زرد بچھو

شہید  علی چیت سازیان جو اپنی ذہانت، جرأت، جسمانی توانائی، زرد بالوں اور نیلی آنکھوں کی وجہ سے دشمن عراقی فوج میں ’’زرد بچھو‘‘ کے نام سے مشہور تھے، ۱۳ رجب 138۱ھ  بمطابق 21 دسمبر  1961؁کو ہمدان کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ۱۳ رجب کو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی ولادت باسعادت کا دن ہے اسی مناسبت سے ان کا نام علی رکھا گیا۔

مذکورہ صفات بچپن ہی سے ان کا خاصہ تھیں۔  جنگی فنون سے عشق رکھتے تھے اور کافی محنتی اور جوشیلے تھے۔بچپن غربت میں گزرا جس کی وجہ سے برف کے ایک کارخانے میں کام بھی کرتے رہے۔

جس وقت انہوں نے دیباج ٹیکنیکل کالج میں داخلہ لیا اس وقت ایران میں اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہو چکا تھا۔  دوسرے لاکھوں ایرانیوں کی طرح انہوں نے بھی اس انقلاب کی کامیابی اور اس کی بقاء کے لیے بہت زیادہ کوششیں انجام دیں۔

ایران عراق کے مابین ہونے والی آٹھ سالہ جنگ جسے ایران میں دفاع مقدس یا جنگ تحمیلی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، کے زمانے میں جب امام خمینیؒ نے فرمان جاری کیا کہ ایران کے عوام سے دو کروڑ کی رضاکار فوج تیار ہونی چاہیے تو اس فرمان کے بعد شہید علی چیت سازیان اپنے ٹیکنیکل کالج کے ذریعے اس رضاکار فوج میں بھرتی ہو گئے۔  اس رضا کار فوج کو بسیج کہا جاتا ہے۔

جنگی فنون سیکھنے میں ان کی ذہانت و لیاقت اس قدر زیادہ تھی کہ تھوڑے ہی عرصے میں فوج کے ایک تربیتی شعبے کے سربراہ مقرر دیے گئے۔ جن فوجیوں کی تربیت شہید علی چیت سازیان نے کی ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

دفاع مقدس کے دوران وہ محاذ پر چلے گئے اور انصار الحسین ڈویژن کی تشکیل کی۔ بعد میں اس کے سربراہ بھی مقرر ہوئے۔

صدام نے علی چیت سازیان کے سر کی بھاری قیمت مقرر کر رکھی تھی اور عراقی افسران ان سے اس قدر وحشت زدہ تھے کہ ان کا نام ہی ’’زرد بچھو‘‘ رکھ چھوڑا تھا۔

آپریشن مسلم بن عقیل میں جب ان کی عمر فقط 17 سال تھی، ان کی شجاعت و شہامت کا وہ منظر سامنے آیا جب انہوں نے اکیلے ہی 140 عراقی فوجیوں کو عراقی سرزمین میں گھس کر قید کر لیا اور انہیں اپنی سرزمین میں لے آئے۔ اس واقعے کی تفصیل یہ ہے کہ ایک مہم کے دوران ان کے سارے ساتھی شہید ہو گئے اور وہ اکیلے رہ گئے۔واپس آ رہے تھے کہ ایک عراقی جتھے سے مڈبھیڑ ہو گئی۔  وہ بالکل نہیں گھبرائے اور سینہ تان کر کہا: ’’میں علی چیت سازیان ہوں، زرد بچھو۔ اگر تم مجھ سے جنگ کرنا چاہتے ہو تو میں آخری گولی تک تمہارا مقابلہ کروں گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تم سارے میرے سامنے سرِ تسلیم خم کر لو اور اپنی جان بچاؤ۔‘‘ اپنے افسران کی زبان سے سن سن کر ان عراقی فوجیوں کے دلوں پر علی چیت سازیان کی جو وحشت طاری تھی، اس نے انہیں اس 17 سالہ اکیلے نوجوان کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔  یوں قیدیوں کا یہ گروہ ایرانی سرزمین کی طرف چل پڑا اور علی چیت سازیان کی بہادری کی ایک مثال بن کر رہ گیا۔

جنگ کے دوران انہوں نے آپریشن والفجر۲، والفجر5 اور والفجر8 میں شرکت کی۔ اس عرصے میں وہ کئی بار شدید زخمی ہوئے مگر ہر بار صحت یابی کے بعد ایک نئے ولولے اور  جوش سے محاذ پر واپس آ گئے۔

آپریشن کربلا4 اور 5 میں بھی علی چیت سازیان انصار الحسین ڈویژن کے مرکزی کمانڈر کے طور پر شریک ہوئے اور اپنی جرأت و بہادری کی ایسی مثالیں قائم کیں جو تاریخ میں ہمیشہ باقی رہیں گی۔

جنگ کے دوران ان کی ذہانت اور قوت فیصلہ اس حد تک غیر معمولی تھی کہ انصار الحسین ڈویژن کے دوسرے افسران کو کہنا پڑا: ’’علی کی موجودگی میں ہماری بہت سی جنگی مشکلات حل ہو جاتی ہیں۔‘‘

بہادری اور ہوشیاری اس درجہ تھی کہ عراقی سرزمین میں گھس کر عراقی فوجیوں کی صف میں کھڑے ہو کر کھانا لے لیتے اور عراقی فوجیوں کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔

ان کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت جو انہیں دوسرے تمام کمانداروں اور افسران سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ کہ انہوں نے فوجیوں کی فقط جنگی تربیت ہی نہیں کی بلکہ اخلاقی تربیت کا فریضہ بھی سر انجام دیا۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جیل میں موجود عادی مجرموں کو بھی چند دنوں میں معاشرے کا متقی شخص بنا دیتےتھے۔  لگ بھگ ۹۰ افراد ایسے تھے جو علی چیت سازیان کی بدولت راہ راست پر آئے۔

مارچ 1986؁ میں انہوں نے محترمہ زہرا پناہی روا سے شادی کی۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام محمد علی رکھا گیا۔

وہ میدان جنگ میں اپنے مولا علی علیہ السلام کی پیروی کرتے ہوئے پوری شجاعت اور بے خوفی سے لڑتے تھے۔ شہادت کا شوق و ولولہ ان کے سینے میں ہر آن موجزن رہتا تھا۔ ان کی شہادت سے چند ماہ پہلے ان کے بھائی امیر علی کی شہادت ہوئی۔ سات سال تک مسلسل محاذ پر مصروف پیکار رہنے کے بعد بالآخر 25 نومبر 1987؁ کو وہ بھی شہادت کے عظیم درجے پر فائز ہو گئے۔

ان کا یہ مقولہ بہت زیادہ مشہور ہوا:

’’دشمن کی خاردار تاروں کو وہی عبور کر سکتا ہے جو اپنے نفس کی خاردار تاروں میں نہ پھنسا ہو۔‘‘

[مترجم]

 

 

تقریظ

رہبر معظم حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ایمد ظلہ العالی

یہ اس انسان کی، جہاد اور اخلاص سے بھرپور زندگی کی ولولہ انگیز داستان ہے جو عنفوانِ شباب ہی میں عظیم الٰہی انسانوں کے مقام تک جا پہنچا اور جس نے زمین پر بھی عزت پائی اور ملاء اعلیٰ میں بھی معتبر  ٹھہرا۔ اسے ڈھیروں مبارکباد۔

اس داستان کی راوی، جس نے اس انسان کی ہمراہی میں زندگی کا مختصر سا سفر طے کیا،  نے بھی اپنے معصومانہ پیرایہ اظہار میں اخلاص اور صدق و صفا کا بھر پور مظاہرہ کیا۔

اور اس کے ساتھ ساتھ اس داستان کی مصنفہ کے ہنرمند قلم اور دلچسپ اسلوب تحریر کا کمال بھی ہے کہ جس نے اس داستان میں جان ڈال دی۔

دونوں خواتین کو شاباش: راوی اور کتاب کی مصنفہ۔

10/01/2017ء

مقدمہ

تیس سال پہلے اس سامنے والے اپارٹمنٹ میں ، جس کی کھڑکی  دکھائی دے رہی ہے، وہ لوگ زندگی بسر کرتے تھے جو آج ہم نہیں ہیں۔ اس گھر میں علی آغا چیت سازیان  اپنے والد ناصر ،والدہ منصورہ بیگم ، بھائیوں آغا صادق اور امیر اور اکلوتی بہن مریم کے ساتھ رہتے تھے۔ علی آغا  اسی گھر سے محاذ پر رخصت ہوتے اور اسی گھر کے ایک کمرے میں انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ زندگی کے کچھ ایام گزارے۔ وہ علی آغا جن کی شجاعت و مردانگی اور عزم کی داستان آج بھی نہ صرف ہمارے  زمانے کے لوگوں کے لیے بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بھی دلچسپی اور جاذبیت سے خالی نہیں ہے۔ دو سال پہلے جب میں نے ارادہ کیا کہ ایک اور شہید کی بیوی سے ان کے گزرے ہوئے ماہ وسال کے واقعات سن کر احاطہ تحریر میں لاؤں تو کافی پریشان تھی اور کچھ سجھائی نہ دیتا تھا  کہ ان سب شہداء میں سے کس کا انتخاب کروں۔ چند ہفتے اسی کشمکش میں گزر گئے ، بالآخر خود شہداء کا دامن تھاما اور کہا کہ جس کے بارے میں لکھنا میرے نصیب میں ہے  وہ خود آگے آئے۔کچھ دن گزرے کہ تہران سے ایک دوست نے فون کیا اور کہا کہ ہمارے ایک ہم پیشہ دوست نے شہید چیت سازیان کی  زوجہ  سے کچھ گھنٹے انٹر ویو لیا ہے اور ان کے واقعات کو محفوظ کیا ہے ۔ کیا آپ آمادہ ہیں کہ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں حیرت  اور شک و تردد کی گنجائش نہ تھی ۔ شہید خود میرے پاس حاضر ہو چکے تھے۔ میں نے فورا حامی بھر لی ۔ دو تین دن بعد وہ آڈیو ریکارڈنگ میرے ہاتھ میں پہنچ چکی تھی جس میں محترمہ فرزانہ مردی نے محترمہ زہرا پناہی رواکے انٹرویوز محفوظ کیے تھے۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔

آمد و رفت شروع ہوئی اور تکمیلی انٹرویوز کا آغاز ہوگیا ۔ چند بار میں خود تہران گئی اور چند بار محترمہ پناہی ہمدان تشریف لائیں تاکہ جو واقعات ابھی تک ناگفتہ رہ گئے  تھے، بیان کیے جا سکیں۔

ایک دن ہم دونوں گلی میں کھڑی تھیں اور الوداعی کلمات تک پہنچیں تو محترمہ پناہی کہنے لگیں: ’’یادش بخیر! ہم نے اسی اپارٹمنٹ میں زندگی  کے ایام گزارے۔‘‘  اس کے بعد انہوں نے سامنے والے اپارٹمنٹ کی طرف اشارہ  کیا اور کہا : ’’بلاک  6 کی  چوتھی منزل پر منصورہ بیگم کا گھر تھا۔‘‘

اس دن میں مکمل بے یقینی کی  سی حالت میں اس بات کی طرف متوجہ ہوئی  کہ  وہ سفید کھڑکی جو ہمارے گھر کی کھڑکی سے درختوں کی شاخوں اور پتوں کے جھنڈ کے پیچھے صاف  صاف دکھائی دیتی ہے ، وہ شہید چیت سازیان کا گھر تھا اور وہ تمام واقعات  جو محترمہ پناہی نے  مجھے سنائے  اسی گھر میں وقوع پذیر ہوئے۔ یہ سنتے ہی مجھے ایک عجیب سا احساس ہوا جس کا سبب میں خود بھی نہیں جانتی۔ ایک ایسا ہمسایہ جسے میں نے کبھی نہ دیکھا۔ وہ اپارٹمنٹ جو ہمارے ہی اپارٹمنٹ   جیسا ہے۔

اس کے بعد سے ہمیشہ کے لیے اس ہمسائے اپارٹمنٹ  کی کھڑکی کا پردہ  ایک طرف کو سرکا ہوا رہنے لگا تاکہ درختوں کی شاخوں اور پتوں کے جھنڈ کے پار اسے دیکھ سکوں۔ رات کو اپنے کام والی  میز کو اس کھڑکی کے سامنے کھینچ لائی تاکہ  راتوں کو بیٹھ کر جب ان واقعات کو لکھوں تو اس کھڑکی کو دیکھتے ہوئے اپنے آپ کو اس فلیٹ کے اندر محسوس کرتی  رہوں۔ وہ فلیٹ جو ہوبہو ہمارے فلیٹ جیسا تھا ۔ بعض اوقات علی آغا کو اس کھڑکی کے پیچھے کھڑا دیکھتی  جو اپنے دوستوں    کے آنے کا انتظار کر رہے ہوتے اور بعض اوقات شب جمعہ کو فلیٹ کے دروازے کے سامنے نصب ایک بورڈ اور کھڑکی پر ایک پرچم لہراتا نظر آتا جس پر لکھا ہوتا  تھا : ’’انجمن راہ شہیدان۔‘‘

میں اور اس کھڑکی نے بہت ساری راتیں اور بہت سے دن اکٹھے گزارے۔ علی آغا اور ان کی بیوی نے ایک سال اور اٹھارہ ماہ زندگی کے جو لمحات ایک دوسرے کی ہم  نشینی میں بسر کیے، میں نے اور اس کھڑکی نے ان لمحات کے ساتھ زندگی گزاری۔ منصورہ بیگم ہماری ہمسایہ خاتون، زندگی کی عاشق اور اپنے بچوں پر جان چھڑکتی تھیں۔ گھرداری اور باغبانی سے انہیں عشق تھا ۔

تو میں ان بڑھتے ہوئے  پھولوں کو آسانی سے دیکھ سکتی تھی جو اس فلیٹ کے درودیوار  اور کھڑکیوں  پر اوپر تک چلے گئے تھے اور جنہوں نے منصورہ بیگم کے مہربان ہاتھوں پرورش پائی تھی۔اس فلیٹ نے اپنے آپ میں کتنے خوشگوار اور ناخوشگوار  لمحات کا مشاہدہ کیا تھا۔اس خاندان کے افراد کی شہادت اور موت ،ایک کے بعد ایک  اس کے بعد ایک اور ۔۔۔ اس گلی نے کیسے غمناک اور سخت دن گزارے تھے ، اس گھر کے پیاروں سے الوداع کے دن ۔۔۔!

غم سے بوجھل کتنی ہی راتوں میں اس گھر کا چراغ صبح تک ٹمٹماتا  رہا ۔ بے حد تلخ اور طولانی راتیں۔۔۔!

اب پھر اس  فلیٹ اور اس کے ہمسائے میں واقع فلیٹ کی روشنیاں صبح کے نزدیک ہونے تک جاگتی رہیں گی۔

بہناز ضرابی زادہ

خزاں  2015؁

ہمدان

پہلا باب

میرے واقعات کی فلم چلتی ہے

ہم بو علی ہسپتال کے سامنے سے گزر رہے تھے کہ میں نے کہا: ’’ علی آغا! چند ماہ بعد اسی ہسپتال میں ہمارے بچے کی ولادت  ہو گی۔‘‘

تعجب  سے پوچھنے لگے: ’’یہاں؟!‘‘

میں نے کہا: ’’بالکل ، آخر یہ ہمدان کا خصوصی اور بہترین ہسپتال ہے۔‘‘

علی آغا نے گاڑی کی رفتار کم کر دی اور کہنے لگے: ’’نہیں ہم اس ہسپتال میں جائیں گے جہاں مستضعفین جاتے ہیں۔ یہ جگہ تو امیر لوگوں کے لئے ہے ۔ ہر کوئی یہاں آنے کی سکت نہیں رکھتا۔‘‘

میں حمل کے آٹھویں مہینے میں تھی اور میری حالت بالکل بھی اچھی نہ تھی۔ 31 دسمبر 1987؁جمعرات کی سہ پہر کا وقت تھا ۔ وقت بے وقت درد مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔علی آغا کی وصیت میں نے سب کو سنا دی تھی۔ ان دنوں میری ساس کا گھر مہمانوں سے بھرا پڑا تھا اور ہمارے آس پاس بہت ہجوم تھا۔ میری والدہ بھی وہیں پر موجود تھیں۔ جب میں نے اپنی بگڑتی ہوئی حالت کا بتایا تو انہوں نے گاڑی لی اور ہم لوگ فاطمیہ ہسپتال جو سرکاری تھا، کی طرف چل پڑے ۔ ہم جیسے ہی ہسپتال میں داخل ہوئے تو جنگل میں آگ کی طرح یہ خبر پھیل گئی کہ چیت سازیان کا فرزند دنیا میں آنے والا ہے۔‘‘

ہسپتال کے ملازمین کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور میرے ارد گرد ڈاکٹروں اور نرسوں کا ہجوم لگ گیا۔خبر بہت جلد پورے شہر میں پھیل گئی ۔ لوگ ہسپتال میں فون کر رہے تھے اور میری احوال پرسی کر رہے تھے۔ میری والدہ جو اس تمام وقت میرے سرہانے بیٹھی تھیں ، بعض اوقات مجبور ہو جاتیں کہ اٹھ کر جائیں اور ٹیلی فون پر جواب دیں۔ اگرچہ ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ ابھی تک زچگی آثار نمودار نہیں ہوئے ، لیکن ہسپتال کے ایم ایس نے حکم دیا تھا کہ مجھے ہسپتال میں داخل کر دیا جائے۔

اس رات تو مجھے درد نہ ہوا البتہ اگلے روز درد شروع ہو گیا۔ اس بار بھی کچھ ڈاکٹروں اور نرسوں نے میرے گرد حلقہ باندھ لیا۔ لیکن چند گھنٹے گزرنے کے بعد انہوں نے پھر وہی بات دہرائی: ’’کچھ بھی نہیں۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں  ہے۔ اتنی جلدی زچکی کی علامتیں ظاہر نہیں ہوا کرتیں۔‘‘  میں نے اصرار کیا کہ مجھے گھر جانے کی اجازت دی جائے مگر انہوں نے نہ جانے دیا ۔ چند گھنٹے گزرے کہ میری حالت پھر بگڑنے لگی اور درد نے مجھے بے  حال کر دیا۔ میری ماں پریشان ہوگئیں۔ یہ درد کئی بار اٹھا ۔ ہر بار کچھ نرسیں میرے گرد کھڑی ہو جاتیں اور معائنہ کرنے کے بعد سر کو ہلا تیں اور مایوسی کی حالت میں اسی پرانی بات کا تکرار کرتیں۔

یکم جنوری 1988؁ جمعہ کی سہ پہر اور نئے عیسوی سال کی رات تھی۔ مجھے  طویل اور ہلاکت خیز درد اٹھنا شروع ہوئے۔ نہیں معلوم ، میں کیوں ڈر رہی تھی اور باقی سب لوگوں کے سامنے شرم محسوس کر رہی تھی۔ میں سوچنے لگی، خدا نہ کرے کوئی مشکل پیش آ جائے، خدا نہ کرے کہ میں بچے کو جنم نہ دے سکوں۔

میرا دل تنگ اور اداس تھا۔ ابھی تک  علی آغا کی جدائی کےغم سے  نکل نہ پائی تھی ۔ ان کا داغ سب کے لئے بالخصوص میرے لئے تازہ تھا۔ وہ سہ پہر غم سے بوجھل سہ پہر تھی ۔ میں اپنے آپ میں آہستہ آہستہ گریہ کر رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ علی آغا سے محو گفتگو تھی۔  ان سینتیس (37) دنوں میں میری عادت بن چکی تھی کہ جب بھی درد سے بے حال ہوتی تو علی آغا کو آواز  دیتی اور اپنے آپ سے کہتی: ’’علی جان ! میری مدد کریں۔ ایسا نہ ہو کہ مجھے بچے کو جنم  دینے میں کوئی مشکل پیش آئے۔ ڈاکٹروں اور نرسوں سے مجھے شرم آتی ہے۔ لوگ آپ کے بچے کے دنیا میں آنے کے منتظر ہیں۔ کوئی ایسا حل کریں کہ اگر بچے نے دنیا میں آنا ہی ہے تو جلدی اور بغیر کسی تکلیف کے آجائے۔ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ کسی کو زحمت سے دوچار کروں۔‘‘

اذان مغرب کے بعد درد نے شددت پکڑ لی۔ میں اٹھی اور بڑی مشکل سے وضو کر کے نماز پڑھی۔ پہلے ہر گھنٹے کے فاصلے سے درد اٹھتا تھا،  پھر یہ فاصلہ کم ہو کرآدھے گھنٹے پر آگیا ۔ ماں ابھی تک میرے سرہانے تھیں ۔ میں نے کہا:’’میری حالت بہت خراب ہے۔‘‘

وہ ہر بار کی طرح پریشان ہو گئیں اور تیزی سے نرسوں کو بلانے کے لئے دوڑ پڑیں۔ ایک بار پھر نرسوں نے مجھے اپنے گھیرے میں لے لیا۔  جو نرس  میرا معائنہ کر رہیں تھی وہ کہنے لگی: ’’انشاء اللہ، امید ہے،  آج رات ولادت ہو جائے گی۔‘‘

ڈاکٹر آیا اور اس نے حکم دیا کہ مجھے تیار کیا جائے۔ میں نے نرسوں کی مدد سے آپریشن تھیٹر جانے کے لیے لباس پہنا۔ انہوں نے میرے سٹریچر کو زچہ خانے کی طرف دھکیل دیا۔ ماں بے اختیار رو رہی تھیں ۔ میں نے بے چین ہوکر اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھا دیا۔ وہ روتی ہوئی  بے اختیار میرے سٹریچر کی طرف دوڑ پڑیں۔ لیڈی ڈاکٹر جو میرے ساتھ آ رہی تھیں، اس  نے نرسوں سے کہا:’’ان کی ماں کو بھی آپریشن تھیٹر والا لباس پہنا دیں۔‘‘

تھوڑی دیر بعد ماں آپریشن تھیٹر کا سبز لباس پہنے ہوئے آئیں اور میرے پاس کھڑی ہوگئیں۔ ان درد بھرے لمحات میں ، میں فقط اپنے بچے کے لیے دعا کر رہی تھی ۔ تمام ماؤں کی طرح میں بھی اپنے بچے کی سلامتی کے لیے پریشان تھی۔ ان 37 دنوں میں میں نے جس قدر گریہ کیا اور جس قدر پریشان رہی تھی ، سوچ رہی تھی کہ اس کی وجہ سے بچہ بہت کمزور اور  چھوٹا پیدا ہو گا۔ ان دنوں الٹرا ساؤنڈ کا استعمال آج کل کی طرح عام نہیں تھا، گھر والے ،رشتہ دار ،ہمسائے اور دوست اپنے تجربے اور حالات  کی بنا پر اور ماں کے پیٹ کی ساخت دیکھ کر بچے کی جنس کا اندازہ لگاتے تھے۔ اکثر خواتین کے اندازے کے مطابق میرے یہاں بیٹی ہونے والی تھی۔

میں حمل کے تیسرے مہینے میں تھی کہ علی آغا کے بھائی امیر کی شہادت ہو گئی۔ وہ کتنے سخت دن تھے۔ میرے لمحات گریہ و نالہ اور غم و اندوہ میں گزر رہے تھے۔ اس کے بعد علی آغا بھی امیر کے ساتھ جا ملے۔علی اور امیر کی شہادت کے بعد ایک ہفتے تک پانی کے علاوہ کوئی چیز میرے گلے سے نیچے نہ اترتی تھی۔ میں بہت کمزور ہو چکی تھی۔ میری حالت بھی دوسری حاملہ خواتین سے مختلف تھی۔ بہت سے خواتین کو اصلاً یقین ہی نہ ہوتا تھا کہ میں حمل سے ہوں۔

درد پورے جسم میں خون کی طرح سرایت کر چکا تھا۔ میں چیخنا نہیں چاہتی تھی۔  یہی وجہ تھی کہ میں نے اپنے لبوں کو بھینچ لیا اور جس قدر زور لگا سکتی تھی اپنی ماں کے ہاتھوں کو دبائے رکھا۔ ماں کے آنسو میرے چہرے پر گر رہے تھے۔ درد کی شدت سے میرے آنسو بھی بہہ رہے تھے۔ ماں نے میرا ہاتھ اپنے ہونٹوں پر رکھ لیا تھا اورمسلسل چومے جا رہی تھیں۔ میرا ہاتھ بھیگ چکا تھا۔ میں درد کے مارے علی کو پکار رہی تھی، اس سے مدد طلب کر رہی تھی، التماس کر رہی تھی۔

میں نے اپنے بائیں ہاتھ کو اپنے چہرے کے سامنے کیا۔ شادی کی انگوٹھی سے علی کی خوشبو آ رہی تھی۔ میں نے انگوٹھی کو بوسہ دیا۔ اچانک علی آغا نظر آئے۔ وہ میرے بالکل سامنے کھڑے مسکرا رہے تھے۔ انہیں دیکھتے ہی میں اپنا درد بھول گئی۔ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ علی آغا آئے ہیں؛ زندہ اور حاضر۔ وہ ہنس رہے تھے اور مجھے حوصلہ دے رہے تھے۔ میں نے کہا: ’’علی جان، میری مدد کیجیے۔ مدد کیجیے کہ میرے اندر ہمت پیدا ہو اور (درد کے مارے) واویلا نہ کروں۔ میں نہیں چاہتی کہ کوئی میری آواز سنے۔ مجھے آپ کی مدد چاہیے۔‘‘

میں اپنے ہونٹوں کو دانتوں سے کاٹ رہی تھی  اور ماں کے ہاتھوں کو زور سے دبا رکھا تھا۔ماں سے میرا درد دیکھا نہ جا رہا تھا۔ وہ بستر کے ساتھ لگ کر فرش پر بیٹھ گئیں اور دعا کرنے لگیں۔ میں بھی زیرِ لب ’’یا علی‘‘ کا ورد کرنے لگی۔ مجھے اس کے علاوہ کچھ سنائی نہ دے رہا تھا۔ گویا اس دنیا سے میرا ناطہ ٹوٹ چکا تھا۔ علی آغا ہنس رہے تھے اور بغیر آواز کے باتیں کیے جا رہے تھے۔ مجھے ان کا ایک لفظ بھی سمجھ نہ آ رہا تھا۔

جب بچے کے رونے کی آواز بلند ہوئی تو میرا جسم ڈھیلا پڑ گیا اور ہلکا ہو گیا۔ کس قدر خوشگوار اور خوبصورت احساس تھا۔ میں سونا چاہ رہی تھی۔ صلوات کی صدا آنے لگی۔ میں اپنے بستر پر نیم دراز ہو گئی۔ ڈاکٹر اور نرسیں ہنس رہے تھے۔ ایک نرس خوشی سے کہنے لگی: ’’بیٹا ہے، انشاء اللہ اپنی باپ کی جگہ لے گا۔  ہزاروں سال جیے۔‘‘

سب ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے۔ لیڈی ڈاکٹر نے بچے کو ہوا میں اٹھایا اور کہا: ’’اپنے خوبصورت بچے کو دیکھا؟ دیکھو، کس قدر پیارا ہے!‘‘

میرا بیٹا موٹا اور سرخ تھا اور اس کے سر پر گھنے بال تھے۔

علی آغا ابھی تک وہیں کھڑے تھے۔ وہ اس قدر نزدیک تھے کہ میں ان کے جسم کی خوشبو کو محسوس کر رہی تھی۔ وہ ہنس رہے تھے۔ آخری الوداعی لمحات کی طرح خوبصورت ا ور نورانی تھے۔ میں نے زیر لب کہا: ’’علی جان، بہت شکریہ۔‘‘

نرسوں نے بچے کو میرے بستر کے ساتھ والی میز پر لٹا دیا  اور اس کا وزن کیا۔ میں نے سنا، وہ کہہ رہی تھیں: ’’اڑھائی کلو ہے۔‘‘

کچھ نرسیں بچے کے گرد ہو گئیں۔ میری ماں جھکیں اور میرے چہرے کا بوسہ لے لیا۔ وہ ابھی تک رو رہی تھیں مگر ان کے چہرے سے مسکراہٹ چھلک رہی تھی۔ انہوں نے میرے کان میں کہا: ’’فرشتہ ہے، پیغمبر ہے!‘‘

میں نے سامنے دیکھا تو علی آغا جہاں کھڑے تھے ابھی تک وہیں تھے اور ہنس رہے تھے۔  میرا دل ان سینتیس (۳۷) دنوں کی طرح ان کے لیے  بے تاب ہوا جا رہا تھا۔ میری خواہش تھی کہ وہ اوپر سے نیچے آئیں، اپنے بچے کو آغوش میں لیں اور کہیں: ’’فرشتہ، عزیزِ جان، تمہارا بہت شکریہ، تم نے کتنا خوبصورت بچہ میرے حوالے کیا ہے!‘‘

ماں چلی گئیں تا کہ میری ساس کو فون کریں اور ان سے اس خوشخبری کا انعام لیں۔لیڈی ڈاکٹر اور نرسیں بھی میرے بیٹے کو لے کر چلے گئیں۔ کچھ دوسری نرسیں آئیں اور وہ مجھے سٹریچر پر سُلا کر وارڈ کی طرف لے جانے لگیں۔میرا بدن سست اور سخت ہو چکا تھا، لیکن درد ابھی تک ہو رہا تھا۔ میں نے پیچھے کی طرف پہلو بدلا اور سامنے والی دیوار، جہاں علی آغا کھڑے تھے، کی طرف دیکھنے لگی اور گلوگیر لہجے میں کہا: ’’علی جان، شکریہ، مجھے یقین نہیں آتاکہ اتنا جلدی مجھے آرام آ گیا۔ آپ بھی ہمارے ساتھ آئیں۔ میری درخواست ہے کہ مجھے تنہا نہ چھوڑیں۔ میرا دل آپ کے لیے بہت پریشان ہے۔‘‘

ہم آپریشن تھیٹر سے باہر آ گئے۔ علی آغا کو اب اپنے پاس محسوس نہیں کر پا رہی تھی۔ میں رونے لگی۔ آنسوؤں  نے میری آنکھوں کو دھندلا کر رکھ دیا۔ میں نے کہا: ’’علی جان، میں نے یہ سب کچھ برداشت کیا۔ آپ کے جانے کے بعد اپنے غم کو سنبھالا، اپنے آنسوؤں کو روکے رکھا تا کہ آپ کی یادگار صحیح و سالم اس دنیا میں آئے۔ دیکھیے، میں نے اپنی ذمہ داری کو کتنے اچھے انداز میں نبھایا ہے۔ مجھے تنہا نہ چھوڑیے۔ نہ جائیے۔ مجھے اپنے ساتھ لے جائیے! علی، میں آپ کے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔ میں بہت جلد تھک گئی ہوں۔ آپ سے جدائی کی طاقت نہیں رکھتی۔ کاش آپ اتنے اچھے نہ ہوتے! کاش مجھے تھوڑی اذیت ہی دی ہوتی!‘‘

میں یہ بتانا بھول گئی کہ ایک دفعہ جب میں نے ان سے کہا تھا کہ میں بھی دزفول ([1])جانا چاہتی ہوں تو انہوں نے کہاتھا: ’’وہاں جنگ ہو رہی ہے۔ شب و روز بمباری ہوتی ہے۔ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ نہیں رہ سکوں گا۔ وہاں تم تنہا ہو گی۔ کیا برداشت کر سکو گی؟‘‘

اور میں نے خوشی خوشی جواب دیا تھا: ’’ہاں! وہاں تھوڑی تھوڑی دیر بعد آپ کو دیکھتی تو رہوں گی۔‘‘

میری پوری زندگی میں اگر کچھ خوشگوار اور میٹھے لمحات ہیں تو وہ وہی ساڑھے پانچ ماہ تھے کہ جب میں علی آغا کے ساتھ دزفول میں رہی تھی۔

1987؁  کا سال تھا۔دزفول اور اہواز پر بموں اور میزائلوں کی بارش ہو رہی تھی۔ علی نے کہا: ’’میرے ساتھ آؤ گی؟‘‘

میں نے جلدی سےپوچھا: ’’کیا ایسا ممکن ہے؟‘‘

رات کو ہم نے گھر میں استعمال ہونے والی ضروری چیزیں جمع کر لیں۔ سلائی مشین، استری، دیگچہ، پلیٹیں اور باورچی خانے کا دوسرا سامان، ایک کپڑوں والا بیگ اور کچھ دوسری چھوٹی موٹی اشیاء۔

اگلی صبح ہم نے وہ ضروری سامان زرد  جیپ([2]) پر رکھا جو علی آغا کے پاس تھی اور دزفول کی طرف چل پڑے۔ ان ستائیس سالوں میں، مَیں نے ان دنوں کو کس قدر یاد کیا ہے۔  جب بھی مجھے علی آغا کی یاد آتی ہے تو میں بے اختیار دزفول میں گزارے انہیں ایام میں کھو جاتی ہوں۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ میری اور علی آغا کی تمام زندگی، وہی ایام تھے۔ نارنجی اور مالٹے کے درختوں کو دیکھنے کی لذت، لیموں اور سفیدے کے درخت کے پتوں کی دل انگیز خوشبو اور ان سردیوں کی خوشگوار اور فرحت بخش ہوا ابھی تک، جبکہ میں یہ واقعات آپ کو سنا رہی ہوں، میرے ہمراہ ہے۔

دراصل علی آغا کی شہادت کے بعد کے چند ماہ تک ہر دن اور رات میرا یہی کام تھا؛ گھنٹوں کمبل کو اپنے چہرے پر اوڑھے، بغیر سوئے آنکھیں موندے رکھتی اور ان واقعات کو  بغیر کسی کمی بیشی کے ایک فلم کی طرح اپنے ذہن میں دہراتی رہتی۔ اور اگر کسی کے آ جانے یا کسی کام کی وجہ سے یہ سلسلہ رک جاتا تو کچھ گھنٹوں کے بعد پھر وہی پہلے والی کیفیت مجھ پر طاری ہو جاتی۔ یادوں کا سلسلہ وہیں سے شروع کرنے کی کوشش کرتی جہاں سے ٹوٹا ہوتا۔ فاطمیہ ہسپتال میں گزری اس رات میں بھی جب میں زچگی کے بعد لگائے جانے والے سکون آور ٹیکوں کی وجہ سے خواب و بیداری کی حالت میں تھی،میرا دل چاہا کہ علی آغا میرے پاس ہوں۔ دوسری زچّہ عورتوں کی طرح میرا دل بھی اپنے شوہر کے لیے بے قرار تھا۔ میری خواہش تھی کہ وہ بھی میرے پاس ہوتے۔ میرے دل میں ان کے لیے عجیب سی تڑپ تھی۔ اس رات بھی بے چین ہو کر میں نے ہسپتال کا پتلا سا کمبل، جس سے الکحل، دواؤں اور بیٹاڈین کی بو آ رہی تھی، اپنے سر پر اوڑھا، آنکھوں کو بند کیا اور دزفول میں اپنے جانے کے واقعات کو ذہن میں دہرانے لگی۔

واقعات کے اس چھوٹے سے ٹکڑے سے مجھے عشق ہے۔  ۱۰ جنوری  1987؁ ہفتے کی رات تھی جب ہم دزفول میں اپنے گھر پہنچے؛ ہر چند کہ یہ گھر ویسا نہ تھا جیسا کہ ہمدان سے دزفول آتے ہوئے راستے میں، مَیں تصور کرتی رہی اور جس کی تصویر میں نے اپنے ذہن میں بنا لی تھی۔ ڈیڑھ منزل پر مشتمل یہ گھر تازہ ہی بنا تھا، جس میں زندگی کے دوسرے وسائل نہ تھے۔ یہ دزفول کے مضافات میں واقع’’پانصد دستگاہ‘‘ نامی ایک قصبے میں تھا۔علی آغا کے دوست ہادی فضلی([3])  اپنی بیوی اور چھوٹی بیٹی زینب کے ساتھ ہم سے پہلے وہاں پہنچ چکے تھے۔

اس رات ہم کافی تھک چکے تھے۔ ہمیں پتا تک نہ چلا کہ کس طرح ہم نے اپنے بستر بچھائے اور سو گئے۔

علی الصبح علی آغا کے شور سے ہماری آنکھ کھلی۔ علی آغا نماز فجر کے بعدجا کر روٹی لے آئے تھے۔ اب وہ چلا رہے تھے اور شور مچا مچا کر ہمیں جگانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہم ہال میں سوئے ہوئے تھےجبکہ ہادی فضلی اور ان کے اہل و عیال مہمان خانے میں۔ میں اٹھی اور جلدی جلدی بستروں کو  تہہ کیا۔ہادی بھی علی آغا کی مدد کے لیے آ گئے اور مل کر ناشتے کے لیے دسترخوان بچھایا۔ زینب ابھی تک سوئی ہوئی تھی۔ ناشتے کے بعد علی آغا اور آغا ہادی نے اپنا فوجی یونیفارم پہنا۔ خداحافظ کرتے وقت میں نے پوچھا: ’’آپ کب واپس آئیں گے؟‘‘

علی آغا خالص ہمدانی لہجے میں بات کرتے تھے۔ کہنے لگے: ’’معلوم نہیں۔ ہر روز ایک سپاہی دروازے پر آئے گا۔ اگر کوئی چیز خریدنی ہوئی یا کوئی اور کام ہوا تو اسے کہہ دینا۔‘‘

جب علی آغا اور آغا ہادی دروازہ بند کر کے چلے گئے تو اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ میں اس گھر میں کتنی اجنبی ہوں۔ بے کاری کی وجہ سے یا شاید جانچ پڑتال کی غرض سے گھر کو گھوم پھر کر دیکھنے لگی۔

بیت الخلاء اور حمام صحن میں بائیں طرف تھے۔ صاف ستھرا اور مرتب و منظم صحن یہی کوئی پچاس ساٹھ میٹر کے لگ بھگ رہا ہو گا۔ دیواریں اور اینٹوں کی عمارت تازہ ہی بنائی گئی تھی۔تیز دھوپ آنکھوں کو چندھیا رہی تھی۔صحن میں تھوڑی چہل قدمی کی اور چار پانچ سیڑھیاں اوپر چلی گئی۔ ایک چھوٹی  اور پتلی سی ڈیوڑھی تھی جس سے گزر کر ہم اس عمارت میں داخل ہوتے تھے۔ ایک ہال جو نسبتاً بڑا تھا اور تقریباً چوبیس میٹر کا ایک مہمان خانہ۔ باورچی خانے میں کسی قسم کا سامان نہ تھا؛ نہ برتنوں کی الماری تھی اور نہ ہی کاشی کاری کی گئی تھی۔ جہاں تک نظر جاتی تھی اس کے در و دیوار سے مٹی گر رہی تھی اور کوڑا کرکٹ لٹک رہا تھا۔ ہال کے نیچے تیرہ سیڑھیاں تھیں جو تہہ خانے میں دو کمروں تک جا کر ختم ہو جاتی تھیں۔ ایک کمرہ بڑا تھا جس میں ایک چھوٹی سے کھڑکی تھی اور دوسرا مربع شکل کا چھوٹا اور تنگ کمرہ جس کی کھڑکی چھت کے نزدیک لگی ہوئی تھی، جو ایک چھوٹے سے خالی صحن میں کھلتی تھی۔ اس خالی صحن میں ایک اور دیوار تھی  جس میں لگی کھڑکی گھر کے صحن میں کھلتی تھی۔چھت سے سو والٹ کا ایک بھدا سا بلب بھی لٹک رہا تھا جو خالی صحن سے آنے والی روشنی کی مدد سے کمرے کو روشن کرنے کے لیے زور لگا رہا تھا۔ کچھ دن کے بعد یہ کمرہ میرا اور علی آغا کا ہو گیا۔گھر ابھی تک تعمیر کے مراحل سے مکمل طور پر نہ نکلا تھا۔ فاطمہ اور میں نے طے کیا کہ جب تک زینب، جو اس وقت ڈیڑھ سال کی تھی، بیدار نہیں ہوتی، گھر کی صفائی کر لیں۔ ہم نے اپنی چادریں اتاریں،  سکارف کو گردن کے پیچھے گرہ لگائی اور دستر خوان اٹھایا۔  جھاڑو ڈھونڈ رہی تھیں کہ توپوں کے گولوں کی تیز آواز بلند ہوئی۔ فاطمہ زینب کی طرف دوڑی، اسے گود میں لیا اور پھر ہم دونوں بھاگ کر تہہ خانے میں چلی گئیں۔زینب مبہوت ہو کر ہمیں دیکھ رہی تھی۔اس پر غنودگی چھائی ہوئی تھی۔ اس نے رونا شروع کر دیا۔ ہم نے لاکھ کوشش کی مگر وہ چپ ہونے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ گولوں کی آواز تیز ہوتی چلی گئی۔پورا گھر لرز رہا تھا۔ تہہ خانے میں زمین پر ہی ہم لوگ بیٹھ گئے۔ ایک طرف زینب ڈر کے مارے روئے اور چیخے جا رہی تھی تو دوسری طرف ہمیں چونکہ باہر کے حالات کی خبر نہ تھی اس لیے  ہم بھی ڈر رہی تھیں۔ آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا۔ زینب خاموش ہو چکی تھی مگر بھوک کی شدت سے چڑچڑی ہو رہی تھی۔ جب گولوں کا شور تھوڑا کم ہوا تو ہم اوپر چلی گئیں۔ فاطمہ زینب کا فیڈر دھونے اور میں کیتلی کے نیچے آگ جلانے لگی کہ دوبارہ گولوں کی آوازیں بلند ہوئیں۔ اس بار ہم پچھلی دفعہ کی نسبت کم خوفزدہ ہوئیں۔ اسی حالت میں ہم تہہ خانے کی طرف دوڑ گئیں۔ آدھا گھنٹہ مزید گزر گیا۔ علی آغا جس سپاہی کا کہہ کر گئے تھے اس کی ابھی تک کوئی خبر نہ تھی۔ اس دفعہ گولوں کا شور تھمنے سے پہلے ہی ہم اوپر چلی گئیں۔ فاطمہ نے زینب کے لیے فیڈر تیار کیا اور اسے دودھ پلایا۔اس کے بعد ہم نے چادریں اوڑھیں اور گلی میں نکل آئیں۔

ہمیں بہت تعجب ہوا کہ لوگ ایسے بے فکری سے گلی میں آ جا رہے تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ہمیں یقین نہ آیا کہ اتنے شور اور چٹاخ پٹاخ کی آوازوں میں یہ لوگ کس قدر سکون اور بے فکری سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ تھوڑا سا اوپر جا کر دیکھا کہ نانبائی کی دکان پر کچھ لوگ قطار باندھے کھڑے تھے۔ نان بائی  لمبے قد کا ایک سیاہ مرد تھا جو ایک خاص مہارت  سے آٹے کے پیڑے کو کھولتا، نرمی سے اپنے بدن کو ادھر ادھر خم کرتا، سیدھا کرتا، اوپر نیچے اچھلتا، پھر ایک چھلانگ کی صورت میں تندور کی طرف جاتا اور موزوں حرکت سے پیڑے سے بنی ہوئی روٹی کو تندور  کی سرخ اور گرم دیوار کیساتھ چپکا دیتا۔

اس نان بائی کی دکان کے سامنے گائیوں کا ایک باڑا  بھی تھا جہاں دودھ، گھریلو دہی اور مکھن فروخت کرتا  تھا۔ فاطمہ دودھ دہی کی دکان دیکھ کر خوش ہو گئی اور میں گلی کی نکڑ پر آش فروشی([4])  کی دکان دیکھ کر خوشحال ہو گئی۔ میں نے فاطمہ سے کہا:’’ کل ناشتے میں ہم آش کھائیں گے۔ تم کل میری مہمان ہو۔‘‘

کچھ نرسیں کمرے میں داخل ہوئیں ۔ انہوں نے میرے چہرےسے کمبل ہٹا کر ایک طرف کیا۔ میں نے اپنی آنکھیں کھول لیں۔ میرے سامنے کھڑی نرس نے مجھ سے  پوچھا : ’’اب آپ کی حالت بہتر ہے؟‘‘ میں نے مبہوت ہوکر اسے دیکھا۔ ایسالگا کہ میں اچانک ایک اور دنیا سے اس بستر پر پھینک دی گئی تھی۔

دوسری نرس آگے بڑھی اور میری پتلی گلابی قمیص جو انہوں نے مجھے معائنے کے کمرے میں پہنائی تھی، کی آستین اوپر کر دی: ’’کوئی مشکل تو نہیں ہے؟‘‘

میں نہیں  جانتی تھی کہ کیا کہوں ۔ نرس نے جب دیکھا کہ  میں نے کوئی جواب نہیں دیا  تو اس فشار خون کا معائنہ کرنے لئے میرے دائیں بازو پر بیلٹ لپیٹا، سٹیتھو سکوپ کو اپنے کانوں پر رکھا، پمپ کرنا شروع کر دیا اور آنکھیں پارے پر ٹکا دیں ۔ تھوڑی دیر بعد سٹیتھو سکوپ کو کانوں سے نکالا اور نرس کی طرف منہ کر کے کہنے لگی: ’’اس کا اوپر والا فشار 80 ہے۔‘‘

پہلی نرس نے تعجب سے میری طرف دیکھا اور پوچھا: ’’تمہاری ڈرپ کہاں ہے؟‘‘

مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ لوگ ان چیزوں کے بارے میں مجھ کیوں پوچھ رہے تھے ۔  میں کوئی جواب نہ دیا۔ وہی پہلے والی نرس گئی اور تھوڑی دیر بعد دواؤں اور دوسری طبی لوازمات سے بھری ایک پہیوں والی میز لے کر پلٹی اور  آتے ہی ڈرپ تیار کرنا شروع کر دی ۔دوسری  نرس نے بستر کے نچلے جنگلے پر لٹکے ہوئے ایلومینیم کے جلد والے رجسٹر کو اٹھایا اور پوچھا: ’’ڈاکٹر نے تمہارا معائنہ نہیں کیا؟‘‘  پہلی نرس جو ڈرپ لگا رہی تھی ہنس پڑی اور کہنے لگی:’’تمہارے بیٹے نے تو سب کو خوشحال کردیا۔‘‘

میں ہنس پڑی ۔

جب نرس ڈرپ لگا چکی تو اس میں اس نے کچھ اور ٹیکے بھی شامل کر دیے ۔ ٹیکوں کو دیکھ کر مجھے علی آغا کی نقاشی یاد آ گئی۔ جن دنوں میں ساسان  ہسپتال میں داخل تھی ، علی آغا نے ایک تصویر بنائی تھی جس میں ایک تتلی تھی۔ اس کے پروں پر تیر پیوست تھا اور اس سے خون ٹپک رہا تھا۔

میں نے پوچھا : ’’بچے کا کیا حال ہے؟‘‘

اس نے میرے کاندھوں پر ہاتھ رکھا اور ہنس کر نرمی سے کہنے لگی: ’’اچھا  ہے۔ بہت شیطان ہے۔ اس نے سارے ہسپتال کو مصروف کر دیا ہے۔ تمہاری ماں بچوں کے وارڈ میں گئی ہیں اور بچے کو آغوش میں اٹھا رکھا ہے تاکہ شیشے کے باہر کھڑے سب لوگ اسے دیکھ سکیں۔‘‘

نرس نے سازو سامان سمیٹ کر پہیوں والی میز  پر رکھا اور کہنے لگی: ’’تمہاری ڈرپ کو ختم  ہونے میں ایک گھنٹہ لگ جائے گا۔ میں نے اس میں کچھ سکون آور ٹیکے شامل کر دیے ہیں۔ ابھی تمہیں نیند آ جائے گی۔‘‘

نرس کے جانے بعد میں نے دوبارہ کمرے میں نظر گھما کر دیکھا۔ سامنے لگی گول سفید گھڑی ڈیڑھ بجا رہی تھی۔ میرا  دل چاہا کہ اٹھ کر چھت کی ٹیوب لائٹ بند کر دوں۔ لاکھ کوشش کر کے دیکھی مگر اپنے آپ میں ہمت نہ پائی۔ میرا حوصلہ میرا ساتھ چھوڑ چکا تھا۔ ماں کیوں نہیں آ رہیں؟ ڈرپ کے قطرے جو آرام آرام سے نلکی میں گر تے ہوئے میرے ہاتھ کی طرف حرکت کر رہے ، انہیں دیکھا تو میں حیران رہ گئی ۔ ہر جگہ کس قدر خاموش اور پُرسکون تھی۔ میں نے اپنی بائیں طرف پڑے خالی بیڈکو  دیکھا۔ اگر علی آغا ہوتے یعنی آج رات وہ میرے پاس آتےتو اس پر سوتے یا محاذ پر کسی نہ کسی  مہم پر ہوتے؟  دل میں کتنی  شدید خواہش پیدا ہو رہی تھی۔ کاش! وقت پیچھے کی طرف لوٹ جاتا ۔دز فول میں ہم نے کتنے خوشگوار دن گزارے تھے۔

مجھے اس دن کی یاد آگئی۔ منگل 14جنوری  1987؁کا دن تھا ۔ میں اور فاطمہ کمروں ، درازوں ،دیواروں اور گھر کی چھت کو جھاڑو لگا رہی تھیں اور گرد و غبار کو جھاڑ رہی تھیں ۔ ہر طریقہ آزما لیا مگر گھر کی شکل و صورت نکھر نہیں رہی تھی۔ نہ پردے تھے، نہ ایسا قالین تھا جو پورے فرش پر بچھ جاتا تھا اور نہ ہی زندگی کے دوسرے وسائل تھے۔ ہم نے  ہر کوشش کر کے دیکھ لی۔ ہر  جگہ کو جتنا رگڑتے جتنا صاف کرتے کوئی فائدہ نظر نہ آتا تھا۔ صبح دس بجے کے نزدیک  کسی نے درازہ کھٹکٹایا۔ ہم نے سمجھا وہی فوجی ہے جو روزانہ آتا تھا۔ میں نے چادر سر پر اوڑھی اور دروازے پر گئی۔ دروازے کے پیچھے سے پوچھا:’’ کون ہے؟‘‘  آواز اجنبی سی تھی۔ اس نے کہا: ’’ میں ہوں علی آغا کا معاون ،سعید صداقتی۔‘‘

آج بھی جب میں اس دن اور اس واقعہ کو یاد کرتی ہوں تو اپنے آپ سے کہتی ہوں کہ کاش ہم اہواز نہ جاتے! کاش  ہم اس وقت گھر نہ ہوتے اور میں دروازہ نہ کھولتی! حتما ً اس وقت ہماری زندگی کسی اور ہی ڈگر پر چل رہی ہوتی۔ لیکن برا ہوا کہ میں نے دروازہ کھول دیا۔ ہر چند کہ میں نے اسی وقت سوچ لیا تھا کہ  ایسا نہ کروں  لیکن نہیں معلوم کہ میں اپنے ارادے پر قائم کیوں نہ رہ سکی؟ میں نہیں جانتی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہم  سعید صداقتی کے ساتھ کیوں چلی گئیں؟

نرس میرے سرہانے کھڑی تھی اور مجھے دیکھ کر مسکرائے جا رہی  تھی۔ اس نے ڈرپ کے چھوٹے پہیے کو گھمایا۔ ڈرپ  کے آخری  قطرے تیزی سے  ڈرپ کی نلی میں گرنے لگے۔ اس نے کمبل ایک طرف کیا۔ اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں ڈال کر پیوست کیا اور زور سے میرے پیٹ  پر دباؤ ڈالا ۔ میرے پیٹ میں ایک عجیب سا درد اٹھا۔ نرس نے میرے درد کی طرف توجہ دیے بغیر  دوبارہ  اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے پیٹ کو دبایا، بالکل ایسے ہی جیسے بعض اوقات دل کی بیماری میں مبتلا شخص کے سانس کو بحال کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ درد سے  بے اختیار ہو کر میری چیخ نکل گئی ۔ نرس نے کمبل کو میرے سینے پر رکھا اور کہا: ’’بس، ختم ہو گیا معاف کرنا ، یہ ضروری تھا۔‘‘

میں نے سر کو ہلکا سا ہلایا۔ اس نے سرنج کو میرے ہاتھ سے نکالا اور اسے کوڑے کی ٹوکری میں پھیک دیا۔ ماں پھولوں کا ایک گلدستہ لیے کمرے میں داخل ہوئیں۔ پھولوں کو دونوں بستروں کے درمیان پڑی میز پر رکھا اور میرے پاس کھڑی ہو کر پوچھنے لگیں: ’’میری بچی، تمہاری  حالت کیسی ہے؟‘‘

پیٹ میں شدید درد کے  باوجود میں نے کہا: ’’اچھی ہوں۔‘‘

ماں کمبل تہہ کرنے اور میرا سکارف، سر اور میری حالت درست کرنے میں مشغول ہو گئیں۔ انہوں نے خوشی سے کہا: ’’ تم نہیں جانتیں، کس قدر خوبصورت بچہ ہے!  ماشاء اللہ! پھول جیسا! لوگ مسلسل فون کر کر کے تمہاری  خیریت دریافت کر رہے ہیں۔ امام جمعہ کے دفتر سے لے کر گورنر ہاؤس اور دوسری جگہوں تک سے فون آ رہے ہیں۔‘‘

میں نے ایک غم  بھری نگاہ اپنی ماں پر ڈالی ۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ کاش علی آغا ہوتے اور وہ بھی فون کرتے۔ اے کاش ! غم سے میرا سینہ گھٹ رہا تھا۔ دل چاہ رہا تھا کہ ماں بلب کو بند کر دیتی اور میں سو جاتی  اور خواب میں علی کو دیکھتی یا آنکھیں بند کر کے اپنے بیتے      ہوئے لمحات علی آغا کو سناتی۔

ماں نے میز سے پھولوں کو اٹھایا ۔ وہ سفید سوسن کے پھول تھے۔ میرے چہرے کے سامنے لا کر کہنے لگیں: ’’انہیں سونگھو ۔‘‘

 مجھے علی آغا کی تدفین کا دن یاد آگیا۔ ان کا تابوت  پھولوں سے ڈھکا  ہوا تھا ۔ باغِ بہشت سوسن کے پھولوں سے بنے تاج سے بھرا ہوا تھا۔ علی آغا ایک تتلی کی طرح  ایک پھول سے دوسرے پھول کی طرف پرواز کر رہے تھے۔

ماں نے چھوٹے فرِج کے دروازے کو کھولتے ہوئے کہا: ’’اگر پانی کا جگ یا کوئی اور چیز ہوتی تو پھولوں کو اس میں ڈال  کر رکھ دیتے تاکہ یہ رات تک مرجھا نہ جائیں۔‘‘

میں نے پوچھا: ’’برف باری ہو رہی ہے۔‘‘

ماں پھولوں کو اٹھا کر  کھڑکی کی طرف گئیں اور باہر دیکھنے لگیں: ’’نہیں، لیکن ہوا  برفیلی ہے۔ اگر آ ج رات نہ ہوئی تو کل صبح تک حتماً ہو جائے گی۔‘‘

پچھلے سال کی تیز برف باری  کی یاد نے مجھے گھیر لیا ۔

میں نے کہا: ’’ ماں،گذشتہ  سال 23 جنوری کا دن آپ کو  یاد ہے؟ جمعے کا دن تھا۔ علی آغا کو ان کے دوست اصفہان سے لائے تھے۔ وہ کتنا برا دن تھا !‘‘

پھول اب ماں کے ہاتھ میں نہیں تھے ۔ میں نہ سمجھ سکی کہ آخر انہوں نے وہ پھول کہاں رکھ دیے۔ وہ آئیں اور میرے ساتھ پڑے بستر پر لیٹ گئیں۔ پوچھنے لگیں: ’’تمہیں نیند نہیں آ رہی ؟!‘‘

میں نے بےچینی  سے کہا: ’’ماں!‘‘

ماں میری بے چینی کو سمجھ گئیں : ’’میری جان میری پیاری بچی۔‘‘

’’آپ کویاد ہے؟‘‘

’’کیسے یاد نہ ہومیری جان؟! مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ میری اچھی بچی، کتنی تیز برف باری ہوئی تھی۔ کڑاکے کی سردی پڑی تھی۔ اولے پڑ رہے تھے۔ اس کے دوست اسے ہمارے گھر میں لائے تھے۔ میں نے اس کا بستر انگیٹھی کے قریب لگایا تھا تاکہ اسے سردی نہ لگے۔  اس کے لیے مرغ کی یخنی بنائی تھی۔ اس  نے یخنی پیتے ہوئے کہا تھا: وجیہہ بیگم، کتنی لذیذ ہے ! آپ کا بہت شکریہ۔‘‘

بے اختیار میرے آنسو بہنے لگے: ’’ماں، علی آغا نے بہت اذیت جھیلی۔ اس وقت تو میں نے آپ کو نہیں بتایا تھا تاکہ آپ پریشان اور بے چین نہ ہو جائیں، لیکن انہوں نے بہت تکلیف کا سامنا کیا ۔

ماں نے اپنے سر کو سرہانے پر رکھااور اپنا دایاں  پہلو میری طرف کرکے سونے لگیں۔ انہوں نے کہا: ’’ اس کا اجر امام حسین ؑ کے ذمے، اس کا صلہ امام  حسینؑ کے سر، اس کی جزا امام زمانہ ؑ ہی دیں گے۔ انشاء اللہ۔‘‘

میں نے  اپنی آنکھیں چھت پر گاڑ لیں اور اس ٹیوب لائٹ کو دیکھنے لگی جو میرے سر پر روشن تھی۔ میں نے سوچا کہ کتنی جلدی یہ سب واقعات پیش آئے : یہ سارے حادثات۔

میں نے اپنی ماں کو دیکھا۔ وہ دائیں پہلو سو چکی تھیں۔ انہوں نے کمبل نہ اوڑھا تھا ۔ میرا دل ان کے لئے سلگ اٹھا۔ میں بڑی مشکل سے اپنے بستر سے اتری اور کمبل ان کے اوپر  اوڑھا دیا ۔ ہمیشہ کی طرح ان کی گردن پر بوسہ دیا۔ ان کی گردن سے کتنی اچھی  خوشبو آتی تھی۔ ٹیوب لائٹس بند کیں ۔ برف آہستہ آہستہ گر رہی تھی۔ آسمان گلابی اور روشن تھا۔

صبح جب میری آنکھ کھلی تو سب سے پہلے ماں کے خالی بستر  کی  طرف نظر گئی ۔ اس کے بعد بستر کی چادر کی طرف متوجہ ہوئی، جو فرش پر بچھی ہوئی تھی ۔ ماں وہاں تھیں اور نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے آہستہ سے کہا: ’’ سلام ، صبح بخیر۔‘‘

نماز کے سلام کے بعد ماں تسبیح لیکر کھڑی ہو گئیں اور میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگیں : ’’سلام میری جان، کیسی ہو؟‘‘

’’اچھی ہوں، الحمد للہ۔‘‘

ماں کا چہرہ لاغر اور غمگین نظر آرہا تھا۔ میں سمجھی شاید مقنعہ اور کالی قمیص یا کنگھی نہ کرنے کی وجہ سے یا کسی اور چیز سے پریشان ہیں ۔ میں نے پوچھا : ’’ ماں ، بچہ کیسا ہے؟ اس کی حالت ٹھیک ہے؟‘‘

ماں ہنس دیں: ’’کافی بہتر ہے۔ میں صبح صبح اسکی خبرکے لیے گئی تھی ۔ فرشتوں کی طرح سویا ہوا  تھا ۔ تم کیسی ہو؟‘‘

تمہاری حالت اچھی نہیں ہے ؟!

میں نے سر کو ہلکا سا ہلایا اور کہا: ’’نہیں ۔۔۔ ٹھیک ہوں۔‘‘

پھر پوچھا: ’’بابا،  رؤیا  اور نفیسہ ٹھیک ہیں؟‘‘

ماں نے مسکراتے ہوئے کہا : ’’سب ٹھیک ہیں ، ایک دو گھنٹے بعد انہیں فون کروں گی، تم ان سے بات کر لینا۔‘‘

انہیں  گویاکچھ یاد آگیا  تھا کہنے لگیں: ’’ الحمد للہ ہمارے پاس ٹیلیفون ہے۔ ہمیں کافی آسانی ہو گئی ، ماں۔‘‘

جب ہم دزفول میں تھے تو دل ہر وقت تنگ رہتا تھا ۔ میں پی سی او پر جاتی اور بیگم سکینہ روغنی کے گھر فون کرتی ۔ وہ ہماری ہمسایہ تھیں اور ان کا گھر  ہمارے گھر سے سات آٹھ گھر چھوڑ کر گلی کی نکڑ پر تھا ۔ ماں کو کسی اور کے ساتھ ان کے گھر ٹیلی فون سننے کے لئے آنا پڑتا، جس میں کافی دیر لگ جاتی تھی ۔ میں نے یہ آخری جملے یاد کر لئے تھے ۔ میں جب بھی فون کرتی تو یہ کہتی: ’’اگر تکلیف نہ سمجھیں تو میری ماں کو بلا دیں میں   ٹیلی فون بند کرتی ہوں اور  آدھے گھنٹے کے بعد  دوبارہ کروں گی۔‘‘

ماں اپنے بستر پر لیٹ گئیں اور تسبیح ہاتھ میں لیے ذکر پڑھنے لگیں۔ میں نے کہا: ’’ آپ کو یاد ہے ، جب میں سکینہ بیگم کے ہاں فون کیا کرتی تھی؟ ایک بار اسی فون پر ہم نے شہید ہونے کی خواہش کی تھی۔‘‘

ماں  کے ہاتھ میں حرکت کرتی تسبیح رک گئی۔ انہوں نے خوف اور پریشانی کے عالم میں میری طرف دیکھا۔ میں نے ہنس کر کہا: ’’مت  ڈریے، میں ابھی شہید تو نہیں ہوئی۔‘‘

ماں نے اسی ذکر کی حالت میں سر کو ہلایا: ’’شرارتی کہیں کی ! تم تو ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ ٹھیک ہو۔ بہت اچھی گزر رہی ہے۔ گھر میں دوستوں کا آنا جانا رہتا ہے۔‘‘

جھوٹ تو نہیں بولتی تھی۔ دوستوں کے گھر آتے جاتے رہتے تھے ، لیکن یہ چیزیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ ایک روز میں بیمار پڑ گئی ۔ پیٹ میں وہ درد اٹھا کہ کم ہونے کا نام ہی نہ لے رہا تھا ۔ علی آغا کو گئے ہوئے ایک ہفتہ ہو چکاتھا۔ ایک روز صبح کے وقت درد کی حالت میں نیند سے بیدار ہوئی اور رات تک درد میں مبتلا رہی ۔ فاطمہ بیچاری سے جو بن پڑتا تھا  اس نے کیا ۔ ہفتے کے  درمیانی ایام تھے اور علی آغا کے آنے کوئی امید نہ تھی۔ رات ہوئی تو یہ فکر ستانے لگی کہ اگر آدھی رات کو میری حالت بگڑ گئی تو کیا کروں گی ۔ ایک بار چاہا کہ کاش  جمعرات یا جمعہ  ہوتا اور علی آغا آجاتے۔ خدا کی قسم، اسی وقت گلی سے علی آغا کی گاڑی کی آواز آئی ۔ شاید رات کے ساڑھے دس بجے تھے ۔  علی آغا جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئے، میری حالت دیکھ کر پریشان ہو گئےاگرچہ ان کی اپنی حالت مجھ سے زیادہ خراب تھی۔ خاک آلودہ  اور تھکی ہوئی آنکھیں اور چہرہ سوجا ہوا تھا ۔ ایسا لگتا تھا ایک ہفتے سے سوئے نہیں  تھے۔ انہوں نے پوچھا : ’’کیا ہوا؟‘‘ میں نے کہا: ’’نہیں معلوم صبح سے پیٹ کیوں درد کر رہا ہے؟‘‘  علی آغا کا ڈرائیور جا چکا تھا۔ وہ وہیں سے پلٹے اور ہمارے ہمسائے صدیق کے گھر کی طرف چلے گئے۔ اس کی گاڑی لی، مجھے اور فاطمہ کو سوار کیا  اور ہسپتال کی طرف چل دیے۔ ہسپتال کے دروازے پر پہنچ کر انہوں نے کہا: ’’جان، میں تھکا ہوا ہوں۔ خود چلی جاؤ گی؟‘‘

انہوں نے گاڑی بند کی، اسٹیرنگ پر سر ٹکا دیا اور کہنے لگے : ’’اگر کئی مشکل  ہوئی تو آ کر مجھے بتا دینا۔‘‘

ڈاکٹر نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا: ’’اپینڈکس کا خطرہ ہے۔‘‘ اس نے کچھ ٹیسٹ لکھے اور تاکید کی کہ فوری طور پر کروائے جائیں۔ میں نے ٹیسٹ کروائے تو ڈاکٹر نے رپورٹ دیکھ کر کہا: ’’الحمد للہ ، کوئی خاص مسئلہ نہیں۔‘‘  اس نے کچھ  گولیاں اور شربت لکھ دیے۔ دو تین گھنٹے گزر گئے تھے۔

ہم دواؤں کا لفافہ ہاتھ میں لیے لوٹے۔ میں مر جاؤں، ماں ! علی آغا نے اپنا سر سٹیئرنگ پر ٹکا رکھا تھا اور  اسی طرح سوئے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں جگایا۔ انہوں نے گاڑی کو اسٹارٹ کیا اور ہم اپنے گھر کی طرف چل دیے۔ چونکہ میری حالت کچھ بہتر ہو چکی تھی میں لہذاسڑکوں کی طرف دیکھ رہی تھی۔ نیمہ شعبان کی رات تھی۔ اگرچہ شہر میں خلوت تھی اور دزفول میں تھوڑے سے لوگ تھے ،لیکن جو تھے انہوں نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ کافی جوش و جذبے سے انہوں نے سڑکوں کو آراستہ کر رکھا تھا ۔ سڑکوں کے درمیان کچھ گلدان سجا دیے گئے تھے۔ مٹھائیوں کے ڈبے تھے کہ گاڑیوں کے شیشوں سے اندر کی طرف آرہے تھے۔ درختوں کی کیاریاں رنگ برنگے دھاگوں سے  اٹی پڑی تھیں۔ میں خوشی سے نہال ہو رہی تھی ۔ مسلسل علی آغا سے کہے جا رہی تھی: ’’وہاں دیکھیں، اس طرف دیکھیں، کتنا اچھا لگ رہا ہے!‘‘

علی آغا میری مسرت کو دیکھ رہے تھے۔ اگرچہ  وہ کافی تھکے ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے سڑکوں پر ایک چکر لگایا۔ کہہ رہے تھے:’’تمہیں اچھا لگ رہا ہے، دیکھ لو۔‘‘ کافی دیر گزر گئی۔ جب ہم لوٹے تو دیکھا آغا ہادی گلی کے نکڑ پر کھڑے تھے۔ زینب رو رہی تھی اور سونے کا نام ہی نہ لے رہی تھی۔

ماں جائے نماز لپیٹنے کے لیے اٹھیں۔ مجھے بھوک لگ رہی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میرا پورا بدن کمزوری سے کانپ رہا ہے۔ مشکل سے کمبل کو ایک طرف کیا تاکہ بستر سے نیچے اتر سکوں ۔ کمرا میرے سر کے ارد گرد گھوم رہا تھا۔ میں بستر کے ساتھ لگی سیڑھی  پر پڑے ہوئے جوتوں کو ڈھونڈ رہی تھی۔

مجھے ایسا محسوس ہو ا کہ میرے دل کی دھڑکن بند ہو چکی ہے ۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ مشکل سے اتنا ہی کہہ سکی تھی: ’’ماں ۔۔۔‘‘

ماں گھبرا کر دوڑیں اور میرا ہاتھ پکڑ لیا: ’’کیا ہوا میری جان ؟! تمہارے چہرے کا رنگ کیوں اڑا جا رہا ہے؟ تمہاری یہ حالت کیوں ہو گئی ہے؟!‘‘

میرا سارا بدن  بے حس ہو چکا تھا ۔ ایسا لگتا تھا کہ نہ دیکھ سکتی ہوں نہ کچھ سن سکتی ہوں ۔ ماں نے مجھے بستر پر لٹایا اور خود دوڑی دوڑی کمرے سے باہر نکل گئیں۔

 تھوڑی  دیر کے بعد میرے حواس بحال ہوئے۔ کچھ نرسیں میرے بستر کے پاس کھڑی تھیں ۔ مجھے ماں کی آواز سنائی دی۔ وہ کہہ رہی تھیں: ’’ منہ کھولو میری جان ، میری بیٹی ۔۔۔‘‘

میں نے منہ کھول دیا۔ وہ کسی پھل کا میٹھا رس تھا جو گھونٹ گھونٹ میرے گلے سے نیچے اتر رہا تھا۔ ہاتھ پاؤں میں دوبارہ جان دوڑتی محسوس ہوئی۔  میں نے پوری رغبت سے رس پی لیا۔ نرس نے میری ماں سے کہا: ’’اس کا فشار خون بہت کم ہے۔ کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے ، کمزوری سی ہو گئی ہے۔ اس کا ناشتہ اسے دے دیں تاکہ یہ کھا لے۔‘‘  ماں نے بستر کے ساتھ لگی سٹیل کی میز کھینچ کر میرے سامنے لگا دی اور روٹی اور مربہ کا لقمہ میرے منہ میں ڈال دیا۔ قحط زدہ لوگوں کی طرح میرا منہ اور ہونٹ کانپ رہے تھے ۔ایسا لگتا تھا کہ مجھے کچھ  کھائے پیے کئی سال گزر  چکے تھے۔ اس کے بعد میں نے کچھ اور لقمے منہ میں رکھے۔ دودھ کا گلاس میرے منہ کے آگے آگیا۔ گرم اور ابلے ہوئے دودھ کی خوشبو مجھے اپنی ناک کے نیچے محسوس ہوئی۔

’’میں نے اسے میٹھا کر دیا ہے۔‘‘

 ماں کا ہاتھ ، جس سے انہوں نے دودھ کا گلاس پکڑ کر میرے ہونٹوں پر رکھا ہوا تھا ، لرز رہا تھا ۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے گلاس کو پکڑ لیا۔ ہم دونوں کے ہاتھ لرز رہے تھے اور ان میں گلاس بھی کانپ رہا تھا اور میرے دانتوں سے ٹکرا رہا تھا۔ ماں نے گلاس کو مضبوطی سے پکڑا اور میری مدد کی تاکہ میں آہستہ آہستہ دودھ کو پی سکوں۔

ماں نے کہا: ’’میں تمہیں بتانا بھول گئی ، گذشتہ رات زینب کی ماں فاطمہ کا فون آیا تھا۔ تمہارا حال پوچھ رہی تھیں۔‘‘

میں جب فاطمہ کا نام سنتی تو دزفول کی یادوں میں کھو جاتی ۔ ہم لوگ بموں اور آگ کے سائے میں رہتے تھے ۔ اس کے باوجود  وہ دن ہماری زندگی کے بہترین دن تھے۔ ماں نے ہمت کر کے ایک بار پھر میرے منہ  میں روٹی اور مربے کا نوالہ ڈالا اور پوچھنے لگیں: ’’ٹھیک ہو گئی ہو؟ جان سنبھل گئی؟‘‘

میں ابھی سوچ رہی  تھی کہ میرا سارا بدن لرز رہا ہے۔ کچھ بول نہ سکتی تھی۔ بس یہی دل چاہ رہا تھا کہ میز پر پڑے سارے ناشتے کو جلدی جلدی نگل لوں۔ ماں نے کچھ نہ کہا اور آرام  اور ہمت سے لقمہ بنانے لگیں۔ میں مسکرا دی ۔ ماں نے پوچھا: ’’ کیا ہوا؟ کیوں ہنس رہی ہو؟!‘‘

میں نے جواب دیا: ’’دزفول کی یاد آگئی تھی۔ وہاں ہمارے کتنے اچھے دن گزر رہے تھے۔‘‘

ماں  جو ناشتے کے لقمے مسلسل میرے منہ میں ڈال رہی تھیں ، کہنے لگیں: ’’اچھا! تو یہ بات تھی؟!‘‘

میں نے کہا :’’نہیں ، خدا کی قسم سچ کہہ رہی ہوں۔‘‘

ماں مسکرا دیں اور کہا: ’’ٹھیک ہے، قسم نہ کھاؤ، مان لیا۔ دزفول اچھا شہر ہے۔ پچھلے سال جب ہم تمہارے گھر گئے تھے تو بہت اچھے دن گزرے تھے۔ یادش بخیر علی آغا یاد آ گئے۔۔۔!‘‘

میں نے لقمہ چبایا: ’’یادش بخیر ، ماں! آپ نے اچھا کیا جو آ گئی تھیں۔ بہت اچھے دن گزرے تھے۔ غروب کا وقت تھا۔ میں اور فاطمہ صحن کی سیڑھیوں پر بیٹھی سوچ رہی تھیں کہ رات کے کھانے میں کیا پکائیں۔‘‘

ماں نے کہا:’’تم نے لوبیا پکایا تھا۔‘‘

’’مجھے اچھا لگتا ہے ۔ فاطمہ نے کہا  بھی تھا کہ رات کو کھانا ثقیل ہے۔ میں نے کہا  تھا کوئی حرج نہیں۔‘‘

’’علی آغا کو بھی لوبیا کتنا اچھا لگتا تھا۔‘‘

میں نے ایک بڑا پیالہ لوبیے کا بھر کر دیگچے میں ڈالا تھا۔ اس وقت میری اپنی ہنسی نکل گئی تھی۔ میں نے سوچا آج شب بد قسمتی سے علی آغا بھی آ جائیں ۔ بے چارے نہ فقط لوبیا بلکہ انہیں ہر وہ غذا اچھی نہیں لگتی تھی  جو معدے میں ہوا پیدا کرتی ہے۔ جس دن وہ کھا لیتے سخت اذیت سے گزرتے۔ معدے میں تکلیف ہونے لگتی۔ یاد  آیا، فاطمہ نے تین یا چار بڑے پیاز کاٹے تھے ۔ ہم آنسو بہا رہے تھے اور باتیں کر رہے تھے۔ فاطمہ نے پیاز سرخ کیے اور میں نے قیمے کو بھونا۔ میں اپنے اور فاطمہ اپنے   چولہے پر کھانا پکاتی تھیں ۔دیگچے  کا ڈھکن اٹھا کر دیکھا۔ یا خدایا! لوبیا دگنا تگنا ہو چکا تھا۔ میں نے ہنس کر کہا: ’’فاطمہ، یہ سارالوبیا مجھے اور تمہیں کھانا ہے؟!‘‘ گلی سے شور کی آواز آرہی تھی۔ ہمسایوں کے گھر مہمان آئے ہوئے تھے۔ فاطمہ نے حسرت سے کہا: ’’کاش ہمارے ہاں بھی مہمان ہوتے!‘‘ ہم منصوبہ بنا رہی تھیں کہ کہیں سے مہمانوں کو چرا  لائیں کہ اتنے میں آپ لوگ آگئے تھے۔

ماں نے کہا:’’بجلی کٹ چکی تھی۔ ہم تمہارے بابا کی گاڑی پر آئے تھے۔ عید کا دسواں دن تھا کہ اچانک ہمارا ارادہ  بن گیا۔ تمہارے چچا بھی آگئے تھے۔ میں ، نفیسہ اور رؤیا پیچھے بیٹھ گئیں۔ ہمیں راستے کا پتہ نہ تھا۔ کتنا ڈھونڈا تھا، تب جا کر پانصد دستگاہ ملا ۔ فتح مبین چوک تک تو پہنچ گئے تھے مگر گلستان یازدہم نہ ملا۔ ہم اندھرے میں ہر طرف گھوم رہے تھے۔ جو دکھائی دیتا، اسی سے پوچھتے کہ گلستان یازدہم  ([5]) مکان نمبر 215 کہاں ہے۔ ہر جگہ اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا ۔ تمہارے بابا گاڑی کی روشنیاں جلانے کی ہمت نہیں کر پا رہے تھے۔ اچانک ہم نے دیکھا کہ  ایک گاڑی روشنیاں جلائے ہمارے پیچھے  پیچھےآ رہی ہے۔ تمہارے بابا ٹھہر گئے۔ ہم نے دیکھا تو علی تھا۔‘‘

’’ہم صحن میں بیٹھے آپ کی باتیں سن رہے تھے۔ لیکن ہمیں یقین نہیں آرہا تھا۔ ماں نے کہا:’’وہ کتنا اچھا وقت تھا۔‘‘

میں نے جیسے ہی دروازہ کھولا تو مجھے ایسے لگا کہ مجھے دنیا مل گئی۔ میں  خوش تھی کہ میرے بنائے ہوئے لوبیا نے پیٹ خراب نہ کیا۔

ماں ہنس پڑی: ’’شیطان کہیں کی! پھر تم نے دیکھ بھی لیا تھاکہ میں نے اپنے داماد کے لئے  چلو اور خورشت ([6]) بنایا۔”

ماں دستر خون سمیٹتے ہوئے کہنے لگیں: ’’اس سے اگلے دن تمہارے بابا ، چچا اور علی اپنی ڈیوٹی والے علاقے میں جبکہ ہم امام زادہ سبز قباء  پر چلے گئے تھے۔‘‘

میں نے ایک آہ بھری۔

جب آپ  سب سیزدہ بدر([7])  پر واپس لوٹ گئے   تو ایسا لگا تھا کہ دنیا جہاں کا بوجھ میرے سر پر ڈال دیا گیا ہے۔ میں اتنی بے چین تھی کہ علی آغا میری وجہ سے ڈیوٹی پر نہ گئے ۔ آپ کے ہمدان پہنچنے تک وہ مجھ سے باتیں کرتے رہے اور ہنستے رہے۔ رات ہوئی تو کہنے لگے: ’’میرا خیال ہے کہ تمہارے بابا اور ماں گھر پہنچ چکے ہوں گے۔ جاؤ اور سکینہ بیگم کے گھر فون کرو اور جتنی دیر چاہو باتیں کر لو۔‘‘

ماں نے ناشتے والی ٹرے اٹھالی اور کمرے سے باہر چلی گئیں۔ میری حالت کچھ بہتر ہو چکی تھی۔ میں نے کھڑکی کی طرف نگاہ کی۔ چھوٹی چھوٹی اور خوبصورت برف پڑ رہی تھی۔ صبح ہو چکی تھی اور آسمان روشن تھا۔ میرا دل چاہتا تھا کہ جتنی جلدی ہو سکے جاؤں اور اپنے بیٹے کو دیکھوں۔ میں نے زیر لب کہا: ’’علی آغا ، آپ نے میرے اور اپنے بیٹے کو دیکھا ہے؟‘‘

میں دل شکستہ ہو چکی تھی۔ جب یہ خیال  آتا کہ علی آغا میرے بچے کے والد اس دنیا میں نہیں ہیں تو میرا دل بھر آتا اور جسم لرز جاتا۔ یعنی کیا میں اکیلی اسے پال سکوں گی؟ میرا دل اپنے  بچے کے لئے جل رہا تھا۔ دوبارہ علی آغا کو کمرے میں دیکھا۔ وہ ہنس رہے تھے۔ جدھر اپنی آنکھیں گھماتی وہ وہیں کھڑے ہوتے: ماں کے بستر کے پاس، کھڑکی کے پاس، میرے بستر کے ساتھ، کھڑکی کے پیچھے، برف کی خوبصورت بارش کے نیچے۔ ایسا لگتا تھا کہ علی آغا برف کے اولوں کی طرح ہر سو بکھرتے جا رہے  ہیں۔ کمرے میں خوشبو پھیل چکی تھی؛ جیسی لیموں کے درخت سے خوشبو آتی ہے۔ کمرہ بہار کی خو شبو سے بھر چکا تھا۔ بہار کی خوشبو یعنی علی آغا کے جسم کی خوشبو۔ میں نے کہا: ’’علی آغا، آپ ہی کو ہم دونوں کا خیال  رکھنا ہے۔ میں اکیلی یہ سب کچھ نہیں کر سکتی۔‘‘

مجھے محسوس ہوا علی آغا ہنس رہے تھے اور ہمیشہ کی طرح سر ہلا کر کہ رہے تھے:’’بسر و چشم، میری جان!‘‘

اس خیال کے آتے ہی میں نے سکھ کا سانس لیا۔ میں ہلکی پھلکی اور خوش و خرم ہو چکی تھی۔

صبح کے ساڑھے گیارہ بجے تھے مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ میں اتنا سو چکی ہوں۔ ماں کمرے میں نہ تھیں۔ سفید سوسن کے پھول پانی کے پلاسٹک کے جگ میں رکھے فرج کے  اندر پڑے تھے۔ برف تھم چکی تھی لیکن آسمان ابھی تک ابر آلود تھا ۔ کمرے کے بنفشی پردے چھوٹے چھوٹے نارنجی اور زرد پھولوں سے بھرے ہوئے تھے اور  دونوں طرف سے ایک سلیقے اور ترتیب کے  ساتھ سمیٹ دیے گئے تھے۔ کمرہ صاف ستھرا ،مرتب  اور خوشبو دار تھا۔ میں اٹھی اور اپنے بستر پر بیٹھ گئی۔ میری حالت بہتر تھی۔ نیند بھی نہیں آ رہی تھی  اور درد کا احساس بھی نہیں ہو رہا تھا۔ میں کھڑکی اور اس کے خوبصورت پردوں کو ٹک ٹک دیکھنے لگی۔ پردے مجھے آشنا سے لگتے تھے۔ مجھے یاد آ گیا تھا کہ دزفول والے گھر کے لیے بھی ہم نے اسی طرح کے پردے خریدے تھے۔

میں بستر سے نیچے اتری اور کھڑکی کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔ پردوں کو ہاتھ میں لیکر سونگھنے لگی۔ ان میں سے دزفول کی خوشبو آ رہی تھی۔

میں واپس آ کر دروازے کی چوکھٹ پر کھڑی ہو گئی۔ ہسپتال کی راہداری لمبی، صاف ستھری  اور خالی تھی۔ ماں نرسنگ اسٹیشن کے پاس کھڑی  ٹیلیفون پر باتیں کر رہی تھیں۔ مجھے دیکھا تو مسکرا دیں اور میری طرف ہاتھ ہلانے لگیں۔ میرا گلابی لباس گھسٹ رہا تھا۔ ماں نے فون رکھا اور میری طرف آ گئیں۔ قریب آتے ہی کہا: ’’میری بچی، جاگ گئی ہو؟‘‘ میں نے مسکرا کر کہا: ’’ بہت سوئی ہوں۔‘‘  ماں نے ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگیں: ’’صبح سے فون کالز  کا جواب دے رہی ہوں۔ میں نے کہا تم سوئی ہوئی ہو، فون کو کمرے میں متصل نہ کریں۔‘‘

میں نے تعجب سے پوچھا: ’’مگر ہوا کیا ہے؟ ماں مجھے بیت الخلاء کے سامنے لے گئیں۔‘‘

’’منہ دھو لو۔ حالت ذرا اچھی ہو جائے گی۔ دھویا ہے؟‘‘

میں نے منہ نہیں دھویا تھا۔ ماں نے بیت الخلاء کا دروازہ کھولا۔ ہر چیز سفید تھی اور اتنی صاف کہ چمک رہی تھی۔ میں نے ٹونٹی کھول دی۔

ماں نے کہا: ’’خاندان والوں، دوستوں اور جان پہچان والے لوگوں کے ساتھ ساتھ اجنبی لوگ بھی جنہیں میں نہیں جانتی، فون کر کے احوال پرسی کر رہے ہیں؛  چچا ، چچی  ،ماموں ۔۔۔‘‘

 میں آئینے میں اپنے آپ کو دیکھ رہی تھی! اڑا ہوا رنگ اور بے حال۔ میری آنکھوں کے نیچے گڑھے پڑ چکے تھے۔ منہ دھویا تو ایسا  لگا کہ ایک عرصے سے مجھے کسی چیز کا ہوش ہی نہیں  ہے۔ میں بیت الخلاء سے باہر آ گئی۔

’’ابھی آپ کس سے باتیں کر رہیں تھیں؟‘‘

’’وحید، تمہارے چچا کا بیٹا۔‘‘

وحید کا نام سنتے ہی میں نے بے اختیار  زیر لب کہا: ’’وحید تھا، بے چارہ۔‘‘

میں بستر پر بیٹھ گئی ۔ مجھے وہ رات یاد آگئی تھی جب علی آغا  وحید کو دزفول لائے تھے۔

ماں نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا:’’لیٹ جاؤ میری بیٹی۔‘‘

میں نے پوچھا: ’’میں کب تک یہاں ہوں؟ بچے کو کیوں نہیں لا رہے؟!‘‘

ماں نے جواب دیا: ’’کل صبح تک۔‘‘

میں  پریشان ہو گئی: ’’اس کی حالت ٹھیک ہے؟ کوئی مشکل تو نہیں  بن گئی؟ سچ بتائیں، ماں!‘‘

ماں نے مجھے کمبل اوڑھا دیا۔

’’تم پھر بچوں جیسی باتیں کر نے لگیں! خدا کی قسم ! سچ وہی ہے جو میں نے تمہیں بتا دیا۔ کیا میں تم سے جھوٹ بولوں گی؟‘‘

میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔ ماں نے تولیے سے میرا چہرہ خشک کیا ، میرا سکارف درست کیا اور قمیص کی آستینیں نیچے کیں۔

 میں ان کے گلے  سےلپٹ گئی اور انکی گردن کے نیچے بوسہ دیا۔ کتنی دلفریب  خوشبو تھی۔

’’ظہر کے بعد تمہاری عیادت کےلئے آئیں گے۔‘‘

ماں بستر کو درست کرنے میں  مشغول گئیں ۔

 کتنا بر ا اور کٹھن وقت تھا۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ علی آغا کی غیر موجودگی  میں اس بستر پر سوؤں گی۔ میں ہر وقت انہی دنوں کے بارے میں فکر مند رہتی تھی۔ علی آغا  کو بھی دیکھتی  تھی۔ میں نے کتنے خوشگوار دن سوچ رکھے تھے۔ سوچا بھی نہ تھا کہ میرے بچے کی ولادت پر سارے عزادار اور گریہ کناں ہوں گے۔ کیا ان دنوں  سے  زیادہ سخت  بھی  کوئی دن ہو سکتا ہے؟

ماں نےپوچھا: ’’جاگ رہی ہو بیٹی؟‘‘

علی آغا کی جگہ کتنی خالی خالی تھی ۔ دل ان کے لیے کتنا تڑپ رہا تھا۔ ان کے گرم ہاتھوں کی کتنی ضرورت تھی مجھے۔ جی بھر کر رونے کے لیے دل  کس قدر ترس رہا تھا۔

ماں: ’’اتنی جلدی سو گئی  تھیں؟‘‘

میں نے آنکھیں نہ کھولیں حتی کہ جواب  بھی نہ دیا ۔ اگرچہ میری آنکھیں بند تھیں مگر پھر بھی مجھے معلوم ہو گیا کہ ماں بستر پر بیٹھی ہیں۔ ان کے پرس کی زنجیری کھلنے کی آواز مجھے سنائی دی۔ میں جب سے ماں بنی تھی، اپنی ماں کے ساتھ میری محبت اور وابستگی دو چند ہو چکی تھی۔ میرا دل ان کے لئے  کڑھتا تھا کہ میری طرف سے انہیں ذرہ برابر تکلیف ہو۔ میں نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں اور کنکھیوں سے ماں کو دیکھنے لگی ، ایسے کہ انہیں پتہ نہ چلے۔ اگرچہ وہ ایک طرف کو ہو کر بیٹھی تھیں ، پھر بھی میں دیکھ رہی تھی کہ کیسے تصویر کو ہاتھ میں لیے مسلسل اسے دیکھے جا رہی تھیں اور ان کے کندھے لرز رہے تھے۔ پرس کو انہوں نے اپنے سینے پر رکھا ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ زیر لب کچھ کہہ رہی ہیں۔ میں نے خیال کیا کہ حتماً علی آغا کی تصویر  ہو گی۔ میرا دل ان کے لیے کتنا بے قرار ہو چکا تھا ۔ عجیب سا بوجھل پن  محسوس ہو رہا تھا۔ لگتا تھا کہ ان سے ایک لمحے کی دوری بھی میرے بس  سے باہر ہے۔ انہیں  نہیں دیکھوں گی تو مر جاؤں گی۔ دل چاہتا تھا کہ جیسے بھی ہو وہ تصویر ماں کے ہاتھ سے لے لوں۔ میں نے پو چھا: ’’ماں ، کیا کر رہی  ہیں؟‘‘

ماں چونک گئیں اور تیزی سے اپنے پرس کو تکیے کے نیچے رکھ دیا۔

میں نے پوچھا: ’’علی آغا کی تصویر تھی؟ مجھے دیں ، میں بھی دیکھوں۔‘‘

ماں نے جواب  نہ دیا اور تیزی سے اپنے آنسو پوچھنے لگیں۔ میں نے روہانسی ہو کر کہا: ’’ماں، خدا کی قسم ! میرا دل علی کے لئے بہت بے تاب ہے۔‘‘

ماں نے بات کا رُخ پھیرتے ہوئے کہا: ’’تصویر کون سی تصویر؟!‘‘

ان کی آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں۔ وہ ہمیشہ اپنے پرس  میں ساتھ رہنے والی ایک البم رکھتی تھیں جس میں میری ، رؤیا، نفیسہ ، بابا ، ماموں اور اپنے والدین کی تصویر یں رکھی ہوئی تھیں۔ اب ایک سال ہونے کو  آیا تھا کہ علی  آغا کی تصویر کا بھی اس البم اضافہ ہو چکا تھا۔

میں نے کہا: ’’آ پ کو خدا کی قسم، تصویر مجھے دے دیں ، میں بھی تو دیکھوں۔‘‘

ایسا لگتا تھا کہ ان کا دل بھی میرے لیے کڑھ رہا تھا ۔ انہوں نے با دلِ نخواستہ پرس کو اپنے سرہانے کے نیچے سے اٹھایا  اور میری طرف بڑھا دیا۔ علی آغا اپنی بھوری داڑھی اور مونچھوں کے پیچھے مسکرا رہے تھے ۔ یہ وہی تصویر تھی جس میں وہ اپنے فوجی دوستوں  کے ساتھ کھڑے تھے  اور سب نے اپنی اپنی گردنوں پر سیاہ گلوبند لپیٹ رکھے تھے۔ ماں نے علی آغا کی تصویر کو چھوڑ کر  باقی حصہ کاٹ دیا تھا تاکہ تصویر  چھوٹی ہو جائے اور صرف علی آغا رہ جائیں۔ ماں نے وہ تصویر میری تصویر کے ساتھ رکھ دی تھی۔ میں نے کہا: ’’یہ تصویر انہوں نے پچھلے سال کھنچوائی تھی۔ پچھلے سال ایام فاطمیہ ( جمادی الثانی ) کے زمانے میں جب وہ لوگ آپریشن کربلا 5میں محوِ جنگ تھے۔ اس رات علی آغا جب گھر آئے تو ان کے ہاتھ میں کالے کپڑے ایک تھان بھی تھا ۔ آتے ہی کہا:’’جان ، گلو بند سی سکتی ہو؟‘‘ میں نے کپڑےکا تھان ان کے ہاتھ سے لے لیا۔ کپڑا اچھی کیفیت کا نہ تھا۔ میں نے تعجب سے پوچھا:’’یہ سارے گلو بند ؟!‘‘ انہوں نے کہا:’’یونٹ کے سارے لڑکوں نے آپس میں یہ طے کیا ہے کہ اس سال سب لوگ ایام فاطمہ زہراؑ کے احترام میں سیاہ گلو بند پہنیں گے۔ ’’میں نے تھان کھول کر کہا: ’’ناپ آپ خود ہی بتا دیں۔‘‘  پہلے کے ایک دو گلوبند ہم دونوں نے مل کر کاٹے۔ اس کے بعد آغاہادی اور فاطمہ بھی آگئے۔ وہ کاٹتے جا رہے تھے اور میں سلائی مشین سے گلوبند کے دونوں کناروں  کو اندر کی طرف موڑ کر ٹانکے لگاتی جا رہی تھی۔ اس رات ہم صبح تک بیٹھے کام کرتے رہے۔ اگلی صبح جب علی آغا اور آغا ہادی چلے گئے تو میں اور فاطمہ باری باری مشین پر بیٹھنے لگیں۔ ایک جگہ جاکر نلکی ٹوٹ گئی۔  نلکی کی تلاش میں سارا علاقہ چھان مارا نلکی نہ ملنی تھی نہ ملی۔  آخر کار مجبور ہو گئی کہ ہاتھ سے سینے والا دھاگہ خریدوں۔ بہت مشکل تھا۔ مشین سی نہیں رہی تھی۔ دھاگہ توڑ دیتی اور سوئی  ٹوٹ جاتی۔ کتنے عذاب سے ہم نے گلوبندسیے  ۔ رات جب علی آغا آئے تو بہت خوش ہوئے ۔ انہوں نے ایک گلوبند اٹھایا  اور آغا ہادی کی گردن کے گرد لپیٹ دیا۔‘‘

میرے آنسو بہہ رہے تھے اور میں ماں کو سارا واقعہ سنا رہی تھی۔ ماں نے گیلی انگلیوں سے اپنی آنکھیں صاف کیں۔ میں نے لیٹ کر تصویر پر آنکھیں  جما دی تھیں۔ ماں نے کہا:’’ کافی ہے میری بیٹی!‘‘

میں نے تصویر کو اپنے سینے پر رکھا اور ماں سے کہا:’’وعدہ کرتی ہوں کہ روؤں گی نہیں۔‘‘

میں ایک لحظے کے لیے بھی اس وعدہ پر قائم نہ رہ سکتی تھی۔ ماں نے تصویر مجھ سے لے لی ۔ ایک نرس کھانے کی ریڑھی لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔

 اس نے سلام کیا اور خوش روئی سے کہنے لگی! ’’خانم پناہی، آپ کی حالت کیسی ہے؟‘‘ میں نے تیزی سے اپنے آنسو صاف کیے۔ نرس نے تعجب سے  میری طرف دیکھ کر پوچھا: ’’کچھ ہوا ہے؟‘‘

ماں، جو اپنے بٹوے کو دستی بیگ میں رکھ رہی تھیں ، ناراضگی کے ساتھ نرس سے پوچھنے لگیں: ’’نرس بیٹی ،  تجھے اللہ کا واسطہ یہ بتاؤ کہ غم سے بھرا ہو دودھ بچے کے لئے کتنا خطر ناک ہے؟‘‘

نرس نے میری طرف دیکھا اور سرزنش کرتے ہوئے کہنے لگی: ’’بچے کی کمزوری اور بے چینی کا باعث بنتا ہے۔‘‘

پھر اس نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھتے ہوئے سمجھایا: ’’خانم پناہی، اب آپ کو دو لوگوں کے لیے اپنا خیال رکھنا ہو گا۔‘‘

میں نے کہا:’’آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ بس ایسے ہی، دل ذرا پریشان تھا۔ میں نے اپنے آنسو پونچھے اور خود کو خوش باش ظاہر کرنے لگی۔ نرس نرس نے یخنی اور چلو کباب([8]) پر مشتمل کھانا بستر کے سامنے سٹیل کی میز پر چن دیا  اور کہنے لگی:’’اب پوری رغبت سے کھانا کھائیں اور اس کے بعد تھوڑا آرام کریں۔ دو بجے کے بعد عیادت کا وقت ہے۔ مجھے یقین ہے آپ کی حالت کافی بہتر ہو جائے گی۔‘‘

دو جنوری کا دن تھا اور میری آنکھیں گول گھڑی پر ٹکی ہوئی تھیں ۔ دل چاہتا تھا کہ گھڑی جلد از جلد دو بجا دے۔ پچھلی رات سے اب تک سب گھر والوں کے لیے دل بے تاب ہو چکا تھا۔ منصورہ بیگم اور آغا ناصر ایک بہت بڑے گلدستے کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے ۔ مجھے دیکھتے ہی مسکرانے لگے، لیکن ان کی آنکھیں سرخ اور متورم تھیں۔ میں جانتی تھی کہ علی آغا کی غیر موجودگی میں اپنے پوتے کو دیکھنا ان کے لیے کتنا گراں تھا۔  انہیں دیکھتے ہی غم میرے گلے میں اٹک گیا۔ نہ اوپر جاتا نہ نیچے آتا۔

میرا دل منصورہ بیگم اور آغا ناصر کے لئے بے چین تھا۔ سیاہ لباس ابھی تک ان کے جسم پر موجود تھا۔ ابھی تک ان کے بیٹے امیر کا داغ تازہ تھا  اور علی آغا کا زخم ان کے کلیجے کو جلا رہا تھا۔ میرا دل ان کے لیے مرا جا رہا تھا۔ میں جانتی تھی کہ مجھے اس حالت میں دیکھنا انہیں مزید غمگین کر  دے گا۔ یہ میاں بیوی کتنا حوصلہ رکھتے تھے ، میرے ہاں بیٹے کی ولادت کو ابھی ایک ہی دن ہوا تھا کہ میرا دل اس کے لیے بے تاب ہو چکا تھا۔ نہ جانے منصورہ بیگم اور آغا ناصر کیسے صبر کر رہے تھے۔ وہ لوگ بستر کے پاس پڑی پلاسٹک کی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر گزری تو آغا ناصر نے ہمیشہ کی طرح اپنی خوش مزاجی کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ خوش ہوکر کہنے لگے: ’’ہم اپنے بچے کو دیکھ آئے ہیں۔ بالکل علی کا بچپنا ہے ، ہو بہو اسی کی نقل ہے۔‘‘

