حقیقت یہ ہے کہ یہ وصیت نامے انسان کو آغازِ اسلام کے شہداء کی یاد دلا دیتے ہیں۔
ایمان، عشق اور فداکاری سے سرشار ان جوانوں کا سامنا کرتے ہوئے مجھے شدید شرمساری کا احساس ہوتا ہے۔۔۔
ان عزیزوں نے جو وصیت نامے لکھے ہیں، ان کا مطالعہ کریں آپ نے پچاس سال عبادت انجام دی ہے۔ خدا آپ کی یہ عبادت قبول فرمائے۔
۔۔۔ان وصیت ناموں کو لیں، ان کا مطالعہ کریں اور ان میں غور و فکر کریں۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ (صحیفہ، ج۱۴، ص۴۹۱)
*****
یہ جو آپ امام کا فرمان سنتے ہیں: ’’ان جوانوں کے وصیت ناموں کا حتماً مطالعہ کیجیے۔‘‘ تو جہاں تک میرا اندازہ ہے کہ یہ ایک خالی اور خشک نصیحت نہیں ہے بلکہ امام نے یقیناً ان وصیت ناموں کو پڑھا تھا اور ان کا قلب مبارک غم سے چھلنی ہو گیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ دوسرے لوگ بھی ان وصیت ناموں سے فیض حاصل کریں، جیسا کہ میں خود بھی جنگ کے زمانے سے لے کر آج تک ان وصیت ناموں سے کافی حد تک مانوس رہا ہوں اور آج بھی ہوں۔ میں نے دیکھا ہے کہ ان میں سے بعض وصیت نامے اس عرفانی روح کی کس طرح عکاسی کرتے ہیں۔
جو راستہ ایک سالک تیس سال میں، چالیس سال میں طے کرتا ہے، ریاضت کرتا ہے، عبادات انجام دیتا ہے، دل و جان سے اپنے رب کے سامنے حاضر رہتا ہے، اساتذہ کی صحبت سے کسبِ فیض کرتا ہے، کتنی ہی گریہ و زاری ، کتنا ہی خضوع و خشوع اور کتنے ہی بڑے کام انجام دیتا ہے، اس طویل راستے کو ایک جوان دس دن میں، پندرہ دن میں، بیس دن میں محاذ پر رہ کر طے کر لیتا ہے۔ یعنی جن لمحات میں یہ جوان اپنے فطری دینی رجحانات کے تحت اپنی جوانی کے تمام تر جذبات کو ہمراہ لیے محاذ پر گئے اور محاذ پر ہی ان کی یہ حالت قربانی اور ایثار کے عزم میں تبدیل ہو گئی اور انہوں نے اپنے واقعات یا وصیت نامے لکھے تو ان لمحات سے لے کر ان کی شہادت تک یہ حالت لحظہ بہ لحظہ قوی تر ہوتی گئی، خدا سے ان کے فاصلے سمٹتے ہی چلے گئے اور اس کی طرف اٹھنے والے قدموں میں تیزی آتی گئی۔
ان آخری دنوں ، ساعتوں اور لمحات تک اگر ان کی کوئی یادگار رہ گئی تو وہ ایک آگ میں لپٹی گولی کی طرح انسان کے دل پر اثر کرتی ہے۔ ان جوانوں نے جو واقعات قلمبند کیے اور شہید ہو گئے، انسان ان کی تحریروں میں مذکورہ بالا خصوصیات کا واضح طور پر مشاہدہ کر سکتا ہے۔
یہی حسینیؒ روح کا جلوہ ہے۔
رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی
29 دسمبر 1997
شہید کسی ایک ملک یا قوم کی میراث نہیں ہوتا، شہید محسنِ انسانیت ہوتا ہے۔صرف خداوندعالم کے لئے اپنی جان کی بازی لگانے والے کو کسی ایک ملک یا علاقے تک کیسے محدود کیا جا سکتا ہے! شہید کے خون کی لو سے دانش مندوں کے دماغ جگمگاتے ہیں، اقوام کی تقدیر روشن ہوتی ہے اور مظلوموں کی ہمت بلند ہوتی ہے۔
دنیائے صدق و صفا میں شہیدوں کے لہو سے اجالا ہے ، وہ شہداافواج پاکستان کے ہوں، یمن کے مظلوم عوام ہوں، فلسطین کے بے یارومددگار ہوں،کشمیر کے نہتے ہوں،یا افریقہ میں شیخ زکزکی کے چھ بیٹوں اور ان کے ہمراہیوں کی صورت میں ہوں، پاکستان میں مظلومانہ مار دئیے جانے والے افراد ہوں اور یا پھر ایران و عراق و افغانستان میں دشمنانِ اسلام کی گولیوں کا نشانہ بننے والے ہوں۔یہی لوگ تو زمانے میں زندہ و پایندہ کہلانے کے مستحق ہیں۔ یہی تو وہ ملکوتی اجسام ہیں جن کے بارے میں موت کا گمان بھی ممکن نہیں، یہ اپنے رب کے ہاں سے رزق پاتے ہیں اور زمانہ ان کے افکار کا طواف کرتا ہے۔
ہم محسوس کریں یا نہ کریں ان کی بے پایان زندگی کی طرح ان کے افکار بھی لامحدود انوار کی مانند زمانوں کو چیرتے ہوئے نسل در نسل منتقل ہوتے جا رہے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ ہم ان شہدا سے انس پیدا کریں، ان کی سوچ اور فکر سے مانوس ہوں، ان کے زندگی ناموں کا مطالعہ کریں، ان کی وصیتوں کو مشعل راہ بنائیں اور اپنی اس مادی زندگی کو ان کی نورانی یادوں کی روشنی میں بسر کریں۔
ہمیں یہ جاننے اور سوچنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ شہدا کا طرزِ زندگی کیا تھا، ان کا ہدفِ حیات کیا تھا، وہ کیسے سوچتے تھے اور کیسے عمل کرتے تھے، وہ کون سی آرزو، خواہش اور نیت تھی جس نے انہیں شہید ہونے کے لئے آمادہ کیا۔
یہ ٹھیک ہے کہ لوگ شہید ہوتے ہیں لیکن یہ آدھی حقیقت ہے ، پوری حقیقت اور سچائی یہ ہے کہ شہادت ہرکس و ناکس کو نصیب نہیں ہوتی، شہید خدا کا منظور نظر اور پسندیدہ فرد ہوتا ہے۔یعنی شہید کو خدا کی ذات شہادت کے لئے منتخب کرتی ہے۔جتنا شہادت کا درجہ بلند ہے اتنی ہی شہید کی فکر و تحریک بھی قدرومنزلت کی حامل ہے۔
وطنِ عزیز پاکستان کی تقدیر کو سنوارنے کے لئے اور اس کی جغرافیائی ونظریاتی سرحدوں کے دفاع کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے ملک کے جوان رضاکارانہ سوچ، فداکارانہ خدمت اور فی سبیل اللہ موت کے لئے تیار ہوں۔ایسا اسی وقت ممکن ہے جب ہمارے جوانوں کے پاس مطالعے کے لئے شہدا کے زندگی نامے اور وصیت نامے موجود ہوں۔
اگر ہم اپنے ملک میں شہدا کی اہمیت کو اجاگر کریں، ان کے بارے میں کتابیں اور مقالات لکھیں، ان پر ڈرامے اور فلمیں بنائی جائیں، ان کے ایثار کو منظرِ عام پر لایا جائے، ان کی یاد میں مشاعرے، کانفرنسیں اور سیمینارز منعقد ہوں، ان کے پسماندگان کو خاص عزت اور مقام دیا جائے اور ان کے اہداف کو بار بار دہرایا جائے تو ہماری ملت کا بچہ بچہ ملت کا پاسبان بن سکتا ہے۔
ہماری آنے والی نسلوں کی عزت اور سربلندی کے لئے ضروری ہے کہ ہماری تہذیب و ثقافت شہدا پرور ہو اور ہماری نئی نسل ایک شہید پرور تمدن کی آغوش میں جنم لے۔
شہادت پروری، ہمت، جذبہ، ایثار اور فداکاری مانگتی ہے، اگر ہم نے اپنی ملت میں شہادت پروری کی رسم ڈال دی تو دشمن کے خنجر اور ہتھیارکبھی ہمیں شکست نہیں دے پائیں گے۔
کتابِ حاضر شہدا کے وصیت ناموں پر مشتمل ہے، اس کا مقصد اپنی قوم کے جوانوں کو شہدا کے افکار سے آگاہ کرنا ہے، اور انہیں یہ احساس دلانا ہے کہ اگر حیاتِ ابدی کے متلاشی ہیں تو افکار شہدا کے آبِ حیات سے ایک دو گھونٹ پی لیں۔ شہدا کے یہ وصیت نامے ہماری ملت کے لئے آبِ حیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ کتاب ہماری اصلاح کے لئے ۵۰+۵ شہدا کے کلام سے مزین ہے۔
و من اللہ التوفق
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته
ادارہ
الولایۃ پبلیکیشنز
مقدمہ
دفاع مقدس کو کئی سال بیت گئے ہیں۔ ایک ایسا نورانی اور اثرانگیز زمانہ، جسے رہبر معظم ایک خزانے سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اس عرصے میں ایسے جوانوں نے میدانِ جہاد میں قدم رکھا جنہوں نے بقولِ روحِ خدا، امام خمینیؒ ایک صدی کا سفر ایک ہی رات میں طے کر ڈالا۔
جس طویل اور خطروں بھرے راستے کو عرفاء عزلت نشینی اور ریاضتوں کے بعد طے کرتے ہیں، اسے ان جوانوں نے آن کی آن میں عبور کر لیا۔
وہ راہِ کمال کی اس بلندی تک جا پہنچے جسے ہماری مادی فکریں چھو بھی نہیں سکتیں۔ یقیناً یہ جہاد فی سبیل اللہ کی خصوصیات میں سے ہے، کیونکہ خدا وند عالم نے خود قرآن مجید میں فرما رکھا ہے:
وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا([1])
خدا نے بیٹھنے والوں کی نسبت جہاد کرنے والوں کو اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔
اب کسی کو کیا معلوم کہ خدا کی طرف سے بخشا جانے والا یہ اجرِ عظیم کیا ہے؟
علماء فرماتےہیں: جہاں تک ہو سکےدوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔ ایسے اعمال انجام دیں کہ زندگی کی مختصر سی فرصت سے بہترین استفادہ کر سکیں۔
زندگی کی مشکل راہ میں، جو اتار چڑھاؤ اور مشکلات سے اٹی ہوئی ہے، بہترین تجربہ ان لوگوں نے ذخیرہ کیا ہے جنہوں نے حق سبحانہ و تعالیٰ کی طرف معنوی و روحانی سفر کیا اور خدا سے نزدیک ہو گئے۔
جو روحانی راستے کا مسافر ہو اور جس نے ملکوت کی بلندیوں تک پرواز کی ہو وہی شخص ہمارے لیے بہترین نمونہ اور اسوہ بن سکتا ہے جس کی رہنمائی میں ہم راہِ خدا کو طے کر سکتے ہیں، اور ایسے ہی شخص کا کلام ہمارے لیے حلّالِ مشکلات ہو سکتا ہے۔
وہ انسان جو بہشت کی دہلیز پر بیٹھا ہو، جس کی آنکھیں ملکوتِ عالم کا نظارہ کر سکتی ہوں، جو اپنے استقبال کے لیے آنے والے ملائکہ کا مشاہدہ کر سکتا ہو اور معراج کے سفر پر جانے کے لیے آمادہ ہو تو ایسا ہی انسان ہمیں بہتر انداز میں نصیحت کر سکتا ہے۔
اسی لیے اس بوڑھے دانشمند،سفر من الحق الی الخلق کے مراحل طے کرنے والے عارف، امام خمینیؒ نے اس اہم امر کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے اور فرمایا ہے: ’’اگر آپ نے ان وصیت ناموں کا مطالعہ کیا تو گویا آپ نے پچاس سال کی عبادت انجام دے دی ہے۔‘‘
میں اور مجھ جیسے بہت سے افراد ہیں جو اس ذہین انسان کا یہ جملہ پڑھ کر اس سے سرسری گزر گئے۔ نہ غور و فکر کی زحمت کی اور نہ دقت نظر سے کام لیا کہ کم از کم اس عظیم جملے سے کچھ کسبِ فیض ہی کر لیتے۔
لیکن جب ہم شہداء کے ان وصیت ناموں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک حیرت انگیز دنیا کا دریچہ ہمارے سامنے کھلتا ہے۔ ایک ایسی دنیا جو ہمیں اپنے آپ سے کافی فاصلے پر دکھائی دیتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ وہ ہمارے آج کے زمانے کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم سے محوِ گفتگو ہیں۔ انہیں اس چیز کا ادراک ہو گیا تھا کہ ہماری مشکلات کی اصل جڑ کہاں ہے؟!
ہم میں سے بہت سےلوگ یہی سوچتے ہیں کہ چونکہ ہم مصائب میں گھرے ہوئے ہیں اس لیے خدا سے دور ہیں۔ لیکن شہداء نے ثابت کر دیا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ چونکہ ہم خدا سے دور ہیں اس لیے مشکلات کا شکار ہیں۔
*****
آخر میں کچھ نکات کا ذکر بہت ضروری ہے:
اس کتاب کی تدوین و ترتیب کے دوران ہم ادبی اور عاشقانہ وصیت ناموں کی تلاش میں تھے۔ اس حوالے سے ثقافتی گروہ کے بھلے دوستوں اور خصوصاً شہر کُرد میں موجود دوستوں نے بے حد زحمت اٹھائی اور تعاون کیا۔
کوشش یہی کی گئی ہے کہ ہر شہر اور صوبے سے شہداء کو شامل کیا جائے۔
اگر کمانڈرز اور جنگ کی دوسری اہم شخصیات کے وصیت ناموں کو جمع کرتے تو یقیناً ان وصیت ناموں کی تعداد کہاں سے کہاں پہنچ جاتی۔ لیکن ہمارا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ایسے شہداء کا تذکرہ کیا جائے جنہیں عموماً کم ہی لوگ جانتے اور یاد کرتے ہیں۔
پھر بھی بہت سے شہداء ایسے ہیں کہ ہماری غفلت یا مواد کی عدم دستیابی کے سبب جن کے وصیت نامے اس مجموعے میں شامل نہ ہو سکے، لہٰذا ہم ان سب کے لواحقین سے عذر خواہی کرتے ہیں۔
انشاء اللہ یہ مجموعہ اس راستے میں اٹھایا جانے والا پہلا قدم ہے جو شہداء کے وصیت ناموں کی پیشکش کے ذریعے ایک مقدس ہدف تک جا کر رُکے گا۔ انشاء اللہ۔
جوہرِ خلقت
حضرت زہراءؑ کی وصیت
وہ کہتے تھے: ’’یہ ابتر ہے۔ اس کا کوئی بیٹا نہیں ہے۔ اس کی تحریک اس کے بعد نابود ہو جائے گی۔‘‘ لیکن خدا نے اُنؐ کی طرف سے انہیں جواب دیا۔ انہیں کوثر عطا کیا۔ ٹھاٹھیں مارتا چشمہ نازل کیا جو ابد تک عالم اسلام کو تازگی اور زندگی عطا کرتا رہے گا۔
جب کہ کچھ دوسرے لوگوں نے کہا: ’’اے رسول خداؐ! آپ نے ہمیں بدبختی اور ہلاکت سے نجات عطا فرمائی ہے۔ آپؐ ہی نے ہمیں جہالت کے گڑھے سے باہر نکالا ہے۔ ہمیں منزل مقصود آپ ہی کے دم سے ملی۔ اب اس کے بدلے میں آپؐ کا اجرِ رسالت کیا ہے؟ آپؐ کی خوشنودی کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟!‘‘
فرمایا: ’’میں تم سے کسی بھی اجرت اور بدلے کا تقاضا نہیں کرتا۔ ہاں فقط میرے اہل بیتؑ۔ ان کی دوستی و پیروی تمہیں نجات عطا کرے گی۔ میں تم میں قرآن و اہل بیتؑ کو اپنی یادگار کے طور پر چھوڑے جا رہا ہوں۔‘‘
وہ اپنی بیٹی کے دروازے پر کھڑے تھے، وہ بیٹی جو عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں۔ اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ کر فرمایا: ’’السلام علیکم یا اہل بیت النبوۃ۔‘‘
وہ کتنے ہی دنوں تک اس عمل کو دہراتے رہے۔ اتنا دہرایا کہ لوگ اہل بیتؑ کو پہچان لیں، تا کہ میرے بعد کسی غلط راہ پر نہ چل پڑیں۔
فرمایا: ’’فاطمہؑ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے رنجیدہ کیا۔۔۔‘‘
امت ان کلمات کو سنتی اور ایک دوسرے کو بیان کرتی تھی۔ اس امت کے افراد جو مستحبات پر عمل کرنے میں بھی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں رہتے، لیکن۔۔۔
آخر ہوا کیا کہ۔۔۔
آدھی رات کےوقت وہ بیٹی اپنے وقت کے امام امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھ گھر سے نکلی۔ مہاجرین و انصار کے دروازوں پر جا کر دستک دی۔ اتمام حجت کیا: ’’مگر کیا تم لوگ غدیر خم میں نہیں تھے؟! کیا تم نے بیعت نہیں کی تھی؟! کیا۔۔۔؟‘‘
ان کے پاس اس کا کیا جواب ہو سکتا تھا؟! لیکن کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ دنیا طلبی اور عدالت طلبی ایک ہی دل میں جمع ہو جائیں؟!
سچ تو یہ ہے کہ اگر رسول خداﷺ نے اپنی کوثر کی اس قدر سفارش نہ کی ہوتی تو پھر ان لوگوں کا سلوک کیسا ہوتا؟! یا اگر وہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو اذیت دینا بھی چاہتے تو کیا اس سے بڑی کوئی اذیت دے سکتے تھے؟
فراقِ پیغمبرؐ کے رنج و غم کی حالت میں بھی انہوں نے مادرِ سادات کو رنجیدہ کیا۔ علی علیہ السلام سے کہتے تھے: ’’اپنی بیوی سے کہو کہ یا دن کو گریہ کرے اور رات کو خاموش ہو جایا کرے، یا رات کو روئے اور۔۔۔‘‘
اے بے وفا لوگو! رسول خداﷺ کو گئے دن ہی کتنے گزرے تھے؟ پیغمبرؐ کی بیٹی نے تمہارا بگاڑا ہی کیا تھا؟!
اب اس حادثے کو بھی گزرے صدیاں بیت گئی ہیں، لیکن آج بھی کوئی شخص مدینہ میں اپنے قدم رکھتا ہے تو یہ سوال اس کے ہمراہ ہوتا ہے: ’’ام ابیہا، کوثرِ قرآن، رسول خداﷺ کی اکلوتی بیٹی کا مزار کہاں ہے؟!‘‘
سینکڑوں سال گزر گئے، غاصبانِ ولایتِ امیر المومنینؑ کے سامنے آج بھی یہ سوال دھرا ہے: ’’مزارِ فاطمہ سلام اللہ علیہا مخفی کیوں ہے؟ کیا اکثر صحابہ حتی کہ تابعین تک کے مزار مشخص نہیں ہیں؟ تو پھر فقط دخترِ پیغمبرؐ ہی نے کیوں چاہا تھا کہ ان کی قبر مخفی رہے؟‘‘
یہ سوال ہر سوال کرنے والے کو پہلے زمانوں کی نسبت آج زیادہ شدت سے اپنی طرف متوجہ کرتا ہے کہ آخر فاطمہ سلام اللہ علیہا کا قصور کیا تھا؟! کیوں انہیں اذیتیں دی گئیں؟! آخر کیوں!؟!
حقیقت یہ ہے کہ خداوند عالم کی عصمت کبریٰ کی گمنامی ایک ایسا پرچم ہے جو ابد تک لہراتا رہے گا۔ اس وقت تک جب ان کا پیارا بیٹا پردۂ غیبت سے نکلے گا اور ان کی مظلومیت کا انتقام لے گا۔ انشاء اللہ۔
تمام اچھائیوں کی ماں، خلاصۂ انسانیت، حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا وصیت نامہ:
’’خدائے غفور و رحیم کے نام سے!
یہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) دختر رسول خداﷺ کا وصیت نامہ ہے۔ میں اس بات کی شہادت دیتے ہوئے وصیت کرتی ہوں کہ خدائے احد کے سوا کوئی خدا نہیں ہے اور محمد (ﷺ) اس کے بندے اور پیغمبر ہیں۔ بہشت حق ہے اور آتش جہنم بھی حق ہے۔ قیامت کا دن آ کر رہے گا، جس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ خداوند عالم مردوں کو زندہ کر کے محشر میں لا کھڑا کرے گا۔
اے علیؑ! میں فاطمہ (سلام اللہ علیہا) دختر محمد (ﷺ) ہوں۔ خدا نے مجھے آپ کی زوجیت میں دیا ہے تا کہ دنیا و آخرت میں آپ ہی کی خاطر رہوں۔ مجھ پر دوسروں کی نسبت آپ کا حق زیادہ ہے۔ میرے حنوط، غسل اور کفن کا انتظام رات کی تاریکی میں کیجیے گا۔ رات کو مجھ پر نماز پڑھیے گا اور رات ہی کو مجھے دفن بھی کر دیجیے گا۔ اور کسی کو اطلاع نہ دیجیے!
میں آپ کو خدا کے سپرد کرتی ہوں اور روزِ قیامت تک اپنی اولاد پر سلام و درود بھیجتی ہوں۔‘‘
آیت اللہ بہجتؒ اس بارے میں فرماتے ہیں:
اتنی مظلومیت کے بعد احتضار کی حالت میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا اس بات کی وصیت کرنا کہ مجھے شب کی تاریکی میں دفنایا جائے، بہت ہی محیر العقول کام تھا جو انبیاء کےکاموں سے شباہت رکھتا ہے۔ کیونکہ جس شخص کا کسی سے نزاع ہو، وہ مغلوب ہو کر قتل یا شہید ہو جائے، فیصلہ اس کے خلاف دیا جائے اور اتنی ساری مصیبتوں کا وہ سامنا بھی کرے اس کے باوجود بھی وہ ایسا راستہ پیدا کر لے جس میں وہ خود کو غالب اور فاتح تسلیم کروائے تو یہ کام انبیاء کے کاموں اور ان کے معجزات سے شباہت رکھتا ہے۔
ایک ایسا راستہ جسے سمجھنے سے فہم انسانی عاجز ہے اور وہ یہ ہےکی بی بیؑ نے وصیت کی کہ ان کی میت کو بغیر تشییع کے رات کو دفن کیا جائے۔
مظلوم
علی بن ابی طالب علیہما السلام کا وصیت نامہ
ابوالفرج نے مقاتل الطالبین میں روایت بیان کی ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کو ضربت لگنے کے بعد کوفہ کے طبیبوں کو حضرت کے سرہانے لایا گیا۔ ان میں سے زخم کے علاج اور جراحت کے حوالے سے اثیر بن عمرو سے زیادہ کوئی بھی مہارت نہیں رکھتا تھا۔ وہ زخموں کے علاج اور جراحت میں متخصص تھا۔
اس نے جیسے ہی حضرتؑ کے زخم کو دیکھا تو گوسفند کا جگر لانے کو کہا۔ جب جگر آ گیا تو اس نے اس میں سے ایک رگ نکالی اور اسے زخم میں رکھ دیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے باہر نکال کر غور سے دیکھا۔ پھر حضرتؑ کی طرف منہ کر کے کہنے لگا: ’’اے امیر المومنینؑ! آپ جو بھی وصیت کرنا چاہتے ہیں کر لیں کیونکہ اس دشمن خدا کی تلوار کا زخم آپ کے مغز تک پہنچ چکا ہے۔ اب علاج معالجے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ‘‘
اس وقت امیر المومنینؑ نے کاغذ، قلم اور دوات طلب کیے اور وصیت کرنا شروع کی۔ حضرت امام علی علیہ السلام کا یہ وصیت نامہ اجمال و تفصیل کے ساتھ کتبِ احادیث میں مختلف انداز میں موجود ہے جن میں سے ایک کو ابوالفرج نے نقل کیا ہے، جبکہ کافی میں مرحوم کلینیؒ نے بھی اسی جیسے ایک وصیت نامے کو روایت کیا ہے۔ اس کے علاوہ نہج البلاغہ میں (47 ویں خط کے ضمن میں) اجمالی طور پر اس کا تذکرہ ہے۔ علامہ مجلسیؒ نے بھی بحار الانوار میں اس کا ذکر کیا ہے۔ ہم ابوالفرج ہی کی روایت کو نقل کرتے ہیں جو دوسروں کی نسبت زیادہ جامعیت رکھتی ہے۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
یہ وصیت نامہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب کی طرف سے ہے:
علی گواہی دیتا ہے کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ وہ وحدہ لا شریک ہے۔ علی یہ گواہی بھی دیتا ہے کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں جنہیں اس نے رہنمائی اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا تا کہ وہ دین تمام ادیان پر غالب آ جائے اگرچہ مشرکین کو برا ہی کیوں نہ لگے۔
ان پر خدا کا درود اور برکتیں نازل ہوں! ’’میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب یقیناً اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا فرمانبردار ہوں۔([1])‘‘
اے حسن! میں تمہیں، اپنی ساری اولاد، اپنے خاندان اور ہر اس شخص کو جس تک یہ وصیت نامہ پہنچے، تقویٰ اور اس خدا سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں جو تمہارا پروردگار ہے۔ اسلام کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہونا۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اور آپس میں تفرقے میں نہ پڑ جانا کیونکہ میں نے رسول خداﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’لوگوں کے درمیان اصلاح کرنا سب نمازوں اور روزوں سے بہتر ہے۔ جو چیز دین کو تباہ کرتی اور اسے فنا کر دیتی ہے، وہ لوگوں کے درمیان فساد ڈالنا ہے۔ و لا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ [خدائے عظیم کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔]‘‘
اپنے رشتہ داروں اور خاندان والوں کا خیال رکھنا اور ان سے جڑے رہنا۔ صلہ رحمی کرنا تا کہ روزِ قیامت خدا تمہارے حساب کو تم پر آسان کر دے۔
یتیموں کے بارے میں خدا سے ڈرو، خدا سے ڈرو۔ اپنی سنگدلی کے سبب ان کے دہن کے لیے باری مقرر نہ کرو۔ [یعنی ایسا نہ ہو کہ کبھی تو انہیں کھانا کھلا دو اور کبھی انہیں بھوکا ہی چھوڑ دو۔]
اپنے ہمسایوں کے بارے میں خدا سے ڈرو، خدا سے ڈرو، کیونکہ رسول خداﷺ نے ان کی سفارش کی ہے اور ہمیشہ ان کے بارے میں اتنی نصیحت کرتے تھے کہ ہمیں گمان ہونےلگا کہ پیغمبرؐ ہمسایوں کے لیے میراث میں بھی حصہ رکھ دیں گے۔ ہمسایوں کی حرمت اس قدر زیادہ ہے کہ مسلمانوں کے مال میں سے کچھ حصہ ہمسایوں کے لیے بھی مخصوص کیا گیا ہے۔
قرآن کے بارے میں خدا سے ڈرو، خدا سے ڈرو! تمہارا غیر اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت نہ لے جائے۔ نماز کے بارے میں خدا سے ڈرو، خدا سے ڈرو! کیونکہ نماز تمہارے دین کا ستون ہے۔
اپنے پروردگار کے گھر (خانہ کعبہ) کے بارے میں خدا سے ڈرو، خدا سے ڈرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب تک تم زندہ رہو وہ تم سے خالی رہے۔ اگر تم نے خانہ خدا کو چھوڑ دیا تو تمہیں مہلت نہیں دی جائے گی اور تم عذاب کا شکار ہو جاؤ گے۔ اگر خانہ خدا تم سے خالی ہو گیا تو خداوند کا عذاب تمہیں زندگی کی فرصت نہیں دے گا۔
اپنے اموال کی زکوٰۃ کے بارے میں خدا سے ڈرو، خدا سے ڈرو کیونکہ زکوٰۃ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرتی ہے۔ رمضان کے روزوں کے بارے میں خدا سے ڈرو، خدا سے ڈرو، اس لیے کہ روزہ تمہارے لیے جہنم کی آگ سے ڈھال ہے۔
بے نواؤں اور مسکینوں کے بارے میں خدا سے ڈرو، خدا سے ڈرو۔ انہیں اپنی زندگی میں شریک کرو اور اپنے لباس و خوراک میں سے انہیں بھی حصہ دو۔ راہِ خدا میں اپنی جان، مال اور زبان کے ذریعے جہاد کرنے کے حوالے سے خدا سے ڈرو، خدا سے ڈرو۔
اپنے پیغمبرؐ کی امت کے بارے میں خدا سے ڈرو، خدا سے ڈرو۔ تمہارے درمیان کسی بھی قسم کا ظلم و ستم واقع نہ ہونے پائے۔
اپنے پیغمبرؐ کے اصحاب کے بارے میں خدا سے ڈرو، خدا سے ڈرو، کیونکہ رسول خداﷺ نے ان کے بارے میں نصیحت کر رکھی ہے۔ اپنے ماتحتوں، غلاموں اور کنیزوں کے حوالے سے بھی خدا سے ڈرو، خدا سے ڈرو، کیونکہ پیغمبر خداﷺ کی آخری وصیت یہی تھی: ’’میں تمہیں تمہارے زیردستوں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں۔‘‘
اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا:
نماز! نماز! خدا کے معاملے میں لوگوں سے خوف مت کھاؤ۔ جو کوئی بھی تم پر ستم کرے یا تمہارے خلاف کوئی برا ارادہ کرے تو خدا اس کے مقابلے میں تمہارے لیے کافی ہے۔
لوگوں کے ساتھ اچھی گفتگو کرو، جیسا کہ خداوند عالم نے تمہیں حکم دیا ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک نہ کرو تاکہ معاملہ تمہارے ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ اسے ترک کرنے کے بعد تم جو بھی دعا کرو گے اور خداوند سے شر کو دفع کرنے کی درخواست کرو گے تو وہ قبول نہیں ہو گی۔
لوگوں سے میل جول کے وقت تواضع، بخشش اور ایک دوسرے کےساتھ نیکی کا خیال رکھو۔ اور جدائی، تفرقہ، پراکندگی اور ایک دوسرےسے منہ پھیرنے سے اپنے آپ کو بچا کر رکھو۔
نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کے مددگار بنو اور گناہ و ظلم میں کسی کی مدد نہ کرو کیونکہ عذابِ خداوندی کا شکنجہ بہت ہی سخت ہے۔
خداوند عالم تمہارا نگہبان ہو اور تمہارے حق میں اپنے پیغمبرؐ کےحقوق کو محفوظ رکھے۔
اب میں تم سب کو الوداع کہتا ہوں، تمہیں خدا کے سپرد کرتا ہوں اور تم پر اس کے سلام و رحمت کی دعا کرتا ہوں۔‘‘
کافی میں آیا ہے کہ امام علیہ السلام کے اس وصیت نامے کے بعد جب تک آپ کی روح مقدس ملکوت اعلیٰ کے ساتھ جا کر متصل نہ ہو گئی اس وقت آپ کے ہونٹوں پر کلمہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کی تکرار ہوتی رہی۔
باپ کی طرف سے ایک خط
امام خمینیؒ کا اپنے بیٹے کے نام ناصحانہ خط
اس عظیم عالم دین نے فرمایا: ’’ہر سو سال میں آسمان تشیع پر ایک خورشید طلوع ہوتا ہے اور اس کی روشنی ایک صدی تک دنیا میں اجالا کیے رکھتی ہے۔ ہمارے زمانے میں بھی خمینیؒ جیسی عظیم شخصیت آئی کہ جس نے انقلاب اسلامی کے ذریعے نہ فقط شیعہ اور نہ صرف اسلام بلکہ عالم بشریت کے ضمیروں کو بیدار کر کے رکھ دیا۔‘‘
اس حکیم رہبر اور خدا تک پہنچے ہوئے انسان کا ایک الٰہی اور سیاسی وصیت نامہ بھی ہے جو انسان کی توجہ کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔
لیکن ان کا ایک عرفانی اور اخلاقی خط یادگار ہے جو انہوں نے اپنے فرزند سید احمد کو لکھا تھا۔
اس خط کا مخاطب میں بھی ہوں اور آپ بھی۔ آئیے اس کے کچھ حصوں کا مطالعہ کرتے ہیں:
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
حمد اس خدا کے ساتھ ہی مخصوص ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ وہ جس کے علاوہ نہ کوئی بخشنے والا ہے اور نہ مہربان۔ اس کے علاوہ نہ کسی کی پرستش کی جا سکتی ہے اور نہ ہی کسی سے مدد مانگی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی کی حمد نہیں ہے۔ اس کے سوا کوئی مربی ہے نہ پروردگار۔وہی ہے جو راہِ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ وہی اول و آخر ہے، وہی ظاہر و باطن ہے۔ درود و سلام ہو سید الانبیاءؐ اورپوری انسانیت کے رہبر و ہادیؐ پر جو عالمِ غیب سے جہانِ شہود میں ظاہر ہوئے۔
درود و سلام ہو ان کے پاک و پاکیزہ خاندان پر، جو سرّالٰہی کے مخزن ، حکمت خداوندی کے معادِن اور خدا [و رسولؐ]کے علاوہ سب کے راہنما ہیں۔
اما بعد!
