حضرت زینب (س) عصر غیبت میں ایک مثالی خاتون

سید سجاد مہدی شاہ

حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا وہ عظیم خاتون ہیں کہ جن کو ہمیشہ تحریک کربلا کے احیاء گر کے طور پر تاریخ کے صفحات میں پہچانا گیا ہے۔ آپ کی عظیم ہستی کے مقدس آثار فقط آپ کی زندگی تک محدود نہیں رہے، بلکہ تا طلوع صبح قیامت تحریک کربلا کا تذکرہ آپ کے ذکر کے بغیر ناقص شمار ہوگا۔ یہی وجہ ہےکہ آپ کو شریکۃ الحسین کا لقب عطا کیا گیا۔
اگر چہ بی بی کی زندگی کا اکثر حصہ تفصیل سے ہم تک نہیں پہنچ سکا اور تاریخ کے اوراق میں گم ہو کر رہ گیا ۔لیکن بی بی کی زندگی کے وہ دو سال کا مختصر عرصہ کہ جو مدینہ سے شروع ہو کر مدینہ پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔قیامت تک آنے والی خواتین کی ہدایت کے لئے ایسے نقوش چھوڑ گیا ہے کہ جن پر عمل کرنے سے خواتین ہر عصر میں سعادت دنیوی و اخروی سے بہرہ مند ہو سکتی ہیں۔
دوسری طرف اگر ہم عصر غیبت میں خواتین کی حالت پر نگاہ کریں تو بہت افسوس ناک حالت ہے۔مختلف معاشروں میں عورت کو مختلف افعال کی خاطر ایک حقیر اور غیر فعال عنصر کے طور پر پہچانا جا تا ہے ۔کہیں مردوں کی غلامی ،چاردیواری میں پابند کرکے اجتماعی پہلو سے صرف نظر اور کہیں صرف جنسی لذت کے لئے عورت کو ایک ٹیشو پیپر کی طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔لہذا اس پر آشوب دور میں فقط دین اسلام ہی ہےکہ جو عورت کے منزلت و مقام انفرادی اور اجتماعی پہلوؤں کا تعارف کراتا ہے ۔کیونکہ دین اسلام عموماًاور مذہب تشیع خصوصاً وہ مکتب ہے کہ جنکے پاس دنیا کی بہترین ،کامل ترین اور مثالی ترین خواتین کی سیرت کی گراں بہا میراث موجود ہے۔اور ان خواتین میں سے ایک خاتون جناب زینب کبریٰ (س)ہیں ۔کہ جو اس پر آشوب عصر میں تمام خواتین کے لئے ایک مثالی خاتون ہیں ۔
چنانچہ بی بی دو عالم کی حیاۃ طیبہ میں ہم بعض اصول کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جن اصول پر عمل پیرا ہو نیکی کی صورت میں عصر غیبت میں تمام خواتین سعادت ابدی حاصل کر سکتی ہیں۔

