تہرانی جوان
استاد پناہیان کا خندقِ کمیل کے شہداء کی برسی سے خطاب(2015ء)
دفاع مقدس (ایران عراق جنگ) کے دو لاکھ پچاس ہزار شہیدوں میں شہید ابراہیم ہادی کا ایک خاص مقام ہے۔ جن لوگوں نے، جن جوانوں نے یہ کتاب نہیں پڑھی ان سے گزارش کرتا ہوں ضرور اس کتاب کا مطالعہ کیجیے۔یقین کیجیے، اس کتاب کے پڑھنے سے پہلے اور پڑھنے کے بعد آپ کی نگاہ اور آپ کے رفتار و کردار میں بہت فرق آئے گا۔ بلکہ آپ اپنی زندگی کی تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: اس کتاب کو پڑھنے سے پہلے کی زندگی اور اسے پڑھنے کے بعد کی زندگی۔
میں مبالغہ آرائی سے کام نہیں لے رہا۔ مجھے یقین ہے جو بھی اس کتاب کا مطالعہ کرے گا اور اس شخصیت سے آشنا ہوگا وہ میری اس بات کی تائید کرے گا۔
حضرت آیت اللہ بہجتؒ فرماتے تھے: نیک لوگوں کی زندگی کا مطالعہ، درسِ اخلا ق ہے۔ آپ اس کتاب (سلام بر ابراہیم) کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کے معنوی اثرات کو اپنے وجود میں محسوس کریں گے۔
ہمارے شہداء کی منزلت خدا کے ہاں محفوظ ہے۔ ہمیں ان مقامات کی خبر نہیں۔ دفاعِ مقدس میں اور بہت سارے شہید ہوں گے جن کے مقامات ممکن ہے ابراہیم ہادی سے بڑھ کر ہو، شاید ہم انہیں نہ جانتے ہوں۔ لیکن خدا نے چاہا ہے کہ شہید ابراہیم ہادی کو پہچان لیں۔
خدا کایہ ارادہ تھا کہ وہ(شہید) تہران کے ایک متوسط علاقے میں زندگی گزارے۔ وہ ہمارے شہر کے باقی تمام شہداء سے ایک الگ حیثیت رکھتے ہیں۔ اس حیثیت کو ہم حس کر سکتے ہیں۔
شہید ابراہیم ہادی نہ کوئی عالم دین تھے اور نہ ہی فوج کا کوئی آفیسر۔ وہ لوگوں میں سے تھے۔ ان کے والد بھی ایک عام تاجر تھے۔ ہاں ایک خاص صفت جو ابراہیم میں پائی جاتی تھی وہ یہ تھی کہ وہ ایک مکمل پہلوان تھے۔ کھیل کے میدان میں ابراہیم کا اخلاق اس کتاب کے اندر جلوہ گر ہے۔ اس کے بعد وہ محاذِ جنگ پر حاضر ہوئے۔
خندقِ کمیل میں جو حماسہ دیکھنے کو ملا وہ دفاعِ مقدس کے نورانی لمحات کا ایک اہم واقعہ ہے۔ خندقِ کمیل یقینا ابراہیم ہادی پر فخر کرتا ہے۔ یہ شہید اس خندق کے لیے ایک ابدی افتخار ہیں۔ اگر تہران کے لوگ کسی اچھے اور نیک بندے کی مثال دینا چاہیں تو بہتر ہے شہید ابراہیم ہادی کی مثال دیں اور کہیں: تہرانی جوان یعنی ابراہیم ہادی۔
شاید تہران کے بہت سارے نیک لوگ قیامت کے دن ابراہیم ہادی کے پیچھے جنت جائیں۔ آپ جانتے ہیں آقای دولابیؒ(بہت بڑے عارف تھے) مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیتے تھے۔ انہوں نے جب ابراہیم ہادی کو دیکھا ، اس وقت ہادی کی عمر بیس سال تھی۔ جب سارے لوگ چلے گئے تب ابراہیم سے کہا: “آغا ابراہیم! کچھ ہمیں نصیحت کریں۔” ابراہیم نے شرمندگی کے مارے سر نیچے کیا اور کہا: “آغا، آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟!” لیکن میں جانتا ہوں آقای دولابیؒ نے یہ بات بالکل اخلاص کے ساتھ کہی تھی۔
آپ کی نظر میں 80 کی دہائی میں تہرانی جوان کا نمونہ ابراہم ہادی کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے؟اگر کوئی چاہتا ہے انقلابی نسل کا ایک نمونہ دیکھےتب اسے شہید ابراہیم ہادی کو دیکھنا چاہیے۔ البتہ یہ اس حد تک ہے جتنا ہم جانتےہیں۔ آسمان کی طرف جب نگاہ کرتے ہیں کچھ ستارے زیاہ نورانی ہیں چونکہ ہمارے نزدیک ہیں۔ کچھ ستارے ہیں جو زیادہ بڑے ہیں لیکن چونکہ ہم سے زیادہ دور ہیں لہذا ہم ان کی روشنی کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتے۔جو بھی ہے، جو ستارے ہمارے نزدیک ہیں وہ ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ مثلا قطبی ستارہ۔ ہم قطبی ستارے کے ذریعے اپنے راستے کی تشخیص کر سکتے ہیں۔
شہید ابراہیم ہادی کو ہلکا مت لیں۔ میں حیران ہوں کہ ملک کے تمام اکھاڑوں میں کیوں شہید ابراہیم کا مجسمہ نصب نہیں کیا جاتا!۔ البتہ میں ان تمام شہداء کے مرقد کو تواضع کے ساتھ چومتا ہے جن کا تعلق کسی بھی اکھاڑے سے تھا، لیکن شہید ابراہیم ہادی کی شخصیت سب سے الگ ہے۔ کیوں ان کا مجسمہ نصب ہو؟ اس لیے چونکہ ان کا نام، جہاں بھی ہو، تاثیر رکھتا ہے۔ وہ اپنی حیات میں ایک برجستہ معنوی شخصیت تھے۔ اب جب کہ شہید ہو چکے ہیں، شہادت کی وجہ سے ان کی تاثیر اور معنویت میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کے والد اپنے تمام بچوں کی نسبت ابراہیم سے ایک خاص محبت رکھتے تھے۔ کہتے تھے: میرے اس بیٹے کی وجہ سے مستقبل میں میرا بھی نام روشن ہوگا۔ میں اس عظیم والد سے کہنا چاہوں گا کہ ابراہیم ہادی کی معرفت کا ابھی آغاز ہے۔
وہ ایک شجاع پہلوان تھے۔ جس کا ایسا ورزشی جسم اور ایسا جوان مردانہ رویہ ہو یقینا دوسرے جوان اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ اسی قوی ہیکل جسم کے ساتھ ہاتھ میں ایک بیگ اٹھائے اکھاڑے جا رہے تھے، اس کے دوستوں نے اس سے کہا: “محلے کی دو لڑکیاں تمہارے پیچھے تھیں اور تمہارے بارے میں ہی گفتگو کر رہی تھیں۔ ماشاء اللہ بہت زیادہ جاذبیت رکھتے ہو۔!”
کہتے ہیں اگلے دن سے وہ ورزش کے سامان والا بیگ ان کے ہاتھ میں نہیں تھا۔ اپنا ورزش کا سامان ایک تھیلے میں ڈالتے تھے، کھلی شرٹ پہنتے تھے، کھلی اور پرانی پینٹ پہنتے تھے۔ محلے کے لڑکوں کو برا سب کچھ برا لگنے لگا۔ ابراہیم سے کہنے لگے: سب کی خواہش ہوتی ہے تیرا جیسا جسم ہو اور ایسا لباس پہنیں جس سے جسم کی نمائش ہو۔ ابراہیم نے کہا: میں دوسرے جوانوں کے انحراف کا سبب نہیں بننا چاہتا۔
امربالمعروف اور نہی از منکر کرنے والے ادارے اور وہ جوان جو اپنے علاقوں میں ثقافتی حوالے سے کام کرنا چاہیں ان کے لیے ایک بہترین رول ماڈل ابراہیم ہادی ہیں۔ اس شہید کے طریقہ کار کا مطالعہ کیجیے۔ گویا وہ تعلیم و تربیت کے ماہرین سے زیادہ اس حوالے سے آگاہی رکھتے تھے۔
امیرالمومنینؑ کے بیان (مومن اپنی فطرت کے مطابق نصیحت قبول کرتا ہے۔) کے مطابق وہ جانتے تھے ہر فرد کو کیسے جذب کرنا ہے؟! اس حوالے سے مختلف داستانیں نقل ہوئی ہیں کہ کس طرح کے جوانوں کو ابراہیم نے بدل دیا اور کہاں تک پہنچایا۔ غنڈہ گردی سے اٹھا کر محاذِ جنگ تک پہنچایا۔ اس نے یہ کارنامہ بھی انجام دیا کہ وہ عراقی جو اس کے مقابل محاذ میں تھے، اس سے لڑنے آئے تھے اور اس کی طرف گولی چلا رہے تھے، ان کو بھی اپنی طرف کھینچے اور اپنی طرف لے آئے۔ سحر کے وقت جب جنگ ایک مشکل مرحلے میں تھی تب ابراہیم فیصلہ کرتے ہیں اذان کہنی چاہیے۔
سب اس سے کہتے ہیں: “کیا ہوا ہے جو تو اچانک اذان کہنے پر مصرّ ہے؟” وہ اپنی دلیل کسی کے سامنے بیان نہیں کرتا اور بلند آواز کے ساتھ اذان شروع کرتا ہے۔ جب وہ اذان کہنا شروع کرتا ہے دوسری طرف سے اس کی طرف گولیاں چلتی ہیں۔ ایک گولی اس کی گردن پر لگتی ہے۔ سب کہتے ہیں: “کیوں ایسا کر رہے ہو؟” اس کے بعد اسے مورچے میں لے جاتے ہیں۔ خون اس کے بدن سے جاری ہے۔ اسے فرسٹ ایڈ دی جاتی ہے۔
کچھ ہی دیر بعد دیکھتے ہیں عراقی سپاہی سفید رومال لہراتے اس طرف آرہے ہیں۔ پہلے سوچتے ہیں شاید یہ دشمن کی چال ہو لہذا اسلحہ آمادہ رکھتے ہیں۔ لیکن کچھ ہی دیر میں پتہ چل جاتا ہے کہ عراقی سپاہیوں نے اپنے آفیسر سمیت سرنڈر کیا ہے۔
پوچھتے ہیں: آپ لوگ کیوں سرنڈر ہوئے؟ وہ لوگ پوچھتے ہیں: جس جوان نے اذان دی تھی وہ کہاں ہے؟ بتایا گیا کہ وہ ہمارا ایک جوان تھا جسے تم لوگوں نے گولی ماری۔ وہ لوگ بتاتے ہیں کہ ہم اس کی اذان کی وجہ سے سرنڈر ہوئے اور اپنی کہانی تفصیل سے بتاتے ہیں۔
یہ ایک پہلوان جوان کی سانسوں کی برکت ہے جس کا تعلق اکھاڑے سے تھا۔
وہ ہائی اسکول کے دوران کشتی کا چیمپئین تھا۔ کہتے تھے: “میں نے کبھی مقابلے میں حریف کی کمزوری سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ جبکہ اس طرح کے مقابلوں میں عام طور پر حریف کی کمزوری (ویک پوائنٹ) دیکھ کر اسے زمین پر پٹخ دیا جاتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابراہیم ایک پہلوان اور ایک ہیرو سے بڑھ کر تھا۔ ان تمام باتوں کے باوجود ابراہیم ہنس مکھ بھی تھا اور شجاع بھی۔
ہماری ثقافت عام طور پر لادین لوگوں کے زیر اثر ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ابھی تک ساری دنیا نے ابراہیم ہادی کو پہچان لینا تھا۔ ہماری ثقافت کے ذمہ دار افراد ان 35 سالوں میں ثقافتی آثار کی تولید کے حوالے سے درکار علم و درایت سے آشنا نہ تھے ورنہ آج ہمارے پرائمری کے بچے بھی ابراہیم ہادی کو پہچان رہے ہوتے۔
اگر ابراہم ہادی پر کوئی سیریز بنے، اگر خود شہید اس سیریز بنانے والے کو توفیق دے، مجھے یقین ہے لوگوں کی خواہش ہوگی ہر سال ماہ رمضان کی راتیں یہ سیریز دیکھ کر گزاریں۔ ابراہیم ہادی کئی بار پہلو کی طرف سے مجروح ہوتے ہیں، گلہ بھی اور چہرہ بھی زخمی ہو جاتا ہے۔ اس شہید کی اتنی جذاب اور ایکشن کی کہانیاں ہیں کہ مغربی جنگی فلمیں اس لیول تک پہنچ ہی نہیں سکتیں۔