یہ اس ضعیف اور عاجز انسان کی وصیت ہے جو اپنی نوے سالہ عمر کے پورے عرصے میں گمراہی و مدہوشی میں غرق رہا اور اب اپنی حقیر ترین عمر کو قعرِ جہنم کی طرف کھینچے ہوئے جا رہا ہے۔ جسے اپنی نجات کی کوئی امید نہیں ہے لیکن وہ خدا کے فیض اور اس کی رحمت سے مایوس نہیں ہے اور اس کے علاوہ اس کی کوئی امید بھی نہیں ہے۔([1])
یہ وصیت ایک ایسے نوجوان کے لیے ہے جس کے بارے میں امید ہے کہ خدائے عظیم کی توفیق اور ہادیانِ سُبُل علیہم السلام کی ہدایت کے سبب حق تک پہنچنے کا کوئی راستہ ڈھونڈ لے اور جس گرداب میں اس کا باپ گھِرا رہا، اس سے نجات پا جائے۔
میرے پیارے بیٹے، احمد!
ان اوراق پر نگاہ ڈالو: أنظر الی ما قال و لا تنظر الی من قال۔۔۔ (یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے) جان لوکہ موجودات عالم میں سے کوئی بھی موجود عوالم جبروت و اعلیٰ و اسفل کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور نہ ہی اس کے پاس کوئی قدرت، علم اور فضیلت ہے۔ جو کچھ بھی ہے وہ اسی کے فیض سے ہے کہ جس نے ازل سے لے کر ابد تک کے تمام امور کی زمام اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے۔ وہ احد و صمد ہے۔
ان بے ارزش اور بے قیمت مخلوقات سے کسی قسم کا خوف نہ کھاؤ اور ان سے کوئی بھی امید نہ رکھو کیونکہ اس کے علاوہ کسی اور سے امید رکھنا شرک ہے اور اس کے سوا کسی دوسرے سے ڈرنا عظیم کفر ہے۔
میرے بیٹے!
جب تک جوانی کی نعمت تمہارے پاس ہے اپنی اصلاح کی فکر کرتے رہو کیونکہ بڑھاپے میں تمہارے ہاتھ کچھ بھی نہیں رہے گا۔ شیطان کے ہتھکنڈوں میں سے بلکہ شاید سب سے بڑا ہتھکنڈا استدراج([2]) ہے جس میں تمہارا باپ گرفتار رہا اور آج بھی ہے۔
نوجوانی کے زمانے میں ایک نوجوان کو اس کا باطنی شیطان جو اس کا سب سے بڑا دشمن ہے، اپنی اصلاح کے بارے میں سوچنے ہی نہیں دیتا اور اسےمسلسل امید دلاتا رہتا ہے کہ ابھی بہت وقت پڑا ہے۔
یہ بہارِ جوانی کے ایام ہیں۔انسان کے گزرتےہوئے ہر گھنٹے اور ہر دن میں یہ دشمن اسے درجہ بہ درجہ جھوٹے وعدے کر کے اس اپنی تربیت و اصلاح کی فکر سے باز رکھتا ہے یہاں تک کہ جوانی کے لمحات اس سے چھین لیتا ہے۔ اور جب جوانی کا مرحلہ ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے تو اسے بڑھاپے میں اصلاح کی امید دلا کر بہلا دیتا ہے۔
بڑھاپے کے دنوں میں بھی یہ شیطانی وسوسہ اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور اسے عمر کے آخری حصے میں توبہ کی امید دلاتا ہے اور جب عمر کی آخری گھڑی آ جاتی ہے اور وہ موت کا دیدار کر لیتا ہے تو خداوند کریم کی ذات کو اس کی نظروں کے سامنے مبغوض ترین اور قابل نفرت ذات کے طور پر پیش کرتا ہے کہ جس نے اس کی محبوب دنیا کو اس کے ہاتھوں سے چھین لیا ہے۔
۔۔۔ کچھ ایسے افراد بھی ہیں جنہیں دنیا کی غرقابی اپنی اصلاح کا سوچنے بھی نہیں دیتی اور دنیا کا غرور سر سےپاؤں تک انہیں اپنی لپیٹ میں لیے ہوتا ہے۔ میں نے خود علماء میں بھی ایسے افراد کو دیکھا ہے، جن میں سے بعض ابھی بھی بقیدِ حیات ہیں۔ یہ لوگ ادیان کو کچھ بھی نہیں سمجھتے۔
میرے بیٹے!
اس بات کی طرف متوجہ رہو کہ ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اس بات پر مطمئن ہو کہ وہ شیطان کے اس جال میں نہیں پھنسے گا۔
میرے عزیز!
ائمہ معصومین علیہم السلام کی دعائیں پڑھو اور دیکھو کہ وہ اپنی حسنات کو سیئات میں سے شمار کرتےہیں، اپنے آپ کو عذابِ الٰہی کا مستحق سمجھتےہیں اور رحمت پروردگار کے سوا کسی بھی چیز کا نہیں سوچتے لیکن اہل دنیا اور شکم پرور علماء ان دعاؤں کی تاویل کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے حق کو صحیح طور پر پہچانا ہی نہیں ہے۔
۔۔۔ آؤ، اکٹھے وجدان کی طرف چلتے ہیں، ممکن ہے کوئی راہ کھل جائے۔ ہر انسان بلکہ ہر موجود فطرتاً کمالات کا عاشق ہے اور نقص سے نفرت کرتا ہے۔ تم اگر علم حاصل کرتے ہو تو اس وجہ سے کیونکہ وہ کمال ہے۔
اس جہت سے یہ ممکن نہیں ہے کہ تمہاری فطرت ہر اس علم پر قانع ہو جائے جو تم حاصل کر چکے ہو بلکہ اگر وہ اس بات کی طرف متوجہ ہو جائےکہ اس علم میں مزید اعلیٰ مراتب موجود ہیں تو حتماً ان مراتب کو تلاش کرے گی اور انہیں حاصل کرنےکی کوشش کرے گی۔ اگر فطرت ایک علم سےنفرت کرتی ہے تو وہ اس کی محدودیت اور نقص کی وجہ سے ہے اور اگر کسی دوسرے علم سے دل لگا لیتی ہے تو وہ اس کے کمال کے سبب سے ہے۔
میرے پیارے بیٹے!
اب میں چاہتا ہوں کہ جو ناقص زبان و قلم میرے پاس ہے، اس کے ذریعے تم سے بات کروں۔
تم اور باقی سب لوگ جانتےہیں کہ تم لوگ ایک ایسے نظام میں زندگی بسر کر رہے ہوجس نے خداوند عالم جل جلالہٗ کی قدرت و توفیق اور حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا لتراب مقدمہ الفداء اور ایران کے انقلابی عوام ، جس کے ایک ایک فرد پر میری جان قربان ہو، کی دعا و تائید سے تمام شیطانی طاقتوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ہے۔اس نظام نے اس ستم شاہی نظام کی ناک زمین پر رگڑ کر رکھ دی ہے جس نے ہزاروں سال سے ظلم و ستم، مردم آزاری اور قتل و غارت گری کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا۔ اس کےمقابلے میں وہ لوگ جو ان ظالموں کی شہہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے تھے وہ اس جمہوری نظام کے مٹ جانے کے انتظار میں سر پٹخ رہے ہیں۔
چونکہ مغرب کے مفادات خطرےمیں ہیں اور قدرتمند اسلام ہی تنہا وہ طاقت ہے جو ان کے لیے اس خطرے کا باعث بنا ہے لہٰذا وہ قدرتمند اسلام کو اپنے اور اپنےدوستوں کے لیے بہت بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ ملک کے اندر بھی کچھ ایسے دلباختہ اور بدحواس لوگ موجود ہیں جو اپنے آقاؤں کی پیروی کرتے ہوئے عظیم اسلام، جمہوری اسلامی اور اس کی ترقی کے لیے کام کرنے والوں سے دشمنی رکھتے ہیں اور انقلاب کے اثرات کو مٹانے کی فکر میں ہیں۔ ایسے حالات میں بھی کیا آپ توقع رکھتے ہیں کہ یہ لوگ جمہوری اسلامی کے ساتھ گرمجوشی سے ہاتھ ملا کر اہلاً و سہلاً کہتے ہوئے اس کے اور اس کے سربراہان کے گُن گائیں گے!؟
یہ انسان کے فاسد افکار کی طبیعت کا تقاضا ہے کہ اپنے راستے میں آنے والے ہر کانٹے کو جیسے بھی ہو ہٹا دے۔ اس سلسلے میں فوجی، اقتصادی اور عدالتی وسائل کے ساتھ ساتھ ثقافتی پہلو ایک بہت بڑا وسیلہ ہے۔
مشرق و مغرب کی فاسد ثقافتیں یہی چاہتی ہیں کہ بھاری وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے پورا دن جھوٹ، تہمت اور بہتان کے ذریعے اسلام کی الٰہی ثقافت پر حملے کرتی رہیں۔ جمہوری اسلامی کے الٰہی قوانین اور اصل اسلام پر چوٹ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں، اسلام سے وابستہ لوگوں کو رجعت پسند اور سیاسی شعور سےبےگانہ قرار دیں اور اسلام کے قوانین کو اس زمانے کے لیے ناکافی شمار کریں۔اور اس مقصد کے لیے اس بہانے کا سہارا لیں کہ جن قوانین کو بنے ہوئے چودہ سو سال کا عرصہ گزر گیا ہو وہ موجودہ زمانے کے انتظامات کو نہیں سنبھال سکتے۔ کیونکہ آج کی دنیا ایسے جدید امور سے لبریز ہے جو اس زمانے میں نہیں ہوتے تھے۔ حتی کہ بعض اسلام کے دعوے دار بھی یہی راگ الاپتے رہے ہیں اور آج بھی اس پر قائم ہیں۔
ایسے ماحول میں ضروری ہے کہ ان گہری اور وسیع سازشوں کے مقابلےمیں الٰہی و اسلامی ثقافت کا دامن مضبوطی سے تھاما جائے اور یہ فرصت جو اس وقت میسر ہے، ذمہ دار مصنفین، مقررین اور ہنرمندوں کو چاہیے کہ اس سے استفادہ کریں اور فقہ اسلام و قرآن کریم سے گہری آگاہی رکھنے والے علماء کے ساتھ مل کر قرآن کریم، سنت نبی کریمﷺ، روایتی فقہ و معارف الٰہی سے بھرپور روایات کی روشنی میں اجتہاد کر کے احکام الٰہی کا استخراج کریں جو تمام زمانوں کے لیے ہیں۔ اور استخراج کر کے ان احکام کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔
پست کردار لوگوں، درباری علماء اور سرکاری واعظین کی نکتہ چینیوں اور اعتراضات سے نہ گھبراؤ اور ان عالم نما افراد اور ان علماء، جو جان بوجھ کر یا کج فہمی، حسد اور شیطانی وسوسوں کی بنیاد پر مخالفت کرتے ہیں، کو موعظۂ حسنہ اور نبی کریمﷺ، امیر المومنین علیہ السلام اور باقی ائمہ معصومین علیہم السلام کےطریقہ کار پر عمل پیرا ہوتے ہوئے سمجھاؤ کہ اگر ان کی یہ کجرویاں خدانخواستہ بڑھتی گئیں اور جمہوری اسلامی، جو پوری تاریخ میں مظلوم رہنے والے اسلام کو زندہ دیکھنا چاہتا ہے، کے نظام میں کوئی خلل پڑ گیا تو یہ اسلام مغرب و مشرق اور ان کے حواریوں کے ہاتھوں سے ایسا طمانچہ کھائے گا کہ ہمیں صدیوں تک ستم شاہی کے زمانے سے بھی زیادہ خطرناک فساد کا مشاہدہ کرنا پڑے گا۔
اور اب وقت آن پہنچا ہے کہ میں اپنے بیٹے احمد کو پدرانہ وصیت اور نصیحت کروں۔
میرے بیٹے!
تم اگرچہ کسی سرکاری عہدے پر نہیں ہواس کے باوجود جن طاقت فرسا مشکلات کا تمہیں سامنا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے تم میرے بیٹےہو۔ اور مشرق و مغرب کی ثقافت کے مطابق جو کوئی بھی میرے نزدیک ہو گا، بالخصوص تم جو سب سےزیادہ میرے نزدیک ہو، وہ اذیتوں، تمہتوں اور بہتانوں کا شکار رہےگا۔ حقیقت میں تمہارا جرم یہی ہے کہ تم میرے بیٹے ہو اور ان کی نظروں میں یہ کوئی چھوٹا جرم نہیں ہے۔
۔۔۔ اگر حق تعالیٰ پر تمہارا ایمان و اعتقاد ہے اور اس کی بے انتہاء رحمت اور حکمت پر اعتماد کرتے ہو تو ان تہمتوں، افتراپردازیوں اور اذیتوں کو اپنے دوست کی طرف سے ایک تحفہ سمجھو جو اس نے تمہاری نفسانیت کو کچلنے کے لیے نازل کی ہیں۔ انہیں ایک ایسا امتحان جانو جس میں وہ اپنے بندوں کو خالص کرنے کےلیے مبتلا کرتا ہے۔
پس زمانے کے تھپیڑے کھاؤ اور خدا کا شکر ادا کرو کہ اس نے تم پر یہ عنایت کی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ کی آرزو کرو۔۔۔
خدایا! ہم سرتاپا گناہوں میں ڈوبے ہوئے بندوں کے گناہ معاف فرما اور اپنی وسیع رحمت سے ہمیں محروم نہ رکھ۔
ہرچند کہ ہم اہل نہیں ہے مگر تیری ہی مخلوق ہیں۔ خدایا! اس اسلامی جمہوریہ، اس کے معاملات سنبھالنے والوں اور ہمارے عزیز مجاہدوں کو اپنی عنایتوں کی پناہ میں قرار دے۔ عزیز شہداء اور گمشدگان کو ان کے خاندانوں سمیت اپنی رحمت میں غرق فرما اور ہمارےاسیروں اور گمشدگان کو جلد از جلد اپنے وطن میں واپس لوٹا دے۔
بحق محمد و آلہ الاطہار علیہم الصلوٰۃ و السلام۔
تاریخ 27 ربیع الثانی 1408ھ بمطابق 19 دسمبر 1987
روح اللہ الموسوی الخمینی
صحیفۂ امامؒ: ج20، ص436
([1]) اللہ اللہ، یہ عاجزی و انکساری!! صحیفہ کاملہ کی دعائیں پڑھیں تو معصومؑ کی زبان بھی خداوند کریم کے حضور ایسی ہی عاجزی کا اظہار کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ان الفاظ میں امام خمینیؒ کا عجز چھلک رہا ہے ورنہ دنیا جانتی ہے کہ عرفان کی جس منزل پر امامؒ فائز تھے، وہ بہت ہی کم اشخاص کو نصیب ہوئی ہے۔
([2]) استدراج کا لغوی معنی ہے درجہ بہ درجہ کسی چیز کے قریب یا اس سے دور ہونا۔ اصطلاح عرفان میں اس سے مراد یہ ہےکہ انسان نعماتِ الٰہی کی فراوانی میں اتنا سرمست ہو جائے اور معصیت پر اتر آئے کہ اپنی طرف بڑھتے ہوئے عذابِ خداوندی کو نہ دیکھ سکے۔ مسلسل ملنے والی نعمتیں اسے عذاب خداوندی سے غافل کر دیں وہ آہستہ آہستہ عذاب کی طرف بڑھنا شروع ہو جائے۔ احادیث میں بھی استدراج کا یہی معنی ملتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے جب استدراج کا معنی پوچھا گیا تو آپؑ نے فرمایا: ’’بندہ کوئی گناہ کرے تو اسے مہلت دے دی جائے پھر اسی گناہ کے دوران اسے کوئی اور نعمت دے دی جائے اور وہ اس نعمت میں غرق ہو کر استغفار سے غافل ہو جائے۔‘‘
فرزندِ امامؒ
شہید عارف حسینی کی شہادت پر امام خمینیؒ کا تعزیتی خط اور پاکستانی قوم کے نام پیغام
سید عارف حسین الحسینی پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی کے صدر مقام پاڑہ چنار سے چند کلومیٹر دور پاک افغان سرحد پر واقع گاؤں پیواڑ کے معزّز سادات اور علمی گھرانے میں 25 نومبر 1946 ء کو پیدا ہوئے۔ عارف حسینی ابتدائی دینی و مروجہ تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کرنے کے بعد پاکستان کے بعض دینی مدارس سمیت جامعۃ المنتظر لاہور میں زیرتعلیم رہے۔
1967ءمیں مزید تعلیم کے لیے نجف اشرف تشریف لے گئے۔ نجف اشرف میں آپ باقاعدگی سے امام خمینیؒ کے دروس، نماز اور دیگر پروگراموں سے وابستہ ہوئے جس نے آپ کی فکری اور سیاسی فعالیت کو نئی جہت بخشی۔ آیت اللہ حکیم پر ہونے والے بعثی حکومت کے مظالم کے خلاف فعالیت پر گرفتاری اور ایک ماہ قید کے بعد آپ کو عراق سے نکال دیا گیا۔ آپ نے پاکستان وآپس آکر علمی اور سیاسی کاموں کا آغاز کیا اور عوام میں مقبول ہوئے۔
1974 ء میں دوبارہ نجف کا قصد کیا لیکن آپ کو عراق داخل نہیں ہونے دیا گیا تو قم کی دینی درسگاہ کا رخ کیا جہاں آپ نے علم کے حصول کے ساتھ سیاسی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔۔ قم میں آپ نے آیت الله سیّد اسدالله مدنی، سیّد مجتبی لنکرانی، شهید مرتضی مطهری، آیت الله فاضل لنکرانی، آیت الله جعفر سبحانی و آیت الله ناصر مکارم شیرازی جیسے علمائے اعلام سے کسب فیض کیا۔ قم میں امام خمینی کی اسلامی تحریک سے وابستہ شخصیات سے بھی رابطے میں رہے ۔عارف حسینی کی انقلابی سرگرمیوں کی وجہ سے آپ کو ایک دفعہ پھر ایران کی شاہی خفیہ پولیس ساواک نے نشاندہی پر گرفتار کر لیا اور یہاں سے بھی ملک بدر کر دیئے گئے۔ عارف حسین حسینی 1977ء میں ملک بدری کے بعد پاکستان واپس آ گئے اور یہاں بھی آپ نے لوگوں میں سیاسی اور نطریاتی شعور اور آگاہی کے لیے کام شروع کر دیا۔ شاہ ایران کا سفاک چہرہ عیاں کیا اور لوگوں کو امام خمینی رہ کی تحریک سے آگاہ کیا۔ ساتھ ہی مدرسہ جعفریہ پاڑہ چنار میں بحیثیت استاد اپنی خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ آپ نے کرم ایجنسی کے حالات بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ علمی، فلاحی اور سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ یہ آپ کی اخلاقی سیرت تھی جس نے لوگوں کو آپ کی شخصیت میں مجذوب کیا۔
عارف حسینی نے پاکستان کی ملّت تشیّع کو متحد و منظم کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کیں اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ اگست 1983ء میں قائد تحریک علامہ مفتی جعفر حسینؒ کی وفات کے بعد 1984 ء میں ان کے نائب علامہ سید صفدر حسین نجفیؒ نے پاکستان کے جیّد شیعہ علما و اکابرین کی تجویز پر علامہ عارف حسینیؒ کو آپ کی قائدانہ صلاحیتوں، انقلابی جذبوں اور اعلیٰ اخلاقی صفات کی بناپر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا نیا سربراہ منتخب کیا۔ آپ نے پاکستانی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے طویل جد و جہد کی۔ اس سے قبل پاکستانی سیاست میں اہل تشیع کا مؤثر کردار نہیں تھا، لیکن عارف حسینیؒ نے شیعہ سنی اتحاد بین المسلمین اور اپنی قوم میں بیداری کے لئے اپنے ملک گیر دوروں، لانگ مارچ کے پروگراموں، کانفرنسوں اور دیگر پروگراموں کے ذریعے دین اور سیاست کے تعلق پر زور دیتے ہوئے سیاسی اہمیت کا احساس دلایا، اس سلسلے میں لاہور کی عظیم الشان قرآن و سنت کانفرنس اس جد و جہد کا تاریخی موڑ ہے۔
علامہ عارف حسین الحسینیؒ کی یہ سرگرمیاں یہاں موجود سامراجی کٹھ پتلی ڈکٹیٹر پر بھی گراں گزریں اور ۵ اگست ۱۹۸۸ء کو نماز فجر کے وقت اپنے مدرسے دار المعارف الاسلامیہ میں سامراجی سازش کے تحت حکومتی گماشتوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہو گئے۔
ان کی شہادت پر امام خمینیؒ کے خصوصی نمائندے آیت اللہ جنتی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور امام خمینیؒ کی طرف سے تاریخی تعزیتی پیغام بھی ساتھ لائے جس میں انہوں نے شہید حسینیؒ کو اپنا عزیز فرزند قرار دیا تھا۔
ذیل میں امام خمینیؒ کے اسی تعزیتی خط کا ترجمہ پیش خدمت ہے:
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحيم
بخدمت حضرات علمائے کرام، حجج الاسلام اور پروقار پاکستانی قومایدھم اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے حجۃ الاسلام محترم جناب سید عارف حسین حسینی ، اسلام اور انقلاب کے ایک وفادار ساتھی، محروموں اور مستضعفوں کے مدافع اور شہداء كے سرور اور سردار حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کے سچے اور حقیقی فرزند ، کی شہادت پر آپ کی طرف سے مبارکباد اور تعزیتی پیغامات اور ٹیلیگرام موصول ہوئے۔ اگرچہ اس عظیم سانحے نے مسلمانوں اور مخصوصاًاسلام کے باوفا علماء كے دلوں كو مجروح کر ڈالا ہے ،لیكن یہ ہمارے لئے، دنیا کی مظلوم قوموں اور خاص طور سے پاكستان کی باعظمت قوم کہ جس نے خود سامراجیت كی تلخیاں سہی ہیں اور مقابلے ، جہاد اور شہادت سے اپنی آزادی حاصل کی ہے، کے لئے غیرمتوقع نہیں تھا۔ اسلامی معاشروں کے مصائب سے آگاہ، وہ افرادجنہوں نے محروموں اور غریبوں كے ساتھ خون کا عہد باندھ رکھاہے، کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ وہ جد و جہد کے اس راستے كے آغاز میں ہیں۔ سامراج و استحصال كے بند توڑنے اور حقیقی محمدیﷺ اسلام (اسلام ناب محمدی ﷺ) تك رسائی کے لیے، انہیں طولانی راستہ درپیش ہے۔ علامہ عارف حسین حسینیؒ جیسے افراد کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی اور بڑی بشارت نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ حق تعالی كے محراب عبادت سے ہی’’ارجعی الی ربك ‘‘کی معراج کو خون میں غلطاں نظارہ كریں، وصال معشوق كاجام،شہادت كے شہد سے نوش كریں اور ہزاروں تشنہ عدالت کوسرچشمہ نور سے سیراب ہوتے دیکھیں ۔ اسلام کے ذمہ دار علماء اور روحانیوں اور نام نہاد علماء میں سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ اسلام کے مجاہد علماء ہمیشہ عالمی سامراج كے زہرآلود تیروں كا ہدف ہوتے ہیں اور كسی بھی حادثے میں سب سے پہلا تیر انہی كے دلوں کو نشانہ بناتاہے۔ لیكن نام نہاد علماء ،دنیا طلب مال پرستوں كی حمایت كے زیر سایہ، باطل كے مبلغ یا ظالموں كےثناگو اور ان كی حامی بن كے رہتے ہیں۔
آج تك میں نے ایك بھی درباری ملّاں یا وہابی عالم نہیں دیكھا جو ظلم و شرك اور كفر ،خاص طور پر غاصب سوویت حكومت اور استعماری امریكہ كے مقابلے میں كھڑا ہو ا ہو! جیسے کہ میں نے ایک بھی خدا اور مخلوق خدا كی خدمت كاعاشق حقیقی عالِم نہیں دیكھا جسے روئے زمین پر بے سہارا لوگوں كی حمایت میں ایك لمحہ بھی سكون و آرام نصیب ہوا ہو اور جس نے اپنی منزل مراد تك كفرو شرك كےخلاف جان توڑمقابلہ نہ كیا ہو ۔ اور عارف حسینی ایك ایسی ہی شخصیت تھے۔ اسلامی اقوام نے یقیناًاس واقعے كی دلیل کواچھی طرح سمجھ لیا ہو گا کہ كیونكر ایران میں ’’مطہریوں‘‘، ’’بہشتیوں‘‘ اور’’شہدائے محراب‘‘ اور دیگر تمام عزیز علماء اورعراق میں ’’صدریوں‘‘اور ’’حكیم خاندان‘‘ اور لبنان میں ’’راغب حرب‘‘ اور ’’كُرّیم‘‘جیسے افراد اورپاكستان میں ’’عارف حسینیؒوں‘‘ اور دنیا بھر کے تمام ممالک میں اسلام ناب محمدیﷺكے دردمند علماء کو دشمنوں كی سازش اور دہشتگردی اپنا ہدف بناتی ہے ۔
پاكستان كی شرافتمند اور مسلمان قوم، جو واقعتاً ایك انقلابی اور اسلامی اقدار سے وفادارقوم رہی ہے، اور جس کا ہمارے ساتھ مدتوں سے پرتپاک انقلابی ، نظریاتی اور ثقافتی تعلق ہے، اس شہید شخصیت كے افكاركو زندہ رکھے اور ہرگز اس كی اجازت نہ دے كہ شیطان زادے، اسلام ناب محمدیﷺ كی ترقی اور ترویج میں رکاوٹ بن پائیں ۔ آج چونكہ مغربی اور مشرقی سامراجیّت، عالم اسلام كے ساتھ براہ راست مقابلہ كرنے سے عاجز ہو چکی ہے تو اس نے ایک طرف مذہبی اور سیاسی شخصیتوں كو راستے سے ہٹانے اور دہشتگردی کی راہ اور دوسری طرف امریكی اسلام کی ثقافت کے نفوذ اور ترویج کا راستہ آزمانہ شروع کردیا ہے۔اے کاش! سامراجیّت کے سارے حملے، سویت حکومت کے مسلمان اوردلاوروں کے ملک افغانستان پر حملے کی طرح علل اعلان اور آمنے سامنے ہوتے، تو مسلمان ان غاصبوں کے جھوٹے اقتدار اور ہیبت کو تہس نہس کر ڈالتے۔لیكن امریكی اسلام سے مقابلہ كرنے میں ایك خاص پیچیدگی ہے جس كے سارے پہلو محروم مسلمانوں كیلئے روشن ہونا چاہییں؛ جو افسوس سے اب تک بہت ساری مسلمان اقوام كیلئے، امریكی اسلام اور اسلام ناب محمدیﷺ کی حد بندی اور محروموں اور تہی دستوں کے اسلام اور جمود کا شکار مقدس نماووں اور خدا ناشناس اور بے درد سرمایہ داروں كے اسلام كے درمیان فرق پوری طرح سے واضح نہیں ہوپایا ہے۔ اس حقیقت كو روشن كرنا کہ یہ ممكن ہی نہیں کہ ایك ہی مكتب اور ایك ہی نظریے میں دو متضاد اورایک دوسرے کے مخالف طرز فكر موجود ہوں، انتہائی اہم ترین سیاسی فرائض میں شمار ہوتا ہے۔ کہ اگر یہ کام دینی علوم کے مراکز میں انجام پایا ہوتا ، تو اس کا انتہائی قوی امکان تھا کہ ہمارا یہ عزیز سید، عارف حسین، ہمارے درمیان موجود ہوتا۔ یہ تمام علماء كی ذمہ داری ہے كہ ان دو طرز فکروں كو واضح کر کے اپنے پیارے اسلام كو مشرق و مغرب كے شیطانی گماشتوں سے نجات دلائیں ۔ البتہ ان عزیز شہیدوں كا خون ، روحانی قدروں كی سربلندی کے راستے سے اس ساری خاک اور بھوسے كو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا، اور باطل كے سارے مبلغوں كو سمندر میں بہا دے گا۔ لیكن اس بات سے ہمیں غفلت نہیں برتنا چاہیے كہ آج دشمنان ِاسلام کی مکمل تیاری کا وقت ہے،تمام تر سامراجیّت کی ہوشیاری کا وقت ہے۔ وہ وقت جب مشرقی اور مغربی سامراج نے مسلمانوں كو سُلا رکھا تھا اور اپنی آرزؤں كے تخت پر سوار تھا تو اس وقت بھی وہ اسلام اور قرآن نامی ایك بڑے اور متوقع خطرے كو بھانپے ہوا تھا۔ لیكن آج جب سوویت حكومت اور امریكہ، ایران کے مقدس اسلامی انقلاب کے ہاتھوں سینكڑوں سیاسی ، عسکری اور ثقافتی ضربیں کھا چكے ہیں اور دنیا بھر میں ان كے تزویراتی مفادات كے خلاف اسلامی خطرے كی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں تو پوری توجہ سے مشرقی اور مغربی سامراجی مكر و فریب كو پہچاننے اور اسے ناكام بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
