مسئلہ شر اور اس كا حل

تحرير: سید شہباز حیدر نقوی

انسان کو خداوند متعال نے فطرتاً اس طرح بنایا ہے کہ وہ تجسس کرتا ہے کسی بھی چیز کی گہرائي تک جانا چاہتا ہے چونکہ خالق كائنات  کا وجود مخفی ہے انسان اس پر ایمان تو لے آتا ہے لیکن اس کا تجسس ختم نہیں ہوتا یہ سوال کرتا ہے. کبھی خالق کے وجود پر سوال کرتا ہے، کبھی اطمینان قلب کے واسطے اس کو دیکھنے کا تقاضہ کرتا ہے، کبھی اس کے وجود کی حدود کو ماپتا ہے تو کبھی اس کی صفات پہ سوال اٹھاتا ہے. اسی طرح کے ہزاروں سوالات میں سے ایک سوال یہ ہے کہ خدا جو اس کائنات کا خالق ہے اس کی صفات میں عالم مطلق،قادرمطلق اور خیر محض ہونا ہے اگر وہ خیر محض ہے تو اس نے کائنات کی ساخت تشکیل دیتے ہوئے یہ رعایت کیوں نا کی کہ اس کائنات میں کسی کے لئے ضرر اور نقصان نا ہوتا ؟

اس كائنات  ميں شر  كا وجود خدا كي صفات: عالم مطلق،قادر مطلق اور خیر محض  سے متناقض هے. اس تناقض كو ختم كرنے كے لیے ضروري هے كه حقيقت شر كو بيان كريں۔

1- تعریف شر

شر ایک بدیهی مفهوم ہے جس کی تعریف کی احتیاج نہیں البتہ مختصرا یوں کہا جا سکتا ہے کہ فقدان کمال یا درد و رنج جو خدا کی مخلوق یعنی انسان کو پہنچے اسے یہ انسان شر تصور کرتا ہے. (جعفر سبحاني، محمد رضاعي،  انديشه اسلامي(1)، ص121)

 

2- اقسام شر

شر کی دو اقسام ہیں ایک شر طبیعی ہے اور ایک شر اخلاقی۔

1- شر اخلاقی:  جس شر کا عامل خود ذات انسان ہے جیسے چوری ، قتل و غارت ، جنگ و جدال وغیرہ.

2- شر طبیعی: جس میں انسان کا عمل دخل نہیں ہوتا جیسے قدرتی آفات، زلزلہ ، سیلاب ، طوفان اور وہ امراض جو لا علاج ہیں شر طبیعی میں آتے ہیں۔(جعفر سبحاني، محمد رضاعي،  انديشه اسلامي(1)، ص121-122)

 

مسئله شر كا حل

1- بعض فیلسوف یہ کہتے ہیں کہ شر اصلا موجود ہی نہیں ہے ملا صدرا اس پر دلیل بیان کرتے ہیں کہ “أنّ الوجود فی نفسه خیر و بهاء کما أنّ العدم فی نفسه شرٌّ علی ما حکم به الفطرة.”وجود اپنے آپ میں خیر محض ہے( یعنی جس چیز پر لفظ وجود کا اطلاق ہے وہ خیر ہے). اسی طرح عدم اپنے آپ میں شر ہے (یعنی جس چیز پر عدم كا اطلاق ہو گا وہی شر ہے )یہ حکم فطرت انسان لگاتی ہے (اگر کوئي آوازِ فطرت تک رسائي رکھتا ہو تو اس کے لئے یہ بات واضح ہے)”(ملاصدرا، الحکمه المتعالیه، ج4، ص 121).

دوسری دلیل شر کے معدوم ہونے پر قاعدہ سنخیت ہے ۔ یعنی خدا قادر مطلق ہے عالِمِ کل ہے اور خیرخواهِ مطلق ہے یا یوں کہيں کہ خیر محض ہے ۔لہذا علت و معلول کے درمیان خیر محض سے خیر کے سوا کچھ ایجاد نہیں ہو سکتا ۔

