حدیث غدیر کے تواتر کا اہل سنت منابع حدیث سے اثبات
زوار حسین
مقدمہ:
علم حدیث کو اسلامی علوم میں بنیادی حیثیت حاصل ہے کیونکہ یہ علم وماینطق عن الھویٰ کے مصداق نبی کے سخن کو بیان کرتا ہے۔ اس علم میں حدیث کو مختلف زاویوں سے تقسیم کیا جاتا ہے جسمیں سے ایک تقسیم خبرِ واحد اور متواتر کی ہے ۔حدیث یا خبرِ متواتر وہ حدیث ہوتی ہے جسے راویوں کی اتنی زیادہ تعداد نقل کرے کہ انکا جھوٹ پر جمع ہونا محال ہو اور جس سے سامع کو علمِ قطعی حاصل ہوجاتا ہے۔ تواتر تین قسم کا ہوتا ہے لفظی، معنوی اور اجمالی لیکن سب سے اہم قسم تواترِ لفظی ہے۔ اہل سنت محدثین کی نظر میں حدیث متواتر آیتِ قرآن کے حکم میں ہے۔ یعنی جس طرح سے قرآن قطعی الصدور ہے بلكل اسى طرح حديث متواترقطعى الصدور ہوتی ہے، اسی لئے تو مفید یقین ہوتی ہے۔ آپﷺ سے جو احادیث مروی ہیں۔ ان میں متواترِ لفظی آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ جن میں سے ایک حدیث غدیر ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: “مَن کنتُ مولا فھٰذا علی مولا” حدیث غدیر اہل سنت منابع میں تواتر لفظی کیساتھ موجود ہے جبکہ شیعہ منابع میں بغیر کسی مبالغہ مافوق حد تواتر ہے۔
اس حدیث کو110 صحابہ کرام، 74تابعین سے روایت کیاگیا ہے اور360 علماء، مفسرین، محدثین اور مؤرخین نے اپنی معتبر کتب میں ذکر کیا ہے۔ اصحابِ صحاح سته میں سے امام نسائی، ترمذی، اور ابنِ ماجہ نے نہ صرف اسے نقل کیا بلکہ اسكى اسناد کو صحیح اور حسن قرار دیا۔ کچھ اہل سنت محدثین نے اسكو ان کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ جن میں صرف متواتر احادیث جمع کی گئی ہیں جبکہ دوسرے بزرگ اہل سنت محدثین نے اسکے تواتر کا اعتراف کیا ہے۔ اس حدیث کو عشرہ مبشرہ اور 14 بدری صحابہ نے اسے روایت کیا ہے۔
حدیث غدیر کو خدا اور اسکے رسول ﷺ کی خاص عنایت حاصل ہوئی، اسکے بیان کیلئے آیات نازل ہوئیں، اسکے ساتھ تکمیلِ دین، اتمامِ نعمت،اور ختامِ رسالت ہوِا۔ آپﷺنے آخری حج پر جانے سے قبل اعلان کروایا لوگوں کو ساتھ چلنے کی دعوت دی، واپسی پر غدیرِ خم کے چوراہے پر حجاز کی تپتی دھوپ میں پالانوں کے منبر پر سب کی نظروں کے سامنے اسکو بیان فرمایا اورعلى(عليه السلام) كا ہاتھ پکڑ کردکھایا تاکہ پیغامِ غدیر صبح کی روشنی کیطرح عالمِ اسلام کے کونے کونے میں منتشر ہو جائے، اس حدیت کیساتھ علی علیہ السلام نے خلافتِ عثمان، جنگِ جمل و صفین، قصرِ کوفہ، جریان رکبان میں احتجاج واستدلال کیا ہے۔ اسی طرح باقی معصومین نے خاص کر حضرتِ زہرا سلام اللہ علیہا و حسنين علیہا السلام نے بھی اس حادیث کیساتھ استدلال فرمایا ہے۔ اس حدیث کی اسناد اتنی زياده ہیں کہ ان کی جمع آوری کیلئے بعض اہل سنت بزرگوں نے مستقل کتب تالیف کی ہیں۔ لیکن صد افسوس کہ ابنَ حزم اور ابنِ تیمہ جیسے متعصب حضرات علی علیہ السلام کی عداوت میں اتنے اندهے ہو چکے تھے کہ اس جیسی متواتر اورروشن حدیث کے انکار سے باز نہ آئے گویا انہوں نے نصف نہا ر میں چمکتے ہوئے خورشید کا انکار کیا اور اس آیت:وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ(بقره 146) “مگر ایک فریق ان میں سے سچی بات کو جان بوجھ کر چھپا رہا ہے” کے مصداق ٹھہرے.
اس لئے ناچیز نے اس متواضع مقالے میں اس حدیث کے تواتر کو اہل سنت منابع سے اثبات کرنے کی کو شش کی ہے، جس میں اختصار کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔ ورنہ اسکے تواتر کے شواہد تو اتنے زیادہ ہیں کہ الگ کتابیں تصنیف ہونی چاہیں۔ اس مختصر مقالے میں حق سے ظلمت کے پردوں کو ہٹانے کی سعی کی گئی ہے تاکہ کسی کیلئے کوئی بہانہ باقی نہ رہے، خدا ہم سب کو نیک عمل کرنے اور صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (الہی آمین).
