جنت البقیع تاریخ کے آئینے میں

تحریر : زوار حسین

بقیع کے لغوی معنی بیان کرتے ہوئے ابن اثیر لغوی لکهتا ہے، بقیع وسیع وعریض جگہ کو کہتے ہیں اور لفظ بقیع اس جگہ پر اطلاق ہوتا ہے جس میں درخت اور درختوں کے ریشے ہوں اور اس جگہ کو” بقیع غیرقد ” اس لئے کہا گیا کیونکہ اس میں غرقد کے درخت تھے غرقد ایک درخت هےجو خشکی پر اگتا ہے جس کے پھل کے ساتھ کانٹے بھی ہوتے ہیں جنت البقیع جس کا پرانا نام بقیع الغَرقَد ہے جو مدینے کا سب سے پہلا اور قدیم اسلامی قبرستان ہے، قبرستان جنت البقیع مدینہ میں مدفن رسول(ص) کے بعد افضل ترین مقام ہے اور مدینہ کا سب سے پہلا قبرستان ہے جس کی بنیاد حکم رسول خدا پر رکھی گئی ہے، اسلام کی اہم اور بزرگ شخصیات اہل بیتِ پیغمبرؑ اور ائمۂ شیعہ میں سے چار امام يعنی امام حسنؑ، امام سجادؑ، امام باقرؑ اور امام صادقؑ اور پیغمبر اکرمؐ سے منسوب افراد؛ چچے، پھوپھیاں، بیویاں اور اولاد؛ اور پیغمبر اکرمؐ کے اصحاب؛ انصار، مہاجر اور تابعین کے علاوه علما، شہدا، عہدے دار یہاں مدفون ہیں۔

مختلف حکمرانوں کے دور میں بقیع مورد توجہ رہا اور اس میں مختلف گنبد اور مقبرے بنائے گئے۔ لیکن افسوس کہ حجاز پر وہابیوں کے قبضے کے بعد وہ سارے مسمار کر دیئے گئے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں بعض شخصیات کی قبور پر زیارتگاہیں بنائی گئی تھیں۔ اور بعض لوگ بقیع کے گھروں میں دفن ہوئے تھے۔ ائمہ بقیع کا مزار بھی انہیں میں سے تھا جسے بعد میں وہابیوں نے مسمار کردیا۔ حضرت فاطمہ بنت اسد، ائمۂ بقیع اور پیغمبر اکرمؐ کے چچا عباس بن عبدالمطلب، عقیل کے گھر میں دفن ہوئے تھے۔

بقیع کی فضیلت اور زیارت:

اس قبرستان کی فضیلت کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت دونوں سے متعدد روایاتی نقل ہوئی ہیں یہاں تک کہ بعض کتابوں میں تو اسی کے لیے ایک باب مختص کیا ہے۔ ان میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں:

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : “یحشر من البقیع سبعون الفا علی صورة قمر لیلۃ البدر رسول خدا نے فرمايا : روز قيامت بقيع سے ستر هزار انسان محشور هونگے جن کے چهرے چودهویں کے چاند کی طرح چمک رهے هونگے۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: ” یحشر من هذه المقبرة سبعون الفا يدخلون الجنة بغير حساب” آپؐ سے منقول ہے کہ کل قیامت کے دن ستر ہزار لوگ اس مقبرہ سے محشور ہوں گے جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہونگے۔ رسول خدا اهل البقيع اس طرح سلام کیا کرتے تهے السلام عليك يا اهل القبور يعفوا الله لكم و انتم لنا سلف و نحن بالاثر حضرت عائشة سے روایت ہے : کہ پیغمبر اکرم (ص) رات میں سب کے سونے کے بعد بقیع کی طرف آتے تھے تو میں ان کے پیچھے آتی تھی یا اپنے غلام بریدہ کو انکے پیچھے جانے کے لئے کہتی تھی ہم نے دیکھا کہ آپ جنت البقیع میں زیادہ دیر رہتے اور اہل بقیع کے لیے دعا فرماتے تھے ایک دفعہ اسکی وجہ دریافت کی تو فرمایا “انی امرت ان ادعولهم ” مجھے اھل بقیع کیلئے دعائے مغفرت کرنے کا حکم دیا گیا ہے میں نے تقاضا کیا کہ مجھے تعلیم دیں که جب بقیع جاؤں تو کیسے سلام کرو تو فرمایا: السلام علی اهل الديار من المؤمنين والمسلمين ويرحم الله المتقدمین و المتاخرین و انا ان شاء لله للاحقون .