الف: توحید محوری

ان اصول میں سے پہلی اور سب سے اہم اصل ، جو بی بی کی زندگی میں درخشاں ہے، وہ ہے بی بی کی تمام زندگی میں توحید محوری ۔ یعنی تمام افعال اور تمام حالات میں ذات خدا وندی کا یقین اور ایمان اور تمام شرعی احکام کا ہمیشہ شدت سے پابند رہنا اور سخت سے سخت حالات میں بھی ذرہ برابر بھی احکام شرعیہ کے سلسلہ میں سستی نہ برتنا ۔ظاہر ہے کہ اس کا منشا بی بی کا خانوادہء عصمت و طہارت میں پرورش پانا ہے۔ اسی لئے بی بی کی ذات شب زندہ دار تھی۔ اور اس پر امام مظلوم کا وہ آخری جملہ شاہد ہے، جس میں امام ؑ فرماتے ہیں:”یا اختی زینب لا تنسینی فی نافلۃ اللیل”اے بہن زینب مجھے نماز شب میں فراموش نہ کرنا۔ اور انہیں احکام کی پابندی پر دال ایک واقعہ ،جو خود امام علی بن الحسین علیہما السلام سے منقول ہے کہ امام ؑ فرماتے ہیں: میری پھوپھی زینب شام اور کوفہ کی راہوں میں تمام واجب اور مستحب نمازوں کو بجالاتی رہیں ۔ ایک دن میں نے دیکھا پھوپھی اماں بیٹھ کر نماز پڑھ رہی ہیں ۔ جب میں نے وجہ دریافت کی تو بتایا کہ میرے حصہ کا کھانا پانی قافلہ کے بچوں میں تقسیم ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے تین دن سے میں نے کچھ کھایا نہیں اور اب مجھ میں کھڑے ہوکر خدا کی عبادت کرنےکی طاقت نہیں رہی۔
اسی طرح کوفہ اور شام کے کٹھن سفر میں بھی اور اونٹ کی پشت پر بھی نماز کا قضا نہ کرنا ،شام غریباں کی مشکل ترین شب میں بھی نماز کا ترک نہ کرنا ، یہ سب وہ چیزیں تھیں جو بی بی کے احکام شرعیہ سے شدید تعلق اور پابندی پر دال ہیں۔ بی بی کی زندگی میں توحید محوری کے بہت سارے شواہد موجود ہیں۔ جن کی طرف میں اشارہ کررہا ہوں ،کہ جہاں پر انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے ، اس طرح کی مشکل گھڑی میں بھی بی بی کی زبان پر تسبیح الٰہی کا ورد جاری تھا ۔ جس قربانی کو کو قرآن ذبح عظیم سے تعبیر کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ بی بی نے اس عظیم قربانی کو خدا کی بارگاہ میں قلیل قربانی سے تعبیر کیا اور مقتل سے وداع کے وقت مظلوم بھائی کی لاش کی طرف دیکھ کر خدا وند عالم سے یوں مخاطب ہوئیں: “اللہم تقبل منا ہٰذا القلیل “پروردگارا!ہماری اس قلیل قربانی کو اپنی عظیم بارگاہ میں قبول فرما۔توحید محوری کا کا ایک اور شاہد ابن مرجانہ جیسے سفاک اور ظالم کے سامنے تمام تر سختیوں اور مصیبتوں کے باوجود انتہائی جواں مردی سے فرمایا: مارائت الا جمیلاً۔ واقعاً وہ جمال تھا کہ فقط بی بی کی ذات ہی درک کر رہی تھی؛ کیونکہ ان ظالمین کی سوچ محدود تھی اور بی بی دیکھ رہی تھیں کہ اس قربانی میں جمال یہ ہے کہ اس قربانی کی وجہ سےتا قیام قیامت اسلام محمدی محفوظ ہوگیا ہے۔ شاید اسی لئےکسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا:قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اس اہم اصل یعنی توحید محوری اور اور التزام و پابندی احکام شرعیہ کے مختلف شواہد کے بیان سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ بی بی کی کنیزوں کے لئے عصر غیبت میں اس اصل کی کتنی زیادہ ضرورت ہے۔ اور وہ اس اصل میں پوری تاریخ اسلام میں بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے علاوہ کوئی اتنا مثالی نمونہ نہیں تلاش کر سکتیں ۔اور ظاہر سی بات ہے ، اس اصل پر اگر عصر غیبت کی خواتین عمل پیرا ہو جائیں تو ان کے لئے سعادت ابدی ہے۔