تواتر کا معنی:
توتر لغت میں تتابع سے ہے، یعنی توالی اور تلاحق اور پے در پے۔ علم حدیث کی اصطلاح میں تواتر کے معنی کچھ یوں ہیں: ایک حدیث کو رایوں کی ایک بڑی جماعت روایت کرے کہ انکا جھوٹ پر جمع ہونا محال ہو اور ان کا اسناد بهی حس پر ہو۔
تواتر کی شرائط:
۱۔ راویوں کی اتنی زیادہ تعداد ہو کہ جھوٹ پر متفق نہ ہو سکے۔
۲۔ راوی ہر طبقہ میں زیادہ / کثیر ہوں ۔ اول سے آخر تک۔
۳۔ انہوں نے حس پر استناد کیا ہو۔ یعنی میں نے سنا، میں نے دیکھا کے الفاظ ہوں۔
۴۔ انکی خبر سے سامع کو قطع اور علم حاصل ہو جائے۔
تواتر کی اقسام:
تواتر کی تین قسمیں ہیں:
۱۔ تواتر لفظی: لفظ ومعنی حدیث پر تمام راوی متفق ہوں۔ جیسے حدیث غدیر:”من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ”
۲۔ تواتر معنوی: جس حدیث کا معنی متواتر ہو، جبکہ لفظ مختلف ہوں۔
۳۔ تواتر اجمالی: ایک موضوع پر روایات اتنی زیادہ ہوں جن کی موضوع کے حوالے سے وسعت اور ضیق میں اختلاف ہو۔ لیکن ان کے درمیان ایک قدر مشترک ہو جس پر تمام متفق ہوں۔
حکم حدیث متواتر:
حدیث متواتر کی تصدیق بالبداہہ ضروری ہے، کیونکہ یہ مفید علم قطعی ہوتی ہےاور اس کے رایوں کے حالات معلوم کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس میں کسی عاقل کو شک نہیں ہوتا۔ شیخ عبد العزیز دہلوی نے تحفہ اثنا عشریہ میں تصریح کی ہے کہ اگر حدیث متواتر ہو تو اس کا رسول خداﷺ سے صادر ہونا قطعی ہے۔ اس لیے آیت قرآن کے حکم میں ہے۔ جس طرح سے قرآن خدا کی طرف سے قطعی الصدور ہے، اسی طرح حدیث متواتر رسول خداﷺ کی طرف سے قطعی الصدور ہے۔
مختصر واقعہ غدیر:
رسول اکرمﷺ نے اپنی عمر کے آخری سال میں حجۃ الوداع ادا فرمایا۔ اس آخری حج میں آپ کے ساتھ لاکھوں مسلمانوں نےشرق وغرب، جنوب وشمال سے فريضه حج کو انجام دیا۔ حج ادا کرنے کے بعد واپس مدینہ جاتے ہوئے خم کے مقام پر جو کہ ایک چوہراها تھا، جہاں سے شمال کو مدینہ کے لیے، مشرق کوعراق کے لیے، مغرب کومصر اور جنوب کو یمن کے لیے راستے نکلتے تھے۔ جونہی کاروان رسول ﷺاس مقام پر پہنچا تو آیت نازل ہوئی۔﴿ يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ﴾ (مائدہ:67) موذن نے اللہ اکبر کی صدا بلند کی۔ حجاز کی تپتی دھوپ میں آگے جانے والوں کو واپس بلایا گیا اور پیچھے آنے والوں کا انتظار کیا گیا۔ آپﷺ کی امامت میں نماز ظہر ادا کی گئی۔ اس کے بعد لوگوں کی کثرت کی وجہ سے پلانوں کا ممبر بنایا گیا۔ آپ ممبر پر تشریف لے گئے۔ ایک طویل خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد علی علیه السلام کے ہاتھ کو پکڑ کر فضا میں اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی۔ اور فرمایا: (من كنت مولاه فهذا علي مولاه، اللهم وال من والاه وعاد من عاداه.)