تاریخ جنت البقیع:

اسلام سے پہلے بقیع نامی قبرستان کے بارے میں کوئی سند یا روایت نہیں ملتی ہے۔ اس بارے میں سب سے قدیمی ادبی اثر عمرو بن النعمان البیاضی کا وہ شعر ہے جو خزرج اور انصار کے بارے میں ہے اور بقیع الغرقد کے درمیان دوستوں کو قتل کرنے کے بارے میں لکھا ہے ، مدینہ کے یہودی اپنے مردوں کو بقیع کے جنوب مشرق میں حش کوکب نامی باغ میں دفناتے تھے۔

پیغمبر اکرمؐ کی مدینہ ہجرت اور حکومت اسلامی کی بنیاد رکھنے کے بعد مسلمانوں کے لیے ایک قبرستان کی ضرورت تھی جس کیلئے یہ جگہ پیغمبر اکرمؐ نے معین کی۔ مہاجرین میں سب سے پہلے صحابی، جو اس قبرستان میں مدفون ہوئےعثمان بن مظعون تھے اور انصار میں سرسبز سے پہلے اسعد بن زرارہ خزرجی دفن ہوئے۔ البتہ تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس باغ میں صرف مردے دفن نہیں ہوتے تھے بلکہ بعض مہاجرین نے وہاں پر گھر بھی بنائے ہوئے تھے بعد میں وہ جگہ بعض شخصیات یا خاندان کے لوگ دفن کرنے سے مختص ہوئی، اس دور کے مشہور گھروں میں سے ایک عقیل بن ابی‌طالب کا گھر تھا۔ جو بعد میں مشہد اہلبیت کے نام سے معروف ہوا اس میں چارمعصوم امام ، رسول خدا (ص) کے چچا حضرت عباس اور حضرت فاطمہ بنت اسد دفن ہوئے یہ بقیع کے مغربی کونے میں واقع ہے، اہم بات یہ ہے کہ ائمہ بقیع کی قبور باقی قبروں کی طرح کھلے آسمان تلے نہیں تھیں بلکہ اس بیت کے اندر تھیں جو حضرت عقیل ابن ابیطالب کا تھا وقت گزرنے کے ساتھ وہ بیت مسجد کی شکل اختیار کرگیا، پھر اس پر ایک بلند قبہ بنا دیا گیا اور اس کے خادم اور نگہبان بھی مقرر ہوئے یہاں تک کہ وھابیوں نے اس کو مسمار کردیا۔

اس مقبرے میں اہل مدینہ اپنے اموات کو مختلف جگہوں پر دفن کیا کرتے تھے آہستہ آہستہ دو عمومی مقبرے بن گئے “بنی حزام” اور “بني سالم” جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مهجور ہو گئے اور ان کے آثار مٹتے چلے گئے، بعض لوگ اپنے اموات کو گھروں میں دفن کرتے تھے مگر عثمان بن مظعون اور ابراہیم بن رسول اللہ کے دفن کے بعد ایک قبرستان کی رسمی شکل بن گئی تو لوگوں نے اپنے اموات کو اس قبرستان دفن کرنا شروع كرديا. جس جگہ حضرت عثمان بن مظعون اور حضرت ابراہیم کی قبر ہے اس کو الروحاء کا نام دیا گیا ہے اور اس کو الزوراء بھی کہتے ہیں اور یہ جگہ بلک جنت البقیع کے وسط مخن واقع ہے۔

لیکن بیت عقیل کی خاص اہمیت تھی اور وہ رسول خدا (ص ) اور بعض خواص کا مطمع نظر تھا اور وہ بیت علم اور نشان تھا جس سے باقی بیوت بقیع کی شناخت ہوتی تھی کیوں نہ ہو اس میں رسول خدا کے عزیزواقارب کو دفن کیا گیا سب سے پہلے فاطمہ بنت اسد پھر حضرت عباس دفن ہوئے پھر چاروں امام معصوم بھی وہاں دفن ہوئے اس تاریخی واقعے کی طرف تمام مورخین مدینہ نے اشارہ کیا ہے کہ امام حسن مجتبی اپنے جده کے پہلو میں دفن ہوئے اور ان کے پہلو میں باقی تینوں امام مدفون ہوئے ہیں اور یہ سب دار عقیل میں مدفون ہیں۔ جسکے بارے میں امام غزالی لکھتا ہے امام حسن مجتبی (ع ) کی قبر کی زیارت مستحب ہے اور اس میں علی بن حسین، محمد بن علی اور جعفر بن محمد کی قبریں بھی ہیں

