا تھا۔ اس کے چہرے کو میں نے بارہا دیکھا تھا۔ مجھے کوئی شک نہیں رہا تھا کہ یہ وہی ہے۔ ابراہیم، ابراہیم ہادی!
شیخ حسین زاہد کی باتوں پر مجھے بہت تعجب ہوا۔ وہ عرفان و اخلاق کے ایسے استاد تھے کہ جن کے سامنے بہت سے علماء نے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا اور وہ تھے کہ ایسی باتیں کر رہے ہیں!؟
وہ ابراہیم کا تعارف اخلاق عملی کے استادکے طور پر کروا رہے تھے؟!
اسی وقت میں نے اپنے آپ سے کہا: ’’شیخ زاہد حسین تو۔۔۔ وہ تو کئی سال پہلے اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں!‘‘
گھبراہٹ سےمیری آنکھ کھل گئی۔ وہ ۱۱ اگست ۲۰۰۷ کی سحر تھی۔ اتفاق سے اس روز رجب کی ۲۷ تاریخ تھی جو عید مبعث پیغمبر اکرمﷺ کا دن ہے۔
یہ سچا خواب تھا جس نے میرے بدن پر لرزہ طاری کر دیا تھا۔ میں نے ایک کاغذ اٹھایا اور خواب میں جو کچھ دیکھا اور سنا تھا جلدی سے اسے لکھ ڈالا۔
میری نیند اڑ چکی تھی اور ابراہیم ہادی کے بارے میں جتنے بھی واقعات میں نے سن رکھے تھے وہ میرے ذہن میں گردش کرنے لگے۔
******
میں اسے کبھی نہیں بھول سکتا۔ رمضان المبارک ۱۳۷۳ھ کی آخری رات کو میں مسجد الشہداء
میں تھا۔ ہم جنگ کے دنوں کے کچھ پرانے دوست مل کر ابراہیم ہادی کے گھر گئے تھے۔
ابراہیم کی والدہ کا انتقال ہو چکا تھا اور ان کی رسومات ادا کی جا رہی تھیں۔ ان کا گھر مسجد کے عقب میں گلی شہید موافق میں واقع تھا۔
حسین اللہ کرم صاحب نے شہید ہادی کے بارے میں باتیں شروع کر دیں۔
ان کے واقعات بہت عجیب و غریب تھے۔ایسے واقعات میں نے اس وقت تک کسی سے بھی نہیں سنے تھے۔
اس رات لطفِ خداوندی میرے شامل حال ہوا۔ میں نے کبھی جنگ نہ دیکھی تھی۔ اگرچہ ابراہیم ہادی کی شہادت کے وقت میں سات سال کا تھا، مگر یہ خدا کی مرضی تھی کہ میں اس محفل میں شریک رہوں تاکہ اس کے ایک خالص بندے کو اچھی طرح پہچان سکوں۔
یہ باتیں کافی عرصے تک میرے ذہن پر چھائی رہیں۔ مجھے یقین نہیں ہوتا تھا کہ اس قدر معرکہ آرائیاں کرنے والا جنگجو بہادر ایسی گمنامی میں چلا جائے!
اس سے بھی بڑھ کر عجیب بات یہ تھی کہ اس نے خود خدا سے دعا کی تھی کہ گمنام ہی رہے۔ کئی برس گزرنے کے باوجود بھی ابھی تک اس کا جسد نہیں مل سکا اور نہ ہی اس کے بارے میں کوئی اطلاع مل سکی۔
میں اپنی تمام جماعتوں اور سارے طلاب کو اس کے بارے میں بتاتا رہتا تھا۔
******
اذانِ فجر میں ابھی کچھ وقت پڑا تھا۔ میری آنکھوں سےنیند بھی غائب ہو چکی ہے۔ میں یہ جاننے کے لیے بےتاب تھا کہ شیخ زاہد نے ابراہیم کو اخلاق عملی کا مثالی نمونہ کیوں کہا تھا؟
اگلے روز میں قبرستان ابن بابویہ میں شیخ حسین زاہد کی قبر پر چلا گیا۔ ان کے چہرے[1] پر نگاہ پڑی تو اپنے خواب کی سچائی کا یقین ہو گیا۔
اب مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں رہا تھا کہ عرفاء کو پہاڑوں اور خانقاہوں کے حجروں میں نہیں ڈھونڈنا چاہیے بلکہ یہ لوگ ہمارے آس پاس موجود ہوتے ہیں اور ہمارے جیسے ہی ہوتے ہیں۔
میں اسی روز شہید ہادی کے ایک دوست کے پاس چلا گیا اور اس سے شہید ہادی کے نزدیکی دوستوں کے فون نمبرز اور گھروں کے پتے لے لیے۔
میں نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ ابراہیم ہادی کو پہلے کی نسبت زیادہ بہتر انداز سے جاننے کی کوشش کروں گا۔ میں نے اس سلسلے میں خدا سے توفیق بھی طلب کی۔
شاید یہ وہ ذمہ داری ہے جو خداوند متعال نے اپنے مخلص بندوں کی شناخت کروانے کے لیے ہمارے کندھوں پر ڈال رکھی ہے۔
[1] ایران میں قبور کے کتبوں پر عموماً مرحوم کی تصویر بھی کندہ کروا لی جاتی ہے۔
سوانح حیات
ابراہیم ۲۱ اپریل ۱۹۵۷ کو خراسان چوک کے نزدیک واقع محلہ شہیدآیت اللہ سعیدی میں پیدا ہوئے۔
وہ اپنے والدین کی چوتھی اولاد تھے لیکن اس کے باوجود ان کے والد محمد حسین مشہدی ان سے کچھ زیادہ ہی محبت کرتے تھے۔
ابراہیم کو بھی اپنے باپ کی قدر معلوم تھی، جنہوں نے ایک دکان چلا کر اپنی اولاد کی بہترین انداز میں تربیت کر رکھی تھی۔
ابراہیم ابھی نوجوان ہی تھے کہ انہیں یتیمی کا تلخ ذائقہ چکھنا پڑا۔ ان کی زندگی میں یہی وہ وقت تھا کہ جب انہوں نے عظیم لوگوں کی طرح اپنی زندگی گزارنا شروع کی۔
پرائمری تک مدرسہ طالقانی میں پڑھا جبکہ ہائی کلاسز کے لیے مدرسہ ابوریحان اور کریم خان زند میں زیرِ تعلیم رہے۔
1976 میں ادب میں انٹرمیڈیٹ کی سند لی۔ انہوں نے کالج کے آخری دنوں ہی میں غیر نصابی کتابوں کا مطالعہ بھی شروع کر دیا تھا۔
انجمن جوانانِ اسلامی میں شمولیت اور بے مثال استاد علامہ محمد تقی جعفری جیسی عظیم شخصیت کی شاگردی اور ہمراہی نے ابراہیم کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔
ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے دوران ابراہیم نے اپنی شجاعت و بہادری کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
وہ حصول تعلیم کے ساتھ ساتھ بازارِ تہران میں کام کاج بھی کرتے تھے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد جسمانی تربیت کے ادارے میں ملازمت شروع کی مگر پھر تعلیم و تربیت کے محکمے میں منتقل ہو گئے۔
اس دوران وہ ایک جانثار استاد کی طرح اس سرزمین کے بیٹوں کی تربیت میں مشغول رہے۔
وہ کھلاڑی تھے۔ انہوں نے اپنے کھیل کا آغاز ایران کے قدیم کھیل پہلوانی سے کیا۔ وہ والی بال اور کشتی میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ کسی بھی میدان میں پیچھے نہ ہٹتے اور حریف کا مردانہ وار مقابلہ کرتے۔
ان کی مردانگی کے جوہر بازی دراز اور گیلان غرب[1] کی فلک شگاف چوٹیوں سے لے کر جنوب کے جھلستے ہوئے صحراؤں تک دیکھتے جا سکتے ہیں۔
ان کی شجاعت و بہادری کی داستانیں آج تک اس علاقے میں موجود ان کے جنگی ساتھیوں کے ذہنوں میں موجزن ہیں۔
معرکہ و الفجر ابتدائی کے دوران وہ کمیل اور حنظلہ بٹالینز کے جوانوں کے ساتھ فکہ کی خندقوں میں پانچ روز تک محاصرے میں رہے مگر دشمن کے آگے ہتھیار نہ ڈالے اور ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
بالآخر 11 فروری 1983 کو اپنے باقی بچ جانے والے جوانوں کو پیچھے بھیجنے کے بعد وہ تن تنہا اپنے خدا کے ساتھ ہو لیے۔ اس کے بعد کسی نے انہیں نہ دیکھا۔
انہوں نے خدا سے ہمیشہ دعا کی تھی کہ وہ گمنام ہی رہیں، اس لیے کہ گمنامی خدا کے محبوب دوستوں کی صفت ہے۔
خدا نے بھی ان کی دعا قبول کر لی۔ برسوں ہو گئے، آج بھی ابراہیم فکہ میں گمنام اور لاپتا ہیں تا کہ راہیانِ نور کے لیے ایک سورج کی طرح چمکتے رہیں۔
*****
[1] ایران کے دو شہر
باپ کی محبت
[راوی: رضا ہادی]
ہم تہران کے خراسان چوک کے نزدیک ہی واقع ایک چھوٹے سے کرائے کے گھر میں رہتے تھے۔
۲۱ اپریل ۱۹۵۷ کا دن تھا۔ ہمارے والد کچھ دنوں سے کافی خوش تھے۔
خدا نے اس دن انہیں ایک بیٹا عطا کیا تھا۔ وہ ہمیشہ خدا کا شکر ادا کرتے تھے۔
اگرچہ گھر میں پہلے سے تین بیٹے اور ایک بیٹی موجود تھی مگر اس نومولود کے لیے ہمارے والد خوشی سے نہال ہو رہے تھے۔
ایسا ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ نومولود کافی خوبصورت تھا۔ انہوں نے بچے کا نام بھی رکھ دیا: ابراہیم۔
ہمارے والد نے اس بچے کا نام ایسے پیغمبر کے نام پر رکھا تھا جو صبر، شجاعت، توکل اور توحید کا مظہر تھے۔ یہ نام واقعاً ابراہیم پر جچتا بھی تھا۔ ہمارے رشتہ دار اور دوست احباب جب بھی ہمارے والد کو دیکھتے تو کہتے: ’’حسین صاحب! آپ کے پہلے بھی تین بیٹے ہیں تو پھر اس بیٹے کے لیے اتنی زیادہ خوشی کا اظہار کیوں کر رہے ہیں؟‘‘
والد ایک خاص اطمینان سے جواب دیتے: ’’میرا یہ بیٹا غیر معمولی انسان ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میرا ابراہیم خدا کا خالص بندہ ہو گا۔ یہ میرا نام بھی زندہ رکھے گا۔‘‘
وہ سچ کہتے تھے۔ ابراہیم کے لیے ہمارے والد کی محبت بہت ہی حیران کن تھی۔ اگرچہ ابراہیم کے بعد خدا نے ایک بیٹا اور ایک بیٹی اور بھی اس خاندان کو عطا فرمائے مگر ابراہیم کے لیے والد کی محبت میں ذرہ برابر کمی واقع نہ ہوئی۔
ابراہیم نے اپنی پرائمری کی تعلیم زیبا روڈ پر واقع طالقانی سکول میں حاصل کی۔ وہ بہت اچھے اخلاق کا مالک تھا۔پرائمری سکول کے دوران بھی اس کی نماز قضا نہیں ہوتی تھی۔
سکول کے زمانے میں ہی ایک دفعہ وہ اپنے ایک دوست کو بتا رہا تھا: ’’میرے بابا بہت اچھے انسان ہیں۔ اب تک وہ کئی بار خواب میں امام زمانہ (عج) کی زیارت کر چکے ہیں۔‘‘
جن دنوں ابراہیم کو زیارت کربلا کا کافی اشتیاق تھا، انہی دنوں اسے خواب میں حضرت عباس علیہ السلام کی زیارت ہوئی، جو اسے ملنے آئے تھے اور انہوں نے اس سے بات بھی کی تھی۔
پرائمری تعلیم کے آخری سال اس نے اپنے دوستوں سے کہا تھا: ’’میرے بابا کہتے ہیں کہ آغا خمینی، جنہیں شاہ[1] نے کئی سالوں سے جلاوطن کر رکھا ہے، بہت ہی اچھے انسان ہیں۔‘‘
میرے بابا یہ بھی کہتے ہیں: ’’ہم سب کو آغا خمینی کی باتوں پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ ان کے فرامین امام زمانہ (عج) کے فرامین کی طرح ہیں۔‘‘
اس کے دوست جواب میں کہتے: ’’ابراہیم، آئندہ ایسی بات نہ کرنا۔ پرنسپل تمہیں سکول سے نکال دیں گے۔‘‘
شاید ابراہیم کے دوستوں کے لیے یہ باتیں عجیب تھیں لیکن ابراہیم اپنے بابا کی باتوں پر مکمل یقین رکھتا تھا۔
*****
[1] محمد رضا شاہ۔
رزقِ حلال
[شہیدؒ کی بہن]
پیغمبر اعظم ﷺ کا فرمان مبارک ہے: ’’اپنی اولاد کو اچھا انسان بننے میں ان کی مدد کرو کیونکہ ہر شخص اپنی اولاد سے نافرمانی کو دور کر سکتا ہے۔[1]‘‘
اسی لیے ہمارے بابا نے ابراہیم اور دوسرے بچوں کی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ہمارے بابا بہت متقی انسان تھے۔ وہ باقاعدگی سے مسجد اور دعائیہ محافل میں جاتے تھے اور خاص طور پر رزقِ حلال کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ وہ پیغمبر اکرم ﷺ کے اس فرمان کو اچھی طرح جانتے تھے: ’’عبادت کے دس اجزا ہیں جن میں نو اجزاء فقط رزقِ حلال کمانے سے حاصل ہوتے ہیں۔[2]‘‘
یہی وجہ تھی کہ اس زمانے میں محلہ امیریہ (شاپور) کے کچھ آوارہ اور اوباش لوگوں نے بابا کو کافی تنگ کیا اور انہیں اپنا حلال پیشہ نہ چلانے دیا۔ مجبوراً بابا نے اپنے والد سے میراث میں ملی ہوئی دکان بیچی اور قند [3] کے کارخانے میں کام کرنے لگے۔
وہ وہاں مزدوری کرتے تھے اور صبح سے شام تک بھٹی کے پاس کھڑے رہتے۔ انہی دنوں میں انہوں نے اپنا ایک چھوٹا سا گھر بھی خرید لیا۔
ابراہیم اکثر کہا کرتا: ’’اگر میرے بابا نے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کی ہے تو وہ ان مشکلات ہی کی بدولت تھی جو انہوں نے رزقِ حلال کمانے کے لیے برداشت کیں۔‘‘
جب بھی وہ اپنے بچپن کو یاد کرتا تو یہی کہا تھا: ’’میرے بابا میرے ساتھ حفظ قرآن کے لیے جاتے تھے۔ وہ ہمیشہ مجھے اپنے ساتھ مسجد میں لے جاتے تھے۔ زیادہ تر ہم سرچشمہ چوک سے تھوڑا ٓگے واقع مسجد آیت اللہ نوری میں جایا کرتے تھے۔‘‘
وہاں انجمن حضرت علی اصغر علیہ السلام کے اجتماع ہوتے تھے۔ میرے بابا اس انجمن کا خادم ہونے کا اعزاز رکھتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ پرائمری سکول کے انہی آخری دنوں میں ابراہیم نے کوئی ایسا کام کر دیا کہ بابا کو بہت غصہ آ گیا اور انہوں نے کہہ دیا: ’’باہر نکل جاؤ، ابراہیم! اور رات تک واپس نہ آنا۔‘‘
ابراہیم رات تک گھر نہ لوٹا۔ گھر والے سارے پریشان تھے کہ اس نے دن کا کھانا کہاں کھایا ہو گا لیکن بابا کے سامنے کوئی بولنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
رات کو ابراہیم واپس آ گیا اور ادب سے سب کو سلام کیا۔ میں نے فوراً پوچھا: ’’ بھائی، دن کا کھانا کھایا یا نہیں؟‘‘
بابا جو ابھی تک غصے میں لگ رہے تھے لیکن ابراہیم کے جواب کا انتظار کر رہے تھے۔
ابراہیم نے آرام سے جواب دیا: ’’گلی میں جا رہا تھا تو دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت نے کافی سارا سامان خرید رکھا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے اور کیسے گھر جائے۔ میں نے اس کی مدد کی اور اس کا سامان اس کے گھر پہنچا دیا۔ اس نے میرا بہت زیادہ شکریہ ادا کیا اور پانچ ریال کا ایک سکہ مجھے دے دیا۔ میں وہ سکہ لینا نہیں چاہتا تھا لیکن اس نے بہت زیادہ اصرار کیا۔ مجھے بھی یقین تھا کہ یہ پیسے حلال کے ہیں کیونکہ میں نے اس بوڑھی عورت کے لیے مشقت اٹھائی تھی۔ ظہر کے وقت انہی پیسوں سے روٹی خرید کر کھا لی تھی۔‘‘
بابا نے جب یہ بات سنی تو ایک مسکراہٹ سے اپنی ناراضگی ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ وہ خوش تھے کہ ان بیٹے نے باپ کا دیا ہوا سبق صحیح یاد رکھا ہوا ہےا ور رزق حلال کو اہمیت دیتا ہے۔
ابراہیم سے بابا کی دوستی باپ بیٹے کے تعلق سے بڑھ کر تھی۔ ان دونوں کے درمیان عجیب و غریب قسم کی محبت پائی جاتی تھی جس کا نتیجہ ہمیں اس بیٹے کی شخصیت کی نشوونما میں نظر آتا ہے، لیکن باپ بیٹے کا یہ دوستانہ تعلق زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکا۔
ابراہیم ابھی نوجوانی ہی کی عمر میں تھا کہ اسے اپنے بابا کی شیرین رفاقت سے محروم ہونے کا تلخ ذائقہ چکھنا پڑا۔ ایک غم انگیز غروب کے بعد اس نے اپنے اوپر یتیمی کا گھور اندھیرا محسوس کیا۔ اس کے بعد اس نے عظیم لوگوں کی طرح اپنی زندگی کو آگے بڑھایا۔ انہی برسوں میں اس کے اکثر دوست اور جاننے والے اسے کہتے رہتے کہ اسے کھیلوں کے شعبے میں جانا چاہیے۔ اس نے بھی ان کی بات کو قبول کر لیا۔
[1] أعينوا أولادكم على البرّ من شاء إستخرج العقوق من ولده۔ [نهج الفصاحة: ص225، حدیث 370]
[2] الْعِبَادَةُ عَشَرَةُ أَجْزَاءٍ تِسْعَةُ أَجْزَاءٍ فِي طَلَبِ الْحَلَالِ۔ [مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل، ج13، ص: 12]
[3] ایران میں چائے وغیرہ کے ساتھ استعمال ہونے والی چینی کی ڈلیاں۔
فن پہلوانی
[شہیدؒ کے کچھ دوست]
ہائی سکول میں اس کی تعلیم کے اوائل کا زمانہ تھا جب وہ فن پہلوانی سے آشنا ہوا۔ رات کو وہ حاج حسن کے اکھاڑے میں جایا کرتا تھا۔
حاج حسن توکل جو حاج حسن نجار کے نام سے معروف تھے، ایک زاہد اور متقی عارف تھے۔ ان کا اکھاڑا ابوریحان ہائی سکول کے نزدیک ہی تھا۔ ابراہیم بھی اس کھیل اور معنویت والے ماحول کا ایک کھلاڑی تھا۔
حاج حسن کسرت کو قرآن مجید کی ایک یا چند آیات کی تلاوت سے شروع کرتے۔ اس کے بعد ایک حدیث اور اس کا ترجمہ بیان کرتے۔ اکثر راتوں میں وہ ابراہیم کو اکھاڑے میں بھیج دیتے جو عموماً قرآن مجید کا ایک سورہ یا دعائے توسل اور یا پھر اہل بیتؑ کی شان میں کچھ اشعار پڑھ کر اپنے مرشد کی مدد کرتا۔
اس اکھاڑے کی سرگرمیوں میں سے ایک اہم سرگرمی یہ تھی کہ کسرت کے دوران جیسے ہی اذانِ مغرب ہوتی تو تمام جوان اپنی کسرت بند کرتے اور وہیں اکھاڑے کے دنگل ہی میں حاج حسن کی اقتداءمیں نماز باجماعت پڑھتے۔
حاج حسن انقلاب سے پہلے کے ان حالات میں کھیل اور ورزش کے ساتھ ساتھ جوانوں کو ایمان و اخلاق کا درس بھی دیتے تھے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار جب کھیل کے بعد سب جوان اپنے اپنے کپڑے بدل ا ور ایک دوسرے کو خداحافظ کہہ رہے تھے تو اچانک ایک مرد کافی گھبرایا ہوا اکھاڑے میں داخل ہوا۔ اس کے پہلو میں ایک چھوٹا سا بچہ بھی تھا۔
اس کا رنگ اڑا ہوا تھا اور آواز لرز رہی تھی: ’’حاج حسن، میری مدد کیجیے۔ میرا بچہ مریض ہے۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔ یہ ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ آپ کی پھونک میں شفا ہے۔ خدا کا واسطہ اس کے لیے دعا کیجیے۔ آپ کو خدا کا واسطہ۔۔۔‘‘ اس کے بعد وہ رونا شروع ہو گیا۔
ابراہیم کھڑا ہو گیا اور کہا: ’’سب اپنے کپڑے تبدیل کریں اور دنگل میں آ جائیں۔‘‘
وہ خود بھی دنگل کے درمیان میں بیٹھ گیا۔ اس رات ابراہیم اتنے وقت تک جوانوں کے ساتھ دعائے توسل پڑھتا رہا جتنے وقت میں ان کی کسرت کا ایک راؤنڈ مکمل ہو جاتا تھا۔ اس کے بعد دل کی گہرائی سے اس بچے کے لیے دعا کی۔ وہ مرد بھی اپنے بچے کے ساتھ اکھاڑے کی ایک طرف بیٹھا ہوا رو رہا تھا۔
دو ہفتے بعد ایک دن حاج حسن کسرت کے بعد کہنے لگے: ’’جوانو! جمعے کے دن تم سب کو دن کے کھانے کی دعوت ہے۔‘‘
میں نے حیران ہو کر پوچھا: ’’کہاں؟‘‘
کہنے لگے: ’’وہ بے چارہ شخص جو اس دن اپنے بیمار بچے کو لایا تھا، اسی نے دعوت کی ہے۔‘‘ اس کے بعد حاج حسن نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’الحمد للہ اس کا بچہ شفایاب ہو گیا ہے۔ ڈاکٹروں کا بھی کہنا ہے کہ بچے کو اب کوئی بیماری نہیں ہے۔ اسی وجہ سے اس نے دن کے کھانے پر سب کو بلایا ہے۔‘‘
میں نے پلٹ کر ابراہیم کو دیکھا۔ وہ جانے کے لیے اس انداز میں تیار ہو رہا تھا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ لیکن مجھے شک و شبہ نہیں رہا تھا کہ یہ اسی دعائے توسل کی قبولیت کا نتیجہ تھا جو اس دن ابراہیم نے پورے خضوع و خشوع سے اس بچے کے شفایابی کے لیے پڑھی تھی۔
*****
کئی دفعہ میں نے دیکھا کہ ابراہیم ایسے جوانوں کےساتھ بھی دوستی کر لیتا تھا جو نہ تو ظاہراً مذہبی لگتے تھےا ور نہ ہی دینی مسائل میں انہیں کوئی دلچسپی ہوتی تھی۔ وہ انہیں کسرت کی طرف لے آتا اور پھر آہستہ آہستہ انہیں مسجد اور مذہبی انجمنوں کی راہ دکھا دیتا۔
ان نوجوانوں میں سے ایک، دوسروں کی نسبت کافی بُرا تھا۔ ہمیشہ شراب اور برے کاموں کے بارے میں باتیں کرتا رہتا۔ دین نام کی کسی چیز کو نہیں جانتا تھا۔ نماز، روزہ جیسی کسی بھی چیز کو کوئی اہمیت نہ دیتا تھا۔ حتی کہ یہاں تک اعتراف کرتا کہ وہ آج تک کسی بھی مذہبی محفل یا انجمن میں نہیں گیا۔ میں نے ابراہیم سے کہا: ’’ابرام، یہ کون لوگ ہیں جنہیں تم اپنے ساتھ لے آتے ہو؟‘‘ اس نے حیران ہو کر پوچھا: ’’کیوں، کیا ہوا؟‘‘
میں نے کہا: ’’کل رات یہ جوان تمہارے پیچھے پیچھے انجمن میں داخل ہوا۔ اس کے بعد میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ حاجی آغا اپنی تقریر کے دوران امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت اور یزید کے ظلم و ستم بیان کر رہے تھے۔ یہ جوان بڑے بھونڈے طریقے سے غصے میں ساری گفتگو سن رہا تھا۔ جب بتیاں بجھا دی گئیں تو آنسو بجھانے کی بجائے یزید کو لگاتار گالیاں دینے لگا۔‘‘
ابراہیم حیران ہو کر سن رہا تھا، اچانک ہنسنے لگا: ’’کوئی بات نہیں۔ یہ جوان ابھی تک کسی مذہبی انجمن میں نہیں گیا ہے اور اس نے عزاداری میں آنسو نہیں بہائے ہیں۔ تم فکر نہ کرو۔ اب یہ امام حسین علیہ السلام کی رفاقت میں آ گیا ہے تو سدھر جائے گا۔ ہم بھی اگر ان جوانوں کو مذہبی جوان بنا دیں تو سمجھو ہم نے بہت بڑا کمال کر دیا۔‘‘
اس جوان کے ساتھ ابراہیم کی دوستی نے اسے اس مقام پر پہنچا دیا کہ اس نے تمام برے کام چھوڑ دیےا ور اکھاڑے کے اچھے کھلاڑیوں میں شمار ہونے لگا۔ کچھ ماہ بعد عید کے دنوں میں مَیں نے اس جوان کو دیکھا کہ کسرت کے بعد اس نے مٹھائی کا ایک ٹوکرا خریدا اور جوانوں میں تقسیم کر دیا۔ اس کے بعد کہنے لگا: ’’دوستو! میں تم سب کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں، خصوصاً آغا ابرام کا۔ خدا کی قسم، تم سب دوستوں کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ اگر میں آپ لوگوں سے آشنا نہ ہوتا تو نہیں معلوم اب کہاں ہوتا۔۔۔؟‘‘
ہم بھی حیران ہو کر اسے دیکھ رہے تھے۔ جب ہم اکھاڑے سے باہر نکلے تو ابراہیم کے ان کارناموں کے بارے میں سوچ رہے تھے۔
وہ کتنی خوبصورتی سے جوانوں کو ایک ایک کر کے کھیل کی طرف راغب کرتا اور پھر انہیں آہستہ آہستہ مسجد و انجمن کی طرف کھینچ لاتا اور بقول اس کے اپنے، وہ انہیں امام حسین علیہ السلام کے دامن میں لا پھینکتا۔
مجھے پیغمبر اکرم ﷺ کی وہ حدیث یاد آ گئی جو انہوں نے امیر المومنین علیہ السلام کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی تھی: ’’اے علی! اگر ایک انسان بھی تمہارے وسیلے سے ہدایت یافتہ ہو جاتا ہے تو وہ مشرق و مغرب میں پائی جانے والی ان تمام چیزوں سے زیادہ افضل ہے جن پر سورج کی روشنی پڑتی ہے۔‘‘[1]
*****
اس اکھاڑے میں انجام دی جانے والی دیگر سرگرمیوں میں سے ایک خاص سرگرمی یہ تھی کہ جوان ایک گروہ کی شکل میں دوسرے اکھاڑوں میں جاتے تھے اور وہاں جا کر کھیلتے تھے۔ ماہِ رمضان المبارک کی ایک رات ہم کرج[2] کے ایک اکھاڑے میں گئے۔
مجھے وہ رات کبھی بھی نہیں بھولتی۔ ابراہیم شعر پڑھتا، دعا کرتا اور کھیلتا ہی چلا جا رہا تھا۔ کافی دیر سے وہ دنگل کے کنارے ڈنڈ پیل رہا تھا۔ اکھاڑے میں اترنے والے جوان مسلسل تبدیل ہو رہے تھے مگر ابراہیم بغیر کسی وقفے کے ڈنڈ پیلے جا رہا تھا۔اصلاً کسی کی طرف اس کی توجہ ہی نہیں تھی۔
چبوترے پر ایک معمر شخص بیٹھا سب جوانوں کا کھیل دیکھ رہا تھا۔ وہ میرے پاس آیا اور ابراہیم کی طرف اشارہ کر کے پریشانی سے پوچھا: ’’یہ جوان کون ہے؟‘‘ میں نے حیران ہو کرالٹا سوال کر دیا: ’’کیوں، کیا بات ہے؟‘‘ کہنے لگا: ’’جب سے میں اکھاڑے میں داخل ہوا ہوں یہ مسلسل ڈنڈ پیل رہا ہے۔ میں تسبیح سے اس کے ڈنڈ گنتا رہا۔ اب تک سات دفعہ میں اپنی یہ تسبیح ختم کر چکا ہوں یعنی سات سو دفعہ یہ ڈنڈ۔ خدا کے لیے اسے اوپر لے آؤ، اس کی حالت خراب ہو جائے گی۔‘‘ جب کھیل ختم ہوا تو ابراہیم کو اصلاً تھکن کا احساس نہیں ہو رہا تھا۔ بالکل لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ چار گھنٹے سے ڈنڈ پیلتا رہا تھا۔
البتہ ابراہیم مضبوط ہونے کے لیے ایسے کام انجام دیتا رہتا تھا۔وہ ہمیشہ کہتا: ’’خدا اور بندوں کی خدمت کرنے کے لیے ہمارا جسم مضبوط ہونا چاہیے۔‘‘ وہ اکثر دعا کرتا: ’’خدایا! اپنی خدمت کے لیے میرے جسم کو قوت عطا فرما۔‘‘
انہی دنوں ابراہیم اپنے لیے کافی بھاری گُرزوں[3] کی ایک جوڑی خرید لایا۔ اس جوڑی کا کافی چرچا ہوا اور لوگوں میں بہت مشہور ہوئی۔ لیکن اس کے بعد کبھی بھی اس نے جوانوں کے سامنے ان گرزوں کے ساتھ کوئی ورزش نہ کی۔ اس کا کہنا تھا کہ ایسے کام انسان میں غرور پیدا کر دیتے ہیں۔
وہ کہتا تھا: ’’لوگ اس بات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ کون کس سے زیادہ طاقتور ہے۔ اگر میں اوروں کے سامنے اس قسم کی سخت ورزش کا مظاہرہ کروں گا تو اپنے دوستوں کی حوصلہ شکنی کا باعث بن جاؤں گا۔ ایسا لگے گا کہ میں اپنے آپ کو دوسروں سے ممتاز ظاہر کرنا چاہ رہا ہوں اور یہ بات صحیح نہیں ہے۔‘‘
اس کے بعد جب وہ کھیل کا نگران مقرر کر دیا گیا تھا تو جب بھی دیکھتا کہ کوئی کھلاڑی تھک گیا ہے یا صحیح طریقے سے کھیل نہیں پا رہا تو وہ فوراً کھیل کا انداز تبدیل کر دیتا۔
لیکن ایک بار ابراہیم نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ وہ اس وقت جب کشتی کے عالمی چیمپئن اور حاج حسن کے ارادتمند سید حسین طحامی حاج حسن کے اکھاڑے میں تشریف لائے اور اکھاڑے کے جوانوں کے ساتھ کھیلنے لگے۔
[1] قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص لِعَلِيٍّ ع لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ عَلَى يَدَيْكَ عَبْداً مِنْ عِبَادِ اللَّهِ خَيْرٌ لَكَ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ مِنْ مَشَارِقِهَا إِلَى مَغَارِبِهَا۔ [بحار الأنوار (ط – بيروت)، ج1، ص: 216]
[2] ایران کا ایک شہر۔
[3] ایک بھاری چیز جسے عموماً کشتی جیسے کھیلوں میں زور لگانے کے لیے بطورِ مشق اٹھایا جاتا ہے۔
پہلوان
[حسین اللہ کرم]
کشتی کے عالمی چیمپئن سید حسین طحامی حاج حسن کے اکھاڑے میں تشریف لائے اور اکھاڑے کے جوانوں کے ساتھ کھیلنے لگے۔
اگرچہ سید کو چیمپئن شپ کے مقابلوں میں شرکت کیے کافی عرصہ ہو چکا تھا لیکن ان کا بدن ابھی تک کافی کسرتی اور مضبوط تھا۔ کھیل ختم ہونے کے بعد وہ حاج حسن کو مخاطب کر کے کہنے لگے: ’’حاجی، کوئی ہے جو میرے ساتھ کشتی لڑے؟‘‘
حاج حسن نے جوانوں پر ایک نگاہ ڈالی اور کہا: ’’ابراہیم!‘‘ اس کے بعد انہوں نے ابراہیم کو اکھاڑے میں اترنے کا اشارہ کیا۔
کشتی میں عموماً جو حریف زمین پر گر جائےیا چِت ہو جائے وہ ہار جاتا ہے۔ کشتی شروع ہو گئی۔ ہم سب تماشا دیکھنے لگے۔ دونوں پہلوان کافی دیر تک ایک دوسرے میں گتھے رہے لیکن کوئی بھی چت نہیں ہو رہا تھا۔
دونوں پہلوان کافی دباؤ میں آ گئے تھے، لیکن کوئی بھی دوسرے کو پچھاڑنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا۔ یہ کشتی بغیر ہار جیت کے ختم ہو گئی۔
کشتی کے بعد سید حسین زور زور سے کہنے لگے: ’’بارک اللہ، بارک اللہ[1]، کیا بہادر جوان ہو۔ ماشاء اللہ پہلوان!‘‘
*****
کھیل ختم ہو گیا تھا۔ حاج حسن ٹک ٹک ابراہیم کی چہرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ابراہیم نے آگے بڑھ کر حیرانی سے پوچھا: ’’کیا ہوا، حاجی؟‘‘
حاج حسن کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہنے لگے: ’’اسی تہران میں پرانے وقتوں میں دو پہلوان ہوا کرتے تھے: حاج سید حسن رزّاز اور حاج صادق بلور فروش۔ وہ آپس میں کافی گہرے دوست تھے۔ کشتی میں بھی وہ ایک دوسرے کے مقابلے میں نہ آتے تھے، لیکن اس سے بھی اہم بات ان میں یہ تھی کہ وہ خدا کے مخلص بندے تھے۔ ہمیشہ کھیل شروع کرنے سے پہلے وہ قرآن کی چند آیات تلاوت کرتے اور روتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کا مختصر سا مصائب پڑھتے۔ ان کی پھونک سے مریض شفایاب ہو جایا کرتے تھے۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’ابراہیم! میں تمہیں انہی جیسا ایک پہلوان سمجھتا ہوں۔‘‘
ابراہیم نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’نہیں، حاجی، وہ کہاں اور ہم کہاں!‘‘
حاج حسن جب ابراہیم کی اس انداز میں تعریف کر رہے تھے تو بعض جوانوں کو اچھا نہ لگا۔
اگلے روز تہران کے ایک اکھاڑے سے پانچ پہلوان ہمارے اکھاڑے میں آئے۔ طے پایا کہ ورزش کے بعد وہ ہمارے جوانوں کے ساتھ کشتی لڑیں گے۔ سب اس چیز پر آمادہ ہو گئے کہ حاج حسن کشتی کے ریفری ہوں گے۔ ورزش کے بعد کشتیاں شروع ہو گئیں۔
کل چار مقابلے ہوئے۔ دو مقابلے ہمارے جوانوں نے جیتے جبکہ دو مقابلے مہمان پہلوانوں نے۔ لیکن آخری کشتی میں آپس میں تھوڑی سی گرما گرمی ہو گئی۔ ان لوگوں نے حاج حسن کے سامنےہلڑبازی شروع کر دی جس کی وجہ سے حاج حسن کافی رنجیدہ ہو گئے۔
معلوم ہوا کہ آخری کشتی ابراہیم اور مہمان آئے ہوئے ایک جوان کے درمیان طے پائی ہے۔ وہ لوگ ابراہیم کو اچھی طرح جانتے تھے اور انہیں پورا یقین تھا کہ وہ لوگ کشتی ہار جائیں گے اس واسطے انہوں نے غل غپاڑہ شروع کر دیا تا کہ اگر ہار جائیں تو سارا قصور ریفری کے کھاتے میں ڈالیں۔
سب غصے میں تھے۔ چند لمحے نہ گزرے تھے کہ ابراہیم اکھاڑے میں کود پڑا۔ اس نے مسکراتے ہوئے تمام مہمان جوانوں سے ہاتھ ملایا اور آرام سے اکھاڑے سے نکل کر ہماری طرف واپس آ گیا۔ وہ کہنے لگا: ’’میں کشتی نہیں لڑوں گا۔‘‘
ہم سب نے حیرت سےپوچھا: ’’کیوں؟‘‘
تھوڑی دیر خاموش رہ کر اس نے پرسکون انداز میں جواب دیا: ’’ہماری دوستی اور رفاقت ان کاموں اور باتوں سے بہت زیادہ قیمتی ہے۔‘‘
اس کے بعد اس نے حاج حسن کا ہاتھ چوما اور ایک صلوات کے ذریعے کشتی کے مقابلے ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
اگرچہ اس دن ہم میں سے کوئی بھی نہ جیتا تھا نہ ہارا تھا مگر حقیقی فاتح ابراہیم تھا۔ جب ہم کپڑے تبدیل کر کے جانے لگے تو حاج حسن نے ہم سب کو بلایا اور کہا: ’’اب تم لوگ سمجھ گئے کہ میں نے ابراہیم کو کیوں پہلوان کہا تھا؟‘‘
ہم سب خاموش تھے۔ حاج حسن نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’دیکھو، میرے جوانو! پہلوانی یہ ہے جو آج تم لوگوں نے دیکھی ہے۔ ابراہیم نے اپنے نفس کے ساتھ کشتی لڑی اور جیت گیا۔ ابراہیم نے خدا کی خاطر ان سے کشتی لڑنے سے انکار کر دیا تا کہ اس طرح وہ کینے اور جھگڑے کا راستہ روک سکے۔ جوانو! حقیقی پہلوانی یہی ہوتی ہے جو آج تم نے دیکھی ہے۔‘‘
*****
ابراہیم کی کامیابی کی داستانیں اسی طرح جاری تھیں کہ انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہو گیا۔ اس کے بعد اکثر جوان انقلاب کے مسائل میں الجھ گئے اور پہلوانی کے کھیل میں ان کی شرکت کم ہونے لگی۔
ایک دن ابراہیم نے تجویز پیش کی کہ صبح اکھاڑے میں سب جمع ہو کر نماز فجر باجماعت پڑھا کریں اس کے بعد ورزش کر لیا کریں۔ سب نے اس تجویز سے اتفاق کر لیا۔
اس کے بعد ہم سب ہر روز صبح کے وقت اذان کے لیے اکھاڑے میں جمع ہو جاتے، نماز فجر باجماعت پڑھتے اور ورزش شروع کر دیتے۔ اس کے بعد مختصر سا ناشتہ کرتے اور پھر اپنے اپنے کام پرنکل جاتے۔
ابراہیم اس صورتحال سے بہت ہی خوش تھا، کیونکہ اس طرح ایک طرف تو ورزش کا سلسلہ منقطع نہ ہوا تھا اور دوسری طرف سب لوگ فجر کی نماز باجماعت پڑھ لیتے تھے۔
وہ ہمیشہ پیغمبر اکرمﷺ کی یہ حدیث بیان کرتا رہتا: ’’اگر میں فجر کی نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھ لوں تو مجھے صبح تک شب بیداری کرنے سے زیادہ پسند ہے۔‘‘
عراق کی طرف سے ایران پر مسلط کی جانے والی جنگ کے شروع ہوتے ہی اکھاڑے کی رونق بھی ماند پڑ گئی تھی کیونکہ اکثر جوان محاذ پر چلے گئے تھے۔
ابراہیم بھی اب کم ہی تہران آتا تھا۔ ایک بار آیا تو اپنا سارا ورزشی سامان اپنے ساتھ لے گیا اور وہیں محاذ والے علاقوں میں پہلوانی کا اکھاڑا جما لیا۔
حاج حسن توکل کا اکھاڑا حقیقی پہلوانوں کی تربیت کے حوالے سے کافی مشہور تھا۔ابراہیم کے علاوہ بھی وہاں سے تربیت پانے والے بہت سے جوان ایسے تھے جنہوں نے خداوند کریم کی بارگاہ میں اپنی پہلوانی کو ثابت کیا تھا۔ انہوں نے اپنے خون کے ذریعے اپنے ایمان کو محفوظ کیا۔ دراصل حقیقی پہلوان یہی لوگ ہیں۔
دفاع مقدس (ایران عراق کےمابین لڑی جانے والی آٹھ سالہ جنگ) کے اوائل ہی میں شہید حسن شہابی (اکھاڑے کے گرو)، شہید اصغر رنجبران (عمار بریگیڈ کے انچارج)، سید صالحی، محمد شاہرودی، علی خرمدل، حسن زاہدی، سید محمد سبحانی، سید جواد مجد پور، رضاپند، حمد اللہ مرادی، رضا ہوریار، مجید فریدوند، قاسم کاظمی اور ابراہیم کی شہادتوں، حاج علی نصراللہ، مصطفیٰ ہرندی، علی مقدم اور کچھ دوسرے دوستوں کی مجروحیت اور خود حاج حسن توکل کے انتقال کی وجہ سے ان کے اکھاڑے کا خوبصورت اور روحانیت بھرا دورانیہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
کچھ عرصہ بعد وہ اکھاڑا ایک رہائشی عمارت میں تبدیل ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی وہاں ہماری کشتیوں کا زمانہ فقط یادوں کا حصہ بن کر رہ گیا۔
[1] عربی کا دعائیہ جملہ ہے جو کسی کو شاباش دیتے وقت کہتے ہیں، یعنی اللہ برکت دے۔
یک نفری والی بال
[شہیدؒ کے کچھ دوست]
ہائی سکول کے ابتدائی عرصے ہی میں ابراہیم کے مضبوط بازؤوں کو دیکھ کر معلوم ہو جاتا تھا کہ وہ بہت سے کھیلوں میں چیمپئن ہے۔ تفریح کے پیریڈ میں وہ ہمیشہ والیبال ہی کھیلتا تھا۔ جوانوں میں سے کوئی بھی اس کے مقابلے پر آنے کی ہمت نہ کر سکتا تھا۔
ایک دفعہ اس نے چھ کھلاڑیوں پر مشتمل ایک ٹیم کا اکیلے ہی مقابلہ کیا۔ اس مقابلے میں اسے تین بار گیند کو اچھالنے کی اجازت تھی۔
ہم سب اپنے کھیل کے استاد کے ساتھ مل کر اس کی جیت کا منظر دیکھ رہے تھے۔ اس کے بعد ابراہیم زیادہ تر یک نفری والیبال ہی کھیلتا تھا۔
چھٹی کے دنوں میں ہم زیادہ تر ۱۷ شہریور روڈ پر واقع فائربریگیڈ کے دفتر کے عقب میں کھیلتے تھے۔ بہت سے بڑے بڑے نامی کھلاڑی ابراہیم کے مقابلے میں آنے سے گھبراتے تھے۔
لیکن ابراہیم کا سب سے زیادہ یادگار مقابلہ جنگ کے دوران گیلان غرب کے شہر میں ہوا۔ وہاں والی بال کا ایک میدان تھا جہاں فوجی جوان کھیلا کرتے تھے۔
ایک دن کچھ بسوں میں کچھ سرکاری عہدیدار جنگ زدہ علاقوں کا دورہ کرنے گیلان غرب آئے۔ اس کاروان کے سربراہ محکمہ کھیل اور ورزش کے انچارج آغا داؤدی تھے۔ آغا داؤدی ہائی سکول کے زمانے میں ابراہیم کے ورزش کے استاد رہ چکے تھے اور اسے اچھی طرح جانتے تھے۔ انہوں نے ابراہیم کو کھیلوں کا کچھ سامان دیا اور اسے کہا کہ جیسے چاہو اسے استعمال کر لو۔ اس کے بعد کہا: ’’ہمارےیہ دوست کھیلوں کے ہر قسم کے شعبے سے ہیں اور دورے پر آئے ہوئے ہیں۔‘‘
ابراہیم تھوڑی دیر مہمان کھلاڑیوں کے ساتھ بات چیت کرتا اور انہیں شہر کے مختلف حصے دکھاتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ والی بال کے میدان میں پہنچ گئے۔
آغا داؤدی نے کہا: ’’تہران کی والی بال ٹیم کے کچھ کھلاڑی بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ تمہارا کیا خیال ہے، ایک مقابلہ ہو جائے؟‘‘
سہ پہر تین بجے مقابلے کا آغاز ہو گیا۔ پانچ کھلاڑی ایک طرف تھے کہ جن میں سے تین والی بال کے منجھے ہوئے پیشہ ور کھلاڑی تھے اور دوسری طرف ابراہیم اکیلا۔ اس مقابلے کو دیکھنے کے لیے کافی زیادہ تماشائی جمع ہو گئے تھے۔
ابراہیم اپنے سابقہ انداز میں ننگے پاؤں، پائنچے اوپر کیے اور بنیان پہنے ان کے مقابلے میں کھڑا ہو گیا۔ وہ اتنے جاندار انداز میں کھیلا کہ کسی کو یقین ہی نہیں ہوتا تھا۔
وہ مقابلہ ایک ہاف سے زیادہ نہ چل سکا اور دس پوائنٹ کی برتری سے ابراہیم کی جیت پر ختم ہو گیا۔ اس کے بعد ان کھلاڑیوں نے ابراہیم کے ساتھ تصویریں بنوائیں۔ انہیں یقین نہیں ہو رہا تھا کہ ایک سادہ سا جنگجو مشاق کھلاڑیوں کی طرح کھیل بھی سکتا ہے۔
ایک دفعہ میں نے دوکوہہ کے بیرک میں مجاہدین کے سامنے ابراہیم کے والی بال کی تعریف کی۔ ایک جوان گیا اور والی بال کی گیند لے آیا۔ اس کے بعد اس نے دو ٹیمیں بنائیں اور ابراہیم کو بھی بلا لایا۔
پہلے تو ابراہیم ٹالتا رہا اور کھیلنے سے انکار کرتا رہا مگر جب ہم نے اصرار کیا تو کہنے لگا: ’’ٹھیک ہے، لیکن تم سارے ایک طرف رہو گے اور میں اکیلا مقابلہ کروں گا۔‘‘
کھیل ختم ہونے کے بعد کچھ کماندڑز کہنے لگے: ’’ہم آج تک اتنا نہ ہنسے تھے۔ ابراہیم جیسے ہی گیند کو اچھالتا تو مقابل میں کچھ کھلاڑی گیند کی طرف جاتے تو آپس میں ٹکرا جاتے اور زمین پر گر جاتے تھے۔‘‘
ابراہیم نے کافی زیادہ پوائنٹس کی برتری سے یہ مقابلہ جیت لیا۔
شرط بندی
[مہدی فریدوند، سعید صالح تاش]
تقریباً 1975 کا سال تھا۔ ایک جمعے کی صبح ہم کھیل رہے تھے۔ تین اجنبی افراد آئے اور کہنے لگے: ’’ہم مغربی تہران سے آئے ہیں۔ ابراہیم کون ہے؟‘‘
اس کے بعد کہا: ’’ہم دو سو تومان پر شرط لگاتے ہیں۔‘‘
کچھ دیر کھیل شروع ہو گیا۔ ابراہیم اکیلا اور وہ تین، لیکن اس کے باوجود وہ ابراہیم سے ہار گئے۔
اسی روز ہم شہر کے جنوبی حصے میں واقع ایک محلے میں گئے۔ وہاں ہم نے 700 تومان کی شرط باندھی۔ مقابلہ اچھا رہا اور ہم جلدی جیت گئے۔ پیسے دیتے وقت ابراہیم سمجھ گیا کہ وہ لوگ پیسے جمع کرنے کےلیے قرض لے رہے ہیں تو فوراً اس نے کہا: ’’دوستو! ایک اکیلا کھلاڑی مجھ سے مقابلہ کرے۔ اگر وہ جیت گیا تو ہم پیسے نہیں لیں گے۔ ان میں سے ایک آگے بڑھا اور کھیل شروع ہو گیا۔ ابراہیم بہت برا کھیلا۔ اتنا برا کہ اس کا حریف مقابلہ لے اڑا۔‘‘
وہ سارے خوشی خوشی وہاں سے رخصت ہو گئے۔ میں سخت غصے میں تھا اور ابراہیم سے کہا: ’’آغا ابرام، اتنا برا کیوں کھیلے؟‘‘ اس نے حیران ہو کر میری طرف دیکھا: ’’میں چاہتا تھا کہ ان بے چاروں کی سبکی نہ ہو۔ ان سب کے پاس ملا کر بھی سو تومان نہیں تھے۔‘‘
اگلے ہفتے دوبارہ وہی تہرانی جوان اپنے دو اور دوستوں کو لے آئے۔ 500 تومان شرط لگا کر وہ پانچ ایک طرف ہو گئے اور ابراہیم اکیلا ایک طرف۔ ابراہیم نے اپنی شلوار کے پائنچے اوپر کیے اور ننگے پاؤں کھیلنے لگا۔وہ گیند کو ایسے شاٹ لگاتا کہ کوئی بھی اس کی گیند کو نہ اٹھا سکتا تھا۔ اس دن بھی ابراہیم بہت زیادہ پوائنٹس کی برتری سے جیت گیا۔
رات کو ہم ابراہیم کے ساتھ مسجد میں گئے۔ نماز کے بعد امام جماعت احکام بیان کرنے لگے۔ جب وہ شرط بندی اور حرام پیسوں کے احکام تک پہنچے تو کہا کہ پیغمبر اکرمﷺ فرماتے ہیں: ’’جو کوئی بھی ناجائز طریقے سے مال کماتا ہے وہ اسے باطل راستے اور سخت حالات میں اپنے ہاتھ سے دھو بیٹھے گا۔‘‘ اور آنحضرتؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’جو حرام کا ایک لقمہ کھائے تو چالیس شب و روز تک اس کی نماز اور دعا قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘
ابراہیم حیرانی سے ساری گفتگو سن رہا تھا۔ اس کے بعد ہم اکٹھے امام جماعت صاحب کے پاس چلے گئے۔ ابراہیم نے ان سےپوچھا: ’’میں نے آج والی بال کے ایک مقابلے میں 500 تومان کی شرط جیتی ہے۔‘‘ اس کے بعد اس نے تمام ماجرا انہیں بتاتے ہوئے کہا: ’’لیکن میں نے یہ پیسے ایک مستحق خاندان کو دے دیے ہیں۔‘‘
امام جماعت صاحب نے فرمایا: ’’آئندہ احتیاط کرنا، کھیلو ضرور مگر شرط نہ باندھو۔‘‘
ایک ہفتہ گزرا تو پھر وہی لوگ آ گئے۔ اس دفعہ وہ اپنے ساتھ زیادہ مضبوط اور ماہر کھلاڑی دوستوں کو لے آئے تھے۔ آتے ہی کہنے لگے: ’’اس دفعہ ایک ہزار تومان کی شرط لگاتے ہیں۔‘‘
ابراہیم نے کہا: ’’میں کھیلوں گا تو سہی، لیکن شرط نہیں باندھوں گا۔‘‘ انہوں نے تمسخر اڑانا شروع کر دیا اور ابراہیم کو جوش دلانےلگے: ’’ڈر گیا۔ اسے معلوم ہے کہ اس دفعہ ہار جائے گا۔‘‘ دوسرا کہنے لگا: ’’اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔۔۔‘‘
ابراہیم نے انہیں جواب دیا: ’’شرط بندی حرام ہے۔ مجھے اگر معلوم ہوتا تو میں پچھلے ہفتے بھی آپ لوگوں کے ساتھ شرط نہ باندھتا۔ تم سے جیتے گئے پیسے بھی میں نے ایک ضرورتمند خاندان کو دے دیے ہیں۔ اگر تم پسند کرو تو بغیر شرط کے میں تمہارے ساتھ کھیلنے کو تیار ہوں۔‘‘ لیکن اتنے تمسخر اور ابراہیم کے سمجھانے کے باوجود بھی مقابلہ نہ ہو سکا۔
*****
اس کا دوست کہتا تھا: ’’اس کے بعد ابراہیم ہمیں بہت نصیحت کرتا تھا کہ ہم شرط نہ باندھیں، مگر اس کے باوجود بھی ہم نے ایک محلہ نازی آباد کے جوانوں کے ساتھ ایک مقابلہ کیا اور بھاری شرط باندھ لی۔ کھیل ختم ہونے کو تھا کہ ابراہیم آ گیا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ ہم شرط باندھ کر کھیل رہے ہیں تو وہ ہم سے کافی ناراض ہو گیا۔‘‘
دوسری طرف ہمارے پاس دینے کے لیے اتنی زیادہ رقم بھی نہیں تھی۔ جب کھیل ختم ہوا تو ابراہیم نے آگے بڑھ کر گیند اٹھا لی اور کہا: ’’کوئی ہے جو آگے آئے اور اکیلا میرے ساتھ کھیلے؟‘‘
نازی آباد کے جوانوں میں سے ح۔ق نامی ایک جوان تھا جو والی بال کی قومی ٹیم کا رُکن اور واپڈا والی بال ٹیم کا کپتان تھا۔ وہ بہت مغرورانہ انداز میں آگے بڑھتے ہوئے کہنے لگا؛ ’’کیا شرط لگاتے ہو؟‘‘
ابراہیم نے کہا: ’’اگر تم شکست کھا گئے تو ان لوگوں سے پیسے نہیں لو گے۔‘‘ اس نے قبول کر لیا۔
ابراہیم نے اتنے اچھے انداز میں کھیل کھیلا کہ ہم سب حیران رہ گئے۔ اس نے کافی زیادہ پوائنٹس سے اپنے حریف کو شکست دے دی۔ لیکن اس کے بعد اس نے شرط بندی کی وجہ سے ہمیں خوب ڈانٹ پلائی۔
*****
والی بال کے علاوہ ابراہیم دوسرے کھیلوں میں بھی کافی مہارت رکھتا تھا۔ وہ کوہ پیمائی میں بھی مکمل کھلاڑی تھا۔ انقلاب کی کامیابی سے تین سال پہلے سے لے کر انقلاب کے ایام تک ہر ہفتے جمعے کی صبح کو اکھاڑے کے چند دوستوں کے ساتھ تہران کے علاقے تجریش چلا جاتا تھا۔ فجر کی نماز امام زادہ صالح کے حرم میں پڑھتے۔ اس کے بعد دوڑتے ہوئے پہاڑ پر چڑھنا شروع ہو کر دیتے۔ وہاں جا کر ناشتہ کرتے اور پھر واپس آ جاتے۔
میں یہ واقعہ کبھی نہیں بھول سکتا۔ ایک دفعہ ابراہیم کشتی کی مشق کر رہا تھا اور اپنی ٹانگوں کو مضبوط کرنا چاہتا تھا تو اس نے دربند چوک سے ایک جوان کو اپنے کندھے پر اٹھایا اور اوپر آبشار دوقلو[1] تک لے گیا۔
دربند اور کولکچال کے علاقے میں ہونے والی یہ کوہ پیمائی انقلاب کی کامیابی تک ہر ہفتے ہوتی تھی۔
ابراہیم فٹ بال بھی بہت اچھا کھیلتا تھا۔ ٹیبل ٹینس میں بھی استاد تھا اور دونوں ہاتھوں میں ریکٹ پکڑ کر کھیلتا تھا۔ اس کھیل میں بھی کوئی اس سے مقابلہ نہیں کر پاتا تھا۔
[1] دوقلو جڑواں کو کہتے ہیں۔ تہران میں موجود یہ جڑواں آبشاریں ’’آبشار دوقلو‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔
کُشتی
[شہیدؒ کے بھائی]
ابراہیم کو کشتی کے کھیل میں آئے ہوئے ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ اپنے دوستوں اور بذات خود حاج حسن کی تجویز پر وہ باقاعدہ طور پر کشتی کے مقابلوں میں حصہ لینے لگا۔
اس نے خراسان چوک کے نزدیک ابومسلم کلب میں داخلہ لے لیا اور 53 کلوگرام کے مقابلوں سے اپنی کشتیوں کا آغاز کیا۔
آغا گودرزی اور آغا محمدی ان دنوں ابراہیم کے بہت اچھے کوچ ہوا کرتے تھے۔ آغا محمدی، ابراہیم کو اس کے اخلاق اور حسن سلوک کی وجہ سے بہت پسند کرتے تھے۔ آغا گودرزی بہت ہی اچھے انداز میں ابراہیم کو فن کشتی کے اسرار و رموز سکھاتے تھے۔
وہ ہمیشہ کہتے تھے: ’’یہ لڑکا بہت ہی نرم خُو ہے، مگر جب کشتی کے لیے اکھاڑے میں اترتا ہے تو اپنے بلند قد اور مضبوط لمبے بازؤوں کے ساتھ ایک چیتے کی طرح حملہ آور ہوتا ہے۔ جب تک وہ کوئی پوائنٹ نہ لے لے حریف کو چھوڑتا نہیں ہے۔‘‘ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ابراہیم کا نام ’’سویا ہوا شیر‘‘ رکھ چھوڑا تھا۔
وہ بارہا کہتے: ’’تم دیکھ لینا، یہ لڑکا ایک دن تمہیں کشتی کے عالمی مقابلوں میں نظر آئے گا۔‘‘
80 کی دہائی میں ابراہیم نے تہران میں ہونے والے چیمپئن شپ کے مقابلوں میں حصہ لیا۔ ان مقابلوں میں اس نے تمام حریفوں کو پوری قوت سے پچھاڑ کر رکھ دیا۔ ابھی اس کی عمر فقط 15 سال ہی تھی جب وہ ایران کے قومی مقابلوں کے لیے منتخب ہو گیا۔
اکتوبر کے آخر میں مقابلوں کا آغاز ہوتا تھا لیکن ابراہیم نے ان مقابلوں میں شرکت نہ کی۔ اس کے کوچ اس سے کافی ناراض ہوئے۔ یہ ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ مقابلوں میں ولی عہد بھی موجود تھا اور انعامات بھی اسی نے تقسیم کرنا تھے۔ اسی وجہ سے ابراہیم نے ان مقابلوں میں حصہ نہ لیا۔
اگلے سال ابراہیم نے مختلف کلبوں کے درمیان ہونے والے چیمپئن شپ کے مقابلوں میں حصہ لیا اور چیمپئن شپ جیت لی۔ اسی سال اس نے تہران کے کلبوں کے درمیان ہونے والے 62کلوگرام کے مقابلوں میں شرکت کی۔
اگلے سال جب اس نے کلبوں کے درمیان ہونے والےمقابلوں میں دیکھا کہ اس کا ایک قریبی دوست 68 کلوگرام کے مقابلوں میں شریک ہے تو ابراہیم نے اس سے اوپر والے درجے یعنی 74 کلوگرام میں حصہ لیا۔
اس سال ابراہیم کی ترقی حیران کن تھی۔ 18 سال کی عمر میں اس نے کلبوں کے درمیان ہونے والے 74 کلو گرام کے مقابلوں میں شرکت کر کے چیمپئن شپ اپنے نام کر لی تھی۔
کشتی میں قُفلی پیچ اور اپنے مضبوط اور لمبے بازؤوں کا بروقت استعمال ابراہیم کا خاص گُر تھا جو اس چیز کا باعث بنا کہ کشتی کے تمام معیارات تبدیل ہو کر رہ گئے۔
*****
ایک دن ابراہیم اپنی کشتی کا سامان لیے علی الصبح ہی گھر سے نکل گیا۔ میں اور میرا بھائی بھی ساتھ ہو لیے۔ وہ جہاں بھی جاتا ہم اس کے پیچھے پیچھے ہوتے۔ یہاں تک کہ وہ موجودہ ہفتِ تیر ہال میں داخل ہو گیا۔ہم بھی ہال میں داخل ہو گئے اور جا کر تماشائیوں میں بیٹھ گئے۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد کشتی کے مقابلے شروع ہو گئے۔
اس دن ابراہیم نے کئی مقابلوں میں حصہ لیا اور سبھی میں جیت گیا۔ اچانک اس کی نظر ہم پر پڑ گئی۔ ہم تماشائیوں میں بیٹھے اس کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ وہ غصے سے ہماری طرف آیا اور کہنے لگا: ’’تم لوگ یہاں کیوں آئے؟‘‘
ہم نے کہا: ’’ایسے ہی، تمہارے پیچھے آئے تھے، یہ دیکھنے کے لیے کہ تم کہاں جاتے ہو۔‘‘
اس نے کہا: ’’کیا مطلب؟! یہ جگہ تمہارے لائق نہیں ہے۔ جلدی اٹھو، گھر چلیں۔‘‘
میں نے حیران ہو کر پوچھا: ’’مگر ہوا کیا ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا: ’’تمہیں یہاں نہیں ٹھہرنا چاہیے، اٹھو، اٹھو گھر چلیں۔‘‘
اس کی باتوں کے دوران ہی لاؤڈ سپیکر سے اعلان ہوا: ’’سیمی فائنل وزن 74 کلو گرام، آغا ہادی اور آغا تہرانی۔‘‘
ابراہیم نے ایک دفعہ کشتی کے فرش (Wrestling Mat) کی طرف دیکھا اور ایک دفعہ ہمیں اور پھر کچھ دیر خاموش رہ کر فرش کی طرف چلا گیا۔ ہم بھی پورے زور و شور سے چلّا کر اس کی حوصلہ افزائی کرنے لگے۔
ابراہیم کا کوچ مسلسل چلّا چلّا کر اسے بتا رہا تھا کہ کیا کرے، لیکن ابراہیم فقط دفاع کر رہا تھا۔ کنکھیوں سے ہماری طرف بھی دیکھ رہا تھا۔ کوچ کافی غصے میں ہو کر چیخ رہا تھا: ’’ابرام، کشتی کیوں نہیں لڑ رہے؟ مارو اسے۔‘‘
ابراہیم نے ایک خوبصورت پینترا بدل کر ایسا داؤ لگایا کہ حریف کو زمین سے اٹھایا اور ایک چکر کاٹ کر اسے زور سے فرش پر پٹخ دیا۔ ابھی کشتی ختم نہ ہوئی تھی کہ وہ فرش سے نیچے اتر آیا۔
اس دن اسے ہم پر بہت غصہ آیا ہوا تھا۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ ہمارے پیچھا کرنے کی وجہ سے غصے میں ہے۔ واپسی پر باتوں کے دوران اس نے کہا: ’’انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے بدن کو مضبوط کرنے کے لیے کھیلے نہ کہ چیمپئن بننے کےلیے۔ میں بھی اگر ان مقابلوں میں شرکت کرتا ہوں تو وہ فقط اور فقط اس لیے کہ مختلف قسم کے فنون کو سیکھ سکوں۔ اس کے علاوہ میرا اور کوئی مقصد نہیں ہوتا۔‘‘
میں نے کہا: ’’لیکن اس میں برائی ہی کیا ہے کہ انسان چیمپئن بن جائے اور مشہور ہو جائے کہ سارے لوگ اس جانتے ہوں۔‘‘
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہنے لگا: ’’مشہور ہونے کا ظرف ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ مشہور ہونے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ انسان، حقیقی انسان بن جائے۔‘‘
اس روز ابراہیم فائنل میں پہنچ گیا۔ لیکن آخری مقابلے سے پہلے ہی وہ ہمارے ساتھ گھر واپس آ گیا۔ اس طرح اس نے عملی طور پر ثابت کر دیا کہ رتبہ و مقام اس کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ ابراہیم ہمیشہ امام خمینیؒ کا یہ جملہ دہراتا تھا: ’’کھیل زندگی کا مقصد نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
چیمپئن
[حسین اللہ کرم]
کلبوں کے درمیان ہونے والی 74 کلوگرام چیمپئن شپ کے مقابلے تھے۔ ابراہیم نے اپنے تمام حریفوں کو یکے بعد دیگرے شکست دے کر سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر لی تھی۔ اس سال اس نے مقابلوں کے لیے کافی مشق کی تھی۔ اکثر حریفوں کو تو اس نے چند ہی راؤنڈز میں پچھاڑ ڈالا تھا۔
اگر وہ یہ مقابلہ جیت جاتا تو حتماً فائنل میں جا کر چیمپئن شپ اپنے نام کر سکتا تھا، مگر سیمی فائنل میں اس نے بہت بری کشتی کھیلی۔ بالآخر ایک پوائنٹ سے وہ کشتی ہار گیا۔
اس سال ابراہیم نے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی، لیکن کئی سال بعد وہی جوان جو سیمی فائنل میں ابراہیم کا حریف تھا، اس سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ ابراہیم سے ملنے کے لیے آیا ہوا تھا۔
وہ ابراہیم کے ساتھ گزرے ہوئے اپنے لمحات کا ذکر کر رہا تھا۔ ہم سب غور سے سن رہے تھے۔ باتیں کرتے کرتے وہ ابراہیم کے ساتھ اپنے تعارف کے تذکرے تک پہنچ گیا: ’’ہماری آشنائی کلبوں کے درمیان 74 کلوگرام چیمپئن شپ کے مقابلوں میں سیمی فائنل کے دوران ہوئی تھی۔ طے پایا تھا کہ میرا مقابلہ ابراہیم سے ہونا ہے۔‘‘
وہ جب بھی اس واقعے کو تفصیل سے بیان کرنا چاہتا تو ابراہیم آڑے آ جاتا اور بحث کا رخ پھیر دیتا۔ آخر کار اس نے اسے وہ ماجرا بیان نہ کرنے دیا۔ اگلے ر وز میں اس جوان سے ملا اور کہا: ’’کیا ہو سکتا ہے کہ آپ اپنی کشتی کا سارا واقعہ مجھے سنائیں۔‘‘
اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے ایک گہرا سانس لیا: ’’اس سال میں سیمی فائنل میں ابراہیم کا حریف ٹھہرا تھا لیکن میری ایک ٹانگ میں سخت تکلیف تھی۔ میں اس وقت تک ابراہیم کو نہیں پہچانتا تھا۔ میں نے اسے کہا: ’’دوست، میری یہ ٹانگ زخمی ہے، ذرا دھیان رکھنا۔‘‘
ابراہیم نے بھی جواباً کہا: ’’ٹھیک ہے بھائی، خاطر جمع رکھو۔‘‘
’’میں نے اس کی کشتیاں دیکھ رکھی تھیں۔ وہ کشتی میں استاد تھا۔ اگرچہ کشتی کے دوران ابراہیم کی اصل تکنیک ہی یہی تھی کہ وہ ٹانگ پر قفلی لگا کر حریف کو پچھاڑتا تھا، لیکن اس کے باوجود اس نے اس روز میری ٹانگ کو چھوا تک نہیں۔ لیکن میں نے نامردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے زمین پر دے مارا اور خوشی خوشی فائنل میں پہنچ گیا۔ ابراہیم انتہائی آسانی سے مجھے شکست دے کر چیمپئن بن سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہ کیا۔‘‘
اس کے بعد اس نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’لیکن میرا خیال ہے کہ ابراہیم نے جان بوجھ کر ایسا کیا تھا تا کہ میں جیت جاؤں۔ وہ اپنی شکست سے پریشان بھی نہیں تھا کیونکہ اس کے نزدیک چیمپئن شپ کی تعریف ہی کچھ اور تھی۔ لیکن میں کافی خوش تھا۔ میری خوشی کی زیادہ وجہ یہ تھی کہ فائنل میں میرا حریف ہمارے اپنے ہی علاقے کا ایک جوان تھا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ سارے کھلاڑی ہی بھائی ابرام جیسی معرفت اور اخلاق کے مالک ہیں۔ لیکن فائنل میں بھی حالانکہ میں نے مقابلہ شروع ہونے سے پہلے اپنے حریف سے یہی کہا تھا کہ میری ٹانگ زخمی ہے مگر اس نے مقابلے کے پہلے جھٹکے ہی میں میری اسی زخمی ٹانگ کو پکڑ لیا۔ میں درد سے بلبلا اٹھا۔ اس کے بعد اس نے مجھے زمین پر دے پٹخا اور بالآخر میں فائنل ہار گیا۔ اس سال میری دوسری پوزیشن آئی جبکہ ابراہیم کی تیسری، مگر مجھے پورا یقین تھا کہ چیمپئن شپ کا اصل حقدار ابراہیم تھا۔ وہ دن اور آج کا دن، میری اس کے ساتھ دوستی ہے۔ میں نے اس میں کچھ عجیب چیزوں کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔ خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ایسا دوست مجھے عطا کیا۔‘‘
اس کی بات ختم ہوئی تو وہ خدا حافظ کہہ کر چلا گیا۔ میں بھی واپس آ گیا اور سارے راستے اسی کی باتوں کے بارے میں سوچتا رہا۔
مجھے یاد آ گیا کہ گیلان غرب کی چھاؤنی میں ایک دیوار پر ہر مجاہد کے بارے میں ایک جملہ لکھا ہوا تھا۔ ابراہیم کے بارے میں وہاں تحریر تھا:
’’ابراہیم ہادی، پوریائی ولی[1] جیسی خصوصیات کا حامل مجاہد۔‘‘
[1] پوریائی ولی، ایران کا نویں صدی ہجری کا مشہور پہلوان جو نہ صرف مایہ ناز اور بہادر پہلوان تھا بلکہ اپنے حسن اخلاق اور عرفانی کمالات کی وجہ سے بھی عوام الناس میں کافی شہرت کا حامل تھا۔ ایرانی پہلوان، اسے فن پہلوانی کے استادِ اعظم کے علاوہ اپنا روحانی مرشد بھی تسلیم کرتے ہیں۔
پوریائی ولی
[ایرج گرائی]
1976 کا سال تھا۔ کلبوں کے درمیان چیمپئن شپ کے مقابلے ہو رہے تھے۔ فائنل میں جیتنے والے کو نقد انعام کے ساتھ ساتھ قومی ٹیم کا حصہ بھی بنا دیا جاتا تھا۔ ابراہیم کی تیاریاں اپنے عروج پر تھیں۔ جو کوئی اس کا ایک مقابلہ بھی دیکھ لیتا تو وہ اس بات کی تائید کرتا۔ کوچ کہہ رہے تھے کہ اس سال 74 کلوگرام کے مقابلوں میں ابراہیم کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکے گا۔
مقابلوں کا آغاز ہو گیا۔ ابراہیم ایک ایک کر کے سب کو پچھاڑتا جا رہا تھا۔ چار کشتیوں کے بعد وہ سیمی فائنل میں پہنچ گیا۔ کشتی میں وہ حریف کو یا تو چاروں شانے چِت کر دیتا یا کافی زیادہ پوائنٹس کی برتری سے مقابلہ جیت لیتا۔
میں نے اپنے دوستوں سے کہہ رکھا تھا: ’’خاطر جمع رکھو۔ اس دفعہ ہمارے کلب سے ایک پہلوان قومی ٹیم کا حصہ بننے جا رہا ہے۔‘‘
سیمی فائنل میں اگرچہ اس کا حریف ایک جانا مانا اور منجھا ہوا پہلوان تھا لیکن ابراہیم نے اسے شکست دے دی اور فاتحانہ انداز میں فائنل میں پہنچ گیا۔
فائنل میں اس کا مقابلہ آغا محمود۔ ک سے تھا۔ اس نے اسی سال بین الاقوامی فوجی چیمپئن شپ کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔
فائنل مقابلہ شروع ہونے سے پہلے میں ابراہیم کے پاس اس کے ڈریسنگ روم میں گیا اور اس سے کہا: ’’میں نے تمہارے حریف کے مقابلے دیکھے ہیں۔ وہ کافی اناڑی ہے۔ فقط ابرام جان، خدا کے لیے خیال رکھنا۔ صحیح طریقے سے کشتی لڑنا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اس بار قومی ٹیم کے لیے تمہارا ہی انتخاب ہو گا۔‘‘
کوچ اپنی آخری ہدایات ابراہیم کے گوش گزار کر رہا تھا جبکہ ابراہیم اپنے جوتوں کے تسمے باندھ رہا تھا۔ اس کے بعد وہ اکٹھے کشتی کے فرش (Wrestling Mat) کی طرف چلے گئے۔
میں جلدی سے تماشائیوں میں جا کر بیٹھ گیا۔ ابراہیم کشتی کے فرش پر پہنچا۔ اس کا حریف بھی پہنچ گیا۔ ریفری ابھی تک نہیں پہنچا تھا۔ ابراہیم نے آگے بڑھ کر اپنے حریف کو مسکراتے ہوئے سلام اور مصافحہ کیا۔
اس کے حریف نے کچھ کہا جسے میں نہ سمجھ سکا، لیکن ابراہیم نے تائید کے انداز میں سر ہلایا۔ پھر حریف نے ہال میں بیٹھے تماشائیوں میں ایک جگہ اشارہ کرتے ہوئے اسے کچھ دکھایا۔ جب میں نے بھی وہاں دیکھا تو وہاں ایک معمر خاتون دکھائی دی جو تسبیح ہاتھ میں لیے ایک اونچی جگہ پر بیٹھی تھی۔
میں سمجھ نہ سکا کہ اس نے کیا کہا اور کیا ہوا، لیکن ابراہیم نے بہت ہی برے انداز میں کشتی کا آغاز کیا۔ فقط دفاع کر رہا تھا۔ ابراہیم کا کوچ بے چارہ اس کی رہنمائی کرتے ہوئے اس قدر چیخ رہا تھا کہ اس کا گلا بیٹھ گیا۔ یوں معلوم ہو رہا تھا کہ ابراہیم اپنے کوچ حتی کہ میری چیخ و پکار بھی نہیں سن رہا۔ وہ فقط وقت ضائع کر رہا تھا۔
ابراہیم کا حریف اگرچہ شروع میں کافی خوفزدہ تھا مگر اب آہستہ آہستہ اس میں جرأت پیدا ہو گئی تھی۔ وہ مسلسل وار کر رہا تھا جبکہ ابراہیم پوری متانت سے فقط دفاع میں مشغول تھا۔
ریفری نے ابراہیم کو ایک دفعہ وارننگ دی، پھر دوسری اور پھر آخر میں تیسری وارننگ دے دی۔ تیسری وارننگ کے ساتھ ہی ابراہیم مقابلہ ہار گیا اور اس کا حریف 74 کلوگرام مقابلوں کا چیمپئن بن گیا۔
جب ریفری حریف کا ہاتھ بلند کر رہا تھا تو ابراہیم خوش ہو رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ چیمپئن وہ بنا ہے۔ اس کے بعد دونوں پہلوان ایک دوسرے کے گلے ملے۔
ابراہیم کے حریف نے خوشی سے روتے روتے جھک کر اس کے ہاتھ پر بوسہ دیا۔ اب دونوں پہلوان ہال سے باہر نکل رہے تھے۔ میں چبوترے سے نیچے کودا اور غصے سے بھرا ہوا ابراہیم کی طرف آ گیا۔
میں نے چلّا کر کہا: ’’بے وقوف کہیں کے، یہ کیسی کشتی تھی؟‘‘ اس کے بعد میں نے ابراہیم کے بازو پر زور سے مکّا مارتے ہوئے کہا: ’’اگر تم کشتی نہیں لڑنا چاہتے تو بتا دو۔ ہمارا وقت تو ضائع نہ کرو۔‘‘
ابراہیم نے پرسکون انداز میں ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے کہا:’’اتنی لالچ نہ کیا کرو۔‘‘
اس کے بعد وہ جلدی سے ڈریسنگ روم میں گیا، اپنے کپڑے پہنے اور سر نیچے کر کے چلا گیا۔
میں غصے سے دروازے اور دیوار پر گھونسے برسانے لگا۔ اس کے بعد ایک جگہ بیٹھ گیا۔جب تھوڑی دیر گزر گئی اور میرا غصہ ٹھنڈا ہو گیا تو میں اٹھ کر جانے لگا۔
کلب کے دروازے پر ابھی ہجوم تھا۔ وہی ابراہیم کا حریف اپنی ماں اور سارے رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ وہ لوگ بہت خوش تھے۔ اچانک اس نے مجھے بلایا۔ میں نے پلٹ کر غصے سے پوچھا: ’’کیا ہے؟‘‘ وہ میرے پاس آ گیا: ’’آپ آغا ابرام کے دوست ہیں نا؟‘‘ میں نے پھر غصے سے کہا: ’’جی، فرمائیے!‘‘
اس نے بے ساختہ کہا: ’’تمہارا دوست بہت ہی اچھا ہے۔ میں نے مقابلہ شروع ہونے سے پہلے آغا ابرام سے کہا کہ میں یقیناً تم سے جیت تو نہیں سکتا مگر میرا خیال رکھنا۔ میری ماں اور بھائی ہال کے اُوپری حصے میں بیٹھے ہیں۔ ہمیں شرمندہ نہ ہونے دینا۔‘‘
اس کے بعد اس شخص نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’تمہارے دوست نے تو دریا دلی کی حد ہی کر دی۔ تم نہیں جانتےکہ میری ماں کتنی خوش ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ شخص رونے لگا: ’’میں نے ابھی ابھی شادی کی ہے۔ مقابلے سے ملنے والے نقد انعام کی بہت سخت ضرورت تھی۔ تم نہیں جانتے، میں کتنا خوش ہوں آج۔‘‘
میں دم سادھے کھڑا تھا۔ میرے پاس کچھ کہنے کو رہا نہیں تھا۔ تھوڑی دیر خاموش رہا اور اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔ سارا ماجرا تو مجھے اب سمجھ میں آیا تھا۔ میں نے اس سے کہا: ’’دوست، اگر میں ابراہیم بھائی کی جگہ پر ہوتا تو اتنی زیادہ مشقتوں اور مشقوں کے بعد ایسا کام تو ہرگز نہ کرتا۔ ایسے کام ابرام ہی جیسے عظیم لوگوں کے کرنے کے ہوتے ہیں۔‘‘
میں نے اسے خداحافظ کہا۔ کنکھیوں سے اس خوش باش اور ہنستی مسکراتی بڑھیا کو دیکھا اور چل پڑا۔ راستے میں ابراہیم کے کام کے بارے میں چتا رہا۔اس طرح آسانی سے ایسا کام انجام دے دینے کے بارے میں ایک عام عقل سوچ بھی نہیں سکتی۔‘‘
میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ پوریائی ولی کو جب معلوم ہوا کہ اس کے حریف کو مقابلہ جیتنے کی بہت زیادہ احتیاج ہے اور حاکم شہر انہیں تنگ کر رہا ہے تو اس نے اپنے حریف کو مقابلہ جتوا دیا۔ لیکن ابراہیم۔۔۔۔۔
مجھے وہ محنتیں اور سخت مشقیں یاد آنے لگیں جن سے اس مدت میں ابراہیم گزرا تھا اور پھر اس بڑھیا کی ہنسی اور اس جوان کی خوشی جیسے ہی یاد آئی تو میں یکدم رونے لگا ۔ عجیب آدمی ہے یہ ابراہیم بھی!!