مسلمان اقوام کو سپر پار ممالک کی طرف سےاپنے ساتھ تعلق کو دشمنی اور دھوکے پر مبنی ینّت کے اصول پر پرکھنا چاہیے لیکن یہ کہ اس کے برعکس معروضی اور عملی طور پر مشاہدہ، لمس اور یقین پیدا کریں۔ہم نے خدا اور رسول اور آئمہ معصومین علیھم السلام کی ولایت کی رسی تھام رکھی ہے؛ اور ہمیں انکی رضامندی کے سوا ہر چیز سے متنفر اور لا تعلق ہونا چاہیے، اور اس لاتعلقی پر ہمیں اپنے اوپر گھمنڈ اور فخر کرنا چاہیے۔
میں محترم حجۃ الاسلام جناب سید عارف حسین حسینی كی شہادت پر اسلام كے باوفا علماء، اس شہید كے معزز خاندان اور پاكستان كی مسلمان قوم كو مباركباد اور تعزیت پیش كرتا ہوں۔ اور اس ملك میں اپنے تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں كو یہ یقین دلاتا ہوں كہ اسلامی ایران آپ كے شانہ بہ شانہ اور ایك ایماندار دوست اور مضبوط مورچے کے عنوان سے آپ کی شرافت ، عزت ،آزادی اور آپ كی اسلامی شناخت كا دفاع كرے گا ۔
میں نے اپنا ایك عزیز بیٹا كھو دیا ہے ۔ خداوند متعال ہم سب كو مصیبتوں كو برداشت كرنے کی توفیق اور شہداء كےنورانی راستے پر چلتے رہنے کی ہمت میں پہلے سے زیادہ عظمت عطا فرمائے، اور ظالموں كی سازش اور مکر و فریب کو انہی کی طرف پلٹا دے اور اسلام كی با عظمت قوم كو جہاد اور شہادت كی راہ پر ثابت قدم ركھے۔
والسلام علی عباد الصالحین
روح اللہ الموسوی الخمینی
۲۳ محرم الحرام ۱۴۰۹ ھ
۵ ستمبر 1988 ء
سفیرِ انقلاب
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا وصیت نامہ
ڈاکٹر سید محمد علی نقوی لاہور کے علاقے علی رضا آباد میں 1952ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سید امیر حسین نجفی جو نجف اشرف میں دینی تعلیم کے سلسلے میں مقیم تھے اسی سال اپنے اہل خانہ کو بھی ساتھ لے آئے ۔ شاید یہ خوش قسمتی تھی شہید کی کہ عالم زادہ ہونے کے ساتھ ساتھ نجف اور کربلا کی فضائیں جذب کرنے کا موقع نصیب ہوا ۔
اپنے والدین کے ساتھ تبلیغ دین کے سلسلے میں کینیا میں رہتے ہوئے ابتدائی تعلیم وہاں کے دارالخلافہ نیروبی میں حاصل کی بعد ازاں والدین کے ہمراہ تنزانیہ اور یوگنڈا کے دارالخلافہ کمپالہ میں رہے اور اپنے سینیئر کیمبرج کا امتحان اچھے نمبروں سے کمپالہ سے پاس کیا ۔ بعد ازاں انٹر پری میڈیکل گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔ اس کے بعد پاکستان کے قدیمی اور معروف کنگ ایڈورڈ کالج سے ایم۔بی۔بی۔ایس کیااورنوکری سرکاری سروسز ہسپتال میں کی۔ دوران ملازمت علامہ اقبال میڈیکل کالج میں استاد کے فرائض بھی سر انجام دیے۔
زمانہ تعلیم میں ایک اچھے مقرر ہونے کے علاوہ کھیل میں جوڈوکراٹے، تیراکی، گھڑسواری اور نشانہ بازی میں بھی شرکت کی اور اسکاوٹ کی تعلیم و تربیت بھی حاصل کی۔
زمانہ طالب علمی ہی میں آپ نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ وطن عزیز کے مستقبل کے معماروں کی دینی اور فکری نشوونما کے لئے ایک ایسی تنظیم کی ضرورت ہے جو اسلامی افکار کی ترجمانی کرے۔ اس لئے شہید نے ایک طلباء تنظیم کی بنیاد رکھی جو آج پوری دنیا میں ISO یعنی امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نام سے جانی جاتی ہے۔ شھید نے اس تنظیم میں شمولیت اور عہدے داری کو یوں بیان کیا:
”دوستو حلف صرف ایک سال کے لیے نہیں بلکہ حلف کا تعلق پوری زندگی سے ہوتا ہے۔“
شہید کے فلاحی کاموں کی ایک طویل فہرست کے علاوہ بے تحاشا عملی اقدامات ہیں۔ سرزمین ایران پر اسلامی انقلاب کی کامیابی پر؛ انقلاب ایران ، ولایت فقیہ اور فکر امام خمینیرح کو پا کستان میں روشناس کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس ہی وجہ سے انکا نام سفیر انقلاب پڑا ۔ پاکستان میں پہلا یوم مردہ باد امریکہ 16 مئی کو شہید عارف حسین الحسینی رح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے منایا گیا۔ اس جلوس کے دوران شہید نے اپنے دوستوں کی مدد سے ایک طویل بینر جس پر امریکہ مردہ باد لکھا گیا تھا لاہور کے معروف کاروباری مرکز الفلاح بلڈنگ کے اوپر لگایا۔ یہی وہ واقعہ تھا کہ جس کی بناءپر بعد از شہادت نعرہ لگا کہ:
” ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے امریکہ مردہ باد ہے “
اسی دوران قائد انقلاب اسلامی امام خمینی رح بت شکن نے صدائے’’ھل من ناصر ینصرنا‘‘ بلند کی کہ ’’جو شخص جنگ کی طاقت رکھتا ہو وہ محاذ پر جائے“۔ پس اس فرزند زہرا نے آخری امام کے حقیقی نائب کی صدا پر پاکستان سے ، ’’لبیک یا امام‘‘ کا نعرہ بلند کیا ور محاذ جنگ میں ایران کے شہر شلمچہ اور اہواز میں طبی خدمات سرانجام دیں۔
جب ۱۹۸۷ ء میں دوران حج ایرانی حاجیوں کو شہید کیا گیا تو اگلے سال ایران سے کوئی حاجی حج بیت اللہ کو نہیں گیا۔ اسی سال ڈاکٹر صاحب نے کچھ دوستوں کے ساتھ ایک ٹیم تیار کی جو دنیا کے مختلف کونوں سے حج کے دوران جمع ہوئے تھے جس کا بڑا مقصد تھا کہ حجاج کرام کو شیطان دوراں سے واقف کرانا تھا۔ اس موقع پر ان افراد نے اپنے احرام جن پر مرگ بر امریکہ لکھا ہوا تھا ہوا میں لہرائے اور صدائے احتجاج بلند کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شام کی ایرانی نشریات سے یہ خبر نشر کر دی گئی کہ آج سعودی عرب میں عالمی سامراج امریکہ کے خلاف مظاہرہ ہوا ہے۔ بعد ازں آپ کو آپ کے دوستوں کو سعودی جیل کی سختیاں برداشت کرنی پڑیں۔ جب کسی دوست نے آپ سے دوران جیل سزاؤں کی تکلیف کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے جواب دیا: ”اگر ہماری اس کوشش سے امام خمینیرح کو چند سانس بھی سکون کے میسر آجائیں تو یہ اذیتیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔‘‘ ڈاکٹر شہید نقوی کو امام خمینیرح سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ جس کو خود شہید یوں بیان فرماتے ہیں کہ: ” مجھے امام کی دست بوسی کی لذت کا سرور تا زیست نہیں بھولے گا۔‘‘
آپ کو اپنی سرخ موت کا یقین تھا اور آخر ایام میں دوستوں کو کہتے تھے کہ ”میں نہیں چاہتا کہ ضعیفی میں کھانس کھانس کر مروں، خدا میری زندگی کو میری متحرک زندگی سے متصل کر دے۔ چالیس برس بیت گئے اور ابھی تک شہادت نصیب نہیں ہوئی لگتا ہے کہ میرا کوئی عمل خدا کو پسند نہیں آیا“۔آپ کو یقین تھا کہ آپ کو شہید کیا جائے گا ۔جس کا اندازا اس فقرے سے لگایا جاسکتا ہے جو اپنے وصیت نامہ میں تحریر کیا :’’میری لاش کا پوسٹ ماٹم نہ کیا جائے اور نہ ہی میرے جنازے پر تنظیمی اجتماع و احتجاج کیا جاے‘‘۔ آخر یہ عبد خدا جس کا متمنی تھا۔ اس ہدف تک پہنچ گیا اور طاغوتی طاقتوں اور شیطان بزرگ امریکہ کے حامی اور ایجنٹ جب آپ کی فکر کا مقابلہ نہ کر پائے، تو 7 مارچ ۱۹۹۵ء میں آپ کو آپ کے ایک رفیق باوفا تقی حیدر کے ہمراہ صبح ساڑھے سات بجے کے قریب آپ کے گھر کے نزدیک یتیم خانہ چوک پہ کلاشنکوف کی گولیوں کا نشانہ بنایا ۔ آپ شہادت کی ایک ایسی سرخ موت سے ہمکنار ہوئے جسکی تمنا ہمیشہ کرتے رہے اور اپنے مولا امام علی علیہ اسلام کی طرح اسکی تلاش میں رہے اور بلآخر اسے پالیا۔
وصیت نامہ
بسم رب الشہداء۔
موت کی جانب سفر تیزی سے ہو رہا ہے۔ کئی ایک ایسے مواقع دیکھنے میں نصیب ہوئے ہیں جو انسان کے لیے عبرت کا کام دیتے ہیں۔ مگر افسوس کہ وہ سبق حاصل نہ کر سکا جو دوسروں کو کہتا رہا۔ بالآخر وہ وقت آن پہنچا۔ کاش موت سے نہ بھاگے ہوتے، کاش لشکرِ خمینیؒ میں شمولیت اختیار کی ہوتی تو شاید پاک وپاکیزہ نوجوانوں کے صدقے ہم بھی بخشش کا کوئی سامان لے جاتے۔ بہرحال یہ سب باتیں اب رہ گئیں اور ہم ایک لمبے سفر پر روانہ ہو گئے۔ التماس دعا میں وصیت کرتا ہوں۔
مجھے اپنے آبائی قبرستان علی رضا آباد میں دفن کیا جائے۔ جنازہ میں تاخیر نہ کی جائے۔ پوسٹ مارٹم نہ کروایا جائے اور اس موقع پر کسی قسم کا تنظیمی اجتماع نہ کیا جائے۔
میری ملکیت ظاہری میں اگر کوئی شخص یا تنظیم دعویدار ہو تو اسے ضرور پہلے اس کا حق دیا جائے۔
آخری گزارش! خوش بختی ہے ان لوگوں کی جو باصلاحیت اور باشعور لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں اور ہلاکت ہے ان کے لیے جو اپنے سے کم تر کے ماحول میں پروان چڑھتے ہیں۔
اپنی اہلیہ محترمہ کا شکرگزار اور بچوں سے پُر امید۔ تمام دوستوں سے ان کی توقعات پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے شرمسار ہوں۔
والسلام
محمد علی نقوی۔ یکم اپریل 1992ء
منادی وحدت
شہید علامہ دیدار علی جلبانی کا وصیت نامہ
شہید علامہ دیدار علی جلبانی ؒ نے 23اگست 1968ء کو سندھ کے علاقے خیرپورمیرس ٹھری میرواہ کے ایک دیندار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد کا نام رسول بخش جلبانی تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کی جبکہ دینی تعلیم خیرپور کے ایک مقامی مدرسے سے حاصل کرنے کے بعد جامعہ المنتظر اور منہاج الحسین ؑ لاہور سے کسب فیض کیااور کچھ عرصہ منہاج الحسین ؑ میں تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ رہے۔ علامہ دیدار علی جلبانی ؒ زمانہ طالب علمی میں خیر پور میں آئی ایس او کےیونٹ صدر بھی رہے ۔ لاہور میں بھی آئی ایس او کے ساتھ وابستہ رہے ، جبکہ مختلف ادوار میں اصغریہ آرگنائزیشن سے بھی منسلک رہے اور دینی امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔شہید علامہ دیدار علی جلبانی زمانہ طالب علمی میں دینی علوم کے حصول کیلئے قم المقدسہ بھی تشریف لے گئے جہاں کچھ عرصہ حوزہ علمیہ سے بھی کسب فیض کیا۔حصول علم کے بعد کچھ عرصہ سعودیہ عرب میں ملازمت کی غرض سے مقیم رہے اور ایک مقامی مسجد میں امامت کے فرائض بھی انجام دیے۔ 1997ء میں ۱۸ ذی الحجہ کے دن رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ ان کے ہاں ایک بیٹے (شاہد حسین جلبانی ) اور ایک بیٹی (فاطمہ صغریٰ ) کی ولادت ہوئی۔ شہید علامہ دیدارعلی جلبانیؒ تادم مرگ طویل عرصہ تک جامع مسجد الحسینی ؑ ایوب گوٹھ نزد سپارکو گلستان جوہر کراچی میں امام جمعہ والجماعت کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔ وہ شروع سے ہی انقلابی وجذباتی فکر ونظر کے حامل تھے۔اپنے خطبات میں حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں اور ملت جعفریہ کے خلاف ظالمانہ اقدامات پر ببانگ دہل اپنے موقف کا اظہار کیا کرتے تھے اور بلاخوف وخطر انہیں آڑے ہاتھوں لیا کرتے تھے۔ وہ متعدد فلاحی امور بھی اپنی مساجد سے انجام دیا کرتے تھے۔ موثر شخصیت کے حامل علامہ دیدار جلبانی ؒ تمام طبقات اور برادریوں میں بااثر تصور کیے جاتے تھے۔ 2013ءمیں جب قومی انتخابات کا اعلان ہوا تو سیاسی ومذہبی جماعت مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے ملک بھر سے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ علامہ دیدارعلی جلبانی ؒ نے انتخابات میں حصہ لینے کو اپنی قومی وشرعی ذمہ داری سمجھتے ہوئےباقائدہ ایم ڈبلیوایم میں شمولیت کا اعلان کیا اور اپنے رہائشی حلقے پی ایس 126سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر ایم ڈبلیوایم کے ٹکٹ سے الیکشن میں حصہ لیا۔ ملت جعفریہ میں سیاسی شعور کی بیداری اور ووٹ کی طاقت سے آگہی کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔انہوں نے اپنے مد مقابل پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ انہوں نے روایتی سیاسی جماعتوں کے مقابل بھاری ووٹ لیکر چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی۔ بعد ازاں اپنی تنظیمی فعالیت کو اسی اندازمیں جاری وساری رکھا اور پھر ایم ڈبلیوایم کراچی ڈویژن کی کابینہ میں ڈپٹی سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے ذمہ داریاں حاصل کیں۔ بطور ڈویژنل ڈپٹی سیکریٹری جنرل انہوں نے کراچی کے مختلف اضلاع کے دورہ جات کیے اور کارکنان کو منظم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
4دسمبر 2013ءکو ناصبی تکفیری دہشت گردوں نے انہیں اپنی بربریت کا نشانہ بنایا۔ وہ نماز ظہرین کےبعد یونیورسٹی روڈ سے گزررہے تھے کہ ان کی کار کو جامعہ کراچی کے سامنے موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں نے روکااور اندھادھند فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں انہوں نے اور ان کے باوفامحافظ سرفراز بنگش نے جام شہادت نوش کر لیا۔ ان کی نماز جنازہ اگلےروز ایم اے جناح روڈ پرمین نمائش چورنگی پر ایم ڈبلیوایم کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کی زیر اقتداءاداکی گئی، جس میں علمائے کرام، ذاکرین عظام، سیاسی وسماجی شخصیات اور پسماندگان سمیت ہزاروں کی تعدادمیں مومنین نے شرکت کی۔ بعد ازاں ان کا جسد خاکی خصوصی طیارے کے ذریعے انکے آبائی علاقے خیرپورمیرس ٹھری میرواہ کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
انہوں نے اپنی شہادت سے پہلے یہ وصیت کی تھی:
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
میرے دشمن دیکھ لیں، مجھے قتل کرانے والے دیکھ لیں، میں زندہ ہوں۔ میں لوگوں کے درمیان ہوں۔ میں ان سے گفتگو کر رہا ہوں۔ لیکن میرے دشمن کی قسمت میں گمنامی ہے۔ چونکہ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ذلت و رسوائی ان کا مقدر ہے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ وہ مجھے قتل کر کے میری آواز کو دبا دیں گے۔ میرے پیغام کو آپ بھائیوں اور بہنوں تک پہنچنے سے روک دیں گے۔ لیکن میرا پیغام آپ تک پہنچ رہا ہے اور یہی ان کی شکست کا ثبوت ہے۔ کیونکہ میرا پیغام حسینؑ ابن علیؑ کا پیغام ہے۔ کل حسینؑ ابن علیؑ کا قاتل بھی یہی سمجھ رہا تھا کہ وہ میدان کربلا میں حسینؑ ابن علیؑ اور ان کے ساتھیوں کو قتل کر کے پیغام الٰہی کو دنیا میں پھیلنے سے روک دے گا۔ لیکن دنیا دیکھ رہی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیغام حسینؑ ابن علیؑ پھیلتا جا رہا ہے۔
دراصل جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دے وہ آنکھیں رکھتے ہوئے بھی نابینا ہو جاتے ہیں۔ وگرنہ شب انیس رمضان میں مسجد کوفہ میں حالت سجدہ میں لعین ابن ملجم کی تلوار کا زخم کھانے کے بعد علیؑ ابن ابی طالبؑ کا یہ کہنا کہ ’’رب کعبہ کی قسم، میں کامیاب ہو گیا۔‘‘ چشمِ بصیرت رکھنے والوں کے لیے یہ کافی تھا۔ کیونکہ مولائے کائنات دنیا کو بتا رہے تھے کہ حق کی راہ میں قتل ہونا بھی کامیابی ہے۔ ایک ایسی کامیابی کہ جو باطل کو ہمیشہ کے لیے ناکام بنا دیتی ہے۔
میرے بھائیو اور میرے چاہنے والو! تمہارا بھائی اور تمہارا خادم دیدار علی جلبانی تمہارے درمیان موجود ہے۔ کیونکہ ارشاد الٰہی ہے کہ اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کو ہر گز مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں اور بارگاہِ الٰہی سے رزق حاصل کرتے ہیں۔ پس میں دشمن کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ پیروکارِ حسینؑ ابن علیؑ کی طاقت کو دیکھ! تو نے چاہا کہ مسجد و امامبارگاہ الحسینی سے بلند ہونے والی حق کی آواز اور پیغام امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا پرچار رک جائے لیکن آج صرف سچل، ایوب گوٹھ، بلاول گوٹھ، صفورا، موسمیات اور اردگرد کے علاقوں ہی میں نہیں، صرف کراچی شہر میں ہی نہیں، پورے ملک میں ہی نہیں، ملک سے باہر بھی دیدار علی جلبانی کا پیغام اور ذکر پھیل رہا ہے۔ آج ہر جگہ، ہر بچہ و بوڑھا، مرد و عورت مجھے مظلوم اور تجھے ظالم کہہ رہے ہیں۔ یہ کس کی فتح ہے، یہ حق کی فتح ہے۔ اور یہی میرا مشن ہے۔ حق غالب رہے اور باطل مٹ جائے۔
میرے دوستو، میرے سنی شیعہ بھائیو، یہ دہشتگرد یہ قاتل صرف کسی شیعہ یا کسی سنی کے دشمن نہیں بلکہ یہ پوری انسانیت اور ملت اسلامیہ اور اس ملک کے دشمن ہیں۔ آپ کو ان کو پہچاننا ہو گا کیونکہ ان کی پہچان کے بغیر آپ ان سے محفوظ اور ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ میں آپ کو ان کی پہچان بتا دیتا ہوں۔ یہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف کام کرتے ہیں اور ان اسلام دشمن اقدامات کو دینِ اسلام قرار دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے والا مسلمان نہیں، لیکن انہوں نے اللہ کے گھر کو بھی مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے اور فتنہ و فساد کی جگہ بنا رکھا ہے۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ لیکن ان کے نزدیک بے گناہوں کو قتل کرنا ان کی پارٹی کا منشور اور راہِ نجات کا وسیلہ ہے۔ اس لیے اب جہاں بھی یہ دشمن اسلام کام انجام دینے جا رہے ہوں سمجھ لینا کہ یہ اللہ کے اور رسولؐ کے دشمن ہیں۔ تو اب اس کی پہچان کے بعد ان کی پیروی کرنا جہنم میں جانے کا سبب بنے گا۔
میری تمام لوگوں کو وصیت ہے کہ نماز کبھی ترک نہ کرنا۔ روزہ کو اس کے تمام تر احترام سے انجام دینا۔ تلاوت کلام پاک اگر عربی نہ آتی ہو تو ترجمہ کے ساتھ انجام دینا اور عزاداری سید الشہداء ہی ہے کہ جس نے مجھے ہمیشہ زندہ رہنے والی زندگی عطا کی ہے اور آپ بھائیوں اور محبت کرنے والوں کے درمیان رکھا ہے۔ آپ گواہ ہیں کہ میں ہر نماز کے بعد شہادت کی دعا مانگتا تھا تو یہ پروردگارِ عالم کا احسانِ عظیم ہے کہ اس نے مجھ گنہگار کو شہادت جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔
میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ مسجد و امامبارگاہ الحسینی میں نماز جمعہ کے خطبے میں برائیوں کے خلاف گفتگو اور اچھائیوں کے پیغام کو عام کرنے کی شکل میں موجود رہوں گا۔ اور آپ دیکھیں گے کہ میری شہادت خواہ سنی ہو یا شیعہ سب کے درمیان اسلام کی حقیقی بیداری کا سبب بنے گی اور پورے ملک خصوصاً سچل گوٹھ، ایوب گوٹھ اور قرب و جوار کے علاقوں میں ہر گھر حسینؑ ابن علیؑ کی یاد منانے والوں کی آماجگاہ بنے گی۔
میں ایک مرتبہ پھر تمام بھائیوں اور بہنوں، بچوں اور بچیوں کو نماز کی پابندی اور ماؤں بہنوں کو پردے کی وصیت کرتے ہوئے اس بات کی بھی وصیت کرتا ہوں کہ اپنے گھروں پر علمِ حضرت عباسؑ لگا کر بتائیں کہ حسینیتؑ کو بڑھتے رہنا اور یزیدیت کو فنا ہونا ہے۔ کیونکہ یہ وعدۂ الٰہی ہے۔ ہر جگہ خصوصاً مسجد و امام بارگاہ الحسینی میں نماز جمعہ کے اجتماع کو اپنی شرکت سے بڑھا کر دوگنا کر دیں۔ انشاء اللہ آپ کا یہ عمل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دشمن کو شکست سے دوچار کرے گا۔ یاد رکھیے، آپ میں سے ہر شخص کو دیدار علی جلبانی بننا ہے تا کہ دشمن کو شکست دیتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔
آپ کا بھائی
دیدار علی جلبانی
مدّاح اہل بیتؑ
شہید سبط جعفر زیدی کا وصیت نامہ
خلوص، ایثار، ایمانداری، وسیع النظری، محبت واخلاق اور اخلاص جب یہ اوصاف ایک جگہ جمع ہوجائیں تو شہید پروفیسر سبط جعفر زیدی کا پیکر بنتا ہے جن کے پاس آکر علم نے معراج پائی۔ پروفیسر سبط جعفر زیدی کی خدمات کوکوئی ضبطہ تحریر میں نہیں لاسکتا آپ کے والد مولانا سید احمد میاں زیدی معروف عالم دین تھے۔ ان کی آغوش میں آپ نے1957ء میں آنکھ کھولی۔ ایم، اے بی ایڈ، ایل ایل بی اور پوسٹ گریجویٹ کیا۔ صرف دنیاوی تعلیم نہیں بلکہ مدرستہ الواغطین میں ادیب اعظم مولانا ظفر حسن، مولانا عنایت حسین جلالوی اور خصوصیت سے مولانا مصطفیٰ جوہر (والد گرامی علامہ طالب جوہری) سے دینی تعلیم حاصل کی۔ عملی وکالت سے دستبر داری کے بعد پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے محکمہ تعلیم میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ، مشیر قانون کی ذمہ داری پر مامور ہوئے۔ انٹر میڈیٹ اور ڈگری کلاسز کیلئے نصابی کتب تصنیف کیں جو1983ء سے 1988ء تک متعدد بار شائع ہوئیں ۔ آپ جے ڈی سی تعلیمی بورڈ کے بانی بھی تھے۔ پروفیسر سبطِ جعفر انتہائی سادہ طبعیت کے مالک تھے۔ بطور سوز خواں، شاعر، ادیب، نقاد اور محقق آپ کی خدمات کا احاطہ کرنا ناممکن ہے ۔