اس جملے کا چار مرتبہ تکرار فرمایا۔ جسے حديث غديركہا جاتا ہے اسی طرح علیؑ کی خلافت بلا فصل کا اعلان فرمایا۔ صحابہ کرام نے آپ کو خلافت کی مبارکباد دی۔ خلیفہ دوم نے کہا: (بخ بخ يابن أبي طالب، أصبحت وأمسيت مولاي ومولى كل مؤمن ومؤمنة.) اس کے بعد آیت تکمیل دین واتمام نعمت نازل ہوئی: ﴿ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا﴾ (مائدہ:3)
حدیث غدیر:
حدیث غدیر شیعہ منابع حدیث میں نہ صرف متواتر، بلکہ متواتر لفظی اور حد تواتر سے مافوق ہے۔ اس طرح سے اہل سنت کے منابع میں بھی یہ حدیث تواتر لفظی کے ساتھ وارد ہوئی ہے۔ جس کی صحت اور تواتر کا اعتراف ان کے بزرگان نے کیا ہے۔ بلکہ اس کی اسناد اتنی زیادہ ہیں کہ بعض علماء نے ان کی جمع آوری کے لیےمستقل کتابیں تالیف کی ہیں۔ جبکہ بعض دوسرے علماء نے اس کو ان کتابوں میں نقل کیا ہے جن میں صرف متواتر حدیث جمع کی گئی ہیں۔
حدیث غدیر کو ۱۱۰ صحابہ، ۷۴ تابعی نے روایت کیا ہے جبکہ ۳۶۰ علماء، محدثین، مفسرین، مورخین اور دانشوروں نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے، جن کو علامہ امینی نے اپنی معروف کتاب “الغدیر” میں الگ الگ بیان کیا ہے۔
حدیث غدیر اہل سنت منابع حدیث میں:
یہ حدیث اہل سنت كے منابع میں موجود ہے اور اسکی صحت کا اعتراف بھی کیا گیا ہے۔ چند نمونے درج ذیل ہیں۔
1۔ امام احمد بن حنبل: نے حدیث غدیر کو 40 سندوں کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ جن میں سے ایک ریاح بن الحارث دوسری ابی طفیل تیسری سعید بن وہب اور زید بن یشع سے واقعہ رحبہ والی روایت نقل کی ہے۔ ان روایات کو نقل کرنے کے بعد البانی لکھتا ہے: اس حدیث کی سند جید ہے اور اسکے راوی ثقہ ہیں، بلکہ اسکی سند بخاری کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ حدیث غدیر اپنے دونوں حصوں کے ساتھ صحیح ہے بلکہ اسکا پہلا حصہ رسولﷺ سے متواتر ہے۔ جیساکہ ہر اس شخص کیلئے ظاہر ہے جس نے بھی اسکی اسناد کا تتبع کیا ہے۔
۲۔ ابن ماجہ: ابن ماجہ نے حدیث غدیر کو سعد بن ابی وقاص اور براء بن عازب سے نقل کیا ہے۔ البانی نے اسکی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
۳۔ محمد بن عیسی ترمذی: نے حدیث غدیر کو ابو طفیل سے نقل کیا ہے اور کہا ہے: یہ حدیث حسن اور صحیح ہے۔ البانی نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہا: اس حدیث کی سند شیخین کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔
4۔ امام نسائی: امام نسائی نے حدیث غدیر کو زید بن ارقم اور سعد بن ابی وقاص سے روایت کیا ہے۔ حاکم نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہا: یہ حدیث شیخین کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔ جبکہ البانی کہتا ہے اس کی سند صحیح ہے اور اس کے راوی بخاری والے راوی ہیں، سوائے ایمن والد عبد الواحد کے جو کہ ثقہ ہیں۔ جيسا کہ تقریب میں مذکور ہے۔
۵۔ عمرو بن ابی عاصم شیبانی: انہوں نے اس روایت کو اپنی کتاب السنۃ میں امیر المومنین علیؑ سے نقل کیا ہے جس کو البانی نے حسن قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ شیبانی نے حدیث غدیر کو ۲۵ مختلف اسناد کے ساتھ نقل کیاہے۔
۶۔ سلمان بن احمد طبرانی: انہوں نے حدیث غدیر کو۷۰ اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے، جن میں سے زید بن ارقم سے بھی نقل کیا ہے اور اس کے راویوں کو البانی نےثقہ قرار دیا ہے۔
۷۔ حاکم نیشاپوری: انہوں نے حدیث غدیر کو زید بن ارقم سے نقل کرنے کے بعد کہا: یہ حدیث صحیح السند ہے اگرچہ شیخین نےاس کو ذکر نہیں کیا۔ اور ذہبی نے بھی ان کی تائید کی ہے۔
کتب ِسند حدیث غدیر:
حدیث غدیر کی اسناد اتنی زیادہ ہیں کہ بعض بزرگان نے ناچار ان کو مستقل کتابوں میں جمع کیا ہے۔ چند نمونے درج ذیل ہیں۔
1. محمد بن جریر طبری: ذہبی کہتا ہے طبری نے حدیث غدیر کی اسناد کو ۴ جلدوں میں جمع کیا ہے۔ میں نے اس کا ایک حصہ دیکھا تو اس کی کثرت روایات کی وجہ سے حیرت زدہ ہوگیا۔ جس سے مجھے اس حدیث کے واقع ہونے کا یقین اور جزم حاصل ہوا۔
