ابن تیمیہ کی حقیقت

تحریر: سید غیور الحسنین

         

وہابیت وہ مذہب ہے جو اپنے علاوہ تمام مذاہب اسلامیہ کو رد کرتا ہے او ر ان کے ماننے والوں کو کافر اور مشرک سمجھتے ہوئے ان کے قتل کو جائز قرار دیتا ہے۔ مذہبِ وہابیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے موسس کو پہچانا جائے کہ وہ کون ہے؟ اور کن افکار کا مالک ہے؟ اور اس کے مبانی کیا ہیں؟ ان مطالب کو آپ کی خدمت میں عرض کرنے کے لیے یہ مقالہ پیش کیا جارہا ہے۔

          وہابیت کا موسس ابن تیمیہ ہے جس کا اصل نام ابو العباس احمد بن عبد الحلیم ہے۔ وہ ۶۶۱ ہجری میں شام کے ایک شہر حران میں پیدا ہوا اور تاتاریوں کے حملے کے خوف سے ہجرت کر کے وہاں سے دمشق چلا گیا۔ وہاں پر احمد بن حنبل کی آراء وافکار جیسے تشبیہ وتجسیم اور مشہور فقہاء کی مخالفت پر مشتمل فتاوی کی ترویج کرنا شروع کی۔[1]   اس کے علاوہ اس کے لہجے میں تندی اور سختی باعث بنی کہ علماء اسلام نےاسے اپنی کتب اور فتاوی میں رد ّ کیا۔ جیسا کہ تاج الدین نے اپنی کتاب [التحفۃ المختارۃ فی الردّ ءعلی منکر الزیارۃ] تقی الدین سبکی نے اپنی دو کتابوں [شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام] اور [الدرّۃ المضیئۃ فی الردّ علی ابن تیمیہ] میں اس کے باطل افکار کو ردکیا ۔

          بعض علماء نے ابن تیمیہ کو کافر قرار  دیا اور بعض نے کہا کہ وہ فاسق ہے اور کچھ نے اسے پاگل قرار دیا۔

          اگر ابن تیمیہ کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ اس کی کسی بھی کتاب کا کوئی صفحہ بدعت، شرک اور کفر کے الفاظ سے خالی نہیں۔ اس نے ان مسائل اور عقائد کو جو مسلمانوں کے درمیان متفق تھے داغدار کرنے کی کوشش کی ہے۔

          ابن تیمیہ کے افکار وعقائد جن مبانی اور بنیادوں پر قائم ہیں وہ یہ ہیں:

  1. فقط ظواہر آیات وروایات کا پابند ہے جس کا لازمہ ظاہر پرستی اور مادہ پرستی ہے۔
  2. عقل کی توہین کرتا ہے اور عدم تاویل کا قائل ہے۔
  3. قرآن اور حدیث سے جو صحابہ اور تابعین نے سمجھا ہے وہی حقیقت ہے۔
  4. وہ عقلی دلائل جو قرآن وحدیث میں ذکر ہوئے ہیں وہی حجت ہیں۔
  5. اگر عقل اور نقل میں تعارض ہوجائے تو نقل کو ہر حالت میں عقل پر مقدم کرتا ہے۔
  6. خبرِ واحد کو بعض حالتوں میں متواتر پر مقدم کرتا ہے۔

          ابن تیمیہ کے مبانی ذکر کرنے کے بعد اس کے افکار کی طرف مختصرا اشارہ کرتے ہیں۔

  1. خدا کے بارے میں ابن تیمیہ کا نظریہ:

ابن تیمیہ خدا کو جسمانی مانتے ہوئے مخلوق کے ساتھ تشبیہ دیتا ہے۔ اس پر دلیل ابن بطوطہ کا وہ قول ہے جو اس نے “تحفۃ النظار فی غرائب الامصار وعجائب الاسفار” میں ذکر کیا ہے کہ روز جمعہ جامع دمشق میں ابن تیمیہ منبر سے خدا کے جسمانی ہونے پر دلائل دے رہا تھا اور کہا کہ قیامت کے دن خدا عرش سے اس طرح اترے گا جس طرح سے میں منبر سے اتر رہا ہوں اور پھر وہ منبر سے نیچے آیا۔[2]

  1. توسل کے بارے میں ابن تیمیہ کا نظریہ:

ابن تیمیہ توسل اور قبور کی زیارت کو حرام قرار دیتا ہےجو اس سے پہلے کس نے نہیں کیا۔ “شفاء السقام” میں سبکی کہتا ہے کہ “توسل کو تمام مسلمان جائز سمجھتے تھے یہاں تک کہ ابن تيميہ كا  زمانہ آیا اور اس نے توسل کو حرام قرار دیا اور صراط مستقیم سے جدا ہوگیا۔”