ہم نے مغربی اور مشرقی جنگی اور ایکشن فلمیں بہت دیکھی ہیں لیکن ان میں سے اکثر افسانہ ہیں۔ لیکن اگر آپ یہ کتاب پڑھیں تب وہ افسانے اپنا رنگ کھو دیتے ہیں جن کی بنیاد جھوٹ اور خیال پر ہے۔ ایک پروڈیوسر بتا رہے تھے اگر تمہارا ہنر ضعیف ہے آئیں ابراہیم ہادی کے لیے کام کریں۔ تم میں خود بخود ہنر آئے گا۔ وہ خود تمہیں ہنرمند بنائے گا۔ اس کی داستانیں تمہیں ٹیکنک سکھائیں گی۔ خود اسی کی طرح اس کی طرف چل پڑو۔ وہ بہت زیاہ خلوص رکھتا تھا۔
اگر ابراہیم کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت کا تذکرہ کرنا چاہیں تب اس کے خلوص کا تذکرہ ہونا چاہیے۔ اس کی پوری زندگی کا ہم و غم یہی تھا۔ وہ ہمیشہ پابند تھا “کام صرف خدا کے لیے ہو۔” یہ اس کا تکیہ کلام تھا: “جو کام خلوص کے ساتھ نہ ہو وہ کسی فائدے کا نہیں ہے۔”
امام خمینیؒ بطور ایک سیاسی رہنما کے یہی صفت (خلوص) رکھتے تھے۔ یہ ان کا ہی ہنر تھا جو اس سرزمین پر ایسے پھولوں کی آبیاری کریں اور معاشرے کے اندر اس طرح کے موتیوں کو تلاش کر کے ان کی تربیت کریں۔
بعض سیاستدان امام خمینیؒ کی طرح ہیں جب وہ معاشرے میں قدم رکھتے ہیں وہ اس سمندر کی گہرائیوں سے قیمتی موتیوں کو باہر نکالتے ہیں اور ان کو تاریخ کے لیے بطور نمونہ پیش کرتے ہیں۔ جبکہ کچھ سیاستدان ایسے ہوتے ہیں جب معاشرے پر حاکم ہوتے ہیں وہ سمندر کی تہہ سے زہریلے سانپ اور مچھلی باہر نکالتے ہیں اور ان بدمعاشوں کے ذریعے اپنی طاقت بچاتے ہیں۔
امام خمینیؒ اور مقام معظم رہبری ایسے سیاستدان ہیں جنہوں نے معاشرے کے اندر ابراہیم ہادی جیسوں کی تربیت کی۔ معاصر تاریخ میں ہم نے دیکھا کہ مقام معظم رہبری نے نہ صرف ایران کے اندر سے بلکہ باہر کے ممالک سے بھی ایسے افراد کو تلاش کیا اور ان کی تربیت کی۔ یہ ولایت کا نور اور اس کی کارکردگی ہے۔ جبکہ کچھ سیاستدان ایسے ہوتے ہیں جب عہدوں پر آتے ہیں، طاقت اور نفوذ حاصل کرتے ہیں تب اپنے خاص لوگوں کو نوازتے ہیں۔ اس شخص کی طرح جس نے مدینے میں علیؑ کے گھر آگ لگا دی تھی۔ علیؑ تو اپنے ساتھ مقداد، ابوذر اور عمار کو رکھتے تھے جبکہ وہ کن لوگوں کو لے کر آیا؟! ہمیں ایسے سیاستدان چاہیے جو اس سرزمین پر ابراہیم ہادی جیسے گوہر تابناک کی تربیت کرے۔
جو لوگ سیروتفریح کے شوقین ہیں ان سے بھی گذارش کروں گا یہ کتاب پڑھ لیں تاکہ وہ جان لیں کتاب کے ذریعےبھی سیر و تفریح ہو سکتی ہے۔ بہترین وقت گذارا جا سکتا ہے۔
یہ کتاب کسی ایسے شخص کے بارے میں نہیں ہے جو خشک زاہد یا انقلابی ہو۔ اس کتاب کے چند صفحے پڑھنے سے آپ متوجہ ہوں گے شہید ہادی ایسے بالکل نہ تھے۔ اس کتاب کو پڑھ کر آپ ایک معقول انسان کو قریب سے مشاہدہ کریں گے۔ مجھے یقین ہے، وہ لوگ جو ہمارے دین کو بھی نہیں مانتے، ہمارے دین سے متعلق کچھ نہیں جانتے، اگر وہ ابراہیم ہادی کو جان لیں یقینا ہمارے دین و مذہب کا احترام کریں گے اور کہیں گے: “تم لوگ بڑے خوش قسمت ہو۔”
ماں کے نام
شہید کے بھائی
جس وقت ابراہیم ابھی اس دنیا میں نہیں آئے تھے ہم کرایہ دار تھے اور کئی گھر بدل چکے تھے۔ اس وقت کے عام لوگوں کی طرح زندگی میں کوئی خاص سکون نہ تھا۔ مجھے یاد ہے ایک مدت تک ہم شہید عجیب گل روڈ پر خیابان مشہد کے نزدیک کرایے کے گھر میں رہتے تھے۔ گھر کی مالکن ایک نیک باتقوا خاتون تھیں۔ وہ قرآن سکھاتی اور خواتین کی نشستوں میں تقریر کیا کرتی تھیں۔
ہماری ماں کا اخلاق، جس دوران ہم اس گھر میں مقیم تھے، بہت معنوی بن چکا تھا۔ وہ قرآن اور دعاؤں کی قرائت کو بہت زیادہ اہمیت دیتی تھیں۔ ہماری ماں انتہائی مومنہ خاتون تھیں، لیکن ان سالوں میں ان کی معنویت میں اور اضافہ ہوا۔
دن گذرتے گئے یہاں تک کہ 21 اپریل 1957 یعنی ٹھیک 21 رمضان المبارک کی رات اسی گھر میں ابراہیم کی ولادت ہوئی۔ میرے والدین ابراہیم سے بہت پیار کرتے تھے۔ بہت زیادہ پیارا بچہ تھا جس سے پیار کرنے کا سب کا دل کرے۔
جتنا وقت گذرتا جاتا تھا ابراہیم کی محبت فیملی کے افراد میں بڑھتی ہی گئی۔ سب اس سے محبت کرتے تھے چونکہ وہ اسی لائق تھا۔
ہمارے والد اکثر کہا کرتے تھے: میرے سارے بچے پیارے ہیں لیکن مجھے ابراہیم سے ایک خاص محبت ہے۔ آپ لوگ نہیں جانتے میں اپنی نماز شب میں دل کی گہرائی سے ابراہیم کے لیے دعا کرتا ہوں۔ اللہ تعالی اسے دنیا اور آخرت میں سربلند کرے۔
والدہ کی بھی لگ بھگ یہی حالت تھی۔ ابراہیم سے ماں کا تعلق ایسا تھا کہ ابراہیم کی ہر بات مانتی تھیں۔ البتہ ہماری ماں دنیا دیکھی ہوئی ایک سمجھدار خاتون تھیں۔ ہماری فیملی یا ہمسایے میں کوئی بھی مشکل پیش آئے وہ اس کے حل کے لیے ہمارے گھر کی طرف رجوع کرتے تھے۔ ہمارا گھر حقیقی معنوں میں ایک عدالت کا منظر پیش کرتا تھا اور اس میں قاضی ہماری والدہ ہوتی تھیں۔
جب بھی کوئی اپنی مشکلات بتاتا تو ہماری والدہ اس کا بہترین راہ حل پیش کرتیں۔ ان کی ہمیشہ کوشش ہوتی تھی جوانوں کی زندگی میں کوئی خلل نہ آئے۔ میں نے بہت ساری ایسی خاندان دیکھے جو ہماری والدہ کی نصیحتوں کی وجہ سے بکھرنے سے بچ گئے۔
ابراہیم بھی والدہ سے کچھ کم نہ تھا۔ ماں کی باتوں اور نصیحتوں کو اس نے سنا ہوا تھا۔ کئی دفعہ فیملی کے معاملات میں اس نے مداخلت کی۔ میں اعتراض کرتے ہوئے اس سے کہتا تھا: “یہ سارے لوگ تم سے بڑے ہیں۔ تمہاری ابھی شادی بھی نہیں ہوئی۔ کیوں ان معاملات میں ٹانگ اڑاتے ہو؟” لیکن وہ ان معاملات کو بخوبی سلجھاتا تھا۔
ہمارے ہمسایے میں موجود ایک لڑکے نے ایک تاجر کی بیٹی سے شادی کی۔ دلہن کا باپ ابراہیم کے دوستوں میں سے تھا۔ ابھی شادی کو کچھ ہی مدت گذری تھی کہ ان کے گھر سے لڑنے جھگڑنے کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ معاملات یہاں تک پہنچے کہ ایک دن گلی میں میاں بیوی آپس میں لڑ پڑے۔ کچھ لوگ درمیان میں آئے اور ان سب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ اب ان کو ایک دوسرے سے جدا ہونا چاہیے۔ اب ایک دوسرے سے بن نہیں سکتی۔
وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ زندگی گذارنے لگے۔ ایک دن ابراہیم اس لڑکی کے شوہر کے پاس گیا۔ محلے میں سب لوگ ابراہیم کو ایک مومن پہلوان کے عنوان سے جانتے تھے۔ ابراہیم کی چونکہ لڑکی کے والد سے دوستی تھی چاہتے تھے کسی طرح یہ ازدواجی زندگی بچ جائے۔ ہمارے گھر کے ساتھ سیڑھیوں پر وہ دونوں بیٹھے اور ابراہیم نے کئی گھنٹے اس سے بات کی۔ اگرچہ اس لڑکے کی عمر ابراہیم سے زیادہ تھی لیکن وہ آرام سے بیٹھ کر ابراہیم کی باتیں سن رہا تھا۔ آخرکار ابراہیم گھر واپس آیا اور سیدھا ماں کی طرف گیا۔ ماں کو اس نے ساری تفصیلات سنائیں۔
ابراہیم نے والدہ سے پوچھا: اب کیا کہنا چاہیے؟ یہ لڑکا تو میری بات مان رہا ہے۔
والدہ نے ابراہیم کو وہ ساری باتیں بتائیں جو اس لڑکے سے مزید کہنی چاہیے تھیں۔
اس کے بعد ابراہیم کے اصرار پر ہماری والدہ اس لڑکی کے گھر گئیں۔ کئی نشستوں میں انہوں نے باتیں کیں۔ ہماری والدہ جیسا کہتی گئیں ابراہیم اس پر عمل کرتا گیا۔ داماد بھی چونکہ ابراہیم کی باتوں کو قبول کرتا تھا اس نے بھی ساری باتوں پر عمل کیا۔
اگرچہ بہت سارے لوگوں نے ابراہیم کو اس کام سے منع کیا تھا لیکن آخرکار ابراہیم کا خلوص نتیجے تک پہنچ گیا۔ میاں بیوی دوبارہ ایک ساتھ زندگی گذارنے لگے۔ کچھ سالوں بعد جب ابراہیم محاذِ جنگ پر مشغول تھا اس فیملی کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی۔ آج اس واقعے کو چالیس سال گذر چکے ہیں اور وہ لوگ خوشحال زندگی گذار رہے ہیں۔ ان کے پوتے پوتیاں بھی ہیں۔
وہ لوگ اپنی ساری زندگی کو ابراہیم کی کاوشوں کا ثمر جانتے ہیں۔ ابراہیم کا یہ کام حضرت امیرالمومنینؑ کے اس نورانی کلام کا مصداق ہے جب آپ نہج البلاغہ کے مکتوب ۴۷ میں فرماتے ہیں: “لوگوں کے درمیان صلح کروانا سالوں کی مستحب نمازوں اور روزوں سے افضل ہے۔”
*****
ابراہیم محاذ پر تھا اور والدہ ہمیشہ کی طرح پریشان۔ جب کبھی ابراہیم چھٹیاں گزارنے گھر آتا والدہ بہت زیادہ خوشحال ہوتیں اور اس کی خدمت میں مصروف ہو جاتیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ابراہیم کی جدائی کے داغ نے والدہ کو چلنے پھرنے سے معذور کر دیا۔ جس وقت ابراہیم کی شہادت کی خبر آئی اور ابراہیم کے جنازے کی کہیں سے کوئی خبر نہ ملی تب ماں کی حالت نہیں دیکھی جاتی تھی۔ حاج حسین اللہ کرم کچھ فوجی جوانوں کے ساتھ ہمارے گھر آئے اور ابراہیم کی شہادت کی قطعی خبر سنائی۔۔۔ لیکن۔۔۔
ہر روز کوئی آتا اور نئی خبر سنا جاتا۔ کوئی کہتا: ان کی آواز ہم نے عراقی ریڈیو سے خود سنی ہے۔ وہ زندہ ہے۔ دوسرا آکر کہتا: ابراہیم شہید ہوئے ہیں۔ سپاہیوں نے انہیں دیکھا ہے۔۔۔ یہاں تک کہ اس کے لیے قل کی مجلس بھی رکھی گئی۔
