سوال:  کیا پیغمبر اکرم ﷺ کے والدین( العیاذ بالله )کافر اور اہل جہنم تھے؟

ایک تحقیقی مقالہ/ترجمہ: مظاہر علی

ایک وہابی چینل  كلمہ كے  آخری پروگراموں میں سے ایک پروگرام میں اس چینل کے ایک ماہر نے پیغمبراکرمﷺ کے والدین کے بارے میں کچھ اشکالات بیان کئے اور کہا کہ وہ مومن نہیں تھے اس لیئے وہ جہنم میں جائیں گے۔ وہ اپنے اس دعوی کو ثابت کرنے کے لیئے صحیح مسلم کی رسول خدا ﷺ سے ایک روایت بیان کرتا ہے جس ميں آپ ﷺ نے کسی آدمی سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: (إن أبي وأباك في النار) اس حوالے سے اگر شیعوں کے پاس ان کے ایمان پرکوئی دلیل ہے تو پیش کریں۔

جواب:

اس ماہر نے رسول گرامی اسلام کے والدین (سلام اللہ علیہم) کی نسبت نہایت بے حرمتی اور بے ادبی کے ساتھ ان پر کفر اور اہل جہنم ہونے کی تہمت لگائی ہے حالانکہ ہمیشہ اس جيسے دشمنوں کی طرف سے ہونے والے اس اشکال کا کئی دفعہ جواب دیا گیا ہے اور ہم یہاں ان جوابات کا خلاصہ بیان کرتے ہیں:

اس ماہر نے رسول گرامی اسلام کے والدین (سلام اللہ علیہم) کی نسبت نہایت بے حرمتی اور بے ادبی کے ساتھ ان پر کفر اور اہل جہنم ہونے کی تہمت لگائی ہے حالانکہ ہمیشہ اس جيسے دشمنوں کی طرف سے ہونے والے اس اشکال کا کئی دفعہ جواب دیا گیا ہے اور ہم یہاں ان جوابات کا خلاصہ بیان کرتے ہیں:

 

1۔ گذشتگان پر پیغمبراکرمﷺکا فخر کرنا

کلمہ چینل کا ماہر دعوی کرتا ہے کہ پیغمبرﷺ کے آباء اور اجداد نے دین ابراہیم سے روگردانی کی ہے اور اس جہت سے وہ مشرک ہیں۔ جبکہ پیغمبرﷺ اپنے افتخارات میں سے ایک افتخار یہ سمجھتے ہیں کہ وہ فرزند عبد المطلب ہیں جیسا کہ آپﷺ نےجنگ کے دوران فرمایا:

أنا النبي لا كذب أنا بن عبد المطلب“[1]میں پیغمبر ہوں، میں جھوٹ نہیں بولتا، میں فرزند عبد المطلب ہوں۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ پیغمبرﷺ ویسے ہی خود کو گذشتگان کی طرف منسوب نہیں کرتے وہ بھی اس وقت جب قرآنی آیت کہتی ہے: “ أَنَّ اللّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ” [2]؛ بے شک خداوند اور اس کا رسول مشرکین سے بیزار ہیں۔

اس آیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر پیغمبر ﷺکے گذشتگان مشرک ہوتے تو وہ ان سے برائت کا اظہار کرتے کیونکہ  آيت مطلق ہے اور کسی خاص زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں حالانکہ نبی اکرمﷺ کی سیرت میں کوئی ایسی بات نہیں ملتی ہے کہ انہوں نے اپنے آباء واجداد سے برائت کا اظہار کیا ہو۔

 

2۔ روایت کا صحیح نصوص کے ساتھ ٹكراؤ:

کلمہ چینل کے ماہر نے صحیح مسلم کی ایک روایت پر اعتماد کیا ہے اور اس کے مطابق پیغمبر کے والدین (سلام اللہ علیہم) کو کافر قرار دیا ہے۔ جبکہ یہ روایت متعدد آیات اور روایات کے مقابلے میں ہے من جملہ آیات میں سے خداوند فرماتا ہے: “وتقلبك في الساجدين“[3] اور ہم آپ کا ساجدین میں منتقل ہونے(آپ کا باعظمت اصلاب سے دوسری پاکیزہ ارحام میں منتقل ہونے) سے آگاہ ہیں۔ ابن عباس سے منقول ہے کہ انہوں نے اس آیت کے ذیل میں تصریح کی ہے: یعنی آپ ﷺ کو پیغمبروں اور پاکیزہ انسانوں کی صلب میں قرار دیا ہے۔  [4] اس  آیت اور ابن عباس کے کلام کی روشنی میں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبر ﷺکافر انسان کی صلب میں تھے!!!