نفس کشی
[شہیدؒ کے بعض دوست]
تہران میں شدید بارش ہوئی تھی اور 17 شہریور روڈ پانی میں ڈوب گیا تھا۔ کچھ بوڑھے مرد روڈ کی ایک طرف کھڑے تھے اور دوسری طرف جانے کے جتن کر رہے تھے۔ اسی وقت ابراہیم بھی وہاں پہنچ گیا۔ اس نے اپنی شلوار کے پائنچوں کو اوپر چڑھایا۔ ان بوڑھوں کو کندھوں پر اٹھایا اور انہیں روڈ کی دوسری طرف پہنچا دیا۔
ابراہیم اکثر ایسے کام کرتا رہتا تھا۔ ایسے کاموں سے نفس کشی کے علاوہ اس کا اور کوئی مقصد نہیں ہوتا تھا۔ بالخصوص اس زمانے میں تو وہ اور بھی زیادہ ایسے کام انجام دیتا تھا جب وہ جوانوں میں کافی مشہور ہو چکا تھا۔
*****
گرمیوں کی ایک سہ پہر تھی۔ ہم ابراہیم کے ساتھ کہیں جا رہے تھے۔ ایک گلی کے سامنے پہنچے جہاں کچھ لڑکے فٹ بال کھیل رہے تھے۔ جیسے ہی ہم وہاں سے گزرے تو ایک لڑکے نے زور سے فٹ بال کو کک لگائی اور گیند سیدھی ابراہیم کے منہ پر آ کر لگی۔ ضرب اتنی شدید تھی کہ ابراہیم فوراً زمین پر بیٹھ گیا۔ اس کا چہرہ شدید سرخ ہو چکا تھا۔
مجھے بہت غصہ آیا۔ میں نے لڑکوں کی طرف دیکھا تو وہ ہمارے ہاتھوں پٹائی سے بچنے کے لیے بھاگنے ہی والے تھے کہ ابراہیم نے وہیں بیٹھے بیٹھے اپنی کِٹ میں ہاتھ ڈالا اور اخروٹوں کا ایک پیکٹ باہر نکال کر لڑکوں کو آواز دی: ’’کہاں چلے؟ ادھر آؤ، اخروٹ لے لو۔‘‘
اس کے بعد اس نے پیکٹ کو گول نیٹ کے پاس رکھااور پھر ہم چل دیے۔
راستے میں میں نے حیران ہو کر اس سے پوچھا: ’’ابرام بھائی، یہ تم نے کیا؟‘‘
کہنے لگا: ’’وہ بے چارے ڈر گئے تھے۔ جان بوجھ کر تو انہوں نے نہیں مارا تھا۔‘‘
اس کے بعد اس نے بات کا رخ بدلا اور جہاں سے ہمارا سلسلہ گفتگو منقطع ہوا تھا وہیں سے آگے ہم باتیں کرنے لگے۔ لیکن میں جانتا تھا کہ عظیم لوگ اپنی زندگی میں ایسے ہی کام کرتے رہتے ہیں۔
*****
ہم کشتی کلب میں تھے اور مشق کےلیے آمادہ ہو رہے تھے کہ ابراہیم داخل ہوا۔ کچھ دیر بعد ایک اور دوست بھی آ گیا۔ وہ آتے ہی کہنے لگا: ’’ابرام جان، تمہاری شکل و صورت اور قدو قامت بہت دلکش ہے۔ آج جب تم آ رہے تھے تو دو لڑکیاں بھی تمہارے پیچھے پیچھے تھیں اور تمہارے ہی بارے میں مسلسل باتیں کیے جا رہی تھیں۔‘‘ اس کے بعد اس نے کہا: ’’تم نے خوبصورت پینٹ شرٹ پہن رکھی تھی اور سپورٹس کٹ بھی تمہارے ہاتھ میں تھی۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ تم کھلاڑی ہو۔‘‘
میں نے ابراہیم کی طرف دیکھا۔ وہ کسی سوچ میں پڑ گیا تھا اور کافی بے چین لگ رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اسے ایسی باتوں کی توقع ہی نہیں تھی۔
اگلی بار جب میں مشق کے لیے گیا تو ابراہیم کو دیکھتے ہی میری ہنسی نکل گئی۔ اس نے لمبی قمیص اور کھلی شلوار پہن رکھی تھی اور کھیل کے کپڑے کٹ کی بجائے پلاسٹک کے ایک تھیلے میں ڈال رکھے تھے۔ اس دن کے بعد وہ ہمیشہ اسی ہیئت میں کلب میں آیا کرتا تھا۔
سب دوست اسے کہتے: ’’یار، تم بھی عجیب انسان ہو! ہم کلب میں اس لیے آتے ہیں تاکہ ہماری بدن کسرتی ہو جائے اور اس کے بعد ہم تنگ قمیصیں پہن سکیں مگر تم اتنے بھرے ہوئے اور خوبصورت جسم کے ساتھ اس قسم کا عجیب سا لباس پہن کر آ جاتے ہو؟!‘‘
ابراہیم ان کی باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا۔
وہ اپنے دوستوں کو نصیحت کرتا رہتا کہ اگر کھیل خدا کے لیے ہو تو عبادت ہے لیکن اگر اس کے علاوہ اور کوئی نیت ہو تو تم خسارے میں رہو گے۔
*****
ہم میدان میں فٹ بال کھیل رہے تھے۔ اچانک ابراہیم پر نظر پڑی جو ایک چبوترے کے پاس کھڑا تھا۔ میں جلدی سے اس کے پاس گیا۔ اسے سلام کیا اور خوشی سے کہا: ’’عجب، تم یہاں کہاں؟‘‘
اس کے ہاتھ میں ایک رسالہ تھا۔ اس نے اٹھا کر کہا: ’’تمہاری تصویر چھپی ہے۔‘‘
میں خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر رسالہ اس کے ہاتھ سے لینا چاہا۔ اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور کہا: ’’ایک شرط پر دوں گا۔‘‘
میں نے کہا: ’’جو کہو، قبول ہے۔‘‘
اس نے دوبارہ پوچھا: ’’جو کچھ کہوں گا، تم مانو گے؟‘‘
میں نے کہا: ’’ہاں یار، مانوں گا۔‘‘
اس نے مجلہ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ درمیان والے صفحے پر میرے پوری بڑی تصویر چھپی ہوئی تھی، جس کے ساتھ لکھا تھا: ’’جوانوں کے فٹ بال کا جدیدچہرہ‘‘ اور میری تعریفوں کی ڈھیر لگے ہوئے تھے۔
میں وہیں چبوترے کے پاس بیٹھ گیا اور صفحے کے متن کو دوبارہ پڑھنے لگا اور اچھی طرح اسے کھنگال ڈالا۔ اس کے بعد سر اٹھا کر ابراہیم سےکہا: ’’تمہارا بہت بہت شکریہ، ابرام جان۔ تم نے مجھے بہت خوش کیا۔ اب بتاؤ، تمہاری شرط کیا تھی؟‘‘
اس نے آہستہ سے پوچھا: ’’جو شرط بھی ہو، تسلیم کرو گے؟‘‘
میں نے کہا: ’’ہاں، میرے بھائی۔‘‘
تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بولا: ’’تم آئندہ سے فٹ بال مت کھیلو!‘‘
میں بھونچکا رہ گیا اور حیرت سے دیدے پھاڑے اس کی طرف دیکھنے لگا: ’’کیا مطلب، میں آئندہ فٹ بال نہ کھیلوں؟! ابھی ابھی تو میں مشہور ہو رہا ہوں!‘‘
اس نے کہا: ’’میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم اصلاً فٹ بال کھیلنا ہی چھوڑ دو۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ پیشہ ورانہ فٹ بال میں مت جانا۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’کیوں؟‘‘
اس نے آگے بڑھ کر مجلہ میرے ہاتھ سے لے لیا۔ میری تصویر پر ہاتھ رکھ کر مجھے دکھاتے ہوئے کہنے لگا: ’’اس رنگین تصویر کو دیکھو۔ یہاں تمہاری تصویر سپورٹس شرٹ میں ہے۔ یہ مجلّہ فقط میرے اور تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ سب لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ بہت سی لڑکیاں بھی ممکن ہے اسے دیکھ چکی ہوں، یا دیکھیں گی۔‘‘ اس کے بعد اس نے کہا: ’’تم چونکہ ایک متدین جوان ہو اور مسجد سے تعلق رکھتے ہو اس وجہ سے میں تمہیں یہ بات کہہ رہا ہوں ورنہ مجھے تم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ تم پہلے اپنے اعتقادات کو مضبوط کرو اس کے بعد پیشہ ورانہ فٹ بال میں جاؤ تا کہ تمہیں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔‘‘
اس کے بعد کہنے لگا: ’’مجھے کچھ کام ہے۔‘‘ اور خداحافظ کہہ کر چلا گیا۔
میں اپنی جگہ سے ہل کر رہ گیا تھا۔ بیٹھ کر اس کی ساری باتوں پر غور کرنے لگا۔
وہ انسان جو ہمیشہ مذاق کرتا رہتا تھا اور عوامی باتیں کیا کرتا تھا، اس سے ایسی باتوں کی توقع نہیں تھی۔ ہرچند کہ بعد میں مجھے اس کی تمام باتیں سمجھ آ گئی تھیں، جب میں دیکھتا تھا کہ مسجد میں آنے جانے والے بعض جوان اور نمازی جو پختہ عقائد کے مالک نہ تھے، جب پیشہ ورانہ فٹ بال میں داخل ہوئے تو ماحول کا رنگ اپناتے ہوئے نماز تک سے دور ہو گئے۔
یداللہ
[سید ابوالفضل کاظمی]
ابراہیم بازار کی ایک دکان میں کام کیا کرتا تھا۔ ایک دن میں نے اسے بہت ہی عجیب حالت میں دیکھا اور حیران رہ گیا۔ اس نے سامان کے دو بڑے کارٹن کندھے پر اٹھا رکھے تھے۔ ایک دکان کے سامنے اس نے یہ کارٹن رکھے۔ جب اس کا لین دین ختم ہو گیا تو میں نے آگے بڑھ کر اسے سلام کیا۔ اس کے بعد اس سے کہا: ’’ابرام بھائی، تمہارے لیے یہ مناسب نہیں ہے۔ یہ قلیوں کا کام ہے نہ کہ تمہارا۔‘‘
اس نے میری طرف دیکھ کر کہا: ’’کام کرنا تو کوئی عیب نہیں ہے بلکہ بے کار رہنا بری بات ہے۔ یہ کام جو میں انجام دیتا ہوں میرے لیے بہت ہی مناسب ہے۔ اس سے مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں۔ اس طریقے سے میرا غرور مر جاتا ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’اگر کوئی تمہیں اس حالت میں دیکھ لے تو اچھا نہیں لگے گا۔ تم کھلاڑی ہو۔ بہت سے لوگ تمہیں جانتے ہیں۔‘‘
ابراہیم نے ہنس کر کہا: ’’او یار! ہمیشہ ایسا کام کرو کہ اگر خدا تمہیں دیکھے تو اسے ا چھا لگے نہ کہ لوگ۔‘‘
*****
ہم کچھ دوست اکٹھے بیٹھے ابراہیم کی باتیں کر رہے تھے۔ایک دوست جو اسے نہ جانتا تھا، اس نے میرے ہاتھ سے اس کی تصویر لے کر دیکھی اور پھر حیران ہو کر پوچھا: ’’تمہیں پورا یقین ہے کہ اس کا نام ابراہیم ہے؟!‘‘
میں نے بھی حیران ہو کر کہا: ’’ہاں، یہی ہے۔ کیوں؟‘‘
کہنے لگا: ’’بازارِ سلطانی میں میری دکان ہوتی تھی۔ ابراہیم ہفتے میں دو دن بازار میں آ کر کھڑا ہو جاتا۔ کندھے پر ایک تھیلا لٹکائے بوجھ ڈھوتا رہتا۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا: ’’تمہارا نام کیا ہے؟ ‘‘ تو اس نے کہا: ’’مجھے یداللہ بلا لیا کریں۔‘‘ کچھ دن بعد اس کا ایک دوست وہاں آیا ہوا تھا۔ اس نے اسے دیکھا تو وہ حیرت سے کچھ کہنے لگا: ’’تم اسےجانتے ہو؟‘‘ میں نے کہا: ’’نہیں، بات کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا: ’’یہ والی بال اور کشتی کا چیمپئن ہے۔ بہت متقی انسان ہے۔ یہ فقط اپنے نفس کو مارنے کے لیے ایسے کام کرتا رہتا ہے۔ تمہیں یہ بھی بتا دوں کہ یہ بہت عظیم انسان ہے۔‘‘ اس کے بعد میں نے پھر کبھی ابراہیم کو بازار میں نہ دیکھا۔‘‘
اس دوست کی باتوں نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ یہ واقعہ میرے لیے بہت عجیب تھا۔ نفس سے ایسے جنگ کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
*****
کافی عرصہ بعد ایک پرانے دوست سے ملاقات ہوئی۔ ہم ابراہیم کی باتیں کرنے لگے۔ دوران گفتگو اس نے کہا: ’’انقلاب سے پہلے ایک دن ظہر کے وقت ابرام ہمارے پاس آیا۔ مجھے، میرے بھائی اور دو اور دوستوں کو ایک ریستوران میں لے گیا اور چلو کباب[1]، بہترین کھانا، سلاد اور کولڈ ڈرنک کا آرڈر دیا۔ ‘‘
کھانا کافی مزیدار تھا۔ اس دن تک میں نے ایسا کھانا کبھی نہ کھایا تھا۔کھانے کے بعد ابراہیم نے پوچھا: ’’کھانا کیسا تھا؟‘‘
میں نے کہا: ’’بہت ہی اعلیٰ اور مزیدار۔ تمہارا بہت بہت شکریہ۔‘‘ اس نے کہا: ’’میں آج صبح سے بازار میں بوجھ ڈھوتا رہا ہوں۔ کھانے کی یہ لذت اس تکلیف کی وجہ سے ہے جو میں نے اس کے پیسے حاصل کرنے کے لیے اٹھائی ہے۔‘‘
[1] ایک ایرانی کھانا جو چاول اور گوشت کو ملا کر پکاتے ہیں۔ البتہ یہ پاکستانی یا ہندوستانی بریانی سے کافی مختلف ہے۔
آغا مجتہدی کا مدرسہ
[ایرج گرائی]
انقلاب سے پہلے کے آخری سال تھے۔ بازار میں جانے کے علاوہ ابراہیم کوئی اور کام بھی کرتا تھا۔ نہ تو اس بارے میں کوئی جانتا تھا اور نہ ہی کبھی ابراہیم اس بارے میں کچھ بتاتا تھا لیکن اس کا رویہ اور چال چلن مکمل طور پر تبدیل ہو چکا تھا۔
وہ پہلے سے زیادہ روحانی ہوتا جا رہا تھا۔ صبح کے وقت پلاسٹک کا ایک کالاشاپنگ بیگ اس کے ہاتھ میں ہوتا اور وہ بازار کی طرف جا رہا ہوتا۔ اس میں اس نے کچھ کتابیں رکھی ہوتیں۔
ایک دن میں اپنی موٹرسائیکل پر بیٹھا سڑک سے گزر رہا تھا کہ ابراہیم پر نظر پڑ گئی۔ میں نے پوچھا: ’’ابراہیم بھائی، کہاں جا رہے ہو؟‘‘
اس نے کہا: ’’بازار جا رہا ہوں۔‘‘
میں نے اسے بٹھا لیا اور راستے میں پوچھا: ’’کچھ دنوں سے میں تمہارے ہاتھ میں یہ کالا شاپنگ بیگ دیکھ رہا ہوں۔ اس میں کیا ہے؟‘‘
کہنے لگا: ’’کچھ نہیں، کتابیں ہیں۔‘‘
گلی نائب السلطنۃ کی نکڑ پر وہ اتر گیا اور خدا حافظ کہہ کر چل دیا۔ مجھے حیرانی ہوئی۔ ابراہیم یہاں تو کام نہیں کرتا تھا۔ پھر کہاں چلا گیا؟
میں تجسس کے مارے اس کا تعاقب کرنے لگا۔ وہ چلتے چلتے ایک مسجد میں داخل ہو گیا اور وہاں بیٹھے جوانوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنی کتاب کھول لی۔
میں سمجھ گیا کہ وہ دینی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ میں مسجد سے باہر آ گیا اور وہاں سے گزرنے والے ایک بوڑھے آدمی سے پوچھا: ’’معاف کیجیے گا، اس مسجد کا نام کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا: ’’مدرسہ حاج آغا مجتہدی۔‘‘
میں نے تعجب سے دائیں بائیں دیکھا۔ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ابراہیم طالب علم ہو گیا ہے۔
وہاں دیوار پر پیغمبر اکرمﷺ کی ایک حدیث لکھی ہوئی تھی: ’’آسمان، زمین اور فرشتے روز و شب تین قسم کے لوگوں کے لیے دعاء مغفرت کرتے ہیں: علماء، طلاب، سخاوت مند۔[1]‘‘
رات کو اکھاڑے سے نکلتے نکلتے میں نے ابراہیم سے کہا: ’’ابراہیم بھائی، مدرسے جاتے ہو اور ہمیں کچھ بتاتے نہیں ہو؟‘‘
اس نے حیرت سے پلٹ کرمجھے دیکھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ میں نے کل اس کا تعاقب کیا تھا۔ اس نے بہت آہستہ سی آواز میں کہا: ’’بہت ہی بری بات ہے کہ انسان اپنی زندگی کو فقط کھانے پینے اور سونے میں گزار دے۔ میں باقاعدہ طور پر تو طالب علم نہیں ہوا ہوں، فقط وہاں سے استفادہ کرنے کی غرض سے جاتا ہوں۔ سہ پہر کے وقت بھی بازار میں جاتا ہوں، لیکن ابھی کسی کو یہ بات بتانا مت۔‘‘
انقلاب کی کامیابی کے زمانے تک ابراہیم کا یہی معمول تھا۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد اس کی مصروفیات اس قدر بڑھ گئیں کہ وہ اپنے پہلے کے کاموں کو جاری نہ رکھ سکا۔
[1] المواعظ العددیۃ، ص111
الٰہی پیوند
[رضا ہادی]
ایک روز سہ پہر کے وقت ابراہیم اپنے کام سے گھر کو لوٹ رہا تھا۔ جب وہ گلی میں داخل ہوا تو اچانک اس کی نظر اپنے ایک ہمسایہ لڑکے پر پڑی جو ایک جوان لڑکی سے باتیں کرنے میں مشغول تھا۔ لڑکے نے جیسے ہی ابراہیم کو دیکھا، فوراً لڑکی کو خداحافظ کہا اور رفوچکر ہو گیا۔ وہ ابراہیم کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔
کچھ دن بعد یہی ماجرا دوبارہ پیش آیا۔ اس بار جب وہ لڑکا لڑکی کو خدا حافظ کہہ کر جانے ہی والا تھا تو اس نے دیکھ لیا کہ ابراہیم ان کے نزدیک آتا جا رہا ہے۔ لڑکی تو جلدی سے ایک اور گلی کی طرف چلی گئی مگر لڑکے کا ابراہیم سے سامنا ہو گیا۔
ابراہیم نے علیک سلیک شروع کی اور مصافحہ کیا۔ لڑکا ڈر گیا تھا، مگر ابراہیم کے ہونٹوں پر وہی ہمیشہ رہنے والی مسکراہٹ تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھڑائے، اس نے آرام سے اس لڑکے سے گفتگو شروع کر دی: ’’ہمارے گلی محلے میں ایسی باتیں پہلے کبھی نہیں ہوئیں۔ میں تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ تم اگر واقعاً اس لڑکی کو چاہتے ہو تو میں تمہارے باپ کے ساتھ بات کرتا ہوں کہ ۔۔۔‘‘
لڑکے نے اس کی بات کاٹ دی اور جلدی سے کہا: ’’نہیں، آپ کو خدا کا واسطہ، بابا کو کچھ نہ بتائیں۔ مجھ سے غلطی ہو گئی، مجھے معاف کر دیں۔۔۔‘‘
ابراہیم نے کہا: ’’نہیں! تم میرا مطلب نہیں سمجھے۔ دیکھو، تمہارے باپ کا گھر بہت بڑا ہے اور تم اس کی دکان پر اس کے ساتھ کام بھی کرتے ہو۔ میں آج رات مسجد میں تمہارے باپ سے بات کروں گا۔ اگر چاہو تو اس لڑکی سے شادی کر لو۔ اس کے علاوہ اور تمہیں کیا چاہیے؟‘‘
لڑکے نے سر نیچے کر لیا تھا اور کافی شرمندہ سا ہو گیا تھا۔ کہنے لگا: ’’بابا کو پتا چل گیا تو بہت ناراض ہوں گے۔‘‘
ابراہیم نے کہا: ’’بابا کو تم مجھ پر چھوڑ دو۔ وہ مجھے جانتے ہیں۔ اچھے اور سمجھدار انسان ہیں۔‘‘
لڑکے نے کہا: ’’مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا، کیا کہوں؟ جیسا آپ کہتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد وہ خدا حافظ کہہ کر چلا گیا۔
رات کو نماز کے بعد ابراہیم نے اس لڑکے کے باپ سے بات شروع کی۔ پہلے تو اس نے شادی کے بارے میں باتیں کی اور پھر کہا کہ اگر کوئی جوان شادی کی شرائط رکھتا ہو اور مناسب بیوی بھی اسے مل رہی ہو تو اس کی شادی کر دینی چاہیے ورنہ وہ حرام میں مبتلا ہو سکتا ہے، جس کے لیے اسے خدا کے حضور جواب دہ ہونا پڑے گا۔ اب ہمارے بڑوں کو چاہیے کہ اس حوالے سے جوانوں کی مدد کریں۔
لڑکے کےباپ نے پہلے تو ابراہیم کی باتوں کی تائید کی لیکن جب اس کے بیٹے کی بات آئی تو اس کی بھنویں سکڑ گئیں۔
ابراہیم نے پوچھا: ’’محترم، اگر آپ کا بیٹا گناہ سے بچ کر اپنی حفاظت کرنا چاہتا ہے اور وہ بھی ایسے معاشرتی ماحول میں، تو کیا اس نے غلط کیا؟‘‘
باپ نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا: ’’نہیں۔‘‘
دوسرے دن ابراہیم کی ماں نے اس لڑکے کی ماں سے بات کی اور اس کے بعد لڑکی کی ماں سے۔
اس بات کو ایک مہینہ ہو گیا تھا۔ رات کو ابراہیم بازار سے گھر واپس آ رہا تھا۔ کوچے کے آخر پر چراغاں ایک گھر میں کیا گیا تھا۔ ابراہیم کے ہونٹوں پر خوشی کی مسکراہٹ پھیل گئی۔
اس بات کی خوشی کہ اس نے ایک شیطانی دوستی کو ایک الٰہی پیوند میں بدل دیا تھا۔ یہ شادی ابھی تک کامیاب جا رہی ہے اور یہ جوڑا اپنی زندگی کو ابراہیم کے اُس دن والے نیک رویے کا مرہون منت جانتا ہے۔
انقلاب کے ایام
[امیر ربیعی]
ابراہیم بچپن ہی سے امام خمینیؒ کے ساتھ خاص عقیدت و عشق رکھتا تھا۔جیسے جیسے بڑا ہوتا گیا اس عشق میں اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ انقلاب سے پہلے کے چند سالوں میں یہ عشق اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔
1977 کا سال تھا۔ انقلاب کی اتھل پتھل اور دوسرے مسائل ابھی شروع نہیں ہوئے تھے۔ ہم جمعے کی صبح کو ژالہ (شہداء) چوک میں ہونے والے ایک مذہبی پروگرام کے بعد اپنے گھر کو لوٹ رہے تھے۔ ابھی ہم چوک سے دور نہ گئے تھے کہ کچھ اور دوست بھی ہمارے ساتھ آن ملے۔ ابراہیم ہمیں امام خمینیؒ کے بارے میں بتانے لگا۔
اس کے بعد بلند آواز سے کہا: ’’امام خمینی ، زندہ باد۔‘‘
ہم نے بھی اس کے ساتھ نعرہ لگایا۔ کچھ اور لوگ بھی ہمارے ساتھ مل گئے۔ ہم نعرے لگاتے لگاتے شمس چوک تک چلے گئے۔ کچھ دیر بعد پولیس کی کچھ گاڑیاں ہماری طرف آ گئیں۔ ابراہیم نے جلدی سے سب لڑکوں کو متفرق کر دیا۔ ہم لوگ گلیوں میں پھیل گئے۔
دو ہفتے گزر گئے۔ ہم اسی جمعہ کے صبح والے پروگرام سے واپس آ رہے تھے۔ ابراہیم چوک کے کونے میں ایک سینما کے سامنے کھڑا ہو گیا اور زور سے نعرہ لگایا: ’’خمینی، زندہ باد۔‘‘ ہم نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ پروگرام سے جو لوگ نکل رہے تھے وہ بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئے اور نعرے لگانے لگے۔ بہت خوبصورت ماحول بن گیا تھا۔
کچھ دیر بعد اس سے پہلے کہ پولیس پہنچ جائے، ابراہیم نے سب کو اِدھر اُدھر کر دیا۔ اس کے بعد ہم اکٹھے ٹیکسی پر بیٹھے اور خراسان چوک کی طرف چل دیے۔
دو چوک عبور کیے تو میں نے دیکھا کہ پولیس نے گاڑیوں کو روک رکھا ہے اور ایک ایک بندے کی چھان بین کر رہے ہیں۔ ساواک کی کچھ گاڑیاں اور تقریباً دس سپاہی سڑک کے کناروں پر کھڑے تھے۔ جو سپاہی گاڑیوں کے اندر جھانک جھانک کر دیکھ رہا تھا وہ ہمارا جاننے والا تھا۔ چوک میں وہ بھی نعرے لگانے والے لوگوں کے ساتھ ہی تھا۔ میں نے ابراہیم کو اشارہ کیا۔ وہ بھی متوجہ ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ ہماری ٹیکسی تک پہنچیں ابراہیم نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور جلدی سے فٹ پاتھ کی طرف دوڑنے لگا۔ سڑک کے درمیان میں جو سپاہی کھڑا تھا اس نے اچانک سر اٹھا کر ابراہیم کو دیکھا تو چلانے لگا: ’’یہی ہے، یہی ہے، پکڑو اسے۔۔۔‘‘
سپاہی ابراہیم کے پیچھے دوڑنے لگے۔ وہ ایک گلی میں گھس گیا۔ وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے تھے۔ جب سپاہیوں کی توجہ ادھر ادھر ہو گئی تو میں بھی ٹیکسی والے کو کرایہ دے کر اتر گیا اور سڑک کی دوسری طرف چلنے لگا۔
ظہر کے وقت میں گھر پہنچا۔ ابراہیم کی کوئی خبر نہ تھی۔ رات تک اس کے بارے میں کچھ پتا نہ چلا۔ کچھ دوستوں کو کال کر کے پوچھا بھی مگر وہ بھی بے خبر تھے۔
میں بہت پریشان ہو گیا۔ رات کے گیارہ بجے تھے۔ میں اپنے صحن میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک گلی سے آواز سنائی دی۔
میں دروازے کی طرف بھاگ کر گیا۔ دیکھا تو ابراہیم اپنے اسی مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ دروازے پر کھڑا ہے۔ میں نے دوڑ کر اسے گلے لگا لیا۔ میں بہت خوش تھا اور اپنی خوشی بیان نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے کہا: ’’کیسے ہو، ابراہیم بھائی؟!‘‘
لمبی آہ بھر کر کہنے لگا: ’’خدا کا شکر ہے۔ دیکھ تو رہے ہو، صحیح و سالم تمہارے سامنے کھڑا ہوں۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’کھانا کھایا؟‘‘
کہنے لگا: ’’نہیں، مگر ضروری نہیں ہے۔‘‘
میں جلدی سے گھر کے اندر گیا اور دستر خوان، روٹی اور کچھ کھانا اس کے لیے لے آیا اور کھانے لے کر ہم غیاثی (شہید سعیدی) چوک چلے گئے۔ کچھ لقمے لینے کے بعد وہ کہنے لگا: ’’مضبوط جسم ایسی ہی جگہوں پر کام آتا ہے۔ خدا نے میری مدد کی۔ وہ کافی لوگ تھے مگر پھر بھی میں ان کے ہاتھوں سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔‘‘
اس رات ہم نے انقلاب اور امام خمینی وغیرہ کے بارے میں بہت سی باتیں کی۔اس کے بعد طے پایا کہ ہر روز رات کے وقت مسجد لُرزادہ میں آغا چاووشی کی خدمت میں جایا کریں ۔
رات کو میں، ابراہیم اور تین دوسرے دوست مسجد لُرزادہ میں گئے۔آغا چاووشی[1] کافی نڈر بندے تھے۔ منبر پر ایسی باتیں کہہ جاتے تھے جنہیں اکثر لوگ کہنے کی جرأت بھی نہ رکھتے تھے۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی ایک حدیث مبارکہ جس میں انہوں نے فرمایا ہے: ’’قم سے ایک مرد اٹھے گا جو لوگوں کو حق کی طرف دعوت دے گا۔ اس کے گرد ایک ایسا گروہ جمع ہو جائے گا جو لوہے کی ٹکڑوں کی طرح مضبوط ہو گا۔‘‘ یہ حدیث لوگوں کےلیے بہت عجیب تھی۔ آغا چاووشی اسی طرح کی انقلابی باتیں کیا کرتے تھے۔
اچانک مسجد کے دروازے کی طرف سے شوروغل سنائی دیا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا کہ ساواک کے کچھ سپاہی تھے جو لاٹھیاں اور ہاکیاں اٹھائے مسجد میں داخل ہوئے اور آتے ہی نمازوں کو مارنا شروع کر دیا۔ لوگ مسجد سے نکلنے کےلیے بھاگنے لگے۔ جو بھی دروازے سے گزرتا، سپاہی زور سے اسے مارتے تھے۔ عورتوں اور بچوں پربھی وہ رحم نہیں کر رہے تھے۔ ابراہیم کو بہت غصہ آ گیا تھا۔ وہ دروازے کی طرف بڑھا اور کچھ سپاہیوں کے ساتھ دست و گریبان ہو گیا۔ وہ بزدل مل کر ابراہیم کو مار رہے تھے۔ اس طریقے سے راستہ کھل گیا اور عورتیں اور بچے مسجد سے باہرنکل گئے۔
ابراہیم پوری بہادری کے ساتھ ان سے لڑ پڑا تھا۔ اس نے اچانک ہی کچھ سپاہیوں کو مار پلائی اور وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے مسجد سے دور ہوتے گئے۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ آغا چاووشی کو اٹھا کر لے گئے ہیں۔ کچھ لوگ شہید ہو گئے ہیں اور کچھ زخمی۔
اس رات ابراہیم کی کمر پر جو چوٹیں لگی تھیں، ان سے کمر میں ایسا درد ہوا کہ زندگی کے آخری لمحات تک اس درد نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ یہاں تک کہ کشتی کے وقت بھی وہ درد اسے کافی تنگ کرتا تھا۔
جیسے ہی 1978کے ہنگامے شروع ہوئے تو ابراہیم کا سارا ہم و غم انقلاب اور امام خمینی تھے۔ امام کی تقاریر کی کیسٹز اور مختلف قسم کے اعلامیے تقسیم کرنے کا کام وہ نہایت ہی دلیرانہ طریقے سے انجام دیتا تھا۔
ستمبر کے دن تھے۔ وہ بہت سے جوانوں کو قیطریہ کے ٹیلوں کی طرف لے گیا اور شہید مفتح کی نماز عید فطر میں شرکت کی۔ نماز کےبعد اعلان ہوا کہ جمعے کو ژالہ چوک کی طرف ایک احتجاجی ریلی نکالی جائے گا۔
[1] ایک انقلابی عالم دین جو منافقین کے ہاتھوں شہید ہو گئے تھے۔
8 ستمبر
[امیر منجر]
8 ستمبر کی صبح تھی۔ میں ابراہیم کے پاس گیا اور پھر ہم موٹر سائیکل پر بیٹھ کر میدان ژالہ (شہداء) کے پاس ہونے والے اسی مذہبی پروگرام میں چلے گئے۔
پروگرام ختم ہوا تو باہر سے بہت زیادہ شورشرابے کی آواز آنے لگی۔آدھی رات کو مارشل لاء کا اعلان ہو گیا تھا۔ زیادہ تر لوگ اس بات سے بے خبر تھے۔چوک کے اردگرد بہت سے فوجی اور سپاہی تعینات ہو گئے تھے۔
لوگوں کا ایک ہجوم چوک کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سپاہی لاؤڈ سپیکر پر لوگوں کو منتشر ہونے کی ہدایت کر رہے تھے۔ ابراہیم جلدی سے پروگرام سے نکلا اور فوراً پلٹ کر مجھے کہنے لگا: ’’امیر، آؤ دیکھیں، کیا صورتحال ہے؟‘‘
میں اس کے ساتھ باہر آ گیا۔ جہاں تک نظر جاتی تھی چوک پر لوگ ہی لوگ نظر آ رہے تھے۔ وہ ’’خمینی زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے لگاتے ’’شاہ مردہ باد‘‘ کے نعرے لگانا شروع ہو گئے تھے۔ ’’شاہ مردہ باد‘‘ کی آواز گونج رہی تھی۔ چوک کی طرف لوگوں کا اژدہام ہو گیا تھا۔ بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ساواکیوں[1] نے چوک کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔
تھوڑی دیر گزری تو ایسی صورتحال پیش آ گئی جس کا کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ ہر طرف سے گولیاں چلنے کی آواز آنے لگی حتی کہ چوک سے دور آسمان پر اڑتے ہوئے ہیلی کاپٹر سے بھی گولیاں چل رہی تھیں۔
میں جلدی سے موٹر سائیکل لے آیا تھااور ایک گلی سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈ لیا تھا۔ وہاں کوئی سپاہی نہیں کھڑا تھا۔ ابراہیم جلدی سے ایک زخمی کو لے آیا تھا۔ ہم جلدی سے 3 شعبان ہسپتال پہنچے اور فوراً واپس ہو لیے۔
ظہر کے نزدیک تک ہم تقریباً آٹھ بار ہسپتال آئے گئے۔ زخمیوں کو ہسپتال پہنچاتے اور پھر پلٹ جاتے۔ ابراہیم کا سارا جسم خون میں لت پت ہو چکا تھا۔
ایک زخمی پٹرول پمپ کے پاس گرا ہوا تھا۔ سپاہی دور سے دیکھ رہے تھے۔ کوئی اسے اٹھانے کی جرأت نہیں کر پا رہا تھا۔
ابراہیم اس زخمی کی طرف جانا چاہتا تھامگر میں نے اسے روک کر کہا: ’’انہوں نے زخمی کو چارے کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ اگر تم نے حرکت کی تو وہ تمہیں گولی مار دیں گے۔‘‘
ابراہیم نے پلٹ کر سوال کر دیا: ’’اگر تمہارا اپنا بھائی ہوتا تو تب بھی تم یہی کہتے؟!‘‘
میں لاجواب ہو کر رہ گیا، اسے فقط اتنا کہہ سکا: ’’دھیان رکھنا۔‘‘
گولیوں کی آواز کم ہو چکی تھی۔ سپاہی تھوڑا پیچھے ہٹ گئے تھے۔ ابراہیم جلدی سے سینے کے بل چلتے ہوئے سڑک پر چلا گیا اور زخمی کے پاس جا کر لیٹ گیا۔ اس کے بعد زخمی کے ہاتھ کو پکڑا اور اسے اپنی کمر پر رکھ دیا۔ اس کے بعد اسی طرح سینے کے بل چلتا ہوا واپس آ گیا۔ اس موقع پر ابراہیم نے غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کیا تھا۔
اس کے بعد ابراہیم نے اسے اور ایک اور زخمی کو میری موٹرسائیکل پر بٹھایا اور میں چل پڑا۔ واپسی پر سپاہیوں نے گلی پر ناکہ لگا دیا تھا۔ مارشل لاء شدت اختیار کر گیا تھا۔ ابراہیم بھی گم ہو گیا تھا لیکن میں جیسے تیسے اپنے گھر کو واپس آ گیا۔
سہ پہر کو میں ابراہیم کے گھر چلا گیا۔ اس کی ماں کافی پریشان تھیں۔ کسی کو اس کے بارے میں کچھ پتا نہ تھا۔ ہم کافی بے چین تھے۔ رات گئے کسی نے بتایا کہ ابراہیم واپس آ گیا ہے۔ میں بہت خوش ہوا۔ وہ اتنے مضبوط جسم کی وجہ سے سپاہیوں کے ہاتھوں سے نکل کر بھاگنے میں کامیاب ہو سکتا تھا۔ اگلے دن ہم بہشت زہرا[2] چلے گئے اور شہداء کی تدفین میں ہاتھ بٹایا۔
8 ستمبر کے بعد ہر رات ہم میں سے ایک کے گھر ایک میٹنگ رکھی جاتی تاکہ آئندہ کے پروگراموں کو منظم کیا جا سکے۔
ایک عرصہ تک ابراہیم کے گھر کی چھت پر ہماری یہ میٹنگ ہوتی رہی اور پھر اس کے بعد کچھ دنوں تک مہدی کے گھر پر۔
ان ملاقاتوں میں ہر قسم کے مسائل خصوصاً اعتقادی اور حالیہ سیاسی مسائل زیرِ بحث رہتے۔ امام خمینیؒ کے ایران واپس پلٹ آنے کی خبر آنے تک ان ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔
[1] ساواک ’’سازمان اطلاعات و امنیت کشور‘‘ (قومی ادارہ جاسوسی و امن و امان) کا مخفف ہے۔ ایرانی شاہ محمد رضا شاہ پہلوی کے حکم سے بنایا جانے والا خونخوار انٹیلی جنس ادارہ جس کا کام بظاہر ایران کے داخلی امن و امان کو قائم رکھنے کے لیے جاسوسی کافریضہ انجام دینا تھا مگر شاہ اسے اپنے مخالفین کو جکڑنے کے لیے ہی استعمال کرتا تھا۔ خصوصاً اس ادارے نے امام خمینیؒ کی رہبری میں اٹھنے والے انقلاب کی لہر کو سختی سے دبانےکے لیے بہت ہی ظالمانہ کردار نبھایا۔
[2] تہران کا مشہور قبرستان۔جب امام خمینیؒ جلاوطنی ختم کر کے واپس آئے تو وہیں اترے اور اپنی مشہور زمانہ تقریر کی۔
امام خمینیؒ کی واپسی
[حسین اللہ کرم]
جنوری کے آخری ایام تھے۔ ایک متفقہ فیصلے کے تحت امام خمینیؒ کی حفاظت کی لیے تشکیل جانے والی ٹیموں میں سے ایک کی ذمہ داری ہمارے سپرد کی گئی۔ ہماری ٹیم یکم فروری کو مسلح ہو کر آزادی روڈ (جو ائیرپورٹ تک جا کر ختم ہوتا ہے) کے آخر پر جا کر تعینات ہو گئی۔
امام خمینیؒ کی گاڑی آنے کا منظر میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ ابراہیم امام خمینیؒ کی شمع وجود کے گرد پروانہ وار گھوم رہا تھا۔ جسے ہی امام کی گاڑی رخصت ہوئی تو ہم سب ابراہیم کے ساتھ مل کر بہشت زہراؑ چلے گئے۔
بہشت زہرا کا بڑا دروازہ جو قم سے آنے والی سڑک کی طرف ہے، اس کی حفاظت ہمارےذمے تھی۔ ابراہیم دروازے پر کھڑا تھا مگر اس کے دل و جان بہشت زہراؑ کے اندر اس جگہ کا طواف کر رہے تھے جہاں امام خمینیؒ خطاب فرما رہے تھے۔
ابراہیم کہہ رہا تھا: ’’اس انقلاب کے قائد آ گئے ہیں۔ہم ان کے فرمانبردار ہیں۔ آج کے بعد سے جو کچھ امام کہیں گے اسی پر عمل ہو گا۔‘‘
اس دن کے بعد ابراہیم کو نہ کھانے پینے کی ہوش تھی نہ ہی سونے کی۔ عشرہ فجر[1]کے ایام میں کچھ دن تک تو ابراہیم کا کسی کو کچھ اتا پتا نہ تھا۔ 9 فروری کو کہیں جا کر اس کی شکل مجھے دکھائی دی۔ میں نے دیکھتے ہی پوچھا: ’’کہاں تھے ابرام جان؟ تمہاری والدہ سخت پریشان ہیں۔‘‘
تھوڑی دیر خاموش رہ کر بولا: ’’ان دنوں، میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر گمنام شہداء کے کوائف جمع کر رہا تھا، کیونکہ کوئی ایسا تھا ہی نہیں جو میڈیکل ایگزامنرکے پاس جا کر ان کے معاملات کی چھان بین کرتا۔‘‘
*****
11 فروری کی رات تھی۔ابراہیم نے کچھ انقلابی جوانوں کے ساتھ مل کر اس علاقے کے تھانے پر قبضہ کر لیا۔ اس رات تھانہ 14 پر قبضہ کرنے کے بعد وہ رات بھر علاقے میں گشت کرتے رہے۔
اگلے روز ریڈیو پر انقلاب کی کامیابی کی خبر نشر ہوئی۔
ابراہیم کچھ دن تک امیر کے ہمراہ فلاحی سکول میں بھی جاتا رہا۔ کچھ مدت تک امام خمینیؒ کا باڈی گارڈ بھی رہا۔ اس کے بعد کچھ عرصے تک اس نے قصر جیل کی محافظت کی ذمہ داری نبھائی۔اس دوران وہ انقلابی کمیٹی کے جوانوں کی ذمہ داریوں میں ان کے ساتھ تعاون بھی کرتا تھا مگر رسمی طور پر انقلابی کمیٹی میں شامل نہیں ہوا۔
[1] انقلاب اسلامی کی کامیابی کے پہلے دس دن، جنہیں ایران میں عشرہ فجر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ عشرہ یکم فروری سے 11 فروری تک ہوتا ہے۔ جس میں انقلاب اور آزادی کا جشن منایا جاتا ہے اور اس حوالے سے مختلف تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔
روحانی طبیعت
[جبار ستودہ، حسین اللہ کرم]
کئی عظیم شخصیات کی زندگی میں گناہانِ کبیرہ سے اجتناب کے نمونے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ عمل روحانی سفر میں ان کی تیز ترقی کا باعث بنتا ہے۔نفس پر قابو پانے کا یہ عمل زیادہ تر شہوانی اور جنسی امور میں ہوتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں بھی خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے: ’’اگر کوئی تقویٰ اختیار کرے اور صبر کرے تو اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘[1] یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ یہ قانون صرف حضر ت یوسف علیہ السلام ہی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ عمومی ہے۔
انقلاب کی کامیابی کو ایک ماہ گزر چکا تھا۔ابراہیم کا چہرہ اور قد و قامت پہلے سے زیادہ جاذبِ نظر ہوتی جا رہی تھی۔ وہ ہر روز خوبصورت کوٹ پینٹ میں کام پر آتا تھا۔ وہ تہران کے شمال میں ایک جگہ کام کرتا تھا۔ ایک روز میں نے دیکھا کہ وہ کافی بے چین لگ رہا ہے۔ اپنے آپ میں کھویا کھویا بہت ہی کم باتیں کر رہا تھا۔ میں نے اس کے پاس جا کر پوچھا: ’’ابراہیم بھائی، کیا ہوا؟‘‘ اس نے کہا: ’’کچھ نہیں، کچھ خاص نہیں۔‘‘ لیکن یہ بات یقینی تھی کہ اسے کوئی نہ کوئی پریشانی ضرور ہے۔ میں نے کہا: ’’اگر کوئی مسئلہ ہے تو بتا دو، شاید میں تمہاری کچھ مدد کر سکوں۔‘‘
تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد آہستہ سے کہنے لگا: ’’اس محلے کی ایک بے پردہ لڑکی کچھ دنوں سے میرے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ جب تک تمہیں حاصل نہ کر لوں، تمہاری جان نہیں چھوڑوں گی۔‘‘
میں سوچ میں پڑ گیا، پھر اچانک میری ہنسی نکل گئی۔ ابراہیم نے حیرانی سے سر اٹھا کر پوچھا: ’’یہ ہنسنے کی بات ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’ابراہیم بھائی، میں تو ڈر گیا تھا کہ نہیں معلوم کیا ہو گیا ہے جو تم اتنے پریشان ہو؟‘‘
اس کے بعد میں نے ابراہیم کے قد و قامت پر نظر ڈالتے ہوئے کہا: ’’جیسا تمہارا حلیہ ہے، اس پر اگر اس طرح کا کوئی واقعہ ہو جائے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔‘‘
اس نے کہا: ’’کیا مطلب؟ یعنی میرے اس حلیے کی وجہ سے اس لڑکی نے یہ بات کی ہے؟‘‘
میں نے ہنس کر کہا: ’’ہاں، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔‘‘
اگلے روز جیسے ہی ابراہیم کو میں نے دیکھا تو میری ہنسی چھوٹ گئی۔ بال صفاچٹ، کوٹ پینٹ کے بغیر ہی کام پر آ گیا تھا۔ اس سے اگلے دن ایک لمبی سی قمیص، کُردی شلوار، پاؤں میں ہوائی چپل پہنے اور بکھرا بکھرا چہرہ لیے آن دھمکا۔ کچھ دن تک وہ اسی حلیے میں آتا رہا۔ بالآخر اس شیطانی وسوسے سے اس کی جان چھوٹ گئی۔
*****
مختلف مسائل کو گہرائی سے دیکھنا اور دِقّت کے ساتھ عمل کا مظاہرہ کرنا ابراہیم کی خصوصیات میں سےایک اہم خصوصیت تھی۔ یہ خصوصیت اسے اس کے دوسرے دوستو ں سے ممتاز کرتی تھی۔
مارچ 1979 کے ایام تھے۔ ہم انقلاب کمیٹی کے کچھ جوان ابراہیم کے ساتھ ایک جگہ چھاپہ مارنے گئے۔ اطلاع ملی تھی کہ ایک شخص جو انقلاب سے پہلے شاہ کی طرف سے فوجی سرگرمیوں میں ملوث تھا اور انقلاب کمیٹی جسے تلاش کر رہی تھی، اسے ایک اپارٹمنٹ میں دیکھا گیا ہے۔ اس جگہ کا پتا ہمارے پاس تھا۔ ہم دو گاڑیاں لیے اسی اپارٹمنٹ میں پہنچ گئے۔
جیسے ہی مطلوبہ اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے تو بغیر کسی ہاتھا پائی کے وہ شخص گرفتار کر لیا گیا۔ ہم اسے اپارٹمنٹ سے باہر لانا چاہتے تھے۔ اسے دیکھنے کے لیے باہر لوگوں کی بھِیڑ لگ گئی۔ ان میں سے اکثر اسی اپارٹمنٹ کے رہنے والے تھے۔ اچانک ابراہیم اپارٹمنٹ میں واپس آ گیا اور کہنے لگا: ’’ٹھہرو۔‘‘ ہم نے حیران ہو کر پوچھا: ’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے کچھ نہ کہا۔ فقط اپنی کمر سے باندھا ہوا اپنا رومال کھولا اور اس شخص کا چہرہ ڈھانپنے لگا۔ میں نے پوچھا: ’’ابرام، یہ کیا کر رہے ہو؟‘‘ اس نے اس کاچہرہ ڈھانپتے ہوئے کہا: ’’ہم نے ایک فون کال اور اطلاع پر اس شخص کو گرفتار کیا ہے۔ اگر اس کے بارے میں دی گئی اطلاع درست نہ ہوئی تو اس بے چارے کی عزت خاک میں مل جائے گی اور اس کے لیے یہاں زندگی گزارنا اجیرن ہو جائے گا۔ سارے لوگ اسے ایک ملزم کی حیثیت سے دیکھیں گے۔ اب اس حالت میں اسے کوئی نہیں پہچانے گا۔ اگر کل کو یہ آزاد ہو جاتا ہے تو اسے کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔‘‘
جب ہم اس اپارٹمنٹ سے نکلے تو کسی نے بھی اس مشتبہ شخص کو نہیں پہچانا۔ میں ابراہیم کی باریک بینی اور ہوشیاری سے متعلق سوچنے لگا۔ اس کی نظر میں انسانوں کی عزت و آبرو کی کتنی اہمیت تھی۔
[1] سورہ یوسف: 90
بات کی تأثیر
[مہدی فریدوند]
انقلاب کی کامیابی کو کئی ماہ گزر چکے تھے۔ ہمارے ایک دوست نے ایک دن مجھ سے کہا: ’’کل تم ابراہیم کے ساتھ محکمہ ورزش و کھیل کے دفتر چلے جاؤ۔ آغا داودی (محکمے کے انچارج) کو تم سے کچھ کام ہے۔‘‘
اگلے دن ہم نے پتا لیا اور محکمے میں چلے گئے۔ آغا داودی جو ہائی سکول میں ابراہیم کے استاد رہ چکے تھے، انہوں نے بہت گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا۔
اس کے بعد ہم کچھ اور لوگوں کے ساتھ ہال میں داخل ہو گئے۔ انہوں نے ہم سے کچھ باتیں کیں اور پھر بتایا: ’’آپ لوگ جو کھلاڑی اور انقلابی جوان ہیں، آپ کو دعوت دی جاتی ہے کہ اس محکمے میں تشریف لائیں اور ذمہ داریاں سنبھالیں۔‘‘
انہوں نے ابراہیم اور مجھ سے کہا: ’’محکمے کے شعبۂ تفتیش کا عہدہ ہم نے تمہارے لیے رکھ چھوڑا ہے۔‘‘
ہم نے بھی تھوڑی سی بات چیت کے بعد اس ذمہ داری کو قبول کر لیا۔ اگلے دن ہمارا کام شروع ہو گیا۔ جہاں بھی کوئی مشکل پیش آتی تو آغا داودی سے رہنمائی لے لیتے۔
میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ ایک روز صبح کے وقت ابراہیم شعبۂ تفتیش کے دفتر میں داخل ہوا تو پوچھنے لگا: ’’کیا کر رہے ہو؟‘‘
میں نے کہا: ’’کچھ نہیں، ایک سسپنڈنگ آرڈر لکھ رہا ہوں۔‘‘ اس نے پوچھا: ’’کس کے لیے؟‘‘
میں نے جواب دیا: ’’ایک رپورٹ موصول ہوئی ہے کہ ایک فیڈریشن کا انچارج نامناسب حلیے کے ساتھ دفتر میں آتا ہے۔ ملازمین خصوصاً خواتین کے ساتھ اس کا رویہ انتہائی نامناسب ہے۔ یہاں تک کہا گیا ہے کہ اس کے بعض کام انقلاب مخالف ہیں۔ اس کی بیوی بھی حجاب نہیں اوڑھتی۔‘‘
میں نے رپورٹ لکھتے لکھتےکہا: ’’ایک نوٹ میں انقلاب کونسل کو بھی بھیجوں گا۔‘‘
ابراہیم نے پوچھا: ’’کیا میں رپورٹ دیکھ سکتا ہوں؟‘‘
میں نے کہا: ’’لو، یہ رہی رپورٹ اور یہ رہا سسپنڈنگ آرڈر۔‘‘
اس نے رپورٹ کو غور سے پڑھا پھر پوچھا: ’’تم نے خود اس شخص سے بات کی ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں، میں ضروری نہیں سمجھتا۔ سبھی جانتے ہیں کہ وہ کس قماش کا انسان ہے۔‘‘
اس نے جواب دیا: ’’یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ ایک جھوٹا انسان ہی ایسا ہوتا ہے جو ہر سنی سنائی بات کی تائید کر دیتا ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’آخر اسی فیڈریشن کے اپنے جوانوں نے اطلاع دی تھی۔۔۔‘‘
میری بات کاٹ کر کہنے لگا: ’’اس کے گھر کا پتا ہے تمہارے پاس؟‘‘
میں نے کہا: ’’ہاں، ہے۔‘‘
ابراہیم نے کہا: ’’آج سہ پہر کو مل کر اس کے گھر چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کون ہے اور کیا کہتا ہے؟‘‘
میں نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا: ’’ٹھیک ہے۔‘‘
سہ پہر کو اپنا کام نمٹا کر میں نے اس کا پتا اٹھایا اور ہم دونوں موٹر سائیکل پر بیٹھ کر چل پڑے۔
پتا، سید خندان پُل سے آگے کا تھا۔ ہم گلیوں میں اس کا گھر ڈھونڈنے لگے۔ اتفاق سے اسی وقت وہ شخص بھی پہنچ گیا۔ رپورٹ پر لگی اس کی تصویر کے ذریعے ہم نے اسے پہچان لیا تھا۔
ایک بنز گاڑی ایک گھر کےسامنے رکی۔ ایک خاتون جو تقریباً بے پردہ تھی، گاڑی سے اتری اور گھر کا دروازہ کھولاتو وہ شخص گاڑی کو اندر لے گیا۔
میں نے کہا: ’’دیکھا ابرام، دیکھا تم نے کہ اس شخص کا کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور ہے۔‘‘
کہنے لگا: ’’پہلے ہمیں اس سے بات تو کر لینی چاہیے۔ اس کے بعد تمہیں کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔‘‘
میں موٹر سائیکل کو گھر کے سامنے لے گیا اور اسے سٹینڈ پر کھڑا کر دیا۔ ابراہیم نے گھنٹی بجائی۔ وہ شخص جو ابھی تک گھر کی صحن ہی میں تھا، دروازے پر آیا۔
وہ کافی موٹی جسامت کا مالک تھا۔ اس نے کلین شیو کرا کر رکھی تھی۔ ہم دونوں کو اس محلے میں دیکھ کر کافی حیران ہوا۔ ہم پر ایک نظر ڈالی اور کہنے لگا: ’’فرمائیے!‘‘
میں نے اپنے آپ سے کہا: ’’اگر میں ابراہیم کی جگہ ہوتا تو اس کی خوب خبر لیتا۔‘‘
لیکن ابراہیم نے اپنے نرم لہجے میں مسکراتے ہوئے اسے سلام کیا اور کہا: ’’میں ابراہیم ہادی ہوں۔ آپ سے کچھ پوچھنا تھا، اسی لیے آپ کو زحمت دے رہا ہوں۔‘‘
اس نے کہا: ’’آپ کا نام کافی سنا سنا لگتا ہے۔ یہی کچھ دن ہوئے آپ کے بارے میں سنا، شاید محکمے میں ۔ ہاں، محکمے کا شعبۂ تفتیش، ایسا ہی ہے نا؟‘‘
ابراہیم نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’جی!‘‘
وہ کافی حواس باختہ ہو گیا اور ہمیں اندر لے جانے کے لیے اصرار کرنے لگا۔ ابراہیم نے کہا: ’’بہت شکریہ۔ بس آپ سے تھوڑی دیر کام ہے۔ اس کے بعد اجازت چاہیں گے۔‘‘
ابراہیم اس کے ساتھ باتیں کرنے لگا۔ تقریباً ایک گھنٹہ ہو گیا مگر ہمیں یہ وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔ ابراہیم نے اسے ہر چیز کے بارے میں بتایا۔ ہر مورد کے لیے اس کے سامنے ایک مثال رکھی۔ وہ کہہ رہا تھا: ’’دیکھو، میرے عزیز دوست۔ تمہاری بیوی فقط تمہارے لیے ہے، دوسروں کے سامنے نمائش کے لیے نہیں ہے۔ تم جانتے ہو، تمہاری بے پردہ بیوی کو دیکھ کر کتنے ہی جوان گناہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ جب تم ایک ادارے کے انچارج ہو تو تمہیں نامناسب باتیں اور فضول مذاق نہیں کرنا چاہیے اور وہ بھی اپنے ماتحت کام کرنے والی خواتین کے ساتھ۔ تم اس سے پہلے اپنے شعبے میں چیمپئن تھے۔ لیکن حقیقی چیمپئن وہ ہوتا ہے جو غلط کاموں کا راستہ روکے۔‘‘
اس کے بعد ابراہیم نے انقلاب، خون شہداء، امام خمینیؒ اور ملک دشمنوں کے بارے میں بہت سی باتیں کیں۔ وہ شخص بھی ابراہیم کی تائید کرتا گیا۔
آخر میں ابراہیم نے کہا: ’’دیکھو، میرے عزیز! یہ تمہارا سسپنڈنگ آرڈر ہے۔‘‘
ایک دفعہ تو اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس نےتھوک نگلا اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے ہماری طرف دیکھنے لگا۔
ابراہیم نے مسکراتے ہوئے وہ آرڈر اس کے سامنے پھاڑ دیا اور کہا: ’’میرے دوست، میری باتوں پر غور کرنا۔‘‘
اس کے بعد ہم نے خداحافظ کہا اور موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اپنے راستے پر ہو لیے۔
سڑک کی نکڑ پر پہنچ کر میں نے پیچھے کی طرف دیکھا تو وہ شخص ابھی تک گھر میں داخل نہیں ہوا تھا بلکہ وہیں کھڑا ہمیں دیکھے جا رہا تھا۔
میں نے کہا: ’’ابرام بھائی، بہت اچھی باتیں کیں تم نے۔ ان باتوں کا تو مجھ پر بھی اثر ہونے لگا۔‘‘
اس نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’یار، ہم کس قابل ہیں۔ فقط خدا ہی ہے جس نے میری زبان سے ان باتوں کو کہلوا دیا۔ انشاء اللہ ان باتوں کا اس پر اثر ہو گا۔‘‘
پھر کہنے لگا: ’’خاطر جمع رکھو۔ اچھے رویے سے بڑھ کر کوئی چیز بھی انسان پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ کیا تم نے نہیں پڑھا کہ خدا قرآن مجید میں اپنے پیغمبرﷺ سے ارشاد فرماتا ہے: ’’ اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے۔‘‘[1] پس ہمیں کم از کم اپنے پیغمبرﷺ کا یہ کردار سیکھنا چاہیے نا۔‘‘
*****
ایک دو ماہ گزرے تو اسی فیڈریشن کی نئی رپورٹ ہمارے پاس پہنچی کہ مذکورہ انچارج کافی بدل چکا ہے اور ادارے میں دوسروں کے ساتھ اس کا رویہ اور اخلاق کافی حد تک تبدیل ہو چکا ہے حتی کہ اس کی بیوی بھی اب باحجاب ہو کر اپنے کام پر جاتی ہے۔
میں نے ابراہیم کو دیکھا اور رپورٹ اس کے ہاتھ میں تھما دی۔ میں اس کے ردِّ عمل کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے رپورٹ پڑھنے کے بعد کہا: ’’خدا کا شکر ہے۔‘‘ اس کے بعد اس نے بات کا رُخ پھیر دیا۔
لیکن مجھے کوئی شک نہیں تھا کہ ابراہیم کے اخلاص نے اپنا کام کر دکھایا تھا۔ اس کی خلوص بھری گفتگو نے فیڈریشن کے اس انچارج کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا تھا۔
[1] سورہ آل عمران: 159
لوگوں کی امداد
[شہیدؒ کے کچھ دوست]
’’انسان میرا خاندان ہیں۔ پس میرے نزدیک سب سے محبوب بندے وہ ہیں جو انسانوں کے لیے زیادہ مہربان ہیں اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ‘‘[1]
کافی عجیب بات تھی۔ شہید سعیدی روڈ کے شروع میں لوگوں کی کافی زیادہ بھِیڑ لگی ہوئی تھی۔ میں اور ابراہیم آگے بڑھے۔ میں نے پوچھا: ’’کیا ہوا؟‘‘
بتایا گیا: ’’یہ لڑکا ذہنی مریض ہے۔ ہر روز یہاں آ جاتا ہے اور نہر سے گندے پانی کی بالٹی بھر کر خوش پوش اور خوبصورت لوگوں پر پھینک دیتا ہے۔‘‘
لوگ آہستہ آہستہ وہاں سےہٹ رہے تھے۔ ایک مرد جس نے کافی صاف ستھرا اور سلجھا ہوا کوٹ پینٹ پہن رکھا تھا، اسے اس لڑکے نے گیلا کر دیا تھا۔ اس مرد نے کہا: ’’نہیں معلوم اس ذہنی مریض کا کیا علاج کروں۔‘‘ وہ مرد بھی چلا گیا۔ اب میں، ابراہیم اور وہ لڑکا رہ گئے تھے۔
ابراہیم نے اس لڑکے سے پوچھا: ’’تم کیوں لوگوں کو گیلا کرتے ہو؟‘‘
وہ ہنس کر کہنے لگا: ’’مجھے اچھا لگتا ہے۔‘‘
ابراہیم نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد کہا: ’’کوئی تمہیں پانی پھینکنے کو کہتا ہے؟‘‘
لڑکے نے کہا: ’’وہ مجھے پانچ ریال دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کس پر پانی پھینکوں۔‘‘ اس کے بعد اس نے سڑک کی ایک طرف اشارہ کیا۔
وہاں تین آوارہ اور لوفر قسم کے جوان کھڑے ہنس رہے تھے۔ ابراہیم ان کی طرف جانا چاہ رہا تھا مگر رک گیا۔ کچھ سوچ کر اس لڑکے سے کہا: ’’بیٹا، تمہارا گھر کہاں ہے؟‘‘
لڑکے نے اپنے گھر کا راستہ بتایا۔
ابراہیم نے اسے کہا: ’’اگر تم لوگوں کو تنگ نہ کرو تو میں تمہیں روز دس ریال دیا کروں گا۔ ٹھیک ہے؟‘‘
لڑکا مان گیا۔ جب ہم ان کے گھر کے سامنے پہنچے تو ابراہیم نے اس کی ماں سے اس بابت بات کی۔ اس طریقے سے لوگوں کے سروں سے وہ بلا ٹل گئی۔
*****
ہم محکمہ کھیل کے جانچ پڑتال کے شعبے میں کام میں مصروف تھے۔ تنخواہ لینے اور دفتری وقت ختم ہونے کے بعد ابراہیم نے پوچھا: ’’موٹر سائیکل لائے ہو؟‘‘
میں نے کہا: ’’ہاں، کیوں؟‘‘
کہنے لگا: ’’اگر تمہیں کوئی کام نہیں ہے تو میرے ساتھ آؤ۔ دکان تک جانا ہے۔‘‘
اس نے اپنی تقریباً ساری تنخواہ سے خریداری کر لی۔ چاول، گوشت سے لے کر صابن تک ہر چیز خرید لی۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے اسے خریداری کے لیے کوئی لسٹ دی گئی تھی۔ اس کے بعد ہم اکٹھے مجیدیہ کی طرف چلے گئے۔ ایک گلی میں داخل ہوئے تو ابراہیم نے ایک گھر کے دروازے پر دستک دی۔
ایک معمر خاتون جس نے صحیح طریقے سے حجاب بھی نہ اوڑھ رکھا تھا، دروازے پر آئی۔ ابراہیم نے سامان اس کے حوالے کر دیا۔ اس خاتون نے گلے میں صلیب پہن رکھی تھی۔ مجھے بہت حیرانی ہوئی۔ واپسی پر میں نے پوچھا: ’’ابرام بھائی، یہ خاتون ارمنی تھی؟‘‘ اس نے کہا: ’’ہاں، کیوں؟‘‘ میں نے موٹر سائیکل سڑک کنارے روک دی اور غصے سے کہا: ’’یار، یہ سارے غریب مسلمان ہیں، اور تمہیں مسیحیوں کی پڑی ہوئی ہے!‘‘ اس نے اسی طرح میرے پیچھے بیٹھے بیٹھے کہا: ’’مسلمانوں کی مدد کرنے والے موجود ہیں۔ ابھی نئی نئی امداد کمیٹی بنی ہے، وہ ان کی مدد کرتی ہے، لیکن ان بے چاروں کا کوئی نہیں ہے۔ اس طرح ان کی مشکلات بھی کم ہو جائیں گی اور ان کے دل میں امام اور انقلاب سے محبت بھی پیدا ہو جائے گی۔‘‘
*****
ابراہیم کی شہادت کو 26 سال گزر چکے ہیں۔ کتاب کے مطالب جمع بھی ہو گئے اور طباعت کے لیے آمادہ بھی ہو گئے۔ ایک دن مسجد کے ایک نمازی نے مجھے بلا کر کہا: ’’آغا ابراہیم کی رسومات کے لیے کوئی بھی کام ہو تو ہم حاضرِ خدمت ہیں۔‘‘
میں نے تعجب سےپوچھا: ’’آپ شہید ہادی کو پہچانتے ہیں؟ ان سے کبھی ملے ہیں؟‘‘
اس نے کہا: ’’نہیں،پچھلے سال جب ان کی یاد میں تقریبات منعقد ہو رہی تھیں، اس وقت تک میں شہید ابراہیم ہادی کے بارے میں نہیں جانتا تھا، مگر شہید ابراہیم ہادی کا میری گردن پر بہت بڑا حق ہے۔‘‘
مجھے جانے کی جلدی تھی مگر پھر بھی اس شخص کے نزدیک ہو کر بیٹھ گیا اور تعجب سے پوچھا: ’’کون سا حق؟‘‘
وہ بتانے لگا: ’’پچھلے سال ان کی یاد میں منعقد کی جانے والی ایک یادگاری تقریب میں آپ لوگوں نے آغا ابراہیم کی تصویر والے چابی کے چھلّے تقسیم کیے تھے۔ میں نے بھی ایک لیا تھا اور اپنی گاڑی کی چابی اس میں ڈال لی تھی۔ کچھ دن پہلے میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ایک سفر سے لوٹ رہا تھا۔ راستے میں ہم ایک ریسٹورنٹ پر رُکے۔ جب گاڑی میں سوار ہونے لگے تو مجھے یہ دیکھ کر دھچکا لگا کہ چابی تو گاڑی ہی میں رہ گئی ہے۔ دروازے بند تھے۔ میں نے اپنی بیوی سے پوچھا: ’’تمہارے پاس دوسری چابی ہے؟‘‘ وہ کہنے لگی: نہیں، میرا پرس بھی گاڑی میں پڑا ہوا ہے۔‘‘ مجھے کافی پریشانی ہوئی۔ لاکھ جتن کیے مگر دروازہ نہ کھلا۔ سردی زوروں پر تھی۔ ایک دفعہ تو میں نے سوچا کہ شیشہ توڑ دوں لیکن موسم کافی سرد تھا اور سفر طولانی۔ اچانک میری نظر گاڑی کے اندر چھلے پر موجود ابراہیم کی تصویر پر پڑی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ میری طرف ہی دیکھ رہا ہو۔ میں نے بھی تھوڑی دیر اس پر نگاہ جمائے رکھی۔ پھر کہا: ’’آغا ابراہیم، میں نے سنا ہے کہ جب تک تم زندہ تھے لوگوں کی مشکلات حل کرتے رہتے تھے۔ شہید تو ہمیشہ کے لیے زندہ ہوتا ہے۔‘‘ پھر میں نے دعا کی: ’’خدایا، شہید ہادی کی عزت کا واسطہ، میری مشکل حل فرما۔‘‘
اسی طرح اچانک میرا ہاتھ میرے کوٹ کی جیب میں گیا۔ میں نے گھر کی چابیوں کو گچھا نکالا اور بلاارادہ ایک چابی دروازے کی تالے میں ڈال دی۔ تھوڑی سی ہلائی تو تالہ کھل گیا۔
ہم خوشی سے نہال ہو گئے اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ اس کے بعد میری نظر آغا ابراہیم کی تصویر پر جم گئی۔ میں نے کہا: ’’بہت شکریہ، انشاء اللہ میں اس احسان کی بدلہ اتاروں گا۔‘‘ ابھی ہم نے حرکت نہیں کی تھی کہ میری بیوی نے پوچھا: ’’گاڑی کا دروازہ کس چابی سے کھلا ہے؟‘‘ میں نے حیران ہو کر کہا: ’’ہاں، تم سچ کہہ رہی ہو۔ کون سی چابی تھی بھلا؟‘‘
میں گاڑی سے اتر گیا اور ایک ایک کر کے ساری چابیان لگا کر دیکھ لیں، لیکن دروازہ کسی چابی سے کھلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے ایک گہرا سانس لیا اور کہا: ’’آغا ابرام، تمہارا بہت بہت شکریہ۔ تم شہادت کے بعد بھی لوگوں کی مشکلات حل کر رہے ہو۔‘‘
[1] حدیث قدسی، امام جعفر صادق علیہ السلام۔
کُردستان
[مہدی فریدوند]
1979 کی گرمیوں کا موسم تھا۔ہم نماز ظہرین کے بعد مسجد سلمان کے سامنے کھڑے تھے۔ میں ابراہیم سے باتیں کر رہا تھا کہ اچانک ہمارا ایک دوست جلدی سے آیا اور کہنے لگا: ’’امام کا پیغام سنا تم نے؟‘‘
