بیماریاں اور آفات و بلیات

دینی اعتقادات کو زیر سؤال لانے کی کوشش

(حالیہ کرونا وائرس کے تناظر میں دینی اعتقادات پر کیے جانے والے چند اشکالات کے مستدلّ جواب)

تحریر: سید حسن رضا نقوی

کرونا وائرس کے پھیلتے ہی سوشل میڈیا پر جو مختلف بحثیں شروع ہوئیں ان میں سے اہم ترین بحث دینی اعتقادات کے حوالے سے ہے بالخصوص سعودی عرب اور ایران میں مقدس مقامات کی عارضی بندش کے بعد بہت سے طبقات کی طرف سے دینی اعتقادات اور افکار کو زیر سؤال لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان سؤالوں کا جواب دینے سے پہلے اسلام کے کچھ مسلمہ اصول ذہن نشین رہنے چاہیں۔

اسلام کے مسلمہ اصول (Sure principles of Islam)

1-  اس جہاں کا ایک خالق ہے جس نے اسے خلق کیا اور وہی اس جہاں کے امور کو احسن طریقہ سے انجام دیتا ہے۔ لہذا ہم مادہ پرستی یا مادی گری (Materialism) پر یقین نہیں رکھتے کہ جس کے مطابق اس عالم میں ہونے والی ہر تبدیلی کو صرف مادی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

2- خدا اس جہاں کا واحد اور یکتا خالق ہے اور اس جہاں میں جو کچھ بھی ہے سب اسی کا خلق کیا ہوا ہے۔ لہذا ہم ثنویت اور دو خدائی (Dualism) کے نظریے کو بھی ردّ کرتے ہیں جن کے نزدیک نعمتوں اور اچھی چیزوں کو تو خدا (ان کے بقول یزدان) نے خلق کیا ہے لیکن بیماریاں آفات زلزلہ و سیلاب وغیرہ ایک دوسرے خدا (ان کے بقول اہرمن) کی مخلوق ہیں۔

3- جس طرح سے خدا کی ذات حسن و کمال کا منبع و سرچشمہ ہے اور اس کی ذات میں کسی قسم کا نقص عیب اور زوال نہیں پایا جاتا اسی طرح اس کی ہر صفت اور ہر فعل بھی حسن و کمال کا مصداق اور ہر عیب و نقص سے مبرا ہے۔

4- خدا قادر مطلق ہے ہر چیز اور ہر فعل پر قدرت رکھتا ہے خدا نے جس طرح بعض فرشتوں کو نظام کائنات کی تدبیر اذن الہی کے مطابق چلانے کی قدرت عطا کی ہے اپنے مقرب ترین بندوں (انبیاء اور ائمہ.) کو بھی ایسی قدرت دے رکھی ہے کہ وہ اس جہاں میں ہر طرح کی تبدیلی انجام دے سکتے ہیں البتہ خدا اور اس کے نمائندوں کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔

5- خدا نے اس جہاں کو اسباب اور مسببات (علت و معلول)(The cause and effect system) کے نظام  کے تحت خلق کیا ہے یعنی اس جہاں میں پیش آنے والے ہر حادثے اور پیدا ہونے والی ہر تبدیلی کے پیچھے ایک سبب اور علت موجود ہے۔ یہ نظام ایک وسیع نظام ہے جس میں اسباب مادی اور غیر مادی دونوں شامل ہیں اور اس نظام کا کامل علم عام انسانوں کو حاصل نہیں بلکہ وہ بعض مادی اسباب کا ہی علم رکھتے ہیں۔

6- اس جہاں کو خلق کرنے کا ہدف و مقصد مخلوقات کو ان کے کمال تک اور انسان کو اس کے کمال اختیاری تک پہنچانا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ انسان کو اس عالم مادہ میں بھیجا گیا تاکہ اپنے ارادہ و اختیار سے اس دار تزاحم کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے اپنے کمال اختیاری تک پہنچے۔