منصورہ بیگم بچے کی بھوک سے پریشان  ہو رہی تھیں۔ کہنےلگیں: ’’میں نے کہا بھی کہ بچے کو لے آئیں تو تم اسے دودھ پلا دو۔ میری بیٹی ، دھیان رہے کہ پہلا دودھ ضائع نہ کرنا۔ اگر زبردستی بھی کرنی پڑے تو اسے حتماً پلانا  تاکہ اس کی ہڈیاں بھی علی کی طرح  مضبوط ہو جائیں۔‘‘

تھوڑی دیر بعد کمرہ مہمانوں سے اتنا بھر گیا  کہ بہت سے مہمانوں کو ماں کے بستر پر بیٹھنا پڑا۔  میری احوال پرسی کے بعد  سب لوگ بچے کے بارے پوچھتے تھے۔ چند منٹ ٹھہرتے اور پھر بچے کو دیکھنے کے لیے نوزائیدہ بچوں کے کمرے کی طرف چلے جاتے۔ ماں ، رؤیا اور بابا مٹھائی سے مہمانوں کی خاطر کر رہے تھے۔ نفیسہ جو بچے پر جان دیتی تھی، جب سے آئی تھی نو زائیدہ  بچوں والے کمرے کی کھڑکی سے ہلنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی ۔

فریج اور میز پھولوں، مٹھائیوں  اور ساندیس([9]) سے بھر چکے تھے۔ بہت سے مہمان، بچے کو دیکھنے کے بعد جب واپس جاتے تو نو زائیدہ بچوں والے کمرے کے شیشے کے پیچھے سب کو بتاتے ۔

ان کی باتیں سن کر میرا دل چاہتا تھا کہ جلدی جلدی اپنے بچے کو دیکھوں۔ چار بجے کے قریب لاؤڈ سپیکر پر اعلان ہوا کہ ملاقات کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ مہمان ایک ایک کر کے خدا حافظ کہتے ہوئے چلے گئے۔ فقط آغا ناصر، منصورہ بیگم، بابا اور ماں کمرے میں رہ گئے تھے۔ آغا ناصر خوش اخلاق اور جلدی گھل مل جانے والے انسان تھے۔وہ بابا کو وہ قصہ سنا رہے تھے جب وہ لوگ دزفول میں ہمارے گھر آئے تھے۔ وہ اتنی دلچسپی سے اور ہنس ہنس کر بیان کر رہے تھے کہ سب ان کی گفتگو میں کھوئے ہوئے تھے۔

وہ کہہ رہے تھے:

میں نے ہسپتال سے وقت لیا ہوا تھا اور اپنی آنکھوں میں اتر آنے والے سفید موتیے کا  آپریشن کروانا چاہتا تھا۔ صبح جیسے ہی نیند سے بیدار ہوتا تو رات گئے تک منصورہ بیگم  غصے سے بڑ بڑاتی  اور میرا سر کھا تی رہتی کہ لوگوں کی بیٹی  بموں اور میزائلوں میں گھری  ہوئی ہے۔ آغا ناصر، وہ بیچاری ہمارے پاس امانت ہے۔ آپ جائیں اور اسے لے آئیں۔ اتنا میرے پیچھے پڑی کہ ہم ہسپتال  جانے کہ بجائے دزفول آ دھمکے۔ میں نے بہتیرا کہا  کہ بیگم مجھے کچھ نظر نہیں آتا، میں اندھا ہو رہا ہوں۔ البتہ جو تھوڑا بہت نظر آتا تھا وہ اتنا زیادہ پریشان کن نہ تھا کہ اس کی خاطر تمہاری بات نہ مانوں اور تمہیں تکلیف میں ڈال دوں۔ خلاصہ یہ کہ یا علی کہہ کر نکل پڑے۔ جب میں پہنچا تو رات ہو چکی تھی مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا ۔ علی کے دوستوں نے گلی میں مجھے دیکھ لیا تھا ۔ وہ مجھے اس کے گھر لے گئے  دروازہ کھٹکھٹایا  تو اسی پیاری سی لڑکی نے دروازہ کھولا اور سلام کیا۔ میں نے پوچھا: ’’کون ہو؟‘‘ تو کہنے لگی: ’’آئے ہائے ، چچان جان! میں ہوں فرشتہ، آپکی بہو۔‘‘ میں نے کہا: ’’اگر تم میری بہو ہو تو یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘ اس نے کہا: ’’چچا جان یہ آپ کے بیٹے علی آْغا کا گھر ہے۔‘‘ میں نے کہا: ’’اچھا اچھا! میرے بیٹے کا گھر یہ ہے؟! تیار ہو جاؤ۔ اپنا مال اسباب اکٹھا کرو۔ ہمیں ہمدان جانا ہے۔‘‘ نہیں معلوم کہ اس  نیک بخت لڑکی نے کیسے اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے مجھے رام کر لیا کہ مجھے معلوم ہی نہ ہو سکا، کب گھر کے اندر چلا گیا  اور شام کے کھانے پر بیٹھ گیا۔

خلاصہ یہ کہ آدھی رات کو ہم سونے لگے۔ گھر نہ تھا جہنم تھا ! میں نے کہا: ’’چاہے سردی ہی کیوں نہ ہو، میں تو صحن میں سوؤں گا۔ یہاں گرمی ہے۔‘‘ یہ کہنے لگی: ’’چچا جان، صحن میں آدھی رات کے وقت خطرہ ہے۔ رات کو بمباری بھی ہو سکتی ہے۔‘‘ میں نے کہا:’’بالکل نہیں، بمباری نہیں ہو گی۔‘‘ خلاصہ یہ  کہ بہو اور ہمارے درمیان بحث ہوتی رہی۔ بالآخر اسے ہار ماننا پڑی اور صحن میں پانی چھڑک کر جھاڑو لگا دیا، لیکن پھر بھی اپنی بات پر اٹکی رہی: ’’چچا جان، یہاں بچھو بھی ہوتے ہیں!‘‘ میں نے کہا: ’’ہونہہ! مجھے بچھوؤں سے  ڈراتی ہو؟‘‘  اب آپ لوگوں کو کتنا تنگ کروں۔ رات کو میں سو گیا اور صبح جلدی بیدار ہو گیا۔ نماز کے بعد گلی میں بنے ہوئے باڑے سے بالائی اور تازہ روٹی لے آیا۔ جیسے ہی صحن میں قدم  رکھا  تو دیکھا کہ ہماری پیاری بہو  پاؤں میں ایک چپل پہنے  ہمارے بستر پر کھڑی ہے۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگی: ’’چچا جان، بچھو! میں نے کہا تھا نا کہ یہاں نہ سوئیں۔ دیکھیں، کتنا بڑا بچھو ہے!‘‘ میں نے کہا: ’’ارے بہو: ٹھہر جاؤ، اسے نہ مارو۔ اگر یہ بے زبان پچھلی رات میرے بستر میں تھا اور اس نے مجھے کچھ نہیں کہا تو تم بھی اسے کچھ نہ کہو۔تم نے اس کو جان تو نہیں دے ہوئی نا؟ خلاصہ یہ کہ یہ سارا قصہ اس بات کی خاطر سنانا پڑا کہ میں جو اس بہو کو لینے گیا تھا، اسے وہاں سے لانے کی بجائے خود ہی وہاں ٹک کر بیٹھ گیا۔‘‘

 ایک نرس کمرے میں داخل ہوئی اور دوبارہ ملاقات کا وقت ختم ہونے کا اعلان کیا۔ چچا ناصر خوش خوش اور بابا  کے ساتھ گپ شپ لگاتے باہر چلے گئے۔ ان کے ساتھ منصورہ بیگم بھی چلی گئیں۔

کمرے میں پھولوں کی خوشبوپھیل چکی تھی۔ کمرے میں جہاں تک نظر  جاتی تھی گل مریم ،سوسن اور لونگ کے پھولوں خوبصورت گلدستے اور تاج پڑے نظر آ رہے تھے۔ اس رات مجھے پچھلی رات کی نسبت اچھی نیند آئی۔ اگلی صبح ناشتے کے بعد ماں نے مقنعہ اور مانتو پہنے اور چادر اوڑھنے میں مدد کی۔ ماں کہہ رہی تھیں: ’’تمہارے بابا بھی آئے ہیں اور ہال میں منتظر ہیں۔‘‘

دو نرسیں اپنے ہاتھوں میں پھولوں کی ایک ٹوکری، ایک قرآن مجید اور ایک گفٹ پیک لیے میرے پاس کھڑی تھیں۔ ہسپتال کے ایم ایس نے حکم دے رکھا تھا کہ وہ ہمارے احترام میں مبارک باد کے لیے ہمارے ہمراہ گھر تک جائیں گے۔ میں ویل چیئر پر  بیٹھی اور دو نرسوں نے چئیر کو ہال میں دھکیلنا شروع کر دیا۔ بابا آگے بڑھے۔ ماں  بچے کو لینے چلی گئی تھیں۔ اگرچہ میں نے کافی زیادہ کپڑے پہن رکھے تھے لیکن اس کے باوجود  جیسے ہی ہسپتال سے نکلی سردی لگنا شروع ہو گئی۔ ہسپتال کے باہر برف باری ہو رہی تھی اور آس پاس برف جم بھی چکی تھی۔ ہوا شدید سرد تھی۔ میں دو نرسوں کی مدد سے ویل چئیر سے اتری اور ہسپتال کے دروازے پر کھڑی گاڑی  میں بیٹھ گئی۔ میں گاڑی کے عقبی آئینے سے  ماں کو دیکھ رہی تھی  جو بچے کو  ایک پارچے میں لپیٹے بغل میں لیے احتیاط سے  ہسپتا ل کی سیڑھیاں اتر رہیں تھیں۔ ڈرائیور انتظار کر رہا تھا۔ بالآخر بابا کی گاڑی حرکت میں آئی اور آگے آگے چل پڑی ۔

ایسا لگتا تھا کہ درختوں ، چھتوں فٹ پاتھوں اور شہر کے چوراہوں کو سفید سپرے کے ذریعے رنگ کر دیا گیا ہے۔

ہر جگہ سفید اور ٹھنڈی تھی۔ ہم عباس آباد سٹاپ سے گزر کر میر زادہ عشقی روڑ پر آ گئے ۔ پرنالوں کے ساتھ ٹھنڈی ٹھنڈی قندیلیں لٹک رہی تھیں۔  لوگ احتیاط سے برف پر چل رہے تھے۔ جب ہم میر زادہ عشقی روڑ سے گزرے تو بے اختیار  میں نے اپنے سر کو گھمایا اور اپنی گلی کو دیکھنے لگی۔

گاڑی تیزی سے آگے بڑھی اور ٹیڑھی میڑھی سڑکوں سے نکل گئی۔ برف کے ٹکڑے گاڑی کے پہیوں کے نیچے آکر شڑاپ  شڑاپ کی آواز پیدا کر تے ہوئے ادھر ادھر اڑ رہے تھے۔ مجھے یہ آواز  اچھی لگتی تھی۔

ہم دیباج روڑ پر  آ گئے اور دیباج([10]) شہیدان ٹیکنکل کالج کے پاس سے گزرے۔ بابا کی گاڑی بہت مشکل سے کالج کے اپارٹمنٹ والے احاطے میں داخل ہوئی۔ گلی میں برف ابھی تک صاف نہیں کی گئی تھی۔ گاڑی نے بلاک 6 کے سامنے بریک لگائی۔ بابا گاڑی سے اتر کر ہماری گاڑی کی طرف آئے۔ ہمسائے  میرے سسر کے گھر کے سامنے سردی میں کھڑے تھے۔ بکرا جس کا سر قصائی کے ہاتھ میں تھا، مَیں مَیں کر رہا تھا۔ اس کی ٹھنڈی آواز میرے دل کو آزردہ کر رہی تھی۔ ایک ہمسایہ آتش دان پر حرمل پھینک رہا تھا۔ حرمل کا دھواں ٹھنڈی ہوا میں دھیرے  دھیرے اوپر کی طرف جا رہا تھا۔ ہمسایہ عورتیں آگے بڑھیں اور مجھے گلے لگا لیا۔ ایک ہمسائی مجھے دیکھ کر رونے لگی۔ بکرے کی آواز آنا بند ہو چکی تھی۔ میں نے دیکھا تو برف پر ایک سفید نشان نظر آیا  جس سے دھواں اٹھ رہا تھا۔

میرے سسر کا  اپارٹمنٹ چوتھی منزل پر تھا۔ اتنی سیڑھیاں چڑھنے کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ ایک نرس نے مجھے بازو کے نیچے سے پکڑ کر سہارا دیا۔ ہمسایہ عورتیں صلوات پڑھ رہی تھیں۔ پہلی منزل کی دیوار پر چہلم کا اعلامیہ چسپاں تھا،  جس پر علی آغا کی مسکراتی ہوئی تصویر تھی۔ میں رُک کر پڑھنے لگی: ’’پیر 4جنوری 1988؁، 8 تا 11:30 بجے، مسجد مہدیہ۔ زنانہ مسجد زنان خانے میں منعقد کی جائے گی۔‘‘

اعلامیے کے نیچے لکھا تھا: ’’شعبہ جاسوسی انصار الحسین ؑ آپریشن ڈویژن ہمدان، پسماندگان شہید امیر سازیان شہید علی چیت سازیان۔‘‘

میں نرسوں کے سہارے  دھیرے دھیرے سیڑھیاں چڑھ  رہی تھی ۔ باقی لوگ بھی میری وجہ سے آہستہ آہستہ سیڑھیاں طے کر  رہے تھے۔  میں منتظر تھی کہ علی آغا چوتھی منزل سے سیڑھیوں پر دوڑتے  ہوئے آئیں اور مسکرا کر مجھے کہیں: ’’زہرا خانم ، میری پیاری! سلامت رہو۔ میری پیاری! ۔۔۔۔میری پیاری! ۔۔۔‘‘

مجھے ان کا تکیہ کلام بہت اچھا لگتا تھا۔ میرا دل بھر آیا۔ نہ تو ضبط کر سکتی تھی اور نہ ہی رو سکتی تھی۔ ماں، بچے کو کپڑے میں لپیٹے جلدی سے سیڑھیا ں چڑھتی ہوئی اوپر چلی گئیں۔ سیڑھیاں ٹھنڈی تھیں۔ ہمسائے جو علی آغا کے بیٹے کو جلدی جلدی  دیکھنا چاہتے تھے، ہم سے پہلے چلے گئے تھے۔  میں نے نرس پوچھا : ’’ہم کون سی منزل پر ہیں ؟‘‘

’’ دوسری ۔‘‘

دوسری منزل کے چوپڑے پر بھی علی آغا کے چہلم کا اعلامیہ چپکا ہوا تھا۔ ہمیں دیکھ کر ایک بار پھر  وہ  اپنی بھوری  اور لمبی داڑھی والے چہرے کے ساتھ مسکرانے  لگے۔ میرے پاؤں لرز رہے تھے۔ آگے بڑھنا محال ہو رہا تھا۔ تیسری  منزل کے چوپڑے پر پہنچے تو میں رک گئی۔ اس منزل پر ایک ہمسایہ عورت نے اپنا دروازہ کھول دیا: ’’آئیے آئیے، تشریف لائیے۔ تھوڑا سستا لیں، پھر اکٹھے ہی اوپر چلتے ہیں۔‘‘  میری بجائے ایک نرس نے جواب دیا: ’’نہیں نہیں، بس ہم پہنچ گئے۔ یہ ایک منزل ہی تو ہے۔ جیسے تیسے ہو ، ہم چلی جائیں گے۔‘‘

چوتھی منزل سے صلوات کی آواز آ رہی تھی۔ حرمل کے دھوئیں کے مرغولے سیڑھیوں تک آ رہے تھے۔میرے پاؤں کمزوری سے لرز رہے تھے۔ میں سوچ رہی تھی کہ کیسے اپنے کمرے میں پہنچوں گی اور وہاں جا کر بیٹھ سکوں گی۔ جب ہم چوتھی منزل کے چوپڑے تک پہنچے تو ایسا لگا کہ میری تمام آرزوئیں پوری ہو گئی ہیں۔

گھر روشن اور گرم تھا۔پردے ہٹا دیے گئے تھے اور قالینوں پر ہلکی ہلکی دھوپ پڑ رہی تھی۔ ہیٹر کے پاس ایک بستر لگا دیا گیا تھا۔نرس نے وہاں لیٹنے میں میری مدد کی۔ میرا بیٹا مجھ سے پہلے ہی بستر پر سویا ہوا تھا۔ میں نے اس کے چہرے سے کمبل ہٹایا۔ اس کا چہرہ سرخ تھا۔ وہ سب سے بے خبر آرام سے سویا پڑا تھا۔میں بستر پر لیٹ گئی۔ اس وقت مجھے کتنا اچھا محسوس ہو رہا تھا! ہمسایہ عورتیں اور نرسیں کمرے میں بیٹھ گئیں۔

امیر اور علی آغا کی تصویریں دو چوکھٹوں میں لگی ہوئی تھیں۔ میں نے اپنے آپ سے کہا: ’’امیر بھیا، ہمارے بچے کو دیکھا؟ دیکھیں، کتنا خوبصورت ہے!‘‘

دوبارہ میری آنکھیں بھر آئیں، لیکن میں نے خود پر قابو پایا تا کہ آنسو آنکھوں سے چھلک نہ پڑیں۔

منصورہ بیگم اپنے بچوں سے والہانہ محبت کرتی تھیں؛ امیر، علی آغا، حاج صادق اور مریم سب ان کی آنکھوں کے تارے تھے۔

انہوں نے سفید سوسن کی دو ٹہنیاں دونوں چوکھٹوں پر رکھ دی تھیں۔ یہ انہی کا کام تھا۔ وہ پھولوں کی بھی عاشق تھیں۔ مریم چائے کا طبق لے آئی اور اسے سب کے درمیان گھمانے لگی۔ منیرہ خانم،حاج صادق کی بیگم، نے پلیٹیں چن دیں اور اس کے بعد مٹھائی کا طبق سب کے آگے کر دیا۔ ان چند ماہ میں اس گھر نے کیسے کیسے دن دیکھے تھے۔ کبھی مہمانوں سے پُر ہو جاتا اور کبھی آنسؤوں اور آہ و نالہ سے بھر جاتا۔

جس دن امیر شہید ہوا تھا، منصورہ بیگم اسی باورچی خانے میں علی آغا کے گلے سے لگ کر رو رہی تھیں، انہیں سونگھتی جا رہی تھیں، بوسے دیتی جا رہی تھیں اور قسمیں دیتی جا رہی تھیں: ’’علی بیٹا، تو نے امیر کو دیکھا ہے؟‘‘ علی آغا دھیمے دھیمے رو رہے تھے۔ میں ان دونوں کا وہ گریہ کبھی بھی نہیں بھول سکتی۔

نرسیں خداحافظ کہہ کر چلی گئی تھیں۔ ہمسائے چائے اور مٹھائی کھانے کے بعد ایک ایک کر کے آگے آتے، مبارکباد دیتے اور چلے جاتے۔ میں تھک چکی تھی۔ سر بوجھل ہو رہا تھا۔ جسم کمزور پڑ رہا تھا۔ درد بھی ہو  رہا تھا۔ میں بستر پر لیٹ گئی۔ پہلی بار بچے کے رونے کی آواز بلند ہوئی۔ ماں دوڑ کر آگے بڑھیں اور کپڑے میں لپٹے ہوئے بچے کو گلے لگا لیا: ’’بھوکا ہے؛ دیکھو، کیسے منہ بنا رہا ہے! شرارتی کہیں کا، ماں کو ڈھونڈ رہا ہے۔‘‘

ماں نے یہ جملہ کہا اور میرے پاس بیٹھ گئیں۔ پلیٹ سے مٹھائی کا ایک ٹکڑا اٹھایا اور میرے منہ میں رکھ دیا۔ مٹھائی  نے منہ کا ذائقہ اچھا کر دیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میری گئی ہوئی جان ہاتھ پاؤں میں واپس آ گئی ہے۔

منصورہ بیگم کسی پھل کا رس گلاس میں بھر کر لے آئیں اور میرے پاس کھڑی ہو گئیں: ’’اسے  پی لو، تمہارا دودھ میٹھا ہو جائے گا۔‘‘

ماں نے گلاس لے لیا اور گھونٹ گھونٹ کر کے مجھے پلانے لگیں۔ مجھے اپنی حالت کچھ بہتر محسوس  ہوئی۔ میں نے اپنے بیٹے کو گلے لگا لیا۔ وہ اپنا منہ اِدھر اُدھر گھمائے کچھ تلاش کر رہا تھا۔  سفید کپڑے میں وہ اور بھی زیادہ سفید اور چھوٹا نظر آ رہا تھا۔ وہ اتنا چھوٹا تھا کہ میں اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے ڈر رہی تھی۔ وہ جیسے ہی دودھ پینے لگا تو سب میرے گرد جمع ہو گئے اور اشتیاق سے اسے دیکھنے لگے۔ اس نے اپنے چھوٹے چھوٹے اور مضبوط ہاتھ کی مٹھی بنا لی تھی۔ میں نے آہستہ آہستہ اس کی مٹھی کھولی۔ اس کے ناخن لمبے اور گلابی تھے۔

منصورہ بیگم کہنے لگیں: ’’ماشاء اللہ، بالکل علی جیسا ہے! علی بھی جب پیدا ہوا تھا تو اسی طرح تھا، میرا بچہ؛ مظلوم!‘‘

میں باورچی خانے کی دیوار کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھی تھی، علی آغا اور امیر کی تصویروں کے بالکل سامنے۔ میرا بچہ بہت بھوکا تھا۔ وہ پوری رغبت سے دودھ پی رہا تھا۔ میں نے اس کی سفید ٹوپی پر اپنا ہاتھ پھیرا تو میری نظریں علی آغا کی تصویر پر جم گئیں۔ ان کی تصویر کے نیچے ان کے اپنے ہاتھ سے سرخ رنگ کی روشنائی میں یہ جملہ لکھا ہوا تھا: ’’دشمن کی خاردار تاروں کو وہی پھلانگ  سکتا ہے جو اپنے نفس کی خاردار تاروں میں نہ پھنسا ہو۔‘‘

بچے کو کھانسی لگ گئی۔ ماں نے اسے میری گود سے لے لیا۔ اسے دودھ سے اُچُّھو آ گیا تھا۔ ماں نے شہادت کی انگلی اس کی دونوں ابرؤوں کے درمیان رکھی اور دبانے لگیں۔ میں حواس باختہ ہو چکی تھی۔ بچہ سرخ ہو گیا تھا۔ ماں نے آہستہ آہستہ بچے کی پیٹھ تھپتھپانا شروع کر دی اور تھوڑی دیر بعد اسے بستر پرلٹا دیا۔ بچہ بغیر کوئی آواز نکالے سو گیا۔ اس نے اپنی مُٹھیاں سر پر رکھ دی تھیں۔ بھنے ہوئے آٹے کی خوشبو نے سارے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ماں اٹھ کر باورچی خانے میں چلی گئیں۔ ہر کوئی کام میں مصروف ہو گیا تھا۔

علی کے جانے سے ایک ہفتہ پہلے اٹھارہ یا انیس نومبر کا دن تھا، میرے پیٹ میں درد ہو رہا تھا۔منصورہ بیگم نے میرے لیے کاچی([11]) بنائی تھی۔ میں اسی جگہ بیٹھی ہوئی تھی۔ ظہر کا وقت تھا کہ علی آغا آئے اور کہنے لگے:  ’’ماں، مجھے بالائی کا ایک پیالہ دے دیں، شاید جب میرا بچہ پیدا ہو تو میں اس دنیا میں نہ رہوں۔‘‘

ماں اسٹیل کے ایک طبق میں چینی کا پیالہ رکھے کمرے میں داخل ہوئیں اور میرے  پاس بیٹھ گئیں۔دیسی گھی کی خوشبو تند و تیز تھی۔ میں نے روہانسی ہو کر کہا: ’’میں نہیں کھاؤں گی۔‘‘

ماں بے چین ہو گئیں: ’’کیوں نہیں کھاؤ گی؟‘‘

کمرے میں ان کے علاوہ کوئی نہ تھا۔میں اونچی آواز میں رونے لگی۔ بچہ نیند سے بیدار ہو گیا اور روہانسا ہو گیا۔ اس کے پیشانی پر کچھ بل پڑ گئے۔ اس نے اپنی مٹھیوں کو کئی بار ہلایا۔ ماں پریشان ہو گئیں: ’’اب کیا ہوا؟ میری بیٹی!‘‘

منصورہ بیگم بھی گھبرائی ہوئی اندر آ گئیں۔ ان کے ایک ہاتھ میں چمچ اور دوسرے ہاتھ میں زرد اور گرم برتنوں کو پکڑنے والا سرخ رنگ کا خانہ دار کپڑا تھا جو میں نے خود ان کے لیے بُنا تھا۔  انہوں نے پریشانی سے میری طرف دیکھا۔ میں انہیں بتانا نہیں چاہتی تھی کہ مجھے کیا یاد آ گیا ہے اور کس چیز سے میرا دل پریشان ہو رہا ہے۔

منصورہ بیگم میرے پاس بیٹھ گئیں۔ انہوں نے کپڑے اور چمچ کو اٹھائے ہوئے اپنے آپ سے دور رکھا ہوا تھا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو بھر  آئے۔ اپنے دونوں بیٹوں کی تصویروں کی طرف دیکھ کر کہنے لگیں: ’’اگر اچھا نہیں بھی لگتا تب بھی تمہیں کھانا چاہیے؛ مقوی ہے، تمہارے لیے اچھا ہے۔ یادش بخیر! علی میرے ہاتھ سے بنی بالائی کا تو عاشق تھا۔‘‘

ماں نے میری اور منصورہ بیگم کی ڈھارس بندھانے کے لیے کہا: ’’صلوات پڑھیں۔‘‘

میں نے روتے ہوئے کہا: ’’ماں، چالیس سال بھی گزر جائیں تب بھی میں علی آغا کو نہیں بھولوں گی۔ قیامت تک ان کےلیے میرا دل اسی طرح تڑپتا رہے گا۔‘‘

منصورہ بیگم نے ایک آہ بھری اور رونے لگیں۔ ان کا رنگ زرد اور آنکھیں بے جان اور کمزور پڑ چکی تھیں۔

ماں نے پوچھا: ’’منصورہ بیگم، آپ  کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟!‘‘

منصورہ بیگم نے سر کو جنبش دی۔ ایسا لگتا تھا اندر ہی اندر رو رہی تھیں۔ماں نے بالائی میں چمچ ڈالی۔ زعفران کی کچھ خوش رنگ پتیاں بھی اس میں پڑی ہوئی تھیں۔انہوں نے پوچھا: ’’کھاؤ گی یا خود تمہیں کھلاؤں؟‘‘

مجھے بھوک نہیں تھی۔ بھُنے ہوئے زعفرانی آٹے کی خوشبو پورے گھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے میری حالت اور خراب کر دی تھی۔ امیر اور علی آغا کی فاتحہ کا حلوا میرے ذہن میں گھومنے لگا۔ میں دل مسوس کر رہ گئی اور رونے لگی: ’’میرا دل علی آغا کے لیے بہت بے تاب ہے۔‘‘

منصورہ بیگم بغیر کچھ کہے اٹھ کھڑی ہوئیں اور چلی گئیں۔ ماں نے کہا: ’’دیکھو بیٹی، اگر روؤ گی تو پھر میرا تم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ہم نے وعدہ کیا تھا کہ لوگوں کے سامنے نہیں روئیں گے۔ مضبوط بنو، دل کو تھوڑا قابو میں رکھو۔ تمہیں بھول گیا کہ علی، امیر کی شہادت کے وقت کس طرح اپنے آپ پر ضبط کیے ہوئے تھا۔ تمہیں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ تمہارا بیٹا یتیم نہیں ہے؛ تمہارا بیٹا شہید کا فرزند ہے۔ تم شہید کی بیوی ہو۔ اب اگر تم دوبارہ روئی  اور مجھے کچھ کمزور نظر آئی تو میں تمہیں معاف نہیں کروں گی۔ ہم نے خود اس راستے کا انتخاب کیا ہے۔ کیا تمہیں یاد نہیں ہے  کہ جب بھی ہمارے گھر تمہاری خواستگاری کے لیے کوئی آتا تو تم یہی کہتی تھیں کہ میں ایسے انسان سے شادی کروں گی جو محاذ پر جا کر لڑنے والا مجاہد ہو۔ میں تو انقلاب کے حوالے سے اپنی ذمہ داری ادا کرنا چاہتی ہوں۔ مگر کیا تم نہیں چاہتیں کہ تمہارا قرض بھی ادا ہو؟  یہی اس قرض کے ادا کرنے کا وقت ہے۔ کیا تم خود نہیں کہتی تھیں کہ میرا شوہر شجاع اور باایمان ہونا چاہیے! کیا علی شجاع اور باایمان نہیں تھا؟! اب تمہاری باری ہے۔ تمہیں شجاع اور باایمان رہنا ہے۔ اب رونا نہیں! رونا کمزوری کی علامت ہے۔ مسلمان کمزور نہیں ہوتا اور خصوصاً میری پیاری بیٹی۔‘‘

میں نے کہا: ’’ماں، میں یہ سب جانتی ہوں، مگر کیا کروں؟ دل بہت بے چین ہے۔ اسے نہیں روک پا رہی۔‘‘

منیرہ خانم نے باورچی خانے سے ماں کو آواز دی۔ ماں نے اٹھتے ہوئے کہا: ’’تم کھاؤ، میں آتی ہوں۔ جب اچھی ہو جاؤ گی تو گلزارِ شہداء([12]) جائیں گے۔ تمہاری بے چینی کچھ کم ہو جائے گی۔‘‘

میں نے طبق اپنے آگے کر لیا۔ کھڑکی کا پردہ ایک طرف کو سرکا ہوا تھا۔ برف آہستہ آہستہ گر رہی تھی۔ کھڑکی سے باہر ہر چیز خاموش اور پُرسکون تھی۔ برف کے سفید سفید دانے ایک دلنشین سکون کے ساتھ آسمان سے زمین پر اتر رہے تھے۔  میں نے سوچا کہ علی آغا اور امیر کی قبروں کے پتھر برف سے اٹ کر سفید ہو چکے ہوں گے۔ میرا دل اپنی ڈائری کے لیے بے تاب تھا۔ چند دن سے اس پر کچھ بھی نہ لکھ پائی تھی۔ دل چاہ رہا تھا کہ علی آغا کو ایک خط لکھتی اور انہیں کہتی: ’’علی جان، آپ کا بیٹا دنیا میں آ گیا ہے۔ اب اس کا نام مصیب رکھنا ہے یا امیر؟!‘‘ میں پھر رونے اور نالہ کرنے لگی: ’’اے خدا! میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔ خدایا، کیا کروں؟ دل بہت پریشان ہے!‘‘

میں بچوں کی طرح رو رہی تھی۔

سہ پہر کے وقت گھر والوں نے میرا بستر لپیٹا اور میرا سارا سامان اٹھا کر سونے کے کمرے میں لے گئے۔ رات کو گھر میں ہجوم ہو جاتا تھا۔ اگلے دن علی آغا کا چہلم تھا۔ بہت سے لوگ آتے تھے کہ اگر کوئی کام ہے تو انہیں بتایا جائے۔

اس طریقے سے میں اور میرا بیٹا اس کمرے میں رہنے لگے۔ اس وقت سب کہتے تھے کہ غم نہ کرو، مت روؤ، مگر کیا ایسا ہو سکتا تھا کہ اس کمرے میں جہاں ہم نے زندگی کے اتنے لمحات ایک ساتھ بِتائے تھے، وہاں غم بھی نہ کیا جائے اور آنسو بھی نہ بہائے جائیں؟ فقط خدا ہی جانتا ہے کہ میرا دل کیوں اتنا تڑپ رہا تھا اور کس کے واسطے جل رہا تھا۔ صرف خدا ہی کو معلوم تھا کہ میں اپنے ہاتھوں سے کسے کھو چکی تھی۔ علی آغا کے البم ابھی بھی دیوار والی الماری میں پڑے تھے۔

جب پہلی بار اس کمرے میں داخل ہوئی تو کمرے کے بالکل بائیں طرف کی دیوار میں لگی الماری نے میری نظریں اپنی طرف کھینچ لیں۔ الماری دیوار کے ایک بڑے حصے پر پھیلی ہوئی تھی۔ دائیں اور بائیں کپڑوں کی الماریاں تھیں جبکہ درمیان میں سجاوٹ کی چیزیں رکھنے کے لیے بنی ہوئی الماری تھی جس میں کئی شیلف بنا دیے گئے تھے۔ یہ شیلف علی آغا کی کتابوں، البموں اور ان کی اپنی ضرورت کی دوسری چیزوں سے بھرے ہوئے تھے۔ مجھے وہ البم کتنے اچھے لگتے تھے؛ جو علی آغا کے شہید دوستوں کی تصویروں سے بھرے ہوئے تھے۔ جب انہیں ذرا سی فرصت ہوتی تو کہتے: ’’جان، وہ البم لے آؤ، اکٹھے بیٹھ کر دیکھتے ہیں۔‘‘

دونوں طرف کی دیواروں اور الماریوں کے دروازے علی کے شہید دوستوں کی تصویروں سے بھرے ہوئے  تھے، جن میں انہوں نے پیشانیوں پر پٹیاں باندھ رکھی تھیں، ان کے بیج تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریریں تھیں۔ اس وقت مجھے تعجب ہوا تھا کہ یہ سارے علی آغا کے شہید دوست تھے۔ میں نے ایک آہ بھری اور سوچنے لگی: ’’بالآخر، آپ نے اپنا کام کر دیا اور دیوار پر جا کھڑے ہوئے۔ شہداء کی تصویر کا حصہ بن گئے۔‘‘

چچا ناصر کمرے میں داخل ہوئے اور کہا: ’’بیٹی، بالآخر بچے کا کیا نام سوچا ہے؟‘‘

میں نے کہا: ’’مجھے نہیں معلوم، چچا! جو آپ کہیں۔‘‘

وہ ہمیشہ کی طرح مذاق سے ہنستے ہوئے کہنے لگے: ’’علی نے مجھے ہر کام کی وصیت کر دی تھی۔ دیسی گھی، شیرہ اور شہد سے لے کر بچے کی نیپی، قربانی اور دوسری الا بلا تک؛ لیکن اصل کام اسے بھول گیا۔‘‘

میں نے شرماتے ہوئے کہا: ’’چچا، لیکن مجھے انہوں نے کہہ دیا تھا۔‘‘

چچا ناصر نے خوش ہوتے ہوئے جوش سےپوچھا: ’’بتا دیا تھا! کیا کہا تھا؟!‘‘

’’وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ اگر بیٹی ہوئی تو زینب اور اگر بیٹا ہوا تو مصیب([13])‘‘

چچا ناصر کے ابرو ایک دوسرے میں پیوست ہو گئے: ’’نہ بابا! یہ اس وقت کی بات تھی جب مصیب تازہ شہید ہوا تھا اور علی اور امیر خود زندہ تھا۔‘‘

میں نے کچھ نہ کہا۔ چچا ناصر نے ایک آہ بھری۔

’’چچا، وہ مصیب کو بہت پسند کرتے تھے۔ آپس میں بالکل دو بھائیوں کی طرح تھے۔‘‘

چچا ناصر، مصیب مجیدی کی تصویر کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے: ’’مصیب بیٹا، خدا تجھ پر رحمت کرے۔ تونے ہی اسے یہ راستہ دکھایا تھا۔‘‘

وہ واپس پلٹے اور میری طرف دیکھنے لگے۔ دوبارہ پھر تصویر کی طرف جا کر کھڑے ہو گئے اور ایک آہ بھری: ’’ہائے ہائے ہائے! تو نے ہی اسے بتایا تھا کہ شہادت کا ایک ہی راستہ ہے؛ آنسو اور صرف آنسو۔‘‘

چچا ناصر آئے اور میرے پاس بیٹھ گئے:’’مصیب کی شہادت کے بعد میرے بیٹے کی آنکھیں ہمیشہ سرخ رہتی تھیں۔‘‘

میں نے امیر کی تصویر کی طرف دیکھا۔ وہ بھی شہداء کی تصویر میں ایک جگہ کھڑا تھا۔

چچا ناصر بچے کی چہرے کی طرف جھکے: ’’میں نے اپنے بیٹوں کی نام صادق، علی اور امیر رکھے۔ امیر، محمد امیر تھا اور علی تیرہ رجب روزِ ولادت حضرت علی علیہ السلام، پیدا ہوا۔‘‘

میں خاموش ہو گئی تھی۔ منصورہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں۔ گویا انہوں نے ہماری تمام باتیں سن لی تھیں۔ کہنے لگیں: ’’ناصر آغا، علی کا نام زندہ رہنا چاہیے!‘‘

منصورہ بیگم نے ایک آہ بھری اور امیر اور علی کی تصویر کی طرف  دیکھنے لگیں: ’’میں کہتی ہوں کہ اس کا نام محمد علی رکھیں؛ محمد امیر اور علی کی یاد میں۔ صحیح ہے؟‘‘

میں نے کہا: ’’محمد علی! اچھا ہے، بہت ہی اچھا ہے ماں!‘‘

چچا ناصر خوش ہو کر بچے پر جھک گئے اور اس کی پیشانی چوم لی۔ محمد علی کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، لیکن منہ سے کوئی آواز نہیں نکال رہا تھا۔ چچا ناصر نے اسے اٹھا لیا اور کہا: ’’آؤ چلیں، سرکار، اٹھو تا کہ ہم دو جوان مردوں کی طرح باہر نکلیں۔ کتنا سوتے ہو تم؟‘‘

چچا ناصر اور منصورہ بیگم جیسے ہی گئے، صلوات کی آواز بلند ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد حرمل کی خوشبو پورے گھر میں پھیل چکی تھی۔ میں اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی اور تھوڑا سا آگے بڑھی تو شہداء کی تصویر پر میری نظریں جم گئیں: ’’شہید حمید نظری([14])، علی دانا میرزایی([15])، حجت زمانی([16])، محمد شہبازی([17])۔۔۔ ‘‘

میں نے تصویروں پر ہاتھ پھیرا۔ علی آغا نے کتنی رغبت اور عشق کے ساتھ ان تصویروں کو سوئیوں کی مدد دیوار پر لگایا تھا۔کچھ تصویریں جن پر گلاس پینٹنگ اور آئل پینٹنگ کی گئی تھی ان پر علی آغا کی انگلیوں کی جگہ خالی رہ گئی تھی۔ فقط ان کی اپنی اور امیر کی تصویر چوکھٹے میں تھی۔

میں نے اپنی پیشانی امیر کی تصویر والے چوکھٹےپر لگے شیشے پر ٹکا دی۔ اس سے علی آغا کے ہاتھوں کی خوشبو آ رہی تھی۔ انہوں نے خود اس چوکھٹے کو دیوار پر ٹانگا تھا۔میں نے کہا: ’’ہمارے بیٹے کا نام محمد علی ہو گیا، لیکن میں آپ کی یاد میں اسے علی ہی کہوں گی، علی جان!‘‘

اس فکر نے میرے غم کو کچھ ہلکا کر دیا۔ ساری تصویریں علی آغا کے ہاتھوں کی خوشبو سے مہک رہی تھیں۔ علی آغا کی خوشبو نے پورے کمرے میں گھر کر رکھا تھا۔ میں نے کتنی کوشش کی تھی کہ ان سفید اور گرم ہاتھوں کی شکل میرے ذہن میں باقی رہ جائے، وہ  بلند قامت، لمبی اور بھوری داڑھی، نیلی آنکھیں، پیشانی پر ابھرنے والی شکنیں، بھورے اور بکھرے ہوئے بال اور ابرو۔

اس رات علی آغا اسی کمرے میں سوئے تھے، نہیں بلکہ ہم حاج صادق کے گھر میں تھے۔ ان کی طبیعت اچھی نہ تھی اور طے یہ  پایا تھا کہ وہ صبح اڑھائی بجے چلے جائیں گے۔

انہوں نے کہا تھا: ’’جان، اگر میں سو جاؤں تو مجھے جگا دو گی؟‘‘

میں نے کہا تھا: ’’جی ہاں۔‘‘

کاش میں انہیں بیدار نہ کرتی! کاش کہ خود بھی سو جاتی اور ہم دونوں سوئے ہی رہتے۔ میرا دل کہہ رہا تھا کہ اگر اب وہ گئے تو لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ مجھے یہ کہاں سے معلوم ہوا تھا؟ ایک آواز مسلسل میرے کانوں میں گونج رہی تھی: میری پیاری، جی بھر کر اسے دیکھ لو۔ شاید یہ قیافہ، یہ بال، یہ ابرو اور یہ ہیبت ایک عمر تک تجھے یاد رہے۔ یہ پاؤں جو کمرے میں چلتے ہیں تو گرومپ گرومپ  کی آواز آتی ہے۔ انہیں ایڑیوں کے بل چلنے کی عادت تھی۔

علی آغا ہمیشہ جلدی میں رہا کرتے؛ جانے کا سودا ہر وقت سر پر سوار رہتا۔ وہ نیلی آنکھیں کسی بھی وقت صحیح اور پوری نیند نہ لیتی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کی ایک آنکھ ہمیشہ بیدار رہتی تھی۔ لیکن اس وقت وہ کتنی گہری نیند سوئے تھے۔ سوتے میں لمبے لمبے سانس لے رہے تھے۔ ’’میری پیاری، تم نے کیوں انہیں بیدار کر دیا؟! تم خود بھی کیوں نہ سو گئیں۔ تم تو اس آواز کو سن رہی تھیں جو مسلسل تمہارے کانوں میں گونج رہی تھی: یہ آخری بار ہے کہ تم اسے دیکھ رہی ہو! یہ آخری الوداع ہے! یہ آخری دیدار ہے! یہ آخری خداحافظی ہے!۔۔۔‘‘

جب آپ سو گئے، تو میں ہال میں آ گئی تھی۔ میں کیوں آئی تھی؟ کیوں ٹھہر کر آپ کو جی بھر کے نہ دیکھا؟ کیا میں نہیں جانتی تھی کہ اب ہماری ملاقات قیامت کو ہی ہو گی!

ماں نے مجھے آواز دی:

’’بیٹی، تمہارا کھانا وہیں لے آؤں یا خود آؤ گی؟‘‘

میں نے جلدی جلدی اپنے آنسو پونچھے۔  اپنے آپ کو علی آغا کے تصویر پر لگے شیشے میں دیکھا۔ میری ناک اور آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں۔ اگرچہ مجھے بالکل بھوک نہ تھی مگر پھر بھی مہمان خانے میں چلی گئی۔ ایک بڑا دستر خوان بچھایا گیا تھا۔ سب اپنے گھر کے افراد تھے، کوئی اجنبی نہ تھا: مریم، اس کا شوہر اور بیٹی، حاج صادق، ان کی بیگم اور بچے، چچا ناصر، منصورہ بیگم، حاج بابا و خانم جان (منصورہ بیگم کے والدین) اور ان کے بھائی، محمد ماموں جو ملک سے باہر رہتے تھے، لیکن چند سال سے انہوں نے اپنی بیوی اور بچوں کو وہیں چھوڑ رکھا تھا اور خود ایران آکر اپنے والدین کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے۔ میرا دل بھر آیا۔ ہم کتنا شاد و آباد اور خوشبخت خاندان تھے۔ اگر علی آغا اور امیر ہوتے تو اس وقت اس خاندان کا رنگ کچھ اور ہی ہوتا۔  ان کی گونجتی ہوئی آوازیں، شوخیاں اور قہقہے پورے ماحول کو گرما رہے ہوتے۔ اچانک ہم اس حال میں کیوں پہنچ گئے؟!

کیسی بے رونق، بے روح اور پھیکی دعوت تھی۔ منصورہ بیگم کی طبیعت اچھی نہ تھی۔ سہ پہر کے وقت ان کے گردوں میں دوبارہ درد اٹھا تھا اور حاج صادق انہیں ڈاکٹر کے پاس لے گئے تھے۔ سب خاموش اور گم سم دسترخوان کے گرد بیٹھے تھے۔ چچا ناصر کی خوش مزاجی میں ابھی تک کوئی فرق نہ آیا تھا۔ مجھے کہنے لگے: ’’بیٹی، تمہارے بیٹے نے تو ہمیں مار کے رکھ دیا۔ یہ روتا کیوں نہیں ہے؟‘‘

نفیسہ نے کہا: ’’باجی!رونے کی بجائے اس کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے۔‘‘

شام کے کھانے میں پلو اور خورش قیمہ([18]) تھے۔مریم طبق اٹھائے ہوئے میرے پاس سے گزری۔ عمانی لیمو کی خوشبو میری ناک تک آ رہی تھی۔

میں منصورہ بیگم کے پاس بیٹھ گئی اور پوچھا: ’’آپ کی طبیعت بہتر ہوئی؟ ڈاکٹر نے کیا کہا؟‘‘

منصورہ بیگم کے چہرے کا رنگ اڑ چکا تھا اور ان کی آنکھوں کے نیچے گڑھے پڑ گئے تھے۔ انہوں نے جواب دیا: ’’میرے گردوں میں رسولی بڑی ہو چکی ہے۔ ڈٖاکٹر کہتا ہے کہ شاید آپریشن کرنا پڑے۔‘‘

انہوں نے اداس اداس نظروں سے پوچھا: ’’کیا ایسی بات پر جھنھجلاہٹ نہیں ہونی چاہیے؟‘‘

محمد علی ابھی تک ناصر چچا کی گود میں تھا۔ وہ کہنے لگے: ’’بہو، اپنے بیٹے کو پکڑ لو۔ عجیب بچہ ہے! میں نے ہر حربہ اپنا لیا، اسے تھپڑ مارا، چٹکی بھری، دانتوں سے کاٹا مگر یہ رونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔‘‘

میں نے دل گرفتہ ہو کر کہا: ’’چچا جان!‘‘

منصورہ بیگم نے اسی کمزور اور تھکے تھکے لہجے میں کہا: ’’آغا ناصر، علی کا بیٹا ہے تو اسی جیسی حرکتیں کرے گا نا۔ آپ علی کو نہیں جانتے؟ وہ بھی اسی طرح تھا۔ بیمار ہو جاتا تو درد برداشت کرتا رہتا مگر منہ سے اف تک نہ کرتا تھا۔‘‘

ناصر چچا ہنس پڑے: ’’اپنے بچپن میں بہت خاموش طبع تھا۔ جب تک دل نہ چاہتا، بات نہ کرتا تھا۔ جب بڑا ہو گیا تو ہم سے شرماتا اور جھجکتا پھرتا: شرارتی اور شیطان کہیں کا! دیوار سے سیدھا اوپر چڑھ جاتا تھا!‘‘

منصورہ بیگم لفظوں کو چبا چبا کر بات کرتی تھیں: ’’کون، میرا بچہ؟! آپ کو یاد نہیں؟ شہادت سے پہلے، اسے انفلوئنزا ہو گیا تھا۔ اس نے ہمیں اپنے مرض کا بتایا تک نہیں۔ وہ تو ہم اس کے رنگ اور رخساروں سے سمجھے تھے۔‘‘

ناصر چچا کو گویا کچھ یاد آ گیا تھا۔ زیر لب کہنے لگے: ’’دل کے حالات، بتادیتا ہے رخسار کا رنگ۔ تم سچ کہتی ہو۔ وہ محاذ سے لوٹا تھا اور اس کی حالت کافی خراب تھی، لیکن وہ اس حوالے سے کوئی بات نہیں کر رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا: کیا ہوا، بیٹا؟ تو اس نے کہا: ’’کچھ نہیں۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’ٹھنڈ لگ گئی ہے؟‘‘ اس نے کہا: ’’شاید، ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’ڈاکٹر کے پاس چلیں؟‘‘ تو کہنے لگا: ’’نہیں، بیگم مجھے گولی دے دے گی۔‘‘ میں فریج سے اس کے لیے ASA  اور اسٹامینوفن کی گولی نکال لایا۔ صادق اسے زبردستی ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا اور  ڈاکٹر نے اسے ٹیکہ لگایا تھا۔گھر واپس آیا تو ہم نے اس کے لیے بستر بچھا دیا۔وہ لحاف میں گھس گیا اور رات تک سوتا رہا تھا۔ آدھی رات کو اس کی آنکھ کھلی تو باورچی خانے میں چلا گیا۔ میں بھی اس کے پیچھے پہنچ گیا۔ پوچھا: ’’تمہاری حالت ٹھیک نہیں ہے؟‘‘ کہنے لگا: ’’ٹھیک ہے، لیکن مجھے بھوک لگ رہی ہے۔‘‘

منصورہ بیگم کہنے لگیں: ’’میں ان کے شور کی آواز سے اٹھ گئی۔ دیکھا تو علی آدھی رات کو باورچی خانے کے فرش پر بیٹھا ادھ بھُنا انڈہ کھا رہا ہے۔ آدھی رات کو کھا بھی رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہے جا رہا تھا: ’’کتنا مزیدار ہے!کس قدر لذیذ ہے!‘‘ یہ تو ہم بعد میں سمجھے کہ میرے بچے نے چند شب و روز سے کھانا ہی نہیں کھایا تھا۔‘‘

بابا نے کہا: ’’آپ سچ کہتی ہیں۔ علی آغا کی قوت برداشت بہت زیادہ تھی۔ اس کے دوست کہتے تھے کہ سات بار وہ شدید زخمی ہوا لیکن ایک دفعہ بھی کسی نے اس کی آہ و فریاد نہ سنی۔‘‘

بابا نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’تمہیں یاد ہے، شادی کے دو یا تین دن بعد تم لوگ ہمارے گھر میں رات کے کھانے پر مدعو تھے۔ ورزش گاہ (Gym) میں  سہ پہر کے وقت کنگفو کی مشق کرتے وقت اس کا پاؤں اُتر گیا تھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ دسترخوان پر وہ ٹھیک سے نہیں بیٹھ پا رہا تھا۔ کبھی اُس پاؤں کے بل بیٹھتا تو کبھی اِس پاؤں کے سہارے۔ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا مگر وہ کچھ بتا نہیں رہا تھا۔ مجھے بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔‘‘

ماں نے سر ہلاتے ہو کہا: ’’پچھلے سال ۲۸ مئی کا دن تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، کیونکہ میری بیٹی کی سالگرہ تھی۔ میں کیک لینا چاہ رہی تھی لیکن بیٹی نے اجازت نہ دی اور کہا: ’’میں کسی کو زحمت نہیں دینا چاہتی؟‘‘ میں نے بھی اس کی بات مان لی۔ حاجی آغا درست کہہ رہے ہیں۔ میں نے شام کو دیکھا تھا کہ وہ کافی بے چینی سے اِدھر اُدھر ہو رہا ہے۔ اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔  ایک کونے میں سمٹ کر بیٹھ گیا تھا۔ میں سمجھی شاید شرما رہا ہے۔‘‘

اب ماں مجھ سے پوچھنے لگیں: ’’بیٹی، تمہارے لیے پلو([19]) لاؤں یا قیماق([20])؟‘‘

دوبارہ میرے آنسو گرنے لگے۔ دل چاہتا تھا کہ اس کمرے میں چلی جاؤں اور جتنا رو سکتی ہوں، روؤں۔ میں نے روہانسا ہو کر کہا: ’’پلو، لیکن بہت تھوڑا سا۔‘‘

پیر،  ۴ جنوری ۱۹۸۸؁ کا روز تھا۔ ہمدان کی مسجد مہدیہ میں علی آغا کے چہلم کی محفل تھی۔

میں گھر پر ہی رہی۔ پڑوس سے کچھ عورتیں آ گئی تھیں تا کہ میں اکیلی نہ رہوں۔ چہلم کی رسومات صبح نو بجے سے لے کر ساڑھے گیارہ بجے تک تھیں، لیکن جب سارے لوٹے تو وقت ایک بجے سے اوپر ہو چکا تھا۔ ان لوگوں کے کہنے کے مطابق پورے صوبے میں علی آغا کےلیے ساٹھ ستر کے لگ بھگ چہلم کے مجالس برپا کی گئی تھیں۔ مختلف شہروں سے لے کر قصبوں اور گاؤں تک سب ان رسومات کی ادائیگی میں شامل تھے۔ مسجد مہدیہ میں بھی لوگوں کی ایک کثیر تعداد جمع تھی۔ رسومات کے آغاز سے لے کر اختتام تک لوگوں کا کافی غلغلہ رہا۔ دن کے کھانے پر بہت زیادہ مہمان تھے۔ حاج صادق نے پہلے سے کھانے کا آرڈر دے رکھا تھا۔

مسجد میں رشتہ داروں اور دوستوں نے میرے بارے میں پوچھا تھا۔ جنہیں ابھی تک محمد علی کی ولادت کی خبر نہ ہوئی تھی انہیں بھی وہیں معلوم ہوا۔  سہ پہر کے وقت کچھ رشتہ دار عورتیں، کچھ سہیلیاں اور بعض جان پہچان والی خواتین  میری احوال پرسی کے لیے گھر آ گئی تھیں۔

ان میں سے زیادہ تر خواتین نے کافی زحمت کی تھی۔ وہ محمد علی اور میرے لیے بہت سے تحفے اور ہدیے لائی تھیں؛ کمبل سے لے کر میرے لباس، بچے کے کپڑوں اور گاڑی اور جہاز جیسے کھلونوں تک، کافی کچھ لے آئی تھیں۔ کچھ نزدیکی رشتہ دار خواتین میرے لیے اَن سِلا کپڑا، رنگین سکارف اور کچھ دوسرے کپڑے لائی تھیں۔ وہ ہمدردی اور محبت سے کہہ رہی تھیں کہ میں سیاہ لباس اتار دوں اور اپنا سوگ توڑ دوں۔ کچھ نے تو یہاں تک اصرار کیا کہ اگر میں انہیں اجازت دوں تو وہ آرائشگاہ میں میرے لیے وقت لے لیں تا کہ وہاں جا کر ہلکا پھلکا بناؤ سنگھار کر لوں اور اس غم کی کیفیت سے باہر نکلوں۔

مہمانوں میں سفید رنگ، رنگدار آنکھوں اور بھوری بھنووں والی میری ہم عمر ایک خاتون بھی بیٹھی تھی۔ وہ سارا وقت میرے پاس بیٹھی رہی اور مجھ سے محبت کا اظہار کرتی رہی۔ میں نے کافی غور کیا مگر اسے پہچان نہ سکی۔ میں نے سوچا شاید علی آغا کے کسی مجاہد دوست کی بیوی ہو گی۔ بالآخر وہ خود بول اٹھی: ’’خانم پناہی! آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟‘‘

میں نے کہا: ’’بہت معذرت خواہ ہوں۔ کافی دیر سے آپ کو دیکھ کر سوچ رہی ہوں مگر ذہن میں کچھ نہیں آرہا۔‘‘

وہ کہنے لگی: ’’کوئی بات نہیں۔ آپ حق رکھتی ہیں کہ مجھے نہ پہچانیں، لیکن سب لوگ آپ کو جانتے ہیں۔ آپ علی آغا چیت سازیان کی بیگم ہیں۔ ہمدان میں ایسا کون ہے جو شہید چیت سازیان کو نہ جانتا ہو۔‘‘

میں نے آہستہ سے کہا: ’’آپ کا بہت شکریہ۔ ممنون ہوں۔‘‘

اس نے کہا: ’’البتہ ہم پچھلے سال عید کے بعد مسجد مہدیہ میں نشانہ بازی کی ایک کلاس میں ایک دوسرے سے ملے تھے۔ آپ کو یاد ہے؟ آپ کی توجہ ہماری طرف نہیں تھی، لیکن ہم سب خواتین چشم و ابرو سے اشارے کر کے ایک دوسرے کو آپ کے بارے میں بتا رہی تھیں۔ آپ کی اس وقت نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ساری عورتیں دور سے آپ کو دیکھ رہی تھیں اور اشاروں کنایوں میں ایک دوسرے سے کہہ رہی تھیں: یہ اونچے قد والی خاتون  علی آغا چیت ساز کی بیگم ہیں۔ نہ جانے میں ایسا کیوں سوچتی تھی کہ چونکہ آپ ایک کماندار کی بیوی ہیں اس لیے آپ نشانہ بازی میں ہم سب سے بہتر ہوں گی۔‘‘

پھر وہ ہنس  پڑی اور کہا: ’’لیکن جب نشانہ لگانے کا وقت آیا تو آپ کی ایک گولی بھی نشانے پر نہ لگی۔‘‘

اس کی اس بات پر میں بھی ہنس دی۔

مریم، چائے کا بڑا طبق ہاتھ میں لیے جھک گئی تھی اور مہمان خانے میں جا بجا بیٹھے سارے مہمانوں چائے پیش کرنے لگ گئی تھی۔ نفیسہ بھی ہاتھ میں قند([21]) لیے اس کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔ وہ خاتون کہنے لگی: ’’خانم پناہی، ہم مسجد مہدیہ کی پایگاہ مقاومت([22]) (Defense Base)  کے ایک رسالے میں دوسری خواہران کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ آج آپ کو زحمت دی ہے کہ اگر علی آغا کے حوالے سے کوئی دلچسپ واقعہ آپ ہمیں سنا دیں تو بہت خوشی ہو گی۔ ہم اسے اپنے رسالے میں چھاپنا چاہتی ہیں۔‘‘

اس کے بعد اس نے اپنا بیگ کھولا اور ایک دفتر اور بال پوائنٹ نکال لیا۔

میں سوچنے لگی: واقعہ! علی آغا کا کوئی واقعہ۔ اس وقت میرے ذہن میں کچھ نہ آیا۔ میں نے کہا: ’’میں علی آغا کے ساتھ محاذ پر تو ہوتی نہیں تھی اور علی آغا کی بھی اپنی ایک عادت تھی کہ جنگ اور محاذ کی باتیں گھر میں نہیں کرتے تھے۔‘‘

اس خاتون نے تعجب سے پوچھا: ’’یعنی وہ آپ کو اپنی جنگی مہموں، اپنے شہید اور زخمی دوستوں اور اپنے زخموں کے  بارے میں کچھ نہ بتاتے تھے؟‘‘

’’نہیں، کچھ بھی نہیں۔ اگر کچھ تھا بھی تو وہ میں اِدھر اُدھر یا اس کے دوستوں میں سے کسی ایک کے منہ سے سن لیتی تھی۔ خاص طور پر اپنے بارے میں تو وہ کچھ بھی نہ بتاتے تھے۔‘‘

وہ خاتون ابھی تک مجھے تعجب سے دیکھ رہی تھی: ’’معذرت چاہتی ہوں۔ آپ کی شادی کب ہوئی؟‘‘

’’مارچ 1986؁ میں ہم نے شادی کی۔‘‘

اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں پر گننا شروع کر دیا: ’’یعنی آپ نے تقریباً ایک سال اور آٹھ ماہ ایک ساتھ گزارے۔ صحیح؟‘‘

’’ہاں، تقریباً۔‘‘

’’حتماً اس عرصے میں پیش آنے والا کوئی نہ کوئی واقعہ تو ہو گا آپ کے ذہن میں۔ کیا آپ ہمیں سنا سکتی ہیں؟ ایک ایسا واقعہ جو بہت دلچسپ ہو۔‘‘

میں سوچنے لگی کہ کون سا واقعہ بیان کرنا چاہیے۔ دزفول میں گزری ہوئی زندگی کا کوئی واقعہ یا مشہد و قم کی طرف سفر کی کوئی یاد۔ شادی کے لمحات یا ساسان ہسپتال میں گزرے ہوئے ایام؟ میں نے پوچھا: ’’معذرت، کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ آپ میرا یہ انٹرویو کیوں لے رہی ہیں؟‘‘

’’صحیح، میرا خیال ہے کہ لوگ یہ جاننا پسند کرتے ہیں کہ کماندار لوگ  کس طرح کے انسان ہوتے ہیں، خصوصاً اپنی ذاتی زندگی میں ، اپنی بیگم اور گھر کے دوسرے افراد کے ساتھ وہ کس طرح رہتے ہیں؟‘‘

میں نے ہنس کر کہا: ’’میرا خیال ہے کہ دوسرے لوگ علی آغا کو مجھ سے اور  میرے خاندان سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ علی آغا اپنی شجاعت اور بہادری کی وجہ سے معروف ہیں۔ انہیں امام خمینیؒ سے عشق تھا اور امام کی صحبت میں گزرے ہوئے اپنے لمحات کے حوالے سے وہ بہت حساس تھے۔ وہ اپنی تمام تقریروں میں یہی کہتے تھے کہ امام کی باتوں سے پہلو تہی نہ کریں۔ علی آغا ایک جوشیلے اورمعاشرتی سوچ رکھنے والے انسان تھے۔‘‘

اس خاتون نے مایوسی سے میری طرف دیکھا۔ بال پوائنٹ کو دفتر میں رکھا اور اسے بند کر دیا، پھر پوچھا: ’’یعنی آپ کہنا چاہتی ہیں کہ آپ کا کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے؟‘‘

میری علی آغا کے ساتھ بہت سی یادیں تھیں۔ خواستگاری کے پہلے دن سے لے کر آخری خدا حافظی کے لمحے تک۔ اور اتفاق سے میں نے تمام واقعات کو 1986؁ اور 1987؁ کی تقویم میں لکھ رکھا تھا۔ میں اپنی زندگی کے کچھ واقعات کو لکھنے کا کافی شوق رکھتی تھی۔ اگر میرے پاس لکھنے کی فرصت نہ بھی ہوتی تب بھی اہم اتفاقات و واقعات کو ان تقویموں میں ضرور لکھ لیتی، چاہے وہ ایک لفظ  یا ایک مختصر سا وضاحتی نوٹ ہی کیوں نہ ہو اور لکھنے کے بعد اس پر کوئی علامت لگا دیتی۔ بہت سی چیزوں کو میں یادگار کے طور پر  اکٹھا کر لیتی۔ میں نے ابھی تک ان کے تمام خطوط سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ تمام چیزیں بھی جو انہوں نے مجھے دی تھیں؛ خاک کربلا کی سجدہ گاہ سے لے کر جائے نماز و تسبیح اور کپڑے کے اس ٹکڑے، جو امام خمینیؒ سے تبرک کے طور پر  انہوں نے لیا تھا اور عطر کی ان چھوٹی چھوٹی شیشیوں تک جن سے جو وہ نماز کے وقت کان کے پیچھے خوشبو لگایا کرتے، سب کچھ میرے پاس محفوظ تھا۔ لیکن میں سوچتی تھی کہ میری ذاتی زندگی کے واقعات بھلا لوگوں کے کس کام کے؟

خاتون نے جب مجھے خاموش دیکھا تو دوبارہ پوچھا: ’’کوئی واقعہ نہیں ہے آپ کے پاس؟‘‘

میں نے مسکرا کر کہا: ’’معاف کیجیے گا۔ ان حالات میں میرا ذہن اصلاً حاضر نہیں ہے۔‘‘

اس بے چاری نے دوبارہ اصرار نہ کیا۔ اپنا قلم اور دفتر بیگ میں رکھا، چائے اور مٹھائی کھائی اور یہ وعدہ لے کر رخصت ہو گئی کہ کسی اور وقت آئے گی اور میرا انٹرویو لے گی۔

رات کو جب سارے مہمان چلے گئے تو دوبارہ ہمارے گھر کا وہی چھوٹا سا مجمع اکٹھا ہو کر بیٹھ گیا۔

منصورہ بیگم کی حالت اچھی نہ تھی۔ دوسری طرف وہ مریم کے حوالے سے بھی بے چین تھیں، جو اپنا بیگ باندھ رہی تھی کہ علی الصبح  اپنے شوہر کے ساتھ تہران چلی جائے۔ ناصر چچا اور باقی سب لوگ ایک کونے میں اداس سے بیٹھے تھے۔ ماں نے محمد علی کو سنبھال رکھا تھا۔کہنے لگیں: ’’بیٹا، تم بھی اپنا بیگ اور سامان جمع کرو۔ کل اکٹھے نکل چلیں۔ تمہارے بابا تنہا ہیں۔ بچے بھی مدرسے جاتے ہیں۔ نہ جانے ان چند دنوں میں انہوں نے کیا کیا ہو گا؟‘‘

ماں نے محمد علی کو اس کے بستر پر لٹادیا۔ پورے کمرے میں بچے کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی؛ پاؤڈر، نومولود کے صابن اور دودھ کے خوشبو۔ میں اٹھی اور اپنے اور محمد علی کے کپڑوں کو تہہ کر کے بیگ میں رکھنے لگی۔  اس کے لنگوٹ، فیڈر اور تھرماس؛سب کچھ اٹھایا اور ایک جگہ جمع کر دیا تا کہ صبح نکلتے وقت کوئی چیز رہ نہ جائے۔ محمد علی جاگ گیا۔ وہ ابھی تک سرخ تھا لیکن اس کا پھولا ہوا بدن ذرا ہلکا ہو چکا تھا اور وہ پہلے سے زیادہ کمزور لگ رہا تھا۔ وہ اپنی سرمئی آنکھوں سے خاموشی کے ساتھ چھت کو دیکھے جا رہا تھا۔

میری آنکھیں علی آغا کی تصویر والے چوکھٹے پر جا ٹکیں۔ وہ میری طرف غمگین نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا: ’’علی جان، کیوں ناراض ہیں؟ عورت کا سارا مان اس کا شوہر ہوتا ہے۔ اب جب کہ آپ نہیں ہیں تو میں یہاں کچھ اور سا محسوس کر رہی ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے میں کوئی اضافی چیز ہوں۔‘‘

میں جا رہی تھی اور شاید دوبارہ اتنی جلدی لوٹ کر نہ آتی۔ میں اس یادوں بھرے کمرے سے جا رہی تھی۔ وہ کمرا، کہ جب بھی علی آغا محاذ سے آتے تو ہمارا کمرا ہوتا۔  وہ کمرا جس سے ان کی خوشبو آتی تھی۔ الماری میں ان کے کپڑے لٹک رہے تھے۔ ان کی کتابوں کی الماری میں ان کی کتابیں اور ان کے اپنے ہاتھ کی کچھ تحریریں پڑی تھیں۔ تصویروں کا وہ البم بھی وہیں رکھا تھا جسے وہ بے حد پسند کرتے تھے۔ میں جا رہی تھی۔ میں نے سوچا، بہتر ہے کہ ان کی تصویر کا چوکھٹا بھی ساتھ ہی لے جاؤں۔ میں چوکھٹے کو اتارنے کے لیے کھڑی  ہوئی لیکن میرا ہاتھ چوکھٹے کے ساتھ ہی چپک کر رہ گیا۔ بہت کوشش کی مگر ہاتھ جدا نہ ہوتا تھا۔ پیچھے سے ناصر چچا کی آواز آئی: ’’کیا کر رہی ہو، بیٹی؟‘‘

میرا ہاتھ چوکھٹے سے الگ ہو گیا: ’’چچا جان، میں چاہتی ہوں کہ کل اپنی ماں کے ساتھ ان کے گھر چلی جاؤں۔ اگر آپ اجازت دیں تو علی آغا کی تصویر بھی ساتھ ہی لیتی جاؤں۔‘‘

ناصر چچا نے تعجب سے پوچھا: ’’تم جانا چاہتی ہو؟!‘‘

پھر دروازے کی طرف اپنا سر گھما کر کہنے لگے: ’’منصورہ، منصورہ بیگم، یہاں آؤ۔ دیکھو، بہو کیا کہہ رہی ہے؟ یہ جانا چاہتی ہے۔‘‘

تھوڑی دیر بعد منصورہ بیگم، ماں، حاج بابا اور خانم جان بھی آ گئے۔ منصورہ بیگم نے جیسے ہی میرے جمع کیے گئے سامان کو دیکھا تو ان سے برداشت نہ ہوا اور وہ رونے لگیں۔ میں کیا کر سکتی تھی؟ ان کے ساتھ رونے لگی۔ ناصر چچا بھی گلوگیر ہو گئے۔ مریم بھی کمرے میں آگئی۔ منصورہ بیگم کو دیکھتے ہی پوچھنے لگی: ’’ماں، کیا ہوا؟‘‘

منصورہ بیگم ایسے روتی تھیں کہ پتھر بھی رونے لگتے۔ مریم نے انہیں گلے لگا لیا۔ لیکن بجائے اس کے کہ انہیں تسلی دیتی، وہ خود بھی رونے لگی۔ کمرے کا ماحول ایسا بن گیا تھا کہ جو کوئی بھی داخل ہوتا، وہ منظر دیکھ کر رونے لگتا۔ میں جانتی تھی کہ ان چند دنوں میں اور رسومات کی ادائیگی کے دوران سب اپنے آپ جبر کیے بیٹھے تھے اور آنسؤوں کو زبردستی روک رکھا تھا  تاکہ دشمن خوش نہ ہو اور منافقوں کے ہاتھ بات نہ لگ جائے۔

فقط ناصر چچا تھے جو رو نہیں رہے تھے۔ انہوں نے کہا: ’’علی اور امیر کی روح اس وقت یہیں پر ہے۔ ان کی روح کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے سارے بآواز بلند صلواۃ پڑھیں۔‘‘

سب نے صلوات پڑھی۔ میرے ماموں محمد، محمد علی کے پاس بیٹھے اس کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ ناصر چچا نے دوبارہ کہا:’’ مجھے یقین ہے  کہ علی اور امیر کی روح ہمارے سارے اعمال کو دیکھ رہی ہے۔  پس مناسب یہی ہے کہ  آپ لوگ گریہ نہ کریں۔‘‘

ناصر چچا نے جب یہ بات کہی تو ان کی آواز لرز رہی تھی۔ ان کی حالت اس دراڑ پڑے شیشے کی طرح تھی جو انگلی کی ہلکی سی ضرب سے بھی ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے۔

منصورہ بیگم ، مریم اور ماں پرسکون ہو گئیں۔  ناصر چچا میری طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولے: ’’اچھا بہو، اب تم بتاؤ۔ خیریت تو ہے نا! کیا ہم سے تنگ آ گئی ہو؟ کسی نے کچھ کہا ہے؟ کسی سے ناراض ہو؟‘‘

میں نے جلدی سے کہا: ’’نہیں چچا، خدا کی قسم، ناراضگی کیسی؟ پریشانی کاہے کی؟‘‘

منصورہ بیگم رونے لگیں: ’’تو پھر کیوں جانا چاہتی ہو؟‘‘

میں نے کہا: ’’میں آپ کو زحمت نہیں دینا چاہتی ؟‘‘

میں نے ماں کی طرف دیکھا: ’’ماں بھی چاہتی تھیں کہ میں ان کے گھر چلی جاؤں۔ بابا اور میری بہن تنہا ہیں۔‘‘

منصورہ بیگم  نے محمد علی کو بانہوں میں لے کر سینے سے لگا لیا اور رو کر کہنے لگیں: ’’میرے پیارے بچے کو کہاں لے کر جانا چاہتی ہو؟ امیر جان، میں تیرے واری! علی جان، تیرے قربان! امیر جان! علی جان! تم لوگ کہاں جانا چاہتے ہو؟‘‘

ناصر چچا نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا:’’نہ بابا! ایسی باتیں نہ کرو۔ ایسی باتیں تو اجنبیوں سے کی جاتی ہیں۔ تم ہماری اپنی بچی ہو۔ محمد علی ہمارا اپناہی بچہ ہے۔زحمت یعنی کیا مطلب! یہ تمہارا اپنا گھر ہے۔‘‘ پھر اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے کہنے لگے: ’’خدایا، تیرا شکر! خدایا، تیرا شکر! اگر میرے دونوں بیٹے شہید ہو گئے تو وہ اس قابل تھے اور تو نے بھی انہیں قبول کر لیا۔ خدایا، تیرا شکر ہے کہ ہمارے بچے ہمارے لیے ننگ و عار کا باعث نہ بنے۔ خدایا، تیرا شکر ہے کہ ہمارے بیٹے ہمارے لیے عزت و افتخار کا سبب ہوئے۔ خدایا، تیرا لاکھ لاکھ شکر کہ تو نے اچھی طرح عطا کیا اور لاکھ لاکھ شکر کہ اچھے طریقے سے واپس لے لیا۔‘‘

تھوڑی دیر بعد ناصر چچا اپنی طبعیت بحال کرنے کے لیے مذاق کرنے لگے: ’’تم حتماً اپنے اس بچے کو لے کر چلی جاؤ۔ ہم تو مر گئے مگر یہ رونے کا نام  لیتا ہے نہ ہی کوئی بات کرتا ہے۔ چٹکیاں کاٹ کاٹ کر میرے تو ناخن سیاہ ہو گئے۔ بچے تو پہلے زمانے کے تھے۔ شور مچاتے تو سات گھر اُدھر تک ان کی آواز جاتی تھی۔‘‘

ناصر چچا کی باتوں اور منصورہ بیگم کے آنسؤوں کی وجہ سے میں نے ماں کے ساتھ جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور ٹھہر گئی، ہر چند کہ میرے لیے بھی اس کمرے کو چھوڑ کر جانا بہت سخت تھا۔ ہر روز جی چاہتا کہ جلدی جلدی رات ہو اور میں اور محمد علی، علی آغا کے کمرے میں جا کر سو جائیں۔ عجیب کمرا تھا وہ۔ میں اس میں علی آغا کو محسوس کرتی تھی۔ اس کمرے میں صبح تک انہی کو خواب میں دیکھتی۔ اس رات میں اسی کمرے میں سوئی اور اس کے بعد کی راتیں بھی اسی کمرے کی ہو کر رہی ۔

محمد علی دو ماہ کا ہو چکا تھا۔ ہم کبھی کبھی حاج صادق کے ہاں چند دن ٹھہرنے کے لیے چلے جاتے اور کبھی ماں کے گھر۔ لیکن میرا اصلی گھر ناصر چچا کا گھر ہی تھا۔

منصورہ بیگم کی حالت اچھی نہ تھی۔ ان کے گردوں  کی رسولی مزید بڑی ہو چکی تھی۔ ان کے سارے بدن کا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا تھا۔  ناصر چچا نے ارادہ کر لیا کہ انہیں علاج کے لیے کچھ عرصہ تک کے لیے تہران لے جائیں۔  لہذا دو ماہ بعد میں اور محمد علی سامان کے کچھ بیگ اٹھائے  ماں کی گھر کی طرف عازم سفر ہو گئے لیکن اسی وقت ہم نے عہد کر لیا تھا کہ جب وہ لوگ لوٹ کر آئیں گے تو ہفتے کے شروع کے کچھ دن ماں کے گھر میں رہوں اور جمعرات اور جمعے کو ناصر چچا کے گھر آ جایا کروں۔

ماں کے گھر میں میری حالت اور ہو گئی تھی۔تنہائی بڑھ گئی تھی۔ بابا ہر صبح دکان پر چلے جاتے۔ وہ حجام تھے اور اس وقت ہمدان کے شریعتی چوک پر ان کی دکان آرائشگاہ دوہزار کے نام سے معروف تھی۔ بابا کے کافی زیادہ اور کچھ خاص گاہک تھے۔ ماں ہر صبح اور سہ پہر کے وقت سلائی کے ایک کارخانے میں چلی جاتیں، جہاں بہت سی خواتین بغیر اجرت کے اور فی سبیل اللہ مجاہدین کے لیے لباس اور وردیاں سیتی تھیں۔ یہ کارخانہ شاہراہ بابا طاہر پر مسجد میرزا داؤد کے پہلو میں ایک دکان کی دوسری منزل پر تھا۔ میری دونوں بہنیں سکول کی طالبات تھیں اور مدرسے چلی جاتیں۔ یہی وجہ تھی کہ روزانہ صبح کے وقت گھر خالی ہو جاتا اورمیں اور محمد علی تنہا رہ جاتے۔ محمد علی خاموش اور زیادہ تنگ نہ کرنے والا بچہ تھا۔

وہ دن میرے لیے بہت سخت تھے۔ وہ عرصہ میرے لیے تنہائی، گوشہ نشینی اور اپنے آپ میں جھانکتے رہنے کا زمانہ تھا جو زیادہ تر اپنی زندگی کے واقعات لکھنے یا  1986؁ اور 1987؁ کی تقویم پر لکھے گئے واقعات کو یاد کرنے میں بسر ہو رہا تھا۔

اکیلی ماں تھیں جو مجھے تنہائی سے نکالنے کے لیے کوشش کرتی رہتیں۔زیادہ تر ایسا ہوتا  کہ وہ کارخانے جاتیں، کام کی دیکھ بھال کرتیں، نوکپلک سنوارتیں اور جلدی واپس آ جاتیں۔ کبھی سہ پہر کی بدل چوکی سے چھٹی کر لیتیں۔ کبھی مجلس عزا کا اہتمام کرتیں اور کبھی مجھے کہیں مجلس پر لے چلتیں۔ بعض اوقات بابا کو گھر پر روک لیتیں، محمد علی کو ان  کے حوالے کرتیں اور آدھے گھنٹے کے لیے ہی سہی لیکن سڑک پر چہل قدمی کے لیے لے جاتیں۔ کبھی میرے لیے کوئی چیز خرید لاتیں۔ کبھی ہم بازارمیں مٹر گشت کے لیے نکل جاتے اور واپس آ جاتے۔ میں ہفتے کے آخری دن زیادہ تر منصورہ بیگم کے ساتھ ان کے گھر میں رہتی تھی۔ تنہائی اور رنجیدگی میری زندگی کا سخت ترین موسم تھا۔ دن کسی دوست یا شناسا کے انتظار میں دروازے پر آنکھیں گاڑے گزر جاتے۔ بہت کم ہی کوئی آتا تھا۔ سب لوگ اپنی اپنی زندگی میں مصروف تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ علی آغا کی شہادت کے ساتھ میں بھی لوگوں کے ذہن سے نکل گئی ہوں۔

وہ دن اور ان کے بعد کے ایام سختیوں، دشواریوں اور شدید مشکلات کے دن تھے کہ اگر امام (خمینیؒ) اور انقلاب سے عشق نہ ہوتا اور اپنے اصولوں، اہداف اور اعتقادات کی پابندی کا خیال نہ ہوتا تو شاید میں کبھی بھی اس کی تاب نہ لا سکتی۔ میں زندگی کے ایک کٹھن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی اور مجھے کئی بڑے اور زیادہ مشکل فیصلے کرنا تھے۔ علی آغا تو اپنے اہداف  اور آرزؤوں تک پہنچ چکے تھے  جبکہ میں مقاصد اور خواہشات کو کشف کرنے کے لیے باقی رہ گئی تھی۔

اگلے سال جنگ ختم ہو گئی اور سپاہی اور مجاہدین محاذوں سے اپنے اپنے شہروں کو لوٹ آئے اور اپنی معمول کی زندگی میں مصروف ہو گئے۔ آہستہ آہستہ ہر چیز بدل گئی۔

ماں کی ترغیب اور مسلسل اصرار کی وجہ سے 1989؁ میں، میں نے تہذیب ٹیکنیکل کالج میں داخلہ لے لیا اور بچوں کی نگہداشت  کے مضمون کے دوسرے سال میں تیسری بار اپنی پڑھائی شروع کر دی۔ علی آغا سے دوری کے ابتدائی سال میری زندگی کے دشوار ترین سال تھے لیکن میں ان تقویموں اور ان پر لکھے گئے واقعات کے ساتھ رہنے لگی تھی اور علی آغا کے وجود کو محسوس کرتی تھی۔ یہ تقویمیں ابھی بھی میرے پاس موجود ہیں۔ جیسے ہی ان پر نگاہ کرتی ہوں تو ان کی تاریخوں کے آگے لکھے گئے چند علامتی الفاظ کے ذریعے خواستگاری کے پہلے دن سے لے کر ان کی شہادت تک اور اس کے بعد کے تمام واقعات میری آنکھوں کے سامنے زندہ ہو جاتے ہیں۔


([1]) ایران کا ایک شہر۔

([2]) Wagoneer Jeep جسے ایران میں جیپ آہو (ہرن جیپ) کہا جاتا ہے۔ متن میں اس جیپ کے لیے آہوی خردلی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ خردل فارسی میں سرسوں کو کہتے ہیں۔ اس مناسبت سے اس لفظ کا ترجمہ زرد رنگ کی جیپ کیا گیا ہے۔

([3]) ہادی فضلی 4  جون  1962؁ کو صوبہ ہمدان کے ایک چھوٹے شہر مریانج میں متولد  ہوئےا ور 29جولائی 1988؁ میں چارزبر اسلام آباد کے علاقے میں ہونے والے مرصاد آپریشن کے دوران درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔۔ شہید ہادی فضلی جنگی انٹیلی جنس کے شعبے کے سینئر فوجیوں میں سے تھے اور جب وہ شہید ہوئے تو جنگی انٹیلی جنس یونٹ 3 انصار الحسین ڈویژن صوبہ ہمدان کے سربراہ تھے۔

([4])  ایک ایرانی غذا۔

([5]) جہاں وہ لوگ رہائش پذیر تھے۔

([6]) ایرانی غذاؤں کے نام ۔

([7]) نو روز ایران کا سالانہ قومی تہوار ہے۔ عیسوی تقویم کے مطابق  21 مارچ کو ایرانیوں کا نیا سال شروع ہوتا ہے ۔ اس دن یہاں عید نوروز منائی جاتی ہے ۔ اس ایرانی مہینے کی 13 تاریخ کو یعنی 2 اپریل کو یہ لوگ روز طبیعت ( قدرتی ماحول کا دن ) کے عنوان سے مناتے ہیں۔ اس دن تمام ایرانی لوگ صبح سویرے اپنا سیرو تفریح اور کھانے پینے کا سامان لیے گھروں سے نکل جاتے ہیں اور پورا دن پارکوں اور مختلف سیر گاہوں پر گزارتے ہیں۔ اس دن گھر میں ٹھہرنا نحوست سمجھا جاتا ہے اور شام ڈھلے گھروں کو لوٹ آتے ہیں۔ عرف عام میں اسے سیزدہ بہ در کہا جاتا ہے ۔

([8]) ایک ایرانی کھانا۔

([9]) ایران میں استعمال ہونے والا ٹھنڈا مشروب۔

([10]) شہید سید رضا دیباج 21 اپریل 1948؁ کو ہمدان میں پیدا ہوئے۔ وہ شیراز یونیورسٹی میں نفسیات کے مضمون کے چوتھے سال میں تھے۔ شادی شدہ تھے اور ان کی ایک بیٹی بھی تھی۔ وہ انقلابی جنگجو تھے۔ 8 جولائی 1972؁ کو قید ہو گئے اور شاہ کے زندان میں وحشیانہ شکنجوں کے نتیجے میں 26 جولائی 1972؁ کو شیراز کے عادل آباد زندان میں شہید ہو گئے۔ انہیں مخفیانہ طور پر بہشت زہرا قطعہ 33 ردیف 3 میں دفن کیا گیا۔

شہید سید حسین دیباج 21 اپریل 1951؁ کو ہمدان میں متولد ہوئے۔وہ امیر کبیر کالج میں سول انجینئرنگ کے تیسرے سال میں تھے۔10 مئی 1974؁ کو ساواک (ایران کے  شاہ محمد رضا کی خفیہ ایجنسی) کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے اور 18 مئی 1974؁ کو زندان میں دیے گئے اذیت ناک شکنجوں کے نتیجے میں شہید ہو گئے۔ ان کی آرامگاہ بہشت زہرا کے قطعہ 33 ردیف3 میں ہے۔

([11]) ایران میں کھائی جانے والی حلوے جیسی ایک غذا جو چینی، آٹے اور روغن سے تیار کی جاتی ہے۔

([12]) ایران میں شہداء کے قبرستان کو عموماً گلزارِ شہداء کہا جاتا ہے۔

([13]) مصیب مجیدی 30 جون  1960؁ کو ہمدان کے گاؤں درہ مرادبیک میں پیدا ہوئے۔ وہ انصار الحسین جنگی انٹیلی جنس ڈویژن 32 صوبہ ہمدان کے نائب کماندار تھے۔ وہ علی آغا کے گہرے دوست تھے۔ 3 مارچ  1986؁ کو عراق کی سرحد پر اپنے شہید دوستوں سے جا کر ملحق ہو گئے۔

([14]) حمید نظری 22 جون 1967؁ کو ہمدان کے گاؤں درہ مرادبیگ میں پیدا ہوئے۔ وہ 11 ستمبر 1986؁ کو شہید ہوئے۔ وہ غوطہ خور تھے اور شہادت کےوقت جزیرہ مجنون میں تعینات یونٹ کی شناختی ٹیم کے رکن تھے۔

([15]) علی دانا میرزائی31 مارچ  1965؁ کو ملایر میں متولد ہوئے اور 22 مئی 1965؁ کو آبنائے حاجیان میں شہید ہو گئے۔

([16]) حجت اللہ زمانی 22 مارچ  1959؁ کو شہر کبودر آہنگ کے گاؤں کوہین میں پیدا ہوئے اور6 اگست 1983؁ کو آپریشن والفجر ۲ میں عراق کے علاقے حاج عمران کے علاقے میں شہید ہوئے۔ ان کے بھائی نجات علی بھی 17 فروری 1986؁ کو ایران عراق سرحد پر شہید ہو گئے۔

([17]) محمد رضا شہبازی 20 جون 1964؁ کو ہمدان کے شہر بہار کے گاؤں آبرومند میں متولد ہوئے اور 7 مارچ 1985؁ کو عراقی سرحد پر واقع ایرانی علاقے سرپل ذہاب میں ابوذر یونٹ پر ہونے والی ہوائی بمباری میں شہید ہو گئے۔ان کے بھائی صمد بھی شلمچہ میں شہید ہو گئے تھے۔

([18]) ایرانی غذاؤں کے نام۔

([19]) ایرانی غذا۔

([20]) ایرانی غذا۔

([21]) ایرانی لوگ چائے میں چینی ڈال کر نہیں پیتے بلکہ قند کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ساتھ رکھتے ہیں اور چائے پیتے وقت قند کا ایک ٹکڑا منہ میں رکھ کر ہولے ہولے چُسکیاں بھرتے رہتے ہیں۔

([22]) انقلاب اسلامی کے بعد جب ایران اور عراق کے مابین جنگ چھڑ گئی تو ایران میں مختلف مقامات بالخصوص مساجد میں رضاکار فوجی بھرتی کرنے کا کام شروع ہوا۔ اس رضا کار فوج کو بسیج کہا جاتا ہے جس نے اس جنگ میں بے بہا خدمات انجام دیں اور ایران کے دفاع میں پیش پیش رہی۔ جن مراکز میں ان رضاکاروں کی بھرتی کی جاتی تھی انہیں پایگاہ مقاومت کہا جاتا ہے۔جسے ہم اردو میں ’’دفاعی مرکز‘‘ کہہ سکتے ہیں۔

دوسرا باب

نیلی آنکھوں کے ساتھ خواستگاری

مارچ  1986؁ کا سال تھا۔ میں بس میں بیٹھی، کھڑکی کے شیشے سے فٹ پاتھ کے کنارے ٹنڈ منڈ اور خشک درختوں اور گرد آلود برف کو دیکھ رہی تھی جو آہستہ آہستہ پگھل رہی تھی۔ آسمان صاف اور نیلا تھا اور کسی وقت پرندوں کا ایک غول  آسمان کے درمیان سے اڑتا ہوا ظاہر ہو جاتا۔

بس نے بریک لگائی اور ڈرائیور  نے عقبی آئینے میں دیکھتے ہوئے بلند آواز سے کہا: ’’کالج!‘‘

بس سے ایک لڑکی اتری۔ گول  اور گورا چہرہ،سبز اور خوبصورت آنکھیں، میرے خیال میں، میں نے جتنی لڑکیاں دیکھ رکھی تھیں، ان میں سب سے زیادہ خوبصورت وہی تھی۔ وہ ہمیشہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ بس میں بیٹھ جاتی اور سب آپس میں تفصیل سے باتیں کرتیں۔ میں جانتی تھی کہ وہ بھی میری طرح دوسرے سال کی طالبہ ہے۔ اس کا نام مریم تھا۔ ہم ، ہم جماعت نہیں تھیں مگر اس کا یہ نام میں نے اس کی سہیلیوں سے سن رکھا تھا۔ بس شهیدانِ دیباج ٹیکنیکل کالج کے سامنے کھڑی ہوئی۔ اس نے اپنے سر پر چادر درست کی، گھونگھٹ نکالا اور بس کی سیڑھیوں سے نیچے اتر گئی۔ شیشے کے باہر سے اس نے کئی بار ہاتھ ہلا کر اپنی سہیلیوں کو خدا حافظ کہا۔ اس بس میں بیٹھنے والے زیادہ تر مسافر تہذیب ٹیکنیکل کالج کی طالبات ہی ہوتی تھیں۔ بس میرزادہ عشقی روڈ، جہاں ہمارا گھر تھا، سے گزر کر جاتی تھی۔ میں ہر روز امام خمینیؒ ہسپتال والے بس سٹاپ پر اتر جاتی۔ ان دنوں ہماری گلی کا نام مہرگان گلی تھا جو قاضیان گلی کے سامنے تھی۔ میں سڑک سے گزر کر جب اپنی گلی میں داخل ہوئی تو اپنے گھر کے دروازے کے سامنے کھڑی ایک وانٹ([1]) پر نظر پڑی۔

کچھ مرد گھر کے صحن میں گئے اور کچھ بڑے بڑے ڈبے اٹھائے  واپس  نکلے اور انہیں گاڑی کے پچھلے حصے میں رکھ دیا۔

میں جب اپنے صحن کے سامنے پہنچی تو ایک طرف ہو کر کھڑی ہو گئی یہاں تک کہ وہ مرد صحن سے باہر آئے اور انہوں نے دوبارہ اچار کے کچھ ڈبے گاڑی میں رکھے۔

ہمارے چھوٹے سے صحن میں  کافی لوگ تھے اور صحن مختلف قسم کی خوشبوؤں سے بھرا ہوا تھا۔گھر میں ہر طرف عورتیں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بیٹھی یا کھڑی کسی نہ کسی کام  میں مشغول تھیں۔ کچھ چولہے کے پاس کھڑی ایک بڑے سے دیگچے میں مربّا پکا رہی تھیں اور کچھ ٹھنڈی ٹھنڈی سکنجبین کو ڈبوں میں ڈال رہی تھیں۔

کچھ خواتین ایک بڑے قالین پر بیٹھی قالین کے وسط میں رکھے ایک بڑے سے طبق میں پڑے خشک میووں  کو پلاسٹک کے چھوٹے لفافوں میں ڈال کر لفافوں کے منہ چھوٹی چھوٹی سبز ڈوریوں سے باندھ رہی تھیں۔

میں جب خانم حمیدزادہ کے پاس سے گزری تو انہیں سلام کیا۔ خانم حمیدزادہ میری ماں کی دوست تھیں اور بسیج کارخانے میں فی سبیل اللہ سلائی کا کام کرتی تھیں۔ انہوں نے خوش روئی سے میرے سلام کا جواب دیا اور اپنے ساتھ بیٹھی ایک عورت کے کان میں کچھ کہا۔ مجھے شرم آ گئی اور ایسا محسوس ہوا کہ میرے کانوں کی لویں سرخ ہو گئی ہیں۔

سات آٹھ خواتین ہال میں اکٹھی بیٹھی تھیں۔ ایک سفید اور بڑا دسترخوان قالین پر بچھا ہوا تھا اور درمیان میں قند کے ٹکڑوں کا ایک ڈھیر لگا ہوا تھا۔  قند کا غبار جو ہوا میں اڑ رہا تھا میرے گلے میں چلا گیا جس سے میرا منہ میٹھا ہو گیا۔ ایک عورت زبانی دعائے توسل پڑھ رہی تھی اور دوسری عورتیں جو ہاون میں قند ڈالے قند شکن سے قند توڑ رہی تھیں، وہ بھی ساتھ دھیمی دھیمی آواز میں پڑھ رہی تھیں: یَا وَجِیْھًا عِنْدَ الله اِشْفَعْ لَنَا عِنْدَ الله۔

میں بغیر کچھ کہے باورچی خانے میں چلی گئی۔ ماں نے چولہے پر بڑا دیگچہ چڑھا رکھا تھا اور اس میں مسلسل چمچہ ہلا رہی تھیں۔ سرکے کی خوشبو نے میرا گلا جکڑ لیا۔ میں نے ماں کو سلام کیا اور احوال پرسی کی۔ میں فریج کا دروازہ کھولنا ہی چاہتی تھی کہ خانم حمیدزادہ بھی میرے پیچھے پیچھے باورچی خانے میں آ گئیں اور آہستہ سے میری ماں کے کان میں کچھ کہا۔

میری چھٹی حس نے بتایا کہ کیا معاملہ چل رہا ہے۔ میں کمرے کی طرف بھاگی اور روپوش نکالنے اور لباس تبدیل کرنے کے بہانے وہیں کمرے میں ٹھہر گئی۔ نفیسہ، جو اس وقت پانچ سال کی تھی، کمرے میں سوئی ہوئی تھی۔

تھوڑی دیر بعد ماں نے مجھے آواز دی۔ میں نے کپڑے بدلے اور باہر آ گئی۔ خانم حمیدزادہ اور وہ عورت جو صحن میں ان کے پاس بیٹھی تھی کمرے کے اس کونے میں بیٹھی میرا انتظار کر رہی تھیں جہاں دوسری عورتیں قند توڑ رہی تھیں۔ ماں نے مجھے اشارہ کیا کہ میں اپنے بالوں کو درست کر لوں۔ مجھے یاد آ گیا کہ میں نے بالوں میں کنگھی نہ کی تھی۔ ماں نے مجھے اشارے سے کہا کہ میں ان کے لیے چائے لے جاؤں۔

میں سمجھ گئی تھی کہ خانم حمیدزادہ کی دوست خاتون کیوں مجھے اس قدر اشتیاق سے دیکھ رہی تھی۔ میں نے مہمانوں کے لیے رکھی ہوئی مخصوص پیالیوں میں چائے ڈالی۔ قندان کو قند سے بھرا اور سینی کے درمیان میں رکھ دیا۔ میں نے تھوڑا سا پیچھے ہو کر چائے کا رنگ دیکھا۔ اس کا رنگ  اچھا تھا اور اس میں سے گرم گرم بھاپ اٹھ رہی تھی۔میں نے خود کو سٹیل کے سماور([2]) میں غور سے دیکھا اور اپنے بالوں پر ہاتھ پھیر کر انہیں درست کیا۔ میں ہال میں آ گئی۔ خانم حمیدزادہ کی دوست مناسب اور متوسط قدوقامت، گورے چہرے،  پھیلی اور چمکتی ہوئی بھنووں اور سلجھے ہوئے خدوخال کی حامل خاتون تھیں۔  انہوں نے بہت سلیقے سے صاف ستھرا لباس پہن رکھا تھا۔ وہ کافی خوش لباس لگ رہی تھیں۔ میں نے جب جھک کر چائے کی سینی ان کے سامنے رکھی تو انہوں نے مسکرا کر ایک مادرانہ نگاہ مجھ پر ڈالی اور کہا: ’’بہت شکریہ، جیتی رہو، بیٹی۔ انشاء اللہ۔‘‘

میں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے چائے کی سینی کو خانم حمیدزادہ اور ماں کے سامنے رکھا ۔اس کے بعد سینی اور قندان کو  اٹھایا اور انہیں جا کر باورچی خانے میں رکھ دیا۔ پھر جا کر کمرے میں گھس گئی اور اس کے بعد باہر نہ نکلی۔ بیگ سے اپنی تقویم نکالی اور ۷ مارچ 1986؁ کے خانے پر ضرب کا چھوٹا سا نشان لگا کر لکھ دیا: ’’خواستگاری۔‘‘

ا س سے اگلے دن دو امتحانوں کے درمیان چھٹی کا دن تھا لہذا میں فجر کی نماز پڑھ کر سوئی تو ساڑھے نو بجے جا کر بیدار ہوئی۔ جب جاگ کر
غسل خانے میں مسواک کرنے گئی تو تعجب سے میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ خانم حمیدزادہ اور وہ کل والی خوش پوش خاتون صحن میں کھڑی ماں سے باتیں کر رہی تھیں۔

میں باورچی خانے میں جا کر کھڑی ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ لوگ چلے گئے۔ ماں آ کر کہنے لگیں: ’’بیٹی، منصورہ بیگم، وہی کل والی خاتون ، خانم حمیدزادہ کی دوست ہیں۔ تم انہیں بہت پسند آئی ہو۔ خانم حمیدزادہ نے ان کی بہت تعریف کی ہے۔ کہہ رہی تھیں کہ اچھا خاندان ہے۔ ان کا بیٹا  حمیدزادہ کے بیٹے کا دوست اور ہم رزم ہے۔‘‘

میں نے ناراض ہوتے ہوئے کہا: ’’ماں، پھر آٓپ نے شروع کر دیا! کتنی بار کہوں کہ میرا ابھی شادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میں ابھی کالج میں پڑھنا اور پھر اس کے بعد یونیورسٹی بھی جانا چاہتی ہوں۔‘‘

ماں نے کہا: ’’تمہارے ہاتھ پاؤں کیوں پھول رہے ہیں؟ اتنی جلدی تھوڑی ہی ہو رہی ہے کہ آئے اور تمہیں لے گئے؟ میں نے بھی انہیں بہت سی دوسری باتیں اور تمہاری پڑھائی کے بارے میں بتا دیا ہے۔ منصورہ بیگم کو تمہاری نجابت اور شرافت بہت پسند آئی۔وہ کہہ رہی تھیں کہ ان کے بیٹے کو تم جیسی ہی بیوی چاہیے۔ انہوں نے کہا ہے کہ انہیں تمہاری پڑھائی کے حوالے سے کوئی مشکل نہیں ہے۔ اگر تم چاہو تو شادی کے بعد بھی اپنی پڑھائی جاری رکھ سکتی ہو۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ ان کی اپنی بیٹی کی بھی پڑھائی کے دوران ہی شادی ہوئی۔‘‘

میں نے سر جھکا لیا اور کچھ نہ کہا۔ ماں مسکرا دیں اور خوشی سے کہنے لگیں: ’’اچھا خاندان لگ رہا ہے۔ ان کا بیٹا فوجی ہے۔‘‘