ان شخصیات کو دار عقیل میں اس لئے دفن کیا گیا کیونکہ اہل مدینہ بزرگ ہستیوں کو گھروں میں دفن کرتے تھے جس کی مثال حضرت رسول خدا (ص ) ہیں جنکو مولا علی علیہ السلام نے اپنے ہی گھر میں دفن گیا۔

جو روایات جنت البقیع کی فضیلت میں نقل ہوئی ہیں اور حضرت رسول اکرم (ص ) کا وہاں دعائے مغفرت فرمانا نقل ہوا ہے وہ دار عقیل کے بارے میں تھا، خالد بن عوسجہ سے ابن زبالہ نقل کرتا ہے کہ میں دار عقیل کے پاس رات کی تاریکی میں دعا کر رہا تھا کہ جعفر بن محمد کا وہاں سے گزر ہوا انہوں نے مجھ سے فرمایا کیا آپ کسی حدیث کی بنا پر یہاں دعا کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا نہیں فرزند رسول اللہ تو انہوں نے مجھ سے فرمایا یہ وہ جگہ ہے جہاں پر رسول خدا (ص ) رات کی تاریخی میں اہل بقیع کے لیے دعائے مغفرت کیا کرتے تھے ۔

یہ اس جگہ کی اہمیت تھی کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں جاکر دعا مغفرت کیا کرتے تھے اور اپنے رب سے مناجات کیا کرتے تھے رسول خدا نے اپنے عمل سے اس مقام کی اہمیت کو بتایا کہ اس مقام پر دعا قبول ہوتی ہے، یہ مکان مکان عبادت ہے، یہاں آ کر استغفار کیا کرو لیکن افسوس کہ امت کے شرپسندوں نے اس مقام عبادت کو مسمار کردیا۔۔، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بتانا چاہتے تھے کہ یہ مقام ان جگہوں میں سے ہے کہ جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا “اذن الله ان ترفع ويذكر فيه اسمه” که یہ مکان لوگوں کی تسبیح گاہ ہوگا ” لا تلهيهم تجارة ولا بيع عن ذكر الله….” يه مقام مهبط ملائکہ اور منزل رحمت وبرکت الہی ہوگا ۔۔۔

اسی طرح بیت الاحزان بھی بقیع میں بننے والے گھروں میں سے ایک تھا جسے امیرالمؤمنین علی علیه‌السلام نے بنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے بابا کے فراق میں عزاداری کرنے کے لیے بنایا تھا۔

بنی امیہ کے دور حکومت میں بھی بقیع کی زمین اور باغ لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا اور مدینہ کی توسیع میں بعض لوگوں نے وہاں مکان بنایے۔ اور ساتھ ہی مردوں کو بھی دفن کیا جاتا رہا۔ معاویہ نے اپنے دور سلطنت میں حکم دیا کہ قبر عثمان بن عفان کو جنت البقیع کے ساتھ ملا دیا جائے اور اس نے حکم دیا کہ شہدائے احد کی قبروں خصوصا سید الشہداء حضرت حمزہ علیہ السلام کی قبر کے پاس سے پانی کی نهر کھودی جائے تا کہ ان شہداء کے آثار مٹ جائیں اور اسکے آباء کی کارستانیاں لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جائیں ، اسی طرح مروان بن حکم ملعون نے حکم دیا کہ وہ پتھر جو رسول اللہ نے اپنے دست مبارک سے عثمان بن مظعون (رضی اللہ عنہ ) کی قبر پر رکھا تھا اس کو عثمان بن عفان کی قبر پر رکھا جائے اسی طرح سے بنی امیہ نے اپنے سیاسی مقاصد اور اسلام دشمنی کی بنا پر بعض معروف اور معتبر اسلامی شخصیات تخریب قبور کے ساتھ ساتھ بعض اموی شخصیات کی تجلیل کے لئے احادیث بھی گھڑی اور بعض شخصیات کی قبروں کو بھی تعمیر کروایا۔۔۔۔