علمائے اسلام نے اپنی کتابوں میں ان مسلمہ اصولوں کو قرآن، سنت اور عقل کی روشنی میں بہترین انداز سے ثابت کیا ہے یہاں ان اصولوں کے لیے دلائل کا ذکر اختصار کے منافی ہے۔(1)

ہم چند سوالات کی صورت میں ممکنہ شبھات کو ذکر کریں گے اور ان کا جواب دیں گے۔

پہلا سؤال : کیا خدا ایسا جہاں نہیں بنا سکتا تھا جس میں کسی قسم کی آفت بیماری سیلاب طوفان زلزلہ وغیرہ وجود نہ رکھتے ہوں اگر ہاں تو پھر ہمارے جہاں مادی میں ایسی آفات کیوں پائی جاتی ہیں؟

جواب : جی ہاں نہ صرف یہ کہ خدا ایک ایسا جہان بنا سکتا ہے جس میں کوئی اس طرح کا نقص و عیب نہ ہو بلکہ خدا نے ایسا جہان بنایا ہے اور وہ ہے مجردات اور فرشتوں کا جہان کہ جس میں اس طرح کا عیب و نقص وجود نہیں رکھتا پس خدا کی قدرت میں کوئی کمی نہیں۔

سؤال کے دوسرے حصے کا جواب یہ ہے کہ فرشتوں کے جہان اور انسانوں کے جہان میں ایک بنیادی فرق ہے جس کی وجہ سے ان کے جہان میں اس طرح کی آفات و بلیات نہیں پائی جاتیں لیکن ہمارے جہان میں وجود رکھتی ہیں۔ وہ فرق یہ ہے کہ خدا نے انسان کو عقل، غضب اور شہوت جیسی نعمتیں عطا فرمائی ہیں جن کی بدولت انسان اپنے اختیار کے ساتھ اتنی ترقی کرسکتا ہے کہ خلافت الہی کے منصب پر فائز ہوجائے اور فرشتوں کا مسجود ٹھہرے۔ انسان کی اس ترقی کے لیے آفات و بلیات، مصیبتوں اور آزمائشوں کا وجود ضروری ہے ورنہ وہ اس عالی و متعالی مقام تک نہیں پہنچ سکتا جہاں دوسری مخلوقات پہنچنے کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔ امام حسین ,مدینہ سے نکلتے وقت جب قبر پیامبر اکرمﷺ پر حاضر ہوتے ہیں تو رسول خداﷺاپنے نواسے کو یہ فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں: إن لك درجة عند الله لن تنالها إلا بالشهادة (حسین خدا کے ہاں تیرے لیے ایک مقام ہے جسے پانے کے لیے شہادت ضروری ہے)(2) لہذا انسان نے صراط مستقیم پر سفر کرتے ہوئے اپنے اختیار کے ساتھ قرب خدا کی منزل تک پہنچنا ہے جس کے لیے یہ مصیبتیں آزمائشیں اور بیماریاں ضروری ہیں جبکہ فرشتے ان آزمائشوں میں مبتلا نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ انسان کے حقیقی مقام تک کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ پس یہ آزمائشیں اور مصیبتیں خدا کی نعمت ہیں جن کے ذریعے خدا ہمیں ایسے کمال تک پہنچانا چاہتا ہے جہاں دوسری مخلوقات یہاں تک کہ فرشتے بھی نہیں پہنچ سکتے۔ اس کی سادہ مثال مریض بچے کے لیے انجکشن یا کڑوی دوا ہے۔ بچہ اس انجکشن یا کڑوی دوا کو اپنے لیے عذاب اور ڈاکٹر کو ظالم سمجھتا ہے لیکن در حقیقت یہ چیزیں اس کے کمال اور ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہیں اور ڈاکٹر اس کے ساتھ نیکی اور احسان کے سوا کچھ نہیں کررہا لیکن بچہ یہ سب سمجھنے سے قاصر ہے۔

عالم مادہ کو اگر اس نگاہ سے دیکھا جائے تو واضح ہوگا کہ یہ عالم ناقص نہیں کامل ہے اور اس کا کمال اس کی اسی صورت میں ہے۔