2. ابو العباس بن عقدہ: ابن حجر کہتا ہے ابن عقدہ نے حدیث غدیر کی اسناد کو ۷۰ یا اس سے زیادہ صحابیوں سے نقل کیا ہے۔اور اس کی اسناد کو ایک مسقل کتاب میں جمع کیا ہےجن میں سے بعض صحیح اور بعض حسن ہیں۔
3. شمس الدين ذہبی: یہ کہتےہیں: حدیث من کنت مولاہ کی اسناد بہت جید ہیں جن کو میں نے الگ کتاب میں ذکر کیا ہے۔
4. ۲۹ جلدی کتاب: ابو المعالی عبد الملک بن عبد اللہ جس کو ابن خلکان نےشافعی کے اصحاب میں سے سب سے اعلم شمار کیا ہے اور اس کی مدح کی ہے، تعجب کے ساتھ کہتا ہے میں نے بغداد میں صحاف کے ہاتھ میں ایک حدیث غدیر کی اسناد پر مشتمل کتاب دیکھی جو کہ ۲۸ویں جلد تھی۔ جس میں رسول خداﷺ کے فرمان “من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ” کی اسناد تھیں اور لکھا ہوا تھا اس کے بعد ۲۹ویں جلد آنے والی ہے۔
حدیث غدیر کے تواتر کا اہل سنت کے منابع سے اثبات:
شیعہ منابع کی طرح اہل سنت منابع میں بھی حدیث غدیر تواتر لفظی کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ بلکہ اگر تمام قرائن کو ملاحظہ کیا جائے تو مافوق حد تواتر ہے۔ اس کے تواتر کا تقاضا خود فطرت انسانی کرتی ہے۔ جس طرح سے ہر تاریخی عظیم واقعے کی شان ہے جس کو امت کے عظیم سردار نے عظيم لوگوں (صحابه) کی نظروں کے سامنے پیش کیا ہو تاکہ وہ اسكو اپنےعلاقوں میں جا کر نقل کریں۔ جیسا کہ رسول اکرمﷺ نے غدیر خم کے مقام پر انجام دیا۔ اور یہ واقعہ صبح کی روشنی کی طرح عالم اسلام میں منتشر ہوگیا۔ کیا اس کے بعد بھی یہ خبر واحد ہے؟
حدیث غدیر کو خدا کی خاص عنایت حاصل ہوئی جس میں قرآن کی اہم آیات نازل ہوئیں۔ دو آیات گزر چکیں۔ تیسری آیت اس وقت نازل ہوئی جب حارث بن نعمان فہری نے یہ کہتےہوئے عذاب کا مطالبہ کیا: اے رسول! یہ ولایت کا اعلان خدا کی طرف سے ہے تو میرے اوپر عذاب نازل ہو۔ اسی اثنا میں اس پر عذاب نازل ہوا اور یہ آیت نازل ہوئی: ﴿ سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ﴾ (معارج:1) اسی طرح سے اس حدیث کو رسول خداﷺ کی عنایت بھی حاصل ہوئی۔ جب آپ آخری حج کے لیے جانے لگے تو اعلان کروایا کہ یہ میرا آخری حج ہے تو ہر فج عمیق سے لاکھوں لوگوں نے حج میں شرکت کی، حتی کہ آپ کے ساتھ مدینہ منورہ سے ایک لاکھ سے زیادہ لوگ حج ادا کرنے کے لیے چل نکلے۔ آپ نے واپسی پر حدیث غدیر کو بیان کیا اور ولایت علیؑ کا اعلان کیا جس کو لوگوں کی بڑی تعداد نے مختلف شہروں تک پہنچا دیا۔
علیؑ نے اپنی ظاہری خلافت میں اس حدیث کے بارے میں حاضرین سے حلف لیا۔ فرمایا: جس نے بھی رسول خداﷺ کو حدیث غدیر بیان کرتے ہوئے دیکھا یا سنا ہو وہ گواہی دے۔ اس وقت ۳۰ صحابہ کھڑے ہوئے جس میں سے ۱۲ بدری تھے۔ انہوں نے اس حدیث کی گواہی دی۔ اور جو بغض کی وجہ سےکھڑے نہ ہوئے ان کو آپ کی نفرین اور بددعا لگ گئی۔ اگر آپ ؑ یہ حلف حجاز میں رسولﷺ کی رحلت کے فورا بعد لیتے تو ان سے کئی گنا زیادہ صحابہ اس کی گواہی دیتے؛ کیونکہ جنگوں کی وجہ سے دسیوں صحابہ شہید ہو چکے تھے اور واقعہ غدیر كو۲۵ سال گزر چکے تھے۔ کیا یہ تواتر حدیث کے لیے کافی نہیں ہے!؟
سید الشہداؑ نے اپنے پدر گرامی کی طرح ۶۰ ہجری میں حدیث غدیر کے ساتھ میدان عرفات میں احتجاج کیا۔ ان کی اس عنایت سے حدیث غدیر دوبارہ زندہ ہوئی اور عالم اسلام میں منتشر ہوئی۔ کیا یہ تواتر کے لیے کافی نہیں ہے!؟ پس جب حدیث غدیر کو خدا، اس کے رسول، اس کے وصی اور سید الشہداؑ کی عنایت بھی حاصل ہوئی جس کو ۱۲۰ راویوں نے روایت کیا ہے جن میں علیؑ اور زید بن ارقم کو ملا کر ۱۴ بدری صحابہ اور عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں اوراس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی اسناد حد شمار سے زیاد ہیں۔ اسی لیے اس کو الگ کتابوں میں جمع کیا گیا ہے۔ اور اہل سنت کے بزرگ محدثین نے اس کو ان کتابوں میں ذکر کیا ہے جن میں صرف متواتر احادیث کو جمع کیا گیا ہے۔ جیسے سیوطی، ملا علی قاری اور مرتضی زبیدی۔ اسی طرح سے بزرگ علمائے اہل سنت نے اس کے تواتر کی تصریح بھی فرمائی ہے۔ کیا اس کے بعد بھی یہ خبر واحد ہے!؟