اس مجلس کے فورا بعد، جب ہماری والدہ ذہنی طور پر قبول کر چکی تھیں کہ ابراہیم شہید ہو چکے ہیں، ایک شخص آیا اور اس نے ابراہیم کے زندہ ہونے کی خبر سنائی۔ اس شخص نے کہا: میں چاہتا ہوں جن کی مدد لوں تاکہ جن آئینے میں آکر بتا دے کہ ابراہیم زندہ ہیں یا نہیں؟ اگلے روز اس نے خوشی خوشی آکر والدہ کو خوشخبری سنائی کہ جنات کے مطابق ابراہیم زندہ ہے۔
اس طرح کی باتیں، شہادت کی خبر سے بڑھ کر، والدہ کو دکھ اور اذیت پہنچاتی تھیں۔ غم اندر ہی اندر ان کو کھائے جا رہا تھا۔ ابراہیم کی تصویر کے سامنے بیٹھ کر زار زار گریہ کرتی تھیں۔ جب عراقی زندانوں میں موجود قیدی واپس آئے اور ابراہیم کی کوئی خبر نہ ہوئی تب ان کے دکھ میں اور اضافہ ہوا اور ان کی حالت مزید خراب ہوگئی۔
ان کی حالت یہاں تک پہنچی کہ فریج تک جاتی تھیں اور اس میں سے برف نکال کر کھاتی تھیں۔ کہتی تھیں: میرا دل جلتا ہے شاید اس طرح کچھ آرام آجائے۔
نومبر 1993 کے دن تھے۔ میں والدہ کے گھر گیا تو دیکھا کہ ان کے دل میں شدید درد ہے۔ میں اصرار کر کے ان کو ہسپتال لے گیا۔ انہیں ایمرجنسی وارڈ میں شفٹ کیا گیا۔ ڈاکٹر نے معاینہ کے بعد کہا ان کی حالت بہت خراب ہے۔ میں وارڈ کے باہر بیٹھا رہا۔ میں منتظر تھا ڈاکٹر ان کو چھٹی دیں گے اور میں گھر ساتھ لے جاؤں گا۔ اس سے پہلے بھی چند بار اس طرح کا واقعہ پیش آچکا تھا۔
تقریبا دو گھنٹے بعد ڈاکٹر میرے پاس آیا اور فورا سے کہہ دیا: تسلیت عرض کرتے ہیں۔
میری آنکھیں گویا باہر کو آرہی تھیں۔ میں نے کہا: کیا؟ کیا آپ درست کہہ رہے ہیں؟ میری ماں کی حالت اتنی بھی خراب نہ تھی۔ میں فورا ان کے بستر کی طرف دوڑا۔ وہ آرام اور سکون کے ساتھ سو رہی تھیں۔ وہ ابراہیم کی جدائی کو مزید برداشت نہیں کر سکتی تھیں سو اپنے بیٹے سے جا ملیں۔
بندۂ خدا
عباس ہادی
ہمارا چھوٹا سا گھر شہید عجب گل روڈ پر، تجلی نام کی بند گلی میں واقع تھا۔ کرایے کے گھروں میں ایک عرصہ گزارنے کے بعد والدین نے یہ گھر خریدا اور کرایے کے گھروں سے ہماری جان چھوٹی۔ ہم جب اس گھر میں تھے ابراہیم نے والد اور بھائی کے ساتھ مل کر پرانے کھیلوں کی تمرین شروع کی۔ اسی گھر میں ابراہیم انجمن کی محفلیں برگزار کرتا تھا۔ وہ محلے کے بہت سارے جوانوں کو اس انجمن کی طرف کھینچ لایا۔ ہمارے گھر میں دو ہی کمرے تھے جن میں سے ایک کا دروازہ دوسرے میں کھلتا تھا۔ گھر میں زیادہ کھلی جگہ نہ تھی۔ اس کے باوجود اس گھر میں اکثر مجالس و محافل برگزار ہوتی تھیں۔
ہمارے والد کی عادت تھی گھر کے دروازے کے باہر ایک بلب جلاتے تھے تاکہ باہر کی تنگ و تاریک گلی رات کو روشن رہے۔ اگرچہ ہفتے میں ایک بار یہ بلب چوری ہو جاتا تھا۔! اسی طرح والد صاحب کہا کرتے تھے: صبح سے شام تک گھر کا اصلی دروازہ کھول کر رکھو تاکہ ہمسایوں میں سے کسی کو کوئی چیز چاہیے ہو تو وہ آسانی سے گھر آسکے۔
ایک رات کا واقعہ ہے کہ ہمارے گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور ہم سب گھر والے دسترخوان پر بیٹھے رات کا کھانا کھانے میں مشغول تھے۔ جب کھانا ختم ہوا، دسترخوان جمع کیا گیا، اچانک ایک شخص اندر داخل ہوا اور اس نے کہا: یا اللہ ۔۔۔ والدہ نے فورا اپنی چادر ٹھیک کی، والد صاحب نے، جو کمرے کے کونے میں سماور کے پاس بیٹھے تھے، آواز دی: تشریف لائیے۔
میں نے پوچھا: بابا کون ہے؟
کہا: بندۂ خدا ہے۔ نہیں معلوم کون ہے؟
وہ شخص صحن تک آیا اور اس نے سلام کیا۔ جب کمرے کے پاس پہنچا اس نے کہا: مجلس ختم ہوگئی؟
والد صاحب نے کہا: تشریف لائیے، بیٹھیے، میں آپ کے لیے چائے ڈالتا ہوں۔
وہ بے چارہ واقعا سمجھ رہا تھا کہ ابھی مجلس ختم ہوئی ہے۔ اسی جگہ والد صاحب کے ساتھ بیٹھ گئے اور چائے پینے لگے۔ جب اس کی نظر ہمارے ٹراوزرز اور والدہ کی رنگین چادر پر پڑی سب کچھ سمجھ گیا۔
بہت زیادہ شرمندہ لگ رہا تھا لیکن والد محترم ان کے ساتھ انتہائی خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ جلدی سے انہوں نے چائے ختم کی پھر معذرت خواہی کرتے ہوئے چلے گئے۔
ابراہیم نے پوچھا: بابا جان آپ انہیں جانتے تھے؟
کہا: نہیں بیٹا۔ آج توفیق حاصل ہوئی، ایک بندۂ خدا ہمارے گھر آیا اور عشقِ امام حسینؑ میں اس نے ایک پیالی چائے کی پی لی۔
اگرچہ اقتصادی حوالے سے ہمارے والد کی حالت اتنی اچھی نہیں تھی لیکن ان کا دل وسیع اور ہاتھ کھلا تھا۔ جہاں تک ممکن ہوتا امام حسینؑ کے نام پر خرچ کرتے۔ انہوں نے اپنے آپ کو ہیئت حضرت علی اصغرؑ کے نام وقف کیا ہوا تھا۔
اس نیک اخلاق اور صفات کی وجہ سے اللہ تعالی نے انہیں نیک اور صالح بیٹوں سے نوازا تھا۔ ابراہیم ہائی اسکول کے ابتدائی سالوں میں تھا کہ اسے باپ کی جدائی اور یتیمی کا روگ سہنا پڑا۔ ہمارے والد کی عمر اس وقت 60 سال تھی۔ انہوں نے ایک بابرکت عمر پائی اور 1974ء میں وفات پاگئے۔
والیبال
مہدی محمدی
میں ہائی سکول کے پہلے سال میں تھا۔ ہمارے سکول کا نام کریم خان زند ہائی اسکول تھا۔ سکول میں ہر قسم کے طالب علم تھے جن کی عمریں بھی مختلف تھیں۔ مجھے یاد ہے کچھ طالب علم ڈرائیونگ بھی کرتے تھے اور سکول ٹائم کے بعد گاڑی چلاتے تھے۔ بعض جرائم اور منشیات میں بھی ملوث تھے۔
سکول میں دوست بناتے ہوئے میں ڈرتا تھا یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اپنے ایک خاص بندے کو میری زندگی میں شامل کیا۔ پھر اپنی پوری زندگی میں اس جیسا دوسرا نہیں دیکھا۔ ایک دن کھیل کے اوقات میں سینئرز کے ساتھ والیبال کھیلنے میں مشغول تھا۔ میری پوری کوشش تھی اپنی استعداد اور صلاحیت کوچ کے سامنے آشکار کروں تاکہ وہ سکول کی ٹیم کے لیے میرا بھی انتخاب کرے لیکن سینئرز کے قد اور ہیکل کی وجہ سے ہم جیسوں کے لیے ٹیم میں کوئی جگہ نہیں بن پاتی تھی۔
ایک دن کلاس کے اندر کھیل کے استاد نے منتخب کھلاڑیوں کا اعلان کیا۔ میں دکھی تھا چونکہ میرا نام شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ابراہیم والیبال ٹیم کے مشہور کھلاڑی تھے۔ انہوں نے مجھے اس حالت میں دیکھا تو کہا: “آج بعد از ظہر یاد رکھنا، صدری کلب میں پریکٹس کے لیے آجانا۔”
میں نے کہا: میرا انتخاب نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا: تمہیں اس سے مطلب نہیں ہے۔ پریکٹس کے لیے آجانا۔
ابراہیم نے خود کھیل کے استاد سے بات کی اور میری توانائیوں کی تعریف کی۔ ابراہیم کے اصرار پر میں پریکٹس کے لیے چلا گیا۔
بہت سارے لوگ میرا مذاق اڑا رہے تھے چونکہ میں ان سے عمر میں چھوٹا تھا اور ان کی جگہ کھیل رہا تھا جبکہ ابراہیم کھیل کے دوران مسلسل مجھے “پاس” دے رہے تھے اور میری تعریف کر رہے تھے۔
اگلے دن سکول میں کھیل کے پیریڈ میں، میں ابراہیم کے پاس چلا گیا۔ وہ واحد شخص تھے جو مجھ سے اچھے انداز میں پیش آتے تھے۔ میرے ساتھ انہوں نے بات کی۔ ان کے ساتھ دوستی مجھے لذت بخش محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے دیکھا کے سکول کے سارے طالب علم ابراہیم کا احترام کرتے ہیں۔ ان کی شخصیت ہی ایسی تھی کہ سکول کے اساتید بھی ان کے ساتھ احترام سے پیش آتے تھے۔
اگلے روز جب میں سکول سے پریکٹس کے لیے جانا چاہ رہا تھا ابراہیم نے مجھ سے چند باتیں کیں۔ انہوں نے کہا: “آغا مہدی، کھیل کا ماحول معنوی ماحول ہے۔ کوشش کریں اپنے سارے کام یہاں تک کہ ورزش صرف خدا کے لیے ہو۔ اگر نماز نہیں پڑھی یا غسل واجب ہے تو پہلے جاؤ، پاک و پاکیزہ ہو اور پھر۔۔۔ “
میں نے کہا: نہیں آغا ابراہیم۔ میں نے صبح کی نماز پڑھی ہے۔ میں خود ان مسائل کی طرف متوجہ ہوں۔ تمرین کے بعد نماز پڑھوں گا۔
ابراہیم نے کہا: “پس نماز ظہر بھی اول وقت پڑھنے کی کوشش کرو۔ بلکہ یوں کرو کل سے تمرین کے لیے جانے سے پہلے مسجد چلتے ہیں اور باجماعت نماز پڑھتے ہیں۔”
میں نے بات قبول کی۔ ان کی شخصیت میرے نزدیک اتنی محبوب تھی کہ وہ جو بھی کہتے تھے میں قبول کرتا تھا۔ ابراہیم کے ساتھ میری دوستی روز بروز بڑھتی چلی گئی۔ میں اس بات پر خوش تھا کہ ہمارے سکول کے محبوب ترین طالب علم سے میری دوستی ہوگئی تھی۔ وہ کھیل اور ورزش کے دوران غیر محسوس طریقے سے مجھے نصیحت کرتے تھے۔ کہتے تھے: “کس کے ساتھ دوستی کرنی ہے اس حوالے سے احتیاط کرو۔ احتیاط کرو تمہاری گردن پر کسی کا حق نہ ہو۔ کسی پر بھی ظلم نہ کرو۔۔۔”
کچھ عرصے بعد میں کلب کے اندر پریکٹس میں مشغول تھا۔ کچھ معروف کھلاڑی وہاں آئے۔ والیبال اور فٹبال کے مشہور کھلاڑِی علی پروین بھی ان میں تھے۔ بہت سارے دوسرے لوگ بھی ان کو دیکھنے گراونڈ میں جمع تھے۔ نہیں معلوم کسی نے ان کی موجودگی میں وہاں ابراہیم کی تعریف کی۔ ان سے کہا آپ تین اکیلے ابراہیم کے ساتھ مقابلہ کر سکتے ہیں؟ وہ لوگ مان گئے۔ ایک طرف ابراہیم تنہا، دوسری طرف یہ تین مشہور کھلاڑی۔ جو لوگ والیبال دیکھنے آئے تھے سب ابراہیم کی ہمت بڑھا رہے تھے۔
گراونڈ میں عجیب شور و غل بپا تھا۔ آخرکار ابراہیم نے ان تینوں کو شکست دی۔ مجھے یاد ہے علی پروین نے تعجب کے ساتھ ابراہیم کی طرف دیکھا۔ دن گزرتے گئے یہاں تک کہ ایک دن سکول میں ابراہیم نے مجھ سے کہا: “آجاؤ، میرے ساتھ ایک ایک کا مقابلہ ہو جائے؟!”