1967ء سے الیکڑانک میڈیا سے وابستگی رہی اور خصوصی پروگرام بھی تحریر کیے۔ بطور محقق ومصنف 1996ء میں ” لحن عقیدت “ کے نام سے دس خصوصی تحقیقی پروگرام نشر کیے۔ سیکنڑوں مذہبی کتابیں لکھیں مگر ” بستہ“ کے نام سے شہرت حاصل کرنے والی کتاب کے اب تک آٹھ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ 1988ء سے2013ء تک بطور شاعر و سوز خواں ڈیڑھ سو سے زائد آڈیو ویڈیو کیسٹس اور سی ڈیز جاری کی گئیں۔ آپ نے امروہوی کالونی سمیت کئی علاقوں میں اسکول قائم کیے۔ آپ آرٹس کونسل پاکستان کے تاحیات رکن تھے ۔ کراچی بار ایسوی ایشن کے ممبر اور پروفیسرز ، لیکچررز ایسوسی ایشن کے رکن بھی تھے۔ آپ نے ایک بین الاقوامی ادارہ ترویج سوز خوانی قائم کیا جس میں آج پوری دنیا میں آپ کے ہزاروں شاگرد نہ صرف تعلیم حاصل کررہے ہیں بلکہ دینی خدمات بھی سرانجام دے رہے ہیں۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی نامور یونیورسٹی ہارورڈ پر آپکی خدمات پر پی ایچ ڈی کی گئی جو اس یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر دیکھی جاسکتی ہے ۔آپ گورنمنٹ ڈگری کالج قاسم آباد میں بطور پرنسپل خدمات انجام دے رہے تھے ۔ فی زمانہ ایک پرانی موٹر سائیکل پر کالج جانا اور تمام وسائل کے ہوتے ہوئے آپ کہا کرتے تھے میں غریب علاقے میں بچوں کی تربیت کرنے میں بہت سکون محسوس کرتا ہوں ۔ بقول حکیم محمد سعید سچ بات یہ ہے کہ مجھے پہلی بار صوفی علوم وفنون اسلامی پر نئے انداز سے نمود فکر کا موقع پروفیسر سبط جعفر نے فراہم کیا ۔
پیر 18 مارچ 2013ء کو اس وقت ہزاروں شاگرد شعراء اور ادیب سکتے میں آگئے جب یہ خبر سنی کہ پروفیسر سبط جعفر زیدی کو کالج سے گھر جاتے ہوئے نامعلوم دہشت گردوں نے شہید کردیا۔ یہ حملہ سبط جعفر زیدی پر نہیں تھا بلکہ ہر علم سے محبت کرنے والے پر حملہ تھا ۔
آپ کی شہادت پر لیکچررز ایسوی ایشن نے کالج میں تدریسی عمل کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ آپ کی نماز جنازہ امروہہ گراوٴنڈ انچولی میں ادا کی گئی جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء شعراء ، اساتذہ اور ان کی دی ہوئی تعلیم سے سرفراز ہونے والے شاگردوں نے شرکت کی۔ آپ کو وادی حسین قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
آپ کے کئی اشعار کو اردودان طبقے میں عالمی سطح پر شہرت حاصل ہوئی۔ جن میں سے یہ شعر تو آج تک اردو کے ماتھے پر ایک جھومر کی طرح سجا ہوا ہے:
غسلِ میت نہ کہنا مرے غسل کو ، اجلے ملبوس کو مت کفن نام دو
میں چلا ہوں علیؑ سے ملاقات کو ، جس کی تھی آرزو وہ گھڑی آ گئی
ذیل میں ان کا ایک منظوم وصیت نامہ پیشِ خدمت ہے:
دنیا سے جب میں جاؤں تو احباب کیا کریں
قرآن پڑھیں ، کلام پڑھیں ، فاتحہ کریں
جتنے فلاحی کام ہیں وہ سب کیا کریں
مجلس بنامِ ’’جشنِ شہادت‘‘ بپا کریں
بدلہ کسی سے لیں ، نہ کبھی بددعا کریں
بس اپنے ملک و قوم کی خدمت کیا کریں
تابندہ اور ابوذر و دانندہ، سوگوار
شفقت سے ہاتھ ان کے سروں پر رکھا کریں
ان کی ضروریات کا بھی چاہیے لحاظ
دلجوئی کر کے ان کو دلاسہ دیا کریں
جتنے ’’ادارے‘‘ والے ہیں احباب سوزخواں
’’اُستانی‘‘ سب ادب سے مسز کو کہا کریں
غفلت کبھی کریں نہ ’’ادارے‘‘ کے کام سے
معمول کے جو کام ہیں وہ بھی کیا کریں
جو کام ان کے بس میں ہوں کرتے رہیں مُدام
پروا کسی کی اور نہ شکوہ کیا کریں
میں خوش ہوں اور اچھی جگہ ہوں، خدا گواہ
میرے اعزّہ میرے لیے مت کُڑھا کریں
زندہ بھی ہوں ، قریب بھی ہوں ، دیکھتا بھی ہوں
ملنے کو مجھ سے ’’چشمِ تصور‘‘ کو وا کریں
اشعار سبطِ جعفرِ مرحوم کے سنے
اب اس کی مغفرت کے لیے بھی دُعا کریں
الملتمس و المفتخر
سید سبطِ جعفر شہید (بقلم خود)۔ 1۴-05-201۲ء
مدافع حرم
شہید محسن حججی
شہید حججی سپاہ پاسداران کے رکن تھے، جنہوں نے شام کی سرزمین پر جامِ شہادت نوش کیا۔ شہید محسن حججی 12 جولائی 1991ء کو ایران کے شہر نجف آباد میں پیدا ہوئے۔ وہ علویجہ اپلائیڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں کنٹرول ٹیکنالوجی کے طالب علم تھے۔
وہ ثقافتی طور پر بہت ہی سرگرم انسان تھے۔ کتاب کی تشہیر و ترویج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ مدارس اور نماز جمعہ میں کتاب کے بارے میں شعور اجاگر کرتے رہتے۔ دفاع مقدس کے جنگی علاقوں میں جانے والے ’’راہیانِ نور‘‘ نامی تفریحی معلوماتی دورہ جات میں وہ شرکاء کی خدمت میں مصروف رہتے۔
2012ء میں انہوں نے شادی کی، جس سے ان کے ایک فرزند متولد ہوا جس کانام علی رکھا گیا۔
شہید محسن حججی شام میں داعش کے خلاف لڑتے ہوئے 7 اگست 2017ء کو داعشی درندوں کے ہاتھوں قید ہو گئے۔ دو دن قید میں گزارنے کے بعد ۹ اگست کو داعشی درندوں نے انہیں تنفت نامی علاقے میں ذبح کر کے شہید دیا۔
ان کی شہادت پر سپاہ پاسداران ایران کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی نے اعلان کیا تھا کہ ہم شام میں امریکی ساختہ داعش کا تین ماہ میں صفایا کر دیں گے۔اور خداوند متعال کی نصرت و حمایت کی بدولت شام سے داعش جیسے ناسور کا اس اعلان کے بعد تین ماہ سے پہلے ہی خاتمہ ہو گیا۔
ذیل میں ہم شہید محسن حججیؒ کی وصیت سے ایک اقتباس پڑھتے ہیں:
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
بعد از حمد و ستائش و درود و سلام بر اہل بیتؑ۔
بہت کم وقت رہ گیا ہے جانے سے اور جتنا جانے کا وقت قریب ہوتا جا رہا ہے میرا دل بے تاب ہوتا جا رہا ہے۔ نہیں پتا کہ کیا لکھوں۔ اور کس طرح سے اپنے احساسات کو بیان کروں؟ نہیں جانتا کہ کس طرح سے اپنی خوشحالی کا ذکر کروں؟ اور نہیں جانتا کہ کس طرح سے خدائے منان کا شکر بجا لاؤں؟ لیکن صرف ایک ذمہ داری کی خاطر چند سطور وصیت نامے کے طور پر لکھ رہا ہوں۔ نہیں جانتا کہ کس طرح سے میری قسمت میں یہ عشق کی راہ لکھ دی گئی ہے اور یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کون سے اسباب تھے کہ میں اس راہِ عشق پر چل نکلا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ میری ماں کے حلال دودھ کی تاثیر ہے اور وہ لقمہ حلال کہ جو میرے والد گرامی نے مجھے کھلایا اور وہ انتخاب جو میری زوجہ نے کیا اس کی تاثیر ہے۔ پوری زندگی عشق شہادت میں گزار دی۔ اور یہ میرا اعتقاد تھا کہ صرف شہادت ہی سے بندگی کو حاصل کر سکتا ہوں۔ اس مقام پر پہنچنے کے لیے میں نے بہت کوششیں کیں ہیں لیکن نہیں معلوم کہ اب اس مقام کو کیسے حاصل کر لیا۔ میری امیدیں فقط خدا، رسولﷺ اور ان کی اہل بیتؑ سے تھیں۔ اور اب بھی ہیں کہ وہ اس سیاہکار کو قبول کر لیں اور اس گناہگار پر نظرِ کرم فرمائیں۔ اور اگر ایسا ہو گیا تو ’’اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمين‘‘ اگر کسی دن اس بندہ احقر کی شہادت کی خبر سنیں تو سمجھ لیں کہ فقط اس خداوند بزرگ کا کرم ہے۔ وہی تو ہے جو اپنے سیاہکار بندوں کو قبول کرتا ہےاور ان کو بخشتا ہے۔
میری پیاری بیوی!!
اگر کبھی میری شہادت کی خبر سنو تو جان لو کہ وہ مقصد جو تم سے شادی کرنے کا تھا پورا ہو گیا ہے اور اس وقت خود پر افتخار کرنا کہ تمہارا شوہر بی بی زینب سلام اللہ علیہا کی قربانی قرار پایا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بے تاب ہونے لگو اور رونے پیٹنے لگو۔ ہمیشہ صبر سے کام لینا اور خود کو بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے حضور سمجھو اور غور کرو کہ اس بی بیؑ نے تم سے زیادہ مصائب دیکھے ہیں۔
بابا جان!
ہمیشہ میری زندگی کا اسوہ آپ ہی رہے ہیں اور میں نے آپ ہی سے مردانگی سیکھی ہے۔ اگر میری شہادت کی خبر آپ تک پہنچے تو خود کو امام حسین علیہ السلام کے حضور تصور کیجئے گا کہ انہوں نے بھی اپنے جوان بیٹے کی شہادت کو کیسے اپنے لیے سعادت سمجھا۔ آپ کا زخم تو بہت چھوٹا ہے لیکن اس باپ کا داغ بہت گہرا ہے جس نے اپنے جوان بیٹے کو قربان کیا۔ پس ہمیشہ صبر سے کام لیجیے گا۔ جانتا ہوں کہ صبر بہت سخت ہے لیکن ہو سکتا ہے۔
پیاری اماں!!
ام البنین سلام اللہ علیہا نے اپنے چار جوان بیٹے حسین علیہ السلام کی خدمت میں قربان کیے اور ان کی پیشانی پر بل بھی نہ آیا حتی کہ جب ان کو اپنے بیٹوں کی شہادت کا بتایا گیا تو انہوں نے بیٹوں کی بجائے پہلے اپنے مولا و آقا امام حسین علیہ السلام کا پوچھا۔
اے پیاری اماں! جب میری شہادت کی خبر آپ تک پہنچے تو ام البنین سلام اللہ علیہا کی طرح صبر سے کام لینا اور افتخار کرنا کہ آپ کا بیٹا حسین علیہ السلام اور بی بی زینب سلام اللہ علیہا پر قربان ہو گیا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کا گریہ و فریاد دشمن کے دلوں کو خوش کرنے لگے۔ہمیشہ صبر کرنا۔
پیارے بھیا!
اگر کسی روز مجھے لباسِ شہادت میں دیکھو تو اس وقت کو یاد کرنا جب ابا عبداللہ حسین ابن علی علیہما السلام اپنے بھائی عباس علیہ السلام کے پاس پہنچے اور انہیں زخمی حالت میں پایا تو فرمایا کہ میری کمر ٹوٹ گئی۔ اے بھائی ایسا نہ ہو کہ ناشکری کرو اور وہ ہدیہ جو خدا کی بارگاہ میں پیش کیا ہے اس پر شک کرنے لگو۔
میری لاڈلی بہنو!
میں جب تم لوگوں اور ماں اور باباسے جدا ہو رہا تھا تو اس وقت مجھے وہ لحظہ یاد آیا تھا جب اہل حرم نے حضرت علی اکبر علیہ السلام کو وداع کیا تھا۔ جان لو کہ اگر میری شہادت کی خبر سنو تو غم و نالہ مت کرنا بلکہ اپنے بھیا کو علی اکبر علیہ السلام کی قربانی سمجھنا اور ہر گز اس حقیر بھائی کی جدائی کے غم کو حضرت علی اکبر علیہ السلام کے، اہل حرم سے جدا ہو جانے کے غم سے زیادہ مت سمجھنا۔
پیارے بیٹے علی جان!!
میرے بچے، مجھے معاف کرنا کہ میں تمہاری جوانی کو نہ دیکھ سکا۔ ہمیشہ کوشش کرنا کہ میری راہ پر چلنا اور ہمیشہ ایسا کام کرنا کہ تمہیں بھی شہادت نصیب ہو۔
میرے پیارے بابا، ماں اور میری بیوی!
میں آپ لوگوں سے صبر و تحمل اور معافی کی التجا کرتا ہوں۔ اگر میں نے آپ میں سے کسی کا حق ضائع کیا ہو یا کسی کی غیبت کی ہو یا کسی کا دل دکھایا ہو تو آپ سب سے التماس ہے کہ مجھے معاف کر دیجیے گا۔ اگر میں شہید ہو گیا تو جتنی بھی خداوند متعال سے مجھے اجازت حاصل ہو گی آپ سب کی شفاعت کروں گا۔
حدیث عشق
شہید ناصرالدین باغانی
1967ء میں قم کے ایک مذہبی اور عالم گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان انقلاب کےحادثات شروع ہوتے ہی لوگوں کی مدد کےلیے سبزوار منتقل ہو گیا۔
ان کے والد پہلے پارلیمانی انتخابات میں سبزوار سے عوامی نمائندہ منتخب ہوئے۔
ناصر الدین حزب جمہوری کے یوتھ ونگ میں شامل ہو گئے۔ اس عرصے میں انہوں نے قرآن کے منعقدہ مقابلوں میں چار بار پہلا رتبہ حاصل کیا۔ ہائی سکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد امام صادق علیہ السلام یونیورسٹی میں ان کا داخلہ ہو گیا۔
وہ کہتے تھے: میں نے امام صادق علیہ السلام یونیورسٹی چھوڑ کر امام حسین علیہ السلام یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ہے اور اپنی تعلیمی سند حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کے ہاتھوں سے وصول کی ہے۔
پہلی بار انہوں نے معرکہ بدرمیں شرکت کی اور 12 مارچ 1987ء میں ہونے والے معرکہ کربلا 5 میں شہید ہو گئے۔ اس وقت ان کی عمر 19 سال سے بھی کم تھی۔
ان کی تحریریں اور وصیت نامہ بہت ہی عجیب ہیں۔
رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای مدظلہ العالی اس عظیم شہید کے بارے میں فرماتےہیں: ’’میں نے اس عزیز کی تحریروں کو کئی بار پڑھا ہے اورہر بار ان سےتازہ فیض پایا ہے۔‘‘
بسم رب الشہداء و الصدیقین
میں خداوند کریم کی بارگاہ کا حقیر بندہ ناصر الدین باغانی وصیت کی رسم پوری کرنےکے لیے چند جملے لکھتا ہوں۔ میں اپنی بات کا آغاز عشق کے بارےمیں کروں گا۔
هر آنکه نیست در این حلقه زنده به عشق بر او نمرده به فتوای من نماز کنید |
]جو اس حلقے میں عشق سے زندہ نہیں ہے تو اس مردے پر میرے فتوے کے مطابق نماز پڑھ دو۔[ |
وه عشق کےجرم میں ہمارا مؤاخذہ کرتےہیں، گویا نہیں جانتے کہ عشق گناہ نہیں ہے۔ مگر کون سا عشق؟!
خداوندا، معبودا، عاشقا، تو نے مجھے پیدا کیا اور ماں باپ سے عشق مجھے ودیعت فرمایا۔
ایک مدت گزر گئی۔ میں عشق کرنا تو سیکھ گیا مگر کس سے عشق کروں؟ یہ نہ سیکھ سکا۔ دنیا سےعشق کیا، دنیا کے مال و منال سے عشق کیا، اپنے مدرسے سےعشق کیا، اپنی یونیورسٹی سے کیا۔
لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد ان سب کی جگہ حقیقی اور اصلی عشق نے لے لی؛ یعنی تجھ سے عشق۔ مجھے اس بات کا ادراک ہو گیا کہ تجھ سےکیا جانےوالا عشق ہی پائیدار ہے اور دوسرے عشق جھوٹےہیں۔ مجھے یہ بھی سمجھ آ گئی کہ ’’لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَ لَا بَنُوْنَ۔([1])‘‘ [نہ ہی مال فائدہ دے گا اور نہ ہی اولاد۔] اور اس بات کو بھی اچھی طرح سمجھ گیا کہ جب حالات بدل جائیں تو ’’يَوْمَ يفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ۔ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ۔ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ۔([2])‘‘ [تو جس دن آدمی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا، نیز اپنی ماں اور اپنے باپ سے، اور اپنی زوجہ اور اپنی اولاد سے بھی۔]
پس میں نےتیرے عشق سےلَو لگا لی۔ تجھ سے عشق کرنے کے بعد جب اپنے آپ میں آیا تو دیکھا کہ میں تو اس سے کہیں کم تر ہوں کہ تجھ سےعشق کروں اور تو اس سے کہیں برتر ہے کہ میرا معشوق قرار پائے۔ مجھے معلوم ہو گیا کہ اس عرصے میں مَیں جو اپنے آپ کو تمہارا عاشق سمجھتا رہا ، غلطی پر تھا۔
یہ تو تھا جو میرا عاشق تھا اور مجھے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ اگر میں تیرا عاشق ہوتا تو ہمیشہ تیری تلاش میں رہتا، لیکن جب میں غور کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ کئی دفعہ شیطان کے جال میں پھنس گیا لیکن پھر راہ مستقیم پر آ گیا۔ اب میں سمجھا کہ یہ تو تھا جو اپنے اس بندے کا عاشق تھا کہ وہ جب بھی شیطان کے چنگل میں آیا تو نے شیطان کے جال کو تارتار کر دیا۔ تو ہر شب اس کےانتظار میں رہا تا کہ کم از کم ایک رات تو اسے دیکھ سکے۔ اب میرے فہم میں یہ بات آئی کہ اپنے بندے کا سچا عاشق تو تُو ہے، بندے کی کیا مجال کہ وہ تیرا عاشق بن سکے۔ عنقا شکار کس نشود دام بازگیر۔([3])
ہاں تو ہی میرا عاشق تھا جو ہر شب مجھے بیدار کرتا اور اپنے معشوق کی ایک آواز کے انتظار میں بیٹھ جاتا تھا۔ لیکن میں بدبخت ناز و نخرےکرتا اور شبِ خلوت کو ہاتھ سے جانے دیتا اور سو جاتا لیکن تو مجھ سے ہاتھ نہ کھینچتا اور جب تک مجھے جیسے بھگوڑے کو اپنے دست رحمت سے تھام نہ لیتا، مسلسل مجھے جگاتا رہتا۔
میں سوچتا کہ میں خود ہی جاگ گیا ہوں۔ یہ کتنا باطل خیال تھا۔ یہ تیرے عشق کی کمند تھی جو تو نے میری گردن میں ڈال دی تھی۔ تو نے میرا ہاتھ تھام لیا تھا تا کہ ہر قسم کی ہاؤہو سے دور لے جا کر مجھ سے اپنے عشق کا اظہار کر سکے۔ جبکہ میں تیرے اس کام سے حیران تھا اور تیرے کرم پر تعجب کرتا تھا۔ آخر تو بڑا تھا اور میں چھوٹا۔ تو کریم تھا اور میں لئیم۔ تو جمیل تھا اور میں قبیح۔ تو مولا تھا اور میں بندہ۔ اور میں تیرے ان سبھی احسانات کے سامنے شرمندہ تھا۔
تو نے اپنی عشق کی کمند کو اور مضبوط کر دیا اور مجھے عشق کے خطِ مقدم([4]) پر لے آیا۔ یہاں تو نے مجھےاپنےعشق کی شراب پلائی اور یہ مقدس شراب تھی۔ میں ابھی تک اس کی لذت میں مست ہوں۔ اس کا پہلا ہی گھونٹ پیا تومیں مدہوش ہو گیا اور اسی مدہوشی کے عالم میں دوسرا گھونٹ مانگ لیا۔ لیکن اس بارتو نے ناز و ادا سے کام لیا اور مجھےاپنے پیچھے سرگرداں کر دیا۔ میں نے اپنا پیالہ تیری طرف بڑھایا اور دوسرا گھونٹ مانگا مگر تو نے میرا پیالہ ہی توڑ دیا۔
میں نےلاکھ منت سماجت کی کہ ایک اور جام مجھے پلا دے تا کہ اپنے جسمانی پردوں سے باہر نکل سکوں مگر تو نے نہ دیا بلکہ زیرلب مجھ پر مسکرانے اور معشوقانہ ادائیں دکھانےلگا۔ اب حالت یہ ہے کہ میں نشے میں ہوں اور جام میرے ہاتھ میں ہے۔ ابھی تک تیرے عشق کی شراب کے ایک اور گھونٹ کے انتظار میں پگھلا جا رہا ہوں۔
اے میرے عاشق! اے میرے معبود!میرے پیالے کو بھر دے اور مجھے اس خماری سے باہر نکال۔ تُو خود تو ایک عرصے تک انتظار کرتا رہا، اور اب جب مجھ تک پہنچ گیا ہے تو کیوں مجھ سے کترا رہا ہے؟ تُو تو سراپا عشق تھا اور عشق کا خریدار تھا تو اب مجھےکیوں انتظار کی اذیت میں ڈال رکھا ہے؟!
اگر مجھےمعلوم ہو جائے کہ تو میری متاعِ عشق کا خریدار نہیں ہے اور اگر مجھےیہ بھی معلوم ہو جائے کہ تو میرے جام میں کچھ بھی نہیں انڈیلے گا تو میں خود اپنے جام کو توڑ کر رکھ دوں گا اور اپنی متاع عشق کو آگ میں جھونک دوں گا تا کہ تو آتشِ حسرت میں جلتا رہے اور حیرت سے اپنے انگلیاں دانتوں میں چباتا رہے۔
به آهی گنبد خضرا بسوزم بسوزم یا که کارم را بسازی |
جهان را جمله سر پا بسوزم چه فرمایی بسازی یا بسوزم |
[میں اپنی ایک آہ سےگنبدِ خضریٰ اور سرتاپا اس دنیا کو جلا دوں۔ تو میرے بگڑے ہوئے کام کو سنوارے گا یا میں اپنےآپ کو جلا کر کر رکھ کر دوں؟ اب خود ہی بتاؤ کہ میرا کام کرو گے یا میں اپنے آ پ کو جلا دوں؟] |
لیکن شہادت کیا ہے؟
جس لمحے میں دو دلدار آپس میں ملتے ہیں، عاشق کا اپنے معشوق سے وصال ہوتا ہے، بندۂ خاکی جمالِ حق کی زیبائیوں پر نظر ڈالتا ہے اور روئے یار کے دیدار میں کھو جاتا ہے تو اس لمحے کو شہادت کے علاوہ ہم کون سا نام دے سکتے ہیں؟
جس وقت ایک مجاہدجنگجو دشمنِ حق کی طرف جاتا ہے، ملائکہ اس کی رزم کے انداز دیکھنے بیٹھ جاتے ہیں، شیطان چیخیں مارتا ہوا بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور اچانک ایک غنچہ کھل اٹھتا ہے تو اس لحظے کو شہادت کےعلاوہ کیا کہا جا سکتا ہے؟!
شہادت، عاشق و معشوق کی خلوت کا نام ہے۔ شہادت کی تفسیر بیا ن نہیں ہو سکتی۔ اے وہ لوگو!جو اپنےجسم کےزندان میں قید ہو، شہادت کی تفسیر کے انتظار میں مت بیٹھے رہو کیونکہ تم شہادت کا معاملہ سمجھنے سے عاجز ہو۔ فقط شہید ہی ہے جو شہادت کا ادراک کر سکتا ہے۔
شہید وہ نہیں ہے جو اچانک ہی خون میں لت پت ہو جائے اور اسے شہید کا عنوان دے دیا جائے۔ شہید تو اس دنیا میں خون میں نہانے سے پہلے بھی شہید ہوتا ہے۔
تم لوگ جو شہیدوں کو ان کی زندگی میں نہیں جان سکتے اور نہ ہی ان کی معرفت حاصل کر سکتے ہو تو ان کی شہادت کے بعد بھی تم انہیں درک کرنے سے عاجز ہو۔
شہید کو فقط ایک شہید ہی سمجھ سکتا ہے۔ اگر تم شہید ہو جاتے ہو تو تب جا کر کسی شہید کی معرفت حاصل کر سکتے ہو، ورنہ زنگ لگا آئینہ تو کسی بھی چیز کے عکس کو ہر گز منعکس نہیں کر سکتا۔ اٹھو اور اپنے حال کی فکر کرو کہ شہید اپنی شہادت تک پہنچ چکا ہے اور اسے اس کا غم بھی نہیں ہے۔
شہداء تمہاری حالت دیکھ کر رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ وہ اس بات پر حیران ہیں کہ تمہیں اپنی فکر کیوں نہیں ہے؟! ہوش میں آؤ اور اپنے آپ کو سمجھو۔ اپنے جسم کے زندان کو گرا دو۔ اس پنجرے کو شکستہ کر دو اور پرواز کرتےہوئے اپنے دوست (خدا) کی گلی تک جا پہنچو۔ جان لو کہ تم پرواز کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہو نہ کہ زندان میں پڑے رہنے کےلیے۔ اس ویران منزل کو چھوڑ دو اور ملکِ سلیمان کی طرف بڑھے چلو۔
ای خوش آن روز کزین منزل ویران بروم رخت بر بندم و تا ملک سلیمان بروم([5]) |
[مبارک ہےوہ دن جب میں اس ویرانے سے اپنا رختِ سفر باندھ کو ملکِ سلیمان کی جانب چلا جاؤں۔] |
اے میرے رہبر!
اے وہ کہ جس پر جانِ عالم فدا ہو! اےوہ کہ جس کے ایک بال پر یہ دنیا قربان ہو جائے! اے خمینی! اے وہ ہستی جسے خدا نے شیعوں کے لیے ذخیرہ کر رکھا تھا۔ میں اپنے آپ کو آپ کا رہینِ احسان سمجھتا ہوں۔ اپنے پورے وجود کو مکمل خلوص کے ساتھ آپ پرفدا کرتا ہوں۔ آپ ویسے ہی مصباحِ ہدایت ہیں اور ویسی ہی کشتیٔ نجات ہیں جیسا کہ میرے مولا حسین علیہ السلام ’’ان الحسین مصباح الھدی و سفینۃ النجاۃ۔‘‘
آپ ہمارے زمانے کے حسین ہیں۔ آپ ہی تھے جو ظلم کی تاریک رات میں ضوفشاں ہوئے اور اپنے نور سے ہمارے تاریک دلوں کو روشن کر دیا۔ آپ ہی نے ہمیں بتایا کہ ہماری ذمہ داری کو سید الشداء علیہ السلام نے مشخص کیا ہے۔ آپ ہی نے ہمیں یہ بھی سکھایا کہ جو بھی پیغمبر اسلامﷺ کا عاشق ہے اس پر استقامت اور ثابت قدمی فرض ہے۔ ہم نے درسِ شہادت آپ ہی سے لیا ہے کیونکہ آپ تمام شہداء کے باپ ہیں۔
خدایا! اس چراغِ ہدایت کو حضرت حق صاحب العصر والزمان حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور مقدس تک طولِ عمر عطا فرما۔
اے ایران کی مسلمان اور شہید پرور امت!