ہم نے حیران ہو کر پوچھا: ’’نہیں، کیا کہا انہوں نے؟‘‘
اس نے بتایا: ’’امام نے حکم دیا ہے کہ کردستان کے جوانوں اور مجاہدوں کو محاصرے سے نجات دلاؤ۔‘‘
فوراً محمد شاہرودی بھی آ گیا اور کہنے لگا: ’’میں، قاسم تشکری اور ناصر کرمانی کردستان جا رہے ہیں۔‘‘
ابراہیم نے کہا: ’’ہم بھی ہیں۔‘‘
اس کے بعد ہم چلے گئے تا کہ جانے کی تیاری کر سکیں۔
سہ پہر کے چار بجے تھے۔ ہم گیارہ لوگ ایک بلیزر گاڑی میں بیٹھ کر کردستان کی طرف چل دیے۔ ایک MG3 کلاشنکوف، چار بندوقیں اور چند عدد دستی بم ہمارا کل اثاثہ تھے۔
اکثر راستے بند تھے۔ کئی جگہوں پر ہمیں کچے راستوں سے ہو کر گزرنا پڑا۔لیکن خدا کی مدد سے اگلے دن ظہر کے وقت ہم سنندج پہنچ گئے اور ہر طرف سے بے خبر شہر میں داخل ہو گئے۔ ایک اخبار فروش کے کھوکھے کے سامنے جا کر ہم رُک گئے۔
ابراہیم چھاؤنی کا پتا پوچھنے کے لیے اتر پڑا ۔ کھوکھے پر پہنچتے ہی اچانک وہ چلانے لگا: ’’بے دین انسان، یہ کیا بیچ رہے ہو؟‘‘
میں نے حیرت سے دیکھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ کھوکھے کے کنارے کچھ قطاروں میں شراب کی بوتلیں پڑی ہوئی تھیں۔ ابراہیم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، اسلحہ اٹھایا اور بوتلوں پر گولیاں برسانے لگا۔ بوتلیں ریزہ ریزہ ہو کر زمین پر بکھر گئیں۔اس کے بعد اس نے باقی بچ رہنے والی بوتلوں کو بھی توڑ دیا اور غصے میں بھرا ہوا کھوکھے والے جوان کے پاس گیا۔ وہ بہت زیادہ ڈر گیا تھا اور ڈر کے مارے کھوکھے کے ایک کونے میں جا چھپا تھا۔
ابراہیم نے اس کی طرف دیکھتےہوئے نرمی سے کہا: ’’میرے دوست، کیا تم مسلمان نہیں ہو؟ یہ کیا نجاستیں بیچ رہے ہو۔ کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ یہ سب نجاستیں شیطان کی طرف سے ہیں۔ ان سے دور رہو۔[1]‘‘
جوان نے تائید کے انداز میں اپنا سر ہلایا۔ وہ مسلسل کہے جا رہا تھا: ’’مجھ سےغلطی ہو گئی، مجھے معاف کر دیں۔‘‘
ابراہیم نے تھوڑی دیر اس سے باتیں کیں۔ پھر ہم اکٹھے باہر آ گئے۔
اس جوان نے ہمیں چھاؤنی کا پتا بتایا اور ہم چل پڑے۔ ایم جی تھری کی گولیوں کی آواز نے شہر کی خاموشی کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔ سڑک پر سبھی ہمیں دیکھے جا رہے تھے۔ ہم بھی کسی کی پرواہ کیے بغیر شہر میں گھوم رہے تھے۔ بالآخر ہم سنندج چھاؤنی میں پہنچ گئے۔
چھاؤنی کی تمام دیواروں پر مٹی سے بھری بوریاں چن دی گئی تھیں۔ وہ جگہ ایک فوجی قلعے کا منظر پیش کر رہی تھی۔ عمارت کی تو کوئی چیز نظر ہی نہیں آ رہی تھی۔
ہم نے بہتیرا دروازہ کھٹکھٹایا مگر بے سود۔ کسی نے دروازہ نہ کھولا۔ اندر ہی سے کہے جا رہے تھے: ’’شہر انقلاب مخالف لوگوں کے قبضے میں ہے۔ تم بھی یہاں مت ٹھہرو۔ ایئر پورٹ کی طرف چلے جاؤ۔‘‘ ہم نے کہا: ’’ہم تمہاری مدد کے لیے آئے ہیں۔ اچھا، کم سے کم یہ تو بتا دو کہ ایئر پورٹ کہاں ہے؟‘‘
ایک فوجی دیوار کی منڈیر پر سے جھانک کر کہنے لگا: ’’یہاں صورتحال بہت خراب ہے۔ ممکن ہے تمہاری گاڑی کو بھی تباہ کر دیں۔ جلدی جلدی اس طرف کے راستے سے شہر سے نکلو، تھوڑا آگے جا کر ایئرپورٹ پہنچ جاؤ گے۔ وہاں انقلابی فوج ٹھہری ہوئی ہے۔‘‘
ہم ایئر پورٹ کی طرف چل پڑے۔ وہاں پہنچ کر ہمیں سنندج کی صحیح صورتحال کا اندازہ ہوا۔ چھاؤنی اور ایئرپورٹ کے علاوہ سارا شہر انقلاب مخالف گروہوں کے قبضے میں تھا۔
فوج کی تین بٹالینز کے جوان وہاں تھے۔ سپاہ[2] کی ایک بٹالین بھی ایئر پورٹ ہی پر ٹھہری ہوئی تھی۔ شہر کے اندر سے ایئرپورٹ کی طرف گولہ باری ہوتی رہتی تھی۔
محمد بروجردی کو پہلی بار ہم نے وہیں دیکھا تھا: داڑھی اور سنہری بالوں والا جوان، خوبصورت اور مسکراتا ہوا چہرہ۔
برادر بروجردی ان حالات میں بھی بہت ہی اچھے انداز میں اپنے ماتحتوں سے کام لے رہا تھا۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ملک کی مغربی سپاہ کا کمانڈر ہے۔
ایک دن بعد ہم نے برادر بروجردی سے ایک میٹنگ رکھی۔ فوج کے اعلیٰ عہدیدار بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا: ’’امام خمینیؒ کے فرمان کی وجہ سے کافی زیادہ فوج آ رہی ہے اور وہ ابھی راستے میں ہے۔ انقلاب مخالف بھی ڈرے ہوئے ہیں۔ شہر کے اندر ان کے دو اہم ٹھکانے ہیں۔ ان دونوں ٹھکانوں پر حملوں کی منصوبہ بندی ہمارے پاس ہونا چاہیے۔‘‘
مختلف تجاویز و آراء پیش کی گئیں۔ ابراہیم نے کہا: ’’جیسا کہ شہر کے حالات سے نظر آ رہا ہے کہ عام شہریوں کو انقلاب مخالف گروہ سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ان کے ایک ٹھکانے پر ہم حملہ کر دیتے ہیں اور جب کامیاب ہو جائیں گے تو پھر دوسرے ٹھکانے کی خبر لیں گے۔‘‘
سب نے اس تجویز سے اتفاق کر لیا۔ طے پایا کہ جوانوں کو حملے کے لیے تیار کریں، لیکن اسی روز سپاہ کے جوانوں کو پاوہ کے علاقے میں بھیج دیا گیا۔ اب کمانڈ کے پاس فقط فوجی جوان ہی رہ گئے تھے۔
ابراہیم اور دوسرے دوست ایک ایک کر کے فوجیوں کے مورچوں میں جاتے، ان سے باتیں کرتے اور ان کا حوصلہ بڑھاتے۔اس کے بعد انہوں نے کہیں سے تربوزوں کی ایک گاڑی کا بندوبست کر لیا اور سارے تربوز فوجیوں میں تقسیم کر دیے۔ اس طریقے سے اپنے جونیئر فوجیوں کےساتھ ان کی دوستی مضبوط ہو گئی۔ انہوں نے مختلف پروگراموں کے ذریعے سے فوجیوں کا مورال کافی بلند کر دیا۔
ایک روز صبح کے وقت فوجی جوانوں میں آغا خلخالی کا اضافہ ہو گیا۔ دوسرے مختلف شہروں سے جنگجو جوانوں کی کافی تعداد بھی سنندج ایئرپورٹ پر پہنچ گئی۔ ضروری تیاری کے بعد جوانوں میں مختلف مہمیں اور ان کی ذمہ داریاں تقسیم کر دی گئیں۔ ظہر سے پہلے تک ہم نے انقلاب مخالف لوگوں کے ایک ٹھکانے پر حملہ کر دیا۔ ہماری توقع سے کہیں بڑھ کر جلد ہی اس جگہ کا محاصرہ کر لیا گیا۔ اس کے بعد ہم نے انقلاب مخالف گروہ کے بہت سے افراد گرفتار کر لیے۔
اس ٹھکانے سے بہت زیادہ تعداد میں حملوں کی تفصیل، کافی مقدار میں ڈالرز، جعلی پاسپورٹس اور شناختی کارڈز بھی برآمد ہوئے۔ ابراہیم نے ان سب چیزوں کو ایک بوری میں ڈالا اور سپاہ کے سربراہ کے حوالے کر دیا۔
انقلاب مخالف گروہ کا دوسرا ٹھکانہ بھی بغیر ہاتھ پاؤں چلائے ہمارے قبضے میں آ گیا۔ شہر پر دوبارہ انقلابی جوانوں کا قبضہ ہو گیا۔ وہاں کے فوجیوں کا کمانڈر کہا کرتا تھا: ’’اگر چند سال اور بھی ہم صبر کرتے تب بھی میرے فوجی جوانوں میں ایسا حملہ کرنے کی جرأت پیدا نہ ہوتی۔ اس سلسلے میں ہم برادر ہادی اور دوسرے جنگجو دوستوں کے مرہونِ احسان ہیں۔ انہوں نے فوجی جوانوں سے دوستی کر کے ان کے مورال کو بہت زیادہ بلند کر دیا تھا۔‘‘
اس عرصے میں کمانڈرز نے ابراہیم اور دوسرے جوانوں کو بہت سے فوجی فنون اور جنگ کے طور طریقے سکھائے، جنہوں نے ان جوانوں کو بہادر اور نڈر فوجیوں میں تبدیل کر دیا۔ اس کا نتیجہ دفاع مقدس میں کھل کر سامنے آیا۔
اگرچہ کردستان کے دوسرے شہروں میں چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں مگر سنندج کے حالات زیادہ لمبے عرصے تک خراب نہ رہے اور جلد ہی اپنے معمول پر آ گئے۔
ستمبر 1979 میں ہم تہران واپس آ گئے۔ قاسم اور کچھ دوسرے جوان کردستان ہی میں رہ گئے اور شہید چمران کے ساتھیوں میں شامل ہو گئے۔
تہران واپس آنے کے بعد ابراہیم محکمہ کھیل اور ورزش کے شعبۂ تفتیش سے محکمہ تعلیم و تربیت میں چلا گیا مگر اس کی درخواست قبول نہ ہوئی، البتہ کافی تگ و دو کے بعد بالآخر قبول کر لی گئی۔ اس نے ایک ایسے کمپلیکس میں اپنی ذمہ داری سنبھال لی جہاں اس جیسے لوگوں
کی شدید ضرورت تھی اور اب بھی ہے۔
[1] سورہ مائدہ کی آیت 90 کی طرف اشارہ ہے۔
[2] مراد سپاہ پاسداران ہے۔ جو ایران کی فوج سے ہٹ کر ایک نیم خودمختار رضاکارانہ فوجی ادارہ ہے۔
آئیڈیل استاد
[عباس ہادی]
ابراہیم کہا کرتا تھا: ’’اگر یہ طے ہے کہ انقلاب کو زندہ رہنا ہے اور آئندہ نسل کو انقلابی ہونا ہے تو پھر ضروری ہے کہ ہم سکولوں میں اپنی فعالیت انجام دیں کیونکہ مستقبل میں مملکت ان لوگوں کے حوالے ہو گی جنہوں نے طاغوت کے زمانے کے حالات کو محسوس نہ کیا ہو گا۔‘‘
جب وہ دیکھتا کہ ایسے اشخاص سکولوں میں استاد کے طور پر موجود ہیں جو اصلاً انقلابی نہیں ہیں تو اسے بہت دکھ ہوتا۔ وہ کہتاتھا: ’’ہمارے سکولوں اور بالخصوص ہائی سکولوں میں بہترین اور خالص ترین انقلابی جوانوں کو موجود ہونا چاہیے۔‘‘ اسی وجہ سے وہ تھوڑی سردردی والے کام کو چھوڑ کر ٹھیک ٹھاک الجھائے رکھنے اور کم تنخواہ والے کام میں چلا گیا۔
مادیات تنہا ایسی چیز تھی جس کی ابراہیم کو کبھی فکر نہ ہوتی تھی۔ وہ کہا کرتا تھا: ’’روزی خدا کے ہاتھ میں ہے۔ پیسوں میں برکت کا ہونا زیادہ اہم ہے۔ جو کام بھی خدا کے لیے ہو گا اس میں حتماً برکت بھی ہو گی۔‘‘
بہر حال اس نے دو سکولوں میں پڑھانا شروع کر دیا۔ ابوریحان ہائی سکول (منطقہ 14) میں کھیل کے استاد جبکہ تہران منطقہ 15 میں معذور بچوں کے ایک سکول میں عربی کی تدریس کے فرائض انجام دینے لگا۔
عربی کی تدریس اس نے زیادہ عرصے تک نہ کی۔ اسی سال کے کچھ ماہ گزرے تو اس کے بعد وہ پھر کبھی معذور بچوں کے سکول میں نہ گیا اور نہ ہی اس نے نہ جانے کی وجہ کبھی بتائی۔
ایک دن اسی سکول کے پرنسپل میرے پاس آ کر کہنے لگے: ’’آپ ہادی کے بھائی ہیں۔ آپ کو خدا کا واسطہ ان سے کہیں کہ وہ سکول میں واپس آ جائیں۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’مگر ہوا کیا ہے؟‘‘
تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولے: ’’دراصل ابراہیم اپنے ایک شاگرد کو اپنی جیب سے پیسے دیتا تھا تا کہ ہر روز پہلے پیریڈ میں پوری جماعت کے لیے روٹی اور پنیر خرید کر لے آئے۔ ہادی کا خیال تھا کہ یہ بچے پسماندہ علاقے سے ہیں، جن میں اکثر کلاس کے دوران بھوکے ہوتے ہیں۔ بھوکا بچہ کبھی بھی درس کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھ سکتا۔‘‘
پرنسپل نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’میں نے ہادی سے اس بابت سختی سے بات کی اور کہا کہ تم نے ہمارے مدرسے کا نظم و ضبط بگاڑ کر رکھ دیا، حالانکہ اس کے اس اقدام سے ہمارے مدرسے کے نظم و ضبط میں کوئی خلل واقع نہ ہوا تھا۔ اس کے بعد میں نے اس پر چلاتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ تمہیں یہاں اس کام کی بالکل اجازت نہیں ہے۔ اس کے بعد ہادی ہمیں چھوڑ کر چلا گیا اور اس وقت اس نے کسی اور سکول میں اپنی جماعتوں کا انتظام کر لیا۔ اب تمام طلاب اور ان کے والدین میرے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ ابراہیم ہادی کو واپس لے کر آؤں۔ سبھی اس کے اخلاق اور تدریس کی تعریفیں کرتے ہیں۔ اس نے اس تھوڑے سے عرصے میں بہت سے بے سروسامان اور یتیم طلبہ کے لیے وسائل مہیا کیے کہ جن کی مجھے بھی خبر نہیں تھی۔‘‘
میں نے ابراہیم سے اس بارے میں بات کی اور پرنسپل کی باتیں اسے بتائیں لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اس نے اس وقت دوسرے سکول میں پڑھانا شروع کر دیا تھا۔
ابراہیم ابوریحان ہائی سکول میں فقط کھیل کا استاد ہی نہیں بلکہ بچوں کے اخلاق و کردار کا بھی استاد تھا۔
طلاب نے بھی اپنے استادکی پہلوانی اور چیمپئن شپ کے قصے سن رکھے تھے، وہ بھی اس پر شیفتہ تھے۔
اس زمانے میں جب اکثر انقلابی جوان اپنے ظاہری حلیے پر اتنی توجہ نہیں دیتے تھے، ابراہیم کوٹ پینٹ میں بن ٹھن کر سکول میں آیا کرتا تھا۔
خوبصورت اور نورانی چہرے، جاذب گفتگو اور اچھے رویے نے ایک مکمل استاد بنا دیا تھا۔
جماعت کے دوران سرگرمی میں وہ کافی مہارت رکھتا تھا۔ موقع پر ہنستا اور مناسب موقع پر طلاب کو اپنی طرف جذب کرتا اور تفریح کے وقت سکول کے صحن میں آ جاتا۔
اکثر طلاب ہادی کے اردگرد اکٹھے ہو جاتے۔ وہ سب سے پہلے سکول میں حاضر ہوتا اور سب سے آخر میں نکلتا۔ اس کے آس پاس ہر وقت طلاب کا جمگھٹا رہتا۔
اس زمانے میں جب سیاسی حالات میں کافی ہلچل مچی ہوئی تھی، ابراہیم نے انقلاب کی خدمت کے لیے مناسب جگہ کا انتخاب کیا تھا۔
مجھےا چھی طرح یاد ہے کہ کچھ طلاب مختلف سیاسی جماعتوں سےمتاثر ہو گئے تھے۔ ابراہیم نے ایک رات ان سب کو مسجد میں بلایا۔ انقلابی مسائل کی اچھی سمجھ بوجھ رکھنے والے کچھ انقلابی دوستوں کو مدعو کیا اور سوال و جواب کی ایک نشست رکھی۔ اس رات ان طلاب کے تمام سوالوں کے جواب دیے گئے۔ جب اس رات نشست ختم ہوئی تو اڑھائی بچ چکے تھے۔
80-1979 کے تعلیمی سال میں ہادی بہترین سیکرٹری کے ایوارڈ کے لیے منتخب ہوا، اگرچہ یہ اس کی تدریس کا پہلا اور آخری سال تھا۔
23 ستمبر 1980 میں تہران کے منطقہ 12 میں تعلیم و تربیت کے لیے ابراہیم کی ملازمت کا آرڈر جاری ہوا، لیکن جنگ کے حالات کی وجہ سے وہ جماعت میں نہ جا سکا۔
اس سال ابراہیم کی مصروفیات بہت بڑھ گئی تھیں۔ سکول میں تدریس، کمیٹی میں مشغولیت، زورآزمائی اور کشتی، مسجد اور انجمن میں نوحہ خوانی و منقبت خوانی اور بہت سے انقلابی پروگرامز میں اس کی شرکت وغیرہ کہ ان سرگرمیوں میں سے ہر ایک کو انجام دینے کے لیے کئی افراد کی ضرورت پڑتی تھی۔
کھیل سیکرٹری
[شہید رضا ہوریارؒ کی یادیں]
مئی 1980 کا زمانہ تھا۔ میں شہداء ہائی سکول میں کھیل سیکرٹری تھا۔ ہمارے سکول کے ساتھ ہی ابوریحان ہائی سکول تھا۔ ابراہیم بھی وہاں کھیل سیکرٹری تھا۔
میں اس سے ملنے کے لیے گیا۔ ہم کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔میں ابراہیم کے اخلاق اور رویے کا دلدادہ ہو گیا۔
رخصت کے وقت وہ مجھ سے کہنے لگا: ’’اکیلے اکیلے والی بال کا ایک مقابلہ ہو جائے؟!‘‘
میری ہنسی چھوٹ گئی۔ میں قومی والی بال ٹیم کے ساتھ کئی عالمی مقابلوں میں حصہ لے چکا تھا اور اپنے آپ کو کافی ماہر کھلاڑی سمجھتا تھا۔ اب یہ صاحب مجھ سے کھیلنا چاہ رہے تھے۔ میں نے کہا: ’’ٹھیک ہے۔‘‘ البتہ میں نے اپنے دل میں کہا: ’’میں کھیلتے وقت ہاتھ ذرا ہلکا رکھوں گا تا کہ ابراہیم کی سبکی نہ ہو۔‘‘
اس نے پہلی سروس پھینکی۔ وہ اتنی مضبوط تھی کہ میں اسے سنبھال نہ سکا! پھر دوسری، تیسری، ۔۔۔ میرے چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا۔
طلاب کے سامنے میری سبکی ہونے لگی۔
وہ عجیب طرح کی شاٹ مارتا تھا۔ اس کی سروس کو پکڑنا واقعاً بہت مشکل تھا۔ میدان کے اردگرد بچوں نے گھیرا ڈال رکھا تھا۔
اس نے میری طرف دیکھا اور اس بار آہستہ سے شاٹ لگائی۔ میں نے پہلا پوائنٹ سکور کر لیا۔ اس کے بعد دوسرا، پھر تیسرا۔۔۔ وہ مجھے شرمندگی سے بچانا چاہتا تھا اس لیے جان بوجھ کر خراب شاٹ کھیل رہا تھا۔
میرے پوائنٹس ابراہیم کے برابر ہو گئے اور فیصلہ مزید دوپوائنٹس کے حصول پر ٹھہرا اور اس طرح میرا کچھ بھرم رہ گیا۔ میں نے گیند اس کی طرف پھینکی تاکہ وہ سروس پھینکے۔
اس نے گیند ہاتھ میں لے کر جیسے ہی سروس پھینکنا چاہی تو اذان کی آواز بلند ہوئی: اللہ اکبر۔۔۔ یہ اذان ظہر کی آواز تھی۔
اس نے گیند زمین پر رکھی اور رو بہ قبلہ ہو کر اونچی اونچی اذان کہنے لگا۔ پورے ہائی سکول میں اس کی آواز گونجنے لگی۔
کچھ طلاب وضو کرنے اور کچھ اپنے گھروں کو چلے گئے۔
وہ وہیں صحن میں نماز پڑھنے لگا اور باقی طلاب اس کے پیچھے اقتداء کرنے لگے۔ صحن میں جماعت ہوئی اور ہم سب نے اس کی اقتداء میں نماز پڑھی۔
نماز ختم ہوئی تو وہ میری طرف پلٹا اور مصافحہ کرتے ہوئے کہنے لگا: ’’آغا رضا، مقابلہ اس وقت اچھا ہوتا ہے جب اس میں دوستی بھی شامل ہو۔‘‘[1]
[1] رضا ہوریار، ایک کھلاڑی کمانڈر۔ انقلاب سے پہلے وہ بہروں کی قومی والی بال ٹیم کے ساتھ عالمی مقابلوں میں بھی شریک رہے اور چیمپئن شپ جیتی۔(اگرچہ وہ خود بہرے نہیں تھے۔) رضا معرکہ کربلا 5 میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
اول وقت میں نماز
[شہید ؒ کے کچھ دوست]
اس کی تمام سرگرمیوں کا مرکز و محور نماز تھی۔ حالات جیسے بھی ہوں، ابراہیم نماز کو ہمیشہ اول وقت ہی میں پڑھتا تھا اور وہ بھی زیادہ تر مسجد میں جماعت کے ساتھ۔ وہ دوسروں کو بھی نماز باجماعت کی دعوت دیا کرتا تھا۔
وہ امیر المومنین علیہ السلام کی اس حدیث کا واضح مصداق تھا، جس میں امامؑ فرماتے ہیں: ’’جو شخص بھی مسجد میں آمد و رفت رکھتا ہے اسے درج ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں: ایک ایسا بھائی جو راہ خدا میں اس کا رفیق ہوتا ہے، جدید معلومات، خدا کی وہ رحمت جو اس کے انتظار میں ہوتی ہے، ایک ایسی نصیحت جو اسے ہلاکت سے نجات دلاتی ہے، ایسی بات جو اس کی ہدایت کا سبب بنتی ہے، گناہوں کا ترک کرنا۔‘‘[1]
انقلاب سے پہلے بھی ابراہیم فجر کی نماز مسجد میں باجماعت پڑھا کرتا تھا۔ اس کی یہ عادت ہمیں شہید رجائی کی معروف جملے کی یاد دلاتی تھی: ’’نماز سے نہ کہو کہ مجھے کام ہے، بلکہ کام سے کہو کہ وقتِ نماز ہے۔‘‘
اس کی بہترین مثال اکھاڑے میں نماز جماعت کا اہتمام تھا۔ زور آزمائی اور ورزش کے دوران جیسے ہی اذان کا وقت ہوتا، وہ اپنی ورزش کو بند کر دیتا اور نماز جماعت قائم کرتا۔
کئی بار سفر کے دوران یا محاذ پر جب بھی اذان کا وقت ہوتا ابراہیم اذان کہتا اور گاڑی روک کر سب کو نماز باجماعت کی ترغیب دلاتا۔ اس کی میٹھی آواز اور دلنشین اذان سب کو اپنے اندر جذب کر لیتی۔
وہ پیغمبر اعظمﷺ کے اس نورانی کلام کا مصداق تھا: ’’خداوند عالم نے وعدہ فرما رکھا ہے کہ مؤذن اور اس شخص کو جو وضو کرے اور مسجد میں نماز جماعت میں شرکت کرے، بغیر حساب و کتاب کے جنت میں لے جائے گا۔‘‘[2]
اسی عرصے میں ابراہیم کی، مسجد میں متواتر آنے جانے والے کافی جوانوں سے آشنائی اورپھر دوستی ہوئی۔
جوانی کے زمانے میں اس نے اپنی لیے ایک عبا کا انتظام کر لیا تھا جسے وہ اکثر اوقات نماز میں پہنتا تھا۔
*****
1980 کا سال تھا۔ ایک رات بسیج[3] کا پروگرام آدھی رات تک طول پکڑ گیا۔ فجر کی اذان میں دو گھنٹے رہتے تھے کہ جوانوں کا سارا کام ختم ہو گیا۔ ابراہیم نے سب جوانوں کو اکٹھا کیا اور کردستان کے واقعات انہیں سنانے لگا۔ اس کے قصے دلچسپ بھی تھے اور مزاحیہ بھی۔ اس نے سارے جوانوں کو اذان فجر تک بیدار رکھا۔ فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ کر وہ سب اپنے گھروں کو چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد ابراہیم نے بسیج کے سربراہ سے کہا: ’’اگر یہ جوان اسی وقت چلے جاتے تو نہیں معلوم بے چارے نماز کے لیے اٹھ بھی پاتے یا نہیں۔ آپ لوگ بسیج کا کام یا تو جلدی ختم کر لیا کریں یا جوانوں کو فجر تک بیدار رکھیں تا کہ ان کی نماز قضا نہ ہو جائے۔‘‘
*****
دن کے وقت ابراہیم شوخ اور بذلہ سنج انسان دکھائی دیتا تھا اور بہت زیادہ عامیانہ گفتگو کیا کرتا تھا، لیکن راتوں میں عموماً وہ سحر سے پہلے بیدار ہو جاتا اور نماز شب ادا کرتا تھا۔ اس کی کوشش ہوتی کہ اس کی یہ عبادت مخفی ہی رہے۔ جیسے جیسے اس کی شہادت کے ایام نزدیک آتے جا رہے تھے اس کی سحر خیزی بھی لمبی ہوتی جا رہی تھی۔ گویا وہ جانتا تھا کہ احادیث میں شیعہ ہونے کی علامت سحری خیزی اور نماز شب کو قرار دیا گیا ہے۔
وہ دعائے کمیل، دعائے ندبہ اور دعائے توسل پوری پابندی اور باقاعدگی سے پڑھا کرتا تھا۔ ہر روز فجر کے بعد دعا و مناجات اور زیارات میں مشغول رہتا۔ روزانہ یا تو زیارت عاشورا مکمل پڑھتا یا اس کا فقط آخری سلام پڑھتا، مگر پڑھتا ضرور تھا۔
وہ ہمیشہ آیہ ’’و جعلنا۔۔۔‘‘ کا زمزمہ کرتا رہتا۔ ایک بار میں نے اس سے پوچھا: ’’ابرام بھائی،یہ آیت تو دشمن کے مقابلے میں حفاظت کے لیے ہے۔ یہاں تو ہمارا کوئی دشمن نہیں ہے!‘‘
اس نے معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا: ’’کیا شیطان سے بڑا بھی کوئی دشمن ہے؟!‘‘
*****
ایک بار نماز کی اہمیت اور نوجوانوں کے موضوع پر بحث ہو رہی تھی۔ ابراہیم نے کہا: ’’جس وقت میرے والد کا انتقال ہوا تھا تو میں کافی اداس اور پریشان تھا۔ پہلی رات کو جب سب مہمان چلے گئے تو میں نے خدا سے خفا ہوتے ہوئے نماز ہی نہیں پڑھی اور سو گیا۔ جیسے ہی آنکھ لگی تو خواب میں اپنے والد صاحب کو دیکھا۔ انہوں نے گھر کا دروازہ کھولا اور غصے سے سیدھے میرے کمرے کی طرف لپکے۔ میرے سامنے کھڑے ہو کر کئی لمحوں تک میرے چہرے پر نظریں گاڑ کر مجھے دیکھتے رہے۔ اسی وقت میں نیند سے اچھل پڑا۔ والد صاحب نے آنکھوں ہی آنکھوں میں بہت کچھ کہہ دیا تھا۔نماز ابھی قضا نہیں ہوئی تھی۔ میں اٹھا اور وضو کر کے نماز پڑھنے لگا۔‘‘
*****
دوسرے وہ امور جنہیں وہ بہت زیادہ اہمیت دیتا تھا، ان میں ایک نماز جمعہ بھی تھی، اگرچہ جب نماز جمعہ کا باقاعدہ انعقاد ہونے لگا تو ابراہیم یا تو کردستان میں مصروف ہوتا تھا یا محاذوں پر رہتا تھا۔
وہ جب بھی تہران میں ہوتا تو نماز جمعہ میں حتماً شرکت کرتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا: ’’تم لوگ نہیں جانتے کہ نماز جمعہ کا کتنا ثواب اور کتنی برکتیں ہیں۔‘‘
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ہر وہ قدم جو نماز جمعہ کی طرف اٹھے، خداوند کریم اس پر آگ حرام کر دیتا ہے۔‘‘[4]
[1] مواعظ العددیہ: ص281۔
[2] مستدرک الوسائل: ج6، ص448
[3] بسیج، ایران عراق جنگ کے دوران امام خمینیؒ کے حکم سے تشکیل پانے والی رضاکار فوج۔
[4] نماز در آئین حدیث: ص101، حدیث 215۔
چور کے ساتھ سلوک
[عباس ہادی]
ہم کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے اور ہمارے ہاں مہمان آئے ہوئے تھے۔ گلی سے ایک آواز آئی تو ابراہیم نے جلدی جلدی کھڑکی سے باہر دیکھا۔ ایک شخص اس کے بہنوئی کی موٹرسائیکل لے کر بھاگنے ہی والا تھا۔ وہ زور سے چلّایا: ’’پکڑو اسے۔۔۔ چور۔۔۔ چور! ‘‘ اس کے بعد خود بھی جلدی سے بھاگتا ہوا دروازے کی طرف لپکا۔ محلے کے ایک لڑکے نے موٹر سائیکل کو لات مار دی تھی جس کی وجہ سے چور موٹرسائیکل سمیت زمین پر آ رہا تھا۔ زمین پر پڑے لوہے کے ایک ٹکڑے سے چور کا ہاتھ کٹ گیا اور اس کا خون بہنے لگا۔ اس کے چہرے سے خوف اور اضطراب ٹپک رہا تھا۔ وہ درد سے کراہ رہا تھا کہ ابراہیم اس کے سر پر پہنچ گیا۔ اس نے موٹر سائیکل اٹھائی اور سٹارٹ کر کے کہنے لگا: ’’جلدی سے سوار ہو جاؤ۔‘‘
ابراہیم اسی موٹر سائیکل پر بٹھا کر اسے کلینک میں لے گیا اور اس کے ہاتھ پر مرہم پٹی کروائی۔ اس کے بعد وہ دونوں مسجد چلے گئے۔ نماز کے بعد ابراہیم اس کے پاس بیٹھ گیا: ’’تم چوری کیوں کرتے ہو؟ حرام کی کمائی تو۔۔۔‘‘ چور جو درد کے مارے رو رہا تھا، کہنے لگا: ’’میں یہ سب باتیں جانتا ہوں۔ مگر کیا کروں۔ بے روزگار ہوں۔ بیوی بچوں والا ہوں۔ دوسرے شہر سے آیا ہوں۔ مجبور ہو کرآج چوری کرنا پڑی۔‘‘
ابراہیم کچھ سوچنے لگا۔ پھر اٹھ کر ایک نمازی کے پاس گیا اور اس سے بات کرنے لگا۔ پھر خوشی خوشی واپس آیا اور چور سے کہنے لگا: ’’خدا کا شکر ہے۔ میں نے تمہارے لیے ایک مناسب کام پیدا کر لیا ہے۔ کل سے کام پر جاؤ۔ یہ پیسے بھی رکھ لو اور خدا سے بھی مدد طلب کرو۔ ہمیشہ حلال کی تلاش میں رہو۔ حرام مال، زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیتا ہے۔ حلال کی روزی کم بھی ہو تو برکت والی ہوتی ہے۔‘‘
جنگ کا آغاز
[تقی مسگرہا]
پیر 22 ستمبر 1980 کی صبح تھی۔ میں نے ابراہیم اور اس کے بھائی کو دیکھا کہ سامان کو کہیں منتقل کر رہے ہیں۔ میں نے سلام کرنے کے بعد کہا: ’’آج سہ پہر کو قاسم کچھ سازو سامان سے بھری ایک گاڑی لے کُردستان جا رہا ہے۔ ہم بھی اس کے ساتھ ہیں۔‘‘
اس نے حیران ہو کر پوچھا: ’’خیریت ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’ممکن ہے دوبارہ جھڑپیں شروع ہو جائیں۔‘‘
اس نے کہا: ’’ٹھیک ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو میں بھی آ جاؤں گا۔‘‘
اسی دن ظہر کے وقت عراقی جہازوں کے حملوں سے جنگ شروع ہو گئی۔ سڑک پر سارے لوگ آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔
سہ پہر 4 بجے ہم سڑک پر تھے۔ قاسم تشکری ضروری سازو سامان سے بھری جیپ[1] لیے آ گیا۔ علی خرّمدل بھی اس کے ساتھ تھا۔ میں بھی سوار ہو گیا۔ جب ہم چلنے لگے تو ابراہیم بھی آ گیا اور ہمارے ساتھ سوار ہو گیا۔ میں نے کہا: ’’ابراہیم بھائی، آپ سامان منتقل نہیں کر رہے تھے؟!‘‘
اس نے کہا: ’’سامان نئے گھر میں رکھ دیا اور میں آ گیا۔‘‘
جنگ کا دوسرا دن تھا۔ ہم بہت کٹھن حالات میں کئی کچے راستوں کو عبور کرتے ہوئے ظہر سے پہلے سرپل ذہاب پہنچے۔ کسی کو بھی اپنی آنکھوں دیکھے پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ لوگ گروہ گروہ شہر سے فرار ہو رہے تھے۔
شہر کے اندر سے توپ کے گولوں اور دستی بموں کی آوازیں صاف سنائی دیتی تھیں۔
ہم شش و پنج میں تھے کہ کیا کریں۔ ایک درے سے ہم شہر کے داخلی دروازے میں داخل ہوئے۔ دور سے سپاہ کے جوان ہمیں نظر آئے جو ہمیں دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے تھے۔ میں نے کہا: ’’قاسم، جوان اشارہ کر رہے ہیں کہ جلدی آئیں۔‘‘
اچانک ابراہیم نے کہا: ’’وہاں دیکھو!‘‘ اس کے بعد اس نے سامنے کی طرف اشارہ کیا۔
ٹیلے کے پیچھے سے عراقی ٹینک صاف نظر آ رہے تھے جو مسلسل گولہ باری کر رہے تھے۔ کچھ گولے ہماری گاڑی کی طرف بھی آئے مگر خدا کا شکر کہ ہم خیریت سے رہے۔
ہم نے درے کو عبور کیا۔ سپاہ کا ایک جوان آگے بڑھا اور کہا: ’’تم لوگ کون ہو؟! میں تمہیں مسلسل اشارہ کر رہا تھا کہ ادھر نہ آؤ مگر تم لوگ گاڑی کا ایکسیلیٹر دبائے ہی جا رہے تھے۔‘‘
قاسم نے پوچھا: ’’یہاں کیا حالات ہیں؟ کمانڈر کون ہے؟‘‘
اس مجاہد نے جواب دیا: آغا بروجردی شہر میں جوانوں کے ساتھ ہیں۔ آج صبح عراقیوں نے شہر کے اکثر حصے پر قبضہ کر لیا تھا، مگر ہمارے جوانوں کے حملوں نے انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔
ہم شہر میں داخل ہو گئے۔ ایک پُر امن جگہ پر گاڑی روکی۔ قاسم نے وہیں دو رکعت نماز پڑھی۔
ابراہیم نے آگے بڑھ کر حیرانی سے پوچھا: ’’قاسم! یہ کون سے نماز تھی؟‘‘
قاسم نے اطمینان سے جواب دیا: ’’کردستان میں ہمیشہ میں یہ دعا کرتا تھا کہ میں جب بھی اسلام کے دشمنوں سےجنگ کروں تو اسیر یا معذور نہ ہو جاؤں، لیکن اس دفعہ خدا سے دعا کی ہے کہ وہ مجھے شہادت نصیب فرمائے۔ اب دنیا کو برداشت کرنے کی مجھ میں طاقت نہیں ہے۔‘‘
ابراہیم بہت دقت سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ اس کے بعد ہم محمد بروجردی کے پاس پہنچ گئے۔ وہ قاسم کو پہلے ہی سے جانتا تھا۔ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ تھوڑی دیر بات چیت کرنے کے بعد ایک جگہ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہنے لگا: ’’مجاہدوں کی دو بٹالینز اس طرف گئی ہیں مگر ان کا کوئی کمانڈر نہیں ہے۔ قاسم جان، تم جاؤ، دیکھو تو تم انہیں شہر میں واپس لا سکتے ہو یا نہیں؟‘‘
ہم اکٹھے اس طرف چلے گئے۔ وہ جگہ مجاہدوں سے بھری ہوئی تھی۔ سارے مسلح اور تیار مگر بہت ڈرے ہوئے تھے۔ وہ عراق کی طرف سے اس شدید حملے کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔
قاسم اور ابراہیم آگے بڑھے اور ان سے باتیں کرنے لگے۔ انہوں نے ان سے ایسی باتیں کیں کہ ان میں جوش اور غیرت ٹھاٹھیں مارنے لگی۔ آخر میں انہوں نے کہا: ’’جو کوئی بھی مرد ہے، غیرتمند ہے اور نہیں چاہتا کہ ان بعثیوں کے ہاتھ اس کی عزت تک پہنچیں، وہ ہمارے ساتھ آئے۔‘‘
ان کی باتوں نے مجاہدوں میں ایک روح پھونک دی اور سبھی ان کے ساتھ چل پڑے۔
قاسم نے فوج کو ترتیب دیا اور ہم شہر میں داخل ہو گئے۔ داخل ہوتے ہی مورچہ بندی شروع کر دی۔ کچھ مجاہد کہنے لگے: ’’ہمارے پاس توپ 106 بھی موجود ہے۔‘‘
قاسم نے ایک انتہائی مناسب جگہ تلاش کرتے ہوئے انہیں دکھائی۔ وہ توپ کو وہاں لے گئے اور گولہ باری شروع کر دی۔ توپ کے چند گولے داغنے کے بعد عراقی ٹینک پیچھے کی طرف ہٹ گئے اور اپنے مورچوں میں واپس جا کر پوزیشنیں سنبھال لیں۔ اس سے ہمارے جوانوں کا حوصلہ کافی بڑھ گیا۔
جنگ کا دوسرا روز ختم ہونے کے قریب تھا۔ قاسم نے ایک گھر کو ٹھکانہ بنا لیا جو جوانوں کے مورچے سے نزدیک تھا۔ پھر مجھے کہنے لگا: ’’جاؤ ابراہیم کو بلا لاؤ تا کہ ہم مل کر دعائے توسل پڑھیں۔‘‘
منگل کی رات تھی۔ میں چلا گیا اور قاسم نماز پڑھنے میں مشغول ہو گیا۔ میں ابھی زیادہ دور نہ گیا ہوں گا کہ ایک گولہ اسی گھر کے دروازے کے سامنے آ کر پھٹا۔ میں نے کہا: ’’خدا کا شکر کہ قاسم اندر کمرے میں چلا گیا تھا۔‘‘ میں واپس پلٹ آیا۔ ابراہیم نے گولے کی آواز سن لی تھی۔ وہ بھی جلدی سے ہمارے پاس آ گیا۔ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئے تو جو منظر ہماری آنکھوں نے دیکھا تھا اس پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ مسور کے دانے جتنا بم کا ایک ٹکڑا کھڑکی سے ہوتا ہوا قاسم کے سینے میں پیوست ہو گیا تھا۔ قاسم نے نماز کی حالت میں اپنی آرزوئے شہادت کو پا لیا تھا۔
محمد بروجردی یہ خبر سن کر کافی رنجیدہ ہو گیا۔ اس رات ہم نے قاسم کے جسد کے پاس دعائے توسل پڑھی۔ اگلے دن اس کے جسد کو تہران روانہ کر دیا۔
اس سے اگلے دن ہم ہیڈ آفس چلے گئے۔ وہاں سے ہمیں حکم ملا: ’’اسلحے کے گودام کی حفاظت آپ کچھ جوانوں کےسپرد کی جا رہی ہے۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے ایک سکول ہمارے حوالے کیا جو اسلحے سے تقریباً بھرا ہوا تھا۔
ہم ایک دن وہاں ٹھہرے لیکن چونکہ وہاں خطرہ زیادہ تھا اس لیے وہ سارا سامان شہر سے باہر منتقل کر دیا گیا۔ ابراہیم مذاق سے کہتا تھا: ’’دوستو! یہاں خدا کو زیادہ سے زیادہ یاد کیا کرو کیونکہ اگر ایک گولہ بھی ادھر آ گیا تو ہم میں سے کوئی بھی باقی نہیں بچے گا۔‘‘
جب گودام خالی ہو گیا تو ہم جنگ کی فرنٹ لائن پر چلے گئے۔ سرپل ذہاب کے مغربی حصے میں مورچے بنا دیے گئے تھے۔
اصغر وصالی اور علی قربانی جیسے چند تربیت یافتہ کماندڑز مجاہدوں کی کمان سنبھالے ہوئے تھے۔
’’پاوہ‘‘ کے علاقے میں ان کا گوریلا فوجیوں کا دستہ تھا جو ’’سرخ رومال گروپ‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ اب یہ لوگ انہی گوریلا فوجیوں کو اپنے ہمراہ لے کر سرپل کے علاقے میں آ گئے تھے۔
ہم نے شہر کا ایک دورہ کیا۔ محمد شاہرودی، مجید فریدوند اور کچھ دوسرے دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔ اس کے بعد ہم اکٹھے اس مقام پر چلے گئے جہاں عراقی فوجیوں سے چھڑپیں ہو رہی تھیں۔
ٹیلے کی بلندی پر واقع مورچے میں موجود کمانڈر نے ہمیں بتایا: ’’سامنے والا ٹیلا عراقی فوجیوں کے ساتھ ہماری جنگ کا مقام ہے۔ اس سے آگے سارے ٹیلوں پر عراقی فوجی ہی قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔‘‘
کچھ لمحے گزرے تو دور سے ایک عراقی فوجی دکھائی دیا۔ سب فوجیوں نے فائرنگ شروع کر دی۔
ابراہیم چلّا اٹھا: ’’تم لوگ کیا کر رہے ہو! ساری گولیاں ختم کر دیں۔‘‘
سب جوان خاموش ہو گئے۔ ابراہیم ایک عرصے تک کردستان میں رہا تھا اور اس نے اچھے طریقے سے فوجی تربیت لے رکھی تھی، کہنے لگا: ’’صبر کرو۔ جب دشمن تم سے زیادہ نزدیک ہو جائے تو پھر فائرنگ کرنا۔‘‘
اسی وقت عراقیوں نے ٹیلے کے نیچےسے فائرنگ شروع کر دی۔ آر پی جی سے نکلے ہوئے راکٹ اور توپ کے گولے مسلسل ہماری طرف فائر ہو رہے تھے۔
اس کے بعد عراقی ہمارے مورچوں کی طرف بڑھنے لگے۔ جن مجاہدین نے پہلی دفعہ اسلحہ اپنے ہاتھ میں لیا تھا وہ یہ منظر دیکھ کر پچھلے مورچوں کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ ہم بہت ڈر گئے تھے۔ کمانڈر نے چلّا کر کہا: ’’صبر کرو۔ مت گھبراؤ۔‘‘
تھوڑی دیر عراقیوں کی طرف سے ہونے والی فائرنگ کی آواز کم ہو گئی۔ میں نے مورچے سے باہر دیکھا تو عراقی ہمارے مورچوں سے کافی نزدیک پہنچ گئے تھے۔
اچانک ابراہیم نے چند دوستوں کی مدد سے عراقیوں پر حملہ کر دیا۔ وہ لوگ مورچوں سے باہر کی طرف دوڑتے ہوئے اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے۔
کچھ دیر نہ گزری تھی کہ کئی عراقی مارے گئے اور کچھ زخمی ہو گئے۔ ابراہیم اور اس کے دوستوں نے گیارہ عراقیوں کو گرفتار کر لیا۔ باقی لوگ بھاگ گئے۔
ابراہیم نے جلدی سے انہیں شہر کی طرف روانہ کر دیا۔ ابراہیم کے اس جرأتمندانہ اقدام سے سب جوانوں کا حوصلہ بلند ہو گیا۔ کچھ جوان مسلسل قیدیوں کی تصویریں اتار رہے تھے۔ کچھ ابراہیم کے ساتھ بھی یادگاری تصاویر بنوا رہے تھے۔
تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ہم سرپل شہر میں داخل ہو گئے۔ وہاں ہمیں اطلاع ملی کہ راستہ بند ہونے کی وجہ سے قاسم کا جسد ابھی تک بیرک ہی میں پڑا ہوا ہے۔ ہم وہاں سے چل دیے اور جنگ کے پانچویں روز قاسم کا جسد اپنی گاڑی میں لے کر تہران آ گئے۔
تہران میں اس کا جنازہ پوری شان و شوکت سے اٹھا اور اس علاقے سے تعلق رکھنے والا دفاع مقدس کا پہلا شہید اس مقام پر دفن ہوا۔
جنازے پر لوگوں کا جم غفیر امڈ آیا تھا۔ علی خرّمدل نعرے لگا رہا تھا:
’’اے میرے شہید سردار! تمہارا راستہ ابھی جاری ہے۔‘‘
[1] یہاں Wagoneer Jeep مراد ہے جسے ایران میں جیپ آہو (ہرن جیپ) کہا جاتا ہے۔
دوسری حاضری
[امیر منجر]
30 ستمبر کو ہم سپاہ کے ایک دستے کے ساتھ محاذ پر چلے گئے۔ راستے میں سپاہ ہمدان کی چوکی پر تھوڑی دیر رُکے۔
ظہر کی اذان ہو رہی تھی۔ برادر بروجردی سے ہماری ملاقات وہیں ہوئی۔ وہ سپاہ کے کچھ جوانوں کے ساتھ محاذ پر جا رہا تھا۔
ابراہیم اذان دینے لگا اور باقی سب جوان وضو کرنے لگے۔ جوانوں میں ایک عجیب قسم کی روحانی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ محمد بروجردی نے پوچھا: ’’امیر بھائی، یہ ابراہیم کہاں سے ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’ہمارے ہی علاقے سے ہے۔ 17 شہریور روڈ اور خراسان چوک کی طرف۔‘‘
برادر بروجردی نے کہا: ’’عجیب آواز ہے اس کی۔ میں نے ایک دوبار اسے محاذ پر دیکھا ہے۔ کافی بہادر اور جرأتمند جوان ہے۔‘‘
اس کے بعد کہنے لگا: ’’اگر ممکن ہو تو اسے ہمارے پاس کرمانشاہ لے آؤ۔‘‘
نماز، جماعت کے ساتھ پڑھی گئی۔ اس کے بعد ہم چل پڑے۔ یہ دوسری بار تھی کہ ہم سرپل ذہاب میں آئے تھے۔
اصغر وصالی نے اپنے جوانوں کو مستعد کر دیا تھاجس کے بعد علاقے میں کافی حد تک امن و امان ہو گیا تھا۔
اصغر کافی بہادر اور شجاع کمانڈر تھا۔ ابراہیم کو اس سے کافی لگاؤ تھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتا: ’’میں نے اصغر جیسا شجاع، دلاور اور منتظم گوریلا نہیں دیکھا۔ اصغر اپنی بیوی کو بھی محاذ پر لے آتا ہے اور اپنی پیکان کار، جو اسلحے کا گودام لگتی ہے، پر بٹھا کر تمام محاذوں پر اسے پھراتا رہتا ہے۔‘‘
ابراہیم کے بارےمیں اصغر کے جذبات بھی ایسے ہی تھے۔
ایک بار جب اصغر نے دشمن کے ٹھکانوں کی ریکی اور حملے کا ارادہ کیا تو ابراہیم سے کہا: ’’تیار رہنا، ریکی کے لیے چلیں گے۔‘‘
اصغر جب ریکی سے واپس آیا تو کہنے لگا: ’’میں انقلاب سے پہلے لبنان میں جنگ لڑ چکا ہوں۔ 1979 میں کردستان میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران محاذ پر بھی رہا ہوں۔لیکن یہ جوان جس نے ابھی تک باقاعدہ طور پر فوجی اور جنگی تربیت بھی نہیں لی، انتہائی ماہر بھی ہے اور جنگ کی باریکیوں کو بھی اچھی طرح سمجھتا ہے۔‘‘
یہی وجہ تھی کہ اصغر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے وقت ابراہیم سے مدد لیا کرتا تھا۔
ایک حملے میں انہوں نےبغیر کسی جان و مالی نقصان کے دشمن کے آٹھ ٹینک تباہ کر کے رکھ دیے اور بہت سے عراقی فوجیوں کو قید بھی کر لیا۔
اصغر وصالی نے ابوذر بیرک کی ایک عمارت کو رضاکار مجاہدوں کے لیے آمادہ کر دیا اور ان کے ناموں اور کوائف کے اندراج اور انہیں تقسیم کرتے ہوئے شہر میں ایک خاص قسم کا نظم و ضبط پیدا کر دیا۔
جب شہر کے حالات ذرا پُرسکون ہو گئے تو ابراہیم نے دوسرے مجاہدین کے ساتھ مل کر زورآزمائی اور پہلوانی کا اکھاڑا جما لیا۔
ہر روز صبح کے وقت ابراہیم ایک پتیلے پر ضرب لگاتا اور اپنے جوشیلی آواز سے پڑھا کرتا تھا۔
اصغر اکھاڑے کا ریفری بن جاتا۔ جی ۳ کلاشنکوف کو بطور گرز استعمال کیا جاتا۔ توپ کے گولے اور دوسرے اسلحہ سے بھی ورزش کرنے کے لیے مختلف قسم کی چیزیں بنا لی گئیں۔
ایک کمانڈر کہا کرتا تھا: ’’ان دنوں بہت سے وہ لوگ جو شہر میں رہ گئے تھے، ہسپتالوں کی نرسیں اور جنگجو جوان صبح صبح اکھاڑے کے پاس آ جاتے تھے۔‘‘
ابراہیم اپنی سریلی اور میٹھی آواز میں پڑھتا اور اصغر مقابلوں میں ریفری بن جاتا۔
اس طریقے سے انہوں نے زندگی اور امید کی روح کو زندہ رکھا ہوا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ابراہیم واقعاً ایک عجیب سا انسان تھا۔
*****
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتےہیں: ’’ہر نیک کام جو انسان انجام دیتا ہے اس کا ثواب قرآن مجید میں مشخص ہے سوائے نمازِ شب کے کیونکہ اس کی اتنی زیادہ اہمیت ہےکہ اس کا ثواب خدا نے کسی کو نہیں بتایا اور فرمایا ہے: ’’ان کے پہلو، ان کے بستروں سے جدا ہو جاتے ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ جو کچھ انہوں نے انجام دیا ہے اس کی جزا میں مَیں نے ان کے لیے کیا کیا ذخیرہ کر رکھا ہے۔‘‘[1]
سرپل ذہاب میں گزرے اس تھوڑے سے عرصے میں ابراہیم کا معمول تھا کہ اذان صبح سے دوگھنٹے پہلے بیدار ہو جاتا اور جوانوں کی خبرگیری کے بہانے اپنے بستر سے اٹھ کر دور چلا جاتا۔
لیکن مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ سحر خیزی کی لذت لیتا اور نمازِ شب میں مشغول ہو جاتا تھا۔
ایک بار میں نے ابراہیم کو دیکھا کہ اذان صبح سے ایک گھنٹہ پہلے اس کی آنکھ کھلی۔ بڑی مشکل سے اس نے پانی کی ایک بالٹی مہیا کی اور غسل اور نماز شب کے لیے اس پانی کو استعمال کیا۔
[1] میزان الحکمۃ، حدیث 3665
تسبیحات
[امیر سپہر نژاد]
4 اکتوبر 1980 کا دن تھا۔ ابراہیم کا دو دن سے کچھ اتا پتا نہیں چل رہا تھا۔ میں اس کے بارے میں پوچھ تاچھ کرنے جنگی قیدیوں کے مرکز میں بھی گیا مگر وہاں سے بھی کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ آدھی آدھی رات تک دل میں اضطراب رہتا کہ میں اپنے سب سے گہرے دوست کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔
نماز فجر کے بعد صحن میں آیا تو ابوذر بیرک پر عجیب طرح کا سکوت چھایا ہوا تھا۔
میں صحن کی مٹی پر بیٹھ گیا۔ ابراہیم کے ساتھ گزرے ہوئے تمام واقعات و لمحات میرے ذہن میں گھومنےلگے۔
ابھی تک اجالا نہیں ہوا تھا۔ بیرک کا پھاٹک ایک آواز کے ساتھ کھلا اور کچھ لوگ اندر داخل ہوئے۔
بے اختیار میری نگاہیں بیرک کے پھاٹک کی طرف اٹھ گئیں۔ جھٹ پٹے میں سے نظر آنے والے اس کے چہرے پر میری نظریں جمی کی جمی رہ گئیں۔ میں اپنی جگہ سے خوشی کے مارے اچھل پڑا۔ وہ ابراہیم ہی تھا۔ ان آنے والوں میں سے ایک ابراہیم تھا۔ میں دوڑ پڑا اور چند لمحوں بعد ہم ایک دوسرے کے گلے لگے ہوئے تھے۔
اس وقت مجھے جو خوشی ہوئی وہ ناقابل بیان ہے۔ کچھ دیر بعد ہم جوانوں کے بیچ بیٹھ گئے۔ ابراہیم ان تین دنوں کا ماجرا سنا رہا تھا: ’’ہم ایک بکتر بند گاڑی میں کافی آگے تک نکل گئے تھے۔ نہیں معلوم عراقی کہاں سے ٹپک پڑے۔ ایک ٹیلے کے پاس ہم ان کے محاصرے میں آ گئے۔ سو کے لگ بھگ عراقی ٹیلے کے اوپر اور میدان سے ہماری طرف گولیاں چلا رہے تھے۔ ہم پانچ لوگ تھے۔ ہم نے ایک ٹیلے کے پاس ایک گڑھا پایا تو اسے مورچہ بنا کر جوابی فائرنگ کرنے لگے۔ غروب تک ہم اپنا دفاع کرتے رہے۔ جیسے ہی اندھیرا چھا گیا تو عراقی بھی پیچھے ہٹ گئے۔ راستہ جاننے والے دو آدمی جو ہمارے ساتھ تھے وہ شہید ہو چکے تھے۔ ہم مورچے سے باہر آئے۔ وہاں اردگرد کوئی نہ تھا۔ ہم اس ٹیلے کے پیچھے درختوں میں چلے گئے۔ وہاں شہداء کے جسد دفنائے۔ تھکاوٹ اور بھوک سے ہمارا برا حال تھا۔ غروب آفتاب کی سمت کو دیکھ کر ہم نے قبلہ مشخص کیا اور نماز پڑھی۔ نماز کے بعد میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ اس مشکل سے نجات حاصل کرنے کے لیے تسبیحات حضرت زہرا سلام اللہ علیہا پورے خضوع و خشوع سے پڑھیں۔ اس کے بعد میں نے انہیں مزید بتایا کہ یہ تسبیحات پیغمبر اکرمﷺ نے اس وقت اپنی بیٹی کو تعلیم فرمائی تھیں جب وہ بہت زیادہ مشکلات اور سختیوں کا شکار تھیں۔ تسبیحات پڑھنے کے بعد ہم دوبارہ اسی مورچے میں واپس آ گئے۔ عراقیوں کا کچھ پتا نہ تھا۔ ہمارا اسلحہ بھی کم رہ گیا تھا۔ اچانک ٹیلے کے پاس کچھ عراقیوں کی لاشوں پر میری نظر پڑ گئی۔ ہم نے ان کا اسلحہ، میگزینیں اور دستی بم اٹھا لیے۔ کچھ کھانے کا سامان بھی مل گیا۔ اس کے بعد ہم چل پڑے۔ لیکن کس سمت کو جا رہے تھے؟ یہ ہمیں معلوم نہیں تھا۔ اندھیرا چھا چکا تھا اور ہمارے اردگرد صاف میدان تھا۔ میرے ہاتھ میں تسبیح تھی اور میں مسلسل تسبیح پڑھے جا رہا تھا۔ دشمنوں کی طرف سے محاصرہ، تھکاوٹ، تیرہ و تار رات، ان سب کے باوجود میرے دل کو عجیب سا اطمینان مل رہا تھا۔ آدھی رات کو کھلے میدان میں ہمیں ایک کچا راستہ مل گیا۔ ہم اس پر چل پڑے۔ ہم ایک فوجی چھاؤنی میں پہنچ گئے جہاں ریڈار نصب تھا۔ اس کے پاس کچھ سکیورٹی گارڈز بھی کھڑے تھے۔ اس چھاؤنی میں کچھ مورچےبھی نظر آ رہے تھے۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ ہم کہاں ہیں۔ہمیں اپنے زندہ رہنے کی ذرہ برابر امید بھی نہیں رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے ایک عجیب فیصلہ کیا۔ تسبیح کے بعد میں نے استخارہ بھی کیا جو اچھا آ گیا۔ ہم اپنا کام شروع ہو گئے۔ خدا کی مدد سے ہم دستی بموں اور فائرنگ کے ذریعے اس چھاؤنی کی اینٹ سےاینٹ بجا سکتے تھے۔ جب ریڈار نے کام کرنا چھوڑ دیا تو ہم اس کے پاس سے ہٹ گئے۔ گھنٹہ بھر بعد ہم دوبارہ اپنے راستے پر چل پڑے۔ صبح کے وقت ایک پُرامن جگہ ہمیں مل گئی اور ہم آرام کرنے لگے۔ ہم نے سارا دن استراحت کی۔ یہ سب کچھ ناقابل یقین تھا۔ ہمیں ایک عجیب قسم کا اطمینان محسوس ہو رہا تھا۔ رات جیسے ہی گہری ہوئی ہم نے دوبارہ اپنا راستہ ناپا اور اللہ کی مدد سے اپنے فوجی جوانوں کے پاس پہنچ ہی گئے۔‘‘
ابراہیم نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’جو کچھ ہم نے اس عرصے میں دیکھا وہ فقط خدا کی عنایات تھیں۔ تسبیح زہرا سلام اللہ علیہا نے ہماری بہت سےمشکلات حل کر دیں۔‘‘
اس کے بعد کہنے لگا: ’’دشمن اپنے ایمان کی کمزوری کے باعث ہماری فوج سے بہت ڈرتا ہے۔جہاں تک ہو سکتا ہے ہمیں غیر منظم حملوں میں وسعت لانی چاہیے تاکہ دشمن کی طرف سے ہونے والے حملوں کا سدّباب کیا جا سکے۔‘‘
المہدی کالونی
[علی مقدم، حسین جہان بخش]
جنگ شروع ہوئے ایک ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ ابراہیم، حاج حسین اور کچھ دوسرے رفقاء سرپل ذہاب کے اطراف میں واقع المہدی کالونی کی طرف چلے گئے اور وہاں جا کر دشمن کے مقابل پہلی مرتبہ طیارہ شکن مورچے بنائے۔
نماز فجر سے فارغ ہوئے تو میں نے دیکھا کہ سب جوان ابراہیم کو تلاش کر رہے ہیں۔ میں نے حیرانی سے پوچھا: ’’کیا ہوا؟!‘‘
کہنے لگے: ’’آدھی رات کے بعد سے ابراہیم کا کچھ اتاپتا نہیں ہے۔‘‘
میں بھی ان کے ساتھ مورچوں اور نگہبانی والی جگہوں پر جا کر ابراہیم کو ڈھونڈنے لگا مگر اس کا کچھ پتا نہ چلا۔ کوئی گھنٹہ بھر گزرا ہو گا کہ نگہبانی پر مامور ایک جوان نےبتایا: ’’نالے کے راستے سے کچھ لوگ اس طرف آ رہے ہیں۔‘‘
اس نالے کا رُخ دشمن کی طرف تھا۔ میں فوراً نگہبانی والے مورچے کی طرف چلا گیا اور جوانوں کے ساتھ مل کر آنے والے لوگوں کو دیکھنے لگا۔
13 عراقی فوجی بندھے ہاتھوں کے ساتھ ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے ہماری طرف آ رہے تھے۔ ان کے پیچھے ابراہیم اور ایک دوسرا جوان تھے۔ ان دونوں نے بہت سا اسلحہ، دستی بم اور میگزینیں بھی اٹھا رکھی تھیں۔
کسی کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ ابراہیم ایک دوست کے ساتھ مل کر اتنا بڑا معرکہ مار لے گا اور وہ بھی ایسی صورتحال میں جب کہ المدی کالونی میں اسلحے کی کمی بھی تھی حتی کہ کچھ مجاہدین کے پاس سرے سے اسلحہ تھا ہی نہیں۔
ہمارا ایک جوان کافی جوش میں آ گیا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر پہلے عراقی قیدی کے چہرے پر زور سے تھپڑ دے مارا اور کہا: ’’عراقی، [امریکہ کا] پِٹھو۔‘‘
سب ایک لمحے کے لیے تو ہکابکا رہ گئے۔ ابراہیم قیدیوں کے پاس سے ہٹ کر اس جوان کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ ایک ایک کر کے اپنا اسلحہ اتارا اور چلّا کر اس جوان سے کہا: ’’تم نے اس کے چہرے پر تھپڑ کیوں مارا؟!‘‘
جوان شدید حیران رہ گیا: ’’مگر ہوا کیا ہے؟ یہ ہمارا دشمن ہے۔‘‘
ابراہیم نے اس کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے کہا: ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ہمارے دشمن تھے لیکن اب ہمارے قیدی ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ یہ لوگ اصلاً نہیں جانتے کہ ہم سے کیوں لڑ رہے ہیں۔ اب تم ان کے ساتھ ایسا سلوک کرنا چاہتے ہو؟‘‘
وہ جوان تھوڑی دیر تک خاموش رہنے کے بعد کہنے لگا: ’’مجھے معاف کر دیں۔ میں ذرا جوش میں آ گیا تھا۔‘‘
اس کے بعد اس نے پلٹ کر عراقی قیدی کے ماتھے پر بوسہ دیا اور اس سے اپنے رویے کی معافی مانگی۔ عراقی قیدی جو حیرت سے ہماری حرکتیں دیکھ رہا تھا، ابراہیم کی طرف دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس قیدی کی حیران آنکھوں میں کہنے کا بہت کچھ تھا۔
*****
جنگ شروع ہوئے دو ماہ ہو چکے تھے۔ ابراہیم چھٹی پر گھر آیا تو ہم کچھ دوست اس سے ملنے اس کے گھر گئے۔
اس ملاقات میں ابراہیم جنگ کے دوران پیش آنے والے واقعات بیان کر رہا تھا، لیکن اپنے بارے میں کچھ نہیں بتا رہا تھا۔ ہوتے ہوتے مجاہدین کی نماز و عبادت پر گفتگو پہنچی تو ابراہیم اچانک ہنس پڑااور کہنے لگا: ’’المہدی کالونی میں جنگ کے ابتدائی دنوں میں پانچ جوان ہمارے ساتھ آ کر شامل ہوئے۔ وہ ایک گاؤں سے اکٹھے ہی محاذ پر پہنچے تھے۔ کچھ دن گزرے تو میں نے دیکھا کہ وہ نماز نہیں پڑھتے۔ میں نے ایک دن ان سے بات کی۔ وہ بےچارے بہت ہی سادہ لوح انسان تھے۔ نہ تو پڑھے لکھے تھے اور نہ ہی انہیں نماز آتی تھی فقط امام [خمینیؒ] سے محبت کی وجہ سے محاذ پر آ گئے تھے۔ دوسری طرف انہیں خود بھی نماز سیکھنے کا شوق تھا۔ میں نے جب انہیں وضو سکھا دیا تو ایک جوان کو بلایا اور ان دوستوں سے کہا: ’’یہ صاحب تمہارے پیش نماز ہیں۔ جو کچھ یہ کریں گے آپ بھی انجام دیں۔ میں آپ کے پاس کھڑا ہو کر نماز کے اذکار کو بلند آواز سے باربار پڑھوں گا تاکہ آپ کو اچھی طرح نماز یاد ہو جائے۔‘‘
یہاں تک پہنچ کر ابراہیم اپنی ہنسی نہ روک سکا۔ کچھ دیر بعد بولا: ’’پہلی رکعت میں الحمد پڑھتے ہوئے امام جماعت نے اپنے سر میں خارش کرنا شروع کر دی۔ میں نے دیکھا تو وہ پانچوں بھی اپنے سر میں خارش کر رہے تھے۔ مجھے بہت ہنسی آئی مگر میں نے اپنے آپ کو روکے رکھا۔ لیکن جب امام جماعت نے سجدے سے سر اٹھایا تو سجدہ گاہ اس کی پیشانی سے چپک گئی اور پھر گر گئی۔ امام جماعت جیسے ہی سجدہ گاہ اٹھانے کے لیے بائیں طرف جھکا تو وہ پانچوں بھی بائیں طرف جھک گئے اور اپنے ہاتھ بڑھا لیے۔ یہ دیکھنا تھا کہ مجھے اپنی ہنسی پر قابو نہ رہا اور میں کھلکھلا کر ہنس پڑا۔‘‘
مشکل کُشا
[شہیدؒ کے ایک دوست]
پیغمبر اکرمﷺ سے ایک بار پوچھا گیا: ’’مومنین میں سے کامل تر ایمان کس کا ہے؟‘‘ تو آپؐ نے فرمایا: ’’جو راہِ خدا میں اپنی جان و مال سے جہاد کرے۔[1]‘‘
کمانڈر محمد کوثری (لشکر حضرت رسولﷺ کے سابق کمانڈر) ابراہیم کے حوالے سے اپنی یادیں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’جنگ کے ابتدائی دنوں میں سرپل ذہاب کے مقام پر میں نے ابراہیم سے کہا: ’’ہادی بھائی، آپ کی تنخواہ تیار ہے۔ جب بھی چاہیں آ کر لے سکتےہیں۔‘‘
اس نے جواب میں بہت آہستہ سےپوچھا: ’’آپ تہران کب جا رہے ہیں؟‘‘
میں نے کہا: ’’ہفتے کے آخر میں۔‘‘
اس کے بعد کہا: ’’میں آپ کو تین پتے لکھ کر دوں گا۔ جب آپ تہران جائیں گے تو یہ پیسے ان تینوں گھروں میں دے دیں۔‘‘
میں نے یہ کام کر دیا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ تینوں خاندان ضرورتمند اور سفید پوش تھے۔
*****
میں محاذ سے واپس آ رہا تھا۔ جب خراسان چوک پہنچا تو دیکھا کہ میرے پاس پیسے بالکل ختم ہو چکے ہیں۔ میں گھر کی طرف چلا جا رہا تھا اور سوچتا جا رہا تھا کہ ابھی گھر پہنچوں گا تو بیوی بچے مجھ سے پیسے مانگیں گے۔ گھر کےکرایے کا بھی بندوبست نہیں ہوا۔ کس کے پاس جاؤں، کسے اپنا ماجرا سناؤں۔ میں اپنے بھائی کے گھر جانا چاہتا تھا مگر میری حالت کچھ مناسب نہیں تھی۔
میں عارف چوک پر ٹھہرا اپنے آپ سے کہے جا رہا تھا: ’’فقط خدا ہی میری مدد کر سکتا ہے۔ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کروں؟!‘‘
اسی سوچ میں غلطاں تھا کہ اچانک ابراہیم پر نظر پڑی جو اپنی موٹرسائیکل پر میری طرف ہی آ رہا تھا۔ میں بہت خوش ہوا۔ وہ مجھے دیکھتے ہی موٹرسائیکل سے اترا اور مجھے اپنے گلے لگا لیا۔ کچھ منٹ تک ہم باتیں کرتے رہے۔ جاتے جاتے اس نے اشارے سے پوچھا: ’’تنخواہ لے لی؟‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں، ابھی نہیں لی۔ لیکن زیادہ ضرورت نہیں ہے۔‘‘
اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور پیسوں کی ایک گڈی نکال کر مجھے تھما دی۔ میں نے کہا: ’’نہیں ابراہیم، میں ہرگز نہیں لوں گا۔ تمہیں خود ضرورت ہیں۔‘‘
کہنے لگا: ’’یہ قرض الحسنہ ہے۔ جب بھی تنخواہ لینا تو مجھے واپس دے دینا۔ اس کے بعد اس نے پیسے میری جیب میں ڈالے اور سوار ہو کر یہ جا وہ جا۔‘‘
ان پیسوں میں بہت برکت تھی۔ میری بہت سی ضروریات ان سے پوری ہو گئیں اور کافی عرصے تک مجھے مالی حوالے سے کوئی مشکل پیش نہ آئی۔
میں نے اس کے لیے بہت سی دعا کی۔ اس دن خدا نے ابراہیم کو میرے پاس بھیجا۔ وہ ہمیشہ کی طرح مشکل کشا بن کر آ گیا تھا۔
[1] الحکم الظاہرۃ: ج2، ص280
شہید اندرزگو گروپ
[مصطفیٰ صفار ہرندی]