کھیل شروع ہوا۔ کلاس کے سارے طالب علم گراونڈ کے گرد جمع تھے۔ ابراہیم اپنے معمول سے ہٹ کر ایسے “سرویس” مار رہا تھا کہ میں آسانی سے اٹھا سکوں۔ میری بھی کوشش تھی اپنی پوری صلاحیت دکھاؤں اگرچہ میں جانتا تھا وہ اکیلے کئی کھلاڑیوں پر بھاری ہے۔ اس روز، میں ابراہیم سے جیت گیا۔ حقیقت یہ تھی کہ ابراہیم جان بوجھ کر ہارا تھا۔ اپنے ہم جماعتیوں کے سامنے میرا سر فخر سے بلند ہوا۔ اس جیت کی لذت آج بھی محسوس کرتا ہوں جبکہ ابراہیم اس بات پر خوش تھا کہ میں خوش ہوں۔
جھگڑا
سید محسن مرتضوی
ہمارے محلے کے جوانوں کی حالت روز بروز بگڑتی جا رہی تھی۔ ہر روز میں مغرب کے وقت جوانوں کے مختلف گروہوں کو شراب خانوں کی طرف جاتے ہوئے دیکھتا تھا۔ تہران کے جنوبی علاقے میں اس طرح کے فساد کے مراکز کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا تھا جبکہ اہلِ دین و ایمان کی تعداد میں کمی آرہی تھی۔ یہ نشے کے عادی مست جوان متدین لوگوں کو تنگ کرتے تھے۔
ستر کی دہائی میں اس طرح کی صورت حال ہمارے محلے میں بھی تھی۔ میری پرورش ایک دینی گھرانے میں ہوئی تھی لیکن اس طرح کے جوانوں کو محلے میں دیکھتا رہتا تھا۔ مجھے خوف تھا کہ فساد کا یہ سیلاب مجھے بھی بہا لے جائے گا۔
ایک عرصے سے میں نے حاج حسن نجار کے اکھاڑے میں جانا شروع کیا ہوا تھا۔ کچھ جسم وغیرہ بھی بنا لیا تھا۔ ایک روز ہمیں پتہ چلا کہ ہماری گلی کے کونے میں کچھ جوان راہ چلتی خواتین کو تنگ کرتے ہیں۔ اپنے کچھ دوستوں جیسے مہدی حسن قمی، سید جواد مجد پور وغیرہ کے ساتھ ہم ان جوانوں کی طرف چل پڑے تاکہ ان کو صحیح طرح سبق سکھائیں۔ مہدی کا قد اور جسم اگرچہ چھوٹا تھا لیکن اس نے ایک قمہ ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اور مسلسل بلند آواز سے پکار رہا تھا۔ ابھی صحیح طرح ہماری لڑائی شروع نہیں ہوئی تھی کہ چند لوگوں نے آکر ہمارے درمیان صلح کرا دی۔
انہی کے درمیان میں نے ابراہیم ہادی کو پہلی بار دیکھا۔ ابراہیم پہلے سے مہدی کے دوست تھے اور مجھے بھی جانتے تھے لیکن میری ان سے ملاقات نہیں تھی۔ اس لڑائی کے بعد ہماری گلی کے ان لڑکوں کے ساتھ دوستی ہوگئی۔ ابراہیم نے لڑائی ختم کرانے کے بعد میری طرف رخ کیا اور پوچھا: “آپ کی مصروفیات کیا ہیں؟ فارغ اوقات میں کیا کرتے ہیں؟” میں نے کہا: “دن کو بازار میں کام کرتا ہوں اور رات کو اکھاڑے جایا کرتا ہوں۔ اگر چاہتے ہیں تو آپ بھی آجائیے۔ یہاں سے نزدیک، سڑک کے اس پار، مسجد سلمان کے ساتھ۔ حاج حسن نجار کا اکھاڑا۔”
ابراہیم نے بات قبول کی اور کہا: “ان شاء اللہ رات کو خدمت میں پہنچوں گا۔”
رات کو میں معمول سے پہلے چلا گیا اور تیار ہوا۔ ورزش کے اس ماحول میں نیا آیا تھا۔ اپنے آپ سے کہا: “جب ابراہیم آئے تو اسے پتہ چلے گا کہ میں ورزش میں ماہر ہوں۔ اس لڑائی میں بھی میں سب کے چھکے چھڑا سکتا تھا۔۔۔”
تمرین شروع ہوئی اور کچھ دیر بعد ابراہیم اپنے دوستوں کے ہمراہ پہنچ گئے۔ ان کے قدم رکھتے ہی حاج حسن اپنی جگہ سے بلند ہوئے اور کہا: “خوش آمدید۔ آغا ابراہیم ہادی، پہلوان! خوش آمدید۔ کیسے آج اس طرف؟!۔۔۔”
میں حیران ہوا۔ میں چاہتا تھا ابراہیم کے سامنے اپنی صلاحیت منواؤں لیکن وہ خود سب سے زیادہ مہارت رکھتا تھا۔
اس رات میں نے دوستوں سے سنا کہ ابراہیم اس وقت استاد شیرگیر کے اکھاڑے کے بہترین کشتی لڑنے والوں میں سے ایک ہیں۔ بہرحال میں اپنی جگہ بہت شرمندہ ہوا۔ مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس دن کی لڑائی کے بعد میری اور ابراہیم کی ایسی دوستی بنے گی۔ کچھ مدت بعد ہمارے دن رات ایک ساتھ گذرنے لگے۔ ابراہیم میری پوری زندگی بن چکا تھا۔
ابراہیم مجھ سے دو سال بڑے تھے۔ ایک بڑے کی طرح ان کی پوری توجہ مجھ جیسوں پر تھی کہ میں کہاں جاتا ہوں؟ کس سے ملتا ہوں؟ و۔۔۔
جرات کے ساتھ کہتا ہوں کہ میں ایک مذہبی گھرانے میں پلا بڑھا ہوں لیکن اگر ابراہیم ہمارا خیال نہ رکھتے تب نہیں معلوم ہمارا انجام کیا ہونا تھا؟ مجھے یقین ہے اگر اللہ تعالی نے ابراہیم کو ہماری زندگی میں شامل نہ کیا ہوتا تب اس دور کے جوان جس فساد میں مبتلا تھے وہ ہمیں بھی نابود کر دیتا۔
مزید وضاحت دینا چاہتا ہوں۔ ابراہیم جیسے جوان نے اس دوران اپنا پورا وجود مجھ جیسوں کے ہدایت کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ ہم صبح سے عصر تک بازار میں کام کرتے تھے۔ مغرب کی نماز مسجد میں پڑھتے تھے اور پھر ابراہیم اور چند دیگر دوستوں کے ساتھ اکھاڑے جایا کرتے تھے۔ بعض اوقات رات بارہ بجے تک ورزش میں مشغول ہوتے تھے۔ جب گھر واپس آتے تھکاوٹ کے مارے فورا سو جاتے۔ اس طرح محلے کے خراب لڑکوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا وقت ہی نہیں ملتا تھا۔
ابراہیم نے مجھ جیسوں کے تمام اوقات کو مشغول کر رکھا تھا۔ چھٹی والے دن مل کر ہائیکنگ کے لیے جاتے تھے۔ بعض اوقات امام زادہ داؤدؑ کی زیارت کے لیے پیدل چل پڑتے۔ وہ ہمارے لیے اخلاق کا کامل نمونہ تھے۔ ان کی نصیحتیں اب بھی ذہن کو چھو رہی ہیں۔ وہ اس حوالے سے گفتگو کرتے رہتے تھے کہ ایک جوان کو کیسا ہونا چاہیے۔!
وہ کتنے خوبصورت دن تھے۔ اللہ تعالی نے زندگی کے بدترین دنوں میں اپنے بہترین بندوں سے مجھے ملایا۔ ابراہیم ہادی، حاج حسین نجار جیسے لوگ۔۔۔
دن گذرتے گئے۔ ہم شب و روز ابراہیم کے ساتھ تھے۔ وہ ہمیں جوان مردی کا درس دیتے تھے۔ ابراہیم کی دوستی نے ہمیں مسجد اور اول وقت کی نماز کا پابند بنایا۔ یہ سب اس زمانے کی بات ہے جب بہت سارے لوگ مسجد اور انجمن جانے والے جوانوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔
انجمنِ وحدت اسلامی کی بنیاد پڑی۔ ابراہیم اس میں مداحی کیا کرتے تھے۔ انہوں نے ہمیں اہل بیت کرامؑ سے جوڑا۔ آہستہ آہستہ جوانوں میں انقلابی روح بیدار ہوئی۔ امام راحلؒ کی مسیحائی سانسیں بہت سوں کو خدا اور معنویات کی طرف کھینچ لائیں۔ جبکہ ابراہیم کی بات ہی الگ تھی۔ وہ انقلاب سے پہلے ہی ایک مومن اور حزب اللہی جوان تھے۔ معنویات کے علاوہ ابراہیم نے ہمیں دوسروں سے ملنے کے آداب اور طریقے بھی سکھائے۔
مجھے یاد ہے مشیریہ کے علاقے میں ایک اکھاڑہ تھا جسے ایک ستر سالہ بزرگ چلاتے تھے۔ ایک رات دوستوں نے کہا آج ورزش کے لیے اس اکھاڑے میں جاتے ہیں۔ ہم چند موٹر سائکلوں پر سوار ہوئے اور وہاں چلے گئے۔ ہمیں توقع تھی کہ باقی اکھاڑوں کی طرح وہ بھی ہمارے ساتھ گرم جوشی سے پیش آئیں گے، لیکن وہاں معاملہ برعکس تھا۔ ہمیں وہاں ورزش کرنے کی اجازت ہی نہیں ملی۔
ہمارے کچھ ساتھیوں نے باہر نکلتے وقت کچھ بے ادبی کی۔ کچھ نے کہا: “چلیں واپس چلتے ہیں اور ان کے ساتھ لڑتے ہیں۔” لیکن ابراہیم نے بلند آواز سے کہا: “یہ کس طرح کی باتیں ہیں؟ کوئی واپس گیا تو میں اسے دیکھ لوں گا۔!”