امام کی پیروی کرو، فقط باتوں کی حد تک نہیں بلکہ عمل میں بھی۔ اپنے دل کی سماعتیں بیدار کر کے ان کی باتیں سنو اور انہیں بے چون و چراں تسلیم کرو۔ اور ہر زمانے میں اپنے امام کو پہچانو۔ اس وقت جب کہ حضرت صاحب الامر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف پردۂ غیبت میں ہیں تو اپنے زمانے کے ولی فقیہ کو پہچانو۔
اگر تم نے اپنے امام کو پہچان لیا تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے ورنہ اِدھر اُدھر بھٹکتے پھرو گے۔ اسلام کو مجاہد اور اصلی علماء سےسیکھو نہ کہ منحرف لوگوں کی زبان و قلم سے۔ اس زمانے میں کچھ ایسے فسادی اور جاہل لوگ بھی پیدا ہو گئے ہیں جو ایک ایسے اسلام کی ترویج کر رہے ہیں جو علماء سےخالی ہو۔
دوسرے لفظوں میں وہ دین کی سیاست سے جدائی کے نظریے کا پرچار کر رہے ہیں اور کہتے ہیں: ’’علماء نے انقلاب میں شرکت اور اس کی رہبری کی جس کے نتیجے میں انقلاب کامیاب ہو گیا تو خدا انہیں اس کا اجر دے! لیکن اب ان علماء کو چاہیے کہ حوزہ ہای علمیہ میں بیٹھ جائیں اور اپنے درس و مباحثہ کی محافل کو جاری رکھیں۔ ‘‘ ان منحرف لوگوں کو اچھی طرح پہچان لو اور انقلاب کے منظر نامے سے انہیں نکال باہر کرو۔
یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے مختلف ناموں لیکن ایک ہی ماہیت کے ساتھ مطہریؒ جیسی شخصیت کو شہید کر دیا۔ بہشتیؒ کی، پہلے تو تہمتوں اور دشنام طرازیوں کے ذریعے شخصیت خراب کی اور پھر اپنے شیطانی کینے کی بنا پر انہیں جسمانی طور پر بھی شہید کر دیا۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے شیخ فضل اللہ نوریؒ کو دار پر لٹکوا کر خوشی کے شادیانے بجائے۔ یہ وہی ہیں جو آغا خامنہ ای کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔۔۔
یہ وہی لوگ ہیں کہ اگر ان کا ہاتھ امام تک پہنچ جائے تو۔۔۔ [بھی کسی بات سے دریغ نہیں کریں گے۔] یہ علماء کے دشمن ہیں۔ یہ نہیں چاہتے کہ علماء رہیں۔ یہ علماء اور تمہارے بیچ جدائی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمارے عزیز امام کے دل کو رنجیدہ کرتے ہیں۔
بیرونی دشمنوں سے جنگ کرنا مشکل نہیں ہے لیکن اپنے اندر گھسے ہوئے یہ منافقین سب سے زیادہ بدتر ہیں۔ منافقین کفار سے زیادہ بدتر ہیں۔ ان منحرف اور گمراہ لوگوں سے دوری اختیار کر کے امام کے دل کو خوش کرو اور دوسری بات یہ کہ مصائب اور مشکلات میں صبر کرو۔
ان اللہ مع الصابرین۔ خدا بہشت ایسے ہی نہیں بلکہ اعمال کے بدلے میں دے گا اور جنت کی قیمت بہت بھاری ہے۔ جنت کی قیمت عشق ہے اور عشق یعنی خون۔ کربلا کی طرف جانا خون کا تقاضا کرتا ہے۔ کربلا کی زیارت ایک ماجرا ہے اور یہ ماجرا خون اور قیام کا ماجرا ہے کہ اے کربلا کے باسیو، پیغام تم دو اور خون ہم دے کر اس پھیلائیں گے۔ جان لو کہ ان اللہ یدافع عن الذین آمنوا۔ (خدا انہی کا دفاع کرتا ہےجو ایمان لائے۔) ہم سب وسیلہ ہیں۔ دراصل یہ جنگ، یہ انقلاب اور یہ سارےحالات خدا کی طرف سے طے شدہ تھے تا کہ وہ اس میں سے اپنے دوستوں کو اپنے پاس بلا لے اور خالص کو ناخالص سے جدا کر لے۔ پس تم بھی میدان میں آؤ اور شہداءکے خون کی لاج رکھو۔
اپنی نفسانی خواہشات کو لگام دو۔ خدا کےلیے کام کرو۔ اپنے کاموں میں نظم و ضبط کا اہتمام کرو۔ مستحبات کو بہت اہمیت دو تا کہ شیطان کے شر سے محفوظ رہو۔ نوافل خصوصاً نمازِ شب کے ذریعے خدا کی قربت حاصل کرو۔ صبر کواپنا ہتھیار بناؤ اور جان لو کہ تم سے پہلے کی امتوں نے تم سے زیادہ سخت اور مشکل حالات دیکھے تھے۔
فساد اور فساد کےاسباب کا شدت سے مقابلہ کرو کیونکہ دشمن اسی راستے سے ہمیں کمزور کرنا چاہتا ہے۔ تمام دوستوں اور جاننے والوں سے عاجزانہ التماس کرتا ہوں کہ اگر ان کا کوئی حق میری گردن پر ہے تو مجھے معاف فرما دیں تا کہ میرے گناہوں کا وزن ہلکا ہو جائے۔۔۔
جہانِ باقی میں حضرت اباعبداللہ الحسین علیہ السلام اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے جوار میں رہنے کی امید لیے سب سے دعا کی درخواست کرتا ہوں۔
24 جمادی الثانی 1407ھ بمطابق 5 مارچ 1987۔ صبح 9 بج کر 25 منٹ
والسلام علی من اتبع الھدیٰ
ناصر الدین باغانی۔ کرخہ چھاؤنی
*****
پیاری اماں اور ابا جان!
میں آپ پر فخر کرتا ہوں کہ ڈھیروں مشکلات اور مسائل کے باوجود آپ نے ایسے حالات میں مجھے باطل کے خلاف لڑنے کے لیے محاذ پر آنے کی اجازت دی کہ جب اکثر والدین اپنے بچوں کو اس ڈر سے گوداموں میں چھپاتے رہے کہ کہیں انہیں فوج میں بھرتی نہ کر لیا جائے۔
آپ کا یہ کام خدا کی طرف سے اجرِ عظیم کا حقدار ہے۔ میں تکلف سے نہیں کہہ رہا بلکہ یہ حقیقت ہے۔ میں سچ مچ آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ من لم یشکر المخلوق لم یشکر الخالق (جو مخلوق کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ خالق کا شکر ادا نہیں کرتا۔) اور خدا کا بھی لاکھ لاکھ شکر کہ اس نے ایسے خاندان میں مجھے بھیجا۔
میری پیاری اماں اور ابا جان!
اگرچہ آپ کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں مگر ان الذکری تنفع المؤمنین کے مطابق کہتا ہوں کہ صبر کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور خدا پر توکل کریں تا کہ آپ آیت الذین صبروا و علی ربھم یتوکلون کے مکمل مصداق بن جائیں۔اور کبھی غمگین اور رنجیدہ نہ ہوں اور ناخوشگوار نتائج سے کبھی نہ گھبرائیں کیونکہ الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیہم و لا ھم یحزنون۔
اسلام ہم تک خون کے ذریعے پہنچا ہےاور اس کے بعد اس کی حفاظت کے لیے بھی خون ہی درکار ہو گا۔ اگر شہداء کا یہ خون نہ ہوتا تو آج ہمارے حالات اس قدر اچھے نہ ہوتے۔ جس پودے کو پانی نہ دیا جائے وہ سوکھ جاتا ہےاسی طرح خون کے بغیر اسلام بھی اندر سےکھوکھلا ہو کر بے مقصد رہ جاتا ہے۔
ہم نے دعاؤں میں یہی پڑھ رکھا ہے کہ یا لیتنا کنا معکم۔ کیا اس جنگ میں شرکت امام حسین علیہ السلام کی ہمراہی اور ہمرکابی کے علاوہ بھی کچھ ہے؟! ہم امام حسین علیہ السلام کی طرح جنگ کے لیے نکلے ہیں اور امام حسین علیہ السلام ہی کی طرح ہمیں شہید ہونا ہے۔
اس جنگ میں کامیابی اسلام کی خون بھری تاریخ کا ایک احساساتی اور جذباتی نقطہ عروج ہو گا۔ ہمیں ہر حالت میں اس جنگ میں فتح یاب ہونا ہے اگرچہ اس کے لیے ہمارا سارا خون ہی کیوں نہ بہہ جائے۔
میں عید قربان کے دن بیٹھ کر یہ خط لکھ رہا ہوں۔
حجاج نے منیٰ میں جا کر قربانی کی ہے جبکہ عاشق بسیجیوں نے اس دن عشق کے منیٰ میں جا کر اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔ باطل کے خلاف حق کے مورچوں پر گزرا ہوا ہر دن روزِ عاشورا ہےاور ہر روز عید قربان ہے۔
تاریخ: 16 اگست 1986۔ خدا کا حقیربندہ: ناصر الدین باغانی
*****
خدایا! تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے اپنی بندگی کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اس بات کی توفیق بھی عنایت فرمائی کہ میں محاذ پر آ کر جنگ لڑوں اور اس بات کی بھی توفیق دی کہ تیرے خالص بندوں میں سے ہو جاؤں۔
خدایا! یہ تیرے خالص بندے کون ہیں؟! جو تیرے ملائکہ سے بھی برتر ہیں۔یہ بسیجی ہیں۔ یہ اپنے ارادہ و اختیار سے پروانوں کی طرف تیرے عشق کی آگ میں کود پڑے ہیں۔
یہ کون ہیں جو تیرے عشق کی شراب میں ڈوب چکے ہیں۔ یہ کون ہیں جو اتنی بے باکی، اتنی جرأت اور اتنی بہادری سے تیرے دشمنوں کی ناک زمین پر رگڑ رہے ہیں اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا انتقام لے رہے ہیں۔
نہیں، یہ لوگ تو اپنے آپ سے غافل ہو چکے ہیں۔ یہ تیرے اندر اتنے جذب ہو چکے ہیں کہ تجھ میں اور ان میں جدائی محال ہے۔ ان کے جسموں میں تیری ہی روح دوڑ رہی ہے۔ ان کی آستینوں میں نظر آنے والے ہاتھ تیرے ہی ہیں۔ یہ تیرا ہی راز ہے جو ان کےدلوں میں محفوظ ہے۔
وہ کہاں گئے جو کہتے تھے کہ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ (اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔) آؤ اور اب خدا کے ہاتھوں کو دیکھو بل غلت ایدیکم۔ (بلکہ ان کے اپنے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔)
اگر یہ لوگ علی علیہ السلام کے ساتھ ہوتے تو انہیں 25 سال تک اپنے گھر میں نہ بیٹھنا پڑتا۔ اگر یہ لوگ رسول اللہﷺ کےزمانے میں ہوتے تو اس شخص کو رسول اللہﷺ کی شان میں یہ گستاخی کرنے کی جرأت نہ ہوتی کہ ان الرجل لیھجر۔
اگر یہ لوگ اس وقت ہوتے تو خانۂ وحی کو وہ ظالم و جابر لوگ کیسے آگ لگا سکتے تھے؟! اگر یہ لوگ اس وقت موجود ہوتے تو زینب سلام اللہ علیہا نےکہاں اسیر ہونا تھا؟! اگر یہ ہوتے تو علی ابن الحسین علیہما السلام نے کہاں اسیری کی اذیتیں جھیلنا تھیں؟! اگر یہ ہوتے تو کسی کی مجال تھی کہ حسین علیہ السلام کے دانتوں پر چھڑی مارتا؟!
لیکن آج یہ لوگ ہیں۔ اپنے پاؤں پر کھڑے اور ثابت قدم۔ پہاڑ ہل سکتے ہیں مگر یہ نہیں۔ اگر تمام کفار بھی تلواریں ہاتھ میں لیے آ جائیں تو یہ پھر بھی اپنے جگہ پر استقامت دکھائیں گے۔ انہوں نے اپنی جانوں کو خدا کےہاں گروی رکھ چھوڑا ہے۔یہ اپنے دانت مضبوطی سے بھینچ لیتے ہیں اور اپنے پاؤں زمین پر مضبوطی سے مارتے ہیں۔ گویا کہتے ہوں کہ اے دنیا! جان لے، جب تک بسیجی ہیں تب تک تو امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی مملکت کی طرف اپنے ناپاک اور لالچی ہاتھ نہیں بڑھا سکتی۔ یہ مہدی عج کی فوج ہے اور مہدی عج کی فوج شکست نہیں کھاتی۔ ہمارے مولا غیبت میں ہیں مگر ان کی طرف سے ہمارے کمانڈر امام خمینی ہیں۔
ہاں! امیری خمینی و نعم الامیر۔
والسلام، ناصر الدین باغانی: 21 جنوری 1987
بسمہٖ تعالیٰ
مرغ باغ ملکوتم نیم از عالم خاک از کجا آمدهام آمدنم بهر چه بود ای خوش آن روز که پرواز کنم تا بردوست |
چند روزی قفسی ساخته اند از بدنم به کجا می روم آخر ننمایی وطنم به هوای سر کویش پر و بالی بزنم |
[میں باغِ ملکوت کا پرندہ ہوں، عالم خاک سے نہیں ہوں۔ کچھ دنوں میں انہوں نے میرے ہی بدن سے میرا قفس تیار کیا ہے۔ میں کہاں سے آیا ہوں، میرے آنے کا مقصد کیا تھا اور آخر مجھے کہاں جانا ہے؟ تو نے میرا وطن مجھے نہیں دکھایا۔ خوشا وہ روز کہ جب میں اپنے دوست تک پرواز کر کے جاؤں اور اس کی گلی کی ہوا کے ساتھ اپنے پرو بال ٹکراؤں۔] |
بارِ الٰہا! اے میری گھنیری راتوں کے چراغ، اے میرے تاریک دل کو نور عطا کرنے والے، اے میرے فریاد رس، اے میری امید، اےمیرے سجود، اے میرے رکوع، اے وہ کہ جس کے لیے میرا قیام ہے۔
اے کہ تیرے چاند سے چہرے پر سلام۔ اے وہ کہ جس نے مجھے چاہِ ضلالت و گمراہی سے باہر نکالا اور انسانیت کی بلند چوٹی پر پہنچا دیا۔ اے وہ کہ جس نے میرے سر پر کَرّمنا کا تاج سجایا۔ اے میرےیار، اے میرے دلدار، اے میرے خوبصورت گواہ، اےمیرے غموں سے آگاہ ذات، تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میں تیرا ہی بندہ رہا اور اگر میں نے تیرے علاوہ کسی اور کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا ہو تو وہ عصیان کی بنا پر نہیں بلکہ نسیان کی بنا پر تھا۔
میرے مولا! تو خود گواہ ہے کہ ان سب گناہوں کے باوجود میں پھر بھی تیرے ہی در پر آتا تھا اور اپنے سر پر خاک ڈالتا تھا۔ تو خود اس چیز کا شاہد ہے کہ میں تجھ سے محبت کرتا تھا ہر چند کہ کبھی کبھار شیطان کےجال میں جا پھنستا تھا۔
میرے مولا! میں اگر خطاکار ہوں تو عفو کی امید بھی تیرے ہی در سے رکھتا ہوں اور اگر تو نےمجھے نہ بخشا تو مجھے تیرے کرم پر اعتراض ہو گا۔
اگر تو مجھ سے پوچھے کہ میں نے گناہ کیوں کیے تو میں بھی تجھ سے سوال کروں گا کہ تو نے اپنےعفو و درگزر کا دروازہ کیوں نہ کھولا؟! اگر تو نےہی مجھے معاف نہ کیا تو تجھ سے زیادہ کون اس کا سزاوار ہو گا؟!
اگر میں جاہل ہوں تو تُو تو ہر گز ظالم نہیں ہے۔ مولا! ہرچند کہ میں جانتا ہوں کہ تو مجھےمعاف فرما دے گا مگر پھر بھی عرض کرتا ہوں کہ اگر تو مجھےعذاب کرنا چاہے اور دوزخ کی گہرائیوں میں جلانا چاہے تو میری زبان کو سلامت رکھنا تا کہ میں اس آگ کے اندر سے تجھ سے باتیں کر سکوں اور تجھے پکار سکوں لیکن تو اس سے زیادہ کریم ہےکہ اپنے بندے کو عذاب کےحوالے کر دے: ھیھات انت اکرم من ان تضیع من ربیتہ۔
بہر حال میں آ گیا ہوں لیکن وہ بھی اس حالت میں کہ گناہوں اور معصیتوں کا بار اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے. مولا! کتنے ہی ایسے نیک افراد ہیں جنہیں میں نے اپنے آپ سے ناراض نہیں کیا ہے! لوگوں کے کتنے ہی حقوق تھے جو مجھ سے ضائع نہیں ہوئے! لیکن میں آ گیا ہوں تا کہ تیری امانت تیرے سپرد کر دوں۔
جو پاک و پاکیزہ جان تو نے مجھے دی تھی اس کےبارے میں مجھ سےسوا ل نہ کرنا کہ میں نے اس کا کیا کیا کیونکہ تیرے سوال کے مقابلے میں میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔یہ امانت مجھ سے لے اور اس کی سنگینی میرے کندھوں سے اتار دے۔
ہائے، ہائے، ہائے! ہم سبھی امانتدار ہیں لیکن کیا امانت کو اپنی منزل تک پہنچا بھی سکتے ہیں یا نہیں؟!
میرے پیارے والد اور ماں!
میں آپ کے ہاتھوں میں امانت ہوں۔ کیا آپ مجھے امانت کے مالک کی طرف نہیں لوٹانا چاہتے؟!مجھے واپس لوٹا دیں کہ میں اپنے مالک سے دور ہو کر سخت غمگین ہوں۔
میرا دل سخت اضطرا ب میں ہے۔ کچھ دنوں سے جانے کی فکر میں ہوں۔ مگر کچھ بندشیں مجھے جانے نہیں دے رہیں۔ اے میرے مولا، اے میرے مالک!میرے پاؤں کی یہ زنجیریں کھول دے۔
اے ہمارے امام، اے خدا کی پاک روح، اے ہمارے ہادی و رہبر، میں آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ آپ گواہ رہیے گا کہ ہم کوفی نہیں تھے۔ اور اس چیز کی گواہی بھی دیجیے گا کہ ہم نے آپ کو تنہا نہیں چھوڑا۔ حیف ہے ان پر جنہوں نےآپ کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا اور اپنے مفادات کے پیچھے پڑے رہے۔
حیف ہے امتِ مسلمہ پر، حیف ہے شہید پرور اور بہادروں کی وارث امت پر۔ آپ خود اس چیز سے آگاہ ہیں مگر ان الذکری تنفع المؤمنین۔
اے لوگو! امام اور ولایت فقیہ کی مدد سےکبھی ہاتھ نہ کھینچنا۔جان لو کہ جس وقت تم نے ولی فقیہ کو تنہا چھوڑ دیا تو وہ دن تمہاری شکست اور نابودی کا دن ہو گا اور خدا وہ دن کبھی نہ دکھائے۔ تاریخ سے عبرت پکڑو۔
فانظروا کیف کان عاقبۃ المکذبین۔ جان لو کہ ہمارا جھگڑا ولایت فقیہ ہی پر ہے۔ ان مجاہد علماء کو اکیلا نہ چھوڑنا۔ اگر تم نے علماء کا دامن چھوڑ دیا تو نابود ہو جاؤ گے۔
اسلام اور اس کے احکام کی حفاظت کرو۔ احکام اسلام سےزیادہ اصل اسلام کی حفاظت اہم ہے اور اس راہ میں خون بہانے سے ہر گز گریز نہ کرو۔
جان لو کہ جہاد خدا کی طرف سےایک امتحان ہے۔ جان لو کہ مشکلات بھی امتحانِ الٰہی ہیں۔ کوشش کرو کہ اس امتحان سےکامیابی سے گزر جاؤ۔
آخر میں اپنے بھائیوں، اپنی بہن، رشتہ داروں اور دوستوں سےمعافی طلب کرتا ہوں اور اپنےبھائیوں سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ میرے راستے پر چلیں اور اسے کبھی بھی نہ بھلائیں۔
9 نومبر 1986
([3]) عنقا اس خیالی پرندے کو کہا جاتا ہے جو کسی کی دسترس میں نہیں آتا۔ شہید کہنا چاہتے ہیں کہ کہ خداوند تعالیٰ کی ذات تک کسی رسائی ممکن نہیں ہے۔ یہ مطلب نہج البلاغہ کے پہلے خطبے میں امیر المومنین علیہ السلام کے اس خوبصورت جملے سے ماخوذ ہے: الذی لا یدرکه بعد الهمم و لا یناله غوص الفطن.
([5]) کتاب کے متن میں یہ شعر اسی طرح درج ہے۔ یقیناً شہید نے اپنی وصیت میں اسے اسی طرح لکھا ہو گا مگر اس کا پہلا مصرع حافظ شیرازی کی ایک غزل کے مطلع کا جب کہ دوسرا مصرع اسی غزل کے تیسرے شعر کا ہے۔ اس غزل کا مطلع ہے: خرم آن روز کزین منزل ویران بروم / راحت جان طلبم و ز پی جانان بروم۔ اور دوسرا شعر یوں ہے: دلم ازوحشت زندان سکندر بگرفت / رخت بربندم و تا ملک سلیمان بروم۔
عاشقانہ
شہید مصطفی ردّانی پورؒ
بچپن میں شدید مریض ہو گئے اور مرض اتنا شدت پکڑ گیا کہ بالآخر موت کا سبب بن گیا۔ بچے کی میت کو صحن کے ایک طرف رکھ دیا گیا تا کہ صبح دفنا دیا جائے۔
اگلے دن ایک پیر صاحب ان کے گھر آئے اور کہنے لگے: ’’بچےکی ماں سےکہو کہ اسےدودھ پلائے۔ میں نے خدا سے اس کی عمر کے لیے دعا کی ہے۔ ماں نے بچےکی میت کو اٹھایا اور سینے سے لگا لیا۔ بچے کے ہونٹ ہلےاور۔۔۔‘‘
مصطفیٰ ایک زیرک اور ذہین بچے تھے۔ انہوں نے ہائی سکول کے زمانے میں ایک عجیب خواب دیکھا۔ جس کی تعبیر یہ نکلی کہ وہ حوزہ علمیہ میں داخل ہو گئے۔ تحصیل علم کے ساتھ ساتھ وہ تہذیب نفس سے غافل نہیں رہے۔ چھٹی والے دن کام کرتے اور منگل والے دن پیادہ جمکران جاتے۔ تبلیغ کےلیے وہ دورافتادہ گاؤں اور دیہاتوں کا انتخاب کرتے۔ انقلاب کی کامیابی کے دنوں میں کئی بار اسیر ہوئے۔
وہ سپاہِ([1]) یاسوج کے بانی اور پہلے کمانڈر تھے۔ ایک علاقے کا گشت کر رہے تھے کہ منافقین نے ان کا محاصرہ کر لیا۔ وہ اپنی کار سے اتر پڑےاور کہنےلگے: ’’بےشک مار دو۔ میرا عمامہ میرا کفن ہے۔‘‘ یہ ان کا وہی معروف جملہ تھا جو انہوں نےاپنے وصیت نامے میں بھی لکھا۔
زخمی ہونے کی وجہ سے وہ تہران کے ہسپتال میں داخل ہو گئے۔ محاذ پر جانا چاہتے تھے مگر پاس پیسے نہیں تھے۔امام زمانہ (عجل اللہ) کے علاوہ تہران میں ان کا کوئی آشنا نہ تھا۔ مولا سے توسل کیا تو ایک نورانی سید ان کی ملاقات کے لیے آ گئے اور انہیں ایک جیبی مفاتیح الجنان ہدیہ دیتے ہوئے کہنے لگے: ’’یہ تمہیں محاذ تک پہنچا دے گی۔‘‘ کتاب کے اندر کچھ کورے نوٹ پڑے تھے۔ جیسے ہی محاذ پر پہنچے تو وہ پیسے بھی ختم ہو گئے۔
افسری کے مختلف مدارج طے کرتے ہوئے وہ صاحب الزمان (عج) کور کی کمان کا تجربہ بھی ہوا۔ اس کور میں پانچ ڈویژنز شامل تھیں۔
ان کی شجاعت اور بہادری اپنی مثال آپ تھی۔انہوں نےمجاہدین کو روحانیت و معنویت کی بلندی تک پہنچا دیا تھا۔ سپاہ کے سرداروں کی علماءقم سے ملاقات کروانا بھی ان کی ذمہ داریوں میں سے ایک تھا۔ ایسے ہی ایک سفر میں علامہ مصباح یزدی جو ان کے استاد بھی تھے نے ان کےایک شاگرد کے ہاتھوں پر بوسہ بھی دیا تھا۔
انہوں نے ایک شہید کی بیوہ سے شادی کی جو سیدہ تھیں۔ وہ چاہتے تھے کہ اس ذریعے سے حضرت زہرا سلام اللہ کے محرم بن جائیں۔ شادی کے تین دن بعد محاذ پر چلے گئے۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ گمنام رہنا چاہتے ہیں۔ انہیں ایک ایسی جگہ پر رہنا زیادہ پسند ہےجہاں کسی کی دسترس نہ ہو۔
معرکہ والفجر۲ میں انہوں نے برہانی کے ٹیلوں پر اپنی شجاعت کی لازوال داستانیں رقم کیں۔ اس کے بعد سے آج تک کسی کو ان کے بارے میں کچھ بھی خبر نہیں۔مصطفیٰ ردّانی پور6 اگست 1983 کو ایمان و شجاعت کا ایک دیومالائی کردار بن کر امر ہو گئے۔ آج تک ان کا سراغ نہ مل سکا۔
مصطفیٰ کی عجیب ترین چیزوں میں سے ایک ان کا وصیت نامہ ہے۔ ان کی اصلی وصیت جنگ شروع ہونے سے تین دن پہلے لکھی گئی جس وقت وہ کردستان میں نمائندۂ ولی فقیہ تھے:
حمد ہے اس خدا کی کہ جس کےجلال کے انوار عقولِ انسانی کے افق پر ہر گھڑی تاباں ہیں اور جس کے احکام کتاب و سنت کی زبان سےنمایاں ہیں۔
وہ خدا کہ جس نے اپنے دوستوں کو اس فریب کار دنیا پر فریفتہ ہو جانے سے نجات عطا فرمائی اور انہیں مختلف قسم کی خوشیاں عطا فرمائیں۔ اس وجہ سے نہیں کہ اس نے انہیں زیادہ نعمتیں بخشیں یا انہیں نیک راہ سے ہٹنے نہ دیا بلکہ اس جہت سے کہ وہ الطافِ الٰہی کو قبول کرنے کی لیاقت و اہلیت رکھتے ہیں اور اس کی صفات کے رنگ میں رنگے جانے کے قابل ہیں۔ پس وہ اس بات پر راضی نہ ہوا کہ اس کے بندے بے کار بیٹھے رہیں اور اپنی زندگی کو بے فائدہ گزار دیں بلکہ انہیں توفیق عطا فرمائی کہ وہ اپنے آپ کو کامل کردار سے مزین کریں تا کہ اس کے علاوہ ہر چیز سے بے نیاز ہو جائیں اور ان کا ذوق سلیم شرافتِ خوشنودی پروردگار کی لذت سے آشنا ہو جائے۔ اس پہلو سے انہوں نے اپنے دلوں کو اس کے سایۂ لطف و عنات کے انتظار میں دنیا سے پھیر لیا ہے اور اپنی آرزوؤں کا رخ اس کی بخشش و فضل کی طرف کر دیا ہے۔
ان کے وجود میں تمہیں ایسا سرور نظر آئے گا جو فقط انہیں دلوں کے ساتھ مخصوص ہے جو عالم جاودانہ کے ساتھ منسلک ہو چکے ہیں اور ان کے قیافوں پر ایسا ڈر دکھائی دے گا جو حضرت حق تعالیٰ کی ملاقات کی ہیبت کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اس چیز کی طرف ان کا شوق ہمیشہ فزوں رہتا ہے جو انہیں حضرت حق کی خواہش کے نزدیک کر دے، ان کا میلان ان احکام کی انجام دہی کی طرف رہتا ہے جو خداوند کریم نے صادر فرمائے ہیں، ان کے کان اسرار الٰہی کو سننے کے ہر وقت آمادہ جبکہ ان کے دل اس کی یاد سے شیریں کام رہتے ہیں۔
ان کے ایمان کی مقدار کے مطابق اس نے انہیں اپنے ذکر کی لذت سے بہرہ مند فرمایا ہے اور اپنی بخشش و عطا کے خزانے سے بغیر کوئی احسان جتلائے انہیں وہ کچھ وافر عطا کیا ہے جو اس کی بخشش اور مہربانی کے مطابق ہے۔
وہ چیز ان کی نظروں میں بہت ہی حقیر ہے جو ان کےدلوں کو جلالِ حق سے غافل کر دے اور جو چیز بھی انہیں اپنے دوست کے وصال سے دور لے جائے اسے فوراً ترک کر دیتے ہیں تا کہ اس کے کرم و کمال سے مانوس ہو کر لذتِ وصل کے خمار میں ڈوب جائیں۔
وہ ہمیشہ ہیبت و جلال کا زیور اور ایسا ہی لباس فاخرہ زیبِ تن کرتے ہیں اور جب دیکھتےہیں کہ ان کی دنیاوی زندگی احکامِ خداوندی کی پیروی میں رکاوٹ بن رہی ہے اور اس دنیا میں رہنا ان کے اور ان کے پروردگار کی بخششوں کے بیچ حائل ہو رہا ہے تو فوراً اس زندگی کا لباس اپنے وجود سے اتار پھینکتے ہیں اور دیواروں میں لگے دروازوں پر دستکیں دینے لگتےہیں۔ اور اس کامیابی تک پہنچنے کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے آپ کو گولیوں اور گولوں کے حوالے کر دینے میں لذت محسوس کرتے ہیں۔
کربلا کے بہادروں کا جذبہ جانثاری اس شرافت کی انتہا تک پہنچ چکا تھا کہ وہ اپنے امامؑ پر قربان ہونے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں رہتے اور اپنی جانوں کو نیزوں اور تلواروں کے آگے رکھ دیتے۔ یہی جذبہ آج سرزمینِ اللہ اکبر (ایران) پر بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہر روز ہمیں ایسے ہی عشق اور والہانہ پن کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
*****
اےملت کے بہادرو!