اسی طرح مسلم پیغمبر ﷺ سے ایک اور روایت نقل کرتے ہیں:  “إن الله اصطفى كنانة من ولد إسماعيل. واصطفى قريشا من كنانة. واصطفى من قريش بنى هاشم. واصطفانى من بنى هاشم”  [5] خداوند نے فرزندان اسماعیل میں سے کنانہ کو منتخب کیا، اور کنانہ میں سے قریش کو چنا، اور قریش میں سے بنی ہاشم کو منتخب کیا، اور بنی ہاشم میں سے ہمیں منتخب کیا۔ اب کیسے ممکن ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پدر بزرگوار قریش میں سے ہو اور اس طرح کے فرزند کی پرورش کرے اور ہم پھر بھی کہیں کہ وہ جہنمی ہے۔

 

3۔  روايت كى سند پر اشكال

  جس روایت  سے اس ماہر نے استفادہ کیا ہے، باوجود اس کے کہ اس كو  کتاب مسلم سے ذکر کی ہے لیکن اس کی سند میں اشكال ہے، کیونکہ اس روایت کی سند میں حماد بن سلمہ ہے کہ جسے کئی لوگ ثقہ نہیں سمجھتے۔ لیکن اس کے مقابلے میں علمائے جرح وتعدیل میں سے طیف عظیمی نے اس کے بارے میں جرح کی ہے۔ نمونے کے طور پر،  ابو نعیم رازی نے اپنی معروف کتاب “الجرح والتعدیل” میں اس کے بارے میں لکھا ہے: “حماد ساء حفظه في آخر عمره” [6]  حماد کی عمر کے آخری حصے میں اس کی یاداشت کمزور ہوگئی تھی اور وہ اشتباہ کرتا تھا۔

زیلعی بھی اس کے بارے میں تصریح کرتا ہے:

لَمَّا طَعَنَ فِي السِّنِّ سَاءَ حِفْظُهُ، فَلِذَلِكَ تَرَكَ الْبُخَارِيُّ الِاحْتِجَاجَ بِحَدِيثِهِ… وَإِذَا كَانَ الْأَمْرُ كَذَلِكَ فَالِاحْتِيَاطُ أَنْ لَا يُحْتَجَّ بِمَا يُخَالِفُ فِيهِ الثِّقَاتِ“[7]جب اس کی عمر زیادہ ہوگئی تو اس کی یاداشت کمزور ہوگئی اسی وجہ سے بخاری نے اس کی حدیث سے تمسک کرنا چھوڑ دیا تھا، پس اگر یہ بات ہے تو احتیاط یہ ہے کہ جن موارد میں ثقات اختلاف کرتے ہیں ان کی حدیث پر اعتماد نہ کیا جائے۔

 

4۔ پاکیزہ ترین مخلوق خدا نجس پشت سے نہیں ہو سکتی

خداوند فرماتا ہے: “إنما المشركون نجس” [8] مشرکین نجس ہیں، جبکہ اس کا دعوی ہے کہ پیغمبر ﷺ کے والدین کافر ہیں، لہذا طبیعی طور پر انہیں نجس ہونا چاہیئے (نعوذ باللہ)۔ اب اس ماہر سے سوال کیا جائے کہ کیسے ممکن ہے کہ خدا کی پاکیزہ ترین مخلوق ایک نجس شخص سے پیدا ہو اور اس کی پشت  ميں ہو؟؟

اس کے علاوہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: “لم يزل الله ينقلني من الأصلاب الطيبة إلى الأرحام الطاهرة مصفى مهذبا لا تنشعب شعبتان الا كنت في خيرهما“[9] خداوند مجھے مسلسل پاک پشتوں اور پاکیزہ ارحام میں منتقل کرتے رہے اور کسی نسل میں دو شعبے نہیں تھے مگر یہ کہ میں ان میں سے پاکیزہ ترین پشت میں تھا۔

 

5۔ عذاب کی شرط دعوت ایمان کے ساتھ مشروط ہے۔

سابقہ اقوام کے عذاب میں اہم ترین موارد میں سے ایک قابل توجہ مورد یہ ہے کہ یہ ساری اقوام اپنے پیغمبروں کی دعوت اور ان کے اصرار ایمان کے بعد، جب انہوں نے انکار کیا تو عذاب کی مستحق قرار پائیں اور عذاب الہی نازل ہوا اور مستحق جہنم ہوئیں۔ جیسا کہ خداوند فرماتا ہے: “وما كنا معذبين حتى نبعث رسولا“[10] لیکن پیغمبر ﷺ کے والدین کے مورد میں یہ مسئلہ صادق نہیں آتا کیونکہ ان کی زندگی میں جب پیغمبر ﷺ ابھی تک مبعوث نہیں ہوئے تھے، تو اس جہت سے کوئی دعوت نہیں دی تھی کہ ان کے والدین نے انکار کیا ہو اور عذاب کا مستحق قرار پائیں۔