اگلے روز مشیریہ کے اکھاڑے کے مالک کو بازار میں دیکھا۔ میں نے سلام کے بعد گزشتہ رات پیش آنے والے واقعے پر معذرت کی۔
بوڑھے مرد نے کہا: “کوئی بات نہیں۔ کوئی مسئلہ نہیں۔ تمہارے سب دوستوں نے بے ادبی کی سوائے اس جوان کے جس کی لمبی سی داڑھی تھی۔” اس کے بعد ابراہیم کی خوب تعریفیں کی۔
ابراہیم کی شہادت کے کئی سال بعد میرا اسی اکھاڑے جانا ہوا۔ اس تاریخی اکھاڑے میں ابراہیم کی بڑی سی تصویر لگی ہوئی تھی۔۔۔
بزرگوں کے حالات
امیر منجر
ایک عرصے سے علماء اور بزرگان کے حالات کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ ان کے بعض حالات اور واقعات ہمارے لیے انتہائی خوبصورت اور جذاب ہیں۔ اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ میں اپنی زندگی میں ایک ایسے بزرگ کے ساتھ رہ چکا ہوں جن میں ان سارے حالات کا میں نے انتہائی قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔
ہمارا گھر ابراہیم کے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر تھا۔ میں اور ابراہیم ہم عمر تھے۔ ہماری مائیں آپس میں رشتہ دار بھی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ بچپن سے ہمارا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا کچھ زیادہ تھا۔ انقلاب کے ایام میں یہ آمدورفت کچھ بڑھ گئی لیکن دفاعِ مقدس کے دوران اپنی ذمہ داریوں کی وجہ سے بہت کم ابراہیم کے گھر جانا ہوا۔ اس دوران ابراہیم کے وجود کے فیض سے محروم ہی رہا۔
میں بہت سارے شہداء کا ساتھی تھا۔ دفاع مقدس کے بہت سارے سرداروں کی زندگی انتہائی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ایک مدت تک شہید محمد بروجردی کے ساتھ کام کیا۔ میں جرات کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ابراہیم کی زندگی ان سب سے مختلف تھی۔ وہ ایک الگ ہی انسان تھے۔
انقلاب کے آغاز کے ساتھ بہت سارے لوگوں کے وجود میں بھی انقلاب آیا اور وہ دیندار بن گئے۔ لیکن ابراہیم انقلاب سے پہلے بھی ایک خاص معنوی شخصیت تھے۔ وہ نہ صرف مستحبات اور مکروہات کی رعایت کرتے تھے بلکہ ان کی معنوی لطیف روح ایسی تھی کہ معاشرے کا کوئی بھی نیک فرد ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔
ایک مثال پیش کرتا ہوں تاکہ آپ ان کی روح کی لطافت محسوس کریں۔ انقلاب سے پہلے کی بات ہے میں ابراہیم کے ساتھ کہیں جا رہا تھا۔ میدان خراسان کے ساتھ ہی فٹ پاتھ پر ہم چل رہے تھے۔ ایک مرتبہ ابراہیم نے اپنی رفتار کم کی۔ میں نے پیچھے پلٹ کر پوچھا: کیا بات ہے؟ کیا ہمیں جلدی نہیں تھی؟
اسی طرح آہستہ چلتے چلتے میری طرف اشارہ کیا اور کہا: تھوڑا آہستہ چلو، اس شخص سے آگے نہیں ہونا۔
میں نے اس طرف نگاہ کی جس طرف ابراہیم نے اشارہ کیا تھا۔ ایک شخص ہم سے آگے راہ چل رہا تھا۔ معذور ہونے کی بنا پر وہ اپنا ایک پاؤں زمین پر کھینچتے ہوئے آہستہ آہستہ راستہ چل رہا تھا۔
ابراہیم نے کہا: اگر ہم تیز تیز چلتے ہوئے اس شخص سے آگے نکل گئے تو وہ محسوس کرے گا کہ ہماری طرح راستہ نہیں چل سکتا۔ تھوڑا آہستہ چلو تاکہ اسے محسوس نہ ہو۔
میں نے کہا: آغا ابراہیم، ہمیں آگے کام ہے، یہ کس طرح کی باتیں ہیں؟ جلدی چلیں۔ ہم اس گلی سے چلتے ہیں تاکہ معذور شخص کے آگے سے نہ گزرنا پڑے۔
ابراہیم نے بات قبول کی اور ہم ساتھ والی گلی سے نکل گئے۔
جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو اپنے آپ سے کہتا ہوں: ابراہیم کشتی کا ماہر پہلوان تھا۔ وہ اس قدر ماہر تھا کہ صرف تیس سیکنڈز میں ماہر ترین اپنے ہم وزن کشتی کے کھلاڑیوں کو زمین پر دے مارتا تھا۔
لیکن اسی انسان کا دل اس قدر نرم اور مہربان تھا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی توجہ دیتا تھا۔ اس دن اگرچہ ہمیں جلدی تھی لیکن وہ اس بات پر راضی نہ تھا کہ ایک معذور کا دل ہماری وجہ سے ٹوٹے۔۔۔ اسے کوئی دکھ پہنچے۔
*****
میں نے ابراہیم کو کبھی اپنی ذاتی خواہشات کے پیچھے بھاگتے نہیں دیکھا۔ اس کے ہاں لذت کی تعریف کچھ اور ہی تھی۔ اگر کسی کا دل خوش کرتے تو اس سے زیادہ وہ خود لذت محسوس کرتے، جیسے امیر المومنینؑ کی حدیث ہے: “پست انسان کھانا کھا کر لذت محسوس کرتا ہے جبکہ کریم انسان دوسروں کو کھلا کر لذت حاصل کرتا ہے۔” ابراہیم کے ہاتھ میں اگر پیسے ہوتے تب وہ دوسروں کی ضرور مدد کرتے تھے۔ اپنے لیے سب سے کم پر قانع ہوتے لیکن جہاں تک ممکن ہوتا دوسروں کی مدد کرتے۔
ہمارے محلے کے اطراف میں ایک بوڑھے شخص کی دکان تھی جنہیں ہم عمو عزّت کہتے تھے۔ وہ قدیم پہلوانوں میں سے تھے۔ جب بھی ہم ان کی دکان پر جاتے وہ پرانی پہلوانی کے قصے ہمیں سناتے۔ ابرہیم نے کچھ بھی خریدنا ہو ان کی دکان پر جا کر خریدتے۔ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے جاتے تاکہ یہ بزرگ کچھ کما لیں۔ ایک مدت بعد عمو عزت کی دکان بند ہوگئی۔ ہم نہیں جانتے تھے وہ کہاں چلے گئے ہیں؟ زندہ بھی ہیں یا نہیں؟ البتہ یہ باتیں میرے لیے اتنی اہم بھی نہیں تھیں۔
ایک دن ہم خیابان رَی کے پاس سے موٹر سائیکل پر گزر رہے تھے۔ ابراہیم نے آواز دی: “امیر، رکو۔”
میں نے فورا بائک روک دی اور پوچھا: کیا ہوا؟
ابراہیم جلدی سے نیچے اترے اور فٹ پاتھ کی طرف چلے گئے۔ پھر خوشی خوشی میری طرف واپس آئے اور کہا: امیر ادھر آؤ، عمو عزّت یہاں ہیں۔
میں بھی چلا گیا۔ عمو عزت سڑک کنارے ایک وزن والا ترازو لیے بیٹھے تھے تاکہ لوگوں کے وزن بتائیں اور کچھ پیسے کمائیں۔
ابراہیم پاس چلے گئے اور کہا: کہاں ہو پہلوان؟! آپ کی دکان کیوں بند ہے؟
عمو عزت نے ایک آہ بھری اور کہا: زمانے نے دکان ہم سے چھین لی۔ انسان اب کس پر اعتماد کرے؟ اپنا بیٹا اگر دکان لے اور پھر بیچ دے۔۔۔ انسان کیا کرے؟
انہوں نے اپنی بات جاری رکھی: ایک مدت تک میں بے کار تھا۔ پھر ایک دکان دار نے مجھے یہ ترازو خرید کر دیا تاکہ کچھ پیسے کما لوں۔ اب اپنے گھر بھی نہیں جاتا تاکہ میری نظر بیٹے پر نہ پڑے۔ بیٹی کا گھر یہیں قریب میں ہے، اس کی طرف جاتا ہوں۔
ابراہیم کو بہت افسوس ہوا۔ کہا: عمو آجائیں، آپ کو گھر تک پہنچاتے ہیں۔ شام ہونی والی ہے۔
ہم نے موٹر سائیکل پر عمو عزّت کو ان کی بیٹی کے گھر پہنچایا۔ ان کی بیٹی کی معاشی حالت خود ان سے بدتر تھی۔ تیس میٹر کے ایک گھر میں وہ لوگ رہ رہے تھے۔
ابراہیم نے مجھ سے پوچھا: تمہارے پاس کتنے پیسے ہیں؟ مجھے ابھی کچھ دن پہلے تنخواہ ملی تھی، سترہ سو تومان ابراہیم کو دئیے۔ انقلاب کے زمانے میں یہ ایک بڑی رقم تھی۔ اس نے سارے پیسے عمو عزّت کی جیب میں ڈال دئیے اور اس بابت معذرت بھی کی کہ ایک مدت تک ہم ان سے غافل رہے۔
واپسی پر میں سوچ رہا تھا کہ ابراہیم میں کتنا ایثار ہے؟! کتنی آسانی کے ساتھ دنیا اور اس کی آسائشوں سے منہ موڑ لیتے ہیں؟! کسی انسان کو خوش کرنا ان کے نزدیک کتنی اہمیت رکھتا ہے؟!