جن بزرگ علماء اہل سنت نے اس کے تواتر کی تصریح فرمائی ہے اس کے درج ذیل چند نمونے پیش خدمت ہیں:
1. شمس الدین ذہبی: مشہور اہل سنت عالم جس کو علم رجال میں جرح اور تعدیل کا امام کہا جاتا ہے اپنے تعصب کے باوجود اپنی مختلف کتابوں میں حدیث غدیر کے تواتر کا معترف ہے۔ طبری کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے : اس نے حدیث غدیر کی اسناد کو چار جلدوں میں جمع کیا ہے۔ جب میں نےاس کا ایک حصہ دیکھا تو روایات کی وسعت کی وجہ سے حیرت زدہ ہوگیا۔ جس سےمجھے اس حدیث کا یقین حاصل ہو گیا۔ حدیث متواتر کی تعریف میں گزر چکا ہے کہ جس سے سامع کو یقین حاصل ہوجائے وہ متواتر ہے ۔ ذہبی لکھتا ہے کہ جب اسے معلوم ہوا کہ ابن ابی داود نے حدیث غدیر میں قیل قال کی ہے تو اس نے کتاب فضائل لکھی اور حدیث غدیر کی صحت کو ثابت کیا۔ میں کہتا ہوں: جب میں نے طبری کی حدیث غدیر کی اسناد پر مشتمل صرف ایک جلد دیکھی تو کثرت اسناد کی وجہ سے میں حیرت زدہ ہوا۔ اس حدیث کی اسناد جید ہیں۔ میں نے ان کو ایک الگ کتاب میں ذکر کیا ہے۔ ابن کثیر اپنے استاد ذہبی سے نقل کرتا ہے : حدیث غدیر کا پہلا حصہ “من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ” متواتر ہے جس کا رسول خداﷺ سے صادر ہونا قطعی ہے۔ لیکن “اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ” والا جملہ اضافی ہے جس کی سند قوی ہے۔ یہی بات آلوسی نے بھی نقل کی ہے۔ اسی طرح ذہبی، امام شافعی کی تشیع کے بارے میں لکھتا ہے: اس کی تشیع کا مطلب حب علی اور بغض نواصب ہے۔ اور علیؑ کو مولا ماننا ہمارے نبی کی متواتر حدیث “من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ”پر عمل کرنے کی وجہ سے ہے۔
2. ابن حجر ہیثمی: انہوں نے اپنی کتاب صواعق محرقہ جو کہ شیعہ کے خلاف تحریر کی تھی میں حدیث غدیر کی کثرت اسناد اور صحت کا اعتراف کیا ہے: حدیث غدیر صحیح ہے جس میں کوئی شک نہیں، اور اس کو محدثین کی ایک جماعت جیسے ترمذی، نسائی اور احمد نے ذکر کیا ہے، اور اس کی اسناد بہت زیادہ ہیں جن کو ۱۶ صحابہ سے روایت کیا گیا ہے۔ امام احمد کی روایت کے مطابق اس حدیث کو ۳۰ صحابہ نے رسولﷺ سے سنا اور علیؑ نےاپنی خلافت کے زمانے میں ان سے حلف لیا تو انہوں نے آپ ؑ کے حق میں گواہی دی۔ اس حدیث کی بہت سی اسناد صحیح اور حسن ہیں۔ پس جس نے بھی اس کی سند میں طعن کیا ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
3. جلال الدین سیوطی: اہل سنت کے مشہور محدث، مفسر، عالم اور ادیب نے بھی اس حدیث کے تواتر کا اعتراف کیا ہے۔ مناوی کہتا ہے حدیث من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ کے راوی ثقہ ہیں بلکہ مصنف سیوطی کے نزدیک یہ حدیث متواتر ہے۔ ابراہیم بن محمد حسینی نے بھی اس کی تائید اس طرح کی ہے: حدیث غدیر کو امام احمد اور مسلم نے براء بن عازب اور احمد نے بریدہ، ترمذی، نسائی اور ضیا مقدسی نے زید بن ارقم سے روایت کیا ہے۔ ہیثمی نے کہا احمد کے راوی ثقہ ہیں۔ ایک اورجگہ کہا اس کے روای صحیح ہیں۔ اور سیوطی نے اس حدیث کو متواتر کہا ہے۔
4. ملا علی قاری: حدیث غدیر کے تواتر کے بارے میں لکھتے ہیں یہ حدیث صحیح ہےجس کے بارے میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ بلکہ بعض حفاظ حدیث اسے متواتر شمار کیا ہے کیونکہ احمد کی روایت میں ہے کہ اس کو رسولﷺ سے ۳۰ صحابہ نے سنا اور ایام خلافت میں وقتِ منازعہ علی ؑ کے حق میں گواہی دی۔