جنگ کو تھوڑا عرصہ گزر چکا تھا۔ ملک کے مغربی حصے میں تعینات سپاہ کے اعلیٰ عہدیداران نے ایک میٹنگ کا انتظام کیا۔ اس میٹنگ میں طے یہ پایا کہ سپاہ کے رضا کار جوانوں کو مختلف علاقوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ لہٰذا کچھ جوان سرپل ذہاب سے سومار کی طرف، کچھ مہران اور صالح آباد کی طرف اور کچھ بُستان کی طرف روانہ ہو گئے۔
میٹنگ کے مطابق جنگی علاقوں میں تعینات کمانڈر حسین اللہ کرم کو گیلان غرب اور نفت شہر کی سپاہ کی کمان سونپ دی گئی۔ وہ بٹالین8 اور 9 کے کچھ دستوں کو لے کر گیلان غرب کو روانہ ہو گئے۔
ابراہیم جو اکھاڑے کے وقتوں ہی سے حاج حسین کے ساتھ دیرینہ رفاقت رکھتا تھا وہ بھی ان کے ساتھ گیلان غرب چلا گیا اور اسے سپاہ کا ڈپٹی آپریشن کمانڈر بنا دیا گیا۔
*****
گیلان غرب مختلف پہاڑوں کے درمیان گھرا ایک شہر ہے۔ سرحد پر واقع یہ شہر نفت شہر سے 50 جبکہ سرپل ذہاب سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ عراقی افواج نے اس شہر کے قرب و جوار اور اس کی بہت سے چوٹیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔
جنگ کے ابتدائی دنوں میں عراقی افواج کی چوتھی ڈویژن گیلان غرب میں داخل ہو گئی تھی مگر وہاں کے غیور مردوں اور عورتوں کی استقامت کی سامنے نہ ٹھہر سکی اور فرار کرنے پر مجبور ہو گئی۔
اس حملے کے دوران اس شہر کی ایک عورت نے درانتی سے وار کر کے دو عراقی فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
اس کے بعد کافی لوگوں نے وہ شہر چھوڑ دیا تھا۔ جو باقی رہ گئے تھے وہ دن کو شہر میں آ جاتے اور راتوں کو اسلام آباد کے راستے پر لگے خیموں میں چلے جاتے۔
فوج کی بریگیڈ ذوالفقار بھی گیلان غرب کے اطراف میں بان سیران کے علاقے میں آن ٹھہری تھی۔
گیلان غرب کی فوج کو اپنے سرگرمیاں شروع کیے کچھ دن گزر گئے تھے۔ اس عرصے میں جوانوں کا کام فقط یہی تھا کہ وہ دشمن کی طرف سے امکانی حملوں کی صورت میں دفاع کے لیے آمادہ رہیں۔ اس کے علاوہ فوج کی کوئی خاص سرگرمی نہیں تھی۔
ایک میٹنگ ہوئی۔جوانوں نے تجویز دی کہ جس طرح جنوب میں ڈاکٹر چمران نے غیرمنظم جنگ اور سرپل ذہاب کے علاقےمیں اصغر وصالی نے چھاپہ مار جنگوں کا آغاز کیا تھا، اسی طرح کا ایک چھاپہ مار دستہ گیلان غرب کے علاقے میں بھی تیار کیا جائے۔
چھاپہ مار دستہ آمادہ ہو گیا۔ اس کے بعد اس کے حملوں کی سربراہی ابراہیم ہادی اور جواد افراسیابی کو سونپی گئی۔ جوانوں نے تجویز دی کہ اس دستے کو ڈاکٹر بہشتیؒ کے نام سے موسوم کیا جائے۔ لیکن جب شہید بہشتیؒ خود اس علاقے کے دورے پر آئے تو انہوں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا: ’’چونکہ آپ لوگ چھاپہ مار دستہ ہیں لہٰذا اس دستے کو شہید اندرزگو سے موسوم کیا جائے کیونکہ وہی تھے جو چھاپہ مار جنگ کے بانی تھے۔‘‘
ابراہیم نے امام خمینیؒ، آیت اللہ بہشتیؒ اور رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی بڑی تصاویر اپنے کیمپ میں لگا دیں۔ اس چھاپہ مار دستے نے اپنے کام کا آغاز کردیا۔
اس دستے کے تمام جوان اس کے نام کی طرح غیر منظم تھے، کیونکہ اس دستے میں ہر قسم کا فوجی شامل تھا۔
اس دستے میں جہاں جوان تھے وہاں بوڑھے افراد بھی تھے۔ ان پڑھ افراد کے ساتھ ڈاکٹر حضرات بھی موجود تھے۔ متقی و پرہیزگار لوگ بھی تھے اور ایسے افراد بھی تھے جنہوں نے وہیں آ کر نماز پڑھنا سیکھی تھی۔ حوزہ علمیہ کے علماء کے ساتھ ساتھ کیمونزم سے تائب ہو کر آنے والے کیمونسٹ بھی وہاں پائے جاتے تھے۔غرضیکہ اس دوستانہ اور مخلصانہ فضا میں ہر قسم کا انسان نظر آتا تھا۔
تقریباً چالیس افراد پر مشتمل اس گروہ میں ایک چیز مشترک تھی اور وہ تھی شجاعت اور بلند ہمتی۔ابراہیم کہ جس کے سر پر اس دستے کی سربراہی کی ذمہ داری تھی، ہمیشہ کہا کرتا تھا: ’’ہمارا کوئی کمانڈر نہیں ہے۔‘‘ وہ بہت محبت اور دوستانہ طریقے سے اپنے اس گروہ کی کمان سنبھالے ہوئے تھا۔
اس دستے کا انتظام کچھ ایسے مرتب پا گیا تھا کہ ہر کام خود بخود ہو جاتا تھا اور کسی کو کسی دوسرے سے کچھ کہنے کی ضرورت نہ پڑتی تھی۔ اکثر کام فکری ہم آہنگی سے انجام پا جاتے تھے۔ سب سے زیادہ جواد افراسیابی اور رضا گودینی ابراہیم کے ساتھ ساتھ رہتے تھے۔
*****
اس دستے کی روزانہ کی سرگرمیوں میں سے ایک سرگرمی یہ بھی تھی کہ وہ علاقے کے لوگوں کی مدد کے لیے نکل کھڑے ہوتے تھے۔ اس طریقے سے گیلان غرب کے بہت سے مقامی جوان بھی اس دستے میں شامل ہو گئے۔
دشمن کے علاقوں اور ان کے مورچوں کی جاسوسی اور حملے کے لیے مختلف ٹیمیں تشکیل دینا، شہید اندرزگو گروپ کی زیادہ تر مصروفیت تھی۔ اس کے علاوہ چوٹیوں کو عبور کرنا اور دشمن کے علاقوں کا صحیح اور دقیق نقشہ تیار کرنا بھی ان کی ذمہ داری تھی۔ریکی کے معاملے میں ابراہیم کا طریق کار بہت عجیب تھا۔ وہ کچھ جوانوں کو لے کر آدھی آدھی رات کو چوٹیاں عبور کر کے چلا جاتا۔ یہ لوگ دشمن کے ٹھکانوں کے عقبی حصوں تک جا نکلتے اور ان کے ٹھکانوں اور اسلحے کے بارے میں انتہائی تفصیلی معلومات لے کر واپس آتے۔ ابراہیم کہا کرتا تھا: ’’اگر ایسا نہ کیا جائے تو حملوں میں کامیاب ہونا یقینی نہیں ہوتا۔ لہٰذا جاسوسی پوری تفصیل سے اور صحیح انداز میں ہونی چاہیے۔‘‘
ابراہیم یہی طریقہ اپنے ماتحت دوسرے جوانوں کو بھی سکھاتا تھا۔ اس کا کہنا تھا: ’’ریکی کے معاملے میں جوانوں کے اندر شجاعت ہونی چاہیے۔‘‘
اگر کسی انسان کے اندر خوف کا وجود ہو تو وہ کبھی بھی ایک اچھا فوجی نہیں بن سکتا۔ وہ اکثر فوجی جوانوں کی زود فہمی اور دقتِ عمل پر زور دیتا رہتا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ فوجی جاسوسی اور دشمن کے حوالے سے معلومات کے شعبے میں انتہائی ماہر اور بہترین جوان اس دستے سے تربیت پا کر سامنے آئے، حتی کہ ان میں کچھ بہادر کمانڈرز بھی بنے۔
نجف گیریژن میں جاسوسی اور حملوں کی ذمہ داری سنبھالنے والے 313 حُرّ بریگیڈ کے کمانڈر نے کہا تھا: ’’ابراہیم نے اپنے خاص طریقے سے اس بریگیڈ کی بنیاد رکھی تھی اگرچہ اس کی مکمل تشکیل سے پہلے وہ شہادت سے ہمکنار ہو گیا تھا۔‘‘
شہید اندرزگو چھاپہ مار دستے نے اپنے انہی نامنظم فوجیوں کے ذریعے اپنی ایک سالہ کارکردگی کے دوران 52 چھوٹے بڑے حملے کیے۔ انہوں نے گیلان غرب کے علاقے میں عراقی فوج کے چوتھے ڈویژن کو ناکوں چنے چبوا دیے اور اسے بھاری نقصان پہنچایا۔
اس چھوٹے سے دستے میں ایسے عظیم انسانوں نے پرورش پائی کہ دفاع مقدس کے دوران ان کی بہادری اور دلیری کے ہم ہمیشہ مقروض رہیں گے۔
انہوں نے ابراہیم کے زرخیز وجود سے خوشہ چینی کی اور اس کی رفاقت پر ناز کرتے تھے:
ڈویژن ۲۷ حضرت رسولؐ کے بہادر چیف کمانڈر شہید رضا چراغی، اسی ڈویژن کے ڈپٹی چیف کمانڈر شہید رضا دستوارہ، اسی ڈویژن کے ایریا کمانڈر شہید حسن زمانی، میثم بٹالین کے کمانڈر اِن چیف شہید سید ابو الفضل کاظمی، حُنین بٹالین کے کمانڈر اِن چیف شہید رضا غودینی ، مسلم ابن عقیل بریگیڈ کے ڈپٹی بریگیڈیر شہید علی اوسط، مالک بٹالین کے کمانڈر اِن چیف شہید داریوش ریزہ وندی، مقداد بٹالین کے ڈپٹی کمانڈرز شہید ابراہیم حسامی اور شہید ہاشم کلہر، اسی ڈویژن کے لیے جاسوسی کے فرائض سر انجام دینے والے کمانڈر شہید جواد افراسیابی اور شہید علی خرم دل اور اسی طرح دفاع مقدس کے اور بھی بہت سارے عظیم کمانڈر حضرات جو اس وقت بھی اسلامی نظام کی قابل فخر شخصیات شمار ہوتی ہیں۔
اصغر وصالی کی شہادت
[علی مقدم]
1980 کے محرم میں ایک اہم واقعہ پیش آ گیا۔ اصغر وصالی اور علی قربانی اپنے جوانوں کو لے کر سرپل ذہاب سے گیلان غرب آ گئے۔ طے یہ پایا کہ دشمن کے ٹھکانوں کی صحیح معلومات لے کر شہر کے شمالی حصے سے اپنے حملوں کا آغاز کیا جائے۔
شہید اندرزگو چھاپہ مار دستہ ان دنوں نیا نیا تشکیل پایا تھا۔ دشمن کے کچھ ٹھکانوں کی معلومات اکٹھی کر لی گئی تھیں۔
شب عاشور کو سارے جوان کیمپ میں جمع ہو گئے اور ایک باشکوہ عزاداری کا انعقاد کیا گیا۔ ان مجالس میں ابراہیم کی نوحہ خوانی اور منقبت خوانی آج بھی بہت سے جوانوں کے ذہنوں میں موجود ہے۔ وہ عجیب و غریب جذبے سے پڑھا کرتا تھا۔ اصغر وصالی عزاداروں کی سالاری کے فرائض انجام دیتا تھا۔
عاشور کے دن اصغر اپنے کچھ جوانوں کو لے کر دشمن کے ٹھکانوں کی معلومات لینے کے لیے برآفتاب کے علاقے میں چلا گیا۔
ظہر کے نزدیک خبر پہنچی کہ ان کی عراقی فوجیوں کے ساتھ مڈبھیڑ ہو گئی ہے۔ ہمارے جوان دوڑ کر وہاں پہنچے اور دشمن بھی پیچھے ہٹ گیا مگر ۔۔۔ علی قربانی شہید ہو چکا تھا۔ شدید زخمی ہو جانے کی وجہ سے اصغر کے زندہ رہنے کی امید بھی دم توڑ گئی تھی۔
ہم اصغر وصالی کو جلدی سے اٹھا کر اپنے کیمپ میں واپس آ گئے۔ بالآخر وہ بھی شہداء کے ساتھ جا ملا۔
اصغر کی شہادت کے بعد میں نے ابراہیم کو دیکھا کہ وہ بلند آواز سے روتے ہوئے کہہ رہا تھا: ’’کوئی نہیں جانتا کہ ہم نے کتنا عظیم کمانڈر کھو دیا ہے۔ ہمارے انقلاب کو اصغر جیسوں کی شدید ضرورت ہے۔‘‘
اصغر کے بھائی کو شہید ہوئے ابھی چالیس دن نہیں ہوئے تھے کہ وہ بھی ظہر عاشور کے وقت درجہ شہادت پر فائز ہو گیا تھا۔
ابراہیم، اصغر کی تشییع جنازہ کے لیے تہران آیا اور اس کی پیکان کار جو گیلان غرب میں رہ گئی تھی، ساتھ لے آیا۔ اگرچہ گاڑی کی حالت یہ تھی کہ گولیوں اور چھروں کی وجہ سے اس کی باڈی پر کوئی جگہ سلامت نہیں رہی تھی۔
شہید وصالی کی تدفین کے بعد ہم جلد ہی محاذ پر واپس لوٹ گئے۔ ابراہیم کہتا تھا: ’’اصغر نے شہادت سے کچھ دن پہلے اپنے بھائی کو خواب میں دیکھا تھا۔ اس کے بھائی نے کہا تھا کہ اصغر، تم روز عاشورا کو گیلان غرب میں شہید ہو جاؤ گے۔‘‘
اگلے دن دستے کے جوانوں نے اصغر کے لیے مجلس ختم و ترحیم رکھی اور عزاداری کا انتظام کیا۔ اس کے بعد ان سب نے آپس میں پیمان باندھا کہ خون کے آخری قطرے تک محاذ پر رہیں گے اور اصغر کے خون کا انتقام لیں گے۔
جواد افراسیابی اور بعض جوانوں نے کہا: ’’عزاداروں کی طرح ہم اپنی داڑھی اس وقت تک چھوٹی نہیں کریں گےجب تک کہ صدام کو اس کے اعمال کی سزا نہ دے دیں۔‘‘
سادگی
[شہیدؒ کے کچھ دوست]
جنگ کے ابتدائی دنوں میں ابراہیم بہت سے فوجی جوانوں کا آئیڈیل بن گیا تھا۔ بہت سے جوان اس کی دوستی پر فخر کرتے تھے لیکن وہ ہمیشہ ایسا رویہ رکھتا تھا کہ سب سے کمتر دکھائی دے، مثلاً وہ عام طور پر اپنی وردی کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا۔ عموماً کُردی شلوار اور لمبی قمیص پہنے رکھتا تا کہ ایک تو مقامی لوگوں میں گھل مل سکے اور دوسرے اپنے نفس پر قابو رکھ سکے۔ وہ سادہ اور صاف ستھرا رہتا تھا۔ جب ہم نے اسے پہلی بار دیکھا تو یہی سمجھے کہ یہ فوجی جوانوں کا خدمتگار ہے، لیکن تھوڑے ہی عرصے میں اس کی شخصیت کھل کر ہمارے سامنے آ گئی۔
ابراہیم کا مزاج ہمیشہ سے روایتی انداز سے ہٹ کر تھا۔ وہ اپنی ظاہری شکل و صورت کی طرف توجہ دینے کی بجائے زیادہ تر باطن کی فکر میں رہا کرتا تھا۔ دوسرے جوان بھی اس کی پیروی کرتے تھے۔
وہ ہمیشہ کہا کرتاتھا: ’’جوانوں کی ظاہری ٹیپ ٹاپ اور یونیفارم کی نسبت زیادہ ضروری یہ ہےکہ ہم ان کی روحانی اور معنوی تعلیم و تربیت پر دھیان دیں اور جہاں تک ممکن ہو اپنے جوانوں کے دوست بن کر رہیں۔‘‘ اسی فکر کا نتیجہ اس گروپ کے حملوں میں نظر آتا تھا ، ہرچند کہ بعض جوانوں کے ابراہیم سے اختلافات بھی ہو جایا کرتے تھا۔
*****
ابراہیم نے چیتا پرنٹ والا ایک کپڑا خریدا اور ایک درزی کو دیتے ہوئے کہا: ’’کُردی لباس کا ایک جوڑا میرے لیے سی دو۔‘‘ اگلے دن اس نے درزی سے لباس لے کر پہن لیا۔وہ ان کپڑوں میں بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ انہی کپڑوں میں وہ چھاؤنی سے باہر نکل گیا۔گھنٹہ بھر گزرا ہو گاکہ فوجی وردی میں واپس آ گیا۔
میں نے پوچھا: ’’تمہارے کپڑے کہاں ہیں؟‘‘ کہنے لگا: ’’ایک کُرد جوان کو میرے کپڑے بہت پسند آ گئے تو میں نے اسے تحفے میں دے دیے۔‘‘
اس نے اپنی گھڑی بھی ایک شخص کو دے دی تھی۔ اس شخص نے ابراہیم سے وقت پوچھا تھا لیکن ابراہیم نے اسے گھڑی ہی اتار کر دے دی تھی۔ اس طرح کے سادہ سے کام اس بات کا باعث بنے کہ مقامی کُرد افراد ابراہیم کے دلدادہ ہو کر شہید اندرزگو گروپ میں شامل ہو گئے۔ ابراہیم اپنی مکمل سادہ زیستی کے باوجود بھی سیاسی مسائل سے مکمل آگاہی رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ سیاسی امور کا تجزیہ بھی بہت ہی اچھے انداز میں کیا کرتا تھا۔
کیمپ میں امام خمینیؒ اور شہید بہشتیؒ کی تصویریں لگانے کے بعد چیف آف آرمی سٹاف کے مغربی دفتر، جو براہِ راست بنی صدر[1] کے تحت کام کرتا تھا، نے شہید اندرزگو گروپ کو ختم کرنے اور ان کا کھانا پینا روک دینے کا حکم صادر کر دیا۔ لیکن مغربی علاقے کے کمانڈر نے اس علاقے میں اس گروپ کی موجودگی کو ضروری قرار دے دیا اور کہا کہ ہمارے سارے حملوں کی منصوبہ بندی اور اجراء یہی گروپ تو کرتا ہے۔ کچھ عرصے تک اسی کمانڈر کی تگ و دو سے یہ پابندی ختم ہو گئی۔
ایک روز اعلان کیا گیا کہ بنی صدر کرمانشاہ کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ابراہیم، جواد اور کچھ دوسرے جوانوں کو ساتھ لے کر حاج حسین کے ہمراہ کرمانشاہ چلا گیا۔ فوجی افسران بن ٹھن کر بنی صدر کے منتظر تھے، لیکن اندرزگو گروپ کے جوانوں کا حلیہ بہت ہی دلچسپ تھا۔ وہ اسی سادہ انداز میں روزمرہ استعمال ہونے والے کُردی لباس میں بنی صدر کے استقبال کو چلے گئے۔ ہرچند کہ ان کا مقصد کوئی اور تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس شخص سےمل کر اور بات چیت کر کے دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ کس طرح کے فوجی نظریے کے تحت جنگ کو کنٹرول کر رہا ہے۔
اس دن ہم کافی خوار ہوئے۔ انتظار کرتے کرتے آخر میں اعلان کر دیا گیا کہ فنی خرابی کی وجہ سے ہیلی کاپٹر کرمانشاہ نہیں آ سکے گا۔
کچھ عرصے بعد آیت اللہ خامنہ ای حفظہ اللہ تعالیٰ کرمانشاہ آئے۔ ان دنوں وہ تہران کے امام جمعہ تھے۔ ابراہیم سارے جوانوں کو اپنے ساتھ لے آیا۔ انہوں نے اسی طرح سادہ حلیے کے ساتھ رہبر معظم سے ملاقات کی اور اس کے بعد ایک ایک کر کے سب ان کے گلے ملے اور ان کے چہرے پر بوسہ دیا۔
[1] ایران کا پہلا جمہوری صدر جو حکومت بنانے کے کچھ ہی عرصہ بعد منافقین سے جا ملا۔
چم امام حسنؑ
[حسین اللہ کرم]
دشمن کے ٹھکانوں پر بھرپور حملے کرنے کے لیے ہم تیار ہو چکے تھے۔ ابراہیم، جواد افراسیابی، رضا دستوارہ، رضا چراغی اور چار دوسرے اشخاص اس کام کے لیے منتخب ہوئے۔بعد میں مقامی کُرد قبیلے کے دو افراد بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئے۔ وہ راستوں کو اچھی طرح جانتے تھے۔ ہم نے ایک ہفتے کا آذوقہ اپنے ساتھ لے لیا جو زیادہ تر روٹی اور کجھور پر مشتمل تھا۔ کافی مقدار میں اسلحہ، بارود اور بارودی سرنگوں کا سامان بھی ہم نے اپنے بیگوں میں بھر لیا اور چل پڑے۔
بلند چوٹیوں اور دریائے امام حسنؑ کو عبور کرتے ہوئے ہم چمِ امام حسنؑ[1]
پہنچ گئے۔ وہاں عراقی فوج کی پوری ایک بریگیڈ پڑاؤ ڈالے ہوئی تھی۔ ہم آس پاس کے نالوں میں اور ٹیلوں کے پیچھے چھپ گئے۔
دشمن سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایرانی فوج کے جوان ان بلندیوں کو عبور کر سکیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ ہم انتہائی پرسکون ہو کر نقشے بنانے میں جُت گئے۔
ہم تین دن تک وہاں رہے۔اگرچہ تیز بارش نے ہمارے کام کی رفتار تھوڑی دھیمی کر دی تھی مگر دوستوں کی ہمت اور محنت کی وجہ سے ہم نے اس علاقے کے انتہائی دقیق نقشے تیار کر لیے۔
ریکی اور نقشے بنانے کے کام سےفارغ ہونے کے بعد ہم فوجی راستے کی کھوج میں نکل کھڑے ہو گئے۔ ہم نے کچھ بارودی سرنگیں وہاں نصب کیں۔ اس کے بعد جلدی سے اپنی فوج میں واپس آ گئے۔
ابھی زیادہ دور نہ ہوئے تھے کہ کچھ دھماکوں کی آواز سنائی دی۔ ہم نے دیکھا کہ دشمن کی کاریں اور بکتر بند گاڑیاں آگ میں جل رہی تھیں۔
ہم جلدی سے اس خطرے والی جگہ سے دور ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہم اس بات کی طرف متوجہ ہوئے کہ دشمن کی ٹینک پیادہ فوجیوں کے ساتھ ہمارے تعاقب میں ہیں۔ ہم نالوں کے اندر سے گزرتے اور ٹیلوں کے پیچھے چھپتے چھپاتے دریائے امام حسنؑ تک پہنچ گئے۔ ہمارے دریا عبور کر جانے کے بعد ٹینک ہمارا تعاقب جاری نہیں رکھ سکتے تھے۔
دریا سے نکل کر ہم نے ایک مناسب جگہ دیکھ لی اور وہاں آرام کرنے لگے۔ کچھ منٹ گزرے تو دور سے ہیلی کاپٹر کی آواز سنائی دی۔
اس کا تو ہم نے سوچا ہی نہ تھا۔ ابراہیم نے جلدی سے نقشے ایک بیگ میں ڈالے اور رضا کے حوالے کرتے ہوئے کہنے لگا: ’’میں اور جواد یہیں رہیں گے۔ تم جلدی سے یہاں سے نکلو۔‘‘
اب کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہم نے اضافی میگزینیں اور کچھ دستی بم بھی انہیں تھما دیے اور غم و اندوہ کی حالت میں ان سے جدا ہو کر چل پڑے۔
اس مشن کا اصل مقصد ان نقشوں کا حصول تھا۔ ان نقشوں نے بعد میں ہونے والی مہمات کی کامیابی میں بہت زیادہ کردار ادا کرنا تھا۔
ہم نے دور سےدیکھا کہ ابراہیم اور جواد مسلسل اپنی جگہ تبدیل کر رہے تھے اور اپنی جی ۳ کے ساتھ ہیلی کاپٹر کی طرف گولیاں برسا رہے تھے۔ عراقی ہیلی کاپٹر بھی موڑ کاٹ کاٹ کر ان کی طرف بمباری کر رہا تھا۔
دو گھنٹے بعد ہم چوٹیوں پر پہنچ گئے۔ اب کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔ ایک جوان جو ابراہیم سے بہت محبت رکھتا تھا، رو رہا تھا۔ ہمیں ان کی کوئی خبر نہ تھی۔ نہیں جانتے تھے کہ وہ زندہ ہیں بھی یا نہیں۔
مجھے یاد آ گیا کہ کل جب ہم نالوں میں چھپے ہوئے تھے تو ابراہیم پُر سکون انداز میں مقابلہ کرنے اور کھیلنے لگا۔
اس کے بعد وہ اپنے گروپ کے کُردی جوانوں کو فارسی زبان سکھاتا رہا۔ اس کا لہجہ اتنا پر سکون تھا کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہ ہوا کہ ہم دشمنوں میں گھرے بیٹھے ہیں۔
جب نماز کا وقت ہوا تو وہ بلند آواز میں اذان دینا چاہتا تھا لیکن ساتھیوں کے اصرار پر اس نے بہت ہی آہستہ آواز میں اذان کہی۔ اس کے بعد ایک خاص روحانی کیفیت لیے نماز میں مشغول ہو گیا۔ اس وقت ابراہیم میں ایسی شجاعت اور بہادری دکھائی دے رہی تھی کہ سبھی ساتھیوں کے دلوں سے ڈر ختم ہو گیا۔ اب رات ہو چکی تھی۔ ابراہیم کو دیکھے کافی وقت ہو چکا تھا۔
ہم اپنے معین کردہ مقام پر پہنچ گئے۔ابراہیم اور جواد کے ساتھ طے پایا تھا کہ وہ روشنی ہونے سے پہلے پہلے اس جگہ پر پہنچ جائیں۔
کچھ گھنٹے ہم نے آرام کیا لیکن ان کی کوئی خبر نہ آئی۔ فضا میں تھوڑی تھوڑی روشنی پھیلنے لگی تھی لیکن ہمیں اس جگہ سے نکلنا تھا۔ ہمارے ساتھی مسلسل ذکر و دعا میں مصروف تھے۔ ہم چلنے ہی والے تھے کہ دور سے ایک آواز سنائی دی۔ ہم نے اپنے ہتھیار سنبھال لیے اور بیٹھ گئے۔
کچھ دیر بعد آوازوں سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ ابراہیم اور جواد ہیں۔ سب کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے۔ ہم تازہ دم ساتھیوں کےساتھ ان کی مدد کو لپکے۔ اس کے بعد جلدی جلدی ہم نے اس جگہ کو چھوڑ دیا۔
اس مہم میں تیار ہونے والے نقشوں نے بعد کی مہموں میں بہت زیادہ بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ مہم ابراہیم اور اس کے گروہ کے بہادر جوانوں کی ہمت و شجاعت کے بغیر سر ہونے والی نہیں تھی۔ اگلے دن ظہر کے وقت ابراہیم اور جواد ہمیشہ کی طرح تروتازہ اور بھرپور انداز میں اپنے جوانوں کے بیچ موجود تھے۔ میں رضا کو ساتھ لیے ابراہیم کے پاس چلا گیا۔ میں نے کہا: ’’بھائی ابرام، کل جب ہیلی کاپٹر پہنچا تو اس وقت تم نے کیا کیا تھا؟‘‘
اس نے ہمیشہ کی طرح سکون سے جواب دیا: ’’خدا نے مدد کی۔ میں اور جواد ایک دوسرے سے دور ہو کر اپنی جگہ بار بار تبدیل کرتے رہے اور ہیلی کاپٹر کی طرف گولیاں برساتے رہے۔ ہیلی کاپٹر بھی بار بار چکر کاٹ کر ہماری طرف بمباری کرتا رہا۔ جب اس کے تمام گولے ختم ہو گئے تو وہ واپس چلا گیا۔ ہم بھی عراقی پیادہ فوجیوں کے آنے سے پہلے پہلے جلدی جلدی چوٹی کی طرف بڑھنے لگے۔ البتہ کچھ چھرے ہمیں ضرور لگے تا کہ یادگار رہ جائیں۔‘‘
[1] مقامی زبان میں دریا کے آس پاس کے علاقے کو ’’چم‘‘ کہا جاتا ہے۔ اردو میں اسے ترائی کا علاقہ کہتے ہیں۔
قیدی
[مہدی فریدوند، مرتضیٰ پارسائیان]
دوسروں کا احترام کرنا، ابراہیم کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت تھی۔ یہاں تک کہ وہ جنگی قیدیوں کا بھی احترام کیا کرتا تھا۔ ہم ہمیشہ اس کے منہ سے یہ سنتے تھے کہ : ’’ہمارے یہ دشمن زیادہ تر جاہل اور ناآگاہ لوگ ہیں۔ ہمارے اندر انہیں حقیقی اسلام کی جھلک دِکھنی چاہیے۔ اس وقت تم دیکھو گے کہ یہی لوگ بعثی حکومت کے مخالف ہو جائیں گے۔‘‘
یہی وجہ تھی کہ اکثر مہموں میں اس کی یہ کوشش ہوتی کہ وہ دشمن فوجیوں کی طرف گولیاں برسانے کی بجائے انہیں اپنی قید میں لے لے۔ قیدیوں کے ساتھ بھی اس کا سلوک بہت اچھا ہوتا تھا۔
ہمارے جوان تین عراقی فوجیوں کو قید کر کے شہر میں لے آئے۔ ابھی تک ان کی نگرانی کے لیے کسی جگہ کا بندوبست نہیں کیا گیا تھا۔ ان کی حفاظت کی ذمہ داری بھی ہم نے ابراہیم کے سپرد کر دی۔ جو سامان بھی ہمارے واسطے آتا یا جو کچھ بھی ہم کھاتے، ابراہیم اسے ان قیدیوں میں بھی تقسیم کر دیتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سب لوگ حتی کہ وہ قیدی بھی ابراہیم پر فریفتہ ہو گئے۔ اسے تھوڑی بہت عربی بھی آتی تھی۔ فارغ اوقات میں وہ ان کے پاس بیٹھ جاتا اور ان کے ساتھ باتیں کیا کرتا۔
ابراہیم دو دن تک ان کے ساتھ رہا، یہاں تک کہ قیدیوں کو لے جانے والی گاڑی آ گئی۔ انہوں نے ابراہیم سے پوچھا: ’’تم بھی ہمارے ساتھ آؤ گے؟‘‘ جب انہوں نے ابراہیم کی طرف سے نفی میں جواب سنا تو بہت رنجیدہ ہوئے۔ وہ روتے ہوئےدرخواست کر رہے تھے: ’’ہمیں یہیں رہنے دیا جائے۔ جو کچھ آپ لوگ کہیں گے ہم کریں گے حتی کہ ہم بعثیوں کے ساتھ جنگ کرنے پر بھی تیار ہیں۔‘‘
منطقہ ’’بازی دراز‘‘ کی چوٹیوں پر حملے کا آغاز ہو چکا تھا۔ ہم دو افراد چوٹی کی بلندی کی طرف تھوڑا سا آگے بڑھے۔ ہم اپنے ساتھیوں سے دور ہو گئے تھے۔ ایک مورچے پر پہنچے کہ جس میں بہت سے عراقی فوجی موجود تھے۔ میں نے اسلحے سے انہیں باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ وہ اتنے زیادہ ہوں گے۔ ہم دو جبکہ وہ پندرہ تھے۔ میں نےانہیں چلنے کو کہا مگر وہ اپنی جگہ سے ہل ہی نہیں رہے تھے۔
وہ ہمارے سامنے ایسے کھڑے ہو گئے کہ جب بھی ممکن ہو ہم پر حملہ کر دیں۔ شاید انہوں نے بھی نہیں سوچا تھا کہ ہم دو ہوں گے۔
میں دوبارہ چلّایا: ’’جلدی چلو۔‘‘ اور اپنے ہاتھ سے اشارہ بھی کیا لیکن وہ سب اپنے پیچھے کھڑے اپنے افسر کی طرف دیکھ رہے تھے۔بعثی افسر اپنی بھنووں کو اوپر کی طرف حرکت دے رہا تھا یعنی نہ جاؤ۔ میں خود بہت ڈر گیا تھا۔ ابھی تک ایسی صورتحال سے پالا نہیں پڑا تھا۔ خوف سے میرا منہ کڑوا ہو گیا۔ ایک دفعہ تو میں نے سوچا کہ ان سب کو کلاشنکوف سے بھون ڈالوں مگر یہ درست نہیں تھا۔
کسی بھی وقت کوئی برا اتفاق پیش آ سکتا تھا۔ میں نے ڈر کے مارے اسلحے کو مضبوطی سے تھام لیا۔ خدا سے مدد طلب کی۔ اچانک مورچے کے پیچھے سے ابراہیم نظر ا ٓگیا۔ وہ ہماری طرف آ رہا تھا۔ مجھے عجیب سا اطمینان حاصل ہو گیا۔ وہ جیسے ہی پہنچا تو میں نے قیدیوں کی طرف دیکھے دیکھے کہا:’’آغا ابرام، مدد کرو!‘‘
اس نےپوچھا: ’’کیا ہوا؟!‘‘
میں نے کہا: ’’اصل مسئلہ اس عراقی افسر نے بنایا ہوا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ یہ لوگ یہاں سے ہلیں۔‘‘ اس کے بعد میں نے عراقی افسر کی اشارہ کیا۔ اس کا یونیفارم اور رینک دوسروں سے مختلف تھا۔ ابراہیم نے اسلحہ اس کے کندھے سے اتارا اور آگے بڑھا۔ ایک ہاتھ سے اس افسر کا کالر اور دوسرے ہاتھ سے اس کا بیلٹ پکڑ کر اسے اچانک اٹھایا اور کئی میٹر دور تک اچھال کر پھینک دیا۔ سارے عراقی ڈر کے مارے زمین پر بیٹھ گئے اور اپنے ہاتھ اوپر کر لیے۔ عراقی افسر بار بار ابراہیم کی منتیں کر رہا تھا: ’’الدخیل، الدخیل، ارحم، ارحم۔‘‘ اور مسلسل رو بھی رہا تھا۔ میں حیران رہ گیا تھا اور خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے کا سارا خوف ہرن ہو چکا تھا۔ ابراہیم نے عراقی افسر کو باقی قیدی فوجیوں کے درمیان گھمایا۔ اس دن خدا نے ابراہیم کو ہماری کمک کے لیے بھیج دیا تھا۔
اس کے بعد ہم قیدیوں اور افسر کو لے کر چوٹی سے نیچے اتر آئے۔
نیمۂ شعبان
[شہیدؒ کے کچھ دوست]
پندرہ شعبان کے دن عصر کے وقت ابراہیم چھاؤنی میں داخل ہوا۔ گذشتہ آدھی رات سے وہ غائب تھا۔ اب جب کہ آیا تھا تو ایک عراقی قیدی کو اپنے ساتھ لے آیا تھا۔
میں نے پوچھا: ’’آغا ابرام، کہاں تھے تم؟ اور یہ قیدی کون ہے؟!‘‘
اس نے جواب دیا: ’’میں آدھی رات کو دشمن کی طرف چلا گیا تھا۔ سڑک کے کنارے ایک جگہ جا کر چھپ گیا اور وہاں سے گزرنے والی عراقی گاڑیوں کو غور سے دیکھنے لگا۔ جب سڑک خالی ہو گئی تو دیکھا کہ ایک عراقی جیپ، جس میں ایک آدمی سوار تھا، میری طرف آ رہی تھی۔ میں جلدی سے سڑک کے درمیان جا پہنچا اور عراقی افسر کو گرفتار کر کے واپس آ گیا۔ راستے میں میں نے سوچا کہ یہ بھی ہماری طرف سےا مام زمانہ عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کو ہدیہ ہے لیکن پھر میں اپنے اس خیال پر پشیمان ہو گیا۔ میں نے سوچا کہ ہم کہاں اور امام زمانہ عج کو دیا جانے والا تحفہ کہاں۔‘‘
اس روز ہم سب اکٹھے ہو کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ ہر موضوع پر باتیں ہوتی رہیں یہاں تک کہ ایک جوان ابراہیم سے پوچھنے لگا: ’’آپ کی نظر میں محاذ پر لڑنے والے کمانڈرز میں سے سب سے بہترین کون سا ہے اور کیوں؟‘‘
ابراہیم نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد کہا: ’’سپاہ کے جوانوں میں سے میں محمد بروجردی جیسا کسی کو بھی نہیں سمجھتا۔ محمد نے ایسا کام کیا ہے کہ کوئی اور اسے کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔کردستان میں ڈھیروں مشکلات کے باوجود بھی اس نے کُرد مسلمانوں کا ایک فدائی گروہ تیار کر لیا اور اسی کے ذریعے کردستان میں امن و امان بحال کر دیا۔
فوج کے افسروں میں سے میجر علی صیاد شیرازی جیسا کوئی نہیں ہے، کیونکہ وہ رضاکار فوجیوں سے بھی زیادہ سادہ انداز میں زندگی گزارتے ہیں۔ آغا صیاد فوجی بعد میں ہیں اور ایک حزب اللہی اور مومن جوان پہلے ہیں۔
فضائیہ کے افسران میں سے جتنا چاہو تلاش کر لو کیپٹن شیرودی سے زیادہ کوئی قابل نظر نہیں آ ئے گا۔ کیپٹن شیرودی نے سرپل ذہاب کے علاقے میں اپنے ہیلی کاپٹر سے کئی عراقی حملوں کو ناکام بنا کر رکھ دیا تھا۔ اگرچہ وہ ایئر بیس کمانڈر کے عہدے تک پہنچ چکے ہیں مگر پھر بھی اتنی سادہ زندگی بسر کرتے ہیں کہ آپ کو تعجب ہو گا۔میں جب محکمہ کھیل و ورزش میں تھا تو کچھ جوڑے ورزشی جوتوں کے لے آیا تھا جن میں سے ایک شیرودی کو دیا تھا۔ ایئربیس کمانڈر ہونے کے باوجود بھی ان کے پاس مناسب جوتے نہ تھے۔‘‘
باتوں باتوں میں بات یہاں تک پہنچ گئی کہ ہر کوئی اپنی اپنی خواہش بیان کرنے لگا۔ ہر کوئی کچھ نہ کچھ بیان کر رہا تھا البتہ اکثر جوانوں کی آرزو شہادت ہی تھی۔
ابوالفضل کاظمی کی طرح کے بعض دوست مذاق میں کہتے تھے: ’’خدا نیک اور اچھے بندوں کو ہم سے جدا کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مسلسل گناہ کرتے رہتے ہیں تا کہ فرشتوں کی توجہ ہماری طرف نہ ہو۔ ہم ابھی زندہ رہنا چاہتے ہیں۔‘‘ سب جوان اس کی باتوں سے ہنسنے لگے۔
اس کے بعد ابراہیم کی باری آ گئی۔ سب ابراہیم کی آرزو جاننے کے منتظر تھے۔ ابراہیم نے تھوری دیر سکوت کے بعد کہا: ’’میری آرزو بھی شہادت ہی ہے مگر ابھی نہیں۔ مجھے یہ بات بہت پسند ہے کہ میں اسرائیل سے لڑتےہوئے شہید ہوں۔‘‘
******
میں علی الصبح خفیہ مورچوں سے گیلان غرب کی طرف لوٹ آیا تھا۔ چھاؤنی میں داخل ہوا تو خلاف معمول وہاں کوئی نہ تھا۔
کچھ دیر وہاں ٹہلتا رہا مگر بے سود۔میں ڈر گیا کہ کہیں عراقیوں نے شہر پر قبضہ ہی نہ کر لیا ہو۔ میں نے صحن میں کھڑے ہو کر بلند آواز میں پکارا۔ وہاں کوئی نہ تھا۔ ایک کمرے کا دروازہ کھلا تو ایک جوان نے مجھے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ میں کمرے میں داخل ہوا تو سب لوگ کمرے میں روبہ قبلہ بیٹھے خاموشی سے بیٹھے تھے۔ ابراہیم اکیلا ساتھ والے کمرے میں بیٹھا سوزناک آواز میں کوئی نوحہ پڑھ رہا تھا۔ وہ اپنے لیے پڑھ رہا تھا۔ امام زمانہ عج سے مناجات کر رہا تھا۔ اس کی آواز میں اتنا درد تھا کہ وہاں بیٹھے سبھی افراد آنسو بہا رہے تھے۔
انعام
[قاسم شبان]
مغربی علاقے میں ہماری ریکی مکمل ہو چکی تھی۔ ہم نے اپنے جوانوں کو پیچھے واپس کر دیا تھا۔ ریکی ختم ہونے کے بعد ہم نے ایک ایک کر کے سارے مورچے دیکھے۔ کوئی باقی نہیں بچا تھا۔ ہم آخری نفر تھے جو واپس ہو رہے تھے۔ آدھی رات کو ایک بجے کا وقت تھا۔ ہم پانچ لوگ تھوڑی دیر تک چلتے رہے۔ میں نے ابراہیم سے کہا: ’’آغا ابرام! بہت تھکاوٹ ہو رہی ہے۔ اگر کوئی مشکل نہ ہو تو یہاں کچھ دیر کے لیے سستا لیں۔‘‘ ابراہیم نے میری بات کی تائید کی اور ہم ایک مناسب جگہ ڈھونڈ کر آرام کرنے لگے۔
ابھی ہماری آنکھ بھی نہ لگی تھی کہ مجھے محسوس ہوا کہ دشمن کی طرف سے کوئی ہمارے نزدیک ہوتا جا رہا ہے۔ میں اچانک اپنی جگہ سے اچھل پڑا اور ایک کونے سے جھانکنے لگا۔ میرا اندازہ صحیح تھا کیونکہ پورے چاند کی روشنی میں سب کچھ صاف صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ایک عراقی کسی کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہمارے نزدیک ہوتا جا رہا تھا۔
میں نے بہت آہستہ سے ابراہیم کو آواز دی۔ آس پاس اچھی طرح دیکھا۔ عراقی کے علاوہ وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔
جب وہ ہمارے بالکل نزدیک پہنچ گیا تو اچانک میں نے اپنے مورچے سے باہر کی طرف چھلانگ لگا دی اور اس عراقی کے سامنے آ گیا۔ عراقی فوجی بہت ڈر گیا تھا۔ وہ وہیں زمین پر بیٹھ گیا۔
اچانک میری نظر اس کے کندھوں پر پڑی۔ اس نے اپنے کندھوں پر ہمارے ایک بسیجی فوجی کو اٹھا رکھا تھا۔ وہ زخمی تھا اور وہیں رہ گیا تھا۔
میں بہت حیران ہوا۔ میں نے بندوق اپنے کندھے سےلٹکائی اور اپنے ساتھیوں کی مدد سے زخمی کو اس کے کندھے سے اتار کر نیچے رکھا۔ رضا نے اس سے پوچھا: ’’تم کون ہو اور یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘
عراقی فوجی نے کہا: ’’تمہارے جانے کے بعد میں مورچوں میں گشت کر رہا تھا کہ اچانک اس جوان پر نظر پڑی۔ تمہارا یہ جنگجو درد سے دوہرا ہوا جا رہا تھا اور مولا امیر المومنین علیہ السلام اور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کو پکار رہا تھا۔‘‘ میں نے سوچا کہ جب تک اندھیرا ہے اور بعثی اس طرف نہیں آ جاتے، مولا علی علیہ السلام کی خاطر، میں اس جوان کو ایرانی مورچوں تک پہنچا کر واپس آ جاؤں گا۔‘‘ اس کے بعد وہ کہنے لگا: ’’تم ہم شیعہ فوجیوں کو عراقی بعثی افسروں کی طرح مت سمجھو۔ ہم تو تمہارے ساتھ لڑنے پر مجبور ہیں۔‘‘
میں اپنی جگہ سے ہل کر رہ گیا۔ ابراہیم نے اس عراقی فوجی سے کہا: ’’اب اگر تم چاہو تو یہاں رہ جاؤ اور واپس نہ جاؤ۔ تم ہمارے شیعہ بھائی ہو۔‘‘
اس عراقی فوجی نے اپنی قمیص کی جیب سے ایک تصویر نکال کر کہا: ’’یہ میرے گھر والے ہیں۔ اگر میں تمہاری فوج کے ساتھ مل جاؤں تو صدام انہیں قتل کر دے گا۔‘‘
اس کے بعد وہ تعجب سے ابراہیم کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد عربی لہجے میں پوچھنے لگا: ’’أَنْتَ ابراھیم ہادی؟!‘‘
ہم سب ساکت رہ گئے اور حیرانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ اس جملے کو ترجمے کی ضرورت نہ تھی۔ ابراہیم نے بھی آنکھیں سکیڑ کر حیرت سے مسکراتے ہوئے اس سے پوچھا: ’’تم میرا نام کیسے جانتے ہو؟!‘‘
میں نے مذاق کرتے ہوئے کہا: ’’ابرام بھائی، میں نہ کہتا تھا کہ عراقیوں میں بھی تمہارے دوست موجود ہیں!‘‘
عراقی فوجی کہنے لگا: ’’ایک ماہ پہلے آپ کی اور آپ کی فوج کے کچھ اور کمانڈرز کی تصویریں ہماری ساری یونٹوں میں تقسیم کی گئی تھیں اور کہا گیا تھا کہ جو کوئی بھی ان ایرانی کمانڈروں کا سر لائے گا اسے صدام کی طرف سے بہت بڑا انعام دیا جائے گا۔‘‘
انہی دنوں ہم تک خبر پہنچ چکی تھی کہ مغربی سپاہ کے کمانڈرز میں سے ایک کو اندرزگو گروپ کا کمانڈر مقرر کیا گیا ہے اور وہ اپنا چارج سنبھالنے گیلان غرب کی طرف نکل آیا ہے۔ ہم بھی منتظر تھے مگر اس کمانڈر کا کچھ پتا نہ چلا۔
اب جبکہ یہ عراقی فوجی ہمارے کمانڈروں کے نام بتا رہا تھا تو ہمیں معلوم ہوا کہ جمال تاجیک نامی ایک بسیجی جو کچھ دنوں سے ہمارے گروہ میں شامل ہو کر جنگ لڑ رہا تھا، وہ وہی کمانڈر ہے۔ میں اور ابراہیم کچھ دوستوں کو لے کر اس کے پاس پہنچے اور اس سے پوچھا: ’’آپ نے اپنا تعارف کیوں نہیں کروایا؟ بتایا کیوں نہیں کہ آپ اس گروہ کے کمانڈر ہیں؟‘‘
جمال نے ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’مجھے یہ کمانڈ اس لیے دی گئی تھی کہ کام ہو۔ خدا کا شکر کہ یہاں کام بہت ہی اچھے طریقے سے انجام دیا جا رہا ہے۔ اور میں بھی آپ لوگوں کے درمیان رہ کافی لطف اندوز ہو رہا ہوں۔ خدا کا شکر بھی ادا کرتا ہوں کہ اس نے آپ جیسے دوستوں سے ملوایا۔ آپ لوگ بھی کسی کو کچھ مت کہیے گا تا کہ ہمارے جوانوں کی نظر میرے بارے میں تبدیل نہ ہو جائے۔‘‘
جمال کچھ عرصہ بعد معرکہ مطلع الفجر میں جام شہادت نوش کر گیا۔ اس وقت وہ ایک ہراوَل بٹالین کا کمانڈر تھا۔
ابوجعفر
[حسین اللہ کرم، فرج اللہ مرادیان]
1981 کے ابتدائی ایام میں اطلاع پہنچی کہ ہمارے مجاہدین نے ’’بازی دراز‘‘ کی چوٹیوں پر کچھ مزید حملے کیے ہیں اور اب یہ طے پایا ہے کہ اندرزگو گروپ کے جوان بھی اسی وقت دشمن کی علاقوں میں گھس کر ریکی کریں۔
اس کام کے لیے ابراہیم کے علاوہ وہاب قنبری[1]، رضا گودینی اور میرا انتخاب کیا گیا۔ مقامی کُردوں میں سے شاہرخ نورائی اور حشمت کوہ پیکر بھی ہمارے ہمراہ ہو گئے۔
ضروری سازو سامان جس میں کھانے پینے کی چیزیں، اسلحہ اور کچھ بارودی سرنگیں شامل تھیں، ہم نے اپنے ساتھ لے لیا۔ جیسے ہی اندھیرا چھانے لگا تو ہم چوٹیوں کی طرف چل پڑے۔ ان چوٹیوں کو عبور کرتے ہوئے ہم دشتِ گیلان کے علاقے میں پہنچے۔روشنی ہوئی تو ہم ایک مناسب جگہ پر ٹھہر گئے اور اپنے آپ کو چھپا لیا۔
دن کے وقت استراحت کے ساتھ ساتھ ہم نے دشمن کے علاقوں اور دشت میں آنے والے راستوں کی ریکی کا کام بھی انجام دیا۔ دشمن کے مقبوضہ علاقے کا نقشہ بھی تیار کر لیا۔ ہمارے سامنے والے دشت میں دو سڑکیں تھیں، جن میں سے ایک (دشت گیلان روڈ) تو تارکول کی پکی سڑک تھی جبکہ دوسری کچی سڑک، جو فقط فوجی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ ان دو سڑکوں کے درمیان تقریباً پانچ کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ عراقی فوجیوں کا ایک دستہ ٹیلوں پر اور سڑک کے اطراف میں تعینات اس جگہ پر پہرہ دے رہا تھا۔ جیسے ہی اندھیرا چھا گیا، ہم نماز پڑھ کر روانہ ہو گئے۔میں اور رضا گودینی تارکول کی پکی سڑک جب کہ دوسرے جوان کچی سڑک کی طرف چلے گئے۔ سڑک کے آس پاس ہم لوگ چھپ گئے۔ جب سڑک خالی ہو گئی تو ہم جلدی سے سڑک پر ہو لیے۔
دو بارودی سرنگیں سڑک پر موجود گڑھوں میں نصب کر دیں اور ان پر تھوڑی تھوڑی مٹی ڈال کر انہیں چھپا دیا۔ اس کے بعد جلدی سے ہم کچی سڑک کی طرف بڑھ گئے۔
دشمن کے فوجیوں کی نقل و حرکت سے یہی معلوم ہو رہا تھا کہ عراقی ابھی تک بازی دراز کے علاقے میں مصروفِ جنگ ہیں۔ زیادہ تر عراقی فوجی اور گاڑیاں اسی طرف جا رہی تھیں۔ ابھی ہم کچی سڑک پر نہ پہنچے تھے کہ ایک ہولناک دھماکے کی آواز ہمیں اپنی پیچھے سے سنائی دی۔ ہم دونوں فوراً بیٹھ گئے اور پیچھے کی طرف واپس چل پڑے۔
ایک عراقی ٹینک سرنگ کا شکار ہو کر جل رہا تھا۔ کچھ لمحات گزرے تو ٹینک کے اندر پڑے میزائل بھی ایک ایک کر کے پھٹنے لگے۔ وہ سارا میدان ٹینک کے جلنے کی وجہ سے روشن ہو چکا تھا۔ عراقیوں کے دل میں عجیب طرح کا خوف اور بے چینی پیدا ہو گئی تھی جس کی وجہ سے پہرے پر کھڑے اکثر عراقی فوجی بغیر دیکھے بھالے فائرنگ کر رہے تھے۔
جب ہم ابراہیم اور دوسرے جوانوں تک پہنچے تو وہ بھی اپنا کام انجام دے چکے تھے۔
وہاں سے ہم اکٹھے چوٹیوں کی طرف چل پڑے۔ ابراہیم نے کہا: ’’صبح تک ہمارے پاس کافی وقت ہے۔ اسلحہ اور دوسرے وسائل بھی ہیں۔ یوں کرتے ہیں کہ گھات لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور دشمن کے دل میں زیادہ سے زیادہ وحشت اور خوف پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
ابھی ابراہیم کی بات مکمل بھی نہ ہونے پائی تھی کہ کچی سڑک سے ہمیں دھماکے کی آواز سنائی دی۔ ایک عراقی گاڑی سرنگ سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئی تھی۔ ہم اپنی مہم کی کامیابی پر خوش ہو گئے۔ عراقیوں کی طرف سے کی جانے والی فائرنگ کی آواز تیز ہو گئی۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ ہمارے فوجی ان کے علاقوں میں گھس گئے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے مارٹر گولوں اور لائٹ فائرز (روشنی کے گولوں) کی بوچھاڑ کر دی تھی۔ ہم بھی جلدی جلدی پہاڑ کی طرف چلے گئے۔ ہمارے سامنے ایک ٹیلہ تھا۔ اچانک ایک عراقی جیپ اس کے پیچھے سے نکلی اور ہماری طرف بڑھنے لگی۔ وہ ہمارے اتنے نزدیک پہنچ گئی تھی کہ ہمارے پاس کچھ سوچنے کا وقت ہی نہ رہا تھا۔ جوانوں نے جلدی سے مورچہ سنبھال لیا اور جیپ کی طرف فائرنگ شروع کر دی۔ تھوڑی دیر بعد ہم عراقی جیپ کی طرف بڑھے۔ ایک اعلیٰ عراقی افسر اور اس کا ڈرائیور ہماری گولیوں کا نشانہ بن چکے تھے۔ فقط ان کا وائرلیس آپریٹر ہی بچا تھا جو زخمی ہو کر زمین پر گر پڑا تھا۔ اس کے پاؤں میں ایک گولی لگ گئی تھی جس سے وہ مسلسل کراہے جا رہا تھا۔
ایک جوان نے اپنا اسلحہ سنبھالا اور اس کی طرف بڑھا۔ عراقی فوجی مسلسل کہہ رہا تھا: ’’الامان، الامان۔‘‘
اچانک ابراہیم چلّایا: ’’تم کیا کرنا چاہتے ہو؟!‘‘
جانے والے جوان نے کہا: ’’کچھ نہیں۔ میں چاہتا ہوں اسے پُرسکون کر دوں۔‘‘
ابراہیم نے جواب دیا: ’’میرے دوست، جب تک ہم فائرنگ کر رہے تھے اس وقت تک وہ ہمارا دشمن تھا، اب جب کہ یہ ہماری دسترس میں ہے تو یہ ہمارا قیدی ہے۔‘‘
اس کے بعد وہ اس وائرلیس آپریٹر کے پاس خود چلا گیا اور اسے زمین سے اٹھا لیا۔ پھر اپنے کندھوں پر اسے اٹھا کر چلنے لگا۔ ہم سب تعجب سے ابراہیم کا اس کے ساتھ یہ سلوک دیکھ رہے تھے۔ ہم میں سے ایک نے کہا: ’’آغا ابرام، آپ جانتے ہیں کہ کیا کر رہے ہیں؟ یہاں سے لے کر آپ کے ٹھکانے تک تیرہ کلو میٹر کا فاصلہ ہم نے پہاڑ پر طے کرنا ہے۔‘‘ ابراہیم نے واپس پلٹ کر جواب دیا: ’’یہ مضبوط بدن خدا نے انہی دنوں کے لیے ہمیں عطا کیا ہے۔‘‘
اس کے بعد وہ پہا ڑ کی طرف چل پڑا۔ہم نے بھی جلدی سے جیپ کے اندر موجود سامان اور عراقیوں کے وائرلیس کو اٹھایا اور اس کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ پہاڑ کے نیچے پہنچ کر تھوڑا آرام کیا اور عراقی کے زخمی پاؤں کو پٹی باندھی۔ اس کے بعد ہم دوبارہ اپنے راستے پر ہو لیے۔
تقریباً سات گھنٹے کی کوہ پیمائی کے بعد ہم محاذ جنگ پر پہنچ گئے۔ راستے میں ابراہیم اس عراقی قیدی سے باتیں کرتا رہا اور وہ بھی مسلسل ابراہیم کا شکریہ ادا کرتا رہا۔ صبح کی اذان ہوئی تو ہم نے نسبتاً ایک پُرامن جگہ پر ٹھہر کر نماز فجر باجماعت پڑھی۔ عراقی قیدی نے بھی ہمارے ساتھ ہی جماعت کے ساتھ نماز پڑھی۔ تب ہمیں معلوم ہوا کہ وہ بھی شیعہ ہے۔ نماز کے بعد ہم نے تھوڑا سا کھانا کھایا۔ جو کچھ ہمارے پاس تھا وہ ہم سب نے آپس میں مساوی تقسیم کر لیا حتی کہ اس عراقی قیدی کو بھی برابر کا حصہ دیا۔
عراقی قیدی جسے ہم سے اتنے اچھے سلوک کی توقع نہ تھی خود ہی اپنا تعارف کروانے لگا: ’’میں ابو جعفر، شیعہ ہوں اور کربلا میں رہتا ہوں۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ تم لوگ ایسے ہو۔۔۔‘‘ مختصر یہ کہ اس نے کافی ساری باتیں کی جن میں سے فقط کچھ الفاظ ہی ہمیں سمجھ آ رہے تھے۔
ابھی تک اجالا نہ پھیلا تھا۔ ہم وہاں نزدیک ہی ایک غار ’’بان اسیران‘‘ میں چلے گئے اور آرام کرنے لگے۔ رضا گودینی کمک لانے کے لیے ایرانی فوج کے پڑاؤ کی طرف چلا گیا۔
گھنٹہ بھر گزرا ہو گا کہ رضا بہت سے سامان اور فوجی جوانوں کے ہمراہ واپس آ گیا اور ہمیں آوازیں دینے لگا۔ میں نے پوچھا: ’’رضا، کیا حالات ہیں؟‘‘ کہنے لگا: ’’جب میں غار کی طرف واپس آ رہا تھا تو اچانک ٹھٹھک کر رہ گیا۔ غار کے سامنے ایک مسلح شخص بیٹھا ہوا تھا۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ شاید تم میں سے کوئی ہے۔ لیکن جب تھوڑا سا آگے بڑھا تو حیران رہ گیا۔ وہ وہی عراقی قیدی ابو جعفر تھا جو اسلحہ اپنے ہاتھ میں تھامے پہرہ دے رہا تھا۔ جیسے ہی میں نے اسے دیکھا تو میرا رنگ اڑ گیا، لیکن ابوجعفر نے مجھے سلام کیا اور اسلحہ میرے حوالے کر دیا۔ پھر عربی زبان میں مجھ سے کہنے لگا: ’’تمہارے ساتھی سو رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ایک عراقی ٹولی گشت کرتی ہوئی یہاں سے گزر رہی تھی۔ اسی وجہ سے میں ہوشیار ہو گیا کہ اگر وہ نزدیک آئے تو ان سے مقابلہ کروں گا۔‘‘
ہم سب لوگ اپنے پڑاؤ کی طرف چل دیے۔ ابو جعفر کو ہم نے کچھ دن اپنے پاس رکھا۔ ابراہیم نے راستے میں جو بوجھ برداشت کیا تھا اس نے اسے بیمار کر دیا تھا، جس کی وجہ سے وہ ہسپتال میں داخل ہو گیا۔ کچھ دن بعد وہ بھی واپس آ گیا۔ سب جوان اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ میں نے ابراہیم کو بلایااور کہا: ’’مغربی سپاہ کے جوان تمہارا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں۔‘‘
اس نے حیران ہو کر پوچھا: ’’کیوں، مگر ہوا کیا ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’تم آؤ تو سہی، خود ہی پتا چل جائے گا۔‘‘
میں اور ابراہیم سپاہ کے پڑاؤ کی طرف چلے گئے۔ متعلقہ افسر نے بات شروع کی: ’’وہ عراقی قیدی ابو جعفر جسے تم لوگ اپنےساتھ لے آئے تھے۔ اس نے اپنے لشکر کی ترتیب، اپنی بریگیڈ کے ٹھکانے، افسروں اور راستوں کے بارے میں جو معلومات ہمیں فراہم کی ہیں، وہ بہت ہی زیادہ قیمتی ہیں۔‘‘
اس کے بعد اس نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’یہ قیدی تین دنوں سے ہمیں مسلسل معلومات دے رہا ہے اور اس کی ساری معلومات صحیح اور درست ہیں۔ وہ جنگ کے آغاز ہی سے اس علاقے میں موجود تھا۔ اس نے عراقی فوج کے راستوں اور ان کے وائرلیس کوڈز کے بارے میں بھی سب کچھ بتا دیا ہے۔ ہم اسی لیے یہاں حاضر ہوئے ہیں کہ آپ کا شکریہ ادا کر سکیں۔‘‘
ابراہیم نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’ارے نہیں، ہم نے کیا کیا ہے۔ یہ خدا کا کام تھا۔‘‘
اگلے دن ابو جعفر کو قیدیوں کے کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ ابراہیم نے کافی کوشش کی کہ ابوجعفر ہمارے پاس ہی رہے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ ابوجعفر نے کہا تھا: ’’میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ مجھے یہیں رکھ لیں۔ میں عراقیوں کے ساتھ جنگ لڑنا چاہتا ہوں۔‘‘ لیکن اس کی یہ درخواست قبول نہ کی گئی۔
*****
کچھ عرصے بعد میں نے سنا کہ گروہ کچھ عراقی قیدی گروہ توابین کے عنوان سے محاذ پر آئے ہیں۔ وہ بدر بریگیڈ کے سپاہیوں کے ساتھ مل کر عراقیوں کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔
عصر کا وقت تھا۔ ہمارے گروہ کا ایک پرانا ساتھی مجھے ملنے کے لیے آیا۔ اس نے خوشی سے بتایا: ’’تمہارے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ وہ عراقی قیدی ابو جعفر بدر بریگیڈ کے کیمپ میں کافی سرگرم ہے۔‘‘
حملے کا وقت نزدیک ہی تھا لہٰذا ہم حملے کے بعد ہم اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ بدر بریگیڈ کے کیمپ میں بھی گئے۔ ہم نے ارادہ کر لیا تھا کہ جیسے بھی ہو ابو جعفر کو ڈھونڈ کر اپنے جوانوں میں شامل کر لیں گے۔
بریگیڈ کی عمارت میں داخل ہونے سے پہلے ایک ایسا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے آیا جو ناقابل یقین تھا۔بریگیڈ کے شہداء کی تصاویر دیوار پر چپکی ہوئی تھیں۔ بدر بریگیڈ کے آخری حملے میں شہید ہونے والے مجاہدین میں ابوجعفر کی تصویر بھی نظر آ رہی تھی۔
میں چکرا کر رہ گیا۔ میری حالت عجیب سی ہو گئی تھی۔ وہاں کھڑا مبہوت ہو کر اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کے بعد ہم اس عمارت میں داخل ہی نہ ہوئے۔
وہاں سے پلٹے تو اس رات کے تمام واقعات میرے ذہن میں گھومنے لگے۔ دشمن پر حملہ، ابراہیم کی جانثاری، عراقی وائرلیس آپریٹر، قیدیوں کا کیمپ، بدر بریگیڈ ۔۔۔ اس کے بعد شہادت۔ بہت خوش قسمت تھا ابوجعفر۔
[1] وہاب قنبری سپاہ کرمانشاہ کے بانی اور مقامی کُرد قبیلے سے تھے۔ وہاب کے پاس یونیورسٹی کی ڈگری تھی اور وہ قرآن و نہج البلاغہ پر کافی دسترس رکھتے تھے۔ اکثر فوجی جوانوں کے مطابق، یہ وہاب قنبری کی شجاعت اور مدیریت ہی تھی جس نے کردستان کے فسادات میں کرمانشاہ کو غیر جانبدار رکھا۔ وہاب کو اس کی محنتوں کو صلہ مل گیا اور وہ اپنے شہید دوستوں کے ساتھ جا کر ملحق ہو گیا۔
دوست
[مصطفیٰ ہرندی]
وہ بہت پریشان تھا۔ بے چینی اس کے چہرے سے چھلک ہی تھی۔ میں نے پوچھا: ’’کیا ہوا؟‘‘ ابراہیم نے بے قراری سے جواب دیا: ’’کل رات میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ ریکی کے لیے گیا تھا۔ واپسی پر دشمن کے ٹھکانوں کے بالکل پاس ہی ماشاء اللہ عزیزی[1] بارودی سرنگ سے ٹکرا کر شہید ہو گیا۔ عراقی فوجیوں نے گولیاں برسانا شروع کر دیں اس لیے ہمیں مجبوراً وہاں سے واپس پلٹنا پڑا۔‘‘
اب مجھے اس کی بے چینی کی وجہ سمجھ آ گئی تھی۔ اندھیرا پھیلا تو ابراہیم چلا گیا۔ آدھی رات کے وقت وہ واپس آگیا۔ اس وقت وہ بہت خوش تھا۔ وہ مسلسل چلائے جا رہا تھا: ’’نرس۔۔۔ نرس۔۔۔ جلدی سے آؤ، دیکھو ماشاء اللہ زندہ ہے!‘‘
ہمارے سب ساتھی بہت ہی خوش تھے۔ ہم نے ماشاء اللہ کو ایمبولینس میں بٹھایا، لیکن ابراہیم کونے میں بیٹھا کسی سوچ میں غرق تھا۔ میں اس کے پاس بیٹھ گیااور حیرت سے پوچھا: ’’تم کیا سوچ رہے ہو؟!‘‘
تھوڑی دیر خاموش رہ کر کہنے لگا: ’’ماشاء اللہ عراقی مورچوں کے پاس میدان کے درمیان میں سرنگ میں پھنسا تھا لیکن جب میں وہاں پہنچا تو وہ وہاں نہیں تھا۔ وہاں سے تھوڑا پیچھے میں نے اسے ڈھونڈ ہی لیا۔ وہ دشمن کی نظروں سے دور ایک پُر امن جگہہ پر بیٹھا میرا انتظار کر رہا تھا۔‘‘
*****
میرے پاؤں سے بہت سا خون بہہ چکا تھا۔ میں بے حال ہو گیا تھا۔ مگر عراقی مطمئن تھے کہ میں زندہ نہیں ہوں۔میری حالت عجیب ہو گئی تھی۔ میں زیر لب فقط یہی کہہ رہاتھا: ’’یا صاحب الزمان ّ(عج) ادرکنی۔‘‘
اندھیرا گہرا ہو گیا تھا۔ ایک خوبصورت اور نورانی جوان میرے سرہانے آیا۔ میں نے بہت ہی مشکل سے اپنی آنکھیں کھولیں۔ اس جوان نے آہستہ سےمجھے اٹھایا۔ میں سرنگوں والے میدان میں پھنس گیا تھا۔ پھر اس کے بعد اس نے آہستہ اور آرام سے مجھے ایک پُرامن جگہ پر لٹا دیا۔
مجھے کوئی درد محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ وہ شخص مجھ سے کافی دیر باتیں کرتا رہا۔ اس کے بعد کہا: ’’کوئی آئے گا اور تمہیں یہاں سے نجات دلائے گا۔ وہ ہمارا دوست ہے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد ابراہیم آ گیا۔ اس نے اسی مضبوطی کے ساتھ مجھے اپنے کندھوں پر اٹھا لیا جو ہمیشہ سے اس کا خاصہ رہی ہے۔ ہم چل پڑے۔ اس خوبصورت چہرے والے جوان نے ابراہیم کو اپنا دوست کہا تھا۔ کتنا خوش قسمت ہے ابراہیم۔
ماشاء اللہ نے گیلان غرب کے محاذ پر پیش آنے والے واقعات کو ایک ڈائری میں لکھ رکھا تھا۔ یہ واقعہ بھی اس نے اسی ڈائری میں رقم کیا تھا۔
*****
ماشاء اللہ کئی سال تک محاذ پر مصروف پیکار رہے۔ وہ گیلان غرب کے متقی اور مخلص اساتذہ میں سے تھے اور جنگ کے آغاز سے انجام تک محاذوں پر اور مختلف حملوں میں پوری بہادری اور شجاعت کے ساتھ موجود رہے۔
جنگ ختم ہونے کے بعد ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں اپنے ساتھیوں سے جا ملے۔
[1] سرفروش جانباز ماشاء اللہ عزیزی گیلان غرب کے مخلص اور متقی استاد تھے۔ ان کی جانبازی کی تفصیل ادارہ گروہ شہید ہادی کی طرف سے چھپنے والی کتاب ’’وصال‘‘ میں بیان کی گئی ہے۔
گمنامی
[مصطفیٰ ہرندی]
وہ اذان سے پہلے لوٹ آیا تھا۔ ایک شہید کا جسد بھی اس کے کندھوں پر تھا۔ تھکاوٹ اس کے چہرے پر موجیں مار رہی تھی۔
صبح اس نے چھٹی لی۔ اس کے بعد ہم شہید کے جسد کو لے کر چل دیے۔ ابراہیم تھکا ہوا تو تھا مگر بہت خوش تھا۔
وہ کہہ رہا تھا کہ ایک ماہ پہلے بازی دراز کی چوٹیوں پر ہماری ایک مہم تھی۔ فقط یہی شہید رہ گیا تھا۔ اب اس علاقے میں حالات ٹھیک ہونے کے بعد خدا نے کرم کیا کہ ہم اسے بھی لانے میں کامیاب ہو گئے۔
تہران بہت جلدی خبر پہنچ چکی تھی۔ سب لوگ شہید کے جسد کا انتظار کر رہے تھے۔ اگلے دن ایک بہت باشکوہ اور عظیم ہجوم نے خراسان چوک میں اس شہید کی تشییع جنازہ میں شرکت کی۔
ہم کچھ دن تک تہران میں ٹھہرنا چاہتے تھے لیکن ہمیں اطلاع ملی کہ ایک اور حملے کی تیاری ہو رہی ہے۔ طے پایا کہ کل رات مسجد سے ہم اپنے سفر کا آغاز کریں۔
*****
میں، ابراہیم اور کچھ دوسرے دوست مسجد کے سامنے کھڑے تھے۔نماز ختم ہونے کے بعد ہم خوش گپیوں اور قہقہوں میں مشغول تھے کہ ایک بوڑھا آدمی آگے آیا۔ میں اسے پہچانتا تھا۔ وہ اسی شہید کا باپ تھا جسے ابراہیم بازی دراز کی چوٹیوں سے نیچے لایا تھا۔ ہم نے اسے سلام کیا اور اس نے ہمارے سلام کا جواب دیا۔
سبھی خاموش تھے۔ وہ ہمارے باقی دوستوں کے لیے اجنبی تھا۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا، مگر!