2- اس سوال کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ خداوند متعال کا مقصد مخلوق خلق کرنا نہیں بلکہ ایک نظام خلق کرنا تھا۔ خلقِ بشر کی بات آئے تو یہ زاویہ الگ ہے مگر جب خلق نظام کی بات آئے تو آئینہ فکر تبدیل کرنا پڑے گا. پھر مد نظر صرف انسان نہیں بلکہ کائنات میں بسر کرنے والی ہر مخلوق ہے. عالم میں صرف بشر نہیں بلکہ کئي مخلوقات ایسی ہیں جو انسان کی نظر سے اوجھل ہیں اور وہ اپنے ہونے کا احساس بھی کرواتی ہیں فیلسوف حضرات عوالم کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: (جعفر سبحاني، محمد رضاعي،  انديشه اسلامي(1)، ص122-124)

1- عالم عقل

2- عالم مثال

3- عالم ماده

1- عالم عقل: ایک ایسا عالم ہے کہ جس کی مخلوقات مجرد تام ہیں ۔اس کا مادی اور جسمانی مخلوقات سے کوئي تعلق نہیں، نا ہی یہ زمان یا مکان میں محدود ہے اور نه هي اس کی کسی جہت کا تعین ہو سکتا ہے ۔ عالم عقل تخلیق کی دنیا کا سب سے اعلی درجہ ہے اور ادنیٰ عوامل کا موثر سبب ہے۔ مشائین کا خیال تھا کہ اس عالم میں کل دس عقلیں ہیں جن کا ایک دوسرے سے قوی تعلق ہے اور ہر مرتبے میں عقل صرف ایک ہے اس سے زیادہ ممکن نہیں، لیکن ملا صدرا اور شیخ اشراق نے افلاطون کے نظریات کو قبول کیا ہے اور افقی کثرت کے قائل تھے. (ملا صدرا، الحكمة المتعاليه، ج۲، ص۸۲ – ۴۶)

2- عالم مثال:تخلیق کا دوسرے درجے کا مرحلہ ہے. یہ عالم عقل اور عالم مادہ کے درمیان میں قرار پایا ہے. یہ عالم مادہ سے مجرد ہے لیکن اسکی جہت زمانی و مکانی مشخص ہے اس کی شکل بھی ہے، رنگ بھی ہے ،ليكن جسم مادي نهيں ہے. اسے تجرد مثالی یا تجرد برزخی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔

3- عالم مادہ:  يه عالم محسوس ہے کہ جسے عالم طبیعت اور عالم شھادت سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی جسے ہم محسوس کر سکتے ہیں دیکھ سکتے ہیں۔ عالم عقل و مثال کے بر عکس حواس خمسه اس عالم کا ادراک کرنے سے قاصر نہیں ہيں۔

دوسرا جواب يه هے كه شر اس جہان مادی کا لازمہ ہے،تجرد محض ہونا، خیر محض ہونا اس عالم مادی کے لئے محال ہے   خداوند متعال اگر چاہتا تو اس عالم کو بھی خیر محض بنا سکتا تھا لیکن اس کا مقصد مخلوق نہیں نظام خلق کرنا تھا جیسا کہ وہ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ الرَّحْمَٰنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا( فرقان 59)

زمین و آسمان کی خلقت 6 دن میں ہوئی حالانکہ وہ یہ بھی فرماتا ہے:﴿إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ( يس 82)”وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے”۔ اگر حقیقت امر یونہی ہے تو پھر یہ چھ دن کا دورانیہ کیوں ؟ کیونکہ اس حکیم ذات کا مقصد اس نِظام کو ایک خاص پیراہے میں چلانا تھا اگر مقصد فقط مخلوق بنانا ہوتا تو وہ ایسے بنا دیتا کہ جیسے انسان تقاضہ کرتا ہے مگر اس کا مقصد نظام بنانا تھا نظام میں مینیجمٹ ہوتی ہے اور نظام کے خاص تقاضے ہوتے ہیں یہ عالم عالمِ عقل و مثال نہیں کہ جس میں تزاحم و تنازع نا پایا جائے یہ عالمْ تزاحم و تنازع اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اس لئے اس عالم کا لازمہ شر قرار پایا ہے.