میری ماں جانتی تھیں کہ شادی کے حوالے سے میری اپنی شرط یہ تھی کہ میرا شوہر فوجی ہو۔ میری نظر میں فوجی کامل، بے عیب، مومن اور پختہ عقیدے والے انسان  اور اخلاق و مرتبے میں علماء کے ہم مرتبہ تھے۔ ماں نے کہا: ’’منصورہ بیگم کہہ رہی تھیں کہ جب سے جنگ چھڑی ہے، ان کا بیٹا اس وقت سے لے کر اب تک محاذ پر ہی ہے۔‘‘

میں نے محسوس کیا کہ ماں خود بھی اس رشتے سے راضی ہیں کیونکہ وہ مجھے میری شادی کی شرائط یاد کرا رہی تھیں۔ میری شادی کی دوسری شرط یہ تھی کہ میرا شوہر جنگجو ہو۔ میں نے اپنی ماں سے کہہ رکھا تھا  کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں انقلاب کے لیے کوئی کام کروں۔ میں معاشرے پر بوجھ بننا پسند نہیں کرتی تھی۔ میرا مقصد یہ تھا کہ میں ایک فوجی اور جنگجو سے شادی کر کے انقلاب کے راستے پر چلوں اور اپنے ملک کی خدمت کروں۔

ماں نے جب میری خاموشی دیکھی تو انہوں نے اور کوئی بات نہ کی۔

اگلے روز جب میں کالج سے واپس آئی تو دیکھا کہ ماں نے گھر کو ایک گلدستے کی طرح صاف ستھرا اور مرتب کر دیا تھا۔ صحن کے دروازے کے سامنے جھاڑو لگا کر پانی چھڑک دیا  گیا تھا۔ صحن کو انہوں نے دھو دیا تھا۔ شیشوں کو رگڑ کر اچھی طرح صاف کر دیا تھا۔ کمروں میں جھاڑو لگا دیا  گیا تھا اور گھر کے سازو سامان اور سجاوٹ کی چیزوں سے گرد صاف کر دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ مربا اور اچار بنانے جیسے گھر کے روزمرہ کے کاموں کی کوئی خبر نہ تھی۔

گھر پھولوں کی خوشبوسے مہک رہا تھا۔ ماں نے ہماری غیر موجودگی میں چار پانچ گھنٹے لگا کر یہ سارا کام اکیلے انجام دیا تھا، اس لیے مجھے ان کا بہت دکھ ہوا۔ ماں نے میرے کان میں کہا کہ آج منصورہ بیگم اور ان کا بیٹا ہمارے گھر آ رہے ہیں۔

یہ سن کر میرے تو ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے اور دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اگرچہ خواستگار کی آمد کا سن کر دل کو عجیب سے بے کلی ہو رہی تھی مگر اس کے باجود بھی رؤیا کے ساتھ مل کر ہم نے گھر کی صفائی مکمل کی۔

رات ہو گئی تھی۔ ماں رات کا کھانا تیار کر رہی تھیں۔ ساڑھے آٹھ بجے ہوں گے کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ بابا نے دروازہ کھولا۔ منصورہ بیگم اور ان کا بیٹا تھے۔ میں اپنی بہنوں کے ساتھ اپنے کمرے میں  چھپ گئی جبکہ ماں اور بابا مہمانوں کے ساتھ مہمان خانے میں چلے گئے۔  مجھے سمجھ نہ آ رہی تھی کہ میں کیا کروں؟ بے قراری بڑھتی جا رہی تھی۔ اضطراب اور بے چینی سے سانس لینا محال ہو رہا تھا۔  بے کار بیٹھ بیٹھ کر تنگ آئی تو اپنی تقویم اٹھا لی۔ اسے کھولا  اور پیر 9 مارچ  1986؁ کے آگے ایک چھوٹی سی علامت لگا دی۔

علاء الدینی چراغ کمرے کے درمیان میں تھا کہ جس پر رکھی کیتلی کے ڈھکنے اور ٹونٹی سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ کمرہ گرم ہونے کے باوجود میں سردی سے لرز رہی تھی اور میرے دانت بج رہے تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں اندر سے برف کی طرح جم چکی ہوں۔

کچھ دیر گزری تو ماں کمرے میں آئیں اور آہستہ سے کہا: ’’بیٹی، آؤ چلیں۔ تمہارے بابا نے اجازت دے دی ہے کہ تم داماد سے بات کر لو۔‘‘

میرا دل اچھل کر سینے سے باہر آنے لگا تھا۔ مجھے اپنے ہاتھ پاؤں پر اختیار نہ رہا تھا۔ ماں آگے چل پڑیں۔

 میں نے جیسے ہی مہمان خانے میں پاؤں رکھے  تو میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ منصورہ بیگم اور ان کا بیٹا کھڑے ہو گئے اور خوش روئی سے مجھے سلام کیا اور احوال پرسی کی۔ ماں اور بابا منصورہ بیگم کے ساتھ باہر نکل گئے۔

داماد کا قد لمبا تھا۔ اسی لحظے میرا دل چاہا کہ میں بھی دس سینٹی میٹر اونچی ایڑی والے جوتے پہن کر ان کے برابر ہو جاؤں۔ ان کا سر نیچے کو جھکا ہوا تھا۔ میں نے اس فرصت سے استفادہ کیا اور انہیں جی بھر کر غور سے دیکھ لیا۔ وہ آٹھ جیبوں والا فوجی لباس ، کریمی اوور کوٹ اور بھورے رنگ کی قمیص میں ملبوس، بھورے بال، بھوری داڑھی اور حنائی اور بھورے رنگ کی مونچھوں کے ساتھ کھڑے تھے۔میں نے ان کی آنکھوں کو نہ دیکھا تھا کیونکہ اس تمام وقت میں انہوں نے اپنے سر کو ایک لمحے کے لیے بھی اوپر نہ اٹھایا تھا۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آ رہی تھی کہ کیا کروں۔ میں نے اپنا چہرہ چادر سے اس طرح ڈھانپ لیا کہ میری فقط ناک دکھائی دے رہی تھی۔ کمرے کے وسط میں قالین پر مٹھائی کی ایک ٹوکری اور ایک گلدستہ پڑا تھا۔پھولوں کی دلفریب خوشبو نے کمرے کو معطر کر رکھا تھا۔ وہ کمرے کی کھڑکی کے پاس بیٹھے تھے جو گلی میں کھلتی تھی اور میں دائیں طرف دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ کچھ دیر خاموشی ہی میں گزر گئی۔ بالآخر انہوں نے بات شروع کی:

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میرا نام علی چیت سازیان ہے۔ میں ایک بسیجی ہوں ۔ بسیجی، امام [خمینیؒ]کے راستے پر چلنے والا۔ موت اور میرے درمیان فقط ایک ثانیے کا فاصلہ ہے۔ دعا کیجیے کہ مجھے شہادت نصیب ہو۔ کسی بھی وقت ممکن ہے کہ میں شہید ہو جاؤں، یا زخمی ہو جاؤں یا پھر اسیر ہو جاؤں۔کافی عرصہ  ہو چکا ہے کہ ہر مہینے ہمدان بھی نہیں آتا۔‘‘

انہوں نے تھوڑا سکوت کیا۔ شاید منتظر تھے کہ میں بھی کچھ کہوں۔ جب انہوں نے میری خاموشی دیکھی تو اپنی بات جاری رکھی۔

’’کالج میں دوسرے سال تک پڑھا ہوں۔ اس سے زیادہ نہیں پڑھا۔ اس کی وجہ یہی جنگ ہے۔ میری زندگی میں جنگ سب چیزوں پر مقدم ہے۔ چونکہ امام خمینیؒ کا حکم ہے کہ محاذ اور مورچوں کو خالی نہ چھوڑا جائے لہذا اگر بیس سال تک بھی یہ جنگ جاری رہتی ہے تو میں لڑتا  اور اپنے دین، ایمان اور انقلاب کا دفاع کرتا رہوں گا۔ کالج میں میرا مضمون ’’برقیات‘‘ تھا۔ دیباج ٹیکنیکل کالج میں پڑھا ہوں۔ مال دنیا میں سے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے؛ نہ گھر، نہ گاڑی، نہ پیسہ، کچھ بھی نہیں۔‘‘

وہ ایک بار پھر خاموش ہو گئے تاکہ میں بھی کچھ کہوں۔ پھر خود ہی کہنے لگے: ’’البتہ خدا کا شکر ہے کہ میرا جسم سلامت ہے۔ الحمد للہ کھلاڑی ہوں؛ جنگ میرا کام ہے۔ اگر آپ کو اچھا نہیں لگتا تو کوئی بات نہیں، شادی کے بعد ہر چیز تبدیل ہو جائے گی۔ یعنی اگر میری ہونے والی بیوی میرے محاذ پر جانے سے راضی نہ ہوئی تو میں محاذ سے کنارہ کش ہو کر واپس آجاؤں گا اور ادھر ہمدان ہی میں کوئی کام شروع کر دوں گا۔‘‘

میں یہ بات سن کر لرز گئی۔ میں نے کہا: ’’نہیں، اتفاقاً میں نے اپنی شادی کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی رکھی ہوئی ہے کہ میرا شوہر حتماً فوجی اور جنگجو ہو۔‘‘

وہ مسکرائے۔ تسبیح ان کے ہاتھ میں تھی جسے تیزی سے گھما رہے تھے۔ یک دم ان کے ہاتھ کی حرکت رک گئی اور مسکراہٹ ان کے سارے چہرے پر پھیل گئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں نے اپنے امتحان کے پہلے پرچے میں پورے سو نمبر لے لیے ہیں۔

انہوں نے خوش ہو کر کہا: ’’خدا کا شکر! میں نے اپنے آپ کو محاذ کے لیے وقف کر چھوڑا ہے۔ جب آپ کوئی برتن یا قالین مسجد کے لیے وقف کرتے ہیں تو پھر کسی بھی صورت میں اسے مسجد سے باہر نہیں لے جا سکتے، سوائے اس صورت میں کہ برتن ٹوٹ جائے یا قالین بوسیدہ ہو جائے یا پھٹ جائے۔ اس وقت بھی اسے پھینک نہیں سکتے بلکہ اسے رفو کرنے کے بعد دوبارہ مسجد ہی میں رکھا جائے گا۔‘‘

انہوں نے پوچھا: ’’اب آپ سنائیے۔ زندگی اور شادی کا آپ کی نظر میں کیا مقصد ہے؟‘‘

میں نے کہا: ’’میرا بہت دل چاہتا ہےکہ میں انقلاب کی کوئی خدمت کروں۔ میں اپنی ماں کے ساتھ محاذ پر مدد پہنچانے اور نگہداری کرنے کے حوالے سے کام کرتی ہوں۔ لیکن میں سوچتی ہوں کہ مجھے اس سے زیادہ جنگ و محاذ پر مدد کرنی چاہیے۔ مگر میں نہیں جانتی کہ کس طرح؟ اگر میرا ہونے والا شوہر جنگجو ہو تو ہو سکتا ہے کہ میں اس کی مدد کر سکوں۔ میری نظر میں حقیقی اور معتقد مسلمان بننے کے لیے انسان کا ایمان، دین اور اس کا عقیدہ سب سے زیادہ اہم ہیں۔‘‘

اس حالت میں مجھے کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا کہ کیسے اپنا ما فی الضمیر بیان کروں؟ دو تین جملے کہہ کر خاموش ہو جاتی۔ میں کوشش کر رہی تھی کہ خالص اور کتابی لفظوں میں گفتگو کروں۔ علی آغا بھی ایسے ہی لگ رہے تھے کہ کتابی زبان میں بات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے پوچھا: ’’پس آپ میرے شہید ہونے، زخمی ہونے یا اسیر ہو جانے کے حوالے سے کبھی پریشان نہیں ہوں گی؟‘‘

میں حواس باختہ ہو گئی اور نہیں معلوم کیسے یہ بات میرے ذہن میں آ گئی اور میں نے جلدی سے جواب دے دیا: ’’خدا نے ایسا نہیں کیا کہ کوئی شخص ایک ہی دفعہ شہید بھی ہو، زخمی بھی ہو اور اسیر بھی ہو جائے۔‘‘

وہ مسکرا دیے۔ میں نے سوچا کہ کہیں میں نے کوئی سطحی اور ہلکا سا جواب نہ دیا ہو۔ میں نے اپنے جواب کو درست کرنا چاہا: ’’آپ کی والدہ کہہ رہی تھیں کہ جب سے جنگ شروع ہوئی ہے آپ مسلسل محاذ پر ہیں۔ خدا کا شکر کہ ابھی تک تو ایسا کوئی اتفاق پیش نہیں آیا۔ آئندہ بھی انشاء اللہ ایسی کوئی مشکل نہیں آئے گی۔‘‘

انہوں نے کچھ نہ کہا۔ ان کا سر جھکا ہوا تھا اور تسبیح پر ذکر پڑھ رہے تھے۔ مجھے اچانک اپنا اصلی سوال یاد آ گیا کہ کل سے آج تک میں کئی دفعہ وہ پوچھنے کی مشق کر چکی تھی: ’’معذرت چاہتی ہوں، آپ کے خیال میں شادی کا کیا مقصد ہے؟‘‘

انہوں نے بغیر کچھ سوچے فوراً جواب دیا:  ’’اپنے دین کو کامل کرنا اور رسول اللہﷺ کی سنت ادا کرنا۔‘‘

پھر تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد کہنے لگے:

’’محاذ کے دوران جب کسی مہم پر جانا ہوتا ہے تو چھٹیاں معطل کر دی جاتی ہیں۔ بعض اوقات شادی شدہ فوجی کہتےہیں کہ علی آغا کے بیوی بچے تو ہیں نہیں،اس لیے انہیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ان کی حالت کو خود محسوس کروں۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر سب کے حالات ایک جیسے ہوں تو ایسی صورت میں کوئی قانون بنانا اور اسے اجراء کرنا بہتر ہے۔ البتہ یہ شادی کا اصلی نہیں  بلکہ ایک ضمنی ہدف ہے۔‘‘

جہاں مجھے یہ جواب سن کر حیرت ہوئی وہیں ان کی سچائی بھی بہت بھلی لگی۔میں نے کنکھیوں سے ان کی طرف دیکھا، ابھی تک ان کا سر جھکا ہوا تھا اور اپنی تسبیح پر ذکر پڑھ رہے تھے۔

جب ہمارے درمیان خاموشی  طولانی ہو گئی تو میں نے کہا: ’’صحیح، میرا نام زہرا ہے، البتہ شناختی کارڈ پر، لیکن سارے مجھے فرشتہ کہتے ہیں۔‘‘

وہ مسکرا دیے: ’’زہرا خانم۔ کیا اچھا نام ہے! ہم عاشق  اہل بیتؑ و زہراؑ ہیں۔ حتی کہ بی بیؑ کا اسم مبارک زبان پر لانا بھی ایک لیاقت اور صلاحیت مانگتا ہے۔‘‘

میں اٹھ کھڑی ہوئی اور کمرے سے باہر آ گئی۔ بابا ہال میں دروازے کے سامنے بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھ کر ابرو کے اشارے سے پوچھا: ’’کیا ہوا؟‘‘

میں نے شرم سے کہا: ’’کچھ نہیں، جو آپ کی مرضی۔‘‘

بابا مسکرا دیے اور کہنے لگے: ’’مبارک ہو۔‘‘

ماں اور منصورہ بیگم جو ہال میں بیٹھی گرم جوشی سے باتیں کر رہی  تھیں۔ بابا نے انہیں جا کر کہا کہ مہمان خانے میں تشریف لے جائیں۔

میں کمرے میں اپنی بہنوں کے پاس جانا چاہتی تھی لیکن ماں نے میرا ہاتھ پکڑا  اور ہم دوبارہ مہمان خانے میں چلے گئے۔ بابا علی آغا کے پاس بیٹھ گئے اور کام کاج اور جنگ و محاذ کے حالات کے بارے میں پوچھنے لگے۔ ماں، منصورہ بیگم کو اپنے ان کاموں کے بارے میں بتانے لگیں جو انہوں نے محاذ جنگ پر مصروف فوجیوں کی مدد کے لیے انجام دیے تھے۔ وہ انہیں اپنے سلائی والے کارخانے اور اپنی دیگر سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ کرنے لگیں۔

اچانک میں متوجہ ہوئی کہ بابا شادی کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے حق مہر کی بات بھی کی۔بابا نے کہا: ’’میرے مدنظر کوئی خاص چیز نہیں ہے۔ جو کچھ آپ خود بہتر سمجھتی ہیں۔‘‘

منصورہ بیگم نے میری طرف دیکھا اور خوشدلی سے کہا: ’’ہم چہاردہ معصومینؑ کی نیابت میں اپنی بہو کا حق مہر چودہ سکے([3]) مقرر کرتے ہیں۔‘‘

میں نے اپنی ماں کے کان میں کہا: ’’یہ کیا! یہ تو بہت زیادہ ہے۔‘‘

منصورہ بیگم نے سن لیا: ’’نہیں بیٹی، زیادہ نہیں ہے۔ تمہاری قدر و قیمت تو اس سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن کیا کریں بالآخر ایک رسم ہے جسے پورا کرنا ہے۔‘‘

بابا نے کہا: ’’ہمارے لیے مادیات کی اصلاً کوئی قیمت نہیں ہے۔ خدا گواہ ہے کہ ہم نے آپ کے خاندان کے بارے میں چھان بین تک نہیں کی۔  ماشاء اللہ علی ایک اچھا، پاکدل اور مومن جوان ہے۔جب سے جنگ کا آغاز ہوا ہے وہ محاذ پر ہے، یہی بات ہمارے لیے کافی ہے۔ میں پورے فخر سے اپنی بیٹی کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیتا ہوں۔ علی ایک متقی، خداترس، بہادر، غیرتمند، انقلابی اور حزب اللہی انسان ہے۔ اس کی یہی چیز باقی سب چیزوں سے زیادہ قدر و اہمیت کی حامل ہے۔ خدا کی قسم، اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ آج میری بیٹی کی شادی ہو گی اور کل علی شہید ہو جائے گا تو پھر بھی میں اپنی بیٹی آپ کے سپرد کر دوں گا۔‘‘

علی آغا کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔ بابا کے جواب میں کہنے لگے: ’’ہمارے بھی ا ٓپ کے خاندان کے بارے میں ایسے ہی جذبات ہیں۔ خدا کی قسم، اگر آپ کی طرف سے انکار سنتے، تب بھی آپ سے ناراض نہ ہوتے۔ الحمد للہ آپ بھی ایک بسیجی اور قابل قدر خاندان ہیں۔ ہمارے لیے بھی افتخار کی بات ہے کہ آپ جیسے مومن اور ایثار گر خاندان کے ساتھ ہمارا رشتہ جڑ رہا ہے۔‘‘

پھر وہ خاموش ہو گئے اور آہستہ سے کہا: ’’میں نے جب اس گھر میں قدم رکھا تھا تو مطمئن تھا کہ یہاں سے ناامید اور خالی ہاتھ لوٹ کر نہیں جاؤں گا۔‘‘

اگلے روز ہم نانی اماں کے گھر چلے گئے تا کہ ایک تو انہیں اس رات کی دعوت دے دیں، جس رات کو داماد کے گھر والوں نے ہمارے ہاں آنا تھا اور دوسرا یہ کہ محمود ماموں سے ملاقات بھی کر آئیں۔ وہ محاذ سے لوٹے تھے۔ وہاں پہنچ کر کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد ماں نے انہیں بتایا: ’’محمود، کل زہرا کی خواستگاری کے لیے آئے تھے۔‘‘

محمود ماموں نے شرارت سے مسکرا کر میری طرف دیکھا: ’’مبارک ہو بھانجی!‘‘

میں نے شرم سے سر جھکا لیا اور اپنی کالی چادر کا کونہ پکڑ کر اسے مروڑنے لگی۔ محمود ماموں نے پوچھا: ’’بہت اچھا، لیکن یہ تو بتائیے کہ ہمارے ہونے والے داماد کرتے کیا ہیں؟‘‘

ماں نے جواب دیا: ’’تمہاری طرح فوجی ہے۔ علی چیت سازیان نام ہے۔‘‘

محمود ماموں چائے پی رہے تھے۔یہ سننا تھا کہ انہیں اچھو لگ گیا۔ ان کی آنکھیں تعجب سے کھلی کی کھلی رہ گئیں: ’’علی آغا؟!‘‘

ماں نے پوچھا:’’تم  اسے جانتے ہو؟‘‘

پھر ماں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا: ’’میں نے کہا تھا نا کہ محمود کو بتاتے ہیں۔ وہ یقیناً انہیں جانتا ہو گا۔‘‘

جیسے ہی ان کی کھانسی بند ہوئی تو کہنے لگے: ’’یعنی تم لوگ علی آغا کو نہیں جانتے؟ وہ ہمارے کماندار ہیں۔ ایک انصار الحسین ڈویژن اور ایک علی آغا! ایک نڈر اور شجاع انسان۔ Operation Information کے کماندار ہیں۔‘‘

ہم سب فوجیوں کو ان پر اتنا اعتماد ہے کہ اگر وہ جھوٹ بھی بولیں تب بھی آنکھیں بند کر کے ان پر یقین کر سکتے ہیں۔ سب کہتے ہیں کہ علی آغا اتنے شجاع ہیں کہ دشمن کی زمین پر جا کر ان کے کھانا لینے والی قطار میں جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور بھی بہت سی باتیں کہتے ہیں۔ صحیح کہتے ہیں۔ وہ بہت ہی بہادر اور شجاع انسان ہیں۔ انصار الحسین ڈویژن کے Operation Information کے شعبے کے لیے ایک عظیم سرمایہ ہیں۔ خدا ان کی حفاظت کرے۔‘‘

ماں نے میری طرف دیکھا اور تعجب سے کہا: ’’ہمیں تو انہوں نے بالکل نہیں بتایا کہ وہ کماندار ہیں۔ نہ خود انہوں نے نہ ان کی ماں نے۔‘‘

محمود ماموں نے کہا: ’’علی آغا بہت ہی مخلص اور بے ریا انسان ہیں۔ وجیہہ بیگم، اگر وہ آپ کے داماد بن جاتے ہیں تو یہ آپ کی بہت بڑی خوش قسمتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جھوٹ اور ریا کاری ان میں بالکل نہیں ہے۔ نہ خدا سے جھوٹ بولتے ہیں نہ انسانوں سے۔ جب بھی ہم سے بات کرتے ہیں تو اپنی بات کی ابتدا امام علی علیہ السلام کے قول سے کرتے ہیں کہ  وجدان تنہا ایسا محکمہ ہے جسے قاضی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بس یہ جملہ یاد رکھیں اور خدا کا نام لے کر اس کام کو انجام دیں ۔‘‘

اس کے بعد محمود ماموں نے کافی سنجیدہ لہجے میں ماں سے کہا: ’’لیکن بہن، ایک بات کہوں۔ علی آغا نے اپنے آپ کو محاذ و جنگ کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ خوب غور و فکر کر لیں۔ وہ ان مردوں میں سے نہیں ہیں جو شادی کے بعد اپنے شہروں کو لوٹ آتے ہیں اور اپنے خاندان  اور زندگی سے چپک کر رہ جاتے ہیں۔‘‘

ماں نے اعتراض کرتے ہوئے کہا: ’’لیکن ہم نے کب کہا کہ وہ جنگ سے ہاتھ کھینچ لے۔ محمود، تم خود بتاؤ، کیا ماں اور ہم نے تمہارے اور محمد([4]) کے جانے کی کبھی مخالفت کی؟‘‘

نانی جو ہمارے لیے پھل اور خاطرداری کی دوسری چیزیں لانے میں مصروف تھیں، محمد ماموں کا نام سن کر آہ بھرنے اور رونے لگیں۔ ماں نے ہوشیاری سے  بات کا رُخ پھیرتے ہوئے محمود ماموں سے کہا: ’’اچھا پھر یہ بتاؤ کہ کیا تم بھی شادی کے بعد خانہ نشین ہو گئے ہو؟!‘‘

ماموں ہنس پڑے: ’’ارے بہن، آپ میرا علی آغا کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہیں؟ میرے جیسے سو بلکہ ہزار بھی ہوں تب بھی علی آغا کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔‘‘

محمود ماموں اٹھ کھڑے ہوئے اور جا کر اپنی تصویروں والی البم لے آئے: ’’میں نے ان کے ساتھ کچھ تصویریں کھنچوائی ہیں۔‘‘

وہ البم کے اوراق الٹ کر علی آغا کی تصویر ڈھونڈ رہے تھے: ’’شاید تئیس سال سے زیادہ عمر نہیں ہے ان کی، مگر تیس سال سے اوپر کے مرد لگتے ہیں۔‘‘

محمود ماموں ہمیں علی آغا کے بارے میں بتا رہے تھے اور اپنی البم کے اوراق بھی الٹتے جا رہے تھے۔ اس دن تک میں جب بھی اپنی شادی اور اپنے ہونے والے شوہر کے بارے میں سوچتی تھی تو ہمیشہ میرے تصور میں ایک لمبے قد، چوڑے شانوں اور کالی آنکھوں اور ابرؤوں والا شخص آتا تھا۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میں ایک روز ایک ایسے شخص کی دلہن بنوں گی جو بھورے بالوں اور نیلی آنکھوں والا ہو گا۔ ماموں نے ایک تصویر پر ہاتھ رکھ کر کہا: ’’یہ ان کی یونٹ کا ایک فوجی ہے۔ یہ ایک مہم میں زخمی ہو گیا اور دشمن کے علاقے میں پھنس گیا۔ کسی میں اتنی جرأت نہ تھی کہ جا کر اسے وہاں سے واپس لائے۔ علی آغا خود ایمبولینس کے پیچھے بیٹھ کر گئے اور دشمن کی سرزمین میں گھس گئے اور اسے عراقیوں کی ناک کے نیچے سے نکال کر لے آئے۔ اگر ایمبولینسز کے سو ڈرائیوروں کو بھی کہا جاتا کہ جا کر اسے چھڑا لائیں تو کسی میں بھی ایسی جرأت نہ تھی۔‘‘

ماموں نے ایک اور تصویر پر ہاتھ رکھا: ’’یہ بھی علی آغا ہیں۔‘‘

میں شرما گئی اور اپنا سر نیچے جھکا لیا۔ ماموں بتا رہے تھے: ’’انہیں اپنی فوجیوں کی بہت فکر رہتی ہے۔کمانداری کے معاملے میں انتہائی سخت اور منظم ہے، لیکن بلا کے نرم دل اور دلسوز بھی۔ جب ان کے فوجی گشت پر جاتے ہیں تو ان کے آنے تک ان کے راستے پر کھڑے رہتے ہیں۔ جب تک آخری فوجی واپس نہ آ جائے وہ بھی اپنی جگہ پر واپس نہیں آتے۔ یہ ان کی دلسوزی کا ایک مثال ہے۔ حتماْ اپنی زندگی میں اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوں گے۔‘‘

اس دن محمود ماموں ظہر تک علی آغا ہی کے بارے میں بتاتے رہے اور ان کی تعریف کرتے رہے۔

ہم گھر کافی دیر سے لوٹے۔ میں تمام راستے محمود ماموں کی باتوں کے بارے میں سوچتی رہی۔ مجھے اچھا محسوس ہو رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ میں اپنی زندگی کی سب سے بڑی آرزو کو پا چکی ہوں۔ ایک ایسے جنگجو کے ہمراہ زندگی گزارنا جس کا ہم و غم محاذ اور جنگ ہو حتماً اس چیز کا باعث بن سکتا تھا کہ میں اپنے ہدف تک پہنچ جاؤں اور انقلاب میں اپنا کردار بھی ادا کر سکوں۔

اس رات کھانے کے بعد منصورہ بیگم، چچا ناصر، علی آغا، امیر آغا، حاج صادق اور ان کی بیوی اور بیٹی، لیلا اور علی آغا کی بہن سب ہمارے گھر آئے۔ منصورہ بیگم کی ایک ہی بیٹی تھی۔ جیسے ہی انہوں نے اپنی بیٹی کا تعارف کروایا تو چند لمحوں کے لیے تو میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا  اور میں کمرے کے درمیان مبہوت ہو کر رہ گئی۔ مجھے یقین نہ آتا تھا۔ یہ مریم تھی؛ وہی بھوری اور خوبصورت لڑکی جو بس میں ہمارے ساتھ جاتی تھی، جس کی شکل مجھے بہت اچھی لگتی تھی اور جس کے ساتھ میں دوستی کرنا چاہتی تھی۔ اب وہ اپنے پاؤں پر چل کر ہمارے گھر آئی تھی اور میرے سامنے کھڑی تھی اور طے پایا تھا کہ وہ میری نند بن جائے۔ وہ بھی مجھے دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔

دوسری طرف علی آغا بھی اپنے ماتحت محمود ماموں کو دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے اور مسلسل محمد ماموں کے بارے میں پوچھ رہے تھے جو جنگ کے اوائل یعنی  1981؁ میں ماہ شہر سے لاپتہ ہو گئے تھے اور ابھی تک ان کی کوئی خبر نہ تھی۔

علی آغا کے والد ناصر چچا ایک بذلہ سنج، ہنس مکھ، شوخ طبع، خوش مزاج اور مہربان انسان تھے۔ نسبتاً موٹا جثہ، گندمی بال اور متوسط قد۔ سب ان کی باتوں سے بہت خوش ہو رہے تھے۔

حاج صادق اس خاندان کے پہلے بیٹے تھے۔ 1959؁ میں پیدا ہوئے۔وہ  قہاوند([5]) کے ذیلدار تھے اور ان کی بیوی منیرہ خانم ٹریننگ ٹیچر تھیں۔ ان کی دو سالہ بیٹی لیلا بہت میٹھی میٹھی باتیں کرنے والی اور  دلچسپ بچی تھی۔ امیر آغا، دوسرے بھائی تھے جو   1961؁ میں پیدا ہوئے۔ گورا رنگ، کالی آنکھیں اور کالے ابرو،دور کی کالی عینک، سب بھائیوں سے زیادہ لمبا قد۔ وہ جہاد کے دوران تعمیراتی کام کرتے تھے۔اس رات مجھے  معلوم ہوا کہ وہ بہت مہربان اور دلسوز ہیں۔ مریم اور علی آغا  اپنے بھورے بالوں اور سفید رنگ کے حوالے سے اپنی ماں پر گئے تھے  جبکہ حاج صادق اور امیر اپنے والد پر۔

اس محفل میں ہمارے عقد کی تاریخ مقرر ہوئی: 27 مارچ 1986؁ ہمارے گھر میں ہمارے عقد کی خصوصی تقریب ہونا قرار پائی۔ طے یہ پایا کہ رخصتی بعد میں ہو گی۔

منصورہ بیگم نے کپڑوں کا ایک ان سلا جوڑا مجھے تحفے میں دیا۔ اس جوڑے کی وجہ سے میں رسمی طور پر علی آغا کی منگیتر ہو گئی۔

رات کے آخری پہر جب سب خداحافظ کہنے لگے تو علی آغا نے سب کی طرف رُخ کیا اور کہا: ’’خدا حافظ، کوئی کوتاہی ہوئی ہو تو معاف کیجیے گا۔‘‘

اگلے روز صبح انہوں نے اپنے محاذ پر جانا تھا۔میرا دل چاہ رہا تھا کہ کہہ دوں: ’’دعاؤں میں یاد رکھنا۔‘‘، لیکن لاکھ کوشش کے باوجود بھی نہ کہہ پائی۔

اس رات سونے سے پہلے میں اپنی تقویم پر 27 مارچ کی تاریخ کے آگے نشانی لگانا چاہتی تھی مگر اس سال کی تقویم ختم ہو چکی تھی([6]) لہذا ضروری تھا کہ میں اگلے نئے سال کی تقویم خرید کر لاؤں۔

1986؁ کی سردیاں ختم ہو چکی تھیں اور بہار آنے کو تھی۔ جنگ کے بعد کے سالوں میں آنے والی عیدوں کی طرح اس سال کی عید میں بھی ہمارے گھر میں دسترخوان ہفت سین کا اہتمام نہ کیا گیا اور نہ ہی عید نوروز([7]) کی خوشیاں منائی گئیں۔

میری ماں کا خیال تھا کہ چونکہ اس سال بہت سے خاندانوں میں کوئی نہ کوئی شہید ہوا ہے اور ہم جنگ کی حالت میں بھی ہیں لہذا ان خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے اس سال عید کا جشن نہ منائیں۔لیکن بہار کو کسی کےغم سے کیا مطلب؟ اس نے آنا تھا، سو آ کر رہی۔ غنچوں اور پھولوں کی فرحت بخش خوشبو، بارش اور سرور آور نسیم کو ساتھ لیے وہ پہنچ چکی تھی۔

عید کے پہلے دن ہم نانی کے گھر گئے اور ظہر کے بعد ماموں اور پھوپھی بابا اور ماں سے ملنے ہمارے گھر آئے۔عید کے دوسرے دن ہم گھر میں مہمانوں کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔ سلائی کے کارخانے میں چھٹی تھی جس کی وجہ سے ماں گھر پر ہی تھیں۔ ہم ماں کے گھر رہنے کی وجہ سے زیادہ خوش تھے۔

عید کے ساتویں دن ہمارے عقد کی تقریب ہونا تھی، لیکن ابھی تک کوئی کام انجام نہ پایا تھا۔ شادی کی خریداری تک نہیں کی تھی حتی کہ اس کے بارے میں کوئی تذکرہ ہی نہیں ہوا۔ علی آغا اور ان کے خاندان کی بھی خبر نہ تھی کہ وہ لوگ کوئی تیاری کر رہے ہیں یا نہیں۔

24 مارچ کا دن تھا۔ گذشتہ رات بابا نے اپنے دوستوں سے سنا تھا کہ علی آغا کے نائب شہید ہو گئے ہیں۔ ماں ہمیشہ کی طرح صبح جلدی اٹھ گئیں اور باورچی خانے میں مشغول ہو گئی تھیں۔ صبح نو بجے کے قریب انہوں نے مجھے جگایا اور غم زدہ حالت میں کہا: ’’بیٹی، اٹھو۔ ریڈیو پر بتا رہے ہیں کہ علی آغا کے نائب مصیب مجیدی شہید ہو گئے ہیں۔ آج تدفین ہے۔ جلدی اٹھو، ناشتہ کرو۔ پھر ان کے گھر بھی جانا ہے۔‘‘

رؤیا اور نفیسہ بھی جاگ گئی تھیں۔ ہم نے ناشتہ کیا، کپڑے بدلے اور ان کی گھر کی طرف چل پڑے۔ اگرچہ نئے سال کے ابتدائی دن تھے، اس کے باوجود باغ بہشت([8]) ہجوم سے بھرا پڑا تھا۔ شہید مجیدی کی تدفین کے لیے بہت زیادہ لوگ باغِ بہشت میں آئے ہوئے تھے۔ گذشتہ رات ہونے والی بارش نے قبروں کو دھو کر صاف کر دیا تھا۔ بہت سی قبروں پر نوروز کی عید کی مناسبت سے سبزہ، پھول، مٹھائیاں اور ہفت سین کی اشیاء سجی ہوئی تھیں۔

صبح کی ٹھندی ہوا چل رہی تھی اورباغ بہشت کے چھوٹے بڑے درخت ہل رہے تھے۔ ہم اس جگہ کے قریب چلے گئے جہاں جنازے سے پہلے خطاب ہونا تھا۔ باغ بہشت میں اس جگہ سب سے زیادہ بھیڑ تھی۔منصورہ بیگم اور مریم کو میں نے وہاں ہجوم میں دیکھا۔ میں انہیں دیکھ کر بہت زیادہ خوش ہوئی۔

وہاں لگے لاؤڈ سپیکرز سے تلاوت کی آواز کانوں تک پہنچ رہی تھی۔ شہر کے اعلیٰ عہدیدار اور فوج کے بہت سے جوان ہجوم کے آگے کھڑے تھے۔ مریم نے کہا: ’’شہید کو لے آئے ہیں، وہ سامنے۔ ان کے گھر والے بھی وہ آگے ہیں۔‘‘

اسی وقت تلاوت کی آواز بند ہو گئی اور  ناظم منبر میز کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔ اس کی آواز بہت مضبوط اور بلند تھی۔ جب اس نے کہا: ’’بسم رب الشهداء و الصدیقین‘‘، تو سب لوگ خاموش ہو گئے۔ باغ بہشت پر ایک غمناک خاموشی کی فضا چھا گئی۔ ناظم نے  سب سے پہلے تو سب حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ پھر Operation Information اور انصار الحسین آپریشن ڈویژن کے نائب کماندار شہید مصیب مجیدی کی شہادت  پر، شہید پرور امت اور شہید کے معزز خاندان کو تبریک  و مبارکباد پیش کی۔ وہ اپنا مکہ ہوا میں لہرا لہرا کرچلا رہا تھا:

لاشے شہداء کے دفنانے اے مہدیِؑ دوراں! آ جاؤ([9])

ناظم غسال خانے کی دوسری منزل پر بنی پتلی اور لمبی بالکنی پر کھڑا تھا۔ لوگ ایک بڑے احاطے میں جمع تھے جو غسال خانے کے سامنے تھا اور خصوصی طور پر نماز پڑھنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ باغ بہشت کے اندر، اس کے داخلی دروازے تک اور گلزارِ شہداء میں ہر طرف لوگوں کا ہجوم ہی ہجوم تھا۔ میں ادھر ادھر دیکھ رہی تھی کہ مریم نے مجھے کہنی ماری اور کہا: ’’وہ دیکھو، علی بھائی ہیں۔‘‘

علی آغا بالکنی پر میز کے پیچھے کھڑے تھے۔ انہیں دیکھ کر میری سانسیں رک گئیں۔ میں چند قدم پیچھے ہٹ گئی اور ماں اور منصورہ بیگم سے نظریں بچا کر غور سے علی آغا کو دیکھنے لگی۔

یہ پہلی دفعہ تھی کہ میں مکمل سکون اور بغیر کسی جھجھک اور شرم کے انہیں دیکھ سکتی تھی۔ ان کے بدن پر ابھی تک وہی سفید رنگ کا کوٹ تھا۔ اوورکوٹ کے بٹن اور زنجیر بند ہونے کی وجہ سے قمیص نظر نہیں آ رہی تھی ۔ ان کے چہرے پر غم کی گہری کیفیت طاری تھی۔ چوڑے کندھے ہونے کے باوجود بھی بہت لاغر نظر آ رہے تھے۔ ان کی داڑھی لمبی اور چہرہ کمزور تھا۔ انہوں نے تقریر شروع کی:

’’مصیب گولوں کا بیٹا، مصیب گولیوں کا بیٹا، مصیبت مارٹر گنوں کا بیٹا، بھوک، پیاس اور تھکاوٹ کا بیٹا۔ مصیب اس زمانے کا مالک اشتر تھا۔‘‘

میں تھوڑا پیچھے ہو کر ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی ہو گئی اور غور سے سننے لگی۔ ان کی آواز غم و اندوہ سے بوجھل تھی مگر پھر بھی بہت اچھی اور نپی تلی تقریر کر رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ ان کے لیے کتنا سخت  اور کٹھن ہے۔ وہ مصیب کی شہادت کے وقت ان کے پاس تھے؟ ان کی کیا حالت ہوئی ہو گی؟

مریم نے مجھے آواز دی۔ میں گئی اور اس کے پاس کھڑی ہو گئی۔ منصورہ بیگم اور وہ رو رہی تھیں۔ مریم نے روتے روتے کہا: ’’آغا مصیب اور علی بہت گہرے دوست تھے۔ ان آخری دنوں میں وہ ہمارے گھر بہت آتے جاتے تھے۔ ہمارے لیے وہ بالکل بھائی کی طرح ہو گئے تھے۔ ماں کے لیے امیر، علی ، صادق اور مصیب میں کوئی فرق نہ تھا۔‘‘

باغ بہشت کی فضا بوجھل ہو چکی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ  قبرستان سے سارے مردے اٹھ کر باہر آ گئے ہیں اور ہمارے آس پاس حرکت کر رہے ہیں۔ کالے اور مٹیالے رنگ کے بادلوں نے آسمان کو ڈھانپ رکھا تھا۔ میرا دل چاہ  رہا تھا کہ کسی خالی جگہ بیٹھ جاؤں اور گریہ کروں۔ میرا دل محمد ماموں کے لیے بے قرار ہو گیا تھا۔ میں آرزو کر رہی تھی کہ کاش ان کی کوئی خبر ہمیں مل جاتی۔ ان کا شہید جسم ہمیں مل جاتاتو شاید نانی اماں کو کچھ تسلی ہو جاتی۔ میری ماں بہت شدت سے رو رہی تھیں۔ میں نہیں جانتی تھی کہ ان کا دل محمد ماموں کے لیے تڑپ رہا تھا یا واقعاً مصیب پر گریہ کر رہی تھیں؟

جب ہجوم نے حرکت کی تو میں بھی تابوت  کے پیچھے پیچھے روتی ہوئی چل پڑی۔ ہجوم کی ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کی آواز سارے باغ بہشت میں گونج رہی تھی۔ بہت غم انگیز اور روح فرسا منظر تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ تابوت میں خوابیدہ شخص اس تمام ہجوم کا بیٹا ہے۔ لوگ بلند آواز سے کہہ رہے تھے:

اس پھول کی کلیاں بکھر گئیں
لاشے شہداء کے دفنانے
یہ پھول فدا ہے رہبر پر
اے مہدیِؑ دوراں! آ جاؤ([10])

میری نگاہ مریم پر پڑی، وہ ایک کونے میں کھڑی تھی اور اس نے منصورہ بیگم کو کندھا دے رکھا تھا۔  اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سے بوتل تھی جس سے وہ انہیں پانی پلا رہی تھی۔ منصورہ بیگم بے حال تھیں اور ان کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ میں ایک لحظے کے لیے ڈر گئی۔

مریم نے کہا: ’’ماں کو گردے کی تکلیف ہے۔ اس بیماری میں ضروری ہے کہ انہیں کوئی غم یا پریشانی لاحق نہ ہو۔‘‘

ماں، رؤیا اور نفیسہ بھی پہنچ گئیں اور کوشش کرنے لگیں کہ منصورہ بیگم کی حالت جلدی جلدی سنبھل جائے۔

ابھی تک جنازے کی رسومات ختم نہ ہوئی تھیں، لیکن ہم منصورہ بیگم اور مریم کے ساتھ شہر کے اصلی چوراہے میدان امام خمینیؒ([11]) کی طرف آ گئیں۔ منصورہ بیگم کی حالت قدرے سنبھل چکی تھی۔ رخصت ہوتے وقت طے پایا کہ وہ بدھ کے روز ہمارے گھر آئیں گی اور پھر ہم شادی کی خریداری کرنے کے لیے اکٹھے بازار جائیں گے۔

مغرب کا وقت تھا۔ ہم کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ٹی وی چل رہا تھا۔ بابا خبروں اور ٹی وی میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے اونچی آواز سے ہمیں بلایا: ’’بچو، علی آغا۔‘‘

ہمدان کا مرکزی ٹی وی چینل محاذ کی رپورٹ نشر کر رہا تھا۔ علی آغا ایک ٹیلے پر بیٹھے جادہ ام القصر اور وہاں شہید ہو جانے والے جنگجؤوں کے بارے میں بتا رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ دشمن کے جہاز جنگ  کے علاقوں میں  بمباری کرنے علاوہ  بعض اوقات فوجیوں پر اوپر سے لوہے کے گارڈرز، پتھر اور ریت کی بوریاں بھی پھینکتے تھے۔

سب اشتیاق سے ٹی وی میں علی آغا کو دیکھ رہے تھے۔ فقط میں تھی جو اپنی خوشی کو بیان نہ کر سکتی تھی۔

اگلے روز بابا گھر میں نہیں تھے۔ صبح تقریباً دس بجے مہمانوں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ نفیسہ جو اس وقت چھ سال کی تھی، نے دروازہ کھولا اور آ کر کہنے لگی: ’’باجی، علی آغا آئے ہیں۔‘‘

ماں نے چادر سر پر کی اور جلدی سے دروازے کی طرف گئیں۔ انہوں نے بہتیرا کہا مگر علی آغا گھر کے اندر داخل نہ ہوئے۔ میں نے علی الصبح اپنا مانتو([12])، مقنعہ اور چادر استری کر کے تیار رکھ دیے تھے۔ انہیں پہنا اور ماں کے ساتھ چل پڑی۔ علی آغا اور منصورہ بیگم صحن کے سامنے کھڑے تھے۔ میں نے سلام کیا۔ علی آغا کا سر اسی طرح نیچے کو جھکا ہوا تھا۔ وہی سفید رنگ کا اووکوٹ ان کے بدن پر تھا جس کی ٹوپی کو انہوں نے پیشانی کے اتنا نیچے تک کھینچ رکھا تھا کہ ان کی ابرو نظر نہ آ رہے تھے۔ انہوں نے زیرِ لب سلام کا جواب دیا۔ علی آغا اپنے دوست کی سفید رنگ کی رنو([13]) پر ہمیں لینے آئے تھے۔ منصورہ بیگم آگے بیٹھ گئیں اور میں اور ماں پیچھے۔ میں نے اس دن عقبی شیشے میں پہلی بار ان کی نیلی آنکھوں کو دیکھا تھا۔ پچھلی رات کو بارش ہوئی تھی اور گلیاں صاف اور تر تھیں جبکہ ہوا بھی بہاری اور لطیف ہو گئی تھی۔

شریعتی روڈ پر میدان امام کے نزدیک علی آغا نے گاڑی کھڑی کی۔ ہم اترے اور بازارِ مظفریہ کی طرف چل پڑے۔ علی آغا ہاتھ جیب میں ڈالے آگے آگے چل رہے تھے۔  آگے کو جھکنے کی وجہ سے ہلکا سا کُب نکلا ہوا تھا۔ ان کا سر نیچے تھا اور کوئی بات نہیں کر رہے تھے۔ میرے پاس بھی کہنے کے لیے کچھ نہ تھا۔

جیسے ہی بازارمیں پہنچے تو وہ میرے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور بالکل ہلکی سی آواز، جسے میں بہت مشکل سے سن رہی تھی،  میں کہا: ’’زہرا خانم، معاف کیجیے گا۔ ہم ہمدان میں ہیں تو بہتر ہے کہ اکٹھے نہ چلیں۔ ممکن ہے کسی شہید کا خاندان، ماں، بیوی یا بچہ ہمیں اکٹھا دیکھ لے اور انہیں اپنا دکھ یاد آ جائے۔‘‘

میں نے تائید میں سر ہلا کر کہا: ’’جیسا آپ کہیں۔‘‘

منصورہ بیگم کہنے لگیں: ’’پہلے جا کر انگوٹھی خرید لیں۔‘‘

سناروں کی دو تین دکانوں کے علاوہ باقی دکانیں بند تھیں۔ بازار مظفریہ کے بیچوں بیچ کبریائی سنارے کی دکان کھلی تھی۔ ہم دکان میں داخل ہو گئے۔ منصورہ بیگم نے دکاندار سے کہا: ’’ہمیں انگوٹھی چاہیے۔‘‘

سنار نے انگوٹھیوں کی ٹرے اٹھا کر ہمارے سامنے رکھ دی۔ منصورہ بیگم نے کہا: ’’بہو، پسند کر لو۔‘‘ میں نے انگوٹھیوں کو دیکھا  تو میرا ہاتھ سب سے ہلکی اور کم وزن انگوٹھی کی طرف بڑھا۔ میں نے اسے اٹھایا اور اپنے ہاتھ میں پہن کر دیکھنے لگی۔ وہ انگوٹھی مجھے پوری تھی۔ ماں اور منصورہ بیگم انگوٹھی ہاتھ میں لے کردیکھنے لگیں لیکن علی آغا کا دھیان کہیں اور تھا۔ میں نے سوچا حتماً مصیب مجید کے بارے میں سوچ رہے ہوں گے۔

منصورہ بیگم کہنے لگیں: ’’پیاری بہو، یہ تو بہت ہلکی ہے۔ اچھی اور بھاری انگوٹھی پسند کرو۔‘‘

میں نے علی آغا کی طرف دیکھا۔ میرا دل چاہتا تھا کہ وہ بھی کوئی رائے دیں۔ ان کے چہرے پر بھاری غم کے آثار نظر آ رہے تھے۔ منصورہ بیگم نے دوبارہ اصرار کیا۔

ایسا لگتا تھا کہ میں علی آغا کے کچھ کہنے کا انتظار کر رہی تھی۔ میں نے اپنے آپ سے کہاکہ جیسا وہ کہیں۔علی آغا نے کچھ نہ کہا تو میں نے اسی انگوٹھی کو اٹھا لیا۔ منصورہ بیگم نے علی آغا کے کان میں کچھ کہا تو وہ آگے بڑھے اور سنار سے انگوٹھی کی قیمت کا بھاؤ تاؤ کرنے لگے۔ سنار نے وزن کیا اور کہا: ’’اڑھائی ہزار تومان۔([14])‘‘

علی آغا نے پیسے گن کر کاؤنٹر پر رکھ دیے۔ سنار نے رسید بنائی اور انگوٹھی کو گتے کی ایک چھوٹی سی گلابی اور سرخ و سفید پھولوں والی ڈبیا میں رکھ دیا۔ اس نے علی آغا  اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’مبارک ہو! خدا آپ کی قسمت اچھی کرے۔ انشاء اللہ‘‘

انگوٹھی خریدنے کے بعد منصورہ بیگم نے خوشی خوشی کہا: ’’اب لباس خرید لیں۔‘‘

میں نے علی آغا کی طرف دیکھا۔ ان کے ہاتھ ابھی تک جیب میں تھے۔ وہ خوش تو لگ رہے تھے مگر تھوڑا تھوڑا شرما بھی رہے تھے۔منصورہ بیگم نے کہا: ’’ایک سفید لباس تقریب کے لیے  خریدیں گے اور  شادی کا جوڑا گرمیوں کے لیے لیں گے۔‘‘

میں نے کہا: ’’میں ایسے حالات میں یہ لباس نہیں پہنوں گا۔‘‘

منصورہ بیگم نے تعجب سے پوچھا: ’’کیسے حالات؟‘‘

میں نے کہا: ’’آخر کار علی آغا کے نائب ابھی ابھی شہید ہوئے ہیں۔ وہ ان کے غم میں سوگوار ہیں۔‘‘

منصورہ بیگم نے علی آغا کی طرف دیکھا اور کہا: ’’موت زندگی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ مصیب بیٹا شہید ہو گیا اور جنت میں اپنے مقام کو پہنچ گیا۔ وہ سعادت سے فیض یاب ہوا۔ لیکن زندہ انسان زندگی چاہتا ہے۔ ہم نے گزشتہ رات تو شادی نہیں کی۔ اور دوسری بات یہ کہ تم کتنی بار دلہن بنو گی؟ ایک ہی بار تو انسان کی زندگی میں یہ لمحہ آتا ہے، لہذا اسے اچھے طریقے سے مناؤ۔‘‘

میں نے اپنا سر جھکا لیا اور کچھ نہ کہا۔ لیکن جب سب چلنے لگے تو میں نے ماں سے کہا: ’’ماں، آپ کسی طریقے سےٹال دیں۔ میں شادی کا جوڑا نہیں پہنوں گی۔ میرا دل علی آغا کے لیے پریشان ہے۔ لگتا ہے آج بھی وہ با دل نخواستہ آئے ہیں خریداری کے لیے۔‘‘

ماں نے آہستہ سے کہا: ’’اچھا، تم اب مزید کچھ نہ کہو۔ میں سنبھال لیتی ہوں۔‘‘

ماں نے منصورہ بیگم کو راضی کر لیا اور انہوں نے بھی پھر اصرار نہ کیا۔ کہنے لگیں: ’’کم از کم آئینہ اور شمع دان تو خرید لیں۔‘‘

بازار مظفریہ کے شروع میں ایک سبزی فروش کی دکان کے سامنے فانوس فروشی کی ایک بڑی دکان تھی۔ ہم نے پورا ایک چکر لگایا اور تمام آئینے اور شمعدان دیکھ لیے۔ یہاں تک کہ جہاں سے دیکھنا شروع کیا تھا، وہیں پہنچ گئے۔ منصورہ بیگم نے پوچھا: ’’کچھ پسند آیا؟‘‘

میں ایک سستے ترین اور ہلکے ترین آئینے اور شمعدان کے پاس کھڑی ہو گئی۔ میں نے کہا: ’’یہ ٹھیک ہے؟‘‘

منصورہ بیگم نے علی آغا کی طرف دیکھا۔ دکان میں دکاندار، اس کے شاگرد اور ہمارے علاوہ کوئی نہ تھا۔علی آغا آگے بڑھے۔ میرے انتخاب کیے ہوئے آئینے اور شمعدان کو دیکھ کر سمجھ گئے کہ میں ان کا خرچ بچانا چاہ رہی ہوں۔ انہوں نے ایک اور آئینے اور شمعدان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا: ’’یہ کیسا رہے گا؟‘‘

وہ بہت خوبصورت تھا۔ چینی کا تھا اور کافی مہنگا بھی لگ رہا تھا۔ ابھرے ہوئے اور رنگ برنگے پھولوں نے اس کی خوبصورتی میں اضافہ کر رکھا تھا۔ ان دنوں اس طرح کے آئینے اور شمعدان نئے نئے بازار میں آئے تھے اور ان کا کافی رواج ہو گیا تھا۔ دکاندار جو ہمارے پاس ہی کھڑا تھا، میں نے اس سے قیمت پوچھی تو اس نے بتایا: ’’ساڑھے تین ہزار تومان۔‘‘

میں نے علی آغا سے کہا: ’’یہ بہت مہنگا ہے۔ آئینہ اور شمعدان اتنا ضروری سامان بھی نہیں ہے کہ اس کے لیے اتنی زیادہ رقم ہم خرچ کر دیں۔‘‘

علی آغا میری بات سن رہے تھے۔ میں نے دوبارہ کہا: ’’وہ آئینہ اور شمعدان جو میں نے دیکھا ، اچھا نہیں تھا؟ کاش کہ بیضوی شکل میں ہوتا تو زیادہ اچھا تھا۔‘‘

دکاندار جو ہمارے انتخاب کا منتظر تھا، کہنے لگا: ’’اتفاق سے اسی ماڈل کا بیضوی شکل کا آئینہ بھی گودام میں پڑا ہے۔‘‘ اس نے اپنے شاگرد کو آواز دی جو چھوٹے کمرے میں کھڑا  فانوسوں کی رسیاں چھت پر نصب کر رہا تھا: ’’بھاگ کر جاؤ اور گودام سے اسی ماڈل کا بیضوی آئینہ لے آؤ۔‘‘

اسی آئینے پر سب راضی ہو گئے تھے۔ اس کے بعد کسی نہ کچھ نہ کہا۔

دکاندار کاشاگرد کافی تیز طرار لگ رہا تھا۔ وہ فوراً واپس آ گیا اور آئینہ اور شمعدان کو تیار کیا اور احتیاط سے کارٹن میں پیک کر کے ہمارے ہاتھوں میں دے دیا۔ اس کی مزدوری ایک ہزار تومان بنی۔

منصورہ بیگم کے اصرار پر ہم نے ایک چھوٹا سا کالا اور سنہری رنگ کا مجلسی بیگ([15])  اور ایک سفید  چادر کا کپڑا خرید لیا۔ چادر ماں نے سینی تھی۔ اس کے ساتھ شادی کے جوڑے کے طور پر ایک سفید زمین والی سادہ قمیص جس پر کالے اور سرخ رنگ کی دھاریاں تھیں اور ایک جوڑا سینڈل کا خریدا۔

ماں نے علی آغا کے لیے کوٹ اور شلوار کا کپڑا لیا۔ کپڑے کا رنگ بہت خوبصورت تھا، نیلا اور روغنی رنگ۔ اگرچہ بعد میں علی آغا کو اسے سلوانے کی کبھی فرصت ہی نہ ملی۔

ظہر ہونے والی تھی۔ منصورہ بیگم کافی تھک چکی تھیں۔ علی آغا گئے اور  گاڑی کو بازار کے اندر ہی لے آئے۔ پہلے انہوں نے منصورہ بیگم کو گھر چھوڑا، پھر ہمیں۔ جب ہمارے گھر کے دروازے پر پہنچے تو ہم نے کافی اصرار کیا مگر وہ اندر نہ آئے۔ جب تک ہم بازار میں تھے، ہماری آپس میں چند جملوں کے علاوہ بات چیت نہ ہوئی تھی یہی وجہ تھی کہ رخصت کے وقت کہنے لگے: ’’زہرا خانم، معاف کیجیے گا،آج آپ کا وقت میرے ساتھ اچھا نہیں گزرا۔ دراصل، میں آج پریشان تھا۔‘‘

انہوں نے خدا حافظ کہا اور چلے گئے۔ میں روہانسی ہو گئی۔ میرا دل چاہتا تھا کہ آج دن کا کھانا وہ ہمارے ساتھ کھاتے۔ میں جانتی تھی کہ ہمارے گھر میں تھوڑی دیر ٹھہر  جاتے تو ان کی حالت کچھ اچھی ہو جاتی۔ بابا کے ساتھ بیٹھتے، باتیں کرتے، ماں کچھ کہتی، نفیسہ میٹھی میٹھی باتیں کرتی۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ وہ کچھ دیر ٹھہر جاتے تو کچھ سنبھل جاتے۔

26 مارچ 1986؁ بدھ کا روز تھا۔ میں بیمار ہو گئی۔ میری حالت کافی بگڑ گئی تھی۔ماں حواس باختہ اور پریشان ہو گئیں تھیں۔ ہماری گلی کے سامنے ہی امام ہسپتال تھا۔ ہم بابا کے ساتھ وہاں چلے گئے۔ ایمرجنسی ڈاکٹر نے معائنہ کرنے کے بعد تشخیص کیا کہ مجھے غذائی مسمومیت ہو گئی ہے۔ مجھے ٹیکے اور ڈرپ لگا دی گئی۔ کچھ گھنٹے گزرنے کے بعد گولیوں کا ایک تھیلا اور کچھ شربت لیے ہوئے ہم اپنے گھر کو چل پڑے۔

نہیں معلوم، مسمومیت کا اثر تھا یا شادی کی رسومات کا اضطراب اور بے چینی کہ مجھے صبح تک نیند ہی نہ آئی۔

صبح جب نیند سے بیدار ہوئی اور آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا تو ڈر سی گئی۔ میرا رنگ پیلا پڑ چکا تھا اور  آنکھوں کے نیچے حلقے پڑ گئے تھے۔  ایسا لگتا تھا کہ جلد کے نیچے خون کا ایک قطرہ بھی موجود نہیں ہے۔

گھر بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ ماں گھر میں نہ تھیں اور بابا باہر جانے کے لیے کپڑے بدل رہے تھے۔ گھر میں شادی کا کوئی ماحول ہی نہیں لگ رہا تھا۔ بابا سے ماں کا پوچھا تو انہوں نے مضطرب ہو کر جواب دیا: ’’آغا رستمی([16]) اور ان کا بھتیجا([17]) شہید ہو گئے ہیں۔ تمہاری ماں ان کے ہاں گئی ہیں۔‘‘

آغا رستمی کا گھر ہمارے گھر کے بالکل سامنے تھا۔ دو بھائیوں نے دو بہنوں سے شادی کی تھی اور ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ بابا بتاتے تھے کہ دونوں بھائیوں کے بیٹے آپریشن والفجر8 میں گم ہو گئے تھے۔  شہادت کی خبر سن کر میری حالت اور بھی خراب ہو گئی۔

مجھے ظہر کے بعد کی فکر لگ گئی۔ شادی کی تقریب اور آغا رستمی کا خاندان جنہوں نے دو شہید اس قوم کو بخش دیے تھے۔  میں جو ان کے پڑوس میں تھی، میرے لیے یہ سب کچھ برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ رہ رہ کر ان کے والدین کا خیال آ رہا تھا اور دل ان کے پسیجا جا رہا تھا۔ میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔

صبح کے گیارہ بجے تھے۔ ہمارے گھر میں شادی کی کوئی چہل پہل نہ تھی۔ آغا رستمی کا خاندان جس غم میں مبتلا تھا اس وجہ سے سب اداس اور غمگین تھے۔

ماں کا ایک پاؤں ان کے گھر اور دوسرا پاؤں اپنے گھر تھا۔ میں کھانا پکا رہی تھی کہ نفیسہ صحن سے چلائی: ’’باجی، محمود ماموں کو آپ سے کچھ کام ہے۔‘‘

میں نے چولہے کی گیس بند کی اور باہر کی طرف دوڑی۔ محمود ماموں صحن میں کھڑے تھے۔ ماں بھی ساتھ تھیں۔ وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ ماموں نے جیسے ہی مجھے دیکھاتوڈانٹ کر کہا: ’’یہ کیا؟! بیٹی، کیوں ابھی تک ایسے ہی بیٹھی ہوئی ہو؟ شادی کا دسترخوان ابھی تک کیوں نہیں بچھایا؟!‘‘

میں نے حیرت سے دیکھا اور اپنے کاندھے اچکا دیے۔ ماموں نے دوبارہ ناراضگی سے پوچھا: ’’یعنی کیا؟!‘‘

میں نے کہا: ’’مجھے کیا معلوم! مجھے تو کسی نے کچھ کرنے کو نہیں کہا۔‘‘

ماموں نے گھڑی دیکھتے ہوئے دوبارہ مجھے اور ماں کو ڈانٹا: ’’گیارہ بج چکے ہیں۔‘‘

ماں نے کہا: ’’محمود جان، ہمارے ہمسایے میں آغا رستمی کے دو بیٹے شہید ہو گئے ہیں۔‘‘

ماموں جلدی سے صحن والے دروازے کی طرف چلے گئے۔ وہ زیر لب غصے میں کہہ رہے تھے: ’’یہ لوگ آخر چاہتے کیا ہیں۔ڈھول باجے تو بجانے نہیں ہیں، پھر انہیں ہو  کیا گیا ہے؟!‘‘

پھر میری طرف دیکھا: ’’فرشتہ، بھاگ کر جاؤ اور میرے آنے تک مہمان خانہ صاف کرو۔‘‘

ماموں نے یہ جملہ کہا اور چلے گئے۔ ماں حواس باختہ ہو گئیں۔ جلدی جلدی الماری سے شادی کے لیے کڑھا ہوا رومال اور جائے نماز نکالنےلگیں اور مہمان خانے میں جا کر قبلہ رو بچھا دیا۔ رحل اور قرآن میرے ہاتھ میں دیا اور کہا: ’’تم باسلیقہ ہو، خودہی جا کر لگا دو۔‘‘

آئینہ اور شمعدان ہمارے گھر میں تھے۔ میں نے انہیں کارٹن سے نکال کر رومال سے جھاڑا اور کپڑے سے صحیح صاف کر کے دسترخوان کے درمیان رکھ دیا۔ آئینے کے سامنے رحل اور قرآن اس طرح رکھا کہ آئینے میں سبز جلد والے قرآن کا عکس نظر آنے لگا۔

رؤیا پھولوں کا ایک گلدان کمرے میں لے آئی۔ گلدان کے گرد ایلمونیم کا کاغذ لپٹا ہوا تھا۔ وہ کہنے لگی: ’’یہ علی آغا نے دیا ہے۔‘‘

میں نے پوچھا: ’’وہ اندر آ گئے؟‘‘

اس نے جواب دیا: ’’نہیں، ماں کے ساتھ آغا رستمی کے گھر چلے گئے ہیں۔‘‘

میں نے گلدان کو آئینے اور شمعدان کے سامنے اس طرح رکھ دیا کہ پامچال([18]) کے سفید اور گلابی رنگ کے پھول آئینے میں نظر آ رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ کاش میں بھی ان کے ہمراہ تعزیت کے لیے چلی جاتی۔

تھوڑی دیر بعد ماموں سارا سامان لے کر آ گئے۔ دسترخوان پر جس جس چیز کی کمی انہیں لگ رہی تھی وہ انہوں نے وہاں سجا دی۔ ایک ٹوکری فندق([19]) اور چاندی رنگ کے اخروٹ، کچھ خشک ٹکڑے سنگک([20])روٹی  کے جن پر چاندی کی افشاں چھڑکی گئی تھی، دو سفید صدف جن میں انگوٹھی سجی تھی اور ان کے ہمراہ نبات([21]) اور مکھانے۔

ماموں نے آتےہی بھگدڑ مچا دی اور سب کو مصروف کر دیا۔ بابا باہر جاتے اور کچھ ٹوکریاں مٹھائی کے لاتے۔ پھر جاتے اور کچھ ٹوکریاں سیب اور مالٹوں کے لاتے۔ پھر دوڑے دوڑے جاتے اور چاکلیٹ وغیرہ لاتے۔ جب بھی لوٹ کر آتے ماں تازہ فرمائش کر دیتیں۔

دن کے کھانے پر نانی اماں بھی آ گئیں۔ انہوں نے جیسے ہی مجھے دیکھاتو کہنے لگیں: ’’وجیہہ، تم فرشتہ کو آرائشگاہ([22]) پر نہیں لے کر گئیں؟‘‘

ماں  نے میری طرف دیکھا اور کاندھے اوپر کو اچکا دیے۔ نانی اماں غصے سے کہنے لگیں: ’’اٹھو! ایسی بہو تو ہم نے کبھی نہ دیکھی۔ جلدی کرو۔ کم از کم اس کا چہرہ ہی سنوار دو۔‘‘

ماں کی ہر انگلی سے ہنر چھلکتا تھا۔  سلائی میں تو وہ ماہر تھیں ہی مگر بناؤ سنگھار کرنے میں بھی مہارت رکھتی تھیں۔ نانی کے حکم کے مطابق انہوں نے میرے بال گھنگریالے کر دیے۔ جب وہ میرے بالوں کے ساتھ مصروف تھیں تو نانی اماں کو بتا رہی تھیں کہ وہ ظہر سے پہلے علی آغا کے ساتھ آغای رستمی کے گھر گئی تھیں اور ان سے اجازت لے لی تھی۔ علی آغا نے کہا تھا: ’’ہم نے کوئی خاص رسمیں ادا نہیں کرنی، لیکن پھر بھی آپ کی اجازت ہو تو۔‘‘ جب میرے بال درست ہو گئے تو میں گئی اور جو قمیص خرید کر لائے تھے وہ پہن لی۔ لیکن جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی تو نانی اماں نے ترشروئی سے کہا: ’’یہ کیا پہن لیا ہے؟ شادی کا جوڑا نہیں خریدا تم نے؟!‘‘

میں نے کہا: ’’یہی ٹھیک ہے، شادی کا جوڑا بھی ہے اور علی آغا کے احترام میں اس پر سیاہ دھاریاں بھی ہیں۔‘‘

نانی اماں نے سر کو ہلکا سا ہلایا اور پھر غصے میں کچھ بڑبڑانے لگیں۔ ماں نے ہونٹ بھینچ لیے اور اشارہ کیا کہ میں کچھ نہ کہوں۔

دن کا کھانا بمشکل ختم ہی کیا تھا کہ مہمان آن پہنچے۔ پھوپھیاں، چچے، چچیاں، ماموں،ممانیاں، اور کچھ دوسرے رشتہ دار جنہیں ہم نے دعوت دے رکھی تھی۔

ساڑھے تین بجے کا وقت تھا کہ علی آغا، ان کے گھر والے  اور ان کے کچھ رشتہ دار پہنچ گئے۔ علی آغا نے وہی سفید کوٹ ، بھورے رنگ کی قمیص اور سرمئی شلوار پہن رکھی تھی۔ وہ ایک بڑا کیک بھی لے کر آئے تھے، جسے انہوں نے دسترخوان کے درمیان رکھ دیا۔

میں نے جو چار اوڑھ رکھی تھی اس کا رنگ سفید تھا اور اس پر نیلے رنگ کے چھوٹے چھوٹے پھول بنے تھے۔ میں دسترخوان کے پاس بیٹھی تھی۔ عورتیں سارے کمرے میں جگہ جگہ بیٹھی ہوئی تھیں۔ علی آغا چند لمحے کے لیے کمرے میں آئے ۔ وہ میرے ساتھ دسترخوان پر بیٹھنا چاہتے تھے مگر جب دیکھا کہ کمرے میں کافی عورتیں بیٹھی ہیں تو ہال میں جہاں مرد بیٹھے تھے، چلے گئے۔مہدی چچا تصویریں بنا رہے تھے۔

مریم میرے سر کے اوپر قند رگڑ رہی تھی۔([23]) اچانک ہال سے صلوات، قہقہوں اور شور کی آواز بلند ہوئی۔  ماں ہال میں گئیں اور واپس آ گئیں۔ ان کے پیچھے پیچھے منصورہ بیگم اور مریم بھی گئیں اور واپس آ گئیں۔ مریم نے کہا: ’’علی آغا کے دوست آئے ہیں۔ علی نے کسی کو بھی دعوت نہ دی تھی، نہیں معلوم انہیں کیسے خبر ہو گئی؟‘‘

منصورہ بیگم نے خوشی سے کہا: ’’امیر کہتا ہے کہ اس کا ایک دوست سمجھ گیا تھا، اسی نے سب کوبتایا۔ جب ہم گھر سے نکلے تو انہوں نے ہمارا تعاقب کیا اور پچھلی گلی میں آ کر ٹھہر گئے۔ جب ہم اندر آئے تو وہ بھی یا اللہ یا اللہ([24]) کہتے اندر آ گئے۔ خدایا! تیرا شکر ہے کہ علی اکیلا نہیں ہے۔ اس کے دوست اس کے ساتھ ہیں۔‘‘

مہدی چچا کی، اشعار پڑھنے کی آواز آ رہی تھی:

گر مومنی و صادق
کوری هر منافق
در آسمان فرشته
بر عرش خوش نوشته
بی شک علی ولی بود
شاه همه علی بود
با ما شوی موافق
صلوات بر محمد (ص)
مهرش به جان سرشته
صلوات بر محمد (ص)
پروردهء نبی بود
صلوات بر محمد (ص)([25])

علی آغا کے دوستوں کے آجانے کی وجہ سے گھر کا ماحول بدل گیا تھا۔ مردوں کی بلند صلواتوں نے عورتوں کو بھی صلوات پڑھنے میں مشغول کر دیا۔

ماں، جو دروازے کے سامنے کھڑی تھیں، تھوڑی دیر بعد کہنے لگیں: ’’آغا خطبۂ نکاح پڑھ رہے ہیں۔‘‘

میرے دل میں کچھ ہونے لگا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ ماہ رمضان ہے، سحر کا وقت ہے اور اذانِ صبح میں تھوڑا سا وقت باقی رہ گیا ہے۔ میں جلدی جلدی دعا مانگنے لگی اور خدا سے درخواست کی کہ ہمیں خوشبختی عطا کرے اور مکہ و کربلا کی زیارت ہماری قسمت میں لکھ دے۔

پھر میں نے رحل سے قرآن اٹھایا اور اس کی تلاوت شروع کر دی۔

احمد ماموں میرے وکیل بنے تھے اور مردانہ مجلس میں انہوں نے میری طرف سے ہاں کہی تھی۔ وہ نکاح ناموں کا ایک بڑا سا رجسٹر  لیے کمرے میں داخل ہوئے۔ جہاں جہاں میرے دستخط لینا تھے، لیے۔ ماں نے کہا: ’’آیت اللہ نجفی([26]) نے خطبہ پڑھا ہے۔‘‘

مردوں کی طرف سے دوبارہ صلوات کی آواز بلند ہوئی۔ باقر چچا پڑھ رہے تھے:

برگشا کام زبان تا که تو داری حرکات
دم به دم بر گل رخسار محمد (ص) صلوات([27])

پورا گھر صلوات کی آوازوں سے معمور تھا۔ ماں نے دروازے کے سامنے سے کہا: ’’عورتو! داماد تشریف لائے ہیں۔‘‘

جن عورتوں کے سروں سے چادریں ڈھلکی ہوئی تھیں انہوں نے درست کیں۔ علی آغا، بابا اور محمود ماموں کمرے میں داخل ہوئے۔

علی آغا میرے پاس بیٹھ گے اور حیادار لہجے میں سلام و احوال پرسی کی۔ محمود ماموں نے بڑا دفتر میری ٹانگوں پر رکھ دیا اور جن جگہوں میرے دستخط ضروری تھے، وہاں انگلی رکھی۔

جس صدف میں انگوٹھی رکھی تھی، مریم نے  اسے علی آغا کے سامنے کر دیا۔ علی آغا نے جھجکتے جھجکتے انگوٹھی اٹھائی اور میں چونکہ ان کے دائیں طرف بیٹھی تھی اس لیے انہوں نے میرا دایاں ہاتھ پکڑا اور انگوٹھی میری انگلی میں پہنا دی۔ میں نے آہستہ سے کہا: ’’اس ہاتھ میں نہیں، بائیں ہاتھ میں۔‘‘

میں نے اپنا بایاں ہاتھ آگے کیا۔ علی آغا سرخ ہو گئے تھے۔ انہوں نے انگوٹھی اتاری اور میرے بائیں ہاتھ میں پہنا دی۔

بابا نے ایک عقیق جڑی چاندی کی انگوٹھی خرید رکھی تھی، وہ انہوں نے علی آغا کے ہاتھ میں پہنا دی۔

اس سے ایک سال پہلے عید پر جب ہم سارے گھر والے حج و عمرہ کے لیے گئے تھے تو بابا نے اپنے ہونے والے داماد کے لیے ایک راڈو گھڑی بھی خریدی تھی۔ وہ انہوں نے علی آغا کو شادی کے تحفے کے طور پر دی۔

ایک لحظہ کے لیے میری آنکھیں آئینے پر پڑیں۔ علی آغا مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں شرما گئی۔ جلدی سے اپنی آنکھیں چرائیں اور سر نیچے کر لیا۔ یہ پہلی بار تھی کہ علی آغا غور سے مجھے دیکھ رہے تھے۔

اگلے روز ماں کارخانے چلی گئیں اور میں اور میری بہنیں گھر کی صفائی میں لگ گئیں۔ مسمومیت کے آثار ابھی تک میرے جسم سے ختم نہ ہوئے تھے۔ ظہر کے وقت ماں واپس آئیں تو انہوں نےبتایا: ’’آج صبح جب تم سو رہی تھیں تو علی آغا آئے تھے اور آج رات انہوں نے اپنی ہیئت([28]) میں ہماری دعوت کی ہے۔‘‘

رات کو ہم سب گھر والے گئے۔ ان کے بلاک کے سامنے ایک سفید بورڈ نصب تھا جس کےاندر بلب جل رہا تھا۔ بورڈ پر لکھا تھا: ’’انجمن راہِ شہیدان۔‘‘

امیر  اور علی آغا اس انجمن کے بانی تھے، اور وہ پہلی رات تھی کہ انجمن ان کے گھر میں اپنا پروگرام کر رہی تھی۔

ہم ان کے گھر پہلی بار گئے تھے۔  گھر ٹیکنیکل کالج کے اپارٹمنٹس کی چوتھی منزل پر تھا: 130 میٹر رقبہ اور تین  خوابگاہیں تھیں۔ زنان خانے میں، مَیں،ماں، میری بہنیں، منصورہ بیگم، مریم اور منیرہ خانم تھیں۔  اس رات مجھے معلوم ہوا کہ منصورہ بیگم کے والد اور والدہ جنہیں سب حاج بابا اور خانم جان کہتے تھے، ان کی بہن خالہ فاطمہ، ان کا بھائی،  محمد ماموں کہ جو بالکل منصورہ بیگم کی شبیہ تھے، یہ سب لوگ تہران میں رہتے تھے۔مریم کی خانم جان کی ہمسائی کے بیٹے سے منگنی ہو چکی تھی جو وزارت امور خارجہ میں ملازمت کرتا تھا۔ طے یہ پایا تھا کہ گرمیوں میں ان کی شادی کر دی جائے اور مریم تہران چلی جائے۔

ہم جس کمرے میں بیٹھے تھے، وہاں علی آغا  آئے اور انہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ انہیں ہمارے آنے کی بہت خوشی ہوئی ہے۔ اس کے  بعد ہم نے پروگرام ختم ہونے تک علی آغا کو نہ دیکھا۔  پروگرام ختم ہونے کے بعد علی آغا نے اپنے دوست کی گاڑی لی اور ہمیں گھر تک چھوڑ دیا۔ رخصت کے وقت جب بابا گھر کے اندر چلے گئے تو علی آغا نے ماں سے کہا: ’’خالہ جان، کل میں محمود آغا اور ان کی بیگم کے ساتھ قم جا رہا ہوں۔ اگر آپ اجازت دیں تو زہرا خانم بھی ہمارے ساتھ آ جائیں؟‘‘

ماں تھوڑی دیر خاموش رہیں، پھر کہا: ’’اس کے بابا سے بات کی؟‘‘

علی آغا نے ہچکچاتے ہوئے کہا: ’’سچی بات تو یہ ہے کہ نہیں کہا۔ مجھے شرم آ رہی تھی۔‘‘

ماں ہنس پڑیں اور کہا: ’’ٹھیک ہے، میں ابھی ان سے کہتی ہوں۔ کل تم آ جاؤ۔ اگر انہوں نے اجازت دے دی تو فرشتہ تمہارے ساتھ چلی جائے گی۔‘‘

علی آغا نے پھر کچھ نہ کہا۔ خدا حافظ کہا اور چلے گئے۔ ماں نے بھی بابا سے میرے لیے اجازت لے لی۔ رات کو میرے لیے چھوٹا سا بیگ تیار کر دیا۔ ایک دو جوڑے کپڑوں کے، نماز کی چادر، تولیہ اور شناختی کارڈ۔ صبح نماز کےلیے بھی مجھے جلدی بیدار کیا اور کچھ ضروری نصیحتیں کی۔

ہم ناشتہ کر رہے تھے کہ علی آغا نے گھر کی گھنٹی بجائی۔ بابا نے دروازہ کھولا۔ محمود ماموں اور ان کی بیگم بھی ساتھ تھیں۔ ماں، ماموں اور ممانی کو دیکھ کر خوش ہو گئیں اور مجھے ماموں کے حوالے کیا اور ممانی کو کچھ ضروری ہدایات دے دیں۔

علی آغا نے اپنے ایک دوست سے ایک انتہائی خستہ حال سی پیکان([29])ادھار لے لی تھی۔ وہ خود گاڑی چلا رہے تھے۔ ماموں آگے بیٹھ گئے اور میں اور ممانی پیچھے۔ ماں نے ایک کٹورے میں پانی لے کر ہمارے سروں کے پیچھے پھینکا اور بابا نے دعا و صلوات کے ساتھ اپنے چھوٹے جیبی قرآن کے سائے سے ہمیں گزارا جو وہ ہر وقت اپنی جیب میں رکھتے تھے۔ علی آغا نے ایکسیلیٹر پر پاؤں رکھا۔ گاڑی  نے انگڑائی لی اور چلنے لگی۔

میں اور ممانی پیچھے باتیں کرنے میں مشغول ہو گئیں اور علی آغا اور ماموں آپس میں لگ گئے۔ آدھے راستے سے محمود ماموں نے لطیفے اور واقعات سنانا شروع کر دیے۔ ہم بہت ہنسے۔ ہمیں پتا ہی نہ چلا کہ کب ظہر ہوئی اور کب ہم ساوہ پہنچ گئے۔ ایک ہوٹل پر ٹھہرے۔ علی آغا نے اپنے اور میرے لیے چلوکباب سلطانی([30]) کا آرڈر دیا۔ میں چونکہ علی آغا کے سامنے بیٹھی تھی اس لیے کچھ کھانے سے شرما رہی تھی۔ میں نے تھوڑا سا کھایا اور پھر کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔

نہیں معلوم ممانی نے کیوں اتنی دیر لگائی تھی حالانکہ انہوں نے آدھا کھانا چھوڑ دیا تھا۔ محمود ماموں کو تو ہنسانے کے لیے بہانہ چاہیے تھا۔ انہوں نے اسی بات کو پکڑ لیا: ’’علی آغا، پریشان مت ہوں۔ ان عورتوں (کے کم کھانے اور پیسے کی بچت ہو جانے)  کی وجہ سے ہم اگلے سال حاجی ہو جائیں گے۔ اگلے سال انہی دنوں میں ہم دونوں حاجی ہوئے کہ ہوئے۔‘‘

اس کے بعد انہوں نے ممانی کی پلیٹ سے کباب اٹھایا اور ایک ہی لقمے میں کھا گئے بالکل اسی طرح جیسا کہ وہ پہلے شدید بھوک کی حالت میں کھا رہے تھے۔ انہوں نے کہا: ’’ہم دو تو ٹھہرے موٹے تازے اور ہٹے کٹے۔ یہ کچھ کھاتی نہیں ہیں اور میں بھی چند ماہ تک ایسا ہو جا ؤں گا۔‘‘

انہوں نے اپنے گال ہوا سے بھر کر پھلا لیے اور موٹے لوگوں کی طرح حرکتیں کرنے لگے: ’’اگلے سال ان دنوں میں ہمارے پاس اپنا گھر بھی ہو جائے گا اور اپنی گاڑی بھی خرید لیں گے۔‘‘

ماموں باتیں کیے اور ہم ہنسے جا رہے تھے۔

جب ہم قم پہنچے تو سہ پہر کا وقت ہو چکا تھا۔ مرد حرم کے نزدیک کسی ہوٹل کی تلاش میں نکل گئے جو بالآخر انہیں مل بھی گیا۔ ہوٹل والوں نے شناختی کارڈ مانگے جو ہم سب کے پاس تھے، لیکن میرے اور ممانی کے شناختی کارڈ پر تصویر نہیں لگی تھی۔

علی آغا نے ہوٹل کے استقبالیہ پر بیٹھنے والے مینیجر سے بہتیرا بحث کی مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ ہمیں مجبوراً اماکن([31])کی طرف جانا پڑا۔ اماکن ڈھونڈنے میں دو تین گھنٹے لگ گئے۔ ہم نے تائید نامہ لیا اور ہوٹل کی طرف واپس آ گئے۔

علی آغا اور ماموں محمود نے ہمارے بیگ اٹھائے اور کمرے میں رکھ دیے۔ ہم لابی میں انتظار کرنے لگیں۔ ہمارا ارادہ تھا کہ پہلے حرم جائیں۔ ماموں اور ممانی باتیں کرتے ہوئے آگے آگے اور میں اور علی آغا خاموشی سے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ مجھے ان کی بات یاد آ گئی اور میں ان سے چند قدم پیچھے رہ کر چلنے لگی۔ وہ آگے بڑھے اور میرا انتظار کرتے رہے کہ میں ان کے ساتھ مل جاؤں لیکن میں پیچھے ہی رہی۔ آخر ان کا صبر جواب دے گیا۔ پوچھنے لگے: ’’تھک گئی ہیں؟!‘‘

میں نے جواب دیا: ’’نہیں، آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ سڑک پر اکٹھے نہ چلیں۔ شہداء کے خاندانوں والی بات یاد ہے نا آپ کو؟!‘‘

علی آغا مسکرا دیے اور میرا ہاتھ کھینچتے ہوئے بولے: ’’یہ بات ہمدان سے متعلق تھی۔ یہاں تو ہمیں کوئی نہیں جانتا۔‘‘

آدھی رات کو ہم ہوٹل واپس ہوئے۔ کمرے دوسری منزل پر تھے۔  ماموں نے اپنی جیب سے چابی نکال کر کمرے کا دروازہ کھول دیااور ممانی سے تکلف کرنے لگے کہ پہلے وہ اندر جائیں۔ میں باقی رہ گئی تھی کہ کہاں جاؤں۔

علی آغا نے ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھولا اور کہا: ’’آئیے، تشریف لائیے۔‘‘

میں گو مگو کی کیفیت میں پڑ گئی: شرم بھی آ رہی تھی اوربے چارگی کا احساس بھی ہو رہا تھا۔  میں دوراہے پر آن کھڑی ہوئی تھی۔ ممانی کی طرف دیکھا اور آنکھوں سے التماس بھی کی کہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں، لیکن انہوں نے خدا حافظ کہا اور شب بخیر کہہ کر کمرے میں چلی گئیں۔ میرے پاس علی آغا کے کمرے میں داخل ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ مجھے ڈر سا لگ رہا تھا۔ کمرہ اور کمرے کی فضا میرے لیے بوجھل ہو رہی تھی۔ میں اندر جا کر کھڑکی کے پاس پڑے دو صوفوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی۔

علی آغا کمرے میں ٹہل رہے تھے اور اپنے آپ کو کمرے میں پڑے سامان کے ساتھ بلاوجہ الجھا رکھا تھا۔  کمرے میں دو بستر جدا جدا پڑے تھے جن کے درمیان ایک چھوٹی سی میز نے فاصلہ ڈال رکھا تھا۔ کمرے میں ایک چھوٹا فریج، ایک ٹی وی، دو صوفے اور صوفوں کے پاس ایک میز رکھی تھی۔

علی آغا نے پوچھا: ’’تمہیں نیند نہیں آرہی؟ تھکی نہیں ہو؟‘‘

میں نے حواس باختہ ہو کر کہا: ’’نہیں۔‘‘

ایسا لگتا تھا کہ وہ میری اندرونی کیفیت کو بھانپ گئے تھے۔ انہوں نے آستینیں اوپر چڑھائیں اور بیت الخلا کی طرف چلے گئے۔

وہ کافی دیر تک واپس نہ آئے۔ میں اٹھی اور کھڑکی کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔حرمِ معصومہ سلام اللہ علیہا  کا گنبد اور مینار نظر ا ٓ رہے تھے۔  کافی دلفریب اور چشم ربا منظر تھا جس سے آنکھیں ہٹانے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔

اگرچہ رات کافی گزر چکی تھی لیکن پھر بھی گاڑیاں اپنی بتیاں جلائے سڑک سے گزر رہی تھیں۔ سوہان، تسبیح اور سوغات فروشوں کی دکانوں پر لگی رنگ برنگ اور جھلملاتی ٹیوب لائٹس ابھی تک روشن تھیں۔ حرم تک جا کر ختم ہو جانے والے پیادہ راستے پر لوگ ابھی تک آ جا رہے تھے۔

علی آغا بیت الخلاء سے نکل آئے تھے۔ ان کا چہرہ بھیگا ہوا تھا اور وہ اپنی آستینیں نیچے کر رہے تھے۔ جب مجھے دیکھا تو پوچھا: ’’ابھی تک تم سوئی نہیں ہو؟‘‘

میں نے جوا ب دیا: ’’نیند نہیں آ رہی۔‘‘

انہوں نے مسکرا کر کہا: ’’مجھے معلوم ہے  تمہیں نیند بھی آ رہی ہے اور تھک بھی گئی ہو۔ میں ابھی نماز پڑھنا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد تھوڑا ضروری کام انجام دینا ہے۔ اگر میرے ہونے سے تمہیں بے چینی ہو رہی ہےتو میں نیچے چلا جاتا ہوں۔‘‘

میں نے کہا: ’’نہیں، آپ خاطر جمع رکھیں۔‘‘

انہوں نے کہا: ’’پس تم بھی خاطر جمع رکھو اور سو جاؤ۔ بتیاں بجھا دوں؟‘‘

اس سے پہلے کہ میں  کوئی جواب دیتی انہوں نے بتیاں بجھا دیں اور نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں نے اس فرصت سے استفادہ کیا اور اپنی چادر اتار کر کمبل چہرے پر کھینچ لیا۔ تھکاوٹ کی زیادتی نے جلد ہی مجھے نیند کی وادی میں پہنچا دیا۔

سڑک اور نزدیکی جگہ سے آنے والی اذان کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی اور نادانستہ آنکھ علی آغا کے بستر پر جا پڑی۔

بستر پر کوئی نہ تھا، مگر کمبل ایک طرف ہوا پڑا تھا۔  سڑک پر جلنے والی بتیوں کی روشنی کمرے میں بھی آ رہی تھی۔ میں اپنے بستر پر بیٹھ گئی۔ پانی کی شر شر کی آواز آ رہی تھی اور بیت الخلاء کی بتی جل رہی تھی۔میں اٹھی اور اپنی چادر اوڑھ لی۔ علی آغا وضو کر کے بیت الخلاء سے باہر آ گئے۔ میں نے سلام کیا۔ انہوں نے تعجب سے کہا: ’’علیکم السلام،ہائیں، تم جاگ رہی ہو؟ تم تو کافی تھکی ہوئی لگ رہی تھیں۔ تکیے پر سر رکھتے ہی سو گئی تھیں۔‘‘

میں نے کہا: ’’جی۔ بہت تھکی ہوئی تھی۔‘‘

انہوں نے کہا: ’’میں اور محمود ماموں نماز پڑھنے کے لیے حرم جانا چاہتے ہیں۔ تم بھی  چلو گی؟‘‘

میں نے کہا: ’’میں نے ابھی وضو نہیں کیا۔‘‘

انہوں نے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا: ’’جب تک میں محمود ماموں کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہوں، تب تک تم وضو کر لو۔‘‘

ناشتے کے بعد ہم تہران کی طرف نکل پڑے۔ قم سے نکلے تقریباً چالیس منٹ ہو چکے تھے کہ اچانک ماموں نے ٹھیٹ ہمدانی لہجے میں کہا: ’’اوہووو، سوہان([32]) تو ہم نے لیا ہی نہیں۔‘‘

علی آغا نے گاڑی کے ایکسلیٹر سے پاؤں اٹھا لیا۔ گاڑی کی رفتار کم ہو گئی: ’’اب کیا کریں؟ واپس چلیں؟!‘‘

میں اور ممانی جو پچھلی نشستوں پر بیٹھی تھیں، ہنسنے لگیں۔

ماموں نے تو غلغلہ کرنا شروع کر دیا: ’’مگر کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ قم آئیں اور سوہان جیسی سوغات نہ لے کر جائیں۔ اگر خالی ہاتھ گئے تو ہمدان والے ہمیں راستہ ہی نہیں دیں گے۔ آنکھیں نکال دیں گے ہماری۔‘‘

تھوڑا سا آ گے جا کر ایک یوٹرن تھا۔  علی آغا نے گاڑی کا رُخ موڑ دیا اور ہم ایک بار قم کے راستے پر چل پڑے۔ قم سے تھوڑا پیچھے سوہان کی دو تین دکانیں تھیں۔ ہم نے سوہان کے چند ڈبے لیے اور ہنستے ہنستے واپس تہران کی طرف چل دیے۔

تہران کی راہ پر سفر کرتے ہوئے ہمیں ایک گھنٹہ گزر چکا تھا۔ قم تہران جی ٹی روڈ پر تھے کہ گاڑی نے پٹ پٹ کی اور کھڑ کھڑ کی آواز آنے لگی۔ ماموں کہنے لگے: ’’اے لو، اسے بھی کھانسی لگ گئی۔‘‘

ہم ایک بار پھر ہنس دیے۔ علی آغا نے گاڑی کچی سڑک پر اتارکر کھڑی کر دی اور اتر کا انجن کا ڈھکن اوپر اٹھایا۔ ماموں بھی ان کی مدد کے لیے نیچے اتر گئے۔ میں اور ممانی گاڑی سے نیچے اتر آئیں۔ ممانی نے پوچھا: ’’کیا ہوا محمود آغا؟‘‘

ماموں نے ہنس کر کہا: ’’زمین سے لگ گئی ہے۔‘‘

ہم نے اس فرصت کو غنیمت جانا اور اِدھر اُدھر ٹہلنے لگیں۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ کچھ دور چند درخت، پہاڑ، ٹیلہ اور سبز زمین نظر آ رہی تھی۔ سڑک سے فراٹے بھرتی گزرتی کاروں، بسوں اور باربردار گاریوں کے ہارن کی آواز  ان چڑیوں کے چہچہانے کی آواز نہیں سننے دی رہی تھی جو ہمارے نزدیک زمین پر مسافروں کی بچی کھچی غذا کے ٹکڑوں کو اپنی چونچیں مار مار کر کھا رہی تھیں۔

علی آغا اور محمود ماموں نے اپنی آستینیں اوپر چڑھائیں اور گاڑی کے پرزوں کو کھول کر رکھ  دیا۔

ایک گھنٹہ بعد گاڑی نے چلنے کی حامی بھری اور ہم صلوات و سلام پڑھتے ہوئے دوبارہ اس پر سوار ہو گئے۔ ماموں کے ہاتھ ایک نیا موضوع لگ چکا تھا۔ انہوں نے گاڑی کا ٹھٹھہ اڑانا شروع کر دیا۔ ابھی بہ مشکل ایک کلومیٹر ہی چلے ہوں گے کہ گاڑی ایک بار پھر جھٹکے مار کر خاموش ہو گئی۔

ماموں نے صدا بلند کی۔ ابھی علی آغا بھی ہنس رہے تھے: ’’میں نے کہا بھی تھا کہ اس بچے کا دل کمزور ہے۔ تم نے سنا ہی نہیں۔ اب بھگتو۔‘‘

علی آغا اور ماموں پھر گاڑی سے اترے اور احتیاط سے گاڑی کو کچی سڑک کی طرف دھکا لگانے لگے۔ ہم گاڑی ہی میں بیٹھی صلوات پڑھتی اور دعا کرتی رہیں کہ خدانخواستہ کوئی برا اتفاق پیش نہ آ جائے۔ اس بار گاڑی کا پٹرول ختم ہو گیا تھا۔ علی آغا نے ایک بیس لیٹر کا خالی گیلن ماموں کے ہاتھ میں دے کر کہا: ’’اگر آپ یہاں رہے تو ہمارے دوست کی بے زبان گاڑی سے مسخرہ کرتے رہیں گے، لہذا دوڑ کر جائیں اور آناً فاناً واپس آئیں۔‘‘

کافی دیر گزر گئی۔ بالآخر ماموں لوٹے اور پٹرول گاڑی کی ٹینکی میں ڈالا اور دوبارہ گاڑی نے اپنا راستہ ناپ لیا۔

ہم صبح جلدی نکلے تھے مگر جب تہران پہنچے تو سہ پہر کے چار بج چکے تھے۔بھوک، پیاس اور تھکاوٹ سے برا حال ہو رہا تھا۔ تہران میں داخل ہوتے ہی میدان آزادی کے اطراف کی ایک سڑک کے کنارے ہم نے دن کا کھانا کھایا اور پھر ہوٹل کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ یہاں بھی وہی قم والی مشکل پیش آئی۔ میرے اور ممانی کے شناختی کارڈ پر تصویریں نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں کوئی جگہ نہیں مل رہی تھی۔

کافی خجل خواری ، بھاگ دوڑ اور صلاح مشورے کے بعد طے پایا کہ کرج چلے جائیں۔ علی آغا کا خیال تھا کہ وہان تہران جیسی سختی نہ ہو گی اور بالآخر ہمیں کوئی نہ کوئی جگہ مل ہی جائے گی۔

ممانی تھک کر سو چکی تھیں اور میں اپنی تقویم میں 30 مارچ 1986؁ کی تاریخ کے آگے اس دن کے واقعات لکھ رہی تھی۔ محمود ماموں نے اتنا دھیرے سے پوچھا کہ ممانی جاگ نہ جائیں: ’’یہ تم اپنی تقویم پر جلدی جلدی کیا لکھ رہی ہو؟!‘‘

علی آغا نے ہنس کر کہا: ’’زہرا خانم، اگر ہمارے اس سفر کے بارے میں لکھ رہی ہو تو اس کے برے لمحات نہ لکھنا۔ لکھو کہ سفر بہت اچھا گزرا۔‘‘

ماموں نے دوبارہ ہنسی مذاق شروع کر دیا: ’’مجھے کوئی بری چیز لکھی ہوئی نظر نہ آئے۔ اگر میں نے سنا کہ تم نے اس سفر کے بارے میں کوئی بری چیز لکھی ہے تو میں تمہاری آنکھیں نکال دوں گا۔‘‘

اس کے بعد سفر کے واقعات دہرانےلگے: ہمارا کباب کھانا، گاڑی کا پٹرول ختم ہونا اور چند لیٹر پٹرول کے حصول کے لیے اپنی خواری۔ انہوں نے سارے واقعات اتنے چٹخارے لگا کر سنائے کہ ہماری ہنسی سے ممانی کی آنکھ کھل گئی۔

جب ہم کرج پہنچے تو رات ہو چکی تھی۔ علی آغا اور ماموں نے ایک ایسا ہوٹل ڈھونڈ ہی لیا جنہوں نے ہمارے شناختی کارڈ پر تصویروں کا مسئلہ نہ بنایا اور آسانی سے ہمیں دو کمرے دے دیے۔

جب مسافر خانے کی طرف سے ہمیں قدرے سکون ہوا تو ہم نے ارادہ کیا کہ نکلیں اور کرج کی سڑکوں پر تھوڑی سیر کر لیں۔ ماموں اور ممانی کوشش کر رہے تھے کہ کسی نہ کسی طریقے سے میں اور علی آغا ایک دوسرے کے ہمراہ چلیں۔ ماموں علی آغا کو میری طرف دھکا دیتے اور ممانی  مجھے علی آغا کی طرف دھکیل دیتیں۔ لیکن ہم دونوں ہی شرما رہے تھے اور سر نیچے کیے ایک دوسرے سے دور دور چل رہے تھے۔ رات کا کھانا ہم نے باہر ہی کھایا  اور کافی دیر تک شہر میں گھومتے رہے۔ اگلی صبح ہم ہمدان واپس آ گئے۔ علی آغا ہمارے گھر آئے اور مجھے ماں کے سپرد کر کے خداحافظ کہا اور چلے گئے۔ رخصت ہوتے وقت وہ اپنا پتہ دے گئے تا کہ میں انہیں خط لکھوں۔


([1]) ایران میں استعمال ہونے والی ایک باربردار گاڑی۔

([2]) پانی گرم کرنے کا دوہرا برتن جو تانبے یا پیتل کا ہوتا ہے۔ جس کے اندر آگ جلتی ہے اور باہر پانی گرم ہوتا ہے۔پاکستان میں تو اس کا استعمال شاید کچھ علاقوں میں ہو مگر ایران میں یہ تقریباً ہر گھر کی ضرورت ہے ۔

([3]) ایران میں دلہن کے حق مہر میں طلائی سکے دیے جاتےہیں۔ ایک سکہ دس گرام کا ہوتا ہے۔ خاندانوں کے معیار زندگی کے حساب سے اور دلہن کی رضامندی سے حق مہر کے لیے سکوں کی تعداد شادی سے پہلے معین کر دی جاتی ہے۔

([4]) محمد، خاندانی نام دشتی۔ 5 مارچ 1941؁ کو دنیا میں آنکھ کھولی۔وہ دفاع مقدس (ایران عراق جنگ)کے آغاز ہی سے محاذ پر مصروف پیکار تھے۔ 30 نومبر 1980؁ کو ذوالفقاریہ آبادان (ماہشہر)کے علاقے میں شہید ہو گئے۔ آج تک ان کا شہید پیکر نہیں مل سکا۔

([5]) ایران کا ایک گاؤں۔

([6]) ایرانی سال عیسوی سال کے مطابق 21 مارچ کو شروع ہوتا ہے۔ ۲۱ مارچ کو ان کی شمسی تقویم کے پہلے مہینے فروردین کا پہلا دن ہوتا ہے۔

([7]) ایرانی تقویم کے پہلے مہینے فروردین کی پہلی تاریخ کو جشن سال نو منایا جاتا ہے جسے نوروز کہا جاتا ہے۔ نوروز ایران کی علاقائی اور ملی عید ہے جو ملکی سطح پر منائی جاتی ہے۔اس کی رسومات میں سے ایک دسترخوان ہفت سین بھی ہے، جس میں سات ایسی مختلف اشیاء رکھی جاتی ہیں جن کے نام ایرانی زبان میں سین سے شروع ہوتے ہیں۔ یہ اشیاء خیر و برکت اور رزق و روزی میں اضافے کا باعث سمجھی جاتی ہیں۔

([8]) شہداء کا قبرستان۔

([9]) کتاب کے اصل متن میں یہ فارسی نعرہ اس طرح درج ہے: برای دفن شهدا / مهدی بیا، مهدی بیا

([10]) کتاب کے اصل متن میں یہ فارسی نعرے اس طرح درج ہیں: این گل پَرپَر شده / فدای رهبر شده / برای دفن شهدا / مهدی بیا، مهدی بیا.