5. علامہ شمس الدین جزری: انہوں نے فضائل علی ؑ میں مسقل کتاب تصنیف کی ہے جس میں آپؑ کے حدیث غدیر کے ساتھ حلف والے واقعے کو نقل کیا ہے اور کہا: اس لحاظ سے یہ حدیث حسن ہے اور کئی لحاظ سےصحیح۔ یہ امیر المومنین علی اور نبی ﷺ سے متواتر نقل ہوئی ہے، جس کو ایک جمع غفیر نے جمع غفیر سے نقل کیا ہے، اور جو لوگ علم حدیث سے نا آگاہ ہیں انہوں نے اس کی تضعیف کی کوشش کی ہے جن کی بات کی کوئی قیمت نہیں ہے۔
6. سبط ابن جوزی: ساتویں صدی کے مشہور اہل سنت عالم لکھتے ہیں : علماء سیرت کا اتفاق ہے كہ واقعہ غدیر نبیﷺ کے حجۃ الوداع سے واپسی پر ۱۸ ذی الحج کو پیش آیا۔ آپ ﷺ نے صحابہ کوجمع کیا اور وہ ۱۲۰ ہزار نفر تھے۔ اور فرمایا: من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ آپ ﷺ نے امر ولایت کو صراحت کے ساتھ بغیر کسی اشارے اور تلویح كے بیان کیا۔
7. علامہ اسماعیل عجلوانی: یہ اہل سنت کے مشہورعالم لکھتے ہیں من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ کو طبرانی، احمد اور ضیا نے مختارہ میں زید بن ارقم، علی اور ۳۰ صحابہ سے لفظ اللھم وال من والاہ وعا د من عاداہ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ پس یہ حدیث متواتر ہے یا مشہور۔
8. محمد ناصرالبانی: مشہور وہابی محدث جو کہ ہم عصر بهى ہیں جنہوں نے ۱۰۰ سے زیادہ جلد کتاب لکھی ہے، کہتے ہیں : حدیث غدیر کی اسناد بہت زیاد ہیں جن کو ایک بڑی جماعت نے جمع کیا ہے جن میں سے ہیثمی نے مجمع میں اور میں نے ان میں سے میسور اسناد جن کی صحت کا یقین حاصل ہوا کی تخریج کی ہے۔ ورنہ یہ اسناد تو بہت زیادہ ہیں۔ ان کو ابن عقدہ نے الگ کتاب میں ذکر کیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے کہا کہ ان میں سے بعض صحیح اور بعض حسن ہیں۔ خلاصہ کلام حدیث غدیر اپنے دونوں حصوں کے ساتھ صحیح ہے بلکہ پہلا حصہ رسول ﷺ سے متواتر ہے۔
9. شعیب الارنؤوط: ایک مشہور اہل سنت محقق معاصر ہیں، جنہوں نے کئی کتابوں کی تحقیق کی ہے وه مسند احمد میں حدیث ۳۰۶۲ کے ذیل میں لکھتے ہیں: آپ ﷺ کے فرمان من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ کے شواہد اتنے زیادہ ہیں کہ حد تواتر تک پہنچتے ہیں۔
10. ضیاء الدین مقبلی: انہوں نے روایت غدیر کو ابحاث مسدّدہ میں ان روایات متواترہ میں سے قرار دیا ہے جو کہ مفید علم اور یقین ہے۔ جبکہ ہدایۃ العقول میں کہا اگر حدیث غدیر معلوم نہیں ہے تو پھر دین کی کوئی چیز معلوم نہیں ہے ۔ یعنی یہ حدیث اتنی واضح اور روشن ہے کہ ضروریات دین کا درجہ رکھتی ہے۔
11. میرزا محمد بدخشی: حدیث غدیر کے بارے میں لکھتے ہیں: یہ حدیث صحیح اور مشہور ہے، جس کی صحت میں متعصب منکر نے کلام کیا ہے، جس کے کلام کی کوئی حیثیت اور اعتبار نہیں ہے۔
12. ابن عبد البر: حدیث غدیر کونقل کرنے کے بعد لکھتا ہے : اس کی تمام اسناد ثابت ہیں۔
13. ابن حجر عسقلانی: مشہور اہل سنت عالم اور دانشور جو اہل سنت کے برجستہ علما میں شمار ہوتے ہیں لکھتے ہیں: حدیث غدیر ۷۰ سے زیادہ صحابہ سے نقل ہوئی ہے ۔ اس کو طبری نے ایک الگ کتاب میں جمع کیا ہے، اور اس روایت کو ۷۰ یا اس سے زیادہ صحابہ سے اخراج کیا ہے۔
14. ابو حامد غزالی: چھٹی صدی کے نامور دانشور امام غزالی لکھتے ہیں: جماہیر کا آپﷺ کے عید غدیر کے خطبے والی حدیث کے متن پر اجماع اور اتفاق ہے۔ جب آپﷺ نے فرمايا ہیں: من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ تو عمر نے امام على عليه السلام كو مبارکباد دی (بخ بخ يا أبا الحسن لقد أصبحت مولاي ومولي كل مولي)۔ یہ اس کی طرف سے تسلیمِ رضایت اور تحکیم تھی۔ اس کے بعد اس پر ہوائے نفس غالب آگئی اور وہ سب بھول گیا… (وأجمع الجماهير على متن الحديث من خطبته في يوم عيد يزحم باتفاق الجميع وهو يقول: « من كنت مولاه فعلي مولاه » فقال عمر بخ بخ يا أبا الحسن لقد أصبحت مولاي ومولي كل مولي فهذا تسليم ورضى وتحكيم ثم بعد هذا غلب الهوى تحب الرياسة وحمل عمود الخلافة وعقود النبوة وخفقان الهوى في قعقعة الرايات واشتباك ازدحام الخيول وفتح الأمصار وسقاهم كأس الهوى فعادوا إلي الخلاف الأول: فنبذوه وراء ظهورهم واشتروا به ثمناً قليلا) .
