اقبالؒ اور جمہوریت

تحریر: مولانا عابد حسین مہدوى

 

تایخی پس منظر

انقلاب فرانس کے بعد سیکولریزم کے نام سے ایک لا دینی تحریک کا آغاز ہوا جس کی بنیاد دین سے دشمنی پر رکھی گئی۔ یہیں سے دین کے خلاف بالعموم اور اسلام کے خلاف بالخصوص سازشوں کا آغاز ہوا۔ اس سرد جنگ کو آگے بڑھانے کے لئے جہاں کچھ نئی اصطلاحات کو ایجاد کیا گیا وہیں کچھ پرانے کلمات کی ایک نئی تشریح کی گئی اور پھر ان الفاظ کے اصلی مفہوم  اور معنى میں تحریف واقع ہو گئی۔ نتیجے کے طور پر یہ الفاظ  مشترک الفاظ بن گئے۔ جیسے حریت، آزادی، ترقی، عدل، مساوات….  

اس تحریف کا مقصد صرف یہ تھا کہ اسلام کو ان  جيسے  فطرى مفاہيم کا مخالف دین ثابت کیا جائے تاکہ لوگ اسلام  سے  دور ہو جائیں جبکہ یہ مفاہیم اسلام کی بنیاد ہیں اور ان جیسی انسانی اقدار کے احیا کے لئے ہى انبیاء مبعوث ہوئے ہیں۔ جب ان الفاظ کی ایک الحادی اور لا دینی تفسیر کی گئی تو معاشرے کے  كچھ ساده لوح لوگ گمراه ہوگئے اور دین دار اور سمجھ دار طبقے نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا۔ وجہ یہ تھی کہ دین اسلام ان الفاظ کی اپنی ایک خاص تشریح رکھتا ہے۔ ان مفاہیم كو اپنی اصلی اور فطری تشریح سے ہٹا دیا گیا تھا  جس طرح سے ایک انسان کی شخصیت میں تحریف واقع ہو تى ہے تو وہ اپنی فطرت سے ہٹ كر مرتد ہو جاتا ہے اور اسے دوبارہ اپنی فطرت (اسلام) کی طرف پلٹانے کی ضرورت پیش آتی ہے اسی طریقے سے ہی ان مفاہیم اور اصطلاحات کو اسلام کی طرف پلٹانے کی ضرورت پیش آئی۔ یہاں سے ایک تحریک نے جنم لیا جسے أسلمة العلوم يا أسلمة المفاهيم  کا نام دیا گیا۔ پس اسلام ان کی مغربی تفسیر کو اس لیئے قبول نہیں کرتا چونکہ وہ خود ان کی اصل تشریح رکھتا ہے۔ مثلا اگر مساوات سے مراد یہ ہے کہ میراث میں مرد اور عورت برابر کے شریک ہیں اور عورت بھی مرد کی طرح حاکم شرع بن سکتی ہے تو اس قسم کی تشریح کے لئے اسلام کے اندر کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اسی طرح اگر  آزادی سے مراد یہ ہے کہ خاتون کو بے پردہ کر کے اسے تحفة العوام بنا دیا جائے تو اسلام ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتا لیکن اس کا  مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اسلام مساوات اور آزادی کا ہى مخالف ہے۔

 

لفظِ جمہوریت

انہی الفاظ میں سے ایک لفظ “جمہوریت” بھی ہے جسے ديگر الفاظ كي طرح اپنے حقيقی اور اصلى تفسير وتشريح سے ہٹا كر يہ ثابت كرنے كى كوشش كى جا رہى ہے كہ  اسلام اور جمہوريت ہرگز جمع نہیں ہو سكتے حالانكہ جمہوريت اس خاص تفسير كے ساتھ جو بعد  میں بيان كی جائے گی عینِ اسلام ہے۔

“جمہوریت” اپنے ظاہری وضع میں عربی زبان کا لفظ ہے جو كہ جمہور سے مشتق ہے اور اسم منسوب ہے۔ اس میں “تا” تانیث کے لئے ہے۔ اس كے تصور کا آغاز یونان سے ہوا اور پھر تاریخ بشریت کے اتار چڑھاؤ سے ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہے۔ یہ اپنے لغوی معنی میں اتنا برا نہیں ہے کیونکہ لغت میں ہر وہ چیز جسے لوگوں کی اکثریت قبول کرے جمہوری ہے۔ پس لغت کے حساب سے جمہوری حکومت اس کو کہا جائے گا جس کی جڑیں عوامی ہوں۔ جمہوری حکومت کی مثال اس درخت کی سی ہے جس کی جڑیں زمین كے اندر دور دور تک پھیلی ہوئی ہوں اور طوفان اسے آسانی سے نقصان نہ پہنچا سکتا ہو۔ مقام اصطلاح میں اس کی کئی انواع واقسام بيان ہوئى ہیں: جیسے لبرل جمہوریت اور اسلامی جمہوریت وغیرہ۔ ان میں سے ہر ایک کی اپنی الگ تعریف ہے لہذا صرف ایک تعریف پر اکتفا کرنا خلط ِمبحث ہے۔