([11]) ایران میں چوک یا چوراہے کو میدان کہا جاتا ہے۔

([12]) ایرانی عورتوں کا لباس۔

([13]) ایک ایرانی کار۔

([14]) قارئین کے ذہن میں رہے کہ یہ  1986؁ کے زمانے کی بات ہے، جب ایرانی کرنسی تومان کی بھی کچھ قدر و قیمت هوا کرتی تھی۔

([15]) محافل اور تقاریب میں ساتھ رکھنے والا چھوٹا سا بیگ۔

([16]) محمد هاشم رستمی 16 جولائی  1968؁ کو ہمدان میں پیدا ہوئے اور 19 فروری  1986؁ کو عراق کی سرحد پر شہید ہو گئے۔

([17]) مسعود رستمی 22 جون  1967؁ کو ہمدان میں متولد ہوئے۔ وہ بھی 19 فروری  1986؁ کوآپریشن والفجر ۸کے دوان عراقی سرحد پر شہید ہوئے۔

([18]) ایک پھول جسے انگریزی میں  Primula  کہا جاتا ہے۔

([19]) ایک ایرانی خشک میوہ۔

([20]) ایران میں کھائی جانے والی ایک خاص قسم کی روٹی۔

([21]) مصری جیسی چینی کی ڈلیاں جو ایرانی لوگ چائے کی ساتھ کھاتے ہیں۔

([22]) بیوٹی پارلر۔

([23]) ایران میں شادی کے موقع پر رسم ہے کہ دلہن کے سر پر قند کے ٹکڑے رگڑتے ہیں، جو نئے جوڑے کی شیرین اور مٹھاس بھری زندگی کا شگون ہوتا ہے۔

([24]) ایران کے اندر جب کوئی مرد کسی گھر میں یا خواتین کی محفل میں داخل ہوتا ہے تو متوجہ کرنے کے لیے یا اللہ یا اللہ کی آواز دیتا ہے جس سے خواتین سنبھل جاتی ہیں۔

([25]) اگر تم مومن اور صادق ہو تو ہمارے ساتھ موافق ہو جاؤ۔ ہر منافق اندھا ہے۔ محمدﷺ پر صلوات ہو۔ /  آسمان پر فرشتے نے پوری محنت سے خوشخط کر کے لکھ دیا ہے کہ محمدﷺ پر صلوات بھیجو۔ / بے شک علی ولی تھے۔ پروردۂ نبی تھے۔ سب کے سردار علی تھے۔ محمدﷺ پر صلوات ہو۔

([26]) آیت اللہ سید محمد حسینی ہمدانی المعروف آغا نجفی معاصر حکماء و عرفاء میں سے تھے۔ وہ  1904؁ میں نجف اشرف میں پیدا ہوئےبچپن ہی میں اپنے والد کے ہمراہ ہمدان چلے گئے، لیکن 21 سال کی عمر میں دوبارہ نجف واپس چلے گئے اور آیات عظام سید ابو القاسم خوئی اور علامہ محمد حسین طباطبائی کے پاس فقہ، اصول، کلام اور  فلسفہ کے دروس پڑھے۔ میرزا نائینی کے منظورِ نظر شاگرد تھے  اور ان سے اجازۂ اجتہاد بھی لیا تھا۔ انہیں میرزا نائینی جیسی عظیم شخصیت کا داماد ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔  22 سال بعد ہمدان واپس آئے اور تدریس و تألیف اور لوگوں کی ہدایت و ارشاد میں مصروف ہو گئے۔30 ستمبر 1996؁ کو 90 سال کی عمر میں اس جہانی فانی کو الوداع کہا اور حرم امام رضا علیہ السلام میں شیخ بہائی کے مرقد کے جوار میں دفن ہوئے۔ انہوں نے درج ذیل کتابیں یادگار چھوڑیں: انوار درخشان در تفسیر قرآن ۱۸ جلدیں، درخشان پرتوی از اصول کافی ۶ جلدیں وغیرہ۔

([27]) جب تک جان میں جان ہے زبان کھولو اور ہر گھڑی جمالِ محمد ﷺپر صلوات بھیجتے رہو۔

([28]) ایران میں بعض اوقات لوگ کچھ کاموں مثلاً دعا و مجالس وغیرہ کو اجتماعی طور پر انجام دینے کے لیے ایک گروہ کی شکل میں اپنے آپ کو منظم کر لیتے ہیں، جسے ایران میں ہیئت کہا جاتا ہے۔  اردو میں ہم اسے انجمن کہہ سکتے ہیں۔

([29]) ایک ایرانی  گاڑی۔

([30]) ایک ایرانی کھانا۔

([31]) عمومی مقامات مثلاً مسجدیں، ریارتگاہیں، امام بارگاہیں وغیرہ۔

([32]) ایک لذیذ حلوہ جو شہرِ قم کی سوغات ہے۔

تیسرا باب

عشق سے لبریز خط

علی آغا کو گئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا۔ ایک روز چچا مہدی تقریب نکاح کی تصویریں دھلوا کر لے آئے۔  میں نے جلدی جلدی اور  انتہائی عجلت سے ایک بار تمام تصویروں کو دیکھ ڈالا۔ جب ان کی دھلائی اور صفائی کی طرف سے مطمئن ہو گئی تو اب دقت اور تسلی سے دیکھنے لگی۔ تصویریں کافی دیر تک ماں، بابا اور میری بہنوں کے ہاتھوں میں گھومتی رہیں۔ جن ان سب کی آنکھیں ٹھنڈی ہو گئیں تو میں نے تصویروں کو اٹھایا اور کمرے میں چلی گئی۔ بعض اوقات ایک ہی تصویر کو آدھا آدھا گھنٹہ دیکھتی رہتی۔ ان تصویروں نے میری بے تابی اور بے چینی میں اضافہ کر دیا تھا؛ یہاں تک کہ  آدھی رات کو میں نے اپنا بال پوائنٹ اٹھایا اور علی آغا کے نام اپنا پہلا خط لکھ ڈالا۔

اگلی صبح سے میں نے دن گننا شروع کر دیے۔تقویم پر قیدیوں کی طرح نشان لگاتی اور دنوں کو گنتی رہتی۔

علی آغا یکم اپریل 1986؁ کو گئے تھے ۔ 24 اپریل کا دن تھا۔ سہ پہر کے وقت دروازے کی گھنٹی بجی۔ میری چھٹی حس نے کہا کہ دروازے پر علی آغا ہیں۔

میں نے چادر اوڑھی اور جلدی سے دروازے کی طرف لپکی۔ امیر دروازے پر کھڑا تھا۔ اس نے جلدی جلدی سلام کیا اور بابا اور ماں سے لے کر ماموں اور نانی تک ایک ایک کر کے سب کا حال احوال پوچھا۔ آخر میں جیب سے ایک لفافہ نکال کر کہنے لگا: ’’فرشتہ بہن، یہ خط علی نے تمہارے لیے بھیجا ہے۔‘‘

میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔مجھے کچھ معلوم نہیں کہ کیسے میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کیسے اسے رخصت کیا۔ میں نے خط لیا اور دروازہ بند کرنے اور اپنے کمرے میں پہنچے تک کئی بار اسے پڑھ ڈالا۔

خط بہت سادہ اور مختصر تھا اور سلام و احوال پرسی کے علاوہ اس میں اور کچھ نہ تھا، لیکن میرے دل کو اس خط نے طاقت بخش دی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ علی آغا میرے پاس ہیں اور انہوں نے میرے دل پر اپنی دوستی کی مہر لگا دی ہے۔ خط میں لکھا تھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ کے نام سے جو حرمتِ خون شہداء کا محافظ ہے۔ ان محاذوں سے ایک جوشیلا سلام جو باطل کے خلاف سرگرم ہیں اور جن کی زمین شہداء کے سرخ خون سے رنگین ہے، یہ خون امام حسین علیہ السلام کی کربلا کی یاد دلاتا ہیں اور اس کی خوشبو انسان کو لقاء اللہ کا عاشق بنا دیتی ہے۔

صحراؤں، دروں اور کربلائے ایران کی چلچلاتی دھوپ سے گزرتے ہوئے راستوں اور فاصلوں سے ایک محبت بھرا سلام۔

زمانے کے مالک اشتروں اور ابو عبداللہ الحسین علیہ السلام کے حقیقی حبیب ابن مظاہروں کے درمیان سے بھیجا جانے والا جذبوں بھرا سلام۔

اگر میرا حال جاننا چاہتی ہو تو میں الحمد للہ ٹھیک ہوں اور اگر خدا قبول کرے تو اس کی عبادت و بندگی میں مشغول ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب اسلام کو عالمی کفر پر غلبہ حاصل ہو جائے گا اور حضرت ولی عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے دست مبارک سے ظلم کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اور زہرا خانم، انہیں امیدوں کے ساتھ یہ امید بھی رکھتا ہوں کہ آپ ا ور آپ کے انقلابی اور حزب اللہی خاندان سے جلدی دوبارہ ملاقات ہو گی۔  آپ سے درخواست ہے کہ عبادت و دعا کے موقع پر مجھے ہمیشہ یاد رکھیں۔میرے گناہوں کی مغفرت طلب کریں اور یہ بھی دعا کریں کہ جس جہاد میں، میں اور آپ شریک ہیں،  خدا وند عالم ہم دونوں کا یہ جہاد قبول فرمائے۔آپ کو زیادہ زحمت نہیں دیتا۔ محمود آغا بھی خیریت سے ہیں۔ میری اور میری بہنوں کی جانب سے اپنے بابا، ماں اور نانی کو سلام کہیے گا اور ان کی احوال پرسی کیجیے گا۔ اور کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ آپ کو خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ خدمت گزارِ اسلام، علی چیت سازیان۔‘‘

جب سونے لگی تو وہ خط میں نے اپنے سرہانے کے نیچے رکھ لیا۔ اس کے بعد اگلے دن سے میں جہاں بھی جاتی وہ خط میرے بیگ میں میرے ساتھ ساتھ سفر کرتا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ خط درحقیقت علی آغا خود ہیں۔

میری کوشش ہوتی تھی کہ جہاں بھی جاؤں علی آغا کا وہ خط میرے ہمراہ رہے۔ جب بھی بیگ کھولتی اور خط پر  نظر پڑتی تو ایک خوشگوار سا احساس ہوتا۔

۱۶ مارچ 1986؁ کا دن تھا۔ علی آغا ہمدان لوٹے تو سیدھا ہمارے گھر آئے تھے۔ اگلے دن اور رات بھی اسی طرح۔ وہ آدھا گھنٹہ دروازے سے باہر کھڑے رہے۔ ہم دنیا و ما فیہا سے بے خبر اپنی نانی کے گھر میں تھے۔

ہر ہفتے پیر اور جمعرات کے دن ہم سب گھر والے شہدا کی تشییع جنازہ کے لیے باغ بہشت جاتے تھے۔ اس دن بھی جمعرات تھی۔بابا، ماں اور باقی لوگ ایک شہید کے تابوت کے پیچھے چل رہے تھے۔ گلزار شہدا میں اچانک میری نظر علی آغا پر پڑی۔ پہلے تو میں نے اسے اپنی نظروں کا دھوکا سمجھا۔ پھر بابا کو دکھایا تو وہ آگے بڑھ گئے اور انہیں ایک بیٹے کی طرح گلے لگا لیا اور ان کی پیشانی اور چہرے پر بوسہ دیا۔ بابا نے علی آغا کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا تھا اور خوشی سے سرشار انہیں سرتاپا دیکھ رہے تھے۔ علی آغا شرم کے مارے سرخ ہو گئےتھے۔ انہوں نے اپنا سر نیچے کر لیا تھا اور مسلسل شکریہ ادا کیے جا رہے تھے۔ ان کے کچھ دوست بھی ان کے پاس کھڑے تھے۔ بابا علی آغا کو دیکھ کر اتنا خوش ہوئے کہ کافی اصرار کر کے انہیں اپنے گھر پر شام کے کھانے کی دعوت دے دی۔

اذان مغرب کے بعد علی آغا ہمارے گھر آئے۔ انہوں نے سرمئی شرٹ اور اس کے نیچے وہی آٹھ جیبوں والی پینٹ پہن رکھی تھی۔ بھورے بال پیشانی پر پڑے ہوئے تھے جنہوں نے ان کے چہرے کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ بابا نے انہیں دیکھا تو دوبارہ گلے لگا لیا اور کئی بار ان کی پیشانی اور چہرے پر بوسے دیے۔ ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں اپنے پہلو میں بٹھا کر باتیں کرنا شروع ہو گئے۔ محاذ کے حالات اور جنگ کے نتیجے کے بارے میں پوچھنے لگے۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ ماں نے بہانے سےبابا کو کمرے سے باہر بلا لیا۔ ماں نے انہیں باہر مصروف کر دیا اور مجھے اشارہ کیا کہ میں علی آغا کے پاس چلی جاؤں۔ میں نے تصویریں اٹھائیں اور انہیں دکھانے کے لیے ان کے پاس چلی گئی۔

علی آغا نکاح کی تصویریں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ ایک تصویر جس میں ہم دونوں دسترخوانِ عقد کے کنارے بیٹھے تھے، اسے انہوں نے کئی بار دیکھا اور کہا: ’’یہ سب سے اچھی ہے۔‘‘

انہوں نے اس تنہائی کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا: ’’زہرا خانم، کل جمعہ ہے۔ ہمارے گھر میں کوئی نہیں ہو گا۔ ظہر کے بعد تین بجے ہمارے گھر آ جاؤ۔‘‘

میں نے قبول کر لیا۔ لیکن اگلے دن جب ماں سے میں نے اس بابت بات کی تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا: ’’اگر کوئی ان کے گھر میں نہیں ہے تو بہتر ہے کہ نہ جاؤ۔ اگر علی آغا یہاں ا ٓ جاتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن جمعے کو ظہر کے بعد اچھا نہیں لگتا کہ ایک اکیلی لڑکی اٹھے اور دوسروں کے گھر چل پڑے۔‘‘

کوئی چارہ نہ تھا۔ مجھے ماں کی طرف سے اجازت نہ ملنے کا اندازہ پہلے ہی ہو جانا چاہیے تھا۔ وہ ہماری طرف سے کافی حساس تھیں۔ دوستوں اور جاننے والوں کے گھر میں بھی جانے کی ہمیں اجازت نہ تھی۔ میں نے کوئی اعتراض کیے بغیر ان کی بات مان لی۔ہم نے یہی سیکھا تھا کہ ماں کے حکم کے آگے اپنی نہیں چلانی۔ ہم جانتی تھیں کہ وہ ہمارے بھلے ہی کی بات کرتی ہیں۔

جوں جوں سہ پہر تین بجے کا وقت نزدیک آ رہا تھا میری پریشانی اور بے قراری بڑھتی جا رہی تھی۔ ٹیلیفون تھا نہیں کہ انہیں اطلاع دے دیتی۔ میں ڈر رہی تھی کہ وہ مجھ سے ناراض نہ ہو جائیں۔ دوسری طرف میرا دل بھی ان کے لیے تڑپا جا رہا تھا۔ میں آنکھوں کے انتظار کو جانتی تھی۔

انہیں اطلاع دینے کی کوئی سبیل نہیں نکل رہی تھی۔ فقط دعا تھی۔ دعا کر رہی تھی کہ علی آغا کے ذہن میں خود بخود خیال آ جائے اور وہ خود ہمارے گھر آ جائیں۔ بالآخر سہ پہر کے تین بج گئے۔ پھر کچھ دیر گزری، چار بجے، پھر ساڑھے چار، پھر پانچ۔۔۔

میں بہت پریشان تھی۔ اپنے آپ سے کہہ رہی تھی کہ علی آغا میرے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے۔ وہ حتماً مجھ سے ناراض  ہوں گے۔ یہ پہلی بار تھی کہ ہم نے آپس میں قول و قرار کیا تھا اور میری طرف سے وعدہ وفا نہ ہو سکا تھا۔ بہنیں اور بابا ٹی وی دیکھ رہے تھے، لیکن میں تو جیسے اس دنیا میں تھی ہی نہیں۔ نہ کوئی آواز سنائی دے رہی تھی ، نہ کچھ دکھائی دے رہا تھا۔ بس آنکھیں ٹی وی پر گڑی تھیں اور جمعے کے دن سہ پہر کو نشر ہونے والی کوئی فلم چل رہی تھی، لیکن میرا سارا دھیان علی آغا کی طرف تھا۔ مجھ میں کسی چیز کا حوصلہ نہ رہا تھا۔میں سوچ رہی تھی کہ بعد میں جب علی آغا ملیں گے تو ان کا رد عمل کیا ہو گا؟ غصے ہوں گے اور بغیر خداحافظ کہے محاذ پر چلے جائیں گے؟ ناراض ہوں گے اور مجھ سے جھگڑا کریں گے یا آئیں گے اور اپنے رویے سے گلہ شکوہ کریں گے؟ میرے دل میں عجیب عجیب ہول اٹھ رہے تھے۔

وہ سہ پہر بہت کٹھن گزری۔ اتنی لمبی تھی کہ یوں محسوس ہوتا کہ آج رات نہیں ہو گی۔ یہی وجہ تھی کہ میں سرِشام ہی سردرد کا بہانہ کر کے سونے کے کمرے میں چلی گئی اور رات کا کھانا کھائے بغیر ہی سو گئی۔

اگلے روز جب مدرسے سے لوٹ رہی تھی تو گلی میں اپنے پیچھے موٹر سائیکل کی آواز سنی۔ میں نے اپنے آپ کو سنبھالا۔ سوچا کوئی میرا تعاقب کر رہا ہے۔اپنی عادت کے مطابق اِدھر اُدھر دیکھے بغیر میں نے اپنے قدم تیز کر دیے۔ چند قدم گھر سے دور تھی کہ پیچھے سے کسی جانی پہچانی آواز نے پکارا: ’’سلام، تیز تیز کیوں جا رہی ہو!‘‘

وہ علی آغا کی آواز تھی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ میں نے سکھ کا سانس لیا۔

انہوں نے پوچھا: ’’کیسی ہو؟‘‘

ان کی آواز اور آنکھوں میں کسی قسم کی ناراضگی نہ تھی۔

میں نے جواب دیا: ’’بہت شکریہ، ٹھیک ہوں۔‘‘

’’تو پھر کل آئیں کیوں نہیں ؟‘‘

مجھے شرمندگی سی ہوئی۔ میں نے بے چینی سے جواب دیا: ’’معذرت چاہتی ہوں۔ دراصل میری غلطی نہیں تھی۔ ماں نے اجازت ہی نہیں دی۔ ان کا کہنا تھا کہ جمعے کی سہ پہر کو اکیلے جانا مناسب نہیں ہے کیونکہ سڑکیں سنسان ہوتی ہیں۔‘‘

علی آغا خاموش  ہو گئے اور تائید کے انداز میں سر ہلانے لگے: ’’میں تو پریشان ہو گیا تھا کہ خدانخواستہ کہیں کوئی برا اتفاق نہ پیش آ گیا ہو۔ لیکن الحمد للہ کہ تم خیریت سے ہو؟‘‘

میں بھی مسکرا دی اور بیگ سے چابی نکالی: ’’بہر کیف، پھر بھی میں بہت معذرت خواہ ہوں۔ ماں نے کہا تھا: ’’اگر علی آغا خود آ جاتے اور ہم اکٹھے چلے جاتے تو کوئی حرج نہیں تھی۔‘‘

علی آغا نے دوبارہ تائید کرتے ہوئے سر ہلایا اور کہا: ’’حاج خانم ٹھیک ہی کہتی ہیں۔ تم نے اچھا کیا کہ ان کی بات مان لی۔ یہی وجہ ہے کہ آج میں سہ پہر کو خود تمہاری خبر لینے آ گیا۔‘‘

میں نے سکون کا سانس لیا اور چابی تالے میں ڈال کر کہا: ’’آئیے، اندر تشریف لائیے۔‘‘

علی آغا کو کوئی کام تھا اس لیے خداحافظ کہا اور چلے گئے۔ میں خوشی خوشی صحن سے اڑتی ہوئی باورچی خانے تک پہنچی۔ماں گھر پر نہ تھیں۔ کچھ گھنٹے گزرنے کے بعد جب وہ کارخانے سے واپس آئیں تو میں نے آج کا ماجرا ان کے گوش گزار کر دیا۔ ماں نے مان لیا اور میں دوبارہ اپنے کپڑے تیار کرنے میں مشغول ہو گئی۔

پونے تین بجے کا وقت تھا کہ علی آغا آ گئے۔ وہ اپنے دوست کی گاڑی لے آئے تھے۔ میں دوسری بار ان کے گھر جا رہی تھی۔ ان کے گھر میں کوئی نہ تھا۔ کچھ دن سے ان کے گھر والے حاج صادق کےگھر مہمان گئے ہوئے تھے۔ اس بار گھر خالی ہونے کی وجہ سے میں گھر کو پوری تفصیل سے دیکھ سکتی تھی۔گھر میں داخل ہوتے ہی ایک چھوٹا سا دروازہ تھا۔ بائیں طرف بیت الخلاء اور اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا آدھے دروازے والا کمرہ تھا جو لباس تبدیل کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ وہاں کچھ بیڈ بھی پڑے تھے۔ دائیں طرف ایک قدرے تنگ اور لمبا باورچی خانہ تھا جس کے در و دیوار سے لپٹے ہوئے پھول اوپر کو چڑھے ہوئے تھے۔ باورچی خانے کی پچھلی کھڑکی سے دھوپ چھن چھن کر آ رہی تھی اور کھڑکی اپارٹمنٹس پر لگائے جانے والے مختلف قسم کے پھولوں سے بھری ہوئی تھی۔

سفید کیبنٹس کے سب دروازے قدرتی مناظر اور بچوں کی خوبصورت تصویروں میں چھپ سے گئے تھے، جنہیں دیکھ کر انسان کا دل بے اختیار چاہے کہ وہ باورچی خانے میں گھس جائے اور ایک ایک تصویر کو جی بھر کے دیکھے۔ باورچی کے آخر  پر  ایک لوہے کا دروازہ تھا جو ایک چھوٹے سے ٹیرس میں کھلتا تھا۔ یہاں اچار، آلو، پیاز اور انہی جیسی دوسری چیزوں کی حفاظت کے لیے اچھی فضا تھی۔ باورچی خانے کی سجاوٹ کے حوالے  سے منصورہ بیگم کا ذوق مجھے بہت ہی  اچھا لگا۔

گھر ایک بڑے کمرے اور ایک مہمان خانے پر مشتمل تھا۔  مہمان خانہ ایک خوبصورت  سرمئی پردے، جس پر بڑے بڑے زرد پھول بنے ہوئے تھے، کے ذریعے بڑے کمرے سے جدا ہو جاتا تھا۔ گھر کے جس حصے میں بھی پاؤں رکھیں، ایک بڑی کھڑکی وہاں ضرور ہوتی تھی جو گھر کو روشن رکھتی اور دھوپ کو گھر میں آنے کا راستہ دیتی تھی۔

کچھ گلدان باورچی خانے سے ہال میں جانے والی راہداری میں (گاڑیوں کے پرانے)ریڈی ایٹرز پر رکھے تھے جن میں لگی بیلیں اوپر کو چڑھی ہوئی تھیں اور ان کی شاخیں اور سبز اور قلبی شکل کے پتے چھت سے جا کر آویزاں ہو گئے تھے۔ پھولوں نے گھر کی خوبصورتی کو دوچند کر دیا تھا۔

گھر کے آخر پر یعنی داخلی دروازے کے بالمقابل ایک اور لکڑی کا دروازہ تھا جو ایک چوپڑے پر جا کر کھلتا تھا۔  وہاں حمام اورآمنے سامنے دو سونے کے کمرے تھے۔ علی آغا نے دائیں ہاتھ پر موجود کمرے کا دروازہ کھولا۔ ظاہراً ایسا ہی لگ رہا تھا کہ وہ کمرہ علی آغا اور امیر دونوں کے استعمال میں ہے۔

کمرے کی سب دیواروں پر شہداء اور امام خمینیؒ کی تصویریں پنز کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ تصویروں کے درمیان کہیں کہیں پیشانی بند اور کئی بِلّے([1]) لٹک رہے تھے۔ کمرے میں ایک کتابخانہ بھی تھا۔

علی آغا دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور مجھے بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں بیٹھ گئی۔  انہوں نے Tearose  کا عطر لگا رکھا تھا، جس کی خوشبو میرے نتھنوں میں بھر گئی۔ وہ اٹھ کر کتابخانے کی طرف گئے اور کتابوں کے درمیان سے ایک البم نکال لائے۔ مجھ سے کہا: ’’آؤ مل کر البم دیکھتے ہیں۔‘‘

وہ آرام آرام سے البم کے اوراق الٹ رہے تھے۔ تصویروں میں بعض کے سروں پر انہوں نے سرخ رنگ کا دائرہ لگا رکھا تھا۔ایک تصویر پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگے: ’’یہ میرا شہید دوست امیر حسین فضل اللہی([2]) ہے،  یہ جزیرۂ مجنون میں شہید ہو گیا تھا۔ اور یہ شہید محمد علی جربان ہے۔‘‘

ان کے عطر، سانسوں اور بدن کی خوشبو مخلوط ہو گئی تھی۔ ان کی آواز میں سوز تھا، جو مجھے بہت اچھا لگا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ زمانہ اسی وقت تھم جائے اور میں اور وہ اسی حالت میں سالوں تک ایک دوسرے کے پاس بیٹھے رہیں۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ جگہ ان شہیدوں کی تصویروں کی وجہ سے دنیا کی دوسری تمام جگہوں سے بہت مختلف ہے۔ وہ ورق الٹتے جا رہے تھے اور ان کی انگلی ہر تصویر میں کچھ چہروں پر ٹھہر جاتی۔ جب زیادہ گلوگیر ہو جاتے اور ان کی آنکھیں بھر آتیں تو پھل نکالنے یا چائے لانے کے بہانے اٹھ کھڑے ہوتے اور کمرے سے باہر نکل جاتے۔

کئی بار تو انہوں نے کتابوں کی الماری سے کچھ چیز اٹھانے کے لیے مجھے بھی اٹھایا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ چونکہ وہ مجھے غور سے دیکھنے میں شرم محسوس کر رہے تھے اسی وجہ سے مجھے بار بار اٹھا رہے تھے تاکہ اس بہانے نظر بھر کر مجھے دیکھ سکیں۔

میں نے پوچھا: ’’علی آغا، میں نے سنا ہے کہ انصار ڈویژن کے جوان آپ کو بہت پسند کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ جیلوں سے ایسے ایسے عادی اورانتہائی خطرناک مجرموں اور  پھانسی کی سزا پا جانے والے انسانوں کو بھی محاذ پر لے جاتے ہیں اور ان پر ایسا جادو پھونک دیتے ہیں کہ وہ کسی اور دنیا کے باشندے لگنے لگتے ہیں۔‘‘

علی آغا مسکرا دیے اور پوچھا: ’’تم نے کس سے سنا ہے؟‘‘

میں نے غرور اور مان بھرے لہجے میں جواب دیا: ’’تو پھر میں نے صحیح سنا؟‘‘

اس کے بعد میں نے انتہائی ادب سے اخباری نمائندوں کی طرح پوچھا: ’’یہ لوگ خطرناک نہیں ہوتے؟ ابھی تک انہوں نے آپ کے لیے کوئی مشکل کھڑی نہیں کی؟‘‘

علی آغا نے پورے اطمینان سے جواب دیا: ’’نہیں، ہر گز نہیں۔ میں اپنے ماتحت فوجیوں  سے ہمیشہ کہتا ہوں۔۔۔‘‘ پھر مسکرا کر اپنی بات جاری رکھی: ’’اور تمہیں بھی کہہ رہا ہوں، زہرا خانم،  تم بھی اپنی ماتحت فوجی ہو۔ کسی بھی معاشرے میں اخلاق کی آواز سب سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ اگر ہم اخلاقیات کے شعبے میں اچھی طرح کام کریں تو ایک مثالی معاشرہ تعمیر کر سکتے ہیں۔ اگر ایک معاشرے کے افراد کا اخلاق اسلامی اور صحیح ہو تو ملک میں مدینہ منورہ کی جھلک نظر آئی گی۔ ہمیں چاہیے کہ معاشرے کے افراد کے دلوں اور روحوں میں اپنی جگہ بنائیں تا کہ مملکت، الٰہی راستے پر چل نکلے۔ میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ اسی طرح رہوں۔  اور صرف یہی ایک چیز مجھے زندگی میں ہمیشہ خوش رکھتی ہے کہ ایک آدمی اگر غلط راستے پر چل پڑا ہے تو اس کا ہاتھ پکڑوں اور اسے اس کے اصلی اور الٰہی راستے پر لے آؤں۔ امام [خمینیؒ] فرماتے ہیں: ’’محاذ، انسان ساز یونیورسٹیاں ہیں۔‘‘ اگر ہم امام کے حقیقی پیروکار ہیں تو ہمیں ان کے فرامین پر عمل کرنا چاہیے۔‘‘

اسی وقت دروازے کی گھنٹی بجی۔ علی آغا جانے کے لیے اٹھے ، الماری کا دروازہ کھولا اور اپنا پستول نکال کر کمر سے باندھا اور کمرے سے نکل گئے۔ اس دن تک مجھے معلوم نہ تھا کہ علی آغا اسلحہ بھی رکھتے ہیں۔

تھوڑی دیر گزری تھی کہ وہ بے چینی اور اضطراب کی حالت میں واپس  پلٹے۔ میں پریشان ہو کر نیم بلند ہوئی اور پوچھا: ’’کیا ہوا؟‘‘

سر کو افسوس سے ہولے ہولے ہلا کر کہنے لگے: ’’البم میں لگی تصویروں میں سے ایک تصویر، وہی جو میں نے ابھی تمہیں دکھائی تھی، اڑ گئی۔ حسین شریفی([3])، جس کے بارے میں مَیں نے تمہیں بتایا تھا کہ کچھ دن پہلے شدید زخمی ہو گیا تھا اور اس کی ہسپتال والی تصویر بھی میں نے تمہیں دکھائی تھی، وہ شہید ہو گیا ہے۔ اسے ہمدان لے آئے ہیں اور مجھے جانا ہو گا۔‘‘

میں اٹھی اور پھلوں کی پلیٹیں اور چائے کی سینی اٹھا کر باورچی خانے میں چلی گئی۔ علی آغا کے تیار ہونے تک میں نے پھل فریج میں رکھ دیے اور پیالیاں دھو دیں۔

ان کے دوست دروازے کے باہر منتظر تھے۔ علی آغا نے اپنے دوست سے ادھار لی ہوئی اسی گاڑی میں مجھے گھر چھوڑا اور خود چلے گئے۔

ماں نے مجھے دیکھا تو تعجب سے پوچھا: ’’جا رہی ہو یا واپس آ گئی ہو؟‘‘

میں نے جواب دیا: ’’واپس آگئی ہوں۔‘‘

انہوں نے ایک بار پھر حیرت سے پوچھا: ’’کیا ہوا؟ خدانخواستہ کوئی بات تو نہیں ہو گئی؟ تم تو ابھی ابھی گئی تھیں۔‘‘

مجھے علی آغا کی کمر سے جھولتے اسلحے کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ میں نے ماں کے اس بارے میں بتایا تو انہوں نے سر ہلا کر کہا: ’’حالات اچھے نہیں لگ رہے۔ ایک طرف جنگ اور بعثی دشمن ہیں اور دوسری طرف استعمار کے ایجنٹ اور منافقین بچوں کو سکھ کا سانس نہیں لینے دے رہے۔ الحمد للہ ہمارے جوان عقلمند ہیں۔ انہیں ہوشیار رہنا چاہیے۔‘‘

اگلی صبح ماں نفیسہ کو اپنے ساتھ کارخانے لے گئیں۔  مجھے فروجہ([4]) تھا، لہذا میں بیٹھ کر تھوڑا پڑھنے کے لیے آمادہ ہو رہی تھی کہ علی آغا نے دروازے کی گھنٹی بجائی اور اندر آ گئے۔ ہم بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ اب میری باری تھی۔ میں اپنی تصویروں والی البم لے آئی اور اکٹھے دیکھنے لگے۔ انہیں جانے کی جلدی تھی۔

اگلے دن پیر تھا۔ میں نے کافی انتظار کیا مگر وہ نہ آئے۔ میرا دل چاہتا تھا کہ جب تک وہ ہمدان میں ہیں تب تک ہم روزانہ ایک دوسرے  کو دیکھیں۔ میرا دل بے قرار تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ انہیں دیکھنے کی عادت سی ہو گئی ہے۔ ہم ماں کے ساتھ باغِ بہشت گئے تو وہاں بھی سوچ رہی تھی کہ شاید حسین شریفی کی تشییع جنازہ میں نظر آ جائیں۔

باغ بہشت میں کافی ہجوم تھا۔ میں  نے کافی ادھر ادھر نظریں دوڑائیں مگر وہ نظر نہ آئے۔ باغ بہشت میں جتنا وقت ہم رہے اور پھر واپس پلٹتے ہوئے بھی راستہ بھر پورے اشتیاق سے میں انہیں ادھر ادھر ڈھونڈتی رہی۔

منگل کو بھی فروجہ کی چھٹی تھی۔ ابھی پڑھنے بیٹھی ہی تھی کہ دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ علی آغا تھے۔ میں نے اندر آنے کے لیے کافی اصرار کیا مگر وہ نہ آئے۔ وہ خداحافظ کہنے آئے تھے اور محاذ کی طرف واپس جا رہے تھے۔

میں کٹورا بھر کر پانی کا لے آئی اور ان کے سر کے پیچھے چھڑک دیا اور دروازے کی چوکھٹ پر کھڑی ہو کر انہیں جاتے ہوئے دیکھنے لگی۔ جب وہ تھوڑی دور چلے گئے  تو لوٹ آئے اور اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد جب مطمئن ہو گئے کہ گلی میں کوئی نہیں ہے تو  بلند آواز سے کہا: ’’اپنا خیال رکھنا۔ اور مجھے معاف کر دینا۔‘‘

میں نے بالکل  آہستہ آواز سے کہ جسے فقط میں ہی سن سکتی تھی، کہا: ’’خدا نہ کرے۔ مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا۔‘‘

انہوں نے ہوا میں میرے لیے ہاتھ ہلایا۔ سفید چادر جو میں نے اوڑھ رکھی تھی اسے اپنے ہاتھ پر رکھااور انہیں ہاتھ ہلا کر خدا حافظ کہا۔ ان کے گلی سے سڑک پر پہنچے تک میں دروازے ہی میں کھڑی رہی۔

ان کے جانے سے تقویم پر دوبارہ علامتیں لگنا شروع ہو گئیں۔ دن ڈھل جاتا تو آہ و حسرت کے ساتھ تقویم پر اس تاریخ کے آگے پنسل سے لکھ دیتی: ’’دو دن گزر گئے۔۔۔ دس دن۔۔۔ بارہ دن۔۔۔۔‘‘

علی  آغا کو گئے ہوئے تیرہ دن گزر چکے تھے۔  مئی کی 28 تاریخ تھی۔ میں مدرسے جانے کےلیے کپڑے پہن رہی تھی۔ پونے آٹھ بج چکے تھے۔ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ہمیشہ دروازے کی گھنٹی کا انتظار کرنے کی عادت سی ہو گئی تھی۔ بجلی کی طرح دروازے پر پہنچی۔ علی آغا دروازے کے باہر کھڑے تھے؛ خستہ، واماندہ اور خاک آلود۔ انہیں دیکھ کر ایسا لگا جیسے میری دنیا مجھے مل گئی ہو۔ میں نے اندر آنے کا کہا۔ ماں بھی دروازے کی طرف دوڑیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ علی آغا ان کے اپنے بیٹے ہیں۔ انہوں نے خوش ہو کر ان کا ہاتھ پکڑا اور کھینچ کر صحن میں لے آئیں۔

ماں نے پوچھا: ’’کب پہنچے ہو؟‘‘

’’ابھی ابھی۔ میرا ایک ماتحت فوجی شہید ہو گیا ہے۔ کل میں واپس لوٹ جاؤں گا۔‘‘

ماں نے کہا: ’’تو بس پھر ٹھیک ہے۔ آج رات کا کھانا ہمارے ہاں کھاؤ۔‘‘

اس دن میری سالگرہ تھی۔ ماں نے ہم سب کا یوم ولادت یاد رکھا ہوا تھا۔ علی آغا کے جانے کے بعد ماں کہنے لگیں: ’’میں تمہاری سالگرہ منانا چاہتی ہوں۔‘‘

میں نے کہا: ’’نہیں، ماں۔ آپ نے سنا تو ہے کہ علی آغا کے دوست شہید ہو گئے ہیں۔‘‘

اگرچہ ماں نے میری سالگرہ منانے کے لیے کافی لمبا چوڑا پروگرام بنا رکھا تھا اور علی آغا کے گھر والوں کے علاوہ کچھ دوسرے مہمانوں کو بھی دعوت دینا چاہ رہی تھیں مگر  انہوں نے اپنا پروگرام تبدیل کر دیا اور سہ پہر کے وقت مجھے تولد کی مبارکباد دے کر میرے لیے خریدے گئے تحفے میرے حوالے کر دیے اور کہا: ’’ان شاء اللہ جنگ جلدی ختم ہو جائے گی۔ کوئی بات نہیں۔ یہ دن بھی گزر جائیں گے۔ ان شاء اللہ اگلے سال تمہارے اپنے گھر میں تمہاری اور تمہارے بیٹے کی اکٹھی سالگرہ منائیں گے۔‘‘

اس رات علی آغا اور ان کے گھر والے ہمارے مہمان تھے۔ یہ وہی رات تھی جب ورزش گاہ میں کنگ فو کھیلتے ہوئے علی آغا کے پاؤں میں شدید موچ آ گئی تھی اور وہ درد کے مارے سرخ ہوئے جا رہے تھے مگر اف تک نہیں کر رہے تھے۔

رات کا آخری پہر تھا جب مجھے معلوم ہوا۔ میں نے بہتیرا کہا کہ ہسپتال چلے جاتے ہیں مگر انہوں نے ایک نہ مانی۔ کہتے تھے: ’’کچھ بھی تو نہیں ہوا۔ ٹھیک ہو جاؤں گا۔‘‘

آخر کار میں نے کہا: ’’آپ کتنے مضبوط ہیں! کیسے برداشت کر لیتے ہیں؟ مجھ میں تو اصلاً اتنی طاقت نہیں ہے۔‘‘

انہوں نے ہنس کر کہا: ’’تمہیں بھی مشق کرنی چاہیے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میری بیوی بھی صابر اور مضبوط ہو۔‘‘

مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس رات کو منصورہ بیگم کو دوبارہ گردوں کا درد اٹھا اور رات کے کھانے کے بعد حاج صادق انہیں ہسپتال لے گئے۔ میں علی آغا کو اپنے ساتھ اپنے کمرے میں لے گئی۔ میں نے پوچھا: ’’کیا ہوا؟ آپ کی حالت اچھی نہیں ہے؟‘‘ کہنے لگے: ’’سہ پہر کے وقت ورزش گاہ میں تھا کہ پاؤں میں سخت موچ آ گئی۔‘‘

میں نے زبردستی ان کی شلوار تھوڑی اوپر کی۔ وہ شرما رہے تھے اور پاؤں کو پیچھے کی جانب کھینچ رہے تھے۔ میں نے ان کی جراب اتاری۔ ان کے پاؤں کافی سفید تھے۔  ان کا ٹخنہ سُوج کر نیلا ہو گیا تھا۔میں ہل کر رہ گئی اور ڈر گئی۔ میں نے کہا: ’’اٹھیں، ہسپتال چلتے ہیں۔‘‘

انہوں نےہنس کر کہا: ’’نہیں یار، کچھ بھی نہیں ہوا۔ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

میں ماں کو بلانا چاہتی تھی مگر انہوں نے کہا: ’’نہیں۔۔۔، نہیں۔۔۔‘‘

انہوں نے جلدی سے جراب پہن لی۔ میں نے کافی اصرار کیا مگر ناکام رہی۔ رات کے آخری پہر علی آغا کا دوست انہیں لینے آ گیا۔ وہ  اس کے ساتھ اپنے محاذ پر واپس چلے گئے۔ وہاں پر فوج کے جوانوں نے گرم پانی اور نمک سے ان کے پاؤں کی مالش کی اور اکھڑے ہوئے جوڑ کو اپنی جگہ پر درست کر دیا تھا۔

جمعرات کے روز علی آغا صبح جلدی ہمارے گھر آ گئے۔ میں نے کافی کوشش کی کہ اندر آ جائیں مگر نہ آئے؛ وہ محاذ پر جا رہے تھے۔

پہلی بار ان کے سامنے میں گلوگیر ہو گئی اور رونے لگی۔ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا: ’’اتنی جلدی ہمارا وعدہ بھول گئیں؟ پچھلی رات ہی کو تو میں نے کہا تھا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ تم صابر اور مضبوط ہو؟ شاید میں اس بار لوٹ کر نہ آؤں۔ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ تم کوئی کمزوری دکھاؤ۔ میرا دل چاہتا ہے کہ تم حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کی طرح صابر اور مستحکم رہو۔‘‘

ان سب باتوں کے باوجود میں اپنے اشکوں کو روک نہیں پا رہی تھی۔ گریہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ میں جانتی تھی وہ اپنے جذبات کو آسانی سے بیان نہیں کر سکتے۔ اس عرصے میں بھی وہ جذباتی نہ ہوئے تھے اور اپنی بے چینی کا گلہ نہیں کیا تھا۔ ان کے مقابلے میں مَیں تھی؛ ٹوٹی ہوئی، جذباتی اور حساس۔ میں نے روتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ انہیں خدا حافظ کہا۔

میں دروازہ بند کر کے دروازے کے سہارے کھڑے ہو گئی۔ آنسوؤں پر دسترس نہیں رہی تھی۔ سوچ رہی تھی کہ ابھی دوبارہ دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور آرام کرنے کے لیے اندر آ جائیں گے۔ کچھ دیر گزر گئی؛ اس طرف سے کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔ پانچ منٹ گزرے ہوں گے کہ میں نے دھیرے سے دروازہ کھولا اور گلی میں نظر دوڑائی۔ گلی میں کوئی نہ تھا۔ مجھے یقین نہیں ہوتا تھا کہ وہ مجھے اس حال میں تنہا چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔ کمرے میں پہنچی تو اونچی اونچی آواز میں رونے لگی۔ انہوں نےکہا تھا کہ مجھے صبر کرنا چاہیے، برداشت کرنا چاہیے، مضبوط رہنا چاہیے۔ میں نے خود ہی ایسا چاہا تھا۔ خود ہی انتخاب کیا تھا۔ خود ہی ارادہ کیا تھا کہ جنگ میں اپنا بھی حصہ ڈالوں۔ خود ہی قبول کیا تھا کہ میرا شوہر مجاہد ہو۔ مجاہدوں کو میں مضبوط اور بااخلاق انسان تصور کرتی تھی۔ میں نے اپنے آپ سے کہا: ’’ٹھیک ہے۔ قبول کرتی ہوں۔ میں برداشت کروں گی۔ لیکن خدایا، تو ان کی حفاظت فرما، خدایا، ان کا زخمی ہونا قبول مگر قید ہونا یا شہید ہو جانا؛ نہیں۔ خدایا، تو خود ہی ان کی حفاظت فرما۔‘‘


([1]) وہ تمغہ یا علامت جو پولیس وغیرہ کے وردی پر چسپاں یا الگ سے لگی ہوتی ہے۔ انگریزی میں اسے Tag   کہا جاتا ہے۔

([2]) امیر حسین فضل اللہی 31 اکتوبر 1964؁ کو ہمدان میں پیدا ہوئے اور 21 مئی 1986؁ کو جزیرہ مجنون میں شہادت پا گئے۔ وہ جزیرہ مجنون میں انصار الحسین آپریشن ڈویژن کے شعبہ انٹیلی جنس صوبہ ہمدان یونٹ کی شناختی ٹیم کے رکن تھے۔

([3]) حسین شریفی 10 مئی 1966؁ کو ہمدان میں متولد ہوئے۔ حیران کن اتفاق ہے کہ 1986؁ کو اسی ماہ کی اسی تاریخ کو عراقی سرحد پر شہید ہو گئے۔ وہ انصار الحسین آپریشن ڈویژن کے شعبہ انٹیلی جنس صوبہ ہمدان یونٹ کی شناختی ٹیم کے رکن تھے۔

([4]) ایک کام کے درمیان آ جانے والا وقفہ، مثلاً امتحانات کے درمیان آ جانے والے ایک یا دو دن کے وقفے کو بھی اردو میں فروجہ کہتے ہیں۔

چوتھا باب

دوسرا ہنی مون

مئی 1986؁ کے امتحانات ختم ہو چکے تھے۔ بابا صبح جلدی دکان پر چلے جاتے اور ماں سلائی کارخانے جانے کے علاوہ کچھ دوسرے کاموں میں شریک ہوتی اور مدد کرتی تھیں جو دوسری عورتیں فوجیوں اور مجاہدوں کی مدد کے لیے رضاکارانہ طور پر انجام دیتی تھیں۔ ماں بعض اوقات نفیسہ کو بھی ساتھ لے جاتیں اور دن کا کھانا کھانے کے لیے بھی گھر نہ آتیں۔ ایسے مواقع پر گھر کا کام میرے اور رؤیا کے درمیان تقسیم ہو جاتا۔

منگل 10 جون 1986؁ کا دن تھا۔ دروازے کی گھنٹی بجی۔میں نے چادر اوڑھی اور دروازے تک دس پندرہ قدم کا فاصلہ دو تین لمبے لمبے قدموں سے طے کر لیا۔ جیسے ہی دروازہ کھولا، علی آغا سامنے تھے۔ انہیں جس حالت میں دیکھا تھا، اس نے میرے اوسان خطا کر دیے۔ ان کے ہاتھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی جو گردن میں لٹک رہا تھا۔

سلام و احوال پرسی کے بعد میں نے پریشان ہو کر پوچھا: ’’کیا ہوا؟!‘‘

انتہائی سکون سے جواب دیا: ’’کچھ نہیں، بس کچھ چھوٹے چھوٹے چھرے لگے ہیں۔‘‘

میں نے اندر آنے کا کہا۔ وہ کافی خستہ حال اور اجڑے اجڑے لگ رہے تھے۔ بال نیچے سے کٹے ہوئے، ہونٹ بے رنگ اور زخمی، لمبی داڑھی۔  بوٹ مٹی سے اتنے لت پت ہو چکے تھے کہ ان کا اپنا رنگ دکھائی نہ دیتا تھا۔

میں نے ہنس کر کہا: ’’جنگ سے لوٹے ہیں؟‘‘

مسکرا کر جواب دیا: ’’ایک جگہ آپریشن تھا؛ جزیرۂ مجنون۔([1])‘‘

میں نے اصرار کیا: ’’اندر آ جائیں۔‘‘

’’نہیں، بہت تھک گیا ہوں۔ چاہتا تھا پہلے تمہیں دیکھ لوں۔ وجیہہ بیگم گھر پر ہیں؟‘‘

ماں گھر پر نہ تھیں۔میں نے تعجب سے پوچھا: ’’کس لیے؟ وہ تو گھر پر نہیں ہیں۔ کارخانے گئی ہیں۔‘‘

کہنے لگے: ’’فوجی کافی تھک چکے ہیں۔ فوج کی طرف سے پروگرام طے پایا ہے کہ اپنے گھر والوں کے ساتھ مشہد زیارت کر آئیں۔‘‘

پھر اپنی لمبی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور کہا: ’’میں چاہتا تھا کہ تمہیں بھی ساتھ لے جاؤں۔ تمہارے خیال میں کیا وجیہہ بیگم اجازت دے دیں گی؟‘‘

میں خاموش رہی۔

کہنے لگے: ’’میں جاتا ہوں۔ تھوڑی دیر آرام کروں گا۔ سہ پہر کے وقت آ کر اجازت لے لوں گا۔‘‘

بابا اور ماں نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ انہوں نے اجازت دے دی۔

جمعرات 1۲ جون 1986؁، علی الصبح ہم فوجی کیمپ کے دروازے سے مشہد کے راستے پر ہو لیے۔ ہم سب دو بسوں میں سوار تھے۔ ایک بس میں خانوادے اور دوسری بس میں مجرد فوجی۔ علی آغا نے مجھے دوسری یا تیسری قطار میں بٹھایا۔ میرے ساتھ والی نشست خالی تھی۔ انہوں نے بیگ اس پر رکھا اور خود مجردوں کی بس میں جا کر بیٹھ گئے۔

شادی شدہ بس میں اکثر جوان تھے؛ یا ہماری طرح ان کا فقط نکاح ہوا تھا یا تازہ تازہ شادی بھی ہو گئی تھی۔ بہت کم خانوادے ایسے تھے جن کے دو سے زیادہ بچے تھے۔

گاڑیاں چل پڑیں۔ پھر کچھ گھنٹے گزرنے کے بعد استراحت کے لیے ایک جگہ رک گئیں۔ علی آغا ہماری گاڑی میں آئے، لیکن میرے پاس نہ بیٹھے، بلکہ گاڑی سے نیچے اتر گئے۔  پہلے تو میں نے سوچا کہ شاید باقی فوجیوں کے معائنے کے لیے گئے ہوں گے اور جلدی آ جائیں گے، مگر کافی دیر تک انتظار کرنے کے باوجود بھی نہ آئے۔ میں نے سر گھما کر پیچھے دیکھا۔ اکثر جوڑے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے باتیں کر رہے تھے یا پھل کھا رہے تھے۔

علی آغا اور کچھ دوسرے لوگ بس کے نیچے کھڑے ہو کر گپ شپ اور ہنسی مذاق کر رہے تھے اور بات بات پر قہقہے لگا رہے تھے۔ میں نے اشارہ کیا کہ ذرا ادھر آئیں۔ تھوڑی دیر بعد آئے۔ میں نے بیگ کو اٹھا کر اپنے پاؤں کے آگے رکھ لیا اور کہا: ’’بیٹھیں، آپ کہاں چلے جاتے ہیں؟! مرا حوصلہ جواب دیتا جا رہا ہے۔‘‘

بیٹھ تو گئے لیکن پاؤں ٹک نہ رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ جانا چاہتے ہیں۔

میں نے کہا: ’’یہاں بھی ہمدان والے قانون چلیں گے؟!‘‘

انہوں نے تعجب سے مجھے دیکھا۔

میں نے کہا: ’’کہیں ایسا تو نہیں کہ یہاں بھی شہیدوں کے خاندان ہمارےبارے میں باتیں نہ کرنے لگ جائیں۔‘‘

انہوں نے ہنس کر سر ہلا دیا: ’’ہاں، ہو سکتا ہے۔ مجھے اپنے ماتحتوں سے شرم آتی ہے۔ ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ یہ نہ کہنے لگیں کہ علی آغا اب مغرور ہو گئے ہیں۔‘‘

میں نے اعتراض کرتے ہوئے کہا: ’’آپ ان کے دلوں میں بستے ہیں۔ شاید وہ ایسا نہ سوچتے ہوں۔‘‘

کہنے لگے: ’’اچھی سوچ ہے۔ شاید یہ بھی سوچیں کہ علی آغا نے شادی کر لی تو اب ہمیں تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔‘‘

میں نے کہا: ’’باقی لوگ بھی تو اپنی اپنی بیویوں کے پاس بیٹھے ہیں۔ کیا انہیں کسی نے کچھ کہا ہے؟‘‘

انہوں نے بے چین ہوتے ہوئے کہا: ’’ہر بندے کا اپنا اخلاق ہوتا ہے۔  میں تو ایسا ہی ہوں۔‘‘

اس کے بعد میں نے کچھ نہ کہا۔ ان کا اخلاق مجھے معلوم ہو چکا تھا۔ وہ اسی طرح میرے پاس آدھا گھنٹہ بیٹھے رہے پھر چلے گئے۔  تھوڑی دیر بعد نیچے سے کسی کے گانے کی آواز بلند ہوئی۔ علی آغا کا ماتحت کوئی فوجی تھا۔ اس کی آواز اچھی تھی۔ اس کی آواز میں سُر بھی تھی اور نوحہ بھی، لیکن اس کا ہمدانی لہجہ تو بہت ہی خوبصورت تھا۔ سب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔

میرا ایک یار ہے، میرا ایک یار ہے، چمکتے چاندجیسا

وہ ہررات سڑک والی نہر کے کنارے بیٹھتا ہے

اس کی آنکھیں ہیں، اس کی آنکھیں ہیں، ہرن کی آنکھوں کی طرح

اس کے لب ہیں، اس کے لب ہیں، کاہو([2]) کے پتے کی طرح

تیرے ہاتھ میں کاسہ ہے، تیرے ہاتھ میں کاسہ ہے، تم جا رہے ہو تا کہ اس سے دہی خرید سکو

اگر تم نے مجھے نہ لیا (مجھ سے شادی نہ کی) تو تیرا کاسہ ٹوٹ جائے

اگر مجھ سے شادی کر لو تو اچھا ورنہ جاؤ بھاڑ میں

تیرا فیصلہ چشمۂ ہفت پستان کے سر چھوڑتا ہوں([3])

میرے ہم سفر ہنس رہے تھے اور مجھے بھی اپنے ساتھ پھل  کھانے کی دعوت دے رہے تھے۔

ظہر کے بعد کا کچھ وقت گزر چکا تھا۔ بسیں راستے میں ایک ریستوران کے سامنے جا کر رک گئیں۔ جن عورتوں کے پاس بچے بھی تھے انہوں نے بیت الخلاء کے سامنے صف باندھ لی تھی۔ ایک دو بچے کافی بے تابی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ میں بھی آگے بڑھ گئی تا کہ ایک عورت کی مدد کر سکوں۔ میں چاہتی تھی کہ جو بچہ زیادہ بے چین ہو رہا تھا اسے بغیر باری کے اندر بھیج سکوں۔ اسی وقت ایک  مرد آگے بڑھا اور عورتوں کی صف کو توڑتا ہوا بیت الخلاء میں گھس گیا۔ عورتوں نے شور مچانا شروع کر دیا۔ نہیں معلوم کس نے مردوں کو جا کر اس بات کی خبر کر دی۔

علی  آغا کو دیکھا کہ دوڑے دوڑے آ رہے تھے۔ کچھ ساتھی بھی ان کے ساتھ تھے۔

وہ دور ہی سے کافی غصے میں دکھائی دے رہے تھے۔ جب ہمارے نزدیک پہنچے تو حکم دینے کے انداز میں ہم سب کو بس کی طرف جانے کا کہا اور خود لات سے بیت الخلاء کا دروازہ کھول کر اندر گھس گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہم نے دیکھا کہ علی آغا کا جو ہاتھ صحیح تھا اس سے اس مرد کو کالر سے پکڑے باہر کی طرف کھینچ کر لا رہے تھے۔ میں ان کی آواز سن رہی تھی: ’’ایسا سوچنا بھی مت کہ ہم پاسدار([4]) لوگ کچھ کر نہیں سکتے!‘‘

وہ مرد ہکا بکا ہو کر آس پاس دیکھ رہا تھا۔ اس نے ایک ہاتھ سے اپنی شلوار پکڑ رکھی تھی۔ علی آغا کی آواز بہت تیز تھی: ’’ہم لوگ محاذ پر بندوقیں اٹھائے تمہاری عزت و ناموس کی حفاظت کر رہے ہیں اور تم ہو کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہماری ہی عورتوں کے درمیان سے گزر کر زنانہ بیت الخلاء میں گھسے جا رہے ہو؟!‘‘

مجھے سمجھ نہ آئی کہ اس مرد نے جواب میں کیا کہا اور کیا کیا لیکن جب علی آغا آئے تو ان کا مزاج کافی برہم تھا۔ انہوں نے دونوں بسوں کے ڈرائیوروں سے کہا : ’’چلیں!‘‘

ہم سب اس قدر پریشان ہو گئے تھے کہ کسی نے کچھ نہ کہا حتی کہ آغا رفیعی جو گا رہے تھے اور سب کو ہنسا رہے تھے وہ اور ان کے ساتھی بھی خاموشی سے اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ گاڑیاں حرکت میں آ گئیں اور دوبارہ اپنے راستے پر ہو لیں۔

علی آغا نے پہلے ہی سے رامسر([5]) کے امام جمعہ کے ساتھ ہم آہنگی کر کے ہمارے لیے ایک ہوٹل بک کروا دیا تھا۔

ہوٹل کے دو ہال تھے؛ وسیع اور خوبصورت۔  ان میں آئینہ کاری کی گئی تھی۔ عورتیں ایک ہال میں اور مرد دوسرے ہال میں ٹھہر گئے۔ ہمیں صاف ستھرے کمبل اور سرہانے دیے گئے۔

میں نے علی آغا کو کافی ڈھونڈا مگر نہ ملے۔  وہ رات کے کھانے اور دیگر چیزوں کے انتظامات میں مصروف تھے۔ میں ایک عورت کے ساتھ ہوٹل کا چکر لگانے لگی۔ تھوڑی دیر بعد ہم اکٹھے سمندر کی طرف چلے گئے۔

ہم ساحل پر بیٹھ گئے۔ موسم اچھا تھا۔ سمندر کی موجوں کی آواز، ساحل سے پرسکون انداز میں ٹکرانے اور واپس پلٹ جانے والی پانی کی لہریں، شب کی تاریکی اور سمندر کی بے کرانی عجیب قسم کا سکون بخش رہی تھی۔ سمندر کےپانی سے اٹھنے والی خوشبو اور کبھی کبھی آنے والی سمندری پرندوں کی خوشگوار آوازوں نے میری طبیعت ہری کر دی تھی۔ کیسی خیال انگیز اور میٹھی آوازیں تھیں۔ ہم اپنے خیال میں غلطاں و پیچاں تھیں کہ علی آغا آ گئے۔ ان کے آنے سے دوسری عورت نے خدا حافظ کہا اور اٹھ کر چلی گئی۔ علی آغا نے پوچھا: ’’اچھا وقت گزر رہا ہے؟‘‘

میں نے جواب دیا: ’’آپ مسلسل بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ ٹکنے کا نام نہیں لیتے، میں کیا کروں؟ کوئی باتیں کرنے والا ساتھ نہیں۔ میں کسی خالی جگہ کی تلاش میں ہوں۔‘‘

علی آغا کی نظریں سمندر پر جم گئیں: ’’زندگی بھی ایک سمندر کی طرح ہے۔ اگر سمندر کا پانی ٹھہرا رہے تو گندہ ہو جاتا ہے۔ سمندر کی طرح حرکت میں رہنا چاہیے، لیکن حرکت بھی مشکل ہوتی ہے۔ سمندر کی عظمت اور خوبصورتی اس کی حرکت کی وجہ سے ہے۔ اگر اس سارے پانی کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا جائے تو یہ گدلا جائے گا۔ میں اس سمندر کی طرح ہونا چاہتا ہوں۔ مجھے حرکت میں رہنا پسند ہے۔ سختیاں سہنا مجھے اچھا لگتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنی اسی حرکت کے سبب بڑے سمندر سے جا کر متصل ہو جاؤں۔ اس بڑے سمندر تک پہنچنے کے لیے میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔ تم بھی ایسی ہی ہو۔نہیں؟!‘‘

علی آغا کی باتوں نے مجھے غور و فکر میں غلطاں کر دیا تھا۔  میں سوچ رہی تھی کہ جس بڑے سمندر تک وہ پہنچنا چاہتے ہیں وہ کہاں تھا؟

میں نے بے دھیانی سے جواب دیا: ’’ہومم۔‘‘

اگلی صبح علی آغا نے سب کو مشغول کر دیا یہاں تک کہ ان سب نے اپنی اپنی چٹائیاں اور ناشتے کا سامان ہوٹل کے پچھلے حصے میں اسی جگہ جمع کر دیا جہاں رات کو بیٹھ کر ہم نے سمندر کے بارے میں باتیں کی تھیں۔

ناشتہ کر کے مرد حضرات تو لباس سمیت پانی میں چلے گئے، مگر علی آغا اپنے زخمی ہاتھ کی وجہ سے نہ گئے۔ ایک کنارے پر کھڑے ہو گئے اور بے کراں سمندر کو دیکھنے میں محو ہو گئے۔

میں اور وہ ایک دوسرے سے دور ساحل پر کھڑے تھے۔ حسین رفیعی اور کچھ دوسرے دوست آغا مہربان([6]) کی طرف چلے گئے جن کی ٹانگ زانو سے اوپر تک پلستر میں بندھی ہوئی تھی اور وہ بغل کے نیچے عصا رکھ کر اس کے سہارے چلتے تھے۔ انہیں دونوں بغلوں کے نیچے ہاتھ دے کر جھولن کھٹولے کی طرح جھلاتے ہوئے لا رہے تھے۔ آغا مہربان نے بہت منت سماجت کی اور مدد کے لیے شور بھی مچایا مگر کسی نے ان کی مدد نہ کی۔ بالآخر جنہوں نے انہیں اٹھا رکھا تھا انہوں نے انہیں ہوا میں جھلایا اور پھر انتہائی بے رحمی سے پانی میں پھینک دیا۔بے چارے نے اسی ایک سالم پاؤں کے ذریعے بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے مگر پانی سے باہر نہ آ  سکے۔ آخر کچھ دوستوں کے دل میں رحم آیا اور انہوں نے انہیں پانی سے نکال کر  ایک کونے میں بٹھا دیا تا کہ خشک ہو جائیں۔ اب اس تمام شرارتی گروہ کے سرغنہ آغا حسین رفیعی([7]) کی باری تھی۔ سب نے مل کر ان پر حملہ کر دیا اور انہیں ہاتھ پاؤں سے پکڑ کر ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو وہ کچھ دیر پہلے آغا مہربان کے ساتھ کر چکے تھے۔ البتہ فرق یہ تھا کہ آغا مہربان بے چارے سالم نہ تھے جبکہ آغا رفیعی سالم تھے اور خود کو پانی سے باہر نکال سکتے تھے۔ اسی اثناء میں ان کے  کارڈز اور پیسے ان کی جیب سے نکل کر پانی میں تیرنے لگے۔ آغا رفیعی نے انہیں پکڑنے کے لیے  ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیے۔ کچھ دوست ان کی مدد کرنا چاہتے تھے مگر علی آغا نے کہا: ’’کوئی بندہ اس کی مدد نہ کرے۔‘‘

میں نے کہا: ’’علی آغا، یہ گناہ ہے!‘‘

علی آغا نے ہنس کر کہا: ’’نہیں، یہ اس کی سزا ہے۔ اسے تنبیہ ہونی چاہیے۔ جس چیز کا بدلہ چکایا جا سکتا ہے اس کا گلہ نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

حسین آغا کا بٹوا اور باقی کاغذات موجوں کے حوالے ہو چکے تھے اور نوٹ پانی پر تیرے جا رہے تھے۔ حسین آغا چیخ رہے تھے: ’’کمبختو، میری مدد کرو۔ وہ پیسے تمہارے سفر کے تھے۔ مجھے کیا!۔۔۔‘‘

لیکن کوئی بھی مدد کے لیے آگے نہ بڑھا۔ کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ بس ہنسے جا رہے تھے اور گائے  جا رہے تھے:

تم اوپر سے آتے ہو، تم اوپر سے آتے ہو، مرے پیارے، باتیں کرتے ہو اور ہنستے ہو

لیکن جب مجھے دیکھتے ہو تو غصے میں ہو جاتے ہو اور فریاد کرتے ہو

میرا منہ نہ چڑاؤ، میری نقلیں نہ اتارو

میں نے خود تمہیں پیسے دیے تھے کہ بگھی پر سوار ہو جاؤ

میری نقلیں نہ اتارو کیونکہ تمہارا شوہرخچربان ہے

اس کاکام هی  یہی ہےکہ زنجیر ڈالے اور ڈنڈا ہاتھ میں رکھے([8])

یہ وہی اشعار تھے جو حسین آغا دوران سفر بس میں پڑھ رہے تھے۔ اب تمام دوست ان کے سامنے پڑھے اور ہنسے جا رہے تھے۔

بالآخر کسی نہ کسی طریقے سے حسین آغا پانی سے باہر آئے اور اب انتقام لینے کے لیے علی آغا کی طرف لپکے اور کچھ دوسرے دوستوں کو بھی ساتھ ملا لیا۔ علی آغا نے صاف ستھرا اور سلجھا ہوا لباس پہن رکھا تھا۔ انہوں نے آتے ہی انہیں دبوچ لیا اور وہیں کنارے کے پانی میں ان کا سر نیچے کر کے ڈبو دیا۔ میں ڈر کر ان کی طرف بھاگی اورچلائی: ’’علی آغا کو چھوڑ دیں، ان کا ہاتھ زخمی ہے۔ زخم خراب ہو جائے گا۔‘‘

لیکن وہ لوگ چھوڑنے والے نہ تھے۔ کچھ دیر تک ان کا سر پانی میں ڈبوتے اور باہر نکالتے رہے۔

میرا سارا واویلا بے سود گیا۔ بالآخر انہوں نے علی آغا کو چھوڑ دیا۔

علی آغا ہنستے ہوئے میری طرف آئے اس حالت میں کہ ان کا لباس اور بازو کی پٹی مکمل طور پر بھیگ چکے تھے اور پانی ان سے ٹپک رہا تھا۔  میں نے پریشان ہو کر کہا: ’’علی، آپ انہیں کچھ کہتے کیوں نہیں! پانی آپ کے زخم کے لیے ٹھیک نہیں ہے!‘‘

علی آغا ہنس پڑے: ’’انہیں خوش ہونے دو۔ یہ بے چارے یہاں آئے ہی اسی لیے ہیں کہ تھوڑی استراحت کر لیں۔ یہ تفریح ہے۔ کوئی پریشانی والی بات نہیں۔‘‘ اس کے بعد وہ چلے گئے۔ اپنا لباس تبدیل کیا اور پٹی اتار کر پھینک دی۔

اب لڑکوں کے ہاتھ ایک نیا موضوع لگ گیا تھا اور وہ بھی میں اور علی آغا۔ وہ دیکھ رہے تھےکہ علی آغا میرے پاس نہ پھٹکتے تھے۔ اب اسی چیز کو انہوں نے اٹھا لیا اور اصرار کرنے لگے کہ جیسے بھی ہو وہ ہم دونوں کی ایک اکٹھی تصویر لے کر رہیں گے۔ ان کے اصرار پر میں اور علی آغا اکٹھی تصویر بنوانے کےلیے ایک دوسرے کے پاس کھڑے ہو گئے۔ لیکن تصویر کھینچنے والے کا ہاتھ لرز گیا اور تصویر میں ہم دونوں کا چہرہ بہت دھندلا گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ دھند میں تصویر لی گئی ہے۔

بالآخر ہم مشہد پہنچ گئے۔ وہاں شادی شدہ جوڑوں کے لیے الگ کمروں کا انتظام کر دیا گیا تھا۔ لیکن علی آغا کمرے میں نظر ہی نہ آتے تھے اور میں زیادہ تر اکیلی ہی رہی۔

ایک روز میں نے تہیہ کر لیا کہ جیسا بھی ہو انہیں کمرے میں کھینچ کر لاؤں گی۔ میں نے کولر کا بہانہ کیا اور علی آغا کے ایک ماتحت کو جو ہال میں آ جا رہا تھا، آواز دی: ’’علی آغا سے کہیں کہ ہمارے کمرے کا کولر خراب ہے۔ آ کر اسے ٹھیک کریں۔‘‘

اس نے تعجب سے کہا: ’’کیا خرابی ہے؟‘‘ پھر اس نے اجازت لی اور کمرے میں آ کر خود ہی کولر کو دیکھنے لگا۔ پھر کہا: ’’خانم چیت سازیان، اس کولر کو تو کچھ بھی نہیں ہوا۔‘‘

میں شرمندہ ہو گئی اور منمنانے لگی: ’’خرابی تو ہے، مطلب۔۔۔  بہت آواز دے رہا ہے۔‘‘

وہ شخص بہت شرمیلا لگ رہا تھا۔ سر اٹھائے بغیر ہی اس نے کہا: ’’بہن، سارے کولر ایسی ہی آواز دیتے ہیں۔ ہمارے کمرے کا کولر بھی اسی طرح ہے۔‘‘

ان باتوں سے علی آغا کو کمرے میں لانے کی رہی سہی امید بھی جاتی رہی۔

مجھے جلد ہی معلوم ہو گیا تھا کہ علی آغا محاذ سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ انہیں معلوم ہوا تھا کہ جزیرہ مجنون پر، جہاں انہوں نے آپریشن کیا تھا، دوبارہ حملہ ہو گیا ہے اور حضرت علی اکبرؑ یونٹ کے کماندار حاج رضا شکری پور([9]) شہید ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ہمارے لازمی طور پر ہمدان واپس پلٹنے کی باتیں ہونے لگیں۔ حتی کہ وہ لوگ کہہ رہے تھے کہ مرد جہاز کے ذریعے سیدھا محاذ پر جائیں اور عورتیں اور بچے بسوں کے ذریعے ہمدان لوٹ چلیں۔ اسی ہلچل میں  ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ جاسوسی کے محکمے سے تعلق رکھنے والا ایک جوان علی تابش([10]) بھی چند ہفتے قبل جزیرے پر شہید ہو گیا ہے۔ یہ خبریں سن کر فوجی جوان بہت اداس ہو گئے اور ہمارا ہمدان واپس جانا حتمی ہو گیا۔میں نے علی آغا سے کہا: ’’آج اکٹھے بازار چلیں۔‘‘

انہوں نے تعجب سے پوچھا: ’’بازار؟! بازار کس لیے؟‘‘

میں  نے کہا: ’’کچھ سوغات لینی چاہیے۔‘‘

علی آغا نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور چھ ہزار تومان نکال کر مجھے دیے: ’’لو، جو خریدنا ہے خرید لو۔ کسی ایک عورت کو ساتھ لے جاؤ۔ مجھے بازار میں جانا اچھا نہیں لگتا۔‘‘

اس زمانے میں چھ ہزار تومان بہت زیادہ رقم ہوا کرتی تھی۔ میں نے کوئی اعتراض کیے بغیر پوچھا: ’’آپ اپنے لیے کچھ نہیں خریدیں گے؟‘‘

’’نہیں، کچھ بھی نہیں۔اپنے لیے خریداری کر لو۔‘‘

میں نے کہا: ’’آپ کی قمیصیں پرانی ہو گئی ہیں۔ آپ کے لیے ایک قمیص خریدنا چاہتی ہوں۔ کون سا رنگ لوں؟‘‘

وہ قمیصیں نہیں خریدنا چاہتے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کا ان چیزوں کے خریدنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ فقط یہ کہ مجھے کوئی جواب دے دیں، کہنے لگے: ’’خاکی رنگ لے لو۔ فوجی رنگ ہے۔‘‘

اس دن میں ایک عورت کو ساتھ لے کر بازار رضا چلی گئی۔ اپنے لیے نماز کی ایک گلابی خوبصورت چادر خریدی  اور منصورہ بیگم اور ماں کے لیے دو قمیصیں۔ علی آغا کے بھائیوں اور مریم، جو ابھی ابھی شادی کر کے تہران چلی گئی تھی، کے لیے کپڑے خریدے۔ بابا اور چچا ناصر کے لیے دو ایک جیسی خوبصورت جائے نمازیں لیں۔ ایک خاکی رنگ کی قمیص اور آٹھ جیبوں والی شلوار علی آغا کے لیے۔ اس کے علاوہ کچھ زعفران، زرشک([11]) اور نبات ([12]) لی۔ یہ سب خریدنے کے بعد بھی کچھ پیسے بچ گئے۔

میں ہوٹل واپس آ گئی اور جو کچھ خریدا تھا وہ علی آغا کو دکھایا۔ وہ بہت خوش ہوئے اور خوشی خوشی سب چیزیں دیکھنے لگے: ’’میری جان، تم کتنا حوصلہ رکھتی ہو۔ کیسے تم نے سب کے لیے خریداری کر لی۔ کتنی باسلیقہ ہو!‘‘

مرد جزیرے پر پیش آنے والے حالات کی وجہ سے کافی اداس اور غمگین تھے ۔ بالخصوص دشمن نے جزیرے کے مغربی حصے پر، یعنی اسی جگہ جہاں ہمدان کی فوجیں ٹھہری ہوئی تھیں، حملہ کیا تھا۔ یہی وجہ  تھی کہ ہم نے اپنے اپنے بیگ باندھے اور بسوں پر سوار ہو گئے۔

مشہد اور ہمدان کے مابین راستے میں ایک  ریستوران پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ اچانک علی آغا کے ایک ماتحت نے چلا کر کہا: ’’علی آغا!‘‘

میں میز کے پیچھے سے اٹھی اور باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔ کچھ مرد مجھ سے پہلے دوڑ کر آگے کی طرف جا چکے تھے۔ ریستوران کے سرسبز احاطے میں جو ایک پارک کی طرح دکھائی دیتا تھا، علی آغا کو میں نے دیکھا۔ وہ ہوا میں اچھل رہے تھے۔ ایک ٹانگ مڑی ہوئی اور دوسری ٹانگ اس جوان لڑکے کی طرف مار رہے تھے جس نے سرخ ٹی شرٹ پہن رکھی تھی اور اس کے ساتھ ہی بلافاصلہ دوسری لات اس دوسرے لمبے چوڑے قد والے مرد کے منہ پر دے ماری جو اس لڑکے کے ساتھ تھا۔ علی آغا کے جس ہاتھ پر پٹی بندھی تھی اسے گردن سے نکال کر دونوں ہاتھوں پاؤں سے ایک پیشہ ور لڑاکا انسان کی طرح ان سے لڑائی کر رہے تھے، بالکل ایسے ہی جیسے بروسلی کی فلموں میں ہوتا ہے۔ وہ دونوں مرد بھی اپنا دفاع کر رہے تھے۔ لیکن علی آغا ان سے زیادہ ماہر اور تجربہ کار تھے۔ علی آغا کے ماتحت فوجی بھاگے بھاگے گئے اور ان دونوں کو پکڑ لیا اور معاملہ ٹھندا کیا۔

میں جانتی تھی کہ ایسی حالت میں مجھے آگے نہیں جانا چاہیے۔دوسرے فوجی جوان بھی پہنچ چکے تھے اور علی آغا کو ریستوران کے اندر لے آئے تھے۔ ایک پانی لا رہا تھا اور دوسرا چائے کا آرڈر دے رہا تھا۔ ان لوگوں کی باتوں سے مجھے معلوم ہوا کہ ان دونوں مردوں میں سے ایک نے ہمارے ایک ساتھی کی بیوی کو چھیڑا تھا اور اسے کچھ نازیبا الفاظ کہے تھے۔ اتفاق سے علی آغا ان کے پیچھے کھڑے تھے اور انہوں نے ان کی باتیں سن لیں تھیں۔ علی آغا ان مسائل میں بہت زیادہ سخت تھے۔ اتنے سخت کہ اس معاملے کے ٹھنڈا ہونے کے آدھے گھنٹے بعد بھی ان کا چہرہ حتی کہ تھوڑے سے ترشے ہوئے سر کی جلد بھی سرخ ہو رہی تھی۔ وہ اس بات پر کڑھ رہے تھے کہ ان لوگوں نے باحجاب اور شادی شدہ خاتون، جس کے ہاتھ میں بچہ بھی تھا، کے ساتھ بدتمیزی کیوں کی؟ علی آغا نے جب انہیں منع کیا تو انہوں نے ان کے کالر کو پکڑ لیا جس کے بعد کام بگڑ گیا اور پھر علی آغا نے بھی انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔

میں ریستوران کے ہال کے ایک کونے میں بیٹھی تھی۔ وہ دونوں مرد ہال میں داخل ہوئے اور سیدھے علی آغا کی میز کی طرف گئے۔ میں بہت ڈر گئی کہ شاید دوبارہ ان سے لڑائی کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ دونوں شرمندہ تھے اور عذر خواہی کر رہے تھے۔ وہ انتہائی شرمندگی سے منت سماجت کر رہے تھے : ’’ہمیں معاف کر دیجیے۔ ہم شرمندہ ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ آپ جنگجو فوجی ہیں ورنہ ایسی غلطی کبھی نہ کرتے۔‘‘

اتوار 22 جون 1986؁ کا دن تھا۔ ہم شام سات بجے ہمدان پہنچے۔ علی آغا نے مجھے گھر چھوڑا اور کچھ دیر بیٹھے۔ چونکہ بابا گھر پر نہ تھے اس لیے انہوں نے اگلے دن صبح آنے کا وعدہ کیا اور چلے گئے۔ مگر وہ نہ آئے بلکہ سہ پہر کے وقت محمود ماموں کے ساتھ آئے۔ ایک گھنٹہ بیٹھے اور  بابا سے ساری باتیں کیں۔ بابا کو بتا رہے تھے کہ سولہ شہیدوں کے جنازے لائے ہیں، جن میں سے ایک شہید شکری پور کا بھی تھا۔

اگلے دن یعنی منگل 24 جون کو علی آغا اور محمود ماموں بارہ بجے ظہر کے وقت محاذ پر چلے گئے۔ جانے سے پہلے خداحافظ کرنے کے لیے ہمارے گھر آئے۔ میں نے پوچھا: ’’کب لوٹیں گے؟‘‘

جواب دیا: ’’نہیں معلوم۔ دعا کرو، شادی کے  لیے آ جاؤں۔‘‘

گرمیوں کے دن تھے۔ ماں ایک طرف تو محاذوں پر مصروف فوجیوں کے مدد کے لیے انجام دیے جانے والے کاموں میں مشغول تھیں اور دوسری طرف میرے جہیز کی تیاریوں میں۔ علی آغا کو گئے چوبیس دن گزر چکے تھے۔ شب جمعہ تھی کہ امیر اور حاج صادق ہمارے گھر آئے۔ وہ میرے لیے علی آغا کا خط لائے تھے۔ میں نے خط لیا اور خداحافظ کہنے کے بعد کمرے کی طرف دوڑی۔ خط کھولا اور اسے پڑھنے لگی:

’’باسمہ تعالیٰ

امام زمانہ (عج) سچے اور باوفا دوستوں کے نام

سلام علیکم!

امید کرتا ہوں کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے اور خدا کی بے پایاں نعمتوں کا شکر ادا کر رہے ہوں گے۔ اور اس بات پر بھی خدا کا شکر گزار اور اس کے حضور سجدہ ریز ہونا چاہیے کہ اس نے ہمیں اتنا عزیز رہبر  اور جماران([13]) کا یہ بزرگ انسان ہمیں عطا کیا  اور اس کے پاؤں کو ہماری بے نور آنکھوں پر رکھا کہ جس کے نور سے ہم زندگی کا ڈھنگ سیکھ  سکتے ہیں، حق و باطل کو پہچان سکتے ہیں اور اپنے خون کے آخری قطرے تک باطل کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑے رہ سکتے ہیں۔

میری طرف سے والدہ، بابا اور اپنی بہنوں کو بہت بہت سلام کہنا۔ میں خدا سے یہی درخواست کرتا ہوں کہ آپ اور آپ کا عظیم خاندان ہمیشہ خدا کے راستے میں کامیاب رہے اور میرے لیے بھی دعا کریں کہ میں بھی خدا کے راستے میں بہترین کام انجام دے سکوں تا کہ شاید خدا میرے اعمال کو بھی قبول کر لے۔

مزیدیہ کہ شادی کے حوالے سے اپنے گھر والوں سے کہہ دیں کہ عید قربان پر تیار رہیں۔یعنی ۱۶ اگست ۱۹۸۶؁۔ اگر کوئی اتفاق پیش نہ آ گیا تو میں خود انشاء اللہ چند روز پہلے جلدی آ جاؤں گا۔ اور کہنے کو کچھ نہیں۔ آپ کو خدا کے سپرد کرتا ہوں۔‘‘

خط پڑھ کر میں نے سکھ کا سانس لیا۔ دل کو حوصلہ مل گیا۔ ماں نے شادی کے لیے مہمانوں کو دعوت دے دی تھی۔  ۱۱؍ اگست کو علی آغا ہمدان آ گئے تھے اور طے پایا تھا کہ اس رات وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ہمارے گھر آئیں گے تا کہ شادی کے لیے کچھ منصوبہ بندی کی جا سکے۔ ماں نے ہمیشہ کی طرح رات کے لیے بہت لذیذ کھانا تیار کیا تھا۔

ماں کے ہاتھ کے پکے چاولوں، خورش قیمہ([14]) اور اس کے ساتھ ساتھ زعفران کی خوشبو نے پورے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ سہ پہر کے وقت میں نے صحن کو دھویا۔ مہمان خانے کے پردوں کو ایک طرف کر کے کھڑکیاں کھول دیں۔ ہر جگہ صاف ستھری اور سلیقے سے درست کر دی گئی تھی۔

ماں نے میرا مکمل جہیز لے لیا تھا جس میں سے کچھ چیزیں چھوٹے بڑے کارٹنز میں پیک کر کے چھت پر بنی ممٹی میں رکھ دی گئی تھیں اور کچھ گھر کے صحن کے ایک کونے میں بنے چھوٹے سے گودام میں پڑی تھیں۔ رؤیا اور نفیسہ شادی کے دن گن رہی تھیں۔ ہر روز ہمارے گھر میں مہمانوں کی آمد و رفت بڑھتی جا رہی تھی۔ نانی، موسیریاں اور ممانیاں ہر روز کام کاج میں ماں کا ہاتھ بٹانے آ جاتیں۔

رات ہو گئی تھی۔ صحن کی بتیاں ہم نے جلا دی تھیں۔ میں تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد صحن میں پانی کا چھڑکاؤ کر دیتی تا کہ صحن ٹھنڈا رہے۔ جہاں تک میرا ہاتھ جاتا تھا وہاں تک دیواریں بھی دھو دی تھیں۔ میں صحن، چھوٹے اور سبز درختوں اور پھولوں سے بھرے باغیچے کو دیکھ رہی تھی جو صحن میں جلنے والی بتیوں اور ان پھولوں پر چھڑکے گئے پانی کی وجہ سے زیادہ شاداب اور ہرے بھرے نظر آ رہے تھے۔ میں سوچ رہی تھی کہ اگر صحن میں ایک خیمہ لگا کر درختوں کے بیچوں بیچوں بتیوں والی ڈوریاں باندھ دی جائیں تو ہماری شادی کی تقریب کتنی بارونق ہو جائے گی۔ میرے تصور میں بار بار یہی منظر آ رہا تھا کہ میں ایک دلہن کے لباس میں ہوں ، علی آغا میرے ساتھ کھڑے ہیں اور مہمان ہمارے سروں پر پھول اور سکے برسا رہے ہیں۔ مجھے خیال آیا کہ دولہا اور دلہن کے لیے جگہ بھی تیار کرنی چاہیے۔

گھر کی گھنٹی بجی اور علی آغا اور ان کے گھر والے صحن میں داخل ہوئے۔ وہ لوگ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے میری چھٹی حس کہنے لگی کہ آج کوئی بری خبر میرا انتظار کر رہی ہے۔ منصورہ بیگم، چچا ناصر اور علی آغا ہمیشہ کی طرح خوش و خرم نہیں لگ رہے تھے۔ ماں جو سب سے بے خبر پورے زور و شور سے اپنی تیاریوں مکمل کر چکی تھیں، اب بتا رہی تھیں کہ مہمانوں کو بھی دعوت دی جا چکی ہے۔ مٹھائی کا آرڈر بھی دے دیا اور اب صحن میں قالین بچھانا باقی رہ گیا ہے۔ منصورہ بیگم تاسف سے اپنے ہونٹ کاٹ رہی تھیں اور اپنی کلوکہ کی چادر([15]) ، جس پر بڑے بڑے اور ابھرے ہوئے پھول بنے ہوئے تھے، کی کناری کو پکڑے اس میں مشغول تھیں۔

ناصر چچا نے منصورہ بیگم کو اشارہ کیا کہ جو بات وہ کہنا چاہ رہی ہیں وہ کہہ دیں۔ منصورہ بیگم تھوڑا ہچکچائیں، پھر کہنے لگیں: ’’دراصل بات یہ ہے کہ ہمارے ایک رشتہ دار فوت ہو گئے ہیں۔ اس لیے ہم دھوم دھام سے یہ شادی نہیں کر سکتے۔‘‘

ایک دفعہ تو ہم سب کے پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔ ماں کا رنگ اڑ گیا۔ بے چارگی سے پوچھنے لگیں: ’’یعنی آپ کہنا چاہتے ہیں کہ شادی کو مؤخر کر دیا جائے۔‘‘

ایسا لگتا تھا کہ منصورہ بیگم ماں کی پریشانی دیکھ کر زیادہ پریشان ہو گئی تھیں۔ انہوں نے علی آغا و چچا ناصر کی دیکھا اور پھر ماں سے کہنے لگیں: ’’نہیں، ہم آپ سے کچھ بھی نہیں کہیں گے۔ آپ اختیار رکھتے ہیں، جیسا چاہیں شادی کو انجام دیا جائے گا۔ آپ نے اتنی زحمت کی ہے، مہمانوں کو بھی دعوت دے رکھی ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے اتنے انتظامات بھی کر رکھے ہیں۔ آپ چاہیں تو اپنی مرضی سے دھوم دھام سے شادی کریں لیکن ہم کوئی ہلہ گلہ کیے بغیر ہی آئیں گے اور اپنی دلہن کو لے جائیں گے۔‘‘

بابا اور ماں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اور آنکھوں اور ابروں کے اشاروں سے ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے۔ بالآخر ماں نے کہا: ’’دراصل سب مہمانوں کو دعوت دے چکے ہیں۔‘‘

میں علی آغا کو دیکھ کر اتنی خوش ہو گئی تھی کہ اس سانحے پر ناخوش نہیں ہو سکتی تھی۔ علی آغا اصرار کر رہے تھے کہ ہم شادی کے رسومات کو معطل نہ کریں بلکہ انجام دیں۔

آخر کار ہم نے قبول کر لیا۔

اگلے دن سے گھر کے کاموں کے نمٹانے میں ماں نے زیادہ جلدی کرنا شروع کر دی۔ اگرچہ بابا کا ہاتھ اتنا کھلا نہ تھا پھر بھی انہوں نے میرے جہیز کے لیے سب کچھ فراہم کر دیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ شادی میں کوئی کسر رہ نہ جائے۔ ماں بازار گئیں اور میرے لیے شادی کے جوڑے کی بجائے  اڑھائی ہزار تومان کی دودھیا رنگ کی ایک خوبصورت قمیص خرید لائیں۔ اڑھائی ہزار تومان اس زمانے میں اچھی خاصی قیمت رکھتے تھے۔ ہر دن اور رات ہمارے گھر میں ایک ہی بحث چلتی تھی کہ شادی کی مختصر مگرباعزت تقریب کو کیسے منایا جائے۔

ماں نے ارادہ کر لیا تھا کہ جیسے تیسے بھی ہو، شادی کی تقریب حتماً منائی جائے گی۔ وہ کہہ رہی تھیں: ’’بچوں کا کیا قصور ہے۔ انہیں ابھی تو پتہ نہیں چلتا، مگر کل کلاں اگر کسی شادی کی تقریب میں گئے تو وہاں خواہ مخواہ حسرت بھری آہیں بھرتے رہیں گے کہ ہماری شادی پر ایسا کیوں نہ ہوا۔ ہمیں چاہیے کہ شادی کی تقریب کو ان کے لیے اچھی یادگار بنائیں۔‘‘

بالآخر ماں نے اپنے کام کو اچھے طریقے سے انجام دے دیا۔ ہم نے صحن میں قالین بھی نہ بچھائے ، قناتیں بھی نہ لگائیں اور درختوں پر بتیوں والی ڈوریاں بھی نہ باندھیں۔ ہماری شادی کی تقریب بغیر کسی ہلے گلے اور دھوم دھام کے تھی۔ محض پھل اور مٹھائی تقسیم کی گئی، اور فقط دلہن کے لیے ایک کرسی رکھی گئی۔

ہم نے کافی اصرار کیا کہ علی آغا  بھی آ جائیں مگر انہوں نے انکار کر دیا: ’’زنانہ محفل ہے۔ مجھے ان کے درمیان آ کر بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے۔ مجھے عورتوں کی عادت معلو م ہے۔ دولہا کو دیکھتی ہیں تو شور مچانا اور تالیاں پیٹنا شروع کر دیتی ہیں۔‘‘

اگلے روز علی آغا ہمارے گھر آئے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے دوست کی بیوی کو مشہد یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا ہے۔ وہ اپنے گھر کا سارا سازوسامان ایک کمرے میں رکھ کر چابی ان کے حوالے کر گئے ہیں۔ وہ کہہ گئے تھے کہ جب تک وہ لوگ مشہد میں ہیں ہم لوگ ان کے گھر میں بغیر کرائے کے رہ سکتے ہیں۔

علی آغا نے کہا: ’’آؤ ، گھر دیکھ لیتے ہیں۔ اگر تمہیں پسند آتا ہے تو اپنا سامان لے جا کر وہاں مرتب کر دیتے ہیں۔‘‘

اس گھر کے دروازے دو گلیوں میں کھلتے تھے۔ صحن میں کھلنے والا دروازہ ہماری اپنی گلی کے سامنے تھا۔ دوسری منزل پر رہنے والے لوگ اس دروازے سے آمدورفت رکھتے تھے۔دوسرا دروازہ جسے ہمارے حصے میں آنا تھا گلی  قاضیان میں کھلتا تھا۔ یہ گلی بھی ہمارے گھر سے زیادہ فاصلے پر نہ تھی۔ گلی کے درمیان میں دائیں طرف مکان نمبر 17، ایک تین منزلہ مکان تھا جس کی پہلی منزل پر پارکنگ جبکہ دوسری اور تیسری منزل پر رہائش تھی۔علی آغا نے چابی ڈال کر دروازہ کھولا۔ سیڑھیوں کا راستہ تو کافی کشادہ تھا لیکن سیڑھیاں بہت تنگ تھیں۔ گھر کافی کھلا، صاف ستھرا اور روشن تھا۔ ایک طرف صحن کی طرف کھڑکیاں کھلتی تھیں اور دوسری طرف گلی قاضیان میں۔ گھر کا نقشہ ہمارے لیے زیادہ اہم نہ تھا۔ ہمارے لیے یہی بات بہت اچھی تھی کہ یہ گھر ہمارے گھر کے پاس تھا۔علی آغا نےپوچھا: ’’پسند آیا؟‘‘

میں نے جواب دیا؛ ’’بہت۔‘‘

اس کے بعد ہم نے ہال، مہمان خانے، باورچی خانے اور  سونے کے کمروں کا ایک چکر لگایا۔ ایک کمرہ مقفل تھا۔ اس میں صاحب خانہ نے اپنا سازوسامان رکھ چھوڑا تھا۔

علی آغا اس بات سے خوش تھے کہ گھر مجھے پسند آ گیا تھا۔ کہنے لگے: ’’زہرا خانم، اگر وجیہہ بیگم اجازت دیں تو تمہارا جہیز یہاں لا کر ترتیب دے دیں؟‘‘

میں نے کہا: ’’کیوں اجازت نہیں دیں گی۔جب بھی آپ بہتر سمجھیں آ جائیں۔ وہ آمادہ ہیں۔‘‘

اسی روز علی آغا اپنے چند دوستوں کو لے کر ہمارے گھر آ گئے اور میرے جہیز کا سارا سامان اٹھا کر اس گھر میں رکھ دیا۔

ماں نے میرے لیے چھ میٹر کا  ایک قالین رکھا ہوا تھا۔ ہم نے جب قالین بچھایا تو معلوم ہوا کہ مہمان خانہ بہت ہی بڑا ہے۔

علی آغا سہ پہر کے وقت چلے گئے اور فوجیوں کی مخصوص رعایتی دکان سے بارہ میٹر والے دو قالین لے آئے، جنہیں ہم نے ہال اور مہمان خانے میں بچھا دیا۔ اس کے باوجود بھی مہمان خانے میں کافی جگہ باقی بچ گئی تھی۔ علی آغا نے چند میٹر کارپٹ لے لیا جس سے ہم نے قالین کے اطراف میں باقی بچ جانے والی جگہوں کو پُر کر دیا۔

پیر، 18 ؍اگست  1986؁ کی رات تھی۔ طے یہ پایا تھا کہ علی آغا اور ان کے گھر والے ہمارے گھر آئیں گے اور مجھے رخصت کر کے اپنے گھر لے جائیں گے۔ ماں نے ممانیوں اور کچھ دوسرے رشتہ داروں کو دعوت دے رکھی تھی۔

رات کے کھانے کے بعد ہم نے برتن دھوئے اور گھر کو مرتب کر دیا اور دولہا اور ان کے گھر والوں کا انتظار کرنے لگے۔ رات ہوتے ہی ماں رونے لگ گئی تھیں۔ حرمل جلاتیں اور میرے سر کے گرد گھماتیں۔ میں نے بھی بہت کوشش کی کہ نہ روؤوں مگر اپنے آنسو ضبط نہ کر سکی۔

میں نے وہی دودھیا قمیص پہن لی جو ماں میرے لیے خرید کر لائی تھیں اور سر پر وہی چادر اوڑھ لی جو نکاح کی تقریب میں اوڑھی تھی۔ دس بجے، پھر گیارہ ہو گئے، مگر وہ لوگ نہ آئے۔ نہیں معلوم مجھے کیوں پریشانی سی ہو رہی تھی۔ میں نے ماں سے کہا: ’’ماں، آپ کو اطمینان ہے کہ انہوں نے آج رات ہی کا کہا تھا؟ شاید کل رات کا کہا ہو اور آپ نے غلط سنا ہو۔‘‘

ماں بھی شک میں پڑ گئیں۔  ہمیں کچھ سمجھ نہ آ رہی تھی کہ کیا کریں۔سب رشتہ دار آپس میں گپ شپ لگا رہے تھے۔ وقت کی رفتار تھم سی گئی تھی۔ ایک گھنٹہ اور گزر گیا۔ میں نے ماں سے کہا: ’’ماں، میں نے خواب دیکھا ہے۔ شاید انہیں کوئی مشکل پیش آ گئی ہو۔‘‘

ماں بھی بہت پریشان ہو گئی تھیں۔ مجھے گلے لگا کر بوسے دینے لگیں: ’’ابھی آ جائیں گے۔‘‘ وہ مجھے گلے لگائے رو رہی تھیں۔

اور ایسا ہی ہوا۔ تھوڑی دیر بعد دروازے کی گھنٹی بجی اور علی آغا، امیر، حاج صادق، منیرہ خانم اور مریم گھر کے اندر داخل ہوئے۔

علی آغا نے ہلکے نیلے رنگ کی قمیص  اور سرمئی رنگ کی شلوار پہن رکھی تھی۔ ان کا چہرہ پہلے سے کافی مختلف لگ رہا تھا۔ آگے آئے اور مجھے سلام کیا اور احوال پرسی کی۔ ماں کے ہاتھ میں قرآن تھا۔ انہوں نے کھول کر میرے لیے کچھ آیات کی تلاوت کی۔ علی آغا نے بابا اور ماں سے اجازت طلب کی۔بابا اور محمود ماموں نے میرا ہاتھ پکڑا اور ماں کے آنسوؤں اور دعاؤں کے سائے مجھے  مہمان خانے، ہال اور راہداری سے گزارتے ہوئے صحن میں لے آئے۔

ماں زیر لب دعا پڑھ رہی تھیں اور ہڑبڑائی ہوئی کبھی اس طرف اور کبھی اس طرف جا رہی تھیں۔نہیں معلوم کیا ڈھونڈ رہی تھیں۔ نفیسہ مغموم اور پریشان مجھے جاتا ہوا دیکھ رہی تھی۔ ماں آئیں اور میرے پاس کھڑے ہو کر کئی بار مجھے بوسے دیے۔ میں نے ان کے کان میں کہا: ’’ماں، مجھے معاف کرنا۔‘‘

ماں نے بہتے ہوئے آنسؤوں اور دکھ بھرے لہجے سے کہا: ’’خدا تمہاری قسمت اچھی کرے۔ اللہ کرے تمہاری عاقبت اچھی ہو۔ پروردگار تمہیں سکھی رکھے۔‘‘

گلی میں جب ہم گاڑی کے سامنے پہنچے تو بابا نے علی آغا ہاتھ پکڑا اور میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا: ’’علی، میں نے فرشتہ کو تمہارے سپرد کیا۔ اب میری جان تمہارے حوالے۔‘‘

علی آغا نے کہا: ’’اللہ کے حوالے کیجیے، حاج آغا۔‘‘

بابا نے کہا: ’’میں تم دونوں کو خدا کے حوالے کرتا ہوں۔‘‘

میں نے اپنا سر نیچے کو جھکا رکھا تھا اور کسی کو بھی نہیں دیکھ رہی تھی۔ میں نے علی آغا کی آواز سنی: ’’حاج آغا، میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کے لیے ایک لائق داماد ثابت ہوں۔ اور یہ بھی امید رکھتا ہوں کہ زہرا خانم کے لیے ایک اچھا شوہر بنوں۔‘‘

بابا نے کہا: ’’وہ تو تم ہو۔ خدا کی قسم، میری بیٹی اگر تم جیسے مرد کی ہم نشینی میں تھوڑا سا وقت بھی گزار  لے تو وہ اس زندگی سے ہزار گنا بہتر ہے جو وہ کسی بزدل انسان کی ہمراہی میں گزارے۔‘‘

اس کے بعد انہوں نے علی آغا کی گردن میں ہاتھ ڈال دیے اور انہیں بوسہ دیا۔

میری دونوں ممانیوں نے مجھے علی آغا کے دوست کی گاڑی میں بٹھایا اور خود بھی ساتھ بیٹھ گئیں۔ گاڑی علی آغا کے دوست احمد صا بری کی تھی جسے وہ خود ہی چلا رہے تھے۔ علی آغا بھی احمد صابری کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔

ہم نے کچھ سڑکیں عبور کیں اور امام زادہ عبداللہ([16]) کے مزار پر پہنچے۔ احمد صابری نے مزار کے گرد سات چکر لگائے۔ وہ علی آغا سے مسلسل مذاق کیے جا رہا تھا۔ ان تمام سات چکروں میں میری نظر مزار کے گنبد پر تھی اور میں اپنی خوشبختی  اور عاقبت بخیر کی دعا مانگتی رہی تھی۔

اس کے بعد ہم امام خمینیؒ سکوائر سے ہوتے ہوئے بو علی روڈ پر پہنچ گئے۔ فقط حاج صادق کی گاڑی ہمارے پیچھے پیچھے آٓ رہی تھی۔ بھورے رنگ کی پیکان([17]) میں حاج صادق، ان کی بیوی ، بیٹی، مریم اور امیر بیٹھے تھے۔ نہ وہ ہارن بجا رہے تھے اور نہ ہی کچھ اور ہلڑ مچا رہے تھے۔ کچھ سڑکیں ہم نے عبور کیں۔ احمد صابری کہنے لگے: ’’سنگ شیر([18]) چلیں؟‘‘

علی آغا نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ سنگ شیر سے فارغ ہو کر ہم نے کچھ اور سڑکیں طے کیں اور گلی قاضیان پہنچ گئے۔

علی آغا نے اتر کا گاڑی کا دروازہ کھولا اور میرا ہاتھ تھام لیا۔ چچا ناصر، حاج بابا، خانم جان، منصورہ بیگم، ماں اور بہنیں دروازے کے سامنے ہماری منتظر تھیں۔ حرمل کی خوشبو پوری گلی میں پھیلی ہوئی تھی۔ چچا ناصر نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم گھر میں داخل ہو گئے۔ سیڑھیوں پر چلتے چلتے انہوں نے پڑھنا شروع کر دیا:

آج یہ جشن حسنؑ کی خاص مہربانی ہے

خدا اور حجتؑ ابن الحسنؑ کا خاص الطاف ہے

تازہ دلہن گلِ یاس کی طرح ہے

اور دولہا شقائق اور یاسمین کے پھول جیسا ہے

عشقِ محمدؐ و علیؑ و زہراؑ سے

دولہا اور دلہن کا ساغر لبریز ہے([19])

باقی سب لوگ صلوات پڑھتے ہوئے ہمارے پیچھے آ رہے تھے۔ ہم اپنے گھر میں پہنچے تو مہمان کچھ دیر بیٹھے۔ پھر آگے بڑے، ہمیں مبارک باد دی، خوشبختی کی دعائیں دیں اور خداحافظ کہہ کر چلے گئے۔ جب گھر مہمانوں سے خالی ہو گیا تو حاج بابا نے میرا اور علی آغا کا ہاتھ ایک دوسرے کے ہاتھ میں تھما دیا اور ہمارے لیے دعا کی۔ میری ممانیوں کے علاوہ تقریباً سب ہی جا چکے تھے۔ علی آغا نے وضو کیا۔ میں نے بھی وضو کیا اور ان کے پیچھے کھڑے ہو کر ان کی اقتداء میں نماز پڑھی۔

نماز کے بعد ہم بیٹھ گئے اور وہ مجھ سے باتیں کرنے لگے۔ نکاح کے وقت جو چیزیں انہوں نے  مجھے کہی تھیں وہ دوبارہ تکرار کرنے لگے:  ’’تمہارے ماں باپ، میرے ماں باپ ہیں۔ تم بھی میرے والدین کو اپنے ماں باپ کی طرح سمجھو گی۔ اگر ہم دونوں ایک دوسرے کے خاندانوں کا احترام کریں تو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ تم ایک باعقیدہ، با ایمان اور با حجاب عورت ہو۔ میں تم سے اور کوئی تقاضا نہیں کرتا کیونکہ ایک مسلمان خاتون اپنی ذمہ داریوں سے اچھی طرح آگاہ ہوتی ہے اور تم ایک اچھے اور مومن خاندان کی تربیت یافتہ ہو۔‘‘

اگلی شب علی آغا کے ہاں کچھ مہمان آنے تھے۔ کچھ تو ان کے ماتحت فوجی اور کچھ ان کے رشتہ دار تھے۔ مرد حضرات ہمسایوں کی دوسری منزل پر جبکہ خواتین ساری ہمارے گھر میں تھیں۔

رات کا کھانا باہر سے لائے تھے۔ کھانے کے بعد علی آغا کے ایک دوست نے منقبتیں پڑھنا شروع کر دیں۔ جیسے ہی ان کی صلوات کی آواز بلند ہوتی، ہم عورتیں بھی صلوات پڑھتیں۔رات کے کھانے سے تھوری دیر بعد مرد رخصت لے کر چلے گئے۔

ایسی ہی سادگی اور بغیر کسی تکلف اور تصنع کے ہماری شادی کی تقریب ختم ہو گئی اور ہماری مشترکہ زندگی کا آغاز ہو گیا۔

منصورہ بیگم، چچا ناصر اور امیر ہمارے گھر ہی رہ گئے۔ منصورہ بیگم کو اپنے بچوں سے عجیب طرح کا پیار تھا۔ اگرچہ ان کی حالت اچھی نہ تھی ، اس کے باوجود بھی کھانے پکانے کا نظام انہوں نے سنبھال لیا۔ گھر کی صفائی، جھاڑو لگانا، برتن دھونا اور سبزی صاف کرنا میرے ذمے تھا۔ امیر گھر کی خریداری کا کام انجام دیتا تھا۔ امیر ایک مہربان اور پرسکون نوجوان تھا اور ہم سب سے کافی محبت کرتا تھا۔منصورہ بیگم ظہر تک چار پانچ مرتبہ اسے گھر سے باہر بھیجتی تھیں مگر اس کے منہ سے کبھی اعتراض نہ سنا یا اس نے کوئی بات کی ہو، مثلاً ایک ہی دفعہ ساری چیزیں کیوں نہیں کہہ دیتے۔

چار روز بعد منصورہ بیگم اور باقی سب لوگ اپنے گھر چلے گئے۔ اس دن میں تنہا رہ گئی۔ وہ پہلی بار تھی جب میں نے کھانا پکایا۔ دن کے کھانے کے لیے چاول اور کباب بنائے۔ ظہر نزدیک تھی۔ کباب کی خوشبو پورے گھر میں پھیلی ہوئی تھی۔ دروازے کی گھنٹی بجی۔ دروازے پر جا کر پوچھا: ’’کون ہے؟‘‘

علی آغا تھے: ’’میں ہوں، مہمان بھی ساتھ ہیں۔‘‘

میں دوڑ کر گئی، چادر  اوڑھی اور آ کر دروازہ کھولا۔ علی آغا اپنے ایک دوست کے ساتھ یا اللہ یا اللہ کہتے ہوئے اندر آ گئے۔میں انہیں  خوش آمدید کہہ کر دوبارہ باورچی خانے میں چلی گئی۔ علی آغا میرے پیچھے آ گئے۔ میں تھوڑی ناراض ہو گئی: ’’اگر مہمان لانا تھا تو مجھے تھوڑی دیر پہلے بتا دیا ہوتا۔‘‘

وہ ہنس پڑے: ’’مہمان اطلاع دے کر تھوڑی ہی آتا ہے۔ یعنی ایک لقمہ روٹی اور پنیر کا بھی نہیں ہے کہ ہم کھا سکیں؟!‘‘

میں نے کہا: ’’کیوں نہیں، لیکن خود مجھے شرم آتی ہے۔‘‘

انہوں نے پوری متانت سے کہا: ’’ایسی باتوں کے لیے شرمندہ ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں دن کا کھانا نہ بھی دو تب بھی ہم گلہ نہیں کریں گے۔ ایک کونے میں بیٹھ جائیں گے اور اپنے کاموں کے بارے میں باتیں کرنے لگ جائیں گے۔ ایک لقمہ روٹی، پنیر اور ایک پیالی چائے کی ہمیں دے دو، ہم مکمل طور پر تمہارے مدیون و مقروض و شکر گزار ہوں گے۔‘‘

ان کے جواب سے میں نے ہتھیار ڈال دیے۔ مذاق کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’اچھا، کیا پکایا ہے؟ کیسی خوشبوئیں اٹھ رہی ہیں، میری پیاری۔‘‘

میں نے کہا: ’’چاول اور کباب۔‘‘

لمبی سانس کھینچ کر بولے: ’’واہ واہ، خدا کی قسم، اچھی بیوی بھی ایک نعمت ہے۔ جس کے پاس نہیں ہے وہ بدبخت ہے۔‘‘

میں ہنس دی اور دسترخوان ان کے ہاتھ میں دے دیا۔

دن کا کھانا کافی ہو گیا تھا۔ انہوں نے ہال میں کھایا اور میں نے باورچی خانے میں۔ ہمارا دسترخوان نعمتوں سے پُر تھا: سبزی، دہی، خربوزہ، کولڈ ڈرنگ وغیرہ۔ مجھے ماں کی بات یاد آ گئی: ’’مہمان اپنی روزی لے کر آتا ہے۔‘‘


([1]) جزائر مجنون مصنوعی جزیرے تھے جو ہور الہویزہ نامی علاقے میں ایک دریا میں بنائے گئے تھے۔ یہ جزائر طلاییہ کے شمال اور آبنائے چزابہ کے جنوب میں واقع ہیں۔ جنگ سے قبل برطانوی کمپنیوں نے تیل سے بھرے ہوئے اس علاقے کو دریافت کیا تھا۔ انہوں نے اس علاقے تک پہنچنے اور یہاں تیل کے کنویں کھودنے کے لیے 4 سے 6 میٹر چوڑے راستے کے ذریعے دریا میں یہ جزیرے بنائے تھے۔ ایران عراق جنگ میں گرینڈ آپریشن خیبر کے دوران یہ جزائر ایرانی فوج کے ہاتھ لگ گئے۔ [سردار جعفر مظاہری کی یادداشتیں؛ ده متری چشمان کمین]

([2]) ایک سبزی جو ایران میں بطور سلاد استعمال ہوتی ہے۔

([3]) علاقائی زبان میں لکھی جانے والی اس شاعری کو مصنفہ نے بھی فارسی میں ترجمہ کر کے کتاب میں رقم کیا ہے۔ اس کے فارسی الفاظ درج ذیل ہیں: یک یار دارم، یک یار دارم، چون ماه تابان /  هر شب نشیند لب جوی خیابان / لبی دارد، لبی دارد، بسان برگ کاهو / کاسه به دستت، کاسه به دستت، می روی ماست بگیری / کاسه‌ات بشکند، اگر مرا نگیری (بامن ازدواج نکنی)/ می گیری بگیر، نمی گیری قبرستان! / حواله کنم حکمت را به چشمه هفت پستان.