  1. اہل بیت خصوصا حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کا انکار:

وہ احادیث جو اہل بیت کی شان میں تھیں ان کو جعلی اور موضوع قرار دیتا ہے۔ مثال کے طور پر حدیث رسول ﷺ “میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔” کو ابن تیمیہ نے جعلی اور جھوٹی حدیث کہا ہے جبکہ اس حدیث کو سنن ترمذی نے اپنی صحیح روایات میں ذکر کیا ہے۔ [3]

دوسری مثال: حضرت علی علیہ السلام کی قبر کے بارے میں اس کا نظریہ ہے :

تمام علماء اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی قبر ایک سو سال تک لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رہی اور ان کی قبر نجف میں ہے۔ جبکہ ابن تیمیہ اپنی کتاب “مجموع الفتاوی” میں کہتا ہے کہ “بعض چیزیں مشہور ہوتی ہیں مگر کبھی ان کی سند نہیں ہوتی اور بعض چیزیں نادر ہوتی ہیں مگر ان کی سند صحیح ہوتی ہے۔ جس طرح حضرت علی کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی قبر نجف میں ہے  در حالانکہ ان کی قبر تین سو سال تک لوگوں سے پوشیدہ رہی اور وہ شخص جس کی قبر نجف میں ہے وہ علی نہیں ہے بلکہ مغیرہ بن شعبہ ہے۔ علی کی قبر قصر الامارہ کوفہ میں ہے جس طرح معاویہ بن سفیان کی قبر قصر الامارہ دمشق میں اور عمر وبن عاص کی قبر قصر الامارہ مصر میں ہے۔ اور وہ قبر جو باب الصغیر میں ہے وہ معاویہ بن ابی سفیان کی قبر نہیں بلکہ معاویہ بن یزید بن معاویہ کی قبر ہے۔”[4]

در حالانکہ ان جگہوں پر یعنی قصر الامارہ میں کسی کی قبر کے کوئی نشان موجود نہیں ہیں، حتی کہ کوئی شاذ  روایت بھی اس حوالے سے موجود نہیں ۔

تیسری مثال جس سے واضح طو رپر پتہ چلتا ہے کہ ابن تیمیہ ناصبی تھا۔  ابن تیمیہ کہتا ہے: “علی سے صحیح روایات میں بیان ہواہے کہ انہوں نے کہا: رسول خدا ﷺ نے مجھے اور فاطمہ کو اٹھایا اور فرمایا: کیا تم نماز کے لیے نہیں اٹھو گے؟ میں نے کہا: اے خدا کے رسول ﷺ بے شک ہم خدا کے کنٹرول میں ہیں اگر وہ چاہے کہ ہم اٹھ جائیں تو ہم اٹھ جائیں گے۔۔۔ یہ سن کر رسول خدا ﷺ نے یہ کہتے ہوئے منہ موڑ لیا: اور انسان اکثر چیزوں میں جھگڑا لو ہے۔[5]

          اس تمام بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ابن تیمیہ کوئی شیخ الاسلام نہیں بلکہ ایک ناصبی شخص ہے جس کا دل اہل بیؑت کے بغض سے بھرا ہوا ہے اور اپنی ذاتی آراء کو اسلام کے لبادے میں بیان کیا ہے ، در حالانکہ اس کی آراء کا اسلام سے دور تک کا تعلق بھی نہیں ہے۔


مصادر مراجع:

[1] ۔   البدایہ والنہایہ، ابن کثیر، دار احیاء التراث، بیروت، ج 13، ص 280۔

[2] ۔  رحلۃ ابن بطوطہ، اکادیمیۃ المملکۃ المغربیۃ، ج 4، ص 287۔

[3] ۔  احادیث القصاص، ابن تیمیہ، طبع المکتب الاسلامی، بیروت، ج 1، ص 62

      الفتاوی الکبری، ابن تیمیہ، طبع دار الکتب العلمیۃ، ج 4، ص 429۔

     مجموع الفتاوی، ابن تیمیہ، ج 4، ص 398۔

[4] ۔  اقامۃ الدلیل علی ابطال التحلیل ابن تیمیہ ، ج 2، ص 195۔

    الفتاوی الکبری، ابن تیمیہ، طبع دار عالم الکتب، بیروت لبنان، ج 1، ص 159۔

    راس الحسین، ابن تیمیہ، ج 1، ص 196۔

    مجموع الفتاوی، ابن تیمیہ، ج 4، ص 502۔

[5] ۔  منہاج السنۃ، ابن تیمیہ، ج 3، ص 85۔