ب: ولایت مداری 
ایک اور اصل ، جو بی بی کی زندگی میں عصر غیبت کی خاتون کے لئے نمونہ بن سکتی ہے وہ ولی خدا سے عشق ہےجسے فارسی زبان میں ولایت مداری کہتے ہیں۔بی بی کی زندگی میں یہ اصل بھی پہلے والی اصل کی طرح درخشاں ؛ کیونکہ سخت سے سخت حالات میں بھی بی بی ولی خدا کے لئے تکیہ گاہ اورمحافظ نظر آتی ہیں ۔ اس اصل کے بی بی کی زندگی میں ہم چند ایک شواہد کا مشاہدہ کرتے ہیں جیسا کہ شہادت امام سے پہلے امام کی ذات کی حفاظت کی خاطر اپنے بچوں اور تمام اقربا وا عزا کا قربان کرنا ۔ حتی وقت شہادت ابن سعد سے یہ کہنا اما فیکم المسلم کیا تم میں سے کوئی مسلمان نہیں ہے؟کہ تمہارے سامنے نواسہ رسول خدا کو ذبح کیا جارہا ہے۔
اور پھر شہادت کے بعد امام سجاد ؑ کی مسلسل نگہداشت اور حفاظت کرنا اور بالخصوص قافلہ جب مقتل سے وداع کرنے لگا تو امام سجادؑ کے چہرے پر موت کے آثار نمودار ہونے لگے تو اس وقت بھی بی بی کی ہی ذات تھی ، جس نے حجت خدا کو تسلی دی ۔ نیز شام کے دربار میں جب امام سجادؑ کے قتل کا حکم صادر ہوا تو بی بی نے کتنی دلیری سے کہا کہ پہلے میرا سر قلم کردے پھر میرے بھتیجے اور امام کا سر قلم کرنا ۔ یہ وہ تمام شواہد ہیں ،جو عملی طور پر بی بی کی زندگی میں واضح ہیں ،جن میں بی بی زینب کا ولی خدا سے عشق اور تحفظ کی ذمہ داری نبھانا روشن ہے۔ بی بی نے متعددمقامات پر اس فریضہ کو اپنے خطبات سے بھی لوگوں کو بیان فرمایا ہے اور ان مواقع میں سے جیسے بازار کوفہ میں بی بی کا وہ تاریخی خطبہ شاہد ہے، جس میں بی بی زینب ؑنے حمد الٰہی کے بعد اسلام کے سماجی پہلو کا سب سے اہم نکتہ یعنی سماج کی قیادت و رہبری اور رہنمائی نیک اور صالح افرادکے ذریعہ سے ہونا بیان فرمایا ۔بی بی نے امت کو اس عظیم خاندان طہارت و عصمت سے دوری اور حقیقی الٰہی خلیفہ و امام سے انحراف کی صورت میں دنیوی و اخروی نقصانات سے آگاہ فرمایا ۔اور اہل کوفہ کو اس عہد شکنی کی سزا بھگتنے کے لئے تیار رہنے کو کہا اگر عصر غیبت کی خواتین اس اصل میں بی بی کی سیرت پر عمل پیرا ہو جائیں اور نائب امام ولی امر مسلمین سے متمسک ہو جائیں تو اسلامی معاشرہ ولایت مدار بن سکتا ہے اور اس قیام امام قائم کا پیش زمینہ ثابت ہو سکتا ہے کہ جسکا عصر غیبت میں ایک واضح نمونہ شہید صدر کی ہمیشرہ شہیدہ بنت الہدیٰ تمام خواتین کے لئے ایک بہترین مثال ہیں کہ جنھوں نے اس عصر غیبت میں بی بی کی سیرت پر عمل کرتے ہوئےآخری وقت تک اپنے بھائی کا تحفظ کیا اور شہادت تک لوگوں کو ظلم اور ظالم سے متنفر کرتی رہیں ۔اور عراقی معاشرہ کو جھنجھوڑتی رہیں کہ جس کے ثمرات آج واضح ہیں ۔

ج: حق کی نصرت 
بی بی کی زندگی میں ایک اور اصل کہ جو عصر غیبت کی خواتین کے لئے نمونہ بن سکتی ہے ۔وہ ہے حق کا ساتھ دینا اور ظلم سے ٹکرانا ۔ہم بی بی کی زندگی میں اس اصل کا مشاہدہ کا فی سارے مواقع پر کرتے ہیں ۔چاہے سانحہ کربلا سے پہلے اور چاہے اس دلسوز سانحہ کے بعد کہ جس میں بی بی نے ایک دن بھی آرام نہیں کیا اور مسلسل اپنے مظلوم بھائی کی قربانی اور ان کے پیغام کو معاشرہ کے مختلف طبقات تک پہنچانے کہ لئے جد و جہد جاری رکھیں ۔جیساکہ کوفہ اور شام کے بازاروں اور درباروں میں اپنے خطبات سے ، عزاداری سے، اور نوحہ و ماتم داری سے تمام یزیدیوں کو خوف و ہراس میں ڈال دیا تھا۔بی بی زینب ؑ نے اپنے ان اعلٰی افکار پر مبنی خطبات کے ذریعہ کوفیوں کے سوئے ہوئے ضمیروں میں ایک ایسی چنگاری روشن کی جو کچھ ہی عرصہ کے بعد قیام توابین ،قیام مختار کی صورت میں یزید اور لشکر یزید کے لئے قیامت بن کر ابھری اور تھوڑے ہی عرصہ میں تمام قاتلین حسین علیہ السلام اپنے کیفر کردار تک پہنچ گئے۔