تھوڑی دیر بعد اس نے اپنی خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا: ’’آغا ابراہیم، تمہارا بہت شکریہ، تم نے بہت تکلیف اٹھائی مگر میرا بیٹا۔۔۔‘‘
وہ بوڑھا شخص تھوڑی دیر چپ رہا، پھر گویا ہوا: ’’میرا بیٹا تم سے ناراض ہے!!‘‘
ابراہیم کے چہرے پر ہمیشہ رہنے والی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ اس نے تعجب سے آنکھیں سکیڑ کر پوچھا: ’’مگر کیوں؟‘‘
بوڑھا شخص روہانسا ہو گیا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں۔کانپتی ہوئی آواز میں کہنے لگا: ’’کل رات میں نے اپنے بیٹے کو خواب میں دیکھا۔ اس نے مجھ سے کہا: ’’جس وقت ہم محاذ کی سرزمین پر گمنام و بے نشان پڑے ہوئے تھے تو مادرِ سادات حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ہر رات ہمارے پاس آتی تھیں۔ لیکن اب ایسا کچھ بھی نہیں رہا۔‘‘ میرے بیٹے نے یہ بھی کہا: ’’گمنام شہداء حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے خاص مہمان ہوتے ہیں!‘‘
اس بوڑھے نے اپنی بات ختم کر دی۔ ہم سب کے لبوں پر خاموشی چھا گئی تھی۔
میں نے ابراہیم کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو اس کے رخساروں سے پھسلتے ہوئے نیچے گر رہے تھے۔ میں اس کی سوچ کو پڑھ سکتا تھا۔ اس نے اپنی کھوئی ہوئی چیز ڈھونڈ لی تھی: ’’گمنامی!‘‘
*****
اس واقعے کے بعد جنگ اور شہداء کے حوالے سے ابراہیم کا خیال کافی بدل گیا۔ وہ کہا کرتا تھا: ’’اب مجھے کوئی شک نہیں رہا کہ ہماری جنگ کے شہداء رسول خداﷺ کے اور امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب جیسا درجہ رکھتے ہیں۔ خدا کے ہاں ان کا مقام بہت بلند ہے۔‘‘
میں نے کئی بار اسے یہ کہتے ہوئے بھی سنا: ’’اگر کوئی یہ تمنا رکھتا ہےکہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی ہمراہی کرے تو اس کے امتحان کا وقت اب آن پہنچا ہے۔‘‘
ابراہیم کو پورا یقین تھا کہ دفاع مقدس سعادت و کمال انسانی تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ جہاں بھی جاتا شہداء کی باتیں کرتا۔ جنگجوؤں اور مجاہدین کے واقعات بیان کرتا۔ اس کا اخلاق و رویہ بھی روز بہ روز تبدیل ہوتا جا رہا تھا اور وہ پہلے کی نسبت زیادہ روحانی ہوتا جا رہا تھا۔
اندرزگو کیمپ میں اس کا معمول تھا کہ رات کے پہلے پہر دو تین گھنٹے سوتا اور اس کے بعد جاگ کر باہر چلا جاتا۔
اذان کے وقت واپس آ جاتا اور صبح کی نماز کے لیے جوانوں کو اٹھاتا۔ میں نے سوچا کہ کافی دن ہو گئے ہیں ابراہیم رات کو یہاں دکھائی نہیں دیتا۔ ایک رات میں اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔میں نے دیکھا کہ وہ سونے کے لیے کیمپ کے باورچی خانے میں چلا گیا۔
اگلے دن باورچی خانے میں کام کرنے والے بوڑھے ملازم سے میں نے کھوج لگائی۔ مجھے معلوم ہوا کہ باورچی خانے میں کام کرنے والے تمام ملازمین نماز شب باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔
ابراہیم اسی لیے وہاں چلا جایا کرتا تھا کیونکہ اگر وہ کیمپ کے اندر نماز شب پڑھتا تو سب کو پتا چل جاتا۔
ابراہیم کے ان آخری دنوں کے معمولات سے مجھے امام علی علیہ السلام کی وہ حدیث یاد آ گئی جو انہوں نے نوف بکالی سے ارشاد فرمائی تھی: ’’میرے شیعہ وہ ہیں جو رات کو عبادت گزار اور دن کو شیر ہوتے ہیں۔‘‘
علماء کی محفل میں
[امیر منجر]
جنگ کا پہلا سال تھا۔ میں چھٹی پر آیا ہوا تھا۔میں اور ابراہیم موٹر سائیکل پر سرآسیاب چوک سے خراسان چوک کی طرف جا رہے تھے۔ وہ میرے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ ایک سڑک سے ہم گزرے تو اچانک ابراہیم نے کہا: ’’امیر، ٹھہرو!‘‘
میں نے جلدی سے موٹر سائیکل سڑک کی ایک طرف موڑ دی اور حیران ہو کر پوچھا: ’’کیا ہوا؟‘‘
اس نے کہا: ’’کچھ نہیں۔ اگر تمہارے پاس وقت ہے تو ایک بندۂ خدا سے ملنے چلتے ہیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’ٹھیک ہے، چلتے ہیں۔ مجھے کوئی خاص کام نہیں ہے۔‘‘
ہم دونوں ایک گھر میں داخل ہو گئے۔ کئی مرتبہ یا اللہ کہنے کے بعد ایک کمرے کے اندر چلے گئے۔ وہاں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک معمر شخص کالی عبا پہنے محفل کی مرکزی جگہ پر بیٹھے تھے۔
ہم دونوں نے سلام کیا اور کمرے کے ایک کونے میں جا کر بیٹھ گئے۔ وہ عالم کسی جوان سے کچھ بات کر رہے تھے، جو اب ختم ہو گئی تھی۔ انہوں نے ہماری طرف رُخ کیا اور مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ کہا: ’’آغا ابراہیم، آج اِدھر کا راستہ کیسے بھٹک گئے!‘‘
ابراہیم سر جھکا کر بیٹھا ہوا تھا۔ ادب سے کہنے لگا: ’’حاجی آغا، شرمندہ ہوں۔ دراصل خدمت میں پہنچے کا وقت نہیں ملتا۔‘‘
ان کی آپس کی باتوں سے میں سمجھ گیا کہ وہ ابراہیم کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
انہوں نے تھوڑی دیر دوسرے لوگوں سے باتیں کی۔ جب کمرہ خالی ہو گیا تو انہوں نے ابراہیم کی طرف رُخ کیا اور انتہائی منکسرانہ لہجے میں کہنے لگے: ’’آغا ابراہیم، ہمیں کچھ نصیحت کیجیے۔‘‘
ابراہیم شرم کے مارے سُرخ ہو گیا اور سر اٹھا کر کہنے لگا: ’’حاجی آغا، آپ کو خدا کا واسطہ، ہمیں شرمندہ نہ کیجیے۔ میری درخواست ہے کہ آپ ایسی بات نہ کیجیے۔‘‘
اس کے بعد کہنے لگا: ’’ہم اس لیے آئے ہیں کہ آپ کی زیارت کر سکیں۔ انشاء اللہ ہفتہ وار درس میں ضرور حاضرِ خدمت ہوں گا۔‘‘
اس کے ہم اٹھ کھڑے ہوئے اور خدا حافظ کہہ کر وہاں سے باہر نکل آئے۔
راستے میں میں نے ابراہیم سے کہا؛ ’’ابرام جان، تم بھی ان آغا کو کوئی نصیحت کر دیتے۔ اتنا سرخ ہونے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
میری بات پر وہ غصے سے اچھل پڑا: ’’کیا کہہ رہے ہو امیر جان، تم ان آغا کو جانتے ہو؟‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں، سچ بتاؤ، کون تھے یہ؟‘‘
اس نے جواب دیا: ’’وہ ایک ولی اللہ ہیں مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔ یہ حاج میرزا اسماعیل دولابی تھے۔‘‘
کئی سال گزرے تو لوگوں نے حاج آغا دولابی کو پہچانا۔ مجھے بھی حال ہی میں ان کی کتاب ’’طوبیٰ محبت‘‘ پڑھنے کے بعد سمجھ آئی کہ ابراہیم کو جو جملہ انہوں نے کہا تھا وہ کتنا عظیم تھا۔
*****
ملک کے مغربی حصے میں بھیجی جانے والی مہموں میں سے ایک اپنے اختتام کو پہنچ چکی تھی لہٰذا اکثر مجاہدین کی ہم آہنگی سے طے پایا کہ سب مل کر امام خمینیؒ سے ملاقات کے لیے جائیں۔ اگرچہ ابراہیم اس مہم میں شریک تھا مگر اس کے باوجود تہران نہیں گیا۔ میں نے جا کر اس سے پوچھا: ’’تم کیوں نہ گئے؟‘‘
اس نے جواب دیا: ’’اب ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ سب لوگ محاذ کو خالی چھوڑ کر چلے جائیں۔ یہاں کچھ لوگوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’کیا واقعاً تم اسی وجہ سے نہیں گئے؟‘‘
تھوڑی دیر خاموش رہ کر کہنے لگا: ’’ہمیں دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کے لیے رہبر نہیں چاہیے بلکہ اس لیے چاہیے کہ ان کی اطاعت کریں۔‘‘ اس کے بعد اس نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’میں اگر اپنے رہبر کو نہیں دیکھ سکتا تو یہ اتنا ضروری بھی نہیں ہے بلکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں ان کے فرمان کا تابع رہوں اور میرے رہبر مجھ سے خوش رہیں۔‘‘
ولایت فقیہ کے حوالے سے ابراہیم بہت حساس تھا۔ وہ امام کے بارے میں عجیب و غریب قسم کے نظریات رکھتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا: ’’قدیم اور جدید علماء و بزرگان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں گزرا جس کے اندر امام خمینیؒ جیسی جرأت و بہادری موجود ہو۔‘‘
جب بھی امام خمینیؒ کا کوئی پیغام نشر ہوتا تو وہ بہت غور سے سنا کرتا اور کہتاتھا: ’’اگر ہم دنیا و آخرت چاہتےہیں تو ہمیں چاہیے کہ امام کی باتوں پر عمل کریں۔‘‘
ابراہیم اپنی جوانی کے دنوں میں بھی اپنے علاقے کے اکثر علماء سے رابطے میں رہتا تھا۔
جن دنوں علامہ جعفری ہمارے محلہ میں رہتے تھے، ابراہیم نے ان کے وجود سے بہت زیادہ کسبِ فیض کیا۔
ابراہیم کے نزدیک شہید آیت اللہ مطہری اور شہید آیت اللہ بہشتی جوان نسل کے لیے بہترین اور مکمل نمونہ تھے۔
زیارت
[جبار ستودہ، مہدی فریدوند]
جنگ کا پہلا سال تھا۔ اندرزگو گروپ کے کچھ جوانوں کے ساتھ ہم گیلان غرب کے شمالی علاقے میں موجود چوٹیوں پر گئے۔ بالکل صبح کا وقت تھا۔ ہم سرحد کے بالکل ساتھ ہی واقع ایک ٹیلے پر جا ٹھہرے۔ سرحد پر واقع فوجی چوکی عراقیوں کے قبضے میں تھی۔ عراقی گاڑیاں پورے اطمینان سے وہاں کی سڑکوں پر گھوم رہی تھیں۔
ابراہیم نے دعاؤں والا کتابچہ کھولا۔ ہم سب نے مل کر زیارت عاشورا پڑھی۔ اس کے بعد میں نے دشمن کے مقبوضہ علاقوں پر حسرت بھری نگاہ ڈال کر ابراہیم سے کہا: ’’ابرام جان، اس سرحدی راستے کو دیکھو۔ عراقی کتنے سکون سے اس پر آ جا رہے ہیں۔‘‘
اس کے بعد میں نے حسرت سے کہا: ’’کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک دن ہمارے لوگ ان راستوں پر اطمینان و سکون سے چل پھر سکیں اور اپنے شہروں کو واپس پلٹ سکیں۔‘‘
ایسا لگتا تھا کہ ابراہیم کا میری باتوں کی طرف دھیان ہی نہیں ہے۔ وہ دور اپنی نظریں گاڑے ہوئے تھا۔ مسکراتے ہوئے کہنے لگا: ’’کیا کہہ رہے ہو! ایک دن آئے گا اسی راستے سے لوگ ٹولیوں کی شکل میں کربلا کی طرف سفر کریں گے۔‘‘
واپسی پر میں نے جوانوں سے پوچھا: ’’کیا آپ لوگ اس سرحدی چوکی نام جانتے ہیں؟‘‘
ایک جوان نے کہا: ’مرز خسروی۔’‘
اس واقعے کے بیس سال بعد ہم کربلا گئے۔ میری نظریں اسی چوٹی پر تھیں کہ جس کی بلندی پر بیٹھ کر ابراہیم نے زیارتِ عاشورا پڑھی تھی۔ میں گویا ابراہیم کو دیکھ رہا تھا کہ وہ ہمیں رخصت کر رہا ہے۔وہ چوٹی مرز خسروی کے علاقے کے بالکل سامنے تھی۔ اس دن بسیں سرحد کی طرف جا رہی تھیں۔ اسی راستے سے لوگ ٹولیوں کی شکل میں کربلا کی زیارت کو جا رہے تھے۔
ہم جب بھی تہران میں ہوتے تھے تو ہر شب جمعہ کو حضرت عبدالعظیم کی زیارت پر جانا ابراہیم کا معمول تھا۔ وہ کہا کرتا تھا: ’’شب جمعہ، خدا کی رحمت کی رات ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی شب ہے۔ سارے اولیاء اور ملائکہ کربلا جاتے ہیں۔ ہمیں بھی ایسی جگہ پر جانا چاہیے کہ جس کے بارے میں اہل بیت علیہم السلام نے فرمایا ہے کہ اس جگہ کی زیارت کربلا کی زیارت جتنا ثواب رکھتی ہے۔‘‘
اس کے بعد وہ اسی جگہ دعائے کمیل پڑھا کرتا تھا اور رات کے ایک بجے واپس آ جاتا۔ جس زمانے میں بسیج کے پروگرام شروع ہوئے تو وہ زیارت کے بعد سیدھا مسجد میں بسیجی جوانوں کے پاس آ جاتا۔
ایک رات ہم اکٹھے ہی حرم سے باہر نکلے۔ مجھے چونکہ جلدی تھی اس لیے میں ایک دوست کے ساتھ موٹرسائیکل پر مسجد آ گیا لیکن ابراہیم دو تین گھنٹے بعد پہنچا۔ میں نے پوچھا: ’’ابراہم جان، بہت دیر لگا دی؟!‘‘
کہنے لگا: ’’حرم سے پیدل ہی نکل پڑا تھا تا کہ راستے میں شیخ صدوق کی زیارت بھی کرتا جاؤں کیونکہ تہران کے پرانے لوگ کہتے ہیں کہ امام زمانہ عج شب جمعہ کو شیخ صدوق کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’بہت اچھے، مگر پیدل کیوں آئے؟‘‘
اس نے صحیح جواب نہ دیا۔ میں نے کہا: ’’تمہیں تو مسجد میں آنے کی جلدی تھی، لیکن تم پیدل آئے۔ اس کی ضرور کوئی نہ کوئی وجہ ہو گی!‘‘
میرے اصرار پر اس نے جواب دیا: ’’حرم سے باہر آیا تو ایک بہت ہی محتاج اور ضرورتمند شخص میرے پاس آیا۔ میں نے اپنی جیب میں پڑے پیسے اسے دے دیے۔ جب ٹیکسی پر سوار ہونے لگا تو دیکھا کہ کرائے کے لیے پیسے نہیں بچے۔ اسی وجہ سے پیدل آنا پڑا۔‘‘
*****
ہر ہفتے کے آخر میں ہم اکٹھے ہی زیارت پر جاتے اور آدھی رات کے وقت بہشت زہرا میں شہداء کی قبروں پر جاتے تھے۔ اس کے بعد ابراہیم ہمارے سامنے حضرت امام حسین علیہ السلام کے مصائب بیان کیا کرتا۔
بعض اوقات قبر کے اندر چلا جاتا اور عجیب حالت میں روتے ہوئے پُرسوز آواز میں دعائے کمیل پڑھا کرتا تھا۔
دستی بم (ہینڈ گرنیڈ)
[علی مقدم]
معرکہ مطلع الفجر سے پہلے کی بات ہے۔ بہتر منصوبہ بندی کے لیے سپاہ پاسداران اور فوج کے کمانڈرز کے درمیان اندرزگو گروپ کے ہیڈ کوارٹر میں ایک میٹنگ ہوئی۔
میں، ابراہیم، فوج کے تین اور سپاہ کے تین افسران اس میٹنگ میں شامل تھے۔ کچھ جوان صحن میں فوجی تربیت لے رہے تھے۔
میٹنگ کے دوران سب محو گفتگو تھے کہ اچانک کمرے کی کھڑکی سے ایک دستی بم اندر کی طرف پھینکا گیا۔ وہ بالکل کمرے کے درمیان میں آ کر گرا۔ خوف سے میرا رنگ اڑ گیا۔ کمرے میں جہاں میں بیٹھا ہوا تھا وہیں اپنے سر کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اور دیوار کی طرف منہ کر کے پاؤں کے بل بیٹھ گیا۔
چند لمحوں کے لیے میرا سانس سینے میں اٹک کر رہ گیا۔ دوسرے لوگ بھی میری طرح دیوا ر کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے۔
وہ لمحات کافی مشکل سے گزر رہے تھے، لیکن ابھی تک بم پھٹنے کی آواز نہ سنائی دی تھی۔ میں نے بہت آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولیں اور اپنی انگلیوں کے فاصلوں سے کمرے کے درمیان دیکھا۔ میری آنکھوں نے جو منظر دیکھا وہ ناقابل یقین تھا۔ میں نے اپنا سر اٹھایا اور حیرت سے پھٹی پھٹی آنکھوں سے ابراہیم کو دیکھتے ہوئے کہا: ’’آغا ابرام۔۔۔‘‘
دوسرے لوگوں نے بھی کمرے کے کونوں سے ایک ایک کر کے اپنا سر اٹھایا۔
سب اڑی ہوئی رنگت کے ساتھ کمرے کے درمیان دیکھ رہے تھے۔
بہت ہی عجیب و غریب منظر تھا۔ ہم سب کے سب تو کمرے میں ادھر ادھر بکھر گئے تھے، مگر ابراہیم بم کے اوپر لیٹ گیا تھا۔
اسی دوران ٹریننگ افسر کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے سب سے معذرت خواہی کرتے ہوئے کہا: ’’میں بہت شرمندہ ہوں، یہ پریکٹس والا بم تھاجو غلطی سے کمرے میں آن گرا۔‘‘
ابراہیم بم پر سے ہٹ کر اٹھ گیا۔ وہ جنگ کا پہلا سال تھا لیکن اس وقت تک ایسا کوئی اتفاق پیش نہیں آیا تھا۔
وہ بم گویا ہماری مردانگی کا امتحان لینے کے لیے آیا تھا۔
اس کے بعد اس بم والا واقعہ سب جوانوں میں مشہور ہو گیا۔
مطلع الفجر
[حسین اللہ کرم]
بنی صدر کو چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے معزول ہوئے کچھ عرصہ گزر چکا تھا۔ عراقی فوج کا دبدبہ ختم کرنے کے لیے جنگ کے شمالی، مغربی اور جنوبی محاذوں پر کچھ حملوں کی منصوبہ بندی کی گئی۔
29 نومبر کو پہلا بڑا حملہ طریق القدس (بستان کی آزادی کے لیے)کیا گیا۔ اس میں بعثی حکومت کی فوج کو پہلی بار بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
افسران کی ہم آہنگی کے مطابق دوسرا حملہ گیلان غرب سے لے کر سرپل ذہاب کے علاقے تک کرنا تھا جو بغداد شہر کا قریب ترین محاذ تھا۔ اسی لیے کافی عرصہ پہلے اس علاقے کی ریکی اور فوجوں کی تیاری کا کام شروع ہو چکا تھا۔
اس علاقے میں کیے جانے والے حملے گیلان غرب کور کے ہیڈ کوارٹر کے زیرِ نگرانی انجام پانا تھے۔ اندرزگو گروپ کے تمام جوان کمربستہ تھے۔دشمن کے علاقوں کی ریکی کا فریضہ ابراہیم کے کندھوں پر تھا۔ یہ کام تھوڑے ہی عرصے میں مکمل طور پر انجام پا گیا۔ ابراہیم معلومات اور مخبری کے لیے ایک کُرد جوان کو ساتھ لے کر دشمن کی فوج کے تعاقب میں گیا۔ وہ ایک ہفتے کے دوران نفت شہر تک پہنچ گئے تھے۔
اس عرصے میں ابراہیم نے محاذ جنگ کے بہت ہی اچھے نقشے تیار کر لیے تھے۔ اس کے بعد وہ چار عراقیوں کو بھی قید کر کے اپنے کیمپ میں واپس آ گئے۔
ابراہیم نے ان قیدیوں سے پوچھ گچھ کرنے اور ضروری معلومات لینے کے بعد حملوں کے لیے نقشوں کو مکمل کیا اور افسران کی ہونے والی میٹنگ میں انہیں پیش کر دیا۔
فوج کی ذوالفقار بریگیڈ سے کرنل علی یاری اور میجر سلامی بھی سپاہ کے جوانوں کے ساتھ مل گئے۔ سرپل ذہاب سے لے کر گیلان غرب تک مقامی فوجیوں میں سے اکثر کو مختلف بٹالینز میں تقسیم کر دیا گیا۔اندرزگو گروپ کے اکثر جوان ان بٹالینز کے انچارج مقرر ہوئے۔
سپاہ اور رضاکاروں کی کچھ بٹالینز نے بطور ہراول دستوں کے حملے شروع کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لی۔
آخری میٹنگ میں اعلیٰ افسران نے ابراہیم کو حملوں کے مرکزی محاذ، برادر صفر خوش روان کو بائیں محاذ اور برادر داریوش ریزہ وندی کو دائیں محاذ کا کمانڈر منتخب کیا۔ اس حملے کا مقصد شہر گیلان غرب کی چوٹیوں کو دشمن کے قبضے سے آزاد کرانا اور گورک و حاجیان کی گھاٹیوں اور سرحدی چوکیوں پر قبضہ کرنابتایا گیا۔
حملے والے علاقے کا رقبہ تقریباً ستر کلومیٹر تھا۔کمان سنٹر سے یہ اطلاع پہنچی تھی کہ اس حملے کے فوراً بعد مریوان کے علاقے میں تیسرا حملہ کر دیا جائے گا۔
تمام معاملات مکمل ہم آہنگی سے طے پا رہے تھے۔ حملہ شروع ہونے سے کچھ دن پہلے سپاہ کے مرکزی دفتر سے یہ اطلاع ملی کہ عراق نے بستان کا علاقہ واپس لینے کے لیے ایک بڑے جوابی حملے کی تیاری کر لی ہے۔ آپ سب لوگ جلدی سے اپنے حملے کا آغاز کریں تا کہ بستان کے محاذ سے عراق کی توجہ ہٹائی جا سکے۔
اسی وجہ سے اگلے دن یعنی 11 دسمبر 1981 کو حملہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ہم ولولے اور جوش سے بھرے ہوئے تھے۔ اگلے روز ملک کے مغربی محاذ کی چوٹیوں پر ایک بڑے اور وسیع حملے کا آغاز ہونے جا رہا تھا۔ کسی بھی چیز کے بارے میں پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی تھی۔ اس رات تمام جوانوں کے الوداعی مناظر دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔
بالآخر حملے کا دن آن پہنچا۔ مختلف محاذوں پر جوانوں کی شدید کارروائیوں سے بہت سے اہم اور اسٹریٹجک علاقے جیسے حاجیان اور گورک کے درے، بر آفتاب کا علاقہ، سرتتان، چرمیان، دیزہ کش، فریدون ہوشیار کی چوٹیاں، شیاکوہ کی بعض چوٹیاں اور دشت گیلان کے سارے گاؤں آزاد کروا لیے گئے۔
مرکزی محاذ پر کچھ ٹیلوں اور دریا پر قبضہ کرنے کے بعد ہمارے فوجی جوان انار کی چوٹیوں کی طرف بڑھنے لگے۔ دشمن دیوانہ وار آگ برسا رہا تھا۔
بعض بٹالینز ٹیلوں کو عبور کرتے ہوئے شیاکوہ کی چوٹیوں کے اوپر تک جا پہنچیں۔ دشمن اچھی طرح جانتا تھا کہ شیاکوہ کے ہاتھوں سے جاتے ہی وہ عراق کے شہر خانقین سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے ان چوٹیوں اور جنگ کے علاقے میں اپنی زیادہ سے زیادہ فوج اتار دی تھی۔
آدھی رات کو وائرلیس سے پیغام ملا: ’’حسن بالاش اور جمال تاجیک اپنے جوانوں کے ساتھ مرکزی محاذ سے نکل کر شیاکوہ پہنچ گئے ہیں اور مزید کمک مانگ رہے ہیں۔‘‘ تھوڑی دیر بعد ابراہیم نے فون کیا: ’’انار کی تمام چوٹیاں آزاد ہو چکی ہیں، فقط ایک چوٹی جو بہت ہی حساس اور اہم مقام پر ہے، پر ہمیں شدید دفاع کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمارے پاس زیادہ نفری بھی نہیں ہے۔‘‘
میں نے ابراہیم سے کہا: ’’صبح ہونے سے پہلے پہلے میں امدادی نفری لے کر تم سے آن ملوں گا۔ تم فوجی افسران سے مل کر منصوبہ بندی کرو اور جیسے تیسے ہو اس ٹیلے کو آزاد کرواؤ۔‘‘
میں امدادی نفری پر مشتمل ایک بٹالین لے کر مرکزی محاذ کی طرف چل پڑا۔ ہم لوگ راستے میں ہی تھے کہ سپاہ کے مرکزی دفتر سے اطلاع ملی: ’’دشمن نے بستان پر قبضے کا خیال دل سے نکال دیا ہے لیکن اس نے بہت بھاری تعداد میں فوج تمہارے محاذ کی طرف بھیج دی ہے۔ تم لوگ ڈٹ کر دفاع کرو، انشاء اللہ مریوان کی سپاہ پاسداران حاج احمد متوسلیان کی کمان میں جلد ہی اگلے حملے کا آغاز کرنے والی ہے۔‘‘ اسی پیغام کے ضمن میں انہوں نے فوج اور سپاہ کے جوانوں کی آپس میں بہترین ہم آہنگی اور منصوبہ بندی کی تعریفیں کیں اور بتایا: ’’موصولہ رپورٹس کے مطابق آپ لوگوں کے حملے نے عراقی فوج کو بھاری نقصان سے دوچار کیا ہے۔ اب عراقی فوج کے ہیڈ کوارٹر نے حکم دیا ہے کہ اس محاذ پر مزید امدادی فوج بھیجی جائے۔‘‘
جھٹ پُٹے کا وقت ہو چلا تھا۔ راستے میں ہم نے نمازِ فجر ادا کی۔ ابھی ہم انار کے علاقے میں نہ پہنچے تھے کہ گیلان غرب کے محاذ پر غلام علی پیچک کی شہادت کی خبر نے ہمیں سوگوار کر دیا۔
جیسے ہی ہم انار کی چوٹیوں پر پہنچے تو ایک جوان نے آگے بڑھ کر خالص مشہدی لہجے میں مجھے بتایا: ’’حاج حسین، کیا آپ کو معلوم ہے کہ ابراہیم شہید ہو گئے ہیں؟!‘‘
میرا بدن لرز کر رہ گیا۔ میں نے تھوک نگلتے ہوئے کہا: ’’کیا ہوا؟!‘‘
اس نے جواب دیا: ’’ابراہیم کی گردن پر ایک گولی لگی ہے۔‘‘
میرا رنگ اڑ گیا۔ سر گھومنے لگا۔ میں بے اختیار سامنے والے مورچوں کی طرف بھاگنے لگا۔ سارے راستے میرے ذہن میں وہ تمام لمحات فلم کی طرح چلنے لگے جو میں نے ابراہیم کے ساتھ گزارے تھے۔ میں طبی امداد والے مورچے میں اتر کر اس کے سرہانے پہنچ گیا۔
ابراہیم کی گردن کے عضلات میں ایک گولی پیوست ہو گئی تھی۔ اس سے بہت سا خون بہہ رہا تھا۔ میں نے جواد کو ڈھونڈ کر پوچھا: ’’ابرام کو کیا ہوا ہے؟!‘‘
وہ تھوڑی دیر خاموش رہا، پھر کہنے لگا: ’’مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا بتاؤں؟‘‘
میں نے پوچھا: ’کیا مطلب؟!’‘‘
اس نے جواب دیا: ’’ہم نے فوج کے افسران سے بات کی کہ ٹیلے پر کیسے حملہ کریں۔ عراقی ڈٹ کر مقابلہ کر رہے تھے۔ ٹیلےکے اوپر اور آس پاس ان کے بہت سے فوجی تھے۔ ہم نے لاکھ جتن کیے مگر کسی نتیجے تک نہ پہنچ سکے۔ فجر کی اذان ہونے والی تھی اور ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا تھا۔ لیکن کچھ سجھائی نہ دیتا تھا کہ کیا کریں۔ اچانک ابراہیم مورچے سے نکل کر عراقیوں کے ٹیلے کی طرف بڑھنے لگا اور پتھر کی ایک سِل پر روبہ قبلہ کھڑا ہو گیا۔ اس نے بلند آواز سے اذانِ فجر دینا شروع کر دی۔ ہم نے بہت شور مچایا کہ ابراہیم، پیچھے آ جاؤ، عراقی ابھی تمہیں مار دیں گے۔ لیکن ہماری چیخ و پکار کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ وہ تقریباً ساری اذان دے چکا تھا۔ ہمیں یہ دیکھ کر بہت حیرانی ہوئی کہ عراقیوں کی فائرنگ رُک چکی تھی لیکن اسی وقت ایک گولی چلی اور ابراہیم کو آ کر لگی۔ اس کے بعد ہم اسے اٹھا کر پیچھے لے آئے۔‘‘
اذان کا معجزہ
[حسین اللہ کرم]
ہم انار کی چوٹیوں پر تھے۔ فضا میں مکمل طور پر روشنی پھیل چکی تھی۔ نرس نے ابراہیم کی گردن کے زخم پر پٹی باندھ دی تھی۔ میں جوانوں کی ڈیوٹیاں لگانے اور وائرلیس پر بات کرنے میں مشغول تھا۔
اچانک ایک جوان دوڑتا ہوا جلدی سے میرے پاس آیا اور کہنے لگا: ’’سر، سر، کچھ عراقی اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے ہماری طرف آ رہے ہیں۔‘‘
میں نے تعجب سے پوچھا: ’’کہاں ہیں وہ لوگ؟!‘‘
اس کے بعد ہم اکٹھے ہی ٹیلے کے پاس ایک مورچے کی طرف چل پڑے۔ سامنے والے ٹیلے سے تقریباً بیس افراد اپنے ہاتھوں میں سفید کپڑے اٹھائے ہماری طرف آ رہے تھے۔ میں نے فوراً کہا: ’’جوانو، اپنا اپنا اسلحہ اٹھا لو اور ہوشیار رہو۔ شاید یہ دشمن کی ایک چال ہو۔‘‘
کچھ دیر بعد اٹھارہ عراقی، کہ جن میں سے ایک ان کا اعلیٰ افسر بھی تھا، ہمارے سامنے سرنڈر کر چکے تھے۔ میں بھی اس بات پر خوش تھا کہ ہم نے اس محاذ پر بھی کچھ عراقیوں کو اسیر کر لیا ہے۔
میں یہی سوچ رہا تھا کہ ہمارے جوانوں کے بھرپور حملے اور گولہ باری نے عراقیوں کو وحشت میں مبتلا کر دیا ہے اور وہ قید ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد میں نے اس عراقی افسر کو اپنے مورچے میں بلایا اور عربی جاننے والے اپنے ایک فوجی کو بھی آواز دی۔
میں نے تفتیشی افسر کے لہجے میں پوچھا: ’’تمہارا نام کیا ہے؟ اپنا رینک اور ذمہ داری بھی بتاؤ۔‘‘
اس نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا: ’’میں میجر ہوں اور ٹیلے اور اس کے اطراف پر تعینات فوجیوں کی کمان میرے ہاتھ میں تھی۔ ہم بصرہ کی ریزرو فوج میں سے ہیں جنہیں اس محاذ پر بھیجا گیا ہے۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’اب ٹیلے پر کتنے فوجی رہ گئے ہیں؟‘‘
کہنے لگا: ’’ایک بھی نہیں۔‘‘
میں نے حیرت سے آنکھیں سکیڑتے ہوئے کہا: ’’کوئی بھی نہیں؟!‘‘
اس نے جواب دیا: ’’ہم یہاں اپنے آپ کو آپ کو لوگوں کے حوالے کرنے آئے ہیں۔ باقی فوجیوں کو میں نے پیچھے بھیج دیا ہے۔ اب ٹیلہ بالکل خالی ہے۔‘‘
میں نے دوبارہ تعجب سے پوچھا: ’’کیوں؟!‘‘
کہنے لگا: ’’کیونکہ وہ لوگ سرنڈر نہیں ہونا چاہتے تھے۔‘‘
میری حیرت بڑھ گئی: ’’کیا مطلب؟!‘‘
اس عراقی افسر نے میرے اس سوال کا جواب دینے کی بجائے مجھ سے سوال کر دیا: ’’أین الموذن؟‘‘
اس جملے کو سمجھنے کے لیے ہمیں ترجمے کی ضرورت نہ تھی۔ میں نے تعجب سے پوچھا: ’’مؤذن؟!‘‘
اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ روہانسا ہو کر ہمیں ساری بات بتانے لگا۔ مترجم جلدی جلدی اس کی باتوں کا ترجمہ کیے جا رہا تھا: ’’ہمیں بتایا گیا تھا کہ تم لوگ مجوس اور آتش پرست ہو۔ ہمیں یہ بھی باور کروایا گیا کہ ہم اسلام کی خاطر ایران پر حملہ کریں گے اور ایرانیوں سے جنگ لڑیں گے۔ تم لوگ یقین کرو، ہم سب شیعہ ہیں۔ جب ہم دیکھتے تھے کہ عراقی افسر شراب پیتے ہیں اور نماز نہیں پڑھتے تو ہمیں تم لوگوں سے جنگ لڑنے میں تردد ہونے لگا۔ آج صبح جب ہم نے تمہارے ایک سپاہی کی اذان سنی جو اپنی خوش لحن اور بلند آواز میں اذان دے رہا تھا تو میرا سارا بدن لرز کر رہ گیا۔ جب اس نے اذان میں امیر المومنین امام علی علیہ السلام کا نام لیا تو میں نے اپنے آپ سے کہا: ’’تم اپنے بھائیوں سے جنگ لڑ رہے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کربلا والا ماجرا دوبارہ دہرایا جا رہا ہو۔۔۔‘‘
اس کے بعد زارو زار آنسوؤں نے اسے بولنے نہ دیا۔تھوڑی دیر بعد اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:’’یہی وجہ بنی کہ میں نے سرنڈر کرنے کا فیصلہ کر لیا اور چاہا کہ اپنے گناہوں کا بوجھ زیادہ نہ کروں۔ پس میں نے حکم دیا کہ کوئی فوجی گولی نہ چلائے۔ جیسے ہی اجالا ہوا تو میں نے اپنے سپاہیوں کو جمع کیا اور انہیں بتایا کہ میں ایرانیوں کے آگے سرنڈر کرنا چاہتا ہوں۔ جو بھی میرے ساتھ آنا چاہے آ سکتا ہے۔ یہ افراد جو میرے ساتھ آئے ہیں، سبھی میرے ہم عقیدہ ہیں۔ میرے باقی ماتحت فوجی واپس چلے گئے۔ البتہ جس فوجی نے مؤذن کو گولی ماری تھی، اسے بھی میں لے آیا ہوں۔ اگر آپ کہتے ہیں تو میں اسے قتل کر دوں گا۔ اب مہربانی کر کے مجھے یہ بتائیں کہ وہ مؤذن زندہ ہے یا نہیں؟!‘‘
میں ہکا بکا اس عراقی افسر کی باتیں سنے جا رہا تھا۔ کچھ کہنے کی سکت نہیں تھی۔ تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد میں نے کہا: ’’ہاں، زندہ ہے۔‘‘
ہم اکٹھے ہی مورچے سے باہر نکلے اور ابراہیم کے پاس چلے گئے جو ایک اور مورچے میں سویا ہوا تھا۔ اٹھارہ کے اٹھارہ عراقی قیدی آگے بڑھ کر ابراہیم کے ہاتھوں کو بوسے دیتے لگے۔ آخری قیدی ابراہیم کے پاؤں میں گر پڑا اور رونے لگا۔ وہ کہہ رہا تھا: ’’مجھے معاف کر دو۔ میں نے ہی تم پر گولی چلائی تھی۔‘‘
میری آنکھیں بھی بھر آ ئی تھیں۔ مجھ پر عجیب طرح کی کیفیت طاری تھی۔ میرا دھیان حملے اور اپنے فوجیوں کی طرف تھا ہی نہیں۔ میں ان عراقی قیدیوں کو پیچھے واپس بھیجنے کا سوچ رہا تھا کہ عراقی افسر مجھے بلا کر کہنے لگا: ’’وہاں دیکھو۔ ایک کمانڈو بٹالین اور کچھ ٹینک وہاں سے پیش قدمی کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد کہنے لگا: ’’تم لوگ جلدی سے جاؤ اور اس ٹیلے پر قبضہ کر لو۔‘‘
میں نے بھی جلدی سے اندرزگو گروپ کے کچھ جوانوں کو ٹیلے کی طرف بھیج دیا۔ اس ٹیلے کے ہاتھ آتے ہی انار کا علاقہ مکمل طور پر دشمنوں سے پاک ہو گیا۔
دشمن کی کمانڈو بٹالین نے بھی حملہ کیا لیکن ہم چونکہ بھرپور تیاری میں تھے اس لیے ان کے اکثر فوجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور وہ شکست کھا گئے۔اگلے دنوں میں مریوان میں معرکہ محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعے گیلان غرب پر عراقی فوج کا دباؤ کافی حد تک کم ہو گیا۔
بہرحال معرکہ مطلع الفجر کی وجہ سے ہم نے اپنے بہت سے مقاصد پورے کر لیے۔ ہمارے ملک کے بہت سے خطے آزاد ہو گئے۔ اگرچہ اس حملے میں ہمیں غلام علی پیچک، جمال تاجیک اور حسن بالاش جیسے بہت سے کمانڈرز کی شہادت کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا۔
چند دن آرام کرنے کی وجہ سے ابراہیم جب مکمل طور پر صحت یاب ہو گیا تو دوبارہ آ کر گروپ کے ساتھ ملحق ہو گیا۔ اسی دن یہ اطلاع بھی مل گئی کہ معرکہ والفجر ، جو ’’یامہدی (عج)‘‘ کے کوڈ ورڈ سے اپنے انجام کو پہنچا، میں عراقی فوج کی چودہ مخصوص بٹالینز کام آ گئی ہیں۔ دو ہزار کے قریب فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے جبکہ دو سو قیدی فوجیوں کا نقصان بھی عراق کو برداشت کرنا پڑا ہے۔ اس کے علاوہ عراق کے دو لڑاکا طیارے بھی ہمارے جوانوں کے نشانے پر آنے کی وجہ سے تباہ ہو چکے ہیں۔
*****
معرکہ مطلع الفجر کو پانچ سال گزر چکے تھے۔ 87-1986 کی سردیوں میں ہم شلمچہ میں معرکہ کربلا۵ میں مصروف تھے۔ جاسوسی معلومات اور مختلف ڈویژنز کے درمیان رابطے اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی کچھ ذمہ داری ہمارے سپرد تھی۔ میں ڈویژنز کے جوانوں کے ساتھ ہم آہنگی کرنے اور انہیں کچھ ضروری ہدایات دینے کے لیے بدر ڈویژن کے کیمپ میں گیا۔
طے یہ پایا تھا کہ اس ڈویژن کی بٹالینز جو تمام کی تمام ان عراقیوں اور عرب زبان جوانوں پر مشتمل تھیں جو صدام کے مخالف تھے، کو حملے کے اگلے مرحلے پر روانہ کیا جائے۔ میں نے ڈویژن کے افسران اور بٹالینز کے افسران سے میٹنگز کرنے اور ضروری ہم آہنگی پیدا کرنے کی ذمہ داری ادا کی اور چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔
دور سے ہی میں نے بدر ڈویژن کے ایک جوان کو دیکھا جو مجھ پر نظریں جمائے میری طرف بڑھتا چلا آ رہا تھا۔ میں چلنے ہی لگا تھا کہ وہ بسیجی جوان آگے بڑھا اور مجھے سلام کیا۔ میں نے سلام کا جواب دیا۔ اس نے بغیر کسی تمہید کے عربی لہجے میں مجھ سے کہا: ’’آپ گیلان غرب میں نہیں تھے؟!‘‘
میں نے تعجب سے کہا: ’’ہاں۔‘‘
میں سوچ رہا تھا کہ شاید یہ مغربی علاقے کا کوئی جوان ہے۔ اس کے بعد وہ مجھے کہنے لگا: ’’مطلع الفجر یاد ہے نا آپ کو؟ انار کی چوٹیاں، آخری ٹیلہ!‘‘
میں نے تھوڑی دیر غور سے سوچ کر کہا:’’ہاں، یاد ہے۔ پھر؟!‘‘
کہنے لگا: ’’وہ اٹھارہ عراقی جو قید ہو گئے تھے، وہ بھی یاد ہیں نا آپ کو؟!‘‘
میں نے پھر حیرانی سے کہا: ’’ہاں بالکل یاد ہیں۔ مگر تم کون ہو؟‘‘
اس نے خوش ہوتے ہوئے جواب دیا: ’’میں انہی میں سے ایک ہوں۔‘‘
میری حیرانی میں اضافہ ہو گیا۔ میں نے پوچھا: ’’یہاں کیا کر رہے ہو؟!‘‘
وہ کہنے لگا: ’’ہم سارے اٹھارہ کے اٹھارہ افراد اسی بٹالین میں ہیں۔ آیت اللہ حکیم کی ضمانت پر ہمیں آزاد کر دیا گیا تھا۔ وہ ہمیں اچھی طرح پہچانتے تھے۔ پھر یہ طے پایا کہ ہم محاذ پر آ جائیں اور بعثیوں کے ساتھ جنگ کریں۔‘‘
میرے لیے بہت تعجب کی بات تھی۔ میں نے کہا: ’’خدا تمہیں سلامت رکھے۔ تمہارا افسر کہاں ہے؟!‘‘
اس نے جواب دیا: ’’وہ بھی اسی بٹالین میں ایک عہدے پر فائز ہے۔ اب ہم فرنٹ لائن کی طرف جا رہے ہیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’اپنا اور اپنی بٹالین کا نام اس کاغذ پر لکھ دو۔ میں اس وقت جلدی میں ہوں۔ حملے کے بعد آؤں گا اور تم سب لوگوں سے تفصیلی ملاقات کروں گا۔‘‘
اس نے اپنے جوانوں کے نام لکھتے لکھتے پوچھا: ’’تمہارے مؤذن کا کیا نام تھا؟!‘‘
میں نے جواب دیا: ’’ابراہیم، ابراہیم ہادی۔‘‘
وہ کہنے لگا: ’’ہم سب اس کی تلاش میں تھے۔ اپنے افسران سے بھی ہم نے درخواست کی تھی کہ اسے کہیں سے ڈھونڈیں۔ ہم اس مردِ خدا سے ایک دفعہ پھر ملنا چاہتے ہیں۔‘‘
میں ساکت رہ گیا اور میری آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا۔ میں نے کہا: ’’انشاء اللہ بہشت میں تم لوگ ایک دوسرے سے ملاقات کر لو گے۔‘‘
غم سے اس کی بری حالت ہو گئی۔ اس نے اپنے سب جوانوں اور بٹالین کا نام لکھ کر میرے حوالے کیا۔ میں نے بھی جلدی سے خدا حافظ کہا اور چل دیا۔ یہ غیر متوقع ملاقات مجھے بہت اچھی لگی۔
مارچ 1987 میں مہم ختم ہو گئی۔ بہت سے جوان چھٹیوں پر چلے گئے۔ ایک دن مجھے اپنے سامان میں وہی کاغذ مل گیا جو عراقی اسیر یا بدر ڈویژن کے اسی بسیجی نے مجھے دیا تھا۔ میں بدر ڈویژن کے ان جوانوں سےملنے چلا گیا۔ ڈویژن کے ایک افسر سے کاغذ پر لکھی گئی بٹالین کا پوچھا تو اس نے جواب دیا: ’’یہ بٹالین ختم ہو گئی ہے۔‘‘ میں نے کہا: ’’میں اس کے جوانوں سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
افسر نے مزید بتایا: ’’جس بٹالین کا آپ پوچھ رہے ہیں، یہ اپنے افسر کے ساتھ شلمچہ میں عراق کی طرف سے کیے جانے والے سخت حملے میں عراقی فوج کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کرتی رہی۔ اگرچہ عراقی فوج نے انہیں شدید نقصان پہنچایا مگر وہ لوگ پھر بھی جم کر مقابلہ کرتے رہے اور پیچھے نہ ہٹے۔‘‘
اس کے بعد اس نے کچھ لمحے خاموش رہ کر اپنی بات کو آگے بڑھایا: ’’اس بٹالین میں سے کوئی بھی زندہ بچ کر واپس نہ آیا۔‘‘
میں نے اسے کہا: ’’یہ اٹھارہ افراد عراقی قیدی تھے۔ یہ ان کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ میں ان سے ملنے کے لیے آیا ہوں۔‘‘
وہ آگے بڑھا اور نام میرے ہاتھ سے لے کر ایک اور شخص کو دے دیے۔ تھوڑی دیر گزری تو وہ شخص پلٹ آیا اور کہنے لگا: ’’یہ سب افراد شہید ہو چکے ہیں۔‘‘
میرے پاس کہنے کا کچھ نہ رہا تھا۔ وہیں بیٹھ کر سوچوں میں غرق ہو گیا اور اپنے آپ سے کہا: ’’ابراہیم نے ایک اذان کے ذریعے کیا کام کر ڈالا! ایک ٹیلہ آزاد ہوا، ایک حملہ کامیاب ہوا اور اٹھارہ افراد حضرت حُرؓ کی طرح جہنم کے گڑھے سے نکل کر جنت میں جا پہنچے۔‘‘
اس کے بعد مجھے اپنی وہ بات یاد آ گئی جو میں نے اس عراقی قیدی سے کہی تھی: ’’انشاء اللہ بہشت میں تم ایک دوسرے سے مل لو گے۔‘‘
میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔ اس کے بعد خداحافظ کہہ کر میں باہر آ گیا۔
مجھے اس بات کا پورا یقین تھا کہ ابراہیم جانتا تھا کہ کہاں اذان دینی ہے تا کہ دشمن کے دلوں کو لرزا دے اور جن لوگوں کے دل میں ابھی ایمان باقی ہے، ان کی ہدایت کرے۔
بسیجی رومال
[عباس ہادی]
1982 کے بہار کے دن تھے۔ ابراہیم چھٹی پر تھا۔
رات کے آخری پہر وہ گھر آیا تو ہم تھوڑی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ میں نے دیکھا کہ اس کی جیب میں نوٹوں کی ایک بڑی گڈی پڑی ہے۔
میں نے پوچھا: ’’سچ بتاؤ، بھائی! یہ پیسے کہاں سے لاتے ہو؟ میں نے تو ابھی تک تمہیں لوگوں کی مدد کرتے یا انجمن کے لیے خرچ کرتے ہی دیکھا ہے۔ اور اب یہ اتنے پیسے تمہاری جیب میں پڑے ہیں!‘‘ اس کے بعد میں نے مذاق کرتے ہوئے کہا: ’’سچ سچ بتاؤ، کوئی خزانہ تو ہاتھ نہیں لگ گیا؟!‘‘
ابراہیم ہنس کر کہنے لگا: ’’نہیں یار، میرے دوست مجھے یہ سب پیسے دے دیتے ہیں اور بتا بھی دیتے ہیں کہ انہیں کہاں خرچ کرنا ہیں۔‘‘
اگلے دن میں اور ابراہیم بازار گئے اور کچھ چھوٹی چھوٹی مارکیٹوں سے گزرتے ہوئے اپنی مطلوبہ دکان تک پہنچ گئے۔
دکان کافی بڑی تھی۔ دکان کا معمر مالک اور اس کے شاگرد ایک ایک کر کے ابراہیم سے گلے ملنے اور بوسے لینے لگے۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ ابراہیم کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
معمول کی کچھ گفتگو کے بعد ابراہیم نے کہا: ’’جناب، میں کل انشاء اللہ گیلان غرب جا رہا ہوں۔‘‘
دکاندار نے پوچھا: ’’ابرام جان، جوانوں کے لیے کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے؟‘‘
ابراہیم نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکالا اور دکاندار کو دیتے ہوئے کہنے لگا: ’’ان چند چیزوں کے علاوہ ایک ویڈیو کیمرے کی بھی ضرورت ہے، چونکہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ جنگ اور اس کے دوران دکھائی جانے والی بہادری کے مناظر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائیں۔ مستقبل میں آنے والے لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ کس انداز میں اس ملک اور اس دین کی حفاظت کی گئی ہے۔‘‘
اس کے بعد اس نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’اس کے علاوہ مجاہد بھائیوں کےلیے زیادہ تعداد میں چفیے بھی چاہییں۔‘‘
یہاں تک بات پہنچی تو دکاندار کا بیٹا جو ابراہیم کی باتیں سن رہا تھا آگے بڑھ کر کہنے لگا: ’’دوربین تو ہو گئی، مگر آغا ابرام ، چفیہ کی کیا ضرورت ہے؟ کیا آپ بھی آوارہ اور بے کار لوگوں کی طرح اپنی گردن پر رومال باندھنا چاہتے ہیں؟!‘‘
ابراہیم نے تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد جواب دیا: ’’بھائی، چفیہ فقط گردن کا رومال ہی نہیں ہے بلکہ مجاہد بھائی جب بھی وضو کرتے ہیں تو چفیہ ان کے لیے تولیے کا کام کرتا ہے، جب نماز پڑھتے ہیں تو ان کی جائے نماز بن جاتا ہے، زخمی ہوں تو اس سے زخم باندھ لیتے ہیں۔۔۔‘‘
بوڑھے دکاندار نے فوراً بات کاٹتے ہوئے کہا: ’’جیسا آپ چاہیں گے ویسا ہی ہو گا، آغا ابرام، ہم اس کا بھی انتظام کر لیں گے۔‘‘
اگلے دن ظہر سے پہلے کا وقت تھا۔ میں گھر کے دروازے پر کھڑا تھا۔ وہی بوڑھا دکاندار بار سے لدی ہوئی ایک وانٹ[2] لے آیا۔ میں جلدی سے گھر میں داخل ہو گیا اور ابراہیم کو آواز دی۔
اس بوڑھے دکاندار نے ایک ویڈیو کیمرہ اور کچھ دوسرا سامان ابراہیم کے حوالے کیا اور کہنے لگا: ’’ابرام جان، یہ چفیہ سے بھری ہوئی گاڑی بھی میں لے آیا ہوں۔‘‘
بعد میں ابراہیم بتایا کرتا تھا کہ معرکہ فتح المبین میں ہم نے ان چفیوں سے بہت سے کام لیے۔
آہستہ آہستہ چفیوں کا استعمال مجاہدین اسلام کی ایک خاص علامت بن گیا۔
[1] یہ ایک خاص قسم کا رومال ہوتا ہے جسے عرف عام میں چفیہ یا بسیجی رومال کہا جاتا ہے۔ یہ ایک خاص ڈیزائن کا رومال ہوتا ہے جو عام طور پر دو رنگوں میں ہوتا ہے:سفید اور کالا۔ اس کے اوپر مربع شکل کے خانے بنے ہوتے ہیں۔ اگر رومال کی زمین کالی ہو تو خانوں کی دھاریاں سفید ہوتی ہیں اور اگر زمین سفید ہو تو دھاریاں سیاہ ہوتی ہیں۔ یہ رومال تاریخی پس منظر رکھتا ہے۔ ایران عراق جنگ کے دوران ایرانی فوجی اور رضاکار جنگجووں کے سر یا کندھوں پر ہمیشہ یہ رومال رہتا تھا۔
شوخ طبعی
[علی صادقی، اکبر نوجوان]
کام کے وقت ابراہیم کافی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتا تھا لیکن جب ہنسی مذاق کا موقع ہوتا تو وہ بہت ہی خوش طبع اور ہنس مکھ واقع ہوتا تھا۔ حقیقت میں لوگ ابراہیم کو اسی بات کی وجہ سے بہت پسند بھی کرتے تھے۔
کھانا کھانے کا اس کا اپنا ہی انداز تھا۔ جب کھانا زیادہ ہوتا تو وہ خوب کھاتا اور کہتا تھا: ’’ہمارا جسم کھیل اور زیادہ کام کی وجہ سے زیادہ خوراک کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘
کرمانشاہ میں ایک دن وہ گیلان غرب کے ایک مقامی جوان کے ساتھ سری پائے کے ہوٹل پر گیا۔ وہاں وہ دو بندے مل کر تین بکروں سری پائے ہڑپ کر گئے!!
ایک دفعہ ایسا بھی ہوا کہ ایک دوست نے ابراہیم کو دن کے کھانے پر بلایا۔ اس نے 3 بندوں کے لیے 6 مرغ بھونے اور کافی مقدار میں چاول وغیرہ بھی پکا لیے۔ ان لوگوں نے اس میں سے ایک نوالہ بھی نہ چھوڑا۔
*****
جن دنوں ابراہیم زخمی تھا تو میں اس کی عیادت کے لیےگیا۔ اس کے بعد ہم دونوں موٹر سائیکل پر بیٹھ کر ایک دوست کے گھر افطاری کی دعوت پر چلے گئے۔
میزبان ابراہیم کا قریبی دوست تھا۔ وہ تو کافی تکلف سے کام لے رہا تھا مگر ابراہیم کسی تکلف کا روادار نہ تھا۔ اس نے کوئی کسر نہ چھوڑی اور دسترخوان پر ایک چیز بھی باقی نہ بچی۔
ہمارا دوست جعفر جنگروی بھی وہیں پر تھا۔ افطار کے بعد وہ بار بار ساتھ والے کمرے میں جاتا اور اپنے دوستوں کو بلاتا۔ ان سب کو ایک ایک کر کے کمرے میں لاتا اور کہتا: ’’ابرام جان، یہ بہت شدت سے تمہیں ملنے کے مشتاق تھے اور ۔۔۔‘‘
ابراہیم، جس نے کافی کھانا کھالیا تھا اور اس کے پاؤں میں درد بھی ہو رہا تھا، بے چارہ مجبور تھا کہ بار بار ہر آنے والے دوست کے لیے اٹھے اور اس کی روبوسی کرے۔ جعفر اس کے پیچھے کھڑا کھڑا خاموشی سے ہنسے جا رہا تھا۔
جیسے ہی ابراہیم بیٹھتا، جعفر دوسرے کمرے میں جا کر ایک اور دوست کو لے آتا۔ اس نے کئی بار ایسا ہی کیا۔
ابراہیم جو خاصا تنگ آ چکا تھا، اپنے خاص دھیمے لہجے میں کہنے لگا: ’’جعفر جان، ہماری باری بھی آئے گی۔‘‘
رات کے آخری پہر ہم واپس پلٹنے لگے۔ ابراہیم میری موٹرسائیکل پر بیٹھ کر کہنے لگا: ’’جلدی چلو۔‘‘
جعفر بھی اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر ہمارے پیچھے پیچھے آنے لگا۔ ہم اس سے کافی آگے نکل آئے اور ایک چوکی پر آ کر ٹھہر گئے۔ میں ٹھہر گیا۔ ابراہیم نے اونچی آواز میں کہا: ’’بھائی، ذرا یہاں آنا۔‘‘
ایک مسلح جوان آگے بڑھا۔
ابراہیم نے کہا: ’’پیارے دوست، میں فوجی ہوں اور یہ میرا دوست بھی فوجی ہے۔ ہم سپاہ پاسداران سے ہیں۔ ایک موٹر سائیکل ہمارا پیچھا کر رہا ہےجو۔۔۔‘‘
پھر تھوڑا ٹھہر کر کہنے لگا: ’’میں کچھ نہ کہوں تو بہتر ہی ہے۔ لیکن تم ذرا ہوشیار رہو۔ میرا خیال ہے کہ اس کے پاس اسلحہ بھی ہے۔‘‘
اس کے بعد اس نے مسلح جوان کو خدا حافظ کہا اور ہم چل دیے۔ میں فٹ پاتھ پر ہی تھوڑا سے آگے جا کر کھڑا ہو گیا۔ ہم دونوں ہنس رہے تھے۔
جیسے ہی جعفر کی موٹر سائیکل پہنچی، چار مسلح جوانوں نے موٹر سائیکل کو گھیر لیا۔
اس کے بعد ان کی نظر جعفر کی کمر سے لٹکے پستول پر پڑ گئی۔ اس کے بعد تو اس نے بہتیرا شور مچایا مگر کسی نے اس کی ایک نہ سنی۔۔۔
تقریباً آدھے گھنٹے بعد اس ٹولی کا افسر آیا تو اس نے جعفر کو پہچان لیا۔ اس نے کافی معذرت خواہی کی اور اپنے سپاہیوں سے کہا: ’’یہ حاج جعفر ہیں جو سید الشہداء علیہ السلام ڈویژن کے افسران میں سے ہیں۔‘‘
ان جوانوں نے کافی شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے معذرت خواہی کی۔ جعفر جو بہت ہی غصے میں تھا، اپنا اسلحہ اٹھا کر سیدھا موٹر سائیکل پر بیٹھا اور چل دیا۔
تھوڑا آگے آیا تو اس نے ابراہیم کو دیکھ لیا جو فٹ پاتھ پر کھڑا زور زور سے ہنس رہا تھا۔ اب جعفر کی سمجھ میں سارا ماجرا آ چکا تھا۔
ابراہیم نے آگے بڑھ کر جعفر کو گلے لگا لیا اور اسے بوسہ دیا۔ جعفر کا غصہ ہوا ہو گیا اور وہ بھی ہنسنےلگا اور خدا کا شکر کہ اسی ہنسی پر سارا معاملہ ختم ہو گیا۔
دو بھائی
[علی صادقی]
شہید شہبازی کی رسم قل میں شرکت کے لیے ہم ایک سرحدی شہرمیں گئے۔ وہاں کے مقامی رسم و رواج کے مطابق قُل کی رسومات صبح سے ظہر تک جاری رہتی تھیں۔ ظہر کے وقت مہمانوں کے لیے لوٹا اور لگن لے آتے اور ان کے ہاتھ دھلا کر دن کا کھانا پیش کیا جاتا اور کھانے کے ساتھ ہی تقریب اپنے اختتام کو پہنچ جاتی۔
ہم جیسے ہی تقریب میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ جواد ایک اہم جگہ پر براجمان ہے اور اس کے ساتھ ابراہیم بھی بیٹھا ہوا ہے۔ میں بھی آگے بڑھ کر ابراہیم کے پاس بیٹھ گیا۔
ابراہیم اور جواد دونوں بہت گہرے دوست تھے اور دو بھائیوں کی طرح سلوک رکھتے تھے۔ ان کے مذاق اور نوک جھونک بھی کافی دلچسپ ہوتی۔
تقریب جیسے ہی ختم ہوئی تو میزبانوں میں سے دو افراد اٹھے اور پانی کا برتن اور لگن لے آئے۔ وہ سب سے پہلے جواد کے پاس آئے۔
جواد اس تقریب کے آداب کے بارے میں کچھ نہ جانتا تھا۔ ابراہیم نے اس کے کان میں کچھ کہا تو وہ تعجب سے اونچی آواز میں پوچھنےلگا: ’’سچ کہہ رہے ہو؟!‘‘ ابراہیم نے آرام سے کہا: ’’آہستہ، کچھ بھی نہ کہو۔‘‘
اس کے بعد ابراہیم نے میری طرف رُخ کیا۔ وہ بغیر آواز کے بہت زیادہ ہنس رہا تھا۔ میں نے پوچھا: ’’کیا ہوا ابرام؟ نہ ہنسو، بری بات ہے۔‘‘
وہ میری طرف منہ کر کے کہنے لگا: ’’میں نے جواد سے کہا ہے کہ جیسے ہی لوٹا تمہارے پاس آئے تو اپنے سر کو اچھی طرح دھو لینا۔‘‘
تھوڑی دیر گزری تو ایسا ہی ہوا۔ جواد نے ہاتھ دھونے کے بعد اپنا سر لوٹے کے نیچے رکھ لیا اور۔۔۔
جواد کے سر اور داڑھی سے پانی ٹپک رہا تھا اور وہ تعجب سے اپنے اردگر بیٹھے لوگوں کے منہ دیکھے جا رہا تھا۔
میں نے کہا: ’’جواد، یہ تم نے کیا کیا؟ یہ کوئی حمام ہے؟‘‘ اس کے بعد میں نے اسے اپنا چفیہ دیا تاکہ وہ اپنا سر خشک کر لے۔
*****
ایک دن اطلاع ملی کہ ابراہیم، جواد اور رضا گودینی چند روزہ مہم ختم کر کے سرحدی چوکی کی طرف سے واپس آ رہے ہیں۔ ان کی سلامتی کی خبر سن کر ہمیں بہت خوشی ہوئی۔
شہید اندرزگو کیمپ کے سامنے ہم سب جمع ہو گئے۔ تھوڑی دیر گزری تو ان کی گاڑی آ کر رکی۔ ابراہیم اور رضا گاڑی سے اترے۔ سب جوان خوشی خوشی ان کے گرد جمع ہو گئے اور گلے ملنے لگے۔
ایک جوان نے پوچھا: ’’آغا ابرام، جواد کہاں ہے؟‘‘ اچانک سبھی خاموش ہو گئے۔
ابراہیم بھی تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد غم و اندوہ سے ڈوبی ہوئی حالت میں بولا: ’’جواد!‘‘ اس کے بعد اس نے آہستہ سے گاڑی کی پچھلی سیٹ کی طرف دیکھا۔
وہاں ایک شخص لیٹا تھا جس کے اوپر کمبل تھا پڑا تھا۔ سب جوان خاموش ہو گئے۔
ابراہیم نے کہا: ’’جواد۔۔۔ جواد!‘‘ اچانک اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
کچھ جوانوں کی تو روتے روتے چیخیں نکل گئیں: ’’جواد، جواد!‘‘ سب گاڑی کی پچھلی سیٹ کی طرف گئے۔ سب رو رہے تھے کہ اچانک جواد کی آنکھ کھل گئی۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور پوچھنے لگا: ’’کیا ہوا، کیا ہوا؟!‘‘ وہ ہکابکا اپنے اردگرد کھڑے جوانوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔
سارے جوان اشک آلود چہرے لیے غصے کی حالت میں ابراہیم کی طرف لپکے مگر وہ وہاں سے ہٹ کر جلدی جلدی عمارت کے اندر داخل ہو چکا تھا۔
پستول
[امیر منجر]
1982 کی بہار کے دن تھے۔ ہم نے اپنا ساز و سامان اکٹھا کیا، اسلحہ جمع کروایا اور جنوب کی طرف چل پڑے۔ جنگی ہیڈ کوارٹر کے حکم کے مطابق طے پایا تھا کہ خوزستان میں ایک بڑا حملہ کیا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ سپاہ اور بسیج کی بھاری نفری جنوب کی طرف نقل مکانی کر چکی تھی۔
اندرزگو گروپ بھی سپاہِ گیلان غرب کے جوانوں کے ساتھ جنوب کی طرف جانے پر تیار ہو گیا۔ آخری دنوں میں سپاہ کرمانشاہ کی طرف سے یہ اطلاع دی گئی: ’’برادر ابراہیم ہادی نے ایک پستول لیا تھا جو ابھی تک انہوں نے واپس تحویل میں نہیں دیا ہے۔‘‘
ابراہیم نے بہتیرا کہا کہ میرے پاس پستول نہیں ہے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ میں نے کہا: ’’ابراہیم، شاید تم نے پستول لیا ہو اور واپس دینا بھول گئے ہو؟‘‘ اس نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد کہا: ’’اتنا تو مجھے یاد ہے کہ میں نے لیا تھا مگر اس کے بعد میں نے محمد کو دے دیا تھا کہ وہ واپس جمع کروا دے۔‘‘ بعد میں جب چھان بین کی تو پتا چلا کہ پستول محمد کے پاس ہی رہ گیا تھا اور اس نے واپس نہیں کیا تھا۔ اوپر سے وہ ایک ہفتہ پہلے تہران واپس چلا گیا تھا۔
ہم تہران میں محمد کے پتے پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ یہاں سے اپنے گاؤں کوہپایہ کی طرف چلا گیا ہے جو اصفہان اور یزد کے راستے میں ہے۔ اسلحہ واپس کرنا ابراہیم کے لیے بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا اس لیے وہ کہنے لگا: ’’آؤ، اکٹھے کوہپایہ چلتے ہیں۔‘‘
رات کے وقت ہم اصفہان کی طرف چل پڑے۔ وہاں سے کوہپایہ گاؤں چلے گئے۔ علی الصبح وہاں پہنچ گئے۔ موسم تقریباً ٹھنڈا تھا۔ میں نے ابراہیم سے کہا: ’’بہت اچھے، اب ہمیں کہاں جانا چاہیے۔‘‘
اس نے کہا: ’’خدا وسیلہ ساز ہے، وہ خود ہی کوئی نہ کوئی راستہ سجھا دے گا۔‘‘
ہم گاؤں میں تھوڑا گھومے پھرے۔ ایک سن رسیدہ خاتون اپنے گھر کی طرف جا رہی تھیں۔ وہ اس گاؤں میں ہم اجنبیوں کو دیکھ رہی تھیں۔ ابراہیم گاڑی سے اترا اور بلند آواز سے کہا: ’’سلام، ماں جی۔‘‘
خاتون نے بھی اچھے لہجے میں جواب دیا: ’’سلام بیٹا، کسے ڈھونڈ رہے ہو؟!‘‘
ابراہیم کہنے لگا: ’’خالہ جی، آپ محمد کوہپائی کو جانتی ہیں؟!‘‘
انہوں نے پوچھا: ’’کون سا محمد؟‘‘
ابراہیم نے جواب دیا: ’’وہی جو ابھی ابھی محاذ سے واپس آیا ہے۔ اس کی عمر تقریباً بیس سال ہے۔‘‘
خاتون ہنس دیں: ’’یہاں آؤ۔‘‘ اس کے بعد وہ اپنے گھر میں داخل ہو گئیں۔
ابراہیم نے کہا: ’’امیر، گاڑی کھڑی کر دو۔‘‘ اس کے بعد ہم چل پڑے۔
خاتون نے ہمیں اندر بلا لیا۔ اس کے بعد انہوں نے ناشتہ بنایا اور اچھی طرح ہماری آؤ بھگت کی۔ پھر کہنے لگیں: ’’تم اسلام کے مجاہد ہو۔ خوب اچھی طرح کھاؤ تا کہ مضبوط ہو جاؤ۔‘‘
اس کے بعد کہنے لگیں: ’’محمد میرا نواسہ ہے اور میرے ہی گھر میں رہتا ہے۔ لیکن اس وقت وہ شہر گیا ہوا ہے اور رات تک بھی واپس نہیں آئے گا۔‘‘
ابراہیم کہنے لگا: ’’خالہ جی، معاف کیجیے گا۔ آپ کے اس نواسے نے ایسا کام کر دیا ہے کہ جس کی وجہ سے ہم محاذ سے کھنچے کھنچے یہاں آنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔‘‘
انہوں نے تعجب سے پوچھا: ’’مگر اس نے کیا کیا ہے؟‘‘
ابراہیم نے کہا: ’’اس نے مجھ سے پستول لیا اور اس سے پہلے کہ اسے دفتر میں جمع کرواتا، اپنے ساتھ لے آیا۔ اب ہمیں کہا گیا ہے کہ ہم اس پستول کو حتماً لے کر آئیں اور دفتر میں جمع کروائیں۔‘‘
وہ کھڑی ہوگئیں اور کہنے لگیں: ’’اس لڑکے کو تو خدا ہی سمجھائے۔‘‘
ابراہیم نے کہا: ’’ماں جی، اپنے آپ کو تکلیف میں نہ ڈالیں۔ ہم زیادہ دیر آپ کو زحمت نہیں دیں گے۔‘‘
خاتون نے کہا: ’’یہاں آؤ۔‘‘ میں اور ابراہیم ایک کمرے میں چلے گئے۔ خاتون کہنے لگیں: ’’اس الماری میں محمد کا سامان پڑا ہوا ہے۔ کچھ دن پہلے میں نے دیکھا کہ وہ ایک چیز لایا اور یہاں رکھ دی۔ اب تم خود ہی تالا کھول کر دیکھ لو۔‘‘
محمد نےکہا: ’’ماں جی، بغیر اجازت کے کسی کا سامان ٹٹولنا اچھی بات نہیں ہے۔‘‘
وہ خاتون کہنے لگیں: ’’اگر میں کر سکتی تو خود ہی کھول لیتی۔‘‘
اس کے بعد وہ جا کر ایک پیچ کس لے آئیں۔ میں نے پیچ کس پھنسا کر جھٹکا دیا تو الماری کا وہ چھوٹا سا تالا کھل گیا۔
الماری کا دروازہ کھلا تو دیکھا کہ سامان کے اوپر پستول ایک سفید کپڑے میں لپٹا صاف نظر آ رہا تھا۔ ہم نے پستول اٹھایا اور کمرے سے باہر آ گئے۔
خداحافظ کہتے وقت ابراہیم نے پوچھا: ’’ماں جی، آپ نے ہم پر اتنا اعتماد کیسے کر لیا؟‘‘
وہ خاتون کہنے لگیں: ’’اسلام کا سپاہی کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ کیا تم اس نورانی چہرے کے ساتھ جھوٹ بول سکتے ہو؟‘‘
ہم وہاں سے چل دیے اور تہران آ گئے۔ اصفہان کے ہائی وے پر جا رہے تھے کہ میری نظر فوجی توپخانے کی بیرک پر پڑی۔ میں نے کہا: ’’آغا ابرام، تمہیں یاد ہے کہ سرپل ذہاب میں توپخانے کا ایک کمانڈر تھا جو حملوں میں ہماری بہت مدد کیا کرتا تھا۔‘‘
ابراہیم نے پوچھا: ’’آغا مداح کی بات کر رہے ہو؟‘‘
میں نے کہا: ’ہاں، وہ اب اصفہان کے توپخانے کا انچارج ہو گیا ہے۔ شاید اب بھی یہیں ہو۔‘‘
اس نے کہا: ’’بہت اچھے، چلو اسے ملنے چلتے ہیں۔‘‘
ہم بیرک کے سامنے پہنچ گئے اور اپنی گاڑی کھڑی کر دی۔ ابراہیم اتر کر نگہبانی والے کمرے کی طرف چلا گیا اور کہا: ’’سلام، آغا مداح یہیں ہوتے ہیں؟‘‘
نگہبان نے ابراہیم پر نظر ڈالی اور سر سے لے کر پاؤں تک اس کا جائزہ لینے لگا کہ کُردی شلوار، لمبی قمیض، اور سادہ چہرے والا ایک شخص آغا مداح، بیرک کے انچارج کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔
میں نے آگے بڑھ کر کہا: ’’بھائی، ہم آغا مداح کے دوست ہیں اور محاذ سےآ رہے ہیں۔ اگر ممکن ہو تو ہم ان سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘
نگہبان نے فون ملایا اور ہمارا تعارف کروایا۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ انچارج کے دفتر کی طرف سے دو چیپیں داخلی دروازے کی طرف آ گئیں۔ کرنل مداح ہمیں دیکھتے ہی ابراہیم سے لپٹ گیا اور اسے بوسے دینے لگا۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے بھی روبوسی کی اور اصرار کرتا ہوا اپنے دفتر میں لے گیا۔
اس کے بعد وہ ہمیں میٹنگ ہال میں لے گیا۔ تقریباً بیس فوجی افسران اس کمرے میں پہلے ہی سے موجود تھے۔ میٹنگ آغا مداح کی صدارت میں ہو رہی تھی۔ اس نے ہمارے لیے دو کرسیاں منگوائیں اور ہم بھی میٹنگ کے شرکاء میں شامل ہو گئے۔ اس کے بعد اس نے بات کرنا شروع کی: ’’دوستو! تم سب مجھے جانتے ہو۔ چاہے انقلاب سے پہلے 9 روزہ جنگ ہو یا دفاع مقدس کے پہلے سال کی جنگ، میں نے تمغہ ہائے شجاعت کا اعزاز حاصل کر رکھا ہے۔ میرے توپخانے کے جوانوں نے سخت ترین ذمہ داریوں کو بھی احسن انداز میں انجام دیا اور تمام حملوں میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ میں نے خود بھی وطن اور ولایت میں سخت ترین اور اہم ترین فوجی تربیت کے کورسز کر رکھے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی کچھ لوگ ایسے تھے اور اب بھی ہیں کہ جنہوں نے میری ساری کی ساری تعلیم اور تجربے پر سوالیہ نشان ڈال کر رکھ دیا۔‘‘
اس کے بعد اس نے مثال دیتے ہوئے کہا: ’’دنیا کی جنگوں کا قانون کہتا ہے کہ اگر تم ایک ایسی جگہ حملہ کرتے ہو جہاں دشمن کے سو افراد ہیں تو تمہارے افراد کی تعداد تین سو ہونا چاہیے۔ تمہاری مہمیں اور حملے بھی زیادہ ہوں تاکہ کامیابی حاصل ہو سکے۔‘‘
پھر اس نے تھوڑا وقفہ لیا اور اپنے بات کو جاری رکھا: ’’یہ آغا ہادی اور ان کے دوست ایسے کارنامے انجام دیتے رہے ہیں جو واقعاً بہت عجیب تھے۔ مثلاً بعض اوقات انہوں نے سو افراد سے بھی کم نفری کے ساتھ دشمن پر حملہ کیا مگر اپنی تعداد سے زیادہ دشمن کے فوجیوں کو مارا یا انہیں اسیر کر لیا۔ میں بھی ان حملوں کی لاجسٹک کا فریضہ انجام دیتا رہتا تھا۔‘‘
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ یہ لوگ بازی دراز کے علاقے میں حملہ کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت جب میں نے حملہ کرنے والوں کے سازوسامان اور دوسری جنگی شرائط کا جائزہ لیا تو اپنے دوست سے کہا: ’’یہ لوگ حتماً شکست سے دوچار ہوں گے۔‘‘ لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ انہوں نے نہ صرف دشمن کے ٹھکانوں پر قبضہ کر لیا بلکہ اپنے سے زیادہ تعداد میں دشمن کو فوجیوں کو بھی ٹھکانے لگا دیا۔‘‘
میٹنگ میں موجود ایک جوان افسر نے کہا: ’’بہت اچھے، آغا ہادی، اگر آپ خود ہی اس حملے کی تفصیل بتا دیں تو اچھا رہے گا تا کہ ہم بھی کچھ سیکھ لیں۔‘‘
ابراہیم جو سر نیچے جھکائے بیٹھا تھا، کہنے لگا: ’’نہیں میرے بھائی، ہم نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ آغا مداح نے کچھ زیادہ ہی مبالغہ کر دیا۔ ہم نے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ جو کچھ تھا وہ خدا کا لطف و کرم تھا۔‘‘
آغا مداح نے کہا: ’’ان سے اور ان کے دوستوں سے جو بات ہم نے سیکھی وہ یہ تھی کہ حملہ اور افراد کی تعداد اہم نہیں بلکہ جنگ میں جو چیز کلیدی حیثیت رکھتی ہے وہ جوانوں کا مورال اور جوش و جذبہ ہے۔ یہ لوگ ایک تکبیر سے دشمن کے دل میں وہ خوف بٹھا دیتے تھے جو سینکڑوں توپوں اور ٹینکوں سے بھی زیادہ ہوتا تھا۔‘‘
اس کے بعد آغا مداح نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’ان کا ایک دوست تھا جو جسمانی لحاظ سے تو چھوٹے قد کا تھا مگر قدرت و شہامت میں آپ کی توقعات سے بھی کہیں بڑھ کر تھا۔ اس کا نام اصغر وصالی تھا جو جنگ کے ابتدائی دنوں میں اپنے جوانوں کے ساتھ دشمن کے حملوں کا دفاع کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر گیا۔ میں نے ان بسیجی اور مخلص جوانوں سے قرآن کی اس آیت کو اچھی طرح سمجھا کہ جس میں خدا فرماتا ہے: اگر تم بیس لوگ صابر اور ثابت قدم رہو تو دو سو افراد پر غلبہ پا سکتے ہو۔‘‘
لگ بھگ ایک گھنٹے کے بعد ہم میٹنگ سے باہر نکلے۔ میٹنگ کے شرکاء سے معذرت خواہی کی اور تہران کی طرف چل پڑے۔ میں راستے میں اس دن پیش آنے والے تمام واقعات کے بارے میں سوچتا رہا۔
ابراہیم نے واقعات سے بھرے اسے پستول کو دفتر میں جمع کروایا اور اندرزگو گروپ کے جوانوں کے ساتھ جنوب کی طرف خوزستان چلا گیا۔
گیلان غرب میں چودہ ماہ کا عرصہ تمام تلخ و شیرین واقعات کے ساتھ ختم ہوا۔ اس عرصے میں شجاعت و بہادری کی عظیم داستانیں رقم ہوئیں۔ اس مدت میں ایک چھوٹے سے چھاپہ مار گروپ نے عراقی فوج کے جدید ٹیکنالوجی سے لیس تین بریگیڈز کو اپنے حملوں سے ختم کر کے رکھ دیا تھا۔
فتح المبین
[شہیدؒ کے کچھ دوست]
خوزستان میں سب سے پہلے ہم لوگ شہر شوش میں گئے جہاں پیغمبر خدا حضرت دانیال علیہ السلام کی قبر مبارک کی زیارت کی۔
وہاں اطلاع ملی کہ تمام رضاکار فوجی جوانوں (جو آج کل بسیجی کے نام سے مشہور ہو چکے ہیں) کو مختلف جنگی بٹالینز اور بریگیڈز میں تقسیم کر کے بڑے حملوں کے لیے انہیں آمادہ کیا جائے گا۔
زیارت کے دوران حاج علی فضلی پر ہماری نظر پڑ گئی۔ انہوں نے بھی گرمجوشی سےہمارا استقبال کیا۔ حاج علی فوجیوں کی تقسیم بندی کے ساتھ ہی ہمیں اپنے ساتھ المہدی (عج) بریگیڈ لے گئے۔ اس بریگیڈ میں کچھ بٹالینز بسیجی جوانوں کی اور کچھ بٹالینز فوجیوں کی تھیں۔
حاج حسین نے بھی اندرزگو گروپ کے جوانوں کو بٹالینز میں تقسیم کیا۔ اندرزگو کے اکثر جوانوں نے ریکی اور جاسوسی کی ذمہ داریاں اپنے سر لے لیں۔
کسی بٹالین کے ساتھ رضا گودینی تھا، کسی کے ساتھ جواد افراسیابی اور کسی کے ساتھ ابراہیم۔
فوجیوں کی تیاری کا کام بہت جلدی سے انجام پا گیا۔ سپاہ کے لیے جاسوسی کے فرائض سرانجام دینے والے جوانوں کو اس محاذ پر کام کرتے کئی ماہ ہو چکے تھے۔
دشمن کے زیرِ قبضہ تمام علاقوں کی جاسوسی کا مرحلہ مکمل ہو چکا تھا حتی کہ عراقی فوج کی بٹالینز اور بریگیڈز کے ٹھکانے تک مشخص ہو چکے تھے۔ 21 مارچ 1982 کو ’’یا زہرا سلام اللہ علیہا‘‘ کے کوڈ ورڈ کے ساتھ معرکہ فتح المبین کا آغاز ہو گیا۔
اسی دن سہ پہر کے وقت سپاہ کی طرف سے بٹالینز کے کمانڈرز اور ڈپٹی کمانڈرز کو حملے والے علاقے میں لے جایا گیا اور دور ہی سے اس علاقے اور اس میں ہونے والے حملے کی وضاحت کر دی گئی۔ اس حملے کی سب سے بھاری اور سخت ذمہ داری المہدی بریگیڈ کی بٹالینز کے سپرد کی گئی۔
21 مارچ 1982 کو جیسے ہی مغرب کا وقت نزدیک ہوا تو جوانوں کا جوش و جذبہ بڑھ گیا۔ نماز کے بعد فوج حرکت میں آ گئی۔
میں ایک لمحے کے لیے بھی ابراہیم سے جدا نہیں ہوتا تھا۔ بالآخر ہماری بٹالین نے بھی حرکت کی لیکن کسی وجہ سے میں اور ابراہیم پیچھے رہ گئے۔ رات اڑھائی بجے ہم بھی چل پڑے۔ رات کی تاریکی میں ہم ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں ایک میدان کے وسط میں بٹالین کے جوان بیٹھے ہوئے تھے۔ ابراہیم نے پوچھا: ’’تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو؟ تمہیں تو دشمن کی سرحد پر حملہ کرنا تھا۔‘‘
انہوں نے جواب دیا: ’’کمانڈر کا یہی حکم ہے۔‘‘ میں اور ابراہیم نے آگے بڑھ کر کمانڈر سے پوچھا: ’’آپ نے جوانوں کو اس میدان میں کیوں ٹھہرا دیا ہے؟ ابھی تھوڑی دیر بعد اجالا ہو جائے گا۔ یہاں ان کے لیے نہ تو کوئی جائے پناہ ہے او ر نہ ہی کوئی مورچہ۔ یہ مکمل طور پر دشمن کی گولیوں کی زد میں ہیں۔‘‘
کمانڈر نے کہا: ’’ہمارے آگے بارودی سرنگوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ ہمارے پاس کوئی بم ڈسپوزل سکواڈ کا کوئی ماہر بھی نہیں ہے۔ میں نے ہیڈ کوارٹر میں فون کیا ہوا ہے۔ بندہ راستے ہی میں ہے۔‘‘ ابراہیم نے کہا: ’’اتنی دیر تک تو انتظار نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ اس کے بعد اس نے جوانوں کی طرف رُخ کر کے کہا: ’’اپنی جان پر کھیل سکنے والے کچھ رضاکار میرے ساتھ آئیں تا کہ ہم راستہ کھول سکیں۔‘‘
کچھ جوان اس کی طرف دوڑتے ہوئے آ گئے۔ ابراہیم بارودی سرنگوں سے بھرے میدان میں اتر گیا۔ وہ اپنا پاؤں زمین پر گھسیٹتا اور آگے کی طرف بڑھ جاتا۔ باقی جوان بھی ایسا ہی کر رہے تھے۔
میں ہکا بکا ابراہیم کو دیکھ رہا تھا۔ میرا سانس سینے میں اٹک کر رہ گیا تھا۔ میں بٹالین کے جوانوں کے ساتھ کھڑا تھا اور وہ بارودی سرنگوں والے میدان میں۔
میرے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ میں ہر لحظہ سرنگ پھٹنے اور ابراہیم کی شہادت کا منتظر تھا۔ یہ لمحات بہت مشکل سے گزر رہے تھے۔ لیکن وہ میدان عبور کر کے اس پار پہنچ چکے تھے۔ خدا کا شکر کہ اس راستے میں کوئی سرنگ نہ پھٹ سکی۔
اس رات بارودی سرنگوں سے بھرے اس میدان کو عبور کرنے کے بعد ہم نے دشمن کے مورچوں پر حملہ کر کے ان کے ٹھکانوں پر قبضہ کر لیا لیکن ہم اس سے زیادہ آگے نہ بڑھے۔
صبح کے نزدیک ابراہیم کے پہلو میں ایک گولی آن لگی جس سے وہ زخمی ہو گیا۔ ہمارے جوان اسے جلدی اٹھا کر پیچھے لے آئے۔ جب صبح ہو چکی تو طے پایا کہ ابراہیم کو جہاز کے ذریعے کسی شہر میں منتقل کر دیا جائے لیکن وہ ضد کر کے جہاز سے اتر آیا۔ ڈسپنسری میں زخم کو ٹانکے لگوانے اور پٹی بندھوانے کے بعد وہ دوبارہ سرحد پر آ گیا اور جوانوں کے ساتھ شامل ہو گیا۔
پہلی رات کے حملے میں ہماری بٹالین کے کمانڈر اور ڈپٹی کمانڈر بھی زخمی ہو گئے، جس کی وجہ سے علی موحد ہماری بٹالین کے کمانڈر مقرر کیے گئے۔
اسی روزکچھ افسران کی میٹنگ ہوئی جس میں محسن وزوایی بھی شامل تھے۔ حملے کے اگلے مرحلے کی منصوبہ بندی افسران کے گوش گزار کی گئی۔
اس مرحلے میں سب سے اہم کام دشمن کے بھاری توپخانے پر قبضہ اور پل رفائیہ کو عبور کرنا تھا۔ سپاہ کے جاسوس جوان کافی دن تک اس منصوبہ بندی میں مصروف رہے تھے۔ اگلے مراحل میں کامیابی کا سارا انحصار اسی مرحلے کی کامیابی پر تھا۔
اگلی رات پھر فوجی جوان حرکت میں آ گئے اور چل پڑے۔ بم ڈسپوزل سکواڈ باقی جوانوں سے آگے آگے چل رہا تھا۔ اس کے پیچھے علی موحد، ابراہیم اور باقی جوان تھے۔
ہم لوگ کافی دیر تک چلتے رہے مگر دشمن کے مورچوں اور توپخانے تک نہ پہنچ سکے۔ چھ کلومیٹر چلنے کے بعد تھکاوٹ سے چور ہو کر ایک میدان میں جا کر بیٹھ گئے۔ علی موحد اور ابراہیم ادھر ادھر گھومتے رہے مگر دشمن کے توپخانے کا کہیں کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ ہم لوگ دشمن کے ٹھکانوں اور اس میدان میں گم ہو کر رہ گئے تھے۔ اس کے باوجود بھی جوانوں میں ایک عجیب طرح کا اطمینان اور سکون موجزن تھا۔ وہ اتنے پُرسکون تھے کہ سبھی تقریباً آدھے گھنٹے تک سوتے رہے۔
بعد میں ابراہیم نے مجلہ پیام انقلاب شمارہ مارچ 1982 کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا: ’’اس رات ہم نے آس پاس بہت تلاش کیا مگر صحرا کے علاوہ کوئی چیز ہمیں نظر نہیں آتی تھی، لہٰذا ہم وہیں سجدے میں پڑ گئے اور کچھ منٹ تک اسی حالت میں پڑے رہے۔ اس حالت میں ہم خدا کو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے واسطے دیتے رہے۔‘‘
اس نے یہ بھی بتایا تھا: ’’اس صحرا میں ہم تھے اور امام زمانہ (عج)۔ ہم فقط اپنے امام کو پکار رہے تھے اور ان سے مدد مانگ رہے تھے۔ ہمیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ کیا کریں۔ ہمارے ذہن میں جو چیز رہ رہ کر آ رہی تھی وہ امام زمانہ (عج) سے توسل ہی تھا۔‘‘
*****
کسی کو بھی اس بات کی سمجھ نہ آ سکی کہ اس رات کیا ماجرا ہوا۔ اس عجیب و غریب سجدے میں ان کے اور خدا کے درمیان کیا راز و نیازہوئے۔ لیکن تھوڑی دیر بعد ابراہیم اس جگہ سے جہاں سارے جوان آرام کر رہے تھے، بائیں طرف چلا گیا۔ تقریباً ایک کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ ایک مورچے تک پہنچ گیا۔ جب اس نے مورچے کی پشت پر دیکھا تو کافی تعداد میں توپیں اور بھاری اسلحہ اسے نظر آیا۔
عراقی فوجی پورے اطمینان سے آرام کر رہے تھے۔ فقط تھوری سی تعداد میں نگہبان صحن کے درمیان دکھائی دے رہے تھے۔ ابراہیم جلدی سے اپنی بٹالین کی طرف واپس لوٹ آیا۔
اس نے سارا ماجرا علی موحد سے کہہ ڈالا۔ اس کے بعد وہ جوانوں کو اس مورچے کے عقب میں لے آئے۔ راستے میں انہوں نے اپنے جوانوں کو سمجھا دیا تھاکہ: ’’جب تک ہم نہ کہیں کوئی شخص گولی نہیں چلائے گا۔ دشمن سے مڈبھیڑ کی صورت میں بھی زیادہ کوشش یہی کی جائے کہ انہیں اسیر کیا جائے۔‘‘