15. محمد بن اسماعیل صنعانی: اپنی معتبر کتاب میں لکھتا ہے : حدیث غدیر کو حدیث کے اماموں کی ایک جماعت نے ذکر کیا ہے۔ جن میں سے احمد، حاکم، ابن ماجہ وغیرہ شامل ہیں۔ اور ان ائمہ حدیث نے اس کو متواتر احادیث میں سے شمار کیا ہے۔
16. محمد بن جعفر کتانی: حدیث غدیر کو اپنی کتاب نظم المتناثر میں جو کہ متواتر حدیثوں کے ساتھ خاص ہے ذکر کرتا ہے۔
نتیجہ:
موضوع تحقيق: حدیث غدیرکے تواتر کا اہل سنت منابع حدیث سے اثبات ہے اوراس تحقیق سے جو نتائج سامنے آئے وہ یہ ہیں کہ حدیث غدیر شیعہ منابع کی طرح منابع اہل سنت میں بھی تواتر لفظی بلکہ ما فوق حدِ تواتر ہے۔ اہلِسنت محدثین کے نزدیک تواتر حدیث آیتِ قرآن کیطرح قطعى الصدور ہے، جسکی تصدیق ضروری ہے بلکہ اسکے راویوں کے حالات جاننے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح اس حدیث کو 110 صحابہ کرام اور74 تابعین، اور360 علماء، محدثین اور مفسرین نے معتبر کتب میں نقل کیا ہے ۔ جنکو علامہ امینی نے اپنی معتبر کتاب “الغدیر” میں تفصیل سے ذکر کیا ہے.
ترمذی اور ابنِ ماجہ نے اس حدیث کواپنی “صحاح “میں جبکہ امام نسائی نے “خصائص امير المؤمنين” میں ذکر کیا ہے اصحابِ صحاح کے علاوہ بزرگ اہل سنت محدثین نے اسکو اپنی کتب میں نقل کرنے کے بعد اسکی صحت اور تواتر کا اعتراف کیا ہے مثلاً امام احمد، حاکم نیشاپوری، ابنِ حجرعسقلانی، طبرانی، سیوطی، امام غزالی، اسماعیل عجلوانی، ابنِ ابی عاصم، ملا علی قاری، محمد ناصرالبانی، محمد بن جعفر کتانی اور ایسے بہت سے بزرگ علماء نے اس حدیث کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔
اس حدیث کو امام احمد نے 40، طبری نے 70، جزری نے 80، ابنِ عقدہ نے105 اور سجستانی نے 120اسناد کیساتھ روایت کیا ہے۔ حدیث غدیر کا امتیاز یہ ہے کہ اسکے راویوں میں عشرہ مبشرہ اور 14 بدری صحابہ شامل ہیں، اسکی اسناد اتنی کثیر ہیں کہ بعض اہل سنت علماء نے ناچار انکو مستقل مصنفات میں ذکر کیا ہے، اس حدیث کو متواتر احاديث کیساتھ خاص کتب میں ذکر کرنے والوں میں سیوطی اور مرتضیٰ زبیدی قابلِ ذکر ہیں۔
ان تمام شواہد کے باوجود جو اس حدیث کی صحت اور تواتر میں شک کرے تو اسکی عقل و خرد کی سلامتی میں شک کرنا چاہیے۔
مولا میری اس عاجزانہ سی کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول ومنظور فرمائيں اور پروردگار سے دعا گو ہوں کہ وہ ہمیں مولا علی علیہ السلام کی عظیم شخصیت کی معرفت عطا فرمائيں اور ہمیں انکی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں اورہمیں اس قابل بنائيں کہ بروز محشر آپ علیہ السلام کے سا منے جانے کی اہلیت حاصل كرسكيں۔ خدا ہم سب کو آپ علیہ السلام کی سیرت پر چلنے کی توفیق دے.(الہی آمین)
حوالہ جات:
۔ اصول الحدیث واحکامہ، ڈاکٹر محمد عجاج خطیب، ص 301۔
۔ مسند احمد، موسسہ قرطبہ، مصر، جلد5 صفحہ419 حدیث 23609، جلد4 صفحہ 370 حدیث 19321، جلد1 صفحہ 118 حدیث 950۔
۔ سلسلۃ احادیث صحیحہ، محمد ناصر البانی، مکتبہ معارف، ریاض، جلد4، صفحہ 249۔
۔ سنن ابن ماجہ، باب فضل علی بن ابی طالب، تحقیق: محمد فواد عباد الباقی، دار الفکر بیروت، جلد1 صفحہ ،45-43 حدیث 116،121۔