([4]) ایران عراق جنگ کے دوران اس خاص فوج کو پاسدار بھی کہا جاتا تھا۔

([5]) ایران کے شمال میں بحیرہ خزر کے کنارے واقع ایک شہر۔

([6]) محمد ابراہیم مہربان ۲۶ جون 1961؁ کو ہمدان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام اصغر تھا، جو 1986؁ میں فوت ہو گئے تھے۔ مہربان 3 مارچ 1987؁ کو آپریشن کربلا ۵ کے دوران شہید ہوئے۔

([7]) حسین رفیعی انصار الحسین ڈویژن کی جنگی انٹیلی جنس یونٹ کے فوجی تھے۔وہ دفاع مقدس کے جانبازوں میں سے ہیں۔ انٹیلی جنس کے جوانوں میں ان کی کارکردگیوں کا آج بھی چرچا ہے۔ [حمید حسام کی کتاب ’فقط غلام حسین باش‘ انہی کی یاداشتوں اور جنگی زندگی پر مشتمل ہے۔]

([8]) علاقائی زبان میں لکھی جانے والی اس شاعری کو مصنفہ نے بھی فارسی میں ترجمہ کر کے کتاب میں رقم کیا ہے۔ اس کے فارسی الفاظ درج ذیل ہیں: از بالا می آیی، از بالا می آیی، گل من، می گویی و می خندی / اما تا من را می بینی، اخم می کنی و فریاد می زنی / قیافه نگیر، افاده نکن، افاده خشک و خالی / خودم به تو پول دادم سوار درشکه شدی / قیافه نگیر تو که شوهرت قاطرچی است  / کار او این که زنجیر می اندازد و سکلان بر می دارد.

([9]) رضا شکری پور  مارچ 1957 کو ہمدان میں متولد ہوئے اور 18 جون 1986؁ کو جزیرہ مجنون میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔ وه انصار الحسین ڈویژن کی یونٹ 154 حضرت علی اکبر علیہ السلام کے بہادر سردار تھے۔ ان کی بہن فاطمہ بھی 16 جولائی 1982؁ کو ہمدان پر ہونے والی ہوائی بمباری میں شہید ہو گئی۔

([10]) علی رضا ولیان تابش 26 اکتوبر 1961؁ کو ہمدان میں پیدا ہوئےاور 21 مئی 1986؁ کو جزیرہ مجنون میں شہادت سے ہمکنار ہوئے۔ وہ انٹیلی جنس ٹیم کے رکن تھے اور علی آغا کے گہرے دوستوں میں سے تھے۔

([11]) ایرانی کھانوں میں استعمال ہونے والی پاکستانی اناردانے جیسی ایک چیز جو کھانے کو لذیذ بنا دیتی ہے۔

([12]) مصری جیسی چینی کی ڈلیاں جو ایرانی لوگ چائے کے ساتھ کھاتے ہیں۔

([13]) ایران کے دارالخلافہ تہران کے نزدیک ایک  علاقہ جہاں امام خمینیؒ رہتے تھے۔

([14]) ایک ایرانی کھانا۔

([15]) ایک کالی اور نسبتاً ضخیم گلدار چادر جو اسی کی دہائی میں ایران میں استعمال ہوتی تھی۔

([16]) ہمدان کے اس معروف مقام پر امام موسی کاظم علیہ السلام کی اولاد میں سے دو شخصیات دفن ہیں۔ ہمدان اور اس کے اطراف کے مومنین ان امامزادوں سے کافی عقیدت و ارادت رکھتے ہیں۔ ان آخری سالوں میں ان امامزادوں کے حرم کی تعمیرات میں توسیع کی گئی ہے۔

([17]) ایران میں استعمال ہونے والی ایک گاڑی۔

([18])شیر سنگی چوک ۔ اس چوراہے پر شیر کا پتھر سے بنا ہوا ایک مجسمہ ہے جس کا تعلق قدیم ایران میں اشکانی دورِ حکومت سے ہے۔بعض لوگ اس کے بارے میں عجیب و غریب قسم کے اعتقادات رکھتے ہیں۔

([19]) ان اشعار کا فارسی متن یہ ہے: امروز که این جشن به توجه حسن است / ز الطاف خدا و حجت ابن الحسن است / مانند گل یاس بود تازه عروس / داماد گل شقایق و یاسمن است / از عشق محمد و علی و زهرا / لبریز بود ساغر داماد و عروس.

پانچواں باب

میرے پھول

ہماری مشترکہ زندگی کو ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔ ایک روز صبح علی آغا نے نماز فجر کے بعد مجھ سے کہا: ’’زہرا خانم، مجھے آج جانا ہے۔ میرا بیگ کہاں ہے؟‘‘

میں نے تعجب سے پوچھا: ’’کہاں؟‘‘

ہنس کر کہنے لگے: ’’چچا شجاع کے ہاں۔ محاذ پر جانا ہے میرے پھول، محاذ کے علاوہ اور میں کہاں جا رہا ہوں!‘‘

میں نے آزردگی سے ان کی طرف دیکھا: ’’کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ کچھ دن اور ٹھہر کر چلے جائیں؟‘‘

’’نہیں۔۔۔ دشمن نے پھر حملہ کر دیا ہے۔‘‘

میں نے ان کا بیگ تیار کیا۔ تولیہ، شخصی ضرورت کی کچھ چیزیں، کچھ قمیصیں اور شلواریں، تھوڑے سے پھل اور خشک میوہ جات رکھ دیے۔مذاق کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’یہ وہ مقام ہےجہاں کنوارے اور شادی شدہ کا فرق پتا چلتا ہوتا ہے۔ شکر ہے کہ مرنے سے پہلے ہمارا بیگ بھی عوامی امداد سے بھر گیا۔‘‘

میری دونوں آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں۔

علی آغا بڑے رازدار اور خوددار انسان تھے۔ وہ اپنے جذبات کبھی بھی ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔ بہت کم ہی اپنے  احساسات کو زبان پر لاتے تھے۔ وہ جھک کر اپنے بوٹوں کے تسمے باندھنا شروع ہو گئے۔ شادی میں تحفے پر ملنے والی گھڑی ان کے ہاتھ میں تھی اور تھوڑی کھلی تھی۔ میں  نے سوچا اگلی دفعہ جب آئیں گے تو چھوٹی کروانے کے لیے دے دوں گی۔ جب انہوں نے سر اوپر اٹھایا تو میں نے دیکھا کہ ان کا چہرہ گردن تک سرخ ہوا پڑا تھا۔ ان کی آواز غم سے بوجھل تھی: ’’میرے پھول، اپنا خیال رکھنا اور مجھے معاف کرنا۔‘‘

میرا دل چاہتا تھا کہ اونچی اونچی آواز میں رونا شروع کر دوں۔ جی چاہتا تھا کہ انہیں کہوں کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے جائیں۔ انہوں نے میری آنکھوں میں آنکھیں  ڈال دیں۔ ان کی نیلی آنکھیں سمندر کی طرح متلاطم تھیں۔ میں نے کہا: ’’آپ بھی اپنا خیال رکھیے گا۔ دعاؤں میں مت بھولیے گا۔‘‘

پھر اچانک ہی بغیر کچھ کہے سیڑھیوں پر نیچے کی طرف بھاگنے لگے اوربھاگتے بھاگتے میری طرف پشت کیے ہاتھ اٹھا کر کہا: ’’میرے پھول، میں جا رہا ہوں۔  خدا حافظ۔‘‘

چھٹا باب

گلستان یازدہم

انہیں گئے چار روز ہو چکے تھے۔ جس دن وہ گئے تھے میں اسی دن اپنی ماں کے گھر آ گئی تھی۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ دروازے پر کسی نے گھنٹی بجائی۔ اس دن صبح جب سے میں جاگی تھی ایک عجیب سی کیفیت میں تھی۔کبھی اچانک حالت اچھی ہو جاتی اور کبھی یکدم دل میں عجیب عجیب وسوسے آنے لگتے۔ کسی کام کو ہاتھ لگانے کا دل نہیں کر رہا تھا۔ عجیب حالت تھی۔ خود بھی نہیں جانتی تھی کہ مجھے کیا ہو گیا ہے۔ جیسے ہی دروازے کی گھنٹی بجی، ننگے پاؤں دروازے کی طرف دوڑی۔ دوڑتے دوڑتے زیر لب خدا سے دعا کر رہی تھی: ’’یا اللہ، علی آغا کو کچھ ہو نہ گیا ہو۔ خدایا، علی آغا سلامتی اور  خیریت سے ہوں۔ دروازے پر کوئی بری خبر نہ لایا ہو۔‘‘

جیسے ہی دروازہ کھولا، حیرانی سے وہیں کی وہیں جمی رہ گئی۔ منہ سلام کے لیے کھل ہی نہیں رہا تھا۔ دروازے پر علی آغا تھے: خوش باش، مسکراتے ہوئے، سر، چہرے،  ہاتھ اور پاؤں بغیر کسی زخم کے۔

میں ایک طرف ہو گئی تا کہ اندر آ جائیں۔ بیگ ان کے ہاتھ سے لے لیا۔ ہنس کر کہنے لگے: ’’عوامی امداد ختم ہو گئی تھی۔‘‘

میں نے کہا: ’’دوبارہ حاضر خدمت ہوں۔‘‘

پوچھا: ’’گھر میں کون ہے؟‘‘

’’سارے۔‘‘

جب ہم سارے اکٹھے بیٹھ گئے اور ماں ہمارے لیے چائے لے آئیں تو علی آغا نے کہا: ’’محاذ سے تہران گئے تھے تا کہ امام خمینیؒ سے ملاقات کر سکیں، مگر بدقسمتی سے ملاقات نہ ہو سکی۔ واپس جا رہے تھے تو سوچا آپ لوگوں کی خبر لیتا چلوں۔‘‘

ماں نے جلدی جلدی رات کا کھانا تیار کیا۔ میں نے کہا: ’’کاش، نہ بتاتے کہ آپ نے کل چلے جاناہے۔ میں ابھی سے پریشان ہو گئی ہوں۔‘‘

بابا اور علی آغا ہنسنے لگے۔ کھانے کے بعد ماں مجھے ایک طرف لے گئیں اور کہنے لگیں: ’’اگر یہاں ٹھہرنا چاہتی ہو تو بسر و چشم، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے، مگر تمہارا شوہر ایک ہی رات کے لیے آیا ہے تو بہتر یہ ہے کہ آج رات اپنے گھر چلی جاؤ۔ دیکھو اگر اس کے بیگ میں میلے کپڑے ہیں تو میں دھو دیتی ہوں۔‘‘

اگلے روز منگل ۲ ستمبر کا دن تھا۔ علی آغا صبح جلدی چلے گئے۔ بیگ دروازے پر ہی رکھا تھا۔ رات جب ہم گھر آئے تھے تو اتنی فرصت نہ ملی کہ کھول کر دیکھتی۔ میں نے بیگ اٹھایا اور گھر کے باہر رکھ دیا۔ سڑک مکمل طور سنسان تھی۔ علی آغا پرندے کی طرح پر پھڑپھڑا کر اڑ گئے تھے۔

سڑک کے اس طرف میری امیدوں کا گھر تھا۔ میں روتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اور دل پر غم کا بوجھ لیے اپنی  گلی کی طرف دوڑی اور گھنٹی پر انگلی رکھ دی۔

جمعہ 12 ستمبر 1986؁ کا دن تھا۔ طے یہ پایا تھا کہ ہمدان سے کچھ فوجی یونٹس محاذ پر بھیجے جائیں۔ میں اور ماں سڑک پر گئیں۔ مجاہدوں کو رخصت کرنے کے لیے اچھا خاص ہجوم امڈا پڑا تھا۔ جانے والے مجاہدوں کی گاڑیاں جہاں کھڑی تھیں، اس جگہ کو حرمل کی خوشبو نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔

عورتیں چینی اور اسٹیل کے عطرپاشوں کے ذریعے گاڑیوں کے شیشوں اور گاڑیوں کی کھڑکیوں سے سر باہر نکالنے والے فوجیوں کے سروں پر گلاب چھڑک رہی تھیں۔ فوجی، گاڑیوں کے شیشوں کے پیچھے سے ہاتھ ہلا ہلا کر ساتھ آنے والے لوگوں کو خداحافظ کہہ رہے تھے۔

ظہر کے وقت ہم جامع مسجد چلے گئے اور نماز جمعہ پڑھنے کے بعد گھر کو لوٹ آئے۔ میں کافی تھک گئی تھی۔ سر درد کر رہا تھا، اس لیے رات کو جلدی سو گئی۔ صبح نماز کے لیے اٹھی تو سر میں ابھی تک درد ہو رہا تھا، لہذا دوبارہ سو گئی۔ دھوپ سیدھی کمرے میں آٓتی تھی۔ ماں کارخانے اور بابا ہمیشہ کی طرح علی الصبح ہی اپنی دکان پر چلے گئے تھے۔ دروازے کی گھنٹی بجی تو اتنی جلدی سے اٹھ کر چادر اوڑھی اور دروازے کی طرف لپکی کہ کانپنا شروع ہو گئی۔میں نہیں سوچ سکتی تھی کہ دروازے پر کون ہے اور کیا پیغام لایا ہے۔ دروازہ کھولا تو دروازے پر منصورہ بیگم کو اپنے سامنے پایا۔ میرے اوسان بحال ہوئے اور جسم کچھ ٹھنڈا ہوا۔

منصورہ بیگم ہمیشہ کی طرح صاف ستھری اور تروتازہ تھیں۔ وہ سمجھ گئیں کہ میں انہیں دیکھ کر کچھ مایوس ہو گئی ہوں۔ کہنے لگیں: ’’فرشتہ جان، پریشان مت ہو۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہم مریم سے ملنے تہران جانا چاہ رہے تھے۔ تمہیں ساتھ لینے آئے ہیں۔ اس کی شادی پر بھی تم نہ آ سکیں۔‘‘

میں نے سکھ کا سانس لیا: ’’بہت شکریہ، لیکن کاش تھوڑی جلدی بتا دیا ہوتا۔ اس وقت تو میں تیار نہیں ہوں۔‘‘

اسی وقت حاج صادق جو تھوڑے دور کھڑے تھے، آگے بڑھے اور سلام و احوال پرسی کے بعد کہنے لگے: ’’دراصل فرشتہ خانم، بات یہ ہے کہ علی زخمی ہو گیا ہے۔‘‘

علی آغا  کا نام اور ان کے زخمی ہونے کی خبر سنتے ہی دنیا میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگی۔ میں نے صحن کا دروازہ پکڑ لیا کہ کہیں گر نہ جاؤں۔ منصورہ بیگم نے میرا ہاتھ تھام لیا: ’’خدا کی قسم، اتنا زیادہ زخمی نہیں ہوا۔ ہم اکیلے ہی جانا چاہتے تھے مگر سوچا کہ کل اگر تمہیں پتا چل گیا تو تم ناراض ہو گی۔‘‘

میری حالت بگڑ گئی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ زمین پر نہیں ہوں۔ سینے میں دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔

منصورہ بیگم نے کہا: ’’فرشتہ جان، خدا کی قسم ، اسے زیادہ زخم نہیں آئے۔ میں تم سے جھوٹ تو نہیں بولوں گی۔‘‘

رؤیا اور نفیسہ ابھی تک سو رہی تھیں۔ میں انہیں بیدار نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اپنا بیگ، جو ہمیشہ کمرے کے کونے میں پڑا رہتا تھا، اٹھایا اور چپ چاپ باہر آ گئی۔گاڑی میں بیٹھ کر حاج صادق سے کہا: ’’پہلے چل کر ماں کو اطلاع دے دیتے ہیں۔‘‘

ماں جہاں کام کرتی تھیں، وہ جگہ راستے ہی میں پڑتی تھی۔ کارخانہ باباطاہر روڈ پر ایک رہائشی گھر کی دوسری منزل پر واقع اور چند بڑے کمروں پر مشتمل تھا: کٹائی کا کمرہ، اوورلاک کرنے کا کمرہ اور سلائی کا کمرہ۔ ماں کارخانے کی مدیر تھیں۔ اس کمرے سے اُس کمرے تک چکر لگاتی اور پورے حوصلے سے دیکھ بھال کرتی رہتی تھیں۔ مارشل اور سنگر کی سلائی مشینوں کی کھرکھر کی آوازیں اور کٹائی کرنے والی مشینوں کی آوازیں آپس میں مخلوط سی ہو گئی تھیں۔ چادریں اوڑھے عورتیں مشینوں پر بیٹھی پوری تندہی سے سلائی کڑھائی میں مشغول تھیں۔ماں سلائی کے کمرے میں ایک عورت کے پاس کھڑی اسے کچھ سمجھا رہی تھیں۔ دستی سلائی مشینوں کی کلپ کلپ کی آواز نے میرے واقعات کو تازہ کر دیا تھا۔ مجھے اپنا بچپن اور ماں کی سلائی یاد آ گئی۔ انہی کالے رنگ کی دستی سلائی مشینوں، جن پر شیر کی تصویر بنی ہوتی تھی، سے وہ ہمارے لیے کپڑے سیا کرتی تھیں۔بے شکن دامن اور کھلی قمیصیں۔ میں ماں کے پاس جا کھڑی ہوئی: ’’السلام علیکم، ماں۔‘‘

ماں مجھے اپنے پاس دیکھ کر حیران رہ گئیں اور پریشان بھی ہو گئیں۔ میں نے بتایا: ’’پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ علی آغا تھوڑے زخمی ہو گئے ہیں اور انہیں تہران لے گئے ہیں۔ میں بھی منصورہ بیگم اور حاج صادق کے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔‘‘

ماں کا رنگ اڑ گیا، لیکن اپنی پریشانی کو جلدی سے چھپا لیا۔ میرا ہاتھ تھام کر کہنے لگیں: ’’انشاء اللہ کچھ نہیں ہو گا۔ اگر چاہتی ہو تو میں بھی آ جاؤں؟‘‘

میں نے کہا: ’’نہیں، گاڑی میں جگہ نہیں ہے۔ منیرہ خانم بھی ہیں اور علی آغا کے ایک دوست نے بھی ساتھ جانا ہے۔‘‘

ماں زیر لب آیت الکرسی پڑھنے لگیں۔ پھر مجھے کہا: ’’چلو، میں انہیں سلام کر لوں۔‘‘

ہم گاڑی تک آ گئے۔ ماں نے منصورہ بیگم، حاج صادق اور منیرہ خانم کو سلام کیا و احوال پرسی کی۔ پھر مجھے گلے لگا کر بوسے دیے ۔ہم نے خدا حافظ کہہ کر رخصت لی اور حاج صادق کی بھورے رنگ کی پیکان میں سوار ہو گئے۔ میں، منصورہ بیگم اور منیرہ خانم پیچھے بیٹھ گئیں۔ ماں پریشان نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھیں اور زیر لب دعا پڑھ کر گاڑی کی طرف پھونکیں مار رہی تھیں۔ میں پلٹ کر پیچھے دیکھ رہی تھی۔ جب امام زادہ عبداللہ کےمزار تک پہنچے تو ماں میری آنکھوں سے اوجھل ہو گئیں۔ حاج صادق کہنے لگے: ’’کیمپ کی طرف چلتے ہیں۔ فرزان کیمپ کے دروازے پر ہمارا انتظار کر رہا ہے۔‘‘

منصورہ بیگم کہنے لگیں: ’’یہ حسین فرزان بھی ہمارے علی کا بہت احسان مند ہے۔ ابھی آتا ہے تو کہتی ہوں کہ وہ خود تمہیں سارا قصہ سنائے۔ کہتے ہیں کہ وہ شہید ہو گیا تھا۔ علی اسے بہت پسند کرتا تھا۔ اس نے جب اس کی شہادت کی خبر سنی تو معراج شہداء چلا گیا تا کہ اس کا آخری دیدار کر سکے۔ جب وہ سردخانے میں گیا تو اس نے دیکھا کہ جس پلاسٹک کے تھیلے میں اسے ڈھانپا گیا تھا اس میں بخارات نظر آ رہے ہیں۔ اس نے فوراً لاش کو اپنے کندھوں پر اٹھایااور ڈاکٹر کی طرف لے گیا۔ اس طرح حسین فرزان کی جان بچ گئی اور وہ دوبارہ زندہ ہو گیا۔‘‘

تھوڑی دیر بعد حسین آغا بھی آ گئے اور گاڑی کی اگلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ میں علی آغا کی بیگم ہوں تو علی آغا کے تعریف کرنے میں جُت گئے اور وہ پورا واقعہ مجھے سنا دیا۔ وہ کہہ رہے تھے: ’’علی آغا اگرچہ کماندار ہیں لیکن پھر بھی ہر آپریشن اور مہم میں وہ پہلے بندے ہوتے ہیں جو خطرے کی لکیر تک جاتے ہیں اور دشمن کے مورچوں کے نزدیک تک چلے جاتے ہیں۔‘‘

وہ کہہ رہے تھے: ’’جنگ میں پہلی بار علی آغا ہی نے کہا تھا کہ وائرلیس استعمال نہ کریں کیونکہ اس میں جاسوسی کا آلہ نصب ہوتا ہے جس کی وجہ اس کے بگ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے،بلکہ وائرلنک سے استفادہ کریں۔‘‘

وہ علی آغا کی شجاعت، جرأت اور بہادری کی داستانیں سناتے رہے۔ کہنے لگے: ’’ان سب باتوں کے باوجود علی آغا یونٹ میں سب سے زیادہ  دل سوز، مہربان اور متواضع انسان تھے۔‘‘

حسین آغا ان کے بارے میں باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ ہم تہران پہنچ گئے۔

ساسان ہسپتال ایک بڑا اور صاف ستھرا ہسپتال تھا۔ فرش اور دیواروں کی صاف شفاف ٹائلیں اتنی چمک رہی تھیں کہ ان میں اپنا عکس صاف طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔ ہم لفٹ پر سوار ہوئے جو دیکھنے میں کسی بڑے ہوٹل کی لفٹ جیسی تھی۔ کچھ منزلیں اوپر پہنچے تو لفٹ رک گئی اور ہم نکل کر فرش کی سفید اور چمکتی ٹائلوں پر چلنے لگے جس سے ہمارے جوتوں کے نیچے سے پھسلنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔میرے دل میں طوفان بپا تھا۔ سر میں عجیب و غریب قسم کے خیالات گردش کر رہے تھے۔ نہیں جانتی تھی کہ تھوڑی دیر بعد علی آغا کو کس حال میں دیکھوں گی؟ بالآخر ہم دو بستروں والے ایک کمرے میں داخل ہو گئے۔ ایک عورت ان کے بستر کے پاس کھڑی تھی۔

حاج صادق اور حسین آغا آگے بڑھے اور بستر پر سوئے ہوئے شخص کے چہرے پر بوسے دینے لگے۔ منصورہ بیگم نے بھی سلام و احوال پرسی کے بعد ان کے چہرے پر بوسا دیا اور کہا: ’’کیسے ہو، میرے بیٹے، میری جان؟ طبیعت کیسی ہے؟!‘‘

میں سوچ رہی تھی: ’’کیا واقعاً یہ علی ہی ہیں؟‘‘ وہ چھوٹی داڑھی اور مونچھوں والا جوان، ترشا ہوا سر، اڑا ہوا رنگ اور کمزور جسم۔ ان کا چہرہ میرے علی سے بالکل مختلف تھا۔ منیرہ خانم بھی آگے بڑھیں۔ فقط میں تھی جو بستر کی پائینتی کی طرف دم سادھے اور مبہوت کھڑی اس شخص کو دیکھے جا رہی تھی جسے سب علی آغا کہہ رہے تھے۔

میں ہمیشہ سے جذباتی اور جلد اداس ہونے والی طبیعت کی مالک رہی ہوں، لیکن اس وقت میں کوشش کر رہی تھی کہ اپنے آپ پر قابو رکھوں اور مضبوط و مستحکم رہوں۔

ان کے ہاتھ میں ڈرپ لگی ہوئی تھی  اور  Catheter کی نلکی بستر کے ساتھ نیچے پڑی تھی۔ میں اس وقت اٹھارہ سال کی ایک لڑکی تھی، جو زندگی کے جوش و جذبہ و شوق سے بھرپور اور اس مرد کے ساتھ عشق و دلدادگی سے لبریز تھی جو میرا شوہر تھا اور میری زندگی کی ساری امیدیں اور آرزوئیں اسی سے وابستہ تھیں؛ لیکن ابھی ہماری مشترکہ زندگی کو دو ہفتے ہی تو ہوئے تھے اور میں اس سے اس  حال میں مل رہی تھی کہ وہ ہسپتال کے بستر پر پڑا تھا اور  مجھے کچھ سجھائی نہ دیتا تھا کہ اس حالت میں مجھے اس کے لیے کیا کرنا چاہیے۔میں اپنے ہونٹ کاٹنے لگی تا کہ سب کے سامنے رو نہ دوں۔ اسی لحظے علی آغا کی نظر مجھ پر پڑی۔ ہنس کر مجھے اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا۔میں اتنی پریشان تھی اور وہ جگہ میرے لیے اتنی بھاری ہو چکی تھی کہ ایک لمحے کے لیے مجھے یوں محسوس  ہوا کہ میرے پاؤں میرے جسم کا وزن سہارنے سے قاصر ہیں۔کمرہ میرے سر کے گرد گھوم رہا تھا۔ میں نے بستر سے اپنا ہاتھ اٹھایا۔ منیرہ خانم میرےپاس ہی کھڑی تھیں۔ وہ میری حالت کو بھانپ گئیں اور بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑ لیا: ’’کیا ہوا فرشتہ؟! تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔ اگر دل گھبرا رہا ہے تو آؤ باہر چلے چلیں۔‘‘

میں بوجھل سر  لیے ان کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔ جیسے ہی ہسپتال کے ہال میں قدم رکھے، میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ میں رونے لگی۔ وہ ادھیڑ عمر خاتون جو علی آغا کے کمرے میں ان کے بستر کے پاس کھڑی تھی وہ بھی ہمارے پیچھے آ گئی تھی۔

منیرہ خانم نے کہا: ’’یہ خالہ فاطمہ ہیں۔ منصورہ بیگم کی بہن۔ علی آغا کی اکلوتی خالہ۔‘‘

خالہ فاطمہ نے مجھےگلے لگا یا اور بوسہ دیا۔ہم پہلی بار ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے خوبصورت تہرانی لہجے میں کہا: ’’میری باجی کے بیٹے کے لیے کتنی خوبصورت بہو لے کر آئے ہیں۔ بیٹی، کیوں رو رہی ہو، عزیزِ جان؟!‘‘

میں مسلسل روئے جا رہی تھی۔ ضبط کا ٹوٹا ہوا بندھن دوبارہ بندھنے کا  نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ ’’علی کے لیے پریشان ہو؟ علی کو تو کچھ نہیں ہوا۔ اس کی طبیعت ٹھیک ہے، بیٹی۔ پچھلی رات ڈاکٹروں نے اس کا آپریشن کیا ہے۔ گولی کا ایک ٹکڑا اس کی ران کے اوپر والے حصے میں رہ گیا تھا جسے  انہوں نے نکال دیا ہے۔ میں خود صبح تک اس کے سرہانے رہی تھی۔ ڈاکٹر سے بھی بات کی ہے میں نے۔ کچھ نہیں ہوا اسے، خدا کی قسم۔‘‘

خالہ فاطمہ اتنے خوبصورت اور ٹھہرے ٹھہرے لہجے میں باتیں  اور میری دلجوئی کر رہی تھیں کہ تھوڑی دیر بعد میری حالت سنبھل گئی اور ہم اکٹھی کمرے میں واپس آ گئیں۔ خالہ نے سب کو ایک طرف کیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر علی آغا کے پاس لے گئیں: ’’علی جان، تم نے اپنی بیگم، اپنی فرشتہ خانم کو دیکھا ہے؟‘‘

علی آغا مجھے دیکھ کر مسکرائے اور کہا: ’’کیا ہوا فرشتہ خانم؟ روتی رہی ہو؟‘‘

مجھے تعجب ہوا کہ میں یکدم زہرا خانم سے فرشتہ خانم کیسے ہو گئی۔ میں نے سر نیچے کر لیا اور ٹشو پیپر جو خالہ نے دیا تھا اس سے جلدی جلدی اپنے آنسو پونچھے۔ علی آغا نے دوبارہ پوچھا: ’’تم نے بتایا نہیں زہرا خانم، کیا ہوا؟‘‘

میرا گریہ اور مسکراہٹ مخلوط ہو چکے تھے۔ میں نے کہا: ’’کچھ بھی نہیں، آپ ٹھیک ہیں؟!‘‘

ان کے چہرے پر کافی سکون تھا۔ کہنے لگے: ’’خدا کا شکر، میں بھی ٹھیک ہوں۔‘‘

ان کا ایک ہاتھ ان کے پیٹ پر تھا اور دوسرے ہاتھ پر ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ میں ان کا ہاتھ پکڑنا چاہتی تھی مگر پھر ان کی شرط یاد آ گئی۔ میں نے ان کے لیے پھلوں کے رس کا ڈبہ کھولا۔ باقی لوگ کھڑکی کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے اور باتیں کرنے لگے تھے۔چند گھونٹ رس پینے کے بعد مجھے دےدیا اور کہا: ’’ابھی پینے کا دل نہیں کر رہا۔ تم پیو۔‘‘

حاج صادق، حسین آغا اور منیرہ خانم ہسپتال میں باقی زخمیوں کی عیادت کرنے کے لیے دوسرے کمروں میں چلے گئے تھے۔ منصورہ بیگم اور خالہ فاطمہ ہم سے دور کھڑکی کے پاس باتوں میں مصروف تھیں۔

علی آغا نے اپنی نیلی اور مہربان آنکھوں سے مجھے دیکھا: ’’فرشتہ جان، تم نے کتنا اچھا کیا کہ آ گئیں۔  میں نے اصلاً نہ سوچا تھا کہ تم آؤ گی۔‘‘

میں نے اپنے آپ کو ہمت دلائی اور اپنا ہاتھ بستر کے کنارے ان کے ہاتھ کے نزدیک رکھ دیا۔

وہ آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ نزدیک لائےاور میرے ہاتھ کو تھام کر ہولے سے دبایا۔ پھر مسکرا دیے۔ ہم آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں کیے جا رہے تھے۔میں نے کہا: ’’جنگ نے ہمیں ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا: ’’جنگ کی یہی خاصیت ہے۔‘‘

میں نے کہا: ’’یہ اہم نہیں ہے کہ کل آپ کی کیا حالت ہو گی، بلکہ اہم یہ ہے کہ اب آپ کی طبیعت ٹھیک ہے اور ہم ایک دوسرے کے سامنے ہیں۔‘‘

ہمارے پاس پڑی سٹیل کی چھوٹی میز پر گلابی جلد والی ساٹھ صفحات کی ایک کاپی پڑی تھی۔ اس پر ایک پہاڑ  اور امام حسین علیہ السلام کے حرم اور گنبد کی تصویر بنی تھی۔ میں نے اسے اٹھا کر دیکھا۔ پہاڑ کی چوٹی پر ا یک پرچم نصب تھا۔ وہ ڈرائنگ مجھے بہت اچھی لگی۔ میں نے کہا: ’’کتنی خوبصورت بنائی ہے!‘‘

گنبد کے اطراف میں کچھ نام لکھے تھے۔ میں نے ان ناموں کو پڑھنا شروع کیا: ’’قاسم ہادی([1])، مصیب مجیدی، محمد باقر مؤمنی([2])، امیر فضل اللہی، محمد قربانیان موحد([3])، حسن سرہادی([4])۔‘‘

میں نے پوچھا: ’’آپ نے بنائی ہے؟!‘‘

انہوں نے تائید میں سر ہلایا۔

میں نے کہا: ’’آپ کی ڈیزائننگ بہت اچھی ہے!‘‘

میری تعریف نے اپنا کام کیا۔ پوچھنے لگے: ’’تمہارے لیے بھی ایک ڈرائنگ بنا دوں؟‘‘

میں نے خوشی خوشی اپنی یادداشتوں والی کاپی، جو ہمیشہ میرے بیگ میں رہتی تھی، نکالی اور انہیں دے دی۔ کہنے  لگے: ’’ان پھولوں میں سے ایک پھول مجھے دے دو۔‘‘

بستر کے سامنے والی میز پر رکھے گلدان میں سرخ، گلابی اور سفید گلائل کے پھولوں کا ایک گلدستہ سجا ہوا تھا۔میں نے گلدان میں سے پھول کی ایک شاخ اٹھائی۔ اس کا تنا گیلا تھا۔میں نے اسے درمیان سے توڑا اور علی آغا کے ہاتھ میں دے دیا۔

انہوں نے اپنی ٹانگ اٹھا کر زانو خم کر لیا اور پھول کو ٹانگوں پر پڑے کھیس کے اوپر ہی سے دونوں پاؤں میں اُڑس کر ڈرائنگ شروع کر دی۔ ان کی ڈیزائننگ میں کوئی کلام نہ تھا۔ انگلیوں کی چند تیز و منظم حرکتوں سے کاپی پر گلایل کے پھول کی شکل بنا دی، جس کے کنارے ایک شمع اور پروانہ تھے۔ پروانے کو ایک تیر چبھا ہوا تھا اور اس کے پروں میں سے خون کے قطرے گر رہے تھے جبکہ اس کے کچھ پَر زمین پر گرے ہوئے تھے۔ ڈرائنگ کے نیچے انہوں نے لکھ دیا:

کارواں جا چکا ہے عشق کی سمت تم بھی اٹھو، کہیں نہ رہ جانا([5])

میں نے شعر کو بلند آواز میں پڑھا۔ پھر میں ہنس دی اور مذاق سے کہا: ’’ آپ تہران میں آ کر تہرانی ہو گئے ہیں۔عشق و عاشقی کی باتیں کرنے لگےہیں۔‘‘

وہ ہنسنے لگے اور جلدی سےلفظ ’’عشق‘‘ کو کاٹ کر اس کی جگہ لکھ دیا: ’’موت۔‘‘

’’موت‘‘ کا لفظ دیکھ کر میں پریشان ہو گئی اور ناراضگی کا اظہار کیا: ’’آپ کو مجھے پریشان کرنے کے علاوہ بھی کوئی کام آتا ہے؟‘‘

میرے دل سے یہ بات نکالنے کے لیے کاپی میرے ہاتھ میں دے کر کہنے لگے: ’’اپنی پیاری بیوی، میرے عشق، فرشتہ خانم کی خدمت میں۔ اسے یادگار کے طور پر رکھ لو۔ گُلُم (میرے پھول)۔‘‘

میں نے کاپی لے کر کہا: ’’علی، تہران میں ہم کیسے رہیں؟ آپ کو تو راس  آہی جائے گا۔ آپ تہرانیوں کی طرح ہو گئے ہیں: اپنی پیاری بیوی، میرے عشق، فرشتہ خانم کی خدمت میں۔ اسے یادگار کے طور پر رکھ لو۔ گُلُم۔ یہ کیا بات ہوئی۔ اگر گُلُم کی جگہ گُلَم کہتے تو اچھا تھا۔([6])‘‘

میری اس بات پر وہ بہت ہنسے۔ ان کی ہنسی نے مجھے بھی ہنسنے پر مجبور کر دیا۔انہوں نے کہا: ’’تم جیسے ہی دروازے سے داخل ہوئیں تو مجھے ایک فرشتے کی طرح آتی محسوس ہوئیں۔ واقعاً یہ نام فرشتہ تم پر بہت جچتا ہے۔‘‘

میں شرما گئی۔ جس صفحے پر انہوں نے ڈرائنگ بنائی تھی اسے کاپی سے پھاڑا اور میری طرف بڑھا دیا۔ میں نے وہ لے کر اپنے بیگ میں رکھ لیا۔ انہوں نے دوبارہ اپنا ہاتھ اپنے پیٹ پر رکھ دیا۔ ان کا ہاتھ خالی تھا۔ میں نے پوچھا: ’’آپ کی گھڑی کہاں ہے؟‘‘

آرام سے کہہ دیا: ’’ایک دوست کو پسند آ گئی۔ اس نے دیکھنے کے لیے اتاری۔ میں نے کہا تم رکھ لو۔‘‘

میں نے غصے سے کہا: ’’علی، وہ ہماری شادی کا تحفہ تھی۔ مکہ کا تبرک تھی۔ بابا کتنے شوق اور محبت سے اپنے داماد کے لیے لائے تھے۔ اصل راڈو کی گھڑی تھی۔‘‘

سر ہلا کر کہنے لگے: ’’اس گھڑی کی جگہ میں جو ہوں۔ جتنا ہو سکے سب کا دل خوش کرنا چاہیے۔‘‘

میں نے کچھ نہ کہا، البتہ مجھے اس گھڑی کا بہت افسوس ہوا۔ رات ہوئی تو میں ان کے پاس ہمراہ کے طور پر ٹھہرنا چاہتی تھی مگر حاج صادق نے کہا: ’’میں ٹھہروں گا۔‘‘

علی آغا بھی چاہتے تھے کہ میں ہی ان کے پاس رہوں مگر چارہ نہ تھا۔ رات کو ہم حاج بابا اور خانم جان کے گھر چلے گئے۔ کوکا کولا چوک پر ان کا گھر تھا۔

تہران میں پہلی رات تھی۔ میرا دل علی آغا کو بہت یاد کر رہا تھا۔اگرچہ ان کا آپریشن کامیاب ہو چکا تھا مگر زخم کافی حساس تھا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ انہیں مکمل اور خصوصی آرام کی ضرورت ہے۔ میرا دل بہت بے چین تھا۔ میں سوچ رہی تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اٹھ ہی نہ سکیں اور انہیں کسی بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑ جائے۔ میں جانتی تھی کہ علی آغا کو اپنی فکر نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنی سلامتی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس رات میں صبح تک زیر لب دعا پڑھتی رہی اور خدا سے ان کی صحت و سلامتی کی درخواست کرتی رہی۔وہ محرم کے پہلے عشرے کے ایام تھے۔ مجھے یاد ہے  کہ میں سڑک کے کنارے چلی جاتی اور عزداروں کو ماتم کرتے ہوئے دیکھتی۔ چادر کو اپنے چہرے پر اوڑھے ہوئے زور زور سے گریہ کرتی اور پاس کھڑی خواتین سے کہتی کہ میرے شوہر بیمار ہیں ان کی شفایابی کے لیے دعا کریں۔

ایک ہفتہ میں خانم جان کے گھر میں رہی۔ انہی دنوں محمد ماموں بھی بیوی بچوں کے بغیر ولایت سے آئے ہوئے تھے۔  وہ  کہہ رہے تھے کہ اب ہمیشہ کے لیے آ گئے ہیں۔ مریم بھی اسی گلی میں اپنی ساس کے گھر کی دوسری منزل پر رہتی تھی۔ صبح کے وقت ہم عموماً اکٹھے ہوتے تھے اور ظہر کے بعد ملاقات کے لیے ہسپتال چلے جاتے۔ جب تک میں علی آغا کے پاس رہتی، وہاں سے ذرہ برابر نہ ہلتی۔ فقط دل اس بات پر کڑھتا تھا کہ رات کو ان کے پاس نہیں ٹھہر سکتی۔

ایک ہفتے بعد حاج صادق کے اصرار پر  ہم ہمدان واپس آ گئے، حالانکہ میرا دل بہت چاہتا تھا کہ رہ جاؤں اور علی آغا بھی میرے وہاں رہنے پر راضی تھے۔ انہوں نے کئی بار زیر لب کہا بھی: ’’فرشتہ، تم ٹھہر جاؤ۔‘‘ لیکن ہم دونوں میں سے کسی کی بھی ہمت نہ تھی کہ حاج صادق سے اس بابت بات کرتا۔

19 ستمبر کا دن تھا جب ہم ہمدان پلٹ کر آئے تھے۔ تہران سےہمدان تک سارے راستے میں میرا مزاج کافی بوجھل رہا۔نہ کسی سے بات کی نہ ہی کچھ کھایا پیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میرے جسم کا کوئی ٹکڑا  تہران میں رہ گیا ہے۔ اضطرب، بے چینی، دل تنگی کا احساس اور اس جدائی کا غم؛ یہ سب کیفیتیں مجھے کھائے جا رہی تھیں۔ نہیں معلوم کیوں اچانک میری یہ حالت ہو گئی تھی۔ مجھ میں علی آغا سے دوری کی طاقت نہ تھی۔ عجیب حال ہو گیا تھا۔ میں نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری تھی۔ میں اپنے آپ کو کوس رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کوئی اپنا ہاتھ میرے گلے پر رکھ کر  دبا رہا ہے۔ لاکھ کوشش کی مگر کسی پل آرام نہ آ رہا تھا۔ مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہی تھی۔ میں نے علی آغا کو تنہا کیوں چھوڑ دیا؟ آخر کیوں؟ اگر میں تھوڑی سی جرأت کا مظاہرہ کرتی اور اتنا جلدی سر تسلیم خم نہ کر لیتی تو اب علی آغا کے پاس ہوتی۔ جب ہمدان پہنچے تو میری حالت پہلے سے بدتر ہو گئی۔ روزانہ لاکھ بار اپنے آپ کو کوستی۔ میں واپس کیوں آ گئی؟ کیوں اپنے شریک حیات کے پاس نہ ٹھہری؟ کیا علی آغا میرے شوہر نہ تھے؟ مجھ سے زیادہ کون ان کے قریب تھا؟میں نے ان کے ساتھ رہنے پر اصرار کیوں نہ کیا؟ یہ فکر مجھے آہستہ آہستہ بیمار کر رہی تھی۔ میں کافی کمزور ہو چکی تھی۔ دل کا اضطراب دھڑکنوں کو تیز کیے جا رہا تھا۔ چوبیس گھنٹے میری جائے نماز رو بہ قبلہ بچھی رہتی اور میں نماز  اور ذکر و دعا میں مشغول رہتی۔

یکم اکتوبر 1986؁ کا دن تھا۔ خبر پہنچی کے علی آغا کے دوست انہیں لے آئے ہیں۔  میں ماں کے گھر میں تھی۔خبر سنتے ہی اپنا بیگ اٹھایا اور اپنے گھر کی طرف دوڑی۔ علی آغا کے دوست انہیں لے آئے تھے۔ ہم نے ان کے لیے بستر پچھایا او ر اس پر انہیں لٹا دیا۔ دو بیساکھیاں ان کی بغلوں کے نیچے تھے۔ بیساکھیوں کو دیکھتے ہی  دنیا میری نظروں میں گھوم گئی۔ خدانخواستہ اب وہ راستہ چلنے سے معذور نہ ہو جائیں۔ میں جیسے ہی داخل ہوئی تو علی آغا کے دوست خداحافظ کہہ کر چلے گئے۔ میں نے دروازہ بندکر کے پہلا کام جو کیا وہ یہ تھا کہ کمبل کا کونہ اٹھا کر ان کے پاؤں کو دیکھا اور اطمینان کا سانس لیا۔ نہیں معلوم میں ان کے پاؤں کے بارے میں کیوں پریشان ہو گئی تھی۔ خدا کا شکر کہ ان کے دونوں پاؤں اپنی جگہ پر سلامت تھے۔

اسی روز منصورہ بیگم، چچا ناصر، امیر آغا، حاج صادق، منیرہ خانم اور لیلی بھی آ گئے اور جب تک علی آغا گھر میں رہے وہ بھی ہمارے ہاں ہی رہے۔اگلے روز علی آغا کی عیادت کے لیے کچھ مہمانوں نے آنا تھا۔ فوج کے کمانداروں سے لے کر اداروں کے مدیران و ملازمین، امام جمعہ اور چیف آف آرمی سٹاف تک لوگ ان کی عیادت کے لیے آ رہے تھے۔

منیرہ خانم ٹریننگ ٹیچر تھیں اور چونکہ نئے سال کی کلاسیں شروع ہو چکی تھیں اس لیے وہ ہر روز مدرسے چلی جاتیں۔ ناصر چچا بھی اپنی کار سروس کی دکان پر چلے جاتے جو ملایر روڈ کے بالکل شروع میں باغ بہشت سے تھوڑا نیچے کر کے تھی۔گھر میں ،منصورہ بیگم، میں، منیرہ خانم کی بیٹی لیلی اور علی آغا رہ جاتے جو بستر پر پڑے تھے ۔ امیر نے البتہ جہاد سے چھٹی لی ہوئی تھی۔ امیر ہر صبح ہم سے چیزوں کی ایک لمبی سی فہرست لیتا اور خریداری کے لیے بازار چلا جاتا۔

میں علی آغا کی خاص نرس تھی۔ میں خود بھی ایسا چاہتی تھی۔ وقت پر انہیں پھلوں کا رس، فالودہ اور کمپوت([7]) دیتی اور ظہر کے وقت ان کے پاس بیٹھ کر زبردستی انہیں چلو مرغ([8]) یا مرغ کی رانیں کھلاتیں۔ اگر ان کی طبیعت کھانے پر مائل نہ ہوتی یا وہ نہ کھاتے تو دسیوں بار ان کے  پاس لے جاتی اور پلٹ آتی یہاں تک کہ میں کامیاب ہو جاتی اور خالی برتن باورچی خانے میں لے کر جاتی۔

علی آغا کی استراحت کےایام سخت مگر شیرین تھے۔ امیر گھر  پر ہی تھا تا کہ اگر مہمان آ جائیں تو وہ ان کی آؤ بھگت کر سکے۔ میں صبح بیدار ہوتی تو پھر رات گئے تک اِدھر اُدھر بھاگتی پھرتی۔ کبھی علی آغا کے لیےکھانا لے کر جا رہی ہوں، کبھی بیٹھ  کر انہیں دوائی پلا رہی ہوں۔ دوائی پلانے والے لمحات ہی میری استراحت کا زمانہ ہوتا تھا۔  راتوں کو اپنا بستر ان کے بستر کی پائینتی کی طرف بچھا کر سوتی کہ اگر رات کو کسی وقت وہ ہلتے بھی تو میری آنکھ کھل جاتی۔ مجھے ان کی دیکھ بھال کرنے سے عشق ہو چکا تھا۔ اس کام میں مجھے کافی لذت محسوس ہوتی تھی۔ آہستہ آہستہ علی آغا کی طبیعت سنبھلنا شروع ہو گئی۔ اب وہ اپنی بیساکھیوں کے سہارے خود ہی صحن میں اِدھر اُدھر چل پھر سکتے تھے، اگرچہ اب بھی میرے ہاتھ اور کندھے ہی ان کے لیے عصا کا کام دے رہے تھے۔

وہ دن بجلی کی طرح تیزی سے گزر رہے تھے۔ کتنے اچھے دن تھے وہ۔ ان دنوں مجھے لگتا تھا کہ میں اور علی آغا سالوں تک ایک دوسرے کے ساتھ رہے   اور باتیں کرتے رہے تھے۔

17 اکتوبر 1986؁ کا دن تھا۔ ایک عصا سے ان کی جان چھوٹ گئی۔ انہوں نے اپنی فوجی وردی پہنی اور ایک ہی عصا کے سہارے سیڑھیوں کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ میں اور منصورہ بیگم نے کافی اصرار کیا کہ ابھی نہ جائیں لیکن ہماری ایک نہ چلی۔ بدقسمتی سے امیر بھی گھر پر نہ تھا کہ ان کی مدد کرتا۔

وہ خود ہی گئے اور تھوڑی دیر بعد واپس آگئے اور اپنا بیگ مانگا۔ منصورہ بیگم اور میں نے بہتیرا زور لگایا کہ نہ جائیں کہ ابھی تک تو ان کی استراحت  کا زمانہ بھی پورا نہیں ہوا، مگر انہوں نے نہ سننا تھا، نہ سنا۔

اسی روز ایک عصا کی مدد سے محاذ پر چلے گئے۔ ان کے جانے سے باقی سب لوگ بھی ایک ایک کر کے خدا حافظ کہہ گئے۔ اتنا بڑا اور بھرا پُرا گھر جس میں کچھ دن چہل پہل اور رونق رہی تھی ایک ہی آن میں سنسان، ڈراؤنا اور غم سے بوجھل ہو گیا۔ علی آغا کے بغیر وہ گھر ہم میں سے کسی کے لیے بھی قابل برداشت نہ تھا۔ میں نے روتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ان کا بستر لپیٹا۔ ان کے عصا کا بوسہ لیا اور الماری میں رکھ دیا۔ اپنا بیگ باندھا اور گھر کا دروازہ مقفل کر کے ماں کے گھر کو چل پڑی۔

2 جنوری 1987؁ کا دن تھا کہ علی آغا خوش باش واپس آ گئے۔ میں نے اس دن تک انہیں اتنا خوشحال نہ دیکھا تھا۔ ان کا پاؤں کھل چکا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ طے پایا ہے کہ فوج کے جوان امام خمینیؒ سے ملاقات کے لیے جائیں گے۔

ہم آہ و حسرت سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ ماں التماس کر رہی تھیں: ’’علی بیٹا، کچھ ایسا کرو کہ ہم بھی تمہارے ساتھ امام کی ملاقات کے لیے چلے جائیں۔‘‘

یہ ہم سب کی خواہش تھی اگرچہ ہم جانتے تھے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔

وہ منگل کو گئے اور اسی ہفتے کی جمعرات کو ایک نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ واپس آ گئے۔ سب اہل خانہ ان کے استقبال کے لیے گئے۔ علی آغا کے آنے  اور ان کے سفر کے واقعات بیان کرنے سے ہمارے گھر کا نقشہ ہی بدل گیا۔ ہم پوچھتے جاتے تھے اور وہ بتاتے جاتے تھے۔

رات کے کھانے کے بعد ماں نے میرا ہمیشہ تیار رکھا ہوا بیگ مجھے تھمایا اور ہمیں ہمارے گھر کی طرف بھیج دیا۔ گلی میں تاریکی تھی۔ کافی برفباری ہوئی تھی اور زمین شیشے کی طرح ہو چکی تھی۔ راتوں میں جب ہوا شدید ٹھنڈی ہو جاتی تو دن کو دھوپ میں پگھل جانے والی برف دوبارہ جم جاتی اور اس جمی ہوئی برف پر راستہ چلنا دوبھر ہو جاتا۔ میں احتیاط سے قدم اٹھا رہی تھی  اور ڈرتی جھجکتی آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔سردی سے میرے دانت بج رہے تھے۔ کئی بار برف پر سے پھسلی اور گرنے سے بچنے کے لیے علی آغا کو تھام لیا۔ اس گرتی پڑتی حالت میں بھی مجھے اپنے وعدے کا لحاظ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی سنبھلتی تو علی آغا کا ہاتھ چھوڑ دیتی۔

جب گھر پہنچے تو علی آغا کے جسم میں امام خمینیؒ سے ملاقات کے بعد جو ذو ق و شوق اور توانائی بھر چکی تھی انہوں نے اسی اشتیاق سے کہا: ’’فرشتہ، نہیں معلوم کیوں ابھی تک مجھے بھوک لگ رہی ہے۔ کھانے کے لیے کوئی چیز تیار کر سکتی ہو؟‘‘

دو ماہ سے زیادہ ہو چکے تھے کہ گھر مقفل تھا اور ہم گھر میں نہیں تھے۔ میں باورچی خانے میں گئی تو وہ میرے پیچھے آ گئے۔ میں جلدی جلدی کیبنٹس کے دروازے کھول اور بند کر رہی تھی کہ تھوڑا ہی سہی، کچھ مل جائے۔ فریج کی طرف گئی۔ پھر جا کر سنک کے پاس کھڑی ہو گئی۔ علی آغا ایک کیبنٹ پر اپنا ہاتھ ٹکائے کھڑے مجھے دیکھ رہے تھے۔

انہوں نے بڑے اشتیاق سے بتایا: ’’فرشتہ، جب ہم امام سے خصوصی ملاقات کے لیے گئے تو ایک جوان نے آگے بڑھ کر امام کے ہاتھ کا بوسہ لیا۔ بوسہ لیتے وقت اس نے کوشش کی کہ تبرک کے لیے امام کی انگوٹھی اتار لے۔  آدھی انگلی تک وہ کھینچ لایا تھا، لیکن کامیاب نہ ہوا۔ جب میری باری آئی تو میں پہلے امام کی انگوٹھی سیدھی کر کے اسے اپنی جگہ پر لے گیا پھر امام کے ہاتھ کا بوسہ لیا۔ امام مسکرائے اور میری تائید کرتے ہوئے سر ہلانے لگے۔‘‘

اس کے بعد اس چند میٹر کپڑے کے بارے میں بتایا جو وہ ساتھ لے گئے اور امام نے اس پر تبرک کے طور پر ہاتھ پھیرا تھا۔

اگلی رات ہم حاج صادق کے گھر میں تھے۔ امیر اور دوسرے لوگ بھی تھے۔ہم نے کپڑوں کو تقریباً 150 چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ علی آغا کے پاس خاک شفا کی ایک تسبیح بھی تھی۔ نہیں معلوم کہاں سے لے آئے تھے۔ تسبیح سے اچھی خوشبو اٹھ رہی تھی۔ اس کے دھاگے کو قینچی سے کاٹا اور جہاں تک پورے ہو سکتے تھے، کپڑے کے ان ٹکروں میں ایک ایک دانہ رکھ دیا۔ ان ٹکڑوں کو ہم نے ایک تھیلی کی شکل لپیٹا اور ایک دوسرے کے اوپر رکھتے گئے اور پھر سب کو ایک پلاسٹک کے تھیلے میں ترتیب سے رکھ دیا۔ علی آغا چاہتے تھے کہ فوجی جوانوں کے لیے سوغات کے طور پر لے جائیں، لیکن سب سے پہلے میرا اور منصورہ بیگم کا حصہ الگ کیا اور ہمیں دے دیا؛ تبرک شدہ کپڑے کا ایک ایک ٹکڑا اور دو دو دانے خاک شفا کی تسبیح کے۔

ہمدان میں علی آغا کی وہ آخری رات تھی۔ اگلی صبح انہوں نے محاذ پر جانے کا ارادہ کر رکھا تھا۔ میں نے ان کا بیگ تو باندھ دیا تھا  لیکن ابھی تک چھوٹی چھوٹی چیزیں جو مجھے یاد آتی جا رہی تھیں انہیں بھی بیگ میں رکھتی جا رہی تھی۔ میں جہاں بھی جاتی وہ میرے پیچھے آ جاتے۔ آخر کہنے لگے: ’’فرشتہ، کتنا چلتی پھرتی رہتی ہو؟ بیٹھو، مجھے تم سے کام ہے۔‘‘

میں نے تعجب سے  انہیں دیکھا۔  میرا ہاتھ پکڑ کر کمرے کے وسط میں مجھے بالکل اپنے سامنے بٹھا لیا: ’’ایک بات پوچھوں، سچ بتاؤ گی؟!‘‘

میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا، حتی کہ میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ وہ کس چیز کے بارے میں پوچھنا چاہ رہے ہیں۔ میں نے کہا: ’’جی، پوچھیں۔ کیا ہوا؟!‘‘

اپنے ہونٹ کاٹ کر کہنے لگے: ’’میرے بارے میں ابھی تک تم نے یہی سمجھا ہے کہ میں بہت خوددار آدمی ہوں۔‘‘

میں ہنس دی: ’’بہت زیادہ!‘‘

اب وہ ہنس دیے: ’’لیکن اس دفعہ میں چاہتا ہوں کہ تمہیں اپنے دل کی بات کہہ دوں۔‘‘

میں نہیں جانتی تھی کہ ان کا کیا مطلب ہے؟ میں نے تعجب سے ان کی نیلی آنکھوں کی طرف دیکھا۔ انہوں نے کہا: ’’کل میں جانا چاہتا ہوں، لیکن تمہارے بغیر جانا میرے لیے بہت مشکل ہے۔ نہیں معلوم میں ایسا کیوں ہو گیا ہوں!‘‘

میرا کلیجہ منہ کو آ رہا تھا۔ میں نے اپنی روکی ہوئی سانس خارج کی۔ کیا واقعاً یہ علی آغا ہی تھے جو ایسی باتیں کہہ رہے تھے؟! وہ جو بہت ہی مشکل سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے تھے۔ اب انہیں کیا ہو گیا تھا! کہہ رہے تھے: ’’تم میرے ساتھ دزفول([9]) چلو گی؟‘‘

ان دنوں  دزفول پر بموں اور میزائلوں کی بارش ہوتی رہتی تھی۔ ان کی زبان سے نکلنے والے اس جملے نے مجھے خوشی سے نڈھال کر دیا تھا۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا: ’’اف خدایا، میں تو ڈر ہی گئی تھی کہ نہ جانے کیا کہنا چاہتے ہیں! ہاں ہاں، کیوں نہیں جاؤں گی۔‘‘

مسکراہٹ اور اندیشے کی ملی جلی کیفیت نے ان کے چہرے کو ڈھانپ لیا تھا۔ پوچھنے لگے: ’’وجیہہ بیگم اور بابا کا کیا ہو گا؟ وہ اجازت دے دیں گے؟‘‘

میں نے سکھ کا سانس لیا اور کہا: ’’معاف کرنا، میں آپ کی بیوی ہوں۔ لہذا میری اجازت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ ان خوشبختوں کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟‘‘

اسی پریشانی کے عالم میں کہنے لگے: ’’مگر وہ جگہ بہت خطرناک ہے۔‘‘

میں ان باتوں سے اتنی خوش ہو چکی تھی کہ دزفول میں پیش آنے والے خطرات کی پرواہ کیے بغیر اٹھی اور سازوسامان جمع کرنے لگی۔ میں نے پوچھا: ’’کیا آپ کے لیے خطرناک نہیں ہے؟!‘‘

انہوں نے کہا: ’’ہماری بات اور  ہے۔ فرشتہ، خوب سوچ لو۔‘‘

میں نے الماری کا دروازہ کھول دیا تھا۔ کچھ جوڑے کپڑوں کے رکھنا چاہتی تھی۔میں نے پوچھا: ’’وہاں کا موسم کیسا ہے؟‘‘

جواب دیا: ’’بہشت، بہار کی طرح۔‘‘

میں نے پلٹ کر آنکھ ماری اور کہا: ’’بے ایمان کہیں کے! اکیلے اکیلے ہی بہشت جانا چاہتے ہو؟!‘‘

انہوں نے مزید کچھ نہ کہا۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ رات کو ہم نے اپنا ضروری سامان جمع کر لیا تھا۔ بڑا دیگچہ، چمچے، کچھ کٹورے، پلیٹیں، ایک چھوٹا سلنڈر، باورچی خانے کا کچھ سامان، کپڑوں کاایک بڑا بیگ، علی آغا کے البم اور کچھ کمبل۔

باقی ضروری سامان بھی اکٹھا کر لیا اور ڈبوں میں رکھ دیا تا کہ انہیں ماں کے گھر میں رکھ دیں۔ یہ کام صبح تک ہو تا رہا۔ علی آغا نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ گھر خالی کر کے صاحب خانہ کے حوالے کر دیں۔ وہ کہہ رہے تھے: ’’ہم تو نہیں ہوں گے، شاید کوئی اور آ جائے جو یہاں کچھ  عرصہ رہنا چاہے۔‘‘

ہم اکٹھے ہی کام کر رہے تھے۔علی آغا بتا  رہے تھے کہ انہیں اور ان کے دوست ہادی فضلی کو دزفول کے اطراف میں ایک چھوٹے سے شہر میں ایک گھر دیا گیا ہے۔ ہادی فضلی، ان کی بیوی اور ان کی چھوٹی بیٹی کچھ ہی روز ہوئے اپنا سازوسامان جمع کر کے وہاں منتقل ہو چکے تھے۔

کارٹنوں کو ہم نے ہال میں ایک دوسرے پر رکھ دیا تھا۔ صبح ہونے میں تھوڑا سا وقت ہی باقی رہ گیا تھا۔ بکھرے ہوئے سامان کے درمیان ہی تھوڑی سے جگہ بنا کر ہم دو گھنٹے تک سوتے رہے۔

صبح سامان اٹھایا اور کچھ ماں کے گھر کے صحن کے کونے میں بنے ایک گودام میں اور کچھ چھت پر بنی ممٹی میں رکھ دیا۔

علی آغا نے بابا اور ماں سے مجھے اپنے ساتھ لے جانے کی بات کی  تو انہوں نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ فقط ماں نے اتنی تاکید کی کہ: ’’اپنا خیال رکھنا۔ پہنچتے ہی فون کر دینا اور ہمیں اپنی خیریت کی خبر دیتے رہنا۔‘‘

جو سامان ہم نے ساتھ لے کر جانا تھا علی آغا نے اسے زرد جیپ پر لادا۔ منصورہ بیگم ہمدان میں نہیں تھیں۔ چند روز پہلے مریم کی پہلی بیٹی مونا پیدا ہوئی تھی۔[اس وجہ سے وہ تہران گئی ہوئی تھیں۔]

ہمدان میں رہنے والوں کو خدا حافظ کہنے کے بعد ہم جیپ پر سوار ہوئے اور دزفول کی راہ لی۔ معمولان([10]) سے  آگے بڑھے تو علی آغا نے ایک آڈیو کیسٹ گاڑی میں لگا دی جس میں انقلابی ترانے تھے۔ علی آغا کو ان ترانوں میں سے ایک بہت پسند تھا۔ جب ختم ہو جاتا تو کیسٹ پھر پیچھے کر کے دوبارہ سنتے:

رات  ہے اور وطن کا چہرہ سیاہ ہو چکا ہے

اندھیروں میں بیٹھے رہنا گناہ ہے

میری بندوق دو تا کہ میں اپنا راستہ پکڑوں

کیونکہ جو بھی عاشق ہے وہ ہمیشہ سفر کے لیے آمادہ رہتا ہے

بھائی بے قرار ہے، بھائی آگ میں جل رہا ہے

بھائی ایک دشت ہے اور اس کا سینہ لالہ زار

رات، خوف زدہ کر دینے والا سمندر اور طوفان

میں اور نیک طینت لوگوں کے بارے میں اندیشے

میرا لباس اور خنجر لے آؤ

کیونکہ جلتے ہوئے دلوں سے خون ٹپک رہا ہے

بھائی نوجوان ہے، بھائی غرقِ خون ہے

بھائی نوجوان ہے، بھائی خون میں غرق ہے

بھائی کی زلفیں آتش فشاں ہو گئی ہیں

تُو  جو کہ عاشقوں کے درد کو جانتا ہے

تُو جو ہمارا ہم رزم و ہم زنجیر بھی ہے

اب عزیزوں کے خون کو دیوار پر آ کے دیکھ

روشنی کی صبح کا نقارہ بجاؤ

بھائی بے قرار ہے، بھائی نوجوان ہے

بھائی کی زلفیں آتش فشاں ہو گئی ہیں([11])

وہ خود بھی زیرِ لب گنگنا رہے تھے: ’’بھائی نوجوان ہے، بھائی خون میں غرق ہے، بھائی کی زلفیں آتش فشاں ہو گئی ہیں۔۔۔‘‘

علی آغا صحیح کہہ رہے تھے۔ دزفول اس سال واقعاً بہشت بنا ہوا تھا۔  یقین نہ آتا تھا۔ ہمدان میں صبح نکلتے تو یہ حالت ہوتی کہ گلی کے دونوں طرف برف جم کر اتنی اوپر تک آ چکی ہوتی کہ کہیں کہیں تو برف کی دیواریں، گھروں کی اینٹوں اور سیمنٹ کی بنی ہوئی دیواروں سے بھی اونچی ہو جاتی تھیں۔ گھروں کی چھتوں اور پرنالوں سے برف کی چھوٹی چھوٹی قندیلیں سی بن کر لٹک رہی ہوتی تھیں اور ہوا میں سردی اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ کوئی بھی کوٹ، ٹوپی، دستانے اور گرم لباس کے بغیر گھر سے باہر نہیں آ سکتاتھا۔

ہم اچانک ایک برفیلے شہر سے آ کر بہشت میں داخل ہو چکے تھے۔ہوا خوشگوار اور پُربہار تھی۔ مالٹے، لیموں اور نارنگیوں کے درخت پھلوں اور پتوں سے لدے ہوئے اور شاداب تھے۔ ان کے سبز اور چمکتے ہوئے پتے انسان کو وجد میں لے آتے تھے۔ پھولوں کی عطر بھری خوشبو نے شہر بھر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔سفیدے کے پتوں کی مہک انسان کو مست کیے جا رہے تھی۔موسم اتنا خوشگوار تھا کہ خرم آباد کے بعد ہم نے گرم کپڑے ایک ایک کر کے اتار دیے تھے۔ ہمدان کے لوگ تو سردی کی وجہ سے سمٹے سمٹائے رہتے تھے، لیکن دزفول میں اس کے برخلاف لوگ چاک و چوبند اور تروتازہ تھے جو ٹی شرٹس یا چھوٹے بازؤوں والی قمیصیں پہنے شہر میں آ جا رہے تھے۔

میں سوچ رہی تھی کہ شاید دزفول لوگوں سے خالی ہو گا، لیکن ایسا نہ تھا بلکہ شہر میں زندگی کی گہما گہمی اپنے پورے عروج پر تھی۔بچے گلیوں میں کھیل رہے تھے جبکہ عورتیں گھروں کے دروازوں کے آگے چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی شکل میں کھڑی باتیں کرنے میں مصروف تھیں۔ سڑکیں اور چوک درختوں سے بھرے ہوئے اور سرسبز و شاداب تھے۔

ہم نے کچھ سڑکیں عبور کیں۔راستے میں کہیں ویران گھر اور لٹکے ہوئے گارڈرز نظر آ جاتے جو بمباری کا نشانہ بن چکے تھے۔ چکنا چور شیشے، اکھڑا ہوا تارکول، گڑھوں سے بھری ہوئی اور کٹی پھٹی سڑکیں اور سر کٹے درخت جنگ کی تلخ حکایتیں بیان کر رہے تھے۔ ہم پانصد دستگاہ نامی قصبے میں داخل ہو گئے۔ اس کی بھی کچھ سڑکیں اور گلیاں عبور کیں۔ قصبے کی گلیاں شہر کی گلیوں کی نسبت خالی خالی تھیں؛ مٹی والی اور درختوں کے بغیر۔ ہم ایک گلی میں داخل ہوئے ۔ علی آغا ابھی تک اس ترانے کو گنگنا رہے تھے جو انہوں نے گاڑی میں لگا رکھا تھا: ’’بھائی نوجوان ہے، بھائی خون میں غرق ہے / بھائی کی زلفیں آتش فشاں ہو گئی ہیں۔۔۔ یہ رہا گلستانِ یازدہم۔‘‘

پھر گھر کے سامنے کھڑے ہو گئے: ’’ بھائی بے قرار ہے، بھائی آگ میں جل رہا ہے۔۔۔ اپنے گھر میں خوش آمدید، میری پیاری۔‘‘


([1]) قاسم ہادی 23 اگست  1961؁کو ہمدان کے مضافات میں واقع ایک گاؤں درہ مراد بیگ میں متولد ہوئے۔ وہ سات سال کے تھے کہ اپنے خاندان والوں کے ساتھ کربلا چلے گئے۔ انہی ایام میں چالیس روز تک آیت اللہ مدنی کے گھر میں رہنے اور امام خمینیؒ کی اقتداء میں نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد وہ سپاہ پاسداران میں شامل ہو گئے اور 16 فروری  1986؁کو آپریشن والفجر 8 کے دوران اپنے شہید ساتھیوں سے جا ملے۔

([2]) محمد باقر مومنی 1965؁ کو ہمدان میں پیدا ہوئے۔ وہ جنگی انٹیلی جنس کے جوانوں میں تقویٰ و اخلاص کا نمونہ تھے۔ صاحب الزمان آپریشن نزدیک تھا۔ وہ اس آپریشن میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن سردار شہید علی چیت سازیان نے انہیں شریک نہ ہونے دیا۔ محمد باقر صبح تک روتے رہے، یہاں تک کہ اپنے کماندار کو اپنی شرکت پر راضی کر لیا۔اگلے روز 28 اپریل  1986؁ کو استراحت کر رہے تھے کہ توپ کا ایک گولہ ان کے مورچے پر آ لگا جس کی نتیجے وہ اور ان کے ساتھی درجہ شہادت پر فائز ہو گئے۔

([3]) محمد قربانیان موحد 1971؁ کو ہمدان کے مضافات میں واقع ایک گاؤں فقیرہ میں متولد ہوئے۔  وہ انصار الحسین ڈویژن کی جنگی انٹیلی جنس یونٹ کے فوجی تھے اور 3 ستمبر  1986؁ کو جب جزیرہ مجنون میں ایک کامیاب مہم سر کرنے کے بعد واپس آ رہے تھے تو ایک گولہ انہیں آ لگا جس کے نتیجے وہ درجہ شہادت سے ہمکنار ہو گئے۔

([4]) حسن سرہادی  1965؁ کو ہمدان کے شہر صالح آباد میں متولد پیدا ہوئے۔ وہ جنگی انٹیلی جنس یونٹ کے فوجی تھے۔ 11 ستمبر  1986؁ کو ایذائی آپریشن (غافلگیر حملہ: وہ حملہ جو دشمن کو فریب دینے اور اس کی توجہ اصل محاذ سے ہٹانے کے لیے کسی علاقے پر کیا جائے۔ اس حملے کا مقصد فتحیابی نہیں ہوتا بلکہ فقط دشمن کی توجہ متزلزل کرنے کے لیے کسی علاقے پر کیا جاتا ہے۔) کے دوران مغربی راستے پر ایک میزائل گرنے سے کشتی کے اندر ہی شہید ہو گئے۔

([5]) متن میں اصل شعر یوں مرقوم ہے: یاران همه سوی عشق رفتند / بشتاب که ز ره عقب نمانی

([6]) تہران اور ہمدان کے لہجے میں فرق ہے جس کی وجہ سے تہران میں گُلُم جبکہ ہمدان میں گُلَم کہا جاتا ہے۔

([7]) انگریزی لفظ Compote   کا مفرّس۔ تیار شدہ  اور پیک پھلوں کا مربہ۔

([8]) ایرانی کھانوں کی ایک قسم۔

([9]) وہ علاقہ جہاں ان دنوں علی آغامصروفِ جنگ تھے۔

([10]) ایران کا ایک شہر۔

([11])خوبصورت مفاہیم کے حامل ان اشعار کا اصل فارسی متن یوں ہے: شب است و چهره میهن سیاهه / نشستن در سیاهی ها گناهه / تفنگم را بده تا ره بجویم / که هر کی عاشقه پایش به راهه / برادر بی قراره، برادر شعله واره / برادر دشت سینه‌ش لاله زاره / شب و دریای خوف انگیز و طوفان / من و اندیشه های پاک پویان / برایم خلعت و خنجر بیاور / که خون می باره از دل های سوزان / برادر نوجوونه، برادر غرق خونه / برادر کاکلش آتش فشونه / تو که باعاشقان درد آشنایی / تو که هم رزم و هم رنجیر مایی / ببین خون عزیزان را به دیوار / بزن شیپور صبح روشنایی / برادر بی قراره، برادر نوجوونه / برادر کاکلش آتش فشونه…

ساتواں باب

کاش ہم سعید کے ساتھ نہ جاتیں

جب ہم گھر میں داخل ہوئے تو آغا ہادی اور فاطمہ گھر کا سازو سامان رکھنے میں مصروف تھے۔ان کا سامان ابھی تک باہر ہی پڑا تھا اور ابھی تک انہوں نے مرتب نہیں کیا تھا۔گھر کافی خراب اور درہم برہم لگ رہا تھا۔ ہر جگہ غبار آلود اور گندی ہوئی پڑی تھی۔ میں نے اسی وقت سوچ لیا کہ اس گھر کو ایک دفعہ تو مکمل طور پر صاف کرنا ہی پڑے گا۔ اگلے روز مرد تو چلے گئے لیکن وہ واقعہ پیش آ کر ہی رہا جس میں ہونے والی غلطی اور اپنی نادانی اور ناتجربہ کاری کا مجھے آج تک پچھتاوا ہے۔ ہمارے دزفول پہنچنے کے دو تین دن بعد صبح دس بجے کا وقت تھا کہ کسی نے ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ہم نے سوچا وہی شخص ہو گا جس کے بارے میں علی آغا کہہ گئے تھے۔ میں نے چادر اوڑھی اور دروازے پر جا کر پوچھا: ’’کون ہے؟‘‘

وہ آواز میرے لیے اجنبی تھی: ’’میں سعید صداقتی ہوں، علی آغا کا معاون۔ میں اس لیے آیا ہوں تا کہ دیکھوں کہ آپ کو کوئی مشکل یا کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟‘‘

میں نے کہا: ’’علی آغا اور آغا ہادی ہفتے کی صبح کو محاذ پر چلے گئے تھےاور کہہ گئے تھے کہ اتنی جلدی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔‘‘

سعید آغا نے تعجب سے کہا: ’’میں اہواز جا رہا ہوں۔ میری بیگم، حاج حسین ہمدانی اور آغا بشیری کی بیگمات اور کچھ دوسرے  خانوادوں کے ساتھ اہواز میں ہے۔ آپ بھی میرے ساتھ ہی چلیں۔‘‘

میں نے کہا: ’’مگر علی آغا کا کوئی پتا نہیں ہے۔ شاید وہ آج واپس آ جائیں اور ہمیں نہ پا کر پریشان ہو جائیں۔‘‘

سعید آغا نے کہا: ’’آپ کو اہواز چھوڑ کر میں علی آغا کے پاس ہی جاؤں گا اور انہیں خود ہی بتا دوں گا۔ آپ بس جلدی کریں۔ آپ کا یہاں رہنا ٹھیک نہیں ہے۔‘‘

ہماری بدقسمتی کہ اسی وقت خطرے کا سائرن بج گیا اور ٹینکوں کے گولے پھٹنے کی آوازیں آنے لگیں۔ سعید آغا نے پریشان ہو کر کہا: ’’جلدی کریں! جلدی کریں! میں گاڑی میں بیٹھنے لگا ہوں۔‘‘

مجھے کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا۔ فاطمہ کو بتایا تو  وہ کہنے لگی: ’’فرشتہ، بہتر ہے کہ ہم چلے جائیں۔ سچی بات یہ ہے کہ رات کو جب خطرے کا سائرن بجتا ہے تو مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ اہواز چلے جاتے ہیں۔ جب ہادی اور علی آغا واپس آنا چاہیں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ ہی واپس آ جائیں گی۔‘‘

فاطمہ کی رائے سنتے ہی ہم کپڑے اور دوسرا سامان جمع کرنے لگیں۔ مجھے ابھی تک کچھ اچھا محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ کوئی مسلسل کہہ رہا ہے: ’’نہ جاؤ۔‘‘

آج بھی جب اس واقعے کو یاد کرتی ہوں تو اپنے آپ سے یہی کہتی ہوں کہ کاش ہم سعید آغا کے ساتھ نہ جاتیں۔ کاش ہم اصلاً گھر پر ہی نہ ہوتیں اور دروازہ نہ کھولتیں۔ اگر ایسا ہوتا تو یقیناً وہ حالات پیش نہ آتے جن سے ہمیں بعد میں گزرنا پڑا؛ لیکن بدقسمتی سے میں نے دروازہ کھول دیا تھا۔ اگرچہ اس وقت بھی یہی سوچا تھا کہ نہ جاؤں، لیکن نہیں معلوم کیوں مجھ سے انکار نہ ہو سکا۔ مجھے اصلاً نہیں معلوم کہ میرا دل جانے پر راضی نہیں تھا اس کے باوجود بھی ہم سعید آغا کے ساتھ کیوں چلی گئیں؟!

