امام خمینیؒ کا کارنامہ

محمد حسین چمن آبادی

دنیائے اسلام کا چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جانا، فرقہ پرستی و قوم پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان، اکثر اسلامی ملکوں پر استعمار کا تسلط، اور ان کی علمی و مالی میراث کو بے دریغ لوٹنے کے عمل نے مسلمان مفکروں کو اس بارے میں غور وفکر کرنے پر مجبور کیا۔

 بعض مفکرین جیسے طہطاوی، خیر الدین تونسی، عبد الرحمن کواکبی وغیرہ اہل مغرب کی صنعتی ترقی کو دیکھ مسلمانوں کو بلا چون و چرا مغرب کی اندھی تقلید کی طرف دعوت دینے لگے کیونکہ وہ مسلمانوں کی ترقی اور عروج اسی میں دیکھ رہےتھے۔ ان کے گمان باطل کے مطابق اسلامی احکام کے ساتھ متمسک ہونے سے مسلمان انحطاط و پستی کا شکار ہو رہے تھے۔

 رشید رضا، سید قطب، سید حسن البناء جیسے حضرات کو مسلمانوں کی آزادی وترقی، صدر اسلام کے اصولوں کی طرف پلٹ کر مغربی تمدن کا بائیکاٹ کرنے میں نظر آ رہی تھی۔

ادھر سے سید جمال الدین افغانی(1838_1897ء) نے Pan-Islamism کا نعرہ بلند کیا، اور اپنی پوری زندگی مسلمانوں کی آزادی، ترقی، بیداری میں صرف کی، مصر، ترکی، ایران اور ہندوستان کا مسلسل دورہ کرتے رہے، کیونکہ اسلامی دنیا میں سے یہ چار ممالک ایسے ہیں کہ ان میں اگر اسلامی انقلاب رونما ہوجائے تو آسانی کے ساتھ دوسرے اسلامی ممالک بھی متاثر ہوسکتے ہیں، اور سید جمال کی تیزبین نگاہوں نے بہت پہلے اس چیز کو درک کر لیا تھا اور آج ہم ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد ان کی پیشنگوئی درست ثابت ہوتے دیکھ رہے ہیں۔

سید جمال الدین جدید اسلامی تمدن کے احیاء کے نظریے کا مالک ہیں لیکن بقول اقبال:

گفتار کا غازی تو بنا

 کردار کا غازی بن نہ سکا

الغرض اسلامی مفکرین قرآن و سنت کی روشنی میں مسلمانوں کو مشکل سے نجات دلانے والی فکر دینے اور انہیں صحیح سمت وسو دینے سے قاصر رہے، کوئی مغرب پرستی کو نجات کا باعث گردانتے ہوئے بلا سوچے سمجھے ان کی پیروی اور اطاعت کا مشورہ دینے لگے تو کوئی مغربی صنعتی ترقی کو مسلمانوں کی غلامی و پستی کا اصل سبب سمجھتے ہوئے ہر جدید چیز کا بائیکاٹ کرنے پر تل گئے۔

 دوسرے الفاظ میں مسلمان مفکرین یا تحجر کے شکار ہوئے یا روشن خیالی اور بے راہ روی میں مبتلا ہوگئے۔

 روح اسلام سے ناآشنا مفکرین کے ہاتھوں مسلمان روز بروز پستی، انحراف اور انحطاط کے دلدل میں پھنستے جارہے تھے، پوری اسلامی دنیا فکری غلامی و اسیری کے ساتھ ساتھ عملا بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔

امید و توکل سے ہاتھ دھو بیٹھے اور صرف صدر اسلام کے سنہرے دور کو یاد کر کے گریہ کرنے پر اکتفا کر رہے تھے۔ ظلم وستم، استعمار و طاغوت کے خلاف آواز بلند کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ اسلام ناب کی صحیح تفسیر کر کے انحطاط کے بھنور سے نکالنے والا کوئی نجات دہندہ کا دور دور تک کوئی نام نشان نہیں تھا۔