ہاں جب بھی لفظ جمہوریت مطلقا بولا جاتا ہے تو عموما اس کا تبادر لبرل جمہوریت کی طرف ہوتا ہے جس کی وجہ سے بعض لوگوں كو غلط فہمى ہوئى۔ البتہ جب اس لفظ کی قرآن وسنت کی روشنی میں تشریح ہوگی تو مقام اصطلاح میں سیکيولر جمہوریت کے مقابلے میں اسلامی جمہوریت بن جائے  گی کیونکہ جہاں اسلام ڈیکٹیٹرشپ اور بادشاہت کی نفی کرتا ہے وہاں  عقل اجتماعی کی اہمیت کو قبول کرتا ہے۔ مغربی استعمار کی سازش ہے کہ جہانِ اسلام کو مساوات اور آزادی کا مخالف دین ثابت کیا جائے۔ ان کی کوشش ہے اسلام کو جمہوریت کا مخالف اور ڈیکٹیٹرشپ کا حامی دین ثابت کیا جائے۔

دینی حکومت کے قیام  کا نظریہ شاید ادیان سماوی کا ایک مشترک نظریہ ہو لیکن یہ مقام اجرا میں تحریف کا شکار ہوا۔ پس فرانس کے انقلاب سے پہلے غرب میں تھیوکریسی یعنی دینی حکومت قائم ہوئى تھی اور سارے غرب پر کلیسا کا راج تھا۔ دینی حکومت کا مطلب یہ تھا کہ پادری نے حقّ تصرف اللہ سے حاصل کیا ہے، وہ واسطہ فیضِ الہی ہے، پادری زمین پر نائبِ خدا اور وہ معصوم عن الخطا ہے پس اس کی بات کتاب مقدس کی طرح حجیت شرعی رکھتی ہے۔ وہ نہ کسی آئین کا تابع ہے اور نہ ہی امت کے آگے جوابدہ بلکہ امت پر اس کی اطاعت واجب ہے۔ صدیوں پر محیط کلیسا کی اس حکومت کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی انتہا ايك  لا دینی  تحریک کے آغاز پر ہوا۔ اس کا اہم ترین سبب صدیوں پر محیط دین کے نام پر ہونے والا وہ ظلم وبربریت تھا جس سے مغربی انسان تنگ آچکا تھا لہذا کلیسا کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور متبادل نظريے كے طور پر لبرل جمہوریت نے اس کی جگہ لے لی۔

 

اقبالؒ اور دینی حکومت

اقبالؒ دینی حکومت کے اس معنی کی نفی کرتے ہیں۔ ان کی نظر ميں حکومت ہدف نہیں بلكہ  عدل، مساوات، حریت اور اتحاد جیسے مفاہیم كو معاشرے میں اجرا كرنے کا وسیلہ ہے۔ یہ وہ انسانی اقدار ہیں جن کے احیاء کے لئے اللہ سبحانہ وتعالی نے انبیاء بھیجے۔ پس اقبالؒ کی نظر میں ہر وہ حکومت دینی ہے جو ان اقدار کے احیاء کے لئے کوشاں رہتی ہے۔ اقبالؒ دینی حکومت کی ذمہ داری کو بیان کرتے ہوئے  اپنى كتاب (تجديد الفكر الديني في الإسلام ص259) میں  ارشاد فرماتے ہیں :

ومهمة الدولة في الإسلام هي تحويل هذه المبادئ المثالية إلى قوى تعمل في المكان والزمان يتركز طموحها في تحقيق هذه المبادئ في مؤسسة دينية إنسانية محددة وبهذا المعنى وحده تكون الدولة في الإسلام دولة ثيوقراطية (دينية ) ولكن ليس بمعنى أن على رأسها خليفة الله ونائبه على الأرض الذي يستطيع أن يخفي إرادته الاستبدادية وراء عصمته المزعومة “. 