ایک عرصے بعد ابراہیم نے ادھار کے وہ پیسے مجھے واپس کر دیے۔
ابراہیم نے اپنی ایک ماہ کی مکمل کمائی عمو عزّت کو دی تھی۔ اس کے لیے یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی کہ اتنے پیسوں کے لیے اسے ایک ماہ تک مسلسل بازار میں سختی کے ساتھ کام کرنا پڑے گا۔
ان کے یہ کام امیر المومنینؑ کی اس بات کی یاد تازہ کرتے ہیں جب آپ نے اپنے ساتھی عثمان بن حنیف کے بارے میں فرمایا تھا: “راہِ خدا میں میرا ایک بھائی تھا۔ وہ میری نظر میں اس لیے عظیم تھا چونکہ دنیا اس کی نظر میں حقیر تھی۔”
یہ کلام ابراہیم کے لیے راہنما اصول کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہ بڑے عظیم انسان تھے چونکہ دنیا اور اس کی آسائشیں ان کی نظر میں انتہائی حقیر تھیں۔
سید الشہداءؑ کی طرف ہدایت
سید علی شجاعی
جوانی کے ایام ہم نے ساتھ گزارے۔ اس وقت ابراہیم بازار میں کام کرتا تھا۔ عصر کے وقت بھی ہم ساتھ ہی رہتے تھے اور اکھٹے مسجد جاتے تھے۔ ایک روز میں نے ابراہیم سے کہا: تم نے غور کیا محلے کے جوان بہت خراب ہوگئے ہیں؟ اکثر جوان غلط کاموں کی طرف جا رہے ہیں۔ ابراہیم نے سر ہلا کر میری بات کی تائید کی اور کہا: ہم ایک کام کرتے ہیں۔ ایک انجمن بناتے ہیں جہاں سارے جوانوں کو اکھٹا کرتے ہیں۔
چند اور دوستوں سے بھی ہم نے بات کی اور پھر انجمن کی بنیاد رکھی گئی۔ شروع کی مجالس منگل کے روز ابراہیم کے گھر کوچہ تجلی میں برگزار ہوئیں۔ یہ ایک چھوٹا سا گھر تھا جس کے دو کمرے تھے، ایک کمرے کا دوازہ دوسرے میں کھلتا تھا۔ ایک چھوٹا سا صحن بھی تھا۔ ابراہیم کے دادا دروازے کے پاس بیٹھ جاتے تھے اور چائے کا انتظام کرتے تھے۔ ایک مقرر ہوتا تھا اور اس کے بعد میں اور ابراہیم مدّاحی کرتے تھے۔
کم عمری کے باوجود ابراہیم کی مداحی بہت اچھی تھی۔ اشعار اور مرثیے پڑھتا اور خوب آنسو بہاتا تھا۔ دوسرے لوگ بھی اس معنوی حالت سے انتہائی متاثر ہوتے۔ مجلس کے بعد ابراہیم دوستوں کے لیے نیاز کا اہتمام کرتا تھا۔ آہستہ آہستہ کچھ وہ جوان بھی ان مجالس میں شرکت کرنے لگے جو غلط کاموں کی طرف جا چکے تھے۔
انجمن کی عمر ابھی تین ماہ تھی جب اس کا نام “انجمن جوانان مہدویون” رکھا گیا۔ شرکت کرنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی گئ۔ اب ابراہیم کے گھر مزید افراد کے لیے گنجائش نہ تھی۔ مستقل شرکت کرنے والوں کی تعداد چالیس تک پہنچ چکی تھی۔
مختلف دوستوں کے گھر انجمن کی مجالس برگزار ہونے لگیں۔ سب دوست ابراہیم کو انجمن کے بڑے کے طور پر قبول کرتے تھے۔ جب کوئی مقرر نہ ہوتا تب ابراہیم کچھ دیر کے لیے امام حسینؑ سے دوستی وغیرہ کے موضوعات پر گفتگو کرتا۔
انجمن کی یہ مجالس انتہائی اثر گذار تھیں۔ محلے کے بہت سارے جوان انہیں مجالس کی بدولت کام کرنے لگے یا ورزش کی طرف چلے گئے۔ ابراہیم کی کوشش تھی کسی طرح ان جوانوں کے پاس فارغ وقت نہ بچے۔ مجھے یاد ہے محلے کے انہی جوانوں میں سے کچھ ہمارے ساتھ مشہد زیارت کے لیے گئے۔ اس سفر میں ہم نے ابراہیم کو بہتر انداز میں پہچان لیا۔
حرم میں وہ سب کے لیے زیارت نامہ پڑھتا تھا۔ ایک مرتبہ جب واپس آیا تو دیکھا کہ اس کے محاسن آنسؤوں سے تر ہیں۔ امام رضاؑ کے حرم میں بھی ابراہیم کے عشقِ اہل بیتؑ کو قریب سے مشاہدہ کیا۔ دن گزرتے گئے اور انقلاب اسلامی کامیاب ہوا۔ وہ انجمن جس کی بنیاد ابراہیم نے رکھی تھی محلے کی ایک اور مشہور انجمن کے ساتھ مدغم ہوئی۔ انجمن کی مجالس اب بھی ہفتہ وار برگزار ہوتی ہیں۔
بہت سارے جوان جو اس زمانے میں خراب ماحول میں ڈھل چکے تھے خدا کی مدد اور ابراہیم کی کاوشوں سے اس ماحول سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ بعض تو انتہائی متدین بن گئے۔ ان میں سے کچھ دفاعِ مقدس کے دوران شہید ہوئے۔
ابراہیم شہید ہوا لیکن اس کی یادگار انجمن باقی ہے۔ دفاع مقدس کے ایام میں ایک مرتبہ ابراہیم کو خواب میں دیکھا۔ وہ ایک خوبصورت باغ میں تھا اور اس کے ارد گرد اس کے دوست اکھٹے تھے۔ قریب جا کر سلام کیا۔ میں پوچھنا چاہ رہا تھا کہ انجمن کی مجالس میں جانے کا کچھ فائدہ ہوا؟ میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ میرے نزدیک آیا اور کہا: سید علی، جس وقت میں شہید ہوا اور زمین پر گر پڑا امام حسینؑ تشریف لائے اور مجھے اپنے آغوش میں لیا۔۔۔”
حیاء
حسین جہان بخش
میں ہائی سکول کے زمانے سے ہمیشہ ابراہیم کے ساتھ تھا۔ ہم ورزش، مسجد اور انجمن کے لیے اکھٹے ہی جاتے تھے۔ تمام دوستوں اور ہم عمر افراد کے لیے وہ عملی اخلاق کا بہترین نمونہ تھے۔ میں دوسرے دوستوں کی باتوں کو تکرار نہیں کرنا چاہتا۔ سب جانتے ہیں ابراہیم ایک مکمل انسان تھے۔ لیکن میرے لیے یہ سوال تھا کہ ابراہیم ایک دم سے تبدیل کیسے ہوگئے؟ کیوں کر اخلاقی اور دینی مسائل میں باقی تمام دوستوں سے آگے نکل گئے؟
میں نے اس حوالے سے بہت سوچا۔ ان کے والدین کا ان کی تربیت میں بہت زیادہ عمل دخل تھا۔ لیکن اس کے علاوہ محلے کے ایک بزرگ کا بھی اس میں اہم کردار تھا۔ ان کے گھر کے نزدیک میدان خراسان کے پاس ایک بزرگ رہتے تھے، ایک پہلوان، جن کا نام سید عباس تھا۔ وہ اس زمانے کے ایک پڑھے لکھے ایتھلیٹ تھے۔ ابراہیم سے بہت زیاہ محبت کرتے تھے۔ جہاں جاتے ابراہیم کو اپنے ساتھ لے جاتے۔ کہا کرتے تھے: میں اس بچے کی حیاء اور ادب کا عاشق ہوں۔
ان کا بہت سارے اکھاڑوں میں آنا جانا رہتا تھا۔ سب ان کی عزت کرتے تھے۔ میں بھی ابراہیم کے ساتھ سید عباس کی معیت میں کئی دفعہ ورزش کے لیے جا چکا ہوں۔ راستے میں سید عباس ہمارے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔ غیر محسوس طریقے سے وہ ہمیں نصیحت کرتے تھے۔ وہ انتہائی پڑھی لکھی اور دنیا دیکھی شخصیت تھی۔ دنیا اور زندگی کی طرف ان کی نگاہ الٰہی نگاہ تھی۔ کسی بھی حکم کے بغیر اپنے نظریات ہمارے سامنے بیان کرتے تھے۔
خدا نے ابراہیم کے لیے ایک دلسوز استاد فراہم کیا تھا جو انتہائی دقت کے ساتھ زندگی کے امور میں ابراہیم کی رہنمائی کرتے تھے۔ ایک عرصے بعد ہمیں علم ہوا کہ سید عباس شاہی فوج میں ٹرینر بھرتی ہوئے ہیں! ہمیں بالکل بھی یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ انتہائی مذہبی شخص تھے جو صوم و صلات کے علاوہ داڑھی کے بھی پابند تھے۔
ابراہیم نے انتہائی ادب کے ساتھ اس موضوع سے متعلق خود سید عباس سے پوچھ لیا۔ انہوں نے کہا: مجھ سے مطالبہ کیا گیا فوجی جوانوں کو ٹریننگ دوں۔ میں نے اس شرط کے ساتھ بات قبول کی کہ میں اپنی داڑھی چھوٹی نہیں کروں گا۔ نماز اول وقت میں پڑھوں گا اور دینی مسائل کے حوالے سے مجھے مکمل آزادی حاصل ہوگی۔
اگلے سال جب ابراہیم کشتی کی طرف راغب ہوئے تب سید عباس کی ایک سانحے میں وفات ہوگئی۔ وہ جب تک زندہ تھے ابراہیم کے لیے ایک بہترین راہنما تھے۔ اہم ترین مسائل میں سے ایک جس پر سید عباس کی تاکید تھی وہ حیاء کی بحث تھی۔ آپ کہا کرتے تھے: اگر کوئی با حیاء ہے تو اس کی سعادت اور خوش بختی کی امید ہے۔ لیکن بے حیاء انسان کا کوئی دین و ایمان نہیں۔
ان کی باتوں کے زیر اثر ابراہیم ہمیشہ کھلے ڈھلے لباس پہنتے تھے۔ کبھی دوسروں کی موجودگی میں قمیض نہیں اتارتے تھے۔ ہم نے ابراہیم کو کھیلوں میں دیکھا ہوا تھا۔ والیبال، فوٹبال اور پینگ پانگ کے ماہر کھلاڑی تھے۔ لیکن یاد نہیں ابراہیم کو کبھی سوئمنگ پول میں دیکھا ہو۔ اس بات کا تعلق ابراہیم کی حیاء سے تھا۔ شاید وہ سوئمنگ پول جاتے ہوں لیکن دوستوں کے ہمراہ ہرگز نہیں جاتے تھے۔
کشتی کے لیے بھی ابراہیم ایسی شلوار کا انتخاب کرتے تھے جس کے پائنچے بلند ہوں۔ دوسروں کی موجودگی میں کبھی شرٹ نہیں اتارتے تھے۔ عام طور پر گھر سے ہی کشتی والا لباس نیچے پہنتے تھے اور اکھاڑے پہنچ کر صرف اوپر کا لباس اتار لیتے تھے۔
حیاء کے یہ مناظر ابراہیم کی پوری زندگی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ نامحرم کے مقابلے میں انتہائی زیادہ حیاء کے ساتھ پیش آتے تھے۔ ہم جب ابراہیم کے گھر جاتے ان کی بہن اور والدہ کے ساتھ کبھی نہ ملتے۔ ان کے گھر پر بھی حیاء کا یہی ماحول حاکم تھا۔
دوستوں کے انتخاب کے وقت بھی وہ حیاء کے عنصر کا خیال رکھتے۔ اگر دیکھتے کسی شخص میں حیاء کی کمی ہے اس کی اصلاح کی کوشش کرتے۔ میرا خیال ہے حیاء ہی کی وجہ سے ان کی خواہش تھی کہ ان کا جنازہ واپس نہ آئے۔ ایک شہید کے مراسمِ تدفین کے لیے ہم بہشتِ زہراءؑ گئے۔ وہاں شہید کے جسم کو غسل دیا جا رہا تھا اور لوگ اکھٹے ہو کر دیکھ رہے تھے۔
ابراہیم نے اس وقت کہا: “اللہ کرے ہمارے ساتھ ایسا نہ ہو۔ جو شخص غسل دے رہا ہے وہ اگر احتیاط نہ کرے لوگوں کے سامنے بہت برا لگے گا۔”
اس کے بعد کہا: “میں نے خدا سے دعا کی ہے سادات کی ماں حضرت زہراءؑ کی طرح گمنام رہوں۔ میری خواہیش ہے مجھے غسل دینے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔”
تھپڑ
محمد اکبر دولابی
ستر کی دہائی اور ہماری جوانی کے ایام تھے۔ میں لائٹنگ کا کام کرتا تھا۔ فارغ اوقات میں دوستوں کے ساتھ کبوتر بازی میں مصروف رہتا تھا۔ اس دوران ہماری عمر کے اکثر جوان یا گناہ اور فساد کی طرف مائل تھے یا اپنے کاموں میں مصروف رہتے تھے۔