ہم سعید آغا کی جیپ میں بیٹھ گئیں۔سعید آغا تیزی سے گاڑی کو اہواز کی طرف بھگا رہے تھے اور میرے دل میں عجیب عجیب وسوسے آ رہےتھے۔ میں نے فاطمہ کو بھی اپنے ڈر کے بارے میں بتایا۔ سعید آغا میرے اضطراب کو بھانپ گئے تھے۔ کہنے لگے: ’’آپ اتنی پریشان کیوں ہیں ؟ حوصلہ رکھیں۔ میں نے کہا نا کہ آج میں نے حتماً علی آغا کے پاس جانا ہے۔ میں انہیں سب کچھ بتادوں گا۔‘‘

بالآخر ہم اہواز پہنچ گئے۔  پل کارون سے گزر کر ایک پُرہجوم سڑک اور ایک بڑے ہسپتال کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک بڑے اور خوبصورت گھر کے سامنے جا رُکے۔سعید آغا نے گاڑی کا ہارن بجایا اور کہا: ’’اگر تمام عورتیں ایک ہی جگہ اکٹھی رہیں تو ہمارے پریشانی ذرا کم ہو جاتی ہے۔‘‘

تھوڑی دیر بعد پھولوں والی سفید چادر اوڑھے ایک خاتون نے دروازہ کھولا۔ چادر کے اوپر سے ہی مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ حاملہ ہے اور تھوڑی دیر بعد ہمیں معلوم بھی ہو گیا وہ سعید آغا کی بیوی ہے۔ اس نے ہمارا استقبال کیا اور ہم گھر کے اندر داخل ہو گئیں۔یہ گھر، ہمارے گھر کے برعکس بہت وسیع اور آراستہ تھا۔ صحن بھی درختوں، شاخوں اور پھولوں سے معمور باغیچوں سے بھرا ہوا تھا۔  ایک سفید جھولن کھٹولا بھی صحن کے درمیان میں لٹک رہا تھا۔ جلد ہی سعید آغا کی بیوی، کہ اتفاق سے اس کا نام بھی فاطمہ تھا، کے ساتھ ہماری دوستی ہو گئی۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ سعید آغا، علی آغا اور ہادی آغا کو بتانا بھول نہ جائیں۔فاطمہ نے کہا: ’’سعید! سعید بھولتا نہیں ہے۔ مشکل ہے! وہ حتماً ان دونوں کو بتا دے گا۔‘‘

فاطمہ کی یہ بات سن کرمیری ڈھارس بندھی۔

گھر کے کمرے زیادہ اور بڑے بڑے تھے۔ ہر خاندان ایک ایک کمرے میں رہائش پذیر تھا، البتہ باورچی خانہ اور بیت الخلاء مشترکہ استعمال ہوتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد حاج آغا ہمدانی کی بیگم ہمارے استقبال کے لیے آئیں اور ہمیں خوش آمدید کہا۔ان کے بچے وہب، مہدی اور زہرا بھی ان کے ساتھ تھے۔

اس رات چونکہ سعید آغا نہ آئے اس لیے ہم ان کے کمرے میں سو گئیں، اگرچہ صبح تک پریشانی اور اضطراب کی وجہ سے مجھے نیند نہ آئی اور بستر پر کروٹیں بدلتی رہی۔

جب نماز فجر کے لیے بیدار ہوئی تو عجیب سی بے چینی ہو رہی تھی۔ ہم ناشتہ کے لیے دسترخوان پر بیٹھے تھے کہ گھر کی گھنٹی نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ ایک خاتون گئی اور اس نے دروازہ کھول دیا۔ پھر کمرے میں واپس آ کر کہنے لگی: ’’فرشتہ خانم، آغا چیت سازیان کو آپ سے کچھ کام ہے۔‘‘

میں نے فاطمہ کو دیکھا اور اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔  سر کو ہلایا اور جلدی سے چادر اوڑھ کر دروازے کی طرف لپکی۔ فاطمہ سے بھی رہا نہ گیا اور وہ بھی میرے پیچھے پیچھے آ گئی۔ علی آغا صاف ستھرے کپڑوں میں بنے سنورے دروازے کے پیچھے کھڑے تھے۔ایسا لگتا تھا کہ نہا کر آئے ہیں۔ آغا ہادی مضطرب اور غصے میں تھے۔ فاطمہ کو دیکھتے ہی برس پڑے: ’’تم لوگ کہاں چلے گئے تھے؟!‘‘

علی آغا نے کچھ نہ کہا۔ بس خاموش کھڑے مجھے دیکھے جا رہے تھے۔ میں نے آہستہ سے سلام کیا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا: ’’اندر آ جائیں۔ ناشتہ کیا ہے؟‘‘

انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ میری سانس بند ہو رہی تھی۔ میں سمجھ گئی تھی کہ ان کا غصہ اور اضطراب بے وجہ نہیں ہے۔میں نے ڈرتے ہوئے شرمندگی سے کہا: ’’کیا سعید آغا نے آپ کو بتایا نہیں؟ انہوں نے خود ہی کہا تھا کہ وہ حتماً آپ کو بتا دیں گے!‘‘

علی آغا نے ایک بار آغا ہادی کی طرف دیکھا اور پھر کہا: ’’کون؟ کون سا سعید؟‘‘

’’سعید صداقتی۔‘‘

’’نہیں، ہم نے تو کل سے اسے دیکھا تک نہیں ہے۔‘‘

میں نے پوچھا: ’’پس آپ کو کیسے پتا چلا کہ ہم لوگ یہاں ہیں؟‘‘

علی آغا نے بے تابی سے جواب دیا: ’’ایک پڑوسی نے تم لوگوں کو سعید صداقتی کی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ ہم نے اندازہ لگایا شاید وہ تمہیں یہاں لےآیا ہو۔‘‘

بجائے اس سے کہ علی آغا کو ہم پر غصہ آتا الٹا میں ناراض ہو گئی، لیکن میں نے خود پر قابو پا لیا تا کہ میرے آنسو نہ گرنے پائیں۔ سعید صداقتی کی بیگم فاطمہ خانم بھی آ گئیں اور کہنے لگیں کہ مرد اندر کو آ جائیں۔ آغا ہادی، فاطمہ اور زینب ایک کمرے میں چلے گئے اور میں اور علی آغا دوسرے کمرے میں۔ گھر میں ہم جتنا چاہیں رہ سکتے تھے۔

مجھے اپنے آپ پر غصہ آ رہا تھا۔ اور بار بار اپنے آپ کو کوس رہی تھی کہ میں نے اپنے دل کی بات کیوں نہ مانی؟ میں جانتی تھی کہ میرا دل کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتا۔ اس بات کا میں کئی بار تجربہ بھی کر چکی تھی۔ مجھے نہیں یاد کہ میں اس وقت روئی تھی یا نہیں، مگر اتنا ضرور یاد ہے کہ میں بہت زیادہ پریشان ہو گئی تھی۔ میں نے کہا: ’’علی جان، خدا کی قسم، ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔ سعید آغا نے کہا تھا کہ وہ حتماً آپ سے ملاقات کریں گے اور آپ کو بتا دیں گے۔ خدا کی قسم، اگر مجھے معلوم ہوتا کہ وہ آپ سے نہیں ملیں گے تو چاہے میرے پاؤں ہی کیوں نہ ٹوٹ جاتے، میں کبھی نہ آتی۔‘‘ اس کے بعد میں نے گڑگڑا کر کہا: ’’علی، آپ کو خدا کا واسطہ، مجھ سے ناراض نہ ہوں۔ میں معافی مانگتی ہوں، مجھے معاف کر دیں۔‘‘

علی آغا نے مسکرا کر کہا: ’’یعنی میں اب ناراض ہوں؟!‘‘

ان کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھ کر میری جان میں جان آ گئی۔ میں اٹھی اور خوشی خوشی ان کے لیے ناشتہ لے آئی۔ اہواز کی لواش روٹی([1]) ہمدان کی لواش سے تھوڑی موٹی ہوتی ہے اور جب وہ تازہ اور گرم گرم ہو تو بہت لذیذ ہوتی ہے۔ میں خوشی میں مست پروانے کی طرح اڑ رہی تھی  اور ان کے لیے چائے، روٹی اور مربہ لا کر رکھ رہی تھی۔ اگرچہ انہوں نے کوئی بات نہ کی اور خاموشی سے ناشتہ کرتے رہے۔ میں جانتی تھی کہ اندر ہی اندر وہ میری وجہ سے ناراض ہیں۔ ان چند مہینوں میں مجھے ان کی عادتیں  معلوم ہو گئی تھیں۔ جب وہ کسی بات پر ناراض ہوتے تو بات نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے ناشتہ کیا اور کھڑے ہو گئے۔ کہنے لگے: ’’ہم جا رہے ہیں۔ بہت زیادہ کام پڑا ہوا ہے۔ تم لوگ فی الحال یہیں رہو۔‘‘

میں نے ڈر  کے مارے کچھ نہ کہا۔مجھے تو اس بات کی خوشی تھی کہ اس پورے قصے کا فیصلہ ہو گیا۔ میں گھر کی غلام گردش میں آئی اور اونچی آواز سے کہا: ’’خواتین باہر نہ آئیں، مرد حضرات جانا چاہتے ہیں۔‘‘

جب علی آغا اور آغا ہادی چلے گئے تو میں فاطمہ کی کمرے کی طرف دوڑی۔ فاطمہ کا مزاج بگڑا ہوا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی پوچھنے لگی: ’’کیا ہوا؟ علی آغا  نے تمہارے ساتھ جھگڑا کیا؟!‘‘

میں نے کہا: ’’نہیں۔‘‘ اور تعجب سے پوچھا: ’’کیا ہادی آغا نے تمہیں کچھ کہا؟!‘‘

فاطمہ بے تاب تھی۔ ایک آہ بھر کر کہنے لگی: ’’ہادی بہت غصے میں تھا۔ اسے ہونا بھی چاہیے تھا۔ ہماری ہی بدقسمتی تھی۔ وہ پچھلی پوری رات گھر پر ہی تھے!‘‘

میں دم بخود رہ گئی: ’’سچ کہہ رہی ہو؟ وہ پچھلی رات گھر گئے تھے؟!‘‘

اب حیران ہونے کی باری فاطمہ کی تھی۔  اس نے تعجب سے پوچھا: ’’یعنی علی آغا نے تمہیں کچھ نہیں کہا؟‘‘

میرے کندھے بے اختیار اوپر کو اٹھ گئے۔ فاطمہ نے سارا ماجرا سنانا شروع کر دیا:

’’وہ لوگ گزشتہ رات گھر کو گئے۔ جیسے ہی انہوں نے دیکھا کہ گھر کی بتیاں بجھی ہوئی ہیں اور ہماری کوئی خبر نہیں ہے تو بے چارے اس قدر خوفزدہ ہو گئے کہ کمرے میں جانے کی جرأت نہ کر سکے۔ ہادی کہہ رہا تھا: ’’میں علی آغا کو اور وہ مجھے آگے کی طرف دھکیل رہے تھے۔‘‘ وہ لوگ سوچ رہے تھے کہ ہم خدانخواستہ کسی مصیبت میں پھنس گئی ہیں۔ بجلی کا فیوز بھی اڑ گیا تھا۔ بالآخر انہوں نے لاکھ کوشش کے بعد فیوز ٹھیک کیا اور کمرے میں داخل ہوئے۔ ایک طرف تو وہ خوش ہو گئے کہ جس بات کا انہیں خدشہ تھا ایسا کچھ نہیں تھا اور ہم کسی مصیبت میں گرفتار نہیں ہوئی تھیں۔ لیکن دوسری طرف انہیں اس بات کی فکر لگ گئی کہ آخر ہم گئیں کہاں؟ اس پریشانی اور فکرمندی سے ان کی نیند ہوا ہو گئی۔ آخرکار علی آغا نے کہا: ’’یہاں فرشتہ کے کچھ رشتہ دار رہتے ہیں، شاید وہ لوگ وہاں چلی گئی ہوں۔‘‘ یہ سوچ کر ان کی ڈھارس کچھ بندھی۔ لیکن اب انہیں نیند تو آ نہیں رہی تھی لہذا اٹھے اور پورے گھر کی صفائی کر ڈالی۔ تمام کارپٹس اٹھا کر جھاڑے اور بچھا دیے۔ ہادی کہہ رہا تھا کہ انہوں نے کمبلوں کو بیٹھک میں ایک ترتیب سے رکھ دیا ہے۔‘‘

فاطمہ نے یہاں پہنچ کر ذرا  آنکھیں جھپکائیں: ’’سب سے اچھی بات یہ کہ انہوں نے گھر کے سارے شیشے صاف کر دیے۔ تم نے انہیں دیکھا نہیں، وہ خود کس قدر لش پش کر رہے تھے۔ رات کو صفائی کی وجہ سے چونکہ گرد و غبار سے اٹ گئے تھے اس لیے صبح کے وقت نہا دھو کر آئے ہیں۔‘‘

فاطمہ یہ سب کچھ کافی جوش و خروش سے سنا رہی تھی اور میں اس وقت حتی کہ بعد میں بھی یہ سوچتی رہی کہ علی آغا نے اس بارے میں مجھ سے بات کیوں نہیں کی؟ اور کس طرح انہوں نے اپنی ناراضگی کو چھپائے رکھا۔

یہ واقعات اس چیز کا باعث بنے کہ میں علی آغا کو زیادہ اچھے طریقے سے پہچان سکوں۔ اس وقت میں سمجھی کہ وہ دوسروں کی طرح نہیں ہیں۔ کم از کم میرے اور میرے علاوہ میرے آس پاس کے دیکھے بھالے دوسرے لوگوں سے وہ بہت زیادہ مختلف تھے۔  اس واقعے نے میرے احساسات و جذبات پر بہت زیادہ اثر چھوڑا۔

دس گیارہ دن تک ہم اس گھر میں رہے۔ اس عرصے میں علی آغا اور آغا ہادی کئی بار ہماری خبر لینے آتے رہے۔ لیکن اس کے بعد وہ نہیں ملے۔

جس وقت ہم اہواز میں تھیں، سعید صداقتی کی بیگم فاطمہ کے ساتھ کئی بار بازار گئیں، حتی کہ ہم نے دزفول والے اپنے گھر کے لیے بھی کچھ چیزیں خرید لیں۔ اکثر ایسا ہوتا کہ میں حاج ہمدانی کے بچوں کو صبح کے وقت صحن میں لے جاتی اور پینگ پر بٹھا کر انہیں جھونکے دیتی رہتی۔ لیکن اس روز خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ بچے سوئے ہوئے تھے اور میں اکیلی  صحن میں گئی اور پینگ پر بیٹھ گئی۔ اچانک مجھے جہاز کی آواز سنائی دی۔ وہ اتنا نیچے پرواز کر رہا تھا کہ مجھے فوراً معلوم ہو گیا کہ یہ عراقی جہاز ہے۔ وہ ایک سیاہ لڑاکا طیارہ تھا۔میں ڈر سے مری جا رہی تھی لیکن نہیں معلوم کہ خدا نے اس وقت مجھے کون سی طاقت دے دی تھی کہ جیسے ہی میں نے دیکھا کہ اس طیارے سے دو میزائل جدا ہو کر میری طرف آ رہے ہیں تو میں اتنی تیزی سے پینگ پر سے چھلانگ لگا کر اتری اور دیوار کی طرف بھاگی کہ بعد میں مجھے خود بھی یقین نہ ہوتا تھا۔ میں نے اپنے ہاتھ کانوں پر رکھ لیے اور منہ کھول کر تیز تیز کلمہ شہادت پڑھنے لگی۔میں دیکھ رہی تھی کہ بم میری طرف آ رہے ہیں۔ میں منتظر تھی کہ اگلے ہی لمحے آگ ساری جگہ کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور میں ٹکڑے ٹکڑے ہو جاؤں گی یا پاؤڈر بن جاؤں گی۔

گروم گروم کی آوازوں نے زمین و زمان کو مسلسل لرزانا شروع کر دیا۔ ساری جگہ تیرہ و تاریک ہو گئی۔ میری آنکھوں کے سامنے دھواں اور غبار چھا گیا۔بارود اور مٹی کی بو میرے گلے میں اتر گئیْ۔ میں مشکل سے سانس لے رہی تھی۔ بم مجھ سے چند سو میٹر کے فاصلے پر پھٹے تھے۔ اب میں سمجھی تھی کہ جہازوں کا ہدف گلستان ہسپتال تھا جو ہمارے گھر کی پشت پر واقع تھا۔ ہوا میں بدبو اور دم گھونٹ دینے والی گرمی پھیل گئی۔ میں نہیں جانتی کہ میں کیسے اس حادثے میں بچ گئی۔  جب ماحول ذرا پُر سکون ہو گیا تو میں نے دیکھا کہ آہنی گارڈرز کے ٹکڑے، لوہے کی تاروں کے ٹکڑے اور چھوٹے بڑے بہت سے چھرے پورے صحن میں اور میرے پاؤں  کے آگے بکھرے پڑے ہیں۔ لیکن خدا کا شکر کہ مجھے ان میں سے کوئی ٹکڑا بھی نہ لگا تھا۔

میں نے اسی رات خواب میں دیکھا کہ علی آغا کمر سے زخمی ہو گئے ہیں۔ بے چین ہو کر نیند سے اٹھ بیٹھی اور پھر صبح تک مجھے نیند نہ آئی۔ اس رات میرا دل بہت زیادہ مضطرب تھا۔ صبح میں نے سب کو اپنا خواب سنایا۔ میں نے کافی کوشش کی مگر ناشتہ نہ کر سکی۔ ایک جگہ قرار نہیں آ رہا تھا۔ باورچی خانے سے دوڑتی کمرے کی طرف اور کمرے سے صحن کی طرف۔  تھوڑی دیر گزری کہ آغا ہادی اور آغا سعید، علی آغا کے بغیر گھر میں داخل ہوئے۔ میں اسی وقت سمجھ گئی کہ میرا خواب شرمندۂ تعبیر ہو گیا ہے۔ میرے دل کی پریشانی اور بے چینی بے وجہ نہ تھی۔ میں نے بہت کوشش کی مگر انہوں نے مجھے حقیقت نہ بتائی۔

وہ کہہ رہے تھے: ’’مرکز سے تار آیا تھا۔ کوئی میٹنگ تھی جس میں علی آغا کو بھی انہوں نے بلایا تھا اور وہ ہمدان چلے گئے ہیں۔‘‘

پھر دونوں نے اکٹھے ہی کہا: ’’ہم بھی ہمدان جانا چاہتے ہیں۔ آپ لوگ بھی ہمارے ساتھ آئیں۔‘‘

میں جانتی تھی کہ کوئی حادثہ پیش آ گیا ہے اور یہ ہمیں لے جانے کا ایک بہانہ ہے۔ میں نے کہا: ’’نہیں، میں نہیں آؤں گی۔ وہی ایک بار جو میں سعید آغا کے ساتھ آ گئی تھی، وہ میری سات نسلوں کے لیے کافی ہے۔‘‘

سعید آغا نے آزردگی سے کہا: ’’لیکن اس بار فرق ہے۔ہم ابھی علی آغا کے پاس ہی تھے۔ انہوں نے خود ہی ہمیں کہا ہےکہ میری بیگم کی طرف جاؤ۔ علی آغا کو جلدی تھی۔ انہیں کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ جلدی جانا پڑ گیا۔‘‘

میں نے کہا: ’’آغا سعید، آپ نے اس دن بھی یہی بات کہی تھی۔ آپ نے کہا تھا کہ آپ علی آغا سے حتماً ملیں گے۔ یاد ہے نا آپ کو؟ اب میرا یہاں سے ہلنا ناممکن ہے۔‘‘

جب یہ صورت حال دیکھی تو انہوں نے اصرار کرنا شروع کر دیا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ میں ان کی کسی بات کا مثبت جواب نہیں دے رہی تو انہوں نے محمود ماموں کا دامن پکڑا۔ ایک گھنٹہ گزرا تھا کہ ماموں محمود، علی آغا کے دوست محمد خادم کے ساتھ آ گئے۔ انہوں نے بھی آتے ہی انہی کی باتوں کی تکرار شروع کر دی: ’’ہم ہمدان جانا چاہتے ہیں۔ علی آغا نے کہا ہے کہ تم بھی ہمارے ساتھ آؤ۔‘‘

میں نے کہا: ’’ماموں کی جان کی قسم، کیا علی آغا کو کچھ ہو گیا ہے؟‘‘

انہوں نے کہا: ’’میں تو تم سے جھوٹ نہیں بولوں گا نا۔ کہا تو ہے کہ اسے ایک ہنگامی میٹنگ کے سلسلے میں ہمدان جانا پڑ گیا ہے۔‘‘

ادھر سے دوسری خواتین آ گئیں اور اصرار کرنے لگیں کہ میں ماموں کے ساتھ ہمدان چلی جاؤں، یہاں تک کہ انہوں نے خود ہی میری مدد کرنا اور میرا بیگ باندھنا شروع کر دیا۔ میں نے جب یہ صورت حال دیکھی تو سوچا کہ جتنا جلدی ہو ہمدان چلی جاؤں۔ میں محمد خادم کی جیپ پر بیٹھ گئی۔ ماموں بھی آ گئے۔ وہ آگے بیٹھے اور میں پیچھے۔ خادم گاڑی چلا رہا تھا۔

جب میں گاڑی میں بیٹھ گئی تو میں نے ماموں سے کہا: ’’راستے میں دزفول سے ہوتے جائیں۔ مجھے وہاں سے کچھ کپڑے اٹھانے ہیں۔‘‘

جب دزفول پہنچے تو مجھے یاد آیا کہ چابی تو میں ساتھ لائی ہی نہیں تھی۔ مجبوراً محمود ماموں دیوار پھاند کر صحن میں گئے اور صحن کا دروازہ کھولا۔ لیکن اب کمروں کی چابیاں میرے پاس نہیں تھیں۔ ماموں چھت پر گئے۔ وہاں سے چھوٹے صحن کی طرف اترے۔ وہاں سے انتہائی مشکل سے ہمارا کپڑوں والا بیگ ڈھونڈا اور اسے لے کر آئے۔

پلِ دختر کے راستے پر تھے کہ محمد خادم نے کہا: ’’وہاں دیکھیں! عراقی لڑاکا طیارہ!‘‘

وہ سچ کہہ رہا تھا۔ ایک عراقی لڑاکا طیارہ بہت کم بلندی پر بالکل ہمارے سامنے پرواز کر رہا تھا۔

خادم نے کہا: ’’مضبوطی سے بیٹھے رہیں۔‘‘ اس سے جتنا ممکن تھا وہ اتنا تیزی سے پل دختر کے پر پیچ راستوں پر گاڑی کو دوڑاتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ عراقی جہاز، جس نے ہمیں دیکھ لیا تھا، نے اپنی بلندی کم کی اور نیچے آ گیا۔ اتنا نیچے کہ بالکل ہمارے سروں کے اوپر تھا۔

میں ڈر کے مارے دونوں ہاتھوں سے ماموں کی پشت کے ساتھ مضبوطی سے چپک گئی تھی۔ ہر موڑ پر مڑتے وقت گاڑی اتنی خم ہو جاتی کہ یوں محسوس ہوتا کہ ابھی گئی تبھی گئی، یا تو ہم گر جائیں گے یا پہاڑ سے جا ٹکرائیں گے۔ جہاز اتنا نیچے آ چکا تھا کہ پائلٹ کو آسانی سے دیکھا جا سکتا تھا۔ جہاز کی مسلسل تِ تِ تِ تِ کی آواز میرے خوف میں مزید اضافہ کیے جا رہی تھی۔ گولیاں سڑک کے تارکول، پہاڑ اور سڑک کے کنارے پڑے چھوٹے چھوٹے پتھروں پر لگ رہی تھیں اور وہاں سے پھسل کر ہماری طرف آ رہی تھیں۔ خادم غیر معمولی مہارت سے گاڑی چلا رہا تھا۔ ہماری خوش قسمتی کہ سڑک پر ایک گاڑی بھی نہ تھی۔ اگر ہوتی تو اس سے پہلے کہ عراقی جہاز ہمارا کام تمام کرتا، ہم کسی گاڑی سے ٹکرا کر ہی پاش پاش ہو جاتے۔

انہی خوفناک لمحات میں میں نے خدا سے دعا کی کہ اگر علی آغا شہید ہو گئے ہیں تو میں بھی اس راستے میں شہید ہو جاؤں۔ اس سوچ نے مجھے اطمینان بخش دیا۔ میں نے اپنا ہاتھ ماموں کی کرسی سے اٹھایا، سر کو کرسی کی پشت سے ٹکایا اور زیرِ لب شہادتین پڑھنے لگی۔ لیکن تھوڑی دیر بعد عراقی جہاز ہمارا خیال چھوڑتے ہوئے اپنا راستہ بدل کر آگے بڑھ گیا اور بہت جلد ہی پہاڑ کے پیچھے گم ہو گیا۔ ماموں کہہ رہے تھے کہ اس کا نشانہ بجلی کا ادارہ تھا۔

ہم سہ پہر کے وقت ہمدان پہنچ گئے۔ گہرے دھوئیں نے آسمان کو سیاہ کر رکھا تھا۔ اہواز کے برعکس، جہاں بہار کا سا موسم تھا، درخت سرسبز تھے اور حتی کہ ہم نے باغیچے میں سبزی بھی کاشت کی ہوئی تھی، ہمدان میں سائبیریا کی طرح سردی پڑی ہوئی تھی۔ ننگے دھڑنگے درخت برف میں سمٹے سمٹائے نظر آ رہے تھے۔

خادم نے گاڑی روک کر ایک راہگیر سے پوچھا: ’’بھائی صاحب، دشمن نے کس جگہ حملہ کیا ہے؟‘‘

اس شخص نے کہا: ’’درویش آباد میں تیل کے ذخیرے اور پٹرول پمپ کو چار روز پہلے نشانہ بنایا گیا ہے۔ مسافروں سے بھری ایک منی بس پٹرول پمپ پر کھڑی تھی، جسے آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور سارے مسافر شہید ہو گئے۔‘‘

ہمیں بہت تعجب ہوا؛ یعنی تین چار روز ہو گئے تھے کہ تیل کے ٹینکر جل رہے تھے۔ بیس جنوری سے لے کر اس دن تک!

وہ شخص کہہ رہا تھا: ’’چار پانچ سو افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ پچاس ساٹھ افراد شہید ہو گئے ہیں۔‘‘

ہم چونکہ اہواز سے آئے تھےا ور وہاں موسم اچھا اور خوشگوار تھا، لہذا میں نے گرم کپڑے نہیں پہن رکھے تھے۔گاڑی میں سردی تھی اور سردی کی وجہ سے میرے دانت بج رہے تھے۔

جب ہم عباس آباد([2]) سٹاپ پر پہنچے تو میری آنکھیں سڑک پر کسی نہ کسی آشنا کو ڈھونڈنے میں مصروف ہو گئیں۔ ماموں نے کہا: ’’سچ کہوں فرشتہ، جانتی ہو کیا ہوا ہے؟‘‘

میرا دل سڑک پر پڑی برف کی طرح ایک دم منجمد ہو گیا۔ دانت پہلے کی نسبت زیادہ شدت سے بجنے لگے۔ محسوس ہوتا تھا کہ خون میری رگوں میں جم چکا ہے۔ جب ماموں نے دیکھا کہ میری آواز نہیں نکل رہی تو کہنے لگے: ’’علی آغا۔۔۔‘‘

میں نے ان کی بات پوری نہ ہونے دی: ’’کیا شہید ہو گئے؟!‘‘

محمد خادم نے پلٹ کر میری طرف دیکھا اور کہا: ’’نہیں، حاج خانم، بالکل نہیں۔ خدا کی قسم، علی آغا فقط زخمی ہوئے ہیں۔‘‘

غصے اور بے چینی سے میری وہ حالت ہو گئی کہ کاٹو تو بدن میں خون نہیں۔  میں نے ان پر چلاّنا شروع کر دیا: ’’آپ لوگ مجھ سے جھوٹ نہ بولیں۔ میں نے کہا  تھا کہ رات کو میں نے خواب دیکھا تھا۔ مجھے خدشہ تھا کہ یقیناً علی آغا کو کچھ نہ کچھ ہوا ہو گا۔ آپ  لوگوں نے کیوں مجھ سے غلط بیانی کی۔ دزفول میں مجھے سچ سچ کیوں نہ بتایا؟! کیوں اہواز سے لے کر یہاں تک مجھے دھوکے میں رکھا؟ یہیں پر گاڑی روکیں، میں اترنا چاہتی ہوں۔‘‘

ماموں مجھے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے تھے: ’’دیکھو، فرشتہ جان۔ ہم نے جان بوجھ کر نہیں بتایا تا کہ تم اہواز سے ہمدان تک پریشان نہ رہو ،تمہارے اعصاب بکھر نہ جائیں اور کہیں تم کوئی برا نہ سوچنے لگو۔ خدا کی قسم، علی آغا کو کچھ نہیں ہوا۔ فقط زخمی ہوئے ہیں اور اب شیراز ہسپتال میں ہیں۔‘‘

میں نے کہا: ’’میں اترنا چاہتی ہوں۔‘‘

خادم نے گاڑی میری ماں کی گلی کی طرف موڑ دی۔ ماموں کافی پریشان ہو گئے: ’’فرشتہ جان، خدا کا واسطہ مجھے معاف کر دو۔ اللہ کی قسم، ہم نے تمہارے ہی لیے یہ کام کیا ہے۔‘‘

جیسے ہی خادم نے گاڑی ماں کے گھر دروازے  کے سامنے کھڑی کی،میں نے فوراً دروازے کا دستہ کھینچا اور گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔ ماں صحن کے دروازے کے پیچھے منتظر کھڑی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ انہیں ہماری واپسی کا پہلے ہی سے علم ہو چکا تھا۔ میں نے گاڑی سے اترتے ہی کہا: ’’آپ لوگوں نے بہت غلط کیا۔ اہواز سے لے کر یہاں تک میرے احساسات سے کھیلتے رہے!‘‘ پھر میں نے زور سے دروازہ بند کر دیا۔ ماں میری طرف دوڑیں۔ میں ان کے گلے سے لگ گئی اور انہیں بوسہ دیا۔ ہمیشہ کی طرح  ان سے خوشبو آ رہی تھی۔ وہ اپنی آغوش میں لے کر مجھے حوصلہ دینے لگیں۔ میں نے ان سے ماموں کا شکوہ کیا: ’’یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں بچہ ہوں، کمزور ہوں۔ مجھے نہیں بتایا کہ علی آغا زخمی ہو گئے ہیں۔ مجھ سے انہوں نے کہا کہ انہیں ایک میٹنگ میں جانا پڑ گیا۔ میں خود جانتی تھی۔ کل رات میں نے خواب دیکھا تھا۔‘‘

ماں نے میرے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرکر بوسہ دیا اور مہربان لہجے میں کہنے لگیں: ’’کوئی بات نہیں، امیر نے ہمیں اطلاع دی ہے۔ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ علی ماشاء اللہ مضبوط ہے۔ جلدی ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

اس مجروحیت میں ایک گولی علی آغا کی کمر کے پاس سے گزرتی ہوئی ان کے کولہے میں جا کر گھس گئی تھی۔ ڈاکٹر بھی لاکھ کوشش کے باوجود اس نہ نکال سکے تھے۔ علی آغا اسی حالت میں اگلے ہفتے اپنے دوستوں کی عیادت کے لیے جانبازان ہسپتال تہران چلے گئے۔ وہاں سے واپسی پر بھی ہمدان آئے۔ ہم نے تھوڑا سا سامان اٹھایا اور دزفول کو واپس چل دیے۔


([1]) ایران میں کھائی جانے والی روٹی کی ایک قسم۔

([2]) ہمدان میں امام خمینیؒ چوک سے نکلنے والی چھ سڑکوں میں سے ایک شریعتی روڈ ہے جو اسی نام کے ایک اور چوک  اور پھر اس کے بعد مہدیہ روڈ سے جا کر متصل ہو جاتا ہے۔ہمدان کے لوگ قدیم الایام ہی سے عباس آباد اور گنج نامہ جیسی خوبصورت تفریح گاہوں  کی طرف جانے والی بسوں پر سوار ہونے کے لیے یہیں آتے تھے۔ اس وجہ سے اس چوک کو ’’ایستگاہ‘‘ یعنی بس سٹاپ کہا جاتاتھا اور آج بھی کہا جاتا ہے۔

آٹھواں باب

بنفشی اور گلابی پردے

تقریباً ایک ماہ بعد جب میں اور علی آغا دوبارہ دزفول واپس لوٹ کر گئے تو میں نے اپنے آپ سے عہد کر لیا کہ اب کبھی بھی علی اور دزفول کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔

فروری 1987؁ کے ایام تھے۔ موسم، بہار کی خوشبو دے رہا تھا۔ جب ہم دوبارہ دزفول واپس لوٹ کر گئے تو علی آغا نے چند کلو مرغ خرید لیا اور کہا: ’’فرشتہ، آپریشن کی رات کا ایک مزیدار سا کھانا تیار کرو۔ دن کے کھانے کے بعد ہمیں محاذ پر جانا ہے۔‘‘

میں کام میں جُت گئی۔ جلدی جلدی مرغ کو صاف کیا، دھویا اور نمک، ہلدی اور بہت سی پیاز ڈال کر چھوٹے سفری چولہے پر رکھ دیا اور جتنا ممکن تھا اس کی آنچ تیز کر دی۔ آغا ہادی اور ان کے گھر والے اپنے کمرے میں تھے۔ آدھا گھنٹہ نہ گزرا تھا کہ اوپر کے طبقے سے ایک وحشتناک آواز بلند ہوئی۔ گھر لرز کر رہ گیا۔ میں پہلے تو یہ سمجھی کہ شاید بمباری ہو گئی ہے۔ علی آغا اور آغا ہادی برہنہ پا سیڑھیوں پر اوپر کی طرف بھاگے اور میں اور فاطمہ بھی ان کے پیچھے پیچھے اوپر چڑھ گئیں۔

پریشر کُکر چولہے پر نہ تھا۔ چولہے کا زرد شعلہ بھڑک رہا تھا۔ کُکر خود ایک طرف اور اس کا ڈھکن دوسری طرف پڑے ہوئے تھے۔ مرغ کے ٹکڑے اور زرد اور چربی والا شوربہ دیوار اور چھت کے ساتھ چپک گئے تھے۔میں سخت شرمندہ ہوئی اور شرم کے مارے سر نیچے کر لیا۔ علی آغا ہنس رہے تھے اور در و دیوار سے مرغ کے بوٹیاں اتار اتار کر بچوں جیسی خوشی کے ساتھ کھا  رہے تھے۔ وہ ککر کی طرف گئے اور ایسا لگتا تھا جیسے انہیں کوئی خزانہ مل گیا ہو۔ خوش ہو کر  کہنے لگے: ’’خدا کا شکر کہ تھوڑا سا مرغ اس میں باقی ہے!‘‘

ہم نے اسی تھوڑے سے مرغ کو کتنا مزے  لے لے کر کھایا تھا۔

میں ہمدان جیسے سرد علاقے کی باسی تھی، میرے لیے دزفول میں زندگی گزارنا کافی مختلف سا تجربہ تھا۔ انہی ابتدائی دنوں میں، میں ایک دن سو کر اٹھی اور بستر جمع کر رہی تھی (مرد گھر  پر نہ تھے۔ میں، فاطمہ اور زینب نیچے ہمارے سونے والے کمروں میں سوئی ہوئی تھیں)، میں اپنا بستر لپیٹ ہی رہی تھی کہ فاطمہ نے ہلکی سے چیخ ماری۔ اس کی چیخ سے زینب بھی جاگ اٹھی۔

میرے بستر کے نیچے ایک سیاہ اور بدشکل سا حشرہ تھا۔ دو  کانٹے بلند کیے ہوئے، بے ترتیب سے آٹھ پاؤں اور کمان کی شکل کی دُم جو اوپر کو اٹھ کر اس کی جسم کی طرف خم ہو گئی تھی۔ فاطمہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا: ’’بچھو ہے!‘‘

میں نے بچھو کا نام سن رکھا تھاحتی کہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس کا ڈنگ سانپ کے ڈنگ کی طرح زہریلا اور مہلک ہوتا ہے۔ فاطمہ ڈر کر چند قدم پیچھے ہٹ گئی۔ میں نے کہا: ’’نہ ڈرو۔ یہ جگہ بچھوؤں سے بھری پڑی ہے۔ بچھو گرم مقامات پر زندگی گزارتے ہیں۔ انہیں کچھ نہ کہو تو یہ بھی ضرر نہیں پہنچائیں گے۔‘‘ اس کے بعد اس نے شک و تردید میں کہا: ’’اس مار دو۔‘‘

میں نے متانت سے کہا: ’’اسے مار دو گی تو اس دوسرے کا کیا کرو گی؟‘‘ میں نے دیواروں کے کونوں اور کگروں کی طرف اشارہ کیا۔ ایک نظر گھمائی تو تین چار اور بچھو ہمیں نظر آگئے تھے۔ فاطمہ زینب کی وجہ سے زیادہ پریشان تھی۔ میں نے کہا: ’’مت ڈرو۔ ابھی خود ہی آگے پیچھے غائب ہو جائیں گے۔ جانور رات کو اپنی غذا لینے کے لیے بلوں سے باہر آتے ہیں اور صبح پتھروں، دروازوں اور  دیواروں کے  کونے کھدروں میں جا کر پڑے رہتے ہیں۔‘‘

میں نے جھک کر اپنا بستر اٹھایا اور ایک کونے میں رکھ دیا۔ فاطمہ مریانج([1]) کی رہنے والی تھی اور پہاڑوں، باغوں اور صحراؤں کی پلی بڑھی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے اپنے آپ پر قابو پا لیا۔ میں نے جھاڑو اٹھایا اور اس سے بچھوؤں کو باہر کی طرف کر دیا۔  وہ بدشکل اور بھدے سے بچھو اتنی تیزی سے بھاگے اور ہماری نظروں سے اوجھل ہوئے کہ ہمیں معلوم ہی نہ ہوا کہ وہ کب اور کہاں چلے گئے۔ اس کے بعد سارا دن بچھوؤں کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ لیکن جیسے ہی رات ہوتی تو وہ پھر اپنے سر بلوں سے نکالتے۔ شروع شروع کی راتوں میں مجھے نیند نہ آتی تھی۔ ہر وقت دھڑکا لگا رہتا کہ میرے کمبل کے نیچے یا سرہانے کے اوپر کوئی بچھو ہے۔ ہلکی سی سرسراہٹ بھی ہوتی تو میں اٹھ جاتی اور بتی روشن کر دیتی، لیکن جلد ہی میں ہر چیز کی عادی ہو گئی۔

روزانہ جب میں سو کر اٹھتی اور احتیاط سے اپنا بستر لپیٹتی تو چند بچھو نظر آ جاتے جو میرے تکیے یا بستر کے نیچے اپنی جگہ بنا کر بیٹھے ہوتے تھے۔ آہستہ آہستہ بچھو دیکھنا میرے لیے معمول کی بات ہو گئی۔ صبح خاموشی سے جھاڑو اٹھاتی اور بچھوؤں کو جھاڑو سے باہر کر دیتی۔ اگرچہ ایسا کبھی بھی نہ ہوا کہ مجھے انہیں دیکھ کر ڈر نہ لگا ہو اور مجھ پر لرزہ طاری نہ ہوا ہو۔

ایک بار علی آغا اور آغا ہادی خوشی خوشی آئے اور بتایا کہ رات کے کھانے پر دو تین مہمان ہیں۔ میں اور فاطمہ نے سوچا کہ دو تین مہمان تو کوئی بات ہی نہیں۔ ان دنوں فارمی میکرونیز نئی نئی بازار میں آئی تھیں۔ ہم نے پیچدار میکرونیز خریدیں اور ایک بڑے دیگچے میں ابالنے لگیں۔ گوشت اور بہت سی پیازکو ٹماٹر پیسٹ کے ساتھ مخلوط کر کے میکرونیز پر  ڈال دیا جس سے وہ کافی خوش رنگ ہو گئی تھیں۔ جمعے کی رات آٹھ بجے مہمان اپنی بیگمات اور بچوں کے ہمراہ آ گئے۔میں اور فاطمہ کھڑکی سے دیکھ رہی تھیں۔ مہمانوں کا ایک سرا سیڑھیوں پر جبکہ دوسرا سرا گلی میں تھا۔ ایسا لگتاتھا کہ مہمانوں کی یہ صف ختم نہیں ہونا چاہتی۔ علی آغا ’’یا اللہ یا اللہ‘‘ کہتے اندر داخل ہوئے۔ جیسے ہی انہوں نے سلام کیا، میں نے اعتراض کیا: ’’علی جان، آپ نے تو کہا تھا کہ دو تین ہی مہمان ہوں گے۔ ایسا تو نہیں کہا تھا کہ پورے دزفول کو آپ نے دعوت دے رکھی ہے۔‘‘

علی آغا نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’پریشان نہ ہو۔‘‘

’’کیا مطلب؟ پریشان نہ ہوں! ہم نے فقط ایک دیگچہ میکرونیز کا پکایا ہے۔ آ کر خود ہی دیکھ لیں، کیا وہ سب کو پورا ہو جائے گا؟‘‘

علی آغا نے متانت سے جواب دیا:’’کوئی بھی دن اور رات کا کھانا کھائے بغیر نہیں جائے گا۔ بہر کیف تم اپنے آپ کو پریشان نہ کرو۔ خدا مہمان کا رزق خود ہی بھیج دیتا ہے۔‘‘

خلاصہ یہ کہ عورتیں ہال میں آ کر بیٹھ گئیں اور مرد مہمان خانے میں چلے گئے۔ میں اور فاطمہ سخت فکر مند تھیں۔ہمیں شام کے کھانے کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ جتنا بھی حساب لگاتیں یہی نتیجہ نکلتا کہ میکرونیز کا ایک دیگچہ اس ہجوم کو سیر نہیں کر سکتا۔

یہی وجہ تھی کہ ہم نے  خواتین سے معذرت خواہی کی اور فاطمہ اور میں باورچی خانے میں چلی گئیں۔ جتنے آلو پڑے تھے سب کو چھیل کر رَند لیا اور ان میں دس بارہ انڈے ڈال کر دو تین بڑے فرائی پینز میں کوکو([2]) تیار کر لیا۔ رات کے کھانے کے وقت میکرونیز کے چند طبق بھرے۔ ان کا رنگ کافی اچھا تھا اور کافی روغنی اور چربائی ہوئی نظر ا ٓ رہی تھیں۔ کھرچن بھی نارنجی اور بھربھری ہو گئی تھی۔ میکرونیز اور کھرچن مردوں کے دسترخوان پر سجائی گئیں جبکہ کوکو، کھیرے اور کچھ دوسری چیزوں کا اچار، ٹماٹر اور سلاد زنانہ دسترخوان کی زینت بنا۔

رات کا کھانا کھانے کے بعد جب دسترخوان لپیٹنے لگے تو مردانے سے ہنسی مذاق اور قہقہوں کی آواز بلند ہوئی۔شور کرنے والوں میں سب سے آگے علی آغا تھے۔ میں دروازے کے ساتھ اس طرح بیٹھی تھی کہ دروازے کی درز سے انہیں دیکھ رہی تھی۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو جھٹک کر کہہ رہے تھے: ’’بغل میں لو۔‘‘

ساتھ والا کہتا: ’’کسے بغل میں لوں؟‘‘

’’دو لچھیوں([3]) کو‘‘

’’ان کا کیا کروں؟‘‘

’’ساتھ والے کو دے دو۔‘‘

ساتھ والا اپنے دونوں ہاتھوں اور پاؤں کو لرزاتا اور کہتا: ’’بغل میں لو۔‘‘

’’کیا بغل میں لوں؟‘‘

’’تین لچھیوں کو۔‘‘

’’ان کا کیا کروں؟‘‘

’’ساتھ والے کو دے دو۔‘‘

اب ساتھ والا بے چارہ مجبور تھا کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں کو لرزائے اور چار لچھیاں ساتھ والے کو دے۔

اور آخر والا بدقسمت اٹھ کر اپنے تمام اعضا کو لرزا رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ رقصِ بندری کر رہاہے، اور وہ نو لچھیاں ساتھ والے کو دے دیتا۔ علی آغا اور دوسروں کے قہقہوں کے آواز نے عورتوں کو بھی ہنسنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ رات سب نے کافی ہلے گلے میں گزاری۔ رات کے آخری پہر مہمان چلے گئے۔ علی آغا کہنے لگے: ’’دیکھا، ہینگ لگی نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آیا۔ تم نے دیکھا کہ نوجوان کتنے ہشاش بشاش ہو کر گئے۔ کوئی بھی ایسا نہ تھا جو بھوکا ہی چلا گیا ہو۔‘‘

میں نے کہا: ’’آپ کو نہیں پتا۔ میں اور فاطمہ کتنی پریشان تھیں۔ اتنی فکرمند رہیں اور کافی مشقت کی تب کہیں جا کر دسترخوان پر کچھ رکھنے کے لیے آمادہ کر پائیں۔‘‘

علی آغا نے کہا: ’’تمہارا بہت بہت شکریہ۔ اگر تمہیں پریشانی ہوئی اور تم نے زحمت کی تو میں شرمندہ ہوں، معذرت چاہتا ہوں۔ لیکن کیا کروں کہ نوجوانوں کو محاذ پر تفریح کرنے کا کوئی موقع نہیں ملتا۔  ہم نے کہا کہ جتنا زیادہ ہو سکے کچھ تفریح کر لیں تو بہتر ہے۔ سب سے کہہ دیا کہ آ جائیں۔ تھوڑا ہلاگلا ضروری تھا تا کہ وہ ہنسیں کھیلیں اور ان کے اندر زیادہ توانائی اور جذبہ آ جائے۔‘‘

اگلے دن ہم نے سوچا کہ اگراس گھر میں رہنا ہے اور مہمان نوازی کرنی ہے تو ہر وقت آمادہ رہنا پڑے گا، لہذا میں اور فاطمہ بازار گئیں اور پوچھتے پاچھتے کپڑوں کی ایک دکان ڈھونڈ ہی لی۔ شہر کی آبادی کم تھی۔ سوائے چند ایک دکانوں کے جہاں لوگوں کی روزمرہ ضرورت کی چیزیں فروخت ہوتی تھیں، زیادہ تر دکانیں بند ہی تھیں۔ اسی کپڑوں کی دکان سے ہم نے باورچی خانے کے لیے دس بارہ میٹر گلابی اور سفید شطرنجی نقش و نگار والا کپڑا، جو بہت خوبصورت لگ رہا تھا، جبکہ مہمان خانے کے لیے بنفشی رنگ کا گل دار کپڑا خریدا۔ میرا دل اس گھر میں کتنا خوش تھا۔ اتنا ذوق و شوق تھا کہ گھر آتے ہی سلائی مشین پر بیٹھ گئی اور سینا شروع کر دیا۔ زینب بہت تھک چکی تھی۔ فاطمہ اسے سلا کر کھانا پکانے میں مشغول ہو گئی۔ سب سے پہلے میں نے مہمان خانے کے پردے سیے۔ مہمان خانے کی کھڑکیوں کا رُخ صحن کی طرف تھا اور وہ گلی میں کھلتی تھیں۔ ہم نے نماز والی چادر کے ذریعے ان کے شیشوں کو ڈھانپ رکھا تھا۔ جب پردوں کی سلائی ختم ہو گئی اور میں اور فاطمہ نے مل کر انہیں لگا دیا تو گھر کی حالت ہی بدل گئی۔ گھر کی خوبصورتی قالین اور پردوں سے ہوتی ہے۔ فرش تو ہمارے پاس تھا نہیں لیکن پردوں نے گھر کو واقعاً گھر جیسا بنا دیا تھا۔ پردہ بنفشی رنگ کا تھا جس پر چھوٹے چھوٹے زرد  اور نارنجی پھول بنے ہوئے تھے۔ مہمان خانے کے بعد باورچی خانے کی باری تھی۔ پردوں نے باورچی خانے کو روشن اور خوبصورت کر دیا تھا۔ باورچی خانے کے وسط میں لوہے کی ایک میز پڑی تھی۔ دیگچے، برتن، چمچے، کانٹے، جو کچھ بھی تھا ہم نے اس پر چن دیا تھا۔ اس کے نیچے آلو اور پیازکی بوریاں اور لوبیا چیتی([4])، چنے اور دال مسور کی بوتلیں رکھ چھوڑی تھیں۔ میں سلائی مشین پر بیٹھ گئی اور مشین کی چرخی کو گھماتی رہی، گھماتی رہی یہاں تک کہ باورچی خانے کی میز کے لیے ایک لمبا میز پوش سی کر اس کے گرد الاسٹک ڈال دیا تا کہ میز سے نیچے نہ گر جائے۔ میز کو میں نے اور فاطمہ نے مل کر مرتب کیا اور میز کے اوپر جو کچھ آ سکتا تھا اسے چن دیا اور میز کے نیچے باقی الا بلا رکھ دی۔ اس میزپوش کی اچھی بات یہ تھی کہ ہم نے جو کچھ میز کے نیچے رکھا تھا وہ بالکل نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔ برتن دھونے والے سنک کے لیے بھی ، جس کے نیچے کیبنٹ نہیں تھا، ایک خوبصورت سی پوشش بنا دی۔میزپوش اور سنک کی پوشش دونوں باورچی خانے کے پردے والے کپڑے سے بنائے تھے۔ اس تمام رنگ و تنوع نے ہمیں باغ باغ کر دیا تھا۔ ہم  آتے جاتے اسے دیکھے جا رہی تھیں۔ مہمان خانے میں کھڑی ہو کر کہتیں: ’’کتنا خوبصورت ہو گیا ہے!‘‘ باورچی خانے میں آتیں اور کہتیں: ’’اخاہ! اب یہ باورچی خانہ لگ رہا ہے۔‘‘

جو کپڑا باقی بچ گیا تھا اس سے ہم نے کچھ دم کنیا ں اور کچھ صافیاں بنا لیں اور انہیں باورچی خانے کی دیوار پر آویزاں کر دیا۔

اوپری منزل کی ترتیب و تزئین کے بعد ہم تہہ خانے([5]) والے حصے میں چلی گئیں۔ طے پایا کہ ہر کوئی اپنے اپنے کمرے کو مرتب کرے گا۔ میں نے گلی میں سے ایک خالی کارٹن ڈھونڈ لیا تھا۔ اسے کمرے کے ایک کونے میں میز کی جگہ پر رکھ دیا۔ علی آغا کے سارے البم اس میں رکھ دیے تا کہ وہ تھوڑا بھاری ہو جائے اور ہلنے جلنے نہ پائے۔ اس کے اوپر کپڑا ڈال دیا۔ میرے پاس کروشیے سے بُنا ایک میز پوش تھا جو میں ہمدان سے لائی تھی۔ سفید ریشمی دھاگے سے میں نے اسے خود بُنا تھا۔ میز پوش کے درمیان میں ابھری ہوئی بطخیں بنی ہوئی تھیں۔ ان بطخوں کو اندر سے روئی کے ساتھ بھر دیا تھا۔ ان بطخوں کی چونچیں سرخ رنگ کی تھیں اور چھوٹے چھوٹے نیم باز پَر بھی تھے۔ چند سال ہوئے تھے کہ کروشیے کی بنی چیزوں کا رواج بہت زیادہ ہو گیا تھا اور اکثر لڑکیاں اور عورتیں کروشیے سے مختلف قسم کی اشیاء بنانے میں کافی دلچسپی رکھتی تھیں۔  میں نے میز پوش کو کارٹن کے میز کے اوپر رکھ دیا۔ کمرے میں جھاڑو لگایا اور جھاڑ پونچھ کی۔ اگلے روز بھی زینب اور فاطمہ کےساتھ بازار گئی اور کچھ پلیٹیں اور سالن کے دوسرے ایک جیسے برتن خریدے۔ ہمارے اگلے چند دن گھر کی صفائی ستھرائی اور اسے مرتب کرنے ہی میں گزرے۔

ایک رات جب گھر کی تمام بتیاں جل رہی تھیں اور ہم باورچی خانے میں کھانا پکانے میں مشغول تھیں کہ علی آغا اور آغا ہادی آ گئے۔ انہوں نے گلی سے پردے دیکھ لیے تھے۔ پردوں پر پڑنے والی روشنی نے ان کی خوبصورتی میں اضافہ کر دیا تھا۔ وہ مہمان خانے اور باورچی خانے میں لگے پردوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہوئے گاڑی سے اترے تھے۔ آغا ہادی نے علی آغا سے کہاتھا: ’’دیکھو تو! ہمارا گھر پردہ دار ہو گیا ہے۔ کتنے خوبصورت پردے ہیں!‘‘

جب علی آغا اور آغا ہادی گھر میں داخل ہوئے تو گھر کی بدلی ہوئی حالت اور خوبصورتی دیکھ کر بہت ہی خوش ہوئے۔ اور خوشی خوشی ہر چیز کو آنکھ بھر کر دیکھ رہے تھے۔ وہ لوگ اس رات بھی ہمیشہ کی طرح تھکے ہوئے اور خاک آلود تھے۔ رات کا کھانا کھانے کے  بعد جلدی سو گئے۔ میں اور فاطمہ نے اس فرصت سے استفادہ کیا اور صحن میں جا کر ان کے بوٹوں کو اچھی طرح پالش کیا اور چمکا کر رکھ دیا۔ اس کے بعد ان کی وردیوں کو دھو ڈالا۔

صبح انہوں نے جب اپنے مرتب شدہ لباس اور دروازے سے باہر پالش لگے جوتے دیکھے تو عش عش کر اٹھے۔

ان دنوں مجھے اور فاطمہ کو اپنے گھر والے شدت سے یاد  آ رہے تھے۔ علی آغا کے دوست آغا بختیاری ایک دن چھوڑ کر آتے اور ہماری ضرورت کی چیزیں خرید کر ہمیں لا دیتے۔ انہوں نے گھنٹی بجائی تا کہ ہم بازار جائیں۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ میں اور فاطمہ آناً فاناً تیار ہو گئیں۔ ہم نے انہیں کہا: ’’ہم پی سی او جانا چاہتی ہیں۔‘‘

پی سی او شہر کے مرکز میں تھا اور اس پر ہمیشہ ہجوم رہتا تھا۔ ہمیں ایک گھنٹے تک انتظار میں بیٹھنا پڑا۔ پی سی او ایک بڑے ہال میں تھا جس میں چند کیبن بنے ہوئے تھے۔  ہال میں لکڑی کے بینچوں کی بھی کچھ قطاریں بنی ہوئی تھیں جن پر زیادہ تر فوجی اور جنگجو لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ زینب نے شور مچا مچا کر فاطمہ کا برا حال کر رکھا تھا۔ بالآخر ہماری باری آئی۔ میں نے اپنی ہمسایہ سکینہ خانم کو فون کیااور بہت مشکل سے ماں کے ساتھ رابطہ ہوا۔ ہم نے کھل کر ایک دوسرے سے باتیں کی۔فون ختم ہوا تو ہم باہر آ گئیں۔ آغا بختیاری پی سی او سے تھوڑا آگے کر کے گاڑی میں ہمارے منتظر تھے۔ جیسے ہی ہم گاڑی کی طرف چلیں تو ٹینکوں کے گرجنے کی آوازیں بلند ہوئیں۔ سڑک پر کوئی نہیں تھا۔ زینب فاطمہ کی گود میں تھی۔ اچانک کچھ جہازوں کے انجنوں کی آواز اور پھر اس کے بعد مسلسل کچھ دھماکوں کی آوازوں نے سب کچھ درہم برہم کر کے رکھ دیا۔ میں نہیں جانتی تھی کہ کیا کروں۔ فاطمہ نے کہا: ’’اُس طرف چلیں۔‘‘

ہم سڑک کی دوسری طرف جانا ہی چاہتی تھیں کہ اچانک ہماری آنکھوں کے سامنے دھواں اور گردغبار چھا گیا۔ ہر جگہ اندھیرا ہو گیا۔ میں کچھ بھی نہیں دیکھ پا رہی تھی۔ لوگوں کے رونے اور نالہ و فریاد کی آوازیں میرے کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ اس دھوئیں اور گرد و غبار میں ایک شدید قسم کی گرمی مجھے اپنے چہرے پر محسوس ہوئی۔

ایک سرخ اور بڑی سی گولی تیزی سے میری طرف آ رہی تھی۔ میں نہیں جانتی کہ اس لمحے خدا نے میرے اندر کسی طاقت بھر دی تھی۔ میں نے جھکاؤ دیا اور فوراً زمین پر جھک گئی۔ گولی کی آواز میں نے سنی کہ زور سے میری پشت پر واقع دکان کی دیوار پر جا لگی۔ دیوار میں سوراخ ہو گیاتھا۔ یہ سب کچھ چند لحظوں میں ہی پیش آیا تھا۔ فاطمہ مجھے نظر نہیں آ رہی تھی۔ میں نے اسے آواز دی: ’’فاطمہ! فاطمہ!‘‘

دور سے ایک اور دھماکے کی آواز آ رہی تھی۔ کافی ڈراؤنا منظر تھا۔ گولیاں میرے کانوں کے پاس سے ایسے گزر رہی تھیں جیسے ٹڈیوں نے کسی فصل پر حملہ کر دیا ہو۔ علی آغا نے کہا تھا کہ جب ایسا موقع آ جائے تو زمین پر لیٹ جانا چاہیے۔ میں سڑک کے سخت تارکول پر لیٹ گئی اور اپنے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ  کر منہ کھول دیا۔ اس تمام عرصے میں مجھے فاطمہ اور زینب کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ تھوڑی دیر گزری تو شور کچھ کم ہو گیا۔ میں نے سر اٹھایا تو گرد آلود اور غبار سے اٹی ہوئی فضا میں آغا بختیاری کی گاڑی نظر آئی۔ میں گاڑی کی طرف بھاگ کر گئی اور تیزی سے اچھل کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر جا گری۔ اسی وقت فاطمہ اور زینب بھی پہنچ گئیں۔ میں نے روہانسا سا ہو کر زینب کو گلے لگایا اور بوسہ دیا۔ فاطمہ نے انتہائی اضطراب کی حالت میں دروازہ بند کیا اور مجھ سے پوچھا: ’’فرشتہ خانم، تم ٹھیک ہو؟‘‘

میں ٹھیک تھی۔ میں نے زینب کا سر اپنے سینے پر رکھا۔ اس کی دھڑکنیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ اس کا دل چڑیا کے بچے کے دل کی طرح تیز تیز دھڑک رہا تھا۔

اس دن ہم بہت ڈر گئیں اور پختہ ارادہ کر لیا کہ مردوں کو اس بارے میں کچھ نہیں بتائیں گی ورنہ وہ ہمارے لیے بہت پریشان ہو جائیں گے۔

مرد جب گھر میں ہوتے تو ہمیں کسی جگہ اور کسی شخص کی پریشانی نہ ہوتی، لیکن جیسے ہی وہ جاتے تو ہماری پریشانی شروع ہو جاتی۔ ایک بار جب وہ لوگ محاذ پر جارہے تھے تو میں نے علی آغا سے کہا: ’’علی جان، میرا دل ہمدان کے لیے بہت اداس ہو رہا ہے۔‘‘

انہوں نے پوچھا: ’’ہمدان کے لیے یا ہمدانیوں کے لیے؟‘‘

میں نے ہنس کر جواب دیا: ’’دونوں کے لیے۔‘‘

اگلی رات علی آغا واپس آ گئے اور افراتفری مچاتے ہوئے کہا: ’’فرشتہ، جلدی سے چادر اوڑھ لو، تمہارے رشتہ دار آئے ہیں۔‘‘

میں نے حیران ہو کر پوچھا: ’’کون سے رشتہ دار؟‘‘

 وہ ہنس دیے اور شرارت سے کہنے لگے: ’’کیا تمہارا دل ہمدانیوں کے لیے نہیں تڑپ رہا تھا؟‘‘

میں نے چادر سر پر اوڑھی اور صحن میں چلی گئی۔

علی آغا نے آنکھ مار کر کہا: ’’یہ لو تمہارے چچازاد۔‘‘

وہ وحید کو اپنے ساتھ لائے تھے۔ وحید، چچا باقر کا بیٹا تھا۔ اس نے علی آغا کو محاذ پر دیکھا تھا اور علیک سلیک کے بعد ایک دوسرے سے تعارف ہوا تھا۔ علی آغا نے بھی اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا: ’’خدا کی قسم، آج رات کا کھانا تمہیں حتماً ہمارے گھر کھانا پڑے گا۔ فرشتہ کا دل بہت اداس ہے۔ تمہیں دیکھ کر خوش ہو جائے گی۔‘‘

میں واقعاً بہت خوش ہو گئی تھی۔ میں اور وحید باتیں کرنے بیٹھ گئے۔ میں بھی باتیں کیے جا رہی تھی اور وحید بھی۔

’’وحید، تمہیں یاد ہے، جب ہم بچے تھے کیسی آگ لگائے رکھتے تھے؟‘‘

وحید ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا: ’’اور تمہیں یاد ہے کہ میں کتنا شورشرابا کیا کرتا تھا۔‘‘

علی آغا ہمیں گرمجوشی سے  باتیں کرتے دیکھ کر محظوظ ہو رہے تھے۔ خود ہی کھانا لائے اور دسترخوان بچھا دیا۔ کھانے کے بعد خود ہی برتن اٹھائے اور باورچی خانے میں لے گئے۔باورچی خانے سے برتنوں کی کھڑکھڑاہٹ ابھری تو مجھے بہت دکھ ہوا۔ میں نے سوچا علی آغا خود تھکے ہوئے ہیں۔ میں باورچی خانے میں گئی تا کہ برتن خود دھوؤں، مگر انہوں نے دھونے نہ دیے۔ کہنے لگے: ’’کیا تمہارا دل اداس نہیں تھا؟ جاؤ، باتیں کرو۔ دل کو تھوڑا سکون مل جائے گا۔‘‘

میں نہ گئی اور ان کی مدد کرنے لگی۔ ہم نے اکٹھے برتن دھوئے۔ جب ہم واپس ہوئے تو دیکھا کہ وحید کمرے کے کونے میں بغیر بستر کے ہی سو رہا تھا۔ مجھے اس بے  چارے کا بہت افسوس ہوا۔ میں چاہتی تھی کہ اسے جگا کر اس کے لیےبستر بچھا دوں، مگر علی آغا نے منع کر دیا: ’’رہنے دو، اسے اسی طرح سونے دو۔ یہ لوگ محاذ پر پتھروں پہ سونے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اب وحید اپنے آپ کو ہلٹن ہوٹل میں بطخ کے پروں والے بستر پر محسوس کر رہا ہے۔‘‘

پھر بھی میرا دل نہ مانا۔ میں نے کہا: ’’علی جان، یہ بے چارہ ایک رات کا مہمان ہے۔ اگر چچی یہاں ہوتیں تو وہ اپنے بیٹے کو بغیر بستر کے سونے دیتیں؟‘‘

میں نے اس کے اوپر کمبل ڈال دیا اور علی آغا کو تکیہ دیا کہ وہ اس کے سر کے نیچے رکھ دیں۔

ہم ہمدانیوں کے لیے دزفول کا موسم فروری ہی کے آخر میں اتنا گرم ہو گیا تھا کہ ہم اس موسم میں کولر چلانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ گھر کے مرد ایک پرانا سا کولر لے آئے تھےاور صحن سے اسے سونے والے کمروں کی کھڑکیوں میں نصب کر دیا تھا۔ کولر کے لوہے کے بڑے پائپ ایک اندھے کنویں کی طرح کمرے میں نظر آ رہے تھے۔([6]) رات کو جب ہر طرف سناٹا چھا جاتا تو ہمیں معلوم ہوتا کہ اس کولر کی آواز کتنی وحشتناک اور ناقابل برداشت ہے۔ چند گھنٹے اس آواز کی عادت بناتےبناتے گزرتے تب کہیں جا کر نیند آتی۔

ایک دن صبح جب میں نماز کے لیے بیدار ہوئی تو جیسے ہی ٹیرس کا دروازہ کھولا، تو بھونچکی رہ گئی۔ علی آغا ٹیرس پر سوئے ہوئے تھے۔ بستر بھی نہ تھا اور اوپر بھی کچھ نہ اوڑھ رکھا تھا۔ سر کے نیچے بوٹ اور پاؤں پیٹ کے ساتھ لگا رکھے تھے۔مجھے بہت تعجب ہوا۔ وہ رات کو جلدی لوٹ آئے تھے۔ مجھے بہت افسوس ہوا۔ میں نے جھک کر ان کا کندھا ہلایا: ’’علی، علی جان، اس طرح کیوں سوئے ہوئے ہیں؟‘‘

وہ بیدار ہو کر بیٹھ گئے۔ ابھی روشنی پوری طرح پھیلی نہ تھی۔ مجھے دیکھ کر ہنس دیے، سلام کیا اور میری خیریت دریافت کی۔

میں نے پوچھا: ’’ایسے کیوں سوئے ہوئے ہیں؟‘‘

انہوں نے اپنے بوٹ ایک طرف رکھنے کے لیے اٹھائے تو ان کے نیچے سے ایک بچھو نکلا اور دیوار کی طرف بھاگ گیا۔ کہنے لگے: ’’رات میں کافی دیر تک دروازہ اور شیشے کھٹکھٹاتا رہا مگر تم بیدار نہ ہوئیں۔‘‘

میں نے پوچھا: ’’مگر کیا چابی نہیں تھی آپ کے پاس؟‘‘

جواب دیا: ’’میں نے سوچا کہ فاطمہ خانم بھی تمہارے ساتھ ہال میں سوئی ہوں گی۔ اس لیے ایسے ہی منہ اٹھا کر اندر چلے آنا مجھے مناسب نہ لگا۔‘‘

میں نے ان کے پاس بیٹھ کر ان کا ہاتھ پکڑ لیا: ’’معذرت چاہتی ہوں۔ اصل میں کولر کی آواز اتنی زیادہ تھی کہ میں کچھ سن نہ سکی۔ کافی اذیت ہوئی ہو گی؟‘‘

نہیں، اتفاق سے بہت اچھا رہا۔ چونکہ میں جانتا تھا کہ تم بھی دروازے کے اس طرف سو رہی ہو، اس لیے صبح تک مجھے اچھے خواب آتے رہے۔

اگرچہ اس دن ظہر کے وقت علی آغا محاذ پر چلے گئے تھے مگر موسم گرم ہونے کے باوجود بھی ہم نے اس کے بعد کولر نہ چلایا۔

مارچ کے مہینے کا آخری عشرہ شروع ہو چکا تھا۔ شبِ عید([7]) تھی۔ہماری مشترکہ زندگی کی پہلی عید۔

مردوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ عید ہمارے ساتھ ہی گزاریں گے۔  اس سال ہم نے بڑے ذوق و شوق سے گھر کی صفائی ستھرائی کی تھی۔

اگرچہ دزفول میں ہر وقت خطرے کا ماحول رہتا تھا اور ہر چند گھنٹوں کے بعد دور یا نزدیک سے کسی نہ کسی بم کے پھٹنے کے آواز آتی رہتی تھی، مگر اس کے باوجود ہم میں عجیب خوشگوار قسم کا جوش و جذبہ بھرا ہوا تھا۔ علی الصبح جیسے ہی بیدار ہوتیں، گھر کے در و دیوار کو پونچھتیں اور صاف کرتیں۔ شیشوں کو صاف کرتیں اور چمکا کر رکھ دیتیں۔کارپٹ کو فرش سے اٹھاتیں اور صحن میں رکھ کر پانی، صرف اور برش لے کر شروع ہو جاتیں اور اس کی جھاگ اتارتیں۔ پھر اس کے بعد کتنی مشکل سے چھت پر لے جا کر اسے منڈیر پر لٹکا دیتیں۔

ٹینکوں کی گرومپ گرومپ اور میزائلوں اور راکٹوں کے پھٹنے کی آوازوں میں صحن کو دھوتیں اور بیت الخلاء میں تیزاب ڈالتیں۔

بلیچ اور صرف کی  باس پورے صحن میں پھیل گئی تھی۔ عید کا وقت نزدیک آتے ہی ساری جگہ صاف ستھری اور خوشبودار ہو گئی تھی۔

جب گھر کے تمام کام کاج ختم ہو گئے تو پھر ہم نے ہفت سین کا اہتمام کرنا شروع کر دیا۔ دسترخوان کو ہم نے مہمان خانے کے بالکل وسط میں رکھا اور جو کچھ بھی ہمارے ہاتھ لگتا ہم سمجھتیں کہ دسترخوانِ ہفت سین میں کام آئے گا اور اسے پورے اشتیاق سے دسترخوان پر چن دیتیں: رحل، قرآن،گھڑی، سکہ، سیب، سب کچھ دسترخوان پر چن دیا۔ سبزہ ہمارے پاس نہیں تھا۔ سبزے کی تلاش میں کئی دن سے پورا دزفول چھان مارا تھا لیکن نہ مل سکا۔ ہم نے سوچا کہ سبزے کی جگہ کوئی سبزی رکھ دی جائے۔

میں نے اپنی ٹوکری اٹھائی اور گلی میں نکل گئی۔ ہماری بدقسمتی کہ اس دن سبزی فروش کی دکان بند تھی۔ پہلی بار میں خراماں خراماں کچھ گلیاں اُدھر نکل گئی۔ دور سے ایک عورت دکھائی دی جو اپنے گھر کے سامنے سبزی سے بھرا ایک دسترخوان سجائے بیٹھی تھی۔ میں نے اسے دیکھ کر تیز تیز چلنا شروع کر دیا۔ وہ ایک بوڑھی عورت تھی جس نے کالی آستین دار چادر پہن رکھی تھی اور عربوں کی طرح کالی شال اوڑھ رکھی تھی۔ اس کی ٹھوڑی پر ایک نیلے رنگ کا تل بھی تھا۔ میں نے اسے سلام کیا اور پوچھا: ’’سبزی بیچ رہی ہیں؟!‘‘

اس عورت نے انتہائی بھاری بھرکم لہجے میں کہا: ’’ہاں، کتنے تومان کی چاہیے؟‘‘

’’ایک کلو۔‘‘ اور میں نے اپنے ٹوکری اس کی طرف بڑھا دی۔

وہ اپنے بڑے اور مردانہ ہاتھ سبزی کے نیچے لے گئی اور مٹھیاں بھر بھر کر ٹوکری میں ڈالنے لگی۔ ٹوکری آدھی بھر گئی۔

میں نے کہا: ’’بہت زیادہ ہو گئی ہے۔‘‘

اس خاتون کا چہرہ سپاٹ اور بے خوف تھا۔ سر اٹھائے بغیر اس نے ٹوکری میری طرف بڑھا دی: ’’تم ایک کلو ہی کے پیسے دے دو۔‘‘

میں اس کی بات نہ سمجھ سکی۔ میں نے اپنا ہاتھ سبزی میں ڈالا اور سبزی کے کچھ پتے جو خراب نظر آ رہے تھے، جدا کیے اور اس سے کہا: ’’کتنی گھاس ہے اس میں!‘‘

اس عورت نے اسی سنجیدگی اور روکھے پن سے پتے میرے ہاتھ سے اچک لیے اور انہیں منہ میں رکھ کر چبانے لگی: ’’پرپہن([8]) گھاس نہیں ہے۔ پرپہن کیڑوں کی دشمن ہے، وغیرہ۔ گرم پیاز، خشک پودینہ اور انڈے کے ساتھ ملا کر کھاؤ تو بہت مزیدار ہے۔ تم بھی کھاؤ تا کہ اس کا ذائقہ تمہیں پتا چلے۔‘‘

اس کے بھاری بھرکم لہجے میں کی گئی بات سے میں بڑی مشکل سے صرف اتنا سمجھ سکی کہ پرپہن گھاس نہیں بلکہ سبزی ہی کی ایک قسم ہے جو دل کے لیے مفید ہےاور قے اور بخار کو روکتی ہے۔ یہ بات البتہ بعد میں مجھے معلوم ہوئی کہ ہمدانی اسے خُرفہ کہتے ہیں۔

جب میں سبزی کے پیسے دے رہی تھی تو وہ بوڑھی عورت اسی طرح سبزی سے خرفہ نکال نکال کر کھا رہی تھی۔

جب گھر کو لوٹی تو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی بہت بڑی دریافت کر کے لوٹی ہوں۔ خرفہ کے بارے میں فاطمہ کے سامنے پوری تقریر جھاڑ دی۔

فاطمہ نے کہا: ’’ہم مریانجی([9]) لوگ اسے پھینک دیتے ہیں۔ یہ گھاس ہے۔‘‘

میں نے اس بوڑھی عورت کی طرح کچھ خرفے اٹھائے اور منہ میں رکھ لیے۔ تھوڑے کھٹے اور رس دار تھے۔ مختلف اور نیا سا ذائقہ تھا۔ میں نے کہا: ’’اس کی بہت سی خصوصیات ہیں۔ دل کے لیے مفید ہے۔ قے کو روکتا ہے۔ تم جاؤ۔ کس نے کہا کہ یہ گھاس ہے!‘‘

ہم ہنس دیں۔ اس کے بعد میں اور فاطمہ نے مل کر سبزی صاف کی۔ اس سے پہلے ہم ہمیشہ خرفوں کو پھینک دیا کرتے تھے لیکن اس بار دھونے سے پہلے اور بعد میں ہم نے انہیں لذت لے لے کر کھایا۔

دھلی ہوئی سبزی کو ایک بڑی ڈش میں رکھ کر دسترخوان کے عین وسط میں رکھ دیا۔اس کے بعد دو الگ الگ دیگچوں میں پیاز اور سبزی ڈالی اور تھوڑا سا پانی اس میں ڈال کر دیگچوں کو چولہے پر چڑھا دیا۔ جب پانی ابل گیا تو دیگچوں میں تھوڑے سے انڈے بھی ڈال دیے تا کہ سبزی اور پیاز کے ساتھ ابل جائیں اور کچھ رنگ بھی پکڑ لیں۔

ہمارے پاس نہ صراحی تھی نہ ہی سرخ مچھلی۔([10]) شہر بھر میں ڈھونڈنے کے باوجود بھی نہ ملی تھی۔ ایک بلوری کٹورا ہمارے پاس تھا۔ اسی میں پانی ڈالا اور پلاسٹک کا ایک سرخ پھول پانی کے درمیان میں رکھ دیا۔ کچھ مٹھائی، چاکلیٹ اور پھل بھی عید کے لیے خرید رکھے تھے۔ وہ سب چیزیں بھی ہم نے دسترخوان پر سجا دیں۔

تحویل سال([11]) میں اب وقت بہت تھوڑا رہ گیا تھا۔ ہم نے لباس بدلے۔ ایک خوبصورت سا لباس زینب کو بھی پہنایا۔ اس کے ہاتھ منہ دھلائے اور ربڑ کے ذریعے دو چوہے کی دُمیں اس کے بالوں کے دونوں طرف بنا دیں۔وہ بہت خوبصورت اور پیاری لگنے لگی۔ ہم سب دسترخوان کے کنارے انتظار میں بیٹھ گئے۔

جیسے جیسے تحویل سال کے لمحات نزدیک آتے جا رہے تھے۔ میری پریشانی اور بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ ہمیں معلوم تھا کہ ماہ جنوری اور اس کے بعد سے لے کر ابھی تک آپریشن کربلا ۴، ۵، 6([12]) جاری ہے۔ ہم اپنے مردوں کے لیے مضطرب تھیں۔ کافی دیر تک کھڑی سے لگی ان کا انتظار کرتی رہیں۔ فاطمہ نے پردے کا ایک کونہ اوپر کو اٹھا رکھا تھا اور میں نے دوسرا۔ جیسے ہی کوئی گاڑی گلی میں داخل ہوتی تو ہم خوش ہو جاتیں، لیکن پھر جونہی دیکھتیں کہ گاڑی ساتھ والے ہمسائے کے دروازے کے سامنے، یا سامنے کے کسی مکان کے آگے جا کر کھڑی ہو گئی ہے اور کسی کماندار کی بیوی خوشی خوشی گھر کے دروازے کو کھولتی ہے تو ہم آہ بھرتے ہوئے پردے کے کونے گرا دیتیں اور اپنی اپنی جگہ جا کر بیٹھ جاتیں۔ لیکن تھوڑی دیر بعد پھر فاطمہ ایک کونے کو پکڑ کر کھڑی ہو جاتی اور میں دوسرے کونے کو۔

سال بدل  گیا اور ہم اسی طرح کھڑکی سے لگی انتظار کرتی رہیں۔ اطراف کے گھروں کی بتیاں ایک ایک کر کے گل ہو رہی تھیں۔ ہم آدھی رات کے بعد بھی کافی دیر تک بیدار رہیں۔ ہمارے مرد گھروں کو نہ آئے۔ ہم نے بتیاں نہ بجھائیں۔ دسترخوانِ ہفت سین پر بیٹھ کر  ان کا اتنا انتظار کیا کہ آہستہ آہستہ ہماری پلکیں بوجھل ہونے لگیں اور نیند نے ہمیں اپنی آغوش میں لے لیا۔

۲۱ مارچ 1987؁ کا دن تھا۔  ہم نیند و بیداری کی حالت میں تھیں کہ دروازے پر دستک سنائی دی۔ ہم ہڑبڑا کر اٹھیں اور جا کر پردےکے کونے اٹھا کر دیکھنے لگیں۔ وہ اکٹھے آئے تھے: اجڑے، بکھرے ہوئے بالوں اور بے ترتیب کپڑوں میں۔ (ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی) ایسا لگتا تھا کہ انہوں نے پوری دنیا ہمیں عیدی کے طور پر دے دی ہے۔

ہمارے نوروز کے پہلے مہمان گرد سے اٹے پٹے اور بکھرےہوئے علی الصبح پہنچے تھے۔ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئےتو ہمیں مسکرا کر سلام کیا۔ علی آغا مہارت سے ہاتھ اپنی جیب میں لے کر گئے اور پرفیوم کی ایک سبز شیشی نکالی۔ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا: ’’عید مبارک!‘‘

کتنا دلچسپ اور برمحل تحفہ تھا۔ ہم سب خوش ہو گئے تھے اور وہ ہم سے زیادہ خوش تھے۔ دسترخوانِ ہفت سین کو دیکھتے ہی بچوں کی طرح جوش میں آ گئے۔ علی آغا دسترخوان کے گرد ہو گئے۔ وہ کھڑے تھے اور دسترخوان پر پڑی ایک ایک چیز کو گن رہے تھے۔ میں نے بے چینی سے کہا: ’’علی جان، افسوس ہے کہ سرخ مچھلی ہمیں نہ مل سکی!‘‘

علی آغا نے اپنے رخسار اندر کو سکیڑے اور ہونٹوں کو گول کر کے مچھلی کی طرح کھولنا اور بند کرنا شروع کر دیا: ’’میں تمہارے دسترخوانِ ہفت سین کی مچھلی بن جاتا ہوں۔ اتفاقاً میں آیا بھی کانال ماہی([13]) ہی سے ہوں۔لیکن معذرت کہ سرخ مچھلی کی بجائے بھنی ہوئی مچھلی بن گیا ہوں۔‘‘

مرد انہی کپڑوں میں دسترخوان ہفت سین کے گرد ہو گئے۔ ہم باتیں کرتے اور ہنستے رہے۔ مٹھائی اور چاکلیٹ کھائی اور ان کے چہروں پر عرق گلاب بھی چھڑکا۔

ظہر کے بعد ہم امام زادہ سبزہ قبا چلے گئے۔ زیارت نے ہمیں کافی سکون بخشا اور ہم ایک اچھے احساس سے محظوظ ہوئے۔ اس کے بعد شوش([14]) چلے گئے جہاں نبی خدا حضرت دانیال علیہ السلام کی زیارتگاہ ہے۔ وہاں ہمیں بہت زیادہ روحانی سکون ملا۔

۲۲ مارچ 1987؁ کا دن تھا۔   ہم دز ڈیم گئے۔ دز ڈیم بہت ہی خوبصورت، دیدنی اور  اونچی نیچی جگہوں پر مشتمل ایک خوشگوار ماحول والا ڈیم ہے۔ میں نے کھیلوں والے نیلے اور کالے رنگ کے جوتے پہن رکھے تھے۔  میں ان کے ذریعے ٹیلوں پر دوڑتی ہوئی  چڑھ جاتی۔علی آغا خوش ہو کر کہنے لگے: ’’مجھے ہمیشہ سے یہ بات پسند تھی کہ میری بیوی ایک کھلاڑی کی طرح ہو۔ مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ تم سست نہیں ہو۔ ہمیشہ اسی طرح رہنا۔‘‘

اپریل کا وسط تھا اور گرمیاں شروع ہو چکی تھیں۔ جب صبح ہوتی تو ایسا لگتا کہ سورج چھت پر آن پڑا ہے۔سورج بہت نیچے آ جاتا اور جتنی گرمی اس کے دامن میں ہوتی بغیر کسی کنجوسی کے سارے شہر پر پھینک دیتا۔ گھر کے درو دیوار سے  آگ اور گرمی کی لپٹیں بلند ہونے لگتیں۔

صبح سے لے کر رات تک کولر گھرر گھرر کرتا رہتا لیکن وہ اس گرمی کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہتا۔ ہوا میں بلا کا حبس ہوتا۔ ہم مہمان خانے سے ہلنے کا نام ہی نہ لیتے۔ اکثر ہمسائی خواتین  جو ہمارے ہی شہر کی تھیں اور جن کے شوہر محاذ پر ہوتے تھے، ان کے گھروں میں آنا جانا لگا رہتا تھا، لیکن گرمیاں جیسے ہی شروع ہوئیں، یہ رابطہ بھی منقطع ہو گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ سارے ہی ہماری طرح کولروں کے آگے بیٹھے رہتے ہیں۔ پھر وہ ہمسائے بھی آہستہ آہستہ اپنا سازو سامان سمیٹتے چلے گئے۔

ہر روز ایک خاندان اپنا سامان گاڑی پر رکھتا اور ہمارے دروازے پر خداحافظ کہنے آ جاتا۔

چار دن ہو گئے تھے، زینب کی حالت نہیں سنبھل رہی تھی۔ اسے گرمی لگ گئی تھی جس کی وجہ سے اسہال  اور قے میں مبتلا ہو گئی تھی۔ میری اپنی حالت بھی اس سے مختلف نہ تھی۔ طبیعت کافی بگڑی ہوئی تھی۔ پانی کے علاوہ کچھ کھا پی نہ سکتی تھی۔ جب تک مرد گھروں کو نہ آئے، فاطمہ میری اور زینب کی نرس بن کر رہ گئی تھی۔ علی آغا نے میری حالت دیکھی اور آغا ہادی نے زینب کا لاغر و ضعیف جسم اور اڑا ہوا رنگ دیکھا تو دونوں نے کہا: ’’سازو سامان جمع کرتے ہیں اور انہیں ہمدان چھوڑ کر آتے ہیں۔‘‘

میں ڈٹ گئی۔ میں ہمدان واپس نہیں جانا چاہتی تھی۔ میں یہاں آئی ہی اسی لیے تھی کہ اپنے شوہر کے ساتھ رہ سکوں۔ میں دزفول میں رہنے آئی تھی۔ میں نے علی آغا سے کہا: ’’یہ ہمارا ہی گھر تو ہے۔ ہم کہاں جائیں؟‘‘

علی آغا نے کہا: ’’تمہیں یہاں کی آب وہوا راس نہیں آ رہی ۔ مریض ہو جاؤ گی۔‘‘

میں نے کہا: ’’آپ بھی مریض ہو جائیں گے۔ ہم تو کولر کے آگے بیٹھی رہتی ہیں لیکن آپ تو بیابانوں اور میدانوں میں ہوتے ہیں۔‘‘

علی آغا ہمیں ہمدان لے جانے پر اصرار کر رہے تھے: ’’میرا دل نہیں مانتا کہ تم لوگ ہماری خاطر اس گرمی کی اذیت برداشت کرتی رہو۔ ہمارے کام کی صورتحال کا کچھ اندازہ نہیں ہوتا۔ ممکن ہے، کل یا پرسوں ہم مغربی محاذ پر چلے جائیں۔ ہمدان رہو گی تو ہمیں تمہاری فکر نہیں ہو گی۔‘‘

میں نے آزردگی سے کہا: ’’ اپنے خیال کی فکر ہے مگر میری فکر نہیں ہے آپ کو۔ میں کیا کروں۔ میں یہاں اس لیے آئی ہوں کہ اپنی دینی ذمہ داری پوری کروں۔ میں بھی اس جنگ میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتی ہوں۔‘‘

علی آغا مسکرا دیے: ’’یہاں تک تو تم نے اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے انجام دے لیا ہے۔ ہم شرمندہ ہیں۔ لیکن ہمدان چلی جاؤ گی تو ہمیں تمہاری طرف سے کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔‘‘

میں جتنا رہنے پر ضد کر رہی تھی علی آغا اتنا ہی جانے پر مصر تھے۔ میں کہہ رہی تھی: ’’جب تک آپ لوگ مغربی محاذ پر نہیں چلے جاتے اس وقت تک ہمیں یہیں رہنے دیں۔‘‘ لیکن بالآخر وہ اور آغا ہادی جیت گئے۔ سامان کو چند کارٹنز میں بھرا اور گاڑی میں رکھ کر  جس طرح آئے تھے، اسی طرح واپس ہو لیے۔

اس دن دزفول پر بمباری اور راکٹوں کے حملے شدت پکڑے ہوئے تھے۔ ہم ایک سڑک سے گزرے۔ کچھ منٹ بعد ایک دھماکے کی آواز سنائی دی اور ہمارے پیچھے سے ایک گہرا دھواں ہوا میں بلند ہوا۔

علی آغا نے گاڑی کے ایکسیلیٹر پر پاؤں رکھا ہوا تھا اور جلد از جلد ہمیں اس ہلاکت خیز ماحول سے دور لیے جا رہے تھے۔یہ چند بار جو میں دزفول آئی تھی، آتے وقت ایک عجب سی سرخوشی اور فرحت محسوس ہوئی تھی مگر جاتے وقت میرا دل اضطراب اور رنجیدگی کا شکار ہوا جا رہا تھا۔ میں جانتی تھی کہ ہمدان میں دوری، تنہائی، انتظار اور سخت ایام میرا انتظار کر رہے ہیں۔ میں یہاں رہنا چاہتی تھی۔ میں سوچ رہی تھی کہ شاید میں اچھے طریقے سے اصرار نہ کر سکی۔ ان سب باتوں سے زیادہ غمزدہ کر دینے والی جو بات میرے لیے تھی وہ یہ کہ میں اپنے کانوں سے سن رہی تھی کہ علی آغا اور آغا ہادی واپس جانے کی منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں۔

دزفول سے ہمدان تک کا  آٹھ گھنٹے کا راستہ آٹھ منٹ میں ہی گزر گیا۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ ہمدان پہنچیں، لیکن اس بار تو ہم بہت ہی جلدی پہنچ گئے تھے۔

ہمارے ہمدان میں داخل ہونے سے پہلے بارش ہو چکی تھی اور زمین اور سرسبز درختوں کو اچھی طرح دھو چکی تھی۔ ہوا لطیف تھی اور بہار کے شگوفوں نے ساری جگہ کو معطر کر رکھا تھا۔ بادلوں کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں نے آسمان کو ڈھانپ رکھا تھا۔

ہم نے اپنا ساز و سامان کچھ تو ماں کے گھر کے سٹور میں رکھ دیا اور کچھ چھت پر ممٹی میں چن دیا۔ اس کےبعد منصورہ بیگم سے ملنے چلے گئے۔ منصورہ بیگم کی حالت اچھی نہ تھی۔ انہیں دوبارہ گردوں میں تکلیف ہو رہی تھی۔ اور دوسری بات یہ کہ امیر بھی 24 مارچ سے مغربی محاذ پر جا چکا تھا۔ گھر میں وہ پہلے جیسے رونق نہیں لگ رہی تھی۔

منصورہ بیگم امیر سے بہت زیادہ لگاؤ رکھتی تھیں۔امیر کے محاذ پر جانے سے پہلے میری ساس منصورہ بیگم کی ساری ذمہ داری اور گھر کی دیکھ بھال سب امیر کے کندھوں پر تھی۔ اب اس کے جانے سے گھر سونا سونا اور بے رونق ہو گیا تھا۔

منصورہ بیگم تنہائی اور امیر کی دوری پر روتی اور بے چین رہتی تھیں۔ اور ایسا ہونا بھی چاہیے تھا: مریم تہران میں اپنی گھر گرہستی میں مشغول تھی۔ حاج صادق بھی اپنے محکمانہ کام کاج اور اپنی زندگی میں مصروف تھے۔ ہماری حالت بھی ایسی ہی تھی۔ ان حالات میں امیر کا بھی چلے جانا واقعاً ان کے لیے سخت تکلیف دہ تھا۔

میرا دل منصورہ بیگم اور ان کی تنہائی کو دیکھ دیکھ کر کڑھ رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ارادہ کر لیا کہ جب تک ہمیں کوئی گھر نہیں مل جاتا ہم منصورہ بیگم کے پاس ہی رہیں گے۔

اگلے روز علی آغا محاذ پر چلے گئے۔  دن مسلسل گزرتے چلے جا رہے تھے۔ میری حالت بھی اچھی نہ تھی۔ منصورہ بیگم کے اصرار پر ڈاکٹر کے پاس چلی گئی۔ ۳۰ مئی کی تاریخ تھی۔ ڈاکٹر نے میرے لیے کچھ طبی ٹیسٹ لکھے۔ پھر ان ٹیسٹز کی رپورٹ لے کر ماں کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس گئی۔

ماں نے جیسے ہی خبر سنی تو خوشی سے نڈھال ہو گئیں۔ رات کو مجھے اپنے گھر لے گئیں تا کہ بقول ان کے میری تقویت کا کچھ سامان کر سکیں۔ میں ماں کے گھر زیادہ دن نہ ٹھہری، کیونکہ علی آغا سے وعدہ کیا تھا کہ منصورہ بیگم کے پاس ہی رہوں گی۔ اس رات حاج صادق کے گھر والے بھی میری سسرال میں آئے ہوئے تھے اس وجہ سے گھر میں کافی چہل پہل تھی۔ رات کا علی آغا کا فون آیا۔ میں چاہتی تھی کہ سب سے پہلے میں انہیں یہ خوشخبری سناؤں۔ میں نے فون پکڑا اور ہمیشہ کی طرح سلام و احوال پرسی کی۔ لاکھ کوشش کی مگر انہیں یہ خبر سنانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ میں نے فون پر ہاتھ رکھا اور آہستہ سے کہا: ’’ایک اہم واقعہ ہو گیا ہے۔ پوچھیں تو بتاؤں۔‘‘

لگتا تھا کہ علی آغا بھی ایسے ماحول میں ہیں کہ کھل کر بات نہیں کر پا رہے۔ انتہائی آہستہ آواز میں بولے: ’’تھوڑی رہنمائی کرو۔‘‘

میں نے کہا: ’’وہ چیز آپ کو بھی اچھی لگتی ہے اور مجھے بھی۔‘‘

’’نہیں معلوم تم کیا کہنا چاہ رہی ہو۔ تھوڑی اور مدد کرو۔‘‘

میں نے کہا: ’’وہی۔ اب کیا بتاؤں۔ بعض اوقات ہم اس بارے میں بات بھی کرتے ہیں۔ آپ پسند بھی کرتے ہیں۔۔‘‘

علی آغا سے پہلے چچا ناصر متوجہ ہو گئے۔ کھڑے ہو کر کہنے لگے: ’’اٹھو، سب ہال میں چلتے ہیں۔ فرشتہ خانم اپنے شوہر سے حال احوال کرنا چاہتی ہے۔ آپ سب لوگ تو یہاں چپک کر ہی بیٹھ گئے ہیں۔‘‘

میں انتظار کرنے لگی کہ سب لوگ کمرے سے باہر چلے جائیں۔ میں چاہتی تھی کہ کوئی پاس نہ ہو تو انہیں خبر دوں۔ میں نے خوش ہوتے ہوئے کہا: ’’علی جان، آپ بابا بننے والے ہیں۔‘‘

علی آغا خوشی سے حیرت زدہ رہ گئے۔ تھوڑی سی خاموشی چھائی رہی پھر کہنے لگے: ’’سچ کہہ رہی ہو؟ آہا، مبارک مبارک! فرشتہ، پس یہی وجہ تھی کہ تمہاری حالت خراب تھی؟ اب کیسی ہو؟‘‘

میں نے کہا: ’’طبیعت تو ٹھیک نہیں ہوئی مگر کوئی بات نہیں۔‘‘

اس رات سب کو معلوم ہو گیا تھا۔  میرا خیال ہے کہ چچا ناصر نے سب کو بتا دیا تھا، لیکن کسی نے بھی مجھ سے اس سلسلے میں بات نہ کی تھی۔ کچھ دن بعد میں ماں کے گھر چلی گئی اور علی آغا کو خط لکھا۔ انہوں نے خط کا جواب جلدی بھیج دیا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ میں حتماً ڈاکٹر کے پاس جاؤں اور ہسپتال میں اپنی فائل بنوا لوں۔

میری طبیعت روز بہ روز بگڑ رہی تھی۔  ڈاکٹر اور دوائی کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا۔ اس عرصے میں علی آغا ایک دو بار ہمدان آئے تھے اور کچھ دن رہ کر واپس چلے گئے تھے۔


([1]) ہمدان سے متصل ایک چھوٹا اور خوشگوار آب و ہوا کا حامل شہر۔ صوبہ بھر میں یہاں کی لوگوں کے مذہبی، انقلابی اور ولائی جذبات ضرب المثل ہیں۔مریانج الوند جیسے خوبصورت خطے کے دامن میں واقع ہے۔ اس کی آب و ہوا کافی خوشگوار اور مصفا ہے۔ زرعی محصولات فراواں ہیں۔دفاع مقدس کے دوران اس شہر نے کافی شہداء اس ملک و قوم اور اسلام کی خدمت میں پیش کیے۔اس حوالے سے ہمدان میں اسے اول درجہ دیا جاتا ہے۔

([2]) ایران میں آلو انڈے کے سالن کو ’’کوکو‘‘ کہا جاتا ہے۔

([3]) سُوت کی انٹی۔

([4]) ایران میں پائے جانے والی، لوبیا کی ایک قسم۔

([5]) ہر گھر کے نیچے  ایک اور گھر پر مشتمل تہہ خانے ایرانی گھروں کی تعمیر کا لازمی حصہ ہیں۔  ایران میں بہت کم ہی گھر ایسے ہیں جو تہہ خانے کے بغیر بنائے گئے ہوں۔

([6]) ایران میں گرمیوں کے موسم میں ایک بڑا آبی کولر چھت پر یا صحن کے کسی حصے میں کمرے کی دیوار کے ساتھ نصب کر دیا جاتا ہے۔ لوہے کی چادر کا بنا ایک بڑا پائپ اس کے منہ کے آگے رکھتے ہیں۔ پھر اس پائپ کو مختلف جگہوں سے جوڑ توڑ کر سب کمروں میں پہنچا دیاجاتا ہے۔ یوں ایک ہی کولر سےگھر کا گھر ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔

([7]) یہاں نوروز کی عید مراد ہے۔ نوروز ایرانی قوم کی قومی عید ہے جسے وہ 21 مارچ کو مناتےہیں۔

([8]) ایک جڑی بوٹی کا نام ہے۔

([9]) فاطمہ مریانج شہر سے تھی۔

([10]) نوروز کے دسترخوانِ ہفت سین میں سرخ رنگ کی مچھلی بھی ایک شیشے کی صراحی میں ڈال کر ساتھ رکھی جاتی ہے۔

([11]) ایرانی تقویم کے مطابق وہ لمحہ جب ان کا نیا سال شروع ہوتا ہے۔ عیسوی تقویم کے مطابق ۲۰ اور ۲۱ مارچ کی درمیانی شب کے نصف میں یہ وقت ہوتا ہے۔

([12]) آپریشن کربلا 4؛ 24 دسمبر  1986؁ کو بصرہ اور ابوالخصیب کے عمومی علاقے میں، آپریشن کربلا 5؛ 9 جنوری  1987؁ کو بصرہ (شلمچہ) کے عوامی علاقے میں اور آپریشن کربلا۶: 13 جنوری  1987؁ کو کرمانشاہ (نفت شہر) کے عوامی مقامات پر شروع کیا گیا اور تینوں آپریشن کچھ عرصے تک جاری رہے۔  آپریشن کربلا 5 میں بہادری، جرأت اور کامیابیوں کی داستانیں رقم ہوئیں۔ برادر محسن رضائی نے اس آپریشن کے بارے میں کہا تھا: ’’آپریشن کربلا 5 میں ہم نے وہ سب کچھ حاصل کیا جو ہم چاہتے تھے۔‘‘

([13]) ایران عراق جنگ کے دوران عراقی فوج نے شلمچہ کے محاذ پر کافی زیادہ طبیعی اور مصنوعی دفاعی رکاوٹیں بنا رکھی تھیں۔ نہر ماہی (کانال ماہی) آٹھویں بڑی رکاوٹ تھی۔ مچھلیوں کی پرورش کرنے والی یہ نہر 29 کلومیٹر لمبی، ایک کلومیٹر چوڑی اور تقریباً اڑھائی میٹر گہری تھی۔ یہ نہر جنگ سے پہلے بنائی گئی تھی، لیکن یہ نہر بھی ایران کے بہادر فوجیوں کے آہنی ارادوں کو نہ توڑ سکی۔

([14]) ایک علاقے کا نام

نواب باب

سیب گلاب

۲۵ جون 1987؁ کا دن تھا۔میں ماں کے گھر میں تھی۔ دن برے اور طبیعت گری ہوئی تھی۔ ماں ہمیشہ کی طرح سلائی کے  کارخانے میں تھیں اور محاذ پر گئے لوگوں کو مدد پہنچانے کے کاموں میں مشغول تھیں۔ ظہر کے نزدیک میرا چچازاد وحید پریشانی اور بدحواسی کی حالت میں ہمارے گھر  آیا۔وحید کا اس افراتفری اور بدحواسی کی حالت میں ہمارے گھر آ جانا ہی اس بات کے لیے کافی تھا کہ دنیا بھر کے خطرناک خدشے میرے ذہن پر حملہ کر دیں۔ میں نے پریشان ہو کر پوچھا: ’’کیا ہوا؟ وحید، سچ بتانا۔ علی آغا کو تو کچھ نہیں ہوا؟‘‘

وحید شدتِ غم سے بول نہیں پا رہا تھا۔ کہنے لگا: ’’فرشتہ باجی، اچھی خبر نہیں ہے۔ علی آغا نے کہا ہے کہ میں آپ کو آرام آرام سے بتاؤں۔‘‘

میں نے کہا: ’’جلدی بتاؤ! میرا کلیجہ منہ کو آ رہا ہے!‘‘

اس نے کہا: ’’پہلے وعدہ کریں کہ پریشان نہیں ہوں گی۔‘‘

میں نے کہا: ’’تجھے خدا کی قسم، اب بتا بھی چکو۔‘‘

اس نے کہا: ’’علی کے علاوہ کسی کو خبر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ آپ ان کی ماں کے گھر چلی جائیں۔‘‘

میں نے اضطراب اور خفگی سے کہا: ’’بتاتے ہو یا نہیں۔ کیوں پہیلیاں بجھوا کر تکلیف دے رہے ہو؟‘‘

اس نے رنجیدگی سے کہا: ’’بتاتا ہوں، فرشتہ باجی، امیر آغا شہید ہو گئے ہیں۔ علی آغا نے کہا تھا کہ آپ کو اچانک نہ بتاؤں۔‘‘

اتنا کہہ کر وہ مجھ سے پہلے رونے لگا۔ میں بھونچکی رہ گئی تھی۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کروں۔ مبہوت ہی تو ہو گئی تھی۔ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کسی نے زور سے میرے سر پر ہتھوڑا مار دیا ہو۔ میں حیران و سرگردان تھی۔ وحید کیا کہہ رہا تھا؟ وہ کیوں رو رہا تھا؟ موسم کافی گرم تھا۔

غم کی شدت سے میری طبیعت اور بگڑ گئی اور میں بیت الخلاء کی طرف دوڑی۔میں قے کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ بے یقینی کی سی حالت میں امیر کے بارے میں بھی سوچ رہی تھی۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ میرا سر بھاری ہو چکا تھا۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ میں خواب دیکھ رہی ہوں۔ یعنی امیر اتنی جلدی چلا گیا تھا؟!