(ترجمہ: اسلام میں حكومت كى زمہ دارى يہ ہے کہ ان مثالى اقدار كو ايک خاص زمان اور جغرافيہ كے اندر ايكـ دينى اور انسانى معاشرے میں عملى جامہ پہنايا جائے۔ صرف اسى معنى میں اسلام میں حكومت دينى ہو سكتى ہے ليكن اس معنى میں نہيں كہ اس كے اوپر خليفة الله كى حكومت ہے اور اس نائب كى حكومت ہے کہ جس  نے اپنے مزموم عزائم و ارادے اپنى جعلى عصمت كے پيچهے  چهپائے ہوئے ہیں۔)

اسى كتاب كے صفحہ 260 میں دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:  

والدولة في الإسلام مجرد محاولة لتحقيق الروحانية في بناء المجتمع الإنساني وبهذا المعنى تكون كل دولة غير قائمة على مجرد السطوة بل تستهدف تحقيق مبادئ مثالية هي دولة ثيوقراطية “.

(ترجمہ : اسلام میں حكومت ايک انسانى معاشرے كى تشكيل اور اس كى روحانى بنيادوں پر ارتقاء کے لئے صرف ايک كوشش ہے۔ اس معنى میں ہر وه حكومت جو ظلم وبربريت پر قائم نه ہو بلكہ ان مثالى اقدار كو اپنا ہدف قرار دے وہ دينى حكومت ہے۔)

پس اقبالؒ کی نظر ميں ہر وہ حکومت جو ان اہداف کے حصول کے لیئے کوشاں نہیں لا دینی ہے اور اس کا باطن چنگیزیت ہے چاہے وہ حکومت دین کے نام پر ہی قائم کیوں نہ ہوئى ہو  اور اس كا حاكم سر پر پگهڑی باندهنے والا مولوى ہى كيوں نہ ہو۔

پس اقبالؒ دینی حکومت یا اسلامی حکومت جیسے الفاظ کی اپنی ایک الگ تشریح رکھتے ہیں۔

 

مغربی جمہوریت

مغرب میں تھیوکریسی یا دینی حکومت کے خاتمے کے بعد لبرل جمہوریت کے نظریے کو بہت پذیرائی ملی۔ یورپ اسے اپنے لئے نجات دہندہ سمجھنے لگا جس کے نتیجے میں حکومت کلیسا کے ہاتھ سے نکل کر عوام کے ہاتھوں میں آگئی جہاں پر اکثریت کی رائے كو تقدس کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا، جمہور ہی تمام اختیارات اور حقوق کا اصل مصدر ومنبع  سمجھا جانے لگا۔ اس کام میں اسں حد تک مبالغے سے کام لیا گیا کہ اقلیت کے حقوق کی کوئی ضمانت تكـ نہیں دی گئی۔ اس دوران کوئی معیار اور حق ثابت نہیں رہا بلکہ ہر چیز اکثریت کی تابع ہوئی جس کے نتیجے میں دین، جو کچھ ايسے مثالی اور ناقابل تغيير اقدار اور معیارات کا مجموعہ ہے، کے لئے سیاست میں کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔ نتیجے کے طور پر مغرب کے سرمایہ دارنہ نظام نے جمہوریت کو اپنے مادی اغراض ومقاصد کے حصول کے لئے وسیلے کے طور پر استعمال کیا۔ پس جمہوریت کی صرف ظاہری شکل باقی رہی اور اس کا باطن  چنگیزیت بن گیا۔

 

اقبالؒ اور جمہوریت

اقبالؒ اس مقام پر جمہوریت کو اسلام کے سائے میں لانا چاہتے ہیں چونکہ اسلام اسی کے باطن کا ضامن ہے۔

پس ارشاد فرماتے ہیں:

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اقبالؒ كى نظر ميں جمہور كو معيار کا تابع ہونا چاہیے۔ پس مغربی جمہوریت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے  ارشاد فرماتے ہیں:

جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

اقبالؒ جمہور کو معیار کے تابع رکھنے کے قائل ہیں نہ اصل جمہوريت كے مخالف۔  

ایک اور جگہ مغربی جمہوریت کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام

چہرہ روشن اندرون چنگیز سے تاریک تر

 پس اس کا مطلب یہ ہوا کہ اقبالؒ اصل مردم سالاری کے مخالف  نہیں ہیں بلکہ صرف مغربى جمہوريت كے مخالف ہیں، جس طرح سے مغربى دينی حكومت كے بهى مخالف  ہیں۔ لہذا اقبالؒ کئی جگہوں پر مردم سالاری (جمہورى حكومت) کی تعریف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

مثلا ارشاد فرماتے ہیں:

سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانا

جو نقش کھن تم کو نظر آئے مٹا دو

پس اقبالؒ ہرگز ایسی حکومت كى نفی نہیں کرتے جو دینی ہونے کے ساتھ ساتھ عوامی شہرت اور مقبولیت بهى رکھتی ہو۔ وہ فرد واحد کی حکومت کی نفی کرتے ہوئے عوامی حکومت اور ترکی طرزِ تفکر کی تایید کرتے ہوئے اپنى كتاب (تجديد الفكر الديني في الإسلام، ص 263) میں ارشاد فرماتے ہیں:

ودعونا الآن نرى كيف مارس المجلس القومي الكبير في سلطة الاجتهاد فيما يتعلق بنظام الخلافة فطبقا لرأي أهل السنة تولي إمام أو خليفة هو أمر حتمي لابد منه والسؤال الأول الذي يظهر بهذا الخصوص هو هل الواجب إسناد الخلافة أو الإمامة إلى شخص واحد بمفرده ؟

والاجتهاد التركي في هذه المسألة هو أنه طبقا لروح الإسلام يمكن إسناد الخلافة أو الإمامة إلى جماعة من الناس أو إلى مجلس منتخب …. وأعتقد أن الرأي التركي سليم جدا وليس هناك من يدعو للجدل فيه.”

(ترجمہ: اب آئيے ديكهتے ہیں كہ كيسے تركى كى گرینڈ نیشنل کونسل نے خلافت كے مسئلے میں اپنا اجتہاد كيا اور اہل سنت رائے كے مطابق خليفہ یا امام کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن اس مسئلے میں یہاں پر جو اہم سوال اٹهتا ہے يہ کہ كيا خلافت اور امامت كى بنياد فرد واحد ہونا چاہیے؟

ترکي اجتہاد اس مسئلے میں يہ ہے كہ ممكن ہے معاشرے میں امامت اور خلافت كى بنياد لوگوں کا ایک گروه یا ان کی منتخب شده پارلیمنٹ ہو۔۔۔ اور ميرا خيال ہے کہ یہ ترکی نظریہ بالکل درست ہے اور اس میں مزيد بحث کى گنجائش بهى نہیں  ہے۔”     

پس اس مقام پر اقبالؒ ایک ایسی حکومت کی تایید کرتے ہیں جس کی جڑیں بالواسطہ یا بلا واسطہ جمہور سے ملتی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبالؒ نے اپنی عملی زندگی میں ١٩٢٦ء میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا اور جیت بھی گئے اور ١٩٣١ء تک اس کا رکن  بهى رہے۔ اسی طرح علامہ اقبالؒ نے سیاسی پارٹی آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور ایک عرصے تک اس کی قیادت بھی کرتے رہے۔ مسلم لیگ ایک ایسی نمائندہ جماعت اور پارٹی تھی جو عوامی جدوجہد پر یقین رکھتی تھی اور انتخابات میں حصہ بھی لیتی رہیں۔ 

 

بحث کا نتیجہ

پس نتیجے کے طور پر يہ كہا جا سكتا ہے كہ  اقبالؒ نے دینی جمہوری حکومت  يا اسلامى جمہورى حكومت يا روحانى جمہورى حكومت کا نظریہ پیش کیا۔

پس وہ صرف دینی حکومت كى بھی نفی کرتے ہیں جیسے صرف جمہوری حکومت کی نفى كرتے ہیں اور دونوں کو اکٹھا کرکے دینی يا اسلامى جمہوری حکومت کا نظریہ پیش كرتے ہیں جس میں دین سے مراد معاشرے کے اندر انسانی اقدار کا احیاء ہے۔ پس اقبالؒ كى نظر میں حكومت كا دينى يا اسلامى ہونا اس كے هدف اور اس كے حصول كے لئے عملى كوشش  پر منحصر ہے البتہ امام خمینیؒ اور دیگر محققین اس کو کافی نہیں سمجهتے ہیں۔

جمہوریت سے مراد  مردم سالاری ہے یعنی ایک ایسی حکومت جس کی بنیاد عوامی ہو  چاہے وه بالواسطہ ہو يا بلا واسطہ۔

یہاں بعض محققین (پروفیسر فتح محمد ملک) نے اقبالؒ  کی روحانی جمہوریت کے نظریہ کے تين بنیادى اصول ذكر كئے ہیں:  

١: کائنات کی روحانی تفسیر

٢: فرد کی روحانی آزادی

٣ انسانی معاشرے کا روحانی بنیادوں پر ارتقاء 

البتہ یہ تصور بھی دینی جمہوریت يا اسلامى جمہوريت کے نظرئے سے منافات نہیں ركهتا ہے کیونکہ اقبالؒ کی نظر میں یه وه مقدس اور مثالی اہداف ہیں جن کی وجہ سے ايک حكومت دينى يا اسلامى بن جاتى ہے۔