دوسری طرف محسن وزوایی کی کمانڈ میں حبیب بٹالین نے بھی توپخانے پر حملہ کر دیا تھا۔
اس رات ہمارے جوان معمولی سی جھڑپ اور اللہ اکبر اور یا زہرا سلام اللہ علیہا کے فلگ شگاف نعروں کے ذریعے عراقی فوج کے توپخانے پر قبضہ کرنے اور بہت سے عراقیوں کو قیدی کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ توپخانے پر ہمارے قبضے نے خوزستان میں عراقی فوج کو سخت مشکل سے دوچار کر دیا۔ جوانوں نے فوراً توپوں کے رخ عراق کی طرف موڑ دیے، لیکن توپخانے کے ماہر فوجیوں کے نہ ہونے کی وجہ سے اسے استعمال نہ کیا جا سکا۔
توپخانے پر قبضہ ہو گیا تو ہم اس کے آس پاس کے علاقے کی چھان بین میں مشغول ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ ابراہیم ایک عراقی افسر کو اپنے ساتھ لا رہا ہے۔
عراقی افسر کو اس نے بٹالین کے جوانوں کے حوالے کر دیا۔ میں نے پوچھا: ’’آغا ابرام، یہ کون تھا؟‘‘
اس نے جواب دیا: ’’کیمپ کے آس پاس میں گشت کر رہا تھا کہ اچانک یہ افسر میری طرف آگیا۔ بے چارہ جانتا نہیں تھا کہ یہ سارا علاقہ ہم نے ان سے آزاد کروا لیا ہے۔‘‘
میں نے اسے کہا کہ سرنڈر کر دو، لیکن اس نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ اس کے پاس اسلحہ نہیں تھا لہٰذا میں نے بھی اس کے ساتھ کشتی شروع کر دی اور اسے زمین پر پٹخ دیا۔ اس کے بعد اس کے ہاتھ باندھ کر یہاں لے آیا۔
فجر کی نماز ہم نے توپخانے کے پاس ہی پڑی۔ امدادی دستےجیسے ہی پہنچے تو ہم نے اس صحرا میں مزید آگے بڑھنا شروع کر دیا۔ ہمارے سامنے کا علاقہ ابھی تک مکمل طور پر دشمن سے پاک نہیں ہوا تھا۔
اچانک دو عراقی ٹینک ہماری طرف بڑھے لیکن پھر پلٹ کر فرار ہو گئے۔ ابراہیم جلدی سے ان میں سے ایک طرف دوڑ پڑا۔ اس کے بعد اچھل کر ایک ٹینک پر چڑھ گیا اور ٹینک کا دروازہ کھول دیا۔ اس کے بعد اس نے عربی میں کچھ کہا تو ٹینک اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا اور اس میں سے کچھ فوجی اتر پڑے جنہوں نے سرنڈر کر لیا۔
ابھی تک اجالا نہیں ہوا تھا۔ فوج کو نئے سرے سے ترتیب دیا گیا اور ہم آگے کی طرف بڑھنے لگے۔ راستےمیں میں نے ابراہیم سے کہا: ’’تم نے غور کیا کہ ہم نے دشمن کے توپخانے پر عقب سے حملہ کیا تھا!‘‘
اس نے تعجب سے پوچھا: ’’نہیں تو، مگر کیسے؟‘‘
میں نے کہا: ’’دشمن بھاری تعداد میں اپنے سپاہیوں کے ساتھ توپخانے کے اگلے حصے میں ہمارا انتظار کرتا رہا مگر خدا کو یہی منظور تھا کہ ہم ایک اور راستے سے آ ئے اور توپخانے کے عقب میں پہنچ گئے۔ یہی وجہ تھی کہ اتنے اسیر اور مال غنیمت ہمارے ہاتھ لگ گیا۔ دوسری طرف دشمن رات دو بجے تک مکمل طور پر تیار کھڑا تھا، لیکن اس کے بعد اس کے سپاہی آرام کرنے لگے اور ہم نے ان پر حملہ کر دیا۔‘‘
ہم نے دوبارہ عراقی قیدیوں کو جمع کیا اور انہیں کچھ جوانوں کی نگرانی میں پیچھے بھیج دیا۔ باقی فوجیوں کو لے کر ہم اس حملے کے آخری مرحلے کو اپنے اختتام تک پہنچانے کے لیے مزید آگے بڑھ گئے۔
زخم
[مرتضیٰ پارسائیان، علی مقدم]
ساری بٹالینز اپنی اپنی جگہ سے پیش قدمی کر چکی تھیں۔ ہمیں اپنے سامنے ٹھہرے دشمن کے ٹھکانوں اور اس کے آس پاس کے مورچوں کو عبور کرنا تھا لیکن اجالا ہو جانے کی وجہ سے ہمارا کام کافی مشکل ہو چکا تھا۔
ایک جگہ پر پل رفائیہ کے نزدیک تو کافی مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ایک عراقی فوجی ایک مورچے سے مشین گن کے ذریعے مسلسل گولیاں برسائے جا رہا تھا اور ہمارے کسی ایک سپاہی کو بھی آگے بڑھنے نہیں دے رہا تھا۔ ہم نے لاکھ کوشش کی مگر اس کنکریٹ سے بنے مورچے کو تباہ نہ کر سکے۔
میں نے ابراہیم کو بلایا اور دور سے اسے وہ مورچہ دکھایا۔ اس نے غور سے مورچے کو دیکھنے کے بعد کہا: ’’اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ اس مورچے کے نزدیک جایا جائے اور اس پر ایک دستی بم پھینکا جائے۔‘‘
اس کے بعد اس نے مجھ سے دو دستی بم لیے اور سینے کے بل چلتے ہوئے دشمن کے مورچوں کی طرف بڑھنے لگا۔ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔
میں ایک مورچے میں جا کر چھپ گیا۔ ابراہیم آگے بڑھ رہا تھا اور میں اسے دیکھ رہا تھا۔ اس نے اس کنکریٹ والے مورچے کے نزدیکی مورچوں میں سے ایک میں مناسب جگہ ڈھونڈ لی لیکن اس وقت ایک عجیب واقعہ ہو گیا۔ اس مورچے میں ایک کم سن بسیجی جوان اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا اور اپنا اسلحہ ابراہیم کے سینے پر رکھ کر مسلسل چلّانے لگا: ’’عراقی، میں تمہیں مار ڈالوں گا۔‘‘
ابراہیم نے وہیں بیٹھے بیٹھے اپنے ہاتھ اوپر کر لیے۔ وہ کوئی بات نہیں کر رہا تھا۔ سب کی سانسیں سینے میں اٹک کر رہ گئی تھیں۔ ہمیں کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا کہ اس صورت حال میں کیا کریں۔ کچھ دیر اسی طرح گزر گئی۔ مشین گن کی گولیاں رکنے کا نام ہی نہ لے رہی تھیں۔
میں سینے کے بل آہستہ آہستہ آگے کی طرف بڑھا او ر اپنے آپ کو اس مورچے تک پہنچایا۔ میں فقط دعا کر رہا تھا اور کہے جا رہا تھا: ’’خدایا، تو خود ہی ہماری مددفرما! کل رات سے اب تک دشمن کی طرف سے کوئی مشکل پیش نہیں آئی، لیکن اب اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘
اچانک ابراہیم نے اس کے چہرے پر ایک تھپڑ مارا اور اسلحہ اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ اس کے بعد اسے سینے سے لگا لیا۔ وہ جوان اب اپنے ہوش میں آیا تھا اور رونے لگا تھا۔ ابراہیم نے مجھے بلا کر اس نوجوان کو میرے حوالےکیا اور کہا: ’’میں نے آج تک کسی کے چہرے پر تھپڑ نہیں مارا تھا لیکن یہاں ایسا کرنا ضروری ہو گیا تھا۔‘‘ اس کے بعد وہ مشین گن والے مورچے کی طرف بڑھ گیا۔
تھوڑی دیر بعد اس نے پہلا دستی بم پھینکا لیکن وہ نشانے پر نہ لگا۔ اس کے بعد اس نے اٹھ کر مورچے کی طرف دوڑنا شروع کر دیا اور دوڑتے دوڑتے دوسرا بم پھینک دیا۔ ایک لمحے بعد وہ مورچہ تباہ ہو گیا۔ سارے جوان اللہ اکبر کے نعرے لگاتے اپنی جگہ سے اٹھے اور آگے بڑھنے لگے۔ میں بھی خوشی خوشی جوانوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اچانک ایک جوان کے اشارہ کرنے پر میں پلٹا تو مورچے سے باہر میری نظر پڑی۔
میرے چہرے کا رنگ ہی اڑ گیا۔ ہونٹوں سےمسکراہٹ فوراً غائب ہو گئی۔ ابراہیم خون میں لت پت زمین پر پڑا تھا۔ میں نے اپنا اسلحہ پھینکا اور اس کی طرف دوڑ لگا دی۔
عین دھماکے کےوقت ایک گولی اس کے منہ کے اندر اور ایک پاؤں کی پشت پر لگی تھی۔ اس سے کافی خون بہہ رہا تھا۔ وہ زمین پر تقریباً بے ہوش پڑا تھا۔ میں چلّانےلگا: ’’ابراہیم!‘‘
میں ایک جوان کی مدد سے گاڑی کے ذریعے ابراہیم اور کچھ دوسرے زخمی جوانوں کو دزفول میں واقع فوجی ڈسپنسری میں لے گیا۔
ابراہیم اس حملے کے آخری مرحلے تک موجود رہا تھا اور اس علاقے میں دشمن کے آخری مورچوں پر قبضے تک وہ کافی زخمی ہو چکا تھا۔
میں راستے بھر روتا رہا۔ میرا دل بہت بے قرار تھا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ابراہیم۔۔۔ نہیں، اللہ نہ کرے۔ اوپر سے حملے کی پہلی رات کے زخم بھی ابراہیم کے بدن پر موجود تھے۔ اس کے بدن سے کافی خون بہہ چکا تھا۔ اب نہیں معلوم وہ ان سارے زخموں کو سہہ پائے گا بھی یا نہیں۔
دزفول کی ڈسپنسری میں موجود ڈاکٹر نے بتایا: ’’چہرے پر لگنے والی گولی معجزانہ طور پر گردن سے باہر نکل گئی ہے مگر اس سے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔ البتہ پاؤں پر جو گولی لگی ہے اس نے اس سے ہلنے جلنے کی قوت چھین کر رکھ دی ہے۔ پاؤں کی پشت والی ہڈی چور چور ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پہلو کا زخم بھی کھل گیا ہے جس سے کافی خون بہہ رہا ہے۔ لہٰذا اسے علاج کے لیے تہران لے کر جانا پڑے گا۔‘‘
ابراہیم تہران منتقل ہو گیا اور ایک ماہ تک نجمیہ ہسپتال میں داخل رہا۔ اس کے کئی آپریشن ہوئے جن کے نتیجے میں اس کے بدن سے چھروں کے کئی چھوٹے موٹے ٹکڑے نکال لیے گئے۔
ہسپتال میں جب ایک صحافی ابراہیم کا انٹرویو لینے آیا تو ابراہیم نے اسے انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: ’’اگرچہ سب جوانوں نے ان حملوں میں کئی ماہ تک تکالیف اور مشقتیں جھیلیں اور جاسوسی کا فریضہ انجام دیا مگر خداوند کریم کی عنایت سے فتح المبین میں ہم نے کوئی زیادہ کام نہیں کیا۔ ہم تو فقط راستہ چلتے رہے اور ہمارا نعرہ یا زہراء سلام اللہ علیہا تھا۔ وہاں جو کچھ بھی پیش آیا وہ خود خاتون دوعالم حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی نظر عنایت تھی۔‘‘
ابراہیم نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا تھا: ’’ہم جس وقت صحرا میں اپنے جوانوں کو لیے اِدھر اُدھر بھٹک رہے تھے اور سب تھکاوٹ سے چور ہو چکے تھے تو میں سجدے میں چلا گیا اور امام زمانہ (عج) سے توسل کیا۔ میں نے امام سے درخواست کی کہ وہ خود ہی ہمیں کوئی راستہ دکھائیں۔ جس وقت میں نے سجدے سے سر اٹھایا تو دیکھا کہ سب جوان ایک عجیب سے اطمینان و سکون کی حالت میں سو رہے ہیں۔ ٹھنڈی ٹھنڈی نسیم چل رہی تھی۔ میں نے نسیم کے رُخ پر چلنا شروع کر دیا۔ ابھی زیادہ دور نہ گیا تھا کہ توپخانے کے آس پاس کے مورچوں تک پہنچ گیا۔‘‘
آخر میں جب صحافی نے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گے تو ابراہیم نے جواب دیا تھا: ’’ہم ان لوگوں سے شرمسار ہیں کہ جو اپنا پیٹ کاٹ کر ہم مجاہدوں کےلیے کھانا بھیجتے ہیں۔ میں بھی اسی وقت اپنے آپ کو اس قرض سے سبکدوش سمجھوں گا جب میرا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔‘‘
پاؤں کی ہڈی ٹوٹ جانے کی وجہ سے ابراہیم چلنے پھرنے کے قابل نہ رہا تھا۔ کچھ دن ہسپتال میں داخل رہنے کے بعد وہ گھر آ گیا اور تقریباً چھ ماہ تک محاذ سے دور رہا لیکن اس عرصے میں بھی وہ محلے اور مسجد کے جوانوں میں اجتماعی اور مذہبی سرگرمیوں سے کبھی بھی غافل نہیں رہا۔
ذاکری
[امیر منجر، جواد شیرازی]
ہائی سکول کے زمانے میں ابراہیم نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ’’انجمن جوانان وحدت اسلامی‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ وہ بہت سے دوستوں کے لیے خیر و ہدایت کا سبب بنا۔ وہ بار بار اپنے دوستوں کو نصیحت کرتا تھا کہ دینی و مذہبی جوش و جذبے کی حفاظت کےلیے اپنے اپنے محلوں میں حتماً مذہبی انجمنیں قائم کریں اور خصوصاً ایسی انجمنیں ضرور بنائیں جن کا اصلی ہدف کسی شخصیت کا خطاب اور تقریر ہو۔
اس کا ایک دوست کہتا تھا: ’’ابراہیم کی شہادت کے کئی سال بعد میں تہران کی ایک مسجد میں ثقافتی سرگرمیوں میں مشغول تھا۔ ایک دن بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ کس طریقے سے جوانوں کو مسجد اور ثقافتی سرگرمیوں کے ساتھ جوڑ کر رکھا جائے۔‘‘
اسی رات خواب میں ابراہیم کو دیکھا۔ وہ مسجد کے تمام جوانوں کو جمع کر کے ان سے کہہ رہا تھا: ’’ہفتگی انجمنوں کے ذریعے اپنے جوانوں کی حفاظت کرو۔‘‘ اس کے بعد اس نے اس کا سارا طریق کار سمجھایا۔
ہم نے ایسا ہی کیا۔ پہلے پہل تو ہمیں اتنی کامیابی کی توقع نہیں تھی لیکن کئی سال گزرنے کے بعد بھی آج تک ہم ان ہفتگی انجمنوں کے ذریعے ہی تمام جوانوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔
اپنے محلے کے جوانوں کے ساتھ بھی ابراہیم کا یہی رویہ تھا۔ وہ جوانوں کو کھیل کی طرف راغب کر کے سیدھا انجمن اور مسجد کی طرف کھینچ لاتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا: ’’جب جوانوں کا ہاتھ امام حسین علیہ السلام کے ہاتھ میں آ جاتا ہے تو مشکل حل ہو جاتی ہے۔ خود مولا ان پر اپنے لطف و کرم کی نظر ڈالیں گے۔‘‘
ابراہیم نے ہائی سکول کے زمانے ہی سے ذاکری شروع کر دی تھی۔ وہ دوسروں کو بھی ذاکری کی ترغیب دیا کرتا تھا۔ وہ ہر ہفتے انجمن جوانا ن وحدت اسلامی میں شہید عبداللہ مسگر کے ہمراہ شرکت کرتا اور ذاکری کیا کرتا تھا۔
جوانوں کا یہ اجتماع انجمن سے بڑھ کر ایک مقام رکھتا تھا۔ اس نے جوانوں کے اعتقادات اور سیاسی نظریات پر دور رس اثرات مرتب کیے۔
علامہ محمد تقی جعفری اور حاجی آقا نجفی جیسے علماء کی دعوت کرنا اور مختلف سیاسی اور مذہبی شخصیات کو خطاب کرنے کے لیے بلانا اس انجمن کی اہم سرگرمیوں میں سے تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ساواک کے کارندے اس انجمن پر خاص نظر رکھے ہوئے تھے۔ کئی مرتبہ تو انہوں نے اس انجمن کے جلسات پر پابندی بھی لگائی۔
ابراہیم نے ذاکری کو اسی ہیئت اور اکھاڑے میں پہلوانی کے دوران شروع کیا۔ انقلاب کے دوران اور اس کے بعد تو وہ خاصا عروج پر پہنچ گیا تھا۔ لیکن سب سے اہم نکتہ جس کا وہ خاص خیال رکھتا تھا وہ یہ تھا، اور جیسا کہ وہ خود کہا بھی کرتا تھا: ’’میں اپنے دل کےلیے پڑھتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ زیادہ تر خود استفادہ کروں اور قربۃً الی اللہ سے ہٹ کر کوئی نیت ذاکری میں داخل نہ کروں۔‘‘
*****
وہ موٹر سائیکل پر بیٹھا تھا اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شان میں اشعار بہت ہی خوبصورتی سے پڑھنے لگا۔ اس کی آواز کافی دلکش اور سوزناک تھی۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ وہ انجمن میں ان اشعار کو اسی انداز میں پڑھے لیکن وہ نہ مانا۔ اس کا کہنا تھا: ’’ان کے پاس ایک ذاکر موجود ہے۔ میری تو آواز اتنی اچھی ہے ہی نہیں۔ مجھے رہنے دو۔‘‘
لیکن میں اچھی طرح جانتا تھا کہ جب بھی کسی کام میں غیر خدا کی شائبہ ہو یا شہرت کا باعث ہو تو ابراہیم اسے ترک کر دیتا تھا۔ ذاکری میں اس کی ایک دلچسپ عادت تھی۔ وہ لاؤڈ سپیکر اور ایکو وغیرہ کا محتاج نہ تھا۔ اکثر اوقات وہ بغیر لاؤڈ سپیکر کے ہی پڑھتا تھا۔
سینہ زنی میں بہت مضبوطی سے سینے پر ہاتھ مارتا تھا۔ وہ کہتا تھا: ’’اہل بیتؑ نے اپنا تمام وجود اسلام پر قربان کر دیا۔ ہمیں کم از کم یہ سینہ زنی تو اچھے انداز سے کرنا چاہیے۔‘‘
شادی کی محفل ہو یا عزا کی، جہاں بھی وہ دیکھتا کہ اس کے علاوہ کوئی ذاکر نہیں ہے تو وہ ذاکری کیا کرتا تھا لیکن اگر اسے معلوم ہو جاتا کہ اس کے علاوہ بھی کوئی پڑھنے والا ہے تو وہ نہیں پڑھتا تھا بلکہ زیادہ تر دوسروں سے استفادے کی کوشش میں رہتا۔
ابراہیم امام رضا علیہ السلام کی اس نورانی حدیث کا مصداق تھا: ’’جو بھی ہمارے مصائب پر گریہ کرے اور دوسروں کو رُلائے، اگرچہ ایک شخص ہی کو رُلائے تو اس کا اجر خدا کے ذمے ہو گا۔ ہر وہ شخص جس کی آنکھیں ہمارے غم میں اشک آلود ہو جائیں اور وہ رو پڑے تو خداوند عالم اسے ہمارے ساتھ محشور کرے گا۔[1]‘‘
عزاداری میں اس کی طبیعت پر ایک عجیب وجد کی سی کیفیت طاری رہتی۔ بہت سے جوان فقط ابراہیم کی عزاداری میں موجودگی کی وجہ سے کافی جوش و جذبے میں آ جاتے۔
ابراہیم جہاں بھی ہوتا اس جگہ کو کربلا بنا دیتا۔ ابراہیم کے گریے اور نالے عجیب ہیجان بپا کر دیتے۔ جس کا ایک نمونہ 1982 کے اربعین کے موقع پر انجمن عاشقانِ حسین علیہ السلام میں نظر آتا ہے۔ انجمن کے جوان اسے کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ ابراہیم حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا ذکر کر رہا تھا۔ مجلس پر اس نے ایک خاص ماحول طاری کر دیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اسے غش آ گیا۔ اس دن جوانوں کی جو حالت ہوئی وہ اس کے بعد کبھی دیکھنے میں نہ آئی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ابراہیم کے خاص جذبے اور اندرونی سوز نے محفل کی حالت کو بدل کر رکھ دیا تھا۔
ذاکری کے بارے میں ابراہیم بہت خوبصورت بات کہا کرتا تھا: ’’ذاکر کو چاہیے کہ اپنی گفتگو میں اہل بیتؑ کی عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔ جو منہ میں آئے وہ نہ کہتا چلا جائے۔ اگر کسی محفل میں پڑھنے کی ساری شرائط موجود نہ ہوں تو اسے چاہیے کہ نہ پڑھے۔۔۔‘‘
ابراہیم کبھی بھی اپنے آپ کو ذاکر نہیں سمجھتا تھا مگر جہاں بھی پڑھتا تو عجیب سا ماحول بنا دیتا۔
وہ شہداء کی یاد سے کبھی غافل نہیں رہا۔ اس نے کچھ اشعار بھی کہہ رکھے تھے جن میں شہداء خصوصاً اصغر وصالی اور علی قربانی کے اسما بھی موجود تھے۔ وہ مجالس میں اکثر یہ اشعار پڑھا کرتا تھا۔
*****
شب عاشور تھی۔ مسجد میں کافی باشکوہ عزداری منعقد ہوئی۔ ابتداءمیں تو ابراہیم بہت زیادہ ماتم کر رہا تھا مگر بعد میں وہ وہاں نظر نہ آیا بلکہ مجلس کی تاریکی میں ایک کونے میں کھڑا آرام سے ماتم کر رہا تھا۔
سارے جوان کافی دیر تک ماتم کرتے رہے۔ رات کے بارہ بجے تھے کہ مجلس اپنے اختتام کو پہنچی۔ کھانا کھاتے وقت سب ابراہیم کے گرد جمع ہو گئے۔ میں نے کہا: ’’کیا خوب عزاداری ہوئی۔ جوانوں نے اچھا ماتم کیا۔‘‘
ابراہیم نے مجھ پر اور جوانوں پر ایک معنی خیز نگاہ ڈالتے ہوئے کہا: ’’اہل بیتؑ کے ساتھ اپنے عشق کو اپنے آپ تک ہی محدود رکھو۔‘‘
جب اس نے ہمارے حیران چہروں کی طرف دیکھا تو کہا: ’’یہ لوگ اس لیے آتے ہیں کہ ایک سال تک کے لیے اپنے آپ کو حضرت ابوالفضل عباس علیہ السلام کی حفاظت میں دے دیں، لیکن جب تمہاری عزداری طولانی ہو جاتی ہے تو یہ تھک جاتے ہیں۔ تم لوگ تھوڑی سی عزاداری کے بعد ان لوگوں کو کھانا کھلا دیا کرو۔ اس کے بعد جتنا چاہو ماتم کرو اور عشق اہل بیتؑ کا اظہار کرتے رہو۔ ایسا کام نہ کرو کہ لوگ مجلسِ اہل بیتؑ میں آ کر تھکاوٹ کا شکار ہو جائیں۔‘‘
[1] مستدرک الوسائل: ج۱ ص386
مجلسِ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا
[شہیدؒ کے کچھ دوست]
ہم مسجد حاج ابوالفتح میں مجمع الذاکرین نامی ایک محفل میں گئے ہوئے تھے۔ اس مجلس میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل میں اشعار پڑھے جا رہے تھے اور ابراہیم انہیں لکھتا جا رہا تھا۔ مجلس کے آخر میں حاج علی انسانی نے مصائب پڑھنا شروع کیے۔
ابراہیم شدتِ غم سے بے حال ہو گیا۔ اشعار والی ڈائری بند کی اور اونچی اونچی آواز میں رونے لگا۔ مجھے اس کی اس حالت پر بہت تعجب ہوا۔ مجلس ختم ہونے کے بعد جب ہم گھر جا رہے تھے تو راستے میں وہ کہنے لگا: ’’انسان جب حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی مجلس میں آتا ہے تو اسے انؑ کے وجود مقدس کو محسوس کرنا چاہیے کیونکہ اس مجلس کی نسبت انؑ کے ساتھ ہوتی ہے۔‘‘
*****
ایک رات میں اصرار کر کے اسے محفل عید الزہراء سلام اللہ علیہا میں لے گیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ ابراہیم کو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے خاص عقیدت ہے لہٰذا وہ بہت خوش ہو گا۔
محفل میں جب ذاکر نے (اپنی دانست میں) حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی خوشنودی کے لیے (آپؑ کے دشمنوں کے بارے میں) نازیبا باتیں کیں تو ابراہیم نے محفل کے درمیان ہی مجھے اشارہ کیا اور ہم محفل سے اٹھ کر باہر آ گئے۔
راستے میں میں نے پوچھا: ’’لگتا ہے تم بہت ناراض ہو گئے ہو؟ صحیح کہہ رہا ہوں نا؟‘‘
وہ ہمیشہ کا اطمینان و سکون جو اس کے چہرے پر رہتا تھا، غائب تھا۔ وہ غصے میں اپنے ہاتھوں کو جھٹک رہا تھا۔ کہنے لگا: ’’ان محافل میں خدا نہیں ملتا۔ ہمیشہ ایسی جگہ پر جاؤ جہاں خدا و اہل بیتؑ کا ذکر ہو۔‘‘
اس نے کئی دفعہ اس بات کی تکرار کی۔ بعد میں میں نے جب ایسی محافل اور وحدت المسلمین کی حفاظت کے بارے میں علماء کی آراء دیکھیں تو اس وقت ابراہیم کی گہری نظروں کا ادراک ہوا۔
معرکہ فتح المبین میں جب ابراہیم زخمی ہوا تو ہم اسے جلدی جلدی دزفول لے گئے۔ اور فوجی ڈسپنسری کے ہال میں اسے بٹھا دیا۔ وہاں پر کافی تعداد میں زخمی داخل تھے۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ زخمی نالہ و فریاد کر رہے تھے۔ کسی کو آرام نہ تھا۔ بالآخر ہمیں ایک کونہ خالی مل گیا اور ابراہیم کو وہاں لٹا دیا۔ نرسوں نے ابراہیم کی گردن اور پاؤں پر پٹیاں باندھ دیں۔ اس وقت سب کے اعصاب شل ہوئے پڑے تھے۔ زخمیوں کی چیخ و پکار بہت زیادہ تھی۔ اچانک ابراہیم نے اپنی میٹھی آواز میں پڑھنا شروع کر دیا۔ اس نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شان میں اشعار پڑھنا شروع کر دیے۔ ’’یا زہراء سلام اللہ علیہا‘‘ ہمارے اس معرکہ فتح المبین کا کوڈورڈ بھی تھا۔ چند لمحات کے لیے پورے ہال پر ایک عجیب سا سکوت چھا گیا۔ کوئی زخمی بھی نالہ نہیں کر رہا تھا۔ گویا ہال میں سب کچھ مرتب و منظم ہو گیا تھا۔
جس طرف بھی نظر جاتی ہے سکون ہی سکون نظر آتا تھا۔ آنسوؤں کے قطرے تھے کہ زخمیوں اور نرسوں کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔ سب پُرسکون ہو چکے تھے۔
ابراہیم نے پڑھنا ختم کیا۔ ایک ڈاکٹر خاتون جو باقیوں کی نسبت کافی سن رسیدہ تھی اور اس نے درست طریقے سے حجاب بھی نہیں اوڑھا ہوا تھا، آگے بڑھی۔ وہ بہت زیادہ متاثر ہوئی تھی۔ آہستہ سے کہنے لگی: ’’تم بھی میرے بیٹے ہی کی طرح ہو! جوانو، تمہارے قربان جاؤں۔‘‘ اس کے بعد اس نے بیٹھ کر ابراہیم کے سر پر بوسہ دیا۔ ابراہیم کا چہرہ دیکھنے والا تھا۔ اس کے کان سرخ ہو چکے تھے۔ اس کے بعد اس نے شرم کے مارے چادر کو اپنے چہرے پر اوڑھ لیا۔
ابراہیم ہمیشہ کہا کرتا تھا: ’’خدا پر توکل کے بعد حضرات معصومین علیہم السلام بالخصوص حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے توسل کرنا مشکلات کو حل کر دیتاہے۔‘‘
*****
ہم ابراہیم سے ملنے کےلیے نجمیہ ہسپتال گئے ہوئے تھے۔ اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے کہ ابراہیم نے اجازت لے کر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے مصائب پڑھنا شروع کر دیے۔ دو ڈاکٹر آئے اور دور کھڑے ہو کر اسے دیکھنے لگے۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا: ’’کیوں، کیا ہوا؟‘‘
انہوں نے کہا: ’’کچھ بھی نہیں۔ ہم جہاز میں اس کے ساتھ ہی تھے۔ یہ بار بار بے ہوش ہو جاتا اور پھر ہوش میں آ جاتا لیکن اس حالت میں بھی یہ خوبصورت آواز میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شان میں کچھ نہ کچھ پڑھتا رہا۔‘‘
1982 کا موسمِ گرما
[مرتضیٰ پارسائیان]
1982 کے موسم گرما میں ابراہیم جب زخمی ہونے کی وجہ سے تہران میں تھا تو تعلیم و تربیت کے محکمے میں مصروف کار رہا۔ سروس کے ساتھ ساتھ اس نے کچھ ڈپلومے بھی حاصل کر لیے۔ اس کے علاوہ اس نے اس مختصر سی مدت میں بعض ثقافتی پروگراموں کا انعقاد بھی کیا۔
*****
وہ اپنی بغل کے نیچے بیساکھیوں کا سہارا لیے محکمہ تعلیم و تربیت کی سیڑھیوں سے اوپر نیچے آ جا رہا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر اسے سلام کیا: ’’آغا ابرام، کیا ہوا؟! اگر کوئی کام ہے تو میں انجام دے دیتا ہوں۔‘‘
کہنے لگا: ’’نہیں، یہ کام میرے اپنے کرنے کا ہے۔‘‘
اس کے بعد وہ کئی کمروں میں گیا اور دستخط لیے۔ اس کا کام ختم ہو گیا تھا۔ اب وہ اس عمارت سے باہر جانا چاہتا تھا۔
میں پوچھا: ’’یہ کیسا کاغذ تھا؟ کیوں اپنے آپ کو اس قدر مشکل میں ڈال رکھا تھا۔‘‘
کہنے لگا: ’’ایک اللہ کا بندہ دو سال سے استاد کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہا ہے لیکن ابھی تک اس کی نوکری کا کوئی مسئلہ بنا ہوا۔ میں نے اس کی مشکل حل کروائی ہے۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’کوئی فوجی بھائی تھا؟!‘‘
کہنے لگا: ’’شاید ان میں سے نہیں ہے لیکن اس نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ اس کا یہ مسئلہ حل کروا دوں۔ میں نے بھی دیکھا کہ یہ کام واقعاً میرے ہی کرنے کا ہے لہٰذا میں یہاں آ گیا۔‘‘
اس کے بعد وہ کہنے لگا: ’’جتنا ہو سکتا ہے انسان کو دوسروں کے کام آنا چاہیے خصوصاً اپنے ہم وطن لوگوں کے جو اتنے اچھے ہیں۔ ہم سے جو بھی بن پڑتا ہے ہمیں ان کے لیے انجام دیتے رہنا چاہیے۔ کیا تم نے امام خمینیؒ کا یہ فرمان نہیں سنا: ’’یہ عوام ہمارے ولیِّ نعمت ہیں؟ ‘‘
*****
اپنے محلے میں سبھی ابراہیم کو پہچانتے تھے۔ جو کوئی بھی ایک بار ابراہیم سےملتا، اس کے حسن سلوک کا دیوانہ ہو جاتا۔ اس کا گھر ہمیشہ اس کے دوستوں سے بھرا رہتا۔ مجاہدین جیسے ہی محاذ سے آتے تو اپنے گھروں میں جانے سے پہلے ایک دفعہ ابراہیم کے پاس ضرور آتے۔
ایک دن فجر کی نماز کے وقت مسجد محمدیہ (شہداء) کے امام جماعت نہ آئے تو لوگوں نے اصرار کر کے ابراہیم کو آگے کھڑا کر دیا اور اس کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ جب امام جماعت کو معلوم ہوا تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہا: ’’اگر میں بھی ہوتا تو ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھنا اپنے لیے اعزاز سمجھتا۔‘‘
*****
میں نے ابراہیم کو دیکھا کہ بیساکھی کے سہارے گلی میں جا رہا ہے۔ اس نے چند بار آسمان کی طرف دیکھا اور اپنا سر نیچے کر لیا۔
میں نے آگے بڑھ کر اس سے پوچھا: ’’آغا ابرام، کیا ہوا؟!‘‘
پہلے تو اس نے جواب نہ دیا مگر پھر میرے اصرار پر کہنے لگا: ’’ہر روز اس وقت تک کوئی نہ کوئی بندہ خدا میرے پاس آ جاتا تھا اور جیسے تیسے ہوتا میں اس کی مشکل حل کر دیتا تھا مگر آج صبح سے ابھی تک کوئی بھی میرے پاس نہیں آیا۔ میں ڈر رہا ہوں کہ کہیں مجھ سے کوئی ایسی خطا نہ ہو گئی ہو جس کے سبب خدا نے خدمت کی توفیق مجھ سے سلب کر لی ہو۔‘‘
روشِ تربیت
[جواد مجلسی راد، مہدی حسن قمی]
ہم آغا ابراہیم کے پڑوس ہی میں رہتے تھے۔ میری عمر اس وقت سولہ سال تھی۔ میں روزانہ دوسرے لڑکوں کے ساتھ گلی میں والی بال کھیلتا تھا۔ اس کے بعد اپنی چھت پر جا کر کبوتربازی میں مشغول ہو جاتا۔
ان دنوں میرے پاس تقریباً 170 کبوتر تھے۔ اذان ہوتے ہی میرا بھائی تو مسجد چلا جاتا مگر مجھے مسجد میں جانے کی عادت نہ تھی۔
سہ پہر کے وقت ہم والی بال کھیل رہے تھے۔ آغا ابراہیم اپنے گھر کے دروازے پر بیساکھیوں کے سہارے کھڑے ہمارا کھیل دیکھ رہے تھے۔ کھیل کے دوران گیند ان کے پاس چل گئی۔
میں گیند لینےگیا تو انہوں نے گیند اپنے ہاتھ میں لے لی۔ اس کے بعد گیندکو اپنے انگوٹھے پر بڑی خوبصورتی سے گھماتے ہوئے کہا: ’’یہ لو آغا جواد۔‘‘
مجھے اس بات پر بہت تعجب ہوا کہ وہ میرا نام جانتے ہیں۔ کھیل ختم ہونے تک میں کنکھیوں سے انہیں دیکھتا رہا۔ سارے کھیل کے دوران میں یہی سوچتا رہا کہ وہ میرا نام کیسے جانتے ہیں؟
کچھ دن بعد ہم دوبارہ کھیل رہے تھے۔ آغا ابراہیم آگے بڑھے اور کہنے لگے: ’’دوستو، ہمیں بھی کھیلنے دو گے؟‘‘ ہم نے کہا: ’’جی بالکل، کیوں نہیں! مگر کیا آپ والی بال بھی کھیل لیتے ہیں؟!‘‘
کہنے لگے: ’’اگر نہیں کھیل سکتے تو آپ لوگوں سے سیکھ لیں گے۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے اپنی بیساکھی ایک طرف رکھی، لنگڑاتے ہوئے ہمارے پاس آ گئے اور کھیلنے لگے۔
میں نے اس وقت تک کسی کو اتنا اچھا کھیلتے نہ دیکھا تھا۔
وہ ابھی تک زخمی تھے اور مجبور تھے کہ ایک ہی پاؤں کے سہارے کھڑے ہوں لیکن بڑی مہارت سے گیند کو ضربیں بھی لگا رہے تھے اور دفاع بھی کر رہے تھے۔
رات کو میں نے اپنے بھائی کو بتایا: ’’آپ آغا ابراہیم کو جانتے ہیں؟ بہت ہی حیرت انگیز مہارت سے والی بال کھیلتے ہیں۔‘‘
میرا بھائی ہنس دیا: ’’تم انہیں ابھی تک نہیں جانتے؟ ابراہیم سکولوں کے درمیان ہونے والے مقابلوں کے چیمپئن رہے ہیں اور کشتی کے بھی چیمپئن ہیں۔‘‘
میں نے حیرانی سے پوچھا: ’’سچ کہہ رہے ہیں؟ تو پھر انہوں نے کیوں کچھ نہیں بتایا!‘‘
میرے بھائی نے جواب دیا: ’’نہیں معلوم، فقط اتنا جان لو کہ وہ بہت عظیم آدمی ہیں۔‘‘
کچھ دن بعد ہم ایک بار پھر کھیل میں مصروف تھے کہ آغا ابراہیم آ گئے۔ دونوں ٹیموں کی خواہش تھی کہ وہ اس کی طرف سے کھیلیں۔ اس کے بعد وہ ہمارے ساتھ کھیلنے لگے۔ وہ بہت ہی اچھا کھیلے تھے۔
کھیل کا اختتام تھا کہ مسجد سے اذان ظہر کی آواز بلند ہوئی۔ ابراہیم نے گیند پکڑ لی اور کہا: ’’دوستو، میرے ساتھ مسجد چلو گے؟‘‘
ہم نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ اس کے بعد ہم نماز جماعت کے لیے چلے گئے۔
کچھ دن اسی طرح گزر گئے۔ اس عرصے میں ہم آغا ابراہیم کے شیفتہ ہو چکے تھے۔ ہم مسجد میں انہی کے لیے جاتے تھے۔ ایک دن انہوں نے دن کے کھانے پر ہماری دعوت بھی کی اور ہم اکٹھے باتیں کرتے رہے۔ اس دن کے بعد میں ہر وقت ان کے پاس جاتا۔
اگر ایک دن انہیں نہ دیکھتا تو دل ان کے لیے بے چین ہو جایا کرتا تھا۔ میں واقعاً بہت بے قرار ہو جاتا تھا۔ ایک دن ہم اکٹھے پہلوانی کے اکھاڑے میں چلے گئے۔ مختصر یہ کہ میں ان کے اخلاق و اطوار کا شدت سے عاشق ہو چکا تھا۔ وہ اپنی محبت اور دوستی کے ذریعے ہمیں مسجد اور نماز کی طرف کھینچ لائے تھے۔
آہستہ آہستہ وہ اپنی زخمی حالت سے بہتری کی طرف جا رہے تھے۔ اب وہ اپنے محاذ پر جانا چاہتے تھے۔ ایک رات ہم گلی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ مجھے معرکہ فتح المبین میں شامل تیرہ چودہ سالہ لڑکوں کے بارے میں بتا رہے تھے۔
وہ اسی طرح باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے کہا: ’’اگرچہ ان کا قد و قامت اور عمر تم سے بہت کم تھی مگر خدا پر توکل کرتے ہوئے انہوں نے بہادری کی کیا کیا داستانیں رقم کی ہیں۔ تم ہو کہ یہاں بیٹھے کر آسمان پر نظریں گاڑے ہوئے ہو کہ تمہارے کبوتر کیا کر رہے ہیں!!‘‘
اگلے دن میں نے اپنے تمام کبوتروں کو چھوڑ دیا اور محاذ پر چلا گیا۔
اس واقعے کو کئی سال گزر گئے۔ اب جبکہ میں تعلیمی امور کا ماہر ہوں تو اب سمجھا ہوں کہ آغا ابراہیم اپنے تربیتی کام کو کس قدر دقت اور صحیح طریقے سے انجام دیتے تھے۔ وہ کتنے خوبصورت انداز میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے تھے۔ وہ اتنے اچھے طریقے سے اپنا کام کرتے تھے کہ تربیتی امور کے ماہرین انہیں اپنے لیے نمونہ عمل سمجھتے تھے، اور وہ بھی ایسے زمانے میں کہ جب تربیتی طریقہ ہائے کار کا نام و نشان تک نہ ہوتا تھا۔
*****
نیمہ ٔشعبان تھا۔ میں اور آغا ابراہیم ایک گلی میں داخل ہوئے۔ گلی میں بہت اچھا چراغاں کیا گیا تھا۔ محلے کے نوجوان گلی کے آخری سرے پر جمع ہو گئے تھے۔ جب ہم ان کے نزدیک پہنچے تو دیکھا کہ سارے تاش اور جوا وغیرہ کھیل رہے تھے۔
آغا ابراہیم نے دیکھا تو بہت غضبناک ہوئے لیکن کچھ بھی نہ کہا۔ میں نے آگے بڑھ کر آغا ابرہیم کا تعارف کروایا۔
یہ میرے دوست اور والی بال اور کشتی کے چیمپئن ہیں۔ اس کے بعد جوانوں نے ابراہیم سے سلام دعا کی۔
اس کے بعد اس انداز میں ابراہیم نے مجھے کچھ پیسے دیے کہ کوئی متوجہ نہ ہونے پائے۔ پیسے دے کر کہا: ’’جاؤ، جلدی سے ۱۰ آئسکریم لے آؤ۔‘‘
اس رات ابراہیم کچھ آئسکریم، باتوں اور ہنسی مذاق کے ذریعے ہمارے محلے کے جوانوں کا دوست بن گیا۔
آخر میں اس نے تاش کے پتوں کے حرام ہونے کے بارے میں بات کی۔ جب ہم گلی سے نکلے تو تاش کے سارے پتے ٹکڑے ٹکڑے کر کے نالی میں بہائے جا چکے تھے۔
اچھا سلوک
[شہیدؒ کے بعض دوست]
ہم 17 شہریور روڈ سے گزر رہے تھے۔ میں موٹرسائیکل پر ابراہیم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک ایک موٹر سائیکل سوار گلی کے اندر سے تیزی سے روڈ پر آیا۔ ہمارے سامنے اس نے موڑ کاٹا اور ابراہیم نے تیزی سے بریک لگائی۔
موٹر سائیکل پر بیٹھا وہ جوان جس کا ظاہری حلیہ بھی کوئی اچھا نہ تھا، چلّانے لگا: ’’ہُو، کیا کر رہے ہو!‘‘ اس کے بعد وہ کھڑا ہو کر غصے سے ہماری طرف دیکھنے لگا۔
سب جانتے تھے کہ غلطی اسی کی ہے۔ میرا بھی دل چاہ رہا تھا کہ ابراہیم اپنے اس مضبوط جسم کے ساتھ نیچے اترے اور اسے ایک کرارا سا جواب دے، لیکن ابراہیم نے اس کی اس بدتمیزی کا جواب مسکراہٹ سے دیتے ہوئے کہا: ’’سلام، خدا تمہیں سلامت رکھے۔‘‘
وہ موٹر سائیکل سوار ہکا بکا رہ گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ اسے ایسے ردّ عمل کی کوئی توقع نہیں تھی۔ تھوڑی دیر خاموش رہ کر اس نے کہا: ’’سلام، مجھے معاف کر دیجیے، میں شرمندہ ہوں۔‘‘
اس کے بعد وہ چلا گیا اور ہم اپنے راستے پر ہو لیے۔
ابراہیم راستے میں بتانے لگا اور جو سوالات میرے ذہن میں پیدا ہو چکے تھے ان کا جواب دینے لگا: ’’تم نے دیکھا کہ کیا ہوا؟ ایک ہی سلام سے اس کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔ اوپر سے اس نے معذرت بھی کر لی۔ اب اگر میں بھی چلّانے اور جھگڑا کرنے لگتا تو سوائے اپنے اعصاب و اخلاق کا ستیا ناس کرنے کے کچھ نتیجہ نہ نکلتا۔‘‘
ابراہیم کا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کا طریقہ بذات خود کافی دلچسپ تھا۔ اگر وہ کسی کو کسی کام سے روکنا چاہتا تو اس کی کوشش ہوتی کہ یہ کام بالواسطہ طریقے سے انجام پا جائے، مثلاً اس کام کی معاشرتی اور طبی برائیوں اور نقصانات کی طرف اشارہ کرتا تا کہ مخاطب شخص خود بخود مطلوبہ نتیجے تک پہنچ جائے۔ اس وقت وہ اس برائی کے بارے میں دینی احکام بھی بطورِ دلیل بیان کر دیتا۔
ابراہیم کا ایک دوست نظربازی کی لت میں مبتلا تھا اور لڑکیوں کو تاڑتا رہتا تھا۔ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی غیر اخلاقی کام میں ملوث رہتا۔ کچھ دوستوں نے اسے برا بھلا کہہ کر اور اس پر غضبناک ہو کر اسے اس عادت سے روکنے کی کوشش بھی کی مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔
ایسی صورتحال میں کوئی بھی اسے اپنے پاس پھٹکنے نہ دیتا تھا لیکن ابراہیم اس سے کافی گرمجوشی سے ملتا تھا، حتی کہ اسے اپنے ساتھ اکھاڑے میں بھی لے آتا اور دوسروں کے سامنے اس کا کافی احترام کرتا تھا۔
کچھ دن گزرے تو ابراہیم نے اس سے بات کی۔ پہلے تو اس نے اسے غیرت دلاتے ہوئے کہا: ’’اگر کوئی تمہاری ماں اور بہن کے پیچھے پڑ جائے اور انہیں تنگ کرے تو تم کیا کرو گے؟‘‘
اس لڑکے نے غصے سے کہا: ’’میں اس کی آنکھیں نکال لوں گا۔‘‘
تو ابراہیم نے بہت ہی آرام سے اسے سمجھایا: ’’بہت اچھے، تم اپنی ناموس کے بارے میں تو اتنے غیرتمند ہو تو پھر یہی برا کام تم خود کیوں کرتے ہو؟ اگر ہر کوئی دوسروں کی ناموس کے پیچھے پڑ جائے تو معاشرہ تباہ ہو جائے گا اور اصلاح کی گنجائش بھی نہیں رہے گی۔‘‘
اس کے بعد ابراہیم نے نامحرم کی طرف دیکھنے کے حوالے پیغمبر اکرمﷺ کی حدیث بیان کرتے ہوئے کہا: ’’اپنی آنکھوں کو نامحرم سے محفوظ رکھو تا کہ تم عجائب کو دیکھ سکو۔[1]‘‘
اس کے بعد اس نے اور بھی بہت سی دلیلیں دیں۔ وہ لڑکا بھی ابراہیم کی باتوں کی تائید کرتا جا رہا تھا۔ اس کے بعد ابراہیم نے اسے کہا: ’’تم خود فیصلہ کر لو۔ اگر ہمارے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو تمہیں یہ کام چھوڑنا پڑے گا۔‘‘
ابراہیم کا اچھا سلوک اور مضبوط دلائل نے اس لڑکے کی عادت بدل کر رکھ دی اور وہ محلے کا ایک اچھا لڑکا بن گیا۔ ساری بری عادتیں اس نے چھوڑ دیں۔ یہ لڑکا ان افراد میں سے ایک مثال تھا جنہیں ابراہیم نے اپنے اچھے سلوک، استدلال اور برمحل گفتگو کی وجہ سے تبدیل کر دیا تھا۔
ہمارے محلے کی ایک گلی اب بھی اسی لڑکے کے نام پر ہے۔
*****
1982 کا موسمِ خزاں تھا۔ ہم موٹر سائیکل پر بیٹھے آزادی چوک کی طرف جا رہے تھے۔ ابراہیم نے محاذ پر جانا تھا اور میں چاہتا تھا کہ اسے مغربی بس اڈے تک پہنچا دوں۔
ایک نئے ماڈل کی گاڑی ہمارے پاس سے گزری۔ ڈرائیور کے ساتھ ایک خاتون بیٹھی ہوئی تھی جس نے مناسب طریقے سے حجاب نہیں اوڑھ رکھا تھا۔ اس نے ابراہیم کو دیکھا اور کوئی نامناسب بات کی۔
ابراہیم نے کہا: ’’جلدی سے اس کا پیچھا کرو!‘‘
میں بھی تیزی سے گاڑی کے پاس پہنچا اور ڈرائیور کو اشارہ کیا کہ گاڑی سائیڈ پر کرو۔ میں نے سوچا کہ اب کے جھگڑا ہوا کہ ہوا۔
گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی ہو گئی۔ ہم بھی اس کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے۔
میں ابراہیم کے ردّعمل کا انتظار کر رہا تھا۔ ابراہیم تھوڑی دیر تک تو خاموش رہا پھر وہیں موٹر سائیکل پر بیٹھے بیٹھے ڈرائیور کے ساتھ گرمجوشی سے سلام و احوال پرسی کرنے لگا۔
ڈرائیور ہمارے ظاہری حلیے اور اس خاتون کے ہمارے ساتھ سلوک کو دیکھ چکا تھا، اسے اس طرح کے سلام کی توقع نہ تھی۔
جواب سلام کے بعد ابراہیم نے کہا: ’’میں بہت معذرت چاہتا ہوں کہ آپ کی بیگم نےمجھے اور سب داڑھی والے افراد کو برا بھلا کہا ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ۔۔۔‘‘
اس شخص نے ابراہیم کی بات کاٹتے ہوئے کہا: ’’میری بیگم نے غلط کیا ہے۔‘‘
ابراہیم کہنے لگا: ’’نہیں جناب، ایسا نہ کہیں۔ میں فقط اتنا جاننا چاہتا ہوں کہ کیا میری گردن پر ان کا کوئی حق ہے؟ یا میں نے کوئی غلط کام کیا ہے کہ یہ میرے ساتھ ایسا سلوک کر رہی ہیں؟‘‘
اس شخص کو ہماری طرف سے ایسے رد عمل کی اصلاً توقع نہ تھی۔ وہ گاڑی سے اتر آیا اور ابراہیم کا ماتھا چوم کر کہنے لگا: ’’نہیں میرے دوست، تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے بلکہ ہم خطاکار ہیں۔ میں بہت شرمندہ ہوں۔‘‘ اس کے بعد وہ ہم سے بہت زیادہ معذرت خواہی کرتے ہوئے چلا گیا۔
ابراہیم کا یہ رویہ اور سلوک اور وہ بھی اُس زمانے میں، ہمارے لیے بہت ہی عجیب تھا۔
لیکن وہ ایسے رویے سے ہمیں لوگوں کے ساتھ سلوک کرنے کا صحیح طریقہ بتاتا تھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا: ’’زندگی میں وہی انسان سب سے زیادہ کامیاب ہے جو دوسروں کے غصے کے سامنے صبر کا مظاہرہ کرے اور غیر عقلی کام انجام نہ دے۔‘‘
اور اس کے رویوں میں بھی یہی چیز اس کی کامیابی کا راز تھی۔
اس کے اس حسن سلوک نے مجھے اس آیت کی یاد دلا دی: ’’ اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر (فروتنی سے) دبے پاؤں چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے گفتگو کریں تو کہتے ہیں: سلام۔[2]‘‘
[1] میزان الحکمۃ: ج10، ص72
[2] سورہ فرقان: 63
سانپ کا قصہ
[مہدی عموزادہ]
رات کے دس بجے تھے۔ ہم گلی میں فٹ بال کھیل رہے تھے۔ میں نے محلے کے لڑکوں سے آغا ابراہیم کا نام سن تو رکھا تھا مگر ابھی تک ان سے ملاقات نہ ہوئی تھی۔
ہم اپنے کھیل میں مشغول تھے تو میں نے دیکھا کہ گلی کے سرے سے ایک شخص بیساکھی کے سہارے ہماری طرف آ رہا ہے۔ اس کی لمبی داڑھی اور زخمی پاؤں سے میں سمجھ گیا کہ وہی ہیں۔
وہ گلی کی ایک طرف کھڑے ہو کر ہمارا کھیل دیکھنے لگے۔ ایک لڑکے نے پوچھا: ’’آغا ابرام، کھیلیں گے؟‘‘
انہوں نے کہا: ’’اس پاؤں کے ساتھ تو میں نہیں کھیل سکتا البتہ اگر تم کہتے ہو تو میں گول کیپر کے طور پر کھڑا ہو جاتا ہوں۔‘‘
میں بہت اچھا کھیلتا تھا لیکن میں نے لاکھ جتن کیے مگر گول نہ کر سکا۔ وہ کسی پیشہ ور کھلاڑی کے طرف کھیل رہے تھے۔
آدھا گھنٹہ گزرنےکے بعد جب گیند میرے پاؤں میں تھی تو انہوں نےکہا: ’’دوستو، کیا تمہارا نہیں خیال کہ اب کافی دیر ہو گئی ہے۔ لوگ اب سونا چاہتے ہوں گے۔‘‘
ہم نے کھیل کا سامان جمع کیا اور اس کے بعد آغا ابراہیم کو گھیر کر بیٹھ گئے۔ لڑکوں نے کہا: ’’اگر ممکن ہو تو محاذ کے واقعات ہمیں سنائیے۔‘‘
اس رات میں نے بہت ہی عجیب واقعہ سنا جسے میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔
آغا ابراہیم کہہ رہے تھے: ’’مغربی محاذ پر میں اور جواد افراسیابی دشمن کے علاقوں کی ریکی کے لیے گئے ہوئے تھے۔ آدھی رات کو وقت تھا اور ہم عراقی مورچوں کے پاس جا کر چھپ گئے تھے۔‘‘
جب اجالا ہوا تو ہم دشمن کے ٹھکانوں کی ریکی کا آخری مرحلہ مکمل کرنے لگے۔ ہم اپنے کام میں مشغول تھے کہ اچانک میری نظر ایک بہت ہی بڑے سانپ پر پڑی جو چپکے چپکے ہماری طرف آ رہا تھا۔
میں نے اس وقت تک اتنا بڑا سانپ نہ دیکھا تھا۔ سانس ہمارے سینوں میں اٹک کر رہ گئی تھی۔ ہم کچھ بھی نہ کر سکتے تھے۔ اگر سانپ کی طرف گولی چلاتے تو عراقی متوجہ ہو جاتے اور اگر وہاں سے بھاگتے تو پھر بھی عراقی ہمیں دیکھ لیتے۔ سانپ تیزی سے ہماری طرف بڑھ رہا تھا۔ کچھ فیصلہ کرنے کی فرصت ہی نہیں تھی۔
میں نے اپنا تھوک نگلا اور ڈر کے مارے بیٹھ کر اپنی آنکھیں بند کر کے بسم اللہ کہا اور اس کے بعد خدا کو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے حق کا واسطہ دیا۔
لمحات کافی مشکل سے گزر رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد جواد نےمیرے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔ میں نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ تعجب سے دیکھا کہ سانپ جیسے ہی ہمارے نزدیک پہنچا تو اس نے اپنا راستہ تبدیل کر لیا اور ہم سے دور ہو گیا۔
اس رات آغا ابراہیم نے کچھ مزاحیہ واقعات بھی ہمیں سنائے۔ ہم بہت ہنسے۔
اس کے بعد انہوں نے کہا: ’’کوشش کرو کہ رات کے آخری پہر جب لوگ آرام کرنا چاہتے ہوں، نہ کھیلا کرو۔‘‘
اگلے دن سے میں ہر وقت آغا ابراہیم کی تلاش میں رہتا تھا یہاں تک کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ فجر کی نماز مسجد ہی میں پڑھتے ہیں تو میں بھی ان کی خاطر مسجد میں جانے لگا۔
مجھ پر اور محلے کے دوسرے لڑکوں پر آغا ابراہیم کی تاثیر اتنی زیادہ تھی کہ ہم بھی انہی کی طرح آہستہ آہستہ اور خضوع و خشوع کے ساتھ نماز پڑھنے لگ گئے تھے۔
کچھ دنوں بعد جب وہ محاذ پر جانے لگے تو ہم میں ان سے دوری کی طاقت نہ تھی لہٰذا ہم بھی محاذ پر چلے گئے۔
خدا کی خوشنودی
[عباس ہادی]
ابراہیم کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ عام طور پر کوئی بھی اس کے کاموں سے آگاہ نہیں ہوتا تھا، سوائے ان لوگوں کے جو اس کے ساتھ رہتے تھے اور وہ خود اس کے کاموں کا مشاہدہ کرتے تھے۔ لیکن وہ خود جب تک ضروری نہ ہوتا اپنے کاموں کے بارے میں بات نہیں کرتا تھا۔ ہمیشہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا رہتا کہ جو کام خدا کی رضا کےلیے کیا جائے اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یا کبھی کہتا کہ ہمارے کاموں میں یہی خرابی ہے کہ ہم خدا کے علاوہ باقی سب لوگوں کی رضامندی کے لیے کام کرتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’جو کوئی بھی اپنے دل اور اعمال کو غیر خدا سے پاک کر لیتا ہے وہ خداوند کریم کا منظورِ نظر قرار پاتا ہے۔[1]‘‘
عظیم عرفاء بھی اپنے کلمات میں اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں: ’’اگر خدا کے لیے کوئی کام کیا جائے تو وہ قدر و منزلت کا حامل ہوتا ہے۔ یا ہر وہ سانس جو انسان غیر خدا کے لیے لیتا ہے آخرت میں اس کے لیے خسارے کا باعث بنے گا۔‘‘
جن دنوں ابراہیم زخمی تھا تو ہم تہران کے ایک اکھاڑے میں گئے اور جا کر ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ ہر ماہر پہلوان کے داخل ہوتے ہی مرشد کی گھنٹی بج اٹھتی اور کھیل چند لمحات کے لیے رک جاتا۔ داخل ہونے والا دور ہی سے دوسرے کھلاڑیوں کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتا اور مسکراتا ہوا ایک جگہ پر جا کر بیٹھ جاتا۔
ابراہیم غور سے لوگوں کی حرکات دیکھ رہا تھا۔ میری طرف پلٹ کر آہستہ سے کہنے لگا: ’’انہیں دیکھو کہ گھنٹی کی آواز پر کتنے خوش ہو جاتے ہیں۔‘‘
اس کے بعد کہا: ’’بعض لوگ اکھاڑے کی گھنٹی کے عاشق ہیں۔ جتنا یہ اس گھنٹی کے عاشق ہیں اتنا ہی خدا کے عاشق ہو جاتے تو زمین پر نہ رہتے بلکہ آسمانوں میں اڑانیں بھر رہے ہوتے۔ دنیا یہی ہے۔ جب تک انسان دنیا کا عاشق ہے اور اس غرق ہے، اس کی یہی حالت رہتی ہے۔ لیکن اگر انسان آسمان کی طرف نگاہ کرے اور اپنے کام خدا کے لیے انجام دے تو یقیناً اس کی زندگی بدل جاتی ہے اور وہ زندگی کا حقیقی معنی و مفہوم سمجھ لیتا ہے۔‘‘
پھر کہنے لگا: ’’اکھاڑے میں اکثر لوگ یہی دیکھنا چاہتے ہیں کہ کون دوسروں سے زیادہ طاقتور ہے اور کون جلدی تھک جاتا ہے۔ اگر تم کسی دن رِنگ ماسٹر بن جاؤ اور دیکھو کہ کوئی تھک گیا ہے تو خدا کی رضا کے لیے جلدی سے کھیل کو بدل دو۔ میں جن دنوں رنگ ماسٹر تھا تو میں نے ایسا نہیں کیا مگر اس سے میری کچھ خاص غرض نہ ہوتی تھی۔ میں تو ویسے ہی دوستوں میں مشہور ہو گیا، لیکن تم ایسا کام نہ کرنا۔‘‘
وہ یہ بھی کہتا تھا: ’’انسان کو ہر کام حتی کہ اپنے ذاتی کام بھی خدا کی خوشنودی کے لیے کرنا چاہییں۔‘‘
آگاه باش عالم هستی ز بهر توست آگاہ رہو کہ کائنات تمہارے ہی دم سے ہے |
غیر از خدا هر آنچه بخواهی شکست توست خدا کے علاوہ تم جو کچھ بھی چاہو تو شکست سے دوچار ہو گے |
*****
جمعہ کی صبح ہونے والی تھی۔ ابراہیم خون آلود کپڑوں میں ملبوس گھر میں داخل ہوا۔ بہت ہی آہستہ سے اپنے کپڑے بدلے اور فجر کی نماز پڑھ کر کہنے لگا: ’’عباس، میں اوپر سونے جا رہا ہوں۔‘‘
لگ بھگ ظہر کا وقت تھا کہ گھر کا دروازہ کھٹکنے کی آواز آئی۔ کوئی مسلسل دروازہ کوٹے جا رہا تھا۔ ماں نے جا کر دروازہ کھولا تو ہماری ہمسائی تھی۔ سلام کرنے کے بعد وہ غصے سے کہنے لگی: ’’کیا تمہارا یہ ابراہیم میرے بیٹے کا ہم عمر ہے؟ کل رات وہ میرے بیٹے کو موٹرسائیکل پر بٹھا کر باہر لے گیا اور ایکسیڈنٹ کر کے اس کا پاؤں توڑ لایا۔‘‘
پھر کہنے لگی: ’’دیکھو بہن، میں نے اپنے بیٹے کو بہترین سکول میں داخل کروایا ہوا ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ تمہارے بیٹے جیسے لڑکوں سے اس کی دوستی ہو۔‘‘
ہماری ماں اس سارے قضیے سے بے خبر تھیں، بہت پریشان ہوئیں اور معذرت خواہی کرتے ہوئے حیرانی سے کہنے لگیں: ’’مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ آپ کیا کہہ رہی ہیں لیکن میں پھر بھی ابراہیم سے بات کروں گی۔ آپ ہمیں معاف کر دیں۔‘‘
میں ان کی باتیں سن رہا تھا، دوڑتا ہوا دوسری منزل پر چلا گیا۔ ابراہیم کو جگا کر پوچھا: ’’بھائی، تم نے کیا کیا ہے؟‘‘
اس نے پوچھا: ’’ہوا کیا ہے؟‘‘
میں نے پوچھا: ’’تم نے ایکسیڈنٹ کیا؟‘‘
وہ اچانک اٹھ بیٹھا اور تعجب سے پوچھا: ’’ایکسیڈنٹ؟ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘
میں نے کہا: ’’مگر تم نے سنا نہیں ہے۔ دروازے پر محمد کی ماں کھڑی تھی اور اس نے اچھا خاصا شور مچارکھا تھا۔‘‘
ابراہیم تھوڑی دیر سوچنے کے بعد کہنے لگا: ’’اچھا، خدا کا شکر ہے کہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہو گیا۔‘‘
اسی روز سہ پہر کے وقت محمد کی ماں اور باپ پھولوں کا ایک گلدستہ اور مٹھائی کا ڈبہ لیے ابراہیم سے ملنے آ گئے۔ وہ ہمسائی مسلسل معذرت خواہی کر رہی تھی۔ ہماری ماں نے تعجب سے کہا: ’’بہن، نہ تمہاری صبح والی باتوں کی سمجھ آئی ہے اور نہ ہی ابھی والی۔‘‘ ہمسائی مسلسل کہے جا رہی تھی: ’’خدا کی قسم، شرمندگی کے مارے مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کہوں۔ محمد نے ہمیں سارا ماجرا بتا دیا ہے۔ محمد نے بتایا ہے کہ اگر آغا ابراہیم نہ پہنچتے تو نہ جانے میرا کیا حال ہو جاتا۔ محلے کے لڑکوں نے اس وجہ سے ہمیں یہ بتایا کہ ابراہیم اور محمد اکٹھے تھے اور ان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے تا کہ ہم پریشان نہ ہو جائیں۔ بہن، میں نے فیصلہ کرنے میں جلدی کی اور بغیر سوچے سمجھے بہت کچھ کہہ دیا۔ اب بہت بے چین ہوں۔ آپ کو خدا کا واسطہ مجھے معاف کر دیں۔ میں نے محمد کے باپ سے بھی کہا ہے کہ کتنی بری بات ہے کہ ابراہیم چند ماہ سے زخمی ہے، ابھی تک اس کا پاؤں بھی ٹھیک نہیں ہوالیکن ہم اس کی عیادت کو نہیں گئے۔ اب اسی لیے ہم حاضر ہوئے ہیں۔‘‘
ماں نےپوچھا: ’’میں سمجھ نہیں پا رہی۔ مگر آپ کے محمد کو ہوا کیا ہے؟‘‘
اس ہمسائی نے بتانا شروع کیا: ’’شب جمعہ کو آدھی رات کے وقت مسجد کے بسیجی جوان ایک سڑک پر چیکنگ میں مصروف تھے۔ محمد سڑک کے درمیان دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ اچانک اس کے ہاتھ سے ٹریگر دب گیا اور غلطی سے گولی اس کی بندوق سے نکل کر اس کے اپنے پاؤں پر جا لگی۔ وہ زخمی پاؤں کے ساتھ وہیں سڑک پر گر گیا اور اس کے پاؤں سے کافی خون بہنے لگا۔ ابراہیم اسی وقت موٹرسائیکل پر وہاں سے گزر رہا تھا۔ وہ فوراً محمد کے پاس آیا اور ایک دوست کی مدد سے محمد کےزخم کو باندھا اور پھر ہسپتال لے گیا۔‘‘
ہمسائی کی باتیں ختم ہوئیں تو میں نے پلٹ کر ابراہیم کو دیکھا۔ وہ پورے اطمینان سے کمرے کے کونے میں بیٹھا تھا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ جو کوئی بھی خدا کے لیے کام انجام دیتا ہے اسے لوگوں کی باتوں پر دھیان نہیں دینا چاہیے۔
[1] غرر الحکم: ص538
اخلاص
[عباس ہادی]
ہم ابراہیم کے ساتھ کھیل کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ وہ کہنے لگا: ’’میں جب بھی ورزش یا کشتی کے مقابلوں پر جاتا تھا تو ہمیشہ باوضو ہو کر جاتا تھا اور مقابلے سے پہلے ہمیشہ دو رکعت نماز پڑھتا تھا۔‘‘
میں نے پوچھا: ’’کون سی نماز؟‘‘
اس نے جواب دیا: ’’دو رکعت نماز مستحب۔ اور اس میں خدا سے یہ دعا کرتا تھا کہ مقابلے کے دوران کسی کو مجھ سے کوئی اذیت نہ پہنچے۔‘‘
ابراہیم گناہ کی قریب بھی نہ پھٹکتا تھا، یہی وجہ تھی کہ سارے دوستوں کے لیے نمونہ عمل تھا۔ یہاں تک کہ اگر کسی محفل میں کوئی گناہ کی بات ہو رہی ہوتی تو وہ فوراً موضوع تبدیل کر دیتا۔ وہ جب بھی دیکھتا کہ اس کے دوستوں میں سے کوئی کسی کی غیبت کر رہا ہے وہ مسلسل کہنا شروع کر دیتا: ’’صلوات پڑھیے۔‘‘ یا اس کے علاوہ کسی بھی طریقے سے موضوع گفتگو کو بدل دیتا۔
سوائے اصلاح کی کبھی کسی کی برائی نہیں کرتا تھا۔
کبھی بھی تنگ یا چھوٹی آستینوں والا لباس نہیں پہنتا تھا۔ کئی بار تو اپنے آپ کو سخت اور مشکل کاموں میں مصروف کر دیتا۔ جس وقت اس سے اس بارے میں سوال کرتے تو جواب دیتا: ’’انسان کے نفس کے لیے ایسے کام بہت ضروری ہوتے ہیں۔‘‘
شہید جعفر جنگروی بتاتا تھا: ’’ایک بار انجمن کا کوئی پروگرام ختم کر کے ہم لوگ اکٹھے بیٹھ کر آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ ابراہیم دوسرے کمرے میں اکیلا بیٹھا اپنی ہی مستی میں گم تھا۔ جب سب دوست چلے گئے تو میں ابراہیم کے پاس آ گیا۔ وہ ابھی تک میری طرف متوجہ نہ ہوا تھا۔ میں نے تعجب سے دیکھا کہ وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک سوئی کو اپنے چہرے اور پپوٹوں پر چبھوتا۔ اچانک میں نے حیران ہو کر پوچھا: ’’کیا کر رہے ہو ابرام بھائی؟‘‘ تو وہ میری طرف متوجہ ہو گیا اور چونک کر اپنی حالت سے باہر نکل آیا۔ پھر تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد کہنے لگا: ’’کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’تمہیں اپنی جان کی قسم ابرام۔ تمہیں بتانا پڑے گا کہ تم اپنے چہرے پر سوئی کیوں چبھو رہے تھے؟‘‘ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد روہانسا ہو کر کہنے لگا: ’’جو آنکھ نامحرم پر پڑے، اس کی یہی سزا ہے۔‘‘ اس وقت تو میں سمجھ نہ سکا کہ ابراہیم کیا کر رہا ہے اور اس کی ان باتوں کا کیا مطلب ہے؟ لیکن بعد میں جب عظیم لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں پڑھا تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ بھی گناہ سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو تنبیہ کرتے رہتے تھے۔‘‘
اس کی دوسری اہم صفت نامحرم سے دوری بھی تھی۔ اگر وہ کسی نامحرم حتی کہ اپنی کسی رشتہ دار خاتون سے بھی بات کرنا چاہتا تو اپنے سر کو اوپر نہیں اٹھاتا تھا۔ اس کے دوست کہتے تھے کہ ابراہیم کو نامحرم خواتین سے الرجی تھی۔
امام محمد باقر علیہ السلام کا کس قدر پیارا فرمان ہے: ’’نامحرم خواتین سے گفتگو کرنا شیطان کے تیروں میں سے ایک ہے۔‘‘
*****
ابراہیم کھانا کھلانے کو بہت زیادہ اہمیت دیتا تھا۔ ہمیشہ اپنے دوستوں کی اپنے گھر دعوت کرتا اور انہیں کھانا کھلاتا تھا۔ جن دنوں وہ زخمی ہونے کی وجہ سے گھر پر ہی تھا تو روزانہ کھانے کا اہتمام کرتا، جو کوئی بھی اس کی ملاقات کو آیا ہوتا اسے اپنے دسترخوان پر بٹھا لیتا، اس کی مہمان نوازی کرتا اور اس کام سے لطف اندوز ہوتا۔ وہ اپنے دوستوں سے کہتا تھا: ’’ہم تو وسیلہ ہیں۔ یہ رزق تمہارا ہی ہے۔ مومنین کا رزق بابرکت ہوتا ہے۔۔۔‘‘
انجمنوں اور مذہبی پروگراموں میں بھی وہ ایسا ہی تھا۔ جب دیکھتا کہ میزبان کو مہمان نوازی میں کچھ مشکل پیش آ رہی تو بغیر کچھ کہے سب مہمانوں اور عزاداروں کے لیے کھانا بنا دیتا۔ وہ کہتا تھا: ’’مجلس امام حسین علیہ السلام کو ہر لحاظ سے مکمل ہونا چاہیے۔‘‘
ہر شب جمعہ کو بھی بسیج کے پروگراموں کے بعد دوستوں کے لیے کھانا بنایا کرتا تھا۔
کھانا کھانے کے بعد ہم سب اکٹھے حضرت عبدالعظیم کی زیارت پر یا بہشت زہرا چلے جاتے۔
بسیج اور انجمن کے جوان اس عرصے کو کبھی بھی بھول نہیں سکتے۔ اگرچہ وہ خوبصورت اور ناقابل فراموش لمحات زیادہ عرصے تک باقی نہ رہ سکے۔
ایک بار میں نے ابراہیم سے کہا: ’’بھائی، یہ اتنے پیسے تم کہاں سے لاتے ہو؟! محکمہ تعلیم و تربیت سے ماہانہ دو ہزار تومان تنخواہ لیتے ہو لیکن اس سے کئی گنا زیادہ دوسروں پر خرچ کر دیتے ہو۔‘‘
میرے چہرے پر اپنی نگاہیں ڈالتے ہوئےکہنے لگا: ’’روزی دینے والا خدا ہے۔ میں تو ان پروگرموں میں فقط وسیلہ ہوں۔ میں نے خدا سے دعا کی ہے کہ کسی وقت بھی میری جیب خالی نہ رہے۔ خدا بھی وہاں وہاں سے میرے لیے خیر و برکت کے اسباب پیدا کر دیتا ہے جہاں سےمیری توقع بھی نہیں ہوتی۔‘‘
عوام کی حاجات اور نعمتِ پروردگار
[شہیدؒ کے بعض دوست]
میں ابراہیم کے ساتھ تھا اور ہم دونوں کہیں دور سے اپنے گھر کی طرف واپس آ رہے تھے۔ ایک معمر شخص اپنی بیوی بچوں کے ساتھ سڑک کے کنارے کھڑا تھا۔ اس نے ہاتھ ہلایا تو میں نے موٹر سائیکل روک لی۔ اس نے ایک جگہ کا پتا معلوم کیا اور ہمارا جواب سننے کے بعد اپنی مشکلات بیان کرنا شروع کر دیں۔ اس کی ظاہری وضع قطع سے بالکل نہیں لگتا تھا کہ وہ کوئی نشئی یا گداگر ہے۔ ابراہیم نے موٹر سائیکل سے اتر کر اپنی جیبیں ٹٹولنا شروع کر دیں لیکن اسے کچھ نہ ملا۔
مجھے کہنے لگا: ’’امیر، تمہارے پاس کچھ ہے؟‘‘ میں نے بھی اپنی جیبوں میں ہاتھ مارا مگر اتفاق سے میرے پاس بھی اس وقت ایک پیسہ تک نہ تھا۔
ابراہیم کہنے لگا: ’’تمہیں خدا کا واسطہ، ایک بار پھر دیکھو۔‘‘ میں نے دوبارہ دیکھا مگر کچھ بھی نہ ملا۔
ہم نے اس معمر شخص سے معذرت کی اور اپنی راہ لی۔ راستے میں میں نے موٹرسائیکل کے عقبی شیشے سے ابراہیم کو دیکھا کہ وہ رو رہا تھا۔
اتنی سردی بھی نہیں تھی کہ اس کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے ہوں، لہٰذا میں نے موٹر سائیکل کو سڑک کنارے کھڑا کیا اور حیرانی سے پوچھا: ’’ابرام جان، رو رہے ہو؟!‘‘
اس نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا: ’’ہم ایک ضرورتمند انسان کی مدد نہ کر سکے۔‘‘
میں نے کہا: ’’ہمارے پاس پیسے بھی تو نہیں تھے، لہٰذا ہم نے کوئی گناہ نہیں کیا۔‘‘
کہنے لگا: ’’میں جانتا ہوں مگر میرا دل اس کے لیے کڑھ رہا ہے۔ ہمیں اس کی مدد کی توفیق نہ ہو سکی۔‘‘
میں خاموش ہو گیا اور کوئی جواب نہ دیا۔ اس کے بعد ہم چل پڑے۔ لیکن مجھے ابراہیم کی نیک نیتی اور صاف دلی پر بہت رشک آنے لگا۔
اگلے دن میں ابراہیم سے ملا تو وہ کہنے لگا: ’’آئندہ میں پیسوں کے بغیر کبھی گھر سے باہر نہیں نکلوں گا تا کہ کل جیسا واقعہ دوبارہ پیش نہ آئے۔‘‘
ابراہیم کی طرف سے لوگوں کی مشکلات حل کرنے پر مجھے حضرت سید الشہداء علیہ السلام کی وہ خوبصورت حدیث یاد آ گئی، جس میں آپؑ فرماتے ہیں: ’’لوگوں کی حاجتوں کا تمہاری طرف پلٹنا تم پر خدا کی ایک نعمت ہے، لہٰذا اسے پورا کرنے میں کوتاہی نہ برتو کیونکہ یہ نعمت ختم ہو جانے والی ہوتی ہے۔[1]‘‘
*****
ابراہیم زخمی ہونے کی وجہ سے چھٹیوں پر تھا۔ اس کی چھٹیوں کے آخری ایام تھے۔ ایک دن اس نے میرے گھر کی دروازے کی گھنٹی بجائی اور سلام و احوال پرسی کے بعد کہنے لگا: ’’آج تمہیں گاڑی کی ضرورت تو نہیں ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں، ایسے ہی گھر کے سامنے کھڑی ہے۔‘‘
اس نے مجھ سے گاڑی لی اور کہنے لگا: ’’سہ پہر تک واپس آ جاؤں گا۔‘‘
سہ پہر کے وقت وہ گاڑی لے آیا۔ میں نے پوچھا: ’’کہاں جانا تھا؟!‘‘
کہنے لگا: ’’کہیں نہیں، بس کچھ سواریاں کرائے پر لے کر گیا تھا۔‘‘
میں نے ہنس کر کہا: ’’مذاق کر رہے ہو؟!‘‘
اس نے جواب دیا: ’’نہیں، اچھا، اگر فارغ ہو تو اٹھو چلیں، کچھ کام ہیں۔‘‘
میں گھر کے اندر جانے لگا تو وہ مجھے کہنے لگا: ’’اگر گھر میں چاول، تیل وغیرہ کچھ اضافی پڑا ہو تو لیتے آنا۔‘‘
میں گھر کے اندر گیا اور کچھ چاول اور تیل لے آیا۔ اس کے بعد ہم ایک دکان پر گئے۔ ابراہیم نے وہاں سےتھوڑا گوشت اور مرغی وغیرہ خریدی اور آ کر سوار ہو گیا۔ وہ دکان دار کو ٹوٹے ہوئے پیسے دےرہا تھا تو میں سمجھ گیا کہ یہ وہی پیسے ہیں جو اس نے سواریاں ڈھو کر جمع کیے ہیں۔
اس کے بعد ہم شہر کے جنوبی حصے کی طرف چلے گئے۔ وہاں کچھ لوگوں کے گھروں میں گئے۔ میں انہیں نہیں جانتا تھا۔ ابراہیم دروازہ کھٹکھٹاتا اور سامان انہیں دے کر کہتا: ’’ہم محاذ سے آئے ہیں۔ یہ آپ لوگوں کا حصہ ہے۔‘‘ وہ ایسے بات کرتا تھا کہ مخاطب کو کسی قسم کا احساسِ شرمندگی نہ ہو۔ حتی کہ وہ اپنا تعارف تک نہیں کرواتا تھا۔
یہ تو مجھے بعد میں پتا چلا کہ جن گھروں میں ہم گئے تھے وہ کچھ مجاہدین کے گھر تھے۔ ان خاندانوں کے مرد محاذ پر مصروفِ جنگ تھے جس کی وجہ ابراہیم ان کی دیکھ بھال کرتا رہتا تھا۔ اس کے کاموں نے مجھے امام صادق علیہ السلام کی یہ حدیث یاد دلا دی: ’’ایک مسلمان کی حاجت برآوری کے کوشش کرنا ستر بار خانہ خدا کا طواف کرنے سے بہتر اور قیامت کے دن حفظ و امان کا باعث ہے۔[2]‘‘
یہ نورانی حدیث ابراہیم کی زندگی کے لیے مشعلِ راہ تھی۔ وہ اپنی ساری کوششیں لوگوں کی مشکلات حل کرنے میں صرف کیا کرتا تھا۔
*****
ہائی سکول کے دوران ابراہیم سہ پہر کو بازار میں کام کیا کرتا تھا اور اس سے اپنے لیے کچھ جمع خرچ اکٹھا کر لیا کرتا تھا۔ ایک دن اسے معلوم ہوا کہ اس کے ہمسائے میں ایک خاندان شدید مالی مشکل کا شکار ہے۔ اس خاندان کا مرد شہید ہونے کی وجہ سے کوئی ان کی کفالت کرنے والا نہ تھا۔
ابراہیم نے کسی کو کچھ نہ بتایا۔ ہر ماہ جب بھی وہ تنخواہ لیتا تو اس خاندان کی زیادہ تر مالی ضرورت پوری کر دیا کرتا تھا۔ جب بھی گھر میں زیادہ کھانا پکتا تو وہ حتماً انہیں بھی بھیج دیتا۔ کئی سال بلکہ اس کی شہادت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ سوائے اس کی ماں کے کسی اور کو اس بات کی خبر نہیں تھی۔
*****
ایک شخص ابراہیم کےپاس آیا تھا۔ وہ پہلے آبدار[3] تھا اور اب بے روزگار ہو چکا تھا۔ وہ ابراہیم سے کچھ مالی مدد چاہتا تھا۔ ابراہیم نے اس کی مالی مدد کرنے کی بجائے اپنے کچھ دوستوں سے مل کر اس کے لیے مناسب نوکری کا انتظام کر دیا۔ اس سے جتنا ہو سکتا، لوگوں کی مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کرتا۔ اگر خود انجام نہ دے سکتا تو اپنے دوستوں کے پاس چلا جاتا اور ان سے مدد کا تقاضا کرتا۔ لیکن اس کام میں وہ ایک بات کا خاص خیال رکھتا تھا کہ لوگوں کی مدد کرتے کرتے گداپروری کی حد تک نہ پہنچ جائے۔ وہ ہمیشہ اپنے دوستوں سے کہتا تھا: ’’اس سے پہلے کہ محتاج انسان اپنی عزت نفس خراب کر کے تمہارے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جائے، تم اس کی مشکلات حل کر دیا کرو۔‘‘
اس کے دوستوں میں سے جو کوئی بھی کسی مشکل میں گرفتار ہوتا یا اسے اندازہ ہو جاتا کہ اسے کوئی مالی پریشانی ہے تو اس سے پہلے کہ وہ اس سے کسی مدد کا تقاضا کرتا وہ خود ہی اس کی مخفیانہ انداز میں مدد کر دیتا اور ساتھ یہ بھی کہہ دیتا: ’’مجھے فی الحال ان کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بھی میں تمہیں قرض دے رہا ہوں۔ جب بھی ہوئے لوٹا دینا۔ یہ پیسے قرض الحسنہ ہیں۔‘‘
ابراہیم نے کبھی ان پیسوں کا حساب نہیں کیا تھا۔ وہ مدد کرتے وقت لوگوں کی عزت و آبرو کا بہت خیال رکھتا تھا۔ ہمیشہ ایسا رویہ اپناتا کہ مخاطب کو شرمندہ نہ ہونا پڑے۔
*****
علمائے دین ہمیشہ اس بات کی نصیحت کرتے رہے ہیں کہ اپنی مشکلات حل کرنے کے لیے جہاں تک ہو سکے لوگوں کی مشکلات حل کریں۔ اسی طرح وہ اس بات کی تاکید بھی کرتے رہے ہیں کہ جہاں تک ہو سکے لوگوں کے اطعام اور کھانے پینے کا اہتمام کریں اور اس ذریعے سے بہت سی مصیبتوں سے نجات حاصل کریں۔
ماہِ رمضان میں ایک دن غروب کے وقت ابراہیم ہمارے گھر آیا اور سلام و احوال پرسی کے بعد مجھ سے ایک دیگچہ لے کر سری پائے کی ایک دکان میں داخل ہو گیا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے آیا اور کہا: ’’ابرام جون، افطاری میں سری پائے! واہ، مزہ آ جائے گا!!‘‘
وہ کہنے لگا: ’’تم سچ کہتے ہیں، لیکن یہ میرے لیے نہیں ہے۔‘‘
اس نے سری پائے اور کچھ سنگک[4] روٹیاں لیں۔ جب باہر آیا تو ایرج بھی موٹرسائیکل لے کر پہنچ گیا۔ ابراہیم اس کے ساتھ بیٹھا اور خداحافظ کہہ کر چلا گیا۔
میں نے سوچاکہ حتماً کچھ دوست جمع ہوئے ہوں اور افطاری کریں گے۔ اس نے مجھے پوچھا تک نہیں تھا جو مجھے بہت برا لگا۔ اگلے دن میں ایرج سے ملا اور اس سے پوچھا: ’’کل تم کہاں گئے تھے؟!‘‘
اس نے جواب دیا: ’’چہل تن پارک کے پیچھے گلی کے آخر میں ایک چھوٹا سا گھر تھا۔ ہم نے اس کا دروازہ کھٹکھٹایا اور سری پائے انہیں دے دیے۔ کچھ بچے اور ایک معمر شخص جو دروازے پر آئے تھے، بہت زیادہ شکریہ ادا کر رہے تھے۔ وہ ابراہیم کو اچھی طرح جانتے تھے۔ وہ بہت ہی مستحق خاندان تھا۔ اس کے بعد میں نے ابراہیم کو اس کے گھر چھوڑ دیا۔‘‘
*****
ابراہیم کی شہادت کو 26 سال گزر چکے تھے۔ میں نے ایک رات خواب میں ابراہیم کو دیکھا۔ وہ ایک فوجی گاڑی پر سوار ہو کر تہران آیا ہوا تھا۔
خوشی کے مارے مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ ابراہیم کا چہرہ کافی نورانی تھا۔ میں آگے بڑھا اور اس سے بغلگیر ہو گیا۔ میں خوشی سے چلّا رہا تھا اور کہہ رہا تھا: ’’دوستو، آؤ، آغا ابراہیم واپس آ گئے ہیں۔‘‘
ابراہیم نے کہا: ’’آؤ، سوار ہو جاؤ۔ بہت کام پڑے ہیں۔‘‘
ہم اکٹھے ایک بلند عمارت کے پاس پہنچ گئے۔ انجینئرز اور عمارت کے مالک سب نے ابراہیم کے ساتھ سلام و احوال پرسی کی۔ سب اسے اچھی طرح جانتے تھے۔ ابراہیم نے عمارت کے مالک کی طرف رُخ کر کے کہا: ’’میں اُن سید کی سفارش کرنے آیا ہوں۔ اس عمارت کا ایک فلیٹ ان کے نام کر دیں۔‘‘ اس کے بعد اس نے ہم سے دور کھڑے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا۔
عمارت کا مالک کہنے لگا: ’’آغا ابرام، اس شخص کے پاس نہ تو پیسے ہیں اور نہ ہی یہ کہیں سے قرض لے سکتا ہے۔ میں کس طرح ایک فلیٹ اسے دے دوں؟‘‘
میں نے بھی اس کی بات کی تائید کرتے ہوئے ابراہیم سے کہا: ’’ابرام جان، ان باتوں کے زمانے گئے۔ اب تو سب لوگ فقط پیسے کو جانتے ہیں۔‘‘
ابراہیم نے ایک معنی خیز نگاہ سے مجھے دیکھ کر کہا: ’’میں اگر لوٹ کر آیا ہوں تو فقط اسی وجہ سے کہ ان جیسے کچھ لوگوں کی مشکل حل کروں، ورنہ میرا یہاں اور کوئی کام نہیں تھا۔‘‘
اس کے بعد وہ گاڑی کی طرف چل پڑا۔ میں بھی اس کے پیچھے ہو لیا کہ اچانک میرے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی جس کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔
[1] بحار الانوار: ج78، ص121
[2] بحار الانوار: ج74، ص318
[3] اردو میں ’’آبدارچی‘‘ کا ہم معنی ’’آبدار‘‘ ہے۔ یعنی وہ شخص جو اداروں یا کسی رئیس کے گھر میں پانی وغیرہ پلانے کے نوکری پر مامور ہو۔ آج کل اسے آفس بوائے کہا جاتا ہے۔
[4] ایران میں روٹی کی ایک قسم۔
خمس
[مصطفیٰ صفار ہرندی]
جن علماء سے ابراہیم کو خاص ارادت تھی ان میں سے ایک مرحوم حاج آغا ہرندی بھی تھے۔
یہ نیک طینت عالم دین نماز کے علاوہ باقی اوقات میں کپڑے بیچنے کا کاروبار کیا کرتے تھے۔
1981 کے موسم گرما کے آخری ایام تھے۔ میں اور ابراہیم ان محترم عالم دین کی خدمت میں گئے اور دو شرٹوں کا کپڑا ان سے خریدا۔
ہفتے بعد نماز کے وقت میں نے دیکھا کہ ابراہیم مسجد میں آیا اور حاج آغا کے پاس چلا گیا۔
میں بھی گیا کہ دیکھوں کیا ہوا ہے؟ ابراہیم اپنے پورے سال اور اپنے مال کے خمس کا حساب کر رہا تھا۔
میری ہنسی نکل گئی۔ وہ خود اپنے لیے کچھ بھی بچا کر نہیں رکھتا تھا۔ جو کچھ بھی اس کے پاس ہوتا وہ اسے دوسروں میں تقسیم کر دیا کرتا تھا۔ تو پھر یہ کس چیز کے خمس کا حساب کر رہا ہے؟!