د: آگاہی بصیرت اور عقلانیت
آگاہی بصیرت اور عقلانیت بھی انہیں اصولوں میں سے ہے جن کا ظہور بی بی زینبؑ کی ذات میں بصورت اتم قابل مشاہدہ ہے۔ چنانچہ یہ اصل اس قدر بی بی زینب کی ذات میں ظہور پیدا کرچکی تھی۔ جس کی وجہ سے بی بی زینبؑ عقیلہ بنی ہاشم کے لقب سے معروف ہو گئیں۔ اس اصل کا مشاہدہ ہم بی بی کی زندگی میں مندرجہ ذیل مواقع پر کرسکتے ہیں۔
جیسے خود اس وقت کے امام زمان امام سجاد ؑ کا بی بی کو یہ کہنا : “یا عمتی انت عالمۃ غیر معلمۃ و فہمۃ غیر مفہمۃ ” نیز بی بی زینب ؑکے وہ عظیم خطبات بھی اس عظیم ذات کے علم ، بصیرت اور عقلانیت پر دال ہیں، جس میں عالی معارف و افکار کے ساتھ فصاحت و بلاغت میں بھی امیر المؤمنین علیہ السلام کے خطبات کی بو آتی ہے ۔
اس علم کا منشا یقیناً وہ علمی گھرانے کی پرورش کا اثر تھا ۔ چنانچہ ہم بی بی زینب س کے خطبات میں مختلف مقامات پر قرآن کی آیات سے بی بی زینب کو دلیل قائم کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، جیسے بازار کوفہ میں کوفیوں کو ان کی عہدشکنی پر دھمکی دیتے ہوئےاور مستقبل میں انتقام الٰہی کی کی بشارت دیتے ہوئے سورہ نمل کی آیت نمبر92 سے عہد شکنوں کی مذمت کرتی ہیں ، اس آیت میں ارشاد خدا وندی ہوتا ہے:”و تکونوا کاللتی نقضت غزلھا من بعد قوتہ انکاثاً”
اور اسی طرح سورہ انعام کی آیت/31، کے ذریعہ دھمکی دینا ، جس میں خدا وند عالم فرماتا ہے” الا ساء ما یزرون”” خبردار تم لوگوں نے برا عمل انجام دیا ہے۔”
عام طور پر عقل اور بصیرت کا مظاہرہ مصائب اور مشکلات میں بہت سخت ہوجاتا ہے اور لوگ علم و آگہی کے باوجود صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتے ہیں ۔ لیکن بی بی زینبؑ کی بصیرت کا مظاہرہ مصائب کی صورت میں بھی جوں کا توں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ۔ خدا کی بہترین مخلوق اور اپنے عزیز ترین افراد کا دنیا سے بڑی ہی مظلومیت سے اس دنیا سے گزر جانے کا عظیم صدمہ ، طولانی سفر حالت اسیری میں قافلہ کے یتیموں کی سرپرستی ، لوگوں کے خارجی کہنے کے طعنہ کو برداشت کرنا اور ایسی کتنی ہی مصیبتیں جن میں سے ایک بھی عام انسان کو متزلزل کرنے کے کے لئے کافی ہے۔ وہ صرف بی بی زینب کی ذات والا صفات ہی ہے ، جو ہر مشکل مرحلہ اور مصیبت میں چٹان کی طرھ کی مضبوط نظر آتی ہے۔ اور اپنے منطق شعور اور بصیرت کے ساتھ ساتھ جذبات سے سرشار خطبات کے ذریعہ مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑتی ہوئی، معنوی زندگی کی بھیک دیتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اسی بصیرت کی وجہ سے بنی امیہ کے چہرے پر پڑی ہوئی اسلام کی نقاب نوچ کر پھینک دیتی ہیں، اور شام کے جیسے دشمن ملک میں بھی اپنے مظلوم بھائی کے عظیم پیغام اور قیام کے مقصد کو گھر گھر پہنچاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔جس کا نتیجہ بہت ہی کم مدت میں کربلا کے اسیری سے رہائی ،یزید کی پشیمانی اور ابن زیاد کو ملامت کرنے کی صورت میں نظر آتا ہے۔
یہ اصل بھی بقیہ دوسرے اصول کی طرح عصر غیبت میں خواتین کے لئے مثالی نمونہ ہے چونکہ آجکل خواتین کے لئے دینی علمی، سیاسی اور سماجی بصیرت پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ خواتین کے انفرادی پہلو یعنی گھر کے اندر اور اجتماعی پہلو دونوں کے لئے بصیرت اور عقلانیت کی شدید ضرورت ہے۔ اور اس پہلو پر تاریخ اسلام میں جناب زینبؑ کی ذات والا صفات سے بڑھ کر عصر غیبت کی خواتین کے لئے اور کوئی نمونہ نہیں۔ تاکہ عصر غیبت کی ہر خاتون کا ہر عمل و فعل عقل منطق اور شعور و علمی مبانی پر مشتمل ہو کہ جو ایک معاشرے کی بہتری کی ضمانت ہے۔