میں اپنے کچھ دوستوں سے ملنے شام کو اکثر خیابانِ شہید عجب گل جایا کرتا تھا۔ وہاں کھیل کھیل میں اپنے ایک ہم عمر جوان سے آشنا ہوا جس کا اٹھنا بیٹھنا باقی سب سے مختلف تھا۔ وہ ہماری طرح گپ شپ کرنے والے اور ہنسانے والے تھے۔ مزاح بھی کرتے تھے لیکن کسی قسم کے گناہ کے کام کی طرف نہیں جاتے تھے۔ ان کا نام ابراہیم تھا۔ میں ان سے دوستی پر بہت خوش تھا۔ کشتی کے کھلاڑی اور انتہائی طاقتور تھے۔
اس دوران میرے بہت سارے دوست تھے جن میں سے بعض بعد میں شہداء کے قافلے سے ملحق ہوگئے۔ کم از کم پچاس شہیدوں کے ماضی اور حال کو انتہائی قریب سے دیکھا لیکن میں ہزاروں دلیلوں کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ ابراہیم ان سب کے درمیان ستارے کی مانند چمکتے تھے۔ بطور مثال عرض کرتا ہوں:
ہم جمعہ کی شام اکھٹے ہوتے اور سکول کے سامنے والے گراونڈ میں کھیلتے تھے۔ مزا بھی آتا تھا اور ہماری مصروفیت بھی بن جاتی تھی۔ ابراہیم ہمیں کھیل کی تشویق کرتے تھے تاکہ ہم غلط کاموں کی طرف نہ جائیں۔ ان کے وجود میں گناہ کے لیے کوئی راستہ نہ تھا۔ جب نماز کا وقت ہوتا وہ ہمیں ساتھ مسجد لے جاتے۔ مجھے یاد ہے وہ تہران میں حاج آقا کافی کی مجالس کی بہت تعریف کیا کرتے تھے۔ کہتے تھے: جمعہ کی صبح آجاؤ، دعائے ندبہ کے لیے مہدیہ چلتے ہیں۔ میں کہتا تھا: آپ کی ہمت ہے۔ ہم میں اتنی ہمت نہیں۔
ہمارے لیے ابراہیم کے ساتھ بیٹھنا انتہائی لذت بخش تھا۔ گپ شپ کرتے تھے اور خوب ہنستے تھے۔ ہفتے کے آخری دن جب مجھے اپنی کمائی ملتی تھی تمام دوستوں کو آئس کریم کھلاتا تھا۔ ایک مرتبہ ابراہیم نے غصے میں کہا: “اپنی زندگی میں کچھ نظم پیدا کرو۔ کیوں اپنی ساری کمائی فورا خرچ کرتے ہو؟ کچھ بچت بھی کر لیا کرو۔”
ایک رات ہم اکھٹے مسجد موسی بن جعفرؑ چلے گئے۔ میں ابراہیم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ نماز کے دوران آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔ میں نے اعتراض کیا کہ اس طرح دورانِ نماز آنکھیں بند کرنا درست نہیں۔ ابراہیم نے کہا: “اگر اس طریقے سے نماز میں آپ کی توجہ بڑھ جاتی ہے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ جب میں آنکھیں بند کرتا ہوں میری توجہ بڑھ جاتی ہے۔”
ابراہیم نہ صرف مجھے بلکہ محلے کے تمام جوانوں کو وقت دیتے تھے۔ ان میں سے بہت سارے دیندار اور صوم و صلات کے پابند بنے۔ کچھ جوان اپنے کاموں میں اور کمائی میں لگ گئے۔ اس طرح وہ سارے برے کاموں سے بچ گئے۔ یہ سب ابراہیم کی برکت سے تھا۔ آپ یقین کریں ہماری محفل میں کوئی بڑی عمر کا بھی ہوتا تو وہ ابراہیم کے احترام میں کوئی غلط بات کہہ ہی نہیں سکتا تھا۔ ان کا وجود ہر جگہ ہمیں خدا کی یاد دلاتا تھا۔ اسی لیے میرا یقین ہے کہ وہ ایک حقیقی مومن تھے چونکہ احادیث میں آیا ہے: “مومن وہ ہے جس کی زیارت تمہیں خدا کی یاد دلائے۔” ان کا ہر اخلاق اور ہر عمل ہمارے لیے درس تھا۔
ابراہیم کبھی بھی اپنے کاموں میں عدالت اور سچائی کے خلاف نہیں جاتے تھے۔ ہمارا ایک جھگڑالو قسم کا ہمسایہ تھا۔ وہ ابراہیم کے کلب میں ورزش کے لیے جاتا تھا۔ ایک دن کلب میں کسی سے لڑائی کی اور طرفِ مقابل کا ایک دانت توڑ دیا۔ اس نے ہمارے ہمسایے کے خلاف کیس کیا۔ عدالت میں، میں نے اس سے رضایت طلب کرنے کی کوشش کی لیکن وہ انکار کرتا رہا۔
ہمارے ہمسایہ نے مجھ سے کہا: “جلدی جاؤ اور ابراہیم کو بلا لاؤ۔” میں گیا اور ابراہیم کو ڈھونڈ لایا۔ کیس کرنے والا شخص اور ہمارا ہمسایہ دونوں ابراہیم کے احترام میں کھڑَے ہوگئے۔ اس شخص نے قاضی سے کہا: “اگر ابراہیم ہادی کہتے ہیں تو میں رضایت دیتا ہوں۔ میں ان کا تابعدار ہوں۔” ہمسایہ یہ بات سن کر خوش ہوا اور ابراہیم سے کہا: “بھائی ابراہیم آپ ان سے رضایت طلب کریں۔” لیکن ابراہیم نے انتہائی متانت سے کہا: “نہیں، ہرگز رضایت نہیں دینا، اس شخص کو یہ بات سمجھ آنی چاہیے کہ ہر بات پر لڑنا جھگڑنا ٹھیک نہیں ہوتا۔” سب کے اصرار کے باوجود ابراہیم راضی نہ ہوئے۔ ہمارے ہمسایے کو زندان لے جایا گیا۔ اگلے دن ابراہیم نے کہا: “اب جاؤ اور رضایت دو، اسے کچھ ادب سکھانا ضروری تھا۔”
ایک اور واقعہ جو چالیس سال بعد بھی میرا دل جلاتا اور مجھے رلاتا ہے وہ تھپڑ والا واقعہ ہے۔ ایک روز میرا کام پر جانے کا دل نہیں کر رہا تھا۔ میں ابراہیم کی طرف چلا گیا۔ ان سے باتیں شروع ہوئیں۔ ان کے ساتھ بیٹھنا بھی ہمیں بہت اچھا لگتا تھا۔ ان کی باتیں اور نصیحتیں بہت اثر گزار ہوتی تھیں۔ انسان کو اپنی زندگی میں امید نظر آنا شروع ہو جاتی تھی۔ ایک گھنٹہ گزر گیا۔ میرے کام کے استاد، جو ہمارے دور کے رشتہ دار بھی تھے، موٹر سائیکل پر سوار ہمارے پاس آئے اور غصے سے بولنے لگے: “اب تمہاری جرات بڑھ گئی ہے۔ کام کی بجائے دوستوں سے گپ شپ میں مصروف ہو؟!” موٹر سے اتر کر ہماری طرف آئے۔ وہ ابراہیم کو نہیں جانتے تھے۔ ایک زوردار تھپڑ ابراہیم کو مارا اور مجھے کھینچے ہوئے اپنے ساتھ کام پر لے گئے۔
انہوں نے جب ابراہیم کو مارا مجھے لگا جیسے میرے دل کے ٹکڑے ہوگئے ہوں۔ میرے استاد کوئی برے انسان نہیں تھے لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ ابراہیم کس قدر ہماری تربیت کے لیے وقت دیتے ہیں۔
ابراہیم اپنے توانا بدن کے ساتھ بڑی آسانی سے جواب دے سکتے تھے اور انہیں سبق سکھا سکتے تھے، لیکن ابراہیم نے کوئی رد عمل نہیں دکھایا۔ اس واقعے کے بعد بھی میں کئی بار ابراہیم سے ملا اور ان سے باتیں کیں۔۔۔ لیکن ابراہیم نے کبھی اس واقعے کا دوبارہ تذکرہ نہیں کیا۔ اسی وجہ سے میری شرمندگی بڑھتی چلی گئی، ہاں لیکن ابراہیم پر میرا اعتماد بھی بڑھتا گیا۔
چلو کباب
مصطفی تقوایی
ابراہیم اور محلے کے چند دوسرے جوانوں کے ساتھ میری دوستی تھی۔ ہم ہمیشہ ساتھ ہوتے تھے۔ والیبال، کشتی، اکھاڑا، پکنک ہر جگہ اکھٹے جاتے۔ ہم چھ سات نفر تھے جن کے اکثر اوقات ایک ساتھ گزرتے تھے۔ ہم میں سے صرف ابراہیم کام میں مشغول تھے۔ وہ بازار میں کام کیا کرتے تھے لہذا ان کی اپنی تنخواہ تھی جبکہ دوسرے دوستوں کی مالی حالت کچھ اچھی نہیں تھی۔
ایک دن ابراہیم نے ہم سب کو چلو کباب (چاول+کباب) کھانے کی دعوت دی۔ بہترین قسم کے کھانے کا آرڈر دیا اور ہم سب کھانے میں مشغول ہوگئے۔ اس کھانے کی لذت بیان نہیں ہو سکتی خاص طور پر ان دوستوں کے لیے جن کی مالی حالت اچھی نہیں تھی۔ جنہوں نے بڑے عرصے سے اتنا مزیدار کھانا نہیں کھایا تھا۔ ابراہیم یہ دیکھ کر لذت محسوس کرتے رہے تھے کہ دوست پورے ذوق و شوق کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں۔
اگلے ہفتے انہوں نے پھر سےتمام دوستوں کو کھانے کی دعوت دی۔ ہم نے کہا: “نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا ۔ ہر ہفتہ آپ کھانا کھلائیں۔” ابراہیم نے کہا: “نہیں، آج مصطفی کی طرف سے دعوت ہے۔” جب ہم کھانے کی میز پر بیٹھے تھے تب ابراہیم نے میز کے نیچے سے مجھے پاؤں مارا اور اشارے سے کہا: “یہ لے لو۔”
اپنا ہاتھ میز کے نیچے سے بڑھایا اور کچھ رقم میرے ہاتھ میں رکھ دی۔ ساتھ میں اشارے سے سمجھایا: “کچھ بولنا نہیں۔ جا کر کھانے کا حساب کرو۔”
اگلے ہفتے ہم پھر سے چلو کباب کے لیےمدعو تھے۔ اس دفعہ ابراہیم نے ایک اور دوست کا نام لیا کہ ہم ان کے مہمان ہیں۔ اگلے ماہ پھر سے دعوت دی گئی اور ایک اور دوست کا نام لیا گیا۔ یہ سلسلہ ایک مدت تک چلتا رہا۔ شاید ہماری نوجوانی کی بہترین یادوں میں سے ایک یہی ہے۔
اب جبکہ ہم اپنے بچوں کو یہ کہانی سناتے ہیں شاید وہ متوجہ نہیں ہو پاتے۔ آج کل ہر روز گھروں میں چاول پکتے ہیں۔ بعض گھروں کے لیے چلو کباب معمول کی غذا بن چکی ہے۔ اس زمانے میں لوگوں کی اکثریت غربت میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اکثر گھرانے بڑی مشکل سے گزارہ کرتے تھے۔ چاول بہت عرصے بعد ہی کسی کے گھر میں پکتے تھے۔ ریسٹورنٹ میں کھانے کا بھی زیادہ رواج نہیں تھا چونکہ لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے۔ لہذا اس طرح کی غذا کھانا ہر کسی کے بس میں نہیں تھا۔
اس واقعے کو مدّت گزر گئی۔ ابراہیم شہید ہوگئے۔ ایک دن ہم محلے کے دوست پھر سے اکھٹے ہوئے۔ ابراہیم کے متعلق بات چیت شروع ہوئی۔ میں نے پوچھا: “کیا آپ لوگوں کو یاد ہے ابراہیم ہمیں کھانا کھلانے ریسٹورنٹ لے جاتے تھے؟ ہمارے لیے چلو کباب خریدتے تھے؟”
سب نے سر ہلا کر میری بات کی تائید کی۔ اکثر دوست بتانے لگے: “اللہ تعالی ابراہیم کی مغفرت فرمائے۔ اس دوران ہمیں چلو کباب کھانے کا کتنا شوق ہوتا تھا!۔”
میں نے کہا: “میں ایک بات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔ جس دن ابراہیم نے کہا آج سب دوست مصطفی کے مہمان ہیں، در حقیقت میرے پاس پیسے تھے ہی نہیں۔ ابراہیم نے میز کے نیچے سے مجھے پیسے دئیے اور کہا: جا کر پیسوں کا حساب کرو۔”
جونہی میں نے یہ بات کی سب دوستوں کی آنکھیں حیرت میں ڈوبنے لگیں اور سب غور سے میری طرف دیکھنے لگے۔
ایک دوسرے دوست نے کہا: “ابراہیم نے یہی کام میرے ساتھ بھی کیا تھا۔ جس دن طے پایا تھا کہ آپ دوست میرے مہمان ہوں گے ریسٹورنٹ جانے سے پہلے ابراہیم نے میری جیب میں پیسے ڈال دئیے اور کہا: کسی اور دوست کو پتہ نہیں چلنا چاہیے۔
تیسرے دوست نے بھی ایسی ہی کہانی سنائی۔
