امام مہدی علیہ السلام اور لمبی عمر
تحریر: عباس حسینی
شیعہ عقائد کے مطابق امام مہدی علیہ السلام کی ولادت 255 ہجری میں ہو چکی ہے۔ اس وقت 1441 ہجری کا سال چل رہا ہے۔ اس لحاظ سے امام مہدی علیہ السلام کی عمرمبارک 1186 سال ہے۔ عام طور پر سوال کیا جاتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے ایک انسان اتنی لمبی عمر جی لے؟ دنیا میں جو اس وقت رائج ہے اس لحاظ سے زیادہ سے زیادہ ایک انسان سو سال یا اس سے کچھ زیادہ زندہ رہ سکتا ہے۔ اتنی لمبی مدت تک کے لیے کوئی کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟
اس سوال کے مختلف جوابات دئیےجا سکتے ہیں جن میں سے بعض نقضی جواب ہوں گے جو مخاطب کو چپ کروانے کے لیے دئیے جاتے ہیں، جبکہ کچھ حلی جوابات ہوں گے جو مسئلے کو سرے سے حل کریں گے۔
۱۔ ابلیس جو بدی کا محور ہے اورشیطان کا نمائندہ ہے اگر ہزاروں سال سے زندہ ہے تو رحمان کے نمائندے کے زندہ رہنے پر اشکال کیوں؟
۲۔ حضرت عیسیؑ کے بارے میں تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ قرآن نےسورہ نساء کی آیات 157 تا 159 میں کہا کہ حضرت عیسیؑ کے قتل ہونے کی بات غلط ہے۔ عیسائیوں کو اس حوالے سے غلط فہمی ہوئی ہے بلکہ اللہ تعالی نے انہیں اپنی طرف اٹھایا ہے۔] وَما قَتَلُوهُ وَما صَلَبُوهُ وَلكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ… وَ ما قَتَلُوهُ يَقِيناً بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَ كانَ اللَّهُ عَزِيزاً حَكِيماً[ (انہوں نے حضرت عیسیؑ کو قتل کیا نہ سولی چڑھایا بلکہ دوسرے شخص کو ان کی شبیہ بنا دیا گیا تھا۔۔۔ انہوں نے مسیح کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھایا ہے۔)حضرت عیسیؑ کی ولادت کو اس وقت 2020سال گزر چکے ہیں۔ اگر کسی مصلحت کے تحت عیسیؑ زندہ رہ سکتے ہیں تو آخری نؐبی کے وصی کے زندہ رہنے پر اشکال کیوں؟
۳۔ اسی طرح مسلمانوں کے مطابق حضرت خضرؑ بھی زندہ ہیں۔ کچھ روایات کےمطابق حضرت الیاسؑ بھی زندہ ہیں۔ حضرت ادریسؑ کے زندہ ہونے کے حوالے سے بھی اقوال موجود ہیں۔ ایسے میں صرف امام زمانؑ کی عمر مبارک پر اشکال کیوں؟
۴۔ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ بہت سارے انبیاء بہت لمبی عمر پاتے رہے ہیں۔ مختلف روایات کے مطابق حضرت آدمؑ نے 930 سال، حضرت ہودؑ نے 670 سال، حضرت ایوبؑ نے 226 سال، حضرت یعقوبؑ نے 170 جبکہ حضرت نوحؑ نے 2500 سال عمر پائی۔ بعض روایات کےمطابق آپ کو کشتی بنانے میں 200 سال لگے۔ حضرت نوح ؑکے بارے میں قرآن(سورہ) میں آیا ہے کہ آپ نے 950 سال اپنی قوم میں تبلیغ کی۔ ]وَلَقَدْ أَرْسَلْنا نُوحاً إِلى قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلاَّ خَمْسِينَ عاماً فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ[ (اور بتحقیق ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان کے درمیان پچاس سے کم ایک ہزار سال رہے۔ پھر طوفان نے انہیں گرفت میں لیا۔)آیت طوفان سے پہلے کی مدت 950 سال بتار ہی ہے۔ وہ بھی اس وقت سے جب آپ مبعوث بہ رسالت ہوئے۔ پس ان مثالوں کو دیکھتے ہوئے کسی نیک شخصیت کے لیے لمبی عمر پانا سنن الہٰی کے عینِ مطابق ہے۔
۵۔ ایک اور مثال اصحاب کہف کی ہے جن کے بارے میں قرآن میں ایک پوری سورت موجود ہے۔ قرآن کے مطابق وہ 309 سال تک زندہ رہے۔] وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِينَ وَازْدَادُوا تِسْعًا[وہ خدا جو اصحابِ کہف کو ایک خاص ہدف کے تک اتنی مدت تک زندہ رکھتاہے کسی مصلحت کے تحت امام مہدی علیہ السلام کو بھی زندہ رکھ سکتا ہے۔
6۔ یہ خدا کا ارادہ ہے کہ امام زمان علیہ السلام اتنی لمبی مدت تک زندہ رہیں اور جب تک خدا نے چاہا زندہ رہیں گے۔ خداکے “کن” اور ارادے کے سامنے کونسی چیز ٹھہر سکتی ہے؟ پس عمر امام زمان علیہ السلام پر اشکال در حقیقت خدا کے ارادے پر اشکال ہے۔ اللہ تعالی اپنا یہ ارادہ عام اور عادی طریقے سے بھی پوار کر سکتا ہے اور غیر عادی طریقے “خرقِ عادت” کے ذریعے بھی۔ علامہ طباطائی کے نزدیک یہ خرقِ عادت کے ذریعے ہے۔ خرقِ عادت کوئی محال کام نہیں ہوتا بلکہ عام اسباب سے ہٹ کر غیر معلوم اور غیر مرئی اسباب کے ذریعے خداوند متعال وہ کام انجام دیتا ہے۔ پس طولِ عمر کے مختلف عوامل و اسباب ہو سکتے ہیں جن سے انسان اب تک غافل اور بے خبر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس آج بھی طولِ عمر کو ناممکن اور محال نہیں قرار دیتی۔ (شیعہ در اسلام)
7۔ انسان کی عمر کا تعلق گردشِ لیل و نہار سے ہے۔ جب ہماری زمین سورج کے گرد ایک چکر مکمل کرتی ہے تو اسے ایک شمسی سال کہاجاتا ہے۔ یہ چکر 365 دنوں میں مکمل ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی ہستی “صاحب الزمان” ہو، زمان اس کے قبضہ قدرت میں ہو اور وہ زمان کا مالک ہو تب اس کے بارے میں طولِ عمر کا اشکال بے معنی سا لگتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ کسی انسان کا طولِ عمر پانا نہ عقلی اور منطقی طور پر محال ہے اور نہ علمی اور سائنسی طور پر۔ اس کے باوجود کوئی اس بات کا منکر ہو تب اسے اپنی دلیل پیش کرنی چاہیے۔