دوسرا سؤال : آپ کہتے ہیں کہ خدا اس کی صفات اور اس کے افعال سب کمال اور حسن کا مصداق ہیں تو پھر ان آفات و بلیات کا خالق موجد اور فاعل کون ہے ؟

 

جواب : اسلامی فلسفہ دانوں نے اس کے دو طرح کے جواب دیے ہیں:

اکثر فلسفہ دانوں کے مطابق یہ آفات و بلیات جو شرور کا مصداق ہیں امور عدمی ہیں اور وجود نہیں رکھتیں۔  پس انہیں کسی خالق اور موجد کی ضرورت نہیں کیونکہ خالق کی ضرورت اس شیء کو ہوتی ہے جو خود موجود ہو۔  یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ آفات وجود نہیں رکھتیں تو جو کچھ ہمیں نظر آرہا ہے یہ کیا ہے؟ فلاسفہ اس کا جواب یوں دیتے ہیں کہ ہم عدم خیر کو شر کا نام دیتے ہیں یعنی ہم عدم صحت کو بیماری کا نام دیتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں صحت وجود رکھتی ہے اور جب وہ صحت معدوم ہوجائے تو ہم اس حالت کو بیماری کا نام دیتے ہیں۔

علم کلام کے اکثر علماء اور بعض اسلامی فلاسفہ اس چیز کے قائل ہیں کہ یہ آفات و بلیات اگرچے وجود رکھتی ہیں لیکن یہ خدا کا بالذات اور اصلی مقصود نہیں ہیں بلکہ خدا کا مقصود اصلی انسان کا کمال ہے اور مقصود بالتبع یا بالعرض آفات و بلیات کا وجود ہے ۔بالکل اسی طرح جیسے ڈاکٹر کا اصلی مقصود مریض کی صحت ہے لیکن ثانوی مقصود مریض کو انجکشن لگانا یا آپریشن کی صورت میں اس کے جسم کا کاٹنا ہے۔  پس اس نظریے کے مطابق خدا کا ہر فعل حسن اور خیر ہے لیکن وہ اس حسن اور خیر تک پہنچنے کے لیے آفات و بلیات کو خلق کرتا ہے لیکن چونکہ آفات و بلیات کی خلقت سے بھی مدنظر کمال ہے لہذا یہ بھی فعل حسن ہے۔

یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ظاہرا ان دونوں آراء کے قائل مفکرین اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ شر ایک امر نسبی ہے یعنی ہر وہ حادثہ یا واقعہ جو ایک جہت سے شر ہے وہ کسی دوسری جہت سے یا چند دوسری جہات سے خیر ہے پس اس عالم مادہ (Material world) میں کوئی ایسی چیز نہیں پائی جاتی جو ہر جہت سے یا اکثر جہات سے شر ہو بلکہ یا تو اکثر جہات سے خیر ہے یا ایک جہت سے شر اور دوسری جہت سے خیر۔

ایک اور بات جس کی طرف توجہ نہایت ضروری ہے وہ یہ کہ تزاحم اور ٹکراؤ کی کیفیت یا حوادث کا وقوع عالم مادہ کا ذاتی لازمہ ہے۔ لہذا اگر کوئی یہ چاہے کہ عالم مادہ ہو لیکن حادثات نہ ہوں تو اسکی مثال اس شخص کی ہے جو چاہ رہا ہے دو کا عدد ہو لیکن جفت نہ ہو یا آگ ہو اور حرارت نہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں ہمارے پاس تین ممکنہ صورتیں ہیں خدا عالم مادہ کو خلق ہی نہ کرے ، خلق کرے لیکن ان تزاحمات اور حادثات کے بغیر خلق کرے ، خلق کرے اور اسی موجودہ صورت میں خلق کرے پہلی صورت میں خدا کے فیاض ہونے کے منافی ہے اور اس کا لازمہ خدا کے بخل کا اثبات ہے ، دوسری صورت عقلی طور پر محال ہے کیونکہ لازم ذاتی کی ملزوم سے جدائی ہے لہذا تیسری صورت ہی ممکن اور وقوع پذیر ہے۔اسے مثال سے سمجھنا ہو تو ہم ایک ایسے شخص کو فرض کرسکتے ہیں جو علم کا نور پھیلانے اور جھالت کے خاتمے کے لیے سکول بنانا چاہتا ہے لیکن اگر وہ سکول بنائے گا تو بہت سی جزئی مشکلات بھی پیش آئیں گی مثلا طالب علموں یا اساتذہ کا آپس میں حسد ، گھر سے سکول جانے کی مشقت ، والدین کے لیے فیس دینے کی مشقت ، بعض طالب علموں کے درمیان لڑائی جھگڑے کا امکان وغیرہ۔ لیکن وہ ان جزئی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے اس اہم اور مقدس ھدف سے دست بردار نہیں ہوسکتا۔