دوسری طرف سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ قریش خصوصا بنی ہاشم دین ابراہیم پر تھے اور بتوں کی پوجا نہیں کی۔ پس انہیں کافر اور مستحقین عذاب الہی نہیں کہا جا سکتا ہے۔

 

6۔ بزرگان مذہب کے نظریے کی مخالفت

کلمہ چینل کا ماہر بزرگان مذہب کے نظریے کی طرف رجوع کیئے بغیر اس طرح کا دعوی پیش کرتا ہے، کیونکہ وہ اس نظریے اور دشمنان دین کے مدعی کی مخالفت کرتے ہیں، نمونے کے طور پر ہم ان میں سے کچھ نظریات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

الف۔ سیوطی

وہ والدین پیغمبر (صلی اللہ علیہم اجمعین) کے بارے میں صراحت سے کہتا ہے:

أنهما لم يثبت عنهما شرك بل كانا على الحنيفية دين جدهما إبراهيم عليه السلام” [11]بے شک ان دونوں کا شرک ثابت نہیں بلکہ وہ اپنے جد ابراہیم کے دین پر تھے”۔

اس کے علاوہ جلال الدین سیوطی پیغمبر کے والدین (صلی اللہ علیہم اجمعین) کے دفاع میں کتابیں اور رسائل لکھے ہیں ان میں سے:

 .1مسالك الحنفاء في والدي المصطفى

الدرج المنيفة في الآباء الشريفة

المقامة السندسية في النسبة المصطفوية

التعظيم والمنة في أن أبوي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في الجنة

نشر العلمين المنيفين في إحياء الأبوين الشريفين

السبل الجلية في الآباء العلية

ب۔ قسطلانی شافعی

وہ بھی نبی اکرم کے والدین (صلی اللہ علیہم اجمعین) کے ایمان کے بارے میں صراحت کے ساتھ لکھتا ہے:

فالحذر الحذر، من ذكرهما بما فيه نقص، فإن ذلك قد يؤذى النبى صلى الله عليه وسلم-، فإن العرف جار بأنه إذا ذكر أبو الشخص بما ينقصه، أو وصف بوصف به، وذلك الوصف فيه نقص تأذى ولده بذكر ذلك له عند المخاطبة؛  [12]احتیاط کریں، احتیاط کریں، اس بات سے جس کے بیان سے پیغمبر کے والدین (صلی اللہ علیہم اجمعین) کی شان میں نقص لازم آتا ہے، کیونکہ یہ چیز پیغمبر ﷺکی اذیت کا سبب بنتی ہے، جیسا کہ یہ بات معروف ہے کہ اگر کسی شخص کے سامنے اس کے والدین کے بارے میں کوئی بات بیان کریں تو اسے اذیت ہوتی ہے”

ج۔ آلوسی

وہ اپنی تفسیر میں نبی اکرم ﷺکے والدین کے ایمان کے بارے میں کہا ہے:

واستدل بالآية على إيمان أبويه صلّى الله تعالى عليه وسلّم كما ذهب إليه كثير من أجلة أهل السنة، وأنا أخشى الكفر على من يقول فيهما رضي الله تعالى عنهما” [13]؛ پیغمبر ﷺ کے والدین کے ایمان پر (اس آیت سے) استدلال کیا گیا ہے جیسا کہ بہت سارے اہل سنت بزرگان کا یہی نظریہ ہے اور مجھے ان دونوں بزرگوں کے خلاف کفر کا فتوی دیتے ہوئے  ڈر لگتا ہے” ۔

د۔ ابن  عابدین

وہ ان کے ایمان کے بارے میں لکھتا ہے:

مطلب في إحياء أبوي النبي – صلى الله عليه وسلم – بعد موتهما ألا ترى أن نبينا – صلى الله عليه وسلم – قد أكرمه الله تعالى بحياة أبويه له حتى آمنا به كما في حديث صححه القرطبي وابن ناصر الدين حافظ الشام وغيرهما، فانتفعا بالإيمان بعد الموت على خلاف القاعدة إكراما لنبيه – صلى الله عليه وسلم – كما أحيا قتيل بني إسرائيل ليخبر بقاتله”[14].