جبکہ بنی عباس نے بنی امیہ کے برخلاف اپنے جد حضرت عباس کی قبر پرمسجد اور مزار تعمیر کروایا تاکہ لوگوں کو بتائیں کہ ہم خاندان نبوت سے ہیں اور اہل بیت کا احترام کرتے ہیں اور اسی دوران اولاد امام حسن علیہ السلام کے لئے بھی یہ فرصت تھی انہوں نے بھی اپنے عقیدت کا واضح اظہار کیا اور منزل عقیل کو مزار میں تبدیل کردیا، پس عهد سفاح (عباسی دور کے پہلے خلیفہ) میں منزل عقیل ایک حرم میں تبدیل ہو گئی جس کی زیارت ہر عام و خاص کر سکتا تھا ۔ یہاں تک کہ سنہ 148 ھجری میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کے بعد ان کو بھی وہاں دفن کردیا گیا اس روز سے قرن پنجم تک کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں اس کی کوئی تاریخی ثبوت ہماری دسترس میں نہیں ہے لیکن تاریخ سے اتنا واضح ہے کہ شیعہ اہل بیت اور عباسیوں نے ان چاروں صدیوں میں اس حرم کو نہیں بهلایا بلکہ اس کی ترمیم اور تجدید بناء کرتے رہے۔

لیکن تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ بقیع علیہم السلام کے مقبرے کی مرمت سلجوقیوں کے دور میں شروع ہوئی۔ ابن اثیر سنہ 496 ھجری کے حوادث بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ برکیارق بن ملک شاہ سلجوقی (متوفی ۴۹۸ھ) جسکا لقب رکن الدین تھا کے شیعہ وزیرمجد الملک ابوالفضل اسعد بن محمد بن موسی البراوستانی القمی (متوفی ۴۹۲ھ) نےشہر قم کے ایک معمار کو ائمہ بقیع کا گنبد بنانے پر مامور کیا لیکن وزیر کے قتل ہونے کے بعد مدینہ منورہ کے امیر کی سازشوں کے تحت اس معمار کو بھی قتل کر دیا گیا ، یہ گنبد عالی شان قرن پنجم ھجری میں انجام پایا ۔

مورخ شہیر ابن نجار کہتا ہے کہ مقبرہ بنی ہاشم کے اوپر ایک بڑا اور اونچا گنبد ہے جس کے دو دروازے ہیں جن میں سے ایک روزانہ کھلتا ہے۔ جبکہ معروف اندلسی سیاح ابن بطوطہ نے بھی بھی اپنے سفر نے کچھ ایسا ہی دیکھا اور درجنوں کیا ہے ۔

اس حرم اور گنبد کو مختلف ادوار تاریخ میں مختلف مورخین اور شخصیات نے دیکھا اور نقل کیا ہے یہاں تک کہ ابراہیم رفعت پاشا جس نے ھجری 1325 میں حج بیت انجام دیا ہے کہتا ہے حضرت عباس اور حضرت حسن علیہ السلام اور ان کے ساتھ مدفون شخصیات کو ایک ہی مقبرے میں دفن کیا گیا ہے جسکے مقبرے کے اونپر ایک گنبد تعمیر کیا گیا ہے جو جنت البقیع مین موجود تمام گنبدوں میں سب سے اونچا گنبد تھا ۔

اسی طرح تاریخ کے مختلف ادوار مین اس گنبد اور حرم مطہر کی ترمیم ہوتی رہی ہے، پہلی ترمیم سنی 519 ہجری میں عباسی خلیفہ مسترشد باللہ کے دور حکومت میں ہوئی ، جبکہ حرم مطہر کی دوسری ترمیم سن 423 سے 640 کے درمیانی عرصے مین ایک اور عباسی خلیفہ مستنصرباللہ کے حکم سے انجام پائی، تاریخ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان حکمرانوں نے اس گنبد اور حرم مطہر کی ترمیم اور تعمیر نو کروائی نہ یہ کہ ابتدا سے پہلی بار گنبد اور حرم کو تعمیر کروایا کیونکہ اصلی حرم اور گنبد توپہلے دور سے ہی تعمیر ہو چکا تھا۔