تیسرا سؤال : آفات و بلیات اور قدرتی حوادث کے پیچھے کیا علل و اسباب کارفرما ہیں؟

جواب : آفات و بلیات کا ایک کلی فلسفہ انسان کے لیے تزاحم کی کیفیت ایجاد کرنا ہے تاکہ اس کا امتحان لیا جاسکے اور وہ اس امتحان میں سرخرو ہوکر خدا کے قرب کی منزل تک پہنچ سکے. خداوند متعال قرآن میں فرماتا ہے : وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ‏ءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَ الْأَنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ  (اور ہم ضرور تمہیں کچھ خوف، بھوک، اموال جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو کہ جب انہیں مصیبت کا سامنا ہوتا ہے تو کہتے ہیں بیشک ہم خدا کے ہیں اور ہم نے خدا کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی طرف سے صلوات اور رحمت ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں)(3)

اس کے علاوہ کچھ اور حکمتیں بھی ان آفات و حوادث میں پوشیدہ ہوسکتی ہیں مثلا خدا اور موت کی یاد میں اضافہ ہونا، خدا کی قدرت اور انسان کی کمزوری پر یقین میں اضافہ، دنیا کی بے ثباتی اور دار آخرت کی طرف توجہ، انسانیت کی خدمت اور ایثار و قربانی کے مواقع فراہم ہونا، انسانی عقل اور مختلف علوم کی ترقی کا زمینہ فراہم ہونا وغیرہ۔

یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ تمام آفتیں اور مصیبتیں خدا کی آزمائش کا مصداق نہیں بلکہ بہت سے موارد میں آفتوں اور بلاؤں کا سبب خود انسان کے غلط افعال اور تصرفات ہوتے ہیں۔ مثلا اگر ایک شخص ڈرائیونگ میں احتیاط نہیں برتے گا تو ایک جان لیوا حادثے کا سبب بنے گا۔ اگر ہم گرمی یا سردی کی شدت کے مطابق لباس زیب تن نہیں کریں گے تو بیماری میں مبتلا ہوجائیں گے۔ اگر حکومت مناسب انتظامات نہیں کرے گی تو سیلاب وجود میں آئے گا وغیرہ۔

چوتھا سؤال : بیماریوں کا علاج ڈاکٹرز کی طرف رجوع میں ہے، ائمہ .سے توسل میں ہے یا خدا سے دعا میں؟

جواب: مکتب توحید کا دعوی ہے: لامؤثر في الوجود إلا الله (عالم وجود میں مؤثر حقیقی صرف خداوند متعال ہے)(4) یعنی مشیئت اور ارادہ خدا کے بغیر اس کائنات میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی۔ لہذا یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ بیمار کی شفایابی بھی خدا کی مشیئت اور ارادے کے مرہون منت ہے۔

اب سؤال یہ کہ کیا پھر ہم صرف خدا سے دعا مانگیں اور ائمہ سے توسل یا ڈاکٹر کی دوا کی کوئی ضرورت نہیں ؟