جان لو کہ آج تمہاری ذمہ داری بہت بڑی اور تمہارا بوجھ بہت بھاری ہے۔ تمہیں چاہیے کہ خون شہداء کی حفاظت کا فریضہ جو تمہارے حصے میں ہے اسے اچھی طرح انجام دو۔
تم اس راستے کو اسی صورت میں جاری رکھ سکتے ہو جب تم فقط اور فقط ذمہ دار اور سمجھدار علما کی اطاعت کرو کہ آج جن کے سرخیل ہمارے عظیم امام خمینیؒ ہیں۔
آج پوری دنیا میں کہیں بھی ایسی عظمت و حشمت والی حکومت کا وجود نہیں ہے جس کی سربراہی ایک بزرگ مرجع کر رہے ہوں۔
خدا کی راہ میں حرکت کرنے میں مشکلات اور رنج و آلام ہوتے ہیں مگر تم صبر و استقامت سے راہِ انبیاء کو جاری رکھو کیونکہ آج ہمارے جوان اپنے خون کے ذریعے تمام رکاوٹوں کو دور کر رہے ہیں اور قیامت کے دن ہم خداوند کریم کےحضور کوئی عذر نہیں کر سکیں گے۔
علماء کےبغیر اسلام، اصلاً اسلام ہی نہیں ہے۔ دشمن کے آگے باندھے ہوئے اس بند (ولایت فقیہ)کو ٹوٹنے نہ دینا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن یہ عظیم نعمت تم سے اور تمہاری ملت سے چھین لیں اور ایک کھوکھلا اسلام لوگوں کے حوالے کر دیں۔ علماء کے بغیر اسلام کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
والسلام۔ مصطفیٰ ردّانی پور۔ 19 ستمبر 1980
*****
وصیت کا بقیہ حصہ اور شہادت سے پہلے لکھی گئی کچھ اور تحریریں:
میں محاذپر اس لیے آیا ہوں تا کہ اپنی گذشتہ کوتاہیوں کی تلافی کر سکوں اور اپنے آلودہ خون کو خدا کی راہ میں بہا دوں تا کہ شہداء کے پاک خون کے ذریعے اس کی تطہیر ہو جائے۔ اگر میں اس راہ میں مارا جاؤں تو تم استقامت اور ثابت قدمی سے میرے راستے کو جاری رکھنا۔
دعا کریں کہ خدا مجھے شہداء میں سے قرار دے۔ خدا کی راہ میں قربانی دینے سے مت گھبراؤ۔ میری بہنو! اپنے بچوں کی تربیت میں کوشاں رہو اور حجاب کا خیال رکھو۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی طرح زندگی گزارو۔ اپنی شوہروں کو خدا کی جانب جانے کی ترغیب دو۔
۔۔۔ زندگی کو میں نے جتنا پڑھا اور محسوس کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
سعادت کا واحد راستہ بندگی خدا کے کمال تک پہنچنا ہے۔اس کی بندگی اس کے احکام کی بجاآوری اور محرمات کو ترک کے ذریعے ہوتی ہے۔ اسلام کے تمام احکام ان د و جملوں میں خلاصہ کیے جا سکتے ہیں:
خد ا کی فرمانبرداری اور شیطان کی نافرمانی
میری نصیحت ہے: اےلوگو! خدا اور روزِ جزا کو ہمیشہ یاد رکھو۔
ائمہ اطہار علیہم السلام کےپیروکار بن کر رہو: واللازم لکم لاحق و المارق عنکم زاھق۔
لوگو! ہمیشہ علماء کے ساتھ متمسک رہو کیونکہ وہ راہِ ہدایت کے چراغ ہیں۔ امام کی اطاعت کرو اس لیے کہ وہ اسلام کی ایک بہترین مثال ہیں۔ انہیں تنہا نہ چھوڑنا اس واسطےکہ وہ حضرت حجۃ ابن الحسن عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کےنمائندے ہیں۔
یکم اگست 1983۔ مصطفیٰ ردّانی پور
لیکن ان کے سب سے زیادہ عجیب و غریب کلمات وہ ہیں جو انہوں نے پیرانشہر میں اپنی شہادت سے دو دن پہلے لکھے تھے۔ عبارت ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی شہادت کی خبر دے رہے ہیں:
اب جانے کا وقت آن پہنچا ہے اور اپنے دوستوں سے ملنے کی توفیق مل چکی ہے، جن کے ساتھ میں نے پیمانِ شہادت باندھا تھا۔ انتہائی شرمندگی سے آپ سب سے معافی کی درخواست کرتے ہوئے کچھ کلمات بطور وصیت لکھ رہا ہوں۔ جو میرے لیے بخشش کا وسیلہ بنیں اور میرے حق میں رحمت اور عفو و درگزر کا سبب بنیں۔
وہ لوگ جو مختلف عہدوں پر فائز ہیں اور جنہوں نے شہدا کے خون اور گمنام سپاہیوں کے ایثار، استقامت، زحمت اور کوشش کے ذریعے نام و اکرام کمایا ہے وہ اپنے حوالے سے محتاط رہیں۔
میرے عزیز دوستو!
سعادت تک پہنچنے کا فقط ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے حرام کاموں کو ترک کرنا اور واجبات کو انجام دینا۔ خدا سے قریب ہونے کا بس یہی رستہ ہے۔
ایک دوسرےکا ہاتھ تھامو اور شہیدوں کا راستہ جاری رکھو کہ یہی راستہ تمہیں خدا تک پہنچانے والا ہے۔
4 اگست 1983۔ مصطفیٰ ردّانی پور
([1]) سپاہ پاسداران۔ انقلاب اسلامی کے بعد عراق ایران جنگ کے دنوں میں امام خمینیؒ کے حکم سے وجود میں آنے والی رضاکارانہ فوج۔ یاسوج ایران کا ایک شہر ہے۔
فقط خدا تھا اور کچھ نہ تھا
شہید مصطفی چمران
ڈاکٹر مصطفیٰ چمران عصر حاضر کی نابغہ شخصیات میں سے ایک تھے۔ان کا بچپن تہران میں گزرا۔ وہیں تہران یونیورسٹی میں انہوں نے فزکس میں گریجویشن کیا اور پھر سکالرشپ پر امریکہ چلے گئے۔ ایٹمی ٹیکنالوجی میں ڈاکٹریٹ کی جس سے وہ عالمی سطح پر چند گنے چنے اعلیٰ پائے کے دانشمندوں میں شمار ہونے لگے۔
ڈاکٹر چمران نے اپنی اسلامی اور انقلابی اصلیت کو کبھی فراموش نہ کیا۔ انہوں نے آسائشوں بھری زندگی کو ترک کیا اور امریکہ سے مصر چلے گئے۔ اس کے بعد لبنان آ گئے۔ وہاں امام موسیٰ صدر کے ساتھ تحریک امل کی بنیاد ڈالی۔
ان کی انقلابی تحریکوں کے ثمرات آج بھی لبنان میں دکھائی دیتے ہیں۔
انقلاب کا زمانہ شروع ہوتے ہی وہ ایران واپس آ گئے اور وزارت دفاع کا قلمدان سنبھال لیا۔جنگ کے بحرانی حالات میں گوریلا گروپوں کی بنیاد رکھی۔
ڈاکٹر چمران نے دشمن کو انتہائی کاری ضربیں لگائیں۔ 21 جون 1981ء کو منطقہ دہلاویہ نے آخری بار ان کی شجاعت و شہامت کا مشاہدہ کیا۔ وہ دہلاویہ کے مورچوں سے ملکوت اعلیٰ کی طرف پرواز کر گئے۔
ان کی یادگاروں میں سے ایک بہترین یاد گار ان کا ایک وصیت نامہ اور مختلف تحریریں ہیں۔ ذیل میں ان کے وصیت نامے کا مختصر سا حصہ پیش ہے جو انہوں نے امام موسیٰ صدر کو خطاب کر کے لکھا ہے:
میں وصیت کرتا ہوں۔۔۔
وصیت کرتا ہوں انہیں جنہیں میں حد سے زیادہ پسند کرتا ہوں! وصیت کرتا ہوں امام موسیٰ صدر کو! وہ جنہیں میں مظہرِ علی علیہ السلام سمجھتا ہوں! انہیں میں وارث حسین جانتا ہوں! وہ جو شیعوں کے لیے باعث افتخار و فخر ہیں اور چودہ سو سال سے مسلسل ملنے والے درد، غم، محرومی، جنگ، مشکلات، حق طلبی اور بالاخر شہادت کے نمائندہ ہیں! ہاں میں امام موسیٰ صدر کو وصیت کرتا ہوں۔۔۔
میں نے اپنے آپ کو موت کے لیے تیار کر لیا ہے اور یہ ایک ایسا طبیعی امر ہے جس کے ساتھ میں ایک عرصے سے آشنا ہو چکا ہوں۔ لیکن وصیت پہلی بار کر رہا ہوں۔ میں بہت خوش ہوں کہ مجھے اسی راستے میں شہادت نصیب ہو گی۔
مجھے خوشی ہے کہ دنیا و مافیہا سے میرا تعلق منقطع ہو چکا ہے ۔ میں نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ دیا ہے۔ علائق کو اپنے پاؤں کے نیچے روند کر رکھ دیا ہے۔ قید و بند کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔دنیا کو تین طلاقیں دے چکا ہوں اور اپنی بانہیں پھیلا کر شہادت کے استقبال کو جا رہا ہوں۔
مجھے اس بات پر ذرا سا بھی افسوس نہیں ہے کہ میں لبنان آیا اور پانچ چھ سال تک سخت مشکلات میں گھرا رہا۔
اور اس بات پر بھی پچھتاوا نہیں ہے کہ میں نے امریکا کو چھوڑ دیا، لذتوں اور راحتوں بھری دنیا کو پشت کر لی، دنیائے علم کو خیر آباد کہہ آیا اور اپنی پیاری بیوی اور عزیز بچوں کے ساتھ گزرے ہوئے تمام خوبصورت لمحات کو الوداع کہہ دیا۔
میں اس مادی اور آسائش والی دنیا کو چھوڑ آیا ہوں اور درد، محرومی، رنج، شکست، تہمت، فقر اور تنہائی کی ماری اس دنیا میں اپنے قدم رکھ دیے ہیں۔ میں نے محرومیوں کی ہم نشینی اختیار کر لی اور دردمندوں اور شکستہ دلوں کا ہم آواز ہو گیا۔
سرمایہ داروں اور ستمگروں کی دنیا سے کنارہ کشی کر لی اور محروموں اور مظلوموں کی دنیا میں داخل ہو گیا۔ ان سب حالات پر مجھے کوئی پشیمانی نہیں ہے۔
اے میرے محبوب، تو نے ہی میرے سامنے ایک نئی دنیا کا در کھولا تا کہ خداوند متعال اچھی طرح میری آزمائش کر لے۔
تو نے ہی مجھے حوصلہ دیا کہ پروانہ بنوِں، جلوں، نور بانٹوں، عشق کروں، انسان کی بے نظیر قوتوں کا اظہار کروں، لبنان کے مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک اپنے قدم رکھوں اور الٰہی اقدار کو سب کے سامنے پیش کروں۔
تا کہ میں ایک جدید، مضبوط اور الٰہی راستے کا مسافر بن سکوں، مظہر بن جاؤں، عشق ہو جاؤں، نور میں تبدیل ہو جاؤں، اپنے وجود سے جدا ہو کر معاشرے میں تحلیل ہو جاؤں تا کہ اس کے بعد نہ اپنے آپ کو دیکھ سکوں اور نہ ہی اپنی خواہش کر سکوں۔ اپنے محبوب کے علاوہ کسی کو نہ دیکھ پاؤں، عشق و فداکاری کے علاوہ اور کسی راستے پر نہ چلوں، موت سے آشنا ہو جاؤں اور اس سے دوستی کر لوں اور تمام مادی قیدوں اور بندشوں سے آزاد ہو جاؤں۔۔۔
اے میرے محبوب، تو نے اپنے کندھوں پر چودہ سو سالوں کے رنج و غم، اتہام و تہمت، نفرین و تشنیع کا بار اٹھا رکھا ہے۔ پرانے کینوں، تاریخی عداوتوں اور جہان سوز حسد و بغض کا بوجھ بھی برداشت کر رہا ہے۔ تو واقعاً قربانی دے رہا ہے۔
تو نے اپنی ہر چیز کو قربان کر دیا، اپن زندگی اور ذات کو اپنے ہدف اور انسانی معاشرے پر فدا کر دیا۔ جبکہ تیرے دشمن اس کے عوض میں تجھے دشنام دیتے ہیں، تجھ سے خیانت کرتے ہیں، تجھ پر جھوٹی تہمتیں لگاتے ہیں اور جاہل عوام کو تیرے خلاف بھڑکاتے ہیں۔
لیکن اےامام! تو ایک لحظے کے لیے بھی حق سے منحرف نہیں ہوتا اور ان حوادث کے مقابل میں ایک پہاڑ کی طرح پورے سکون اور اطمینان سے ڈٹا ہوا ہے اور حقیقت و کمال کی طرف رواں دواں ہے۔ اس جہت سے تُو علی علیہ السلام کا نمائندہ اور حسین علیہ السلام کا وارث ہے۔۔۔ اور میں اس بات پر افتخار کرتا ہوں کہ تیری رکاب میں جہاد کر رہا ہوں اور تیری ہی عظیم راہ پر چلتے ہوئے جامِ شہادت نوش کروں گا۔
اے میرے محبوب! آخر تو نے مجھے نہ پہچانا! کیونکہ حجاب و حیا اس چیز سے مانع تھا کہ میں اپنا آپ کھول کر تیرے سامنے رکھ دوں، یا عشق کا اظہار کروں، یا اپنے اندر کے الاؤ کے بارے میں بتاؤں۔
لیکن میں جو وصیت کر رہا ہوں اور تجھے سب سے زیادہ پسند کرتا ہوں، کوئی سادہ انسان نہیں ہوں۔ میرے اندر کا آتش فشاں کل کائنات کو جلانے کے لیے کافی ہے۔ میرے عشق کی آگ اس قدر شدید رہی ہے کہ پتھر کو بھی آب کر سکتی ہے۔ جانثاری اس بلا کی ہے کہ اس درجے تک شاید ہے کوئی اپنی زندگی میں پہنچا ہو۔۔۔
میں تین خصوصیات کی بنا پر دوسروں سے ممتاز ہوں:
عشق: جو میری باتوں، نگاہوں، ہاتھوں، حرکات، حیات اور ممات سے چھلک رہا ہے۔ میں آتش عشق میں جل رہا ہوں اور عشق کے علاوہ اپنی زندگی کا کوئی ہدف بھی مجھے معلوم نہیں ہے۔ زندگی میں فقط عشق ہی کا طلبگار ہوں اور عشق کےبغیر زندہ رہنا محال تصور کرتا ہوں۔
فقر: کہ میں ہر چیز کی قید سے آزاد اور بے نیاز ہوں۔ اگر آسمان و زمین بھی مجھے سستے داموں دے دیں تب بھی مجھ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔
تنہائی: جو مجھے عرفان سے متصل کرتی ہے۔جو مجھے محرومیوں سے آشنا کرتی ہے۔ جو عشق کا محتاج ہوتا ہے وہ تنہائی کے عالم میں عشق سے محرومی کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔ خدا کے علاوہ اس کی تاریک راتوں کا انیس و مونس اور کوئی نہیں ہو سکتا۔۔۔
یہ شخص جو وصیت کر رہا ہے، سادہ انسان نہیں ہے۔ اس نے اعلیٰ ترین علمی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں۔ زمانے کے گرم و سرد کا ذائقہ چکھ چکا ہے۔ خوبصورت ترین اور شدید ترین عشق کے مراحل سے گزر چکا ہے۔
لذاتِ زندگی کے درخت سے خوشہ چینی کر چکا ہے۔ ہر خوبصورت اور محبوب چیز کی لذت لے چکا ہے۔ اس نے کمال و ثروت کی انتہاء تک پہنچ کر ہر چیز کو چھوڑ دیا اور اپنے مقدس ہدف کی خاطر درد آلود اور اشکبار زندگی اور شہادت کو گلے لگا لیا ہے۔
ہاں، اے میرے محبوب! تجھے ایک ایسا ہی شخص وصیت کر رہا ہے۔۔۔
میری وصیت مال و منال کے بارے میں نہیں ہے، کیونکہ تجھے معلوم ہے کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر کچھ ہے بھی تو وہ تیرے اور اس تحریک اور ادارے کے لیے ہے۔جو کچھ بھی میرے پاس پہنچا ہے اس میں سے میں نے اپنی ذاتی ضروریات کے لیے کچھ بھی نہیں لیا۔
درویشانہ زندگی کے علاوہ مجھے کچھ نہیں چاہیے، حتی بیوی، بچے، ماں، باپ نے بھی مجھ سے کسی چیز کا تقاضا نہیں کیا ہے۔ چونکہ میرا پورا وجود اس تحریک اور تیرے لیے وقف ہو چکا ہے پس جو کچھ بھی میرے پاس ہے وہ بھی تیرا ہی ہے۔
میری وصیت قرض و دَین کے بارے میں بھی نہیں ہے۔ میں کسی کا مقروض نہیں ہوں، جبکہ دوسروں کو بہت زیادہ قرض دے رکھا ہے۔ میری زندگی میں محبت، فداکاری، تواضع اور احترام کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اس حوالے سے بھی کسی کا مقروض نہیں ہوں۔۔۔
ہاں، میں ان چیزوں کے بارے میں قطعاً کوئی وصیت نہیں کر رہا۔
میری وصیت عشق، حیات اور ذمہ داریوں کے بارے میں ہے۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا ہےکہ میری زندگی کا آفتاب ڈھلنے ہی والا ہے لہٰذا تجھے وصیت کرنے کا وقت بہت ہی کم رہ گیا ہے۔
میں تجھے سب سےزیادہ پسند کرتا ہوں اور یہ دوستی تجارت یا ضرورت کے تحت نہیں ہے۔ میں اس دنیا میں کسی کا بھی محتاج نہیں ہوں۔ حتی کہ بعض اوقات خدا سے بھی کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتا اور حاجت کا احساس نہیں ہوتا۔ میں کچھ نہیں چاہتا، نہ شکایت کرتا ہوں اور نہ ہی کوئی آرزو رکھتا ہوں۔۔۔
عشق ہی میری حیات کا ہدف اور میری زندگی کو حرکت میں رکھنے والا ہے۔ عشق سے زیادہ زیبا چیز میری نظر سے نہیں گزری اور نہ ہی عشق سے بڑھ کر میں نے کسی چیز کی خواہش کی ہے۔
یہ عشق ہی ہے جو میری روح میں ہیجان لاتا ہے، میرے دل کو جوش دلاتا ہے، میری سوئی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے، مجھے خود خواہی اور خودغرضی سے باہر نکالتا ہے۔ میں ایک اور ہی دنیا کا احساس کرتا ہوں۔ عالم وجود میں محو ہو جاتا ہوں اور ایک لطیف احساس، حساس دل اور خوبصورتیاں دیکھنے والی نگاہ مجھے حاصل ہو جاتی ہے۔
ایک پتےکی سرسراہٹ، ایک دور کے ستارے کی چمک، ایک چھوٹی سی چیونٹی، لطیف نسیمِ سحری، موجِ دریا، غروبِ آفتاب میرے احساس و روح کو مجھ سے چھین لیتے ہیں اور اس دنیا سے اٹھا کر کسی اور ہی دنیا میں لے جاتے ہیں۔یہ ساری کی ساری عشق کی تجلیاں ہیں۔
عشق ہی کی وجہ سے میں فداکاری کرتا ہوں۔ عشق ہی ہےجس کے بل بوتے پر میں دنیا سے بے اعتنائی برتتا ہوں اور دوسروں جہانوں کی سیر کرتا ہوں۔ عشق ہی کے سبب دنیا مجھے خوبصورت نظر آتی ہے۔ عشق ہی کے باعث خدا کو محسوس کرتا ہوں، اس کی پرستش کرتا ہوں اور اپنی ہستی و حیات کو اس کے حضور پیش کرتا ہوں۔
میں نے اس دنیا میں بہت سے لوگوں سےمحبت کی حتی کہ عشق تک کیا ہے مگر ہمیشہ برا جواب ہی پایا۔ لوگ عشق کو کمزوری سمجھتےہیں اور اپنی دانست میں چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے محبت سے سوء استفادہ کرتے ہیں!
لیکن یہ نادان اور بے خبر لوگ نہیں جانتے کہ یہ عشق و محبت جیسی کتنی عظیم نعمت سے محروم ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے زندگی کے سب سے عظیم پہلوؤں کو تو درک ہی نہیں کیا۔ یہ بھی نہیں جانتے کہ جسے وہ اپنی چالاکی سمجھتے ہیں وہ افلاس، بدبختی اور ذلت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
میں اپنے آپ کو اس سے کہیں بلند سمجھتا ہوں کہ اپنی محبت کو کسی پر نچھاور کرنے سے دریغ کروں حتی کہ اگر وہ میری محبت کا ادراک نہ بھی کرے اور اپنے تئیں سوء استفادہ کرے۔
میں کسی اجر اور صلے کی خاطر محبت کرنے یا عشق کے جواب میں کسی آرزو یا تمنا کا تقاضا کرنے کو بھی اپنے شایانِ شان نہیں سمجھتا۔ میں اپنے عشق میں خود ہی جلتا ہوں اور اس سےلذت لیتا ہے۔
یہ لذت سب سے بڑا انعام ہے جو عشق کے صلے میں مجھے ملتا ہے۔
اےمیرے محبوب! میں جانتا ہوں کہ تو بھی بحرِ عشق کا شناور ہے۔ انسانوں کو پسند کرتا ہے۔ سب سےبے دریغ محبت کرتا ہے۔ کتنے ہی لوگ تیری اس محبت سے سوء استفادہ بھی کرتےہیں حتی کہ تیرا تمسخر تک اڑاتےہیں اور اپنی دانست میں تجھے دھوکا دیتے ہیں۔
تو انہیں جانتا ہے لیکن اپنے رویے میں ہلکی سی تبدیلی بھی نہیں کرتا کیونکہ تیرا مقام اس سے کہیں بالا ہے کہ تو دوسروں سے متاثر ہو کر عشق و محبت کرے۔ نہیں، تیرا عشق تو فطری ہے۔
تو آفتاب کی طرح ہر جا ضوفگن ہوتا ہے اور بارش کی مانند چمن زاروں کے ساتھ ساتھ بنجر زمینوں پر بھی برستا ہے۔ سنگدل افراد کی باتیں تجھ پر ذرا اثر نہیں کرتیں۔
میرا محبت بھرا سلام تیری بلند روح کوجو خود بینی و خودپسندی کے تنگ و تاریک احاطے سے باہر ہے اور آسمانوں اور خدا کے اسماء مقدسہ کی عظمت جس کی جولانگاہ ہے۔
یہ وصیت میں نے اس واسطے نہیں لکھی کہ کوئی اسے پڑھے اور میرےلیے دعائےرحمت کرے بلکہ اس لیے لکھی ہے کہ سلگتے ہوئے دل کی تسکین کا سامان کر سکوں اور اپنے اندر ابلتے ہوئے آتش فشاں کو ٹھنڈا کر سکوں۔
جس وقت رنج و درد کی شدت طاقت فرسا ہو جاتی، اندر بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلے باہر کو لپکتے اور میں اپنے وجود کے جوالا مکھی کو رام نہ کر پاتا تو اس وقت قلم ہاتھ میں لے کر شکنجوں بھرے اس درد کو ذرہ ذرہ کر کے اپنے وجود سے اکھاڑتااور کاغذ کے حوالے کر دیتا۔۔۔
اور آہستہ آہستہ سکون کی وادیوں میں اترتا جاتا۔ جو کچھ دل میں ہوتا کاغذ پر اتار دیتا اور اپنے سامنے رکھ کر سنسان تنہائی میں بیٹھ جاتا اور اپنے دل سے راز و نیاز کرتا۔ اس کاغذ پر اپنے وجود کا عکس دیکھتا اور پھر اپنی تنہائی سے باہر آ جاتا۔
میں نے کسی پر احسان کرنے کےلیے یہ الفاظ رقم نہیں کیے بلکہ ان تحریروں سے بھرے ہوئے کاغذوں نے مجھ پر احسان کیا ہے کہ مجھے اپنے اندر کے درد اور شکنجوں سے نجات دلائی ہے۔
*****
خدایا! جنہوں نے میرے ساتھ برائی کی انہوں نے مجھے ہوشیار کر دیا۔ جنہوں نے مجھ پر تنقید کی انہوں نے مجھے زندگی کے راہ و رسم سکھائے۔ جو میرے ساتھ اچھائی سے پیش آئے انہوں نے مہر و وفا کا ثبوت دیا۔ پس خدایا! ان سب کو خیر اور بھلائی عطا فرما جو میرے لیے دنیوی اور اخروی بہتری کا باعث بنے۔
9جنوری 1981ء رات 10 بج کر 10 منٹ پر وصیت نامے کی چند سطریں لکھ رہا ہوں:
۔۔۔ اماں جان! آپ کو یاد ہے نا کہ میں امام کے ایک اعلان پر اپنی جان دینے کو تیار تھا؟ ان کا کلام میری اسلام سے سرشار روح اور میرے آلودہ وجود کے لیے ایک الہام کا کام کرتا تھا اور اب بھی کرتا ہے؟
اگر میرے حصے میں شہادت کا افتخار ہے تو امام سے درخواست کیجیے کہ وہ میرے لیے دعا کریں تا کہ خدا مجھ رُوسیاہ کو اپنے عظیم دربار میں ایک شہید کے طور پر قبول کر لے۔
اماں جان! میں سازشی اور بدلحاظ انسانوں سے متنفر تھا اور اب بھی ہوں اور ان جوانوں پر بہت ہی افسوس کرتا ہوں جنہیں اسلام کی زیادہ شناخت نہیں ہے اور وہ نہیں جانتے کہ کس لیے زندہ ہیں اور ان کا ہدف کیا ہے؟ کاش وہ ہوش کے ناخن لیتے۔
میری طرف سےجوانوں کو یہ پیغام پہنچا دیجیے کہ شہیدوں کی نگاہیں اب تم پر لگی ہوئی ہیں۔ اٹھو اور اپنی اور اسلام کی معرفت حاصل کرو۔ ہمارے اسلامی انقلاب جیسا انقلاب کہیں بھی نہیں ملے گا۔
بابا اور اماں جان! مجھے زندگی اچھی لگتی ہے لیکن اس قدر بھی نہیں کہ اپنے آپ کو اس سے آلودہ کر لوں اور اپنے وجود کو اس میں گم اور فراموش کر بیٹھوں۔ علی و حسین علیہما السلام کی طرح جینا اور انہی کی طرح شہید ہونا مجھے پسند ہے۔
اسلام کی لغت کے مطابق شہادت ظلم، جور، شرک اور الحاد پر کاری ضربیں لگاتی رہی ہےاور آئندہ بھی لگاتی رہے گی۔
اماں جان! خدا کی قسم، اگر آپ نے آنسو بہائے اور فقط میرے لیے آنسو بہائے تو میں اصلاً آپ سے خوش نہیں ہوں گا۔ زینب کی طرح زندگی گزاریے اور مجھے بھی خدا کے سپر د کر دیجیے۔
اللھم ارزقنی توفیق الشھادۃ فی سبیلک۔
و السلام؛ چمران۔
خداوند توانا کی مدد سے
شہید نواب صفویؒ
ہمارے انقلابِ اسلامی کا دامن ایسی شخصیات سے معمور ہے جنہوں نے معاشرےپر اپنے دوررس اثرات چھوڑے ہیں۔ لوگوں کی انقلابی روح کو بیدار کرنے اور اسے جھنجھوڑنے میں وہ کافی حد تک مؤثر ثابت ہوئے۔ ان درخشاں چہروں میں سے ایک چہرہ شہید سید مجتبیٰ میر لوحی المعروف نواب صفوی کا بھی ہے۔
ان کا شمار ایسی شخصیات میں ہوتا ہے جو بہت سےعظیم انسانوں کےاندر انقلابی روح کی بیداری اور اس کی پرورش میں بہت حد تک تاثیر گزار ہوئے، جن میں سے ایک شخصیت رہبر معظم حضرت آیت اللہ خامنہ ای حفظہ اللہ کی بھی ہے۔
شہید نواب صفوی کی شخصیت اور فدائیانِ اسلام گروہ نے ایسے ایسے کار نامے انجام دیے تھےکہ خود شاہ بھی ان سے خوف کھاتا تھا۔ ڈر نام کی چیز کا نواب صفوی کےوجود میں دور دور تک شائبہ بھی نہ تھا۔ انہوں نےاپنے انقلابی جذبات کےساتھ ان لوگوں کو نصیحت کی جنہوں نے مملکت اسلامی کو غیروں کے اختیار میں دے رکھا تھا۔ جب نصیحت کا کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلا تو انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بالآخر یہ انقلابی عالم جو ایک عرصے تک اسلام کے دشمنوں سے برسرپیکار رہا 18 جنوری 1956ء کو سحر کے وقت شہید کر دیا گیا۔ ان کی شہادت کے بیس سال بعد ان کا پیکرِ مطہر ان کی قبر سے نمایاں ہو گیا۔ اس وقت ان کا بدن مکمل طور پر صحیح و سالم تھا!!