حاج آغا نے پورے سال کا حساب کیا اور کہا: ’’تمہارا خمس 400 تومان بنتا ہے۔‘‘ اس کے بعد کہا: ’’مجھے مراجع کرام کی طرف سے جو اجازہ حاصل ہے اور تمہیں اچھی طرح پہچانتا بھی ہوں لہٰذا یہ خمس تمہیں معاف کرتا ہوں۔‘‘
لیکن ابراہیم اصرار کر رہا تھا کہ وہ اس دینی واجب کو ادا کرنا چاہتا ہے۔ بالآخر وہ خمس دے کر ہی اٹھا۔
ابراہیم کے اس کام سے مجھے امام صادق علیہ السلام کی یہ حدیث مبارک یاد آگئی: ’’جو شخص خدا کے حق کو ادا نہیں کرتا تو اس کا دگنا وہ باطل راستے میں خرچ کر دے گا۔[1]‘‘
نماز کے بعد میں اور ابراہیم حاج آغا کی دکان پر چلے گئے۔ ابراہیم نے انہیں کہا: ’’اس دن کی طرح دو شرٹس کا کپڑا اور چاہیے۔‘‘
حاج آغا نے تعجب سے دیکھتےہوئے کہا: ’’بیٹا، ابھی کچھ دن پہلے ہی تو تم نے مجھ سے کپڑا لیا ہے۔ یہ سرکاری کپڑا ہے۔ ہمیں ایک خاص مقدار سے زیادہ کسی کو دینے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘
ابراہیم نے کچھ نہ کہا مگر میں سارا ماجرا جانتا تھا۔ اس لیے میں نے کہا: حاج آغا، ابراہیم نے پہلے والی دونوں شرٹس کسی ضرورتمند کو دے دی ہیں۔ اکھاڑے میں بعض جوان ایسے ہیں جو چھوٹی آستینوں والی شرٹس پہنتے ہیں یا ان کی مالی حالت اچھی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ابراہیم شرٹس انہیں دے دیتا ہے۔‘‘
حاج آغا جو حیرت سے میری باتیں سن رہے تھے، ابراہیم کے چہرے پر ایک گہری نگاہ ڈال کر بولے: ’’اس دفعہ تمہارے لیے کپڑا کاٹوں گا لیکن تم اسے کسی اور کو دینے کا حق نہیں رکھتے۔ جسے بھی کپڑا چاہیے اسے اس دکان پر بھیج دو۔‘‘
ہم تجھے چاہتے ہیں
[جواد مجلسی]
1982 کی خزاں کے دن تھے۔ ہم ایک بار پھر ابراہیم کے ساتھ جنگی علاقوں کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔ اس بار سب مجالس میں ابراہیم کا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے توسل کا تذکرہ تھا۔ ہم جہاں بھی جاتے اسی کی بات ہو رہی ہوتی۔
بہت سے مجاہد بھائی مختلف حملوں میں ابراہیم کی بہادری اور شجاعت کی داستانیں سناتے رہے۔ یہ ساری کامیابیاں حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا سے توسل کی برکت سے تھیں۔
ہم سومار کے علاقے میں گئے۔ جس مورچے میں بھی جاتے، ابراہیم سے یہی مطالبہ کیا جاتا کہ وہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے مصائب پڑھے۔
رات کا وقت تھا۔ ابراہیم نے ایک بٹالین کے جوانوں میں پڑھنا شروع کر دیا۔ تھکاوٹ اور مجالس کے طولانی ہو جانے کی وجہ سے اس کی آواز بیٹھ گئی تھی۔
مجلس ختم ہوئی تو ایک دو دوستوں نے ابراہیم سے مذاق کرتے ہوئے اس کی آواز کی نقل اتاری۔ اس کے بعد کچھ ایسی باتیں بھی کیں کہ ابراہیم ان سے بہت ناراض ہو گیا۔
اس رات سونے سے پہلے ابراہیم کافی غصے میں تھا۔ کہنے لگا: ’’میری اپنی بات ہوتی تو کوئی مضائقہ نہیں تھا مگر ان لوگوں نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی مجلس کے ساتھ مذاق کیا ہے، لہٰذا آئندہ میں نہیں پڑھوں گا۔‘‘
میں نے بہتیرا سمجھایا کہ دوستوں کی باتوں کو دل پر مت لو، تم اپنا کام جاری رکھو مگر وہ نہ مانا۔
رات کے آخری پہر ہم اپنے کیمپ میں واپس آ گئے۔ اس نے دوبارہ قسم کھائی کہ آئندہ ذاکری نہیں کرے گا۔
رات کے ڈیڑھ بج چکے تھے۔ میں تھک ہار کر سو گیا۔
فجر کی اذان سے پہلے مجھے محسوس ہوا کہ کوئی میرا ہاتھ ہلا رہا ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں کو جھٹ سے کھولا تو ابراہیم کا نورانی چہرہ میری آنکھوں کے سامنے تھا۔ اس نے مجھ سے کہا: ’’اٹھو، اذان کا وقت ہو گیا ہے۔‘‘
میں اٹھ بیٹھا اور اپنے آپ سے کہا: ’’اس بندہ خدا کو نہیں معلوم کہ تھکاوٹ کیا ہوتی ہے؟‘‘ البتہ اتنا مجھے معلوم تھا کہ وہ جس وقت بھی سوئے، اذان سے پہلے بیدار ہو کر نماز میں مشغول ہو جاتا ہے۔
ابراہیم نے دوسرے دوستوں کو بھی جگایا۔ اس کے بعد اذان دی اور نماز فجر ادا کرنے لگا۔
نماز و تسبیحات کے بعد وہ دعا پڑھنے لگا اور اس کے بعد حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل پڑھے۔
ابراہیم کے خوبصورت اشعار نے سب جوانوں کی آنکھوں کو اشک آلود کر دیا تھا۔ میں، جو گذشتہ رات کو ابراہیم کی قسم سن چکا تھا، سب سے زیادہ حیران تھا لیکن میں نے کچھ نہیں کہا۔
ناشتے کے بعد ہم جوانوں کے ساتھ سومار واپس آ گئے۔ سارا راستہ میں اس کے عجیب و غریب کاموں کے بارے میں سوچتا رہا۔
ابراہیم نے ایک معنی خیز نگاہ مجھ پر کی اور کہا: ’’تم یہی پوچھنا چاہتے ہو نا کہ میں نے قسم کھانے کے باوجود ذاکری کیوں کی؟‘‘
میں نے کہا: ’’بالکل، تم نے رات کو قسم کھائی تھی کہ۔۔۔‘‘
اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا: ’’جو بات میں تمہیں بتانے والا ہوں، جب تک میں زندہ ہوں تم کسی سے نہیں کہو گے۔‘‘
پھر وہ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بولا: ’’گذشتہ رات مجھے نیند نہیں آ رہی تھی لیکن آدھی رات کو ہلکی سی آنکھ لگ گئی۔ اچانک میں نے دیکھا کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا بنفس نفیس تشریف لائیں اور مجھے کہا: یہ مت کہو کہ میں نہیں پڑھتا۔ ہم تم سے محبت کرتے ہیں۔ جو کوئی بھی کہتا ہے کہ پڑھو تو تم ضرور پڑھو۔‘‘
پھر وہ اتنا رویا کہ بات کرنا اس کے لیے دوبھر ہو گیا۔ اس کے بعد ابراہیم نے ذاکری کو جاری رکھا۔
معرکہ زین العابدین علیہ السلام
[جواد مجلسی]
نومبر 1982 کا زمانہ تھا۔ عموماً جہاں بھی ابراہیم جاتا تو اس کا بہت ہی گرمجوشی اور تپاک سے استقبال کیا جاتا۔ بہت سے افسران نے ابراہیم کی دلیری اور شجاعت کی داستانیں سن رکھی تھیں۔
ایک بار وہ ہماری بٹالین میں بھی آیا اور ہم اکٹھے باتیں کرتے رہے۔ گپ شپ کافی طولانی ہو گئی۔ جوان چلنے کے لیے تیار ہو گئے۔ جب ہم واپس لوٹے تو ہمارے افسر نے ہم سے پوچھا: ’’کہاں تھے؟!‘‘
میں نے کہا: ’’میرا ایک دوست آ گیا تھا، اسے مجھے سے کام تھا۔ اب وہ اپنی گاڑی سے جا رہا ہے۔‘‘
افسر نے پوچھا: ’’اس کا نام کیا ہے؟‘‘
میں نے جواب دیا: ’’ابراہیم ہادی۔‘‘
اچانک انہوں نے حیران ہو کر پوچھا: ’’اچھا، تو یہ آغا ابراہیم جو اتنے مشہور ہیں، یہی ہیں؟‘‘
میں نے کہا: ’’ہاں، مگر کیا ہوا؟‘‘
انہوں نے حرکت کرتی ہوئی گاڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’یہ تو پرانے مجاہد ہیں تو پھر تمہارے دوست کیسے بن گئے؟‘‘
میں نے مغرورانہ انداز میں کہا: ’’تو کیا ہوا؟ یہ ہمارے علاقے سے ہیں۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے کہا: ’’ایک بار انہیں یہاں لے آؤ تا کہ ہمارے جوانوں سے کچھ خطاب کر سکیں۔‘‘
میں نے بھی ذرا پھول کر کہا: ’’وہ بہت مصروف رہتے ہیں، لیکن پھر بھی میں دیکھتا ہوں۔‘‘
اگلے دن میں ابراہیم سے ملنے ملٹری اٹیلی جینس آفس میں چلا گیا۔سلام و احوال پرسی اور تھوڑی گپ شپ کے بعد کہنے لگا: ’’تھوڑی دیر ٹھہر جاؤ۔ میں تمہیں پہنچا بھی دوں گا اور تمہارے کمانڈر کے ساتھ بات بھی کر لوں گا۔‘‘ اس کے بعد ہم ایک ٹیوٹا پر بیٹھ کر بٹالین کے کیمپ کی طرف چلے پڑے۔
راستے میں ایک چھوٹی سی نہر پڑتی تھی۔ عموماً ہم جب بھی وہاں سے گزرتے تھے تو پھنس جاتے تھے۔ میں نے کہا: ’’آغا ابراہیم، اوپر سے گھوم کر آ جاتے ہیں۔ یہاں پھنس جائیں گے۔‘‘
کہنے لگا: ’’میرے پاس وقت نہیں ہے۔ یہیں سے نکل جاتے ہیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’آگے آنے کی اصلاً ضرورت بھی نہیں ہے۔ یہاں تک جو تم مجھے لے آئے ہو تو اس کا بھی بہت شکریہ۔ باقی راستہ میں خود ہی طے کر لیتا ہوں۔‘‘
کہنے لگا: ’’بیٹھے رہو۔ میں تمہارے کمانڈر سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس کے بعد اس نے گاڑی چلا دی۔
میں نے سوچا کہ اس پانی کو کیسے عبور کرے گا، اور دل ہی دل میں ہنس کر کہا کہ اگر یہ پھنس گیا تو مزہ آ جائے گا۔ لیکن ابراہیم نے بلند آواز سے ایک دفعہ اللہ اکبر اور ایک دفعہ بسم اللہ کہا اور پہلے ہی گیئر میں گاڑی وہاں سے نکال کر پار لے گیا۔ ہم دوسرے کنارے پر پہنچے تو کہنے لگا: ’’ہم ابھی تک اللہ اکبر کی طاقت کو نہیں جانتے۔ اگر ہمیں معلوم ہو جائے تو ہماری بہت سی مشکلات حل ہو جائیں۔‘‘
*****
بٹالین نئے حملے کے لیے اپنی ضروری تیاریاں مکمل کر چکی تھی۔ کچھ دنوں بعد سومار کی جانب جانے کا وقت آ گیا۔ میں جا کر سہ راہے کے سرے پر کھڑا ہو گیا۔ ابراہیم نے کہا تھا کہ وہ غروب آفتاب سے پہلے آئے گا۔ میں بھی اس کا انتظا رکر رہا تھا۔ ہماری بٹالین نے چلنا شروع کر دیا۔ میری نظریں مسلسل کچے راستے پر جمی ہوئی تھیں یہاں تک کہ ابراہیم کا خوبصورت چہرہ دور سے نظر آنے لگا۔
وہ ہمیشہ کردی شلوار میں بغیر اسلحے کے آیا کرتا تھا، لیکن اس دفعہ معمول سے ہٹ کر وہ ٹائیگر ڈیزائن والے لباس میں ملبوس، ماتھے پر پٹی باندھے اور کلاشنکوف ہاتھ میں لیے ہوئے آیا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر پوچھا: ’’آغا ابرام، تم نے اسلحہ اٹھا لیا؟!‘‘
ہنس کر کہنے لگا: ’’کمانڈر کی اطاعت واجب ہے۔ مجھے بھی کمانڈر نے اسی طرح آنے کا حکم دیا ہے۔‘‘
اس کے بعد میں نے کہا: ’’آغا ابراہیم۔ اگر تم اجازت دو تو میں تمہارے ساتھ آ جاؤں؟‘‘
اس نے کہا: ’’نہیں، تم اپنے جوانوں کے ساتھ چلو۔ میں بھی تمہارے پیچھے ہی ہوں۔ ایک دوسرے سے ملتے رہیں گے۔‘‘
ہم کچھ کلومیٹر تک چلے اور رات کی تاریکی میں دشمن کے ٹھکانوں کے قریب پہنچ گئے۔ میں چونکہ آر پی جی چلاتا تھا، اسی وجہ سے باقی سب سے آگے بٹالین کے کمانڈر کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ میری حالت بہت بری تھی۔ اصلاً ایک پل کے لیے بھی سکون نہیں آ رہا تھا۔ اس علاقے میں ایک عجیب طرح کا سناٹا چھایا ہوا تھا۔
ہم لوگ کم نشیبی جگہ پر واقع ایک تنگ سے نالے سے گزر کر ٹیلے کی چوٹی کی طرف بڑھنے لگے۔ ٹیلے پر سے عراقی مورچے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ میری ذمہ داری تھی کہ یہاں پہنچتے ہی ان پر فائر کھول دوں۔
میں نے ایک لمحے کے لیے ادھر ادھر دیکھا۔ ٹیلے کے دامن میں دونوں طرف بنے دشمن کے مورچے ٹیلے کی چوٹی تک چلے گئے تھے۔ عراقی اچھی طرح جان چکے تھے کہ ہم اس نالے کو عبور کریں گے۔ میں نے اپنا تھوک نگلا اور دبے پاؤں ایسے چلنے لگا کہ کوئی آواز نہ نکلے۔ باقی بھی میری طرح چل رہے تھے۔ ہماری سانسیں سینوں میں اٹک کر رہ گئی تھیں۔
ابھی ہم ٹیلے کی چوٹی تک نہ پہنچے تھے کہ اچانک روشنی کا ایک گولہ داغا گیا۔ ہمارے سروں کے اوپر روشنی چھا گئی۔ اس کے بعد تینوں طرف سے ہم پر آگ اور گولیوں کی بارش شروع ہو گئی۔ ہم سب زمین سے لگ کر لیٹ گئے۔ ہم مکمل طور پر دشمن کی گولیوں کی زد میں آ چکے تھے۔ جیسے ہی کوئی دستی بم یا گولی ہماری طرف آتی تو زخمی جوانوں کی چیخیں بلند ہونے لگتیں۔۔۔
ہم اس اندھیرے میں کچھ بھی نہ کر سکتے تھے۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں دھنس جاؤں۔ میں موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ اسی لمحے ایک شخص سینے کے بل رینگتا ہوا میرے پاس آیا اور میری ٹانگ پکڑ لی۔ میں نے زمین سے اپنا سر تھوڑا سا بلند کر پیچھے کی طرف دیکھا تو یقین نہیں ہو رہا تھا۔ جو چہرہ میرے سامنے تھا وہ ابراہیم کا نورانی چہرہ تھا۔
اچانک اس نے کہا: ’’یہ تم ہو؟!‘‘ اس کے بعد آر پی جی میرے ہاتھ سے لے کر آگے کی طرف بڑھ گیا اور اللہ اکبر کی صدا بلند کرتے ہی فائر کھول دیا۔ سامنے کے مورچے جو زیادہ گولیاں برسا رہے تھے، منہدم ہو گئے۔ ابراہیم نے اپنی جگہ سے کھڑے ہو کرکہا: ’’امیر المومنینؑ کے شیعو، کھڑے ہو جاؤ۔ مولا کا ہاتھ ہماری پشت پر ہے۔‘‘ ابراہیم کے اس اقدام نے سب جوانوں میں ایک تازہ روح پھونک دی۔
میں اللہ اکبر کے نعرے لگانے لگا۔ باقی لوگ بھی اپنی جگہوں سے کھڑے ہو گئے۔ سب گولیاں برسا رہے تھے۔ تقریباً سارے عراقی بھاگ گئے تھے۔ چند لمحوں بعد دیکھا تو ابراہیم ٹیلے کی چوٹی پر کھڑا تھا۔
عراقیوں کے اہم ٹیلے پر قبضے کی مہم بہت ہی تیزی سے انجام پا چکی تھی۔ دشمن کے کچھ فوجی اسیر ہو گئے۔ ہمارے باقی جوان آگے بڑھنے لگے۔
میں بھی اپنے کمانڈر کے ساتھ آگے جانے لگا۔ کمانڈر نے راستے میں مجھ سے کہا: ’’سب لوگ ایسے ہی بلا وجہ خواہش نہیں کرتے کہ حملوں میں ابراہیم کے ساتھ رہیں۔ عجیب شجاعت ہے اس میں۔‘‘
آدھی رات کو میں ابراہیم سے ملا تو وہ کہنے لگا: ’’تم نے مولا کی عنایت کا مشاہدہ کیا: ’’دشمن کو بھگانے کے لیے فقط ایک اللہ اکبر کی ضرورت تھی۔‘‘
*****
ہمارے علاقے میں حملہ ختم ہو چکا تھا۔ سب بٹالینز کے جوان واپس آ گئے تھے لیکن بعض بٹالینز اپنے کچھ شہیدوں اور زخمی جوانوں کو وہیں چھوڑ آئی تھیں!!
ابراہیم جب ایک بٹالین کے کمانڈر کے ساتھ بات کر رہا تھا تو چلّا رہا تھا۔ وہ کافی غصے میں تھا۔ میں نے اس وقت تک اسے غصے میں نہیں دیکھا تھا۔
وہ کہہ رہا تھا: ’’آپ واپس جانا چاہتے تھے، نفری اور باقی امکانات بھی آپ کے پاس موجود تھے تو پھر اپنی بٹالینز کے زخمیوں کو وہیں پر کیوں چھوڑ آئے؟ آپ کو ان کی ذرا پرواہ نہیں ہے؟ کیوں۔۔۔‘‘
علاقے کا انچارج جو ابراہیم کا دوست تھا، اس کے ساتھ اس نے ہم آہنگی کی اور جواد افراسیابی اور کچھ دوسرے جوانوں کو ساتھ لے کر دشمن کے ٹھکانوں میں کافی آگے تک چلا گیا۔
اگلی چند راتوں میں وہ بہت سے شہداء کے لاشوں اور زخمیوں کو اٹھا کر واپس لے آئے۔
علاقے کی حساسیت کی وجہ سے دشمن میدان جنگ سے اپنے فوجیوں کی لاشیں اور سازوسامان نہیں سمیٹ سکا تھا۔
ابراہیم اور جواد کو 12 دسمبر 1982 کی رات تک تقریباً اٹھارہ زخمیوں اور نو شہیدوں کو دشمن کے علاقے سے نکال کر واپس لانے کا موقع مل گیا تھا۔ یہاں تک کہ وہ ایک شہید کے جسد کو دشمن کے مورچوں سے صرف دس میٹر کے فاصلے سے انتہائی مہارت اور تکنیک سے اٹھا کر لے آئے تھے۔
اس حملے کے بعد ابراہیم کی طبیعت تھوڑی خراب ہو گئی اور ہم اکٹھے تہران واپس آ گئے۔ وہ چند ہفتے تہران میں رہا اور یہاں مذہبی اور ثقافتی سرگرمیوں میں مصروف رہا۔
آخری ایام
[علی صادقی، علی مقدم]
دسمبر کے ایام تھے۔ میں اور ابراہیم تہران واپس آ گئے تھے۔ وہ خستگی اور تھکاوٹ کے باوجود کافی خوش تھا۔ کہتا تھا: ’’دشمن کے علاقے میں کوئی شہید اور زخمی باقی نہیں بچا۔ جو کچھ بھی تھا ہم اٹھا کر لے آئے تھے۔‘‘ اس کے بعد اس نے کہا: ’’آج کی رات ہم نے کتنی منتظر آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائی۔ ان شہداء میں سے جس کی ماں بھی اپنے بیٹے کی قبر پر جائے گی، اس کا ثواب ہمیں بھی ملے گا۔‘‘
میں نے فوراً اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا: ’’آغا ابرام، اگر ایسا ہے تو پھر تم اپنے لیے کیوں دعا کرتے ہو کہ تم گمنام رہو۔‘‘
اسے اس سوال کی توقع نہیں تھی۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولا: ’’میں نے اپنی ماں کو تیار کر رکھا ہے۔ میں نے انہیں کہہ دیا ہے کہ وہ میرا انتظار نہ کیا کریں حتی کہ انہیں یہ بھی کہا ہے وہ میرے لیے گمنام شہادت کی دعا کریں۔‘‘ لیکن جو جواب میں چاہتا تھا وہ اس نے پھر بھی نہ دیا۔
میں اور ابراہیم چند ہفتے تہران میں رہے۔حملے ختم ہوئے تو بہت سے دوست ہر رات ابراہیم کے پاس آ جاتے۔ ابراہیم جہاں ہوتا، انجمن کے جوان اور مجاہد بھائی اس کے پاس موجود ہوتے۔
*****
جنوری کے ایام تھے۔ ابراہیم کا مزاج اب پہلے کی نسبت کافی مختلف ہو چکا تھا۔ اب عامیانہ گفتگو اور مذاق وہ کم ہی کرتا تھا۔ اکثر دوست اسے ’’شیخ ابراہیم‘‘ کہہ کر پکارنے لگے تھے۔
ابراہیم نے اپنی داڑھی چھوٹی کر لی تھی مگر اس کے چہرے کی نورانیت میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔ شہادت کی آرزو جو سب دوستوں کی دلوں میں تھی، ابراہیم کے لیے ایک الگ ہی معنی رکھتی تھی۔
ہم رات کی تاریکی میں اکٹھے ہی چہل قدمی کیا کرتے تھے۔ میں نے ایک دن پوچھا: ’’تم شہادت کی آرزو رکھتے ہو نا؟!‘‘ وہ ہنس دیا۔ پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد گویا ہوا: ’’شہادت تو میری آرزؤں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ امام حسین علیہ السلام کے بے کفن ساتھیوں کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو جاؤں۔ مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا کہ میرا جنازہ واپس آئے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں گمنام ہی رہوں۔‘‘
اس کی ان باتوں کی وجہ میں پہلے بھی سن چکا تھا۔ وہ کہتا تھا: ’’چونکہ سادات کی ماں (حضرت زہرا سلام اللہ علیہا) کی قبر نہیں ہے، لہٰذا میں نہیں چاہتا کہ میری قبر بنے۔‘‘
اس کے بعد ہم پہلوانی کلب میں چلے گئے۔ اس نے تمام دوستوں کو اگلے روز دن کے کھانے کی دعوت دی۔
اگلے دن ظہر کے وقت ہم اس کے گھر گئے۔ کھانے سے پہلے نماز باجماعت پڑھی گئی۔ ابراہیم کو ہم نے نماز پڑھانے کے لیے آگے کیا۔ نماز میں اس کی عجیب حالت تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اس دنیا میں ہے ہی نہیں۔ اس کا پورا وجود ملکوت کی سیر کر رہا تھا۔
نماز کے بعد اس نے اپنی میٹھی آواز میں دعائے فرج پڑھی۔ ایک دوست نے میری طرف پلٹ کر کہا: ’’ابراہیم کافی عجیب ہو گیا ہے۔ میں نے آج تک اس کی یہ حالت نہیں دیکھی کہ نماز میں ایسے آنسو بہا رہا ہو۔‘‘
انجمن کے پروگراموں میں وہ ہمیشہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے توسل کیا کرتا تھا اور دعا کے دوران کہتا تھا: ’’سب گمنام شہدا کی یاد میں کہ مادرِ سادات کی طرح جن کی قبر کا نشان نہیں ہے۔‘‘ وہ انجمن میں ہمیشہ محاذ اور مجاہدین کو یاد کیا کرتا تھا۔
*****
فروری کے ایام تھے۔ رات کے نو بجے گلی میں کسی نے آواز دی: ’’جناب علی! آپ گھر پر ہیں؟‘‘
میں کھڑکی کے پاس آیا۔ گلی میں ابراہیم اور علی نصر اللہ موٹرسائیکل لیے کھڑے تھے۔ میں خوش ہو گیا اور دروازے پر آیا۔
ابراہیم اور اس کے بعد علی سے گلے ملا، انہیں بوسہ دیا اور گھر کے اندر لے آیا۔
موسم کافی ٹھنڈا تھا اور میں اکیلا۔ میں نے کہا: ’’کھانا کھایا ہے؟‘‘ ابراہیم نے کہا: ’’نہیں، لیکن تم زحمت نہ کرو۔‘‘
میں نے کہا: ’’تکلف نہ کرو۔ ابھی انڈا بنا دیتا ہوں۔‘‘ اس کے بعد میں نے رات کے کھانے کا تھوڑا سا انتظام کیا۔
میں نے کہا: ’’آج بیگم اور بچے بھی گھر پر نہیں ہیں۔ اگر تمہیں کوئی کام نہیں ہے تو یہیں رک جاؤ۔ کرسی[1] بھی آمادہ ہے۔‘‘
ابراہیم مان گیا۔ میں نےہنس کر کہا: ’’ابرام بھائی۔ اس سردی میں بھی کُردی شلوار پہن کر چلتے ہو۔ تمہیں سردی نہیں لگتی؟!‘‘
وہ ہنس دیا: ’’نہیں، میں نے تو چار شلواریں پہن رکھی ہیں۔‘‘
اس کے بعد اس نے اوپر والی تین شلواریں اتار دیں اور کرسی میں گھس گیا۔ میں بھی علی سے باتیں کرنے لگا۔
نہیں معلوم، ابراہیم سو گیا تھا یا نہیں لیکن اچانک ہی اچھل کر بیٹھ گیا اور میرے چہرے کی طرف دیکھ کر بلافاصلہ کہا: ’’علی، میری جان، سچ بتاؤ۔ میرے چہرے پر تمہیں شہادت نظر آ رہی ہے؟!‘‘
مجھے ایسے سوال کی بالکل بھی توقع نہیں تھی۔ میں کچھ دیر تک ابراہیم کی صورت دیکھتا رہا پھر آرام سے کہا: ’’بعض دوستوں کی شہادت کے وقت ایک عجیب سی حالت ہو جاتی ہے لیکن ابرام جان تمہاری تو ہر وقت یہی حالت رہتی ہے۔‘‘
کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ ابراہیم اٹھا اور علی سے کہنے لگا: ’’اٹھو۔ ہمیں جلدی چلنا ہے۔‘‘
میں نے حیران ہو کر کہا: ’’آغا ابرام، کہاں؟!‘‘
اس نےجواب دیا: ’’ہمیں جلدی جلدی مسجد جانا ہے۔‘‘
اس کے بعد اس نے اپنی شلواریں پہنیں اور علی کے ساتھ چلا گیا۔
[1] ایران اور افغانستان میں استعمال ہونے والی ایک ایک میٹر لمبی چوڑی مربع یا مستطیل شکل کی میز جس کے اوپر چار چار میٹر یا سات سات میٹر کا لحاف سِلا ہوتا ہے۔ میز کو لحاف کے درمیان میں رکھ کر لحاف کو میز کے ساتھ سی دیا جاتا ہے اور لحاف کے چاروں کونے چاروں طرف پھیلا دیے جاتے ہیں۔ سردیوں میں گھر کے افراد چاروں طرف اس لحاف کے اندر ٹانگیں ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں اور درمیان میں رکھی میز پر کھانے پینے کی چیزیں رکھ کر کھاتے اور باتیں کرتے جاتے ہیں۔
فکہ، آخری وعدہ گاہ
[علی نصر اللہ]
آدھی رات کے وقت ہم مسجد میں آئے۔ ابراہیم نے سب دوستوں سے الوداع کیا۔ اس کے بعد گھر چلا گیا۔ ماں اور گھر والوں سے بھی رخصت لی اور ماں سے درخواست کی کہ اس کی شہادت کی دعا کریں۔ اگلے دن علی الصبح ہم محاذ پر چلے گئے۔
ابراہیم کم ہی باتیں کیا کرتا تھا۔ زیادہ تر ذکر یا تلاوت میں مصروف رہتا۔
ہم فکہ کے شمال میں واقع ڈویژن کے کیمپ میں پہنچ گئے۔ بٹالینز حملے کی مشقیں کر رہی تھیں۔ دوستوں کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ علی واپس آ گیا ہے تو وہ بہت زیادہ خوش ہوئے۔ سب اس سے ملنے کےلیے آنے لگے۔ خیمہ ایک لمحے کے لیے بھی خالی نہ ہوتا تھا۔
حاج حسین بھی آ گئے اور ابراہیم کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔سلام و احوال پرسی کے بعد ابراہیم نے پوچھا: ’’حاج حسین، سب جوان مشقیں کر رہے ہیں، کوئی نیا حملہ ہونے والا ہے کیا؟!‘‘
انہوں نے جواب دیا: ’’کل ہمیں حملہ کرنا ہے۔ اگر تم بھی ہمارے ساتھ چلتے ہو تو ہمیں بہت خوشی ہو گی۔‘‘
انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’اس نئے حملے میں انٹیلی جنس کے جوانوں کو بٹالینز میں تقسیم کرنا پڑے گا۔ ہر بٹالین کے پاس جاسوسی اور حملے کے ایک ایک دو دو انچارج ہونا ضروری ہیں۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے ایک فہرست ابراہیم کے سامنے رکھتے ہوئے کہا: ’’ان جوانوں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘
ابراہیم نے فہرست دیکھ اور ایک ایک شخص کے بارے میں اپنی رائے دی۔ اس کے بعد پوچھا: ’’بہت اچھے، اب آپ یہ بتائیں کہ نفری کی ترتیب و تنظیم کی کیا صورت حال ہے؟‘‘
انہوں نے جواب دیا: ’’سب جوانوں کو مختلف پلٹنوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ چند بٹالینز مل کر ایک پلٹن تشکیل دیتی ہیں۔ حاج ہمت پلٹن ۱۱ قدر کے انچارج بنائے گئے ہیں۔ بٹالین ۲۷ بھی اسی پلٹن کے انڈر ہو گی۔ پلٹن ۱۱ قدر کے لیے جاسوسی کا کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے۔‘‘
اسی روز سہ پہر کے وقت ابراہیم نے مہندی لگائی۔ اپنے سر کے بال تراشے اور خط بنایا۔ اس کا خوبصورت چہرہ اور زیادہ ملکوتی ہو گیا تھا۔
غروب کے بعد ہم اس محاذ کے مختلف ویو پوائنٹس پر گئے۔ ابراہیم مخصوص دوربین سے حملے والے علاقے کا مشاہدہ کرنے اور کاغذ پر کچھ اہم نکات لکھنے لگا۔
کچھ اور دوست بھی اس ویو پوائنٹ پر آ گئے۔ وہ مسلسل کہے جا رہے تھے: ’’آغا، جلدی کرو۔ ہمیں بھی دیکھنا ہے۔‘‘
ابراہیم غصے میں آ کر چلانے لگا: ’’کیا یہ سینما ہے؟ ہمیں کل کے لیے کوئی راہِ حل تلاش کرنا ہے۔ اپنے جانے کا راستہ مشخص کرنا ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ غصے میں آ کر وہاں سے چلا گیا۔
وہ کہہ رہا تھا: ’’میرا دل بہت پریشان ہے۔‘‘ میں نے کہا: ’’کچھ بھی نہیں ہے۔ پریشان مت ہو۔‘‘
ہم پلٹن ۱۱ قدر کے ایک کمانڈر کے پاس چلے گئے۔ ابراہیم نے کہا: ’’جناب، اس علاقے کی اپنی ایک مخصوص حالت ہے۔ یہاں کی زمین نرم اور ریتلی ہے۔ اس میدان میں جوانوں کا چلنا بہت ہی مشکل ہے۔ عراق ہی نے یہ ساری رکاوٹیں ہمارے لیے تیار کی ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں یہ حملہ کامیاب ہو جائے گا؟‘‘
کمانڈر نےجواب دیا: ’’ابرام جان، ہیڈ کوارٹر سے یہی حکم آیا ہے اور امام خمینی کے بقول ہم اپنے فرض کی ادائیگی پر مامور ہیں، نیتجہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
*****
اگلے روز سہ پہر کے وقت بٹالینز کے جوان آمادہ ہو گئے۔ ڈویژن 27 حضرت رسولﷺ میں سے گیارہ بٹالینز نے اپنا آخری آذوقہ تک اٹھا لیا تھا۔ سب فکہ کی طرف چلنے کو تیار تھے۔
میں نے دور سے ابراہیم کو دیکھا۔ اس کا چہرہ دیکھتے ہی میرا دل لرز گیا۔ اس کا دلکش چہرہ ملکوتی ہو چکا تھا۔ ہمیشہ سے زیادہ اس کی صورت سفید تھی۔ اس نے عربی چفیہ اوڑھ اور خوبصورت کوٹ پہن رکھا تھا۔ وہ ہمارے پاس آیا اور سب جوانوں سے ہاتھ ملایا۔ میں اسے کھینچ کر ایک طرف لے گیا اور کہا: ’’ابراہیم بھائی، آج تو بہت نورانی ہو گئے ہو!‘‘
اس نے ایک لمبی سانس لے کر حسرت سے کہا: ’’جس روز ڈاکٹر بہشتی شہید ہوئے اس دن میں بہت پریشان تھا۔ لیکن میں نے سوچا کہ کتنے خوش قسمت ہیں وہ جو شہید ہو گئے۔ اگر وہ طبعی موت مرتے تو ان کے لیے کتنے عیب کی بات تھی! اصغر وصالی، علی قربانی، قاسم تشکری اور ہمارے بہت سے دوست چلے گئے۔ حال تو یہ ہے کہ تہران سے زیادہ بہشت زہرا سلام اللہ علیہا[1] میں ہمارے دوست ہیں۔‘‘
وہ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد دوبارہ گویا ہوا: ’’خرمشہر بھی آزاد ہو گیا اور میں ڈرتا ہوں کہ جنگ ختم ہو گئی تو شہادت سے محروم رہ جاؤں گا؛ اگرچہ ہمارا توکل خدا پر ہے۔‘‘
اس کے بعدا س نے ایک لمبی سانس لی اور کہا: ’’میں شہادت کو بہت زیادہ پسند کرتا ہوں، لیکن چاہتا ہوں کہ سب سے خوبصورت شہادت میرے نصیب میں ہو۔‘‘
میں نے حیران ہو کر اسے دیکھا۔ میں اس کی گفتگو کے جاری رہنے کا منتظر تھا کہ آنسوؤں کے قطرے اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی: ’’اگر تم ایک ایسی جگہ پر رہ جاتے ہو کہ جہاں کوئی اور تم تک نہ پہنچ سکے، نہ ہی تمہیں کوئی جانتا ہو، تم خود ہو اور آقا و مولا ہوں، پھر مولا تمہارا سر اپنے زانو پر رکھ لیں تو یہ سب سے زیادہ خوبصورت شہادت ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’ابرام بھائی، خدا کا واسطہ، ایسی باتیں تو نہ کرو۔‘‘
اس کے بعد میں نے بات کا موضوع بدلتے ہوئے کہا: ’’آؤ، کمانڈرز کے گروہ کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں، یہ بہتر رہے گا۔ جہاں بھی ضرورت پڑی تو مدد کر دینا۔‘‘
اس نے کہا: ’’نہیں، میں بسیجیوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔‘‘
اس کے بعد ہم دونوں وہاں سے چل پڑے اور ہَراوَل دستوں کی طرف آ گئے۔ وہ لوگ اپنی آخری ترتیب میں مصروف تھے۔ میں نے کہا: ’’ابرام بھائی، تمہارے لیے کون سے ہتھیار اٹھاؤں۔‘‘ اس نے کہا: ’’فقط دو دستی بم۔ اگر بندوق وغیرہ کی ضرورت پڑی تو عراقیوں سے چھین لوں گا۔‘‘
حاج حسین اللہ کرم دور سے ابراہیم پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ ہم ان کی طرف چلے گئے۔ وہ مسلسل ابراہیم کے چہرے کی طرف دیکھے جا رہے تھے۔ بے اختیار انہوں نے ابراہیم کو سینے سے لگا لیا۔ چند لمحوں تک وہ اسی حالت میں رہے۔ گویا وہ جانتے تھے کہ یہ ان کی آخری ملاقات ہے۔ اس کے بعد ابراہیم نے اپنی کلائی کی گھڑی کھولی اور کہا: ’’حسین، یہ آپ کے لیے یادگار ہے۔‘‘
حاج حسین کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ انہوں نے کہا: ’’نہیں، ابرام جان۔ یہ تمہارے پاس ہی رہے۔ تمہیں اس کی ضرورت پڑے گی۔‘‘
ابراہیم نے خاص اطمینان سے کہا: ’’نہیں، مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
حاج حسین کا فی متاثر ہو چکے تھے۔ انہوں نے بات کا رُخ بدلتے ہوئے کہا: ’’ابرام جان، حملے کے لیے ہمیں دو راستے اختیار کرنا ہوں گے۔ سب جوان پہلے راستے سے جائیں گے جبکہ میں، کچھ افسران اور جاسوس جوان دوسرے راستے سے نکلیں گے۔ تم بھی ہمارے ساتھ ہی آ جاؤ۔‘‘
ابراہیم نے کہا: ’’میں بسیجی جوانوں کے ساتھ پہلے راستے سے جاؤں گا۔ کوئی مشکل تو نہیں ہو گی نا آپ کو؟‘‘
حاج حسین نے کہا: ’’نہیں، جیسے تمہیں آسانی ہو۔‘‘
ابراہیم آخری مادی تعلقات سے الگ ہو گیا۔ اس کے بعد وہ ہراول بٹالینز کے جوانوں کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔
[1] تہران کا مشہور تاریخی قبرستان۔
معرکہ والفجر ابتدائی
[علی نصر اللہ]
کمیل بٹالین فکہ کے جنوبی علاقے میں سرحدی چوکی کی طرف کا ہراول دستہ تھا۔ ڈویژن کا ایک افسر آئے اور بٹالین کے جوانوں سے بات کرنے لگا: ’’بھائیو، آج ہم معرکہ والفجر کے لیے فکّہ کی طرف حرکت کریں گے۔ سرحد کے بالکل سامنے دشمن نے تین بڑی خندقیں کھود رکھی ہیں تا کہ تم لوگ آگے نہ بڑھ سکو۔ اس کے علاوہ بھی اس نے تمہاری پیش قدمی کو روکنے کے لیے مختلف رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں لیکن انشاء اللہ آپ کے ان رکاوٹوں اور خندقوں کو عبور کرتے ہی حملہ شروع ہو جائے گا۔ جیسے ہی آپ لوگ سرحدی چوکیوں طاووسیہ اور رشیدیہ پر قبضہ کر لیں گے تو حملے کا پہلا مرحلہ اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔ اس کے بعد سید الشہداء ڈویژن کے تازہ دم جوان اور باقی مجاہدین آپ کے نزدیک سے گزریں گے اور حملے کو جاری رکھنے کے لیے عراق کے شہر العمارہ کی طرف بڑھیں گے۔ انشاء اللہ اس حملے میں بھی آپ لوگ کامیاب ہوں گے۔‘‘
انہوں نے سب کی ذمہ داریوں، رکاوٹوں اور راستوں پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا: ’’آپ لوگوں کا راستہ بارودی سرنگوں کے میدان سے گزرتا ہوا ایک باریک سا خط ہو گا۔ انشاء اللہ آپ سب لوگ جو فکہ کے جنوبی محاذ کا ہراول دستہ ہیں اپنے معینہ اہداف تک پہنچ کر رہیں گے۔‘‘
ان کی باتیں جیسے ہی ختم ہوئیں تو بلافاصلہ ابراہیم نے ذاکری شروع کر دی۔ لیکن اس بار اس نے پہلے کی طرح نہیں پڑھا بلکہ بہت ہی انوکھے انداز میں اہل بیتؑ کے مصائب پڑھنا شروع کیے۔ وہ خود رو رہا تھا۔ وہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے مصائب پڑھنے اور پھر ماتم کرنے لگا۔ میں نے پہلی بار یہ خوبصورت شعر سنا تھا:
امان از دلِ زینب زینبؑ کے دل کی خیر ہو |
چه خون شد دلِ زینب
کیسے خون خون ہو گیا ہے |
جوانوں نے بھی ماتم کے ساتھ اس کا جواب دیا۔ اس کے بعد اس نے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی قید اور شہداء کربلا کے مصائب پڑھے۔ آخر میں کہنے لگا: ’’میرے دوستو، آج رات یا تو تم اپنے دوست سےملاقات کر لو گے یا سادات کی پھوپھی طرح قید ہو جاؤ اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرو۔[1]‘‘
ابراہیم کی اس پُرسوز مصائب خوانی کے بعد جوان آنسوؤں سے بھیگے ہوئے چہرے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد ہم نے مغربین کی نمازیں پڑھیں۔ جب سے ابراہیم واپس لوٹا تھا میں سائے کی طرح اس کے ساتھ ساتھ رہتا تھا اور ایک لمحے کے لیے بھی اس سے جدا نہیں ہوتا تھا۔
میں اور ابراہیم نے ایک بھاری اور متحرک پل اپنے ساتھ اٹھایا اور دوسرے جوانوں کے ساتھ ساتھ چل دیے۔
فکہ کی ریتلی زمین پر چلنا بہت ہی مشکل تھا، اوپر سے ہر فرد کے پاس بیس کلو سے زائد اسلحہ اور دوسرے سامان کا وزن الگ۔ ہمارے پاس اس سامان کے علاوہ ایک بھاری پل بھی تھا جسے ہم ایک تابوت کی طرح اپنے ہاتھوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔
ہم سب سیدھی قطار میں ایک دوسرے کے پیچھے اس راستے سے گزر گئے جو بارودی سرنگوں والے میدان میں معین کیا گیا تھا۔ ہم تقریباً بارہ کلومیٹر تک پیدل چلتے رہے۔ بالآخر فکہ کے جنوب میں پہلی نہر پر پہنچ گئے۔ ہمارے فوجی جوانوں میں اب ایک قدم آگے بڑھانے کی بھی ہمت نہ تھی۔
اتوار 6 فروری رات کے ساڑھے نو بجے تھے۔ متحرک پل اور سیڑھی کے ذریعے ہم نے اس خندق کو عبور کیا۔ علاقے پر عجیب سا سناٹا طاری تھا۔ عراقیوں کی طرف سے ایک گولی بھی نہیں چلی رہی تھی۔
پندرہ منٹ بعد ہم دوسری خندق تک پہنچ گئے۔ اسے بھی عبور کر لیا اور وائرلیس کے ذریعے ہیڈ کوارٹر میں اطلاع کر دی۔ چند منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے کہ ہم لوگ تیسری خندق تک بھی پہنچ گئے۔
ابراہیم ابھی تک دوسری خندق کے کنارے کھڑا جوانوں کی مدد کرنے میں مشغول تھا۔ اسے فوجی جوانوں کی بہت فکر رہتی تھی اس لیے کہ خندقوں کے اطراف میں بارودی سرنگیں بچھی ہوئی تھیں اور ان کے علاوہ دوسری رکاوٹیں بھی موجود تھیں۔
تیسری خندق تک پہنچ جانے کا مطلب تھا؛ سرحدی چوکیوں پر قبضہ کرنا اور حملہ کر دینا۔
لیکن بٹالین کے کمانڈر نے جوانوں کو روک کر کہا: ’’نقشے کے مطابق تو ہمیں ابھی مزید راستہ طے کرنا تھا مگر عجیب بات ہے کہ ہم بہت جلدی پہنچ گئےہیں، اوپر سے چوکیاں بھی نظر نہیں آ رہیں۔‘‘
تقریباً سبھی جوان دوسری خندق کو عبور کر چکے تھے کہ اچانک فکہ کا آسمان دن کی طرح روشن ہو گیا۔ گویا دشمن اپنی تمام تر توانائیوں اور تیاریوں کے ساتھ ہمارا منتظر تھا۔ روشنی ہوتے ہی انہوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ مارٹر گولوں اور توپوں سے لے کر مشین گنوں تک، جو دور ہی سے ہماری طرف درست کی جا چکی تھیں، چاروں طرف سے ہم پر آگ برس رہی تھی۔ ہمارے جوان کچھ بھی نہ کر سکتے تھے۔ شمسی رکاوٹوں اور بارودی سرنگوں والے میدانوں نے ہر قسم کی پیشقدمی کو روک دیا تھا۔
جوانوں کی تھوڑی سی تعداد تیسری خندق میں اترنے میں کامیاب ہوئی۔ اکثر جوان تو ریتلی زمین ہی میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ ایک افراتفری کی سی کیفیت تھی۔ بہت سے جوان چاہتے تھے کہ انتہائی خطرناک خاردار تاروں کو عبور کر کے میدان کے درمیان میں جا کر مورچہ لے لیں مگر بارودی سرنگ پھٹنے سےوہ شہید ہو گئے۔
راستے کے چاروں طرف بارودی سرنگیں بچھی ہوئی تھیں۔ ابراہیم جانتا تھا اسی لیے وہ تیسری خندق کی طرف دوڑ کر گیا اور چلّاتے ہوئے جوانوں کو اطراف میں جانے سے منع کرنے لگا۔ اب سب زمین پر لیٹ گئے۔ کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ عراقی توپخانہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ہم کہاں سے گزریں گے۔ اس لیے وہ عین اسی جگہ کو اپنے نشانے پر رکھے ہوئے تھا۔
سب کچھ درہم برہم ہو چکا تھا۔ ہر کوئی کسی نہ کسی طرف بھاگ رہا تھا۔
ہمارے قابو میں کچھ بھی نہ رہا تھا۔ فقط ایک ہی جگہ تھی جو سب سے زیادہ پُرامن تھی اور وہ تھی خندق۔ اس تاریکی اور افراتفری میں ابراہیم مجھ سے گم ہو گیا۔
میں تیسری خندق تک گیا لیکن کسی کو بھی نہیں ڈھونڈا جا سکتا تھا۔ ایک ساتھی ملا تو اس سے پوچھا: ’’ابراہیم کو تو نہیں دیکھا؟!‘‘ وہ کہنےلگا: ’’کچھ دیر پہلے یہیں سے گزر کر گیا ہے۔‘‘
میں بے چینی کے عالم میں اِدھر اُدھر دوڑتا رہا۔ ایک کمانڈر کو دیکھا۔ اس نے مجھے پہچان لیا اور کہا: ’’جلدی سے پیچھے والے راستے کی طرف جاؤ اور جو جوان ابھی راستے میں ہیں انہیں پیچھے واپس بھیج دو۔ اس خندق میں نہ جگہ ہے اور نہ ہی امن۔ جاؤ اور جلدی واپس آنا۔‘‘
کمانڈر کے حکم کے مطابق دوسری خندق کے آس پاس اور راستے میں آنے والے جوانوں کو میں پیچھے کی طرف لے گیا، یہاں تک کہ ہم نے بہت سے زخمیوں کی مدد بھی کی اور انہیں اٹھا کر پیچھے لے آئے۔اس کام میں دو تین گھنٹے لگ گئے۔ میں واپس ہونا چاہتا تھا کہ ڈویژن کے جوان کہنے لگے: ’’تم واپس نہیں جا سکتے۔‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا: ’’کیوں؟‘‘
کہنےلگے: ’’پسپائی کا حکم جاری ہو چکا ہے۔ اب آگے جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، کیونکہ باقی جوان بھی صبح تک واپس آ جائیں گے۔‘‘
کوئی ایک گھنٹے بعد میں نے نماز فجر پڑھی۔ اجالا آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا۔ میں تھکاوٹ اور مایوسی سے بے حال ہو چکا تھا۔ ہر واپس آنے والے جوان سے ابراہیم کا پوچھتا مگر کسی کو کوئی خبر نہیں تھی۔
چند منٹ گزرے ہوں گے کہ مجتبیٰ پر نظر پڑ گئی۔ وہ خاک آلود چہرہ لیے تھکاوٹ سے چور سرحد کی طرف سے آ رہا تھا۔ میں نے ناامیدی سے پوچھا: ’’مجتبیٰ، ابراہیم کو تو نہیں دیکھا؟‘‘
وہ اسی طرح میری طرف آتے آتے بولا: ’’ایک گھنٹہ پہلے ہم اکٹھے تھے۔‘‘
میں خوشی سے اچھل پڑا اور آگے بڑھ کر اس سے پوچھا: ’’اچھا، اب وہ کہاں ہے؟!‘‘
اس نے جواب دیا: ’’میں نہیں جانتا۔ میں نے اسے کہا کہ پسپائی کا حکم آ چکا ہے۔ جب تک اندھیرا ہے ہم لوٹ کر پیچھے جا سکتے ہیں۔ اگر روشنی ہو گئی تو ہم کچھ نہیں کر پائیں گے۔‘‘
لیکن ابراہیم نے کہا: ’’سب جوان خندق میں ہیں۔ میں ان کے پاس جا رہا ہوں۔ ہم اکٹھے واپس آ جائیں گے۔‘‘
مجتبیٰ نےمزید بتایا: ’’میں ابراہیم سے باتیں کر ہی رہا تھا کہ عاشورا ڈویژن سے ایک بٹالین ہماری سمت آئی۔ ابراہیم نے جلدی سے کمانڈر سے بات کی اور پسپائی کی خبر دی۔ میں چونکہ راستہ جانتا تھا لہٰذا ابراہیم نے مجھے ان کے ساتھ پیچھے بھیج دیا اور خود ایک آر پی جی اور کچھ گولیاں لے کر خندق کی طرف چلا گیا۔ اس کے بعد سے ابراہیم کا کچھ پتا نہیں ہے۔‘‘
کوئی ایک گھنٹے بعد میثم لطیفی کو میں نے دیکھا۔ وہ کچھ زخمیوں کے ساتھ پیچھے واپس آ رہا تھا۔ میں ان کے مدد کے لیے دوڑا اور جا کر میثم سے پوچھا: ’’کیا خبر ہے؟!‘‘
اس نے جواب دیا: ’’یہ زخمی جوان خندق سے آگے ٹیلوں میں گھر گئے تھے اور وہاں ابرام ہادی نے آ کر ہماری مدد کی۔‘‘
اچانک میں سناٹے میں آ گیا اور حیرت سے پوچھا: ’’ابرام بھائی؟! اچھا تو آگے کیا ہوا؟!‘‘
اس نے کہا: ’’اس نے مشکل سے ہمیں جمع کیا اور صبح کی ہلکی ہلکی روشنی میں ہم سب کو پیچھے کی طرف واپس لے آیا۔ ہمارے راستے میں ایک خندق آئی جو کیچڑ اور مٹی سے بھری ہوئی تھی۔ اس خندق کی چوڑائی بھی بہت زیادہ تھی۔ ابراہیم دو سٹریچر اٹھا لایا اور ان سے پل جیسا سہارا بنا لیا۔ اس کے بعد ہم سب کو اس سے گزار کر پیچھے بھیج دیا اور خود آگے چلا گیا۔‘‘
صبح دس بجے فکہ میں ڈویژن کے کیمپ میں افسران کی آمد و رفت شروع ہو گئی۔ اکثر کہہ رہے تھے کہ کچھ بٹالینز دشمن کے نرغے میں گھِر گئی ہیں۔
[1] حیرت کی بات ہے کہ کمیل بٹالینز میں جن جوانوں کے سامنے ابراہیم نے مصائب پڑھے تھے وہ سارے کے سارے یا تو شہید ہو گئے یا اسیر۔
کمیل خندق
[علی نصر اللہ]
میں نے انٹیلی جنس کے ایک افسر سے مل کر پوچھا: ’’بٹالینز محاصرے میں کیسے گھِر گئیں۔ عراقی تو آگے آئے ہی نہیں تھے اور ہمارے جوان بھی دوسری اور تیسری خندق میں تھے۔‘‘
کمانڈر نےجواب دیا: ’’ریکی کے دوران جو تیسری خندق ہم نے دیکھی تھی وہ اِس خندق سے کافی مختلف تھی ۔ یہ خندق اور اس کے علاقہ کچھ ذیلی خندقیں عراقیوں نے انہی دو تین دنوں میں بنائی ہیں۔ یہ خندقیں سرحدی خط کے بالکل سامنے بنائی گئی ہیں۔ ہیں تو چھوٹی مگر رکاوٹوں سے بھری ہوئی ہیں۔‘‘
اس کے بعد اس نے اپنی بات کو مزید آگے بڑھایا: ’’ہراول بٹالینز عراقی حملوں سے بچنے کے لیے خندق میں داخل ہو گئیں۔ جیسے ہی اجالا ہوا تو عراقی ٹینک آگے بڑھے اور انہوں نے دونوں طرف سے خندق کوبند کر کے آگ لگا دی۔‘‘
وہ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بولا: ’’عراقیوں نے ہمارے جوانوں کے سامنے سولہ قسم کی رکاوٹیں تیار کر رکھی تھیں۔ یہ رکاوٹیں تقریباً چار کلومیٹر تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اوپر سے منافقین نے بھی اس حملے کی تمام معلومات عراقیوں کو دے دی تھیں۔‘‘
میں غم سے نڈھال ہو گیا اور روہانسا ہو کر کہا: ’’اب کیا کرنا چاہیے؟!‘‘
کمانڈر نے کہا: ’’اگر جوان استقامت کا مظاہرہ کریں تو ہم حملے کا دوسرا مرحلہ انجام دیں گے اور انہیں واپس لے آئیں گے۔‘‘
اسی وقت ہیڈ کوارٹر کے وائرلیس آپریٹر نے کہا: ’’محصور بٹالینز کے بارے میں ایک خبر!‘‘ سب خاموش ہو گئے۔
آپریٹر نے بتایا: ’’برادر ثابت نیا، برادر افشردی سے جا ملے۔‘‘
اس چھوٹی سے خبر کا مطلب تھا کہ کمیل بٹالین کے کمانڈر شہید ہو گئے۔
اسی روز سہ پہر کو خبر پہنچی کہ کمیل بٹالین کے نائب کمانڈر حاج حسینی بھی شہادت پر فائز ہو گئے اور بٹالین کے دوسرے نائب بنکدار شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ کیمپ میں موجود سبھی جوان غم سے بوجھل تھے۔ وہاں ایک عجیب سا ماحول بن گیا تھا۔
9 فروری کا دن تھا۔ فوجی جوان فکہ پر ایک نئے حملے کے لیے تیار ہو چکے تھے۔ میں نے ایک دوست کو دیکھا جو کمانڈ سینٹر سے آ رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا: ’’کیا حالات ہیں؟‘‘
کہنے لگا: ’’ابھی ابھی کمیل بٹالین کے وائرلیس آپریٹر نے فون کر کے حاج ہمت سے بات کی ہے۔ آپریٹر نے کہا ہے: ’’وائرلیس کی چارجنگ ختم ہو رہی ہے۔ ہمارے بہت سے جوان شہید ہو چکے ہیں۔ ہمارے لیے دعا کریں۔ امام کو ہمارا سلام پہنچائیں اور انہیں کہیں کہ ہم زندگی کی آخری سانسوں تک مقابلہ کرتے رہیں گے۔‘‘
میں نے بے چینی اور دل شکستگی سے کہا: ’’اب ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘
اس نے کہا: ’’خدا پر توکل کرتے ہوئے چلنے پر آمادہ ہو جاؤ۔ آج رات حملے کا اگلہ مرحلہ شروع کیا جائے گا۔‘‘
مغرب کا وقت تھا۔ توپخانے کے جوان پوری مہارت سے دشمن کے مورچوں کو نشانے پر رکھ کر گولیاں اور گولے برسانا شروع ہو گئے۔
حنظلہ بٹالین اور کچھ دوسری بٹالینز نےپیش قدمی شروع کر دی۔ وہ لوگ کمیل خندق کے نزدیک تک پہنچ گئے یہاں تک کہ رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے تیسری خندق تک جا پہنچے لیکن دشمن کی طرف سے کی جانے والی اندھا دھند فائرنگ کی وجہ سے بہت کم تعداد میں محصور جوان رات کی تاریکی میں خندق سے باہر نکل کر پیچھے کے طرف واپس آ سکے۔
یہ حملہ بھی ناکام رہا۔ ہم صبح تک اپنے مورچوں میں واپس آ گئے، لیکن حنظلہ بٹالین کے بہت سے جوان انہی سرحدی خندقوں میں رہ گئے۔ اس حملے میں جوانوں کی بھرپور فائرنگ اور گولہ باری کے نتیجے میں دشمن کی بہت سی بکتر بند گاریاں تباہ ہو گئیں۔
*****
10 فروری 1983 کا دن تھا۔ ابھی تک خندق کے اندر سے گولیوں اور گولوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا تھا کہ خندق کے اندر پھنسے جوان ابھی تک استقامت دکھا رہے ہیں، لیکن یہ سمجھنا مشکل تھا کہ چار دن سے وہ کن وسائل کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔
اس دن مغرب کے وقت حملے روک دینے کا اعلان کر دیا گیا۔ باقی جوان پیچھے واپس آ گئے۔
کل جو جوان خندق سے باہر آئے تھے، میں نے ان میں سے ایک کو یہ کہتے ہوئے دیکھا: ’’تم نہیں جانتے، ہم کس حال میں تھے۔ کھانے پینے کو کچھ نہ تھا۔ اسلحہ بھی بہت ہی کم رہ گیا تھا اور خندقوں کے اردگرد بارودی سرنگیں بچھی ہوئی تھیں۔ ہم کچھ منٹ کے بعد ایک آدھ گولہ پھینک دیا کرتے تھے تا کہ دشمن سمجھتا رہے کہ ہم ابھی زندہ ہیں۔ عراقی مسلسل سپیکر پر ہمیں ہتھیار ڈالنے کا کہے جا رہے تھے۔‘‘
سورج کے غروب ہونے کا منظر بہت ہی غمناک تھا۔ میں ایک اونچائی پر کھڑے ہو کر دوربین سے دیکھنے لگا۔ خندق کے اردگرد ابھی تک دھماکے ہوتے نظر آ رہے تھے۔ میرا گہرا دوست ابراہیم وہاں تھا اور میں اس کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔
اس رات میں تھوڑی دیر سویا اور اگلے دن محاذ پر واپس ا ٓ گیا۔
*****
11 فروری[1] کے حوالے سے عراقی بہت زیادہ حساس تھے۔ ان کی طرف سے فائرنگ اور گولہ باری میں شدت آ گئی تھی۔ہمارے اگلے مورچے خالی ہو گئے اور سب جوان پیچھے پلٹ آئے۔
میں نے سوچا: ’’شاید عراق پیش قدمی کرنا چاہتا ہے؟! لیکن یہ بعید لگتا ہے کیونکہ جو رکاوٹیں اس نے ہمارے لیے کھڑی کر رکھیں ہیں وہ خود اس کے راستے میں بھی تو ہیں۔‘‘
عصر کے وقت اسلحے سے برسنے والی آگ تھوڑی ٹھنڈی پڑ گئی۔ میں دوربین پکڑے ایک ایسی جگہ پر چلا گیا جہاں سے خندق کے اندر بہتر طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔ میں نے جو کچھ دیکھا وہ ناقابل یقین تھا۔ خندق کی جگہ سے ایک گہرا دھواں بلند ہوا تھا اور مسلسل دھماکوں کی آواز آ رہی تھی۔
میں دوڑا دوڑا انٹیلی جنس کے جوانوں کے پاس گیا اور انہیں کہا: ’’عراق خندق کو تباہ کر رہا ہے۔‘‘ انہوں نے بھی دوربین سے دیکھا۔ آگ اور دھوئیں کے علاوہ کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ لیکن میں ابھی تک مایوس نہیں ہوا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ ابراہیم تو اس سے بھی زیادہ برے حالات سے گزر چکا ہے لیکن پھر مجھے حملے سے پہلے کی جانے والی اس کی باتیں یاد آ گئیں۔ میرا بدن لرز کر رہ گیا۔
[1] ایران کے انقلابِ اسلامی کی سالگرہ کا دن۔
خونین غروب
[علی نصر اللہ]
جمعہ 11 فروری 1983 کی سہ پہر میرے لیے بہت زیادہ غمناک اور رنج آلود تھی۔ انٹیلی جنس کے جوان اپنے مورچوں میں چلے گئے تھے۔ میں نے دوبارہ دوربین سے دیکھا۔ غروب کے نزدیک مجھے محسوس ہوا کہ دور سے کوئی چیز حرکت کر رہی ہے۔ میں نے زیادہ غور سے دیکھا تو واضح ہو چکا تھا کہ تین افراد بھاگتے ہوئے ہماری طرف آ رہے ہیں۔ وہ بار بار زمین پر گرتے اور پھر اٹھ جاتے۔ وہ زخمی اور تھکے ہارے تھے۔ یقیناً خندق سے آ رہے تھے۔
میں نے چلّا کر جوانوں کو آواز دی۔ ہم بلندی پر چلے گئے۔ میں نے جوانوں کو فائرنگ سے منع کر دیا۔
غروب کے سرخی کے درمیان بالآخر وہ تین افراد ہمارے مورچوں تک پہنچ گئے۔
جیسے ہی وہ پہنچے تو ہم دوڑ کر ان کی طرف گئے اور پوچھا: ’’کہاں سے آ رہے ہیں؟‘‘ ان میں بات کرنے کی سکت نہ تھی۔ ان میں سے ایک نے پانی طلب کیا۔ میں نے جلدی سے پانی کی بوتل اسے دی۔ دوسرے کا بدن کمزوری اور بھوک سے لرز رہا تھا۔ تیسرے کا پورا جسم خون میں ڈوبا ہوا تھا۔ جب ان کے حواس بحال ہوئے تو کہنے لگے: ’’ہم کمیل خندق میں تھے۔‘‘
میں نے بے چینی سے پوچھا: ’’باقی دوست کہاں ہیں؟!‘‘ اس نے بڑی مشکل سے سر اوپر اٹھا کرجواب دیا: ’’میرا نہیں خیال کہ ہمارے علاوہ کوئی زندہ بچا ہو۔‘‘ میرا دل لرز کر رہ گیا اور دوبارہ حیرت سے پوچھا: ’’یہ پانچ دن تم لوگوں نے کیسے مقابلہ کیا؟!‘‘
اس میں بات کرنے کی طاقت نہ تھی۔ تھوڑی دیر خاموش رہ کر کہنے لگا: ’’ہم ان آخری دو دنوں میں لاشوں کے نیچے چھپے ہوئے تھے۔ لیکن ہم میں سے فقط ایک تھا جو ان پانچ دنوں تک مسلسل خندق میں ڈٹا رہا اور ذرہ برابر وہاں سے نہیں ہلا۔‘‘
اس نے اپنا سانس بحال کرنے کے بعد دوبارہ آہستہ سے کہا: ’’عجیب آدمی تھا۔ ایک طرف آر پی جی چلا رہا تھا اور دوسری طرف کلاشنکوف سے فائرنگ کر رہا تھا۔ عجیب قدرت و طاقت تھی اس میں۔‘‘
دوسرے ساتھی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا: ’’سب شہداء کو اس نے خندق کے آخر میں ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھا لٹا دیا تھا۔ وہ اپنا کھانا اور پانی تقسیم کر دیتا تھا۔ زخمیوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ اس لڑکے میں تھکاوٹ نظر ہی نہیں آ رہی تھی۔‘‘
میں نے کہا: ’’تو کیا بٹالین کمانڈرز اور ان کے نائب شہید نہیں ہو گئے؟! تو پھر تم کس کی بات کر رہے ہو؟‘‘
وہ کہنے لگا: ’’ایک جوان تھا جسے میں نہیں جانتا۔ اس کے بال چھوٹے تھے اور اس نے کُردی شلوار پہن رکھی تھی۔‘‘
دوسرے نے کہا: ’’پہلے روز اس کی گردن میں ایک عربی چفیہ تھا۔ اس کی آواز کیا ہی دلنشین تھی۔ وہ ہمارے سامنے ذاکری کرتا اور ہمارے حوصلے بڑھاتا تھا۔۔۔‘‘
روح میرے بدن سے خارج ہونے لگی تھی۔ سر گھوم رہا تھا۔ میں نے تھوک نگلا۔ یہ تو ابراہیم کی نشانیاں بتا رہے تھے۔
میں بے چین ہو کر بیٹھ گیا اور اس کے ہاتھ پکڑ لیے۔ میں آنکھیں پھاڑے حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا: ’’تم آغا ابرام کی بات کر رہے ہو نا؟ اب وہ کہاں ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا: ’’ہاں، شاید کیونکہ ایک دو پرانے دوست اسے آغا ابراہیم کہہ کر ہی بلاتے تھے۔‘‘