اس کے جواب میں ہم خدا کی سنت روش اور طریقہ کار کو امام صادق ,کی اس حدیث سے پیش کریں گے:  عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ أَنَّهُ قَالَ: أَبَى اَللَّهُ أَنْ يُجْرِيَ اَلْأَشْيَاءَ إِلاَّ بِأَسْبَابٍ فَجَعَلَ لِكُلِّ شَيْءٍ سَبَباً وَ جَعَلَ لِكُلِّ سَبَبٍ شَرْحاً وَ جَعَلَ لِكُلِّ شَرْحٍ عِلْماً وَ جَعَلَ لِكُلِّ عِلْمٍ بَاباً نَاطِقاً عَرَفَهُ مَنْ عَرَفَهُ وَ جَهِلَهُ مَنْ جَهِلَهُ ذَاكَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ نَحْنُ (خدا اپنے امور کو بغیر اسباب کے نہیں چلاتا خدا نے ہر چیز کے لیے سبب قرار دیا ہے اور ہر سبب کے لیے شرح قرار دی ہے اور ہر شرح کے لیے علم قرار دیا ہے اور ہر علم کے لیے باب ناطق قرار دیا ہے اور وہ رسول خداﷺ اور ہم اہل بیت. ہیں۔)(5)

پس خدا سے شفا مانگنے کا معنی یہ ہے کہ ہم نظام اسباب کی رعایت کرتے ہوئے اہل بیت سے توسل کریں۔

ایک اور حدیث میں امام صادق ,کچھ یوں فرماتے ہیں: عَنْ أبي عَبد اللّه الصَادق عليه‌ السّلام إنَّ نَبیّاً مِنَ الأنبیاءِ مَرِضَ، فقال: لا أَتَداوى حَتّى یکونَ الّذى أمْرَضَنِى هُو الذى یَشْفینى، فأوحى اللهُ تعالى إلیهِ: لا أشْفِیکَ حَتّى تَتَداوى، فإنَّ الشِّفاءَ مِنّى والدَّوَاء مِنّي (خدا کے انبیاء میں سے ایک نبی مریض ہوئے تو انہوں نے کہا میں دوا نہیں لوں گا مجھے وہی ٹھیک کرے گا جس نے مجھے مریض کیا ہے تو خدا نے وحی نازل کی کہ جب تک تم دوا نہیں لو گے میں شفا نہیں دوں گا شفا بھی میری ہے اور دوا بھی میری ہے)(6)

اسی طرح رسول گرامیﷺ اسلام کی حدیث مبارکہ ہے: تَداوُوا فإنَّ اللهَ تَعالى لَمْ یُنزِلْ داءً إلاّ وَقَدْ أنْزَلَ اللهُ لَهُ شِفاءً، إلاَّ السّامَ وَالْهَرَمَ . (دوا لو اور علاج کرواؤ بے شک خدا نے جو بیماری نازل کی ہے اس کی شفا بھی نازل کی ہے سوائے موت اور بڑہاپے کے)(7)

پس ان دو حدیثوں سے واضح ہے کہ خدا سے شفا مانگنے کا مطلب اس کے نظام اسباب کی رعایت کرتے ہوئے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا اور علاج کروانا ہے۔

البتہ ائمہ .سے توسل اور ڈاکٹرز کی طرف رجوع کرتے ہوئے یہ بات ہمیشہ مدنظر رہنی چاہیے کہ حقیقی شفا دینا خدا کا کام اور خدا ہی ہے جو ائمہ .کی دعا یا ڈاکٹر کی دوا میں شفا عطا فرماتا ہے۔ قرآن کریم حضرت ابراہیم .کا جملہ یوں نقل کرتا ہے:  وَإِذا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ. (اور جب میں مریض ہوتا ہوں تو وہی خدا مجھے شفا عطا کرتا ہے۔)(8)

پانچواں سوال : بیماری سے شفا ائمہ. سے توسل کے ذریعے حاصل کریں یا ڈاکٹر کی دوا کے ذریعے؟

