خورشیدِ عالم

تحریر: عباس حسینی

امام زمان علیہ السلام سے عصرِ غیبت میں استفادے کی کیفیت کے حوالے سے ایک اہم تشبیہ متعدد روایات میں ذکر ہوئی ہے۔ ان روایات کے مطابق زمانہ غیبت میں لوگ آپ کے وجودِ مبارک سے ایسے استفادہ کریں گے جیسے بادلوں کی اوٹ میں موجود سورج سے کرتے ہیں۔ تشبیہ میں سب سے اہم بحث وجہِ شبہ کی ہوتی ہے۔ پس یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ وجودِ مبارک امام زمان علیہ السلام اور سورج کے درمیان وجہِ شبہ کیا ہے؟ اس حوالے سے علماء نے متعدد نکات ذکر کئے ہیں۔

۱۔ سورج چاہے ظاہر ہو یا بادلوں کے پیچھے، جس نظام میں ہم جی رہے ہیں اس کا مرکز ہے۔ اسی طرح امام زمان علیہ السلام کا وجود اس کائنات کا مرکز ہے جس کے گرد باقی تمام موجودات چکرکاٹ رہی ہیں۔ “ببقائه بقيت الدنيا وبيمنه رزق الوراء وبوجوده ثبتت الأرض والسماء.”

۲۔ سورج کے فوائد بہت زیادہ ہیں جن میں سے اکثر فائدے سب انسانوں تک ہمیشہ پہنچتے رہتے ہیں، فرق نہیں کرتا سورج کے آگے بادل ہوں یا نہ ہوں۔ مثلا سورج کی حرارت اور روشنی جو بادلوں کے باوجود زمین تک پہنچتی رہتی ہیں۔ سورج کی کشش ثقل جس پر یہ نظام کھڑا ہے۔ اگر ایک لمحے کے لیے سورج ہٹ جائے اس نظام نے تباہ ہونا ہے۔ زمین پر موجوداکثر نعمتوں کا سورج سے واسطہ ہے۔ امام کے بارے بھی کہا گیا کہ ان کے وجود کی برکت سے زمین سے سبزہ اگتا ہے، بارانِ رحمت کا نزول ہوتا ہے، چشمے جاری ہوتے ہیں، نہریں بہتی ہیں۔(بِنَا يُنَزِّلُ اَلْغَيْثَ وَ تُنْشَرُ اَلرَّحْمَةُ وَ تَخْرُجُ بَرَكَاتُ اَلْأَرْضِ) لہذا کہا گیا اگر حجتِ خدا نہ ہوتو ساری زمین انسانوں سمیت برباد ہوجائے گی۔(لو بقيت الأرض بغير إمام لساخت)

۳۔ بادلوں نے سورج کو نہیں گھیرا، بلکہ ہمیں گھیرا ہو اہے جس کی وجہ سے ہم سورج کو دیکھنے سے محروم ہیں۔ سورج کے فیض میں کبھی کسی وقت کوئی کمی نہیں ہوئی۔ اس کا فیض مسلسل جاری ہے۔ فرض کریں یہی بادلوں کے پیچھے موجود سورج بھی نہ ہو تب اس نظام اور ہماری دنیا کا کیا بنے گا؟ وجودِ امام زمانؑ بھی اسی طرح ہے۔ آپؑ کے فرمان کےمطابق: ہم مسلسل تمہاری یاد اور فکر میں ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو سختیاں اور دشمن تمہیں گھیر لیتے۔”إنا غير مهملين لمراعاتكم ولا ناسين لذكركم ولولا ذلك لنزل بكم اللأواء واصطملكم الأعداء.”

۴۔ سورج اور انسانوں کے درمیان بادلوں کا  پردہ ان لوگوں کے لیے جو بادلوں سے نیچے زندگی گزار رہے ہوں۔ اگر کسی میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ بادلوں سے آگے کا فاصلہ طے کرے تب وہ سورج کی روشنی سے براہ راست فیض یاب ہو سکتا ہے۔ امام زمانؑ ان لوگوں کی نسبت غائب ہیں جو دنیا اور مادیات کے ساتھ چسپے ہوئے ہیں۔ جو لوگ معنویت کے آسمانوں میں سیر کررہے ہوتے ہیں وہ ہمیشہ امامؑ کے حضور میں ہیں۔

۵۔  بادلوں کی اوٹ میں موجود سورج سے استفادے کے باوجود لوگ بادلوں کے ہٹنے کے منتظر رہتے ہیں تاکہ استفادہ اور بڑھ جائے۔ انہیں علم ہے ان بادلوں نے بالآخر ہٹ جانا ہے۔  اسی طرح حقیقی منتظرین ہر لحظہ پردۂ غیبت کے ہٹنے کے منتظر رہتے ہیں اور کبھی مایوس نہیں ہوتے۔

۶۔ تمام تر دلیلوں کے باوجود اگر کوئی امام مہدیؑ کے وجود کا منکر ہو تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے تمام تر آثار کے باوجود کوئی پشتِ بادل موجود سورج کا منکر ہو۔

۷۔  بعض اوقات سورج کا پشتِ ابر چلے جانا لوگوں کی منفعت میں ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض مصلحتوں کی بنا پر ایک مدت تک امام کا پردۂ غیب میں رہنا لوگوں کے فائدے میں ہے۔

۸۔ امام کا وجود سورج کی مانند ہے جس کا نفع ہر عام و خاص تک پہنچتا ہے۔ سورج بادلوں کے پیچھے ہو یا بادلوں کے بغیر جو “اندھا” ہو اس کے لیے سورج کی روشنی کسی کام کی نہیں۔

استفادہ از کتاب

بحار الانور، علامہ مجلسی، جلد 52

عصارہ خلقت، علامہ جوادی آملی