صحن میں لگی پانی کی ٹونٹی ٹھنڈی تھی۔ میں جھکی اور اپنا چہرہ اس کے نیچے رکھ دیا۔ مجھے خواب سے بیدار ہو جانا چاہیے تھا، لیکن میں اتنی ہوشیار واقع نہ ہوئی تھی۔ ٹونٹی کو بند کیا اور اپنا چہرہ خشک کیا۔ علی آغا کو محاذ پر گئے ایک مہینہ ہو چکا تھا۔ اب جب کہ وہ لوٹے بھی تو کس حالت میں! میں نے کپڑے بدلے اور ساس کے گھر چلی گئی۔ منیرہ خانم بھی وہیں تھیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ انہیں خبر پہنچ چکی ہے، لیکن اس بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ ہم نے رنجیدگی اور آزردگی کی حالت میں ایک دوسرے کو سلام کیا اور احوال پرسی کی۔ منصورہ بیگم کی حالت اچھی تھی۔ ان کا رویہ معمول کی مطابق تھا۔ لگتا تھا کہ انہیں اس ماجرے کی اصلاً خبر نہیں ہے۔وہ میرے لیے چیری کا شربت لینے باورچی خانے میں چلی گئیں۔

اسی وقت علی آغا، چچا ناصر اور حاج صادق گھر میں داخل ہوئے۔ میرا دل علی آغا کے لیے پریشان ہو چکا تھا۔ وہ باورچی خانے میں گئے اور منصورہ بیگم کو بوسہ دیا۔ وہ بہت ضعیف اور خمیدہ ہو چکی تھیں۔  علی آغااور حاج صادق دونوں نے اپنی ماں کا ہاتھ تھام رکھا تھا اور چچا ناصر کے ساتھ سونے کے کمرے میں چلے گئے۔ مجھے اپنے دل کی دھرکنیں سنائی دے رہی تھیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ دل اچھل کر حلق میں آ گیا ہے۔پورا گھر مغموم اور بوجھل ہو چکا تھا۔ میں سوچ رہی تھی کہ اب علی آغا کو کتنا مشکل کام انجام دینا پڑ رہا  ہے۔

دل، منصورہ بیگم کے لیے کڑھ رہا تھا۔ میرے لیے سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔ جی چاہ رہا تھا کہ اٹھوں اور گھر سے باہر بھاگ جاؤں۔

اچانک میری ساس کے گریہ کی آواز بلند ہوئی۔ وہ آہ و فریاد کر رہی تھیں اور امیر کو پکار رہی تھیں۔ سبھی جانتے تھے کہ وہ امیر کو سب سے زیادہ چاہتی ہیں۔ علی آغا کمرے سے باہر آ گئے۔ منصورہ بیگم کے نالہ و فریاد کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی: ’’امیر، میرے جگر کے ٹکڑے، امیر، میرے پیارے، امیر، میری جان، میری زندگی۔ خدایا، میری زندگی چلی گئی! میرا پیارا امیر چلا گیا! خدایا۔۔۔‘‘

منصورہ بیگم کے بین جگر چیر رہے تھے۔ میں روتی ہوئی علی آغا کے آگے آ گئی اور پوچھا: ’’علی آغا، سچ بتائیں، کیا ہوا ہے؟‘‘

ان کی آنکھیں، چہرہ اور گلہ سرخ ہو چکے تھے، لیکن وہ گریہ نہیں کر رہے تھے۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ انہوں نے مجھے ابھی دیکھا ہے۔ ایک عجیب سی حالت اور غمگین مہربانی کے ساتھ میری طرف نگاہ کی: ’’امیر، میرا بھائی، شہید ہو گیا۔‘‘

منصورہ بیگم کمرے سے باہر کی طرف بھاگیں اور کہا: ’’علی، علی، ٹھہرو۔ سچ بتاؤ۔ اس وقت امیر کہاں ہے؟!‘‘

گریہ علی آغا کے حلق میں اٹک کر رہ گیا تھا، لیکن وہ رو نہیں رہے تھے۔ انہوں نے اپنی بانہیں کھولیں اور منصورہ بیگم کو گلے لگا لیا۔ وہ ان کے سر اور کندھے سہلا رہے تھے اور ان کے کان میں سرگوشی کر رہے تھے: ’’ماں، اپنے آپ کو سنبھالیے! حضرت زینبؑ اور حضرت زہراؑ سے مدد لیجیے۔ خدا سے مدد کی درخواست کیجیے۔ ماں، صبر کیجیے۔ ماں،  امیر اس وقت شہدائے کربلا کے ہمراہ ہے۔ امیر نے امام حسین علیہ السلام کو لبیک کہی ہے، ہمیں بھی لبیک کہنا چاہیے۔ آپ، میں، بابا سبھی لبیک کہیں۔ ماں، امیر کا خدا کے ہاں کم مقام نہیں ہے۔ ان کا مرتبہ کم نہ کیجیے۔ پہاڑ کی طرح مضبوط بنیے۔ یہ سب امتحان ہے۔ جو چیز آپ نے خدا کی راہ میں دے دی ہے اس پر گریہ نہ کیجیے، بلکہ فخر کیجیے۔ ماں، خدا کی قسم، آپ آج حقیقی مسلمان ہو گئی ہیں۔‘‘

منصورہ بیگم کی تھوڑی ڈھارس بندھی۔ علی آغا نے میری طرف رخ کیا اور کہا: ’’جہاں تک ہو سکے اپنے رونے پر قابو رکھو۔ سروں کو بلند کر کے رکھو۔ امیر کے لیے آنے والے مہمانوں کو عزت و افتخار کے ساتھ خوش آمدید کہو۔ آج کے بعد سے ہماری ایک ایک حرکت دشمن کی تیز نظروں میں ہے۔ عجز و کمزوری کا مظاہرہ ہر گز نہ کرو۔‘‘

آہستہ آہستہ دوستوں، جاننے والوں اور پڑوسیوں کو معلوم ہو گیا اور وہ تبریک و تسلیت کے لیے میری ساس کے گھر آنا شروع ہو گئے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ امیر اتنا جلدی شہید ہو جائے گا۔ اب سب لوگوں کو کو امیر سے زیادہ علی آغا کی فکر کھائے جا رہی تھی جو جنگ کے آغاز ہی سے محاذ پر مصروفِ پیکار تھے۔ منصورہ بیگم رنجیدہ تو تھیں لیکن کوشش کر رہی تھیں کہ دوسرے شہداء کی ماؤں کی طرح اپنے گریے پر قابو رکھیں اور صبر کریں۔ ماں، بابا اور میری بہنیں بھی پہنچ چکی تھیں۔ گھر کے درودیوار سیاہ پوش ہو گئے تھے۔ امیر کی تصویر پر کالا ربن لگا کر اسے دیوار پر ٹانگ دیا گیاتھا۔  گھر کے کونے کونے سے غم اُمڈ رہا تھا۔ ہمسائے مدد کے لیے باورچی خانے میں جاتے، ٹھنڈا پانی اور زعفران کا شربت بناتے اور کھجوروں اور بسکٹوں کے ذریعے مہمانوں کی تواضع کر رہے تھے۔  بھنے ہوئے آٹے اور حلوے کی خوشبو سارے گھر میں پھیلی ہوئی تھی۔  میں پریشان ، مریض اور بے حال تھی۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ کسی تنہائی میں چلی جاؤں اور آرام و سکون سے خوب گہری نیندسو جاؤں اور پھر جب بیدار ہو کر اٹھوں تو امیر اسی مہربانی، محبت، نشاط اور زندگی سے بھرپور وجود کے ساتھ کھڑا ہو۔ امیر اپنی کالی گول عینک کے ساتھ جب بھی مجھےدیکھتا تو ہنس دیتا  اور ’’فرشتہ بہن، فرشتہ بہن‘‘ تو ہر وقت اس کے وردِ زبان رہتا۔

رات کے وقت مریم، اس کی سسرال، حاج بابا، خانم جان، محمد ماموں، خالہ فاطمہ اور کچھ تہرانی رشتہ دار بھی روتے دھوتے آ گئے۔

ان کے نالہ و شیون نے گھر میں عاشورا کا ماحول بنا دیا تھا۔ امیر سب رشتہ داروں کو اچھا لگتا تھا اور حاج بابا اور خانم جان کو تو سب سے زیادہ پیارا تھا۔

اگر علی آغا نہ ہوتے تو صبح تک ہم سب کی ہمت جواب دے چکی ہوتی۔ وہ کبھی منصورہ بیگم کے سر کو اپنی آغوش میں لیتے اور ان سے باتیں کرتے اور کبھی چچا ناصر کے پاس بیٹھ کر اپنا سر ان کے کندھوں پر رکھ کر ان کی دلجوئی کرتے۔  کبھی حاج بابا اور خانم جان کو گلے لگا لیتے اور ان کے ساتھ باتیں کر کے انہیں تسلی دیتے، لیکن جب میرے پاس آتے تو ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے: ’’جنگ کےآغاز سے لے کر اب تک میرے دوستوں اور ہمراہیوں میں سے ایک یونٹ کے لگ بھگ افراد شہید ہو چکے ہیں؛ لیکن میں ابھی تک زندہ ہوں۔ امیر کو تو محاذ پر گئے ہوئے چار ماہ ہی ہوئے تھے، جبکہ میں سات سال سے محاذ پر ہوں۔ یہ انصاف نہیں ہے! مگر میں نے ایسا کیا کر دیا ہے کہ خدا مجھے قبول نہیں کر رہا اور میری بجائے امیر کو اتنی جلدی اپنے پاس بلا لیا۔ ایسا کیوں ہے کہ امیر اتنی جلدی شہید ہو جائے اور میں ابھی تک زندہ رہوں؟!‘‘

میں سن رہی تھی اور دل غم سے نڈھال ہو رہا تھا: ’’علی، ناشکری نہ کریں! بقول آپ کے اپنے، خدا کی رضا پر راضی رہیں۔‘‘

اگلی صبح گلی میں فوج اور دوسرے اداروں کی گاڑیوں اور جیپوں اور ان بسوں کا ہجوم لگ گیا جو گھر کے صحن اور گلی میں کھڑے لوگوں کو باغ بہشت لے جانے کے لیے آئی تھیں۔

علی آغا بھورے رنگ کی قمیص پہنے ہوئے تھے جو ان کے بدن پر ہوا سے پھڑپھڑا رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ فقط ان کے کندھوں کی ہڈیاں ہی تھیں جنہوں نے قمیص کو سہارا دے رکھا تھا۔ ان کا چہرہ پُر تھکن، لاغر اور  زرد ہو چکا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ رات بہت مشکل سے گزاری ہے۔ کل سے ہم میں سے کسی نے بھی نہ دن کھانا کھایا تھا، نہ رات کا اور نہ ناشتہ۔

علی آغا نے منصورہ بیگم کو بانہوں میں لے رکھا تھا اور مسلسل ان کے کانوں میں کہے جا رہے تھے: ’’ماں، خود کو سنبھالیے۔ حضرت زینبؑ جیسا بننے کی کوشش کیجیے۔ آپ کا دھیان دشمنوں کی طرف ہونا چاہیے۔‘‘

مریم خود پر قابو نہیں رکھ پا رہی تھی۔ بہنوں والے غم میں ڈوبے اشک بہا رہی تھی۔ علی آغا کہہ رہے تھے: ’’مریم جان، رؤو، مگر اونچی آواز سے نہیں۔ دھیان رکھو، کوئی نامحرم تمہاری آواز نہ سن لے۔‘‘

میں نے جس وقت سے امیر کی شہادت کی خبر سنی تھی میری حالت زیادہ خراب ہو گئی تھی۔ابھی تک اُبکائیاں آ رہی تھیں۔میں غسل خانے کی طرف دوڑتی ہوئی جاتی۔ علی آغا نے دیکھا تو پوچھا: ’’کیا ہوا؟ ابھی تک تم ٹھیک نہیں ہوئیں؟ اگر چاہتی ہو تو کسی سے کہتا ہوں کہ تمہیں ہسپتال لے جائے۔‘‘

میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ان حالات میں علی آغا کا میری طرف دھیان بھی ہو گا چہ جائیکہ وہ مجھے ہسپتال بھیجنے کی بات کریں۔ میں نے کہا: ’’نہیں، کچھ نہیں ہے۔ ابھی ٹھیک ہو جاؤں گی۔‘‘

موسم گرم تھا۔ گرمی مجھے زیادہ تنگ کر رہی تھی۔ آہستہ آہستہ ہم سب گھر سے باہر آ گئے۔کچھ ہمسائے گھر ہی میں رہ گئے تا کہ جو مہمان واپس لوٹ رہے تھے ان کے لیے ٹھنڈے پانی، شربت  اور حلوے کا اہتمام کر سکیں۔

میں ماں اور بابا کے ساتھ نیچے چلی گئی۔ لوگوں کو ہجوم جو امیر کی تشییع جنازہ کے لیے آیا تھا سب بسوں یا اپنی ذاتی گاڑیوں پر سوار ہو کر باغ بہشت کی طرف جا رہے تھے۔ گھر سے لے کر باغِ بہشت تک کا راستہ فوجی گاڑیوں اور جیپوں سے بھرا ہوا تھا جن میں اکثر گاڑیوں کے شیشوں اور دوسری جگہوں پر امیر کی تصویریں، سیاہ کپڑے اور پھول سجے ہوئے تھے۔

جب ہم باغِ بہشت پہنچے توفوجی میوزک بینڈ بج رہا تھا اور بہت سے فوجی اور سپاہی دونوں اطراف میں کھڑے تھے۔ امیر کا تابوت پرچم اور پھولوں کے ساتھ مزین کر دیا گیا تھا اور احاطے کے وسط میں غسال خانے کے سامنے رکھا ہوا تھا۔فوجیوں اورسپاہیوں نے احترام کی علامت کے طور پر اپنے ہاتھ پیشانیوں پر رکھے ہوئے تھے اور گہرے سکوت کے ساتھ عزاداری کر رہے تھے۔

امیر کا تابوت دیکھتے ہی میرے پاؤں لرز گئے۔ منصورہ بیگم، چچا ناصر، حاج صادق اور علی آغا غسال خانے کی بالکنی کے نیچے کھڑے تھے۔ منصورہ بیگم اور مریم کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا، لیکن وہ گریہ نہیں کر رہی تھیں۔

میرے پاؤں لرز رہے تھے۔ ماں نے مجھے بازوؤں کے نیچے سے پکڑ لیا۔ مجھے وہ دن یاد آ گیا جب مصیب مجیدی کی تشییع جنازہ کے لیے ہم لوگ آئے تھے۔ میوزک بند ہو گیا اور قرآن مجید کی تلاوت کی آواز لاؤڈ سپیکر سے ابھرنے لگی۔ ایک قاری صاحب بالکنی پر کھڑے قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے۔ہجوم لحظہ بہ لحظہ بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ حاج صادق، علی آغا، چچا ناصر، امام جمعہ، ہمدان کے گورنر اور کچھ دوسرے لوگ بالکنی  پر چڑھ گئے۔ جب تلاوت ختم ہوئی تو نظامت کے فرائض انجام دینے والے شخص  نے امام جمعہ([1]) سے درخواست کی کہ وہ ڈائس پر تشریف لائیں۔ امام جمعہ اور گورنر نے تقریر کی۔ ان کے بعد علی آغا کی باری آئی۔

باغ بہشت کا موسم گرم تھا۔ میری حالت بد سے بدتر ہو تی چلی جا رہی تھی۔ علی آغا تقریر کر رہے تھے:

’’حسینؑ پر سلام اور اصحابِ حسینؑ پر سلام۔ میں ہمدان کے شہید پرور لوگوں کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں کہ وہ امیر چیت سازیان کی تشییع جنازہ کے لیے تشریف لائے ہیں۔ آپ لوگوں نے بہت زحمت کی۔  لیکن حاضرین، میں آپ سے اس سے بھی زیادہ کی امید رکھتا ہوں۔ امام کو تنہا نہ چھوڑیں۔ امام کے فرامین کو دل و جان سے قبول کریں۔ امام نے تین سال پہلے ہم سے چاہا تھا کہ محاذوں کو خالی نہ چھوڑیں اور انہوں نے دفاع کو واجب قرار دیا تھا۔ ہم اپنے لیے مختلف قسم کے محاذ نہ بنائیں۔ محاذ فقط خط مقدم (Front Line) ہے اور اس پر حاضر رہنا ہم سب پر واجب ہے۔ آپ ایسا موقع نہ آنے دیں کہ امام ایک بار پھر منبر پر جائیں اور آپ لوگوں سے محاذ پر جانے کی بار بار درخواست کریں۔ اگر ہم ایک اچھے مجاہد اور فوجی ہیں تو امام نے ایک بار فرما دیا ہے اور یہ ہمارے لیے کافی ہے۔ ہمیں دنیا پر یہ ثابت کر دینا چاہیے کہ جو کچھ بھی امام کہتے ہیں ہم دل و جان سے اسے قبول کرتے ہیں۔ اپنے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں اسلحہ پکڑیں اور باطل کے خلاف حق کے مورچوں کی طرف حرکت کریں اور بلند آواز سے پکاریں: فتح یابی تک جنگ اور فقط جنگ۔‘‘

حاضرین نے بیک زبان پکار کر جواب دیا: ’’فتح یابی تک جنگ اور فقط جنگ۔‘‘

باغ بہشت میں اتنا ہجوم تھا کہ ہلنے کی جگہ نہیں تھی۔ میری سانس سینے میں ہی اٹکی ہوئی تھی۔ ماں سے کہا: ’’ماں، میری طبیعت بہت خراب ہو رہی ہے۔‘‘

ماں نے میرا ہاتھ پکڑا اور جیسے تیسے ہو سکتا تھا راستہ بنایا اور ہم گلزار شہداء کی طرف چلے گئے۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھے۔ پانی کی بوتل ماں کے پاس ہی تھی۔ انہوں نے اس میں سے پانی کا ایک چلو بھرا اور اس سے میری چہرہ دھو دیا۔

علی آغا کی آواز لاؤڈ سپیکر پر گونج رہی تھی: ’’میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میرا بھائی دشمنانِ خدا کے ہاتھوں شہید ہوا ہے نہ کہ خدا کے جھوٹے دوستوں کے ہاتھوں۔ امیر چار ماہ محاذ پر گیا اور شہید ہونے میں ہم سب پر سبقت لے گیا۔‘‘

ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ میں بید کے درخت کے نیچے بیٹھی تھی۔ ماں اِدھر اُدھر گھوم پھر کر مختلف قبروں پر فاتحہ پڑھ رہی تھیں۔ تھوری دیر بعد لاؤڈ سپیکر کی آواز بند ہو گئی۔ ماں میرے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ’’میرا خیال ہے کہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ تم یہیں بیٹھو، میں جاتی ہوں اور نماز پڑھ کر واپس  آ جاتی ہوں۔‘‘

ماں کے جانے سے تھوڑی دیر بعد ہجوم کی آواز بلند ہوئی:

لاشے شہداء کے دفنانے اے مہدیِؑ دوراں! آ جاؤ([2])

امیر کا تابوت فوجیوں کے ہاتھوں پر حرکت میں آگیا۔ لوگ تابوت کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ میں اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی اور ہجوم پر نظریں گاڑ لیں۔ علی آغا اور حاج صادق آگے آگے تابوت کے نیچے تھے۔جب تک میں آگے بڑھنے کا ارادہ کرتی، میرے آس پاس کی جگہ ان لوگوں سے پُر ہو گئی جو لا الہ الا اللہ کہتے ہوئے ہر طرف سے دوڑے چلے آ رہے تھے۔ میں ہجوم میں پھنس کر رہ گئی۔ نہ آگے بڑھنے کا راستہ تھا اور نہ پیچھے ہٹنے کا امکان۔ جہاں تک نظر جاتی تھی عورتیں اور مرد ہی نظر آ رہے تھے جو تابوت کی طرف بھاگے ہوئے آتے اور پکارتے چلے جا رہے تھے:

’’یہ بکھرا ہوا پھول کہاں سے آیا ہے

یہ پھول کربلا کے سفر سے آیا ہے

یہ ہمارا بکھرا ہوا پھول ہے

جو ہمارے رہبر کو ہماری طرف سے ہدیہ ہے۔‘‘([3])

گرمی اور لوگوں کا ہجوم میرے لیے شدید اذیت کا باعث بنے ہوئے تھے۔ کمزوری سے میرے لیے سانس لینا مشکل ہو رہا تھا اور میرے ہاتھ پاؤں لرز رہے تھے۔ یہ سوچ سوچ کر کہ اس تابوت میں امیر کا لاشہ پڑا ہے میری حالت اور بری ہو رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ دنیا ختم ہو گئی ہے اور مجھے کوئی قبر کی طرف کھینچے لیے جا رہا ہے۔ میں نہیں جانتی کہ اس وقت ہونے والی اپنی کیفیات کو کیسے بیان کروں، لیکن اتنا ضروری جانتی ہوں کہ اس وقت میرے اردگرد کی چیزیں سیاہ، مردہ، بے جان اور غم آلود ہو چکی تھیں۔ دنیا میری نظروں میں تاریک ہو گئی تھی۔ میرے لیے کچھ بھی اہم نہ تھا، کسی چیز کی میرے لیے کوئی قیمت نہ رہی تھی۔ کسی بھی چیز کی۔۔۔

لوگ بغیر دھیان دیے آگے کی طرف دوڑ رہے تھے اور مجھے روزِ محشر کی یاد دلا رہے تھے۔ ایک بسیجی بوڑھا شخص اپنے کندھوں پر بندھے اسٹیل کے گلاب پاش کے ذریعے ہمارے چہروں اور سروں پر عرق گلاب چھڑک رہا تھا۔

سورج بالکل سروں پر شدت سے چمک رہا تھا اور زمین کو کباب کیے جا رہا تھا۔ آسمان بغیر بادلوں کے صاف اور گرم تھا۔ باغ بہشت اگرچہ اس ہجوم سے بھرا ہوا تھا مگر پھر بھی تنہا، غمگین اور رنجیدہ تھا۔ آوازیں ایک دوسرے میں مخلوط ہو گئی تھیں اور اتنی بھیڑ میں کوئی آواز سنائی نہ دیتی تھی؛ نہ کوئی پرندہ، نہ کوئی خوشی کی آواز، نہ باد نسیم۔ امیر آزاد اور رہا ہو کر اپنے پر پھڑپھڑاتا ہوا چلا گیا تھا اور یہاں ماتم  نے پوری فضا کو اپنے حصار میں لے لیا تھا۔

میں ایک قبر کے کنارے بیٹھ گئی؛ قبر کا کتبہ قدیم اور خاکی رنگ کا تھا۔ اس کتبے کا نوشتہ ہوا اور بارش کے اثر سے مٹ چکا تھا۔ ایروکیریا کا درخت جو قبر پر سایہ فگن تھا چالیس پچاس سال پرانا لگ رہا تھا۔ اس کے جلے ہوئے پتے پانی کے نہ ہونے اور گرمی کی وجہ سے سیاہ اور بھدے ہو چکے تھے۔ میں اس درخت کے سائے میں بیٹھ گئی اور مختلف قسم کی بکھری ہوئی سوچوں نے میرے دماغ پر حملہ کر دیا۔

یقیناً چند گھنٹے گزر گئے تھے کیونکہ جو لوگ جمع ہو گئے تھے وہ آہستہ آہستہ بادلوں کے ٹکڑوں کی طرح جدا ہوئے اور چلے گئےتھے۔ سورج کی کاٹ کھانے والی دھوپ جوبن پر تھی اور قبروں سے بخارات اٹھ رہے تھے۔

بسیں اپنے دروازے کھولے قطار میں کھڑی تھیں اور لوگ ان کی طرف دوڑے دوڑے چلے جا رہے تھے۔ میں نے بھی اپنے آپ کو ایک بس تک پہنچایا۔

میں امیر کی مہربان اور محبت کرنے والی روح کو محسوس کر رہی تھی جو ہنستی مسکراتی میرے سر کے اوپر پرواز کر رہی تھی۔

میں جس بس میں سوار ہوئی اس میں گلاب کی خوشبو آ رہی تھی۔ بس میں کالی چادریں اوڑھے بیٹھی خواتین شہداء کی پاک ارواح کے لیے بات بات پر صلوات پڑھ رہی تھیں۔ دوسری قطار میں ایک نشست خالی تھی۔ میرا سر چکرا رہا تھا اور میں سونا چاہتی تھی۔

میں نے آنکھیں موند لیں اور کہا: ’’امیر، خدا حافظ!‘‘

گاڑی چل پڑی اور صلوات کی آواز بلند ہو گئی۔ گاڑی کے عقبی شیشے سے جب میں نے قبر کے گرد کھڑے لوگوں کو دیکھا تو ایک خوشگوار سی حیرت ہوئی۔ میں نے آنکھیں بند کیں، پھر کھولیں، پھر بند کر لیں اور زیرِ لب کہا: ’’خدا حافظ، امیر جان، معاف کرنا کہ میں تمہارے لیے کچھ نہ کر سکی۔ لیکن تم وہاں مجھے مت بھولنا۔‘‘

ظہر کا ووقت تھا اور گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ میری طبیعت بگڑی ہوئی تھی لیکن میں نے اپنے آپ کو سنبھال رکھا تھا۔ مجھے شرم محسوس ہوتی تھی کہ ان سب عورتوں اور مردوں کے سامنے بار بار غسل خانے کی طرف جاؤں۔ نہ ہی اٹھ سکتی تھی اور نہ ہی کوئی مدد کر سکتی تھی اور نہ ہی ایسی حالت تھی کہ ایک جگہ بیٹھ سکوں۔ سونے کے کمرے میں ، کہ جس کی کھڑی گلی میں کھلتی تھی، میں نے چادر اپنے چہرے پر کھینچی اور سو گئی۔ کچھ خواتین بھی کمرے میں تھیں، ان میں سے ایک کہنے لگی: ’’تم نے دیکھا کہ علی آغا نے اپنے بھائی کی قمیص سے ایک بٹن نوچ لیا ہے؟‘‘

دوسری عورت نے کہا: ’’نہیں تو، میں نے نہیں دیکھا، کیوں؟‘‘

’’کہتے ہیں کہ بٹن ضمانت کے طور پر رکھ لیا ہے۔‘‘

دوسری عورت نے تعجب سے پوچھا: ’’ضمانت؟‘‘

میں نے اپنے کان تیز کر لیے۔

’’ہاں، وہ محفوظ ہے۔ میری زبان پھوٹے، کہتے ہیں کہ اس نے اپنے بھائی کی قمیص کا بٹن اکھاڑ لیا ہے۔ اس نے اسے قسم دی تھی کہ جتنا جلدی ہو سکے اسے اپنے ساتھ لے جائے گا تا کہ وہ شہید ہو جائے۔‘‘

میں اٹھ کر بیٹھ گئی اور غصے سے دونوں عورتوں کی طرف دیکھنے لگی۔ میں انہیں پہچانتی تھی؛ منصورہ بیگم کی رشتہ دار تھیں۔ مجھے اپنے دل کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ وہ پھر اچھل کر حلق میں آ گیا تھا۔

میں نے پوچھا: ’’کیا ہوا؟‘‘

عورتوں نے اب جو مجھے دیکھا تو حواس باختہ ہو گئیں اور شرمندہ ہو کر کہنے لگیں: ’’کچھ بھی نہیں!‘‘

ان بے چاریوں کو میری طرف سے بالکل ایسی توقع نہ تھی۔ میں اٹھی اور ہال میں چلی گئی۔ عورتیں دسترخوان لگا رہی تھیں اور مرد دسترخوان پر سجانے کے لیے روٹی، سبزی، ٹھنڈے مشروبات وغیرہ لا لاکر سیڑھیوں سے اندر کی طرف پکڑا رہے تھے۔

ماں بھی دروازے کے سامنے سب کا ہاتھ بٹا رہی تھیں۔ میری آنکھوں میں اندھیرا چھا رہا تھا اور آس پاس میری نظروں میں گھوم رہے تھے۔ ماں نے مجھے دیکھا تو دوڑ کر آگے بڑھیں اور کہا: ’’فرشتہ جان، آ گئی ہو۔ کہاں تھیں؟ طبیعت کیسی ہے؟‘‘

میں نے غسل خانے کا دروازہ کھولا۔ ماں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے غسل خانے میں لے گئیں جو گھر کے بڑے دروازے کے بالکل سامنے تھا۔ کباب کی خوشبو میری ناک تک پہنچی تو میری حالت تہہ و بالا ہو گئی۔ ماں نے کچھ چلو پانی کے بھر کے میرے منہ پر پھینکے اور مجھے کھل کر قے کرنی دی۔جب میری حالت کچھ بہتر ہو گئی تو میں نے اپنا سر ان کے سینے پر رکھ دیا اور اسے سونگھنے لگی۔ ماں کی خوشبو کتنی اچھی تھی۔ یہ خوشبو میری طبیعت کو باغ باغ کر دیتی تھی۔ ماں ہنس کر کہنے لگیں: ’’اب چاپلوسی بند کرو۔ آؤ چلتے ہیں۔‘‘ پھر میرا ہاتھ پکڑ کر سونے کے کمرے میں لے گئیں۔

ماں پنکھا لے آئیں اور میرے سامنے رکھ کر اسے چلا دیا۔ میرے مانتو([4]) کے بٹن کھولے اور میری چادر اتار دی۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ مجھے سونے کی شدید طلب ہو رہی تھی۔

علی آغا ہراساں ہراساں کمرے میں داخل ہوئے: ’’فرشتہ خانم، میری پیاری، کیا ہوا؟! ہسپتال جانا چاہتی ہو؟‘‘

میں نے اپنے آنکھوں اور ابرو سے اشارہ کیا کہ نہیں۔([5])

انہوں نے کہا: ’’کھانا کھاؤ گی؟!‘‘

میری بجائے ماں نے جواب دیا: ’’کھانے کی خوشبو سے اس کی طبیعت اور بگڑ جاتی ہے۔‘‘

علی آغا بے چین ہو گئے: ’’اس طرح تو نہیں ہوتا میری پیاری۔ بالآخر کچھ نہ کچھ تو کھانا ہی پڑے گا نا۔ بتاؤ کیا لے کر آؤں؟‘‘

میں نے کہا: ’’سیبِ گلاب۔‘‘

مجھے فقط سیب گلاب اچھے لگتے تھے اور وہی میں کھا سکتی تھی۔

علی آغا جلدی سے چلے گئے۔ مہمان خانے سے پلیٹوں میں بجنے والی چمچوں اور کانٹوں کی آواز مجھے سنائی دے رہی تھی۔ کھانے اور کباب کی خوشبو نے میرا حال خراب کر دیا تھا۔ میں نے ماں سے کہا: ’’ماں، خدا کا واسطہ، دروازہ بند کر دیں۔‘‘

ایک دفعہ پھر میرا سر چکرانے اور  دل گھبرانے لگا۔کمرہ میرے سر کے گرد گھوم رہا تھا۔ پلکیں بوجھل ہو گئیں۔ ماں بدحواسی میں باہر کی طرف دوڑی دوڑی گئیں۔ میں ان کی آواز سن رہی تھی: ’’علی، جلدی سے فون کرو، ایمبولینس منگواؤ، فرشتہ۔۔۔‘‘

علی آغا کمرے میں داخل ہوئے۔ ہاتھ میں پلاسٹک کے ایک تھیلا تھا جس میں دو تین کلو سیب گلاب تھے۔ ان کے ساتھ دو مرد اور بھی تھے۔ مردوں نے سرمئی رنگ کا یونیفارم پہن رکھا تھا۔ ایک مرد کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بیگ تھا۔ ماں جلدی جلدی میری ساری کیفیت اس شخص کو بتانے لگیں جو میرے فشارِ خون کا معائنہ کر رہا تھا۔ اس شخص نے مجھے ایک بوتل لگادی اور پھر اس میں کچھ ٹیکے انڈیل دیے۔ مجھے علی کی وہ ڈرائنگ یاد آ گئی جس میں پروانے کے پروں میں تیر لگے ہوئے تھے۔ اس شخص نے کہا: ’’ان کا فشارِ خون بہت کم ہے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ آرام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ میں چاہتی تھی کہ روزِ قیامت تک سوتی رہوں۔


([1]) آیت اللہ سید ابو الحسن دبستانی المعروف موسوی ہمدانی،  1929؁ میں ہمدان کے گاؤں شورین میں متولد ہوئے اور آیت اللہ اخوند ہمدانی، بروجردی، سلطانی اور گلپائیگانی جیسے بزرگ علماء سے کسبِ فیض کیا۔ وہ مجلس خبرگان رہبری (ایران میں ولی فقیہ کا انتخاب کرنے والی مجتہدین کی اعلیٰ کونسل) میں ہمدان کے عوامی نمائندے تھے۔ دفاع مقدس کے دوران لوگوں کی ہدایت و ارشاد اور انہیں جہاد پر آمادہ کرنے میں ان کا خاصا کردار رہا۔ انہوں نے 31 دسمبر  2007؁ کو 78 سال کی عمر میں اس جہانی فانی کو الوداع کہا۔

([2]) کتاب کے اصل متن میں یہ فارسی نعرہ اس طرح درج ہے: برای دفن شهدا / مهدی بیا، مهدی بیا

([3]) ان اشعار کا فارسی متن یوں ہے: این گل پرپر ز کجا آمده / از سفر کرب و بلا آمده / این گل پرپر ماست / هدیه به رهبر ماست.

([4]) ایرانی عورتوں کی قمیض جو لمبے کوٹ کی طرح ہوتی ہے۔ یہ یہاں کا عمومی لباس ہے۔

([5]) ایران میں دونوں ابرؤوں کو  اوپر کی طرف حرکت دینا’’نہ‘‘ کی علامت ہے۔

دسواں باب

آنسو واحد حل

دوسرے ہفتے میں گھر کچھ خالی ہو گیا۔ فقط ہم کہ جن کے پاس گھر نہیں تھا اور حاج بابا، خانم جان، محمد ماموں، مریم اور اس کی شش ماہی بیٹی، مونا، حاج صادق اور ان کا خانوادہ منصورہ بیگم کے پاس ٹھہرے رہے۔

رات کو ہر کوئی اپنی جگہ ڈھونڈ کر سو جاتا تھا۔ علی آغا اور حاج صادق عموماً اپنا بستر ٹیرس پر لگا لیتے۔ میں ،منصورہ بیگم، مریم اور مونا مہمان خانے میں ٹیرس کے دروازے کے پاس سو جاتیں۔

ایک بار آدھی رات کو میری آنکھ کھلی۔  علی آغا آہستہ آہستہ ٹیرس سے باہر آئے، اس طرح کہ کسی کی آنکھ نہ کھل جائے۔ ہمارے پاس سے ہولے ہولے گزرے۔ ہال اور مہمان خانے کا درمیانی پردہ آرام سے سرکایا اور آہستہ سے ہال میں اور اس کے بعد بیت الخلاء میں چلے گئے۔  میں نے سوچا کہ جلدی واپس آ جائیں گے۔ میں نے کافی انتظار کیا مگر وہ نہ لوٹے۔ میں اٹھ کر ان کے پیچھے چلی گئی۔ وہ ہال میں تھے اور نماز پڑھ رہے تھے۔ سر سجدے میں تھا اور گریہ کر رہے تھے۔ ان کے کندھے لرز رہے تھے۔ میں بالکل آہستہ سے ان کے پیچھے جا کر کہ وہ متوجہ نہ ہوں، دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ کتنا بھرا ہوا دل تھا۔ مظلومانہ اور جانسوز گریہ کر رہے تھے۔میرا دل ان کے لیے کڑھنے لگا۔ میں نےآج تک انہیں اس حالت میں نہ دیکھا تھا۔

میں دیکھ رہی تھی کہ صبح سے لے کر شام تک وہ کس طرح چچا ناصر اور منصورہ بیگم کی دلجوئی کرتے رہتے تھے، ان کے ساتھ محبت کا اظہار کرتے، ان کے ساتھ باتیں کرتے، انہیں ہنساتے اور خوش رکھنے کی کوشش کرتے رہتے۔ میں یہ بھی جانتی تھی کہ وہ امیر سے کتنا لگاؤ رکھتے تھے، لیکن اس تمام مدت میں میں نے ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک قطرہ بھی نہ دیکھا تھا۔ اب وہی علی آغا زار و قطار رو رہے تھے۔

میں انتظار کرنے لگی یہاں تک کہ انہوں نے اپنا سر سجدے سے اٹھا لیا۔ میں نے بالکل آہستہ سے کہا کہ فقط وہی سن سکیں: ’’علی جان!‘‘

وہ میری آواز کی طرف پلٹے۔ ہال کی کھڑکیاں کھلی تھیں اور گلی میں جلنے والے برقی چراغوں کی روشنی ہال میں آ رہی تھی۔ اتنی روشنی تھی کہ ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح دیکھ سکتے تھے۔ وہ بھونچکا رہ گئے اور تعجب سے کہنے لگے: ’’فرشتہ!‘‘

میں نے جواب دیا: ’’میری جان!‘‘

انہوں نے پوچھا: ’’یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘

’’نیند نہیں آ رہی۔‘‘

’’تمہاری حالت پھر خراب ہو گئی؟‘‘

میری حالت خراب نہ تھی۔

میں نے کہا: ’’میں جانتی ہوں کہ آپ کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ میں جانتی ہوں کہ بہت مشکل ہے۔ آپ اس وقت خدا سے زیادہ قریب ہیں۔ میرے لیے دعا کریں۔‘‘

میں نے تعجب سے انہیں دیکھا۔ ان کی آواز ابھی تک گریہ سے بوجھل تھی: ’’خدا نے مجاہدوں کے ساتھ جنت کا وعدہ کر رکھا ہے۔ خوش قسمتی ہے امیر کی کہ اس نے فقط چار ماہ تک جہاد کیا اور  اپنا اجر پا لیا۔ میرا خیال ہے کہ میرے اندر کوئی نقص پایا جاتا ہے۔ میں روسیاہ سات سال سے محاذ پر ہوں لیکن ابھی تک ہٹا کٹا، ٹھیک ٹھاک اور زندہ ہوں۔‘‘

میں نے گلوگیر لہجے میں کہا: ’’علی، ناشکری نہ کریں۔‘‘

ان کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا: ’’میں جھوٹ نہیں بول رہا، فرشتہ۔ خدا خود جانتا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ بستر پر مروں۔ میں جانتا ہوں کہ جنگ بالآخر جلد یا بہ دیر ختم ہو ہی جائے گی اور ہم سب اپنے اپنے گھروں اور اپنی زندگی کی طرف لوٹ آئیں گے۔ پھر ہم اس بات کے لیے باقی رہ جائیں گے کہ روزانہ ہزار بار حسرت سے مریں اور زندہ ہوں۔‘‘

میں نے کہا: ’’علی آغا، یہ کیا باتیں کر رہے ہیں آپ! خدا کی رضا پر راضی رہیں۔‘‘

پوچھنے لگے: ’’تم ہو؟‘‘

میں نے پورے اطمینان سے جواب دیا: ’’ہاں، میں تو ہوں۔‘‘

پھر خوش ہو کر پوچھا: ’’اگرمیں شہید ہو جاؤں پھر بھی راضی ہو؟ پریشان تو نہیں ہو گی؟‘‘

میں نے تھوڑا سکوت کیا، لیکن بالآخر جواب دیا:

’’پریشانی کیسی؟ میں تو غم سے مر جاؤں گی۔ آپ میرے شوہر ہیں، میری عزیز ترین ہستی ہیں، میرے جسم کا حصہ ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ آپ میرے بچے کے باپ ہیں۔ ایسا سوچنا بھی میرے لیے مشکل ہے۔ لیکن جب خدا کی یہی مرضی ہوئی تو میں راضی ہوں گی اور صبر کروں گی۔‘‘

وہ بہت خوش ہو گئے۔ جلدی سے پوچھا: ’’واقعاً؟!‘‘

ان باتوں سےمیں رونے لگی تھی۔

انہوں نے میرے جواب کا انتظار نہ کیا اور اپنی بات جاری  رکھی: ’’فرشتہ، یہ دنیا ایک دن مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔ بالآخر ہم سب مر جائیں گے، لیکن شہادت کی فرصت فقط چنددن کے لیے ہی میسر ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ رو بہ قبلہ بیٹھ گئے اور ہاتھ دعا کے لیے اٹھا کر خدا کے حضور گڑگڑانے لگے: ’’خدایا، تو اپنے بندوں کی تمام حاجتوں سے آگاہ ہے۔ تو جانتا ہے کہ میرے لیے بستر کی موت  سخت ننگ و عار ہے۔ خدایا، مجھے شہادت نصیب فرما۔‘‘

وہ کبھی بھی کسی کے سامنے روتے نہ تھے۔ جب غم و رنج سے بھر جاتے تو ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا لیکن روتے نہیں تھے، لیکن اس بار میرے سامنے زارو قطار رو رہے تھے اور حسرت و اندوہ سے کہہ رہے تھے: ’’جب مصیب ابھی تازہ شہید ہوا تھا تو ایک شب میں نے اسے خواب میں دیکھا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا: ’’مصیب، میں اور تم نے تمام تدبیریں اکٹھی باندھی تھیں۔ تمہیں خدا کا واسطہ۔ یہ آخری تدبیر مجھے بتا دو۔‘‘ مصیب نے جواب نہ دیا۔ میں نے اس کا ہاتھ سختی سے پکر لیا۔ میں جانتا تھا کہ اگر خواب میں کسی مردے کا ہاتھ پکڑو اور   اسے قسم دے کر جو کچھ بھی پوچھو تو وہ حتماً جواب دیتا ہے۔ میں نے کہا: ’’جب تک تم مجھے اس کا حل نہیں بتاؤ گے میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ تم جانتی ہو مصیب نے کیا کہا۔ اس نے کہا: ’’اس کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہیں آنسو اور فقط آنسو۔‘‘ فرشتہ، شہادت کا راستہ آنسو ہیں۔‘‘

دوبارہ انہوں نے اپنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھا لیے اور کہا: ’’بارِ الہٰا، اگر آنسوؤں کے بدلے شہادت دینی ہے تو مجھ عاجز اور روسیاہ کے آنسوؤں اور گریہ کو قبول فرما۔‘‘

علی آغا امیر کی شہادت کے بعد کافی تبدیل ہو گئے تھے۔ ان نئی خصوصیات میں ان آنسوؤں کا  بھی اضافہ ہو چکا تھا۔وہ اکثر اپنے آپ میں کھوئے کھوئے رہتے۔ پہلے سے زیادہ کم گو ہو گئے تھے۔ اس کے بعد ان کا وہ ہنسنا کھیلنا اور شرارتیں کرنا کسی نے نہ دیکھا۔ کھانا کم کر دیا تھا اور لاغر ہو گئے تھے۔ لیکن مہربانی اور دل سوزی پہلے سے زیادہ ہو گئی تھی۔ اکثر ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگی رہتیں۔ ان کی راتیں نماز ، دعا اور گریہ میں گزرتیں۔ روز بہ روز ان کی نیند کم ہوتی چلی جا رہی تھی۔

امیر کے چہلم کے بعد اس غرض سے کہ چچا ناصر اور منصورہ بیگم کی طبیعت کچھ بحال ہو جائے، انہوں نے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ مشہد کی زیارت کا پروگرام ترتیب دیا۔

اس سفر میں شہداء کے کچھ خانوادے بھی تھے۔ سفر کے دوران ترنجیان نام کا ایک خانوادہ چچا ناصر اور منصورہ بیگم سے باتیں کرتا رہا تھا اور اس کوشش میں تھا کہ ان کا دھیان کچھ بٹ جائے اور طبیعت زیادہ سنبھل جائے۔

جیسے ہی ہم مشہد کے سفر سے لوٹے تو علی آغا محاذ پر چلے گئے۔ منصورہ  خانم میں تنہائی کی طاقت نہ تھی لہذا وہ حاج صادق کے گھر چلی گئیں۔ ناچار مجھے بھی ان کے ساتھ جانا پڑا۔

ستمبر 1987؁ کے ایام تھے۔ انہی دنوں میں محرم الحرام بھی تھا۔ علی آغا بقول ان کے اپنے، سات سال بعد عشرہ محرم کے لیے ہمدان آئے تھے۔ ہر شب عزاداری کے لیے کہیں نہ کہیں جاتے اور آدھی رات کے بعد واپس آتے۔ میں، ماں اور میری بہنیں گذشتہ سالوں میں تو فوج کے پروگراموں میں جاتی تھیں۔ فوج کی عزاداری کی انجمن اچھی تھی اور ان کے عزاداری کے پروگرام دوسری جگہوں کی نسبت زیادہ بہتر ہوتے تھے۔ ایک رات علی آغا کہنے لگے: ’’فرشتہ، میں کیمپ کی طرف جانا چاہ رہا ہوں۔ تم آؤ گی؟‘‘

پچھلے سالوں میں وہاں عزاداری کے پروگراموں میں شرکت سے مجھے جو روحانی اور معنوی کیف حاصل ہوا تھا اور اچھی یادیں میرے ذہن میں موجود تھیں، ان کی وجہ سے میں نے خوشی خوشی قبول کر لیا۔

اس سال، ہمدان کا موسم، ستمبر کے وسط ہی سے ٹھنڈا ہونا شروع ہو گیا تھا۔راتیں ٹھنڈی ہوتی جا رہی تھیں۔ چونکہ ہماری زندگی کی کوئی ایک معین جگہ نہیں تھی اس لیے مجھے نہیں معلوم تھا کہ گرم کپڑے میں نے کہاں رکھ دیے ہیں۔  منیرہ خانم کے پاس کالے رنگ کی ایک موٹی جیکٹ تھی وہ انہوں نے مجھے دے دی ، جسے میں نے پہن لیا۔ گاڑی میں بیٹھے اور علی آغا کےساتھ چلے گئے۔

سارا شہر سیاہ پوش تھا۔سرخ اور سیاہ پرچم اور کپڑے دروازوں اور دیواروں پر آویزاں تھے۔ علی آغا نے آرامگاہ بابا طاہر کے نزدیک ایک جگہ گاڑی کھڑی کی۔ اترنے سے پہلے ہمیشہ کی طرح ہم نے واپسی کی ایک جگہ معین کر لی، جہاں ہم نے اکٹھے ہونا تھا۔ یہ اس لیے کیونکہ ہمدان میں ابھی تک ہم اکٹھے کہیں نہ گئے تھے، خصوصی طور پر اس حالت میں کہ ہم فوج کے پروگرام میں جا رہے تھے اور راستے میں علی آغا کے بہت سے دوست احباب اور جاننے والوں نے بھی ملنا تھا۔ علی آغا نے اترنے سے پہلے مجھے کہا: ’’فرشتہ، دعا، میرے لیے دعا کرنا۔‘‘

میں نے کہا: ’’میں تو ہمیشہ آپ کے لیے دعا کرتی ہوں۔‘‘

کہنے لگے: ’’نہیں، یہ دعا نہ کرو کہ میں صحیح و سالم رہوں بلکہ یہ دعا کرو کہ میں جلدی شہید ہو جاؤں۔‘‘

میں نے غصے سے انہیں دیکھا۔

آزردگی سے کہنے لگے: ’’تم اب مجلسِ امام حسین علیہ السلام میں جا رہی ہو۔ میں نے جنگ کی ابتدا ہی سے امام حسین علیہ السلام کی اقتدا کی ہے اور محاذ پر گیا ہوں۔ آج کی رات چاہتا ہوں کہ تمہارے لیے بھی کچھ مانگوں۔ میں ان سے یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے بھی شہادت کی لیاقت نصیب فرمائیں۔ لیکن یہ بھی جانتا ہوں کہ اگر تمہارا دل میرے ساتھ ہم آہنگ نہیں  ہو گا اور تم میرے لیے دعا نہیں کرو گی تو میں اپنے مقصد تک نہیں پہنچ پاؤں گا۔ فرشتہ، میری جان، میرے لیے دعا کرنا۔‘‘

میں نے سر نیچے کر لیا اور کچھ نہ کہا۔ یہ ایک فطری بات تھی کہ میں اس وقت ان باتوں کو زیادہ اہمیت نہ دیتی کیونکہ جیسے ہی شہادت کی بات آتی تو میرا دل لرز جاتا تھا۔

علی آغا نے ایک خاص اور عجیب سی کیفیت میں کہا: ’’فرشتہ خانم، تمہیں یاد ہے، تم نے کہا تھا کہ میں خدا کی رضا پر راضی رہوں۔ میں راضی ہو گیا ہوں۔ اب تم میرے لیے دعا کرو کہ خدا بھی مجھ سے راضی ہو جائے۔ اگر خدا ہماری زحمتوں سے راضی نہ ہو اور ہمارے جہاد کو قبول نہ کرے تو ہم بہت گھاٹے میں رہیں گے۔میں نہیں جانتا کہ خدا کے حضور کامیاب ہوں گا بھی یا نہیں؟ مگر میں اس دنیا سے جو ایک پنجرے کی طرح ہے، کافی تھک چکا ہوں۔ آج رات امام حسین علیہ السلام سے اس بات کی درخواست کرو کہ وہ میری مدد کریں کہ میں بھی دنیا کے اس قفس کو توڑ دوں جس طرح دوسرے شہداء اسے توڑ کر آزاد ہوئے اور چلے گئے؛ مصیب مجیدی کی طرح، امیر کی طرح اور سب سے بڑھ کر خود امام حسین علیہ السلام کی طرح۔ میں آج جا رہا ہوں کہ ایک دفعہ پھر حضرت ابو عبداللہ امام حسین علیہ السلام کو لبیک کہوں اور اپنی زندگی کی آخری سانس تک امام حسین علیہ السلام کی طرح جیوں۔ بقول تمہارے باقی خدا کے حوالے۔ میں اس کی رضا پر راضی ہوں۔‘‘

علی آغا اپنی بات ختم کر چکے تو ایک لمبی سانس لی۔ہم گاڑی سے اتر آئے۔ انہوں نے دروازے کو مقفل کیا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ پرواز کر رہے ہیں۔ وہ بہت جلدی جلدی آگے بڑھ رہے تھے۔ میں جتنا تیز چل سکتی تھی چلی مگر ان تک نہ پہنچ پا رہی تھی۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ علی آغا آگے تھے، بہت ہی آگے۔

فٹ پاتھ پر کافی لوگ تھے، لیکن میں ان سب میں سے فقط علی آغا کو دیکھ رہی تھی، جو سیاہ قمیص پہنچے اپنے مضبوط کندھوں کو حرکت دیتے ہوئے آگے کی طرف چل رہے تھے۔

گیارہواں باب

بُنائی

ستمبر کے وسط میں ہمدان کی خزاں ہوا اور سردی کو لیے پہنچ گئی۔ علی آغا عاشورا کے بعد محاذ پر چلے گئے تھے۔

میں منصورہ بیگم کے گھر میں  ٹھہر گئی تھی۔ہم نے کھڑکیوں کو جلد ہی بند کر دیا تھااور بکسوں سے گرم ملبوسات نکال لیے تھے۔ ہوا درختوں کے سب پتوں کو انتہائی بے دردی سے گرا رہی تھی۔ پتے زرد ہونے سے پہلے ہی گر گئے تھے اور درختوں کو بالکل برہنہ کر دیا تھا۔ ہم سب جانتے تھے کہ خزاں اور سخت طولانی سردی ہمارے انتظار میں ہے۔ خزاں کی بلند راتوں کو ہم نئے آنے والے ننھے مہمان کے لیے کپڑے بُننے میں گزار رہے تھے۔منصورہ بیگم نے بننے والی سلائیاں اور دھاگے کے گولے الماری سے نکال کر باہر رکھ دیے تھے۔انہوں نے ایک خوبصورت قمیص کالر سے بننا شروع کر دی تھی اور حزن انگیز زمزمے اور نوحے پڑھتے ہوئے اسے بننے میں مشغول رہتیں۔ انہوں نے منیرہ خانم کو بھی بُنائی سکھا دی تھی۔ ہم نے مل کر کچھ قمیصوں اور شلواروں کے کچھ جوڑے اور کچھ ٹوپیاں نئے بچے کے لیے بُن دی تھیں۔

بارہواں باب

پھٹے ہوئے انار

18 نومبر کی سہ پہر کا وقت تھا۔ علی آغا جو چند دنوں سے ہمدان میں تھے، اس رات چاہ رہے تھے کہ محاذ پر واپس چلے جائیں۔ ان چند دنوں میں جب وہ محاذ سے لوٹے تھے ، جہاں تک ان سے ہو سکا، منصورہ بیگم اور چچا ناصر کی دلجوئی کرتے اور ان کی ڈھارس بندھاتے رہے۔ امیر کی شہادت کے بعد منصورہ بیگم کی بیماری زیادہ بڑھ گئی تھی اور ہر روز ان کے جسم کا کوئی نہ کوئی حصہ جکڑا ہوا ہوتا۔ لیکن ابھی تک سب سے زیادہ مشکل ان کے گردوں کی تھی جو روز بروز خطرناک صورتحال اختیار کرتی جا رہی تھی۔ علی آغا کئی بار انہیں ہسپتال لے کر گئےاور بہت سے ماہر اور حاذق ڈاکٹروں سے صلاح مشورہ بھی کیا مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔

ہم ہال میں بیٹھے تھے کہ علی آغا اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے اپنی قمیص کی آستینیں اوپر کو چڑھائیں۔ شلوار کے پائنچوں کو چند بار تہہ کیا اور وضو کرنے چلے گئے۔ وہ ہمیشہ باورچی خانے میں وضو کرتے تھے۔ میں ان کے پیچھے چلی گئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی کہہ رہا ہو: ’’فرشتہ، نظر بھر کر انہیں دیکھ لو۔‘‘ میں نے انہیں دیکھا ۔ وہ کسرتی قد و قامت اور عضلات، چوڑے اور بھرے بھرے کندھے، موٹی اور مضبوط گردن۔ ان کی گُدّی اور سر آپس میں ملے ہوئے تھے۔ان کی پنڈلیاں گوشت سے بھری ہوئی اور سفید تھیں۔ مجھے معلوم تھا کہ ان گلابی اور ابھری ہوئی ایڑیوں کے ساتھ جب گھر میں چلتے تھے تو انہیں مضبوطی سے زمین پر رکھتے تھے۔ انہوں نے سر اور پاؤں کا مسح کیا۔ انہوں نے سمجھا کہ میں بھی وضو کرنا چاہتی ہوں۔ وہ سنک سے ہٹ کر ایک طرف ہو گئے۔میں غور سے ان کی تمام حرکات کو دیکھ رہی تھی۔ میں کوئی چیز بھی نہیں بھولنا چاہتی تھی۔ وہ باورچی خانے سے مہمان خانے کی طرف چلے گئے۔  اپنی قمیص کی جیب سے چھوٹی جائے نماز نکالی اور اپنی غمناک آواز میں اذان واقامت کہنا شروع کی۔ میں ان کے پیچھے پیچھے آ گئی تھی اور ان کے پیچھے بیٹھ کر انتہائی رنج و غم کی کیفیت سے انہیں دیکھ رہی تھی۔انہوں نے اپنا سر جھکا رکھا تھا اور پورے خضوع و خشوع سے نماز پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے اپنی قنوت کے دعا میں تین بار کہا: ’’اللھم ارزقنی توفیق الشھادۃ فی سبیلک.‘‘

جب ان کی نماز ختم ہو گئی تو چچا ناصر کے پاس آ کر بیٹھ گئے اور ان سے فرمائشیں کرنے لگے:’’بابا جان، اس بار میں دیر سے لوٹ کر آؤں گا۔ شاید دو ماہ بعد۔ شاید فرشتہ کے لیے بھی نہ لوٹ سکوں۔میں نے ایک لڑکے کے ذمہ لگا دیا ہے کہ وہ دیہات سے فرشتہ کے لیے دیسی گھی لے آئے۔ ایک زندہ گوسفند بھی لانے کے لیے اسے کہہ دیا ہے۔ اگر میں نہ ہوا تو اس کے لیے قربانی کر دیجیے گا۔‘‘

جب ان کی فرمائشیں ختم ہوئی تو میری طرف آئے: ’’فرشتہ، میرا البم لے آؤ۔‘‘

میں کمرے سے البم لینے چلی گئی۔جیسے ہی باہر نکلنا چاہتی تھی تو دروازے کے دہلیز پر ان سے ٹکر ہو گئی۔ وہ ہنسنے لگے: ’’آؤ، یہیں بیٹھ جاتے ہیں۔‘‘

ہم بیٹھ گئے اور علی آغا البم کھول کر اس کی تصویریں پلٹنے لگے۔ اپنے شہید دوستوں کی تصویریں دیکھتے اور آہ بھرتے ہوئے  کہتے: ’’کہاں ہے شہید نظری؟([1])، شہید تکرلی!([2])، یادش بخیر، شہید شاہ حسینی!([3])‘‘

ان کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا اور آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔ میں نے البم لے لی اور چاہتی تھی کہ اسے ایک طرف رکھ لوں، مگر انہوں نے میرے ہاتھ سے واپس لے کر کہا: ’’میری پیاری، چھوڑواسے، یہ البم میری پوری زندگی ہے۔ مجھے باقی رہنے اور جنگ لڑنے کا جذبہ دیتی ہے۔‘‘

میں نے کہا: ’’اپنے آپ کو اذیت دے رہے ہیں۔‘‘

آنسو آہستہ آہستہ ان کے گالوں پر ڈھلک رہے تھے: ’’فرشتہ، یہ سب امام حسین علیہ السلام کے عاشق تھے۔ امامؑ کے لیے انہوں نے بہت پسینہ بہایا، بہت زخمی ہوئے، بہت بے خوابی برداشت کی، بہت زیادہ پیاس اور بھوک کا مقابلہ کیا، شدت سے دھوپ میں جلے، لیکن ایک بار بھی انہوں نے نہیں کہا کہ ہم تھک گئے ہیں، پیاسے ہیں یا ہمیں نیند آ رہی ہے۔ میں ان تصویروں کو اس لیے دیکھتا ہوں کہ اگر کہیں خستگی کا احساس کروں تو میرے ذہن میں رہے کہ شہید قراگوزلو([4]) راتوں کو سونے اور آرام کرنے کی بجائے نماز شب اور زیارت عاشورا پڑھتا تھا اور ہائے ہائے کر کے گریہ کرتا تھا۔ میں انہیں دیکھتا ہوں تا کہ اگر میرے دل میں گھر اور زندگی کی خواہش پیدا ہو تو میں مجھے یاد آ جائے کہ مصیب کہا کرتا تھا: ’’زیادہ آرزوئیں نہ کرو، کیونکہ موت تمہاری آرزوؤں پر ہنستی ہے۔‘‘ مجھے یاد رہے کہ آج آرزو کا وقت نہیں ہے، باتیں کرنے کا موقع نہیں ہے، بلکہ عمل کا وقت ہے۔ جو کوئی بھی سر رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اسے ہدیہ کرے۔ کسی کے پاس ہاتھ ہے تو وہ ہاتھ ہدیہ کرے اور اگر بوڑھا ہےا ور جنگ میں نہیں آ سکتا تو محاذ پر جانے والوں کی پشت پناہی کرے۔‘‘

میں جانتی تھی کہ وہ کافی غمگین ہیں۔ اور بقول ان کے اپنے ان کے دوستوں کی لگ بھگ ایک یونٹ شہید ہو چکی تھی۔ میں ان کے پاس بیٹھ گئی اور پھر ہم اکٹھے شہداء کی تصویریں دیکھنے لگے۔ وہ میری طرف دیکھے بغیر آنسو بہا رہے تھے اور میں ان کی رونے سے رنجور ہو کر گریہ کر رہی تھی۔

رات کو انہوں نے تھوڑا سا کھانا کھایا۔ پھر کہنے لگے: ’’میری جان، میں سونا چاہتا ہوں۔ اڑھائی بجے مجھے جگا دو گی؟‘‘

وہ ہمیشہ جانے سے کچھ دیر پہلے دنیا جہان کا غم میرے دل میں انڈیل کر جاتے۔ میں زیادہ مضبوط نہ تھی۔ کسی کام کا حوصلہ نہ رکھتی تھی۔ میں نے ان کا بستر کھولا، بتی بجھائی اور انہیں سونے دیا۔  میں جانتی تھی کہ صبح تک وہ گاڑی میں نہیں سو سکیں گے۔ میں کمرے سے باہر آ گئی۔ منیرہ خانم باورچی خانے میں تھیں۔ منصورہ بیگم، چچا ناصر اور حاج صادق ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ شہید خرازی([5]) کے بارے میں کوئی ڈاکیومینٹری چل رہی تھی۔ کیمرے نے ان کے چھوٹے بیٹے مہدی پر فوکس کر رکھا تھا۔ ان کی بیوی ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات بیان کر رہی تھی۔ میرا دل لرز گیا۔ میں اچانک سوچنے لگی کہ خدا نہ کرے کہ علی شہید ہو جائیں اور ہمارا بچہ بھی اسی بچے کی طرح ہو جائے۔میں اٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔ بتی روشن کی۔ علی آغا بہت جلدی سو گئے تھے۔ ان کی نیند اتنی گہری تھی کہ بتی کی تیز روشنی نے بھی ان کی آنکھوں پر اثر نہ کیا۔ میں ان کے سرہانے بیٹھ گئی۔ میرا دل ٹوٹ چکا تھا۔ مجھے سہ پہر کا وقت اور ان کی اپنے دوستوں کے لیے رنجیدگی یاد آ گئی۔ نیند میں ان کا چہرہ کتنا مظلومانہ ہو گیا تھا۔ گویا مجھے کوئی کہہ رہا ہو: ’’فرشتہ، خوب جی بھر کر اس چہرے کو دیکھ لو۔ اس چہرے کی ساری جزئیات کو اچھی طرح ایک لمبے عرصے تک کے لیے ذہن میں محفوظ کر لو۔‘‘ میں ان کے چہرے کی طرف اور ان کی پیشانی اور آنکھوں کے گرد پڑی سلوٹوں کو غور سے دیکھنے لگی۔ فقط پچیس سال عمر اور پیشانی پر اتنی سلوٹیں! ان کے پاؤں کمبل سے باہر تھے۔ میں نے سوچا کہ میں دقت سے دیکھ لوں تا کہ بھولنے نہ پاؤں۔ مجھے ان کے پاؤں کی بھری ہوئی اور سفید انگلیوں کی وہ حالت بھول نہ جائے۔  ان کے پاؤں اتنے سفید تھے کہ جیسے کوئی  باریک کپڑا رگوں پر کھینچ دیا گیا ہو؛ نیلی اور بے شمار رگیں جو ایک قوی اور تنومند درخت کی جڑوں کی طرح لگ رہی تھیں۔ میں چاہتی تھی کہ ان کے جسم کی تمام جزئیات کو یاد کر لوں۔ ان مضبوط پٹھوں والے بازؤوں کو،  اس بلند قد کو ، اس لمبی اور بھوری داڑھی کو، ان نیلی آنکھوں کو، ان بکھری ہوئی اور بھری ہوئی  ابرؤوں کو اور ان سیدھے بالوں کو جو عموماً کنگھی سے بے نیاز ہی رہتے تھے، اپنے حافظے میں قید کر لوں۔ ان کی ابروئیں نہ جانے کیوں اتنی جلدی بڑی ہو جاتی تھیں کہ کبھی کبھار تو میں قینچی لے کر ان کے پیچھے بھاگتی  کہ : ’’ٹھہریں، مجھے ابرو مرتب کرنے دیں۔‘‘ لیکن وہ ایسا نہ کرنے دیتے۔ وہ کبھی بھی اپنے ابرو چھوٹے نہ کرنے دیتے۔ میرے اصرار پر اپنے ہاتھوں کو اپنے لعاب دہن سے گیلا کر کے ابرؤوں پر پھیر دیتے۔ ان نیلی آنکھوں نے کبھی بھی سیر ہو کر نیند کے مزے نہیں لوٹے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کی ایک آنکھ سوئی ہوئی ہوتی تھی اور دوسری بیدار ۔ لیکن وہ رات کچھ عجیب سی تھی۔ اتنی گہری نیند۔ میں کافی دیر ان کے سرہانے بیٹھی رہی، پھر اٹھی اور باہر آ گئی اور ان کا بیگ تیار کرنے لگی۔ انار اور نارنگی کا موسم تھا۔ ان کے لیے دو انار رکھ دیے جو تھوڑے سے پھٹے ہوئے تھے۔ حاج صادق، منیرہ خانم اور بچے اپنے سونے کے کمرے میں تھے جبکہ چچا ناصر اور منصورہ بیگم ہال میں سوئے ہوئے تھے۔

میں باورچی خانے میں گئی۔ برتن  دھوتی اور روتی رہی۔ کیبنٹس پر رومال مارا۔ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔ میری حالت اچھی نہ تھی اور اوپر سے دل بھی بے چین ہو رہا تھا۔ قے آنے لگی تھی۔ میں نے اس پیٹ اور اسی بری اور کمزور حالت کے ساتھ پائپ کو پکڑا اور باورچی خانے کے فرش پر لگی سفید ٹائلوں کو اچھی طرح دھویا۔ میرا دل اس بات کے لیے کس قدر بے تاب تھا کہ ہمارا اپنا بھی گھر ہو جائے۔میں اِدھر اُدھر کی مصروفیات کے سبب تھک گئی تھی۔ میں سوچ رہی تھی کہ نہیں میں نہیں تھکی۔ مجھے کوئی اعتراض بھی نہ تھا۔ اگر علی آغا ہوں تو میں ساری زندگی اسی حالت میں ان کی ہمراہی میں زندگی گزارنے کو تیار ہوں۔

میں نے برتنوں کو خشک کیا اور کیبنٹس پر چن دیا۔ مجھے نیند نہ آئی اور نہ ہی میں سونا چاہتی تھی۔بار بار باورچی خانے کی گھڑی کی طرف  دیکھ رہی تھی اور میرے دل کا اضطراب بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔ میں نے اپنی چادر اوڑھی اور جا کر ٹیرس پر کھڑی ہو گئی۔ شدید تیز ہوا چل رہی تھی۔ دور و نزدیک کے سب گھروں کی بتیاں بجھی ہوئی تھیں۔ میں نے سوچا کہ یہ لوگ کتنے خوش قسمت ہیں کہ جو آسودگی سے سوئے ہوئے ہیں۔ ہوا کافی ٹھنڈی تھی، بہت زیادہ ٹھنڈی۔ میں زیادہ دیر نہ ٹھہر سکی اور اندر چلی آئی۔ باورچی خانے، ہال اور مہمان خانے میں چل پھر رہی تھی اور سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ اپنے کمرے میں واپس آ گئی اور علی آغا کے سرہانے بیٹھ گئی۔ بتی بجھی ہوئی تھی اور کمرہ تاریک تھا۔میرے لیے یہی کافی تھا کہ وہ اس کمرے میں ہیں اور سانس لے رہے ہیں۔ اس بات سے مجھے ڈھارس ہوئی۔ میرا دل چاہتا تھا کہ اس لمحے وقت ٹھہر جائے اور کبھی بھی آگے نہ بڑھے، کبھی بھی۔۔۔

لیکن گھڑی کی سوئیوں نے مجھ سے ضد لگا رکھی تھی۔ ہمیشہ سے زیادہ تیز تیز گھوم رہی تھیں اور گھومے جا رہی تھیں۔ رات کے سوا دو بج گئے۔ میں نے اپنا ہاتھ ان کے کندھوں پر رکھا اور آرام سے کندھا ہلایا: ’’علی، علی جان، جاگ جائیں۔‘‘

وہ جلد بیدار ہو گئے۔ بستر پر اٹھ بیٹھے اور بدحواسی سے پوچھنے لگے: ’’کیا وقت ہوا ہے؟‘‘

میں نے آہستہ سے کہا: ’’پریشان نہ ہوں، سوا دو بجےہیں۔‘‘

وہ اٹھے اور وضو کیا۔ پھر اپنا لباس تبدیل کیا۔ میں نے ان کا بیگ ان کے ہاتھ میں دیا: ’’آپ کے لیے دو انار میں نے رکھ دیے ہیں۔ یہ دونوں ہم دونوں کی یاد میں ہیں۔ انار کے ہر دانے پہ مجھے یاد کیجیے گا۔ آپ کو خدا کا  واسطہ، اس بار جلدی آئیے گا۔‘‘

میری طرف دیکھ کر کہنے لگے: ’’آؤں گا۔ بہت جلد آؤں گا لیکن ماں کو نہ بتانا۔‘‘

میں نے پوچھا: ’’پھر بھی کب؟‘‘

’’بہت جلد، چند روز بعد۔ یہ بات ہمارے درمیان رہے۔ کسی سے کچھ مت کہنا۔ زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ لگے گا۔‘‘

مجھے اس بات سے بے تحاشا خوشی ہوئی۔ منصورہ بیگم بھی بیدار ہو گئیں۔ علی آغا نے بے چین ہوتے ہوئے کہا: ’’ماں، آپ کیوں جاگ گئیں؟ میں چلا جاتا۔‘‘

علی آغا نیچے جھکے اور منصورہ بیگم کے چہرے کا بوسہ لیا۔ منصورہ بیگم نے اپنا ہاتھ علی آغا کی گردن میں ڈال کر ان کا سر نیچے کیا اور اپنی گردن پر ٹکا دیا: ’’علی جان، ماں قربان، اپنا خیال رکھنا۔ جاؤ خدا کی امان میں۔‘‘

علی آغا نے کہا: ’’ماں، آپ بھی اپنا خیال رکھیے گا۔‘‘

چچا ناصر بھی بیدار ہو گئے تھے۔ علی آغا نے انہیں بھی بوسہ دیا اور کہا: ’’بابا، آپ بھی اپنا اور سب کا خیال رکھیے گا۔ میری فرمائشیں بھول مت جائیے گا۔ ماں کا خاص خیال رکھیے گا۔‘‘

علی آغا اپنے ہاتھوں سے ماں کے کندھوں کو سہلا رہے تھے اور ان کے چہرے پر بوسے دے رہے تھے۔ پھر گھڑی کی طرف دیکھا اور جلدی جلدی بوٹوں کی تسمے باندھنے لگے۔ مجھے اور منصورہ بیگم سےکہا: ’’آپ اندر چلی جائیں۔ موسم کافی ٹھنڈا ہے۔‘‘

لیکن میں اور منصورہ بیگم ان کے پیچھے پیچھے گئیں۔

باہر موسم کافی سرد تھا۔ میرے بدن پر باریک لباس تھا۔ میں کانپ رہی تھی اور دانت بج رہے تھے۔ گاڑی گلی میں کھڑی تھی۔ میرا گریہ میرے حلق میں اٹکا ہوا تھا۔ میں چیخنا چاہتی تھی، فریاد کرنا چاہتی تھی اور کہنا چاہتی تھی: ’’علی، نہ جائیں، علی آغا، میرے لیے اور اپنے بچے کی خاطر، نہ جائیں!۔۔۔‘‘

میرا دل چاہتا تھا کہ چلّا چلّا کر کہوں: ’’اے ہمسایو، جاگ جاؤ اور میرے شوہر، میرے دل کی ساری خوشی کو نہ جانے دو۔ تمہیں خدا کا واسطہ، کوئی ان کا راستہ روکے!‘‘

لیکن اس سب کے باوجود میں نے ہمیشہ کی طرح خداحافظ کہتے وقت رنجیدگی سے کہا: ’’علی جان، مجھے دعاؤں میں نہ بھولنا، اپنے بچے کی خاطر۔۔۔‘‘

مجھے منصورہ بیگم کے سامنے اپنے بچے سے متعلق کچھ کہتے ہوئے شرم محسوس ہوئی۔ میں نے زیرِ لب کہا: ’’جلدی لوٹ کر آئیے گا۔‘‘

علی آغا مسکرا دیے اور نظر بھر کر میری طرف دیکھا: ’’میری پیاری، فرشتہ جان، مجھے معاف کرنا۔‘‘

منصورہ بیگم نے دوبارہ اپنی بانہیں کھولیں اور علی آغا کو بھینچ کر اپنے گلے سے لگایا۔ دسیوں بار بوسہ دیا، ان کی خوشبو سونگھی۔ میں کھڑی ان بوسوں کو دیکھ رہی تھی۔ علی آغا نے اپنی ماں کا سر اپنے سینے پر رکھا ہوا تھا اور ان کے کان میں کچھ کہہ رہے تھے لیکن آنکھیں میری طرف تھیں۔ ان کی آنکھیں میرے پیٹ پر ٹھہری ہوئی تھیں۔ کیا وہ پریشان تھے؟ میرے لیے اور بچے کے لیے ؟ کیا وہ ہمارے بارے میں کچھ ہدایات دے رہے تھے؟ میں نے نہیں سنا۔ علی آغا گاڑی میں جا کر بیٹھ گئے۔ چابی گھمائی، ایکسلیٹر پر پاؤں رکھا، گاڑی نے ہنکارا بھرا اور حرکت میں آ گئی۔ وہ ہوا کے گھوڑے پر بیٹھے اور یہ جا وہ جا۔ اس گاڑی کے ساتھ میری کتنی یادیں وابستہ تھیں۔ گاڑی چلتی جا رہی تھی اور علی آغا میرے لیے ہاتھ ہلاتے جا رہے تھے، لیکن ایک دفعہ انہوں نے موڑ کاٹا اور گاڑی کو آدھے راستے سے واپس لے آئے۔ آہستہ سے آئے اور ہمارے پاس سے گزر گئے۔ شیشے نیچے کیے اور پریشانی سے کہا: ’’آپ لوگ اندر چلے جائیں، موسم بہت سرد ہے۔‘‘

میں کھڑی رہی تا کہ گاڑی گلی کے موڑ سے گزر جائے۔ میں علی آغا کو دیکھ رہی تھی کہ وہ رات کی تاریکی میں ہمارے لیے ہاتھ ہلائے جا  رہے تھے۔

میں اور منصورہ بیگم اندر آ گئیں۔ صحن سے کمرے تک کا راستہ کتنا طولانی ہو چکا تھا۔ ہم میں سے کسی نے کوئی بات نہ کی۔ ایک عمیق خاموشی تھی۔ آہستہ آہستہ غم سے بوجھل قدموں کے ساتھ بتیاں بجھائیں اور میں جا کر علی آغا کے بستر پر سو گئی۔ کمبل کو اپنے سر پر کھینچ لیا۔ کمبل اور بستر سے ان کی خوشبو آ رہی تھی۔ اس خوشبو سے میری حالت بالکل نہیں بگڑی تھی۔ میں خوشبو سونگھتی جا رہی تھی اور زارو قطار روتی جا رہی تھی۔


([1])حمید نظری 22 جون 1967؁ کو ہمدان کے گاؤں درہ مرادبیگ میں پیدا ہوئے۔ وہ 11 ستمبر 1986؁ کو شہید ہوئے۔ وہ غوطہ خور تھے اور شہادت کےوقت جزیرہ مجنون میں تعینات یونٹ کی شناختی ٹیم کے رکن تھے۔

([2]) ہانی تکلو 24 مئی  1963؁شہر ملایر کے گاؤں بیغش میں متولد ہوئے۔ وہ انصار الحسین ڈویژن کی جنگی انٹیلی جنس یونٹ کے فوجی تھے۔ 20 جنوری 1984؁ کو قصر شیرین کے مقام پر شہادت سے ہمکنار ہوئے۔

([3]) شہید علی شاہ حسینی دستجردی 11 مئی  1954؁ کو ہمدان میں پیدا ہوئے۔ اور 9 اکتوبر  1987؁ کو عراق میں آپریشن کے علاقے ماووت میں شہید ہو گئے۔

([4]) محمد مہدی قراگوزلو 11 دسمبر  1964؁کو ہمدان میں متولد ہوئے۔ وہ انصار الحسین ڈویژن کی جنگی انٹیلی جنس یونٹ کے فوجی تھے اور 17 مارچ  1986؁ کو عراق سرحد پر شہادت کے درجے پر پہنچے۔ ان کے بھائی مصطفی بھی 29 اکتوبر  1986؁ کو شہید ہو گئے۔

([5]) حسین خرازی، امام حسینؑ ڈویژن اصفہان کے دلیر اور جانباز کماندار۔ 27 فروری  1987؁ کو شلمچہ میں آپریشن کربلا 5 کے دوران درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔

تیرہواں باب

ایک مرد کے ساتھ ایک رات کی زندگی، ایک بزدل کے ساتھ گزری سو سالہ زندگی سے بہتر ہے

25 نومبر 1987؁ کی رات تھی۔ ہم ابھی تک حاج صادق ہی کے گھر  میں تھے۔ علی آغا نے کہا تھا: ’’جب میں نہ ہوں تو میری ماں کے پاس ہی رہنا۔ تمہارے وہاں ہونے سے انہیں میرا احساس ہوتا رہتا ہے۔‘‘ چونکہ انہوں نے کہا کہ وہ ایک ہفتے تک لوٹ آئیں گے، لہذا میں منتظر تھی اور کہیں اور جانا پسند نہ کرتی تھی۔

میرا دل مضطرب تھا۔ مجھےنیند نہیں آ رہی تھی۔ مہمان خانے میں ایک کتاب خانہ بھی تھا۔ میں نے اس میں سے شہید مطہری کی ایک کتاب اٹھائی۔ بے دھیانی سے کچھ صفحات الٹے پلٹے۔ سو جتن کیا مگر اپنی توجہ مرکوز نہ کر سکی۔ ہر آدھے گھنٹے کے بعد ایک صفحہ الٹتی۔میری آنکھیں الفاظ پر تھیں مگر دھیان باقی سب جگہوں پر لگا تھا۔ اپنی یادداشتوں والی ڈائری اٹھائی اور کتاب سے کچھ اقتباسات لکھنے میں اپنے آپ کو مشغول کر لیا۔ میں آخری رات اور اس رات اپنی گہری نظروں کی یاد میں کھو گئی۔ میرا دل لرز گیا۔ میں نے اس رات کیوں کوشش کی تھی کہ علی آغا کے چہرے کی تمام جزئیات کو اپنے ذہن میں محفوظ کر لوں۔  شاید اس وقت مجھے کچھ الہام ہوا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا: نہیں، مجھے برا نہیں سوچنا چاہیے۔ انہوں نے خود ہی تو کہا تھا کہ وہ اس بار جلدی لوٹ آئیں گے۔ اگر وہ واپس آ جائیں گے تو مجھے نیند کیوں نہیں آ رہی؟ میرا دل اس قدر بے چین کیوں ہو جا رہا ہے؟ میں نے اپنے آپ کو تسلی دی: ’’فرشتہ، برا مت سوچو۔ تمہارے بچے کے لیے اچھا نہیں ہے۔ دل کی یہ بے چینی طبعی ہے اور حمل کے دوران ایسا ہوتا رہتا ہے۔ یہ بے خوابی بھی اسی حمل کی وجہ سے ہے۔ تمام حاملہ عورتیں اسی طرح ہوتی ہیں۔‘‘

ناشتے پر چچا ناصر میری خستگی اور خواب آلودگی کی طرف متوجہ ہو گئے۔ انہوں نے پوچھا تو میں نے جواب دیا: ’’رات نیند نہ آئی۔ دل بہت بے چین تھا۔‘‘

انہوں نے ہمیشہ کی طرح پدرانہ لہجے میں دلجوئی کی۔

میں خود بھی کوشش کر رہی تھی کہ اپنی حالت کو تبدیل کروں۔مگر فون کی گھنٹی تھی کہ صبح سے مسلسل بجے جا رہی تھی۔

حاج صادق آج اپنے کام پر نہ گئے تھے۔ میں اپنے آپ کو تسلی دے رہی تھی کہ شاید انہیں حاج صادق سے کوئی کام ہو، لیکن دل کو کیسے بہلایا جائے! ایک عجیب قسم کی پریشانی نے میرے وجود کو گھیر رکھا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا: ’’ایسا کچھ نہیں ہے۔ حاج صادق کا کام کافی حساس ہے؛ ان کی ذمہ داری ہی یہی ہے۔ اگر ایک دن کام پر نہ جائیں تو سارا کام ہی چوپٹ ہو جائے اس لیے وہ لوگ مجبور ہیں کہ انہیں بار بار کال کریں اور ان سے صلاح و مشورہ کریں۔‘‘ لیکن کوئی اور میرے دل میں یہ کہہ رہا تھا: ’’یہ سچ ہے، مگر حاج صادق آج اپنے کام پر کیوں نہیں گئے؟‘‘ میں اپنے آپ سے لڑ رہی تھی: ’’تمہیں کیا، تم کوئی تفتیشی افسر ہو؟ نہیں گئے تو نہیں گئے۔ ان کا دل نہ چاہتا ہو گا جانے کو۔ چاہتے ہوں کہ ایک دن گھر میں رہ کر استراحت کر لیں۔‘‘ لیکن اے کاش! کہ اس فون کی آواز منقطع ہو جاتی۔ میری ایک آنکھ دروازے پر  تھی اور ایک آنکھ حاج صادق کے منہ کی طرف جو مشکوک انداز میں سب کی نظروں سے دور فون پر باتیں کر رہے تھے۔

کیوں  کوئی دروازہ نہیں کھول رہا تھا؟ علی آغا کیوں نہیں آ رہے تھے؟ انہوں نے خود کہا تھا کہ ایک ہفتے بعد آ جائیں گے۔ وہ بدھ کا دن کتنا سخت تھا۔ جمعرات کی صبح ہی سے میری نظریں دروازے پر لگی ہوئی تھی۔ علی آغا نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جلدی لوٹ آئیں گے۔ سات روز گزر چکے تھے۔ انہوں نے اس سے پہلے کبھی اتنے اطمینان سے نہیں کہا تھا کہ وہ جلدی واپس آ جائیں گے۔ کیسی عجیب بے چینی اور بے قراری تھی۔ انہوں نے ایسا کیوں کہا تھا کہ میں ان کی ماں کو نہ بتاؤں؟!

حاج صادق علی الصبح گھر سے نکل گئے تھے۔چچا ناصر کو ایک پل قرار نہیں آ رہا تھا۔ وہ بے کل ہو رہے تھے۔ فون منقطع ہو چکا تھا اور اس کی گھنٹی نہیں بج رہی تھی۔ میرے دل میں وہی آواز جو مجھے بری خبریں سناتی تھی، پھر کہہ رہی تھی کہ کوئی حادثہ ہو گیا ہے۔ میں اپنے آپ پر قابو نہ رکھ پا رہی تھی۔ میں نے  اپنے آپ کو الجھا رکھا تھا،اگرچہ دوسروں کے مشکوک رویے کو میں اچھی طرح سمجھ رہی تھی۔ میرا دل پکڑا جا رہا تھا۔  گریہ گلے میں اٹکا ہوا تھا۔  اس وقت میں چاہ رہی تھی کہ کوئی مجھے کہے: ’’تمہاری آنکھوں کے اوپر ابرو ہے۔‘‘([1]) تا کہ میں اس کی اس بات پر کھل کر رونا شروع کر دوں، لیکن سب اپنی دھن میں تھے۔ کسی کو کسی دوسرے سے کوئی سروکار نہ تھا۔ کیسی ہولناک اور سخت جمعرات تھی۔

جمعہ کے دن صبح کے وقت بابا میری خیریت کی خبر لینے آئے۔جیسے ہی انہیں دیکھا تو میرا دل ڈھے گیا۔کیونکہ اس سے پہلے کبھی میرے گھر والے حاج صادق کے گھر نہ آئے تھے۔ میں سمجھ گئی کہ کوئی برا حادثہ پیش آ گیا ہے۔ میرے بابا کوشش کر رہے تھے کہ اپنے آپ کو معمول کی حالت میں ظاہر کریں، لیکن ان کے چہرے پر ان کی مہربان آنکھوں میں بے چینی اور اضطراب موجزن تھا۔وہ دروازے پر کھڑے کہہ رہے تھے: ’’فرشتہ، آج مہمان آ رہے ہیں۔ تمہارے چچا آئے ہیں۔ تمہاری ماں نے کہا تھا کہ تم بھی آج دن کا کھانا ہمارے ہاں کھاؤ  تا کہ کچھ دیر اکٹھے بیٹھ جائیں۔‘‘

سفید رنو([2]) دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔ اسٹیئرنگ پر کوئی اجنبی شخص بیٹھا تھا۔ میں انتہائی پریشانی کی حالت میں اندر گئی، کپڑے بدلے اور آ کر پچھلی نشست پر بیٹھ گئی۔

میں نے کہا: ’’بابا، آج علی آغا نے آنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ مجھے جلدی واپس آنا ہو گا۔‘‘

بابا نے مجھے پلٹ کر دیکھا تک نہیں۔ وہ اجنبی شخص گاڑی کو تیزی سے چلا رہا تھا اور ہمیں ان ٹھنڈی اور سُونی سڑکوں سے گزارتا ہوا ہمارے گھر کی طرف لے کر جا رہا تھا۔ خشک اور جھڑے ہوئے درخت برف سے یخ ہو گئے تھے۔

ہم گھر پہنچ گئے۔ مہمانوں اور چچا کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ماں ہمارے چھوٹے سے صحن میں ٹہل رہی تھیں۔ جیسے ہی مجھے دیکھا تو میری طرف دوڑیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتیں، میں نے سوال کر دیا: ’’ماں، کیا ہوا؟ سچ بتائیں۔‘‘

ماں نے بابا کی طرف دیکھا اور مشکل سے کہا: ’’کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں! کچھ نہیں ہوا۔ فقط۔۔۔ فقط۔۔۔‘‘

میری چیخ نکل گئی: ’’فقط کیا؟!‘‘

ماں کا رنگ اڑ چکا تھا۔رؤیا اور نفیسہ پردے کو سرکائے کھڑکی کے پیچھے سے پریشان حالت میں ہمیں دیکھ رہی تھیں۔

ماں نے آہستہ سے کہا: ’’پریشان مت ہو، کچھ نہیں ہوا، فقط علی آغا تھوڑے زخمی ہو گئے ہیں۔‘‘

میں نہیں جانتی کہ میں کیوں اس وقت ایسی ہو گئی تھی۔ میں جوش میں آ گئی: ’’صحیح، ہو گئے تو ہو گئے۔ لیکن یہ آنکھ مچولی کیوں ہو رہی ہے؟! یہ پہلی بار تو نہیں ہے کہ علی آغا زخمی ہو گئے ہوں۔ وہ اب تک سینکڑوں بار زخمی ہو چکے ہیں۔‘‘

ماں کے منہ سے الفاظ بہت سے مشکل سے ادا ہو رہے تھے۔ اٹک اٹک کر کہہ رہی تھیں: ’’مگر اس دفعہ فرق ہے؛ اس کا ہاتھ۔۔۔ اس کاہاتھ۔۔۔ کٹ۔۔۔ گیا۔۔۔۔ ہے‘‘

ایک لحظے کو میں نے سوچا کہ یہ کوئی اتنی اہم بات نہیں ہے: ’’صحیح، اگر ان کا ہاتھ کٹ گیا تو کیا ہوا، وہ زندہ تو ہیں۔ کوئی پریشانی والی بات تو ہے نہیں۔‘‘

ماں نے نا امید ہو کر بابا کی طرف دیکھا۔ بابا نے کہا: ’’فرشتہ جان، کاش اس کا ایک ہاتھ ہی ہوتا! مگر اس کا ایک پاؤں بھی کٹ گیا ہے۔‘‘

اس وقت میں نے سوچا کہ اگر علی آغا کے تمام اعضا بھی ایک ایک کر کے قطع ہو جائیں تب بھی کوئی بات نہیں۔ میں فقط علی آغا کو زندہ چاہتی تھی۔ میں نے تیزی سے جواب دیا: ’’پھر بھی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘

اس کے بعد میں رونے لگی: ’’خدا کی قسم، کوئی بات نہیں۔ ان کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں بھی قطع ہو جائیں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ لوگ فقط اتنا بتائیں کہ علی آغا زندہ تو ہیں نا! آپ کو خدا کا واسطہ، بابا، بتائیں علی آغا زندہ ہیں؟‘‘

بابا نے اپنا سر دوسری طرف پھیر لیا تا کہ میں ان کے آنسو نہ دیکھ سکوں۔ غم سے بوجھل آواز میں بولے: ’’بابا کی جان، فرشتہ، جانتی ہو کیا ہوا ہے؟‘‘

میرا دل اپنی جگہ سے اکھڑ چکا تھا۔ میں نے اپنا منہ ٹھنڈے اور برفیلے آسمان کی طرف کر کے کہا: ’’اے خدا۔۔۔کوئی مجھے سچ کیوں نہیں بتاتا۔۔۔ میں جانتی ہوں کہ علی آغا شہید ہو گئے ہیں۔ اے خدا۔۔۔ اب میں کیا کروں؟‘‘

میں نے ماں اور بابا کی طرف رُخ کیا اور عاجزی سے التماس کی: ’’کیا ایسا نہیں ہے ماں! بابا، کیا ایسا نہیں ہے؟ علی آغا شہید ہو گئے؟! ہاں۔۔۔‘‘

ماں رونے لگیں۔ بابا صحن کے ایک کونے میں چلے گئے اور سر دیوار کے ساتھ ٹکا دیا۔ رؤیا اور نفیسہ نے پردہ گرایا اور اندر چلی گئیں۔

میں ٹھنڈی زمین پر بیٹھ گئی۔ دل چاہتا تھا کہ زمین  پر اپنے پنجے گاڑوں اور مٹھی مٹھی خاک اپنے سر پر ڈالوں، لیکن یخ زدہ ٹائلوں کے علاوہ میرے سامنے کچھ نہ تھا۔ میں باغیچے کی طرف گئی۔  برف کی نازک سی تہہ نے باغیچے کی مٹی کو ڈھانپ رکھا تھا۔ میرے ہاتھ بے کار میں زمیں کچھ ڈھونڈ رہے تھے۔ میں رونا نہیں چاہتی تھی، لیکن میں نے روتے ہوئے کہا: ’’میں جانتی تھی؛ علی آغا کبھی بھی وعدہ خلافی نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ اپنے وعدے کا پاس رکھتے تھے۔ لیکن علی جان، چشم انتظار نے مجھے مار ڈالا۔ میں بدھ کی رات سے آپ کی منتظر ہوں۔ آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ایک ہفتے بعد لوٹ آئیں گے۔ علی جان، بے انصاف، آج جمعہ ہے۔ آپ نے نہیں سوچا کہ فرشتہ بے چینی سے مر جائے گی! نہیں خیال آیا کہ فرشتہ میں اتنی طاقت نہیں ہے! یہ بھی نہیں سوچا کہ فرشتہ  خوش نہیں ہے! آپ کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ فرشتہ کے لیے یہ سارا غم و اضطراب اور بے چینی صحیح نہیں! آخر میں آپ کے بغیر کیا کروں!۔۔۔‘‘

ماں آگے بڑھیں۔ مجھے بازؤوں کے نیچے سے پکڑا۔ ان کا چہرہ ان کے آنسوؤں کے پیچھے چھپ گیا تھا۔ انہوں نے بمشکل کہا: ’’کھڑی ہو جاؤ، میری جان۔ میں تمہارے قربان جاؤں۔ اٹھ جاؤ، زمین ٹھنڈی ہے۔ سردی لگ جائے، ماں کی جان۔‘‘

میرا آرام و قرار فنا ہو چکا تھا۔ دل چاہتا تھا کہ گھر سے باہر نکل جاؤں۔ جی چاہ رہا تھا کہ کسی دور جگہ چلی جاؤں، ایسی جگہ جہاں ایسی خبریں نہ ہوں۔ میں کیا کرتی؟ زمین سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ میں نے پوچھا: ’’منصورہ بیگم جانتی ہیں؟!‘‘

ماں نے لا  علمی کے انداز میں شانے اوپر کو ہلا دیے۔

میں نے کہا: ’’منصورہ بیگم کے پاس چلیں۔‘‘

بابا آگے بڑھے۔ ان کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں۔ میں نے آج تک انہیں اس حال میں نہ دیکھا تھا۔ ماں نے چادر جھاڑی اور مجھے بوسہ دیا۔ میرا چہرہ بھیگ چکا تھا۔ میں نے کہا: ’’بابا، آپ کو یاد ہے کہ شادی کی رات آپ نے کیا کہا تھا؟‘‘

بابا آنسو بہاتے ہوئے سر کو ہلا رہے تھے۔

’’آپ نے کہا تھا کہ اگر میری بیٹی ایک رات کسی مرد کے ساتھ زندگی گزارے تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ کسی نامرد کے ساتھ پوری زندگی گزار دے۔‘‘

ماں نے روتے ہوئے کہا: ’’ایسا لگتا تھا کہ یہ پہلے دن ہی سے سب کچھ جان گئے تھے کہ تمہاری زندگی آخر کار ایسی ہی ہو گی۔ تم خود بھی تو جانتی تھیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ ہم سب جانتے تھے!‘‘

مجھے خواستگاری کا دن اور علی آغا کی باتیں یاد آ گئیں۔ میں نے ان سے کہا تھا: ’’میں چاہتی ہوں کہ میرا بھی انقلاب اور جنگ میں کوئی حصہ ہو اور میری آرزو ہے کہ میرا شوہر کوئی پاسدار ، مومن اور انقلابی ہو۔‘‘

میں پاسداروں کو متقی اور مومن انسان سمجھتی تھی۔ علی آغا نے کہا تھا: ’’ممکن ہے میں اسیر، زخمی یا شہید ہو جاؤں۔‘‘

میں نے کہا تھا: ’’ابھی تک یہ طے نہیں ہے کہ سارا کچھ اکٹھا ہی ہو جائے۔‘‘

میں جانتی تھی کہ علی آغا کبھی بھی اسیر نہیں ہوں گے، لیکن اسی وقت میں اپنے دل میں مطمئن تھی کہ اس راہ میں جس طرح مجروحیت ہے اسی طرح شہادت بھی ہے۔

ماں جلدی جلدی میرے آنسو چادر کے کونے سے صاف کرتی جا رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں: ’’یا حضرت زہراؑ، میری بچی کو صبر دیں! یا حضرت زینبؑ، آپ خود ہی اس کی مدد کریں!۔۔۔‘‘

میرے کندھے بے اختیار لرز رہے تھے۔ رنو ابھی تک دروازے پر کھڑی تھی۔ ڈرائیور اتر کر باہر کھڑا تھا اور رنجیدگی سے ہمیں دیکھ رہا تھا۔

میں روئے جا رہی تھی: ’’خدا کی قسم، سب کچھ فقط ایک ہی رات تھی۔ میں نے فقط ایک ہی رات زندگی گزاری ہے۔‘‘

میرا دل چاہ رہا تھا کہ سڑکوں پر ماری ماری پھروں۔ چاہتی تھی کہ کہیں دور نکل جاؤں۔ کسی پہاڑ کی چوٹی پر، کسی سمندر میں یا اوپر آسمان کی طرف۔  میرا جی چاہتا تھا کہ کسی ایسی جگہ چلی جاؤں جہاں کوئی نہ ہو۔ فریاد کروں اور جہاں تک ہو سکے روتی رہوں۔ مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ فقط علی آغا کی تصویر آنکھوں کے سامنے گردش کر رہی تھی۔

بلاک 6کے دروازے پر ہجوم تھا۔ کچھ سیاہ پوش جوان میری ساس کے دروازے کے سامنے کھڑے تھے اور بغیر آواز کے گریہ کر رہے تھے۔ ماں اور بابا نے مجھے بازوؤں کے نیچے سے سہارا دے رکھا تھا اور چوّن 54 سیڑھیاں عبور کر کے ہم بہت مشکل سے اوپر پہنچے۔ اپارٹمنٹ کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ منصورہ بیگم ہال کے وسط میں بیٹھی تھیں۔ جیسے ہی انہوں نے مجھے دیکھا تو کھڑی ہو گئیں اور میری طرف آئیں۔ ہم نے ایک دوسرے کو گلے لگا لیا۔ منصورہ بیگم رو رہی تھیں اور میرے کان میں کہہ رہی تھیں: ’’فرشتہ جان، تم نے دیکھا ، کیا ہوگیا؟ علی چلا گیا! علی میرے سامنے سے چلا گیا۔ علی نے اپنے بچے کو نہیں دیکھا! علی ناکام ہی چلا گیا! ہائے علی جان، ہائے علی آغا! تمہاری ماں تمہارے غم میں مر جائے۔ میرا دولہا، جی بھر کر جی نہ سکا! اے خداااا۔۔۔‘‘

مجھے اپنے کندھے پر ایک ہاتھ محسوس ہوا۔ اس ہاتھ نے مجھے اور منصورہ بیگم کو اپنے سینے سے لگایا اور اپنا سر ہمارے کندھوں کے درمیان رکھ کر روتے ہوئے کہا: ’’خدایا، صبر، ہمیں صبر عطا فرما! خدایا، تیرا شکر۔ علی جان! علی میرا بیٹا علی، تو کہاں چلا گیا؟ بابا کی جان!‘‘

وہ چچا ناصر تھے۔ ہائے ہائے کرتے ہوئے ہمارے ساتھ گریہ کر رہے تھے۔ان کے نالہ و فریاد سے آس پاس کھڑے لوگ بھی رونے لگے۔

ماں ایک طرف کھڑی تھیں، مگر میں ان کی آواز سن رہی تھی: ’’صلوات بھیجو۔ یا حضرت زہراؑ، انہیں صبر عطا کیجیے۔ یا حضرت زینبؑ، ان کی مدد کیجیے۔‘‘

تھوڑی دیر بعد ہم ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔ چچا ناصر ایک کونے میں بیٹھ گئے اور سر زانو پر رکھ لیا۔ منصورہ بیگم کبھی اِدھر جاتیں، کبھی اُدھر۔ وہ بین کر رہی تھیں: ’’علی! اب میں اپنا سر کس کے کندھوں پر رکھوں! علی! اب کون میری دلجوئی کرے! علی، آ جاؤ اور کہو کہ سب جھوٹ ہے۔ آؤ اور مجھے کہو کہ تم نے مجھے تنہا نہیں چھوڑا۔۔۔ ہائے علی! ہائے علی! اے خدا میری زندگی چلی گئی۔ میرا سب کچھ علی جان، میرا علی چلا گیا۔‘‘

میں سرک کر ماں کے قریب ہوئی اور پوچھا: ’’علی کہاں ہیں؟ میں انہیں دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘

ماں نے میرے کان میں کہا: ’’ابھی نہیں آیا۔ اپنے دوستوں کے پاس ہے۔‘‘

میں نے پوچھا: ’’کہاں شہید ہوئے ہیں؟‘‘

ماں نے روتے ہوئے کہا: ’’کچھ دن ہوئے ہیں، مغربی محاذ پر۔ دوست اسے الوداع کر رہے ہیں۔‘‘

دوست، رشتہ دار اور جاننے والے تعزیت کے لیے آ رہے تھے۔ کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ سب لوگ مبہوت ہو کر ہمیں دیکھتے تھے۔ امیر کی شہادت کو فقط پانچ ماہ ہوئے تھے۔

رات کو مریم، خانم جان، حاج بابا اور دوسرے تہرانی رشتہ دار بھی پہنچ گئے۔ کتنے تلخ لمحات تھے وہ۔ کیسے دل دہلا دینے والے نالہ و فریاد تھے۔

کتنے دلدوز، دلخراش اور جانگداز تھے منصورہ بیگم اورچچا ناصر کے بین اور مریم کا گریہ۔ وہ کتنی لمبی اور نہ ختم ہونے والی رات تھی۔ کتنا طویل اور سیاہ جمعہ تھا!۔۔۔

ہفتے کی صبح علی آغا کے ایک دوست خبر لائے کہ علی آغا کے جنازے کے کل رات ہمدان میں لے آئے اور مریانج لے گئے اور صبح تک وہاں رسومات ادا کرتےرہے۔

دل سینے میں ٹھہر نہیں پا رہا تھا۔ ایک پل قرار نہیں تھا۔ سب نے لباس پہن لیے تھے۔ میں نے کہا: ’’میں بھی آؤں گی۔‘‘

انہوں نے کہا: ’’نہیں، نہیں ہو سکتا۔‘‘

’’میں بھی آؤں گی۔‘‘

’’اچھا نہیں لگتا۔ تمہارے بچے کے لیے مناسب نہیں ہے۔‘‘

میں رونے لگی۔ میں نے وعدہ کیا کہ میں اپنی حالت پر قابو رکھوں گی۔ میں نے کہا: ’’خدا کی قسم، میں وعدہ کرتی ہوں کہ روؤوں گی نہیں۔ مجھے بھی لے جائیں۔‘‘

میں نے حاج صادق سے التماس کی: ’’آپ کو خدا کا واسطہ ، مجھے بھی جانے دیں۔‘‘

میں نے ماں سے کہا: ’’میرا دل علی آغا کے لیے تڑپ رہا ہے۔‘‘

مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ میں نے چچا ناصر سے درخواست کی: ’’آپ کو خدا کا واسطہ، چچا، مجھے بھی لے جائیے۔‘‘

انہوں نے منصورہ بیگم سے کہا: ’’فرشتہ کو بھی لے جاتے ہیں۔‘‘

میں نے ماں کا ہاتھ پکڑ لیا: ’’ماں، خدا کے لیے، آپ بھی تو کچھ کہیں۔ کچھ ایسا کریں کہ میں بھی جا سکوں۔ وعدہ کرتی ہوں کہ مجھے کچھ نہیں ہو گا۔‘‘

ماں نے چند جگہوں پر فون کیا۔ کچھ لوگوں سے پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ حاملہ عورت کا میت کی طرف دیکھنا کراہت رکھتا ہے۔

میں نے کہا: ’’علی آغا میت نہیں ہیں۔ وہ شہید ہیں۔‘‘

بالآخر ان کے دل میں رحم آ گیا اور کہنے لگے: ’’ٹھیک ہے، کوئی حرج نہیں، آ جاؤ۔‘‘

میں نے اپنا سر جھکا لیا اور بغیر روئے اور کچھ کہے ان کے پیچھے چلنے لگی۔

منافقین کی طرف سے خطرہ تھا کہ وہ علی آغا کے شہید پیکر کے لیے کوئی مشکل کھڑی نہ کر دیں۔ اس لیے ان کے تابوت کو رات کے وقت پوشیدہ طریقے سےدنجی کی بجائے فوجی ہسپتال میں لے گئے تھے جو شہر سے باہر کرمانشاہ کے راستے میں 5 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ وہاں بھی غیر متعلقہ افراد کا داخلہ ممنوع تھا۔ ہم فقط دو گاڑیوں میں تھے۔

ہم ہسپتال میں داخل ہوئے۔ ہسپتال کے صحن میں تھوڑا سا توقف کیا۔ بالآخر ہسپتال کی ایک ایمبولینس آگے بڑھی اور ہماری دونوں گاڑیاں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگیں۔ ہسپتال کی پشت پر ایک نہ ختم ہونے والی تنگ سی سڑک تھی۔ ہسپتال کی فضا دور تک باغ کی طرح سرسبز تھی۔ہم جس سڑک سے گزر رہے تھے اس کے دونوں اطراف بید کے قدیمی ننگ دھڑنگ درختوں سے بھری ہوئی تھیں، جن کے تنوں پر برف کی پتلی سے تہہ جمی ہوئی تھی۔ دور ٹیلوں اور پہاڑوں پر بہت زیادہ برف تھی جس نے زمین،  ہموار جگہوں اور پہاڑ کو سفید کر رکھا تھا۔

ہم اس اندھی سڑک کو جلدی سے طے کیے جا رہے تھے۔ کوئی کچھ نہیں کہہ رہا تھا۔ سارے خاموشی اور سکوت کی حالت میں گاڑی کے شیشوں سے باہر برف سے ڈھکی ہوئی زمین کو دیکھے جا رہے تھے۔

تھوڑی دیر بعد اس سڑک پر ایک کینٹینر ظاہر ہوا، جو ایک بڑے ٹرک کے پیچھے بندھا ہوا تھا۔ پیٹرولنگ پولیس کی کچھ گاڑیاں بھی اس کے ارد گرد کھڑی تھیں۔ ایمبولینس سے کچھ بندے اترے اور کینٹینر کی طرف چلے گئے۔ ہم بھی گاڑی سے اتر پڑے۔ کینٹینر کے سردخانے کا دروازہ کھولا گیا اور تابوت کو نیچے لے آئے۔ حاج صادق خمیدہ قد اور جھکے ہوئے کاندھے لیے آگے بڑھے۔ چچا ناصر دوڑے اور تابوت سے لپٹ گئے۔ ماں نے میرا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ تابوت کا دروازہ کھولاگیا۔ منصورہ بیگم بین کرنے لگیں: ’’تیرے قربان! تمہاری ماں مر جائے، علی! تم رات کو یہاں سوئے تھے میری جان!۔۔۔‘‘