جواب : بعض موارد میں ایک شخص ڈاکٹر سے دوا نہیں لیتا لیکن ایک حجت خدا سے شفا لے لیتا ہے۔ جیسے حضرت عیسی ,کا مریضوں کو شفا دینا یا ائمہ اہل بیت .کے حرموں سے بیماروں کو شفا ملنا، اس کے برعکس بعض اوقات ایک شخص خدا یا کسی مقدس ہستی سے کوئی دعا نہیں کرتا لیکن ڈاکٹر کی دوا استعمال کرنے سے شفایاب ہوجاتا ہے ایسی صورت حال میں ہم کیا کریں؟

ان موارد میں غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خدا نے عالم طبیعت میں ہر بیماری کے لیے ایک دوا رکھی ہے جو اس بیماری سے شفا کا سبب طبیعی کہلائے گی۔

 اسی طرح اولیاء خدا بیماریوں سے شفایابی کے اسباب سے آگاہ ہیں اور اپنے علم و قدرت اور ولایت تکوینی سے بیمار کو شفایاب کرسکتے ہیں۔ اس سبب کو سبب غیر طبیعی کہا جاسکتا ہے۔

لیکن یہ دونوں اپنی اپنی جگہ سبب حتمی یا علت تامہ نہیں ہیں بلکہ انکی سببیت تب حتمی ہوتی ہے جب ارادہ خدا اس سبب کے متعلق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہر ترین ڈاکٹر سے دوا لینے کے بعد بھی شفایاب نہ ہونے کا احتمال باقی ہے۔  ہاں البتہ اگر معصوم کسی کو شفا دینے کا ارادہ کرلیں تو چونکہ انکا ارادہ خدا کے ارادے کے خلاف نہیں ہوسکتا لہذا شفا حتمی اور یقینی ہوگی۔

البتہ ایک نکتے کی طرف توجہ نہایت ضروری ہے اور وہ یہ کہ خدا اس دنیا کے امور کو عموما عادی اور طبیعی اسباب کے ذریعے چلاتا ہے اور انبیاء وائمہ .کی طرف سے معجزہ یا کرامت خاص موارد میں واقع ہوتے ہیں جہاں مصلحتِ خدا تقاضا کرے۔ مثلا جب مصلحتِ ہدایت، معجزے کا تقاضا کرے تو رسول خدا ﷺ کے دست مبارک پر پتھر کلمہ پڑھتے ہیں۔ لیکن جب مصلحت معجزہ کا تقاضا نہ کرے تو وہی پتھر طائف میں رسول خدا ﷺکو لہو لہان کردیتے ہیں۔ اسی طرح اگر مصلحت تقاضا کرے تو علی ابن طالب ,مردے کو زندہ بھی کرسکتے ہیں اور بیمار کو شفا بھی دے سکتے ہیں۔ لیکن اگر مصلحت اسباب غیر عادی کا تقاضا نہ کرے تو علی ,ضربت لگنے کے بعد بستر بیماری پر طبیب کو بلاتے ہیں اور اس کی بتائی ہوئی دوا استعمال کرتے ہیں۔

لہذا جب ہم کسی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں تو علاج معالجہ اور دوا کو چھوڑ کر صرف معجزہ یا کرامت کا انتظار نہیں کرسکتے کیونکہ ممکن ہے اس وقت مصلحت کا تقاضا معجزہ یا کرامت نہ ہو اور خدا اورائمہ . کی طرف سے ہماری ذمہ داری اسباب عادی کے مطابق عمل کرنا ہو!

مقام عمل میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ خدا سے دعا،ائمہ . سے توسل اور ڈاکٹر کی دوا کے استعمال میں کوئی تعارض نہیں ہے بلکہ تینوں چیزیں قابل جمع ہیں۔ لہذا ایک مومن کی ذمہ داری خدا پر توکل،ائمہ .سے توسل اور اسباب عادی کی فراہمی ہے۔

چھٹا سؤال : اگرائمہ کے حرم سے شفا ملنا ایک غیر عادی سبب ہے اور اس کے لیے کسی خاص مصلحت کا وجود ضروری ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہاں سے شفا کا ملنا یقینی نہیں ہے بلکہ صرف ایک احتمال ہے ایسی صورت میں وہاں سے شفا مانگنے کا کیا فائدہ ؟