پیغمبر ﷺ کے والدین کی وفات کے بعد ان کے ایمان کے بارے میں ایک مطلب: کیا تم  نےدیکھا نہیں کہ خداوند نے پیغمبرﷺ کو یہ کرامت عطا کی ہے کہ ان کے والدین زندہ رہیں یہاں تک  كہ ان پر ایمان لے آئیں جیسا کہ ایک حدیث جسے قرطبی اور ابن ناصر الدین نے صحیح قرار دی ہے، ذکر ہوئی ہے کہ وہ اپنی موت کے بعد مومن ہونگے اور یہ وہ بات ہے جو خلاف قاعدہ ہے اور یہ از باب کرامت ہے جسے خداوند نے پیغمبر ﷺ کو عطا کی ہے۔ اور یہ امر ممکن ہے جیسا کہ خداوند نے بنی اسرائیل کے ذبیحہ کو زندہ کیا تاکہ اس کے قاتل کی پہچان ہو جائے”

ہ۔ ابو زہرہ

وہ بھی نبی اکرمﷺ کے والدین (صلی اللہ علیہم اجمعین) کے ایمان کے بارے میں تصریح کرتا ہے:

جو روایت پیغمبرﷺ کے والدین (صلی اللہ علیہم اجمعین) کو اہل عذاب قرار دیتی ہے بے شک وہ ایک اجنبی روایت ہے اور اس کی سند میں اشکال ہے۔ .[15]

 

نتیجہ

قرآن کریم کی نورانی آیات کی طرف رجوع کرنے اور اسی طرح اس باب کی روایات سے یہ بات بخوبی روشن ہوتی ہے کہ نبی اکرمﷺ کے والدین (صلی اللہ علیہم اجمعین) مومن تھے اور اپنے اجداد کے دین پر تھے، جو کہ دین ابراہیم علیہ السلام تھا۔ اس کے علاوہ ممکن نہیں کہ خدا کی پاکیزہ ترین مخلوق کافر والدین جو کہ نجس ہیں، سے پیدا ہو جائے۔

اور صحیح مسلم کی جس روایت سے اس ماہر نے استدلال کیا تھا وہ دیگر صحیح روایات سے ٹکراتی ہے اور اس کی سند میں بھی اشکال ہے۔ اہل سنت کے بزرگ علماء کا نظریہ بھی یہی ہے کہ وہ اہل ایمان تھے اور نبیﷺ کے والدین کو شرک اور کفر کے ساتھ متہم نہیں کیا جا سکتا۔

 


 

[1] . بخارى، محمّد، صحيح البخاري، ج4، ص30، تحقيق: محمد زهير بن ناصر، دار طوق النجاة، چاپ اوّل، 1422ق.

[2] توبه، 3

[3] . شعراء، 219

[4] . قرطبي، محمّد، الجامع لأحكام القرآن، ج13، ص144، تحقيق: أحمد البردوني وإبراهيم أطفيش، دار الكتب المصرية، القاهرة، چاپ دوّم، 1384ق. سمعانی، منصور بن محمد، تفسیر السمعانی، ج4، ص71

[5] . نيشابورى، مسلم، صحيح مسلم، ج4، ص1782، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقى، دار إحياء التراث العربى، بيروت، بى تا.

[6] . ابن ابي حاتم رازي، عبدالرحمن بن محمّد (327)، الجرح والتعديل، ج9؛ ص66، دار إحياء التراث العربي، بيروت، چاپ اوّل، 1271 هـ.ق.

[7] . زیلعی، عبد الله بن یوسف، نصب الراية لأحاديث الهداية مع حاشيته بغية الألمعي في تخريج الزيلعي، ج1، ص286؛ ناشر: مؤسسة الريان للطباعة والنشر – بيروت، چاپ اول، 1418ق.

[8] . سوره توبه، 38.

[9] . متقي هندي، علي بن حسام (م 975)، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، ج12، ج427، تحقيق: بكري حياني وصفوة السقا، مؤسسة الرسالة، چاپ پنجم، 1401ق.

[10] . اسراء، 15

[11] . سيوطي، عبد الرحمن بن أبي بکر (م 911)، الحاوي للفتاوي، ج2، ص254؛ دار الفكر للطباعة والنشر، بيروت، 1424 هـ.ق.

[12] . قسطلاني، احمد بن محمّد (م 923)، المواهب اللدنيّة بالمنح المحمديّة، ص 111، ناشر: المكتبة التوفيقية، القاهرة.

[13] . آلوسي، محمود بن عبد الله (م 1270)، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، تحقيق: علي عبد الباري عطية، دار الكتب العلمية، بيروت، چاپ اوّل، 1415 هـ.ق. ج 10 ص 135.

[14] . ابن عابدين، محمّد امين بن عمر (م 1252)، رد المحتار على الدر المختار، دار الفکر، بيروت، چاپ دوّم، 1412 هـ. ق. ج 4 ص 231

[15] . ابو زهرة، محمد، خاتم النبيين صلى الله عليه وآله وسلم، ج1، ص118، ناشر: دار الفكر العربي – القاهرة، چا پ اول، 1425ق.