سید نے اپنی شہادت سے کچھ عرصہ پہلے اپنی وصیت لکھی تھی۔ ذیل میں ہم اس کےکچھ حصوں کا مطالعہ کرتےہیں۔ ایک جگہ انہوں نےلکھا تھا کہ میں نے خواب میں ایک آواز سنی کہ تمہارےجانے کا وقت آن پہنچا ہے:
میرے بھائیوں کو میری وصیت:
هو العزیز ’’بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ‘‘
آخری وصی پیغمبرؐ، قائم آل محمدؐ، پردۂ غیبت میں رہنےوالے جہان کے پیشوا، اعلیٰ منزلت، عظیم مقام و مرتبہ کے حامل، وجود مقدس امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے نام سے آغاز کرتا ہوں۔
پوری دنیا میں بسنے والے میرےمسلمان بھائیو! خدا ومحمدﷺ و آل محمد علیہم السلام کے ثابت قدم دوستو!
السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاته۔ ان الدنیا قد ادبرت و ان الآخرۃ قد اقبلت۔
بے شک دنیا نے ہم سےمنہ موڑ لیا ہے جبکہ آخرت نے ہماری طرف اپنا رُخ کر لیا ہے۔ہماری عمر کا جو حصہ گزر گیا اور فنا ہو گیا وہ دنیا کا حصہ تھا اور جو کچھ ہماری طرف رُخ کیےہوئےہوئے اور جس کی طرف ہم دوڑے ہوئے چلے جا رہے ہیں وہ آخرت ہے۔
پس سعی کرو کہ گذشتہ اور فانی سےاپنا دامن چھڑا کر آئندہ سےمتصل ہو جاؤ اور اپنے آپ کو اس جاودانی مکان کے لیے تیار کرو۔
(آه من قلة الزاد و بعد السفر) امیر المؤمنین علی علیہ السلام جو عشق اور معرفتِ خدا سے چھلکتا ہوا ایک سمندر تھے، جن کی طرف عالم معرفت کو سفر کرنا چاہیے اور اپنے کریم ابن عم محمد ﷺ کے بعد جن کی مثل کوئی مقدس وجود عالم رنگ و بو نے نہ دیکھا اور نہ ہی دیکھ پائے گا، وہ بھی زادِ سفر کی قلت اور اس سفر کی ہبیت اور دوری کو یاد کر کے نالہ و فریاد کرتے رہتے تھے۔
آؤ، خواب خرگوش سےبیدار ہوجاؤ اور اس چیز سےاپنے آپ کو بچاؤ کہ اس دنیا کےآزمائشی اور امتحانوں سے بھرے ہوئے کھیل سے فریب کھا جاؤ اور اپنے آپ کو آلودہ کر بیٹھو۔ تمام محکم دلائل، خدا کی نورانی آیات، کائنات کو نورانیت عطا کرنےوالے حقائق جو انبیاء عظام علیہم السلام اور محمدﷺ و آل محمد علیہم السلام کے ذریعے خدائے متعال اور معاد کی طرف رہنمائی کرتےہیں، انہیں ہر گز فراموش نہ کرو۔
*****
مجھے خواب میں ندا آئی کہ گویا میرےجانےکا وقت آن پہنچا ہے۔ آہ، آہ، حاشا و کلا۔ خدا نے نہ چاہا کہ میں اور آپ قیامت کے دن خسارہ اٹھانے والوں، بدبختوں اور اصحاب جحیم میں شمار کیے جائیں۔
آہ، جو انسان ا س دنیا کی جلد گزر جانے والی مشقتوں اور مشکلات کی تاب نہیں لا پاتا اور چھوٹی سے مصیبت میں متزلزل و عاجز ہو کر بے تاب ہو جاتا ہے وہ کس طرح اپنے کمزوراور ناتوان جسم کو اس آگ کےلیے تیار کر لیتا ہے جو خدا کے قہر و غضب سے روشن ہوئی ہے۔
آہ،اس ضعیف بشر پر تعجب کہ جو اتنی سرعت سےاس امتحان گاہ میں آنے اور جانے کے مراحل طے کر لیتا ہے اور اندھیری مٹی میں جا پڑتا ہے۔
یہ انسان ایک اصطبل وغیرہ کے لیے بھی اس کے مالک کی طرف سے قانون و ہدف کا قائل ہے تو پھر دینی نظام، پروردگار عالم کے مقصد اور اس کےعزیز ترین نمائندے پیغمبر اسلام حضرت محمد ابن عبداللہ ﷺ کی طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتا۔ کیا اس نے اپنی فکری سطح کو ایک باڑے اور اصطبل سے بھی زیادہ نیچے گرا لیا ہے؟! کیا وہ اپنے آپ کو ہمیشہ جہل و شہوت کی آگ میں جلاتا رہے گا جو خدا کے غیض و غضب کی تپش کو تیز کر دیتی ہے۔
أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ۔
یہ حیوانات کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی گئے گزرےہیں۔
آہ، اے بھائیو! تم حق کے اتمام حجت، رب رحمان کی خوشنودی و اطاعت کے حصول اور اپنے آپ کو اس خدائے عزیز کی بارگاہ میں نجات یافتہ ہونے کےلیے ہمیشہ حق کہو، حق کی تبلیغ کرو، ان بے چاروں کو آنے والے کل کی بے چارگی اور ستم ظریفی کی خبر دو، انہیں آنے والے حالات سے ڈراؤ اور گناہوں، نافرمانیوں، تباہ کاریوں اور طغیانیوں کے بارے میں اپنی ناراضگی اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتے رہو۔ (إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا) [یا تو وہ ہدایت یافتہ ہو جاتے ہیں یا کفر کرنے لگتےہیں۔]
خدائے عزیز ان کی اطاعت سےبے نیاز ہے۔ ان کی معصیت بھی اس کی بےزوال حکومت میں کوئی کمی نہیں کرتی۔ جہنم بہت وسیع ہے (تَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِيدٍ) [کیا کوئی اور سرکش اور گناہگار باقی رہتا ہے؟!]
دنیا کے بے فائدہ الفاظ و نظریات، رنگین مظاہر، قدرتیں، طرزِ زندگی اور فریب نظر لباس وہاں ذلیل اور بوسیدہ ہو جائیں گے، نہ ہی کسی درد کی دوا ہوں گے اور نہ ہی کسی کام آئیں گے۔
آہ، یہ طولانی غیبت! آہ، برادران، میں نے دیکھا ہے اور ہر عاقل کی آنکھ دیکھتی ہے کہ خدا کی محبت ہر محبت سے زیادہ شیرین اور اس کی فرمانبرداری، شیطان، نفس اور شہوت کی اطاعت سے کہیں زیادہ عزت و کرامت والی ہے۔
جس عذابِ آخرت کی وعید انبیاء علیہم السلام نے بدکاروں کو دے رکھی ہےاس سے بچاؤ کی تدبیریں کرنا جلد گزر جانے والی معصیتوں سے بچنے کی نسبت زیادہ عقلمندانہ اقدام ہے۔اور خدا کی رحمت اور بہشت میں حاصل ہونے والی یقینی اور دائمی نعمتوں اور لذتوں کی امید دنیا کی خیالی، احتمالی اور فانی ذلتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مستحکم اور مضبوط ہے۔
خدا کی شمعِ محبت کا پروانہ بن جانا، اس کی راہ میں جل جانا اور اس کے دریائے رحمت و لطف سے متصل ہو جانا ایک ایسی سعادت ہے کہ جس کا ادراک آسمانِ علم و عقل کے سائے میں بسنے والوں میں سے کسی ایک ذی روح کے بھی محدود وہم و گمان اور عقل و فہم کو نہیں ہو سکتا۔
میں نے اس سے دعا کی ہے کہ میں اس کی مدد سے دنیا کو حقائقِ اسلام کے سامنے جھکا دوں، دنیا کے مسلمانوں کو جہل، شہوت اور ظلم کے چنگل سے نجات دلا دوں، اسلامی کے نورانی احکام کو نافذ کروں، آج کی انسانیت کے مردہ پیکر میں اسلامی تعلیمات کی پُرنور شعاعوں کے ذریعے ایک نئی زندگی پھونک دوں اور حیات انسانی کی حقیقت کے جلوے سامنے لے کر آؤں۔
البتہ یہ سب کام خوشنودی خداوندی کے حصول کا مقدمہ ہونا چاہییں تا کہ دلوں کے لیے شفا اور آخرت کے لیے نور بن جائیں۔ اگر اس کے علاوہ ان کا کوئی مقصد ہو تو ان کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ کیونکہ خدا تو ان تمام چیزوں سےبے نیاز تھا اور ہے۔
(نیة المومن خیر من عمله) [مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہوتی ہے۔] خدا فقط پاک نیتوں پر لطف کرتا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے لطف سے پاک و پاکیزہ نیت اور اپنی ذات سے بے پناہ عشق عطا فرمائے اور ہمارےساتھ اپنے فضل و کرم سے معاملہ کرے۔
الحقنا الله بالحسین و جده و امه و ابیه و اخیه و ولده آمین بالله العالمین.
کبھی بھی اس بات کو نہ بھولو کہ راہ راست جہاں سے بھی کجی کا شکار ہو جائے وہ سیدھی گمراہی اور ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے۔
سیدھی راہ وہی ہے جو اوصیاء پیغمبرﷺ امام علی علیہ السلام اور ان کے دس فرزندوںؑ کے گھر سے ہوتی ہوئی ان کے گیارہویں فرزند امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ، جو زندہ و غائب ہیں، تک جا کر ختم ہوتی ہے۔ (و یملا الله الارض به قسطا و عدلا بعد ما ملئت ظلما و جورا) شیعہ و سنی متفق علیہ حدیث کے مطابق خدا ان کے وسیلے سے زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی۔ان شاء اللہ۔
خدا حافظ ہو تمہارا، اے راہ خدا کے وفادارو۔ خدا کی امان میں۔
تمہارا بھائی
سید مجتبی نواب صفوی
یا زہراء علیہا السلام
سید محمد رضا تورجی زادہ
وہ عاشق تھے، ایک دلگرفتہ عاشق۔ ملکوتی چہرے کے مالک اور تمام خوبیوں کا مظہر تھے۔ ان کا پورا وجود حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کی محبت میں گندھا ہوا تھا۔ ذاکر تھے اور انتہائی خوبصورت اور دلنشین آواز کے حامل۔ آج بھی ان کی ملکوتی آواز دلوں کو آسمانوں کی سیر کرا لاتی ہے۔
امام حسین علیہ السلام ڈویژن میں ایک بٹالین تھی، جس کانام تھا ’’یا زہرا سلام اللہ علیہا‘‘، اس کی کمانڈ ان کےہاتھ میں تھی۔ محمد بسیجیوں کےدلوں پر حکومت کرتے تھے۔ مجاہد ان کے عاشق تھے۔ مشکل ترین ذمہ داریوں اور معرکوں کے وقت بھی وہ موجود ہوتے اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سےتوسل اور ان کی خاص عنایت کے وسیلے سے ان مراحل کو فتح مندی اور کامیابی سے طےکر لیتے تھے۔
1987 کے نوروز کےدنوں میں مشہد کے سفر میں انہوں نے اپنی شہادت کی سند لےلی تھی، حتی کہ وہ اپنی شہادت کی جگہ اور وقت کے بارے میں بھی جان چکے تھے، یہاں تک کہ اپنے قبر کی جگہ بھی خود ہی مشخص کی تھی اور کہا تھا: ’’میری قبر پر فقط اتنا ہی لکھنا: ’’یا زہرا سلام اللہ علیہا۔‘‘
معرکہ کربلا 10 میں انہوں نے اپنی شجاعت کی داستانیں رقم کر دیں۔ 25 اپریل کا دن تھا۔ ایک مارٹر گولہ لگنے سےان کے آسمانی سفر کا آغاز ہو گیا۔ محمد رضاتورجی زادہ نے اپنے پہلو، سر اور بازؤوں پر لگنے والے چھروں کےزخموں کو لیے ہوئے اپنی ماں (حضرت زہرا سلام اللہ علیہا) کی اقتداء کی!
شہادت کے وقت ایک خوبصورت مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پرکھیل رہی تھی۔ بعد میں انہوں نے اپنے پیغام میں کہا: ’’یہ میرے لیے سب سےبڑا افتخار ہے کہ میں امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ کی آغوش مبارک میں جان دے رہا ہوں۔‘‘
قرآن نے شہداء کو زندہ کہا ہے۔شہادت کے بعد محمد کی موجودگی کا احساس پہلے سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے! ان کا مزار آج بھی گلستانِ شہداء اصفہان میں عشاق کے لیے دارالشفاء اور عارفوں اور دل سوختگان کے لیے زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔ ان کے مزار پر وہ لوگ بھی آ تے ہیں جنہوں نے جنگ کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ رکھا۔ انہیں لوگوں کی مشکلات حل کرنا اچھا لگتا تھا اور یہ سلسلہ اس شکل میں ابھی تک جاری ہے! محمد رضا اس امت کے عزیز امام کے اس نورانی کلام کا مصداق تھے: ’’شہداء کی قبریں قیامت تک کے لیے دار الشفاء ہیں۔‘‘
محمد نے اپنے آخری سفر سے پہلے اپنا وصیت نامہ لکھ چھوڑا تھا۔ پھر وصیت نامے کی جگہ بتائی اور چلے گئے۔ وہ اپنے وصیت نامے میں کہتے ہیں:
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ اور اس نے انسانوں کی رشد و ہدایت کے لیے پیغمبر بھیجے کہ جن میں سے آخری پیغمبر نبی اکرم محمد بن عبداللہﷺ ہیں۔اور انہوں نے اس امت کے سیدھے راستے کو جاری رکھنے اور اسلام کی اعلیٰ تعلیمات سے انحراف سے بچنے کے لیے حضرت علی علیہ السلام کواپنے بعد ولی اور وصی منتخب فرمایا۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ قیامت حق ہے اور انسان کے اعمال کو تولنے کے لیے میزان کا بھی وجود ہے۔ بہشت و دوزخ حق ہیں اور اعمال کے بدلے اجر و سزا بھی حق ہے۔
آج رات میں جو اپنا قلم کاغذ پر چلا رہا ہوں تو اس کا ہدف ان شاء اللہ اپنے دوست کی خوشنودی اور اپنے وظیفہ کی انجام دہی کے علاوہ کچھ نہ ہو گا۔ اس راہ میں ایثار و قربانی کی جو جو ذمہ داریاں مجھ پر عائد ہوئیں میں نے انہیں انجام دینے میں کسی بھی چیز کی پرواہ نہیں کی۔
جب میں نے اس راہ میں اپنا پہلا قدم رکھا تو وہ خدا سے ملاقات اور شہادت کی نیت سے تھا۔آج اس مدت کے گزرنے کے بعد میرے اندر اس بات کی پہلے سے زیادہ رغبت پیدا ہو چکی ہے کہ یہ دنیا ایسی جگہ ہے ہی نہیں کہ میرا دل جس میں رہنے کی خواہش کرے۔
خدایا! تو گواہ ہے کہ میں نے اس مقدس سپاہ کا لباس اس عشق و نیت سے اپنے تن پر اوڑھا ہے تا کہ وہ میرے لیے خون میں ڈوبا ہوا کفن بن جائے۔
خدایا! مجھے ہمیشہ اس چیز کی فکر رہتی تھی کہ کہیں میری وجہ سے میرے عزیز امام کی آنکھوں میں آنسو نہ آ جائیں۔
اگر اس عرصے میں میں نے اس عظیم نعمت پر شکر نہیں کیا یا ان کے فرامین سے سرتابی کی ہے تو مجھے بخش دے۔ خدایا! اعمال کو جانچنے کا معیار خلوص ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میرا خلوص کم ہے لیکن اگر مخلص نہیں ہوں تو پھر بھی تجھی سے امید رکھتا ہوں۔
اگر گناہ و معصیت نے میری بینائی رحمت کو اندھا کر دیا ہے تو اپنے لطف و کرم سے مجھے اپنی حفاظت میں لے لے کہ لیاقت کے ذریعے جس تک پہنچنا سینکڑوں میل کی دوری پر ہے۔
میرے مجاہد دوستو! مجھے تم سے بھی کچھ کہنا ہے۔ میں ہمیشہ کہتا تھا: بسیجیو، سپاہیو، یہ لباس جو تم نےزیبِ تن کیا ہے یہ فرزند زہرا سلام اللہ علیہا کی طرف سے ایک خلعت ہے، پس اپنی لیاقت کو ثابت کرنا۔
اپنے امور میں نظم و ضبط کو اپنا اولین اصول قرار دو۔ہر روز اپنی معنویت و روحانیت اور روح کی طہارت میں اضافہ کرتے رہو۔نمازِ شب کو اپنا وظیفہ بنا لو۔ حدودِ الٰہی کے محافظ رہو۔ اپنے اعمال پر گہری نظر رکھو کیونکہ محاذ حرمِ خدا ہے۔اس حرم میں ضروری ہے کہ ناپاکیوں اور آلائشوں سے دور رہو۔
میرے عزیزو! امام کو ایک سورج کی طرح سمجھو۔ اس کے گرد چکر لگاؤ۔اس کے مدار سےخارج نہ ہو جاؤ ورنہ تمہاری نابودی یقینی ہے۔
میرے بابا اور ماں! آپ سے بات کرنامیرے لیے سخت مشکل ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کی مجھ سے خصوصی محبت کی وجہ سے اس غم کا بوجھ اپنے دل پر لینا آپ کے لیے سخت مشکل ہے۔ بابا جان! آپ کی کمر خم نہ ہونے پائے۔ میری ماں! آپ کے گریےکی آواز کسی کے کانوں تک نہ پہنچے۔
ماں اور بابا! جس طرح آپ لوگوں نے پہلے استقامت دکھائی اب اپنی زندگی کے اس عظیم مرحلے پر بھی صبر کا مظاہرہ کیجیے۔ اپنے صبر کے ذریعے دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیجیے۔
میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا جنازہ سپاہ کے لباس ہی میں لایا جائے اور آپ کے ہاتھوں سے قبر میں اتارا جائے۔
آپ نے بچپن ہی سے ایک محب حسین و زہرا علیہما السلام کے طور پر میری تربیت کی ہے۔ دشمن کے طعنوں سے ہر گز خوف نہ کھائیے۔
محبت کی انتہاء اور معراج یہی ہے کہ عاشق معشوق میں فنا ہو جائے اور میں فانی فی اللہ ہوں۔ ہم سبھی کو جانا ہے۔ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيهِ رَاجِعُونَ۔ اہمیت فقط اس بات کی ہےکہ ہم جا کس انداز سے رہےہیں اور ساتھ کیا لے کر جا رہے ہیں۔
میرے بھائی اور میری بہنو! اپنی زندگی میں خوشنودی خدا کے علاوہ کسی بھی چیز پر توجہ نہ دو۔جو کچھ بھی تم کرتے ہو اور کہتے ہو اس میں رضائے خدا شامل ہونی چاہیے۔ ایک شہید کی وجہ سے اپنے آپ کو انقلاب کا وارث سمجھ کر کس قسم کا حق نہ جتانا۔
اگر میں فرزند اور بھائی ہونے کا حق ادا کرنے میں کسی کوتاہی کا شکار ہوا ہوں تو مجھے معاف کر دینا۔ میں نےسب کو معاف کر دیا ہے۔ اگر کسی کی طرف سے میرے لیے غیبت یا تہمت وغیرہ تھی تو وہ میں نے معاف کر دی۔ امید کرتا ہوں کہ تم بھی مجھے معاف کر دو گے۔ میں نےاس لیے معاف کر دیا تا کہ خدا بھی مجھے معاف کر دے۔
اگر میری میت لاتے ہیں تو میں اس بات کو پسند کروں گا کہ میری قبر پر یہ لکھیں: ’’یا زہرا سلام اللہ علیہا۔‘‘
میری طرف سےمیرے تمام رشتہ داروں سے میرےلیے معذرت خواہی کرنا۔
خدایا! نزع کی سختی کو ہم پر آسان فرما! آخری لمحات میں یوسفِ زہرا علیہما السلام کے جمال سے ہماری آنکھوں کو منور فرما!
خدایا!یا مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ اور یا زہرا سلام اللہ علیہا کو ہمارا کلام قرار دے۔ خدایا!قبر میں میرا مونس و غمخوار رہنا کہ میرے پاس نہ تو بچھونا ہے، نہ چراغ اور نہ کوئی مونس۔
خدایا! ہمیں ان حقیقی شہداء میں سےقرار دے جو عرشِ الٰہی پر تیرےجوار میں مولا حسین علیہ السلام کے ساتھ رہتے ہیں۔
والسلام۔
محمد رضا تورجی زادہ
پرچمدارِ مرصاد
شہید رضا نادریؒ
یومِ ولادتِ امام رضا علیہ السلام کو شاہرود میں پیدا ہوئے۔ ان کی ماں نے ان کی ولادت سےپہلے ایک خواب دیکھا جس میں انہیں حضرات معصومین علیہم السلام کی زیارت ہوئی کہ وہ ان کے سرہانے آئے اور اس نوزاد کی ولادت کی خوشخبری دی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اس بیٹے سے بہت زیادہ پیار کرتی تھیں۔
سکول میں بھی ان کا شمار ذہین ترین بچوں میں ہوتا تھا۔ وہ تحصیل علم، تہذیب و اخلاق اور کھیلوں میں بھی سب سے آگے تھے۔ محاذ پر بھی ان کی سرگرمیاں انتہائی غیر معمولی تھیں۔
آپریشن انٹیلی جنس کے جوان ان چیزوں کی بھرپور تائید کرتے ہیں۔ شلمچہ میں ان کی منصوبہ بندیاں بہت ہی عجیب اور اچھوتی ہوتی تھیں۔ وہ دشمن کو گمراہ کرکے رکھ دیتے تھے۔
معرکہ مرصاد میں انہوں نے ایسا کارنامہ انجام دیا کہ شہید صیاد بھی عش عش کر اٹھے۔
شہید رضا نادری پہلے نوجوان تھے جنہوں نےمرصاد کی گھاٹی کو بند کر دیا اور کوردل منافقین کو غافل کر دیا۔ وہیں سے ان کی روح آسمان کی طرف پرواز کر گئی۔
ان کی تحریریں ادبی شاہکار ہیں۔ ان کا وصیت نامہ اور اس کا متن انتہائی جالب اور دلنشین ہے۔ انہوں نے اپنا آخری متن 1988 کی عید قربان کے موقع پر لکھا۔ یہ وہی دن تھا جس دن انہوں نےشہادت کا لبادہ اوڑھ لیا تھا۔
رضا کا محاذ پر آنا بھی بذات خود انتہائی دلچسپی کا حامل ہے۔ انہیں جہاد پر آنے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ان کے خاندان والے ان کےمحاذ پر آنے کے شدید مخالف تھے اور۔۔۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
خدایا! میں نہیں جانتا کہ کیا ہو گیا ہے! اپنے دل کو سیاہ دیکھتا ہوں اور آنکھوں کو آنسوؤں سے بالکل خشک۔
نالہ و فغاں بلند کرنا اور دل کو تیرے عشق و معرفت کا آئینہ بنانا چاہتا ہوں لیکن دل میں ہوا و ہوس اور تاریکی کے علاوہ کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔
پروردگارا! اس سال کے آخری بدھ کو میں دعائے توسل کے دوران تیرے دوستوں کا نالہ و فغاں سنتا ہوں تو ان کے گریے اور اشک آلود اور خالص سجدوں پر رشک کرتا ہوں۔
خدایا! نہیں معلوم کہ میں کیوں اس مناجات سے محروم ہوں۔ جب اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہوں تو اپنے مستقبل اور اپنی آخرت کے بارے میں خوف محسوس کرنے لگتا ہوں۔
ایک سال اور گزر گیا لیکن میں نے سوائے اندوہ و حسرت کے اپنے لیے کچھ بھی ذخیرہ نہیں کیا۔ ہر کوئی اپنے تئیں میرا یار و مونس بنا رہا مگر میرے اندر کسی نے جھانک کر نہیں دیکھا کہ میرے وجود میں کس نفسانی کُتے نے ڈیرا ڈال رکھا ہے۔
سب مجھ پر حسن ظن کرتے ہوئے مجھ سے رابطہ رکھتے ہیں مگر یہ میں ہی ہوں جو اپنے بارے میں آگاہی رکھتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ میں شیطان کے پھندے میں پھنسا ہوا ہوں۔ نفس کا کتا بار بار مجھ پر حملہ آور ہوتا ہے۔
الٰہی! میں اچھا انسان بننا چاہتا ہوں مگر اپنا دشمن نہیں بن سکتا۔ خدایا! اس مقدس مقام اور ان عزیز لمحات میں مَیں تجھے چہاردہ معصومین علیہم السلام کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے توفیق عطا فرما اور گناہوں سے دور رکھ۔ رات کی آغوش میں کی جانے والی تیری خالص عبادت اور گریہ و زاری کا سوال کرتا ہوں اور مجھے اپنی بارگاہ کے مخلص بندوں میں سے شمار فرما۔
پروردگارا! میں اپنے گناہوں کی وجہ سے ایک وحشتناک گھٹن کا شکار ہوں۔ گرم اور دہکتے ہوئے دوزخ میں ایسی چیزیں ہیں جن کا خوف ہر وقت میرے وجود پر مسلط رہتا ہے۔
ایسی گھٹن ہے جو میں نے اپنے برے اعمال کی وجہ سے اپنے نفس پر طاری کر دی ہے۔ بے شمار گناہ ہیں جنہوں نے مجھے انسانیت کے اعلیٰ مقام سے اسفل السافلین کے طبقے میں لا پھینکا ہے۔
خدایا! مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ تیری بارگاہ میں کیا عذر لے کر آؤں؟ کیسے تجھے پکاروں کہ تو مجھے معاف کر دے۔
میں کفر و سرکشی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے جہل و نادانی کے سبب شیطان کے جال میں پھنس گیا۔ لیکن کیا ایسا نہیں تھا کہ میں ہر گناہ کے بعد تجھے پکارتا بھی رہا؟ تجھے آواز دیتا تھا۔ تو نے خود کہہ رکھا ہے کہ اگر سو بار گناہ کرو اور سو بار توبہ شکنی کرو پھر بھی میرے پاس آ جاؤ۔
پس اے معبود! اب میں اپنے گزشتہ گناہوں سے منہ پھیر کر اس حالت زار میں تیرے پاس آ گیا ہوں۔ خدایا! تیرے لطف و رحمت کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ تیری رحمت اس سمندر کی طرح ہے کہ تو اگر چاہے تو ایک ہی موج سے تمام مخلوقات کے گناہ دھو ڈالے۔
الٰہی! تو ہمیں جزا و سزا دینے سے بے نیاز ہے اور ہم تیرے عذاب کے سامنے کمزور۔ پس ہمارے گناہوں سے درگذر فرما۔
ایک زمانہ تھا کہ میں تیری طرف بالکل توجہ نہ دیتا تھا بلکہ اپنے آپ کو سب کچھ سمجھ بیٹھا تھا۔ میں تجھ سے بے گانہ ہو گیا تھا اور غفلت و نادانی کے مارے ہر گناہ سے اپنے دامن آلودہ کر لیا تھا۔ میں پست حیوان ہو گیا تھا۔ گناہ میری عادت بن چکا تھا۔ میرے روز و شب معصیت میں گزرتے تھے۔
لیکن تیرا شکر کہ تو نے میرے ان تمام گناہوں کے باوجود مجھ پر لطف کیا اور میری عصمت و آبرو کا پردہ فاش ہونے سے مجھے بچا لیا۔
خدایا! شرمندگی کے مارے کچھ کہہ نہیں پا رہا۔ تیری اس نعمت کا شکر کیسے بجا لاؤں؟ دن گزرتے جا رہے تھے اور میں ہر دن تجھ سے دور تر ہوتا جا رہا تھایہاں تک کہ انقلاب اسلامی ظہور پذیر ہوا اور عدل کی حکومت برپا ہوئی۔
جب انقلاب شروع ہوا تو مجھے اپنے دل میں ایک ایسا نور دکھائی دیا جو تیرے آستانہ ربوبیت کے نغمے گا رہا تھا۔ یہ تبدیلی روز و شب مجھ پر زیادہ آشکار ہوتی چلی گئی۔ یہ نور مجھے تیری طرف کھینچتا تھا۔ میرے اندر روحانی کیفیت نے اپنے جڑیں پکڑ لی تھیں، یہاں تک کہ تو نے مجھے اس بات کی توفیق بخشی کہ ایک ایسی جگہ پر آ جاؤں جو ساری کی ساری نور و صفا اور تمام کی تمام عشق تھی۔