فارابی عالم اسلام کا ایک مایہ ناز فلسفی یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے:

“الأول تام القدرة والحکمة والعلم، کامل فی جمیعه أفعاله لا یدخل فی جمیع أفعاله خللٌ البتةً ولا یلحقه عجز ولا قصور والآفات والعاهات التی تدخل علی الأشیاء الطبیعية، إنّما هی للضّرورات ویعجز المادة عن قبول النّظام التّام”

“خداوند متعال اپنی قدرت اپنے علم اور اپنی حکمت میں کمال مطلق ہے اس کے کسی کام میں نقص کا تصور ممکن نہیں آفات و شرور تو بس طبیعت کا تقاضہ ہیں یہ عالم طبیعت پہ عارض ہونے والی چیزیں ہیں عالم طبیعت و عالم مادہ میں اتنی ظرفیت نہیں کہ یہ خیر محض کو قبول کر سکے “( فارابی ،تعلیقات ، ص 46)

اب اگر کوئي اشکال کرے کہ خدا نے اس عالم کو ایسا کیوں نہیں بنایا کہ اس میں خیر محض ہو. آگ کو ایسا کیوں نہیں بنایا کہ وہ کسی بے گناہ یا معصوم کو نا جلائے ؟ وہ لباس کو نا جلائے ؟

المختصر! که طبیعت کے قوانین کو ایسا کیوں نہیں بنایا کہ ان میں کسی کو تکلیف پہنچانے کی صلاحیت ہی نا ہوتی ؟

ان اشکالات کا مختصر جواب یہ ہے کہ اعطاء المعطی کے ساتھ قابلية القابل شرط ہے عطا کرنے والے کی عطا میں کمی نہیں ہے قبول کرنے والے کی ظرفیت میں کمی ہے اس نے ہر مخلوق کو اتنا عطا کیا ہے جتنی اس میں تحمل کی طاقت ہے:﴿وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ ( المؤمنون 62) کسی نفس پر ظلم کرنا اس خالق کے شایان شان نہیں وہ صرف اتنا بوجھ ڈالتا ہے جتنا کوئي برداشت کر سکے ۔

ابن سینا اپنی کتاب الھیات کے باب شرّيتِ عالم میں کہتا ہے کہ: “اگر وہ کہیں کہ خدا نے عالم کو اس طرح خلق کیوں نا کیا کہ یہ خیر محض ہو اس میں مانع شرور پیدا کیوں نا کئے ؟ تو ان کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اگر عالم مادی کہ جس کا لازمہ ہی یہ هے کہ اس میں شر قرار پائے اگر اس طرح خلق ہوتا کہ اس میں کوئي شر نا ہوتا تو یہ عالم مادی ہی نا رہتا یہ کوئي اور عالم ہوتا کہ جو خیر محض ہو اگر مادیت ہے تو شر الزامی ہے “۔

اور اگر یه کها جا ئے که کائنات شرور سے بھری پڑی ہے اس میں خیر کم ہے اور شر زیادہ ہے اس سے تو بہتر تھا کہ یہ کائنات خلق نا ہوتی۔

اس كا جواب یہ ہے يه کہنا بیوقوفی کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس کائنات میں اگر دس فیصد شر ہے تو نوّے فیصد خیر ہے. اب اتنے قلیل سے شر کی موجودگی کی وجہ سے کائنات کے عدم کا تقاضہ خود ایک شر کبیر ہے ۔

اور دوسری بات یہ کہ انسان ہر چیز میں خود کو مد نظر رکھتا ہے اپنی ذات کو محور و مرکز قرارداد دیتا ہے اگر خود کو محور قراردینا چھوڑ دے اور اس کائنات کی وسعتوں کو مد نظر رکھے تو انسان یہ درک کر سکتا ہے کہ یہ کائنات ہر لحاظ سے خیر ہے. اگر آگ کو جلانے کی قوت دی ہے تو انسان کو عقل کی طاقت دی ہے تا کہ وہ اس کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کر سکے اور اس کے نقصان سے بچ سکے. (جعفر سبحاني، محمد رضاعي،  انديشه اسلامي(1)، ص124-125)

 

3-  اللہ نے انسان کو آزاد پیدا کیا۔ وہ ارتقاء کی راہ پر چل سکتا ہے اور اپنی مرضی سے سعادت حاصل کر سکتا ہے، گمراہی کے راستے پر چل سکتا ہے اور گمراہ ہو سکتا ہے اور ایسے برے کاموں میں مشغول ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث بنتا ہے ۔ لہٰذا دنیا میں برائی انسان کی آزادی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ خدا انسان کو دو طریقوں سے تخلیق کر سکتا تها:

1- خدا انسان کو مجبور پیدا كرتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا انسان کو اس طرح پیدا کرتا کہ اس سے صرف نیکیاں ہی صادر ہوتیں۔ اس صورت ميں انسان كے اعمال كي كوئي اهميت نه هوتي اور  كمال كى طرف سفر بے معنى هو جاتا.