خلاصہ یہ کہ اس رات ہمیں علم ہوا ان تمام راتوں میں ہم ہمیشہ ابراہیم کے ہی مہمان تھے۔ ہمیشہ چلو کباب ابراہیم کھلایا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی شہادت تک کسی کو اس بات کا علم نہیں ہونے دیا۔
نصیحت
شہید کے ایک دوست
جب ہم دوست ابراہیم کے ساتھ اکھٹے ہوتے تب وہ ہمیشہ قدیم پہلوانی کے قصے ہمیں سناتے تھے۔ ان کے اخلاق، ایمان اور توکل سے متعلق ابراہیم کو اچھے خاصے قصّے یاد تھے۔ ہم چند جوان تھے اور سب ابراہیم کے عاشق۔ اس زمانے میں جوانوں میں بے راہ روی بہت بڑھ گئی ہوئی تھی۔ اخلاقی بیماریاں بھی بہت زیادہ پھیلی ہوئی تھیں۔
ایک دفعہ ابراہیم نے کہا: “قدیم زمانے کے پہلوان درخت کے ساتھ کشتی لڑتے تھے۔! وہ لوگ اس قدر طاقتور ہوتے تھے کہ درخت اپنی جگہ سے ہل جاتا تھا۔”
ہم ان کی باتوں میں محو تھے اور وہ بولتے جا رہے تھے: “اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ شادی سے پہلے کسی قسم کی شہوت کے پیچھے نہیں بھاگتے تھے۔۔۔ جب انسان غلط کاموں کی طرف جاتا ہے تب اس کا بدن بھی کمزور ہو جاتا ہے۔”
وہ ہمیں نصیحت کرتے تھے کہ اپنے فارغ اوقات کو کسی کام یا ورزش سے پر کریں۔ شادی سے پہلے کسی نا محرم سے میل ملاقات اور بات چیت سے بچ کے رہو ورنہ آہستہ آہستہ نابودی کی طرف بڑھتے چلے جاؤ گے۔
وقت گزرتا گیا۔ 1976 کا سال تھا۔ محلے کی ایک لڑکی کے ساتھ میری دوستی ہوگئی۔ تب میری عمر 17 سال تھی۔ ایک مرتبہ گلی میں اسی لڑکی کے ساتھ میں باتیں کرنے میں مصروف تھا۔ میں باتوں میں اتنا مگن ہو چکا تھا کہ اپنے اطراف سے مکمل بے خبر ہوگیا۔ ایک دم گلی کی دوسری طرف ابراہیم کو دیکھا جو ہماری طرف ہی آرہے تھے۔ میرے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ اب فرار کا کوئی راستہ نہ تھا۔ وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے۔ میں اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا۔ ابراہیم نے سلام کیا اور سر نیچے کر کے وہاں سے گزر گئے۔ میں نے سلام کا جواب دیا۔ میرے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ ابراہیم رکے نہیں۔ بغیر کوئی بات کیے گلی سے آگے گزر گئے۔
میں پریشان ہو گیا۔ اگر وہیں گلی میں وہ مجھے مارتے تب شاید اتنی پریشانی نہ ہوتی۔ میرے والدین کو اس بات کا پتہ چل جاتا تب مجھے اتنی پریشانی نہ ہوتی جتنی اب ابراہیم کو پتہ چلنے پر تھی۔ وہ میرے بہترین دوست تھے۔ دن رات ہم ساتھ ہوتے تھے۔ کشتی اور والیبال میں میرے استاد تھے۔ میرے پاس جو کچھ تھا ابراہیم کی وجہ سے تھا۔
اس رات میں نہیں سو سکا۔ کل جب ابراہیم مجھے دیکھےگا تو میں کیا جواب دوں گا؟ اگر وہ مجھ سے منہ موڑ لے تب میں کیا کروں گا؟ ۔۔۔اس طرح کی سوچیں مجھے پاگل کر رہی تھیں۔ وہ رات بہت طولانی لگی اور بڑی مشکل سے کٹی۔ صبح سویرے میں ابراہیم کے گھر چلا گیا۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ خود دروازے پر آئے، ہمیشہ کی طرح سلام کیا اور گرم جوشی سے ملے۔ گویا کچھ بھی نہ ہوا ہو۔
میں نے واقعہ سے متعلق کوئی بات نہ کی۔ ابراہیم نے بھی کچھ نہیں کہا۔ چپ چاپ بیٹھے رہے۔ کچھ مدت جب گزری میں برداشت نہ کرسکا۔
میں نےکہا: “بھائی ابراہیم! کچھ تو کہیں۔ چلیں مجھے تھپڑ ماریں۔ جو کہنا ہے کہ دیں۔ میرے اوپر چیخیں۔ میری ملامت کریں کہ آپ کی اتنی نصیحتوں کے باوجود۔۔۔”
ابراہیم نے ایسے برتاؤ کیا کہ جیسے نہ کچھ دیکھا ہو اور نہ ہی کچھ سنا ہو۔ کہا: کس حوالے سے بات کر رہے ہو؟
میں نے کہا: “کل والی بات۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا میں اس لڑکی کے ساتھ ۔۔۔”
میری بات کاٹ کر ابراہیم بولے: “یہ کس طرح کی باتیں کر رہے ہو؟ میں کیوں تمہیں ماروں یا تمہارے سامنے چیخوں۔ شاید تم اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہو۔ مجھے اس کام میں مانع نہیں بننا چاہیے۔” پھر کچھ دیر ٹھہر کربولے: “تم اب بھی میرے جگری دوست ہو۔”
میں تعجب سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ خدا حافظی کی اور گھر لوٹ آیا۔ بہت زیادہ سوچا۔ ابراہیم کے اس سلوک میں بہت زیادہ درس تھا۔ اس روز گھنٹوں تک سوچتا رہا اور پھر رات کو میں نے فیصلہ لیا۔
اگلے دن میں اس لڑکی کے پاس چلا گیا اور اس سے کہا: “دیکھیے اکثر لڑکے جو لڑکیوں سے دوستی لگاتے ہیں وہ آگے جا کر شادی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ وہ ممکن ہے شیطانی سوچ رکھتے ہوں۔ اس طرح کی لڑکیوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔” پھر چند لوگوں کی مثال بھی دی جن کی زندگی اسی وجہ سے تباہ ہوئی تھی۔
اس کے بعد میں نے کہا: “تم اگر ایک اچھی زندگی چاہتی ہو اس طرح کی چیزوں کے پیچھے مت بھاگو۔ جن لڑکیوں کی شادی سے پہلے کسی لڑکے سے دوستی ہو شادی کے بعد ان کی ازدواجی زندگی ضرور متاثر ہوتی ہے۔”
اس کے بعد میں نے خدا حافظ کہا اور واپس آگیا۔ میں اس دوستی کو ہمیشہ کے لیے اور مکمل طور پر چھوڑ چکا تھا۔ وہاں سے نکل کر سیدھا ابراہیم کے پاس گیا اور ساری کہانی انہیں سنا دی۔
میں نے کہا: “میں اس لڑکی سے ہر قسم کے تعلقات رکھ سکتا تھا لیکن میں نے جا کر ساری حقیقت اس کے سامنے رکھ دی ہے۔ ہمیشہ کے لیے اسے چھوڑ کر آیا ہوں۔ جب تک خدا کی مدد شاملِ حال رہے دوبارہ ان مسائل میں نہیں پڑوں گا۔”
ابراہیم نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا: “جاؤ، جا کر اپنے ماں باپ کے حق میں دعا کرو۔ اگر تمہاری ماں کا حلال دودھ اور باپ کا حلال رزق نہ ہوتا تو تم ہرگز یہ کام نہ کر سکتے۔”
اخلاق
امیر منجر
ہمارے محلے میں ایک دلاور مجاہد رہتے تھے جن کا نام (شہید) عبد اللہ مسگر تھا۔ ابراہیم کی ان سے دلی عقیدت تھی۔ ابراہیم کی وہ تصویر جس میں انہوں نے فوجی لباس پہنا ہوا ہے، کتاب کی جلد پر بھی یہی تصویر نظر آئے گی، وہ اسی مجاہد کا لباس ہے جو ابراہیم نے پہنا ہوا ہے۔ ابراہیم نے اس مجاہد کا لباس تبرّک کے طور پر پہنا اور پھر تصویر کھنچوائی۔
ایک دفعہ ہم کام میں مصروف تھے۔ ابراہیم نے فون کیا اور کہا: “امیر، آج رات شہید عبد اللہ مسگر کے لیے فاتحہ خوانی کی مجلس ہے۔ آپ بھی تشریف لائیں گے؟” میں نے کہا: “ان شاء اللہ، آؤں گا۔” ابراہیم آگے سے بولے: “اور ہاں مجھے تم سے ایک کام بھی ہے۔”
مجلس کے بعد ابراہیم نے مجھے آواز دی اور میں گلی میں چلا گیا۔ محلے کے کچھ اور جوان اور ابراہیم کے کچھ دوسرے دوست بھی وہاں جمع تھے۔ ابراہیم نے سب سے میرا تعارف کرایا اور پھر بولے: “سکول کے ماحول اور حالات کے پیش نظر ہمارے ان دوستوں کے ذہن میں کچھ شبہات اور سوالات ہیں۔ آیت اللہ بہشتی کے بارے میں یہ کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔ میں نے سوچا اس حوالے سے آپ کی معلومات زیادہ ہیں لہذا آپ گفتگو کریں۔”
میں نے بات شروع کی اور کئی گھنٹے ان کے سامنے دلیلوں کے ساتھ بات کی یہاں تک کے ان کے ذہن سے وہ شبہات ختم ہوگئے۔
گھرواپسی پر میں انتہائی خوشی محسوس کر رہا تھا۔ مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ چند جوانوں کی فکری مشکلات کو حل کرنے میں کامیاب ہوا ہوں۔ جبکہ ابراہیم مجھ سے بھی زیادہ خوش لگ رہے تھے۔ انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا۔ بتانے لگے: “آپ کو اندازہ نہیں آپ نے کتنی بڑی مدد کی ہے۔ میں جتنی بھی گفتگو کرتا چونکہ میرے ساتھ کام کرنے والے دوست ہیں لہذا زیادہ اثر نہ ہوتا۔ آپ نے ایک اور انداز میں اچھی دلیلوں سے بات کی۔”
اگلے دن ابراہیم نے مجھ سے کہا: “امیر آپ کے پاس وقت ہے۔ ساتھ خیابان امیر خسرو تک چلیں؟!”
میں نے کہا: “ٹھیک ہے۔ چلتے ہیں۔”
ہم موٹر سائیکل پر سوار چل پڑے۔ ناصر خسرو میں ایک دکان کے پاس ہم رکے۔ ابراہیم دکان کے اندر چلے گئے اور اپنے خاص اخلاق کے ساتھ دکاندار سے باتیں کرنے لگے۔ میں دکان کے باہر کھڑا تھا لیکن دیکھ رہا تھا ابراہیم انتہائی ادب کے ساتھ گفتگو کر رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد ابراہیم دکاندار کے ساتھ دکان سے باہر نکل آئے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے خدا حافظی کی اور ابراہیم میری طرف واپس آگئے۔ واپسی پر میں نے پوچھ لیا: “یہاں کوئی خاص بات تھی؟”
ابراہیم نے کہا: “ایک بندۂ خدا کل محلے میں میرے پاس آیا۔ اس نے کہا کہ وہ ناصر خسرو میں ایک دکان پر کام کرتا ہے۔ اس کا مالک اسے مزدوری نہیں دے رہا بلکہ الٹا اسے کام سے نکال دیا ہے۔ میں نے دکان کا ایڈریس لیا اور سوچا اس کے مالک سے بات کر کے دیکھ لوں۔ شاید اس کی مشکل حل ہو جائے۔”
میں نے کہا: “ابراہیم آپ بے کار تو نہیں بیٹھے۔ چھوڑیں اس طرح کے کام۔”
ابراہیم بول پڑے: “انسان کے لیے جو کچھ کرنا ممکن ہو خلقِ خدا کے لیے انجام دینا چاہیے۔ میں نے ابھی اس کے مالک سے بات کی ہے اور کوشش کی ہے خوش اخلاقی سے معاملہ حل ہو۔ الحمد للہ خدا نے بھی مدد کی اور اس بندۂ خدا کی مشکل حل ہوگئی۔”
امام کاظم علیہ السلام نے کتنا پیارافرمایا ہے: “تمہاری عبادت کی قبولیت کی نشانی یہ ہے کہ اپنے دینی بھائی کی ضروریات پوری کرواور اپنی توان کے مطابق ان کی مدد کرو۔ ورنہ تمہارا کوئی بھی عمل قبول نہیں ہوگا۔”