تیسری بار یہ حرم مطہر اور بلند و بالا گنبد سلطان محمود عثمانی کے حکم کے مطابق محمد علی پاشا مصری کے دست سے سن 1234 ہجری میں ترمیم اور تعمیر کیا گیا ۔ ، تاریخ سے واضح طور پر یہ تین دور ترمیم ہمارے تک پہنچے ہیں ، یقینا اسکے علاوہ بھی ترمیمات ہوئی ہیں لیکن ہم تک نہیں پہنچیں۔ بہر حال یہ ترمیمات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ قبرستان جنت البقیع ہر دور میں مسلمانوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے خصوصا حرم اھلبیت عليہم السلام، بلکہ ایسا کیوں نہ ہو جبکہ یہ ہمیشہ سے منبع نور اور ھدایت بنا رہا ہے ۔

اسی طرح سے کبار مورخین نے تاریخ مدینہ میں بیت الاحزان کا تذکرہ بھی کیا ہے اور اس کے وجود کو ثابت کیا ہے یہاں تک کہ بیت الاحزان ایام امام حسین علیہ السلام کے ایام امامت تک باقی تھا آپ علیہ السلام نے اھلبیت کی چاہنے والی ایک خاتون سے اس کی حفاظت کرنے اور اسکو زندہ رکھنے کا تقاضا فرمایا ۔ جبکہ اھلسنت کے امام غزالی نے اس مقام پر نماز کے استحباب کا ذکر اپنی معروف کتاب احیاء علوم دین میں کیا ۔

معروف تاریخ دان ابن جبیر لکھتا ہے اس نے محرم سن 580 ہجری میں جنت البقیع کے اندر بیت الاحزان کی زیارت کی جسکا تذکرہ اس نے اپنے سفر نامے میں صفحہ 144 پہلے کیا ہے۔ اسی طرح دوسرے مورخین مچل ابن شبہ اور سمہودی نے اسکے وجود کو تاریخ کے اوراق میں ثبت کیا ہے۔۔۔ ، جبکہ فرہاد میرزا جو قاجار کے امیروں میں سے تھا اور کاروان حج بیت اللہ کا سردار تھا اس نے بھی اپنے سفر نامہ حج بیت اللہ میں یہ ذکر کیا یے کہ اس نے بیت الاحزان کی زیارت کی اور اسکے بعد بی بی حلیمہ سعدیہ قبر کی زیارت سے مشرف ہوا ۔

اسی طرح ابراہیم رفعت پاشا نے بھی بیت الاحزان کا تذکرہ اپنی سفرنامہ حرمین میں کیا ہے کیونکہ وہ امیر حجاج مصر تھا اور اس نے آخری دفعہ جنت البقیع کی زیارت سن 1325 ہجری میں کی۔ معروف شیعہ عالم سید شرف الدین موسوی عاملی نے انہدام جنت البقیع سے پانچ سال قبل سن 1399 مدینہ منورہ کی زیارت کی تو جنت البقیع کی زیارت کے دوران بیت الاحزان کی بھی زیارت کی۔

ابن تیمیہ تکفیری اور محمد بن عبد الوھاب نجدی وہابی کے پیروکار حجازی وہابیوں نے سنہ 1220 ہجری قمری میں مدینہ منورہ پر پہلا حملہ کیا اس وقت عثمانی حکومت کے حکمران (سلطان محمود دوم) نے ماہ ذی القعدہ میں انہیں نابود کرنے کیلئے مصر کے گورنر محمد علی پاشا کو حکم دیا۔ اس نے ان ظالموں کا مقابلہ کیا اور آخر کار وہابی فتنے کو بروز بدھ ۸ ذی‌القعدہ ۱۲۳۳ہجری میں خاموش کر دیا گیا اور مسمار شدہ آثار کو دوبارہ سے تعمیر کیا گیا ۔ جبکہ صفر ۱۳۴۴ہجری کو وہابیوں نے مدینہ پر ایک بار پھر سے حملہ کیا اور قبروں پر مزار بنانے اور زیارت پڑھنے کو بدعت قرار دیا ، اسی سال وہابی قاضی القضات عبداللہ بن سلیمان بن بلیہد خود مکہ سے مدینہ پہنچا اور مقبروں کو منہدم کرنے کے لیے زمینہ سازی کی اور اس کے فتوے کے تحت ۸ شوال ۱۳۴۵ھ کو جنت البقیع کے تمام مقبرے جن میں اھلبیت رسول کے علاوہ اقارب رسول خدا امہات المومنین اور اصحاب پیامبر کے مقبروں کو بھی منہدم کر دیا گیا ۔ رسول کے حرم کو بھی مسلمانوں کے غضب کی وجہ سے باقی رکھا گیا ۔ اس فتوے کے آنے پر وہابیوں نے۸ شوال ۱۳۴۵ھ کو تمام عمارتوں، گنبدوں اور بارگاہوں کو مسمار کیا جس کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں نے احتجاج کیا اور ہر سال مختلف ممالک میں “یوم انہدام جنت البقیع” کے موقع پر جلسے اور جلوس ہوتے ہیں اور یہ دنیا تاریخ اسلام میں سیاہ دن کے طور پر باقی رہے گا۔