2- خدا انسان كو آزاد پیدا کرتا، جس کا تقاضا ہے کہ کچھ لوگ برے کام کریں۔ تا کہ پھر اس آزادی کا انسان سے حساب لیا جائے کہ ہم نے تمھیں با اختیار بنایا تھا تم نے عمل خیر کیا تو اپنے اختیار سے اور موجب شر بنے تو اپنے ارادے اور اختیار سے ۔ اس ميں انسان كے اعمال كي اهميت هے  اور  كمال كا حصول معنى ركهتا هے. (جعفر سبحاني، محمد رضاعي،  انديشه اسلامي(1)، ص125-127)جیسا کہ قرآن مجید میں خداوند متعال نے اس طرف اشارہ کیا ہے:

﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيدِی النَّاسِ لِيذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يرْجِعُوْنَ (الروم41)

“لوگوں کے اعمال كے باعث خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہوگیا تاکہ انہیں ان کے بعض اعمال  کا ذائقه چکھايا جائے شايد يه لوگ باز آجائیں”۔

 

4- مسئلہ شر کو حل کرنے کے لیے بعض مفکرین یہ نظر رکھتے ہیں کہ جسے کچھ لوگ برائی سمجھتے ہیں وہ لوگوں کی جهالت يا سطحی اور جزوی قضاوتوں کا نتیجہ ہے۔ اگر لوگوں کے پاس وسیع اور جامع علم ہوتا تو وہ کبھی بھی کچھ چیزوں کی برائی کا اتنی آسانی سے فیصلہ نہ کرتے۔ اپنے مطلق کمالات کی وجہ سے، خدا نے بہترین ممکنہ دنیا بنائی ہے جہاں ہر چیز اپنی جگہ پر خیر ہے۔ لیکن کچھ لوگ تنگ نظری کی وجہ سے چیزوں کے بارے میں صحیح فیصلہ نہیں کر سکتے۔(جعفر سبحاني، محمد رضاعي،  انديشه اسلامي(1)، ص127-129) یہ نقصِ علمی اور نظر کی تنگی باعث بنتی ہے کہ انسان ہر چیز کو شر تصور کرتا ہے جیسا کہ پروردگار عالم قرآن مجید میں اشارہ فرماتا ہے:

﴿وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ( البقرہ 216)

“اورممکن ہے تمهیں ایک چیز ناگوار گزر ے مگر وہی تمھارے لئے بهتر ہو(جيسا كه) ممکن ہے تمهیں ایک چیز پسند هو مگر وہ تمھارے لئے بری ہو، (ان باتوں كو) خدا بهتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے”۔

المختصر: یہ کائنات اور اس کی وسعتیں اس خالق نے کہ جو عقل انسان سے ماورا ہے ہر طرح سے کامل اور منظم بنائي ہیں اور انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ چاہے تو اپنے اختیار سے اشرف المخلوقات بن جائے اور چاہے تو اپنے اختیار سے وہ کسب کرے جو اسے اسفل السافلین تک پہنچا دے۔

شر كے فوائد:

1- شر عالم مادہ کا لازمہ ہے اور فطری تقاضہ ہے.

کشمکش اور تصادم مادی دنیا کی ذاتی خصوصیات ہیں۔ اگر یہ خصوصیات نہ ہوتیں تو مادی دنیا جیسی کوئی چیز نہ ہوتی۔ یا تو یہ خصوصیات مادے کی دنیا میں موجود ہونی چاہئیں یا ایسی دنیا کا کوئی وجود ہی نہیں۔ دوسری طرف، خدا کی حکمت اور فضل کا تقاضا ہے کہ مادی دنیا کی تخلیق کی ہو کیونکہ اس کی اچھائی اس کے عیبوں اور برائیوں سے زیادہ ہے اور تھوڑی سی برائی کی خاطر بڑی بھلائی کو ترک کرنا خدا کی حکمت اور فضل کے خلاف ہے.

 

2- شر استعداد انسان کے پھلنے پھولنے کا سبب ہے .