۔ السلسلہ، جلد1 صفحہ 26۔
۔ سنن ترمذی، باب مناقب علی بن ابی طالب، تحقیق: احمد محمد شاکر اور ساتھی، دار احیاء تراث عربی، بیروت، جلد،5 صفحہ 633، حدیث 3713۔
۔ خصائص امیر المومنین علی بن ابی طالب، تحقیق: احمد سیرین البلوشی، مکتبہ علا، کویت، جلد1، صفحہ 96،81 حدیث 79،83۔
۔ مستدرک حاکم، تحقیق: مصطفی عبد القادر عطا، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ج 3، ص 118، السلسلہ، ج 4، ص 249۔
۔ السنۃ، تحقیق: ناصر الدین البانی، مکتب اسلامی ، بیروت، ج 2، ص 605، حدیث 1361۔
۔ معجم کبیر، طبرانی، تحقیق: حمدی بن عبد المجید سلفی، مکتبہ زہرا ، موصل، ج 5، ص 171، حدیث 4986۔ و السلسلہ، ج 4، ص 249۔
۔ مستدرک مع تضمینات الذھبی فی التلخیص، دار الکتب العلمیہ بیروت، ج 3، ص 613، حدیث 6272۔
۔ سیر اعلام النبلا، الذهبی ، شمس الدین، تحقیق: شعیب الأرنؤوط و محمد نعیم العرقسوسی، ناشر مؤسسه الرساله – بیروت، ج 14، ص 277۔
۔ تہذیب التہذیب، دار الفکر ، بیروت ، ج 7، ص 297، فتح الباری، دار المعرفہ ، بیروت، تحقیق: محب الدین الخطیب، ج 7، ص 74۔
۔ تذکرۃ الحفاظ، ج 3، ص 204۔
۔ ینابیع المودہ، ص 36۔
۔ سیر اعلام النبلا، جلد 14، ص 277۔
۔ تذکرۃ الحفاظ، شمس الدین الذهبی، دار الکتب العلمیه – بیروت،جلد 20، ص 710۔
۔ سیرہ نبویہ، ج 4، ص 426۔
۔ روح المعانی،دار احیا تراث عربی، بیروت، ج 6، ص 195۔
۔ تاریخ اسلام ذہبی، دار الکتاب العربی، تحقیق: عمر عبد السلام تدمری، جلد 14، ص 338۔
۔ صواعق محرقہ، تحقیق: عبد الرحمن بن عبد اللہ ترکی و کامل محمد خراط، موسسہ رسالہ بیروت، ج1، ص 106، 107۔
۔ تیسییر شرح جامع صغیر، المناوی، مکتبہ امام شافعی، ریاض، ج 2، ص 442، فیض القدیر شرح جامع صغیر،مکتبہ تجاریہ کبری، مصر، ج 6، ص 218۔
۔ البیان والتعریف، تحقیق: سیف الدین کاتب، دار الکتاب العربی، ج 2، ص 230، حدیث 1577۔
۔ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکواۃ المصابیح، تحقیق: جمال عیتانی، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ج 11، ص 248۔
۔ اسنی المطالب فی مناقب سیدنا علی بن ابی طالب، تحقیق: د. ہادی امینی، مکتبہ امیر المومنین ، اصفہان، ص 48۔
۔ تذکرۃ الخواص، موسسہ اہل البیت، بیروت، ص 37۔
۔ کشف الخفا،تحقیق: احمد القلاش، موسسہ رسالہ ، بیروت، ج 2، ص 361، حدیث 2591۔
۔ السلسلہ الصحیحہ، ج 4، ص 249۔
۔ مسند احمد، احادیث مزیلہ بہ احکام الارنؤوط علیھا، موسسہ قرطبہ، قاہرہ، ج 1، ص 330۔
۔ ہدایۃ العقول، ج 2، ص 30۔
۔ نزل الابرار، ص 45۔
۔ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، یوسف بن عبد البر، دار الجیل، بیروت تحقیق: علی محمد لبجاوی، ج 3 ص 1099.
۔ تہذیب التہذیب، ج 7، ص 297۔
۔ سر العالمین، امام غزالی، تحقیق: محمد حسن اسماعیل و احمد فرید المزیدی،دار الکتب العلمیہ، بیروت، ج 1، ص 18۔
۔ توضیح الافکار، تحقیق: محی الدین عبد الحمید، مکتبہ سلفیہ، مدینہ منورہ، ج 1، ص 243۔
۔ نظم المتاثرمن الحدیث المتواتر، تحقیق: شرف حجازی کتانی، دار کتب سلفیہ، مصر، ص 194، 195۔