ھ: عفت حیا اور پاکدامنی
عفت حیا اور پاکدامنی وہ اصل ہے جو بی بی زینبؑ کی ذات میں سخت سے سخت حالات میں بھی بہ صورت اتم جلوہ گر ہے اور ان کلی اصول میں سے ہے جس کی ضرورت غرب زدہ اور بے حیا معاشرہ کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ جس سماج میں عورت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بی بی زینب س نے ان تمام حالات میں جہاں حیا اور عفت کا مظاہرہ کیا ہے ، وہیں اس کو شجاعت اور متانت سنجیدگی سے خالی نہیں چھوڑا۔ چنانچہ جب مقنع اور چادریں چھین لی گئیں تو بی بی زینب س نے ہاتھوں سے بھی چہرے کو چھپایااور اسی حیا اور عفت کی حفاظت کی خاطر دربار یزید میں حضرت ثانی زہرا نے مکمل شجاعت علوی کے ساتھ یزید کو مخاطب کیا اور فرمایا :”اے ہمارے اجداد کے آزاد کردہ کی اولاد کیا یہ عدالت ہے؟تم نے اپنی کنیزوں اور عورتوں کو پردہ میں بٹھارکھا ہے ۔، جبکہ رسول ص کی بیٹیوں کو کبھی اس کوچہ کبھی اس بازار اور کبھی اس دربار میں بے مقنع پھرایا جارہا ہے۔
ایک اور بات جو بی بی زینب ؑ کی حیا پر شاہد ہے، وہ ہے ظالم کے دربار میں جناب فضہ کی پشت پر کھڑے ہوکر اپنے آپ کو نامحرموں کی نگاہوں سے بچانا۔ نیز اس عفت و حیا اور پاکدامنی کی اہمیت پر ایک اور بات بھی دلالت کرتی ہے کہ جب قید سے رہائی ملی تو بی بی زینبؑ نے اپنی شرائط منواتے وقت سب سے پہلے جن چیزوں کا مطالبہ کیا وہ لٹی ہوئی چادروں کی واپسی ہے ۔ دنیا کا کوئی بھی مہذب معاشرہ خود کو حیا سے عاری نہیں کرسکتا چونکہ ایسی صورت میں اس سماج کی تباہی یقینی ہے۔لہٰذا عصر غیبت کی خواتین کے لئے لباس اسلامی حجاب اسلامی اور حیا کے زیور سے آراستہ ہونے کے لئے تاریخ اسلام میں حضرت زینب ؑ کی ذات سے بڑھ کر کوئی مثال اور نمونہ نہیں ہے۔
بی بی زینبؑ کی حیات طیبہ کے متعلق مذکورہ اصول ان اصول میں منحصر نہیں ہیں ۔ بلکہ ایک مثالی خاتون کے طور پر بہت سارے اصول حتیٰ خاتون کی زندگی میں ہر اصل کی کامل ترین صورت کا مشاہدہ اس عظیم ہستی کی سیرت میں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس مختصر مقالہ میں صرف چند اصول پر اکتفا کرنا مناسب ہے۔
لہٰذا حضرت زینب ؑ کبرٰی سلام اللہ علیہا کی زندگی کے وہ بنیادی اصول ، جو عصر غیبت کی خواتین کے لئے مثالی نمونہ بن سکتی ہیں ۔ وہ توحید محوری اور احکام اسلامی کی پابندی ، ولایت مداری، حق گوئی حق پرستی علم و بصیرت اور عفت و حیا اور پاکدامنی سے عبارت ہے۔

دعا ہے کہ خدا وند عالم عصر غیبت کی خواتین کو جناب زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی سیرت پر عمل پیرا ہوکر اسلام کی سربلندی کے لئے ہمہ وقت اپنی تمام توانیاں بروئے کار لاتے ہوئے حضرت بقیۃ اللہ عج کے ظہور کے مقدمات اور حالات فراہم کرنے کی توفیق عطا فرمائے!۔ آمین