امامِ غائب کی برکات

تحریر: عباس حسینی

ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ اس امام کا کیا فائدہ جو غائب ہیں؟ جو ہماری دسترس میں نہیں؟ جن سے ہم میل ملاقات نہیں کر سکتے؟جن سے ہم سوال اور مسائل نہیں پوچھ سکتے؟

امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کے اسباب پر اگر ہم غور کریں تو اس سوال کا جواب خود بخود واضح ہوگا۔ امام کی غیبت ہماری وجہ سے ہے۔ در حقیقت امام غیب میں نہیں ہم غیب میں ہیں۔ جن میں لیاقت اور استعداد ہے وہ امام سے ملاقات بھی کرتے ہیں اور ان کی فیوضات سے شرفیاب بھی ہوتے ہیں۔امام پردے میں نہیں، ہم پردے میں ہیں۔ بقول کسی شاعر کے:

پردہ آنکھوں پر پڑا ہے، وہ کہاں پردے میں ہیں؟!

البتہ عام لوگوں کی نسبت بھی امام کا وجود سراسر فیض، برکت، عطا، بخشش اور فائدہ مند ہے۔

یہاں ہم اس مختصر تحریر میں  امام کے وجود کےصرف  چند فوائد کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ (تفصیلات کے لیے کتابوں کی طرف مراجعہ کیجیے۔)

۱۔ بہت ساری روایات کے مطابق ہر دور میں خدا کی کسی حجت کا زمین پر ہونا ضروری ہے۔ امام فیضِ الہی کے مخلوقات تک پہنچنے کے لیے واسطہ ہوتے ہیں۔ اسی حجتِ خدا کی برکت سے زمین سے سبزہ اگتا ہے، بارانِ رحمت کا نزول ہوتا ہے، چشمے جاری ہوتے ہیں، نہریں بہتی ہیں۔(بِنَا يُنَزِّلُ اَلْغَيْثَ وَتُنْشَرُ اَلرَّحْمَةُ وَتَخْرُجُ بَرَكَاتُ اَلْأَرْضِ) لہذا کہا گیا اگر حجتِ خدا نہ ہوتو ساری زمین اپنے باسیوںسمیت برباد ہوجائے گی۔(لو بقيت الأرض بغير إمام لساخت)

۲۔ معنوی ہدایت: ظاہری ہدایت کے علاوہ باطنی اعمال کے ذریعے ہدایت (تکوینی ہدایت)بھی معصوم کا کام ہے۔ امام باطنی ہدایت کے ذریعے لوگوں کو خدا کی طرف بلاتے اور اس ذات باری کے قریب کرتے ہیں۔ قرآن کی تعبیر میں “وَجَعَلْنَاهُمْ اءَئِمَّةً یَهْدُونَ بِأمْرِنَا” امام کا کام امرِ خدا کے ذریعے لوگوں کی ہدایت ہے۔باطنی ہدایت  کا تعلق عالم امر اور ملکوت سے ہے۔ امام اپنی نورانیت اور باطنی تصرف کے ذریعے شائستہ افراد کو خدا کے قریب جانے میں مدد فرماتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مشہور مستشرق ہانری کربن نے کہا: تشیع دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے خدا اور مخلوق کے درمیان ہدایت کے وسیلے کو ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھا ہوا ہے۔تشیع کے مطابق ولایت کا سلسلہ اب بھی باقی ہے جس کا تعلق لوگوں کی معنوی ہدایت سےہے۔امام صادق ؑ نے اسی مطلب کی طرف اشارہ فرمایا: (مَا زَالَتِ اَلْأَرْضُ إِلاَّ وَ لِلَّهِ فِيهَا اَلْحُجَّةُ يُعَرِّفُ اَلْحَلاَلَ وَ اَلْحَرَامَ وَ يَدْعُو اَلنَّاسَ إِلَى سَبِيلِ اَللَّهِ .) جب تک زمین ہے اس میں اللہ کی طرف سے حجت بھی ضرور ہوگی جو لوگوں کو حلال اور حرام کے بارے بتائے گی اور لوگوں کو خدا کے راستے کی طرف دعوت دے گی۔

۳۔ دینِ خدا کی حفاظت: امیر المؤمنین ؑ کی حدیث(لا تخلو الارض من قائم لله بحجّة، إمّا ظاهراً مشهوراً، وإمّا خائفاً مغموراً، لئلاّ تبطل حجج الله وبيّناته) کے مطابق زمین کسی بھی وقت حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی چاہے وہ حجت ظاہر ہو  چاہے مخفی، تاکہ دین ضائع ہونے سے اور تحریف سے بچ جائے۔ امام زمانؑ پردہ غیب سے دین کے امور کی سرپرستی فرما رہے ہوتے ہیں۔ آپ جہاں مناسب سمجھیں اپنے لطف کےذریعے فقہاء اور علماء کو درست راستے کی نشاندہی فرماتے  ہیں۔ اس حوالے سے شیخ مفید کا واقعہ مشہور ہے جہاں آپ نے ایک مسئلے میں غلط فتوی صادر کیا اور امام زمانؑ نے ان کے فتوی کی اصلاح کی۔ اسی طرح بہت سارے عرفاء کے واقعات ملتے ہیں جہاں وہ مختلف شکلوں میں اپنی مشکلات امام کی بارگاہ سے حل کرتے تھے۔اسی لیے امام صادقؑ نے فرمایا: (إِنَّ اَلْأَرْضَ لاَ تَخْلُو إِلاَّ وَ فِيهَا إِمَامٌ كَيْمَا إِنْ زَادَ اَلْمُؤْمِنُونَ شَيْئاً رَدَّهُمْ وَ إِنْ نَقَصُوا شَيْئاً أَتَمَّهُ لَهُمْ) زمین امام سے خالی نہیں رہے گی۔ اگر مومنین (دین میں) کچھ اضافہ کریں تو امام اسے کم کرتے ہیں، اگر کم کریں تو امام اسے پورا کرتے ہیں۔

۴۔ امام کا وجود امید کی کرن: ایک ایسے امام کا وجود جن کے بارے میں یہ عقیدہ ہو کہ انہوں نے دنیا سے ظلم و ستم کا خاتمہ کرنا ہے اور عدل و انصاف قائم کرتے ہوئے دنیا بھر کے مظلومین اور مستضعفین کے حقوق کا دفاع کرنا ہے تمام انسانیت کے لیے امید کا باعث ہے۔ ایسی صورت حال میں دنیا بھر کے مظالم دیکھتے ہوئے بھی انسان کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتا۔ بشریت کے روشن مستقبل کی امید اسے ہمیشہ طاقت بخشتی ہے۔

۵۔ زمانہ غیبت میں امام عصرؑ سے استفادے کی کیفیت کے حوالے سے جب امام صادقؑ سے پوچھا گیا تو آپؑ نے یوں جواب دیا: (كما ينتفعون بالشمس إذا سترها السحاب) زمانہ غیبت میں امام سے لوگ ایسے فائدہ اٹھائیں گے جیسے بادلوں کی اوٹ میں موجود سورج سے لوگ استفادہ کرتے ہیں۔ امامؑ کے پردۂ غیب میں جانے کے اسباب پر بحث ایک الگ موضوع ہے، البتہ اس کی وجہ سے آپ کے وجود کے فائدے کم ضرور ہوئے ہیں، لیکن ختم ہرگز نہیں ہوئے، جیسے بادلوں کی اوٹ میں موجود سورج۔