مختصر جواب  : ہم ایسا سؤال کرنے والے سے یہ سؤال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ کیا ڈاکٹر کی دوا یا علاج سے شفا ملنا یقینی ہوتا ہے ؟ کیا خدا سے دعا کرکے یقینی طور پر شفا لی جاسکتی ہے ؟ کیا خانہ کعبہ کی زیارت سے شفا کا حصول یقینی ہے ؟

تفصیلی جواب :ائمہ اہل بیت . کے حرم اور انکی زیارت کا فائدہ صرف جسمانی امراض کی شفایابی میں منحصر نہیں کہ ہم کسی ایک مورد میں شفا نہ ملنے پر زیارت کی اہمیت کو کم سمجھنے لگیں۔جس طرح خدا سے دعا کی جائے اور قبول نہ ہو تو اس قبول نہ ہونے میں ضرور کوئی مصلحت پوشیدہ ہے اسی طرح اہل بیت. کے حرم سے اگر شفا نہ مل رہی ہو تو اسی میں اس شخص کے لیے مصلحت ہے۔اس کے علاوہ اہل بیت. کی زیارت کا سب سے عظیم اور قیمتی فائدہ خدا کا قرب اور انسانی کمال کا حصول ہے۔حرم اہل بیت. میں گزرا ایک ایک لمحہ انسان کے لیے نیکیوں میں اضافے اور گناہوں کی مغفرت کا باعث بنتا ہے۔انسان کی روحانی امراض کو یہیں شفا ملتی ہے اور وہ یہاں سے اپنی ابدی زندگی کے لیے بہترین توشہ راہ کو حاصل کرتا ہے۔البتہ خدا کے خاص بندے ائمہ اہل بیت. کے حرموں میں صرف لین دین یا فائدہ کے حصول کے لیے نہیں آتے بلکہ ان کے قلوب میں موجود محبت اہل بیت. کی تپش انہیں حرم کا پروانہ بنا کر رکھتی ہے۔

ساتواں سؤال : بیماری وبا اور آفات میں علمائے دین بھی میڈیکل سائنس کے محتاج ہیں لہذا اسلام میڈیکل سائنس کے مقابلے میں شکست کھا گیا ؟

جواب: اس سؤال کے پیچھے ایک سادہ فکر کار فرما ہے جس کے مطابق اسلام اور سائنس دو مد مقابل چیزیں ہیں لیکن اس فکر کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔ آیت اللہ جوادی آملی علوم اسلامی کے حوالے سے نظر دیتے ہوئے فرماتے ہیں (کہ تمام علوم علوم اسلامی ہیں چاہے وہ مروجہ دینی علوم ہوں علوم انسانی ہوں یا سائنسی اور تجرباتی علوم کیونکہ یہ سارے علوم یا قول خدا سے بحث کررہے ہیں یا فعل خدا سے۔)(9)

دینی علوم عالم تشریعی سے بحث کرتے ہیں اور سائنسی علوم عالم تکوینی سے اور تشریع و تکوین دونوں کا خالق خدا ہے۔ لہذا ان دونوں میں کسی قسم کا تضاد نہیں اگرچے بعض اوقات انسان اپنے غلط فہم و استنباط کی وجہ سے تضاد کا قائل ہوجاتا ہے۔ اگر حوزوی اصطلاح میں عرض کروں تو دین اور سائنس میں تضاد عالم اثبات میں ہوسکتا ہے عالم ثبوت میں نہیں۔

سائنسی علوم کا کام اس عالم کی موجودات ان کے روابط اور ان روابط کی پیچیدگیوں کو کشف کرنا ہے اور اسلام اس تفکر و تدبر پر بارہا زور دیتا نظر آتا ہے۔

اسی میڈیکل سائنس کا کام انسانی جسم کو بیماریوں سے بچا کر سالم رکھنا ہے کہ جو اسلام کی نظر میں ایک انتہائی اہم وظیفہ ہے۔