جب یہ خبر عالم اسلام میں پھیلی تو تمام مسلمان مصیبت زدہ ہو گئے جس پر مذہبی شخصیات نے پورے عالم اسلام میں احتجاج کیا خصوصا عراق، ایران اور برصغیر پاک و ہند کے اکابرین اور مذہبی شخصیات نے اس تکفیری اور نا حق فعل پر سخت احتجاج کیا۔ اس مصیبت پر مجالس عزا برپا ہوتی آئی ہیں اور اس منهوس فعل سے بیزاری کا اظہار کیا جاتا رہا ہے اور کیا جاتا رہے گا۔


مآخذ

• ابن ابی الحدید عبدالحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغۃ، تحقیق ابراہیم محمد ابوالفضل، قم، کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، چاپ دوم، ۱۴۰۴ق۔

• ابن بطوطہ، رحلہ، دار احیاء علوم، بیروت ۔

• ابن اثیر علی بن محمد،‌ الکامل فی التاریخ، بیروت، دارصادر للطباعۃ و النشر، ۱۳۸۵ق

• ابن اثير، نھایہ در غریب حدیث، مکتبہ علمیہ، بیروت 1979م۔

• ابن جبیر، محمد بن احمد، سفرنامہ ابن جبیر، ترجمہ پرویز اتابکی،‌ انتشارات آستان قدس رضوی، ایران، چاپ اول ۱۳۷۰ش

• ابن حجر العسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۴۱۵ق

• ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۴۱۰ق

• ابن شبہ نمیری، عمر بن شبہ، مترجم: صابری حسین،‌ نشر مشعر، تہران، ۱۳۸۰ش

• ابن‌نجار البغدادی، محمد بن محمود،‌ الدرۃ الثمینۃ فی اخبار المدینۃ، دارالارقم،‌ بیروت، بی‌تا

• احمد، مسند احمد، موسسہ رسالہ 2009م۔

• ترمذی، سنن ترمذی، دارالکتب غرب، 1996م۔

• حموی یعقوت، معجم البلدان، دارصادر، 1993م۔

• رفعت پاشا ابراہیم، مترجم، انصاری ہادی، مرآت الحرمین، نشر مشعر، تہران، ۱۳۷۷ش ۔

• السمہودی علی بن احمد، وفاء الوفا باخبار دارالمصطفی، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۹۷۱م۔

• شرف الدين؟، النص و الاجتهاد، دارصادر قارئ 2008م۔

• طبری محمد بن جریر،‌ تاریخ الأمم و الملوک، (دورہ ۱۱ جلدی) بیروت، بی‌تا،‌ بی‌نا

• غزالی، احیاء علوم الدین، بیروت بی تا۔

• فراہانی محمد حسین بن مہدی سفرنامہ میرزا محمد حسین فراہانی، ناشر فردوس تہران، ۱۳۶۲ش

• فرہاد میرزا معتمد الدولہ، ہدایۃ السبیل و کفایۃ الدلیل (سفرنامہ)، نشر علمی تہران، ۱۳۶۶ش

• فراہانی محمد حسین بن مہدی سفرنامہ میرزا محمد حسین فراہانی، ناشر فردوس تہران، ۱۳۶۲ش

• فرہاد میرزا معتمد الدولہ، ہدایۃ السبیل و کفایۃ الدلیل (سفرنامہ)، نشر علمی تہران، ۱۳۶۶ش

• نجمی، صادق، تاریخ حرم ائمہ بقیع، موسسہ معارف قم 1429 ق۔