پھولوں جیسی اس زمین کا نام محاذ تھا۔ اس بازارِ عشق و عاشقی میں آہستہ آہستہ مجھے لفظِ شہادت کا ادراک ہوتا چلا گیا۔
میں اس پست دنیا کی اتھاہ گہرائیوں اور اس کی تمام وابستگیوں سے باہر آ چکا تھا۔ تجھ سے میرا تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جا رہا تھا، یہاں تک کہ تو نے مجھے اپنے عشق میں شدت سے اسیر کر لیا۔
بارہا دردِ عاشقی نے میرے گوشت، پوست اور ہڈیوں کو جکڑ کر رکھ دیا اور میں سرمست ہو کر اس سارے شورشرابے سے گزرتا ہوا محاذ کی سرزمین پر آ گیا، لیکن معلوم نہیں کہ میرے نفس کی ان تاریکیوں کا خاتمہ کب ہو گا۔
میں نہیں جانتا کہ کب شہادت کا فروزاں سورج تیرگیٔ شب کا پردہ چاک کرے اور اس کی کرنیں میرے دل کے تاریک آسمان پر ضیاپاشی کریں۔
بارالٰہا! اگرچہ جاں فروشوں کے اس بازار میں میرے پاس زادِ راہ بہت کم ہے کہ جس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے لیکن اے میرے خدا! میرے اس ناچیز سے ہدیے کو قبول فرما۔ یہی عشق ہی تو ہے جس کے سبب میں زندہ ہوں اور سانسیں لے رہا ہوں۔۔۔
وہ دن دور نہیں جب میں بھی شہادت کے خونین منظر کا ایک حصہ بن جاؤں گا۔ اے فریاد کرنے والوں کے فریاد رس! اے دل باختہ لوگوں کی آخری امید! ایک نظر کرم فرما اور ہمیں اس وادی میں خونین پوشاک کے ساتھ شہادت کے سرہانے بیٹھنے کی توفیق عطا فرما۔
کتنا شیریں ہو گا وہ وقت جب وعدۂ دیدار وفا ہو گا اور میں اپنا بشاش چہرہ اور خون میں لتھڑا ہوا ٹکڑے ٹکڑے بدن لیے تیرے دیدار کو آؤں گا۔
الٰہی! اس وقت میری خواہش ہو گی کہ تو مجھے تھوڑی سی مہلت دے۔
الٰہی! تو رحیم ہے، بخشنے والا ہے، فقط تو ہی میرا مولا و سرپرست ہے۔ اس وقت میری خواہش ہو گی کہ تو مجھے اتنی مہلت دے دے کہ میں روبہ قبلہ ہو کر اپنا سر سجدے میں رکھوں اور بندگی و عبادت کی حالت میں کئی بار تجھے پھر پکاروں۔
الٰہی العفو کہوں اور اپنے مولا امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کو بلاؤں۔ اپنی زبان پر شہادتین جاری کروں اور پھر اس کے بعد آزادی اور سرشاری سے تیری طرف پرواز کر جاؤں۔
شاید اس طرح تو میرے تمام جرائم اور گناہوں کو بخش دے، میں گناہ و معصیت کی تمام زنجیروں کو توڑتا ہوا تیری طرف آزادی سے پرواز کر سکوں اور تیری بارگاہِ ربوبیت میں اپنے قدم رکھ سکوں۔
اے بھائیو اور دوستو! مجھے تم سے بھی کچھ کہنا ہے۔۔۔
عزیز بھائیو! جو توقعات تم سے ہیں وہ دوسروں سے نہیں کی جا سکتیں۔ شہداء اور امام کو تم سے جو امیدیں ہیں وہ عام لوگوں سے جدا ہیں۔ اس لیے کہ تم ہمیشہ محاذ پر رہے ہو۔ بعض مقامات پر اسلام کی مظلومیت اور جنگ کا تم نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔
تمہاری آنکھیں اس بات کی گواہ ہیں کہ کس طرح بعض معرکوں میں افرادی قوت کم ہونے کی وجہ سے ہم پر کیا کیا بیتی۔ شہداء اور مجاہدین کی کتنی ہی قربانیاں فقط افراد کے نہ ہونے کی وجہ سے بے نتیجہ رہ گئیں اور اسی سبب سے ہم اپنے کتنے ہی شہیدوں، زخمیوں اور گم شدہ افراد کو محاذ کی اس خون بھری زمین پر چھوڑ کر آنے پر مجبور ہو گئے۔
میرے عزیزو! ہماری مشکل یہی ہے کہ ہم اپنی زندگی کو جنگ کے ساتھ لے کر نہیں چلتے۔ یعنی یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ چونکہ ہمیں کوئی کام نہیں ہے لہٰذا محاذ جنگ پر چلے جائیں۔ جس شخص کے پاس امام موجود ہو اور اس کی زندگی میں ذمہ داری کا وجود ہو تو ایسا شخص اس طرح کی فکر رکھے تو وہ بہت بڑی غلطی کر رہا ہے۔
کیونکہ امام کا مقلد اپنی زندگی کے امور میں اپنی قدرت استعمال نہیں کرتا۔ پس انسان کو دیکھنا چاہیے کہ محاذِ جنگ کو کس وقت اس کی ضرورت ہے۔ یعنی جنگ کو اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ لے کر چلے۔
یعنی اگر ہم مشغول تعلیم ہوں، شادی کا مسئلہ ہو اور اس کے علاوہ ہزاروں اہم کام موجود ہوں اور اس وقت ہمیں کہا جائے کہ اب محاذ جنگ پر تمہاری ضرورت ہے تو ہمیں چاہیے کہ اپنے تمام اہم کاموں کو پس پشت ڈال دیں اور محاذ پر چلے جائیں۔
کیا اسلام کا مسئلہ زیادہ اہم ہے یا تعلیم اور ڈگری کا؟ خدا کی قسم روزِ قیامت ہم جیسوں کا حساب بہت ہی سخت ہو گا۔
اگر بروزِ محشر شہیدوں بالخصوص اپنے ساتھی شہیدوں کے خون میں لت پت چہروں کے سامنے کوئی معقول جواب تمہارے پاس ہے تو بے شک اپنے شہروں میں پڑے رہو اور اپنی تعلیم اور یونیورسٹی وغیرہ کے لیے اسلام اور محاذ جنگ سے کنارہ کشی کر لو۔
اگر کوئی جواب تمہارے پاس نہیں ہے تو پھر کس منہ سے شہیدوں کے پاک جنازوں کی تشییع کرتے ہو۔ شہداء کے یتیم فرزندوں کو اور بالخصوص ان فرزندوں کو جنہوں نے ایک بار بھی اپنے باپ کا چہرہ نہیں دیکھا، تمہیں حتماً جواب دینا ہو گا۔ اور ان کا جواب تمہاری تعلیم و زندگی نہیں ہے ۔۔۔
آخر میں: میری قبر پر یہ عبارت لکھی جائے:
’’اے برادر! کہاں جا رہے ہو؟ تھوڑا سوچو تو سہی کہ کیا میری اور مجھ جیسوں کی قبروں پر کچھ اشک بہا لینے اور فاتحہ پڑھ لینے سے تمہیں اس ذمہ داری کا احساس بھی ہوا ہے جو ہم نے شہید ہو کر تمہارے کندھوں پر ڈال دی ہے؟! ہم دیکھ رہے ہیں کہ تم اس ذمہ داری کے ساتھ کیا سلوک کرو گے؟ وہ ذمہ داری ہمارے راستے کو جاری رکھنے کی ہے۔۔۔‘‘
میرے جسد کو شاہرود کے گلزارِ شہداء قبرستان میں میرے دوست علی کلباسی کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ اگر میرا جسد جنگ سے واپس نہ آ سکا تو ہر شہید کا مزار میرا مزار ہو گا۔
آخر میں تمام دوستوں سے عذر خواہی کرتا ہوں اور امید رکھتا ہے کہ اگر میری طرف سے ان کے حق میں کوئی برائی ہو گئی ہو تو وہ اپنے بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے مجھے معاف فرما دیں۔
والسلام
رضا نادری
ملائکہ سے ملاقات
شہید جلیل ملک پورؒ
وہ ابھی نوجوان ہی تھے کہ ساواک نے انہیں گرفتار کر لیا۔ کیونکہ انہوں نے سکول میں چسپاں شاہ کی تصویر کو پھاڑ دیا تھا۔ انقلاب کامیاب ہوا تو شیراز چوک کے محلہ کوشک میں پہلے بسیجی مرکز کی بنیاد رکھی۔
چزابہ کے معرکے سے جنگی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ تمام معرکوں میں پیش پیش رہے۔ اپنے پانچ بھائیوں اور والد کو بھی محاذ پر لے گئے۔ جلیل ملک پور جاسوسی اور ریکی کے کاموں میں ایک عجوبہ تھے۔ کسی چیز سے خوف نہ کھاتے تھے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ اکیلے ہی ریکی کے لیے نکل جاتے اور بہت سے معلومات لے کر پلٹتے۔
خدا کی ذات پر عجیب قسم کا توکل رکھتے تھے۔ خدا کی مدد سے ایسے ایسے کام انجام دے دیتے جنہیں دیکھ کر حیرت ہوتی۔
معرکہ ’’فاو‘‘ سے پہلے کے ایام میں ایک دن اپنے بھائی کے ساتھ نمازِ شب پڑھ رہے تھے۔ بعد میں انہوں نے لکھا تھا کہ اس نماز کے بعد انہوں نے خدا کے ملائکہ کو دیکھا تھا۔۔۔
فجر ڈویژن میں جاسوسی شعبے کے نائب تھے اور مکینیکل انجینئرنگ کے طالب علم۔ ایک عجیب ماجرا پیش آیا کہ جس کے سبب انہوں نے یونیورسٹی کو خیرآباد کہا اور اصلی یونیورسٹی میں چلے گئے۔
اپنے والد کے اصرار پر انہوں نے شادی بھی کی، لیکن ساتھ یہ بھی کہا: ’’میں نے فقط تکمیلِ دین کے لیے شادی کی ہے۔ میں چار ماہ بعد شہید ہو جاؤں گااور میری شہادت سے چھ ماہ بعد میرا بیٹا پیدا ہو گا۔ اس کا نام علی رکھنا!!‘‘ جلیل نے اپنی قبر کی جگہ تک کی نشاندہی کر دی تھی!
ان کی کہی ہوئی بہت سی باتیں پوری ہوئیں۔ معرکہ کربلا ۴ میں انہوں نے پوری ایک بٹالین کی جان بچائی اور خود شہید ہو گئے۔ کچھ عرصے بعد ان کا جسد مل گیا مگر بغیر بیج کے۔ کوئی انہیں پہچان نہیں پا رہا تھا۔ طے پایا کہ گمنام شہداء کے ساتھ انہیں تہران بھیج دیا جائے لیکن انہوں نے اپنے والد کو (خواب میں) آ کر بتا دیا کہ ان کا جسد کہاں ہے؟
جلیل زندہ ہیں کیونکہ قرآن شہداء کو زندہ کہتا ہے۔ مشکلات اور مصائب میں اپنے گھر والوں کے پاس موجود رہتے ہیں۔ علی ان کی تنہا یادگار ہے جس نے ان کی راستے کو جاری رکھنے کا مصمم ارادہ کر رکھا ہے۔
جلیل نے 1983 میں بیس سال کی عمر میں اپنا وصیت نامہ لکھ دیا تھا۔ اس کے بعض حصوں کا ہم مطالعہ کرتے ہیں:
جو خدا کی راہ میں مارے جاتے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے ہاں رزق پا رہے ہیں۔
لیکن میں کہتا ہوں کہ آپ سب اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پائیں گے! امیر المومنین علیہ السلام فرماتےہیں: ’’اگر علی کو جہنم لے جانا چاہتے ہیں تو کون سی طاقت ہے جو مجھے جہنم جانے سے روک سکے۔‘‘ اگر مولا ایسے کہہ رہے ہیں تو میں کون ہوتا ہے جو اپنے بارے میں کچھ کہوں؟!
تنہا راستہ جو میرے پاس ہے وہ یہی ہے کہ روز و شب اپنے آپ کو خاک پر پھینک دوں یہاں تک کہ خدا ان بندوں کی نسبت میری طرف نظر کرم کر دے جو ہمارے درمیان موجود ہیں اور ان کی برکت سے ہمارے گناہ بھی معاف ہو جائیں۔
*****
عزیز بھائیو! یہ تمہاری زبان جس طرح ذکر خدا کرتی ہے، الٰہی العفو کہتی ہے تو اس کے برعکس غلط چیزیں بھی کہہ سکتی ہے لہٰذا ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے اور بے ہودہ گفتگو سے پرہیز کرنا چاہیے۔
آپ ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں جس سے آپ کے بھائیوں کے دلوں میں انقلاب و محاذ سے لگاؤ کم ہونے لگتا ہے۔
آپ میں سے اکثر کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہوتا لیکن وائے ہو ان پر جو بے سوچے سمجھے بولنے لگتے ہیں اور ایک لحظے کے لیے بھی نہیں سوچتے کہ وہ غلط کہہ رہے ہیں۔
اگر آپ کوئی ایسی غلط بات کہہ جاتے ہیں جس سے اسلام کو نقصان ہوتا ہے تو قیامت کے دن اس کا جواب دینا پڑے گا۔ آج اسلام اور مسلمانوں کی عزت و آبرو تمہارے ہاتھوں میں ہے۔
عزیز بھائیو! قرآن کی تعلیمات پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ قرآن نے ہمیں صبر و استقامت کی کتنی تلقین کی ہے! ہم صبر کیوں نہیں کرتے! ہم کربلا اور بیت المقدس کو کیسے آزاد کروا سکتے ہیں! اگر اسی حالت میں ہم آگے بڑھتے رہے تو بعید ہے کہ ۔۔۔
۔۔۔میں اور آپ خدا کی طرف سے بھیجی گئی آزمائش میں مبتلا ہیں۔ ہمیں اس امتحان میں کامیاب ہونا ہے۔ جو ہم سے سبقت لے گئے وہ اپنے معشوق حقیقی سے ملاقات کے لیے چلے گئے جبکہ ہم ابھی یہیں ٹھہرے ہوئے ہیں۔
ہمیں کوشش کرنا چاہیے۔ ایسا کام ہر گز نہ کریں جس سے ہمارا دشمن خوش ہو۔ اس کے لیے راستہ نہ کھولیں کہ اس کی طرف سے کوئی بڑا نقصان نہ اٹھانا پڑ جائے۔
دوستو! دنیا کی نظریں ہم پر لگی ہوئی ہیں۔ دنیا کے تمام مستضعفین ہماری طرف امید سے دیکھ رہے ہیں۔ شہداء کے والدین کربلا کا راستہ کھلنے کے منتظر ہیں۔ خدا کی قسم میں نہیں جانتا کہ تمہارے پاس ان کے لیے کیا جواب ہے؟!
ہمیں خونِ شہدا کا جواب دینا ہے۔
اس دشت اور ان ٹیلوں میں جہاں قدم قدم پر ہمارے دوستوں کی شہادت گاہیں ہیں وہاں جب وہ کوئی بورڈ نصب کرتے تھے تو تم نے ضرور دیکھا ہو گا کہ کیا منظر بپا ہو جاتا تھا۔
کیسے جگرے والے ماں باپ ہیں جنہوں نےا پنے بیٹوں کو محاذ پر بھیجا اور بعضےتو ان کے جسد تک نہ دیکھ پائے۔
جنگ اتار چڑھاؤ کا نام ہے۔ اس میں فتح بھی ہوتی اور شکست بھی، البتہ ہماری شکست اس وقت ہو گی جب ہماری نفسانی خواہشات نے ہم پر غلبہ پا لیا۔
ہمیں دشمن کو اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دینا چاہیے۔ اگر ایسا ہو گیا تو ہم اپنے ہونے والے نقصان کا شاید کبھی بھی ازالہ نہ کر پائیں۔
میں نہیں جانتا کہ آپ لوگوں نے اس دن کے بارے میں کچھ سوچ رکھا ہے یا نہیں؟ جس دن یہ ظالم لوگ ہم پر اور ہماری عزتوں پر مسلط ہو جائیں اور ہم ان کی منتیں کرنے لگیں۔ اگر ایسا دن خدانخواستہ آ جا تا ہے تو ہم کتنی بڑی مصیبت کا شکار ہو جائیں گے۔
البتہ خدا ہمیشہ شاہد و ناظر ہے اور ہم ہر روز آزمائش کی حالت میں ہیں۔ خدا نے فرمایا ہے: ’’اللہ کسی قوم کا حال یقیناً اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے اور جب اللہ کسی قوم کو برے حال سے دوچار کرنے کا ارادہ کر لے تو اس کے ٹلنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی اور نہ ہی اللہ کے سوا ان کا کوئی مددگار ہوتا ہے۔‘‘
امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں ھَلْ مِنْ نَاصِرٍ یَنْصُرُنَا کی فریاد بلند کی تھی۔ عزیز دوستو! کیا تم نہیں کہتے تھے کہ کاش ہم کربلا میں ہوتے اور ۔۔۔
آج امام کو تنہا چھوڑنے پر کبھی راضی نہ ہونا۔ ایسا موقع نہ آنے دو کہ کربلا کی ایک بار پھر تکرار ہو۔ پس ہمیں خودسازی شروع کرنا چاہیے۔ جہاد اکبر میں اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ پیش قدمی کرنا چاہیے اور ۔۔۔
*****
خدایا! اگر میرے اندر لیاقت ہے تو میری موت کو اپنی راہ میں شہادت سے بدل دے اور اگر ہمارا زندہ رہنا اسلام کے لیے مفید ہے تو ہمیں زندگی عطا فرما تا کہ ہم زیادہ سے زیادہ اسلام کی خدمت کر سکیں۔
اے عظیم خالق، کہ کائنات جس کی محتاج اور تو خود بے نیاز ہے۔ خدایا! اگر میں گناہگار ہوں تو اے ستار العیوب، اے کاشف الکروب اور اے مقلب القلوب! تو میرے گناہوں سے درگزر فرما۔ مجھ کمزور پر رحم کر اور ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرمایا۔ ہمیں ایک لحظے کے لیے بھی ہمارے نفس کے حوالے نہ کرنا۔
اور اے خبیث صدام! جان لے کہ جب تک اسلام و قرآن کے یہ فرزند زندہ ہیں تو اس دنیا میں آسائش اور خوشی کا منہ بھی نہ دیکھ پائے گا۔ہاں، گویا ہماری کامیابی کی خوشخبری آیا ہی چاہتی ہے۔
امام فرماتے ہیں: ’’چاہے تم قتل کرو یا قتل ہو جاؤ، دونوں صورتوں میں کامیاب ہو۔‘‘
امام کا یہی فرمان ہمارے دلوں کو طاقت بخشتا ہے اور ۔۔۔
خوشا آنان که با عشق خمینی خوشا آنان که در هنگامهی مرگ خوشا آنان که از پیمانهی حق خوشا آنان که با شوق فراوان |
شهادت را پذیرفتند و رفتند به جای گریه خندیدند و رفتند شراب عشق نوشیدند و رفتند حریم دوست بوسیدند و رفتند |
[خوشا نصیب ان لوگوں کا جنہوں نے عشق خمینی کے ساتھ شہادت کو قبول کیا اور چلے گئے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو موت کے وقت رونے کی بجائے ہنستے ہوئے گئے۔ کتنا اچھا مقدر ہے ان لوگوں کو جنہوں نے پیمانۂ حق سے شراب عشق پی اور چلے گئے۔ بہت ہی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے وفورِ شوق سے دوست کے حریم کے بوسے لیے اور چل دیے۔]
والسلام
جلیل ملک پور / 2 مئی 1983
جلیل کی دوسری تحریریں بھی بہت ہی جالب مطالب کی حامل ہیں۔ ایک بار انہوں نے لکھا تھا:
پیارے بابا اور ماں!
آپ کا ایک بیٹا تھا جو امانت کے طور پر کچھ دنوں کے لیے آپ کے پاس رہا تھا۔ اب وہ اپنے اصلی مالک کی طرف لوٹ کر چلا گیا ہے تو آپ پریشان نہ ہونا۔
ہم اس جنگ میں کامیاب ہیں اور شکست نہیں کھائیں گے۔ لیکن جنگ کے بعد محتاط رہنا۔ ہوشیار رہنا کہ افواہوں اور پروپیگنڈوں کی جنگ میں ہم شکست نہ کھا جائیں۔ ابھی تو منافقین خاموش ہیں اور کونے کھدروں میں چپکے پڑے ہیں لیکن ایک دن آئے گا کہ اپنے اپنے بلوں سے نکل کر سرگرم ہو جائیں گے اور ۔۔۔
منافقین کو کبھی بھی آگے نہ آنے دیں۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہو کہ راہِ شہداء کو جاری رکھیں۔ اپنے رہبر کی باتوں پر عمل کریں اور خطِ ولایت کے پیروکار بن کر رہیں۔
وصیت، انسان کا عمل ہے۔ جو کچھ اسے دیکھنا چاہیے وہ دیکھتا ہے۔ زندگی معاملے کا میدان ہے۔ انسان ایک ہاتھ سے ایک چیز دیتا ہے اور دوسرے ہاتھ میں ایک چیز لے لیتا ہے۔ ہمیں ہمیشہ یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم نے دیا کیا ہےا ور لیا کیا ہے؟!
دنیا کا میدانِ معاملہ ایک دو دھاری تلوار کی طرح ہے جس کی ایک دھار انسان کی اپنی طرف رہتی ہے جبکہ دوسری دھار اس کے مقابل کی طرف۔ اگر معاملہ درست ہو اور راہ خدا میں انجام دیا جائے تو ہمارے سامنے والے انسان کا راستہ کھل جائے گا لیکن اگر معاملہ صحیح انجام نہ پائے تو یہی دھار ہماری طرف مڑ جائے گی اور ہماری زندگی کو تباہ کر کے رکھ دے گی۔
غیر مساوات
شہید احمد رضا احدی
ان کا تعلق ہمدان کے شہر نہاوند سے تھا۔ پڑھائی اور سکول میں سب سے آگے تھے۔ جہاد میں دوسروں سے بڑھ کر تھے۔ لکھتے تھےا ور اپنی سوچوں کو تحریر کا لبادہ پہناتے رہتے تھے۔
1985ء میں ہونے والے میڈیکل کے داخلہ امتحان میں پورے ملک سے پہلی پوزیشن حاصل کی لیکن دنیا کی یونیورسٹی آخرت کی یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے انہیں نہ روک سکی۔
ان کی تحریروں میں سے ایک تحریر ’’غیر مساوات‘‘ کے عنوان سے ہے جو اس زمانے کے حالات اور جنگ میں غیر جانبدار رہنے والے انسانوں کے بارے میں بحث کرتی ہے۔
’’غیر مساوات‘‘ شہید احمد رضا کی آخری تحریر ہے جو انہوں نے اپنی شہادت سے کچھ دیر پہلے لکھی تھی۔ انہوں نے معرکہ والفجر 8 میں جامِ شہادت نوش کیا:
کون اس مساوات کو حل کر سکتا ہے؟!
کون جانتا ہے کہ مارٹر گولہ گرنے سے کتنے دل دہل کر رہ جاتے ہیں؟!
کسے خبر ہےکہ جنگ یعنی جلنا، یعنی آگ، یعنی ہر جگہ سے کسی نئی جگہ کی طرف بھاگنا۔ یعنی یہ اضطراب کہ میرا بچہ کہاں ہے؟ میرا جوان کیا کر رہا ہے؟ میری بیٹی کا کیا ہوا؟
حقیقتاً ہم ان سوالات اور جوابات کے درمیان کہاں کھڑے ہیں؟!
یونیورسٹی کی کون سی طالبہ ہے جو نہ جنگ کی تصاویر اور نہ ہی جنگ کی خبریں سننے کا حوصلہ رکھتی ہے، کیا سوسنگرد کی معصوم بچیوں کے واقعے سے باخبر ہے؟!
شرم و حیا کے ان نمونوں کو کون یاد کرتا ہے جن کے پاکیزہ دامن بے شرموں نے آلودہ کر دیے اور اپنے اجداد کی سنت پر عمل کرتے ہوئے انہیں زندہ درگور کر دیا۔
یونیورسٹی کا کون سا طالب علم جانتا ہے کہ ہویزہ کہاں ہے؟ کون ہویزہ میں جنگ لڑتا رہا؟ کون وہاں مارا گیا اور وہیں دفن ہو گیا؟ کون ہے جو اس جملے کا معنی درک کر سکے: ’’جسموں اور ٹینکوں کی جنگ؟!‘‘
حقیقت یہ ہے کہ ٹینکوں کے بارے میں جانتا ہی کون ہے؟ کیسے 120 مجاہد اور مظلوم طلبہ کے سر ٹینکوں کے نیچے کچل کر رکھ دیے گئے؟
کیا تم اس مسئلے کو حل کر سکتے ہو؟
دوشکا([2]) کی نالی سے ایک گولی ایک ہزار میٹر کی رفتار سے سنسناتی ہوئی نکلتی ہے اور نکلتے ہی ایک حلق میں پیوست ہو جاتی ہے اور اسے سوراخ کرتی ہوئی گزر جاتی ہے۔ کیا تم بتا سکتے ہو کہ اس حالت میں وہ سر کہاں گرتا ہے؟ کون سا گریبان پارہ ہوتا ہے؟! کون سا بچہ خلوت میں جا کر آنسو بہاتا ہے؟! کون سا، کون سا۔۔۔؟!
کیا تم ہوتے تو ایسا کر سکتے؟! اگر نہیں تو اس مسئلے کو ذرا زیادہ دقت اور گہرائی سے سوچ کر حل کرنے کی کوشش کرو:
آواز کی رفتار سے ڈیڑھ گنا زیادہ رفتار کا حامل ایک ہوائی جہاز زمین سے فقط دس میٹر بلند اڑتا ہوا آتا ہے اور مہران دہلران کی سڑک پر تیزی سے جانے والی ایک لینڈ کروزر گاڑی کو اپنے بم کا نشانہ بنا دیتا ہے تو کیا تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ کون سا جسم آگ میں راکھ بن جائے گا؟! اور کون سا سر اڑتا ہوا کہیں دور جا گرے گا؟!
لوہے کے ان مسلے ہوئے ٹکڑوں میں پھنسے ہوئے ان اجسام کو تم کیسے باہر نکال پاؤ گے؟! کیسے انہیں غسل دیا جا سکے گا؟
ہم کیسے ہنسیں اور ان پیاروں کی نگاہوں کو فراموش کر دیں؟!
ہم کیسے شہر میں بیٹھے رہ کر فقط اپنی تعلیم کی فکر کر سکتے ہیں؟!
یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے دروازے بند کر کے ایک چوہے کی طرح کتابوں کے پرانے کلمات میں بل بنا کر گھس جائیں؟!
تم کون سے مسئلے کو حل کرتے ہو؟! کس امتحان کے لیے پڑھائی کرتے ہو؟! کس امید پر سانس لیتے ہو؟! اپنے بستے اور فائل کو کن چیزوں سے بھر رہے ہو؟! خیال سے، کتاب سے، ڈاکٹر کے جگمگاتے ہوئے خطاب سے یا اس چیونگم سے جو تمہاری ماں ہر روز تمہارے بستے میں ڈال دیتی ہے؟!
کون سا اضطراب تمہاری جان کھائے جا رہا ہے؟! بس کا دیر سے پہنچنا، کلاس میں دیر ہو جانا، نمبر نہ لے سکنا؟!
تم نے اپنے دل کو کن چیزوں سے وابستہ کر لیا ہے؟! ڈگری سے، گاڑی سے یا ڈاکٹریٹ سے بھی اوپر کی کسی ڈگری کے حصول سے؟!
صفایی ندارد ارسطو شدن |
خوشا پر کشیدن ، پرستو شدن |
[ارسطو ہونے میں کوئی لذت نہیں۔ کیا ہی اچھا ہے اڑان بھرنا اور ابابیل ہونا۔] |
اےطالب علم دوست! تجھے اس چیز سے کیا لینا دینا کہ تمہارے ہمسائے میں کوئی خاندان اپنے عزیز کی شہادت کا داغ دیکھ چکا ہے؟ یا کوئی جوان خاک میں لت پت ہو چکا ہے؟
اے طالب علم بہن! تجھے کیا غرض کہ سوسنگرد کی بہنیں آنسؤوں میں ڈوبی ہوئی ہیں اور انہیں زندہ درگور کر دیا گیا ہے؟!
تم کچھ بھی نہیں جانتی تھیں؟! یقیناً کچھ بھی تو نہیں!۔۔۔
کیا تم اپنے بچے کی خشک زبان کو تر کرنے کے لیے ایسی جگہ پر پانی کی تلاش میں مارے مارے پھرے ہو جہاں کارون، دجلہ اور فرات آپس میں ملتےہیں؟ اور جب تم مشکلوں سے ایک قطرہ پانی کا لے کر ہزاروں امیدیں دل میں لیے اس بچے کے سرہانے پہنچے تا کہ اسے سیراب کر سکو تو دیکھا ہو اب وہ بچہ پانی پینے کے مرحلے سے گزر چکا ہے!!!
لیکن اگر تم قاسم نہیں ہو، علی اکبر نہیں ہو، جعفر و عبداللہ بھی نہیں ہو تو کم از کم حرملہ تو نہ بنو۔
کیونکہ خدا نے حسین علیہ السلام کے ہدیے کو قبول کر لیا اور علی اکبر و علی اصغر کے خون کو زمین کے حوالے نہ کیا۔
میں نہیں جانتا کہ یہ خون روزِ قیامت حرملہ کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ یا علیؑ مدد۔
شہید احدی کا وصیت نامہ
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
بس ایک ہی گزارش ہے کہ امام کے حکم کو ضائع نہ ہونے دینا۔ بس یہی۔
تقریباً ایک ماہ کے روزے مجھ پر قرض ہیں، وہ رکھ دینا اور سب سے میرے لیے معذرت خواہی کرنا۔ والسلام۔
امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا ادنیٰ ترین سپاہی
احمد رضا احدی
([1]) الجبرا میں استعمال ہونے والی اصطلاح ’’غیر مساوات‘‘ کی طرف اشارہ ہے۔