اس میں شک نہیں کہ عالم دین اپنے جسم کی سلامتی کے لیے طبیب کا محتاج ہے اور یہ کوئی عیب نہیں بلکہ تقسیم کار اجتماعی زندگی کا لازمہ ہے۔ ہم میں سے ہر شخص ایک جہت میں درزی ایک جہت میں حجام ایک جہت میں انجینئر اور ایک جہت میں ڈاکٹر کے محتاج ہیں، لیکن سب سے اہم اور مقدس جہت وہ جہت ہے جس میں غیر عالم عالم دین کا محتاج ہے اور وہ جہت ہے اپنے دین کی، اپنی روح کی اور اپنی سعادت دنیوی اور اخروی کی حفاظت کی جہت۔

آٹھواں سؤال : کیا کرونا وائرس سے بچنے کے لیے خانہ خدا کے طواف، اھل بیت کے حرم کی زیارت، نماز جماعت اور مجالس عزا میں شرکت سے اجتناب کریں؟

جواب : قرآنی آیات اور ائمہ اہل بیت . کی روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اپنی اور دوسروں کی جان بچانا واجب ہے۔ دوسری طرف شریعت میں عمرہ، زیارت، نماز جماعت اور مجلس عزا کا اجتماع مستحب ہے (محبت اور ولایت اہل بیت . اہم ترین واجبات میں سے ہے لیکن اس محبت کا اظہار زیارت یا مجلس عزا میں شرکت کی صورت میں مستحب ہے۔) اگر ہمیں یقین ہو کہ دینی اجتماعات میں شرکت سے یہ بیماری مزید پھیلے گی اور ہماری اور دوسرے مومنین کی جان کے لیے خطرناک ثابت ہوگی تو واجب کی تحصیل کے لیے مستحب کو چھوڑنا ضروری ہوجائے گا۔ البتہ اگر ہمیں یقین ہو کہ حفظانِ صحت کے اصولوں کا خیال رکھتے ہوئے یہ اجتماعات منعقد کیے جا سکتے ہیں تو کوئی حرج نہیں اور اس مسئلہ میں ماہرین کی رائے پر عمل ہی ہمارا شرعی وظیفہ ہے۔

ایک قابل توجہ بات یہ ہے کہ ماہرین کے رائے کے مطابق صرف چند دن دینی اجتماعات سے پرہیز ضروری ہے تاکہ وائرس کا چین ٹوٹ سکے اس کے بعد عمرہ و زیارت و مسجد و مجلس ہر عبادت کی جاسکے گی۔ دوسری بات یہ کہ ائمہ .سے توسل، ان کا ذکر اور ان کا فیض کبھی نہیں رک سکتا۔ لہذا ہم اپنے گھر کے افراد گھروں میں بیٹھ کر مجلس بھی برپا کرسکتے ہیں، توسل بھی کرسکتے ہیں اور اہل بیت .کے فیض سے بہرہ مند بھی ہوسکتے ہیں۔

منابع

 

1- اس مقالہ میں ذکر کیے گئے اکثر مطالب کو درج ذیل کتابوں میں تفصیلی بیان اور دلائل کے ساتھ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

آموزش عقائد (آیت اللہ مصباح یزدی)

خدا شناسی (سلسلہ معارف قرآن) (آیت اللہ مصباح یزدی)

الھیات (آیت اللہ جعفر سبحانی)

توحید در قرآن (آیت اللہ جوادی آملی

بدایة المعارف (آیت اللہ محسن خرازی)

2- مدینة معاجز الأئمة الإثنی عشر و دلائل الحجج علی البشر / جلد 3 / صفحه 486

3- سورة البقرة / آيت 157,156,155

4- قاعدہ فلسفی جو خدا کی توحید افعالی کو بیان کرتا ہے۔

5- اصول کافی / جلد 1 / کتاب الحجۃ / باب معرفۃ الامام والردّ الیہ / حدیث 7

6- مکارم الاخلاق (علامہ طبرسی) / جلد 1 / صفحہ 362

7- میزان الحکمۃ (آقای ری شھری) / جلد 4 / صفحہ 166

8- سورة الشعراء / آیت 80

9- آیت اللہ جوادی آملی / گفتگو / 29 آبان 1392 ھجری شمسی