سب رونے لگے۔ ماں بھی گریہ کرنے لگیں۔ اپنے اردگرد کھڑے لوگوں سے بے پرواہ ہو کر میں بھی روئے جا رہی تھی۔

ماں کا ہاتھ میرے کندھوں پر پھسل رہا تھا اور مجھے سہلا رہی تھیں۔ تابوت کے اردگرد ہجوم ہو گیا تھا۔ میں علی آغا کی طرف بڑھی۔ میرا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ پاؤں لرز رہے تھے۔ کچھ لوگ ایک طرف کو ہو گئے۔

میں تابوت کے کنارے بیٹھ گئی۔ علی آغا کا سر حاج صادق کے ہاتھوں پر تھا۔ چچا ناصر اور  منصورہ بیگم نے علی آغا کے دائیں ہاتھ کو پکڑ رکھا تھا۔

میں علی آغا کے بائیں طرف بیٹھ گئی۔ پلاسٹک کو ایک طرف ہٹایا۔ ان کا بایاں ہاتھ ظاہر ہوا؛ سرد اور خون سے بھرا ہوا۔بارودی سرنگ کے ٹکڑوں نے ان کے جسم کے بائیں حصے اور سر کے ایک حصے کو خون آلود کر دیا تھا۔ میں نے ان کا ہاتھ دبایا۔ مجھے یاد آ گیا کہ میں نے آخری رات اس ہاتھ کو کتنے غور سے دیکھا تھا اور اپنے آپ سے کہا تھا : اس ہاتھ کی شکل میرے ذہن میں محفوظ رہنی چاہیے۔ان انگلیوں کی نمونے مجھے بھولنے نہیں چاہییں۔

میں نے جتنی کوشش کی، ان کا ہاتھ گرم نہ ہوا۔ حاج صادق کھڑےہوئے اور اپنی جگہ مجھے دے دی۔ علی آغا آرام و سکون کے ساتھ اپنے سفید اور مہتابی چہرے پر نیند کی چادر اوڑھے لیٹے تھے۔

ان کے دوستوں نے ان کی پیشانی پر ایک سبز رنگ کا پیشانی بند باندھ دیا تھا جو ان کے بھورے بالوں سے گزر رہا تھا۔ ان کی داڑھی پر کنگھی کر دی گئی تھی۔ ان کے بال صاف اور سنورے ہوئے تھے اور ابروئیں مرتب اور کنکھی کی ہوئی تھی۔ جب یہ ابروئیں بکھری ہوئی ہوتیں تو میں انہیں مرتب  کرنے کے لیے کتنا مچلتی رہتی تھی۔

ماں جھکیں اور میرا ہاتھ پکڑ لیا: ’’کھڑی ہو جاؤ، فرشہ جان، اٹھو۔‘‘

میں نے بوجھل دل کے ساتھ کہا: ’’میں رو تو نہیں رہی۔ میری حالت ٹھیک ہے۔‘‘

منصورہ بیگم علی آغا کے دوستوں کو مخاطب کر کے کہہ رہی تھیں: ’’اس طرح تم نے میرے علی کی حفاظت کی! میرا بچہ رات کی سردی میں ٹھٹھر کر رہ گیا ہے!۔۔۔‘‘

سارے رونے لگے۔ ماں نے اپنے ہاتھ میرے بازوؤں کے نیچے رکھ دیے: ’’کھڑی ہو جاؤ، فرشتہ جان، اٹھو۔ جگہ ٹھنڈی ہے۔ تمہیں ٹھنڈ لگ جائے گی۔‘‘

سبھی گریہ کر رہے تھے، سوائے علی آغا کے۔ میں نےکہا: ’’علی جان، اب آپ کوآرام آ گیا۔ سو جائیں، میری جان۔ سات سال بے خوابی برداشت کرتے رہے۔ لیں، اب یہ بے خوابی بھی ختم ہوئی۔ اب سکون سے رہیں۔ سو جائیں۔ آرام سے سو جائیں۔ میرا دل فقط اس بات پر کڑھ رہا ہے کہ آپ نے  اپنے بچے کو نہ دیکھا۔ کاش اپنے بچے کو دیکھ لیتے اور پھر جاتے!‘‘

مجھے بے اختیار وہ پھٹے ہوئے انار یاد آ گئے۔ کاش مجھے معلوم ہوتا کہ انہوں نے وہ پھٹے ہوئے انار کھائے بھی تھے یا نہیں، یا انہیں بھی دوسری چیزوں کی طرح کسی کو دے دیا تھا۔

ماں نے مجھے بازوؤں کے نیچے سے تھاما۔ میں کھڑی ہو گئی۔ میری ٹانگوں میں جان نہ رہی تھی۔ دانت سردی سے بج رہے تھے۔ علی آغا کے سرد جسم کو چھو کر میرا ہاتھ بھی یخ ہو گیا تھا۔ سب سیاہ کپڑے پہنے ، غم کا ماحول بنائے تابوت کے گرد کھڑے تھے اور رو رہے تھے۔ پھر بھی مجھے کچھ نہ دکھائی دے رہا تھا۔ میں کسی کو پہچان نہیں پا رہی تھی۔ میں ماں کے ساتھ چلتی ہوئی دور ہو گئی۔ دل چاہتا تھا کہ ہم اسی طرح چلتے رہیں، چلتے رہیں  اور دور ہوتے رہیں۔ میں علی آغا کے نہ ہونے کا یقین نہیں کرنا چاہتی تھی۔ علی تھے؛ علی اس پہاڑ پر تھے، آسمان میں تھے، بادلوں کے درمیان بیٹھے تھے۔ وہ ہمیں دیکھ رہے تھے۔ ہمارا خیال رکھے ہوئے تھے۔ انہیں میرا دھیان تھا کہ میں گر نہ جاؤں۔ انہیں اس چیز  کی فکر تھی کہ مجھے سردی نہ لگ جائے۔ ان کی توجہ اس بات کی طرف بھی تھی کہ ان کے بچے کو کچھ ہو نہ جائے۔

میں نے کہا: ’’چلیں۔‘‘ میں ماں کے ساتھ پہاڑ کے دامن تک چلتی چلی گئی۔ اس راستے  میں ہم نے آپس میں کوئی بات نہ کی۔

مجھے یہ یقین کرنا اچھا نہیں لگتا تھا کہ علی آغا شہید ہو گئے ہیں، لیکن رات کو ہمدان کے ٹی وی چینل نے اعلامیہ نشر کیا: ’’اسلام کے ایک نمایاں سردار شہید علی چیت سازیان کی شہادت کی مناسبت سے کل اتوار 29 نومبر کو عام تعطیل ہے اور پورے صوبے میں تین روزہ عمومی سوگ کا اعلان کیا جاتا ہے۔‘‘

سارے رشتہ دار اکٹھے بیٹھے اگلے دن کے مراسم اور کفن دفن کے انتظامات کے بارے میں بات چیت کر رہے تھے۔ طے پایا تھا کہ حاج صادق تقریر کریں گے۔ چچا ناصر تو اصلاً بات کرنے کی ہمت نہیں  رکھتے تھے۔ میں بھی مطمئن ہو گئی کہ تقریر کرنے والوں میں میرا نام نہیں ہے۔

اتوار کی صبح میری ساس کے گھر کے سامنے قیامت کا سماں تھا۔لوگ پرچم اور مختلف قسم کے تعزیتی پلے کارڈز اٹھائے ٹیکنیکل کالج کے فلیٹس کے احاطے میں جمع تھے۔ میں کھڑی اس ہجوم کو دیکھ رہی تھی۔ ایک شخص نے کمرے سے کہا: ’’علی آغا کو لے آئے ہیں۔‘‘ ایک ایمبولینس گلی میں داخل ہوئی۔ انہوں نے ایمبولینس کا دروازہ کھولا۔ اس میں اسلامی جمہوری ایران کے سہ رنگے پرچم میں لپٹا تابوت پڑا تھا۔ میری ٹانگیں لرز گئیں۔ میں نے دیوار کا سہارا لے لیا تا کہ گر نہ جاؤں۔ میرے ضبط کا بندھ ٹوٹ گیا۔ ہماری شادی کو ایک سال آٹھ ماہ کا عرصہ ہو چکا تھا۔ اس سارے عرصے میں علی آغا کا اپنا گھر نہیں بن سکا تھا۔ مجھے گھر کا سازو سامان یاد آ گیا جو مختلف جگہوں پر بکھرا پڑا تھا۔ کچھ ماں کے گھر کے گودام میں، کچھ حاج صادق کے گھر میں، کچھ کپڑوں کے بیگ منصورہ بیگم کے کمرے میں۔ لوگ گلی میں نعرے لگا رہے تھے:

ہائے علی مارا گیا شیر خدا مارا گیا([3])

میرا جسم ان صداؤں سے لرز رہا تھا۔ تابوت کو ایمبولینس کے عقب سے نیچے اتارا گیا۔ سامنے والے فلیٹس میں رہنے والے ہمسائے کھڑکیوں میں کھڑے سارا منظر دیکھ رہے تھے اور آنسو بہا رہے تھے۔ گلی میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ ہجوم کا ایک سرا میری ساس کے گھر والے اپارٹمنٹ میں تھا اور دوسرا سرا سڑک پر۔

تابوت کو اوپر نہیں اٹھایا جا سکا تو دوبارہ اسے ایمبولینس میں رکھ دیا گیا۔ جب ایمبولینس چل پڑی تو ہجوم بھی نعرے لگاتا اس کے پیچھے چل پڑا۔ ماحول کافی بوجھل تھا اور گھر غم و اندوہ سے معمور ہو چکا تھا۔ٹیکنیکل کالج والی سڑک اور اپارٹمنٹس کے احاطے نے آج تک اتنا بڑا ہجوم نہ دیکھا تھا۔ لوگ نعرے لگا رہے تھے: ’’یا حسینؑ، یا حسینؑ۔‘‘

میرا دل پارہ پارہ ہو چکا تھا۔ دل چاہتاتھا کہ کھڑکی کھولوں  اور پرندے کی طرح اڑ جاؤں۔ وہاں دور چلی جاؤں، جہاں علی آغا تھے۔ وہ جگہ جہاں علی آغا اور ان کے شہیددوست آپس میں باتیں کر رہے ہیں اور ہنس رہے ہیں۔

لوگوں نے تابوت کے اردگرد قیامت بپا کر رکھی تھی۔ اپنے سینوں، سروں اور چہروں پر  پیٹ رہے تھے، اور فریاد کر رہے تھے: ’’یا حسینؑ۔۔۔‘‘

ایمبولینس نے حرکت کی تو لوگ بھی اس کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ اس برف میں بھی بہت سے لوگ ننگے پاؤں ہی تشییع جنازہ کے لیے چلے آئے تھے۔

ماں میرے پاس کھڑی ہو گئیں۔ ہمیں باغ بہشت لے جانے کے لیے گلی میں کچھ گاڑیاں کھڑی تھیں۔ گلی میں ابھی کافی ہجوم تھا۔ ہمارے لیے راستہ بنایا گیا اور ہم ایک گاڑی میں بیٹھ گئے۔اپارٹمنٹ کے دروازے کے سامنے کا سارا حصہ کالے رنگ کے کپڑوں اور پلے کارڈز سے بھر چکا تھا۔

جب ہم سڑک پر چڑھے تو دکانوں کے دروازوں، شیشوں اور دیواروں پر علی آغا کی تصویریں دکھائی دیں۔ سیاہ پردوں پر لکھا ہوا تھا: ’’علی جان، شہادت مبارک۔‘‘ اداروں کے دروازوں، چھتوں،کھڑکیوں، اور دیواروں پر سیاہ پرچم آویزاں تھے۔ ماں نے میرے کان میں آہستہ سے کہا: ’’فرشتہ جان، اپنے آپ پر قابو رکھو۔ باغ بہشت میں معاملہ اور ہو گا۔ وہاں ہر طرح کے لوگ ہوں گے۔ دوست دشمن سب ہوں گے۔ ماں قربان،  مضبوط رہو۔ کسی کمزوری اور ضعف کا مظاہرہ نہ کرنا۔‘‘

سڑکیں ٹریفک سے بھری ہوئی تھی۔ گاڑیوں کے شیشوں پر علی آغا کا چہرہ مسکرا رہا تھا۔ وہ ہر جگہ تھے، جدھر بھی آنکھ جاتی تھی۔  میں نے آج تک گھر سے لے کر باغِ بہشت تک کے راستے کو اتنا طولانی اور پُرہجوم نہ پایاتھا۔

ہمیں ایک راستے کے ذریعے قبرستان تک لے گئے تھے۔ ڈرائیور نے کہا: ’’لوگ میدان امام میں جمع ہیں۔ طے پایا ہے کہ میدان امام سے باغِ بہشت تک علی آغاکی تشییع جنازہ کریں۔‘‘

یہ راستہ تقریباً پانچ کلومیٹر تھا۔ جب ہم باغِ بہشت پہنچے تو علی آغا کی آواز لاؤڈ سپیکر سے منتشر ہو رہی تھی۔ میری حالت بری تھی۔ میں کیسے یقین کر لیتی کہ اس آواز کا مالک اب ہم میں نہیں ہے۔ میں اس بات کو قبول کرنے کے لیے قطعا آمادہ نہیں تھی کہ اب علی آغا کو کبھی بھی نہ دیکھ سکوں گی۔ نہیں، نہیں، اتنا جلدی میرا دل ان کے لیے بے قرار ہو چکا تھا۔ میں چاہتی تھی کہ وہ میرے پاس ہوں۔ ایک بچے کی طرح جو اپنی ماں سے ضد لگا بیٹھتا ہے، میں بھی ضد کر رہی تھی۔ مریم بھی علی آغا کی آواز سنتے ہی بے چین ہو چکی تھی اور بے اختیار آنسو بہائے جا رہی تھی لیکن اس کی آواز نہ نکل رہی تھی۔ میں علی آغا کو اپنے سامنے دیکھ رہی تھی۔ وہ ہمیشہ کی طرح قدرتمند، محکم اور اپنے مضبوط کندھے لیے چل رہے تھے۔

میں سوچنے لگی: ’’علی آغا، کہاں جا رہے ہیں؟ کیا آپ نے وعدہ نہ کیا تھا کہ دو سال بعد اپنا گھر بنائیں گے اور اپنی زندگی شروع کریں گے۔ اب کہہ دیں کہ گھر خریدنے اور گھر بار والا ہونے میں سستی کا مظاہرہ کرنا صرف اسی وجہ سے تھا۔  آپ اس سے بہتر جگہ کی تلاش میں تھے۔‘‘ میں رونے لگی۔ میں نے سوچا کہ کیا علی آغا واقعاً موت کو زندگی سے زیادہ خوبصورت سمجھتے تھے؟! پھر زیرِ لب کہا: ’’شہادت؛یعنی شہادت اس قدر شیریں اور دلنشین تھی کہ آپ ایسے عاشقانہ انداز میں اس کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور اسے حاصل کرنے کے لیے مجھ سے، بچے سے، ماں باپ سے اور ان سب لوگوں سے جنہیں آپ بے حد محبت کرتے تھے، دور ہو گئے۔ آپ نے کیسے اس لذت کو محسوس کر لیا تھا؟ کیسے اس کے بارے میں جان لیا تھا؟ آپ کی عمر ہی کیا تھی؟ اب کیسا محسوس کر رہے ہیں؛ خوشی، آزادی، رہائی؟ اگر آپ ایسے ہیں تو میں کیوں پریشان ہوں؟ کیوں میرا دل تڑپ رہا ہے؟کیوں اپنے آنسوؤں کو روک نہیں پا رہی؟ کیوں اتنی بے تاب ہوں؟‘‘ ان سوچوں نے میرے دل کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔ ان لمحات میں دل ٹوٹنے اور جگر جلنے کے معنی کو میں اپنے پورے وجود کے ساتھ محسوس کر رہی تھی۔

باغِ بہشت میں کافی لوگ آئے تھے۔ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔  ایک جوان پاسدار جیپ سے اتر کر آگے بڑھاا ور ڈرائیور سے باتیں کرنے لگا۔ اس کے بعد کچھ دوسرے لوگوں نے راستہ کھولا اور ہماری گاڑی اس احاطے میں پہنچ گئی جہاں نماز جنازہ پڑھ رہے تھے۔ احاطے کے دائیں طرف مردانہ اور زنانہ غسال خانے تھے۔ دونوں غسال خانوں کے درمیان سیڑھیاں تھیں جو دوسری منزل تک جاکر ختم ہوتی تھیں۔ انہی لوگوں وہاں راستہ بنایا اور ہم سیڑھیوں سے اوپر چلے گئے۔

دوسری منزل پر دو کمرے تھے: ایک کمرے میں مرد بیٹھے تھے: وہ فوج، پولیس اور ہوائی فوج کے افسران، گورنر، امام جمعہ اور صوبے کے دوسرے سرکاری عہدیدار تھے۔ اس عمارت کے سامنے ایک پتلی اور لمبی سے بالکنی تھی جسے رسومات کی ادائیگی کےلیے استعمال کیا جاتا تھا۔ جب ہم عورتوں والے کمرے میں داخل ہوئیں تو میری حالت بری ہو گئی۔ میں اپنے دل میں کہہ رہی تھی: ’’میرے پاؤں ٹوٹ جائیں، علی، کہ آپ کی خاطر مجھے یہاں آنا پڑا۔‘‘ کمرے میں منصورہ بیگم، خانم جان اور خالہ فاطمہ بھی تھیں، جو ہمارے آنے سے پہلے ہی پہنچ چکی تھیں۔ ماں گئیں اور میرے لیے ایک گلاس پانی کا لے آئیں۔

مریم، جو ہماری گاڑی میں آئی تھی، جا کر اپنی ماں کے پاس بیٹھ گئی۔ ایک گھنٹے بعد باہر سے ہمارے کانوں میں اونچی اونچی آوازیں پڑنا شروع ہوئیں۔ لوگ نعرے لگا رہے تھے:

پهنو لباسِ غم سبھی

ہائے علی مارا گیا

شیرِ خدا مارا گیا([4])

ایک جوان عورت کمرے میں داخل ہوئی جس نے چہرے پر چادر لپیٹ رکھی تھی۔ چادر نے اس کی ابرؤوں کو اوپر سے اور نیچے سے اس کی ٹھوڑی اور آدھے چہرے کو ڈھانک رکھا تھا۔اس عورت نے کہا: ’’معاف کیجیے گا۔ شہید کی بیگم کہاں بیٹھی ہیں؟‘‘

ماں نے میری طرف اشارہ کیا۔ میں نے کہا: ’’جی؟‘‘

وہ جوان عورت میرے پاس آئی۔ میں اس کی فقط ناک اور آنکھوں کو دیکھ سکتی تھی۔ کہنے لگی: ’’بہن، طے پایا ہے کہ آپ تقریر کریں گی۔‘‘

یہ بات سنتے ہی میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ میں نے کہا: ’’کیا؟ تقریر! نہیں، یہ تو طے نہیں پایا تھا۔‘‘

عورت کہنے لگی: ’’آپ کا نام فہرست میں شامل ہے۔ شہید کے بھائی کے بعد آپ کی باری ہے۔‘‘

میں زیرِ لب بڑبڑانے لگی: ’’آپ نے جلدی کیوں نہ بتایا! کم از کم رات ہی کو بتا دیتے۔‘‘

اس عورت نے اور کوئی بات نہ کی اور چلی گئی۔

جس کمرے میں ہم بیٹھے تھے وہاں کھڑکی نہیں تھی، لیکن باہر سے آنے والی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ اچانک علی آغا کی آواز ابھری۔ ان کی ایک تقریر کی کیسٹ لگائی گئی تھی۔ ہم سب متوجہ ہو گئے۔ منصورہ بیگم رونے لگیں: ’’تیری آواز پر قربان جاؤں، علی جان!تیری ماں تیرے غم میں مر جائے۔‘‘

علی آغا کہہ رہے تھے: ’’ساری اچھائیاں اور قدریں شہید میں پائی جاتی ہیں۔ شہداء کے حال پر رشک آتا ہے۔ وہ ایسے خوشبودار پھول  تھےجنہیں خدا نے چن لیا۔ خدا نے انہیں منتخب کیا۔ شہداء زندہ ہیں۔ شہداء ان لوگوں کے لیے زندہ ہیں جو ان کے راستے کو جاری رکھیں گے۔ شہداء کی امانت کو سنبھال کر رکھو۔۔۔‘‘

منصورہ بیگم رو رہی تھی: ’’تیرے قربان، کہ تو ایک پھول تھا اور خدا نے تجھے چن لیا۔ تیری ماں تیرے قربان، کہ تو ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ شہداء کی قسمت پر رشک آتا ہے! اب ہم کہتے ہیں کہ تو کتنا خوش قسمت ہے۔ تیری قسمت پر رشک آتا ہے، علی جان!۔۔۔‘‘

منصورہ بیگم یہ جملے کہے جا رہی تھیں اور روئے جا رہی تھیں۔ میں اپنے آپ میں کہنے لگی: ’’علی جان، میں آپ کی طرح اتنی اچھی گفتگو نہیں کر سکتی۔ ڈرتی ہوں کہ کوئی ایسی بات میرے منہ سے نہ نکل جائے جس سے آپ کی آبرو چلی جائے۔‘‘

ماں ایک بال پوائنٹ اور کاغذ لے آئیں اور میرے ہاتھ میں تھما دیا: ’’لو، فرشتہ جان، لکھ لو تا کہ تمہیں یاد رہے۔‘‘

میں نے بال پوائنٹ اور کاغذ لیا۔ میں پہلی بار تقریر کرنے والی تھی، وہ بھی اس ہجوم میں۔ میں نے تو ابھی تک ایف۔ اے بھی نہیں کی تھی۔  میں کیا کہہ  سکتی تھی؟ مجھے کیا لکھنا چاہیے تھا؟!

میں نے کہا: ’’علی جان، آپ نے خود ہی تو ابھی کہا ہے کہ شہداء زندہ ہیں۔ شہداء ان لوگوں کےلیے زندہ ہیں جنہوں نے ان کے راستے کو جاری رکھنا ہے۔ اگر اس وقت میرے پاس ہیں تو میری مدد کریں۔‘‘

جب میں نے بال پوائنٹ کو کاغذ پر چلانا شروع کیا تو لفظ میرے ذہن ودہن سے جاری ہونے لگے۔ میں کاغذ پر لکھتی جا رہی تھی اور محسوس ہو رہا تھا کہ وہ میرے پاس کھڑے ہیں۔ میں ان کی آواز سن رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ بول رہے ہوں اور میں لکھ رہی ہوں۔ دل چاہ رہا تھا کہ اسی طرح لکھتی رہوں تا کہ ان کی محبت بھری آواز سنتی رہوں۔ لیکن بالآخر علی آغا نے کہا: ’’والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔‘‘ اور میں نے لکھ دیا اور بال پوائنٹ کو کاغذ پر رکھ دیا۔ ابھی تک ان کے وجود کا احساس ہو رہا تھا۔ میں محسوس کر رہی تھی کہ وہ ابھی تک بات کر رہے ہیں: ’’فرشتہ جان، زینبؑ کی طرح صبر کرو۔ زینبؑ کی طرح۔۔۔‘‘

میرے آنسو بہنے لگے۔

میں نے کہا: ’’میری مدد کریں۔ میری مدد کریں کہ میں بٖغیر کسی غلطی کے تقریر کر سکوں۔‘‘

علی آغا مسکرا دیے اور ان کی مسکراہٹ نے میرے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ باہر سے لوگوں کی آواز آ رہی تھی:

لاشے شہداء کے دفنانے اے مہدیِؑ دوراں! آ جاؤ([5])

مریم ،منصورہ بیگم اور خانم جان یہ نعرے سن کر رو رہی تھیں۔ ماں ذرا مضبوط تھیں۔ تھوڑی دیر بعد آواز بند ہو گئی اور فوجی بینڈ والوں کی موسیقی ابھری۔ وہ عزا کی دھن بجا رہے تھے۔اس کے بعد ایک شخص نے غم میں ڈوبی ہوئی آواز میں تلاوت قرآن مجید کی۔

مریم، خانم جان اور خالہ فاطمہ منصورہ بیگم کی دلجوئی کر رہی تھیں۔ ان چند دنوں میں منصورہ بیگم کی حالت کافی خراب ہو چکی تھی اور ان کے گردے انہیں کافی اذیت دے رہے تھے۔ مریم کہہ رہی تھی: ’’ماں، اگر آپ زیادہ روئیں گی تو آپ کی حالت اور خراب ہو جائے گی! آپ کو بھول گیا ڈاکٹر نے کیا کہا تھا؟ غم اور گریہ آپ کے لیے زہر ہے۔‘‘

منصورہ بیگم نے آزردگی سے کہا: ’’زہر ہی رہنے دو۔ میں چاہتی ہوں کہ علی کے بعد دنیا ہی نہ رہے!‘‘

قرآن کی تلاوت ختم ہونے کے بعد ہجوم کی آواز نے ایک دفعہ پھر کمرے کو لرزا دیا:

آج ہے یومِ عزا
مہدئ صاحب زماں
آج ہے یومِ عزا
آج ہیں صاحب عزا([6])

وهی جوان عورت کمرے میں داخل ہوئی اور مجھ سے کہنے لگی: ’’خانم پناہی، تیار رہیے۔ شہید کے بھائی کی تقریر کے بعد آپ کی باری ہے۔‘‘

ایک دفعہ میرے ہاتھ ٹھنڈے ہو گئے۔ میں اپنی دھڑکنیں سن رہی تھی اور اپنے آپ کو دلاسہ دے رہی تھی۔

حاج صادق کی تقریر کے بعد لوگ نعرے لگا رہے تھے: ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر، خمینی رہبر، منافقین و صدام مردہ باد، اسلام کے مجاہدوں پر سلام ، شہداء پر سلام۔‘‘

میں اپنی جگہ سے اٹھی۔ عورت دروازے کی چوکھٹ میں کھڑی ہو گئی۔ ماں کھڑی ہوئیں اور بالکنی کے آگے تک میرے ساتھ آئیں۔  وہ جلدی جلدی میرے لیے صلوات پڑھ رہی تھیں۔ بالکنی کے دروازے پر کھڑا پاسدار ایک طرف کو ہٹ گیا: ’’تشریف لائیے خانم چیت سازیان۔‘‘

لوگ اسی طرح نعرے لگا رہے تھے:

’’ہائے علی مارا گیا

شیر خدا مارا گیا

یا حسین۔۔۔‘‘

بالکنی  ان حکومتی و فوجی عہدیداروں سے بھری ہوئی تھی جو لوگوں کے سامنے صف باندھے کھڑے تھے۔ وہ پاسدار جو دروازے کے آگے کھڑا تھا اس نے راستہ بنایا اور ڈائس تک میرے ساتھ آیا اور مائیکروفون کو درست کرنے لگا۔ جب میں ڈائس کے پیچھے کھڑی ہوئی  تو میری نظر اس ہجوم پر گئی جو احاطے میں کھڑا تھا۔ غسال خانے کے سامنے واقع مسجد کی چھت پر بھی لوگ کھڑے تھے۔ دو فوجیوں نے ایک پلے کارڈ کو دونوں طرف سے پکڑ رکھا تھا۔ پلے کارڈ کے بائیں کونے پر علی آغا کی تصویر تھی اور اس بر جلی الفاظ میں لکھا تھا: ’’علی جان، شہادت مبارک۔‘‘

دائیں طرف، جہاں آیت اللہ آخوند ملا علی معصومی ہمدانی([7]) کی آرامگاہ ہے،  کافی لوگ جمع ہو گئے تھے۔ بائیں طرف سے لے کر باغِ بہشت کے داخلی دروازے تک  بلکہ اس سے بھی آگے تک ہجوم کے علاوہ کوئی چیز نظر نہ آتی تھی۔ جہاں تک نظر کام کرتی تھی سیاہ پوش لوگ ہی نظر آ رہے تھے جو اپنے محبوب سردار کی تشییع جنازہ کے لیے آئے ہوئے تھے۔ میں نے آج تک باغِ بہشت میں اس طرح کا ہجوم نہ دیکھا تھا۔ وہ پاسدار جو مائیکروفون درست کر رہا تھا اس نے مجھے اشارہ کیا کہ میں شروع کروں:

’’خدا کے نام سے جو خون شہداء کی حرمت کا محافظ ہے اور مظلوموں کا مددگار ۔۔۔‘‘

مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میری آواز لرز رہی ہے۔ میں نے دل میں پکارا: ’’علی، علی جان، میری مدد کریں!‘‘

’’میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتی کہ اس مقدس جگہ پر کھڑی ہوں اور بات کروں، لیکن آپ عزیز افراد جنہوں نے کافی زحمت کی اور اس شہید سردار اسلام، علی چیت سازیان کی خاطر یہاں تشریف لائے ہیں، آپ کی خدمت میں ایک درخواست کرنا چاہتی ہوں۔۔۔‘‘

میں نے ایک لمبا سانس لیا۔ ہجوم سکوت میں غرق تھا۔ میں نے اپنا سر اٹھایا۔ سامنے والے پلے کارڈ پر علی آغا کی تصویر مسکرا رہی تھی۔ میں نے اپنی بات جاری رکھی:

’’اسی طرح میں اپنے آپ کو اس قابل بھی نہیں سمجھتی کہ ایک ایسے شخص کی شریک حیات بن سکوں جو اس قدر متقی، نڈر، شجاع، دلیر اور فداکار ہو۔ْ۔۔‘‘

جب میں یہ جملے ادا کر رہی تھی تو مجھے یاد آ رہا تھا کہ علی آغا ان تمام خصلتوں سے معمور تھے اور ہر ایک خوبی کا کوئی نہ کوئی نمونہ انہوں نے میرے ذہن میں نقش کر رکھا تھا۔ میں نے اپنی بات کو آگے بڑھایا: ’’علی آغا یتیموں کے مددگار تھے۔‘‘ مجھے یاد آیا کہ ان دنوں ان کے ایک دوست کہہ رہے تھے کہ علی آغا اور ان کے علاوہ کچھ اور دوست جب بھی چھٹی پر آتے تو ایک وانٹ([8]) راشن سے بھرتے اور سنگ سفید کے علاقے میں چلے جاتےاور  راشن کے تھیلے ان گھروں کی پچھواڑی میں رکھ دیتے جن کی انہوں نے پہلے سے شناخت کر رکھی ہوتی تھی۔ واپس لوٹتے وقت زور سے ایک دو بار ہارن بجاتے۔ ان محتاج خانوادوں نے اس ہارن کی آواز پہچان رکھی تھی۔ ہارن بجا کر یہ لوگ تیزی سے سنگ سفید کے علاقے سے نکل آتے اور پیچھے سے وہ لوگ اپنے گھروں سے نکل کر اپنے اپنے تھیلے اٹھا لیتے۔

میں نے کہا: ’’علی وہ تھےکہ جن کی یاد، تمام محاذوں میں، ہمارے تمام عزیز بھائیوں میں اور محاذ پر موجود ہمارے قابل احترام جنگجوؤں میں ہمیشہ باقی رہے گی۔‘‘

اچانک ہجوم سے رونے کی آواز بلند ہوئی۔ میں نے اپنے آپ پر قابو رکھا۔

’’یہ حقیر تمام ماؤں، بیویوں اور بہنوں سے تقاضا کرتی ہے کہ اپنے بیٹوں اور اپنے شوہروں کو جیسا کہ امام نے فرمایا ہے، محاذوں پر روانہ کریں۔ حق کے ان محاذوں پر جو باطل کے خلاف برسرپیکار ہیں۔‘‘

ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں میرے ذہن میں وہ منظر آ گیا جب امیر کی شہادت کے روز علی آغا اسی ڈائس کے پیچھے کھڑے ہو کر لوگوں سے محاذ پر جانے کی درخواست کر رہے تھے۔

علی آغا کی آواز میرے کانوں میں گونجی: ’’اس بات کی نوبت نہ آنے دیں کہ امام دوبارہ منبر پر جا کر آپ لوگوں سے محاذ پر جانے کی درخواست کریں۔‘‘

میں نے کہا: ’’ان شاء اللہ، آپ لوگوں کی محاذ پر موجودگی کی وجہ سے دشمن اندھا اور لشکر اسلام جلد از جلد فتحیاب ہو جائے گا۔ میں ایک دفعہ پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتی ہوں اور درخواست کرتی ہوں کہ شہداء، خصوصاً اپنے اس عزیز شہید کے راستے کو باقی رکھیں۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔‘‘

میں یہاں پہنچی تو میں نے دیکھا کہ منصورہ بیگم میرے پاس کھڑی ہیں۔ اسی پاسدار نے گلایل کے پھولوں کی کچھ شاخیں مجھے اور منصورہ بیگم کو دیں۔ ہم نے بالکنی سے ان پھولوں کو لوگوں کی طرف پھینک دیا۔ ہجوم سے اٹھنے والی ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا نے باغِ بہشت کو لرزا کر رکھ دیا۔ ان تمام آوازوں میں کچھ افراد کے سوزناک نالہ و شیون  نے میرے دل کو پارہ پارہ کر دیا: ’’علی آغا۔۔۔ علی آغا۔۔۔ علی آغا جان۔۔۔‘‘

میں منصورہ بیگم کے ساتھ واپس کمرے میں آ گئی۔ لوگوں کے رونے اور سینہ زنی کی آوازیں مسلسل آ رہی تھیں۔ وہی جوان عورت کمرے میں داخل ہوئی اور کہنے لگی: ’’بہت شکریہ خانم چیت سازیان۔ آپ نے بہت اچھی تقریر کی!‘‘

میں نے کہا: ’’مجھے لے جائیں۔ میں چاہتی ہوں کہ علی آغا کی تدفین کے وقت ان کے پاس رہوں۔‘‘

اس عورت نے ماں اور منصورہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’اتنا ہجوم ہے کہ عہدیداران اور افسران بھی تدفین کے لیے آگے نہیں جا سکیں گے۔ ان کے دوستوں نے گذشتہ رات قبر کے گردرسی کھینچ دی تھی کہ کوئی قبر کے نزدیک نہ جائے، لیکن کہتے ہیں  کہ لوگوں کا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کہتے ہیں آگے قیامت ہی قیامت ہے۔ ان کے ایک جنگجو ساتھی جو عالم دین بھی ہیں، صبح ہی سے قبر میں قرآن مجید اور زیارت عاشوراء پڑھ رہے ہیں۔ آپ وہاں نہیں جا سکتیں۔‘‘

منصورہ بیگم نے کہا: ’’کاش علی کو اپنے بھائی کے ساتھ ہی دفنا سکتے۔‘‘

اس جوان عورت نے کہا: ’’حاج خانم، علی آغا کے ساتھ والی قبر ایک گمشدہ فوجی کی تھی۔ اس فوجی کے والد نے اپنی بیوی کی ڈھارس اور تسلی کے لیے وہاں ایک کتبہ لگا رکھا تھا جس پر اس نے اپنے گمشدہ بیٹے کا نام لکھا ہوا تھا۔ وہ ہر شب جمعہ کو آتے تھے اور فاتحہ پڑھتے تھے۔ انہوں نے وہ قبر آپ کے علی آغا کو ہدیہ کر دی ہے۔ انہوں نے کہا ہےکہ یہ ان کی سعادت ہے کہ ان کے بیٹے کی قبر علی آغا کے حصے میں آ جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح وہ خود بھی خوش ہو جائیں گے اور ان کا بیٹا بھی۔  حاج خانم دعا کیجیے کہ ان کا بیٹا شہید نہ ہوا ہو اور زندہ و سلامت واپس آ جائے۔‘‘

منصورہ  خانم نے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے کہا: ’’الٰہی آمین، خدا انہیں ناامید نہ کرے۔ خدایا، ان کا دل خوش رہے۔ خدایا، میں تجھے اپنے ٹوٹے ہوئے دل کی قسم دیتی ہوں کہ ان کے دل کو شاد فرما۔ ان کی امید کو پورا فرما۔ حضرت زہراؑ کے شکستہ پہلو کا واسطہ، ان کے انتظار کو ختم فرما۔‘‘

پھر منصورہ بیگم روتے روتے کہنے لگیں: ’’امیر، خوش قسمت ہے تو، اٹھ جا، آج تیرے پاس مہمان آیاہے، علی آغا آیا ہے، تیرا بھائی علی آیا ہے۔‘‘

ان باتوں نے سب کو رلا دیا۔ کافی اصرار کے بعد منصورہ خان، مریم، خانم جان اور خالہ فاطمہ تشییع جنازہ کے لیے چلی گئیں، مگر لاکھ جتن کرنے کے باوجود مجھے جانے کی اجازت نہ مل سکی۔ میں اور ماں کمرے میں بیٹھ گئیں۔

وہ وقت کتنی مشکل سے اور آہستہ آہستہ گزر رہا تھا۔ وہ دو تین گھنٹے مجھے دو دن کے برابر لگے۔میں نے ماں سے کتنا کہا تھا کہ آخری وداع کے لیے مجھے لے جائیں۔ ماں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا تھا اور تیز تیز آیت الکرسی، حمد اور قل ھو اللہ پڑھ رہی تھیں۔ کبھی اپنا ہاتھ میرے دل پر رکھتیں اور تسبیحات حضرت زہرا سلام اللہ علیہا پڑھنے لگتیں۔  میں نے اپنے کان تیز کر لیے تھے اور کوشش کر رہی تھی کہ باہر سے کچھ سُن گُن لے سکوں۔ تھوڑی دیر کے لیے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے دل نے دھڑکنا بند کر دیا ہےاور میرے اندر کچھ ٹوٹ گیا ہے۔ میں کھڑی ہوئی اور دروازے کی طرف دوڑی۔ ماں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ میں زمین پر بیٹھ کر نالہ و شیون کرنے لگی: ’’ماں، علی۔۔۔ علی آغا چلے گئے! میں سچ کہہ رہی ہوں ابھی ابھی ہمارے سامنے سے گئے ہیں۔‘‘

ماں رونے لگیں ۔ میں نے اپنا سر ان کے سینے پر رکھ دیا۔

’’ماں، میں اب انہیں کبھی بھی نہیں دیکھ پاؤں گی۔ اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ انہیں قبر کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ میں نے خود انہیں دیکھا ہے۔ انہوں نے مجھے خداحافظ کہا ہے۔‘‘

ماں جو اس وقت تک میرے سامنے خود کو سنبھالے بیٹھی تھیں، رونے لگیں۔

’’علی آغا جان، خدا حافظ۔۔۔‘‘

ماں کی گود میرے گریے کے لیے اچھی جگہ تھی۔ تھوڑی دیر بعد حاج صادق، چچا ناصر اور کچھ دوسرے لوگ آگئے۔ ان کے سیاہ لباس خاک آلود ہو چکے تھے اور حالت بکھری ہوئی تھی۔ہم سیڑھیوں سے نیچے اترے۔ احاطہ خالی ہو چکا تھا، مگر باغِ بہشت میں ابھی تک ہجوم موجود تھا۔ لیکن ہم ہجوم سے گزر کر پیدل جا سکتے تھے؛ اگرچہ میرے پاؤں لرز رہے تھے اور راستہ چلنے  کی سکت مجھ میں نہ تھی۔  کہہ رہے تھے کہ علی آغا کے دو تین ساتھیوں کی حالت بھی کافی خطرناک تھی اور انہیں ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال لے گئے تھے۔

مزار کے آس پاس کافی بھِیڑ تھی۔ مجھ سے چلا نہیں جا رہا تھا۔ میں نے زیرِ لب کہا: ’’علی آغا، آپ تو اپنی آرزو کو پہنچ گئے، لیکن مجھ میں اس جدائی، دوری اور رنج و غم کی طاقت نہیں ہے۔‘‘

کچھ لوگوں نے ہمیں دیکھا تو چلا چلا کر کہنے لگے: ’’ایک طرف ہو جاؤ تا کہ شہید کی ماں اور گھر والے آگے آ سکیں ۔‘‘

راستہ کھل گیا۔ حاج صادق نے منصورہ بیگم کو سہارا دے رکھا تھا۔  حمید آغا، مریم کے شوہر، نے ان کا ہاتھ پکڑا۔ ماں اور بابا مجھ سے آگے چچا ناصر سے باتیں کر رہے تھے۔ میں نے کہا: ’’علی جان، میرا ہاتھ کون پکڑے! میں کس کے کندھے پر اپنا سر رکھوں! علی، کتنا جلدی مجھے تنہا چھوڑ کر چلے گئے! میں کتنا جلدی تنہا ہو گئی! میں تو ابھی انیس سال کی ہوں!‘‘

میں بیٹھ نہیں سکتی تھی۔ ایک کونے میں کھڑی ہو گئی۔ علی آغا کی قبر سفید گلایل کے پھولوں سے بھری ہوئی تھی۔ میں نے اپنی چادر چہرے پر کھینچی۔ گلاب کی خوشبو فضا میں پھیلی ہوئی تھی۔ میرا دل یہ سوچنے کو نہیں چاہتا تھا کہ علی آغا اس کے نیچے دفن ہیں؛ اس مٹی کے نیچے۔ نہیں، علی وہاں نہیں تھے؛ علی اوپر تھے۔ آسمان میں۔ میں نے چادر سرکائی اور سر اوپر کو اٹھایا۔ اگرچہ آسمان پر سورج چمک رہا تھا مگر موسم سرد لہریں پھینک رہا تھا۔ میں نے کہا: ’’علی، آپ کہاں ہیں؟‘‘ آسمان کے درمیان! میں نے آنکھیں گھمائی، وہ وہاں نہیں تھے، میں انہیں نہیں دیکھ سکتی تھی: ’’کہاں کہاں آپ کو ڈھونڈوں، میری جان!‘‘

مجھے اپنے پاس گرمی محسوس ہوئی۔ سوچا، ماں ہیں، لیکن دیکھا تو ماں نہ تھیں۔ میرے پاس کوئی نہ تھا۔ پھر یہ گرمی کہاں سے آئی؟ یہ کس کے جسم کی گرمی ہے؟! علی آغا کی تصویر میری نظروں کے سامنے گھومنے لگی: وہی بھورے بال، نیلی آنکھیں، بکھری ہوئی داڑھی۔ میں کہنے لگی: ’’علی جان، داڑھی کو آج کے دن لیے بڑھا رکھا تھا؟‘‘

یہ سوچ کر میرادل شکستہ ہو گیا اور میں اپنے گریہ پر قابو نہ رکھ سکی۔ لیکن اچانک مجھے احساس ہوا کہ علی میرے پاس کھڑے ہیں۔میں نے اس گرمی کا سہارا لیا اور اسی گاڑھے اور شیرین ہمدانی لہجے میں ڈوبی علی کی آواز سننے لگی: ’’فرشتہ، مجھے معاف کرنا، میری پیاری، زینبؑ کی طرح زندگی گزارو، زینبؑ کی طرح۔۔۔‘‘

منصورہ بیگم اور مریم پھولوں پر گری ہوئی تھیں۔ ان کے کندھے مسلسل ہل رہے تھے، لیکن ان کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ میں عجیب گومگو کی کیفیت میں تھی۔ سوچ رہی تھی کہ اگر حضرت زینبؑ کی طرح جینا ہے تو اِس وقت میرا رویہ کیسا ہونا چاہیے؟!

گریہ میرے گلے میں سختی سے اٹکا ہوا تھا۔ میں نے اپنے اوپر کے دانتوں سے نیچے والا ہونٹ کاٹا۔ آگے بڑھی اور مشکل سے امیر کی قبر پر بیٹھ گئی۔ اپنی انگلیوں کو گنبد کی شکل میں سنگِ قبر پر رکھا اور فاتحہ پڑھ کر زیرِ لب کہا: ’’امیر جان، علی کا خیال رکھنا۔‘‘ ایک جیب گزر رہی تھی۔ علی آغا کی ایک بڑی تصویر اس پر لگی تھی۔ علی تیزی سے ہمارے پاس سے گزر گئے۔ علی چلے گئے۔۔۔ ٹھنڈی ہوا چل پڑی۔ چچا ناصر جھکے اور منصورہ بیگم کو اٹھایا۔ مریم کے شوہر آگے آئے اور اسے پھولوں سے جدا کیا۔ ماں نے میرے دائیں ہاتھ کو  اور بابا نے مہربانی اور محبت سے دوسرے بازو کو تھام لیا۔ ضبط نے میرا سر چکرا کر رکھ دیا تھا۔ میں جانا نہیں چاہتی تھی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ علی سے اتنا جلدی جدا ہو جاؤں۔ میں نے کہا: ’’ماں، نہ جائیں۔‘‘

ماں رو رہی تھیں۔

میں نے کہا: ’’بابا، یہیں ٹھہر جاتے ہیں۔‘‘

بابا کے مضبوط شانے ہل رہے تھے۔ میرے پاؤں لرز رہے تھے اور ہاتھ برف بن چکے تھے۔ میرا دل اتنا جلدی علی آغا کے لیے بے قرار ہو گیا تھا۔ اس وقت میرا دل چاہ رہا تھاکہ سب چلے جائیں اور میں تنہا رہ جاؤں۔ چاہتی تھی کہ تھوڑی دیر پہلے کی طرح علی میرے پاس کھڑے رہیں اور ان سے پوچھوں: ’’علی آغا، زینبؑ کی طرح جیوں، یعنی کیسے؟‘‘ دل چاہتا تھا کہ باغِ بہشت میں کوئی نہ ہوتا اور میں بلند آواز سے گریہ کرتی۔

جب ہم گاڑی میں بیٹھے تو ڈرائیور نے ٹیپ ریکارڈر چلا دیا۔ دلسوز نوحہ پڑھا جا رہا تھا۔ مجھے یاد ہے وہ امام حسین علیہ السلام کے لیے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا نوحہ تھا۔ میرا ضبط ٹوٹ گیا۔ میں نے سر ماں کے کندھوں پر رکھ دیا۔ چادر سے منہ ڈھانپ لیا اور بے صدا رونے لگی۔ روتی رہی۔۔۔ گھر تک۔۔۔ گریہ اور صرف گریہ۔۔۔


([1]) ایسے جملے عموماً بچوں کی توجہ بانٹنے کے لیے کہے جاتے ہیں تا کہ اگر وہ کسی چیز کی ضد کر رہے ہوں یا کسی بات پر اصرار کر رہے ہوں تو ان کی توجہ اس سے ہٹا دی جائے۔

([2]) ایک ایرانی گاڑی۔

([3]) اصل فارسی متن میں یہ اشعار اس طرح درج ہیں: وای علی کشته شد / شیر خدا کشته شد.

([4]) اصل فارسی متن میں  یہ اشعار یوں درج ہیں: رخت عزا به تن کنید / که علی کشته شد / وای علی کشته شد!…

([5])  کتاب کے اصل متن میں یہ فارسی نعرہ اس طرح درج ہے: برای دفن شهدا / مهدی بیا، مهدی بیا

([6]) اصل فارسی متن میں اشعار یوں ہیں: عزا عزاست امروز / روز عزاست امروز / مهدی صاحب زمان / صاحب عزاست امروز.

([7]) حضرت آیت اللہ العظمیٰ آخوند ملا علی معصومی (متولد 1895؁) شیخ عبدالکریم حائری کے شاگردوں میں سے تھے۔ آپ ایک زاہد اور باتقوا عالم دین اور روحانی خیر و برکات کا منبع تھے۔ جب وہ ہمدان میں تشریف فرما تھے تو انہوں نے حوزہ علمیہ ہمدان اور اس حوزہ کے کتابخانے کی تاسیس میں بنیادی کردار ادا کیا۔ وہ بیماری کے سبب 22 جولائی 1978؁ کو  انتقال فرما گئے۔

([8]) ایران میں باربرداری کے لیے استعمال ہونے والی ایک گاڑی۔

چودہواں باب

باپ کا ستارہ

چہلم حتی کہ علی آغا کی شہادت کے پچاسویں دن تک پورے صوبے میں مختلف جگہوں پر ان کے لیے تقاریب منعقد ہوتی رہیں۔ پہلے دنوں میں تو ہم سب گھر والے ان تقریبوں میں شریک ہوتے رہے، لیکن دوسرے ہفتے میں فقط چچا ناصر اور حاج صادق ہی جاتے  اور اس کے بعد باری باری کبھی چچا ناصر چلے جاتے اور کبھی حاج صادق۔

آہستہ آہستہ خوشگوار و ناخوشگوار اور عجیب و غریب خوابوں کا زمانہ شروع ہو گیا۔ رشتہ دار، دوست اور ہمسائے علی آغا کو خواب میں دیکھتے اور ہر کوئی شوق و اشتیاق سے وہ خواب ہمیں سناتا۔ خواب کا سننا ہماری بے چینی اور بے قراری میں اضافہ کر دیتا لیکن اس کے ساتھ ساتھ  ایک قلبی سکون بھی میسر ہوتا۔ سب لوگ علی آغا کو بہترین مقام پر بہترین کپڑوں میں دیکھتے۔ خواب اس چیز کی حکایت کرتے تھے کہ علی آغا بلند و بالا مرتبے پر پہنچ گئے ہیں اور اچھے حالات میں ہیں، لیکن وہ ہم زمین والوں خصوصاً اپنی ماں کے لیے پریشان تھے۔

علی آغا کی شہادت کے بعد منصورہ بیگم کی بیماری اتنا زور پکڑ گئی کہ چہلم سے چند ہفتے بعد چچا ناصر اور حاج صادق انہیں تہران لے جانے پر مجبور ہو گئے۔ ان دنوں ہمدان میں سردی اپنے پورے جوبن پر تھی۔ برف اور کہر کسی کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہ دیتی تھی۔ ایسے حالات کے باوجود منصورہ بیگم کے تہران جانے کے بعد میں نے اپنا بیگ اور مختصر سا سامان جمع کیا اور محمد علی کو چند نومولودی کمبلوں میں لپیٹ لپاٹ کر ماں کے گھر چلی گئی۔

بابا اور ماں نے ہمیشہ کی طرح کھلی بانہوں کے ساتھ میرا استقبال کیا۔ وہاں تھی تو اچھا محسوس ہوتا تھا۔ ایسا لگتا کہ علی آغا ابھی تک محاذ پر ہیں اور جلد ہی لوٹ آ ئیں گے۔ سردیوں کے ٹھنڈے دن دھیرے دھیرے گزر رہے تھے۔ تہران سے آنے والی خبریں حوصلہ افزا نہ تھیں۔ منصورہ بیگم کے گردے سکڑ گئے تھے اور انہوں  نے کام کرنا کم کر دیا تھا۔ رسولیاں معمول سے بڑی ہوتی جا رہی تھیں۔ ڈاکٹروں کے پاس ڈائیلائسز کے علاوہ کوئی حل نہ تھا۔ لہذا منصورہ بیگم کے عذابناک ڈائیلائسز کا آغاز ہو گیا۔

ایک روز سہ پہر کے وقت میں، بابا اور ماں گھر میں بیٹھے تھے۔ میں کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ برف بغیر وقفے کے برس رہی تھی۔ ماں محمد علی کے لیے لباس سی رہی تھیں۔ بابا نے پوچھا: ’’فرشتہ، بالآخر تم نے کیا سوچا ، کیا کرنا  چاہتی ہو؟‘‘

میں بابا کے اس سوال سے حیران رہ گئی۔ میں نے کہا: ’’ظاہر ہے محمد علی کو پالنا پوسنا چاہتی ہوں۔‘‘

بابا نے پوچھا: ’’بس، یہی!‘‘

میں نے کہا: ’’محمد علی کی پرورش کرنے کے لیے  ایک لمبی عمر درکار ہے۔‘‘

ماں نے بابا کی بات میں مداخلت کرتے ہوئے کہا: ’’فرشتہ، اس کے ساتھ ساتھ پڑھائی کرو اور اپنی تعلیم کو جاری رکھو۔‘‘

میں مزید پڑھائی کا حوصلہ نہیں رکھتی تھی: ’’اب بچے کے ساتھ میں کیسے پڑھ سکتی ہوں؟‘‘

ماں نےکہا: ’’ہم تمہاری مدد کریں گے۔ تم پڑھو۔‘‘

بابا نے میری اور ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’صحیح، فرض کرو تم نے پڑھائی مکمل کر لی۔  اس کے بعد کیا؟‘‘

میں جانتی تھی کہ ان باتوں سے بابا کا کیا مقصد ہے۔ میری طاقت جواب دے گئی۔ میں رونے لگی۔ محمد علی کمرے کے کونے میں سویا ہوا تھا۔ میں بیٹھی اور بچوں کے طرح دونوں ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل، روتی ہوئی محمد علی کی طرف یوں بڑھی کہ وہ جاگ نہ جائے۔ میں نے کہا: ’’کچھ بھی تو نہیں۔ میری زندگی اب ختم ہو چکی ہے۔‘‘

ماں پریشان ہو کر میری طرف آئیں۔ میں اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی۔ میں کمرے سے باہر نکلنا چاہتی تھی۔ میں نے بابا سے کہا: ’’بابا، آپ کو یاد ہے نا، شبِ عروسی کو آپ نے علی آغا سے کیا کہا تھا؟! آپ نے کہا تھا کہ اگر میری بیٹی ایک رات کسی مرد کے ساتھ زندگی گزارے تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ کسی بزدل کے ساتھ پوری زندگی گزار دے۔ یہ ایک سال اور آٹھ مہینے بجلی کی طرح گزر گئے۔میرے لیے تو سارا عرصہ ایک ہی رات کے برابر تھا۔ میں نے ایک رات ایک مرد کے ساتھ زندگی گزار لی ،بس ختم۔ میں نہیں سمجھتی کہ کوئی اور علی آغا پیدا ہو گا۔‘‘ پھر میں نے روتے ہوئے اپنے ہاتھ میں پڑی انگوٹھی کی طرف دیکھا اور کہا: ’’بابا، آپ علی آغا سے بہتر کسی مرد کو جانتے ہیں؟!‘‘

بابا اٹھے اور میرے پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔ ان کی آنکھیں سرخ اور آنسوؤں سے پُر ہو چکی تھیں۔ میں نے ابھی تک انہیں اس حال میں نہ دیکھا تھا۔ انہوں نے مجھے گلے لگا لیا اور بوسہ دے کر کہنے لگے: ’’نہیں، بابا کی جان۔ خدا کی قسم نہیں جانتا۔ علی آغا بہت اعلیٰ انسان تھا۔ اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔‘‘

بابا نے اپنا سر میرے کندھوں پر رکھ دیا۔ میری نظریں شادی کی انگوٹھی پر ہی ٹکی ہوئی تھیں اور شادی کی خریداری کے ایام میرے ذہن میں گھوم رہے تھے۔ بابا نے کہا: ’’فرشتہ، میں اور تمہاری ماں، تمہارے اور تمہارے بیٹے کے نوکر ہیں۔ اگر ہم اس قابل ہیں تو تم اور تمہارا بیٹا ہمارے سر آنکھوں پر۔‘‘

میں رونے لگی۔ ماں بھی رو رہی تھیں۔ ہمارے رونے کی آواز سے محمد علی بھی جاگ گیا۔ ماں نے اسے آغوش میں لے لیا اور بوسہ دیا۔ بابا جا کر کھڑکی کے پاس کھڑے ہو گئے۔ برف نے صحن کو سفید کر دیا تھا۔انہوں نے کہا: ’’بہار کا موسم آتے ہی میں چھت پر ایک کمرہ بناتا ہوں۔ تم وہاں منتقل ہو جاؤ۔ تمہیں اب مستقل ہونا چاہیے۔ جس چیز کی بھی ضرورت ہے وہ مجھے کہو، بابا کی جان۔ میں تمہارے لیے خرید لوں گا۔ کسی بات کا غم نہ کرو۔ ہم تمہارے اور علی آغا کے بہت مقروض ہیں۔‘‘

اگلے سال جیسے ہی بہار شروع ہوئی اور موسم تھوڑا خوشگوار ہوا تو بابا چند مستریوں اور مزدوروں کو لے آئے۔ گارڈر اور دوسرا تعمیراتی سامان چھت پر ڈالا اور ایک کمرہ، ایک باورچی خانہ اور ایک بیت الخلاء تعمیر کر دیا۔ چھت کا باقی حصہ ہمارے صحن کا کام دینے لگا۔

محمد علی تھوڑا بڑا ہو گیا تھا۔ ہم گرمیوں کی راتوں میں چھت پر یا اسی صحن میں سو جاتے۔ محمد علی اپنے بابا کو یاد کرتا: ’’میرے بابا جان کہاں ہیں؟‘‘

’’خدا کے پاس چلے گئے۔‘‘

’’میرے پاس کیوں نہیں آتے۔‘‘

’’کیونکہ وہ وہیں اوپر ہی سے ہمارا خیال رکھتے ہیں۔‘‘

’’اچھا، مگر آپ تو کہتی ہیں کہ خدا ہماری دیکھ بھال کرتا ہے۔ حالانکہ نانی اماں، نانا ابو اورآپ میری دیکھ بھال کرتی ہیں۔‘‘

میرے پاس جواب کم پڑ جاتے۔ میں ہمیشہ کی طرح بات کا رُخ بدل دیتی: ’’وہ ستارہ دیکھ رہے ہو؟‘‘

محمد علی خوش ہو کر کہتا: ’’ہاں۔‘‘

’’وہ تمہارے بابا جان کا ستارہ ہے۔‘‘

محمد علی خوش ہو جاتا اور اپنے ہاتھ پھیلا دیتا تا کہ اپنے بابا جان کی آغوش میں چلا جائے۔ مگر ایسا نہ ہوتا۔ نہ ہی ہو سکتا تھا۔ وہ رونے لگتا۔ لاکھ جتن کرتی اسے آرام نہ آتا۔ میں اسے گو د میں لے لیتی اور چومنے لگتی۔ اس سے علی آغا کی خوشبو آتی تھی۔ میں اسے پکارتی: ’’علی جان۔‘‘ سب علی آغا کی یاد میں محمد علی کو علی ہی کہتے تھے۔ علی جان، میرا بچہ، اکثر راتوں کو روتے روتے سو جاتا۔

پندرہواں باب

طالب علم ماں

میں کالج جاتی تھی، پھر بھی ایف۔ اے کا دوسرا سال مجھے پڑھنا پڑا۔ 1986؁ میں منگنی اور شادی کی وجہ سے میں امتحان  پاس نہ کر سکی جبکہ شادی کے بعد ہم لوگ دزفول چلے گئے تھے۔ لیکن  89-1988؁ کے تعلیمی سال میں ماں کے اصرار و ترغیب سے تیسری بار میں نے کالج میں ایف۔ اے کے دوسرے سال میں داخلہ لے لیا۔ماں نے سلائی کا کام کم کر دیا تھا۔ صبح وہ گھر پر ہی رہتیں اور علی کی دیکھ بھال کرتیں۔ ایک سال اسی  انداز سے گزر گیا۔ تہذیب ٹیکنیکل کالج کے پرنسپل نے ان اساتذہ کے لیے جن کے چھوٹے بچے تھے،  کالج کے ایک کمرے میں بچوں کے لیے نرسری کا اہتمام کر دیا تھا۔

میں صبح سب سے پہلے مدرسے پہنچ جاتی اور علی کو نرسری کی دایہ  کے حوالے کرتی اور ظہر کے وقت سب سے آخر میں وہاں جاتی تا کہ میرے ساتھ پڑھنے والی طالبات میں سے کسی کو معلوم نہ ہو جائے کہ میں شادی شدہ ہوں اور ایک بچے کی ماں ہوں۔ لیکن اگلے سال ان سب باتوں سے بچنے کے لیے میں نے کالج سے باہر ایک نرسری میں محمد علی کو داخل کروا دیا۔

ان حالات میں میں نے ایف۔ اے کا امتحان پاس کیا۔ علی چار سال کا ہو چکا تھا۔ ماں کا اصرار تھا کہ اساتذہ کی آسامیوں پر بھرتی کے لیے ہونے والے امتحان میں شرکت کروں۔ ماں کے کہنے پر شرکت کی۔ میں نے یہ امتحان پاس کر لیا اور ۲۲ بہمن بوائز سکول میں پرائمری استاد کے عنوان سے ملازمت کا آغاز کر دیا۔ یہ سکول ہمدان میں چمڑے کے کام والے علاقے منوچہری میں واقع  تھا۔

سولہواں باب

درختوں کی قطار کے پیچھے

16 اگست 1995؁ کا دن تھا۔ منصورہ بیگم کچھ دنوں سے حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے اکباتان ہسپتال میں داخل تھیں۔ اگرچہ ان کے گردوں کی پیوندکاری کا عمل کامیابی سے انجام دیا جا چکا تھا، مگر اس بار دل کی بیماری نے انہیں ہسپتال کے بستر پر پہنچا دیا تھا۔

اس دن میں اور ماں ان کی عیادت کے لیے گئے ہوئے تھے۔ مریم بھی تھی؛ بے چاری بے تاب اور مضطرب۔ ہمیں دیکھتے ہی اس کے آنسو نکل آئے: ’’فرشتہ جان، وجیہہ بیگم، میری ماں کی حالت بہت خراب ہے۔‘‘

اس کے بعد ماں کی طرف دیکھ کر کہا: ’’وجیہہ بیگم، آپ کو خدا کا واسطہ ، ان کے لیے دعا کریں۔‘‘

مریم کی وساطت سے میں اور ماں سی سی یو میں چلی گئیں اور وہ خود باہر ہی رہی۔منصورہ بیگم کا رنگ اڑ چکا تھا اور وہ کافی کمزور سی حالت میں بستر پر لیٹی تھیں۔ ان کے ہاتھ اور ناک میں ڈرپ کے پائپ لگے ہوئے تھے۔ان کے پاس ایک مانیٹر بھی پڑا ہوا تھا جس پر ان کے دل کی دھڑکنیں نظر آ رہی تھیں۔ دھڑکنیں کافی بے ترتیب تھیں: 200، 120، 100، 180، 105۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا؛ ہاتھ ٹھنڈا تھا۔ میں نے پریشان ہو کر ماں کی طرف دیکھا۔ ماں نے افسوس سے سر ہلایا اور  اپنے بیگ سے چرمی جلد والا چھوٹا سا قرآن نکالا جو ہمیشہ ان کے پاس رہتا تھا۔ مجھ سے کہا: ’’فرشتہ، ایک گلاس پانی کا لے آؤ۔‘‘

اس کے بعد نرمی کے ساتھ منصورہ بیگم سے کہا: ’’منصورہ بیگم جان، کیسی ہیں؟!‘‘

میں گلاس ڈھونڈنے لگی۔ کھڑکی کے پاس رکھے فریج کے اوپر شیشے کا ایک جگ اورگلاس رکھے ہوئے تھے۔ میں نے گلاس کو فریج کے اندر سے ٹھنڈا پانی نکال کر بھرا اور واپس آ گئی۔ منصورہ بیگم  نے آرام سے اپنی آنکھیں کھولیں۔ مجھے دیکھا تو مشکل سے پوچھ سکیں: ’’فرشتہ جان، کیسی ہو؟ علی کیسا ہے؟ کہاں ہے؟ کہاں ہے وہ؟!‘‘

میں نے پریشان ہو کر کہا: ’’سلام، آپ اچھی ہیں؟ میں علی کو لانا چاہتی تھی مگر پھر ڈرتی تھی کہ شاید ہسپتال والے اندر آنے کی اجازت نہ دیں۔ ہسپتال کے ایم ایس سے بات کرتی ہوں، کل  انشاء اللہ حتماً اسے لے آؤں گی۔‘‘

منصورہ بیگم نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ ان کی آنکھوں کے گوشوں سےکچھ قطرے آنسوؤں کے ان کے گالوں پر ٹپک پڑے۔ انہوں نے دوبارہ آنکھیں کھولیں اور روہانسے لہجے میں ماں سے کہا: ’’وجیہہ بیگم، اگر میں مر جاؤں تو مطلب یہ ہے کہ میں امیر اور علی کو دیکھ سکوں گی۔۔۔‘‘

ماں نے یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ منصورہ بیگم کی بیماری پریشان کن نہیں ہے، نرم اور مہربان لہجے میں کہا: ’’خدا نہ کرے منصورہ بیگم! مطمئن رہو۔ وہ اب یہاں ہیں، تمہارے  پاس۔ ایک تمہاری اِس طرف کھڑا ہے اور دوسرا اُس طرف۔ وہ تمہاری مدد کر رہے  ہیں کہ تم جلدی سے صحت یاب ہو جاؤ۔ ابھی علی نے بڑا ہونا ہے، گاڑی خریدنی ہے۔ وہ میرے اور تمہارے پاس آئے گا اور ہمیں گھمانے پھرانے لے جائے گا۔ ابھی تمہیں جینا ہے۔ خدا تمہیں لمبی عمر دے۔‘‘

منصورہ بیگم نے آہ بھرتے ہوئے کہا: ’’نہیں، وجیہہ بیگم۔ اب بس ہو چکی۔ میں اپنے بچوں سے دوری کی طاقت نہیں رکھتی۔ آٹھ سال ہو چکے ہیں میں نے اپنے بچوں کو نہیں دیکھا۔ میں اب جانا چاہتی ہوں۔ میرا دل بے تاب ہے۔‘‘

انہوں نے اپنے آنسوؤں پر ضبط کیا، اپنی آنکھیں بند کیں اور پھر نہ کھولیں۔ ماں نے جلدی جلدی قرآن کے چاروں کونے پانی بھرے گلاس میں ڈالے اور گلاس میرے ہاتھ میں دے کر کہا: ’’ٹشو سے ان کے ہونٹوں کو تر کرو۔‘‘

پاس کی میز پر پڑے ٹشو پیپرز کے ڈبے سے ایک ٹشو میں نے کھینچا اور اسے گلاس والے پانی سے تر کر کے آرام آرام سے منصورہ بیگم کے ہونٹ تر کیے۔ منصورہ بیگم نے آہستہ سے اپنی آنکھوں کو نیم باز کیا۔ بےحالی سے مجھے دیکھا اور دوبارہ آنکھیں بندکر لیں۔ ماں نے ان کے پاؤں کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے ایک اور ٹشو لیا، اسے تر کیا اور کمبل کو ایک طرف کر دیا۔ اپنے ہاتھ منصورہ بیگم کے پاؤں پر رکھے۔ وہ ٹھنڈے ہو چکے تھے۔ میں نے ڈر کر ماں سے کہا: ’’ماں، ان کے پاؤں اتنے ٹھنڈے کیوں ہو گئے ہیں؟!‘‘

ایسا لگتا تھا کہ ماں جانتی تھیں کہ کیا پیش آنے والا ہے۔ انہوں نے قرآن کو کھولا۔ اپنا ہاتھ آرام سے منصورہ بیگم کے دل پر رکھا اور تلاوت کرنے لگیں۔ میری آنکھیں مانیٹر پر پڑیں: 30، 25، 20، 32۔ مانیٹر پر ڈھرکنوں کی ٹیڑھی میڑھی لکیریں سیدھی ہوتی جا رہی تھیں۔ میں نے منصورہ بیگم کا ہاتھ پکڑا؛ وہ ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ ان کے پیشانی اور ہونٹوں کے اوپر پسینے کے قطرے ٹھہر گئے تھے۔ مشکل سے سانس لے رہی تھیں۔ میں نے پریشان ہو کر ماں کی طرف دیکھا اور گھبرائی ہوئی باہر کی طرف دوڑی۔ ایک نرس کمرے میں آ رہی تھی۔ میں نے کہا: ’’نرس خانم! خانم الطافی۔۔۔ میری ساس۔۔۔ ان کی حالت بہت خراب ہو گئی ہے۔۔۔‘‘

نرس کمرے کی طرف دوڑی۔ کچھ دوسری نرسیں بھی دوڑی دوڑی آئیں اور منصورہ بیگم کے بستر کے گرد جمع ہو گئیں۔ ماں ساتھ والی کرسی پر بیٹھ کر اسی اطمینان سے مسلسل تلاوت کیے جا رہے تھیں۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ کسی نے ہاتھ سے میرا گلا دبا رکھا ہے۔ میں شدید گھبرا رہی تھی۔ کسی نے میرے دل کو اپنی مٹھی میں جکڑ رکھا تھا۔ ہر چیز سے غم چھلک رہا تھا۔ دنیا میرے لیے بےقیمت اور چھوٹی ہو چکی تھی۔ ہائے خدایا! یعنی منصورہ بیگم بھی اتنی جلدی چلی گئیں؟! کمرہ تنگ ہو چکا تھا اور نرسوں کو میں نہیں دیکھ رہی تھی۔ میری نظر کھڑکی سے باہر کی طرف چلی گئی۔ سرسبز اور بلند درختوں کی قطار میں علی آغا اور امیر وہاں دور کھڑے تھے؛ بالکل آسمان کے وسط میں۔ کمرے میں غم کی فضا پھیل گئی۔ میرا دل دنیا سے اچاٹ ہو چکا تھا۔ مجھے یقین نہ آتا تھا کہ منصورہ بیگم اتنی جلدی ہمیں تنہا چھوڑ کر چلی جائیں گی۔

نرسوں نے ہمیں کمرے سے باہر نکال دیا۔ وہ CPR  لے آئیں۔ منصورہ بیگم کو جھٹکے دیے۔ کچھ ڈاکٹر کمرے کی طرف دوڑے لیکن تھوڑی دیر بعد میں نے بے یقینی کے عالم میں دیکھا کہ ڈرپ کے پائپ  اور دوسری تاریں منصورہ بیگم سے جدا کر دی گئیں۔

سترہواں باب

معدے کا زخم

اگرچہ دن ہوا کی طرح گزر رہے تھے لیکن وہ چند سال میری زندگی کے سخت ترین سال تھے اور لحظہ لحظہ مشکل سے گزر رہا تھا۔ منصورہ بیگم کے انتقال کے بعد تو میرے لیے اور مشکل ہو گئی تھی۔ ہم پہلے سے زیادہ تنہا ہو گئے تھے۔

علی آغا کی شہادت کے بعد چچا ناصر اور حاج صادق نے ایک مشترکہ گھر لے لیا تھا اور اکٹھے ہی زندگی گزارتے تھے۔ ہمیشہ ہفتے کے آخر میں میں اور علی جان ان کے پاس جاتے تھے۔ منصورہ بیگم کے انتقال کے بعد بھی ایسا ہی ہوتا رہا۔ ایک اور اہم بات یہ تھی کہ حاج صادق بھی خاندانی بیماری کے سبب گردوں کی پیوندکاری کے مرحلے سے گزر چکے تھے۔ ہم ان کی احوال پرسی کے لیے جاتے تھے، لیکن منصورہ بیگم کے جانے سے ایک مضبوط سہارا ہمارے ہاتھوں سے نکل چکا تھا۔ ان حالات میں زندگی کے ایام گزر رہے تھے؛ مشکل، غم ، تنہائی کے درد اور دل شکستگی سے بوجھل۔

1998؁ کا سال تھا۔ علی گیارہ سال کا ہو چکا تھا اور پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا۔ وہ چند ماہ سے مریض تھا۔ اس کے معدے میں درد اٹھتا اور متلی ہوتی تھی۔ ان حالات میں ہر روز ظہر کے بعد میری اور ماں کی ایک اور مصروفیت ہو گئی تھی۔ وہ یہ کہ علی جان کو لیتے اور ہر روز ایک ماہرِ خصوصی ڈاکٹر کے پاس چلے جاتے۔ کچھ الٹراساؤنڈ، اینڈوسکوپی  اوررنگین ایکسرے کے بعد کچھ ڈاکٹروں نے تشخیص کیا کہ : ’’مریض کو معدے کا السر ہے۔‘‘

یہ خبر سنتے ہی میرے ہوش اڑ گئے۔ میں اور ماں  نے اس بچے کو سو ناز سے پالا تھا۔ ہم نے اس کی کتنی دیکھ بھال کی تھی۔ پھر یہ سب کیسے ہو گیا تھا!

علی آغا کی برسی نزدیک تھی۔ وہ 25 نومبر کو شہید ہوئے تھے اور 29 کو ان کی تدفین ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے ہم ہر سال 25 سے 29 نومبر  کے درمیان ان کی برسی مناتے تھے۔ اس دوران اگر جمعرات یا جمعہ ہو جاتے تو پھر نور علیٰ نور (سونے پر سہاگہ) ہو جاتا۔

ماں برسی کے انتظامات میں مصروف تھیں اور گھر کو صاف کر رہی تھیں۔ انہوں نے صوفے جمع کر لیے تھے۔ پیالیوں، پرچوں، پلیٹوں، چھریوں اور نمکدانوں وغیرہ  کو دھو رہی تھیں۔ سب مہمانوں کو دعوت بھی دے دی تھی اور پھلوں اور حلوے کا آرڈر بھی دے دیا تھا۔

ان دنوں علی جان کی بیماری بھی زور پکڑے ہوئے تھے۔ ان آخری دنوں میں توحالت یہ ہو گئی تھی کہ ایک گلاس پانی بھی اس کے حلق سے نیچے نہ اترتا تھا۔ 25 نومبر کو برسی کا پروگرام بھی ملتوی کر دیا اور اسے 29 نومبر پر اٹھا رکھا۔ کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔ آخری ڈاکٹر جس کے پاس ہم گئے تھے اس نے مختلف ٹیسٹ لینے کے بعد کہا تھا: ’’ایکسرے میں نظر آ رہا ہے کہ اس کی آنت میں ایک چھوٹا سا زخم ہے۔ جتنا جلدی ہو سکے مریض کو تہران لے جائیں۔‘‘

27 نومبر کو کافی پوچھ تاچھ کے بعد تہران میں اندرونی اعضاء کے ایک بہترین ڈاکٹر کا اتا پتا معلوم کیا اور اس کی باری بھی لے لی۔ رات کے وقت ہم بس کے ذریعے تہران کی طرف چل دیے۔

ان دنوں ابھی تک تمام لوگوں کے ہاتھ میں موبائل فون نہیں آیا تھا۔ایک دوست نے ہمیں ایک موبائل امانت دے دیا۔ علی کوئی چیز نہیں کھاتا تھا۔ فقط قے کرتا تھا۔ بس میں بھی اس کی حالت اتنی بری ہو گئی تھی کہ آگے پیچھے کی نشستوں پر بیٹھے مسافر ہمدردی کی کوشش اور ہماری مدد کر رہے تھے۔ اس حالت میں بھی علی جان مجھے دلاسہ دے رہا تھا اور کہہ رہا تھا: ’’ماں، مجھے کچھ نہیں ہوا۔ میں ٹھیک ہو رہا ہوں۔‘‘

میں اپنے ساتھ کپڑوں کا ایک بیگ لے کر گئی تھی۔ علی قے کر رہا تھا اور میں جلدی جلدی ایک لوٹے کی مدد سے اس کے ہاتھ منہ دھو رہی تھی اور اس کا لباس تبدیل کر رہی تھی۔ وہ رات میرے اوپر کتنی بھاری گزری تھی۔ تہران کا چھ گھنٹے کا سفر ختم ہونے کا نام ہی نہ لے رہا تھا۔

بالآخر آدھی رات سے کچھ دیر بعد ہم پہنچ گئے۔ خانۂ معلم پر ایک کمرہ ہم نے لے لیا تھا، وہ ایک ہسپتال کے نزدیک تھا۔ علی کو ایمرجنسی میں لے گئے۔ ڈاکٹروں نے اس کا معائنہ کیا اور دوا کا نسخہ لکھ دیا۔ بابا دوائیں لینے اور میں اور علی خانہ معلم چلے گئے۔

علی کو بخار چڑھ گیا تھا۔ بخار تقریباً ایک سو چار پر تھا۔ لاکھ جتن کیے مگر بخار نیچے نہ آرہا تھا۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ بابا بھی ابھی تک نہ لوٹے تھے۔ بے اختیار میرے آنسو بہنے لگے۔ میرا بیٹا اب باتیں نہیں کر رہا تھا اور نہ ہی میری ڈھارس بندھا رہا تھا۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں۔ وہ بخار میں پھنک رہا تھا۔ میرے ہاتھ میں جو کپڑا تھا میں اسے گیلا کر کر کے اس کے بدن، پیشانی اور پاؤں پر رکھ رہی تھی۔ میں نے ہسپتال کی ایمرجنسی میں فون کیا۔ انہوں نے پوچھا: ’’بچے کی مشکل کیا ہے؟‘‘

میں نے کہا: ’’اسے بخار ہے۔‘‘

انہوں نے جواب دیا: ’’اس کے پاؤں دھوئیں۔ یہ ایمرجنسی کامعاملہ نہیں ہے۔‘‘

میں نے فون پر بہت التماس کی، کافی روئی دھوئی۔

پندرہ منٹ بعد وہ لوگ آ گئے۔ لیکن انہوں نے بھی کوئی خاص کام نہ کیا۔ ایک سکون آور ٹیکہ لگایا اور کہا: ’’اگر آپ زیادہ پریشان ہیں تو اسے ہسپتال لے جائیں۔ شاید داخل کرنا پڑے۔‘‘

ان کے جانے کے بعد میں دوبارہ اس کے پاؤں دھونے لگ گئی۔ میرے پیارے بیٹے کی حالت ٹھیک نہیں ہو رہی تھی۔ بخار نیچے آنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ میں بدحواس ہو چکی تھی۔ بابا ابھی تک نہ لوٹے تھے۔ اس سارے عرصے میں کسی نے میری زبان سے صدائے اعتراض یا گلہ شکوہ نہ سنا تھا، لیکن اس وقت میں روتے ہوئے شکوہ کر رہی تھی: ’’علی آغا، کہاں چلے گئے آپ؟! آپ باپ ہیں۔ میں آپ کو اس چیز کی قسم دیتی ہوں جو آپ کو سب سے زیادہ عزیز ہے۔ حضرت زہراؑ کی قسم دیتی ہوں جن سے آپ کو حد درجہ عقیدت ہے۔ آپ شہید ہیں، اس بلندی سے ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ میں گناہگار ہوں، رو سیاہ ہوں۔ آپ خدا سے درخواست کریں کہ وہ ہمارے بچے کو شفا دے۔ آپ کو یاد ہے کہ آپ کتنا چاہتے تھے کہ آپ کا بچہ جلدی دنیا میں آ جائے، تو وہ آ گیا۔ آپ اس کا نام بھی رکھنا چاہتے تھے۔ ہم نے اسے آپ کا نام دیا تا کہ آپ ہمیشہ ہمارے سامنے رہیں۔ علی آغا، اب ہمارا بچہ ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ میں آپ کے قربان جاؤں۔ آپ تو معرفت و عرفان میں مشہور تھے۔ آپ کا دل انسانوں اور دنیا کے لیے کڑھتا رہتا تھا۔ آپ قیدیوں کو  بالکل اپنے جیسا سمجھتے تھے۔ ہمارے بیٹے نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اس کا دل اس بات پر باغ باغ رہتا ہے کہ رات ہو تو وہ آسمان پر ستاروں میں آپ کو ڈھونڈے۔ علی آغا، میری جان، فرشتہ کی جان، اپنی زہرا خانم کی جان۔ اس بلندی سے نیچے اتریں۔ آج کی رات میری اور اپنے بچے کی دستگیری کریں۔ آج کی رات اپنے آپ کو اپنے بچے کے سامنے ظاہر کریں۔  آج کی رات ان بلندیوں سے اپنا تعلق توڑ کر نیچے آئیں۔ علی آغا، آپ کو خدا کا واسطہ، میری مدد کریں۔ علی، علی آغا، میں علی جان کو آپ سے لوں گی۔ علی آغا آپ کو خدا کا واسطہ!۔۔۔‘‘

مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کر رہی ہوں اور کیا کہہ رہی ہوں۔ میں نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بڑھا دیے تھے۔ میں نالہ و شیون کر رہی تھی ۔ آنسو میرے چہرے پر لگاتار گر رہے تھے اور میں علی علی پکار رہی تھی۔ نہیں معلوم کتنا وقت گزر گیا، لیکن جب حواس بحال ہوئے تو دیکھا کہ علی کے بستر کے ساتھ لگ کر بیٹھی ہوں۔ میرا سر اس کے تکیے پر رکھا ہوا تھا اور میں نے اس کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ تکیہ میرے آنسوؤں سے تر ہو چکا تھا۔ علی آرام اور آسودگی سے سویا ہوا تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر رکھا۔ اس کا بخار کسی حد تک اتر چکا تھا، لیکن میں ہاتھ کھینچنے والی نہیں تھی۔ وضو کیا۔ نماز کی چادر اوڑھی اور نماز کے لیے کھڑی ہو گئی۔ نہیں معلوم میں نے اس رات کتنی رکعت نماز پڑھی اور کتنی بار دعائے توسل اور زیارت عاشورا پڑھی، البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ ہر نماز و دعا کے بعد میں سجدے میں گر جاتی اور روتے گڑگڑاتے ہوئے دعا کرتی: ’’علی، آپ نے کہا تھا کہ حضرت زینبؑ کی طرح آپ کے راستے کو جاری رکھوں۔ خدا کی قسم اور آپ کی جان کی قسم۔ میں نے حضرت زینبؑ کی طرح صبر و تحمل سے آپ کے راستے کو جاری رکھا۔ جو کچھ بھی میرے سر آیااور جو کچھ بھی ہمارے بارے میں کہا گیا میں نے قطعا کسی چیز کی کوئی پرواہ نہیں کی اور اف تک نہ کی۔ میں ابھی تک آپ کی اور آپ کے ساتھ گزری زندگی کی عاشق ہوں۔ آپ کے ساتھ گزرے لمحات اور یادوں کے ساتھ خوش ہوں اور آپ کے علاوہ میرا دل کسی کی طرف مائل نہیں ہوا اور نہ ہی ہو گا۔ اس دنیا میں آپ کی یاد کے بعد میری تنہا خوشی یہی ہمارا بیٹا ہے۔ علی جان آپ کی یادگار ہے۔ آپ کے وجود کا ٹکڑا ہے۔ یہاں تک تو میں نے آپ کی یادگار کی اچھی طرح دیکھ بھال کر لی۔ْ میں نہیں چاہتی کہ خدا اور آپ کے سائے کے علاوہ کسی اور کا سایہ اس کے سر پر ہو۔ علی جان، خدا کے حضور اس کے لیے دعا کریں۔ اسے ہمارے پاس واپس لوٹا دیں۔میں جانتی ہوں کہ آپ سےزیادہ کوئی بھی ہم سے محبت نہیں کرتا۔ فقط آج کی رات میری بات مان لیں۔ میں ساری عمر آپ کے پاؤں میں بیٹھی رہوں گی۔ وعدہ کرتی ہوں۔ علی جان، میری درخواست ہے کہ مجھے خالی ہاتھ نہ لوٹائیں۔ آپ کو خدا کا واسطہ میری درخواست رد نہ کریں۔ اگر آپ کے بس میں کچھ ہے تو کریں۔ آپ کا وہ مہربان ہاتھ کہاں ہے، علی! میرا دل بے تاب ہے۔ میرا دل تڑپ رہا ہے۔ اپنے مہربان ہاتھ کو میرے سر پر پھیریں۔ پھیریں۔ پھیریں علی جان۔۔۔‘‘

اس رات میں خوب جی بھر کر روئی۔آنسو تھمنے میں نہ آتے تھے۔

اس ساری نماز و دعا کے بعد اپنے بیٹے کے سرہانے بیٹھ گئی۔ میرا بیٹا گہری نیند سو رہا تھا۔ آرام سے سانس لے رہا تھا۔ میں نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ میرا بچہ دو ماہ سے درد سہہ رہا تھا۔اس مرض کی وجہ سے وہ دو ماہ سے سکول بھی نہیں جا رہا تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ ہولے سے اس کے پیٹ پر رکھا؛ پیٹ خالی تھا جو نیچے کو اتر چکا تھا اور گڑھا سا بن گیا تھا۔ میں نے اس کے پیٹ کا بوسہ لیاا ور رو کر کہا: ’’علی جان، میں جانتی ہوں کہ آپ یہاں ہیں۔ میں اپنے بیٹے کو آپ کے حوالے کرتی ہوں۔ اس کا خیال رکھنا۔ میں جانتی ہوں کہ اگر آپ ہوتے تو دوسرے  باپوں کی طرح آپ بھی اپنے بیٹے سے بہت محبت کرتے۔ میں اس بات پر مطمئن ہوں کہ آپ دنیا کے تمام باپوں سے زیادہ زندہ اور ہوشیار ہیں۔‘‘

اگلے روز علی کو اسی ڈاکٹر کے پاس لے گئے جس سے وقت لے رکھا تھا اور طے یہ پایا تھا کہ معائنے سے پہلے سی ٹی اسکین کروا لیا جائے۔ مجھے انہوں نے اندر نہ جانے دیا۔ میرے بیٹے کو اکیلا ہی اندر لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد ایک نرس گھبرائی ہوئی باہر آئی اور مجھے آواز دی۔ دروازے پر پہنچنے تک سو باری میری جان نکلی۔  اس نے قے کر دی تھی اور اس کے سارے کپڑے گندے ہو گئے تھے۔ میں روہانسی ہو کر اس کے کپڑے تبدیل کر رہی تھی اور کہتی جا رہی تھی: ’’علی جان، مت ڈرو، میرے بیٹے۔ ابھی ٹھیک ہو جاؤ گے۔‘‘

میرا بیٹا اس حالت میں بھی میری دلجوئی کر رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا: ’’ماں، میں ٹھیک ہوں۔ کافی بہتر ہو گیا ہوں۔ میرا درد بھی کم ہو گیا ہے۔‘‘

اگلے روز بعد از ظہر ڈاکٹر ملک زادہ کے پاس جانا طے پایا تھا۔ اتفاق سے اسی روز علی کی برسی بھی تھی۔ ماں فون پہ فون کیے جا رہی تھیں اور علی کی طبیعت پوچھ رہی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ برسی کی تقریب کے ہر لمحے کی خبر بھی مجھے دے رہی تھیں: ’’سارے مہمان آ گئے ہیں، کمرہ کھچا کھچ بھر گیا ہے۔ علی جان کے لیے دعائے  توسل پڑھ رہے ہیں۔ سنو: ’’یا وجیھاً عند اللہ اشفع لنا عند اللہ۔۔۔‘‘

میرے دل میں طوفان بپا تھا۔ علی آغا کو ہمیشہ سے زیادہ محسوس کر رہی تھی۔ وہ میرے پاس ہی بیٹھے تھے، میرے اور میرے بیٹے کے درمیان۔  جتنی دیر میں باری کا انتظار کرتی رہی ان سے باتیں ہی کرتی رہی۔

فون بج رہا تھا۔

’’فرشتہ، نیت کرو۔‘‘

خواتین کی اجتماعی آواز آ رہی تھی: ’’یا ابا الحسن یا موسی بن جعفر ایھا الکاظم یا بن رسول اللہ۔۔۔‘‘

بالآخر ہماری باری آ گئی۔ ڈاکٹر ملک زادہ، اندرونی اعضا کے ماہر خصوصی، کافی اچھی اور مہذب شخصیت کے مالک تھے۔ رسمی اور محترمانہ گفتگو کر رہے تھے۔ میں نے علی کی موٹی سی فائل میز پر رکھی۔ انہوں نے سارے ٹیسٹ، ایکسریز اور اینڈوسکوپی کے نتائج دیکھے۔ علی جان کا معائنہ کیا اور کہا: ’’محترمہ، میرا اس فائل اور ان ٹیسٹز سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ آپ مریض کو تیار کریں۔ اس کمرے میں دوبارہ اینڈوسکوپی ہو گی۔‘‘

اس وقت پچاس ہزار تومان بہت زیادہ رقم ہوا کرتی تھی۔  ہم نے اتنی بھاری رقم ادا کی۔ کچھ نرسوں نے میرے بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور لے گئیں۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ ایک نرس نے آواز دی: ’’محمد علی چیت سازیان کے ہمراہ جو ہیں وہ تشریف لائیں۔‘‘

اس نے دوبارہ قے کر دی تھی۔ میں نے بیگ سے ایک جوڑا کپڑوں کا نکالا۔ میں اس کا لباس تبدیل کرتے ہوئے رو رہی تھی اور زیرِ لب علی آغا سے باتیں کر رہی تھی: ’’علی آغا، علی جان، میں نے کل رات آپ سے کتنی التماس کی۔ ٹھیک ہے، یعنی آپ کا دل میرے لیے نہیں تڑپتا۔ اس وقت آپ کا دل عراقی اسیروں کے لیے تو تڑپتا تھا اور آپ اپنا کوٹ اتار کر ان کے جسم پر اُڑھا دیتے تھے۔ اب میری اور میرے بچے کی حالت دیکھیں۔ دیکھیں میں کتنی مصیبت برداشت کر رہی ہوں! دیکھیں کہ آپ کا بچہ ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے! علی آغا، آپ حق رکھتے ہیں؛ آپ تو وہاں اوپر خوش ہیں، آپ کو ہماری فکر کیوں ہونے لگی!‘‘

میں اپنے آنسوؤں کو مشکل سے روک پا رہی تھی۔ اسی حالت میں علی کے لباس کو بدلا اور جیسے ہی کمرے سے باہر آئی  زارو قطار رونے لگی۔نرس جو خوبصورت تن و توش اور مہربان چہرے کی حامل تھی، میرے پاس آ گئی۔ یوں لگتا تھا کہ اس کا دل میرے لیے پریشان ہوگیا تھا۔ کہنے لگی: ’’محترمہ چیت سازیان، اتنی پریشان مت ہوں۔ زیادہ مسئلہ نہیں ہے۔ انشاء اللہ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

اس کی آواز کافی نرم و ملائم اور مہربانی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ میں گئی اور بابا کے پاس بیٹھ گئی۔ ماں نے فون کیا: ’’فرشتہ، ہم دعائے جوشن کبیر پڑھ رہے ہیں، تم بھی پڑھو۔‘‘

اس طرف عورتوں کے اکٹھے دعا پڑھنے کی آواز آ رہی تھی: ’’اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِاسْمِكَ يَا حَافِظُ يَا بَارِئُ يَا ذَارِئُ يَا بَاذِخُ يَا فَارِجُ يَا فَاتِحُ‏ يَا كَاشِفُ يَا ضَامِنُ يَا آمِرُ يَا نَاهِي. سُبْحَانَكَ يَا لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْغَوْثَ الْغَوْثَ.([1])‘‘

میں رونے لگی۔ میرا دل تنگ ہو رہا تھا۔ میری کتنی خواہش تھی کہ اس وقت میں علی آغا کے پاس ہوتی۔  ان کے کندھے میرے کندھوں سے زیادہ مضبوط تھے۔ ان کا دل مجھ سے بڑا اور حالت مجھ سے زیادہ اچھی تھی۔  ان کا قلب پر سکون اور ان کا توکل مجھ سے کہیں بڑھ کر تھا۔ ان کا ہونا کتنا اچھا تھا اور ان کا نہ ہونا۔۔۔ ان کا نہ ہونا۔۔۔ میں زیر لب بین کر رہی تھی: ’’علی، آپ ہمیں کتنا جلدی تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔ اگر آپ ہوتے تو میں اس وقت یقیناً پُر سکون ہوتی۔ آپ مجھے سکھاتے کہ کس طرح توکل کرتے ہیں۔ آپ اب بھی موجود ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ موجود ہیں۔ اگر ہیں تو اپنا وجود مجھے دکھائیں۔ کہیں کہ آپ ہیں، کہیں کہ آپ کا دھیان میری طرف ہے، جیسا پہلے ہوتا تھا۔ کہہ دیں کہ میں ابھی بیوہ نہیں ہوئی ہوں۔ مجھ سے کہہ دیں کہ آپ کا سایہ ابھی بھی میرے سر پر ہے۔ مجھے یقین ہے کہ شہداء زندہ  ہیں اور خدا کے ہاں ان کی عزت و آبرو ہوتی ہے۔ آپ کہہ دیں تا کہ میرے یقین میں اضافہ ہو جائے۔ کہیں کہ آپ ہمیشہ ہیں اور کسی لمحے بھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ بولیں کہ  دوسرے تمام باپوں کی طرح آپ بھی اپنے بچے کی خاطر پریشان ہیں۔ کہیں کہ آپ اپنے بچے سے پیار کرتے ہیں۔ کہیں کہ آپ ہم سے محبت کرتے ہیں۔ علی، آپ کو خدا کا واسطہ۔ مجھے بتائیں، میں کیا کروں؟ علی جان، میرے سامنے آئیں!۔۔۔‘‘

اس مہربان لہجے والی نرس نے اینڈو سکوپی والے کمرے کا دروازہ کھولا اور مسکرا کہ اشارہ کیا کہ ہم اندر جائیں۔

میرا بیٹا ایک تختے پر سویا ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاف ستھرے اور استری کپڑے پہنے میز کے پیچھے بیٹھا تھا۔ اس نے احترام سے ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اس کے بعد سنجیدہ اور انتہائی مطمئن لہجے میں کہنے لگا: ’’محترمہ چیت سازیان، آپ کے بیٹے کو کوئی بڑا مرض نہیں ہے، صرف آنت پر ہلکی سی سوزش ہے جو انشاء اللہ غذائی پرہیز سے دور ہو جائے گی۔ میں آپ کے لیے لکھ دیتا ہوں۔ فقط چند ماہ تک کچے پھل نہ کھائیں۔ فی الحال ان کے لیے دالیں، شوربے والی غذائیں، آش، آبگوشت([2])، سبزی، مسالے، مرچ اور ٹھنڈے مشروبات منع ہیں۔‘‘

ڈاکٹر مجھے بتا رہا تھا اور لکھتا جا رہا تھاجبکہ میں بےیقینی سے اس کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔

’’کچھ دوائیں بھی ہیں۔ دو ماہ تک کھانا ہوں گی۔‘‘

میں نے کہا: ’’ڈاکٹر صاحب، معاف کیجیے گا، ہمدان میں جو اینڈو سکوپی کروائی گئی تھی اسے کچھ اور ڈاکٹروں نے بھی دیکھا ہے۔ سب نے یہی کہا تھا کہ معدے کا السر ہے، جس کا آپریشن کروانا پڑے گا۔‘‘

ڈاکٹر نے ہمدان کی بھاری بھرکم میڈیکل فائل کو احترام کے ساتھ میز سے اٹھایا اور میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا: ’’محترمہ چیت سازیان، صحیح ہے، یہ رپورٹس معدے کا السر ہی بتا رہی ہیں، لیکن میرا اعتماد تو اپنی اینڈوسکوپی پر ہے۔ اب آپ فرمائیں کہ میں اپنی آنکھوں پر یقین کروں یا اس فائل پر؟!‘‘

بابا نے شک و تردید بھرے لہجے میں آہستہ سے کہا: ’’ڈاکٹر صاحب، یعنی آپ کہتے ہیں کہ ہمدان کے ڈاکٹروں نے غلط بتایا ہےیا یہ رپورٹس تبدیل ہو گئی ہیں؟!‘‘

ڈاکٹر نے سر ہلایا اور اطمینان سے کہا: ’’نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ لیکن ہم اپنے کام پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ اینڈو سکوپی جو ہم نے لی ہے وہ ایک ماہ پہلے لی گئی اینڈوسکوپی اور دوسرے ٹیسٹز کی تائید نہیں کرتی۔‘‘

کہنے کو کچھ رہا نہیں تھا۔ میرا دل بھی نہیں چاہتا تھا کہ کہنے کے لیے کچھ رہ جائے۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ دل و جان سے ڈاکٹر ملک زادہ کی باتوں کو تسلیم کر لوں۔ خوشی نے اچانک میرے سارے وجود کا احاطہ کر لیا تھا۔میں اٹھی اور تختے پر لیٹے ہوئے اپنے بیٹے کو آغوش میں لیااور بوسہ دیا۔ ہمدان کی اینڈوسکوپی کا نتیجہ میرے لیے اہمیت نہ رکھتا تھا۔ میرے لیے وہ بات زیادہ اہم تھی جو ڈاکٹر ملک زادہ کہہ رہا تھا: ’’آپ کے بیٹے کو کوئی بڑا مرض نہیں ہے۔‘‘

اہم یہ تھا کہ میرا بیٹا ٹھیک ہو چکا تھا۔

اہم یہ تھا کہ علی آغا نے میری بات سن لی تھی۔

اہم یہ تھا کہ علی آغا ہماری دیکھ بھال کر رہے تھے۔

اہم یہ تھا کہ علی آغا ایک پہاڑ کی طرح ہمارے پاس کھڑے تھے۔

اہم یہ تھا کہ میں بیوہ نہیں تھی اور علی آغا ابھی تک میرے شوہر تھے اور رہیں گے۔

اہم یہ تھا کہ  میرے بیٹے کے پاس ایک مہربان باپ تھا جو ہمیشہ اس کی حفاظت کرتا تھا۔

اہم یہ تھا کہ علی جان یتیم نہیں تھا۔

اہم یہ تھا کہ علی آغا کا ہونا اور نہ ہونا دونوں ہی ہمارے لیے نعمت و برکت کا باعث تھے۔

مجھے ایک عجیب طرح کی بہشتی خوشی محسوس ہو رہی تھی۔ علی آغا نے میری بات کا جواب دے دیا تھا۔ میری ذمہ داری مجھے معلوم ہو چکی تھی۔ میں نے خوشی سے علی جان کو چوما۔ اس سے علی آغا کی خوشبو آ رہی تھی۔ میں نے اپنا سر اس کے سینے پر رکھا اور اسے سونگھنے لگی۔ مجھے شادی کی انگوٹھی یاد آ گئی جو ابھی تک میری انگلی میں موجود تھی۔ اسے میں نے اپنے ہونٹوں پر رکھا، آنکھیں بند کی اور ایک گہرا بوسہ لیا۔ عطر کی بھینی بھینی خوشبو میرے مشام میں بھر گئی تھی۔

تَمَّتْ بِالْخَیْرِ


([1]) دعائے جوشن کبیر۔

([2]) آش اور آبگوشت ایرانی غذاؤں کے نام ہیں۔