انسان کی ساخت ایسی ہے کہ اس کی بہت سی صلاحیتیں مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنے کے سائے میں پروان چڑھتی ہیں۔ بہت سی ایجادات اور اختراعات مسائل اور مشکلات سے نمٹ کر حاصل کی جاتی ہیں۔ اس لیے برائی کا وجود انسان کی روحانی اور سائنسی ترقی کے لیے مفید ہے۔ قرآن اس بارے میں سورہ الشرح کی آیات 5 اور 6 میں کہتا ہے: ﴿ اِنَّ مَعَ العُسْرِ يُسْراً ” يقينا مشکل کے ساتھ آسانی ہے”.

 

3- شر غفلت سے بیداری کا سبب ہے.

برائیوں اور مشقتوں کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کے لئے غفلت سے بیداری کا زینہ فراہم کرتی ہیں. آئیے ایک ایسے ڈرائیور کی مثال لے لیں جو ڈرائیونگ تو جانتا ہے مگر ڈرائیونگ کے اصول و ضوابط کو مد نظر نہیں رکھتا اور گاڑی چلانے میں غفلت برتتا ہے اگر وہ اسی طرح غفلت برتتا رہے تو خود بھی نقصان اٹھائے گا اور دوسروں کے بھی نقصان کا باعث بنے گا لیکن ایک انتباہ کے طور پر، پولیس اسے جرمانہ کرتی ہے اور اس لا پرواہی کو جاری رکھنے سے روکتی ہے۔ یہ دشواری اور تکلیف اس کے حق میں ہے اور اسے ناخوشگوار نتائج سے دور رہنے کے لیے بیدار اور چوکنا بناتی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے غفلت سے بیدار ہونے کے لیے مشکلات اور پریشانیوں کا بھی ذکر کیا ہے اور سورہ سجدہ کی آیت نمبر 21 میں فرمایا ہے: “اور یقیناً آخرت کے بڑے عذاب کے علاوہ ہم قریب کے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ دنیا کے عذاب سے، امید ہے کہ وہ خدا کی طرف لوٹ آئیں۔”

 

4- یہ خدا کے خاص بندوں کے لئے تحفہ ہے.

بعض روایات کے مطابق جب بندے پر خداوند منان کا خاص کرم ہوتا ہے تو خدا سے مشکلات میں مبتلا کرتا ہے ۔

امام صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:

جب خدا کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اسے مشکلات کے سمندر میں غرق کر دیتا ہے۔

ایک اور جگہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: انبیاء دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ مصیبتوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور پھر جو لوگ ان سے مشابہ ہوتے ہیں، جتنے زیادہ خدا کے منتخب بندوں (انبیاء و اولیا) کے مشابہ ہونگے اتنے ہی مشکلات میں مبتلا ہونگے ۔

 

5- شر امتحانِ الہی ہے .

خدا بعض اوقات اپنے بندوں کو مصیبت اور مشکل سے آزماتا ہے تاکہ ان کی پہچان ہو سکے جو سچے اور کھرے ہیں جس طرح سے ناپاک سونے کو گرمی سے پاک کرتے ہیں اور اسے مزید خوبصورتی اور قدر عطا کرتے ہیں۔ اسی طرح الله  بعض بندوں کو مصائب، آفات اور پریشانیوں میں آزماتا ہے تاکہ وہ پاکیزہ اور قیمتی بن جائیں۔(جعفر سبحاني، محمد رضاعي، اندیشہ اسلامی، ص130-131)

﴿أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ.وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنََّ الله الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ(العنكبوت: 2-3)

“کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟ اور بتحقیق ہم ان سے پہلوں کو بھی آزما چکے ہیں کیونکہ اللہ کو بہرحال یہ واضح کرنا ہے کہ کون سچے ہیں اور یہ بھی ضرور واضح کرنا ہے کہ کون جھوٹے ہیں۔ “

 

منابع

1- قرآن كريم.

2- ملاصدرا، الحکمة المتعالیه فی الاسفار العقلیة الاربعه، چاپ:  بیروت ، اعلمی.

3- فارابي، التعليقات، چاپ: حیدرآباد دکن، ۱۳۰۶ ش.

4- جعفر سبحاني، محمد رضاعي،  انديشه اسلامي(1)،  نشر معارف، قم، چاپ: 100،  سال1400ش.