 ایسے میں سید روح اللہ خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے عالم اسلام کے افق پر ایک تابناک ستارہ، نجات دہندہ اور مسیحا کے طور پر کر طلوع کیا، ان کے کردار و رفتار و رفتار کی عطر و خوشبو چار سو پھیل گئی، ظلم و ستم کے منہ کھولے عفریت کو شکست دیتے ہوئے چودہ سالہ گرد و غبار میں اٹکے ہوئے انفرادیت کے شکار دین کو قرآن و سنت کے آئینے میں ایک زندہ نظام اور سسٹم میں بدل دیا۔

 ایک طرف سے تحجر و کوتاہ فکری میں غرقاب مفکرین کے بنے جال سے مسلمانوں کو نکالا تو دوسری طرف روشن خیالی کے خوبصورت اور اندر سے کھوکھلے نعروں سے مرعوب دانشوروں کو اسلام کے حقیقی اور روشن چہرے سے روشناس کیا۔

ایک طرف نظام سرمایہ داری کے بے رحمانہ اور بہیمانہ سسٹم کے چہرے سے نقاب کو نوچ لیا، تو دوسری طرف اشتراکی نظام کی ظالمانہ پالیسیوں پر لگے خوبصورت پردوں کو چاک کیا۔

اور اس کی جگہ اللہ و رسولﷺ اور اہل بیت رسول علیہم السلام کے مقدس نظام کو احیاء کرتے ہوئے نعرہ بلند کیا:

لا شرقيہ ولا غربيہ

جمهوريہ إسلاميہ

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے بیک وقت دو محاذوں پہ نبرد آزمائی کی، 

1-اندر کے دشمن

2- بیرونی دشمن

اندر سے متحجرین اور روشن فکر مغرب پرست لوگوں سے مقابلہ کر کے ان کو مات دی۔ اگرچہ یہ لوگ بیرونی دشمنوں سے بھی خطرناک تھے لیکن امام کی حکمت عملی، تدبر، الہی سوچ نے ان کی ساری کوششوں کو خس وخاشاک کی کی مانند اسلامی انقلاب کے ابھرتے سمندر کے موجوں میں غرق کر دیا۔

بیرونی دشمن، خواہ وہ مشرقی ہو یا مغربی، دونوں طاقتوں کو اپنے اشتراکی اور سرمایہ داری نظام سمیت غرور کے عرش سے ذلت و رسوائی کے فرش پر پٹخ دیا، اور جدید اسلامی تمدن سے دنیا کو روشناس کرایا، اور آج ہم حضرت خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے جلائے ہوئے دیے کو دنیا کے کونے کونے میں رشد و نمو کرتے دیکھ رہے ہیں، ظلم کے بڑے بڑے برج الٹتے دیکھ رہے ہیں، طاغوت و استعمار کے سارے خواب چکنا چور ہوتے دیکھ رہے ہیں، فرعون زمان کے گھر کے دروازے تک  موسی زمان حضرت سید علی خامنہ ای مد ظلہ کی عصا پہنچتے دیکھ رہے ہیں۔ اپنے مفاد کی خاطر پوری دنیا پر آگ برسانے والے فرعون کے محل نذر آتش ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ جہاں جہاں طاغوت نے اپنے ظالمانہ نظام مسلط کیا اسی جگہ سے فرزندان خمینی و حسینی نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے انہیں نہایت ذلت و رسوائی کے ساتھ نکال باہر کرتے دیکھ رہے ہیں۔

امام خمینیؒ کے ہاتھوں جلائے ہوئے امید کی کرن کی روشنی میں فرزندان توحید اپنے وقت کے امام، حضرت مھدی عجل للہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور اور ان کے عدل پر قسط پر مبنی الہی حکومت کے قیام تک آگے بڑھاتے دیکھ رہے ہیں۔

انشاء اللہ