میں نے دوبارہ اونچی آواز سے پوچھا: ’’اب وہ کہاں ہے؟‘‘
ان میں سے ایک نے بتایا: ’’آخری لمحات تک جب تک کہ عراقی فوجی ہم پر آگ برسا رہے تھے، وہ زندہ تھا۔ اس کے بعد اس نے ہم سے کہا تھا: ’’عراق اپنے فوجیوں کو پیچھے لے گیا ہے۔ حتماً وہ زیادہ سنگین اسلحہ لے کر آئیں گے۔ تم لوگوں میں اگر ہمت ہے تو اس جگہ کی اطراف ابھی خالی ہیں، تم لوگ پیچھے واپس چلے جاؤ۔‘‘ اس کے بعد وہ خود زخمیوں کی خبرگیری کرنے کے لیے آگے نکل گیا۔ اور ہم پیچھے پلٹ آئے۔
دوسرا کہنے لگا: ’’میں نے اسے عراقیوں کے ہاتھوں شہید ہوتے دیکھا تھا۔ وہیں پہلے دھماکوں کے ساتھ ہی وہ زمین پر گر پڑا تھا۔‘‘
بے اختیار میرا بدن سست ہو گیا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ میرے شانے مسلسل ہل رہے تھے۔ میرے لیے اپنے آپ پر قابو کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ میں نے اپنا سر زمین پر رکھا اور رونے لگا۔ ابراہیم کے ساتھ گزرے تمام واقعات میرے ذہن میں گردش کرنے لگے۔ اکھاڑے کے دنگل سے لے کر گیلان غرب تک۔۔۔
بارود کی شدید بو اور دھماکوں کی آواز مخلوط ہو گئی تھی۔ میں مورچے کے کنارے چلا گیا۔ میں خندق کی طرف جانا چاہ رہا تھا کہ ایک جوان میرے سامنے کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا: ’’کیا کر رہے ہو؟ تمہارے جانے سے ابراہیم واپس تو نہیں آ جائے گا۔ دیکھ نہیں رہے کیسی آگ برسا رہے ہیں عراقی؟‘‘
اس رات ہم سب کو فکہ سے نکال کر پیچھے کی طرف واپس لے جایا گیا۔ سب جوانوں کی میرے جیسی کیفیت تھی۔ ہم میں سے بہتوں کے دوست عراقی سرزمین پر رہ گئے تھے۔ جب ہم دوکوہہ[1] پہنچے تو حاج صادق آہنگران کی آواز گونج رہی تھی:
ای از سفر برگشتگان اے سفر سے پلٹنے والو |
کُو شهیدانتان ، کُو شهیدانتان تمہارے شہید کہاں ہیں، تمہارے شہید کہاں ہیں |
جوانوں کے رونے کی آواز بلند ہونے لگی۔ ابراہیم کی شہادت اور اس کے مفقود ہو جانے کی خبر بہت جلد سب جوانوں میں پھیل چکی تھی۔
ایک مجاہد جو اپنے بیٹے کےساتھ محاذ پر تھا، میرے پاس آ کر بے قراری سے کہنے لگا: ’’ہم سب کو ابراہیم کا دکھ ہے۔ خدا کی قسم اگر میرا اپنا بیٹا شہید ہو جاتا تو مجھے اتنا دکھ نہ ہوتا۔ کوئی نہیں جانتا کہ ابراہیم کیسا عظیم انسان تھا۔‘‘
اگلے دن ڈویژن کے سب جوانوں کو چھٹی پر بھیج دیا گیا۔ ہم بھی تہران آ گئے۔ ابراہیم کی شہادت کی خبر دینے کی کسی میں ہمت نہ تھی، لیکن چند دنوں میں اس کے مفقود ہو جانے کی خبر ہر طرف پھیل گئی۔
[1] تہران میں ایک علاقے کا نام۔
مظلومیت کی انتہا
[مہدی رمضانی]
اگرچہ میری عمر زیادہ نہیں تھی مگر خدا کا لطف اور عنایت تھی کہ کمیل بٹالین میں اس کے بہترین بندوں کے ساتھ اپنی زندگی کے کچھ لمحات گزار سکوں۔
جس رات حملہ ہوا تو ہم لوگ تیسری خندق تک پہنچ چکے تھے۔ یہ خندق چھوٹی اور تقریباً ایک میٹر تک گہری تھی۔ جبکہ دوسری خندق ایسی نہ تھی بلکہ وہ اس سے زیادہ بڑی اور رکاوٹوں سے بھری ہوئی تھی۔
اس رات سبھی جوان دوسری خندق کی طرف واپس آ گئے تھے۔ یہ خندق بعد میں ’’کمیل خندق‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ میں نے بھی دوسرے جوانوں کے ساتھ اس خندق میں پانچ دن گزارے تھے۔
اگلی صبح عراقیوں کے نشانہ باز ہر حرکت کرنے والی چیز کا نشانہ لے رہے تھے۔ وہ محاصرے کے دن ہماری زندگی کا عجیب دورانیہ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ابراہیم ہادی اپنے جسم کی مضبوطی اور جسمانی قوت کے سبب خندق میں ڈٹا رہا تھا۔ ہماری بٹالین کے کمانڈر اور ان کے نائب شہید اور زخمی ہو چکے تھے۔ اب فقط ابراہیم ہی تھا جو تمام جوانوں کی مدیریت کر رہا تھا۔
اس نے سب جوانوں کو تین تین کی ٹولی میں تقسیم کر دیا اور ہر ٹولی کو خندق میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ایک ایک نقطے پر ٹھہرا دیا۔ ہر ٹولی میں سے ایک شخص خندق کی منڈیر پر تھا اور حالات پر نظر رکھے ہوئے تھا اور دو افراد خندق میں اس کے ساتھ کھڑے تھے۔
خندق کے آخر پر تھوڑی سی ٹیڑھ تھی۔ ابراہیم اور کچھ دوسرے جوانوں نے مل کر شہداء کو وہاں منتقل کر دیا تا کہ جوانوں کی نظر سے دور رہیں۔ زخمیوں کو بھی وہ خندق کے ایک کنارے پر لے گیا تاکہ وہ فائرنگ کی زد میں نہ آ جائیں۔
ابراہم ان دنوں اذان کی آواز سے جوانوں کو نماز کے لیے آمادہ کیا کرتا تھا۔ ان سخت حالات میں بھی ہم تینوں وقت[1] نماز باجماعت پڑھا کرتے تھے۔ ابراہیم اس کام سے ہمارا حوصلہ بڑھاتا اور سب جوانوں کے دلوں میں آئندہ کے لیے امید بھر دیتا۔
حملہ شروع ہونے کے دو دن بعد حملے کے دوسرے مرحلے کے ناکام ہوتے ہی اکثر جوانوں کی کوشش تیز ہونے لگی۔ ہم چاہتے تھے کہ اس بند جگہ سے نکلنے کا کوئی راستہ نکالا جائے۔ ہمارا آخری ٹیلیفونک رابطہ جو ڈویژن کے ساتھ ہوا اس میں کمانڈر حاجی پور (شہید) نے نہایت اضطراب کے عالم میں کہا تھا: ’’ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ جیسے بھی ممکن ہو تم لوگ پیچھے واپس آ جاؤ۔‘‘
جمعرات 10 فروری کاروز تھا کہ ہمارے سامنے اور پشت سے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کی آواز زیادہ ہونے لگی۔ جوانوں نے خندق کی دیواروں کو کھود کر سیڑھیاں بنا لیں۔ کچھ جوانوں نے سمجھا کہ ہمارے لیے کمک آ گئی ہے۔ لیکن نہیں، ہمارا محاصرہ زیادہ تنگ کر دیا گیا تھا۔ عراقی کمانڈوز ٹینکوں کی آڑ لیتے ہوئے آگے بڑھے۔ وہ سمجھ چکے تھے کہ اس دشت میں فقط اس خندق کے اندر ہی ہماری فوجی جوان باقی بچے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ جعفر طاہری (شہید) نامی ایک سید نوجوان نے آر پی جی ہاتھ میں پکڑی اور خندق کی دیوار پر بنائی گئی سیڑھیوں سے اوپر جا کر ایک مارٹر گولہ دشمن کے ٹینک پر داغ دیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ دشمن تھوڑا پیچھے ہٹ گیا۔ اس کے بعد دوسرے جوانوں نے بھی مسلسل فائرنگ کر کے کچھ عراقی کمانڈوز کو ہلاک کر دیا اور کچھ فوجیوں کو جو بہت قریب آ چکے تھے، اسیر کر لیا۔
ان سخت حالات میں پانچ قیدیوں کا بھی ہم میں اضافہ ہو چکا تھا۔ کھانے اور پانی کی عدم موجودگی نے ہمارا دماغ چکرا کر رکھ دیا تھا۔ ہمارے اکثر جوان خستگی اور بے جان حالت میں خندق میں اِدھر اُدھر پڑے ہوئے تھے۔
جو ٹینک خندق سے دور ہو چکے تھے، انہوں نے اپنے لاؤڈ سپیکرز آن کر لیے۔ ایک شخص جو منافقین میں سے معلوم ہوتا تھا، کہنے لگا: ’’ایرانیو، ہتھیار ڈال دو۔ ہمیں تم سے کوئی غرض نہیں ہے۔ ٹھنڈا پانی اور کھانا تمہارے لیے تیار ہے۔ آ جاؤ۔۔‘‘ اور اس طرح وہ ہمیں اسیر ہو جانے کی ترغیب دے رہا تھا۔
بھوک اور پیاس نے سب کا برا حال کر دیا تھا۔ کچھ جوان کہنے لگے: ’’آؤ، ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ ہم نے اپنا وظیفہ انجام دے دیا۔ اب ہماری نجات کی کوئی امید باقی نہیں رہی۔‘‘
انہی بسیجی جوانوں میں سے ایک نے جواب دیا: ’’اگر آج ہم اسیر ہو جاتے ہیں، عراقی ٹی وی پر ہمارے چہرے دکھا دیے جاتے ہیں اور امام ہمیں دیکھ کر بے چین ہو جاتے ہیں تو پھر ہم کیا کریں گے؟ کیا ہم امام کے دل کو خوش کرنے کے لیے نہیں آئے؟‘‘
اس بات کا یہ اثر ہوا کہ کسی نے بھی ہتھیار نہ ڈالے۔ جب ابراہیم جوانوں کے ارادے کو سمجھ گیا تو خوش ہو کر کہنے لگا: ’’پس ہمارے پاس جتنا بھی آذوقہ اور اسلحہ ہے اسے جمع کریں اور سب جوانوں میں تقسیم کر دیں۔‘‘
ہمارے پاس جتنا بھی کھانا پانی بچا تھا سب ابراہیم کے حوالے کر دیا۔ اس نے ہر پانچ افراد کو ایک بوتل پانی کی اور تھوڑا سا کھانا دیا۔ ان پانچ عراقی اسیروں کو بھی ایک بوتل پانی کی دی۔ بعض جوان اس بات پر ناراض ہو گئے لیکن ابراہیم نے کہا: ’’یہ ہمارے مہمان ہیں۔‘‘
اسلحہ جمع کر کے ہم نے ان جوانوں کے حوالے کر دیا جو زخمی نہیں تھے تا کہ وہ اچھے طریقے سے حفاظت کر سکیں۔
اگلے دن 11 فروری کی سحر کے وقت دشمن کے ٹینک تھوڑا پیچھے ہٹ گئے۔ کچھ جوانوں نے اس فرصت سے فائدہ اٹھایا اور کچھ کچھ افراد کی ٹولیاں بنا کر پیچھے کی طرف واپس پلٹ آئے لیکن ان میں سے بھی بعض غلطی سے بارودی سرنگوں والے میدان میں جا پھنسے اور شہید ہو گئے۔
کوئی ایک گھنٹہ گزرا ہو گا کہ دشمن کی طرف سے حملوں میں شدت آ گئی۔ اب کسی کے بس میں کچھ بھی نہ رہا تھا۔
11 فروری کی سہ پہر کو دشمن کے کمانڈوز خندق پر شدید گولہ باری کے بعد ہم تک پہنچ ہی گئے۔ اچانک ہم نے دیکھا کہ عراقی ٹینکوں کی نالیں ہمارے سروں پر خندق کے اوپر سے جھانک رہی تھیں۔
ایک عراقی افسر، ان سیڑھیوں سے نیچے خندق میں اترا جو ہمارے جوانوں نے خندق کی دیوار کے ساتھ بنا دی تھیں۔ ایک فوجی بھی اس کے پیچھے تھا۔ اس نے ہمارے پہلے زخمی کو لات ماری۔ جب اس معلوم ہو گیا کہ وہ زندہ ہے تو اس نے فوجی سے کہا کہ اسے گولی مار دو۔ فوجی نے اسے گولی مار کر شہید کر دیا۔ اگلا زخمی ایک معصوم نوجوان تھا جس کے منہ پر اس بعثی افسر نے لات ماری اور اپنے فوجی سے کہا کہ اسے بھی گولی مار دو مگر اس نے انکار کر دیا اور گولی نہ ماری۔ عراقی افسر ہماری موجودگی میں اس پر چلّایا لیکن فوجی واپس چلا گیا اور گولی نہ چلائی۔ افسر نے اپنا پستول نکالا اور اس کے چہرے پر گولی مار دی۔ وہ عراقی فوجی بھی زمین پر ہمارے شہداء کے ساتھ گر گیا۔ عراقی افسر جلدی خندق سے باہر نکل گیا اور اپنے فوجیوں کو فائرنگ کا حکم دے دیا۔
کچھ لمحوں بعد جب عراقی سمجھ گئے کہ خندق میں موجود تمام افراد شہید ہو چکے ہیں تو وہ واپس لوٹ گئے۔ اب گولیوں کی آواز نہیں آ رہی تھی۔ سورج غروب ہوتے ہی فکہ پر ایک عجیب سا سناٹا چھا گیا۔
میں اور کچھ اور افراد جو شہدا کے درمیان زندہ بچ گئے تھے، اپنی جگہ سے اٹھے۔ اِدھر اُدھر دیکھا، وہاں کوئی نہ تھا۔ زندہ بچ جانے والوں میں سے اکثر زخمی تھے۔ جب ہم نے چلنا شروع کیا تو مکمل تاریکی چھا چکی تھی اور اجالا ہونے سے پہلے پہلے اپنے آپ کو اپنی فوج تک پہنچا دیا۔
[1] اہل تشیع عام طور پر ظہر کے وقت ظہرین اور مغرب کے وقت مغربین کی نمازیں اکٹھی ہی جماعت کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں۔
قید
[امیر منجر]
ابراہیم کی گمشدگی کی خبر کو ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔ میں ظہر سے پہلے مسجد کے سامنے آیا۔ جعفر جنگروی بھی وہاں تھا۔ وہ بہت زیادہ پریشان اور رنجیدہ تھا۔ کوئی بھی اس خبر پر یقین نہیں کر رہا تھا۔ مصطفیٰ بھی پہنچ گیا تھا۔ ہم ابراہیم کے بارے میں باتیں کر رہے تھے کہ اچانک محمد آغا تراشکار آیا اور سب سے بے خبر کہنے لگا: ’’دوستو، تم میں سے کوئی ابراہیم ہادی کو جانتا ہے؟!‘‘
ہم اچانک خاموش ہو گئے اور حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ہم نے اس سے پوچھا: ’’کیا ہوا؟! کیا کہہ رہے ہو؟!‘‘
وہ بے چارہ بہت گھبرا گیا۔ کہنے لگا: ’’کچھ نہیں یار، میرا سالا کچھ ماہ پہلے گم ہو گیا تھا۔ میں ہر روز رات کو بارہ بجے بغداد ریڈیو سنتا ہوں۔ عراقی حکومت رات گئے قیدیوں کے ناموں کا اعلان کرتی ہے۔ کل رات کو میں ریڈیو سن رہا تھا کہ اچانک ریڈیو کے اینکر نے جو فارسی زبان میں بات کر رہا تھا، پروگرام کو ختم کیا اور موسیقی نشر کی۔ اس کے بعد خوش ہو کر اعلان کیا: ’’اس حملے میں مغربی محاذ پر مصروفِ جنگ ایرانی کمانڈر ابراہیم ہادی بھی ہماری فوج کی قید میں آ چکا ہے۔‘‘
ہم خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ ابراہیم کے زندہ ہونے کی خبر سن کر ہم سب بہت ہی خوش ہوئے۔
سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں۔ ہاتھ پاؤں قابو میں نہیں رہے تھے۔ جلدی سے دوسرے دوستوں کی طرف بھاگے۔ حاج علی صادقی نے ریڈ کراس کو خط لکھ دیا۔ رضا ہوریار ابراہیم کے گھر گیا اور اس کے بھائی کو خبر دی۔ سب دوست ابراہیم کے زندہ ہونے سے بہت زیادہ خوش تھے۔
*****
کچھ دنوں بعد ریڈ کراس کی طرف سے خط کا جواب موصول ہوا۔ جواب میں لکھا تھا: ’’میں ابراہیم ہادی، عمر پندرہ سال، نجف آباد اصفہان سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ آپ لوگوں نے بھی عراقیوں کی طرح غلطی سے مجھے مغربی محاذ پر مصروف ایک کمانڈر کا ہم نام ہونے کی وجہ سے وہی کمانڈر سمجھ لیا ہے۔‘‘
اگرچہ خط کا جواب آ چکا تھا مگر پھر بھی بہت سے دوست قیدیوں کی آزادی تک ابراہیم کے لوٹ آنے کے منتظر رہے۔
انجمن کے پروگراموں میں جب بھی ابراہیم کا نام آتا تو سب دوست حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا مصائب پڑھتے اور ان کے رونے کی آوازیں بلند ہونے لگتیں۔
فراق
[عباس ہادی]
ابراہیم کو مفقود ہوئے ایک مہینہ گزر چکا تھا۔ اس کے دوستوں میں سے کسی ایک کو بھی ایک لمحے کے لیے قرار نہیں تھا۔ ہم جہاں بھی اکٹھے ہوتے ابراہیم ہی کا تذکرہ کرتے اور آنسو بہاتے۔
ایک دن ایک دوست کی عیادت کے لیے ہم لوگ ہسپتال گئے۔ رضا گودینی بھی وہیں تھا۔ میں نے جب رضا کو دیکھا تو ایسا لگا کہ اس کے دل کا زخم تازہ ہو گیا ہے۔ وہ اونچی اونچی آواز میں رونے لگا۔ پھر کہا: ’’ابراہیم کے بغیر یہ دنیا میرے لیے رہنے کے قابل نہیں رہی۔ یقین کرو کہ میں (آنے والی)پہلی ہی مہم میں شہید ہو جاؤں گا۔‘‘
ایک اور دوست نے کہا: ’’ہم نہیں سمجھ سکے کہ ابراہیم کون تھا۔ وہ خدا کا خالص بندہ تھا۔ وہ ہمارے درمیان آیا اور ہم نے اس کے ساتھ زندگی گزاری تا کہ ہم سمجھ سکیں کہ خدا کا بندہ ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔‘‘
ایک اور گویا ہوا: ’’ابراہیم مکمل معنوں میں ایک پہلوان تھا، ایک عارف پہلوان۔‘‘
*****
ابراہیم کی شہادت کو پانچ ماہ گزر گئے۔ ماں جب بھی پوچھتیں کہ ابراہیم چھٹی پر کیوں نہیں آتا تو ہم مختلف بہانوں سے بات کا رُخ بدل دیتے۔ ہم کہتے: ’’ابھی جنگ ہو رہی ہے لہٰذا ابھی وہ نہیں آ سکتا۔‘‘ مختصر یہ کہ ہم ہر روز کوئی نہ کوئی بہانہ بنا لیتے۔ یہاں تک کہ ایک دن ماں کمرے میں آ گئیں اور ابراہیم کی تصویر کے سامنے بیٹھ کر رونے لگیں۔ میں نے آگے بڑھ کر پوچھا: ’’ماں، کیا ہوا؟!‘‘
کہنے لگیں: ’’میں ابراہیم کی خوشبو سونگھ رہی ہوں۔ ابرہیم اس وقت اس کمرے میں ہے، اسی جگہ پر۔۔۔‘‘
جب ان کا گریہ کم ہوا تو کہا: ’’مجھے یقین ہے کہ ابراہیم شہید ہو گیا ہے۔ آخری دفعہ وہ کافی مختلف انداز میں گیا تھا۔ میں نے بہتیرا کہا تھا کہ آؤ خواستگاری کے لیے چلتے ہیں۔ میں تمہیں دولہا بنانا چاہتی ہوں لیکن وہ کہتا تھا: ’’نہیں ماں، مجھے یقین ہے کہ میں لوٹ کر نہیں آؤں گا۔ میں نہیں چاہتا کہ کوئی روتی ہوئی آنکھ کمرے کے کونے میں پڑی میرا انتظار کرتی رہے۔‘‘
کچھ دن گزرے تو ماں دوبارہ ابراہیم کی تصویر کے سامنے کھڑی ہو کر رونے لگیں۔ ہم بالآخر مجبور ہو گئے کہ ماموں کو لے آئیں تا کہ وہ ماں کو ساری حقیقت سے آگاہ کر دیں۔
اس دن ماں کی حالت کافی بگڑ گئی۔ ان کے دل کا اضطراب اس قدر زیادہ ہو گیا کہ انہیں ہسپتال کے سی سی یو میں داخل کروانا پڑا۔
سالوں بعد تک جب بھی ماں کو بہشت زہرا سلام اللہ علیہا لے کر جاتے تو وہ قبرستان کے قطعہ 44 میں جانا زیادہ پسند کرتیں۔ ابراہیم کی یاد میں گمنام شہیدوں کی قبروں کے پاس بیٹھ جاتیں۔ ہرچند کہ رونا ان کے لیے سخت نقصان دہ تھا مگر وہ وہاں اپنا دل کھول کر رکھ دیتیں اور گمنام شہدا سے اپنے دل کی باتیں کرتیں۔
تلاش
[سعید قاسمی اور شہیدؒ کی بہن]
1990 میں قیدی آزاد ہو کر اپنے وطن واپس آ گئے۔ بعض لوگ ابھی تک ابراہیم کی واپسی کے منتظر تھے (اگرچہ آزاد ہونے والوں میں ابراہیم ہادی نام کے دو افراد موجود بھی تھے،) مگر سب دوست مایوس ہو چکے تھے۔
اس کے ایک سال بعد ابراہیم کے کچھ دوست جنگی علاقے دیکھنے کے لیے فکہ کے لیے عازم سفر ہوئے۔ اس سفر پر جانے والے دوستوں کو کچھ شہداء کے جسد مل گئے جنہیں انہوں نے تہران منتقل کر دیا۔
کچھ دن بعد ہم شہدا کے خاندانوں سے ملاقات کے لیے گئے۔ ایک شہید کی ماں مجھ سے کہنے لگیں: ’’تم جانتے ہو کہ میرا بیٹا کہاں شہید ہوا؟!‘‘
میں نے بتایا: ’’جی، ہم اکٹھے ہی تھے۔‘‘
انہوں نے پوچھا: ’’اب جبکہ جنگ ختم ہو چکی ہے تو کیا تم اس کے جسد کو ڈھونڈ کر لا سکتے ہو؟‘‘
اس ماں کے ان الفاظ نے مجھے سوچوں میں غرق کر دیا۔ اگلے دن میں نے کچھ افسران اور جنگ سےمتاثرہ لوگوں سے رابطہ کیا۔ طے پایا کہ ہم لوگ اپنے دوستوں کو ڈھونڈنے کے لیے جائیں گے۔ اسی غرض سے کچھ دن بعد ہم چند دوست مل کر فکہ چلے گئے۔
ایک دفعہ پھر تلاش کرنے کے بعد تقریباً تین سو شہداء کے جسد ڈھونڈنے میں ہم کامیاب ہو گئے جن میں اس ماں کا بیٹا بھی شامل تھا۔
اس کے بعد ’’تلاشِ شہداء‘‘ نامی ایک کمیٹی وجود میں آ گئی جو مختلف جنگی محاذوں پر جا کر شہداء کو ڈھونڈنے میں مشغول ہو گئی۔
فکہ کے مظلوم شہداء سے عشق اس چیز کا باعث بنا کہ مشکلات اور شدید رکاوٹوں کے باوجود بھی وہ لوگ اپنے کام میں زیادہ سے زیادہ توسیع کریں۔ اس کمیٹی کے بہت سے دوست جو ابراہیم کو جانتے تھے، وہ کہتے تھے: ’’تلاشِ شہداء کمیٹی کا بانی دراصل ابراہیم ہادی ہی تھا۔ وہ ہمیشہ حملوں کے بعد شہداء کے پیکر تلاش کرنے کے لیے نکل جایا کرتا تھا۔‘‘
جنگ ختم ہونے کے پانچ سال بعد بالآخر کافی محنت اور مشقت سے کمیل خندق میں تلاش کا کام شروع ہو گیا۔ یکے بعد دیگرے شہداء کے جسد مل رہے تھے۔ خندق کے آخر میں کافی شہداء کے جسد اکٹھے ہی اک دوسرے کے پاس پڑے ملے تھے۔ ان کے جسد آسانی کے ساتھ وہاں سے نکال لیے گئے مگر ابراہیم کا ابھی تک کوئی پتا نہیں چل رہا تھا۔
علی محمود ’’تلاشِ شہداء‘‘کمیٹی کا انچارج تھا۔ وہ معرکہ والفجر ابتدائی میں پانچ روز تک کمیل خندق میں دشمن کے محاصرے میں گھِرا رہا تھا۔ وہ اپنے آپ کو ابراہیم کا مرہونِ احسان سمجھتا تھا اور کہتا تھا: ’’فکہ کی غربت و مصیبت کوئی نہیں جانتا۔ ہمارے کتنے ہی مظلوم دوست اس خندق میں موجود ہیں۔ فکہ کی مٹی سے کربلا کی غربت کی خوشبو آتی ہے۔‘‘
ایک روز تلاش کے دوران ایک شہید کا پیکر ملا۔ اس کے ساتھ موجود اس کے سامان میں ایک یادداشتی ڈائری ملی جو اتنے سال گزرنے کے بعد بھی پڑھنے کے قابل تھی۔ اس ڈائری کے آخری صفحے پر لکھا تھا: ’’آج محاصرے میں گھِرے ہوئے ہمیں پانچواں دن ہے۔ ہم نے اپنا راشن آپس میں تقسیم کر لیا ہے۔ شہداء، خندق کے آخر میں ایک دوسرے کے پاس پڑے ہیں۔ یہ شہداء اب پیاسے نہیں رہے۔ اے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فرزندؑ، آپ کے پیاسے ہونٹوں پر قربان۔‘‘
اس ڈائری کے پڑھنے سے سب دوست غم سے نڈھال ہو گئے، لیکن پھر بھی انہوں نے تلاش جاری رکھی۔ بہت سے شہداء کے پیکر ملنے کے بعد بھی ابراہیم کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں مل رہا تھا۔
کچھ عرصے بعد ابراہیم کا ایک دوست فکہ آیا۔ اس نے اپنے واقعات کے ضمن میں یہ بات بھی کہی: ’’اب ابراہیم کی زیادہ تلاش چھوڑ دو؟!‘‘
وہ گمنام رہنا چاہتا تھا۔ اب بعید ہے کہ تمہیں مل سکے۔ ابراہیم فکہ ہی میں رہ گیا ہے تا کہ راہیانِ نور کے لیے ایک خورشید بنا رہے۔
*****
نوے کی دہائی کے آخر میں ایک دفعہ پھر فکہ میں تلاش کا کام شروع کیا گیا۔ اس بار بھی کچھ شہداء کے جسد مل گئے، لیکن ان میں سے اکثر تقریباً گمنام ہی تھے۔
اسی تلاش کے دوران علی محمود وند اور کچھ عرصے بعد مجید پازوکی بھی شہداء سے جا ملے۔
گمنام شہداء کے پیکر تلاش شہداء کمیٹی کے مرکز میں پہنچا دیے گئے۔ طے پایا کہ ایام فاطمیہ[1] میں پورے ملک کے اندر ایک بڑی شاندار تشییع جنازہ کے بعد ہر پانچ شہیدوں کو ایران کے مختلف مقامات پر دفن کیا جائے۔
جس رات گمنام شہداء کو تہران میں دفنایا جانا تھا، میں نے ابراہیم کو خواب میں دیکھا۔ وہ موٹر سائیکل پر میرے گھر کے سامنے کھڑا تھا اور کافی جوش و خروش سے کہہ رہا تھا: ’’ہم بھی واپس آ گئے۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ ہاتھ ہلانے لگا۔
دوبارہ خواب میں شہداء کی تشییع جنازہ کو دیکھا کہ ٹرک سے ایک شہید کا تابوت ہلا اور ابراہیم اس میں سے باہر آیا۔ وہی خوبصورت چہرہ اور وہی ہمیشہ کی مسکراہٹ۔
اگلے روز ملک کے قدردان لوگ کافی جوش و خروش سے شہداء کے استقبال کے لیے جمع ہوئے۔ کافی شان و شوکت سے جنازے اٹھائے گئے۔ اس کے بعد شہر کے مختلف حصوں میں تدفین کے لیے بھیج دیے گئے۔
میرا یہی خیال ہے کہ ابراہیم حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے ایام میں گمنام شہداء کے ساتھ ہی واپس آ گیا تھا تا کہ ہمارے چہروں پر پڑے غفلت کے غبار کو صاف کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ میں جب بھی کسی گمنام شہید کے مزار پر جاتا ہوں تو ابراہیم کی یاد ستانے لگتی ہے اور پھر اس ملت کے ان ابراہیموں کے لیے فاتحہ خوانی کرتا ہوں۔
[1] جمادی الثانی میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے ایام۔
حضور
ہمارے محلے میں جو کام انجام پائے ان میں سے ایک اہم کام شہید محلاتی ہائی وے پر موجود پل کے نیچے شہید ابراہیم کے چہرے کی مصوری تھی۔ اس کام کے آخری دنوں میں مَیں سید کےپاس گیا اور ان سے کہا: ’’آغا سید، میں نے سنا ہے شہید ہادی کے چہرے کی مصوری آپ نے کی ہے؟ کیا یہ بات درست ہے؟‘‘
سید نے کہا: ’’ہاں، مگر کیوں؟‘‘
میں نے کہا: ’’کچھ بھی نہیں، فقط آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس تصویر کے ذریعے محسوس ہوتا ہے کہ آغا ابراہیم ابھی تک ہمارے محلے میں موجود ہیں۔‘‘
سید کہنے لگے: ’’میں ابراہیم کو نہیں جانتا۔ اس کی چہرے کی تصویر بنانے کے عوض مجھے کچھ چاہیے بھی نہیں تھا، لیکن اس کام کو انجام دینے کے بعد خدا نے میری زندگی میں اتنی بے حساب برکت دی ہے کہ تمہیں بتا نہیں سکتا۔ میں نے اس تصویر کے بعد بہت سی چیزوں کا مشاہدہ کیا ہے۔‘‘
میں نے حیران ہو کر پوچھا: ’’مثلاً کیا؟‘‘
انہوں نے جواب دیا: ’’جب میں نے یہ تصویر بنائی اور’’جلوہ گاہ شہداء‘‘ نمائش کا انعقاد کیا گیا تو ایک شبِ جمعہ کو ایک خاتون میرے پاس آئی اور کہنے لگی: ’’آغا، یہ مٹھائی میں نے اس شہید کے لیے بنائی ہے، آپ اسے یہیں تقسیم کر دیں۔‘‘ میں نے سوچا کہ شاید یہ خاتون اس شہید کی کوئی رشتہ دار ہے، اسی لیے میں پوچھ لیا: ’’آپ شہید ہادی کو جانتی ہیں؟‘‘ اس نے کہا: ’’نہیں۔‘‘ اس نے میری حیرت دیکھی تو مزید بتانے لگی: ’’ہمارا گھر یہیں پاس ہی ہے۔ میں زندگی میں کافی مشکلات کا سامنا کر رہی تھی۔ کچھ دن پہلے جب آپ اس تصویر کے کام میں مصروف تھے تو میں یہاں سے گزر رہی تھی۔ میں نے سوچا: ’’خدایا، اگر یہ شہید تیرے نزدیک کوئی مقام رکھتا ہے تو اس کے حق کے صدقے میں میری مشکلات کو حل فرما۔ میں تیرے ساتھ عہد کرتی ہوں کہ نماز کو اول وقت میں پڑھوں گی۔ اس کے بعد میں نے اس شہید کے لیے فاتحہ پڑھی، جس کا نام میں نہیں جانتی تھی۔ آپ یقین کریں کہ میری مشکل فوراً حل ہو گئی۔ اب میں اس شہید کا شکریہ ادا کرنے آئی ہوں۔‘‘
سید نے اپنی بات جاری رکھی: ’’پچھلے سال میرے کام کی صورت حال بھی کافی خراب تھی۔ میں بہت سے مشکلات میں گھر گیا تھا۔ میں شہید کی تصویر کے سامنے سے گزرا تو دیکھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تصویر زرد اور خراب ہونے لگی ہے۔ میں نے پاڑ کا انتظام کیا اور رنگ لے کر شہید کی تصویر کو درست کرنا شروع کر دیا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ جیسے ہی تصویر کا کام ختم ہوا تو مجھے ایک بہت بڑا پروجیکٹ مل گیا جس کی وجہ سے میری بہت سی مالی مشکلات دور ہو گئیں۔‘‘
سید نے اپنی بات جاری رکھی: ’’آغا، یہ شہداء خدا کے نزدیک بہت اعلیٰ مقام کے حامل ہیں۔ ہم نے ابھی تک انہیں پہچانا ہی نہیں ہے۔ آپ ان کے لیے چھوٹے سے چھوٹا کام بھی انجام دیں گے تو خدا اس سے کئی گنا زیادہ آپ کو عطا کرے گا۔‘‘
*****
اس نے مسجد میں آ کر مجھ سے ابراہیم کے دوستوں کے بارے میں پوچھا تھا۔ وہ ان سے شہید کے بارے میں کچھ سوالات کرنا چاہ رہا تھا۔ میں نے پوچھا: ’’تمہیں کام کیا ہے؟ شاید میں تمہاری کچھ مدد کر سکوں۔‘‘
وہ کہنے لگا: ’’کچھ نہیں، میں فقط اتنا جاننا چاہتا ہوں کہ یہ شہید ہادی کون ہے اور اس کی قبر کہاں پر ہے؟‘‘
میں سوچ میں پڑ گیا کہ اسے کیا جواب دوں؟ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد اسے بتایا: ’’ابراہیم ہادی ایک گمنام شہید ہے اور دوسرے گمنام شہیدوں کی طرف اس کی بھی قبر نہیں ہے۔ لیکن تم اس شہید کا کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘
وہ کافی رنجیدہ ہو گیا اور کہنے لگا: ’’ہمارا گھر شہید ہادی کی تصویر والی جگہ کے پاس ہی ہے۔ میری ایک چھوٹی بیٹی ہے جو ہر روز شہید ہادی کی تصویر کے سامنے سے گزر کر سکول جاتی ہے۔ ایک دن وہ مجھ سے پوچھنے لگی: بابا، یہ کون ہیں؟ تو میں نے اسے بتایا کہ یہ دشمن کے ساتھ جنگ کرنے گئے تھے اور انہوں نےدشمن کو ہم پر حملہ نہیں کرنے دیا یہاں تک کہ خود شہید ہو گئے۔‘‘ میری بیٹی نے جب سے یہ بات سنی ہے تو جب بھی شہید کی تصویر کے سامنے سے گزرتی ہے تو اسے سلام کرتی ہے۔ کچھ دن پہلے میری بیٹی نے رات کو خواب میں اس شہید کو دیکھا۔ شہید ہادی میری بیٹی سے کہتا ہے: ’’بیٹی، تم جب بھی مجھے سلام کرتی ہو تو میں بھی تمہیں جواب دیتا ہوں اور تمہارے لیے دعا بھی کرتا ہوں کہ تم اس چھوٹی سی عمر میں بھی اپنے پردے کا کتنا خیال رکھتی ہو۔‘‘ اب میری بیٹی مجھ سے پوچھتی ہے کہ یہ شہید ہادی کون ہیں اور ان کی قبر کہاں ہے؟‘‘
میرے آنسو نکل آئے۔ کہنے کا کچھ بھی نہیں تھا میرے پاس۔ فقط اتنا کہا: ’’اپنی بیٹی سے کہو کہ اگر تم چاہتی ہو کہ آغا ابراہیم ہمیشہ تمہارے لیے دعا کرتے رہیں تو تم اپنی نماز اور پردے کا خاص خیال رکھو۔‘‘ اس کے بعد میں نے اسے ابراہیم کے کچھ اور واقعات بھی سنائے۔
*****
مجھے یاد آیا کہ ایک بورڈ پر لکھا تھا: ’’شہداء سے ارتباط اور دوستی دوطرفہ ہے۔ اگر آپ ان کے ساتھ ہیں تو وہ بھی آپ کے ساتھ رہیں گے۔‘‘ اس ایک جملے میں بہت سی باتیں پوشیدہ تھیں۔
مارچ 2009، نوروز کے ایام تھے۔ کتاب کی تکمیل کے لیے ہم گیلان غرب کے لیے عازم سفر ہوئے۔ راستے میں شہر ایوان میں پہنچے تو سورج غروب ہونے کو تھا اور میں صبح سے ڈرائیونگ وغیرہ کی وجہ سے کافی تھک بھی چکا تھا۔ شہر میں ہمیں کوئی سرائے بھی نہیں مل رہی تھی۔ میں نے دل ہی دل میں کہا: ’’آغا ابرام، ہم تمہارے ہی کے کام کے سلسلے میں آئے ہوئے ہیں۔ خود ہی ہماری مدد کرو۔‘‘ اسی وقت مغرب کی اذان بلند ہوئی تو میں نے سوچا کہ اگر ابراہیم اس وقت یہاں ہوتا تو حتماً نماز کے لیے مسجد میں چلا جاتا۔ یہی سوچ کر ہم بھی مسجد کی طرف چل پڑے اور نماز جماعت کے ساتھ پڑھی۔
نماز جماعت ختم ہوئی تو لگ بھگ پچاس سال کے ایک شخص نے آگے بڑھ کر ادب سے ہمیں سلام کیا۔
انہوں نے پوچھا: ’’آپ لوگ تہران سے آئے ہیں؟‘‘
میں نے تعجب سے کہا: ’’جی ہاں، مگر آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘
انہوں نے جواب دیا: ’’میں آپ کی گاڑی کے نمبر سے سمجھ گیا تھا۔‘‘
اس کے بعد مزید کہا: ’’ہمارا گھر نزدیک ہی ہے۔ آپ کی خدمت کے لیے سب کچھ تیار ہے۔ آپ تشریف لائیں گے؟‘‘
میں نے کہا: ’’آپ کا بہت شکریہ، لیکن ہمیں جانا ہے۔‘‘
وہ کہنے لگے: ’’آج رات آرام کر لیجیے اور کل چلے جائیے۔‘‘
میں قبول نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ مسجد کا خادم ہمارے پاس آ کر کہنے لگا: ’’یہ آغا محمدی ہیں، یہاں کی بلدیہ کے ایک بڑے افسر۔ آپ ان کی دعوت قبول کر لیں۔‘‘
میں اس قدر تھک چکا تھا کہ ناچار ان کی دعوت قبول کرنا پڑی۔ ہم وہاں سے اکٹھے ہی ان کے گھر چلے گئے۔
انہوں نے بہت زیادہ اہتمام کے ساتھ رات کا کھانا کھلایا اور ہماری بہت اچھی مہمان نوازی کی۔ صبح ناشتے کے بعد رخصت ہونے لگے تو آغا محمدی نے پوچھا: ’’کیا میں آپ کے، اس شہر میں آنے کی وجہ پوچھ سکتا ہوں؟‘‘
میں نے کہا: ’’میں ایک شہید کی زندگی پر کتاب لکھ رہا ہوں، اسی کی تکمیل کے لیے ہم گیلان غرب آئے ہیں۔‘‘
انہوں نے حیران ہو کر پوچھا: ’’میں گیلان غرب ہی کا رہنے والا ہوں۔ آپ کس شہید کی بات کر رہے ہیں؟‘‘
میں نے کہا: ’’آپ اسے نہیں جانتے۔ وہ تہران سے آیا تھا۔‘‘ اس کے بعد میں نے بیگ سے ایک تصویر نکال کر انہیں دکھائی۔
وہ حیرت سے دیکھتے ہوئے بولے: ’’یہ تو آغا ابراہیم ہیں۔ میں اور میرے والد صاحب شہید ہادی کے ماتحت تھے۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہونے والے حملوں اور جاسوسی کے دوران ہم اکٹھے ہی رہے تھے۔‘‘
میں مبہوت ہو کر انہیں دیکھنے لگا۔ کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیا کہوں۔ میں دلگرفتہ سا ہو گیا۔ کل رات سے ہم بہترین مہمان نوازی کا لطف اٹھا رہے تھے۔ ہمارے میزبان بھی ابراہیم کے دوست نکلے۔
آغا ابراہیم، تمہارا بہت شکریہ۔ ہم نے تمہاری یاد میں نماز کو اول وقت میں پڑھا اور تم نے بھی۔۔۔
سلام بر ابراہیم!
جب ہم نے ابراہیم کے بارے میں کچھ کرنے کی ٹھان لی تو اپنی ساری کوششیں صرف کر دیں تا کہ خدا کی مدد سے ایک بہترین کام کو انجام دے سکیں۔
اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کتاب آغا ابراہیم کے کمالات اور بزرگیوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے لیکن اس پر بھی میں نے ابتدا ہی سے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے اپنے اس خالص اور پاکیزہ بندے سے آشنا کرایا۔ اسی طرح خدا کا اس بات پر بھی شکر کہ اس نے اس کام کے لیے میرا انتخاب کیا۔ اس مدت میں مَیں نے اپنی زندگی میں عجیب و غریب قسم کی تبدیلیاں محسوس کی ہیں۔
دو سال کی محنت سے ساٹھ انٹرویوز، کام سے بھرپور کئی سفر اور کئی بار متن کی ترتیب و تنظیم کے امور انجام پائے۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ کتاب کے لیے کوئی ایسا نام منتخب کیا جائے جو ابراہیم کے روح سے ہم آہنگ ہو۔
حاج حسین سے ملا تو ان سے پوچھا: ’’آپ اس کتاب کے لیے کیا نام تجویز کرتے ہیں؟‘‘
انہوں نے جواب دیا: ’’اذان، کیونکہ بہت سے مجاہدین ابراہیم کو اس کی دلنشین اذانوں ہی سے پہچانتے تھے۔‘‘
ایک اور دوست نے شہید ابراہیم حسامی کا جملہ یاد دلایا جو انہوں نے ابراہیم کے لیے کہا تھا: ’’پہلوان عارف۔‘‘
لیکن میں نے اپنے ذہن میں اس کتاب کا نام ’’معجزۂ اذان‘‘ انتخاب کر لیا۔
میں رات کو انہی موضوعات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ میز کے ایک کونے میں قرآن مجید رکھا ہوا تھا۔ میری توجہ اس کی طرف گئی۔ قرآن اٹھا کر دل میں کہا: ’’خدایا، یہ کام تیرے صالح اور گمنام بندے کے لیے تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کتاب کے نام کے لیے قرآن سے مشورہ لے لوں۔‘‘
پھر خدا سے کہا: ’’یہاں تک سارا کام تیرے لطف و کرم ہی کی بدولت انجام پایا ہے۔ میں نے نہ تو ابراہیم کو دیکھا تھا، نہ ہی اس وقت میری اتنی عمر تھی کہ محاذ پر جاتا لیکن پھر بھی تو نے اپنی ساری محبت و عنایت ہمارے شامل حال رکھی تا کہ یہ کتاب مکمل ہو سکے۔ خدایا، میں نہ استخارہ کر سکتا ہوں اور نہ ہی آیات کے مفاہیم کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں۔‘‘
اس کے بعد میں نے بسم اللہ پڑھ کر سورہ حمد کی تلاوت کی اور قرآن کھول کر میز پر رکھ دیا۔ جو صفحہ کھل کر سامنے آیا تھا اسے دقت سے دیکھنے لگا۔ صفحے کی ابتدائی آیات کو دیکھا تو میرے چہرے کا رنگ اڑ گیا، جسم گرم ہونے لگا اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔ صفحے کے شروع میں سورہ صافات کی آیات جلوہ گر تھیں جو کہہ رہی تھیں:
سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ۔ كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ۔[1]
ابراہیم پر سلام ہو۔ ہم نیکو کاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں۔ یقینا وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔
[1] الصافات: 109 تا 111۔
شہداء زندہ ہیں
[مصطفیٰ صفار ہرندی وغیرہ]
یہ ہماری بات نہیں ہے بلکہ قرآن کا فرمان ہے کہ شہداء زندہ ہوتے ہیں۔ شہداء اس دنیا کے گواہ ہیں اور اپنی ظاہری زندگی کے زمانے سے زیادہ بہتر دوسرے عالم کی خبریں رکھتے ہیں۔
اس کتاب کے تیاری کے لیےواقعات جمع کرنے کے دوران بارہا دستِ خداوندی کی عنایت اور آغا ابراہیم کی حمایت کا مشاہدہ ہوا۔ کئی بار تو وہ خود آئے اور رہنمائی کی کہ کس کے پاس جا کر انٹرویو کریں۔ لیکن بہت ہی سخت اور مشکل حالات میں ہم آغا ابراہیم اور دوسرے شہداء کے وجود کو محسوس کرتے رہے۔ ان کا یہ حضور ان حادثوں اور فتنوں کے زمانے میں زیادہ شدت سے محسوس ہوا جو جنگ کے بعد والے سالوں میں پیش آئے۔
جولائی 1999 کے ایام میں ایک ایسے فتنے نے سر اٹھایا جس سے نظام اسلامی کے دشمنوں کے دل باغ باغ ہو گئے مگر خدا کا ارادہ یہ تھا کہ انجام کار بدبختی اور ذلت فتنہ گروں کا مقدر بنے۔
پہلی رات جس میں یہ فتنہ اٹھا اور جس وقت کسی کو حالات کے خراب ہونے کی خبر نہیں تھی، میں نے خواب میں کمانڈر شہید محمد بروجردی کو دیکھا۔ انہوں نے مسجد کے سب جوانوں کو جمع کیا اور انہیں تہران کے ایک چوراہے پر لے گئے۔ بالکل اسی طرح جب امام خمینیؒ ایران میں داخل ہوئے تھے اور 12 بہمن کو انتظامات کی ذمہ داری بھی بروجردی ہی کے سر تھی۔
میں بھی مسجد کے دوستوں کے ساتھ برادر بروجردی کے پاس موجود تھا۔ اچانک میری نظر پڑی کہ ابراہیم ہادی، جواد افراسیابی، رضا اور ہمارے دوسرے شہید دوست بھی برادر بروجردی کے پاس کھڑے ہیں۔
میں بہت ہی خوش ہوا۔ ان کی طرف جانا چاہتا تھا تو دیکھا کہ برادر بروجردی کے ہاتھ میں ایک کاغذ ہے اور حملے کے دنوں کی طرح تہران کے مختلف علاقوں میں ذمہ داریاں انجام دینے کے لیے اپنے فوجیوں کو تقسیم کر رہے ہیں۔
انہوں نے ابراہیم سمیت اپنے تمام ماتحتوں کو تہران یونیورسٹی کے اطراف میں مختلف جگہوں پر پھیلا دیا۔
اگلی صبح میں نے اس خواب پر کافی غور کیا کہ اس کی کیا تعبیر ہو سکتی ہے؟ یہاں تک کہ ہمارے بہت سے دوستوں نے فون کر کے تہران یونیورسٹی کے اطراف میں ہونے والے ہنگاموں اور یونیورسٹی سٹریٹ میں ہونے والے حادثے کی خبر دی۔ میں نے جیسے ہی یہ خبر سنی تو گذشتہ رات میں دیکھا گیا اپنا خواب ذہن میں گھومنے لگا۔
1999 کا یہ فتنہ بہت جلد ہی اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ لوگوں نے 14 جولائی کو ایک عوامی اجتماع کے ذریعے تمام فتنہ گروں کے ارادوں پر خط بطلان پھیر دیا۔
اس دن میں نے علی نصراللہ کو دیکھا۔ وہ اپنی خراب حالت کے باوجود اس عوامی مارچ میں شرکت کرنے کے آئے ہوئے تھے۔
میں نے انہیں بتایا: ’’حاج علی، اس سارے فتنے کو شہداء نے ختم کیا ہے۔‘‘
حاج علی نے پلٹ کر مجھے دیکھا اور جواب دیا: ’’کیا ان کے علاوہ بھی کوئی کر سکتا ہے؟ خاطر جمع رکھو، یہ شہداء ہی کا کام تھا۔‘‘
أَیْنَ تَذْھَبُوْنَ / تم کہاں جا رہے ہو؟
[خانم رسولی وغیرہ]
دفاع مقدس کے دوران میں اپنے شوہر کے ساتھ محاذ پر گئی۔ میرے شوہر شہید اندرزگو گروپ میں ہوتے تھے اور میں گیلان غرب ہسپتال میں میڈیکل سٹاف میں تھی۔
ابراہیم ہادی کو میں نے پہلی بار وہاں دیکھا تھا۔ ایک دفعہ جب کچھ شہداء کے اجساد ہسپتال میں لائے گئے تو برادر ہادی نے آ کر کہا: ’’آپ خواتین آگے نہ آئیں۔ شہداء کے کچھ پیکر ملے ہیں اور مجھے ان کی شناخت کرنا ہے۔‘‘
اس کے بعد کئی بار ان کی ملکوتی آواز سنی۔ وہ بہت ہی خوبصورت آواز کے مالک تھے۔ جب دعا میں مشغول ہوتے تو سب کی حالت تبدیل ہو جاتی۔
میں نے دیکھا تھا کہ بسیجی، ابراہیم کے عاشق تھے۔ ان کے آس پاس کی جگہ ہمیشہ مجاہدین سے بھری رہتی۔
یہاں تک کہ 1982 کے اوائل میں وہ لوگ جنوب چلے گئے اور میں تہران واپس آ گئی۔
کچھ سال کے بعد ایک دفعہ میں 17 شہریور روڈ سے گزر رہی تھی کہ اچانک آغا ابراہیم کی تصویر ایک دیوار پر نظر آئی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ وہ شہید یا مفقود ہو گئے ہیں۔ اس دن کے بعد سے ہر شبِ جمعہ اُن اور دوسرے شہداء کے ایصالِ ثواب کے لیے دو رکعت نماز پڑھتی ہوں۔ یہاں تک کہ 2009 [1]میں ہونے والی شرانگیزی کے ایام میں ایک رات عجیب اتفاق پیش آیا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ آغا ابراہیم اپنا زیبا اور نوارنی چہرہ لیے ایک سرسبز ٹیلے پر کھڑے ہیں۔ ان کے پیچھے بہت سے خوبصورت درخت بھی نظر آ رہے ہیں۔ پھر دیکھا کہ ان کے دو دوست جنہیں میں پہچانتی تھی ٹیلے کے نیچے ایک دلدل میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ وہ نکلنا چاہتے ہیں مگر جتنے ہاتھ پاؤں چلاتے ہیں اتنے ہی مزید دھنستے چلے جاتے ہیں۔ ابراہیم نے ان کی طرف منہ کر کے یہ آیت پڑھی: أَينَ تَذْهَبُونَ (کہاں جا رہے ہو؟) لیکن وہ کوئی پرواہ ہی نہیں کرتے۔
میں کافی دن تک اس خواب کے بارے میں سوچتی رہی کہ اس کی کیا تعبیر ہو سکتی تھی؟!
ایک دن میرا بیٹا یونیورسٹی سے واپس آیا تو خوشی خوشی میرے پاس آ کر کہنے لگا: ’’ماں، آپ کے لیے ایک تحفہ لایا ہوں۔‘‘
اس کے بعد اس نے اپنے ہاتھ میں ایک کتاب اٹھاتے ہوئے کہا: ’’شہید ابراہیم ہادی کی کتاب چھپ گئی ہے۔۔۔‘‘
کتاب کی جلد پر ان کی تصویر دیکھتے ہی میرے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ میرا بیٹا ڈر گیا۔ اس نے پوچھا: ’’ماں، کیا ہوا؟ میں تو سوچ رہا تھا کہ آپ خوش ہو جائیں گی۔‘‘
میں نے اسے کہا: ’’اس کتاب کو دیکھو۔۔۔‘‘
میں نے جلد پر بنے ہوئے اسی منظر کو رات خواب میں دیکھا تھا۔ ابراہیم ہادی مجھے اسی حالت میں دکھائی دیے تھے۔
اس کے بعد میں کتاب پڑھنا شروع ہو گئی۔ جب میں سمجھ گئی کہ میرا خواب سچا تھا تو میں نے اپنے شوہر کے توسط سے ابراہیم کے زمانے کے بسیجیوں میں سے ایک کو فون کیا۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ کیا انہیں ان افراد کے بارے میں کوئی اطلاع ہے جنہیں میں نے خواب میں دیکھا تھا؟ مختصر یہ کہ تحقیق کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ وہ دو افراد اپنے سابقہ جہاد اور مقام و مرتبے کے باوجود فتنہ گروں کی حمایت کر رہے ہیں اور رہبر انقلاب کے مقابلے میں آن کھڑے ہوئے ہیں۔
اگرچہ خوابوں کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوتی لیکن میں نے اپنا وظیفہ سمجھا کہ انہیں فون کر کے اپنے خواب سے آگاہ کروں۔ خدا کا شکر کہ وہ خواب کافی موثر ثابت ہوا۔ ابراہیم ایک بار اپنے دوستوں کے لیے ہادی ثابت ہوا۔۔۔
[1] ایران میں ۲۰۰۹ میں ہونے والی صدارتی انتخابات کے نتائج کے بعد میر حسین موسوی (اصلاح پسندوں کے صدارتی امیدوار) نے کافی شرانگیزی پھیلائی تھی، جس کے نتیجے میں تہران میں فسادات پھوٹ پڑے اور عوام کو جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔
یادگاری مزار
[شہیدؒ کی بہن]
ابراہیم کے بعد میری حالت کافی دگرگوں ہو گئی تھی۔ وہ میری زندگی تھا۔ میں اس سے بہت محبت کرتی تھی۔ وہ صرف بھائی ہی نہیں بلکہ ہمارا استاد اور مربی بھی تھا۔
بارہا وہ مجھ سے حجاب کے حوالے سے گفتگو کیا کرتا اور کہتا تھا: ’’چادر، حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی یادگار ہے۔ ایک عورت کا ایمان اسی وقت کامل ہوتا ہے جب وہ حجاب کا خیال رکھے۔‘‘
جب ہم گھر سے باہر یا کسی دعوت میں جانا چاہتیں تو وہ ہمیں نامحرموں کے ساتھ سلوک کے بارے میں خصوصی نصیحتیں کرتا۔ لیکن کبھی بھی امر و نہی نہیں کرتا تھا۔ وہ نصیحت کرنے میں بھی تربیت کے اصولوں کا خیال رکھتا تھا۔
نماز کے حوالے سے بھی میں نے کئی بار اسے دیکھا کہ مذاق ہی مذاق میں نماز فجر کے لیے ہمیں آواز دیتا اور کہتا: ’’نماز، فقط اول وقت میں اور جماعت کے ساتھ۔‘‘
وہ اپنے دوستوں کو ہمیشہ اذان کہنے کی تلقین کرتا۔ اس کا کہنا تھا: ’’تم جہاں کہیں بھی ہو حتی کہ اگر موٹر سائیکل پر بھی سوار ہو تو جیسے ہی اذان کی آواز سنائی دے، موٹر سائیکل روک کر اونچی آواز میں اذان دو اور اپنے پروردگار کو پکارو۔‘‘
جن دنوں ابراہیم زخمی تھا اور گھر میں آیا ہوا تھا تو ایک طرف تو ہم کافی پریشان تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ خوشی بھی تھی۔ پریشانی اس کے زخمی ہونے کی اور خوشی اس بات کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت ہمارے ساتھ گزارے گا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس کے دوست ایک دفعہ اس سے ملنے آئے تو اس نے اشعار پڑھنا شروع کر دیے۔ میرا خیال ہے کہ وہ اشعار اس نے خود ہی کہے تھے:
اگر عالم همه با ما ستیزند اگر ساری دنیا ہم سے جنگ پر تُل جائے اگر شویند با خون پیکرم را اگر خون میں میرا جسم نہلا دیں اگر با آتش و خون خو بگیرم اگر میں آگ اور خون میں لت پت بھی ہو جاؤں |
اگر با تیغ ، خونم را بریزند اگر تلوار سے میرا خون بہا دیں اگر گیرند از پیکر سرم را اگر میرے تن سے میرا سر جدا کر دیں ز خط سرخ رهبر برنگردم پھر بھی رہبر کی سرخ لکیر سے واپس نہیں پلٹوں گا |
میں نےبارہا سن رکھا تھا کہ ابراہیم جب اپنے دوستوں سے اس بات کوسنتا کہ ہم محاذ پر شہید ہونے کے لیے جا رہے ہیں تو اسے بالکل اچھا نہیں لگتا تھا۔ وہ اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا: ’’ہمیشہ یہی کہو کہ ہم آخری سانس تک اسلام اور انقلاب کی خدمت کریں گے، اگر خدا نے چاہا اور ہمارے امتحان میں سو نمبر پورے ہو گئے تو اس وقت بے شک ہم شہید ہو جائیں۔ لیکن جب تک ہمارے پاس قوت اور ہمت ہے تو ہمیں اسلام کی خاطر مقابلہ کرنا ہے۔‘‘
وہ کہتا تھا کہ اس جسم کے ساتھ ہم اتنا کام کریں،راہ خدا میں اتنا مصروف رہیں کہ جب وہ خود مناسب سمجھے تو ہمارے کاموں پر دستخط کر دے اور ہم شہید ہو جائیں۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ شہید ہونے کی لیاقت ہمارے برے کاموں کی وجہ سے ہم سے چھین لی جائے۔
*****
ابراہیم کی شہادت کو کئی سال گزر گئے۔ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس کے مفقود ہو جانے کی وجہ سے ہمارے خاندان پر کیا مصیبتیں آن پڑی تھیں۔ ماں تو اس کے گم ہونے سے بالکل ہی ڈھے گئی تھیں۔ یہاں تک کہ 2011 میں میں نے سنا کہ قبرستان بہشت زہرا سلام اللہ علیہا میں ایک گمنام شہید کی قبر پر ابراہیم کی یادگار بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ابراہیم گمنامی کا عاشق تھا اور اب اس کی یادگار بھی ایک گمنام شہید کی قبر پر بنائی جا رہی تھی۔ حقیقت میں ایک گمنام شہیدکو، ابراہیم کے ذریعے سے خراج تحسین پیش کیا جا رہا تھا۔ یادگار بن گئی اور میں ایک دن اس کے یادگاری مزار کے کنارے جا کھڑی ہوئی۔
پہلے دن جب میں ابراہیم کی قبر کے پاس کھڑی ہوئی تو ایک دفعہ میرا بدن لرز کر رہ گیا۔ چہرے کا رنگ اڑ گیا اور میں حیرت سے اپنے آس پاس دیکھنے لگی۔ ہمارے کچھ رشتہ داروں کی بھی یہی حالت تھی۔ ہمیں ایک واقعہ یاد آ گیا جو تیس سال پہلے اسی جگہ پر پیش آیا تھا۔
خرمشہر کی آزادی کے لیے کیے جانے والے حملے کے فوراً بعد میری والدہ کےچچازاد حسن سراجیان شہید ہو گئےتھے۔ ان دنوں ابراہیم زخمی تھا اور عصا کے سہارے چلا کرتا تھا، لیکن پھر بھی وہ ان کی شہادت پر بہشت زہرا سلام اللہ علیہا میں آیا ہوا تھا۔
جب حسن کو دفنا چکے تو ابراہیم نے آگے بڑھ کر کہا: ’’بہت خوش قسمت ہو حسن، کیسی اچھی جگہ پر ہو۔ قطعہ 26 مین روڈ کے بالکل پاس۔ جو بھی یہاں سے گزرے گا تمہارے لیے ایک فاتحہ پڑھے گا اور تمہیں یاد کرے گا۔‘‘
اس کے بعد اس نےکہا: ’’مجھے بھی تمہارے پاس ہی آنا چاہیے۔ دعا کرو کہ میں بھی اسی جگہ آ جاؤں۔‘‘
اس کے بعد اس نے اپنا عصا زمین پر مارا حسن کی قبر سے چند قبروں کے فاصلے پر ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا۔
کچھ سال گزرے تو عین اسی جگہ پر جو ابراہیم نے دکھائی تھی ایک گمنام شہید کو دفن کیا گیا۔ اور اس کے بعد عجیب و غریب حالات میں ابراہیم کا یادگاری مزار بھی اسی جگہ پر بنا دیا گیا جہاں اس کی خواہش تھی۔
آخری بات
خدا کے لطف و عنایات سے کتاب کی اشاعت کو کئی سال گزر چکے ہیں۔ صرف 2010 سے 2013 تک کتاب ’’سلام بر ابراہیم‘‘ کے پچاس سے زیادہ ایڈیشن منظر عام پر آ چکے ہیں۔
شاید خود ہمیں بھی اتنی توقع نہیں تھی کہ بغیر تشہیر اور نجی و سرکاری میڈیا کی مدد کے فقط حضرت باری تعالیٰ کی عنایات اور لوگوں کے روابط سے اس کتاب کی ایک لاکھ پچاس ہزار سے زائد کاپیاں فروخت ہو گئیں، اور وہ بھی اس زمانے میں جب کہ کتابوں کی بازار مندے پڑے ہیں۔
اس عرصے میں ابراہیم کی نئے دوستوں کی طرف سے ہمیں ہزاروں فون آئے اور ہزاروں ایس ایم ایس اور ایمیلز وصول ہوئیں۔ یہ سب چیزیں اس شہید کی صدقے میں خداوند کریم کی عنایات پر دلالت کرتی تھیں۔
یزد ہسپتال میں سرطان کے مریض کی شہید ہادی کے توسل سے دعا کرنے کے بعد صحت یابی سے لے کر ایک لاابالی جوان کی زندگی میں تبدیلی تک جو اتفاقاً ہی اس شہید سے آشنا ہوا تھا۔ ایک اور جوان جو جہاں بھی خواستگاری کے لیے جاتا، ناامید لوٹ کر آتا۔ جب اس نے خدا کو شہید ہادی کے حق کی قسم دی تو ایسے گھر میں اس کی آخری خواستگاری کامیابی سے ہمکنار ہوئی جہاں شہید ہادی کی تصویر سجی ہوئی تھی اور انہوں نے بھی اس شہید کے توسل سے یہی دعا کی تھی کہ۔۔۔ ان کے علاوہ وہ بہت سے جوان بھی جنہوں نے ابراہیم کے عشق میں پہلوانی کے اکھاڑے میں جانا شروع کر دیا اور خدا کی خوشنودی کو مرکز و محور بناتے ہوئے اپنے تمام کاموں کو منظم کرنے لگے۔
ان سالوں میں کوئی ایسا دن نہ تھا کہ ہم اس کی یاد سے جدا رہیں۔ ہماری زندگی اس کی یاد سے منسلک ہو کر رہ گئی تھی۔
ابراہیم نے ایک ایسا راستہ ہموار کر دیا تھا کہ خدا کی عنایات کی بدولت تیس سے زیادہ اور کتابیں بھی مرتب ہو گئیں۔
جو راستہ اس نے ہمیں دکھایا تھا اس کے ذریعے دسیوں ایسے گمنام شہیدوں کے چہرے اسلامی معاشرے کے سامنے ابھر کر آئے جو اس سرزمین کے مختلف مقامات پر گوشۂ گمنامی میں پڑے ہوئے تھے۔
ایسی کتابیں مرتب ہو گئیں جن کے دسیوں ایڈیشن چھپے اور تقسیم ہوئے۔
شاید پہلے دن سے ہمیں اس چیز کی توقع نہیں تھی کہ ایسا ہو گا ، لیکن ہمارا پیارا ابراہیم، اخلاص و بندگی کا نمونہ، دوسرے ممالک اور اقوام کے جوانوں کے لیے بھی عملی اخلاقی کا ایک آئیڈیل بن کر سامنے آیا۔
برصغیر سے ہمارے کچھ دوستان آئے اور انہوں نے اس کتاب کو اردو میں ترجمہ کر کے برصغیر میں شائع کرنے کی اجازت چاہی۔ ان کا کہنا تھا کہ ابراہیم اس خطے کے مسلمانوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ فروری 2014 میں پہلا اردو ترجمہ شائع ہوا۔
اس کے بعد کچھ اور غیر ملکی دوستوں نے انگریزی میں اس کتاب کے ترجمے کی خواہش ظاہر کی۔ ان کا ماننا تھا کہ ابراہیم تمام انسانوں کے لیے اخلاق کا عملی نمونہ ہے۔ خدا کا شکر کہ 2014 میں یہ کام بھی انجام پا گیا۔
ہاں، ہم پہلے دن اس کے واقعات کے تلاش میں نکلے تا کہ یہ دیکھ سکیں کہ مرحوم شیخ حسن زاہد کا کلام کس قدر معانی و مفاہیم کا حامل ہے۔ اور خدا کی مدد سے ان کا کلام سچا ثابت ہوا۔
ابراہیم تمام انسانوں کے لیے اخلاق کا عملی نمونہ ہے جس سے وہ صحیح اور صالح زندگی گزارنے کا سبق سیکھنا چاہتے ہیں۔
تَمَّتْ بِالْخَیْرِ